skip to Main Content

ننھی فیری

کاوش صدیقی

ننھی نے بڑی ہوشیاری سے اپنا پچھلا حساب چکادیا۔
’’ مسئلہ یہ تھا کہ اس معاملے کو ابا جان کے گوش گزار کیوں کر کیا جائے۔‘‘بھائی جان نے باجی کی طرف دیکھا۔
’’بالکل نہیں۔ ‘‘باجی نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
بھائی جان کی نظر انتخاب میری طرف گھومی۔
’’نا…بابا…نا، بندہ ناچیز مجبور ہے۔‘‘ میں نے صاف انکار کر دیا۔
’’آپ فیری سے کیوں نہیں کہتے؟‘‘ میں نے تجویز پیش کی۔
بھائی جان کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ ’’ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘
فیری ہماری سب سے چھوٹی بہن ہے۔ لاڈلی اور نازوں پلی۔اس کا کہا مجال ہے کہ کوئی ٹال جائے۔
’’کہاں ہے وہ؟‘‘ بھائی جان نے پوچھا۔
’’میں یہاں ہوں۔ فیری کی آواز سنائی دی۔ ہم چونک کے کمبل کے اس ڈھیر کو دیکھنے لگے کہ جس میں سے آواز آئی تھی۔
’’ تم یہاں کیا کر رہی ہو میری گڑیا؟‘‘ بھائی جان کی آواز سے گویا شہد ٹپک رہاتھا۔’’ آؤہمارے پاس۔‘‘
’’نہیں وہیں سے بتائیں مجھے سردی لگ رہی ہے۔‘‘فیری نے کمبل میں کسمساتے ہوئے کہا۔’’ کوئی بات ہے کیا؟‘‘
’’ہاں! اور یہ کام میری گڑیا ہی کر سکتی ہے۔‘‘ بھائی جان نے خوشامد کی۔
’’ اگر ابا جان سے کچھ کہنا ہے تو میں نہیں کہوں گی۔‘‘ فیری نے صاف منع کر دیا۔
ہم سب کے منہ لٹک گئے۔
’’کیوں بھئی؟ کیا تم ہماری پیاری سی بہن نہیں ہو؟‘‘ باجی نے بڑی چاہت بھری آواز میں کہا۔ مانوا بھی روپڑیں گی اور آنسوؤں کے دریا بہاد یں گی۔
’’نہیں…‘‘ فیری بدستور اپنے انکار پر قائم تھی۔’’ پچھلی بار آپ لوگوں نے مجھے چاکلیٹس اورنئی کہانیوں کی کتاب دلا نے کا وعدہ کیا، مگر کام ہوتے ہی آپ سب اپنے وعدے سے پھر گئے۔‘‘
’’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔‘‘ میں نے فوراً بات ٹالنے کی کوشش کی، کیونکہ چاکلیٹس کاوعد ہ میراتھا۔
’’دیکھو میں وعدہ کرتا ہوں کہ ابھی چاکلیٹس لاکے دوں گا، مگر تم بھی وعدہ کرو کہ اباجان سے اجازت دلاؤ گی۔‘‘
’’دیکھیں گے۔‘‘ غیری نے شان بے نیازی سے کہا اور کمبل میں دو بارہ گھس گئی۔
ہم تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور منہ لٹکا کے بیٹھ گئے۔
تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ہمارے خانساماں نے کمرے میں جھانکا ۔اللہ بخش اتناپرانا خانساماں تھا کہ ہم سب نے آنکھ کھولتے ہی اسے دیکھا تھا اور بقول ابا جان کہ انہوں نے بھی ایساہی دیکھا تھا۔ انتہائی سانولا اور اتنا ہی دبلا، اس کی حالت دیکھ کر بھائی جان نے ارشاد کیا۔
’’اللہ بخش تم مر وگے نہیں!‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘اللہ بخش نے خوشی سے دانت نکالے۔’’اللہ آپ کی زبان مبارک کرے۔ ان ہی ہاتھوں میں بڑے سرکا ر رخصت ہوئے۔ دادی جان اللہ کو پیاری ہوئیں۔ گلشن والے ماموں جان فوت ہوئے اور…‘‘
’’بس…بس۔‘‘ بھائی جان نے گھبرا کے کہا۔ ’’اس سے پہلے کہ تم ہماری موجودہ نسل تک پہنچو، میرا مطلب یہ تھا کہ تم اتنے سوکھے، پتلے ہو کہ تم مرو گے نہیں بلکہ سوکھ جاؤگے۔ بے چارے سوکھے اللہ بخش۔‘‘
اللہ بخش نے گھورا اور مزید کچھ کہنے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ اللہ بخش سے ہم سب کی مسلسل نوک جھوک چلتی رہتی تھی۔
’’خیریت تو ہے نا، آپ سب تو یوں بیٹھے ہیں کہ جیسے ملکی حالات کی تمام خرابی کے آپ ہی لوگ ذمہ دار ہیں۔‘‘
’’آہ! اللہ بخش تم نہیں جانتے۔‘‘
’’اگر آپ کے پیسے ختم ہو چکے ہیں تو میری تنخواہ بھی ختم ہو چکی ہے۔‘‘ اللہ بخش نے فوراً ہی ہری جھنڈی دکھائی۔
اللہ بخش سے ہمارا ادھار کھاتہ چلتا رہتا تھا۔‘‘
’’نہیں بات یہ ہے کہ… خیر چھوڑ و تمہاری شان نزول کی وجہ کیا ہے؟‘‘ باجی نے پوچھا۔
’’ بڑی باجی کہہ رہی ہیں آج چھٹی ہے۔ بچوں کی پسند پو چھو کیا کھا ئیں گے؟‘‘ اللہ بخش نے کہا۔ وہ امی جان کو بڑی باجی کہتا تھا۔
’’چنیوٹی کنہ بنالو۔‘‘ باجی نے فوراً فرمائش داغی۔
’’ہاں، نہیں بلکہ نہاری بنالو۔‘‘ بھائی جان نے کہا۔
’’میرا خیال ہے کہ مٹن پلاؤ اور قورمہ ٹھیک رہے گا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ یہ منہ اور مسور کی دال۔‘‘ اللہ بخش نے کہا۔’’ آج سبزی میں سے جو پکوانا ہے وہ پکوائیں۔ یہ ساری چیزیں تو بہت وقت لیں گی ۔‘‘
’’تو تم نے کس کو وقت دینا ہے؟‘‘ بھائی جان نے ترنت سوال کیا۔
’’لوجی بھلا بندہ اپنے آپ کو بھی ٹائم نہ دے۔‘‘
’’ میرے لیے انڈا پر اٹھا…‘‘ کمبل کے ڈھیر میں سے فیری کی آواز سنائی دی۔
’’ابھی بناتا ہوں فیری بیٹا۔‘‘ فیری اللہ بخش کی بھی لاڈلی تھی۔ وہ کہہ کر باہر چلا گیا۔
’’کیا میری چاکلیٹس آئیں؟ ‘‘فیری نے پوچھا۔
’’نقد پیسے چلیں گے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
فیری نے کچھ کہے بغیر کمبل میں سے اپنا ننھا سا گلابی ہاتھ باہر نکالا۔ اس کا مطلب تھا کہ باتیں نہ بناؤعمل کر کے دکھاؤ۔
ناچار میں نے پینٹ کی جیب میں سے مڑے تڑے نوٹ نکالے اور فیری کے ہاتھ پر رکھ دیے۔
’’بس؟‘‘
’’پورے ایک سوبیس رو پے ہیں۔‘‘ میں نے دانت کچکچائے۔
’’اور بھائی جان، باجی ان کے وعدے بھی باقی ہیں ابھی…‘‘
باجی اور بھائی جان نے بھی نہ چاہتے ہوئے اپنی جمع پونجی بالترتیب نوے روپے اور ایک سو چالیس روپے فیری کے سپردکیے۔
’’ہاں کیا کہنا ہے ابا جان سے؟‘‘ اس نے کمبل سے ذرامنہ باہر نکالا۔
’’دیکھو ہمیں چھو ٹے چچا جان نے کراچی بلایا ہے۔ بس ابا جان سے اجازت دلوادو۔‘‘ ہم نے بیک وقت کہا۔
’’تو آپ خود کیوں نہیں کہہ دیتے ابا جان سے؟‘‘ فیری نے پوچھا۔
’’ابھی دو ماہ پہلے ہی تو ہم لوگ خالوجان کے ہاں اسلام آباد گئے تھے ایک ماہ کے لیے۔ تب اباجان نے کہا تھا کہ اب سالا نہ امتحان تک کسی کو کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں ملے گی۔‘‘بھائی جان نے کہا۔
’’ اور میری پیاری فیری گڑ یا تم تو جانتی ہونا کہ ابا جان جو بات ایک بار کہہ دیں وہ پتھع پر لکیر ہوتی ہے، مگر تمہاری تو وہ کوئی بات ٹالتے ہی نہیں۔‘‘ باجی کے انداز میں اس وقت پیارہی پیار تھا۔
’’آپ کی الماری میں ایک گڑیا ہے۔‘‘فیری نے باجی کو یاد دلایا۔
’’ہاں ہے میرے بچپن کی یاد۔‘‘ باجی نے بڑے جذبے سے کہا۔
’’ بس تو وہ اپنے بچپن کی یاد مجھے دے دیں، میں سنبھال لوں گی۔ فیری نے اطمینان سے کہا۔
’’یہ…یہ زیادتی ہے۔‘‘ باجی نے احتجاج کیا۔
’’ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ بالا دست کی ہر شر ط تسلیم کی جائے اور سر جھکا دیا جائے۔‘ ‘بھائی جان نے کہا۔
’’ اچھا…‘‘ باجی نے الماری سے گڑیا نکال کر بوجھل ہاتھوں سے فیری کے سپردکر دی۔
’’یہ لو میری امانت اسے کوئی دکھ نہ دینا۔‘‘
’’ آپ بے فکر ر ہیں۔‘‘ فیری نے بڑے بوڑھوں کی طرح تسلی دی اور اپنی گود میں گڑیا کو لٹا لیا۔
اسی وقت امی جان کمرے میں داخل ہوئیں۔
ٍٍ ’’ ارے تم لوگ یوں ہی بیٹھے ہو تیاری نہیں کرنی کیا؟‘‘ امی نے حیرت سے کہا۔
’’کیا مطلب؟ ‘‘ہم نے بیک وقت حیرت سے پوچھا۔
’’ تمہیں فیری نے بتایا نہیں۔ رات تو کہہ رہی تھی امی آپ نے نہیں بولنا، سب کو یہ خبر مجھے دینی ہے۔‘‘امی جان نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’امی آپ ہی بتادیں نا میں تواپنی پیاری گڑیا کو سلا رہی ہوں۔‘‘ فیری نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ارے بھئی تمہارے چھوٹے چچا کا فون آیا تھا پر سوں کہ اسد نے قرآن مجید حفظ کر لیا ہے اسی سلسلے میں بہت بڑی تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔ انہوں نے نا صرف آنے کی دعوت دی ہے بلکہ ہم سب کے ٹکٹ بھی بذریعہ کورئیر بھیج دیے ہیں۔ اب یہ تقریب ایسی ہے کہ اس کے لیے تمہارے ابا جان منع نہ کر سکے اور اب ہم سب کے ساتھ وہ بھی جارہے ہیں۔ ہم لوگ اگلے ہفتے واپس آ ئیں گے۔‘‘ امی نے ساری بات بتادی۔
’’فیری کی بچی…‘‘ ہم سب چیخے۔
فیری ہنسنے لگی۔
بڑی ہی عقل مندی سے اس نے صورت حال کا فائدہ اٹھاکے سب سے اپنے پرانے وعدے وفا کرا لیے تھے۔

۔۔۔۔۔

کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے

کاوش صدیقی کے مداحو ! تیار ہو جاؤ ایک زبردست مقابلے کیلئے۔
کتاب دوست لے کر آرہا ہے ایک اور زبردست خبر ! کاوش صدیقی صاحب نے روشنائی ڈوٹ کوم پر اگست کے پورے مہینے کہانیاں لکھنے کی زبردست خبر سنائی تو کتاب دوست نے اس کا مزہ دوبالا کرنے کیلئے آپ لوگوں کے لئے ایک زبردست مقابلے کا آغاز کرنے کا سوچا۔
☆ تو لیجئے کتاب دوست کی جانب سے ایک اور اعلان ہو رہاہے۔ وزٹ کیجئے روشنائی ڈوٹ کوم roshnai.com  پر اور پڑھئے کاوش صدیقی کی روزانہ ایک کہانی۔ اس پر اپنا بھرپور تبصرہ کیجئے اور جیتیے مندرجہ ذیل کیش انعامات مع کتاب دوست کی اعزازی سند کے۔
★ پہلا انعام : 1500 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ دوسرا انعام : 1000 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ تیسرا انعام : 700 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
نوٹ: 31 اگست یعنی آخری کہانی تک کا وقت مقررہ ہے۔ یعنی آخری دن۔
جتنے زیادہ تبصرے ہوں گے اتنے جیتنے کے مواقع زیادہ ہوں گے۔
☆ ایک قاری کی طرف سے ایک کہانی پر ایک تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔
☆ تبصرہ ہر کہانی کے آخر میں کمنٹس باکس میں کرنا ہے اور اسے یہاں اس پوسٹ میں بھی کمنٹ کرنا ہے۔
☆ تبصرہ کم ازکم 300 الفاظ ہوں اس سے کم الفاظ کو صرف کمنٹ تصور کیا جائے گا۔ مقابلے میں شامل نہیں ہوگا۔
☆ ججمنٹ کے فرائض Shahzad Bashir – Author انجام دیں گے اور نتائج کا اعلان 6 ستمبر بروز “یومِ دفاع” کیا جائے گا۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top