skip to Main Content

محمد رسول اللہ ﷺ

بچوں کے لئے رسولﷺ پاک کی سیرت طیبہ
۔۔۔۔
اکرام قمر

۔۔۔۔

اللہ نے انسان کو پیدا کیا تو اسے زندگی گزارنے کا طریقہ سکھانے کے لیے دنیا کے ہر علاقے اور ہر قوم میں پیغمبر بھی بھیجے ۔آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ تھے۔آپ کو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا اور ساری قوموں کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجا۔
حضرت محمدﷺ ۲۰ ؍اپریل ۵۷۱ء کو عرب کے ایک مشہور شہر مکہ میں پیدا ہوئے۔یہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ تھی اور پیر کا دن تھا۔مکہ بہت پرانا اور متبرک شہر ہے۔خانہ کعبہ اسی میں ہے،جہاں ہر سال لاکھوں مسلمان حج کرنے جاتے ہیں۔حضرت محمد ﷺ عربوں کے ایک بڑے قبیلے قریش میں پیدا ہوئے۔آپ کے دادا عبدالمطلب کی بہت عزت کی جاتی تھی۔ان کا خاندان بنو ہاشم تھااور وہ اپنے خاندان کے سردار تھے۔
حضرت محمد ﷺ کے والد کا نام عبداللہ اور ماں کا نام آمنہ تھا۔حضرت عبداللہ آپ کے پیدا ہونے سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے فوت ہو گئے تھے۔
عربوں کے بڑے بڑے گھروں میں یہ رواج تھا کہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لئے آس پاس کے گاؤں کی عورتوں کے پاس بھیج دیتے تھے۔اس سے بچوں کی تندرستی بھی اچھی ہوجاتی تھی اور وہ خالص عربی زبان بھی سیکھ جاتے تھے۔حضور کو دودھ پلانے کے لیے حضرت حلیمہ سعدیہ کے سپردکیا گیا۔حضرت حلیمہ کا ایک بیٹا عبداللہ آپ ﷺکی عمر کا تھا اور آپ کا دودھ بھائی بنا۔جب حضورﷺ چلنے پھرنے لگے تو عبداللہ تو اپنے گھر کی بکریاں چرانے باہر چلے جاتے مگر آپﷺ گھر ہی پر رہتے۔ایک روز آپﷺ نے حضرت حلیمہ سے پوچھا کہ میرے بھائی عبداللہ دن بھر دکھائی نہیں دیتے،وہ کہاں رہتے ہیں؟حضرت حلیمہ نے بتایا کہ وہ بکریاں چرانے چلاجاتا ہے۔اس پر آپ ﷺ نے فرمایاکہ میں بھی ان کے ساتھ جایا کروں گا۔اور آپ ﷺ اپنے دودھ بھائی کے ساتھ بکریاں چرانے جانے لگے۔
اس کے تھوڑے عرصے بعد حضورﷺ کو حضرت حلیمہ آپ ﷺکی والدہ کے پاس مکے چھوڑ گئیں۔ جب آپﷺ کی عمر چھ برس کی ہوئی تو آپﷺ کی والدہ حضرت آمنہ مدینے سے واپس آتے ہوئے راستے میں وفات پا گئیں۔ اب آپﷺ اپنے دادا عبدالمطلب کے پاس رہنے لگے۔حضور ﷺ آٹھ برس کے ہوئے تو دادا بھی فوت ہو گئے۔ اب آپﷺ کے چچا ابو طالب آپ ﷺ کی پرورش کرنے لگے۔
ابو طالب تجارت کرتے تھے اوراپنے کاروبار کے لیے ملک شام جایا کرتے تھے۔حضور ﷺ بارہ سال کی عمر ہی سے چچا کے ساتھ تجارت کے لئے باہر کے سفر پر جانے لگے۔
اس وقت مکہ میں ایک مال دار عورت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔وہ بھی تجارت کرتی تھیں۔وہ جن لوگوں کو ہوشیار اور دیانت دار سمجھتیں،اپنا مال ان کے سپرد کردیتیں کہ فلاں جگہ پر بیچ آؤ۔نفع میں سے اتنا حصہ تمہیں دیا جائے گا۔
حضورﷺ کی سچائی سارے مکہ میں مشہور تھی۔آپ ﷺکو صادق اور امین کہا جاتا تھا۔حضور ﷺ کی نیک نامی جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تک پہنچی تو انہوں نے اپنا کاروبار آپﷺ کے سپرد کردینا چاہااور حضورﷺ کو پیغام بھیجا کہ ہمارا مال آپ ملک شام لے جائیں۔جو نفع ہوگا،میں اس میں سے آپ کو دوسرے لوگوں سے زیادہ حصہ دوں گی۔آپ ﷺ مان گئے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکا مال لے کر شام گئے اور اپنی عقل مندی کی وجہ سے بہت زیادہ نفع کمایا۔واپس آتے وقت آپﷺ شام سے بہت سا مال خرید لائے اور مکہ پہنچ کر حضرت خدیجہ کے سپرد کردیا جسے انہوں نے مکہ میں بیچ کر اور نفع کمایا۔اس طرح حضرت خدیجہ کو دوہرا فائدہ ہوا۔
حضرت خدیجہ بہت عقل مند عورت تھیں۔حضور ﷺ کی دیانت اور شرافت کا ان پر بہت اثر ہوا۔وہ بیوہ تھیں۔انہوں نے سوچا کہ اگر حضورﷺ مان جائیں تو آپ ﷺ سے نکاح کر لوں۔وہ عمر میں آپ سے پندرہ سال بڑی تھیں۔حضور ﷺ کی عمر پچیس سال تھی اور حضرت خدیجہ کی چالیس سال۔انہوں نے حضورﷺ کو نکاح کا پیغام بھیجا جسے آپ ﷺ نے منظور فرما لیا اور حضرت خدیجہ کا حضورﷺ سے نکاح ہوگیا۔حضرت خدیجہ سے آپ کے دوبیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں۔بیٹے قاسم اور طاہر تھے جو چھوٹی عمر ہی میں فوت ہوگئے اور بیٹیاں فاطمہ،زینب، رقیہ اور ام کلثوم تھیں۔
حضرت خدیجہ کی زندگی میں حضور ﷺ نے کسی اور عورت سے نکاح نہیں کیا۔جب آپ کی عمر۴۹ برس کی ہوئی تو حضرت خدیجہ وفات پاگئیں۔
بیٹیوں میں صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکی اولاد باقی رہی۔دوسری بیٹیوں میں سے بعض کے اولاد ہی نہیں ہوئی اور جن سے ہوئی وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہی۔اس طرح صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد سے آپ کی نسل دنیا میں پھیلی۔حضرت فاطمہ کا نکاح ساڑھے پندرہ برس کی عمر میں حضور ﷺکے چچا ابو طالب کے بیٹے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا۔جہیز میں ایک چادر، ایک تکیہ، چمڑے کا ایک گدا۔بان کی ایک چارپائی،ایک چھاگل،مٹی کے دو گھڑے،پانی بھرنے کے دو مشکیزے اور ایک چکی دی گئی۔حضرت فاطمہ اپنے ہاتھ سے چکی پیستیں اور گھر کا سب کام کاج کرتی تھیں۔
حضورﷺ کے نبی ہونے سے پانچ سال پہلے کی بات ہے قریش نے خانہ کعبہ کو نئے سرے سے بنانے کا ارادہ کیا۔خدا کے گھر کے بنانے میں حصہ لینا بہت بڑی بات تھی۔اس لیے قریش کا ہر قبیلہ اس میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینا چاہتا تھا۔یہ سوال اٹھا کہ خانہ کعبہ میں حجر اسود کون لگائے؟ اس پر جھگڑا کھڑا ہو گیا۔ہر قبیلہ اور ہر شخص یہی چاہتا تھا کہ یہ بڑائی صرف مجھی کو حاصل ہو۔بات اتنی بڑھی کہ خون خرابے کاڈر پیدا ہوگیا۔بڑے بوڑھے سر جوڑ کربیٹھے اور یہ طے کیا کہ جو آدمی خانہ کعبہ کی مسجد میں کل صبح سویرے سب سے پہلے آئے ،وہ جو فیصلہ دے،اسے اللہ کا فیصلہ سمجھ کر سب مان لیں۔اللہ کی قدرت، دوسرے روز صبح سویرے سب سے پہلے حضورﷺ مسجد میں آئے۔آپ ﷺ کو دیکھ کر سب نے ایک زبان ہو کر کہاکہ آپ ﷺ سچے ہیں اور کسی کی رو رعایت نہیں کرتے۔آپ جو فیصلہ دیں گے ہم وہی کریں گے۔حضور ﷺ نے وہ فیصلہ کیاکہ سب خوش ہوگئے۔آپ ﷺ نے ایک چادر پھیلا دی اور حجر اسود کو اپنے ہاتھ سے اٹھا کر اس میں رکھ دیا۔پھر فرمایا کہ سب قبیلوں کا ایک ایک چناہوا آدمی چادر کا کنارہ پکڑے۔اس طرح سب قبیلوں کو یہ بزرگی مل گئی۔خانہ کعبہ کی بنیاد کے پاس پہنچ کر خود حضورﷺ نے حجر اسود اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھ دیا۔اس طرح حضور ﷺکے فیصلے نے قریش کو خون خرابے سے بچا لیا۔
جب آپﷺ کی عمر چالیس سال کی ہوئی تو اللہ نے آپ ﷺ کو نبوت عطا کی۔سب سے پہلے آپ ﷺپر جو وحی نازل ہوئی،اس میں آپﷺ کو یہ حکم دیا گیا کہ اپنے اللہ کا نام لے کر پڑھ۔چند روز بعد دوسری وحی آئی جس میں آپﷺ کو اسلام کی تبلیغ کرنے کا حکم ملا۔آپ ﷺ نے پہلے تو اپنی جان پہچان اور اعتماد کے لوگوں میں تبلیغ شروع کی۔سب سے پہلے آپ ﷺ کی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا،آپ ﷺ کے دوست حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ، آپ ﷺکے چچا زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپﷺ کے غلام حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔ ان کے بعد قریش کے کچھ اور لوگوں نے بھی اسلام قبول کیا۔پھر وہ لوگ بھی مسلمان ہونے لگے جو قریشی نہیں تھے۔اب تک اسلام کی تبلیغ چھپ چھپ کر کی جاتی تھی۔جب تیس سے زیادہ آدمی مسلمان ہوگئے تو حضور ﷺنے ان کے لئے ایک بڑا سا گھر مقرر فرمادیا۔جہاں سب اکٹھے ہوتے اور حضورﷺ انہیں اسلام کی تعلیم دیتے تھے۔
اس طرح تین سال میں خاصے لوگ مسلمان ہوگئے اور مکے میں اسلام کا چرچا پھیل گیا۔اب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو کھلے عام تبلیغ کا حکم دیا۔آپ ﷺ نے مکہ کی پہاڑی صفا پر چڑھ کرقریش کے قبیلوں کو نام لے لے کر پکارا۔جب سب قبیلے اکٹھے ہوگئے تو آپ ﷺ نے سب سے پہلے تو یہ پوچھا کہ اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ دشمن کا لشکر تم پر حملہ کرنے آرہاہے تو کیا تم میری بات مان لوگے؟سب نے ایک زبان ہو کر کہا کہ بے شک ہم آپ کی خبر کو بالکل سچ سمجھیں گے،کیونکہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔اس پر آپ ﷺ نے فرمایاکہ میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ اگر تم نے اپنے جھوٹے عقیدے نہ چھوڑے تو اللہ کا سخت عذاب تم پر آئے گا۔
حضورﷺ اسی طرح اسلام کی تبلیغ فرماتے رہے۔جب عربوں کو یہ معلوم ہوا کہ اسلام میں بتوں کی پوجا منع کی گئی ہے تو وہ آپﷺ کے خلاف کھڑے ہوگئے اور ان کی ایک ٹولی آپ ﷺکے چچاابوطالب کے پاس آئی کہ وہ آپ ﷺ کو اس قسم کی باتوں سے روکیں یا آپ ﷺ کی مدد کرنی چھوڑدیں۔ابوطالب نے انہیں ٹال دیااور حضور ﷺ اسی طرح اسلام کی تبلیغ کرتے رہے اور لوگوں کو بت پوجنے سے منع کرتے رہے کہ انسان کے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے مٹی کے یہ بت انسانوں کو نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان۔اس لیے ان کے سامنے ماتھا رگڑنے سے کوئی فائدہ نہیں۔عبادت کے لائق صرف اللہ ہے، جو ایک ہے،جس کا کوئی ساجھی نہیں ہے۔اب عرب اور بھڑک اٹھے اور پھرابوطالب کے پاس آئے کہ اپنے بھتیجے کو روکو،ورنہ ہم سب تمہارے خلاف جنگ کریں گے اور تمہیں ختم کرکے رہیں گے یا خود ختم ہو جائیں گے۔
اب جناب ابوطالب نے حضور ﷺ سے اس معاملے میں بات کی۔آپﷺ نے جواب دیا’’خدا کی قسم!اگر وہ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اوربائیں میں چاند بھی لاکر رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں خدا کا پیغام اس کے بندوں کو نہ پہنچاؤں تو میں ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں کروں گا یہاں تک کہ خدا کا سچا دین لوگوں میں پھیل جائے اور یا کم ازکم میں اسی کوشش میں اپنی جان دے دوں۔‘‘
ابوطالب نے جب آپ ﷺ کی یہ بات سنی تو کہا کہ اچھا جاؤ تم اپنا کام کرتے رہو۔میں بھی تمہاری مدد کرنے سے کبھی نہیں ہٹوں گا۔
اب قریش نے دیکھا کہ بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب آپ ﷺکے ساتھ ہیں،حج کا زمانہ آرہا ہے،اس موقعے پر آپ ﷺ اسلام کی تبلیغ زیادہ جوش کے ساتھ کریں گے اور آپ ﷺ جو باتیں کہتے ہیں وہ سننے والوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔اس سے قریش کو یہ دھڑکا لگا کہ اب دین اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے گا۔قریش سر جوڑ کر بیٹھے اور یہ طے کیاکہ مکے کے تمام راستوں پر اپنے آدمی بٹھا دیے جائیں تاکہ باہر سے جو لوگ حج کے لئے آئیں انہیں مکے پہنچنے سے پہلے ہی بتا دیا جائے کہ یہاں ایک جادوگر رہتا ہے جو اپنی باتوں سے باپ کو بیٹے سے، خاوند کو بیوی سے اور لوگوں کو اپنے دوست رشتہ داروں سے جدا کردیتا ہے۔ اس لئے تم اس کے پاس نہ جانا۔
قریش نے یہ تدبیر سوچی تو اس خیال سے تھی کہ اسلام کو پھیلنے سے روکا جائے لیکن اس کا نتیجہ الٹا نکلا۔ویسے تو بہت سے لوگ آپﷺ کا ذکر بھی نہ سنتے،مگر اس طرح قریش نے آپ ﷺ کا ذکر ان تک پہنچا دیا اور ان سب کے دل میں آپﷺ سے ملنے اور آپ ﷺ کی باتیں سننے کا شوق پیدا ہوگیا۔
جب قریش نے اسلام پھیلتے دیکھا تو وہ جل گئے ۔اب انہوں نے حضور ﷺکو طرح طرح کی تکلیفیں دینی شروع کردیں۔حضور ﷺ کو تکلیف دینے والوں میں ابوجہل اور حضورﷺ کے چچا ابولہب آگے آگے تھے۔جب یہ تکلیفیں بھی حضور ﷺ کو اسلام کی تبلیغ سے نہ روک سکیں تو قریش کا سب سے زیادہ ہوشیار سردار حضور ﷺ کے پاس آیا کہ تم جو ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہہ رہے ہو اور ان کی عبادت کرنے سے لوگوں کو روکتے ہو،اس سے تمہاری اصل غرض کیا ہے؟اگر تم دولت چاہتے ہو تو ہم تمہارے لئے اتنا مال اکٹھا کردیں گے کہ تم مکے میں سب سے امیر ہو جاؤ ۔اگر تم قریش کا سردار بننا چاہتے ہوتو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں۔اگر تم بادشاہ بننا چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا سب کا بادشاہ بنا لیں گے۔اگر تم پر کسی جن بھوت کا اثر ہے اور جو کلام تم سناتے ہو وہ اسی جن بھوت کا ہے اور تم اس جن بھوت سے اپنا چھٹکارا نہیں کرا سکتے تو ہم کسی سیانے کو بلا کر تمہارا علاج کرا دیں گے۔
حضورﷺ نے جواب میں قرآن مجید کی صرف ایک سورت سنا دی، جسے سن کر یہ سردار ہکا بکا رہ گیااور اپنی قوم میں واپس آکر کہنے لگا کہ خدا کی قسم!آج میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔خدا کی قسم نہ وہ شعر ہے،نہ نجومیوں کا کلام ہے اور نہ جادو کا کوئی منتر۔ میری مانو تو تم لوگ اس آدمی کو تکلیفیں دینی بند کردو کیونکہ اس نے جوکلام مجھے سنایا ہے اس کی بہت بڑی شان ظاہر ہونے والی ہے۔میں تمہارا بھلا چاہتاہوں۔زیادہ نہیں تو کچھ دن دیکھ لو۔اگر عرب اس پر غالب آگئے تو تم مفت ہی اس تکلیف سے خلاصی پالو گے اور اگر یہ شخص باقی عرب پر غالب آگیا تو اس کی عزت ہماری عزت ہوگی کیونکہ وہ ہمارے ہی قبیلے کا آدمی ہے۔
قریش اپنے سب سے زیادہ ہوشیار سردار کی یہ باتیں سن کر حیران رہ گئے اور یہ سمجھے کہ اس پر محمد(ﷺ) نے جادو کردیا ہے۔
اب قریش نے آپ ﷺ کے ساتھیوں اور عزیزوں کو بھی ستانا شروع کردیا مگر کسی مسلمان کے بھی قدم نہ لڑکھڑائے ۔وہ سب اللہ کی راہ پر جمے رہے۔حضور ﷺنے انہیں اجازت دے دی کہ وہ مکہ چھوڑ کر ملک حبشہ چلے جائیں۔اس پر کچھ مسلمان مرد اور عورتیں حبشہ ہجرت کر گئے۔وہاں کے بادشاہ نجاشی نے ان کا حال سنا تو ان کی بہت عزت کی۔یہ مسلمان مہاجر حبشہ میں امن و امان کے ساتھ رہنے لگے۔جب قریش کو اس کی خبر ہوئی تو دو آدمی نجاشی کے پاس پہنچے کہ یہ لوگ جو مکے سے آپ کے ملک میں آئے ہیں،بڑے فسادی ہیں،انہیں اپنے ملک میں نہ رہنے دیجئے،انہیں ہمارے حوالے کردیجئے۔
نجاشی نے مسلمان مہاجروں کو بلا کر ان کا مذہب پوچھا تو حضورﷺ کے چچاابوطالب کے بیٹے حضرت جعفررضی اللہ عنہ نے بتایا کہ پہلے ہم بت پوجتے تھے،مردار کھاتے تھے،ہم میں ہر برائی تھی،ہم کمزوروں پر ظلم کرتے تھے۔ اللہ نے ہماری ہدایت کے لئے ایک نبیﷺ بھیجا۔وہ ہمارے ہی کنبے سے ہے۔وہ سچا اور دیانت دار ہے۔امانت میں خیانت نہیں کرتا۔انہوں نے ہم سے کہا کہ اللہ ایک ہے۔ اس کا کوئی ساجھی نہیں۔عبادت اسی کی کرنی چاہیے۔بتوں کو پوجنا چھوڑدو۔سچ بولو۔عزیزوں رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو۔پڑوسیوں سے اچھا برتاؤ کرو۔بری باتیں چھوڑدو۔خون نہ بہاؤ۔ جھوٹ نہ بولو۔ یتیم کا مال نہ کھاؤ۔نماز پڑھو۔روزہ رکھو۔ زکوٰۃ دو۔ حج کرو۔ ہم ان باتوں پر ایمان لے آئے۔
حضرت جعفررضی اللہ عنہ سے دین اسلام کی یہ باتیں سن کر نجاشی مسلمان ہوگیا۔مکے سے قریش کے جو دو آدمی مسلمان مہاجروں کوحبشہ سے نکلوانے کے لئے آئے تھے،نجاشی نے ان کی بات نہ مانی ۔مسلمانوں کو ان کے حوالے نہ کیااور ان دونوں کو واپس بھیج دیا۔یہ مسلمان مہاجر کوئی تین مہینے حبشہ میں امن و امان کے ساتھ رہ کر واپس آگئے۔
اب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی مسلمان ہو چکے تھے۔ اس سے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھ گیا۔وہ اب تک قریش کے ظلم کے ڈر سے اپنا مسلمان ہونا ظاہر نہ کرتے تھے۔اب وہ اپنے مسلمان ہونے کے بارے میں کھلم کھلا بتانے لگے۔اسلام اب اور بھی تیزی سے پھیلنے لگا۔
قریش سے یہ حالت دیکھی نہ گئی اور انہوں نے حضور ﷺ کے خاندان والوں سے کہاکہ محمد ﷺ کو ہمارے سپرد کردو، ہم اس سے خود نبٹ لیں گے۔ورنہ ہم تم سے تعلق توڑ لیں گے۔حضورﷺ کے خاندان بنی ہاشم نے آپ ﷺ کو قریش کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔اس پر قریش نے بنی ہاشم سے رشتے ناتے اور ہر طرح کا لین دین بند کردیا۔نہ ان سے کوئی چیز خریدتے اور نہ ان کے ہاتھ کوئی چیز بیچتے۔اور یہ ساری باتیں لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکا دیں۔
خاندان بنی ہاشم کے سب لوگ،چاہے وہ مسلمان ہوئے تھے یا نہیں ہوئے تھے، حضورﷺ کے ساتھ مکے کے پاس ایک پہاڑ کی گھاٹی میں قید کر دئیے گئے۔صرف آپ ﷺکا ایک چچا ابولہب قید نہیں کیا گیا،کیونکہ وہ حضور ﷺ اور اسلام کی دشمنی میں باقی قریش کے ساتھ آگے آگے تھا۔اس گھاٹی تک آنے جانے کے سب راستے بندکردئیے گئے۔بنی ہاشم کھانے پینے کا جو سامان ساتھ لے گئے تھے، وہ آہستہ آہستہ ختم ہو گیا،یہاں تک کہ درخت کے پتے کھانے کی نوبت آگئی۔
یہ حالت دیکھ کر حضور ﷺ نے مسلمانوں کو پھر حبشہ چلے جانے کے لئے کہا۔اس دفعہ پہلے سے کہیں زیادہ مسلمان مکے سے حبشہ چلے گئے۔پھر یمن کے مسلمان بھی وہاں چلے گئے۔
ادھر حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے عزیزوں اورساتھیوں نے تین سال پہاڑ کی اس گھاٹی میں بہت تکلیف اور مصیبت کے ساتھ گزارے۔ اب اللہ نے بعض کافروں ہی کے دل میں رحم ڈالا۔ ان کے زور دینے پر بنی ہاشم کا گھیراؤ ختم کردیا گیا اور وہ پہاڑ کی اس گھاٹی سے واپس اپنے گھروں میں آگئے۔
حضور ﷺ کی نبوت کو دس سال ہوئے تھے کہ آپ ﷺ کے سرپرست چچا ابوطالب وفات پاگئے اور اس کے تین ہی دن بعد حضورﷺ کی بیوی حضرت خدیجہ بھی فوت ہو گئیں۔اب قریش آپ ﷺ کوپہلے سے زیادہ ستانے لگے اور آپ ﷺمکے کے لوگوں سے ناامید ہو کر اپنے غلام حضرت زید بن حارث کے ساتھ اسلام کی تبلیغ کے لئے طائف تشریف لے گئے۔وہاں ایک مہینہ رہے لیکن وہاں کا ایک آدمی بھی مسلمان نہ ہوا۔ طائف والوں نے اپنے شہر کے چندلفنگے حضور ﷺ کے پیچھے لگا دئیے جو آپ ﷺ پر پتھر برساتے، جس سے آپ کے پاؤں زخمی ہوجاتے۔حضرت زید آگے بڑھ کرپتھروں کو روکتے،پتھر ان کے سر پر لگتے، جس سے ان کے سر سے خون بہنے لگا۔آخر آپ ﷺ ایک مہینے بعد مکے واپس آگئے۔آپ ﷺ کے ٹخنے لہولہان تھے۔حضرت زید نے کہا بھی، لیکن آپ ﷺ نے طائف والوں کے لئے کوئی بددعا نہ کی۔حضورﷺ کی یہ شان نہیں تھی کہ وہ کسی کا برا چاہتے۔وہ تو سب کے لئے رحمت بن کر آئے تھے۔
مکے والوں سے تو آپ ﷺ پہلے ہی ناامید ہو چکے تھے۔اب طائف کے لوگوں کے سلوک نے آپ ﷺ کو اور نا امید کردیا۔اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو معراج کی عزت بخشی۔
دس سال تک حضور ﷺ عرب کے قبیلوں کو دعوت دیتے رہے مگر وہ اس کے جواب میں آپ ﷺ کو ہر طرح ستاتے رہے اور آپ ﷺ کا مذاق اڑاتے رہے۔نبوت کے دسویں سال حج کے دنوں میں مدینے سے دو آدمی مکے آکر آپ ﷺ کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئے۔ اگلے سال مدینے سے چھ یا آٹھ آدمی آکر مسلمان ہو گئے۔اس سے اگلے سال حج کے موقعے پر مدینے کے کچھ اور لوگ مسلمان ہو گئے۔ اب مدینے میں جگہ جگہ اسلام کا چرچا ہونے لگا اور نبوت کے تیرہویں سال مدینے سے بہتر(۷۲)مسلمان حج کرنے مکے آئے۔ان میں ستر آدمی اور دو عورتیں تھیں۔انہوں نے حضور ﷺ سے مدینے چلے آنے کی درخواست کی اور آپ ﷺ کی حفاظت کا ذمہ لیا۔
مکے کے قریش کو جب مدینے کے لوگوں کے اس طرح مسلمان ہونے کی خبر ہوئی تو ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور انہوں نے مسلمانوں کے ستانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس پر حضور ﷺنے مسلمانوں کو مکے سے مدینے چلے جانے کی صلاح دی۔چنانچہ وہ ایک ایک دو دو کرکے مدینے چلے گئے۔آخر میں حضور ﷺ،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور تھوڑے سے ایسے مسلمان مکے میں رہ گئے جو مدینے کے سفر کا خرچ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اب قریش آپس میں مشورے کرنے لگے کہ حضورﷺ سے کیا سلوک کیا جائے ۔کسی نے قید کرنے کی اور کسی نے مکے سے نکال دینے کی صلاح دی۔ابوجہل نے حضور ﷺ کو قتل کردینے کی رائے دی اور کہا کہ اس قتل میں ہر قبیلے کا ایک آدمی شریک ہو تاکہ حضورﷺ کا قبیلہ بدلہ لینے کی ہمت ہی نہ کرسکے۔سب نے یہ رائے پسند کی اورہر قبیلے سے ایک جوان اس کام کے لئے مقرر کردیا کہ فلاں رات یہ کام کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو کافروں کی اس سازش کی خبر کردی اور آپﷺ کو مکے سے ہجرت کر جانے کا حکم دے دیا۔قریش نے جس رات کے لئے اپنی ناپاک سازش بنائی تھی ،اس رات قریش کے مختلف قبیلوں کے بہت سے نوجوانوں نے آپ ﷺ کے مکان پر گھیرا ڈال لیا۔حضور ﷺ نے اس وقت مکے سے چلے جانے کا ارادہ فرمالیااور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ارشاد کیا کہ تم میری چارپائی پر میری جگہ میری ہی چادر اوڑھ کر سوجاؤ تاکہ کافروں کو یہی خیال رہے کہ میں گھر ہی میں ہوں۔
اس کے بعدآپﷺ سورہ یٰسین پڑھتے ہوئے باہر تشریف لائے۔مکان کے چاروں طرف دشمن جمع تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان پر ایسی نیند چھائی کہ انہیں حضورﷺ کے جانے کا پتہ نہ چلا۔آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ چلنے کا پہلے ہی حکم دے رکھا تھا۔حضور ﷺان کے گھر تشریف لے گئے،وہ تیار تھے۔
آپ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکان کی ایک پچھلی کھڑکی سے باہر نکل کر کوہ ثور کی طرف روانہ ہوگئے۔یہ مکے کے پاس ہی ایک پہاڑ ہے۔آپ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس پہاڑ کے ایک غار میں جاکر ٹھیر گئے۔کافر حضور ﷺ کے مکان کے باہر صبح تک آپ ﷺ کے باہر نکلنے کا انتظار کرتے رہے۔جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ حضوﷺ تو صحیح سلامت نکل گئے ہیں اور آپ ﷺکی جگہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ ﷺکی چارپائی پر ہیں تو وہ سخت پریشان ہوئے اور چاروں طرف اپنے آدمی دوڑا دئیے کہ آپ ﷺ کو ڈھونڈیں۔حضور ﷺ کو پکڑنے والے کے لئے سو اونٹ کا انعام رکھ دیا۔انعام کے لالچ میں بہت سے آدمی نکل پڑے۔کچھ کھوج لگانے والے آپ ﷺ کے قدموں کے نشانوں کا پیچھا کرتے ہوئے ٹھیک اس غار کے منہ تک بھی پہنچ گئے،جہاں حضرت ابوبکر ﷺصدیق کے ساتھ آپ ﷺموجود تھے۔ ان کے قدموں کی آہٹ سے حضرت ابوبکر ڈرے کہ اب پکڑے جائیں گے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گھبراؤ نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔اللہ کا کرنا،ان کافروں میں سے کسی کو بھی غار کے اندرجھانکنے کی نہ سوجھی کیونکہ اللہ کے حکم سے اس غار کے دروازے پر رات ہی رات میں مکڑی نے جالا تن دیا تھااور جنگلی کبوتر نے گھونسلا بنالیا تھا۔
رسول کریم ﷺ اور حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اس غار میں تین دن رات چھپے رہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مدینے جانے کے لئے دو اونٹنیاں بھی منگوا رکھی تھیں۔تیسرے دن ان کا ایک غلام اونٹنیاں لے کر غار پر پہنچ گیا۔راستہ بتانے کے لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی بھی اجرت پر رکھ لیا تھا۔ وہ بھی تیسرے دن غار ثور پر پہنچ گیا۔حضورﷺ ایک اونٹنی پر بیٹھ گئے اورحضرت ابوبکر صدیق دوسری پر۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خدمت کے لئے اپنے غلام کو بھی ساتھ بٹھا لیا۔راستہ بتانے والا آگے آگے چلا۔
حضورﷺ مدینے کے نزدیک ایک جگہ رک گئے ۔اس جگہ کا نام قباء ہے۔مدینے کے مسلمان کئی دن سے مدینے سے باہر جمع ہو کر آپ ﷺ کی راہ دیکھ رہے تھے۔آپ ﷺ کو تشریف لاتے دیکھ کر ان میں خوشی اور جوش کی لہر دوڑ گئی۔آپ ﷺ چودہ روز قباء میں ٹھیرے اور یہاں ایک مسجد کی بنیاد رکھی ۔یہ سب سے پہلی مسجد ہے جو اسلام میں بنائی گئی۔
مکے کے قریش ویسے تو آپ ﷺ پر ایمان نہیں لاتے تھے لیکن اپنی امانتیں آپ ﷺ ہی کے پاس رکھتے تھے۔آپﷺ نے مکے سے چلتے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس لئے پیچھے چھوڑا تھا کہ حضور ﷺکے پاس لوگوں کی جو امانتیں تھیں ، وہ انہیں واپس کردیں اور پھیر مدینے چلے آئیں۔
ہجری سن اسی ہجرت کی تاریخ سے شروع ہوتا ہے۔
حضورﷺ قبا میں چودہ دن ٹھیرنے کے بعد مدینے تشریف لے آئے۔مدینے کا ہر مسلمان یہ چاہتا تھا کہ حضورﷺ میرے ہاں ٹھیریں۔مگر آپ ﷺنے فرمایا کہ اونٹنی جہاں آپ ہی آپ ٹھیرے گی، وہیں میں ٹھیروں گا۔اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان کے سامنے رک گئی،چنانچہ آپ ﷺ انہیں کے ہاں ٹھیر گئے اور کافی دن وہیں رہے۔
اس وقت مدینے میں کوئی مسجد نہیں تھی۔جس جگہ آپ ﷺ کی اونٹنی بیٹھی تھی ،اسے خرید کر وہاں مسجد بنائی گئی۔اس کی دیواریں کچی اینٹوں کی، ستون کھجور کی لکڑی کے اور چھت کھجور کی ٹہنیوں سے بنائی گئی تھی۔یہی مسجد نبوی ہے۔
مدینے میں بھی مکے کے کافروں نے آپ ﷺ کو آرام سے نہ بیٹھنے دیا۔وہ آپ ﷺ کے اور مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کے منصوبے بناتے ۔آخر اللہ تعالیٰ نے کافروں کے خلاف تلوار اٹھانے کا حکم دے دیا۔بعض جنگوں میں تو حضورﷺ خود شریک ہوئے،انہیں غزوہ کہتے ہیں اور بعض جنگوں میں حضور ﷺ خود تشریف نہیں لے گئے۔بلکہ اپنے خاص خاص صحابہ کو سالار بنا کر لشکر روانہ فرمائے۔ان جنگوں کوسریہ کہتے ہیں۔غزووں کی تعداد تئیس ہے۔ان میں سے نو میں لڑائی ہوئی ،باقی میں نہیں۔جن جنگوں پر حضورﷺ خود تشریف نہیں لے گئے ان کی کل تعداد تینتالیس ہے۔مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔ان کے پاس جنگ کا سامان بھی پورا نہیں ہوتا تھا،اور جوہوتا بھی تھا وہ زیادہ تر پرانا اور ٹوٹا پھوٹا ہوتا تھا۔پھر بھی ان سب لڑائیوں میں مسلمان جیتتے رہے۔صرف غزوۂ احد ہی ایک ایسا غزوہ ہے جس میں پہلے تو مسلمانوں کی جیت ہوئی،پھر ان میں سے ایک ٹولی نے حضورﷺ کے حکم کے خلاف ایک درہ چھوڑ دیا، جس سے مسلمانوں کی جیت ہار میں بدل گئی۔
سب سے پہلا غزوہ بدر کے مقام پر ہوا۔یہ ہجرت کے دوسرے سال ۱۷ رمضان کو ہوا۔اسی سال روزے فرض ہوئے تھے۔بدر کی فتح کی خوشی میں اللہ نے یہ حکم دیا کہ رمضان کا مہینہ ختم ہونے کے دوسرے دن عید منائی جائے، جو تب سے ساری دنیا کے مسلمان مناتے چلے آرہے ہیں۔
ہجرت کے پانچویں سال حج فرض ہوا۔اگلے سال ذی قعدہ کے مہینے کے شروع میں آپ ﷺ نے عمرہ کرنے کا ارادہ کیااور اپنے ساتھ چودہ پندرہ سو صحابہ لے کر مکے روانہ ہوئے۔مکے کے قریب حدیبیہ نامی ایک کنویں کے پاس پڑاؤ کیا۔اس کنویں کے نام پر اس گاؤں کا نام بھی حدیبیہ ہے۔
یہاں پہنچ کر آپ ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مکے بھیجا کہ قریش کو بتادیں کہ آنحضرت ﷺ اس وقت صرف خانہ کعبہ کی زیارت اور عمرہ کے لئے آرہے ہیں، اس کے سوا اور کوئی غرض نہیں۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو کافروں نے مکے میں روک لیا اور یہ مشہور ہوگیا کہ انہیں کافروں نے شہید کردیاہے۔نبی کریم ﷺ نے جب یہ سنا تو آپ ﷺ نے ببول کے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر صحابہ سے بیعت لی کہ جہاد کریں گے۔اسے بیعت رضوان کہتے ہیں۔
بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے شہید ہونے کی خبر غلط تھی۔قریش نے اپنا ایک آدمی صلح کرنے کے لئے حضورﷺ کے پاس حدیبیہ بھیجا۔نیچے لکھی ہوئی شرطیں طے پائیں اور دس سال کے لئے صلح ہوگئی،جسے صلح حدیبیہ کہتے ہیں:
۱۔مسلمان اس وقت عمرہ کئے بغیر واپس چلے جائیں۔
۲۔اگلے سال صرف تین دن کے لئے آئیں اور اس کے بعد واپس چلے جائیں۔
۳۔اگلے سال آئیں تو ہتھیار لگا کر نہ آئیں۔اگر تلوار ساتھ ہوتو اسے نیام میں رکھیں۔
۴۔مکے سے کسی مسلمان کواپنے ساتھ نہ لے جائیں۔
۵۔اگر کوئی مسلمان مکے میں رہنا چاہے تو اسے روکیں نہیں۔
۶۔اگر کوئی شخص مکے سے مدینے چلا جائے تو اسے واپس کردیا جائے۔
۷۔اگر مدینے سے کوئی شخص مکے آجائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔
یہ تمام شرطیں مسلمانوں کے خلاف جاتی تھیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مسلمانوں نے دب کر صلح کی ہے۔صحابہ کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی کہ اس طرح دب کر صلح کی جائے لیکن حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھے خدا کا یہی حکم ہے اور اسی میں مسلمانوں کی بہتری ہے۔
بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ اس صلح کے بارے میں حضور ﷺنے بالکل صحیح فرمایا تھا۔اس صلح نے مکے اور مدینے کے لوگوں کے درمیان آنے جانے کا راستہ کھول دیا۔کافر آپ ﷺ کی خدمت میں اور مسلمانوں کے پاس آنے جانے لگے۔اس میل جول میں مسلمانوں کے عمدہ برتاؤ کا کافروں پر اتنا اثر ہوا کہ وہ دھڑا دھڑ مسلمان ہونے شروع ہوگئے۔اس طر ح صلح حدیبیہ سے مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوا اور آخر مسلمانوں نے مکہ فتح کرلیا۔
مسلمان صلح حدیبیہ پر پوری طرح عمل کرتے رہے مگر قریش نے ۸ ہجری میں اسے توڑ دیا۔رسول کریم ﷺ نے اپنا ایک آدمی قریش کے پاس بھیجا کہ اگر اس معاہدے کو باقی رکھنا ہے تو کچھ نئی شرطیں ماننی ہوں گی،کیونکہ تم نے پہلی شرطوں کا پاس نہیں کیا۔اگر یہ نئی شرطیں منظور نہیں تو صلح حدیبیہ ختم۔قریش نے جواب دیا کہ صلح حدیبیہ ختم کردی جائے۔اس پر حضور ﷺ نے جہاد کی پوری تیاری شروع کردی اور دس(۱۰) رمضان المبارک ۸ ہجری کو دس ہزار صحابہ کے ساتھ مدینے سے مکہ روانہ ہوئے۔مکہ پہنچ کر آپ ﷺ نے اعلان فرمایا کہ جو شخص خانہ کعبہ کی مسجد میں داخل ہو جائے،اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اسے بھی کچھ نہیں کہا جائے گا اور جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرکے اندر بیٹھ رہے اسے بھی کچھ نہیں کہا جائے گا۔۲۰ رمضان المبارک کو جمعے کا دن تھا۔اسی روز آپ ﷺ نے خانہ کعبہ کا طواف کیا۔کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے،آپ ﷺکے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی۔جب آپﷺ کسی بت کے پاس سے گزرتے تو اس لکڑی سے بت کی طرف اشارہ کرتے اور وہ بت منہ کے بل گرپڑتا۔حضورﷺ کی زبان پر یہ آیت جاری تھی:’’جَاءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقاً‘‘یعنی سچ آیا اور جھوٹ بھاگ گیا،دراصل جھوٹ ہے ہی بھاگ جانے والا۔
خانہ کعبہ کے طواف کے بعد حضور ﷺ نے نماز پڑھی۔اس کے بعد قریش سے فرمایاکہ تم ہر طرح آزاد ہو،تم سے کچھ نہیں کہا جائے گا۔کعبے کی کنجی جس شخص کے پاس تھی،اسی کے پاس رہنے دی۔
ابوسفیان اب تک حضورﷺ کا سب سے بڑا دشمن تھا۔مسلمانوں کے خلاف تمام لڑائیوں میں قریش کا سپہ سالار وہی ہوتاتھا۔مکہ مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونے سے پہلے وہ اسلامی لشکر کی سن گن لینے مکے سے باہر آیا تھا، صحابہ نے اسے پکڑ کر حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔ آپ ﷺ نے اسی معافی دے دی۔اس کا ثر یہ ہوا کہ ابوسفیان نے وہیں اسلام قبول کرلیا۔حضور نے مکہ پہنچ کر اعلان فرمادیا کہ جو شخص ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے لے،اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔
فتح مکہ کے دن ایک شخص ہانپتا کانپتا حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ ٹھیرو،اطمینان رکھو۔میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں، بلکہ ایک معمولی عورت کا بیٹا ہوں۔
فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ پندرہ روز مکے میں رہے۔انصار کو یہ خیال ہوا کہ اب حضورﷺ مکے ہی میں رہ جائیں گے اور ہم آپ ﷺ سے دور ہو جائیں گے۔جب حضورﷺ کو ان کے اس خیال کی خبر ہوئی توآپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اب تو ہمارا تمہارا جینے مرنے کا ساتھ ہے اور مدینے واپس چلے گئے۔ 
فتح مکہ کے بعد تقریباً سارا عرب مسلمان ہو گیا۔ان میں سے اکثر وہ لوگ تھے جو دل سے تو اسلام کو سچا دین سمجھتے تھے، لیکن مکے کے قریش کے ڈر سے اپنے ایمان کا اعلان نہیں کرتے تھے۔اب جو مکہ فتح ہوا تو وہ سب کے سب کھلم کھلا مسلمان ہو گئے۔البتہ ہوازن اور ثقیف کے قبیلے مسلمان نہ ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے مکے پر چڑھائی کر دی۔حضور ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپﷺ بارہ ہزار کا لشکر لے کر مقابلے کے لئے نکلے۔ان میں دس ہزار تو مدینے کے وہ مسلمان تھے جو حضور ﷺ کے ساتھ مکے آئے تھے اور دو ہزار وہ نو مسلم تھے جوفتح مکہ کے دوران مسلمان ہوئے تھے۔اب تک مسلمانوں نے جتنی جنگیں لڑی تھیں، ان میں سے کسی میں بھی مسلمان لشکر کی تعداد اتنی زیادہ نہ تھی۔حنین کی وادی میں کافروں سے مقابلہ ہوا،گھمسان کا رن پڑا۔پہلے تو مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے لیکن آخر میں فتح مسلمانوں ہی کو ہوئی۔مسلمانوں نے بدلہ لینے کے جوش میں کافروں کی عورتوں اور بچوں کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن آپ ﷺ نے روک دیا۔
ہجرت کے دسویں سال ذی قعدہ کی ۲۵ تاریخ کو حضور ﷺ حج کے لیے مکے چلے ۔ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔۴ذی الحج کومکے میں داخل ہوئے اور حج کیا۔ذی الحج کی ۹ تاریخ کو عرفات کے مقام پر آپ ﷺ نے جو خطبہ دیا وہ خدا کے آخری رسول ﷺ کا آخری پیغام تھا،کیونکہ اس سے اگلے سال حضورﷺ وصال فرماگئے۔چنانچہ اس حج کو حجۃ الوداع کہتے ہیں۔آپ ﷺ نے عرفات کے اس خطبے میں فرمایا’’اے لوگو! میرا کلام سنو تاکہ میں تمہارے لئے تمام ضروری باتیں بیان کر دوں۔نہ معلوم کہ اگلے سال میں پھر تم سے مل سکوں یا نہیں۔‘‘
اس کے بعد فرمایا:
’’دیکھو یادرکھنا کہ میں آج کے دن جاہلیت کے زمانے کی تمام رسمیں اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں۔اور یاد رکھنا کہ تم سب کا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے۔تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے پرہیزگار ہے۔کسی عربی کو کسی عجمی(غیرعربی) پر یا عجمی کو عربی پر،کالے کو گورے پر یا گورے کو کالے پر،پرہیزگاری کے سوا اور کوئی بڑائی نہیں ہوسکتی۔
اے لوگو! مسلمان سب بھائی بھائی ہیں۔کسی شخص کیلئے اپنے بھائی کا مال اس کی خوشی(رضامندی) کے بغیرحلال نہیں۔مسلمان کی جان، مال اور آبرو تم پر قیامت تک اسی طرح حرام ہیں جس طرح اس دن (عرفہ)،اس مہینے(ذی الحجہ)اور اس شہر(مکہ معظمہ) کی حرمت(عزت)ہے۔اس لئے جس شخص کے پاس کسی کی امانت ہو وہ اس کو واپس کر دے۔قرض ادا کیا جائے۔ ادھار کی ہوئی چیزیں واپس کی جائیں۔جو کسی کی ضمانت دے تاوان وہی دے گا۔
اے لوگو! عورتوں کے بارے میں خدا سے ڈرو۔بے شک تمہارے(مردوں کے )حق عورتوں پر ہیں لیکن اسی طرح عورتوں کے حق تم(مردوں) پر ہیں۔اپنے غلاموں کا خیال رکھو۔ جو خودکھاؤ وہی انہیں کھلاؤ۔جو خود پہنو وہی انہیں پہناؤ۔
اے لوگو! میرے بعد تم راہ سے بھٹک نہ جانا کہ ایک دوسرے کا گلا کاٹنے لگو۔تمہیں جلد خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور تم سے تمہارے ایک ایک عمل کی بابت پوچھا جائے گا۔
میں جاہلیت کے زمانے کے تمام خون آج مٹا رہا ہوں اور سب سے پہلے اپنے چچازاد بھائی ربیعہ بن حرث کے بیٹے کا خون چھوڑتا ہوں۔میں جاہلیت کے زمانے کے تمام سود باطل(ناجائز)قراردیتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کا سود ختم کرتا ہوں۔
جو شخص اپنا حسب نسب بدلے اس پر خدا کی لعنت ہے۔خدا نے وراثت کے ذریعے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے۔اب وراثت(یعنی وارثوں) کے حق میں وصیت جائز نہیں۔
میں تم میں وہ چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اس کے حکموں کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے تو کبھی بھٹکو گے نہیں۔یہ چیز اللہ کی کتاب (قرآن مجید)ہے۔اگر چھدی ہوئی ناک والا حبشی بھی تمہارا امیر ہے اور وہ تم سے اللہ کی کتاب پر عمل کرنے کو کہے تو اس کی بات سننا اور اس کا حکم ماننا۔دین میں حد سے بڑھ جانا بہت برا ہوتا ہے۔تم سے پہلی امتیں دین میں حد سے بڑھ جانے ہی کی وجہ سے تباہ ہوئیں۔
لوگو!نہ میرے بعد کوئی اور پیغمبر ہے اور نہ کوئی نئی امت بننے والی ہے۔خوب سن لو،اپنے رب کی عبادت کرو۔دن میں پانچ وقت کی نماز پابندی سے پڑھو۔رمضان کے مہینے کے روزے رکھو۔مال کی زکوٰۃ خوشی خوشی دیا کرو۔ اللہ کے گھر کا حج کرو۔ان عملوں کا اجر یہ ہے کہ اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤگے۔‘‘
آخر میں فرمایا’’یاد رکھو کہ میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا۔بتاؤ تم کیا جواب دوگے؟‘‘
لوگوں نے جواب میں عرض کیا’’ہم کہیں گے کہ آپ ﷺ نے خدا کا پیغام پہنچادیا اور اپنا فرض اداکردیا۔‘‘
اس پر آپ ﷺ نے اپنی کلمے کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور تین بار فرمایا’’اے خدا! تو گواہ رہنا۔‘‘پھر حاضرین سے کہا کہ یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچا دیں جو اس وقت یہاں موجود نہیں ہیں۔
عین اس موقعے پر یہ آیت نازل ہوئی کہ آج میں (اللہ)نے تمہارے (بنی نوع انسان کے)لئے دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی(یعنی اللہ نے اپنی بندوں کو جو نعمتیں عطا کرنی تھیں وہ سب عطا کردیں)اور تمہارے (یعنی اپنی بندوں) کے لئے دین (کے طور پر) اسلام پسند کیا۔
گہری نظر رکھنے والے صحابہ اس آیت سے یہ بھانپ گئے کہ اللہ نے جو کام اپنے پیارے نبی ﷺ کو سونپا تھا، وہ انہوں نے پورا کردیا،اس لئے اب وہ جلد ہی اپنے اللہ کے پاس واپس چلے جائیں گے۔چنانچہ اس خیال سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ رونے لگے کہ حضور ﷺ اب زیادہ عرصہ ہمارے درمیان نہیں رہیں گے۔
حج کے بعد حضور ﷺ دس روز مکے میں رہے اور پھر واپس مدینے آگئے۔۲۶ صفر ۱۱ ہجری کو آپ ﷺ نے ایک لشکر روم کے جہاد کے لئے تیار کیا۔اس لشکر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ،حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ،جیسے بڑے بڑے آدمی شامل تھے۔آپ ﷺ نے اس لشکر کا سالار اپنے غلام حضرت زید رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا۔یہ آخری لشکر تھا جس کی روانگی کا انتظام حضور ﷺ نے خود فرمایا تھا مگر یہ لشکر ابھی روانہ نہ ہوا تھا کہ اٹھائیس صفر کی رات کو حضور ﷺ کو بخار ہو گیا جو تیرہ دن لگاتار رہا اور اسی میں آپ ﷺ نے پیر کے دن ،ربیع الاول کی ۱۲ تاریخ کو،تریسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی۔
جب بیماری بڑھ گئی تو حضور ﷺ کی ہدایت پرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز کی امامت کرتے رہے۔ اپنی اس بیماری میں حضور ﷺ اپنی باقی بیویوں کی اجازت سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں رہے ۔اسی دوران ایک روز حضور ﷺ نے مسجد میں آکر خطبہ دیا، جس میں فرمایا:
’’اے لوگو!مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اپنے نبی کی موت سے ڈر رہے ہو۔کیا مجھ سے پہلے کوئی نبی ہمیشہ رہا ہے جو میں رہتا!ہاں،میں اپنے پروردگار سے ملنے والا ہوں اور تم مجھ سے ملنے والے ہو، البتہ تمہارے مجھ سے ملنے کی جگہ حوض کوثر ہے۔پس جو شخص یہ پسند کرے کہ قیامت کے روز حوض سے سیراب ہوتواسے چاہئے کہ اپنے ہاتھ اور زبان کو بے معنی اور بے ضرورت باتوں سے روکے۔میں تمہیں مہاجروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور مہاجروں کو آپس میں اچھا سلوک کرنے اور اتفاق رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔
جب لوگ اللہ کی اطاعت کرتے ہیں تو ان کے حاکم اور بادشاہ ان کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔اور جب وہ اپنے پروردگار کا کہنا نہیں مانتے تو وہ (یعنی ان کے حاکم)ان کے ساتھ بے رحمی کرتے ہیں۔‘‘
۱۲ ربیع الاول کی صبح کو مسجد نبوی میں مسلمان حضرت ابوبکر صدیق کے پیچھے فجر کی نماز پڑھ رہے تھے۔ حضور ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے حجرے کا پردہ کھول کر باہر آئے ،نمازیوں کی طرف دیکھا اور مسکرائے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے۔آپ ﷺ نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکا کہ نماز پوری کرو۔خود واپس حجرے میں تشریف لے گئے اور حجرے کے دروازے پر پھر پردہ کردیا۔اس کے بعد آپ ﷺپھر باہر تشریف نہیں لائے۔اور اس روز ظہر کے بعد اپنے اللہ سے جا ملے۔
اس بیماری کے دوران آپ ﷺ کبھی کبھی اپنا چہرہ مبارک سے چادر اٹھا کر فرماتے تھے کہ’’یہود و نصاریٰ پر اس لئے خدا کی لعنت آئی ہے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیاہے۔‘‘
حضور ﷺ کی وفات کی خبر سے صحابہ پریشان ہوگئے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تو تلوار نیام سے نکال کر مسجد نبوی میں چکر کاٹنے لگے اور یہ کہنا شروع کردیاکہ اگر کسی نے کہا کہ حضور ﷺ وفات پاگئے ہیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔اتنے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔انہوں نے لوگوں کو صبر کی تلقین کی اور فرمایا کہ ’’جو شخص محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھاوہ سن لے کہ محمد ﷺ وفات پاگئے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ سمجھ لے کہ اللہ آج بھی زندہ ہے۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے یہ بات سن کر صحابہ کی پریشانی دور ہوئی۔
تیسرے دن،یعنی بدھ کو رات کے وقت حضور ﷺ کی میت کو غسل دے کر کفن پہنایا گیا۔نماز جنازہ پڑھی گئی۔اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے حجرے میں جہاں آپ ﷺ کی وفات ہوئی تھی،اسی جگہ قبر کھود کر آپ ﷺ کو دفن کردیا گیا۔
آپ ﷺ سب سے زیادہ بہادر اور سخی تھے،کبھی کسی کو بددعا نہیں دی، یہاں تک کہ جو کافر آپ ﷺ کو طرح طرح کی اور سخت سے سخت تکلیف پہنچاتے تھے ، ان کو بھی بددعا نہیں دی۔آپ ﷺ فرماتے کہ میں رحمت بن کر آیا ہوں، عذاب بن کر نہیں آیا۔
آپ ﷺ نے اور آپﷺ کے اہل بیت نے جوکی روٹی بھی کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی۔آپ ﷺ کے گھر والوں پر دودومہینے اسی حالت میں گزر جاتے کہ چولہے میں آگ تک نہ جلتی تھی، صرف چھوہاروں اور پانی پر گزر ہوتی تھی۔آپ ﷺ اپنا جوتا خود سی لیتے۔
پیوند لگا کر کپڑا پہننے میں کوئی شرم محسوس نہ کرتے اور کپڑوں میں پیوند خود ہی لگا لیتے تھے۔گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے تھے، بیماروں کا حال پوچھنے تشریف لے جاتے،جب کوئی آدمی آپ ﷺ کو دعوت دیتا تو وہ امیر ہوتا یا غریب ،آپ ﷺ اس کے ہاں تشریف لے جاتے۔کسی غریب کو اس کی غریبی کی وجہ سے چھوٹا نہ سمجھتے تھے۔اور کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے بھی رعب میں نہ آتے۔جانور پر سواری کرتے تو اپنے پیچھے اپنے غلام وغیرہ کو بٹھا لیتے تھے۔موٹے کپڑے اور گانٹھیں لگے ہوئے جوتے پہنتے تھے۔سفید رنگ کے کپڑے آپ ﷺ کو زیادہ پسند تھے۔غریبوں کے ساتھ چلنے پھرنے اور اٹھنے بیٹھنے کو برا نہ سمجھتے تھے۔کسی سے سختی سے بات نہ کرتے،پڑوسیوں کا خیال رکھنے پر آپ ﷺ بہت زیادہ زور دیتے۔اللہ کی فرماں برداری کے بعدآپ ﷺ ماں باپ کی خدمت کی تاکید فرماتے۔ایک بار ایک صحابی نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ مجھے جنت میں جانے کا طریقہ بتائیے۔آپ ﷺ نے فرمایا ماں باپ کی خدمت کرو۔اس صحابی نے تین بار یہی سوال کیا اور حضور ﷺ تینوں بار یہی جواب دیا۔
آپ ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہے جو رہتی دنیا تک ہدایت ہے۔جو اس پر عمل کرے گا وہ دین اور دنیا دونوں جگہ بھلائی پائے گا۔
حضورﷺ کا ارشاد ہے:
۔۔۔۔اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہ کرے۔
۔۔۔۔چغل خور جنت میں نہ جائے گا۔
۔۔۔۔مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے کسی مسلمان کو دکھ نہ پہنچے۔
۔۔۔۔پہلوان وہ نہیں جو دوسروں کو پچھاڑ دے بلکہ وہ ہے جو غصے میں اپنے آپ پر قابو رکھے۔
۔۔۔۔مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلق توڑے رکھے۔
۔۔۔۔مومن کو ایک ہی سورخ سے دوبار نہیں ڈسا جا سکتا۔(یعنی مومن کو ایک بار جس جگہ یا کام سے نقصان پہنچے وہ پھر اس کے نزدیک تک نہیں جاتا۔)
۔۔۔۔دنیا میں ایسے رہو جیسے کوئی پردیسی یا مسافر ہو۔
۔۔۔۔انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ جو بات سنے،(تحقیق کئے بغیر)لوگوں سے بیان کرنی شروع کردے۔
۔۔۔۔جو شخص کسی مسلمان کے عیب چھپائے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کے عیب چھپائے گا۔
۔۔۔۔مسلمان ،مسلمان کا بھائی ہے۔
۔۔۔۔ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو۔اس سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔
۔۔۔۔کوئی بندہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔
۔۔۔۔وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کا پڑوسی اس کی ایذاؤں سے محفوظ نہ رہے۔
۔۔۔۔آپس میں تعلق نہ توڑو۔ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے پیچھے نہ لگ جاؤ۔آپس میں بغض اور حسد نہ رکھو۔سب بھائی بھائی ہوکر رہو۔بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرائے،ماں باپ کی نافرمانی کرے،کسی کو بے گناہ قتل کرے اور جھوٹی گواہی دے۔جو شخص کسی مسلمان کو کسی دنیاوی مصیبت سے چھڑادے،اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کی بہت سی مصیبتوں سے چھڑائے گا۔اور جو شخص کسی غریب پر(کوئی معاملہ)آسان کردے، اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا۔جو شخص کسی مسلمان کے عیبوں پر پردہ ڈالے،اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کا پردہ رکھے گا۔جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد میں لگا رہے گا،اللہ تعالیٰ اس کی مدد میں لگا رہتا ہے۔
۔۔۔۔رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں دوزخی ہیں۔
۔۔۔۔پاک صاف رہنا آدھا ایمان ہے۔
۔۔۔۔اللہ کے نزدیک سب سے پیاری جگہ مسجدیں ہیں۔
۔۔۔۔قبروں کو سجدہ گاہ نہ بناؤ۔
۔۔۔۔جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر ادانہیں کرتا۔
۔۔۔۔جو مجھ پر(یعنی حضورﷺپر)ایک مرتبہ درود بھیجتاہے،اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجتاہے۔

صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top