skip to Main Content

قسمت کا دھنی

طالب ہاشمی

۔۔۔۔۔

پاکستان کے قیام سے پہلے کے ملک ہندوستان کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ چودھویں اور پندرھویں صدی عیسوی میں ہندوستان کے ایک بہت بڑے علاقے پر بہمن خاندان کے مسلمان بادشاہوں کی حکومت تھی۔ یہ بادشاہ دلی کے تغلق، سید اور لودھی خاندانوں کے بادشاہوں کے ماتحت نہیں تھے بلکہ بالکل آزاد اور خودمختار تھے۔ بہمنی خاندان کے بادشاہوں کی حکومت دکن میں شمال کی طرف برار تک، مشرق میں تلنگانہ تک اور جنوب مغرب میں دریائے کرشنا اور سمندر تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس میں گلبرگہ، ورنگل، بیدر، احمد نگر، بیجاپور، گولکنڈہ اور کئی دوسرے شہر اور علاقے شامل تھے۔ بہمنی خاندان اور سلطنت کا بانی حسن نامی ایک غریب شخص تھا۔ وہ قسمت کا ایسا دھنی تھا کہ ایک دن ایک بڑے ملک کا بادشاہ بن گیا اور تاریخ میں سلطان علاؤ الدین حسن گانگوبہمنی کے نام سے مشہور ہوا۔ پھر یہ بادشاہت اس کی اولاد میں تقر یباً دوسوسال تک قائم رہی۔
حسن کون تھا اور کہاں سے آیا تھا، اس کے بارے میں بہت سے مورخین نے طرح طرح کے دنیائی گھوڑے دوڑ ائے ہیں لیکن سولہو یں صدی عیسوی کا مشہور مورخ محمد قاسم فرشتہ اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ حسن نامی ایک شخص سلطان غیاث الدین تغلق کے زمانہ حکومت (1360 تا 1364) کے دوران میں یا اس سے کچھ پہلے دلی آیا۔ غریبی اور تنگ دستی نے اس کو سخت پریشان کر رکھا تھا۔اس لیے اس نے اپنا پیٹ پالنے کی خاطر گنگو نامی ایک امیر برہمن کی ملازمت اختیار کر لی۔ یہ برہمن ستاروں کا علم جانتا تھا اور سلطان غیاث الدین کا بیٹاشہزادہ محمد تغلق اس کو بہت مانتا تھا۔ گنگو برہمن لو گوں میں گنگو بہن نجومی کے نام سے مشہور تھا۔ حسن بر اصحت مند اور کڑ یل جوان تھا۔ گنگو بہمن نے حسن کو دلی کے قریب اپنی ایک بنجر زمین کو آباد کرنے کے کام پر لگا دیا اور اس مقصد کے لیے اس کو بیلوں کی ایک جوڑی اور دومز دور دیے اور اس سے کہا کہ اس زمین میں ہل چلا کر اس کو کھیتی باڑی کے قابل بناؤ اور اپنا پیٹ پالو۔ حسن بیل ہل اور مزدور ساتھ لے کر بنجر زمین پر پہنچ گیا اور مزدوروں کوز مین کھود کر اسے ہموار کر نے پر لگا دیا۔ جب یہ ہموار ہوگئی تو اس میں ہل چلانا شروع کر دیا۔ وہ ہر روز صبح سویرے مزدوروں اور بیلوں کو ساتھ لے کر زمین پر پہنچ جاتا اور پھر سب باری باری اس میں ہل چلانے لگتے۔ ایک دن حسن (یا ایک مزدور) ہل چلا رہا تھا کہ ہل کی نوک زمین کے اندر پھنس گئی۔ اس نے بڑا زور لگایا لیکن ہل آ گے چلنے کا نام نہ لیتا تھا۔ اس نے غور سے دیکھا تو ہل کی نوک کو ایک زنجیر میں پھنسا ہوا پایا۔ یہ زنجیر ایک بڑے برتن کے منہ سے بندھی ہوئی تھی۔ اس نے زمین کھود کر برتن کو باہر نکالا اور اس کا ڈھکنا اٹھایا تو اس کو سلطان علاؤالدین خلجی کے زمانے (1295 عیسوی سے1315 عیسوی تک) کے سونے کے سکوں اور اشرفیوں سے لبالب بھرا پایا۔ وہ چاہتا تو یہ ساری دولت (یا اس کا کچھ حصہ) اپنے پاس رکھ سکتا تھا لیکن اس کی ایمانداری نے یہ بات پسند نہ کی کہ اپنے آقا کی دی ہوئی زمین میں سے نکلے ہوئے مال میں خیانت کرے۔اس نے یہ ساری دولت ایک چادر میں باندھی اور سیدھا گانگو بہمن کے مکان پر پہنچا۔ جب یہ مال اس نے گانگو کے سامنے رکھا اور اس کو بتایا کہ یہ اس کی زمین سے نکلا ہے تو وہ حسن کی ایمانداری دیکھ کر حیران رہ گیا اور دوسرے دن صبح ہوتے ہی اس نے یہ سارا واقعہ اپنے دوست شہزادہ محمد تغلق کو بتایا۔ شہزادے کو یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ ایک معمولی غریب آدمی بھی ایسا ایماندار اور سچا ہو سکتا ہے۔ شہزادے نے اسے بلا بھیجا۔ حسن شہزادے کی خدمت میں حاضر ہوا تو شہزادے کو اس کا حلیہ، صاف ستھرا سادہ لباس اور گفتگو سب چیزیں بہت پسند آئیں اور اس نے اپنے والد سلطان غیاث الدین تغلق کو اس کی ایمانداری کا سارا قصہ سنایا۔
باد شاہ پر اس کا بہت اثر ہوا اور اس نے حسن کو ڈھیر سارا اانعام دے کر اپنے در باری امیروں میں شامل کر لیا۔
اس سے پہلے ایک اور واقعہ بھی حسن کو پیش آیا تھا۔ جس کا ذکر محمد قاسم فرشتہ اور بعض دوسرے مؤرخوں نے خاص طور پر کیا ہے۔
واقعہ یہ تھا کہ دلی میں محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ء رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے ولی گزرے ہیں۔ (ولی اس نیک انسان کو کہتے ہیں جو بڑا پر ہیز گار، اللہ کی عبادت کرنے والا، مخلوق خدا کی خدمت کر نے والا اور اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہو) جس زمانے میں حسن دلی آیا، سارے ملک میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ء رحمۃ اللہ علیہ کی پر ہیز گاری اور کرامتوں کی شہرت پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ دور دور سے برکت اور دعا کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ ان کا درواز ہ غر یب امیر سب کے لیے کھلا رہتا تھا۔ ایک دن خواجہ صاحب کی دعوت پر شہزادہ محمد تعلق اور بہت سے دوسرے مہمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے ان کی بہت خاطر مدارات کی اور سب کو طرح طرح کے کھانے کھلا کر رخصت کیا۔ اتفاق سے جس وقت شہزادہ محمد تغلق خواجہ صاحب کی خانقاہ کے دروازے سے نکل رہا تھا، اسی دروازے سے حسن خانقاہ کے اندر داخل ہو رہا تھا۔ وہ دعا کی غرض سے خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو خواجہ صاحب نے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور فرمایا:”ایک بادشاہ گیا اور دوسرا بادشاہ آیا۔“
ایک بادشاہ گیا سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ شہزاد ہ محمد تغلق جو ابھی ان کے پاس سے گیا ہے، ایک دن بادشاہ بنے گا اور دوسرا بادشاہ آیاسے آپ کی مراد تھی کہ ایک دن حسن بھی بادشاہ بنے گا۔شہزادہ محمد تغلق کا بادشاہ بننا تو یقینی تھا کیونکہ اپنے والد سلطان غیاث الدین تغلق کے تخت اور تاج کا وہی وارث تھا۔ حیران کرنے والی بات تو یہ تھی کہ خواجہ صاحب نے ایک غریب پر دیسی کو بادشاہ بننے کی خوشخبری کیسے دے دی جب کہ غیب کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات اپنے خاص بندوں کو غیب کی یا آئندہ پیش آنے والی باتیں بتا دیتا ہے یا ان کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو قیافہ شناسی کا علم بھی عطا کرتا ہے یعنی وہ دوسرے انسان کے چہرے مہرے یا خد و خال کو دیکھ کر اس کا برا بھلا پہچان جاتے ہیں۔ واقعہ کی صورت کچھ بھی ہو، یہ روایت بہت مشہور ہے کہ حضرت خواجہ صاحب نے حسن کو (بہت عرصہ بعد) بادشاہ بننے کی خوشخبری دی اور اس کے حق میں دعا کی۔
حسن نے خواجہ صاحب سے اپنے بارے میں ”بادشاہ“ کا لفظ سنا تو وہ بہت حیران ہوا اور خواجہ صاحب کے قدموں پر گر کر کہنے لگا:
”حضور! میں تو ایک غریب پردیسی ہوں دین دنیا کے بادشاہ تو آپ ہیں، میں تو آپ کی دعا کا محتاج ہوں اوراس لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔“
خواجہ صاحب نے حسن کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور ایک خادم سے کہا:”اس نوجوان کے لیے کھا نالاؤ۔“
خادم نے آہستہ سے عرض کیا:”حضور! مہمانوں کے لیے جو کھانا تیار کیا گیا تھا،وہ توختم ہو چکا ہے۔“
خواجہ صاحب! اس دن روزے سے تھے،آپ نے فرمایا:
”میرے افطار کے لیے جو کھانا رکھا ہے وہی لے آؤ۔“
خادم وہ کھانا لے کر حاضر ہوا تو آپ نے اس میں روٹی کا ایک چھوٹا ساٹکڑا انگلی کے سرے پر رکھ کر حسن کو دیا اورفرمایا یہ دکن کی بادشاہت کا تاج ہے جو بڑی محنت اور بڑے عرصہ کے بعد تیرے سر پر رکھا جائے گا۔ پھر باقی کھانا بھی آپ نے حسن کو عطا فرمایا اور اس کے لیے خیر کی دعا کی۔
اب گانگو بہمن کی سنیے کہ جب حسن شاہی دربار کا امیر بن گیا تو ایک دن اس نے حسن کی قسمت کا زائچہ بنایا۔ زائچہ جنم پتری یا کنڈلی کو کہتے ہیں۔ یہ ایک کاغذ ہوتا ہے جس پر ستاروں کا علم جاننے والے لکیر یں وغیرہ کھینچ کر پیدا ہونے والے بچے کے مستقبل یاکسی شخص کی قسمت کا حال بتاتے ہیں۔ پھر گانگو نے حسن سے کہا:
”حسن تمہاری قسمت کا زائچہ بتا تا ہے کہ تم قسمت کے دھنی ہو،کسی دن بہت بڑے آدمی بنوگے۔ جب تمہیں یہ رتبہ مل جائے گا تو کیا تم میرا کوئی کام کروگے؟“
حسن، گانگو بہمن کو اپنامحسن سمجھتا تھا، اس نے فوراً کہا:
”اگر اللہ نے مجھے کوئی ایسا رتبہ دیا تو جو جائز کام آپ کہیں گے میں ضرورکروں گا۔“
کانگو نے کہا:
”جب خدا تجھے دنیا میں کوئی بڑا رتبہ دے تو اپنے نام کے ساتھ میرا نام بھی اپنے نام کا حصہ بنا کر لکھنا تا کہ تمہاری وجہ سے میرا نام بھی ہمیشہ زندہ ر ہے اور جب خدا تمہیں اختیار دے تو خزانچی کے عہدے پر مجھے اور میرے بعد میری اولاد کے سوا اور کسی کو نہ رکھنا۔ میرے ساتھ وعد ہ کرو کہ میری یہ دو باتیں پوری کرو گے۔“
حسن نے وعدہ کیا کہ جب بھی مجھے اختیار والا بلند رتبہ ملا میں یہ باتیں ضرور پوری کروں گا۔ چنانچہ وہ امیری کے عہدے سے بادشاہ بننے تک عمر بھر اپنے نام کے ساتھ گانگو بہمنی لکھتا رہا۔ اس کی اولاد میں جو بادشاہ ہوئے وہ بھی اپنے نام کے ساتھ بہمنی لکھتے رہے اور گانگو بہمن کی اولاد کو شاہی خزانچی مقرر کر تے رہے۔
بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ حسن فارس کے بادشاہ بہمن کی اولاد سے تھا اس لیے اسے بہمنی کہا جا تا ہے لیکن زیادہ مشہور کہانی یہی ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔
حسن نے شاہی دربار کا امیر بن کر ظفر خان کا خطاب حاصل کیا۔جب سلطان محمد تغلق نے دکن شہر دیوگڑ ھ کودولت آباد کا نام دے کر اپنا دارالحکومت بنایا تو حکم جاری کیا کہ جس کاجی چاہے خواہ وہ کوئی عہدے دارہو یا در باری امیروہ دولت آباد جا کررہ سکتا ہے۔اس حکم کے جاری ہوتے ہی حسن کانگو بہمنی دولت آباد چلا گیا۔ اسے کچھ علاقے جا گیرمیں مل گئے۔ کچھ عرصہ بعد محمدتغلق نے اپنے کچھ امیروں کو نافرمان قرار دے کرقتل کرا دیا۔ اس پر بادشاہ کے خلاف بہت سے امیروں نے بغاوت کردی۔ ان سب نے مل کرحسن گانگو بہمنی کوا پناسردار بنالیا۔ اس نے شاہی فوجوں کوشکستوں پرشکستیں دے کر دکن سے نکال دیااور خود1347 عیسوی میں علاؤالدین حسن گانگو بہمنی کے نام سے دکن کا خودمختار بادشاہ بن گیا۔ گلبرگہ کواس نے اپنا دارالحکومت بنایا۔1358ء میں اس کی وفات کے بعد اس کی اولاد نے دوسو سال سے زیادہ عرصہ تک دکن میں بادشاہت کی۔پھریہ سلطنت کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top