موسم گرما اور ہماری صحت
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
نوید گھر میں داخل ہوا۔ اُس کے چہرے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ اُس کے ہاتھ میں کچھ سامان تھا۔ اس نے بلند آواز میں ”السلام علیکم“کہتے ہوئے، اپنے ہاتھ میں موجود سامان ایک طرف رکھا اور صوفے پر بیٹھ کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگا۔ اُس نے اپنی پیشانی پر آیا ہوا پسینہ، ہاتھوں کی مدد سے صاف کیااور غصے سے بولا:
”اس قدر گرمی؟ میری تو حالت خراب ہوگئی۔“ پھر اُس نے کمرے میں چھت کے برقی پنکھے کوگھور کر دیکھا اور بولا:
”پنکھا چل رہا ہے مگر کوئی فائدہ نہیں ہو رہا، ہوا بھی گرم ہے،ائیر کنڈیشنر ہونا چاہیے۔“
ڈاکٹر خورشید بید کی ایک کرسی پر بیٹھے، نوید کو، خاموشی کے ساتھ دیکھ رہے تھے، ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ انھوں نے اپنے ہاتھوں میں موجود اخبار ایک طرف رکھا اور نرمی سے بولے:
”کہاں سے آ رہے ہو؟ باہر تو واقعی سخت گرمی ہے۔“
”بازار گیا تھا۔ امی نے کچھ ضروری سامان منگوایا تھا۔ میں کل شام میں لانا بھول گیا، اس لیے آج سخت دھوپ میں جا کر لانا پڑا۔“ نوید نے بیزاری سے کہا۔
”لیکن اتنی تیز دھوپ میں نکلنے کے لیے تم نے کوئی احتیاطی تدابیر نہیں کیں۔“
”احتیاطی تدابیر؟ وہ کیا بھائی جان؟“
”میں تمھیں بتا دوں گا، پہلے تو تم پانی پیو، بہتر ہے کہ اس میں تھوڑا سا نمک، تھوڑی سی چینی اور لیموں کا رس ملا لیا جائے۔ رُک جاؤ میں تمھارے لیے خود لے کر آتا ہوں۔“
ڈاکٹر خورشید دوسرے کمرے میں جا کر ٹھنڈے پانی سے بھرا ہوا گلاس لے کر کمرے میں چلے آئے۔ نوید نے گلاس کی طرف بے تابی سے ہاتھ بڑھادیا۔ ڈاکٹر خورشید بولے:
”آرام سے، بسم اللہ کر کے، تین سانسوں میں پینا، آپ صلی اللہ علیہچوسلم اسی طرح پانی نوش فرماتے تھے۔“
نوید نے تین سانسوں میں پانی پی کر الحمد للہ کہا۔ اسی وقت عائشہ باجی لیموں کے شربت سے بھرا ہوا جگ اور گلاس لے کر آگئیں۔ نوید نے شربت دیکھتے ہی خوشی سے چلا کر کہا:
”الحمد للہ، شربت؟ جزاک اللہ باجی!“
نوید اور ڈاکٹر خورشید نے شربت پی کر اللہ کا شکر ادا کیا، پھر ڈاکٹرخورشید بولے:
”نو ید! تم جا کر ٹھنڈے پانی سے غسل کر آؤ اور اپنا یہ گہرے نیلے رنگ کا لباس تبدیل کرو، سفید یا ہلکے رنگ کے ڈھیلے ڈھالے سوتی کپڑے پہن لینا۔“
نوید اُٹھ کر غسل کرنے چلا گیا۔ چند منٹ بعد وہ سفید رنگ کی سوتی شلوار قمیض پہن کر واپس آ گیا۔ اب اُس کے چہرے پر اطمینان تھا۔ ڈاکٹر خورشید اُسے دیکھ کر بولے:
”آؤ نوید! بیٹھو، اب تو اتنی گرمی نہیں لگ رہی؟“
”بھائی جان، گرمی تو ہے لیکن اب جسم ہلکا پھلکا ہو گیا ہے اور طبیعت اچھی لگ رہی ہے، ورنہ جب میں تھوڑی دیر پہلے بازار سے واپس آیا تھا تو سر میں درد ہو رہا تھا، سخت تھکن تھی اور متلی سی ہو رہی تھی۔۔۔ ہم لوگ ائیر کنڈیشنر نہیں لگوا سکتے؟“
ڈاکٹر خورشید مُسکرائے اور بولے: ”دیکھو نوید، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے سے بہتر لوگوں کو دیکھو اور دنیا کے معاملے میں اپنے سے کم تر لوگوں کو دیکھو۔ ہمارے اپنے شہر میں کتنے لوگ ایسے ہیں جن کے گھروں میں بجلی نہیں ہے یا بجلی کے پنکھے نہیں ہیں۔ وہ پھر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، تو ہمیں تو زیادہ شکر ادا کرنا چاہیے۔“
”لیکن ہم ایئر کنڈیشنر تو لگوا سکتے ہیں!“ نوید نے اصرار کیا۔
”شاید لگوا سکتے ہوں، لیکن میں تمھیں بتاؤں کہ بے شک ائیر کنڈیشنر اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے مگر جو لوگ ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں زیادہ دیر رہتے ہیں، وہ زیادہ بیماریوں کے شکار بھی ہوتے ہیں۔“ ڈاکٹر خورشید نے بتایا۔
”وہ کیسے بھائی جان؟“ نوید نے حیرانی سے کہا۔
”اس لیے کہ اُن کو گرمی کی عادت نہیں رہتی اور جب کبھی انھیں تھوڑے سے گرم ماحول میں جانا یا رہنا پڑتا ہے، اُن کے سر میں درد شروع ہو جاتا ہے، جسم میں درد، تھکن، کھانسی، بے چینی اور پٹھوں میں اکڑن ہو جانے کی شکایات ہو جاتی ہیں۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے ہمارا جسم ایسا بنایا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بدلتے ہوئے موسم کے مطابق خود بخود بنا تا رہتا ہے۔ یہ اللہ کا ہم پر بہت بڑا کرم ہے، لیکن ہم جب اپنے کمرے کا موسم مصنوعی طریقے سے تبدیل کرتے ہیں مثلاً ایئر کنڈیشنر لگا کراسی کمرے میں رہتے ہیں یا کام کرتے ہیں تو ہمارا جسم اسی موسم کا عادی ہو جاتا ہے، حالانکہ ہمارا جسم خود ایک ایئر کنڈیشنر ہے۔“
”ہمارا جسم ایئر کنڈیشنر ہے؟ وہ کیسے بھائی جان؟“نوید نے تعجب سے کہا۔
”بتا تا ہوں! ہمارے پیارے اور مہربان رب نے ہمیں ایسا جسم عطا فرمایا ہے جو ہر قسم کا موسم ایک مناسب حد تک برداشت کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم کو یہ حیرت انگیز صلاحیت بخشی ہے کہ موسم سرد ہو یا گرم، ہمارے جسم کا اندرونی درجہ حرارت صحت کی حالت میں تقریباً یکساں رہتا ہے یعنی اٹھانوے اعشاریہ چار درجے فارن ہائٹ۔ موسم گرم ہو تو ہمیں پسینہ آتا ہے۔ اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ جسم کی فالتو حرارت جسم سے خارج ہو جاتی ہے اور جسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ جسم کے درجہ حرارت کو یکساں رکھنے کے لیے اس نظام کو ہمارا دماغ کنٹرول کرتا ہے۔“
”لیکن پسینہ آنے سے جسم ٹھنڈا کیسے ہو جاتا ہے؟“ نوید نے پوچھا۔
”یہ قدرتی اصول ہے کہ پانی کے بخارات بن کر اڑنے میں حرارت استعمال ہو جاتی ہے، اس طرح ہمارے خون میں جو ضرورت سے زیادہ گرمی پیدا ہوتی ہے، وہ اسی طرح خرچ ہو جاتی ہے اور ہم ٹھنڈک محسوس کرتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم سے گرمی کے خارج ہونے کا یہ نظام نہ رکھا ہوتا تو ہمارا جسم اس طرح گرم ہو جائے گا جیسے تنور ہوتا ہے اور اگر ہماری جسمانی حرارت بہت بڑھ جائے گی تو ہمارے اعضا کام کرنا بند کر دیں گے اور ہماری موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔“
”مگر بھائی جان، ایئر کنڈیشنر والی بات سمجھ میں نہیں آئی۔“
”میں تمھیں یہی بات بتانے والا تھا۔ دیکھو! اللہ تعالیٰ نے ہماری حفاظت کا کتنا عمدہ اور خود کار نظام ہمارے اندر رکھ دیا ہے۔ گرمی کے موسم میں ہمارے خون کا زیادہ حصہ ہماری جلد کی سطح کے قریب گردش کرنے لگتا ہے۔ اللہ نے ہماری جلد کی سطح پر باریک باریک رگیں بنائی ہیں۔ جلد کے مساموں سے پسینہ خارج ہوتا ہے، جس سے ہمیں ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے سانس لینے اور پیشاب اور فضلہ خارج کرنے سے بھی جسم کی فالتو حرارت جسم سے باہر نکل جاتی ہے۔ سرد موسم میں ہمارے جسم کو حرارت کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ اللہ نے اس کا یہ انتظام کیا ہے کہ سردی کے موسم میں پسینہ آنا بند ہو جاتا ہے، ہمارا خون جلد کے قریب گردش کرنا کم کر دیتا ہے اور اندر کی حرارت باہر نہیں آپاتی۔ اس طرح موسم سرد ہونے کے باوجود ہمارے جسم کا درجہ حرارت یکساں رہتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا حیرت انگیز ایئر کنڈیشنر ہے جو کسی خرابی کے بغیر برسوں کام کرتا رہتا ہے۔“
”واقعی، بھائی جان، یہ تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کرم ہے۔“نوید نے کہا۔
”اس میں کیا شک ہے۔ ہاں! میں تمھیں بتانا چاہ رہا تھا کہ گرمی کے موسم میں خصوصاً دھوپ میں باہر نکلتے ہوئے کیا احتیاطیں کرنی چاہیں۔“
”جی بھائی جان، بتائیے۔“ نو ید سنبھل کر بیٹھ گیا۔
”پہلی بات تو یہ کہ پانی خوب پینا چاہیے تاکہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہواور اندرونی حرارت مناسب حد تک رہے۔ ایسے پھل اور سبزیاں کھائیں جن میں پانی زیادہ ہوتا ہے، مثلاً خربوزہ، کھیرا وغیرہ۔ لباس سوتی ہو، ڈھیلا ڈھالا ہو اور ہلکے رنگ کا ہو، مثلاً سفید یا ہلکا پیلا۔ ان رنگوں پر گرمی کا اثر کم ہوتا ہے۔ پانی سے بھیگے ہوئے تولیے کو گردن پر ڈالنے سے گرمی کا احساس کم ہو گا۔ سخت کھیل یا ورزش کے بعد وضو کر لیا جائے تو جسم میں ٹھنڈک محسوس ہو گی۔ بستر ہلکا ہونا چاہیے۔ فوم کے گدے یا تکیے استعمال نہ کریں۔ کمرے میں قالین، زیادہ فرنیچر اور بھاری پردے لگانے سے بھی گرمی بڑھ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت فیاضی سے درخت اور پودے پیدا فرمائے ہیں ان سے نمی اور ٹھنڈک خارج ہوتی ہے۔ اس سے ماحول خوشگوار ہو جاتا ہے۔“
”بھائی جان، آپ نے بہت مفید باتیں بتائیں۔ اب میں گرمی کے موسم میں خوب پانی پیا کروں گا۔“ نوید نے کہا۔
”بالکل! یہ بہت ضروری ہے۔ تمھیں یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سردی کے موسم میں بھی ہماری جلد کی سطح اور سانس کی نمی کے ذریعے سے روزانہ تقریباً چھ سوملی لیٹر پانی ہمارے جسم سے خارج ہو جاتا ہے، یعنی تقریباً تین گلاس پانی۔۔۔ اور گرمی کے موسم میں تو یہ مقدار دو ہزار ملی لیٹر بھی ہو سکتی ہے، اس لیے روزانہ دس سے بارہ گلاس پانی پینا چاہیے۔ اس کے علاوہ ایک بات اور بھی ہے۔“
ٍ ”وہ کیا بھائی جان؟“
”جب ہمیں پسینہ آتا ہے تو جسم سے ضروری نمکیات بھی خارج ہوجاتے ہیں۔ ان کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمیں پانی میں نمک شامل کر کے پی لینا چاہیے۔ جب شدید گرمی میں باہر سے آئیں اور خوب پسینہ بہ گیا ہو تو پانی میں لیموں کا رس ڈال کر یا خشک آلو بخارے یا کیری کا شربت پینا چاہیے۔ اصل اہمیت تو نمک اور پانی کی ہے لیکن پانی کو خوش ذائقہ بنانے کے لیے یہ چیزیں شامل کی جا سکتی ہیں۔ ان کا فائدہ بھی ہے۔“
”بے حد شکریہ، جزاک اللہ بھائی جان۔ میں محسوس کر رہا ہوں کہ گرمی ابھی تک بہت زیادہ ہے، تو کیوں نہ لیموں کے شربت کا ایک اور دور ہو جائے۔“
نوید یہ کہ کر شربت لانے کے لیے کمرے سے باہر نکل گیا۔