اچھا کام
کہانی: Mr.Twiddle’s Good Deed
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔
مسٹر لاپروا دنیا کے سب سے بھلکڑ انسان تھے۔جتنا اہم کام ہوتا وہ اتنی ہی جلدی بھول جایا کرتے۔ان کی بیگم کہا کرتیں کہ اگر ان کا سر ان کی گردن سے جڑا نہ ہوتا تو یہ اسے بھی رکھ کر بھول جاتے اور یہ کتنا عجیب ہوتا…ہے نا؟
مسٹر لاپروا کے لیے دنیا کا سب سے پسندیدہ کام اگر کوئی تھا تو وہ آرام کرسی پر بیٹھ کر اخبار پڑھنا اور کافی پینا تھا۔ان کی بیگم کا کہنا تھا کہ وہ اتنے کاہل ہیں کہ کسی کا کوئی کام نہیں کر سکتے۔
’’اگر میں آپ سے کہہ بھی دوں کہ ’’چولہے کی آگ بجھا دیجیے۔‘‘تو آپ جواب میںکہہ تو دیں گے کہ’’اچھا ابھی بجھاتا ہوں۔‘‘ مگر بجھائیں گے نہیں اور بالآخر مجھے خود ہی اٹھ کر بجھانی پڑے گی۔‘‘بیگم نے انہیں باتیں سنائیں۔
’’کیا میں واقعی ایسا ہوں؟‘‘ مسٹر لاپروا نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ہاں، آپ ایسا ہی کرتے ہیں!‘‘ بیگم لاپروا نے کہا۔’’آپ ، اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کیجیے۔ اسکائوٹ کے رضاکار لڑکوں ہی کو دیکھ لیجیے، کتنے اچھے ہیں۔وہ روزانہ کوئی ایک اچھا کام کرنے کا عہد کرتے ہیں اور پھر اس کام کو پورا کرتے ہیں۔ اس بارے میں ضرور سوچئے کیوں کہ عمر میںآپ اسکائوٹ کے ایک رضاکار سے کہیں بڑے ہیں۔مجھے تو اتنا بھی یقین نہیں کہ آپ مہینے بھر میں بھی کوئی اچھا کام کرتے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کوئی اچھا کام کر نہیں سکتے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ اس بارے میں سوچتے ہی نہیں ہیں۔‘‘
’’یہ تو واقعی میری بہت بڑی غلطی ہے۔‘‘مسٹر لاپروا نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔’’بیگم، یقین کیجیے! اب میں واقعی اسکائوٹ رضاکارکی طرح کام کرنے کی کوشش کروں گا۔ آپ روزانہ مجھے کوئی ایک اچھا کام کرتے دیکھیں گی اور یہ سلسلہ میں آج ہی سے شروع کروں گا۔‘‘
’’اچھا ! تو کیا آپ مجھے لکڑیاں کاٹ کر لادیں گے؟‘‘ بیگم لاپروا نے فوراً پوچھا۔
’’نہیں معذرت!‘‘ مسٹر لاپروا بولے۔’’ایک دم سے اچھے کام شروع کرنا اور وہ بھی محنت والے کام …؟ذرا مشکل ہوتا ہے بیگم…! میں اپنا کوٹ پہن کر سڑک پر چہل قدمی کرنے نکلوں گااور کوئی ایسی نیکی تلاش کروں گا جو کرنے میں آسان ہو۔‘‘
وہ چل تو پڑے مگر انہیں کرنے کو کوئی آسان نیکی نہ مل سکی۔نہ تو کوئی بوڑھی عورت نظر آئی جسے سڑک پار کرائی جا سکتی اور نہ ہی کسی کا بدکا ہوا گھوڑا دکھائی دیاجسے بہلا پھسلا کر پکڑا جا سکتا۔لگتا تھا کہ صبح سویرے کوئی نیک کام کرنے کو نہ مل سکے گا۔
مسٹر لاپروا آگے بڑھ کر سڑک پار کرنے لگے مگر جلدی میں ان کی نظر بڑے سے اسٹیم رولر پر نہ پڑ سکی۔سڑک پر کھدائی کرتے شخص نے مسٹر لاپروا سے چلا کر کہا۔’’او بھائی! اسٹیم رولر کا خیال کرو!‘‘
مسٹر لاپروا نے رک کر ادھر ادھر دیکھا اور جیسے ہی اسٹیم رولر پر نظر پڑی، خوش ہو کر دل میں سوچا۔’’یہ رہی میری نیکی! اس شخص کا خدا بھلا کرے کہ اس نے اسٹیم رولر کی طرف میرا دھیان پڑوایا…اعلیٰ کام ہوگیا…میں رات کے کھانے تک اس کا خیال رکھوں گا۔‘‘چنانچہ مسٹر لاپروا اسٹیم رولر کے اردگرد اوپر نیچے گھومنے لگے اور کام کرنے والوں کے ساتھ اچھائی کی نیت سے اس کا خیال رکھنے لگے۔آدمیوں کے تو گمان میں بھی نہیں تھا کہ مسٹر لاپروا کیا کام سرانجام دے رہے ہیں مگر مسٹر لاپروا خوش تھے کہ وہ نیک کام انجام دے رہے ہیں اور انہوں نے اسٹیم رولر کو بھاگنے نہیں دیا۔
مسٹر لاپروانے سارا دن اس کا خیال رکھا۔ دن ڈھلنے کے بعد مزدوروں کو شائستگی سے الوداع کہہ کر گھر کی طرف چل پڑے۔ان کی بیگم پریشانی کے عالم میں دروازے پر کھڑی ان کا انتظار کر رہی تھیں۔
’’آپ کہاں تھے؟کیا آپ بھول گئے تھے کہ آج صبح آپ کے بھائی نے آپ سے ملنے آنا تھا؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’اوہ ، ہاں! میں تو بالکل ہی بھول گیا تھا۔‘‘ مسٹر لاپروا نے کہا۔’’ لیکن کوئی بات نہیں ، میری عزیز بیگم!میں نے آج نیک کام انجام دیااور ایک اسٹیم رولر کا خیال رکھا۔‘‘
’’لیکن کس لیے؟‘‘بیگم لاپروا نے حیرت سے پوچھا۔
’’اس لیے کہ وہاں کام کرنے والے آدمیوں نے مجھے خیال رکھنے کا کہا تھا تو میں نے خیال رکھا۔‘‘ مسٹر لاپروا نے انہیں بتایا مگر وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ ان کی بیگم قہقہوں پر قہقہے کیوں لگاتی جا رہی ہیں۔