مقابلہ
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
فون کی گھنٹی بجی۔
خالد صاحب نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھا لیا۔ ان کے پی اے کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی:
”سر، آپ کے لیے فون ہے، آپ کے گھر سے۔“
”ہاں ہاں ملاؤ۔“ خالد صاحب نے کہا، پھر بولے:”اور مجھے ابھی کوئی اور کال مت دینا۔“
”ہیلو۔۔۔ ہاں، کیا بات ہے؟“ دوسری طرف سے ان کی بیگم نے کہا:
”آپ کو کچھ خبر بھی ہے، آج شام کو منیر صاحب کے نئے بنگلے کی خوشی میں تقریب ہے۔ وہاں چلنا ہے، آپ کوئی ایسا تحفہ دیجیے گا کہ سب کی آنکھیں کھلی رہ جائیں۔“
”ہاں ہاں مجھے یاد ہے، تم ایسا کرنا کہ جتنی گاڑیاں ہیں سب نکلوا کر ان کی صفائی کروا لو، ایک گاڑی پر تم جانا، دوسری پر ماریہ کو بھیجنا، تیسری پر بلال کو، چوتھی پر اماں کو اور پانچویں پر ابا جی کو۔۔۔ میں خود یہاں سے اپنی پجیر و پر پہنچ جاؤں گا۔۔۔ کیا کہا؟“
”تحفہ؟۔۔۔۔ ہاں اس کا بھی انتظام کر لیا ہے میں نے، میں منیر کو پانچ کنال کا پلاٹ تحفے میں دے رہا ہوں۔۔۔ اس نے تو مجھے صرف ایک کنال کا پلاٹ تحفے میں دیا تھا۔۔۔ ہا ہا ہا۔ سب لوگ حیران رہ جائیں گے۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے۔۔۔ ہاں کیا ہوا۔۔۔ ہیلو۔۔۔۔“
دوسری طرف ان کی بیگم نے کہا:
”سنیے، آپ نے اپنی طرف سے تحفے کا انتظام تو کر لیا اور میں کیادوں گی؟“
”ہاں۔۔۔ تم کو بھی تحفہ دینا چاہیے، آخر رشیدہ بھا بھی نے بھی تو تم کوزیورات کا سیٹ دیا تھا۔“
”تو میں آج مارکیٹ جا کر زیور پسند کر لیتی ہوں۔ آپ کے کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی کر دوں گی۔“
”ٹھیک ہے، کوشش کرنا کہ دو ڈھائی لاکھ سے کم قیمت کے زیور نہ ہوں۔ رشیدہ بھا بھی نے تم کو صرف پچاس ہزار کے زیور دیے تھے۔“
”اور میں خود کیا پہنوں گی۔ آپ کو تو ذرا بھی خیال نہیں رہتا۔ میرے پاس جتنے زیور ہیں وہ میں پہن چکی ہوں۔ رشیدہ بھا بھی خود وہ والے سیٹ کو میرے پاس دیکھ چکی ہیں جو آپ سنگا پور سے لائے تھے۔“ ان کی بیگم نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔
”افوہ، بیگم، تم کوخود میری حیثیت کا خیال کرنا چاہیے۔ تم پرانے زیور پہن کر اس تقریب میں جانے والی تھیں۔ میری کیا عزت رہ جاتی۔ تم فوراً رحمانی جیولرز کے پاس چلی جاؤ، میں اس کو فون کر دیتا ہوں۔ اس نے فرانس سے بالکل نئے فیشن کے زیورات کل ہی منگوائے ہیں، سب سے پہلے اس نے مجھے فون کر کے بتایا تھا۔ جلدی پہنچو، ایسا نہ ہو کہ سیٹھ لطیف کی بیگم وہاں پہنچ جائیں۔ ان کے پاس پیسہ زیادہ نہیں ہے مگر فیشن میں سب سے آگے رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔“
”ٹھیک ہے، میں ماریہ اور اماں کو بھی لے جاتی ہوں۔ ان کے لیے بھی اس تقریب کے لحاظ سے ڈھنگ کے کپڑے اور زیور ہونا چاہییں۔“
”ہاں، یہ تو مجھے خیال ہی نہیں رہا۔ تم پیسوں کی بالکل فکر نہ کرنا، بس ہماری ناک نیچی نہ ہونے پائے، کسی دوسرے کو ہم سے آگے نہیں نکلنا چاہیے۔ میں اخبارات کے رپورٹروں اور فوٹوگرافروں سے بھی ابھی کہہ دیتا ہوں کہ اس تقریب کی خبر اور تصویر کل کے اخبارات میں نمایاں جگہ شائع ہونی چاہئیں۔“
”اور اگر میری تصویر اچھی نہیں آئی تو۔۔۔!“ ان کی بیگم اترا کر بولیں۔
”اس کی فکر نہ کرو۔ تصویریں بنانے کے بعد پرنٹ نکال کر فوٹو گرافر پہلے مجھے اور تم کو دکھا دے گا، جو تصویر یں ہم پسند کریں گے، وہی کل کے اخبارات میں لگیں گی۔ فوٹوگرافر سمجھدار ہے، اس کو بتائیے، کس کو تصویر میں نمایاں کرنا ہے۔“
”اور آپ بلال اور ابا جی کو تو بھول گئے۔“ خالد صاحب کی بیگم بولیں۔
”نہیں، ان کو کیوں بھول گئے، میں تو تم سے کہنے ہی والا تھا کہ ابا جی اور بلال کے لیے بھی نئے سوٹ خرید لو، منیر کے ابا جی تو پرانے خیالات کے ہیں، ہمارے ابا جی سے ان کا کیا مقابلہ، بلکہ یوں کرو، ابا جی اور بلال کی گاڑیاں چھ ماہ پرانی ہو چکی ہیں، ان کے لیے نئی گاڑیاں لے لو۔ میں ابھی کار ورلڈ والوں کو فون کر دیتا ہوں۔ اگر ان کے پاس فوری طور پر نئی گاڑی نہ بھی ہوئی تو وہ ایک دن کے لیے کہیں سے بالکل نئی گاڑی کا انتظام کر دیں گے۔“
”اور آپ ایک چیز بھول رہے ہیں، جب ہم نے اپنے بنگلے کی خوشی میں دعوت کی تھی تو منیر بھائی نے بیس کلو مٹھائی بھجوائی تھی۔“ خالد صاحب کی بیگم نے یاد دلایا۔
”اوہ۔۔۔ ہاں۔۔۔ میں بھی کتنا بھلکڑ ہو گیا ہوں، اب اتنی جلدی بالکل تازہ مٹھائی تو نہیں مل سکے گی۔ تم نے مجھے پہلے یاد کیوں نہ دلایا۔ اب کیاکریں؟“
”آپ ایسا کیجیے، فروٹ منڈی فون کر کے تازہ پھلوں کے ٹوکرے بنوا لیں۔ وہ لوگ بہت خوبصورت پیکنگ کر دیتے ہیں۔ آپ کم سے کم پچاس ٹوکرے ضرور بھجوائے گا۔“
”ارے بیگم، تم نے تو دل خوش کر دیا۔ کس قدر صحیح مشورہ دیا ہے۔ میں ابھی فون کرتا ہوں۔ اچھا ٹھیک ہے، اور کوئی بات رہ تو نہیں گئی۔ او کے اللہ حافظ۔“ خالد صاحب نے فون کا ریسیور رکھ کر اطمینان بھری سانس لی۔ اب انہیں یقین تھا کہ شام کی تقریب میں بس ان کا ہی چرچا ہوگا۔کسی اور میں اتنی ہمت ہی نہ ہوگی کہ ان سے زیادہ خرچ کر سکے۔
منیر صاحب کے بنگلے کے باہر دور تک نئی نویلی چمکیلی گاڑیوں کی قطار لگی ہوئی تھی۔ خالد صاحب کے ڈرائیور کو بھی پجیر و دور روکنی پڑی۔ اسی وقت باوردی محافظوں کے ایک دستے نے بڑھ کر خالد صاحب کو سیلوٹ کیا اور اس دستے کے انچارج نے ادب سے کہا:
”سر آپ گاڑی سیدھی اندر بنگلے میں لے آئیں۔“
خالد صاحب کے ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھائی تو دونوں جانب ایک جیسے خوبصورت لباس پہنے ہوئے بچوں نے خالد صاحب کی گاڑیوں پر پھول کی پیتیاں برسانا شروع کر دیں۔ خالد صاحب اس شاندار استقبال سے بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے دل میں سوچا، ”اب کی بار میں، اس سے بھی اچھا استقبال کرواؤں گا۔“
خالد صاحب کی گاڑی بنگلے کے اندر داخل ہو کر رکی۔ ان کے ڈرائیور نے اتر کر جلدی سے دوسرا دروازہ کھولا۔ بینڈ نے خوشی کی دھن چھیڑ دی۔ منیر صاحب، خالد صاحب کی طرف دونوں باہیں پھیلائے بڑھے۔ شہر بھر کے معزز افراد اور بڑے بڑے افسران بھی خالد صاحب سے ہاتھ ملانے کے لیے بے تابی سے بڑھ رہے تھے۔ فوٹو گرافر ان لمحات کو چھپاک چھپاک کر اپنے کیمروں میں قید کر رہے تھے۔
خالد صاحب نے دیکھا۔ ان کی بیگم اور بیٹی، خواتین میں سب سے نمایاں تھیں۔ ابا جی بھی ایک طرف بڑی شان سے بیٹھے تھے مگر بلال کا کہیں پتانہ تھا۔
”بلال کہاں ہے۔“ خالد صاحب نے گھبرا کر سوچا۔”اسے تو اس وقت میرے ساتھ ہونا چاہیے تا کہ اس کی تصویریں بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ بن سکیں۔ ان نئی نسل کے نو جوانوں کو معلوم ہی نہیں کہ معاشرے میں اعلیٰ مقام کیسے حاصل کیا جاتا ہے۔“ انہوں نے اپنی بیگم کو اشارے سے بلایا۔ وہ ان کی طرف بڑھیں تو بہت سی خواتین کا ہجوم بھی ان کے ساتھ چلا۔
”بلال کہاں ہے؟“ خالد صاحب نے پوچھا۔
”بلال! وہ۔۔۔“ خالد صاحب کی بیگم گھبراگئیں۔
”بتاتی کیوں نہیں، کیا ہوا بلال کو؟“ خالد صاحب بھی پریشان ہوئے۔
”وہ۔۔۔ اس نے مجھے سختی سے کہا تھا کہ اس کے یہاں نہ آنے کی وجہ کسی کو نہ بتائی جائے۔ اس نے ایک لفافہ دیا ہے اور ہدایت کی کہ اسے ابو اور منیرانکل کی موجودگی ہی میں کھول کر پڑھا جائے۔“
لاؤ۔۔۔ کہاں ہے وہ لفافہ۔“ خالد صاحب نے بے چینی سے کہا۔ ان کی بیگم نے اپنے پرس سے ایک لفافہ نکال کر دیا۔ خالد صاحب نے جلدی سے لفافہ کھولا۔ اندر سے ایک کاغذ نکلا جس پر لکھا تھا:
”پیارے ابو، اچھے منیر انکل!
میں معذرت خواہ ہوں کہ آپ کی اس تقریب میں شرکت نہ کر سکوں گا، جہاں لوگ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ مال و دولت عہدوں اور شان وشوکت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے آگے بڑھ سکیں۔ میں بھی کچھ لوگوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن اس قرآنی آیت کی روشنی میں جس کا ترجمہ یہ ہے:
’دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو، اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف، جس کی وسعت آسمان اور زمین جیسی ہے۔ (الحدید:21)
میں اور میرے دوست اپنے شہر میں ایک بہت بڑا کمپلیکس قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں غریبوں کے لیے مفت اسپتال، مفت تعلیمی ادارہ، مختلف فنون سکھانے کا مرکز، کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ اور فلاحی مرکز ہو گا۔ اس بڑے کمپلیکس کے لیے فنڈ اکٹھے کرنے کے سلسلے میں میں اپنے دوستوں سے آگے نکلنا چاہتا ہوں، دعا کیجیے اللہ تعالیٰ مجھے وہ جنت عطا فرمائے جس کی وسعت زمین اورآسمانوں جیسی ہے۔“
آپ سب کے لیے دعا گو
بلال خالد
خالد صاحب کی آنکھوں سے چند آنسو ٹپک کر بلال کے خط پر گرے۔انہوں نے آنسو بھری آنکھوں سے سب لوگوں کو دیکھا، جو حیران پریشان کھڑے انہیں دیکھ رہے تھے۔ خالد صاحب کو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سکڑ کر بہت چھوٹے سے ہو گئے ہیں اور ان کا بیٹا بلال ان کو وہیں چھوڑ کر آگے، بہت آگے چلا جا رہا ہے۔