skip to Main Content

صلح صفائی

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

آج پھر لڑائی ہو رہی تھی!
مسئلہ کچھ بھی نہ تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ سعدیہ نے راشدہ کے موزے پہن لیے تھے۔ سعدیہ کا بھی قصور نہیں تھا۔ موزے دونوں بہنوں کے تقریباً ایک ہی جیسے تھے اور امی نے راشدہ کے موزے دھو کر سو کھنے کے بعد اٹھا کر غلطی سے سعدیہ کے بستر پر رکھ دیے تھے۔راشدہ کہہ رہی تھی:
”تم نے جان بوجھ کر میرے موزے پہنے ہیں تا کہ مجھے پرانے موزے پہن کر اسکول جانا پڑے اور میری دوست لڑکیاں میرا مذاق اڑائیں۔“
”اگر یہ تمہارے موزے ہیں تو میرے بستر پر کیسے آئے؟“ سعدیہ نے دلیل دی۔
”موزوں کی آنکھیں نہیں ہوتیں، نہ ان کے ہاتھ پاؤں ہوتے ہیں۔ تمہی نے چپکے سے میرے موزے اٹھا لیے ہوں گے۔“ راشدہ نے تیزلہجے میں کہا۔
”موزوں کی آنکھیں نہ سہی، تمہاری تو ہیں، تم اپنے موزے سنبھال کرکیوں نہیں رکھتی ہو؟“ سعدیہ نے فوراً جواب دیا۔
اب اگر تم نے میرے موزے پہنے تو میں تمہارا دو پٹا اٹھا کر گندی نالی میں پھینک دوں گی۔“ راشدہ غرائی۔
”او ہو۔۔۔ بڑی آئیں دوپٹہ گندی نالی میں پھینکنے والی، میں تمہارے بال قینچی سے کاٹ دوں گے۔“ سعدیہ نے جوابی دھمکی دی۔
”تمہاری یہ ہمت۔“ راشدہ نے بڑھ کر سعدیہ کو بالوں سے پکڑ لیا۔
”ارے دونوں بہنوں میں جھگڑا شروع ہو گیا۔“ امی بڑ بڑاتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئیں۔ اس وقت تک دونوں بہنوں میں مار پیٹ شروع ہو چکی تھی۔ اس مار پیٹ کو رکوانے کے لیے امی کو ڈنڈا اٹھانا پڑا۔ دونوں بہنوں میں جھگڑا روز ہوتا تھا۔

٭……٭……٭

سعدیہ اور راشدہ کی عمروں میں مشکل سے دو سال کا فرق ہو گا۔ سعدیہ بڑی تھی، مگر بچپن میں بیمار رہنے کی وجہ سے ذرا دبلی پتلی رہ گئی تھی، راشدہ چھوٹی تھی مگر اس کی صحت بہتر تھی۔ یوں، دونوں بہنیں بالکل ہم عمر لگتی تھیں، لیکن ان دونوں کی آپس میں بالکل نہیں بنتی تھی۔ دونوں ایک ہی اسکول میں اور ایک ہی کلاس میں پڑھتی تھیں لیکن کلاس روم میں دونوں بہنیں الگ الگ ڈیسک پر بیٹھتیں۔ دونوں کی سہیلیاں الگ الگ تھیں۔ دونوں کی دلچسپیاں بھی الگ تھیں۔
دونوں بچیاں اب ساتویں کلاس میں پہنچ چکی تھیں۔ راشدہ بارہویں برس میں تھی اور سعدیہ چودہ برس کی ہونے والی تھی۔ دونوں کے درمیان لڑائی اب بھی روزانہ ہوتی تھی۔ اب جھگڑا اس بات پر ہوتا تھا کہ گھر کے کام کون کرے۔
ابو نے جب سے کمپیوٹر خریدا تھا، دونوں بہنوں کے جھگڑوں میں اور تیزی آگئی تھی۔ اکثر یہ ہوتا کہ اس بات پر لڑائی شروع ہو جاتی کہ کمپیوٹر پہلے کون استعمال کرے گا۔ کبھی یہ ہوتا کہ راشدہ بیٹھی کمپیوٹر پر کوئی گیم کھیل رہی ہوتی کہ سعدیہ آکر مطالبہ کر دیتی کہ کمپیوٹر اس کے حوالے کیا جائے۔ راشدہ انکار کر دیتی تو سعد یہ کہتی،”تم ایک گھنٹے سے کھیل رہی ہو، اب میری باری ہے۔“ راشدہ جواب دیتی،”کل تم تین گھنٹے کھیل چکی ہو، آج میں بھی تین گھنٹے کھیلوں گی۔“اس پر جھگڑا بڑھ جاتا، اتنی لڑائی ہوتی کہ ابو، کمپیوٹر چلانے پر پابندی لگا دیتے۔ اس پر بھی دونوں بہنیں ایک دوسرے کو طعنے دیتی رہتیں کہ تمہاری وجہ سے ابو نے کمپیوٹر استعمال کرنے سے منع کر دیا ہے۔
سعدیہ کا خیال تھا کہ امی اور ابو، راشدہ پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، اس کی تمام ضروریات کا خیال رکھتے ہیں، اس کی ہر فرمائش پوری کرتے ہیں، وہ بیمار ہو جائے تو بے چین ہو جاتے ہیں۔ فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں، جبکہ راشدہ بھی امی اور ابو کے بارے میں کچھ اسی انداز سے سوچتی تھی۔ اس کا بھی یہی خیال تھا کہ امی اور ابو سعدیہ کو زیادہ چاہتے ہیں۔ اس کو گھر کے کام کرنے کے لیے بھی نہیں کہتے۔ وہ ذراسی فرمائش کرے تو فوراً دوڑ کر پوری کرتے ہیں، یہاں تک کہ سعدیہ کی سہیلیاں ملنے آتی ہیں تو ان کی بھی خوب خاطر تواضع کرتے ہیں۔
دونوں بہنوں کو امی اور ابو سے تقریباً ایک جیسی شکایتیں تھیں۔ اس اندازمیں سوچنے کا نتیجہ یہ تھا کہ دونوں بہنوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت روز بروز بڑھتی ہی جارہی تھی۔
اسی نفرت کا اظہار ایک دن اس طرح ہوا کہ ایک رات امی ابو کو ایک تقریب میں جانا تھا۔ دادی اماں، پھوپھی جان کے گھر رہنے گئی ہوئی تھیں، سعدیہ اور راشدہ کے امتحان ہونے والے تھے، اس لیے امی ابو نے فیصلہ کیا کہ دونوں بہنیں گھر پر رک کر امتحان کی تیاری کریں۔ دونوں بہنوں کو آپس میں نہ لڑنے کی کئی بار نصیحت کر کے امی اور ابو تقریب میں چلے گئے۔ تھوڑی دیر تک تو دونوں بہنیں بیٹھی پڑھتی رہیں، پھر سعد یہ اٹھ کر کسی کام سے اسٹور میں گئی تو راشدہ نے اسٹور کا دروازہ بند کر کے باہر سے کنڈی لگا دی۔ سعدیہ بڑی دیر تک دروازہ کھٹکھٹاتی رہی۔ راشدہ کو آوازیں دیتی رہی۔ اسٹور میں بلب تو تھا مگر اس کا سوئچ اسٹور سے باہر تھا۔ راشدہ نے دوسرا غضب یہ کیا کہ اسٹور کے بلب کا سوئچ بند کر دیا۔ نتیجہ یہ کہ اسٹور میں گھپ اندھیرا ہو گیا۔ گرمی الگ۔ سعدیہ تقریباً ڈھائی گھنٹے تک اسی حالت میں اسٹور میں بیٹھی رہی۔ آخر جب امی ابو واپس آئے تو راشدہ نے اسٹور کا دروازہ کھولا۔ اندر سے سعد یہ پسینے میں شرابور باہر نکلی۔ اس نے نکلتے ہی راشدہ کا منہ نوچ لیا، اسے بالوں سے پکڑ کر مارنا شروع کر دیا۔ پھر اسے دھکا دے کر روتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
امی ابو نے راشدہ کو بہت ڈانٹا، سعدیہ کو بہت سمجھایا مگر وہ کئی گھنٹوں تک روتی رہی۔ اس واقعے کے ایک ہفتے بعد ہی سعد یہ بیمار پڑگئی۔ امی ابو اسے اسپتال لے گئے۔ سعدیہ کے مختلف ٹیسٹ ہوئے اور ڈاکٹروں نے اس کی حالت کو بہت خطرناک قرار دے کر اسے اسپتال میں داخل کر لیا۔ رپورٹ کے مطابق سعدیہ کا جگر خراب ہو چکا تھا۔ وہ بچپن میں بھی کئی بار بیمار ہو چکی تھی اور درست علاج نہ ہونے کی وجہ سے جگر کی خرابی بڑھتی گئی۔ صرف دو ہفتے بعد سعدیہ کا انتقال ہو گیا۔
گھر پر اب عجیب ویرانی اور اداسی چھائی رہتی تھی۔ راشدہ، سعدیہ کی چیزیں دیکھتی تو بلک بلک کر رونے لگتی۔ چپکے چپکے کہتی، ”سعدیہ! اب تم سے کبھی نہیں لڑوں گی۔“ مگر ظاہر ہے ایسی باتوں کا اب کوئی فائدہ نہ تھا۔ ایک دن راشدہ گھر کی صفائی کر رہی تھی تو اسے سعدیہ کی ڈائری ملی۔ اس کا دل چاہا کہ ڈائری کھول کر پڑھ لے۔ اس نے پہلا صفحہ الٹا،لکھا تھا:
”مجھے راشدہ سے نفرت ہوگئی ہے وہ بھی تو مجھ سے نفرت کرتی ہے۔“
اس کے آگے پڑھنے کی راشدہ کے اندر ہمت نہ تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ہونے لگی۔ وہ روتی ہوئی، دادی اماں کے پاس پہنچی اور ان کی گود میں سر رکھ کر اس بری طرح روئی کہ دادی کے لیے اسے چپ کروانا مشکل ہو گیا۔ بہت سمجھانے پر راشدہ نے سعدیہ کی ڈائری کے بارے میں بتایا اور یہ کہہ کر پھر رونے لگی:
”اب میں سعدیہ کو کیسے مناؤں گی۔“
دادی اماں نے کہا:”ہے بیٹی ایک طریقہ۔“
”جی؟“ راشدہ نے آنسو بہاتے ہوئے دادی اماں کی طرف دیکھا۔ ”کون سا طریقہ؟“
”بیٹی، تم اب ہر کام کرتے ہوئے یہ خیال رکھو کہ اس سے اللہ راضی ہوتا ہے یا ناراض، نمازیں پڑھو، قرآن پاک کو پڑھو سمجھو، اس پر عمل کرو۔ خوب نیک کام کرو، ماں باپ کا کہنا مانو، ان کی خدمت کرو، ان کی دعائیں لو۔۔۔ اور سعدیہ کے لیے زیادہ سے زیادہ دعائیں کرو، اس کے لیے قرآن پاک پڑھو، غریبوں کی مدد کر کے اس کا ثواب سعدیہ کو پہنچاؤ۔“
”پھر سعد یہ راضی ہو جائے گی دادی اماں؟“
”بیٹی امید یہی ہے۔ دیکھو جب تم اچھی بن جاؤ گی اور ہمیشہ نیک کام کروں گی، برائیوں سے بچو گی تو ان شاء اللہ، اللہ تمہیں جنت میں داخل فرمائیں گے اور تم سعدیہ کے لیے زیادہ سے زیادہ دعائیں کرو گی اور اس کو ثواب پہنچاؤ گی تو ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ سعدیہ کو بھی جنت عطا فرمائیں گے اور اللہ نے اپنی کتاب قرآن پاک میں ایک وعدہ فرمایا ہے۔“
”وہ کیا دادی اماں؟“ راشدہ نے بے تابی سے پوچھا۔
”ٹھہرو میں تمہیں سناتی ہوں۔“ دادی اماں نے سامنے رکھا، ترجمے والا قرآن مجید کھولا اور اس کے صفحے پلٹنے کے بعد ایک جگہ رک کر پڑھنے لگیں:
”دیکھو یہ سورۃ الاعراف کی آیت تینتالیس ہے، لکھا ہے:
’جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے، ہم کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے، وہ اہل جنت ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کینہ، کھوٹ ہو گا، اسے ہم نکال دیں گے۔“ (الاعراف43)
راشدہ جلدی سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی اور کہنے لگی:
”دادی اماں، اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے، آپ نے آج مجھے کتنی کام کی بات بتائی ہے۔ میں ابھی وضو کر کے آتی ہوں، عشاء کا وقت ہو گیا ہے نا۔“
اور دادی اماں کہہ رہی تھیں۔”بیٹی جب دعا مانگو تو اپنی دادی اماں کو نہ بھولنا۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top