skip to Main Content

نیت بدلتے ہی ۔ کاوش صدیقی

کاوش صدیقی

’’کنجوس مکھی چوس!‘‘ آئمہ نے غصے سے کہا۔
’’ کنجوسی کی کیا بات ؟‘‘ حبیبہ نے اطمینان سے جواب دیا:’’ بچت کرنا کوئی بری بات ہے کیا؟ تم اپنے پیسے خرچ کرو، جوا بو نے پاکٹ منی دی ہے۔‘‘
’’وہ تو خرچ ہوگئی۔ کچھ کا پیاں لے لیں اور عروبہ کے پاس فیس کے لیے پیسے کم تھے کچھ اسے دے دیے۔‘‘ آئمہ نے اپنی سہیلی کا ذکر کیا۔
’’ یہ جوتم عرو بہ پر خرچ کرتی رہتی ہو، یہی وجہ ہے کہ تمھارے پیسے جلد ختم ہو جاتے ہیں۔‘‘ حبیبہ نے ناگواری سے کہا۔
’’تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘ آئمہ نے فوراً جواب دیا۔’’ مجھے اچھا لگتا ہے دوسروں کی مدد کرنا، اس کے والد دومہینے سے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے کام پر نہیں جا سکے گھرمیں خرچ کی تنگی ہے۔‘‘آئمہ نے بہن کی طرف دیکھا۔
ابھی دونوں بہنیں باتیں کر ہی رہی تھیں کہ اچانک زوہیب چاچو آ گئے۔
’’کون چائے پلارہا؟‘‘ انھوں نے آتے ہی نعر ہ لگا یا۔
’’ مجھ سے اچھی چائے تو آئمہ بناتی ہے۔‘‘ حبیبہ نے فورا ًاپنا دامن بچایا۔
’’ابھی بناتی ہوں۔‘‘ آئمہ فوراً ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں چائے لے آئی،ساتھ بسکٹ بھی تھے۔ گرما گرم بھاپ اڑائی چائے۔
’’ بھئی مزہ آ گیا۔‘‘ چا پونے چائے کی چسکی لی۔
’’ شکریہ چاچو!‘‘ آئمہ نے مسکرا کے کہا اور ایک کپ حبیبہ کی طرف بڑھایا :’’ یہ لو چاچو کی چائے کوند یدوں کی طرح مت تاڑو۔‘‘
چا چوز وہیب ہنسنے لگے۔
چائے ختم کر کے انھوں نے آئمہ کو اپنے پاس بلایا اور پرس نکالتے ہوئے بولے: ’’بھئی صبح صبح مزے دار چائے کا انعام تو بنتا ہے نا۔‘‘
انھوں نے پانچ سو کا نوٹ آئمہ کو پکڑایا۔ چاچو نے پھر سوروپے کا نوٹ نکالا اور حبیبہ کو دیتے ہوئے بولے:’’یہ تمھاری کاہلی کا انعام۔‘‘
’’اب اسے بھی اپنے صندوقچے میں رکھ لینا۔‘‘ آئمہ نے ہنس کر کہا۔
حبیبہ نے گنگناتے ہوئے کہا :’’ہم تو پیسے جمع کر یں، جلنے والے جلا کریں۔‘‘
’’ میں تو نہیں جلتی۔‘‘آئمہ نے کہا۔
زوہیب چاچو دونوں کی نوک جھوک پر مسکرانے گئے۔
’’در اصل تم حساب کتاب میں الجھ جاتی ہو، بغیر حساب کتاب اچھے کام ہوں تو بغیرحساب کتاب ملتا ہے۔‘‘
’’اچھا فارمولا ہے۔‘‘ حبیبہ نے منہ بنا کر کہا۔’’ اپنے چار، چار سوروپے کرو اور دینے والے سوروپے پکڑا کر چلتے بنیں۔‘‘ حبیبہ نے ناگواری سے کہا۔
آئمہ اسکول سے آئی تو پریشان تھی۔
امی نے پوچھا :’’کیا ہوا؟‘‘
’’عروبہ کے ابو کی طبیعت بہت خراب ہے۔ ایک تو ایکسیڈنٹ کی وجہ سے بستر پر پڑے تھے، اوپر سے کل رات دل کا دور ہ پڑا۔ اب اسپتال میں ہیں۔‘‘
’’اللہ خیر کرے۔‘‘ امی پر یشان ہو ئیں:’’ تم نے پو چھا کوئی ضرورت تو نہیں؟‘‘
’’ وہ کہاں بتاتی ہے، میں ہی زبردستی کرتی ہوں تو کچھ لے لیتی ہے۔ اس کی امی کپڑے سیتی ہیں۔‘‘ آئمہ بولی۔
’’ایک دوسرے کی مدد کر نا ہمارادینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔‘‘
’’جی امی !‘‘ آئمہ نے جواب دیا اور سوچنے لگی۔
’’کیا سوچ رہی ہو؟‘‘ حبیبہ نے تولیے سے ہاتھ پو نچھتے ہوئے پو چھا۔
’’ میں عروبہ کے متعلق سوچ رہی ہوں۔‘‘ آئمہ نے جواب دیا: ’’اس وقت ان لوگوں کو مدد کی سخت ضرورت ہے۔‘‘
’’ہاں یہ تو ہے۔‘‘حبیبہ نے کہا:’’اللہ تعالیٰ ان کے مسائل حل کرے۔‘‘
’’آمین۔‘‘ آئمہ نے کہا :’’مگر خالی دعا سے تو کام نہیں چلتا۔ مہینے کا آخر ہے۔ پھر رمضان کی وجہ سے گھر یلو اخراجات بھی بڑھ گئے ہیں۔ ابو سے کہوں تو کیسے؟‘‘ آئمہ کے لہجے میں پر یشانی تھی۔
’’کیا پیسوں کی ضرورت ہے؟‘‘ حبیبہ نے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘ آئمہ نے جواب دیا اور پھر سوچ میں گم ہوگئی۔
’’یہ لو۔‘‘ اچانک حبیبہ کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ اس نے سراٹھایا تو حبیبہ اپنا جان سے عزیز گلک لیے کھڑی تھی۔
’’یہ …یہ کیا؟‘‘ آئمہ نے حیران ہو کے پوچھا۔
’’اے گلک کہتے ہیں اور یہ تم لے لو۔ شاید عروبہ کی مدد ہو جائے۔‘‘ حبیبہ نے کہا اورگلک آئمہ کو تھما دیا۔
’’مگر تم تو …‘‘آئمہ نے کہنا چاہا تو حبیبہ بولی:’’ تم نے تو نہیں کہا مگر میں اپنی مرضی سے دے رہی ہوں۔‘‘
’’یا اللہ!‘‘ آئمہ نے آسمان کی طرف دیکھا۔ ’’واقعی تبدیلی آ گئی۔‘‘
’’ہاں!‘‘ حبیبہ نے آہستہ سے کہا:’’ مجھے اپنے اللہ پر یقین آ گیا ہے!‘‘
’’ کیا مطلب ؟‘‘آئمہ نے حیرت سے کیا۔
’’میں نے کہیں پڑھا تھا۔اللہ فرماتا ہے کہ تم دوسروں پر خرچ کرتے رہو۔ میں تم پرخرچ کرتا رہوں گا۔ میں تمھیں دیکھتی ہوں کہ تم دوسروں پر خرچ کرتی ہو۔ ان کی ضروریات پوری کرتی ہو۔ اللہ پاک بھی تمھارا ہاتھ تنگ نہیں ہونے دیتے۔ کہیں ناکہیں سے تمہیں پیسے آتے رہتے ہیں۔ جبکہ میں پیسے جمع کرنے کے باو جود خرچ میں پریشان رہتی ہوں۔ میری پاکٹ منی پتانہیں کیسے کب خرچ ہو جاتی ہے۔‘‘
آئمہ نے بہن کو بڑے پیار سے دیکھا اور اسے گلے سے لگا لیا۔ پھر دونوں نے گلک توڑا۔ اس میں سے سات ہزار روپے کے چھوٹے بڑے نوٹ نکلے۔
’’ چلو عروبہ کے گھر چلتے ہیں۔‘‘ حبیبہ نے کہا۔
’’ چلو میں اپنے پیسے بھی ملالوں۔‘‘آئمہ نے کہا۔
کل ملا کے نو ہزار روپے ہو گئے۔ امی نے انھیں اس طرح دیکھا تو اپنے پاس سے چھے ہزار روپے اور دیے۔ یوں کل پندرہ ہزار روپے ہو گئے۔ وہ خوش خوش عروبہ کے گھر چلی گئیں۔
جب واپس آ ئیں تو دیکھا امی بہت خوش تھیں۔ان کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا۔
’’ کیا بات ہے امی جان آپ بہت خوش نظر آ رہی ہیں؟‘‘ حبیبہ نے پوچھا۔
’’ تمھارے بڑے ماموں نے امریکا سے تم لوگوں کے لیے عیدی بھیجی ہے۔ یہ دیکھو۔‘‘ امی نے ڈرافٹ دکھایا جو شاید تھوڑی دیر پہلے ہی کور ئیر والا دے گیا تھا۔ حبیبہ نے اپنے حصے کی عیدی کا حساب کیا تو مسکرادی۔
’’کیا بات ہے بہت خوش ہورہی ہو؟‘‘ آئمہ نے ہنس کے پوچھا۔
اب حبیبہ کیا بتاتی کہ اللہ کا وعدہ کتنا سچا ہے۔ اس کے حصے میں آنے والی عیدی کا پورا پورا حساب سات ہزار روپے بن رہا تھا۔ احساس شکر سے حبیبہ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ واقعی نیت بدلتے ہی حالات بدل جاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔

کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے

کاوش صدیقی کے مداحو ! تیار ہو جاؤ ایک زبردست مقابلے کیلئے۔
کتاب دوست لے کر آرہا ہے ایک اور زبردست خبر ! کاوش صدیقی صاحب نے روشنائی ڈوٹ کوم پر اگست کے پورے مہینے کہانیاں لکھنے کی زبردست خبر سنائی تو کتاب دوست نے اس کا مزہ دوبالا کرنے کیلئے آپ لوگوں کے لئے ایک زبردست مقابلے کا آغاز کرنے کا سوچا۔
☆ تو لیجئے کتاب دوست کی جانب سے ایک اور اعلان ہو رہاہے۔ وزٹ کیجئے روشنائی ڈوٹ کوم roshnai.com  پر اور پڑھئے کاوش صدیقی کی روزانہ ایک کہانی۔ اس پر اپنا بھرپور تبصرہ کیجئے اور جیتیے مندرجہ ذیل کیش انعامات مع کتاب دوست کی اعزازی سند کے۔
★ پہلا انعام : 1500 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ دوسرا انعام : 1000 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ تیسرا انعام : 700 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
نوٹ: 31 اگست یعنی آخری کہانی تک کا وقت مقررہ ہے۔ یعنی آخری دن۔
جتنے زیادہ تبصرے ہوں گے اتنے جیتنے کے مواقع زیادہ ہوں گے۔
☆ ایک قاری کی طرف سے ایک کہانی پر ایک تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔
☆ تبصرہ ہر کہانی کے آخر میں کمنٹس باکس میں کرنا ہے اور اسے یہاں اس پوسٹ میں بھی کمنٹ کرنا ہے۔
☆ تبصرہ کم ازکم 300 الفاظ ہوں اس سے کم الفاظ کو صرف کمنٹ تصور کیا جائے گا۔ مقابلے میں شامل نہیں ہوگا۔
☆ ججمنٹ کے فرائض Shahzad Bashir – Author انجام دیں گے اور نتائج کا اعلان 6 ستمبر بروز “یومِ دفاع” کیا جائے گا۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top