کاہل کیٹی
کہانی: Lazy Kate
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔
’’کیٹی! اٹھنے کا وقت ہوگیا ہے۔‘‘جب ماں نے آواز لگائی تو کیٹی گہری نیند میں تھی۔ وہ بڑبڑائی ضرور مگر آنکھیں نہ کھولیں۔
’’کیٹی! تمہیں اسکول جانے میں دیر ہوجائے گی۔‘‘ماں نے پھر آواز لگائی۔
کیٹی کے بھائی جون نے ناشتے کے لیے بیٹھتے ہوئے کہا۔’’وہ ہمیشہ کی طرح اب بھی نہیں اٹھے گی۔‘‘
یہ بالکل سچ تھا۔کیٹی جتنی کاہل لڑکی آپ نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔کبھی کبھی اس کی ماں بھاگتی ہوئی سیڑھیاں چڑھتی اور اسے اٹھا نے کے لیے لحاف کھینچ لیتی۔لیکن وہ پھر بھی بغیر کمبل یا لحاف کے ایسے سوتی رہتی جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔
’’سمجھ میں نہیں آتی کہ اس کا کیا کروں!‘‘اس کی ماں مایوس ہو کر کہتی۔’’اتنی سست اور کاہل…یہ واقعی پریشان کن ہے…پتا نہیں یہ کبھی کوئی کام کرے گی بھی کہ نہیں!‘‘
ایک صبح بڑا ہی عجیب واقعہ پیش آیا۔ ماں ہمیشہ کی طرح اسے جگانے گئی۔ کوئی جواب نہ آیا۔اس نے دوبارہ آواز لگائی۔پھر بھی کوئی جواب نہ آیا۔وہ دوڑتی ہوئی آرام گاہ میں گئی اور کیٹی کو کندھے سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔کیٹی بڑبڑا ئی اور پہلو بدل کر دوبارہ سو گئی۔
’’اٹھو کیٹی!‘‘ ماں نے کہا۔’’آج اسکول میں انعامات کی تقسیم کا دن ہے۔تمہیں دیر نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
’’اچھا ماں!‘‘ کیٹی نے آنکھیں کھولے بغیر ہی جواب دیا۔ماں نے سوچا کہ اب وہ یقینا اٹھ جائے گی۔یہ سوچ کر وہ جون کو ناشتہ دینے نیچے چلی گئی لیکن کیٹی دوبارہ سو گئی۔
پھر ایک عجیب بات ہوئی۔پہلے اس کا پلنگ ہلنے اور چرچرانے لگااور پھر اپنے آپ بڑبڑانے لگا۔کیٹی نے کوئی توجہ نہ دی۔پلنگ نے اپنا ایک پایہ اوپر اٹھایا اور پھردوبارہ فرش پر رکھ دیا۔زور سے چرچراہٹ ہوئی مگر کیٹی نے پھر بھی نہ سنی۔
پھر پلنگ نے ایک بار پھر پایہ اٹھایا اور اس بار قدم دروازے کی طرف بڑھا دیا۔یا میرے خدا…! یہ کیسی مضحکہ خیز چیز ہو رہی تھی۔چونکہ کیٹی کا پلنگ بہت چھوٹا سا تھااس لیے وہ ایک ہی جھٹکے میں دروازے سے باہر نکل آیا۔پھر بہت احتیاط کے ساتھ وہ نیچے کی طرف بڑھنے لگا۔کیٹی بدستور خواب دیکھتی رہی اور اسے کوئی ہلچل محسوس نہ ہوئی۔
بحفاظت سیڑھیاں اترنے کے بعد پلنگ مرکزی دروازے کی جانب بڑھاجو پہلے سے کھلا ہوا تھا۔ وہ دروازے سے باہر نکل آیا۔ چونکہ دستر خوان والے کمرے کا دروازہ بند تھا، اس لیے کوئی اس کی آواز نہ سن سکا۔
پلنگ سڑک پر اترا اور کیٹی کو لے کر چلنے لگا جو لحاف اوڑھے سورہی تھی ۔سب کتنی حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔اسکول جاتے بچے خوشی سے پلنگ کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگے۔
’’دیکھو ، دیکھو! سامنے پلنگ چل رہا ہے…اور بستر میں کوئی سویا ہوا ہے…واہ کیا مزے کی چیز ہے…یہ جا کہاں رہا ہے؟‘‘
پلنگ کیٹی کو اسکول لیے جا رہا تھا،آپ کا کیا خیال ہے…؟جیسے ہی گھنٹی بجنا بند ہوئی اور تمام بچے قطاروں میں کھڑے ہوئے، پلنگ دروازے پر پہنچ گیا۔
بچے خوشی کے مارے چلانے لگے۔’’دیکھو ، دیکھو! یہ اسکول آگیا ہے۔ارے دیکھو تو بستر میں کوئی ہے؟‘‘
انہوں نے ایسا شور مچایا کہ کیٹی ڈر کے مارے جاگ گئی۔وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور آنکھیں رگڑنے لگی۔اس کے بعد جب اس نے آنکھیں کھولیں تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔وہ کافی دیر تک گھورتی رہی اور گھورتی ہی رہی۔پھر اچانک اس کا چہرہ سرخ ہوگیا کیونکہ سونے والے کپڑوں میں پلنگ پر اسکول آنے کی وجہ سے اسے سخت شرمندگی کا سامنا تھا۔وہ جلدی سے دوبارہ پلنگ پر لیٹ گئی اور لحاف کو اپنے چہر ے پر کھینچ لیا۔اف میرے خدایا…!
پلنگ کو اسکول اتنا پسند آیا کہ اب وہ واپس گھر جانے کو تیار نہ تھا۔اسے لے جانے کے لیے گاڑی منگوانی پڑی تاکہ وہ کاہل کیٹی کو واپس گھر لے جا سکے۔
اورآپ کا کیا اندازہ ہے کہ کیٹی نے اسکول جانے میں پھر کبھی دیر کی؟ہرگز نہیں…!عزیزساتھیو!پلنگ کی ہلکی سی چرچراہٹ پر وہ نہ صرف اٹھ کھڑی ہوتی بلکہ کپڑے بھی بدل چکی ہوتی تھی۔
کیاآپ میں سے کوئی ایسا ہے جسے نیند بہت آتی ہو؟ہوشیار رہیے گا…!کہیں آپ کا پلنگ بھی آپ کے ساتھ وہی سلوک نہ کرے جو کیٹی کے پلنگ نے اس کے ساتھ کیا۔