skip to Main Content

بارہ مہینے

سکینڈے نیویا کی کہانی

رضوانہ سید علی
۔۔۔۔۔
بہت پرانے زمانوں کا قصہ ہے کہ دور پہاڑوں کے دامن میں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ یہاں ایک عورت اپنی ایک سگی اورا یک سوتیلی بیٹی کے ساتھ رہتی تھی۔ اپنی بیٹی ”ٹینا“پہ تو جان چھڑکتی پر سوتیلی بیٹی ”جینا“ اسے ایک آنکھ نہ بھاتی۔ ٹینا لاڈ پیار کی وجہ سے بہت بگڑ گئی تھی۔ سارادن نرم گرم بستر پہ لیٹی کچھ نہ کچھ کھاتی رہتی۔ خاص طور سے شہد سے بنے کیک تو اسے بہت پسند تھے جو ماں اسکے لئے ڈھیر سارے بنا کر رکھ دیتی تھی۔ جینا سارا دن گھر کے کاموں میں مصروف رہتی، جنگل جا کرلکڑیاں لاتی،کنویں سے پانی بھرتی، ندی پہ جا کر ٹھنڈے برف پانی سے کپڑے دھوتی، پھولوں کی کیاریوں کو پانی دینا بھی اسی کے ذمے تھا۔ وہ تھک کر چور ہو جاتی پر کام ختم نہ ہوتے۔ البتہ گھر سے باہر نکل کر کام کرتے کرتے وہ موسموں کی سختیوں کے ساتھ ساتھ ان کی خوبصورتیوں سے بھی بہت واقف ہوگئی تھی۔ اسے پتا تھا کہ سردی میں جنگل کیسا ہوتا ہے اور گرمی میں دھوپ کیسی زندگی بخش ہوتی ہے۔ اسے بہار کی دلفریب ہوا اور خزاں کی بارشوں کے حسن کے بارے میں خوب معلوم تھا۔ وہ سال کے بارہ مہینوں کی شدتوں سے نمٹنا خوب جانتی تھی۔ ایک مرتبہ جب سردی کا موسم پورے عروج پہ تھا۔ پہاڑ برف سے ڈھکے ہوئے تھے،راستے بند تھے۔ ہواجنگلوں میں سیٹیاں بجاتی پھر رہی تھی۔ سب لوگ گھروں میں آتش دانوں کے سامنے بیٹھے تھے۔ ایسے میں جینا کی ظالم ماں نے کھڑ کی کا تھوڑاسا پردہ ہٹا کر باہر جھانکا۔ شام کے سائے گہرے ہور ہے تھے۔ اچانک وہ جینا کی طرف مڑی اور کہنے لگی۔
”ذراٹو کری لے کر جنگل میں جاؤ اور تھوڑے سے سنوڈ راپ تو چن لاؤ۔“
یہ ایک پھول کا نام ہے جو بر فانی علاقوں میں صرف موسم بہار ہی میں کھلتا ہے اور گہرے سبز پتوں میں اپنے سفید رنگ کی وجہ سے برف کے منجمد قطرے کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ ظالم عورت سردی کی ٹھٹھرتی ہوئی شام میں اس سے ایک ایسی فرمائش کر رہی تھی۔ جس کا پورا ہونا ناممکن تھا۔ جینا کو حیران پریشان دیکھ کر بولی۔
”آج کل ویسے بھی تمہیں کام ہی کیا ہوتا ہے؟ نہ کپڑے دھونا، نہ باغ کو پانی دینا، نہ لکڑی چننے کو جانا۔“ یہ سب کہتے ہوئے وہ ان سب کاموں کو بھول گئی جو گھر کے اندر جینا کو کرنے پڑتے تھے۔”جاؤ اور پھول لے کر آؤ۔ کل تمہاری بہن کی سالگرہ ہے۔“ ماں نے پھر حکم چلایا تو جیناٹو کری لے کرگھر سے نکل آئی۔
اس قیامت کی سردی میں بھلا سنوڈراپ کہاں سے ملیں گے؟ میں نے تو آج تک مارچ سے پہلے ان پھولوں کا نام ونشان نہیں دیکھا۔ پتا نہیں اس ٹھنڈ اور تاریکی میں مجھے باہر بھیجنے کا کیا مقصد ہے؟ اتنے میں ٹینا نے کھڑکی کا پردہ ذراسا سر کا کر باہر جھانکا۔ ”ارے ابھی تک یہیں کھڑی ہو؟ جاؤ اور جب تک ٹوکری سنووائٹ سے بھر نہ جائے،واپس نہ لوٹنا۔ ویسے اگر نہ بھی لوٹو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔“
جینا اس سے زیادہ سننے کا حوصلہ نہ رکھتی تھی۔ وہ آ نسوآنکھوں میں چھپاتی چل پڑی۔ برف تیزی سے گر رہی تھی۔ اسکی آنکھوں کے گرم گرم اشک اسکے رخساروں پر سرد ہونے لگے۔ برف اسکے پرانے سوتی کوٹ پہ پھیل رہی تھی۔ پاؤں دھنس رہے تھے۔ جنگل تک پہنچتے پہنچتے تاریکی ہر طرف پھیل چکی تھی۔ وہ چلتی رہی۔ نجانے کہاں تک۔ ویسے اس کا اپنا اندازہ تھا کہ وہ جنگل کے درمیان میں ہے۔ اچانک دور کہیں ایک جھما کا سا ہوا۔یوں لگا جیسے فلک سے کوئی تارہ ٹوٹ کر درختوں کے بیچ کہیں ٹمٹمار ہا ہے۔ پہلے وہ سمجھی کہ اسکی نظر کا دھوکہ ہے پر پھر مدھم سی روشنی پھیل گئی تو گرتی پڑتی اس طرف چل پڑی۔ روشنی واضح ہوتی جارہی تھی۔ کوئی تارہ نہیں ٹوٹا تھا۔ بلکہ اب تو ہلکی ہلکی حرارت اور دھواں سا بھی محسوس ہور ہا تھا۔ بلاشبہ یہ لکڑیوں کی آگ تھی۔ ایک درخت کی اوٹ سے اس نے جھانکا تو ایک قدرے کھلی جگہ پر کچھ لوگ آگ کا بڑاسا الا ؤ جلا کر بیٹھے ہوئے تھے اور آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے۔ ان کے لباس نہ شکاریوں جیسے تھے نہ لکڑ ہاروں جیسے۔ کچھ لوگوں نے سنہری لباس پہنے ہوئے تھے کچھ نے روپہلی، کچھ سبنر اور کچھ بسنتی کپڑوں میں ملبوس تھے۔ لیکن تھے سب قیمتی لباسوں میں۔ غالباً مخمل کے گاؤن پہن رکھے تھے انہوں نے۔ پھر یہ کہ سب تین تین کی ٹولیوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک ٹولی کے آدمی خاصے بوڑھے تھے۔ دوسری کے درمیانی عمر کے تھے پھر تین جوان اور تین نو عمر لڑ کے تھے۔ دراصل یہ بارہ لوگ بارہ مہینے تھے۔ اچانک ایک بوڑھے آدمی کی نظر اس پہ پڑی۔ وہ غور سے اسے دیکھنے لگا۔ جینا نے ڈر کر بھاگنا چاہامگرا سکے قدم من من بھر کے ہو گئے۔ بوڑھے نے اپنی بھاری گونجیلی آواز میں پوچھا۔
”لڑ کی!تو کون ہے اور کیا لائی ہے؟“
”کچھ بھی نہیں۔“ جینانے کا نپتی ہوئی آواز میں کہا۔ پھر اپنی خالی ٹوکری دکھاتے ہوئے بولی۔ ”میں جیناہوں اور اپنی ٹوکری سنوڈراپ سے بھر نے آئی ہوں۔“
بوڑھے نے قہقہہ لگایا جس سے پورا جنگل گونج اٹھا۔”سنوڈراپس؟ وہ بھی جنوری میں؟؟ لڑ کی! کیاخواب دیکھ رہی ہے؟؟؟“
”نہیں! یہ میری سوتیلی ماں کا حکم ہے کہ میں یہ پھول لئے بغیر گھر واپس نہ آؤں۔“
ٍ بارہ مہینے حیرت سے جینا کو دیکھنے اور چپکے چپکے اپنی زبان میں بات کرنے لگے جو جینا نہیں سمجھ سکتی تھی۔پھر بوڑھا دوبارہ جینا سے مخاطب ہوا۔ ”اگر سنوڈ راپ نہ مل سکے تو تم کیا کرو گی؟“
”میں جنگل میں بیٹھ کر مارچ کا انتظار کروں گی۔ میرے پاس اسکے سوا اور کوئی راستہ نہیں کہ یا میں پھول لے کر جاؤں یا یہیں جم کر رہ جاؤں۔“
اسکی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوگر نے لگے۔ ان بارہ میں سے سبز لباس والا ایک خوبصورت نو جوان آگے بڑھا اور بوڑھے سے کہنے لگا۔ ”بھائی جنوری! مجھے صرف ایک گھنٹہ دے دو تا کہ میں اس لڑکی کی مدد کر سکوں۔“
”ہوں!“ بوڑھے نے سر ہلایا۔ ”مگر فروری سے پہلے مارچ کیسے آسکتا ہے؟“
ایک کھچڑی بالوں والا شخص آگے بڑھا۔ ”اچھا!میں تھوڑی دیر کے لئے آتا ہوں تا کہ مارچ ایک گھنٹے کے لئے آسکے۔“
سب مہینے جینا کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ وہ ان کے لئے اجنبی نہ تھی۔ وہ ہر موسم میں اسے کام کرتا دیکھتے تھے۔ سردی ہو یا گرمی خزاں ہو یا بہاروہ اسے صحن میں ججمی برف سے لے کر مکان کی چمنی تک صاف کرتے ہوئے دیکھتے تھے۔ وہ جنگل سے لکڑیاں چنتی،ندی سے کپڑے دھوتی اور پھولوں کو پانی دیتی نظر آتی رہتی تھی۔ سب کو اچھی لگتی تھی اور سب اسکی مددکرناچاہتے تھے۔
جنوری نے منہ ہی منہ میں کچھ کہا اور پھونک ماری۔ برف باری رک گئی۔ چاند نکل آیا۔ برف ترخنے لگی اور درختوں کی شاخیں نظر آنے لگیں۔
”لوفروری!اب تمہاری باری ہے۔“ جنوری پیچھے ہٹتا ہوا بولا۔
فروری آگے بڑھ کر زمین سے برف ہٹانے لگا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ حکم دے رہا تھا۔”بر فانی ہوا ؤ!تھم جاؤ۔سوئے ہوئے غنچو! جاگو!!“ برفانی تو دوں کو ہاتھ سے سمیٹتے ہوئے وہ پیچھے ہٹنے لگا۔”آ ؤمارچ بھائی!آ گے آ ؤ!“
ہنستا مسکرا تا مارچ آ گے آیا۔ اس نے دونوں بازو پھیلائے اور رقص کرنے لگا۔ ”اے بہار کی نرم ہوا اٹھو! اے پرندو! گیت گاؤ۔ اے سوئے ہوئے پھولو! آنکھیں کھولو۔۔“
خود جینا کی آنکھیں بھی جیسے کھلی رہ گئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے برف غائب ہوگئی۔ نرم نرم مٹی نمودار ہوگئی۔ سبزے کا غالیچہ بچھنے لگا۔ شاخیں سرسرانے لگیں اور ننھے ننھے سنوڈ راپس سراٹھا کر مسکرانے لگے۔ گچھوں کے گچھے سنوڈ راپس۔
”جلدی کرو! ہمارے پاس وقت کم ہے۔“ جنوری چلایا۔ جینا بھاگ بھاگ کر سنو ڈراپس کے گچھے تو ڑتو ڑکرٹوکری میں ڈالنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسکی ٹوکری پھولوں سے بھر گئی۔ پھر وہ خوشی خوشی واپس مڑی تا کہ اپنے مہر بانوں کا شکر یہ ادا کر سکے۔مگروہاں کوئی نہ تھا۔ وہ گھر کی طرف بھاگ کھڑی ہوئی۔ چاند دو بارہ گہرے بادلوں میں جا چھپا اور طوفانی جھکڑ چلنے لگے۔ اسے دیکھتے ہی ماں چلائی۔”ہیں تم آ گئیں؟ پھول کہاں ہیں؟“ جینا نے چپ چاپ ٹوکری میز پر رکھ دی۔ دونوں ماں بیٹیاں پھول دیکھ کر ہکابکارہ گئیں۔
”تمہیں کہاں سے ملے؟“ جینا نے ساری بات بتادی۔ ماں نے آنکھیں مل کر دوبارہ پھولوں کی طرف دیکھا۔ پھول بالکل تازہ تھے اور ان کی خوشبو سے پورا گھر مہک اٹھا تھا۔”اور انہوں نے تمہیں کیا دیا؟“ ماں نے پوچھا۔
”اور تو کچھ نہیں۔ میں نے پھول مانگے تھے وہی دے دیئے انہوں نے۔“
”بیوقوف احمق!!“ٹینا بولی۔
ماں جھنجلا اٹھی۔ ”بھلا کبھی کسی کو بارہ مہینے اکٹھے ملے ہیں؟ اور یہ پاگل ان سے کیا مانگ رہی ہے۔ سنوڈ راپس! میں تمہاری جگہ ہوتی تو ان سے ہر موسم کا پھل اور میو ہ طلب کرتی۔“
”ماں! اگر تم کہوتو میں جا کر یہ سب کچھ ان سے طلب کروں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ابھی و ہیں کہیں ہوں گے۔“ ٹینا نے کہا۔
”اوہ میری عقلمند بیٹی! خوب اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر جاؤ۔ مجھے بھی یقین ہے کہ وہ ابھی وہیں ہوں گے اور تمہیں صرف پھولوں کی ٹوکری پہ نہ ٹرخاسکیں گے۔“
ٹینا نے اپنافر کا کوٹ پہنا۔ گرم سکارف سے کان لپیٹے اور ایک بڑی ٹوکری لے کر گھر سے نکل گئی۔ جنگل میں گھومتے گھامتے اسے بھی بارہ مہینے مل ہی گئے۔ ٹیناڈری نہ جھجکی اور نہ ہی اس نے ان سے اجازت لینے کی ضرورت محسوس کی۔ وہ الا ؤ کے پاس جا کر ہاتھ پاؤں سینکنے لگی۔ بارہ مہینے حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔ جنوری نے اپنی چھڑی زور سے زمین پہ مار کر پوچھا۔ ”لڑ کی تو یہاں کیوں آئی ہے؟“
ٹینا نے بے نیازی سے جواب دیا۔ ”ابھی کچھ دیر پہلے میری بہن بھی آئی تھی نا؟ تم لوگوں نے اسکی ٹوکری سنوڈراپس سے بھر دی تھی۔“
”ہاں ہاں ہم اس سے واقف ہیں مگر تجھے تو ہم نے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ تجھے ہم سے اور ہمیں تجھ سے بھلا کیا واسطہ؟“
”میں تم لوگوں سے اپنا حصہ وصول کرنے آئی ہوں۔“ٹینا ان کی باتوں کو نظر انداز کر کے بولی۔”مجھے جولائی سے اسٹر بیری چاہیے، اگست سے اخروٹ، بادام۔ مارچ سے سیب آڑوخو با نیاں اور…… اور ستمبر سے……“
جنوری کو ہنسی آ گئی۔”تمہیں موسموں کا کچھ پتہ ہے نہ مہینوں کا اور تیزی تم کچھ زیادہ ہی دکھارہی ہو۔ گرمی بہار سے پہلے نہیں آتی ن نہ سر دی بہار کے بعد آتی ہے۔ تم نے سب مہینوں کوالٹ پلٹ کر دیا ہے۔ میں جنوری ہوں اور تمام مہینوں پر حکومت کرتا ہوں۔ میں ابھی پورے اکتیس دن چھایا رہوں گا۔“
”کیا جھکی بوڑھا ہے۔“ ٹینا بڑ بڑائی۔ ”سنوا مجھے تم سے کوئی واسطہ نہیں۔ نہ میں تمہارے لئے یہاں آئی ہوں۔ جنوری میں ٹھنڈ، کہرے اور برف کے سوار کھا ہی کیا ہے؟ مجھے تو گرم مہینوں سے بات کرنی ہے۔“
”سردیوں میں گرمیوں کی بات کرتی ہے؟“ بوڑھاغرایا۔ اس نے اپنی ایک آستین اٹھائی۔ برف کا طوفان امڈ آیا۔ ہوائیں چیخنے لگیں اور کہرااڑ نے لگا۔ ٹینا چیختی چلاتی اپنے گھر کو بھا گی مگر طوفان کے تھپیڑوں میں گم ہوگئی۔ ماں دروازے پہ کھڑی بیٹی کی راہ دیکھ رہی تھی۔ شدید برفانی طوفان دیکھ کر گھبرا گئی اور بیٹی کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ جلد ہی اسے بھی طوفان نے نگل لیا۔ جینامدتوں زندہ رہی۔ اسکے گھر کے باہر والے باغ میں ہمیشہ ایک ہی موسم رہتا تھا۔ بہار کا موسم۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top