ہزاروں خواہشیں
ناول: Great Expectations
مصنف: Charles Dickens
مترجم: مسعود احمدبرکاتی
۔۔۔۔۔
جب میں سات برس کا تھا تو ایک دن قبرستان میں اپنے ماں باپ کی قبروں پر گیا۔ یہ قبرستان کینٹ کے دلدلی علاقے میں تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے ماں باپ کون تھے۔ میں ان کی قبروں کے کتبوں پر صرف ان کے نام پڑھ سکتا تھا، جن پر لکھا تھا:
’’فلپ اور جار جیا نا پرپ۔‘‘
میرا نام بھی فلپ ہے لیکن جب میں بہت چھوٹا تھا تو میں اپنے آپ کو فلپ نہیں کہہ سکتا تھا بلکہ’’ پپ‘‘ کہتا تھا۔ پھر ساری عمر میں پپ ہی کہلایا۔ قبروںپر میں نے اپنی ماں، اپنے باپ اور اپنے پانچ چھوٹے بھائیوں کے نام پڑھے تومجھے بڑا رنج ہوا اور میں بے اختیار زور زور سے رونے لگا۔ یکا یک ایک خوف ناک آواز آئی:
’’شور بند کرو، ورنہ میں تمھارا گلا کاٹ ڈالوں گا۔‘‘
اس آواز کے ساتھ ہی ایک لمبا تڑ نگا آدمی سامنے آیا۔ اس نے میری تھوڑی زور سے پکڑ لی۔ وہ موٹے بھدے اور میلے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ اس کے ایک پاؤں میں لوہے کی بیڑی پڑی ہوئی تھی۔ اس کا بدن گیلا ہو ر ہا تھا اور وہ سردی سے کانپ رہا تھا۔ وہ کیچڑ میں لت پت تھا، لیکن اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں اور مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ میرا ڈر کے مارے بُرا حال ہو گیا۔ میں نے بڑی مشکل سے کہا:
’’جناب! مجھے نہ ماریے، مہربانی کر کے میری جان نہ لیجیے۔‘‘
اس نے پوچھا:’’ تمھارا نام کیا ہے اور تم اور تمھارے گھر والے کہاں رہتے ہیں؟ ‘‘
میں نے بڑی ہمت کر کے جواب دیا:
’’میرا نام پپ ہے۔ میرے ماں باپ ان قبروں میں دفن ہیں۔ میں اپنی بہن کے ساتھ رہتا ہوں، جس کا نام مسزجو گارگری ہے۔ اس کا شوہر گاؤں میں لوہار ہے۔‘‘
’’اچھا! لو ہار؟‘‘ اس آدمی نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر یکا یک اس نے مجھے اُٹھا کر بالکل الٹا کر دیا اور میری جیبیں خالی کر دیں۔ چند کیلیں اور روٹی کا ایک ٹکڑا، میری جیبوں میں سے بس یہی نکلا۔ اس نے روٹی کا ٹکڑا اپنے منھ میں ٹھونسا اور جلدی جلدی اس کو حلق سے اُتار لیا۔ اس کے بعد اس نے مجھے سیدھا کیا اور ایک قبر کے اونچے کتبے پر بٹھا کر پیچھے کی طرف جھکاتے ہوئے کہا:
’’میں سوچ رہا ہوں کہ تمھیں زندہ رہنے دوں۔ تم نے ریتی تو دیکھی ہوگی؟ ‘‘مجھ سے ڈر کے مارے بولا نہیں جارہا تھا۔ میں نے سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا تو وہ بولا:’’ اچھا تو تم مجھے ایک ریتی لا دو اور کچھ کھانے کو بھی۔ تم یہ چیزیں کل صبح صبح لے آؤ۔ سمجھ گئے؟‘‘
بڑی مشکل سے میری آواز نکلی:
’’ اچھا جناب!‘‘
’’ لیکن اگر تم نے کسی کو بتا دیا تو سمجھو کہ تم زندہ نہیں بچو گے۔ یہاں میرا ایک دوست ہے جو لڑکوں کا سینہ چیر کر دل نکال لیتا ہے۔ گاؤں میں رہنے والا ہر لڑکا سمجھتا ہے کہ وہ اپنے بستر میں محفوظ ہے، مگر میرا دوست کمرے میں گھس کر اپنا کام آسانی سے کر لیتا ہے۔ اب جاؤ، جو کچھ میں نے کہا ہے اسے یا درکھنا؟‘‘
میں نے اقرار میں گردن ہلائی اور کود کر تیزی سے اپنے گھر کی طرف بھاگا۔ میرا دل اتنے زور زور سے دھڑک رہا تھا کہ دھڑکن کی آواز میرے کانوں تک آ رہی تھی، لیکن میں جب گھر پہنچا تو وہاں دوسری مصیبت کھڑی تھی۔ جیسے ہی میں پنجوں کے بل باورچی خانے میں داخل ہوا، میرے بہنوئی جو گارگری نے اپنا بڑا سا سر ہلایا اور کہنے لگا:
’’تم کہاں تھے؟ وہ تمھیں ڈھونڈ نے گئی ہوئی ہے۔‘‘
اسی وقت دروازہ زور سے کھلا اور میری بہن طوفان کی طرح اندر آئی۔ میری بہن مسز جو گارگری مجھ سے بیس برس بڑی ہے اور بہت تیز مزاج ہے۔ اس نے منھ سے ایک لفظ کہے بغیر میرے سر پر مکا مارا اور مجھے دھکا دیا، لیکن جو سامنے آگیا اور جیسے ہی میری بہن دوبارہ مجھ پر جھپٹی۔ جو نے اسے روک لیا۔ بہن نے اپنے شوہر کو ایک طرف ہٹانے کی کوشش کی۔ جو لمبا تڑنگا اور طاقت ور تھا لیکن نہایت شریف اور شائستہ۔ بہن مجھ پر جھپٹتی رہی، جو مجھے بچاتا رہا، میںجو کی آڑ میں آجاتا۔ آخر بہن نے تھک کر ہار مان لی۔ جو نے مجھے مسکرا کر دیکھا کہ خطرہ ٹل گیا ہے اور مجھے آتش دان کے پاس لے گیا تا کہ میں ذرا گرم ہو جاؤں۔ میری بہن برتن دھونے لگی۔ یکا یک ایک زور دار آواز نے ہمیں چونکا دیا۔ میں نے گھبرا کر جو سے کہا: ’’بھائی! یہ کیا ہے؟‘‘
جو نے بتایا:
’’دریا میں قیدیوں کا ایک جہاز کھڑا ہے۔ جہاز سے کوئی قیدی فرار ہو گیا ہے۔ یہ بندوق کی آواز ہے، یہ اس لیے داغی گئی ہے کہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ ایک ڈاکو یا قاتل بھاگ نکلا ہے۔ یہ دوسری بار ہے، ایک آواز رات کو بھی آئی تھی۔‘‘
میں ڈر کے مارے کانپ گیا۔ اتنے میں میری بہن نے ہمیں کھانے کی میز پر بلا لیا۔ کمانے والا تو جو تھا لیکن حکم میری بہن کا چلتا تھا۔ وہی اپنی مرضی سے کھانا تیار کرتی اور کھلاتی تھی اور جو ایک بچے کی طرح سب باتیں مان لیتا تھا۔ میری بہن بتا رہی تھی کہ کرسمس کے موقع پر پارٹی کے لیے اس نے کس محنت سے صفائی کی ہے۔ اس کو باتوں میں کھویا ہوا دیکھ کر میں نے اپنی روٹی چپکے سے جیب میں رکھ لی، تا کہ صبح اپنے وعدے کے مطابق اس اجنبی قیدی کو دے سکوں۔
میں رات کو اوپر اپنی اٹاری میں سوتا تھا۔ مجھے موم بتی جلانے کی اجازت نہیں تھی۔ میں اس روز جب سونے کے لیے جانے لگا تو راستے میں سوچ رہا تھا کہ میں اپنی بہن کی چیزیں چُرا کر اس آدمی کو دینے والا ہوں، ایسا نہ ہو کہ میں پکڑا جاؤں اور قیدیوں کے جہاز پر پہنچا دیا جاؤں۔ اس سوچ میں، میں چلتے چلتے گر پڑا۔ بستر میں لیٹ کر بھی میں ڈرتا رہا۔ مجھے اس آدمی کی بات کا خیال آرہا تھا کہ اس کا دوست بستر میں پہنچ کر لڑکوں کا سینہ چیر ڈالتا ہے، اس لیے میں رات بھر اپنی جیب میں رکھی ہوئی روٹی کو ہاتھ میں دبائے رہا کہ جیسے ہی کوئی آئے میں فوراً اسے دکھا دوں۔ کوئی نہیں آیالیکن مجھے رات بھر اس کا انتظار رہا اور میں مشکل ہی سے سو سکا۔ صبح کی سرمئی روشنی میں، میں آہستہ آہستہ نیچے اترا۔ سیڑھی اور اپنے قدموں کی آواز سے میں خود ڈر رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے چور پکڑو کی آوازیں آرہی ہیں۔ چھٹیوں کا زمانہ تھا، اس لیے اسٹور میں کھانے کی چیزیں بھری ہوئی تھیں۔ میں نے کچھ اور روٹی لی۔ کچھ پنیر اور بہن کا بنایا ہوا کیک اُٹھایا۔ باورچی خانے سے ایک دروازہ جو کی بھٹی کی طرف کھلتا تھا، وہیں اس کا لوہاری کا سامان رکھا تھا۔ میں بھٹی میں گھس گیا اور جو کے اوزاروں میں سے ایک بڑی سی ریتی اُٹھالی۔ یہ سب میں اپنے کپڑوں میں چھپا کر دلدلی علاقے کی طرف دوڑا۔ صبح کی دھند چھائی ہوئی تھی۔
٭٭٭
میں ابھی قبرستان کی ٹوٹی ہوئی دیواروں کے پاس پہنچا ہی تھا کہ مجھے وہ آدمی نظر آ گیا، جس سے مجھے ملنا تھا۔ وہ بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی پیٹھ میری طرف تھی اور سر آگے جھکا ہوا تھا، وہ سو رہا تھا۔ میں اس کے پاس پہنچا اور دھیرے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ وہ گھبرا کر اُٹھ کھڑا ہوا اور پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ وہ کوئی دوسرا آدمی تھا، اس کے کپڑے بھی میلے تھے اور اس کے پاؤں میں بھی لوہے کی ایک بیڑی پڑی ہوئی تھی، لیکن اس کا چہرہ ویسا نہیں تھا۔ اس نے مجھے گھورا اور تھپڑ مارنا چاہا، لیکن میں بچ گیا اور وہ لڑ کھڑا کر گر گیا۔ شاید وہ بیمار اور کم زور تھا۔ پھر وہ بھاگ گیا۔ دُھند میں نظر نہ آیا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ اس آدمی کا دوست ہے اور یہ لڑکوں کا دل نکال لیتا ہے۔ ذرا اور آگے چلا تو مجھے وہ آدمی مل گیا، جس کے لیے میں آیا تھا۔ وہ اپنے آپ کو گرم کرنے کے لیے بار بار ہاتھ پیر ہلا رہا تھا۔ میں نے جب اس کو روٹی، پنیر، کیک اور ریتی دی تو حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس نے یہ چیزیں لیں اور کھانے کی اشیا بے تابی سے نگلنی شروع کر دیں۔ وہ بہت خوش ہوا۔ اس نے کہا: ’’چھوٹے لڑکے ہو کر تمھیں اتنا خیال رہا، بڑی بات ہے۔ تم نے کسی سے کچھ کہا تو نہیں؟‘‘
’’ نہیں جناب! کسی سے کچھ نہیں کہا، میں یہ چیزیںچرا،چھپا کر لایا ہوں۔‘‘
اطمینان کا سانس لیتے ہوئے اس نے بڑے بڑے نوالے نگلنے شروع کر دیے۔ یہ دیکھ کر میں نے اس سے کہا: ’’مجھے خوشی ہے کہ آپ کو یہ چیزیں پسند آئیں، لیکن کیا آپ اس آدمی کے لیے کچھ نہیں بچائیں گے؟ ‘‘
’’تمھارا مطلب میرے اس دوست سے ہے، جو لڑکوں کا دل نکال لیتا ہے؟‘‘ اس آدمی نے چالا کی سے پوچھا، پھر ہنسا اور کہنے لگا: ’’اس کو کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’مگر اس کی صورت سے لگتا ہے کہ اسے غذا کی ضرورت ہے۔‘‘
اس نے فوراً منھ چلانا بند کر دیا اور چلایا: ’’صورت سے؟ تم نے اس کو دیکھا ہے؟ کب؟ کہاں؟‘‘اس نے میرا گریبان پکڑ لیا۔ وہ مجھے گھور رہا تھا۔ اس لیے میں نے جلدی سے جواب دیا:
’’وہ، وہ وہاں نی چے۔۔۔ نیچے تھا۔‘‘ میں نے ہکلاتے ہوئے نیچے کی طرف اشارہ کیا: ’’اس نے آپ جیسے کپڑے پہن رکھے تھے، اس کے پاؤں میں بیڑی بھی تھی، رات کو جہاز پر سے اس کے لیے ایک بندوق بھی چلائی گئی تھی۔ آپ نے آواز نہیں سنی؟ ‘‘
اس نے جواب دیا: ’’شاید میں نے ایک بار آواز سنی تھی، پھر خیال نہیں رہا۔ ایسی دلدلی جگہ اکیلے رہنے سے آدمی کا دماغ پریشان ہو جاتا ہے۔ اچھا یہ بتاؤ اس کا چہرہ کیسا تھا؟‘‘
میرے دماغ میں ڈرے سہمے چہرے والا وہ آدمی اُبھر آیا، جس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا تو حیرت سے اس کا منہ کھلا ہوا تھا۔ میں نے بتایا کہ اس کے ایک گال پر زخم کے نشان تھے۔
’’ اچھا تو وہ تھا! میں اس کو ہر گز نہیں چھوڑوں گا۔ ریتی کہاں ہے لڑکے؟ مجھے ریتی دو۔‘‘ غصے سے اس نے گہرے گہرے سانس لے کر کہا۔ میں نے زمین پر سے ریتی اُٹھائی، جو اس نے میرے ہاتھ سے کھانا لیتے ہوئے پھینک دی تھی۔ اب بقیہ کیک ایک طرف رکھتے ہوئے اس نے ریتی مجھ سے لی اور گیلی گھاس پر جھک کر اپنے پاؤں کی بیڑی گھسنے لگا۔ وہ دیوانوں کی طرح اپنی بیڑی کاٹ ڈالنا چاہتا تھا۔ میں نے کہا: ’’مجھے واپس جانا ہے۔‘‘ لیکن اس نے کوئی توجہ نہ کی۔ وہ مصروف تھا۔ میں چند قدم پیچھے ہٹاکہ دیکھوں وہ مجھے روکتا ہے یا نہیں۔ جب اس نے نگاہ او پر نہیں اُٹھائی تو میں مڑا اور خاموشی سے چل پڑا۔ پھر میں نے گھر کی طرف دوڑنا شروع کر دیا۔ راستے میں مجھے ریتی گھسنے کی آواز آتی رہی۔
٭٭٭
گھر پر میری بہن صفائی ستھرائی میں دل و جان سے لگی ہوئی تھی۔ دروازوں پر نئے پردے ڈال رہی تھی۔ فرنیچر کے غلاف جھاڑ پونچھ رہی تھی۔ یہ کمرہ صرف خاص خاص موقعوں پر ہی استعمال ہوتا تھا۔ کرسمس بھی خاص موقع تھا۔ میں نے اور جو نے ناشتا کھڑے کھڑے کیا، کیوں کہ بہن کو میز لگانے کی فرصت نہیں تھی۔ ناشتا کرتے ہی وہ کھانا تیار کرنے میں لگ گئی تھی۔ آج مہمان آنے والے تھے۔ مجھے یکا یک یہ خیال آیا کہ کہیں وہ کیک، جو میں نے چرایا ہے، آج کے مہمانوں کے لیے نہ رکھا گیا ہو۔ جتنی دیر تک بہن اپنے سخت ہاتھوں سے میرا منھ دھلاتی رہی، یہ خیال مجھے ستا تا رہا۔
تھوڑی دیر بعد میں اور جو دونوں تیار ہو کر اچھے اچھے کپڑے پہنے بنے ٹھنے بیٹھے تھے۔ سب سے پہلے دروازہ کھٹکھٹانے والا شخص ووپ سل تھا، گر جے کا منشی۔ میں نے دروازہ پورا کھول دیا۔ اس کے بعد آنے والے مسٹر اور مسز ہبل تھے۔ پھر انکل پمبل چوک اپنی گاڑی میں آئے۔ یہ جو کے حقیقی چچا تھے۔ میری بہن عزیز ہونے سے زیادہ ان کے امیر ہونے کی وجہ سے ان کا زیادہ خیال کرتی تھی۔ وہ بڑے تاجر تھے۔ بہن نے بڑے تپاک سے ان کا خیر مقدم کیا۔ وہ ہر سال کی طرح اس سال بھی تحفہ لائے تھے۔ کھانے کے دوران سب خوب ہنستے بولتے رہے۔ صرف مجھے بولنے کی اجازت نہیں تھی لیکن باتین زیادہ تر میرے ہی بارے میں ہوتی رہیں کہ میں ایک غریب بہن پر بوجھ ہوں۔ بے چارہ جو خاموش تھا۔ اس کو تردید کرنے کی اجازت نہیں تھی لیکن وہ میری رکابی میں کھانا خوب ڈالتا رہا۔ جلد ہی وہ لمحہ آ گیا، جس کا مجھے ڈر تھا۔ بہن کہنے لگی: ’’انکل پمبل چوک! میں نے آپ کی پسندیدہ چیز تیار کی ہے، ایک خاص کیک۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے وہ اسٹور کی طرف گئی تو مہمانوں کی نگاہیں بھی اس کے پیچھے پیچھے گئیں۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد بہن خالی ہاتھ لوٹی۔ وہ زور سے کہہ رہی تھی کہ سمجھ میں نہیں آتا آخر کیک کہاں چلا گیا؟
خوف کے مارے میں وہاں نہ ٹھہرسکا اور اُٹھ کر دروازے کی طرف لپکا۔ جیسے ہی میں دروازے تک پہنچا، دروازے کے دونوں پٹ کھلے اور سپاہیوں کی ایک پارٹی اندر داخل ہوئی۔ میں سارجنٹ سے ٹکرا گیا۔ وہ بولا: ’’ اچھے لڑکے، یہاں آؤ!‘‘ اس کے ہاتھوں میں دو ہتھکڑیاں تھیں۔
میں سپاہیوں کو دیکھ کر سوچنے لگا کہ انھیں معلوم ہو گیا ہے کہ میں چور ہوں اور یہ مجھے گرفتار کرنے آئے ہیں۔ میں پیچھے ہٹتے ہٹتے گرنے لگا، مگر جونے مجھے تھام لیا۔ سارجنٹ ہنسا اور چاروں طرف نظر ڈالتے ہوئے کہنے لگا: ’’معاف کیجیے گا، میں سرکاری افسر ہوں۔ میں اور میرے سپاہی مجرموں کی تلاش میں ہیں اور ہمیں اس وقت ایک لوہار کی بڑی سخت ضرورت ہے۔‘‘جو کے بولنے سے پہلے ہی میری بہن بول پڑی: ’’یہ میرے شوہر لو ہار ہیں۔ تمھیں آج کرسمس کے دن ان سے کیا کام پڑ گیا؟ ‘‘
’’ہمیں ان ہتھکڑیوں کی مرمت کرانی ہے، ان کا تالا خراب ہو گیا ہے۔ ہمیں جلدی ہے۔ ‘‘
بہن نے جو کو آگے بڑھایا جس نے ہتھکڑیوں کو غور سے دیکھا اور بولا: ’’مجھے اپنی بھٹی جلانی پڑے گی۔ اس کام میں ایک گھنٹہ لگ سکتا ہے۔‘‘سارجنٹ نے جواب دیا: ’’کوئی ہرج نہیں، ہمیں حکم ہے کہ ہم مجرموں کو رات ہونے سے پہلے پکڑ لیں۔‘‘
سپاہی اندر آگئے اور اپنے ہتھیار ایک کونے میں رکھ کر جو کے پیچھے بھٹی تک گئے تا کہ جو کی مدد کریں اور کام جلدی ختم ہو جائے۔ انکل پمبل چوک سارجنٹ کو میز پر لے گئے اور اس کو کھلانے پلانے لگے۔ جلد ہی سب لوگ ہنسنے بولنے لگے۔ جو کے ہتھوڑے کی آوازیں ان کو بتا رہی تھیں کہ کام ہو رہا ہے۔ ہتھکڑیوں کی مرمت ہو گئی تو سارجنٹ نے خوش ہو کر ہم سب کو ساتھ چلنے اور مجرموں کی گرفتاری کا منظر دیکھنے کی دعوت دی۔ صرف منشی ووپ سل اور جو نے دعوت قبول کی۔ میری بہن نے مجھے بھی اجازت دے دی لیکن اپنے شوہر سے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر لڑ کا زخمی ہو کر واپس آیا تو وہ مرہم پٹی نہیں کرے گی۔ ہم سیدھے قبرستان پہنچے جہاں میں نے پہلی بار اس آدمی (مجرم) کو دیکھا تھا۔ سپاہی اس کو تلاش کر رہے تھے اور میں ڈر رہا تھا کہ وہ آدمی سوچے گا کہ میں نے اسے دھوکا دیا اور سپاہیوں کو یہاں لے آیا۔ جب سپاہیوں کو کوئی نہ ملا تو ہم آگے بڑھے لیکن ہماری پریشانی بڑھ گئی۔
یکا یک ڈانٹنے کی ایک زور دار آواز سنائی دی۔ سارجنٹ نے ہاتھ کے اشارے سے سپاہیوں کو اُدھر دوڑ کر جانے کا حکم دیا۔ اُدھر سے اور زیادہ اونچی آواز یں آنی شروع ہو گئیں۔ میں سپاہیوں کی طرح لمبے لمبے ڈگ نہیں بھر سکتا تھا، اس لیے جو نے مجھے کندھوں پر اُٹھا لیا اور ان کے پیچھے دوڑنے لگا۔ ہم ایک گڑھے کے قریب پہنچے، جس میں سے پانی اور کیچڑ اچھل کر باہر آ رہا تھا۔ سارجنٹ چلایا:
’’تم دونوں ہار مان لو اور باہر آ جاؤ!‘‘
سپاہی گڑھے کے منھ پر کھڑے تھے۔ ان کی بندوقوں کے رُخ ان دو آدمیوں کی طرف تھے، جو آپس میں گتھم گتھا تھے۔ جب انھوں نے حکم ماننے سے انکار کر دیا تو سپاہی گڑھے میں گھس گئے اور دونوں کو زخمی حالت میں باہر کھینچ لائے۔ دونوں کو ہتھکڑیاں پہنا دی گئی تھیں۔ میرا جاننے والا قیدی بہت غصے میں تھا۔ اس نے چلا کر کہا:’’ یا درکھو!میں نے اس کو پکڑا ہے، میں نے اسے تمھارے حوالے کیا ہے؟‘‘ دوسرا قیدی، جس کے چہرے پر زخموں کے نشان تھے بہت بُری حالت میں تھا۔ وہ خود کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کو سہارے کی ضرورت تھی۔ وہ بڑبڑایا:’’یہ مجھے جان سے مارنے کی کوشش کر رہا تھا۔‘‘
میرے جاننے والے قیدی نے سپاہیوں سے کہا: ’’یہ بالکل غلط کہتا ہے۔ اگر میں اسے مارنا چاہتا تو یہ بچ نہیں سکتا تھا۔ میں نے اس کو زندہ رکھا ہے، تا کہ یہ پکڑا جا سکے۔ میں اس کو یہاں تمھارے لیے کھینچ کر لایا ہوں۔‘‘ پھر اس نے سارجنٹ سے کہا: ’’آپ کو میرے پاؤں میں کوئی بیڑی نظر نہیں آرہی، ہے نا؟ میں آسانی سے بھاگ سکتا تھا، لیکن جب مجھے خیال آیا کہ یہ بھی صاف بچ نکلے گا تو مجھے یہ گوارا نہیں ہوا۔ میں اس کو فرار ہونے نہیں دوں گا اور نہ اسے آزاد د یکھنا چاہتا ہوں کہ یہ مجھے پھر تکلیف پہنچائے۔‘‘
’’بس بس! ‘‘سارجنٹ نے حکم دیا۔ فوراً ٹارچیں روشن کی گئیں اور بندوقیں چلائی گئیں، تا کہ جہاز کے قید خانے کو اطلاع ہو جائے اور وہاں سے کشتی آجائے۔ ٹار چوں کی جھلملاتی روشنی میں میرے قیدی کی مجھ پر نظر پڑی۔ میں نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور اپنے ہاتھ ہلکے سے ہلائے، اپنے سر کو بھی تھوڑ اسا جھکایا۔ میں اس کو یہ یقین دلانا چاہتا تھا کہ میں نے ان سپاہیوں کو اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ ایک لمحے کے لیے اس کی آنکھیں مجھ سے چار ہوئیں لیکن اس کی آنکھیں کیا کہہ رہی تھیں، یہ میں نہیں سمجھ سکا۔
جلد ہی ہم دریا کی طرف چل پڑے، جہاں قیدیوں کو کشتی پر بٹھا نا تھا۔ کشتی پر چڑھنے سے پہلے میرے جاننے والے قیدی نے سارجنٹ سے کہا: ’’میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ میں نے گاؤں کے لوہار کے گھر سے کچھ کھانے کی چیزیں چرائی تھیں۔ میں نے پنیر اور کیک وہیں سے اُڑایا تھا۔‘‘ جو یہ سن کر بولا: ’’اچھا تو یہ بات ہے، اسی لیے میری بیوی ہمارے یہاں آنے سے ذرا پہلے کیک ڈھونڈ رہی تھی لیکن ایک بھو کا آدمی اگر تھوڑا سا کھانا چرالے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ٹھیک ہے نا پپ؟‘‘ میں بول نہیں سکا۔ میں نے سر ہلا کر ہاں کہا۔ قیدی کشتی میں بیٹھ گئے۔ کشتی روانہ ہوگئی اور ہم اپنے گھر لوٹ آئے۔
٭٭٭
میرا بہنوئی جو بالکل ان پڑھ تھا۔ اس زمانے میں لو ہار کے لیے پڑھنا لکھنا ضروری بھی نہیں تھا، لیکن مجھے کچھ پڑھنا آگیا تھا۔ مجھے بڑا ہو کر جو کا مددگار اور شاگر د بننا تھا، اس لحاظ سے میں پہلے ہی خاصی تعلیم حاصل کر چکا تھا۔ میں ایک لوہار سے زیادہ کچھ بننابھی نہیں چاہتا تھا۔ مجھے جو سے محبت تھی اور جو بھی مجھے چاہتا تھا اور جہاں تک ہوسکتا مجھے بہن کی بدزبانی اور سختی سے بچاتا تھا۔ بہن کی مار سے مجھے بچانے کی کوشش میں اکثر جو کے بھی چوٹ لگ جاتی تھی۔ ہم دونوں کے سروں پر تھپڑوں کی بارش ہوتی تھی۔ کرسمس کے بعد جلد ہی میری زندگی میں ایک بڑی تبدیلی آئی۔ انکل پمبل چوک ایک دن مس ہیوی شام کا پیغام لے کر آئے۔ مس شام بہت مال دار، سنجیدہ اور بوڑھی خاتون تھیں اور ایک ویران سے مکان میں رہتی تھیں۔ میں نے ان خاتون کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ صرف ان کے بارے میں سنا تھا۔ وہ تنہا رہتی تھیں۔ ڈاکوؤں کے ڈر سے ان کے مکان کو اچھی طرح محفوظ بنایا گیا تھا۔ اب یہ خاتون چاہتی تھیں کہ میں ان کے گھر میں رہوں اور کھیلا کروں۔ جو کو بہت تعجب ہوا، اس نے اپنی بیوی سے پوچھا: ’’وہ خاتون پپ کو کیسے جان گئیں؟‘‘
’’ احمق کہیں کے! کس نے کہا کہ وہ پپ کو جانتی ہیں؟ انکل پمبل چوک اس کے کرائے دار ہیں۔ ایک دن وہ کرایہ دینے گئے تو اس نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ کسی اچھے لڑکے کو جانتے ہیں؟ انکل ایک شریف آدمی ہیں۔ انھوں نے پپ کا ذکر کر دیا۔ اب سامنے سے ہٹو اور مجھے اس کو نہلا نے دھلانے دو۔‘‘ اس کے بعد بہن نے مجھے صابن سے خوب نہلا کر چمکا یا۔ پھر مجھے نئے اور اچھے کپڑے پہنائے۔ میں یہ سختی بھگت رہا تھا اور میری بہن اور انکل پمبل چوک خیالی پلاؤ پکا ر ہے تھے۔ بہن کہہ رہی تھی۔’’ اگر میں ایک لڑکا ہوتی اور میری ایک امیر عورت سے دوستی ہو جاتی تو ہم سب کی قسمت بدل جاتی۔‘‘ انکل نے بڑے زور شور سے بہن کی تائید کی اور کہا: ’’پپ پر قدرت مہربان معلوم ہوتی ہے۔‘‘ دیکھتے ہی دیکھتے مجھے انکل کی گاڑی میں بٹھا دیا گیا اور ہم روانہ ہو گئے۔ میں یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کر سکا کہ مجھے کیوں یا کیا کھیلنا پڑے گا اور اس سے پہلے کہ میں زبان کھولتا ہم ایک پھاٹک (بڑے گیٹ) پر پہنچ چکے تھے، جس میں تالا لگا ہوا تھا۔ پھاٹک کے اندر اینٹوں کا بنا ہوا بھیانک ساپر انا مکان تھا۔ مکان میں بہت سی کھڑکیاں تھیں۔ کچھ بند، کچھ کھلی۔ انکل نے گھنٹی بجائی، کھڑ کی کھلی اور ایک صاف آواز آئی:
’’کون؟ کیا نام ہے؟‘‘
’’میں پمبل چوک ہوں، اس لڑکے پپ کو لایا ہوں!‘‘ کھڑ کی بند ہوگئی اور چند منٹ بعد ایک خوب صورت لڑکی ہاتھ میں کنجیاں لیے ہوئے صحن میں سے گزر کر پھاٹک پر آئی۔ یہ لڑکی میری ہم عمر ہوگی، لیکن اپنے مغرورانہ انداز اور اکڑی ہوئی گردن کی وجہ سے وہ مجھ سے بڑی معلوم ہوتی تھی۔ اس نے مجھ پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالی اور کہا: ’’آئو پپ، اندر آ جاؤ!‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ پھاٹک بند کرنے لگی۔ انکل نے اندر آنا چاہا تو اس لڑکی نے روک دیا اور پوچھا: ’’کیا آپ بھی مس ہیوی شام سے ملنا چاہتے ہیں؟‘‘
انکل کو یہ سوال اچھا نہ لگا، انھوں نے جواب دیا:’’ ہاں، اگر مس شام بھی ملنا چا ہیں تو مل لوں گا۔ ‘‘لڑکی نے کہا:’’ نہیں، مس شام ملنا نہیں چاہتیں۔ ‘‘یہ کہہ کر پھاٹک بند کر دیا۔ ہم آنگن سے گزرتے ہوئے بازو کے دروازے سے گھر میں داخل ہوگئے۔ سامنے کے دروازے کی کنڈی لگی ہوئی تھی۔ اندراند ھیرا تھا، مگر لڑکی نے دروازے کے قریب ایک موم بتی جلا رکھی تھی۔ وہ کئی راستوں سے گزرتی ہوئی ایک زینے پر چڑھی۔ وہ بار بار مجھ سے کہتی جاتی تھی کہ پیچھے نہ رہ جانا، ورنہ کھو جاؤ گے۔ اس کے لہجے میں حقارت تھی۔ آخر ہم ایک بند دروازے کے سامنے رکے۔ وہ لڑ کی کہنے لگی:’’ اندر چلے جاؤ۔‘‘میں نے شرماتے ہوئے کہا: ’’مس، پہلے آپ!‘‘
اس نے جواب دیا: ’’بے وقوف نہ بنو، مجھے اندر نہیں جانا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی۔ ڈرتے ڈرتے میں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ پھٹی ہوئی آواز میں کسی نے جواب دیا اور مجھے اندر آنے کو کہا۔ میں نے اندر قدم رکھا تو میں ایک بڑے کمرے میں تھا۔ کمرہ موم بتیوں سے روشن تھا اور کسی خاتون کا سنگھار خانہ معلوم ہوتا تھا۔ ایک بہت بڑا آئینہ ایک بڑی میز پر رکھا ہوا تھا۔ پہننے کے کپڑے بکھرے ہوئے تھے۔ صندوق ادھ کھلے پڑے ہوئے تھے اور ان کے درمیان ایک عجیب و غریب خاتون بیٹھی تھیں۔ میں نے ایسی عجیب عورت زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی۔ ان کے تمام کپڑے سفید تھے، دلہنوں جیسے سفید کپڑے۔ دلہنوں کی سی نقاب بھی سفید تھی۔ جوتے بھی سفید تھے، مگر ایک جوتا پاؤں میں تھا، دوسرا میز پر رکھا تھا۔ سفید دستانے، سفید ریشمی رومال اور دعاؤں کی کتاب بھی سفید تھی۔ یہ سب چیزیں سنگھار میز پر بکھری پڑی تھیں۔ میں نے ان کو سفید کہا ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ چیز یں کبھی سفید ہوں گی، اب تو بہت وقت گزرنے کی وجہ سے پیلی پڑ چکی تھیں اور اس دلہنوں کے لباس میں جو ہستی تھی وہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدل گئی تھی۔ یہ لباس ایک جوان عورت کے لیے بنایا گیا تھا، لیکن اب عورت کے بڑھاپے کی وجہ سے ہڈی، چمڑا ایک ہو گیا تھا، اس لیے یہ لباس ان کے جسم پر ڈھیلا ہو چکا تھا۔ یہ عورت مس ہیوی شام تھیں۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا: ’’ تم کون ہو؟ ‘‘میں نے بتایا کہ میں پپ ہوں، پمبل چوک کا بھتیجا اور یہاں کھیلنے کے لیے لایا گیا ہوں۔
مس شام نے حکم دیا: ’’قریب آجاؤ۔ کیا تمھیں ایک ایسی عورت سے ڈر نہیں لگ رہا ہے، جس نے تمھاری عمر سے زیادہ مدت سے سورج کی روشنی نہیںدیکھی؟ کیا تم ڈر رہے ہو؟‘‘
میں نے ہاں میں سر ہلا دیا، حال آنکہ یہ سچ نہیں تھا۔ مس شام نے اپنا ایک ہاتھ سینے کے بائیں طرف رکھ کر پوچھا:’’ کیا تم جانتے ہو کہ یہاں کیا ہے؟‘‘ میں نے کوشش کر کے کہا: ’’مادام! آپ کا دل ہے!‘‘
’’ ٹوٹا ہوا دل! ‘‘مس شام نے ایک عجیب انداز سے یہ لفظ کہے، جن میں کچھ شیخی بھی شامل تھی۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے میز پر رکھی ہوئی گھڑی اور دیوار میں لگے ہوئے گھنٹے میں وقت دیکھنے کو کہا۔ دونوں میں ایک ہی وقت تھا: نو بجنے میں بیس منٹ۔ یعنی دونوں اس وقت کے بعد سے بند تھے۔
مس شام نے میری طرف اشارہ کر کے کہا: ’’میں تھک گئی ہوں اور کچھ تفریح چاہتی ہوں۔ میری ایک خواہش ہے یا بیماری سمجھ لو کہ میں کسی کو کھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں، اس لیے کھیلو۔‘‘
میں بالکل نہیں سمجھا کہ کیا کروں، کیسے کھیلوں، اس لیے خاموش کھڑا رہا۔ مس شام نے مڑ کر اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا اور بے چین ہو کر بولیں: ’’اسٹیلا کو بلاؤ۔ اگر تم کھیل نہیں سکتے تو کم سے کم یہ تو کر سکتے ہو۔ میں کہہ رہی ہوں اسٹیلا کو بلاؤ۔‘‘
میں کمرے سے راہ داری میں گیا اور آواز دی۔ اسٹیلا جلد ہی موم بتی لیے ہوئے آگئی۔ مس شام نے اس کو اشارے سے اپنے پاس بلایا۔ پھر انھوں نے سنگھار میز پر سے ایک موتی اٹھایا اور اسٹیلا کے سرخ بالوں کے قریب لے جا کر کہا: ’’عزیزئہ من! ایک دن یہ تمھارا ہو جائے گا۔ پھر تم اس کی مدد سے مردوں کی توجہ حاصل کر سکو گی اور ان کے دل تو ڑوگی۔ اب اس لڑکے کے ساتھ تاش کھیلو، میں دیکھنا چاہتی ہوں!‘‘
اسٹیلا کو یہ بات اچھی نہیں لگی، وہ بولی:’’اس لڑکے کے ساتھ کھیلوں؟ یہ تو عام مزدوری کرنے والا لڑکا ہے!‘‘
میرے کان میں مس شام کی یہ آواز آئی:’’ ہاں ہاں، پھر بھی تم اس کا دل دُکھا سکتی ہو۔ کیا نہیں دکھا سکتیں؟‘‘
اسٹیلا نے کہنا مان لیا اور ہم دونوں کھیلنے بیٹھ گئے، لیکن میرا دل تاش کے پتوں میں نہیں لگ رہا تھا۔ اسٹیلا، مس شام سے میرے بارے میں کہتی رہی کہ اس کے ہاتھ کتنے بھدے ہیں، اس کے جوتے کتنے موٹے موٹے ہیں۔ پھر وہ بڑی حقارت سے ہنس کر بولی:’’ آہا! یہ تو بادشاہ کے پتے کو غلام کہہ رہا ہے۔‘‘
میں اتنا پریشان ہوا کہ میری سمجھ ہی میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ ظاہر ہے اسٹیلا بازی جیت گئی۔ مس شام ہمارے کھیل کے دوران بت بنی خاموش بیٹھی تھیں، اب وہ بولیں:’’ اسٹیلا نے تمھارے بارے میں کئی سخت باتیں کہیں، لیکن تم نے اس کے متعلق کچھ نہیں کہا۔ تمھارا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟مجھے بتائو۔‘‘
مس شام کے اصرار پر میں نے ان کے کان میں کہا: ’’اسٹیلا بہت مغرور، لیکن بہت خوب صورت ہے، میری بہت تو ہین کرتی ہے ۔۔۔ کیا اب مجھے گھر جانے کی اجازت ہے؟‘‘
مس ہیوی شام نے مجھ سے دوسری بازی کھیلنے کے لیے کہا۔ اس کے بعد بھی گھر جانے کی فوری اجازت نہیں دی اور جب اجازت دی تو مجھے چھے دن میں واپس آنے کی تاکید کی۔ اسٹیلا کو حکم دیا گیا کہ وہ مجھے کچھ کھانے کے لیے دے۔ مجھے اس نے روٹی اور گوشت دیا۔ ایسا لگا جیسے مجھے نہیں کسی کتے کو کھلایا جا رہا ہے۔ اس تو ہین سے میرے آنسو نکل آئے۔ میری یہ حالت دیکھ کر اسٹیلا کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور اپنی گردن کو جھٹکا دے کر اس نے میرا مذاق اڑایا۔ میں اس رات گھر پہنچا تو میری بہن مجھ پر ذرا مہربان تھی۔ شاید اس نے سوچا ہوگا کہ میں کسی کام کے قابل ہو رہا ہوں لیکن میری حالت بہت قابلِ رحم تھی۔ جب تک اسٹیلا نے نہیں کہا تھا، میں نے کبھی اپنے آپ کو عام آدمی نہیں سمجھا تھا۔ اب میں نے دیکھا کہ میرے جوتے کتنے موٹے ہیں، میرے ہاتھ کتنے بھدے اور سخت ہیں۔ میں نے یہ بھی سمجھا کہ میرا علم کتنا کم ہے کہ میں تاش کے پتوں کے صحیح نام تک نہیں جانتا۔ میں جان گیا کہ میں کتنا معمولی سا انسان ہوں اور اب اپنی کم علمی اور محرومی کا احساس ہو جانے کی وجہ سے مجھے اسٹیلا سے شرم آنے لگی۔ اس دن اسٹیلا سے ملاقات نے میرے خیالات بالکل بدل ڈالے۔ چھے دن بعد میں حکم مانتے ہوئے مس ہیوی شام کے ہاں پہنچ گیا۔ اس بار بھی مغر در اسٹیلا نے مکان کے اندھیرے راستوں میں میری رہ نمائی کی۔ مس شام پہلے کی طرح اپنی سنگھار میز پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ انھوں نے یہ کہہ کر میرا استقبال کیا: ’’لڑ کے! تمھیں اچھی طرح کھیلنا نہیں آتا۔ خیر، کیا تم کام کرنا چاہتے ہو؟ ‘‘میرے ہامی بھرنے پر انھوں نے کہا: ’’ ہال کے دوسری طرف کھانے کے کمرے میں میرا انتظار کرو۔‘‘
سنگھار خانے کی طرح یہ کمرہ بھی دن کی روشنی سے محروم تھا۔ کھڑکیوں، دروازوں کے پردوں نے خاصا اندھیرا کر رکھا تھا۔ ہوا نہ ہونے سے کمرے میں ایک عجیب سی بُو بس گئی تھی۔ اس کمرے کی گھڑیاں بھی وہی نو بجنے میں بیس منٹ پر رکی ہوئی تھیں۔ کمرے کے فرنیچر میں خاص چیز ایک لمبی میز تھی، جس کے میز پوش پر مٹی جمی ہوئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ میز کبھی کسی تقریب کے لیے تیار کی گئی تھی۔ میز کے درمیان میں چاندی کا ایک میلا سا اسٹینڈ تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ یہ مکڑیوں کی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ اسٹینڈ کے اوپر ایک پیلا پیلا گولا سا تھا، جس پر مکڑی کے اتنے جالے تھے کہ میں جان نہ سکا کہ یہ کیا چیز ہے۔ میں چوہوں کی بھاگ دوڑ دیکھنے میں اتنا محو تھا کہ مس ہیوی شام کی لنگڑا لنگڑا کر چلنے کی آواز بھی نہیں سن سکا، جو چھڑی کے سہارے کمرے میں داخل ہوئیں، پھر اپنی چھڑی سے اس پہلے گولے کی طرف اشارہ کر کے کہا:’’ یہ میری شادی کا کیک ہے!‘‘ پھر اس کے بعد انھوں نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا اور کہا:’’ اب تمھارا کام شروع ہوتا ہے، مجھے اس میز کے چاروں طرف گھماؤ!‘‘
مس شام میرے کندھے پر جھکی ہوئی تھیں اور ہم دھیرے دھیرے کمرے میں چکر لگا رہے تھے۔ اس خدمت کے بعد مجھے مس شام کی نظروں کے سامنے اسٹیلا کے ساتھ تاش کھیلنے تھے اور پھر کتے کی طرح مجھے کھا نا ملنا تھا۔ کوئی آٹھ مہینے تک یہی چکر چلتا رہا اور میں اسی طرح مس شام کے ہاں آتا جاتا رہا۔ کھیل میں میرا اناڑی پن کم سے کم ہوتا رہا، لیکن اسٹیلا میرے لیے ویسی ہی’’ ظالم ‘‘رہی۔ وہ میرے کھیل میں نئی نئی خامیاں نکال لیتی اور میرا مذاق اڑاتی۔ صرف دو موقعوں پر اس کے انداز میں کچھ فرق ہوا۔ ایک بار تو یہ ہوا کہ میں اسٹیلا کے ساتھ سیڑھیوں پر چڑھ رہا تھا تو ایک صاحب نیچے آرہے تھے۔ آمنا سامنا ہوا تو وہ صاحب ذرا رکے اور بولے:
’’یہ کون ہے؟‘‘
اسٹیلا نے بے پروائی سے جواب دیا:
’’یہ ایک لڑکا ہے۔‘‘
یہ صاحب خاصے لمبے چوڑے تھے اور ان کا سر بھی بڑا تھا۔ جب انھوں نے اپنی موٹی موٹی کالی بھوئوں کو اوپر چڑھا کر شک کی نظروں سے مجھے گھورا تو مجھے گھبراہٹ ہوئی۔ انھوں نے پھر سوال کیا:
’’یہ یہیں کہیں پڑوس سے آیا ہے؟‘‘
’’جی جناب! میرا نام پپ ہے۔ ‘‘میں نے جواب دیا۔ انھوں نے میرے جواب کو توجہ سے سنا اور رخصت ہو گئے۔ میں ان صاحب کو جلد ہی بھول گیا، کیوں کہ وہ میرے لیے اس وقت کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔
ایک اور موقع پر ذرا انداز بدلا۔ ایک بارمس شام نے چاہا کہ اسٹیلا اور میں زیادہ دیر تک تاش کھیلیں۔ عام طور پر میں گھبراہٹ کی وجہ سے غلطیاں کرتا تھا، لیکن اس روز زیادہ دیر تک کھیلنے کی وجہ سے میں اچھا کھیلا۔ مس شام تک کو میری تعریف کرنی پڑی۔ اس کا اثر اسٹیلا پر بھی ہوا ہو گا۔ جب وہ مجھے پھاٹک تک چھوڑنے آئی تو اس نے میری طرف رخ کر کے کہا: ’’یہاں آؤ تم مجھ سے ہاتھ ملا سکتے ہو۔‘‘ چناں چہ میں نے یہی کیا۔ میں نے اس کا بہت اثر لیا ہوتا، مگر اسٹیلا کا انداز بھی بالکل مس شام کی طرح بے نیازانہ، بلکہ مغرورا نہ تھا۔ اس نے بھی مس شام کی نقل کی تھی اور یہ گویا ایک عام لڑکے کو اس کے اچھے کھیل پر داد دی تھی، اس لیے اس عنایت کو میں نے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ ایک دن جب مس شام میرے کندھے پر ہاتھ رکھے چہل قدمی کر رہی تھیں تو انھوں نے کہا: ’’پپ! تم لمبے ہوتے جارہے ہو۔‘‘پھر انھوں نے پوچھا: ’’کیا جو لوہار اب بھی تمھیں اپنا مددگار بنانا چاہتا ہے؟ ‘‘
میں نے بتایا کہ یہ جو کی دلی خواہش ہے۔ اس پر مس شام نے کہا: ’’تو پھر اس خواہش کے پورے ہونے کا یہ صحیح وقت ہے۔ اچھا میں کا غذات دیکھوں گی۔‘‘
میری بہن، بہنوئی اور چچا پمبل چوک نے جو کے مددگار کے طور پر سرکاری دفتر میں میرا نام لکھوا دیا۔ جب میں اس اندراج کا کاغذ مس شام کے پاس لے گیا تو انھوں نے اس بات کو پسند کیا اور مجھے پچیس، گنیاں بخشیں، جو ایک بڑی رقم تھی۔ انھوں نے کہا:’’ تم اچھے لڑکے ثابت ہوئے۔ یہ تمھارا معاوضہ ہے۔ زیاد ہ امید نہ رکھو۔ اب تمھیں یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب جو گارگری تمھارا افسر ہے۔‘‘
جب میں نے معاوضے کی رقم اپنے گھر جا کر بتائی تو میری بہن کو اور بھی یقین ہو گیا کہ مس شام کا کیا مقصد تھا۔ پمبل چوک نے ہمیں یاد دلایا کہ یہ سب انھی کی بدولت ہوا اور وہی مجھے مس شام تک پہنچانے کا ذریعہ بنے تھے۔ جو خوشی میں جھوم اٹھا کہ میں آخر اس کا مددگار بن ہی گیا۔ کبھی میری بھی یہی تمنا تھی، مگر اب میں بھٹی کا سامنا کرتے ہوئے اور لوہار کی زندگی اپناتے ہوئے ڈر رہا تھا۔ مس ہیوی شام اور اسٹیلا اور ان کے امیرا نہ ٹھاٹ اور تہذیب نے میرے ذہن کو بدل دیا تھا۔
میں جو کے ساتھ کام کرنے لگا، لیکن میری بد دلی ختم نہیں ہوئی۔ میرا خوف بھی عجیب تھا۔ میرے دماغ میں یہ خیال بس گیا تھا کہ اسٹیلا اپنی کھڑکی میں سے مجھے کالے چہرے اور کالے ہاتھوں سے کام کرتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔
میں دل میں یہ بھی سوچتا تھا کہ اسٹیلا مجھے اس حال میں دیکھتی ہوگی تو خوب ہنستی ہوگی اور مجھے حقیر سمجھ رہی ہوگی اور پھر یہ بھی خیال آتا کہ میں سمندر کی طرف بھاگ گیا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا، مگر میں جو سے بھی ہمدردی رکھتا تھا۔ اس کو تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔ وہ لوہار کے کام کو اچھا سمجھتا تھا، مگر میں نے کبھی اس کی تردید کی اور نہ تائید۔ میں جو سے اپنی نا خوشی چھپانے میں کام یاب رہا۔ مجھے اس بات پر اطمینان ہے۔ اس کے ساتھ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہونے لگی کہ میں مس ہیوی شام کی طرح بڑے سے مکان میں رہوں اور میرے پاس بہت دولت ہو۔ ایک سال تو کسی طرح گزر گیا، لیکن اس کے بعد اسٹیلا اور مس شام کو ایک بار پھر دیکھنے کی خواہش اتنی شدید ہو گئی کہ میں اس پر قابو نہ پا سکا۔ جو نے مجھے ہفتے میں ایک چھٹی کی اجازت دے رکھی تھی۔
ایک چھٹی کے دن میں مس شام کے گھر کے پھاٹک پر کھڑا تھا۔ گھنٹی بجانے سے پہلے کچھ دیر میں نے سوچا، مگر آخر میرا ہاتھ گھنٹی پر چلا ہی گیا۔ گیٹ پر ایک عورت آئی۔ اس کو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے کہا کہ وہ مس شام کی چچا زاد بہن ہے۔ اگر اس کا بس چلتا تو وہ مجھے بھگا دیتی، مگر اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ مس شام کی اجازت کے بغیر ایسا کر سکے۔ وہ ان کو اطلاع کرنے اندر چلی گئی۔ مس شام نے مجھے اندر بلا لیا۔ کمرے کی ہر چیز اپنی جگہ تھی۔ مس شام مجھے دیکھ کر بولیں:
’’خیریت سے ہو، مجھے یقین ہے کہ تم کچھ مانگنے نہیں آئے ہو گے، کیوں کہ اب تمھیں کچھ نہیں ملے گا۔‘‘
میں نے جواب دیا:
’’نہیں مادام! میں تو آپ کو صرف یہ بتانے آیا ہوں کہ میں اچھی طرح ہوں اور اپنے کام میں لگا ہوا ہوں۔ میں آپ کا احسان مند ہوں کہ آپ نے مجھے صحیح راستے پر لگا دیا۔‘‘مس شام خوش ہو کر بولیں:
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ ہاں، تم کبھی کبھی مجھ سے ملنے آجایا کرو۔اپنی سال گرہ کے دن ضرور آنا۔‘‘
جب مس شام نے میری نظروں کو ادھر اُدھر بھٹکتے ہوئے دیکھا تو سمجھ گئیں کہ میں اسٹیلا کو تلاش کر رہا ہوں۔ کہنے لگیں: ’’تم اسٹیلا کو یہاں نہ پا کر حیران سے ہو رہے ہو۔ ہے نا؟‘‘
’’جی ہاں مادام! آپ کا خیال صحیح ہے۔ مجھے امید ہے کہ اسٹیلا ٹھیک ٹھاک ہوگی۔‘‘
’’ہاں، وہ اچھی ہے اور غیر ملک گئی ہوئی ہے۔ اس کو ایک معزز خاتون کی حیثیت سے تربیت دی جارہی ہے۔ اب وہ پہلے سے زیادہ پرکشش ہوگئی ہے، جو شخص بھی دیکھتا ہے اس کی تعریف کرتا ہے۔ کیا تمھیں وہ یاد آتی ہے؟‘‘
یہ سوال کر کے وہ زور سے ہنسیں۔ ان کی ہنسی میں خباثت شامل تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں کیا جواب دوں، لہٰذا میں چُپ رہا۔ یہ دیکھ کر انھوں نے اشارے سے مجھے جانے کی اجازت دے دی۔ میں جلدی جلدی سیڑھیوں سے اتر کر ان کے گھر سے نکلا اور اپنے گھر کی طرف چلنے لگا۔ میرے کانوں میں اب تک ان کی ہنسی گونج رہی تھی۔ راستے میں مجھے ارلک ملا۔ ارلک کے بال سیاہ اور شانے چوڑے تھے۔ وہ بہت طاقت ور تھا۔ ارلک بھی جو کے ساتھ کام کرتا تھا اور مجھ سے بہت جلتا تھا۔ جب میں بہت چھوٹا تھا تو ارلک مجھے خوف ناک کہانیاں سنایا کرتا تھا۔ ارلک کو کوئی پسند نہیں کرتا تھا۔ اس وقت جب وہ ملا تو مجھ سے کہنے لگا: ’’سنو! گولیاں چلنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ شاید کوئی اور قیدی جیل سے فرار ہو گیا ہے۔‘‘
جب ہم ذرا آگے بڑھے تو میرے کانوں میں بھی گولیوں کی آوازیں آئیں۔ مجھے قبرستان کا قیدی یاد آیا۔ جب میں گھر کے قریب پہنچا تو رات ہو چکی تھی۔ گھر میں روشنی کچھ زیادہ ہی نظر آئی۔ لوگ بھی جمع تھے۔ میں آگے بڑھا تو لوگوں نے مجھے راستہ دے دیا، تا کہ میں اندر جاسکوں۔ میں نے دیکھا کہ بہن فرش پر گری ہوئی ہے۔ لوہے کی ایک بیڑی جو قیدیوں کو پاؤں میں پہنائی جاتی ہے، قریب پڑی ہوئی ہے۔ شاید میری بہن کے سر پر یہ بیڑی مار کر اسے گرایا گیا تھا۔ یہ کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ اس کو کس نے مارا ہے۔ میرا خیال تھا کہ یہ ا رلک کا کام ہے، لیکن ارلک نے اس الزام کو نہیں قبولا۔
جو نے مجھے سمجھا دیا تھا کہ حالات کا ہمیشہ بہادری سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ میری بہن مسز جو نے اپنی بد مزاجی اور بد زبانی کی وجہ سے اپنے بہت سے دشمن بنا لیے تھے۔ ہم دونوں جانتے تھے کہ بہت سے لوگ مسز جو سے نفرت کرتے ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی اس پر حملہ کر کے اپنا دل ٹھنڈا کر لیا ہو گا۔ میری بہن زندہ تو رہی مگر ویسی صحت واپس کہاں سے آ سکتی تھی۔ اس کے لیے چلنا پھرنا مشکل ہو گیا تھا اور بولنا بھی آسان نہ تھا، نہ اسے کچھ یادر ہتا تھا۔ اس طرح میری بہن بہت بدل گئی تھی۔ اب وہ خاموش اور پر سکون تھی اور صرف ہاتھ کے اشاروں سے اپنا مطلب ادا کرتی تھی۔ شروع میں جو اپنی بیوی کی اس حالت سے بہت پریشان تھا، مگر دھیرے دھیرے اس کو احساس ہو گیا کہ اب زندگی میں سکون اور ماحول خوش گوار ہے۔ یہ بات پہلے نہ تھی۔
بڈی کی وجہ سے حالات اور بھی اچھے ہو گئے۔ بڈی میری بہن کی خدمت کے لیے ہمارے گھر آکر رہنے لگی تھی۔ وہ نہ صرف بہن کی دیکھ بھال کر رہی تھی بلکہ گھر کو بھی سلیقے اور صفائی سے رکھتی تھی۔ بڈی گاؤں کی ایک یتیم لڑکی تھی اور مسٹر ووپ سلے کی دور کی رشتے دار بھی تھی۔ وہ بہت سمجھ دارلڑکی تھی۔ اس کی مدد سے میری پڑھنے لکھنے کی صلاحیت بہت تیزی سے بڑھنے لگی۔ وہ کھانا بھی اچھا پکاتی تھی۔ ہم نے اس سے پہلے کبھی اتنا مزے دار کھانا نہیں کھایا تھا۔ زندگی میں پہلی بار جو کو گاؤں کے ہوٹل جانے اور لوگوں سے مل کر گپ شپ کرنے کی آزادی ملی تھی۔
٭٭٭
کئی سال گزر گئے۔ میں اپنی سال گرہ کے موقع پر مس ہیوی شام کے گھر جاتا رہا۔ مس شام مجھ سے چند منٹ بات کرتیں۔ چلتے وقت ایک گنی دیتیں۔ پہلی بار تو میں نے گنی لینے سے انکار کر دیا تھا، لیکن مس شام ناخوش ہوئیں۔ انھوں نے سمجھا کہ شاید میں رقم کم ہونے کی وجہ سے انکار کر رہا ہوں اور زیادہ چاہتا ہوں۔ اس خیال سے میں گنی لینے لگا اور کتابیں خریدنے پر خرچ کرنے لگا۔ مجھے اسٹیلا پھر نظر نہیں آئی۔ وہ ابھی تک فرانس میں تھی۔ سارا پاکٹ ہی پھاٹک کھولا کرتی۔ وہی عورت جس نے اپنے آپ کو مس شام کی چچا زاد بہن بتایا تھا۔
میں روزانہ شام کو کتابوں کا مطالعہ کرتا۔ بڈی بے چاری مجھے پڑھاتی۔ اب وہ بھی جوان اور پرکشش ہو رہی تھی۔ وہ ہمدرد ہونے کے علاوہ سمجھ دار بھی تھی۔ ایک اتوار کی شام کو میں اور بڈی ٹہلنے کے لیے نکلے۔ راستے میں، میں نے اس سے اسٹیلا کے متعلق باتیں کیں اور میں نے بڈی کو سب کچھ بتا دیا۔ میں نے کہا کہ اسٹیلا مجھے دیہاتی اور گنوار سمجھتی ہے، اس لیے اچھے طور طریقے سیکھنا چاہتا ہوں۔ بڈی خاموشی سے سب کچھ سنتی رہی، مگر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ مجھے بہت چاہتی تھی۔ اس نے کہا:
’’ میرا خیال ہے کہ اسٹیلا بہت سخت مزاج اور خود غرض ہے۔ تم اس کو بھول جاؤ۔‘‘ یہ بات صحیح تھی۔ بڈی، اسٹیلا سے زیادہ مہربان اور خوش مزاج تھی، لیکن مجھ پر اسٹیلا کا جادو چل چکا تھا۔ آخر بڈی نے کہا: ’’مجھے خوشی ہے کہ تم نے مجھے بتا دیا۔ میں ہمیشہ تمھاری مدد کرنے کی کوشش کروں گی۔‘‘ گھر واپسی پر راستے میں مجھے ارلک دکھائی دیا۔ شاید وہ ہمارے پیچھے لگا ہوا تھا۔ بڈی نے بتایا کہ ارلک اس کو پسند کرتا ہے، مگر وہ اس سے خوف زدہ ہے۔
٭٭٭
جو کے ساتھ کام کرتے ہوئے کوئی چار سال گزرے ہوں گے کہ ایک صاحب ہمارے ہاں آئے۔ مجھے ان کو پہچاننے میں دیر نہیں لگی۔ ایک دن مس شام کے گھر میں، میں اسٹیلا کے ساتھ زینے پر چڑھ رہا تھا تو ایک صاحب نیچے آرہے تھے۔ یہ وہی صاحب تھے۔ اپنی موٹی کالی بھوئوں کو اوپر چڑھا کر ان کا مجھے گھورنا اب تک یا دتھا۔ اس وقت وہ جو کے گھر آئے تو اعتماد سے بولے:
’’مجھے یقین کرنا چاہیے کہ اس وقت جو گارگری میرے سامنے ہیں جو لوہار کا کام کرتے ہیں؟ ‘‘اور پھر میری طرف اشارہ کر کے کہا: ’’اور یہ پپ ہیں۔‘‘
’’جی سر! بالکل صحیح ہے۔ ‘‘میرے بہنوئی نے جواب دیا۔
’’میرا نام’ جاگرس‘ہے۔ میں لندن میں وکیل ہوں اور اس وقت ایک موکل کے کام سے آپ کے پاس آیا ہوں۔‘‘
جا گرس صاحب کے انداز سے جو بہت متاثر ہوا اور ان کو فوراً بیٹھک (ڈرائنگ روم) میں لے آیا۔ میں بھی پیچھے پیچھے آیا اور جلدی جلدی میز، کرسیوں اور صوفے کی صفائی کی۔ جاگرس صاحب میز کے پاس کرسی پر بیٹھ گئے اور جو کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے:
’’اگر آپ کو اپنے شاگرد پپ کو چھوڑنا پڑے تو کیا آپ اس کا کوئی معاوضہ چاہیں گے؟‘‘
جو نے فوراً جواب دیا: ’’جی نہیں، کچھ نہیں، میں پپ کے راستے میں نہیں آؤں گا۔ اس کے فائدے سے مجھے خوشی ہوگی۔‘‘
جا گرس صاحب اب میری طرف مڑے اور کہنے لگے: ’’پپ! مجھے آپ کو یہ اطلاع دینی ہے کہ آخر کا راب آپ دولت اور جائیداد کے مالک ہو جائیں گے۔ جس شخص کی طرف سے یہ دولت آپ کو ملے گی وہ چاہتا ہے کہ آپ کو اس کے لیے تیار کیا جائے اور دولت استعمال کرنے کے قابل بنایا جائے، اس لیے وہ شخص چاہتا ہے کہ آپ اچھی تعلیم حاصل کریں اور معزز آدمیوں والے انداز سیکھیں، اپنی خواہشیں پوری ہونے کی امید کے ساتھ۔‘‘
میرا سانس رُک گیا۔ میری خواہشیں اور میرے خواب پورے ہونے کا وقت قریب آچکا تھا۔
جا گرس صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’مسٹر پپ! کچھ شرطیں ہیں۔ پہلی تو یہ کہ وہ شخص چاہتا ہے کہ آپ ہمیشہ پپ کا نام ہی اپنائے رکھیں گے، بدلیں گے نہیں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ آپ کے محسن کا نام راز میں رہے گا۔ اس وقت تک یہ نام نہیں بتایا جائے گا جب تک کہ وہ شخص خود نہ چاہے۔ اگر آپ کو اس کا نام معلوم ہو جائے یا کسی شخص کے بارے میں آپ کو شبہ ہو جائے تب بھی اس کا نام آپ اپنی زبان سے نہیں نکالیں گے۔ میری بات واضح ہوگئی نا؟ ‘‘
میں نے اقرار میں سر ہلایا تو جا گرس صاحب نے پوچھا: ’’آپ کو یہ باتیں منظور ہیں؟‘‘ میں نے دوبارہ سر ہلایا اور جاگرس صاحب کو یقین دلایا کہ شرطیں واضح ہیں اور میں ان کی پابندی کروں گا۔ جاگرس صاحب چند منٹ خاموش رہے، جیسے وہ اپنے آخری الفاظ کی اہمیت جتانا چاہتے ہوں، پھر کہنے لگے:’’ اب انتظامات کی بات ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا، آپ کے مستقبل سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں، لیکن موجودہ حالات میں خرچ کرنے کے لیے بہت معقول رقم اس شخص نے دی ہے۔ یہ رقم آپ کی تعلیم اور ضروریات زندگی کے لیے کافی سے زیادہ ہے۔ اس رقم کا انتظام اس گم نام شخص کی طرف سے میں کروں گا، اس لیے مجھے اپنا نگراں سمجھئے‘‘۔ میں نے شکر یہ ادا کرنا چاہا تو جا گرس صاحب نے مجھے روک دیا اور کہا:’’ نہیں، کوئی شکریہ نہیں۔ مجھے اپنی خدمات کا بہت معقول معاوضہ ملتا ہے۔ اب آپ غور سے سنیے! آپ کو جلد لندن جانا ہے۔ کچھ اچھے کپڑے سلوا لیجیے۔ وہاں آپ کو ہر برٹ پاکٹ کے ساتھ رکھا جائے گا۔ ہر برٹ آپ ہی کی عمر کا نوجوان ہے۔ امید ہے آپ اس کے ساتھ رہ کر معزز لوگوں کی سی عادتیں اور طریقے سیکھ جائیں گے اور میں ہر برٹ کے والد میتھیو پاکٹ کو آپ کا استاد مقرر کرنا چاہوں گا۔ آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘
میں نے جلدی سے جواب دیا: ’’جا گرس صاحب! آپ جو مناسب سمجھتے ہیں وہی اچھا ہے۔ میں نے پاکٹ لوگوں کے بارے میں سنا ہے۔ وہ مس ہیوی شام کے عزیز ہوتے ہیں۔‘‘ جا گری صاحب کا چہر ہ سخت ہو گیا۔ انھوں نے کہا: ’’ہاں میرا خیال یہی ہے۔ اچھا، آپ کے کپڑوں اور سفر خرچ کے لیے یہ کچھ رقم ہے۔‘‘ انھوں نے بیس گنیاں نکال کر میز پر رکھ دیں، اپنا کارڈ بھی رکھ دیا اور رخصت ہو گئے۔ جو اور میں صوفے پر گم صم بیٹھے رہ گئے۔ بڈی آئی تو اس نے ہم دونوں کو بتوں کی طرح ساکت پایا۔ جو نے اپنے حواس پر قابو پایا اور بڈی کو پورا قصہ بتایا۔ اس کے بعد جو باورچی خانے میں گیا اور میری بہن کو بھی یہ ساری باتیں بتانی چا ہیں۔ ہم اکیلے رہ گئے تو بڈی نے خوشی سے میرا ہاتھ ہلا یا اور دھیرے سے بولی: ’’تو کم سے کم تمھاری ایک خواہش پوری ہو رہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ دوسری خواہشوں کا کیا ہوگا۔‘‘
میں سمجھ گیا کہ اس کا اشارہ اسٹیلا کی طرف ہے۔ وہ اسٹیلا کو اچھا نہیں سمجھتی تھی۔ اس لیے میں نے مختصر جواب دیا: ’’کسے معلوم؟ ‘‘
میری بہن کا دماغ اتنا کم زور ہو گیا تھا کہ میرے معاملے میں جو کچھ ہور ہا تھا وہ ہم بہن کو سمجھا نہ سکے تھے۔ ساری بات سن کر وہ ہنسی اور اپنا سر ہلا کر خوشی کا اظہار کیا، مگر شاید اُسے خوشی اس بات کی تھی کہ اس پر زیادہ توجہ کی جارہی ہے۔
دوسرے دن صبح ہی میں تراب صاحب کی دکان پر پہنچ گیا، جو ہمارے گاؤں کے درزی تھے۔ ان کے لڑکے نے بتایا کہ تراب صاحب دکان کے پچھلے حصے میں اپنے کمرے میں ناشتا کر رہے ہیں۔ جب تک تراب صاحب نے مجھے بلا نہیں لیا میں بے چین رہا۔ تراب صاحب میرے پہنچنے پر بھی ناشتا کرتے رہے۔ میں ان کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ انھوں نے مجھ سے ناشتے کے لیے پوچھنے کا تکلف بھی ضروری نہیں سمجھا۔ بس وہ کھاتے رہے۔ میں نے بات شروع کی: ’’تراب صاحب! مجھے کچھ رقم ملی ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی وہ تن کر بیٹھ گئے۔ انھوں نے کریم رول ہاتھ سے رکھ دیا، انگلیاں صاف کیں اور کھڑے ہو گئے۔ میں نے چند گنیاں اپنی جیب سے نکالیں اور بتایا کہ میں جلد ہی لندن جانے والا ہوں اور سفر میں ایک فیشن ایبل سوٹ پہننا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر تراب صاحب مجھے فورا ًدکان میں لے گئے اور بڑے جوش میں کام شروع کر دیا۔ انھوں نے اپنے لڑکے کو کپڑے کے مختلف تھان لانے کو کہا۔ پھر انھوں نے خود تھان کھول کھول کر دکھانے شروع کیے۔ وہ ہر تھان کی خوب تعریف کر رہے تھے۔ ان کے مشورے سے میں نے ایک ایسے کپڑے کا انتخاب کیا، جو ایک معزز نوجوان کے لیے موزوں تھا۔ میں نے سیدھے کھڑے ہو کر سوٹ کا ناپ دیا۔ ناپ لینے کے دوران تراب صاحب مجھے یقین دلاتے رہے کہ میرے جسم پر ہر سوٹ جچے گا۔ جب میں دکان سے آنے لگا تو انھوں نے خود میرے لیے دروازہ کھولا۔ پیسے کی غیر معمولی طاقت کا یہ میرا پہلا ذاتی تجربہ تھا۔
سوٹ تیار ہو گیا تو میں اسے پہن کر مس شام کو الوداع کہنے گیا۔ انھوں نے کہا کہ مجھے مسٹر جا گرس سب بتا چکے ہیں۔ مس شام نے میری کام یابی کی دعا بھی کی۔ پھر انھوں نے اپنا بید لہرا کر مجھے اللہ حافظ کہا۔ میں اصل میں ان کا شکریہ ادا کرنے گیا تھا، مگر مجھے جا گرس صاحب کی شرط یاد آگئی اور میں نے مس شام پر یہ ظاہر نہیں کیا کہ میں ان کو اپنا محسن سمجھتا ہوں۔ مجھے رخصت کرتے وقت ان کے الفاظ یہ تھے:’’ اللہ حافظ پپ، تم جانتے ہو کہ تم ہمیشہ اپنا یہ نام (پپ) رکھو گے۔‘‘
میں نے اقرار میں سر ہلایا، شکر یہ ادا کیا اور چلا آیا۔ جیسے جیسے میرے لندن روانہ ہونے کے دن قریب آرہے تھے جو زیادہ سنجیدہ ہوتا جا رہا تھا۔ آخر اس نے کہا:
’’مجھے اپنے مددگار کے جدا ہونے کا افسوس نہیں ہے، بلکہ ایک چھوٹا بچہ، جو نہ جانے کتنے دن میرے ساتھ آگ کے قریب بیٹھا اور جس نے نہ معلوم کتنی راتیں مجھے بھٹی پر کام کرتے دیکھا، وہ مجھ سے دور جا رہا ہے۔‘‘
میں سفر کے لیے بہت بے چین تھا اور اپنی خواہشوں اور امیدوں کو پورا ہوتے دیکھنے کی مجھے اتنی جلدی تھی کہ اپنے عزیز ترین خیر خواہ جو گارگری اور بڈی کے مجھ سے جدائی کے صدمے کا مجھے احساس نہیں رہا۔ وہ دونوں میری جدائی کے خیال سے بہت پریشان تھے۔ میں ہفتے کے دن صبح ۵ بجے گاؤں سے قصبے کے لیے روانہ ہوا، جہاں سے مجھے کوچ (بگھی) میں بیٹھ کر لندن جانا تھا۔ جو اور بڈی، دونوں نے گھر سے باہر آ کر مجھے الوداع کہا۔
٭٭٭
چار گھوڑوں والی گاڑی نے لندن پہنچانے میں ۵ گھنٹے لیے۔ میںد وپہر کے بعد شہر پہنچا اور فورا ًجا گرس صاحب کے دفتر کی طرف چل پڑا۔ ان کا دفتر نیوگیٹ جیل کے قریب تھا۔ گلیاں اور گھر سب گندے اور بد نما تھے۔ دفتر کے منشی نے بتایا کہ وکیل صاحب کہیں گئے ہوئے ہیں۔ اس نے مجھے ان کے کمرے میں پہنچایا۔ کمرہ تاریک اور بے رونق تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں نے منشی سے کہا کہ میں ذرا تازہ ہوا کھانے کے لیے باہر جارہا ہوں۔ یہ کہہ کر میں دفتر سے نکلا اور چل پڑا۔ مارکیٹ اور جیل کے پاس سے گزرا، مجھے ہر چیز گندی اور اُداس نظر آئی۔ کچھ دیر گھومنے پھرنے کے بعد واپس آیا تو دفتر کے باہر کچھ لوگ جمع تھے۔ وہ جاگرس صاحب سے ملنے آئے تھے۔ یہ لوگ غریب اور پریشان تھے اور ان میں سے کچھ غنڈے بھی دکھائی دیتے تھے۔ میں نے سوچا کہ کیا ان سب کے رشتے دار جیل میں ہیں! جا گرس صاحب وکیل اور قانون داں تھے۔ ان کا کام ہی لوگوں کی قانونی مدد کرنا تھا۔ جو لوگ کسی جرم میں پکڑے جاتے ہیں اور جن پر عدالت میں مقدمہ چل رہا ہوتا ہے، جاگرس صاحب کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ثابت کردیں کہ ان کے موکل مجرم نہیں ہیں۔
آخر جا گرس صاحب آگئے۔ پہلے انھوں نے ان لوگوں سے باتیں کیں، جو ان کے انتظار میں تھے۔ پھر انھوں نے ان سب کو باہر بھیج دیا اور مجھے اپنے کمرے میں لے گئے۔ وہاں انھوں نے بتایا کہ مجھے کیا کرنا ہے، مجھے ہر برٹ پاکٹ کے ساتھ رہنا ہے، ہر برٹ قریب ہی کرائے کے کمروں میں رہتا ہے، وہ مجھے اپنے باپ میتھیو پاکٹ کے پاس لے جائے گا، اگر میں چاہوں تو وہاں رہ بھی سکتا ہوں۔ جاگرس صاحب نے مزید بتایا کہ خرچے کے لیے مجھے کتنا الاؤنس ملا کرے گا۔ انھوں نے جو رقم بتائی وہ کافی بڑی رقم تھی۔ انھوں نے مجھے ایسے کارڈ بھی دیے جن کو دکھا کر میں کپڑا اور دوسری چیز یں قرض لے سکتا ہوں۔ ان چیزوں کے دام بعد میں جاگرس صاحب ادا کر دیا کریں گے۔ اس سے مجھے سہولت بھی ہوگی اور اس طرح جاگرس صاحب کوبھی میرے خر چوں اور میری سرگرمیوں کا علم ہوتا رہے گا۔
اس کے بعد جا گرس صاحب نے اپنے منشی و یمک کو حکم دیا کہ وہ مجھے ہربرٹ پاکٹ کے کمروں تک پہنچادے۔ ویمک ایک ٹھنگنا اور خشک سا آدمی تھا۔ اس کا چہرہ لکڑی کا بنا ہوا لگتا تھا اور منھ ایسا تھا جیسے لیٹر بکس میں خط ڈالنے کے لیے شگاف ہوتا ہے، لیکن اس کی آنکھوں میں بڑی تیزی اور چمک تھی۔ وہ مجھے برنارڈ کی سرائے لے گیا۔ ہم سرائے کے پھاٹک سے داخل ہو کر ایک مکان کے زینے پر چڑھے۔ سب سے اوپر کی منزل پر ہر برٹ کے کمرے تھے۔ دروازے پر چٹ لگی تھی جس پر لکھا تھا: ’’جلدی واپس آجاؤں گا‘‘ مگر دروازے میں تالا نہیں لگا ہوا تھا، اس لیے ہم اندر داخل ہو گئے۔ منشی ویمک نے کہا: ’’اچھا، اب آپ کو میری ضرورت نہیں ہوگی۔ ویسے میں چوں کہ نقد رقم (کیش) کا انچارج ہوں، اس لیے ملاقات تو ہوتی رہے گی۔‘‘ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور وہ روانہ ہو گیا۔
اب میں نے کمروں پر نظر ڈالی۔ یہ میرا نیا گھر تھا۔ کمرے خوب بڑے تھے اور فرنیچر کم ہونے کی وجہ سے اور بھی بڑے معلوم ہوتے تھے۔ صفائی بھی یوں ہی سی تھی۔ آخر ان میں ایک تنہا لڑکا رہتا تھا۔ کوئی بیس منٹ گزرے ہوں گے کہ میں نے باہر کسی کے قدموں کی چاپ سنی۔ ایک جوان لڑکا پھلوں کا تھیلا لیے ہوئے داخل ہوا۔ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ اس نے کہا:
’’پپ صاحب؟‘‘
میں نے مسکرا کر کہا: ’’جی ہر برٹ صاحب!‘‘
ؔ ’’مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کے آنے کے وقت یہاں موجود نہیں تھا، مگر مجھے آپ کے پہنچنے کا صحیح وقت بھی معلوم نہیں تھا۔ پھر میں نے یہ بھی سوچا کہ آپ تازہ پھل کھانا پسند کریں گے، اس لیے میں پھل لینے چلا گیا۔‘‘
مجھے ہر برٹ پاکٹ کی اس بات سے اندازہ ہو گیا کہ وہ کتنا مہربان ہے۔ اس نے میرے شکریے کے الفاظ شاید ہی سنے ہوں، کیوں کہ وہ فورا ًہی انتظام میں لگ گیا۔ برابر کے مکان میں ایک ریستوران تھا، اس سے ہمارا کھانا آیا۔ میں نے دونوں کے کھانوں کے دام دے دیے۔ ہربرٹ شریف انسان تھا، مگر غریب بھی تھا۔ اس نے اپنی حالت کا جس خوش دلی اور صفائی سے اظہار کیا، اس سے میں بہت متاثر ہوا تھا۔ ہر لمحے مجھ پر اس کی نئی خوبیاں ظاہر ہوتی جارہی تھیں۔ اس کی آمدنی کم تھی، اس لیے کمروں میں فرنیچر بھی کم تھا۔ اپنا سامان کھول کر جمانے میں مجھے خاصا وقت لگ گیا یہاں تک کہ شام ہو گئی۔ اب بیرا شام کا کھانا لے آیا۔ کھانا عمدہ اور مزے دار تھا۔ مرغی، مکھن، پنیر اور پھلکے۔ مجھے کھانے میں اس لیے بھی مزہ آیا کہ پہلی بار مجھے خود مختاری ملی تھی۔ کوئی بزرگ پاس نہ تھا اور میں لندن میں تھا۔ ہربرٹ مس ہیوی شام کا رشتے دار تھا۔ میرے علم میں نہیں تھا کہ ہر برٹ کو میری پوری کہانی جا گرس صاحب یا مس شام نے بتادی ہے یا نہیں، لیکن میں اس کو سب کچھ بتانا چاہتا تھا، اس لیے اگلا گھنٹہ میں نے اس کو اپنی آپ بیتی تفصیل سے سنانے میں صرف کیا۔ اس کے بعد میں نے ہر برٹ سے درخواست کی کہ وہ مجھے لندن میں رہنے والوں کے طور طریقے اور تہذیب سکھائے۔ کھانے کے دوران میں ہر برٹ نے بھی مجھے مس ہیوی شام کی کہانی سنائی، اس نے کہنا شروع کیا:
’’مس شام کی ماں ان کو چھوٹا سا چھوڑ کر مرگئی تھیں۔ ان کے باپ نے ان کی صحیح تربیت نہیں کی اور ان کی عادتیں خراب کر دیں۔ جب ان کا انتقال ہوا تو مس شام کو بہت ساری دولت ورثے میں ملی۔ پپ! ذرا یہ بات بھی سمجھ لو کہ یہاں لندن میں لوگ چا قو منھ تک نہیں لے جاتے بلکہ کانٹے سے کھاتے ہیں۔‘‘
ہر برٹ نے یہ بات اس سادگی سے کہی کہ مجھے شرمندگی کا احساس تک نہیں ہوا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ ہر برٹ نے مس شام کا قصہ جاری رکھتے ہوئے کہا:
’’مس شام کو ایک خوب صورت آدمی سے محبت ہو گئی۔ اس آدمی کو میرے والد اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ مس شام نے اس پر بے شمار دولت خرچ کر دی، لیکن اس نالائق نے خاص شادی کے دن ایک چٹھی بھیجی کہ وہ شادی نہیں کر سکتا۔ مس شام کو یہ چٹھی جس وقت ملی اس وقت نو بجنے میں۔۔۔‘‘
میں نے ہر برٹ کی بات پوری کی،’’ بیس منٹ رہ گئے تھے اور مس شام شادی کا جوڑا پہن رہی تھیں۔‘‘
ہربرٹ نے کہا: ’’بالکل صحیح مس شام نے اسی وقت تمام گھڑیاں روک دیں اور اس وقت سے لے کر آج تک ہر چیز اسی طرح اسی جگہ رکھی ہے۔ ایک ذرا سی بات اور ہے پیارے پپ! کوئی چیز پیتے وقت گلاس کو بالکل خالی نہیں کرنا چاہیے کہ گلاس تمھاری ناک سے لگنے لگے۔‘‘
میں نے فورا ًپانی کا گلاس میز پر رکھ دیا اور ہر برٹ کا شکر یہ ادا کیا، پھر کہا کہ وہ آدمی مس شام سے شادی کر کے ان کی ساری دولت پر قبضہ کر سکتا تھا۔
’’ہاں، کسی کو صحیح وجہ نہیں معلوم، لیکن ہمارا خیال ہے کہ وہ پہلے سے شادی شدہ تھا اور اس کو مس شام سے ذرا لگا ؤ نہ تھا۔ وہ دھوکا دیتا رہا۔‘‘
میں نے سر ہلا کر کہا:’’ غریب مس شام میری محسن!‘‘
٭٭٭
دوسرے دن اتوار تھا۔ ہر برٹ اور میں، دونوں ویسٹ منسٹر ایبے کے گر جا گئے۔ دوپہر کو پارکوں اور بازاروں میں گھومے۔ میں عمدہ عمدہ گھوڑوں کو دیکھ کر سوچنے لگا کہ ان گھوڑوں کی نعلیں کس نے بنائی ہوں گی۔ کاش! جو نے بنائی ہوں۔ پیر کے دن میںہر برٹ کے ساتھ اس کے دفتر گیا۔ ہر برٹ شہر کے ایک تاجر کے پاس کام کرتا تھا۔ اس کو پوری امید تھی کہ ایک دن خود اس کا کا ر وبار ہوگا اور وہ جلد ہی امیر ہو جائے گا۔ بعد میں ہم دونوں ہیمر اسمتھ گئے جہاں ہر برٹ کے ماں باپ رہتے تھے۔ میتھیو پاکٹ صاحب کا گھر ایک چھوٹے سے باغ کے ساتھ بڑا خوب صورت لگ رہا تھا۔ یہ دریائے ٹیمز کے ساتھ تھا۔ میتھیو پاکٹ صاحب کے بال سفید ہو گئے تھے، لیکن وہ بوڑھے نہیں لگ رہے تھے، مگر ان کی بیوی ایک بے وقوف سی عورت تھی۔ اس نے تمام کام نوکروں پر چھوڑ رکھے تھے، اس لیے گھر میں صفائی نہیں تھی۔ ہربرٹ کے سات چھوٹے بہن بھائی تھے۔ ان کی دیکھ بھال دونر سیں کرتی تھیں۔ بیوی کی فضول خرچی کی وجہ سے پاکٹ صاحب اکثر پریشان رہتے تھے۔ پاکٹ صاحب دو اور لڑکوں کو بھی پڑھاتے تھے، جو انھی کے ساتھ رہتے تھے۔ ایک کا نام ڈرمل تھا اور دوسرے کا اسٹار ٹاپ۔ ڈرمل اچھا لڑکا نہیں تھا۔ پہلی بار دیکھ کر ہی میں اسے اور وہ مجھے نا پسند کرنے لگا۔ پاکٹ صاحب قابل اور عقل مند انسان تھے اور ہم درد بھی تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا:
’’ جا گرس صاحب نے بتایا ہے کہ تمھیں زندہ رہنے کے لیے کمانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمھارے لیے کافی رقم موجود ہے، لیکن امیروں کے بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، جب کہ تمھاری تعلیم نہیں ہو سکی۔ تمھیں پڑھنا چاہیے۔ تاریخ، جغرافیہ، ریاضی اور دوسرے مضامین کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اس کے لیے تمھیں کلاسوں میں جانا چاہیے۔ میں گھر پر تمھاری مدد کروں گا اور بتاؤں گا کہ تم کون کون سی کتابیں پڑھو۔‘‘
میں بہت خوش ہوا۔ میں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ میں نے پاکٹ صاحب کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا، لیکن میں زیادہ تر ہر برٹ کے ساتھ رہا مگر کتابیں بڑی توجہ اور محنت سے پڑھتا تھا۔
جا گرس صاحب لیے دیے رہتے تھے اور زیادہ بات نہیں کرتے تھے، مگر ان کا منشی و یمک بڑے تپاک سے ملتا تھا۔ ایک دن اس نے مجھے اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ وہ دریائے ٹیمز کے جنوب کی طرف ’’وال ورتھ ‘‘میں رہتا تھا۔ وہاں ہم دونوں پیدل گئے۔ ویمک نے کہا: ’’ہم لوگوں کو دن بھر بیٹھ کو کام کرنا پڑتا ہے، اس لیے پیدل چلنا مفید ہے۔‘‘ اس کا گھر لکڑی کا بنا ہوا تھا، ساتھ ہی چھوٹا سا باغ تھا۔ اس نے گھر کی چھت پر اس طرح رنگ کیا تھا کہ وہ گھر قلعہ معلوم ہوتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ وہ سچ مچ کے قلعے میں رہتا ہے، اس لیے اس نے باغ کے چاروں طرف خندق کھود دی تھی۔ خندق کو پار کرنے کے لیے لکڑی کا ایک تختہ رکھ دیا گیا تھا۔ یہ گویا اٹھنے والا پل تھا۔ جب ہم نے اس پل کو پار کر لیا تو ویمک نے تختہ اٹھا لیا، تا کہ کوئی اور خندق کو پار نہ کر سکے۔ حال آنکہ خندق صرف چارفیٹ چوڑی اور دوفیٹ گہری تھی۔ اس نے ایک کھمبے کی طرف اشارہ کر کے کہا:’’ یہ جھنڈے کے لیے ہے۔ ہرا تو ار کو میں باقاعدہ پر چم لہراتا ہوں۔‘‘ پھر ویمک نے منی سی توپ دکھائی اور بتایا کہ ہم ہر رات کو نو بجے یہ توپ داغتے ہیں۔ اس سے میرے والد کو بہت خوشی ہوتی ہے۔ ویمک کے باپ بھی اس کے ساتھ رہتے تھے جو بہت بوڑھے اور بہرے تھے۔ انھوں نے مرغیاں پال رکھی تھیں اور باغ میں سبزیاں اگا رکھی تھیں۔
ہم نے باغ میں بیٹھ کر ایک ایک گلاس مشروب پیا۔ نو بجنے کے قریب ہوئے تو و یمک اور اس کے باپ دونوں گھر کے اندر گئے۔ باپ نے آگ میں کر چھا تپایا۔ وہ بہت جوش میں تھے۔ ویمک نے باپ سے کر چھالے کر ٹھیک نو بجے توپ داغ دی۔ اتنے زور کا دھماکا ہوا کہ گھر ہل گیا۔ بوڑھا بہرا باپ خوشی سے چلا یا:’’ میرے کانوں میں آواز آ گئی۔‘‘
میں نے ویمک کے ساتھ کھانا کھایا اور رات کو وہیں سو یا۔ صبح ہم لوگ لندن واپس آگئے۔ ویمک نے بتایا کہ جا گرس صاحب میرے والد یا میرے گھر کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔
جا گرس صاحب نے دوسرے دن مجھے، ہر برٹ، اسٹار ٹاپ اور ڈرمل کو کھانے پر بلایا۔ وہ لندن کے مرکزی علاقے ’’سو ہو‘‘ میں رہتے تھے۔ ان کا مکان بہت بڑا تھا، لیکن تاریک اور اُداس۔ جاگرس صاحب نے ہم چاروں کو بہت عمدہ کھانا کھلایا۔ کھانا میزوں پر لگانے والی لمبی عورت سہمی سہمی سی تھی اور اس کا چہرہ پیلا سا تھا۔ جاگرس صاحب اس کو مولی کہہ کر بلا رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ میں نے مولی سے ملتی جلتی عورت پہلے کہیں ضرور دیکھی ہے۔ ایک دن میں برنارڈ کی سرائے میں اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا تو مجھے خیال ہوا کہ ہربرٹ کے کمروں کی حالت اچھی نہیں ہے۔ ان کو سجانا چاہیے۔ کمروں میںنئے قالین، فرنیچر اور پردے لگائے جائیں۔ جب میں نے جاگرس صاحب سے اپنے اس خیال کا اظہار کیا تو وہ ہنسے اور کہنے لگے:
’’میں جانتا تھا کہ تمھیں شہری زندگی اختیار کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ کتنی رقم چاہیے؟‘‘
میں نے رقم بتائی اور انھوں نے منشی و یمک کو بلا کر مجھے رقم دلوادی۔ میں نے عمدہ سامان خریدا اور کمروں میں سجا دیا۔ ہر برٹ بہت خوش ہوا۔ اسی عرصے میں مجھے بڈی کا خط ملا کہ میرا بہنوئی جو لندن آنے والا ہے۔ مجھے ذرا الجھن ہوئی۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ یہاں آئے لیکن میں جو سے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ میں اب وہ پپ نہیں ہوں جس کو اس نے دیکھا ہے۔ بہر حال جولندن آگیا اور میرے کمروں تک پہنچ گیا۔ دروازے پر پہنچ کر وہ اپنے پیر اس طرح صاف کرنے لگا کہ میں سمجھا شاید یہ کام اب کبھی ختم نہیں ہوگا۔ میں اس کو اندر کھینچنے والا تھا، لیکن آخر وہ خود اندر آ گیا۔ خوشی سے تمتماتے ہوئے چہرے کے ساتھ اس نے میرے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔ میں نے اس کا ہیٹ لینا چاہا جو نیا تھا، لیکن جو نے اسے مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا، جیسے بہت ہی نادر چیز ہو۔ وہ بار بار آنکھیں گھما کر ہر چیز کو دیکھ رہا تھا۔ حیرت کے مارے اس کی زبان سے کچھ نہیں نکلا۔ تھوڑی دیر میں ہربرٹ پہنچ گیا اور اس کے پیچھے پیچھے بیرا کھانا لے آیا۔ جب ہم میز پر بیٹھے تو جو کو اپنا ہیٹ ہاتھ سے رکھنا پڑا۔ اس نے ہیٹ آتش دان کے اوپر مچان پر رکھ دیا، جہاں سے وہ بار بار گر پڑتا تھا۔ کھانے کے دوران میں جو نے کئی ایسی حرکتیں کیں جن سے اس کا دیہاتی پن اور اناڑی پن ظاہر ہوتا تھا۔ جب ہر برٹ اپنے کام پر چلا گیا تو میری جان میں جان آئی اور کچھ اطمینان ہوا۔ جو نے مجھے سر کہہ کر مخاطب کیا تو میں نے منع کیا۔ جو نے کہا:
’’میرا خیال ہے کہ مجھے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ میرے کپڑے بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ میں تو لوہار کی بھٹی جانتا ہوں اور مجھ میں عقل بھی نہیں ہے۔ اگر کبھی تمھارا دل بوڑھے جو سے ملنے کو چاہے تو تم خود ہی وہاں آ جانا اور اسی طرح کھڑکی میں منھ دے کر بھٹی میں جھانکنا، جس طرح تم کیا کرتے تھے۔ اب اللہ حافظ میرے عزیز پپ۔ اللہ تمھاری مدد کرے گا۔‘‘ یہ کہہ کر جو تیزی سے نکل گیا۔
جو کے جانے کے بعد کئی ہفتے تک مجھ پر شرمندگی اور الجھن طاری رہی، اسی عرصے میں مجھے اطلاع ملی کہ میری بہن گزر گئی ہے تو میرا ذہن اور پریشان ہو گیا، لیکن ایک طرح سے مجھے اطمینان بھی ہوا۔
٭٭٭
کئی سال گزر گئے۔ میں بیس سال کا ہو چکا تھا۔ مجھے ایک خوش خبری ملی۔ یہ خبر جاگرس صاحب نے دی تھی کہ اسٹیلا فرانس سے واپس آگئی ہے۔ وہ لندن میں رہنے کے لیے آئی ہے اور اس نے کہلوایا ہے کہ میں اس سے ملوں۔ میرا دل بہت خوش ہوا کہ میں جلد ہی اسٹیلا سے ملوں گا۔ میں خوشی سے اچھلنے کودنے اور گانے لگا۔ مجھے دنیا کی ہر چیز اچھی لگنے لگی، لیکن میری یہ حرکتیں جاری رہیں تو ہر برٹ ان سے اُکتا گیا۔ میں نے اس سے معافی چاہی اور اقرار کیا کہ مجھے اسٹیلا سے محبت ہے۔ اس پر تعجب کرنے کے بجائے ہر برٹ نے سکون سے جواب دیا: ’’ہاں میں جانتا ہوں۔‘‘
’’کیسے۔۔ تم۔۔۔ کیسے جانتے ہو؟ ‘‘میں ہکلانے لگا۔
’’یہ تو سر سے پیر تک تم پر لکھا ہوا ہے۔ جب تم نے لڑکپن میں مس شام کے گھر جانے کا قصہ سنایا تھا، اسی وقت میں سمجھ گیا تھا۔ ‘‘ہر برٹ نے جواب دیا۔
اسٹیلا کے بارے میں اپنے دل کی باتیں ہر برٹ کو بتانے سے میرا دل ہلکا ہو گیا۔ میں نے اُسے بتایا کہ میں اس کے لائق نہیں ہوں، مگر اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ مس شام بھی چاہتی ہیں کہ میں اسٹیلا سے شادی کروں، ورنہ وہ میری سر پرستی کیوں کرتیں اور مجھے تمیز اور تہذیب کیوں سکھوا تیں؟
ہربرٹ نے میری بات سے اتفاق کیا اور کہا: ’’مس شام کے دوسرے عزیزوں کی طرح میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘لیکن پھر ہر برٹ کے چہرے پر ایک اداس رنگ آیا اور وہ بولا:
’’پپ، مگر اب میں ایک مختلف بات کہنے والا ہوں لیکن پہلے تمھیں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں خود ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوں۔ اس کا نام کلا را بارلے ہے۔ میں نے ابھی سے اس لیے بتا دیا کہ کہیں تم یہ نہ سوچو کہ میں بھی اسٹیلا سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
میرے دماغ میں کبھی اس قسم کا خیال نہیں آیا تھا، مگر میں نے ہر برٹ کی بات بیچ سے نہیں کاٹی اور اس کو بات پوری کرنے دی۔ وہ کہہ رہا تھا:
’’ جاگرس صاحب جب تمھارے لیے یہ سب کچھ کرنے کی شرطیں بنا رہے تھے تو انھوں نے یہ تو نہیں کہا کہ تمھیں اسٹیلا سے شادی کرنی ہوگی؟‘‘
میں نے جواب دیا:’’ نہیں۔‘‘
’’تو پھر تم پابند نہیں ہو اور میں زور دوں گا کہ تم اسٹیلا کا خیال چھوڑ دو۔‘‘
’’لیکن ہربرٹ کیوں؟ ‘‘میں نے پریشان ہو کر پوچھا۔
’’ ذرا سوچو، مس شام نے اسٹیلا کی کس طرح پرورش کی ہے اور اس کے خیالات اور جذبات کو کس رُخ پر ڈھالا ہے۔ یاد کرو کہ اسٹیلا کتنی بے پروا اور مغرور ہے۔ وہ مس شام کی طرح ہے۔‘‘
میں نے پیٹھ موڑ لی اور چلایا:
’’میں اس سے کبھی تعلق نہیں تو ڑسکتا۔ میں اس کو دل سے پسند کرتا ہوں۔‘‘
ہربرٹ نے میری بھلائی کے لیے جو کچھ کہا تھا اور جو ہمدردی ظاہر کی تھی، اس کا مجھ پر اثر ہوا، لیکن اسٹیلا کے بارے میں ہر برٹ کے الفاظ سے میں پریشان بھی ہوا اور عرصے تک سوچتا رہا۔
میں اس عرصے میں 21 سال کا ہو چکا تھا، اس لیے جا گرس صاحب نے مجھے اپنی دولت خود خرچ کرنے کا اختیار دے دیا۔ انھوں نے مجھے ایک حد تک قرض لینے کی اجازت بھی دے دی لیکن میں نے اب ارادہ کر لیا تھا کہ میں پانچ سو پاؤنڈ سالانہ کی معقول آمدنی میں ہی گزر کروں گا۔ مجھے اپنے محسن سے سال گرہ کے تحفے کے پانچ سو پاؤنڈ اور ملے۔ اس میں سے آدھی رقم میں نے خاموشی سے ویمک کی مدد سے ہربرٹ کی آمدنی بڑھانے کی غرض سے ایک جہاز راں کمپنی کے مالک کو دے دی۔ ایک ایمان دار اور سمجھ دار آدمی کلار یکر اس کا مالک تھا۔ اس کو کاربار کے لیے اضافی رقم اور ذہین آدمی کی مدد کی ضرورت تھی۔ میں نے آئندہ بھی ضرورت کے وقت اس کو رقم دینے کا وعدہ کیا، تا کہ آگے چل کر ہر برٹ کار بار میں برابر کا حصے دار بن جائے لیکن میں نے ہربرٹ کو نہیں بتایا کہ یہ سب کچھ میں کر رہا ہوں۔ ہر برٹ سمجھ رہا تھا کہ یہ محض حسن اتفاق ہے کہ کلا ریکر کی اس سے ملاقات ہوئی اور وہ اس کو اپنے ساتھ لگا رہا ہے۔ مجھے ہربرٹ نے بھی اسی انداز سے بتایا اور بتاتے وقت اس کا چہرہ خوشی سے جس طرح دمک رہا تھا، اس کو دیکھ کر ہی میرا دل مطمئن ہو گیا۔ میری خواہش تھی کہ ہر برٹ کو کبھی نہ معلوم ہو کہ اس کا محسن کون ہے۔ بہر حال ہر برٹ ترقی کرنے لگا۔
اس اثنا میں اسٹیلا لندن میں پھل پھول رہی تھی۔ اس کا وقت بہت اچھا گزر رہا تھا۔ مس ہیوی شام نے اسٹیلا کے لیے لندن میں رہنے کا انتظام ایک بیوہ کے ساتھ کر دیا تھا۔ اس بیوہ کی لڑکی اسٹیلا کی ہم عمر تھی۔ یہ لوگ خوش حال تھے اور ان کے تعلقات وسیع تھے۔ اسٹیلا نے بھی اسی ماحول میں مجھ سے مسلسل ملنا شروع کر دیا، تا کہ میرے ساتھ پارٹیوں میں اور خریداری کے لیے جاسکے۔ مجھے خوش ہونا چاہیے تھا، مگر میں خوش نہ تھا۔ اسٹیلا کا سلوک میرے ساتھ ایسا تھا جیسا سوتیلے بھائیوں یا سیکرٹری سے ہوتا ہے۔ پھر بھی اس کے کئی مداح مجھ سے جلتے تھے،مگر خود اسٹیلا نے مجھ پر کوئی مہربانی نہیں کی۔ ایک شام اسٹیلا نے کہا:
’’ میرے ساتھ مس شام کے ہاں چلو، انھوں نے بلایا ہے، وہ مجھے اکیلے سفر کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ ‘‘
ہم مس شام کے ہاں پہنچ گئے۔ کھانے کے بعد رات کو ہم آتش دان کے پاس بیٹھے تھے۔ مس شام، اسٹیلا سے حالات پوچھ رہی تھیں۔ باتوں ہی باتوں میں مس شام ناراض ہو گئیں۔ اسٹیلا نے بھی جو اب تیزی سے دیا اور کہا: ’’ آپ ہی نے مجھے یہ سخت بولی اور بے مروتی سکھائی ہے۔ ‘‘غرض خوب بحث ہوئی اور دونوں ایک دوسرے کو الزام دینے لگیں۔ میں پریشان ہوا اور اُٹھ کر باغ میں چلا گیا، مگر وہاں بھی مس شام کی سسکیوں کی آواز یں آ رہی تھیں۔ وقت گزرتا گیا، میرے خرچے بھی بڑھتے گئے، میرا ارادہ تھا کہ میں قرض نہیں لوں گا، مگر یہ ارادہ قائم نہ رہ سکا۔ میں قرض دار ہو گیا۔ مجھے درزی، ہوٹل، پھل والے اور کئی لوگوں کے بل ادا کرنے تھے۔ ان کے علاوہ مجھے کلاریکر کو بھی ہر برٹ کی طرف سے رقم دینی تھی، مگر مجھے امید تھی کہ میرا محسن میری ہر سال گرہ پر پہلے سے زیادہ دولت دیا کرے گا اور میں تمام قرضے ادا کر دوں گا۔ پھر میں ٹھاٹ باٹ سے شان دار زندگی گزاروں گا۔ اب میں 23 سال کا ہو گیا تھا اور 21سالہ پپ پر ہنسا کرتا تھا جو پانچ سو پاؤنڈ کو بڑی خوش قسمتی سمجھتا تھا۔ مجھے اب اس پپ کا خیال بھی نہیں آتا تھاجو کینٹ میں لو ہار رہنے کو یہی بڑی بات سمجھتا تھا۔ اب میری تعلیم و تربیت ختم ہو گئی تھی لیکن میں روزانہ کئی گھنٹے تک کتا ہیں ضرور پڑھا کرتا تھا۔
ایک رات کا ذکر ہے کہ میں گھر میں بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا۔ ہر برٹ اپنے کارو بار کے سلسلے میں شہر سے باہر گیا ہوا تھا۔ طوفان آیا ہوا تھا، اس لیے میں کہیں باہر نہیں جاسکا اور کتابوں سے دل بہلا تا رہا۔ سینٹ پال کے گرجے کے گھنٹے نے 11 بجائے تو میری توجہ کتاب سے ہٹی۔ پھر زینے پر کسی کے چڑھنے کی آواز نے میرے کان کھڑے کر دیے۔ تیز ہوا نے زینے کے لیمپ گل کر دیے تھے، اس لیے میں نے اپنے پڑھنے کا لیمپ ہاتھ میں لیا اور دروازے پر پہنچ گیا۔ روشنی پڑتے ہی آنے والے کے قدم رک گئے۔ میں نے نیچے زینے پر دیکھا اور زور سے پوچھا:
’’کون ہے؟ آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘
ایک آدمی نے روشنی میں آتے ہوئے کہا: ’’میں مسٹر پپ کو تلاش کر رہا ہوں۔ ‘‘جب اس آدمی کی نظر مجھ پر پڑی تو اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ اس کے کپڑے کھردرے، مگر عمدہ تھے۔ اس کے بال بھورے تھے۔ میرا اندازہ تھا کہ اس کی عمر 60 کے لگ بھگ ہوگی، مگر اس کے جسم پر گوشت تھا۔ جیسے ہی وہ قریب آیا، اس نے اپنے دونوں ہاتھ آگے بڑھائے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں کیا کروں؟ میں نے کہا: ’’میں پپ ہوں۔ کیا بات ہے؟ آپ کو مجھ سے کیا کام ہے؟‘‘
’’آہ! اچھا کام؟ میں بتا تا ہوں۔‘‘
وہ ذرا رکا اور میں سمجھ گیا کہ وہ چاہتا ہے کہ میں اسے اندر بلاؤں۔ میں نے یکا یک اسے اندر آنے کو کہہ دیا۔ میں نے اس کے چہرے پر خوشی دیکھی اور مجھے خیال آیا کہ مجھے اس کی خوشی کا جواب دینا چاہیے۔ اس نے کمرے میں نظر ڈالی اور اطمینان کی ہنسی ہنسا اور پھر اپنے ہاتھ آگے بڑھائے۔ مجھے شبہ ہونے لگا کہ کہیں یہ دیوانہ تو نہیں ہے، اس لیے میں پیچھے ہٹا۔ وہ بولا :’’ اچھا میں سمجھ گیا۔ تمھارا قصور نہیں ہے، میں اصل میں بہت دور سے تم سے ملنے آیا ہوں۔‘‘ اس آدمی نے اپنا کوٹ اور ہیٹ اتار دیا اور آگ کے قریب کرسی پر بیٹھ گیا۔ شعلوں میں ہاتھ تاپتے ہوئے اس نے پوچھا:
’’یہاں کوئی اور تو نہیں ہے؟‘‘ مجھے غصہ آگیا۔ میں نے کہا:
’’آپ کو یہ پوچھنے کا کیا حق ہے؟ ایک اجنبی ہوتے ہوئے رات کو اس وقت میرے کمرے میں کیوں آئے ہیں؟‘‘ اس نے سر ہلایا اور محبت سے بولا:
’’تم بہت بہادر ہو۔ مجھے خوشی ہے کہ تم بڑے ہو کر بھی بہادر ہی رہے۔‘‘
اسی وقت میرے دماغ میں بجلی سی چمکی اور مجھے یاد آ گیا کہ یہ شخص کون ہے۔ کینٹ کے دلدلی علاقے میں مجھے یہی قیدی ملا تھا۔ اب اس نے میرے چہرے سے سمجھ لیا کہ میں نے اسے پہچان لیا ہے اور ایک بار پھر وہ اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر آگے بڑھا۔ میں نے بھی بے سوچے سمجھے ہاتھ آگے بڑھا دیے۔ اس نے بڑے جوش کے ساتھ میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور بولا:
’’میرے بچے! تم نے مجھ سے بڑا شریفانہ برتاؤ کیا تھا۔ میں شریف پپ کو نہیں بھلا سکا۔‘‘ وہ مجھے گلے لگانے ہی والا تھا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اس کو روک دیا اور کہا:
’’اگر آپ شکریہ ادا کرنے آئے ہیں تو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے بچپن میں آپ کی مدد اس لیے کی تھی کہ مجھے امید تھی آپ متاثر ہو کر اپنی زندگی کا راستہ بدل لیں گے لیکن میں اب کسی صورت میں آپ کو پناہ نہیں دے سکوں گا۔‘‘
وہ ذرا پیچھے ہٹا اور چاروں طرف نظریں دوڑانے لگا۔ جب اس کی نظریں سائڈ بورڈ پر رکھی ہوئی بوتلوں کی قطار پر رکیں تو فوراً میرے منھ سے نکلا: ’’لیکن آپ کو واپس جانے کے لیے کچھ گرمی کی ضرورت معلوم ہوتی ہے۔‘‘پھر میں نے گرم چائے کی دو پیالیاں بنائیں ۔ چائے پیتے ہوئے میں نے سوال کیا:’’ اس پورے عرصے میں آپ کیسے رہے؟‘‘
اس نے بتایا: ’’میں نیو سائوتھ ویلز میں ہوں اور بہت آرام سے ہوں۔ میرا بھیڑوں کا فارم ہے۔ کیا میں یہ پوچھنے کی جرات کر سکتا ہوں کہ جب ہم دلدلی علاقے میں ملے تھے، اس وقت سے اب تک تم کیسے رہے؟ ‘‘
میں نے رکتے رکتے اپنی داستان سنادی۔ جب میں نے کہانی پوری کی تو وہ بڑے سکون سے بولا:
’’کیا میں تمھاری آمدنی کا اندازہ لگا سکتا ہوں، یعنی جب سے تم یہاں آئے ہو تمھیں پانچ سو پاؤنڈ سالانہ پابندی سے مل رہے ہیں نا؟ ‘‘
اس کی نظریں مجھ پر مسلسل جمی ہوئی تھیں۔ حال آنکہ وہ نرمی سے بات کر رہا تھا لیکن مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ چیخ رہا ہو۔ میں لرزنے لگا۔ پھر وہ کہنے لگا:
’’میرا خیال ہے کہ کوئی درمیانی شخص اس معاملے کی دیکھ بھال کر رہا ہے، جس کے نام کا پہلا حرف ’’ج‘‘ ہے۔‘‘
میرے منھ سے کوئی لفظ نہیں نکل سکا۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے میرا دم گھٹ ر ہا ہے۔ میں نے سہارے کے لیے میز کو پکڑ لیا لیکن اس نے اپنی بات جاری رکھی: ’’یہ سچ ہے نا کہ اس شخص کا نام جاگرس ہے اور اس کے منشی کا نام ویمک ہے؟‘‘
میرا سر چکرانے لگا اور مجھے صوفے کی طرف لپکنا پڑا، جس کے اوپر میں دھڑام سے گر گیا۔ اس شخص نے مجھے سہارا دے کر بٹھایا۔ اس کے بعد وہ میرے سامنے ایک گھٹنا ٹیک کر جھک گیا اور بولا:
’’میرے پیارے بچے پپ! میں نے تمھاری تربیت کر کے تمھیں ایک معزز آدمی بنایا ہے۔ ہاں، میں نے ہی یہ کام کیا ہے۔ میں نے قسم کھائی ہے کہ اپنی کمائی کا ایک ایک پنس تم پر خرچ کروں گا اور اب اچھی آمدنی کے باوجود میں موٹا جھوٹا کھاتا ہوں تا کہ تم عیش و آرام سے رہ سکو۔‘‘
میں سکڑ کر بیٹھ گیا۔ مجھے اس سے ڈر لگنے لگا، جیسے وہ ایک بہت ہی خطر ناک درندہ ہو۔
اس نے اپنی بات جاری رکھی: ’’پپ، تم مجھے اپنے حقیقی بیٹے سے بھی زیادہ عزیز ہو۔ میں دن کو بھیڑیں چراتا تھا اور صرف ایک وقت رات کو کھانا کھاتاتھا۔ ان تنہا راتوں میں کئی بار تمھارا چہرہ میرے سامنے آیا۔ میں نے تمھاری وہ باتیں یاد کیں، جو تم نے میرے ساتھ قبرستان میں کی تھیں۔ میں نے قسم کھائی تھی کہ میں تمھیں معزز آدمی بناؤں گا اور اس جذبے نے مجھ میں دوبارہ زندگی پیدا کر دی اور میں نے یہی کیا۔‘‘
اب اس نے کمرے میں چاروں طرف نظریں دوڑائیں اور قالین، تصویریں، میرے اعلا درجے کے کپڑے، قیمتی انگوٹھی، جو میں نے پہن رکھی تھی اور کتابیں بڑی خوشی کے ساتھ دیکھنے لگا۔
وہ کہتا رہا اور میں ساکت بیٹھا رہا۔ ’’میں نیو ساؤتھ ویلز میں اپنی ترقی کی وجہ سے مشہور ہوں۔ میرے پیچھے وہ ضرور میرے مجرم ہونے کا ذکر کرتے ہیں لیکن یہ بات صرف میں جانتا ہوں کہ میں ایک شریف آدمی کی خدمت کر رہا ہوں اور ایسا ان لوگوں میں سے کسی نے نہیں کیا، جس چیز نے مجھے دوبارہ زندہ رکھا وہ یہ تھی کہ میں ایک دن ضرور اس لڑکے سے ملنے جاؤں گا اور اس سے اپنا تعارف کراؤں گا۔‘‘
اس نے جوش اور فخر میں یہ بھی نہیں دیکھا کہ میں اس سے کتنا ڈر رہا ہوں اور اس کے انکشافات سن کر کتنا پریشان ہو رہا ہوں۔’’ پیارے لڑکے، میں کہاں سوؤں گا؟ میں طویل اور خطرناک سفر سے آیا ہوں۔‘‘
جب میری آواز بحال ہوئی تو میں نے کہا: ’’میرا ساتھی کہیں گیا ہوا ہے۔ آپ اس کے بستر پر سو سکتے ہیں لیکن خطر ناک سفر سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘
اس نے سادگی سے جواب دیا ’’مجھے پولیس کے اعلیٰ افسران پھانسی دے دیں گے اگر ان کو معلوم ہو گیا کہ میں لندن واپس آگیا ہوں۔‘‘
میں نے فورا ًتمام پردے گرادیے اور اس شخص کو ہر برٹ کے کمرے میں پہنچا دیا۔ میرا دل دکھ رہا تھا کہ اس شخص نے مجھ سے ملنے کے لیے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا اور میں اس بات پر پشیمان بھی تھا کہ میں نے اس شخص سے اچھا سلوک نہیں کیا۔ شب بخیر کہنے سے پہلے میں نے پوچھا: ’’کیا میرے لیے یہ سب کچھ کرنے والے آپ ہی تھے؟‘‘
اس نے میری طرف تعجب سے دیکھا اور کہا: ’’ہاں پیارے بچے، میںہی ہوں۔‘‘
اب مجھے اسٹیلا کا خیال ستانے لگا۔ مس ہیوی شام نے مجھے اسٹیلا کا شوہر بننے کے لیے منتخب نہیں کیا تھا، بلکہ میری حیثیت اس کے محافظ کی سی تھی۔ اس بوڑھی عورت کو کسی ایسے آدمی کی ضرورت تھی، جو احتیاط سے اسٹیلا کے ساتھ تاش کھیل سکے۔ میں بجھتی ہوئی آگ کے سامنے صبح تک بیٹھا ر ہا۔ اپنی بے بسی کا اس سے زیادہ احساس پہلے کبھی نہیں ہوا۔
٭٭٭
میرے قیدی دوست کا نام ایبل میگ وچ تھا۔ اس کی ملاقات جاگرس صاحب سے مقدمے کے سلسلے میں ہوئی تھی۔ جاگرس صاحب نے اس کو پھانسی سے بچایا تھا، مگر یہ بھی کہا تھا کہ اس کو لندن چھوڑ کر نیو ساؤتھ ویلز (آسٹریلیا) جانا پڑے گا۔ میگ کے آجانے سے کئی مسئلے پیدا ہو گئے تھے۔ میں نے ایک ایک کر کے یہ مسئلے حل کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اپنی مالکہ مکان سے کہا کہ میرے چچا آئے ہیں، لیکن یہ بھی کہا تھا کہ جلد ہی ہر برٹ اپنے تجارتی دورے سے واپس آجائے گا اور مجھے میگ کے لیے دوسری جگہ تلاش کرنی ہوگی۔ دوسرے دن صبح میگ نے ’’تگڑا‘‘ ناشتا کیا اور خوب مزے لے لے کر کھایا اور پھر اطمینان سے پائپ سلگایا۔ پائپ کی کالی کالی تمباکو کی بو بڑی خراب تھی۔ میگ بولا:
’’پپ، تمھیں اپنے لیے گھوڑے خریدنے چاہیں۔‘‘ اس نے رقم سے بھرا ہوا ایک پرس میز پر اچھال دیا اور کہنے لگا: ’’عزیز من! خوب خرچ کرو۔ جہاں سے یہ رقم آئی ہے وہاں اور بہت ہے۔ میں اس لیے آیا ہوں کہ تم اس رقم کو ایک بڑے معزز آدمی کی طرح خرچ کرو۔ مجھے اس سے خوشی ملے گی۔ ‘‘
میں نے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا اور کہا :’’ہمیں اس کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے، بلکہ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے کہ جب تک آپ یہاں ہیں آپ کو کس طرح محفوظ رکھا جائے۔ آپ کتنے عرصے تک یہاں ٹھیریں گے؟‘‘
میگ نے مجھے گھور کر دیکھا اور بتایا: ’’میں تو یہاں مستقل رہنے کے لیے ہی آیا ہوں۔ خضاب لگے ہوئے میرے بال، چشمے اور شان دار لباس کی وجہ سے میں پہچانا نہیں جاؤں گا اور محفوظ رہوں گا۔‘‘
میں نے رائے دی کہ دھوپ سے سنولائے ہوئے چہرے اور مزدور کے سے کھردرے ہاتھوں کے لیے ایک خوش حال کسان کا لباس زیادہ موزوں رہے گا۔
میگ کے لیے کپڑے خریدنے سے پہلے میں جاگرس صاحب کے دفتر گیا۔ جیسے ہی میں دفتر میں داخل ہوا، انھوں نے اور مسٹر ویمک نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی بات کی۔ اس سے پہلے کہ میرے منہ سے کوئی لفظ نکلتا، جا گرس صاحب نے کہا: ’’کسی کا نام زبان پر نہ لانا۔‘‘
’’بہتر ہے جاگرس صاحب!نیو ساؤتھ ویلز سے ایک مہمان میرے ہاں آیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میر امحسن وہی ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟‘‘
جا گرس صاحب نے بتایا کہ ہاں یہ صحیح ہے۔ میں نے مایوس ہو کر کہا کہ:
’’میں ہمیشہ یہ سمجھتا رہا کہ مس ہیوی شام میری محسن ہیں۔ آپ کی باتوں سے بھی میں یہ سمجھا تھا۔‘‘
جاگرس صاحب نے کہا:’’ نہیں، یہ سچ نہیں ہے۔ میں نے یہ نہیںکہا تھا۔ مس شام نے تمھارے اس خیال کو پکا کرنے میں مدد دی ہوگی لیکن یہ صرف ان کے بیمار ذہن کی تفریح تھی۔‘‘
اب مجھے یقین ہو گیا کہ میگ ہی میرا محسن ہے۔ میں بھاگا بھاگا گھر لوٹا، تا کہ میگ کے لیے اپنے قریب ہی کمرے کرائے پر لے لوں۔ میں میگ کے لیے کسان جیسے کپڑے خرید لایا، مگر ان سے زیاد ہ فا ئدہ نہیں ہوا۔ میگ ایک عام آدمی نہیں بن سکا۔
اس رات وہی کپڑے پہنے پہنے وہ صوفے پر سو گیا۔ میں اس کو دیکھتا رہا۔ میں بھاگ جانا چاہتا تھا، نہ صرف کمرے اور لندن سے بلکہ انگلستان سے ہی فرار ہونا چاہتا تھا لیکن ہربرٹ کے انتظار میں رکا رہا تا کہ اس سے مشورہ کر سکوں۔
جب تک میگ خود ہر برٹ کو دیکھ نہ لے اور اس کو بھروسے کے قابل نہ سمجھ لے، مجھے میگ کے بارے میں ہر برٹ کو بتانے کی اجازت نہ تھی۔ ہر برٹ کے پہنچنے پر میگ نے انجیل کی ایک بوسید ہ کاپی نکالی اور ہر برٹ سے اس پر قسم لینے کو کہا۔
میگ کو اس کے نئے کمرے تک پہنچانے کے بعد میں ہر برٹ سے رات گئے تک باتیں کرتا رہا۔ میرے ذہن میں جو کچھ بھی تھا، وہ میں نے کہہ ڈالا اور پھر ایک فیصلہ کیا۔ فیصلہ یہ تھا کہ میں اب میگ سے ایک پنس بھی نہیں لوں گا، کیوں کہ یہ رقم ایک مجرم کی ہے۔ حال آنکہ میں بہت قرض دار ہوں اور مجھے کوئی ہنر بھی نہیں آتا ہے۔ ہربرٹ میرے فیصلے سے متفق نہیں ہوا۔ اس نے کہا:
’’پپ، میں تمھارے احساسات کو سمجھتا ہوں لیکن اگر تم اس کی رقم نہیں لو گے تو اس کا دل ٹوٹ جائے گا۔ وہ صرف تمھاری مدد کرنے کے لیے ہی جی رہا ہے۔ اگر تم نے میگ سے رقم نہ لی تو وہ بالکل مایوس ہو جائے گا۔‘‘
میں چلا یا: ’’میں اس سے زیادہ تعلق نہیں بڑھانا چاہتا۔ میں اس کی دولت نہیں لوں گا۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ وہ یہاں سے چلا جائے۔‘‘
ہر برٹ بولا:’’ اگر تم چاہتے کہ وہ نہ گرفتار ہو اور نہ سولی پر چڑھایا جائے تو اس کو راضی کرو کہ وہ انگلستان سے چلا جائے۔‘‘
’’لیکن وہ نہیں جائے گا۔‘‘
’’تو پھر تمھیں بھی اس کے ساتھ جانا چاہیے۔ ‘‘
میں نے ہر برٹ کو گھورا۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی: ’’جب تم اس کو صحیح سلامت انگلستان سے باہر پہنچا دو تو پھر اس سے جداہو جاؤ اور واپس آکر میرے ساتھ کلا ریکر کے ہاں کام کرو ۔‘‘
میں نے سوچا اور پھر مان لیا کہ صرف یہی ایک حل ہے۔ میں ان کاموں میں مصروف تھا کہ اسٹیلا میرے پاس آئی اور بتایا کہ وہ بہت جلد شادی کر رہی ہے۔ اس نے یہ بات بڑے سکون سے بتائی کہ بینٹلے ڈرمل اس کا شوہر ہوگا۔ ڈرمل کو میں بد نما مکڑی سمجھتا تھا۔ میں نے سخت غصے کا اظہار کیا۔ اسٹیلا نے کندھے جھٹک کر جواب دیا: ’’یہ موزوں جوڑ ہے۔ وہ مال دار ہے اور میں نے یہی فیصلہ کیا ہے۔‘‘
٭٭٭
اسٹیلا کے چلے جانے کے بعد میں غصے میں لندن کی سڑکوں پر گھومنے پھرنے لگا۔ میری حالت اب ایسی نہیں رہی تھی کہ میں اسٹیلا کو شادی کا پیغام دے سکوں، مگر یہ بات بڑی تکلیف دہ تھی کہ اسٹیلا نے مجھے ٹھکرا کر اکَل کھرے ڈرمل کا انتخاب کیا تھا۔ اسٹیلا نے مجھ سے ایک اداس ہنسی کے ساتھ کہا تھا کہ یہ نہ سمجھنا کہ میں ڈرمل کو خوش رکھوں گی، لیکن اس کی اس بات سے بھی مجھے تسکین نہیں ہوئی۔
رات گئے جب میں اپنے کمرے میں پہنچا تو دروازہ کھولتے ہی دیکھا کہ آتش دان کے قریب کرسی سے ایک آدمی سوتے سے اُٹھا۔ ہم دونوں کو حیرت ہوئی، لیکن میں جلد ہی پہچان گیا کہ یہ منشی و یمک ہیں۔ انھوں نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور میرے قریب آگئے۔ انھوں نے دھیمی آواز میں کہا:
’’مسٹر پپ! معاف کیجیے، میں نے آپ کو حیران کیا۔ مجھے ہر برٹ نے کنجی دی ہے۔ اب اس کے بعد ہم اپنی بات چیت میں کسی کا نام نہیں لیں گے۔ سمجھ گئے؟‘‘
میں نے اشارے سے اقرار کیا۔ میرے دل نے بڑی تیزی سے دھڑکنا شروع کر دیا تھا۔ میں نے آہستہ سے پوچھا: ’’کیا کوئی گڑ بڑ ہے؟‘‘
’’ہاں اور نہیں!‘‘
میں نے اپنا ہیٹ اور کوٹ اُتار پھینکا اور ویمک کے برابر بیٹھ گیا۔ انھوں نے کہنا شروع کیا:
’’آپ نے دیکھا ہوگا کہ جا گرس صاحب کے موکلوں میں قسم قسم کے لوگ شامل ہیں۔ یہ سب ہی اچھے نہیں ہیں، ان میں سے کچھ لوگ بہت خراب بھی ہیں۔ اسی لیے جا گرس صاحب جیسے لوگوں کے کانوں میں بہت سی ایسی باتیں بھی پڑ جاتی ہیں جو اور لوگوں کو نہیں معلوم ہوتیں، کیوں کہ ہم معمولی ہوٹلوں میں نہیں بیٹھتے اور مجرموں سے نہیں ملتے۔‘‘میں اس پر احتجاج کرنے والا تھا، مگر پھر خاموش ہو گیا۔ ویمک نے بات جاری رکھی:
’’ایسا ہی ایک شخص ہر قسم کی خبریں اور افواہیں ہم تک پہنچاتا ہے، کیوں کہ وہ جاگرس صاحب کو خوش رکھ کر ان سے قانونی مدد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ آج کو مپیسن نامی ایک شخص یہ افواہ پھیلا رہا ہے کہ نیو ساؤتھ ویلز سے ایک شخص لندن آیا ہے اور اس کی اطلاع جلد ہی پولیس کے اعلیٰ افسران کو پہنچ جائے گی۔ ‘‘
یہ سن کر میں پیلا پڑ گیا اور آتش دان کی گرمی کے باوجود ٹھنڈک سی محسوس کرنے لگا۔ میں چلایاـ:’’ نہیں، اس کو گرفتارنہیں ہونا چاہیے!‘‘
ویمک نے بتایا: ’’جاگرس صاحب کی بھی دلی خواہش یہی ہے کہ اس کو گرفتار نہیں ہونا چاہیے، اسی لیے جب آپ کمرے سے گئے ہوئے تھے تو ہر برٹ کے ساتھ میں نے اسے یہاں سے دریا کے کنارے ایک دوسرے گھر میں پہنچا دیا۔ جاگرس صاحب نے سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ اس شخص تک پہنچنے کے لیے کوئی آپ کے پیچھے نہ لگ جائے، اس لیے آپ کو شامل کیے بغیر اس کو یہاں سے منتقل کر دیا گیا۔ ‘‘یہ بتا کر و یمک مسکرائے جس سے ان کا اطمینان ظاہر ہوتا تھا، لیکن وہ پھر سنجیدہ ہو گئے اور کہنے لگے:
’’لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔‘‘
میں نے تیز لہجے میں جواب دیا: ’’مجھے معلوم ہے۔ اس شخص کو لندن سے چلا جانا چاہیے۔ میں نے اپنے ذہن کو اس کے لیے تیار کر لیا ہے اور مجھے بھی اس کے ساتھ جانا ہوگا۔ میرے بغیر وہ یہاں سے ہرگز نہیں جائے گا۔ ‘‘
ویمک نے کہا: ’’خوب! لیکن یہ سارے کام اطمینان سے کرنے چاہییں۔ جلد بازی میں گڑ بڑ ہو سکتی ہے۔ منصوبہ احتیاط سے بنانا ہوگا۔ جاگرس صاحب نے اس بات پر بہت زور دیا ہے۔ جب یہاں سے روانہ ہونا مناسب ہوگا تو وہ آپ سے رابطہ کریں گے۔ ہاں ایک بات اور، میگ پر کو مپیسن کا نام بالکل ظاہر نہیں کرنا۔ اگر اسے معلوم ہو گیا کہ کو مپیسن لندن میں ہے تو وہ یہاں سے اس وقت تک نہیں جائے گا جب تک اس کو۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر ویمک نے اپنے گلے پر اپنا ہا تھ گلا کاٹنے کے انداز میں پھیرا۔ و یمک کے جانے کے بعد میں آتش دان کے شعلوں کو اس طرح گھورنے لگا جیسے مجھے ان شعلوں میں میگ وچ کولندن سے باہر بھیجنے کا کوئی طریقہ نظر آ جائے گا۔ ہر برٹ کمرے میں داخل ہوا تو میرے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ وہ کلا را سے مل کر آیا تھا۔ کلارا اس کی منگیتر تھی اور اپنے باپ کے ساتھ دریا کے کنارے ایک گھر میں رہتی تھی۔ اس کا بوڑھا باپ اپنے گھر کی کھڑکی سے گزرتے ہوئے جہازوں کو دیکھ کر دل بہلایا کرتا تھا۔ ہر برٹ سے باتیں کرتے ہوئے میرے دماغ میں یہ ترکیب آئی کہ کلارا کا گھر بہترین جگہ ہے۔ وہاں سے ہم میگ وچ کو ایک کشتی میں بٹھا کر جہاز تک پہنچا سکتے ہیں۔ جہاز میں ہم دونوں کسی دوسری جگہ چلے جائیں گے۔ جہازوں کے بعض کپتان دولت کی خاطر سب کچھ کر سکتے ہیں۔ وہ کچھ لے دے کر ہمیں کہیں پہنچا دیں گے۔ ہربرٹ نے میرے اس خیال کی پر جوش حمایت کی اور کہنے لگا:
’’ تمھیں فوراً ایک کشتی خرید لینی چاہیے۔ ہم دریا میں روز کشتی چلایا کریں گے، تاکہ لوگ ہمیں کشتی میں دیکھ دیکھ کر مانوس ہو جا ئیں۔ پھر جس دن تم اورمیگ و چ فرار ہو گے، کسی کو شبہ تک نہیں ہوگا۔‘‘
دوسرے دن میں نے ایک کشتی خرید لی اور ہر برٹ کے ساتھ کشتی رانی کرنے لگا۔ شروع میں ہم بہت دیر تک کشتی نہیں چلا پاتے تھے، کیوں کہ ہمیں اپنے آپ کو اس محنت کا رفتہ رفتہ عادی کرنا تھا۔
میں نے ہربرٹ کے ہاتھ میگ وچ کا پرس اس کو واپس بھجوا دیا۔ اس کے بعد ایک دن میں خود بھی مختلف راستوں سے ہوتا ہوا میگ و چ کے پاس پہنچا۔ سید ھے راستے سے اس لیے نہیں گیا کہ لوگوں کو پتا نہ چلے۔ میں وہاں کلارا سے بھی ملا، جو بہت اچھی لڑکی تھی۔ میں نے ہر برٹ سے اس کی تعریف کی تو وہ بہت خوش ہوا۔ میگ و چ اس طرح خاموشی سے گھر بدلنے سے کچھ خوش نہ تھا، لیکن جب میں نے بتایا کہ وہ وقت کسی دھوم دھڑ کے کا نہیں تھا کہ کسی عمدہ گاڑی میں اس کو لایا جاتا تو و ہ مان گیا۔ میگ لندن سے جانے کو تیار نہیں تھا، لیکن جب میں نے کہا کہ میں بھی اس کے ساتھ چلوں گا تو اس کو اطمینان ہوا اور وہ ہر بات مان گیا۔ اس نے میرا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے رکھا تھا اور اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک میں اس کے پاس رہا۔ میں نے اس کو یہ نہیں بتایا کہ میں اُسے لندن سے باہر چھوڑ کر واپس آجاؤں گا۔
میری مالی حالت اب بہت خراب تھی۔ مجھے اپنے جواہرات بیچنے پڑے، لیکن اس سے بھی میرا کام نہیں بنا، اس لیے میں نے مس ہیوی شام کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے ہربرٹ کی طرف سے کلار یکر کی کمپنی کو رقم دیتے وقت مزید رقم دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اب جب میرے حالات بدل گئے اور میں اس قابل نہیں رہا تو میں یہ رقم مس شام سے دلوانا چاہتا تھا۔
کوچ کے اسٹینڈ پر جاتے ہوئے میں جا گرس صاحب کے دفتر پہنچا اور ان کو اپنا منصوبہ بتایا۔ انھوں نے اس کو پسند کیا، لیکن مجھے تنبیہ کی کہ جلدی ہرگز نہ کروں۔ چھپنے کے لیے لندن جیسے بڑے شہر ہی بہترین ہوتے ہیں۔ ہماری بات چیت ختم ہونے کے بعد جا گرس صاحب کی ملازمہ مولی ان کے لیے کھانا لے کر داخل ہوئی۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا۔ اس نے کھانے کی سینی (ٹرے) میز پر رکھ دی۔ میں جانے کے لیے اٹھا تو سینی کو ذرا سا دھکا لگ گیا اور تھوڑا سا شور با (سوپ) پیالے میں سے چھلک گیا۔ مولی نے غصے سے سر اٹھایا اور ایک لمحے کے لیے اس کی آنکھوں سے شعلہ نکلا، لیکن اتنی ہی دیر میں، میں نے پڑھ لیا کہ مولی کی آنکھوں میں بھی اسٹیلا کی آنکھوں کی طرح غصہ اور تو ہین ہے اور اس کی ناک اور گال اسٹیلا سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ جا گرس صاحب سے بات ختم کر کے میں ویمک کو ایک طرف لے گیا اور ان سے پوچھا کہ مولی کون ہے؟ ویمک نے میرے کان میں کہا کہ یہ ایک قاتلہ ہے۔ جاگرس صاحب اس کے وکیل تھے اور انھوں نے اس کو بچایا ہے۔ مولی نے اپنے شوہر سے بدلہ لینے کے لیے یہ قتل کیا تھا۔ خیال ہے کہ اس نے اپنے بچے کو بھی مار ڈالا۔
کوچ مجھے لیے ہوئے مس ہیوی شام کے مکان کی طرف جارہی تھی۔ میں ویمک کی بتائی ہوئی کہانی پر بار بار غور کر رہا تھا۔ مولی کے جسم میں خانہ بدوشوں کا خون تھا۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ اس کے شوہر کو کسی اور عورت سے دل چسپی ہوگئی ہے تو مولی نے اس عورت کا گلا گھونٹ دیا اور پھر شوہر سے انتقام لینے کے لیے اپنے بچے کو بھی ختم کر دیا، لیکن میرے خیال میں یہ غلط تھا، کیوں کہ اسٹیلا ہی وہ بچہ تھی۔ مجھے اسٹیلا جیسی ان آنکھوں کو پہچانے میں دقت نہیں ہوئی تھی، جو مجھے پسند تھیں۔ شاید مولی بھی اسٹیلا کی ماں تھی اور غربت اور پریشانی سے بچانے کے لیے جا گرس صاحب نے اس عورت کو محفوظ جگہ پہنچا دیا تھا۔ جب میں مس شام کے ہاں پہنچا تو وہ مجھے زیادہ کم زور اور بوڑھی نظر آئیں۔ میں نے ان کو بتایا کہ میں نے ہر برٹ کی مدد اس طرح کی ہے کہ اس کو بھی نہیں معلوم ہوا۔ میں نے یہ بھی بتایا کہ اب میں اس قابل نہیں ہوں کہ وعدے کے مطابق کلاریکرکمپنی کو اور رقم دے سکوں۔ اس مقصد کے لیے 900پاؤنڈ کی ضرورت ہے۔ مس شام نے ذرا بھی حیرت کا اظہار نہیں کیا۔ تھوڑی دیر انھوں نے خلا میں گھورا اور پھر خواب آلود آواز میں بولیں:
’’ہر برٹ کے باپ نے مجھے ایک بار ایک نیک مشورہ دیا تھا، مگر میں نے نہیں مانا اور جب ہی سے پریشان ہوں۔ ‘‘پھر وہ اٹھیں اور کہنے لگیں: ’’اگر میں تمھیں یہ رقم دوں تو کیا تم یہ وعدہ کرتے ہو کہ ہر برٹ اور اس کے باپ کو نہیں بتاؤ گے کہ تمھیں یہ رقم کس نے دی ہے؟‘‘
میں نے وعدہ کیا اور مس شام نے جاگرس صاحب کے نام ایک پرچہ لکھ دیا کہ 900 پاؤنڈ ان کے حساب میں سے پپ کو دے دیے جائیں۔ میں نے وہ پر چہ لیا اور ان کا شکر یہ ادا کیا۔ میں چلنے کے لیے مڑا تو انھوں نے مجھے آواز دی۔ ان کی آواز کانپ رہی تھی: ’’دیکھو!میں بالکل تنہا رہ گئی ہوں۔ اسٹیلا نے مجھے تباہ کر دیا۔ ‘‘
میں نے آہستہ سے جواب دیا:
’’اس کے علاوہ کوئی اور انجام نہیں ہو سکتا تھا۔ ‘‘میں نے اخبار پڑھنا چھوڑ دیا تھا، کیوں کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ اسٹیلا کی شادی کی مجھے خبر ہو۔ میں نے مس شام سے پوچھا: ’’کیا اس کی شادی ہو گئی؟‘‘
مس شام نے ’’ہاں‘‘کہا تو میرا چہرہ غم سے اتر گیا اور دل بیٹھنے لگا۔مس شام نے ٹھنڈی سانس لی اور ان کے ہاتھ سے بید گر گیا۔ انھوں نے سکون سے جواب دیا: ’’پپ! میں تمھارا چہرہ دیکھ رہی ہوں۔ برسوں پہلے نو بجنے میں بیس منٹ پر میرا چہرہ بھی ایسا ہی ہو گیا تھا۔‘‘
میں نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں اس وقت تک چھپائے رکھا، جب تک میں نے اپنے آپ کو سنبھال نہ لیا۔ مس شام سسکیاں لے لے کر رو رہی تھیں۔ میں نے ان کی طرف دوبارہ دیکھا تو وہ لرزے کی کیفیت میں چلا رہی تھیں:’’ ہائے! یہ میں نے کیا کیا؟ میں نے کیا کیا؟‘‘
میں کہنا چاہتا تھا کہ انھوں نے میری زندگی برباد کر دی لیکن نہیں کہا۔ کیوں کہ یہ بات پوری طرح سچ نہ تھی۔ میں نے خود بھی کئی غلطیاں کی تھیں۔ بہت سی امیدیں باندھی تھیں، بہت سے خواب دیکھے تھے اور بہت سی احمقانہ خواہشیں اپنے دل میں پالی تھیں۔
’’پپ مجھے معاف کر دو۔ مجھے معاف کر دو! ‘‘انھوں نے اپنے ہاتھ بڑھائے۔ میں نے آگے بڑھ کر ان کے بوڑھے اور کانپتے ہوئے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ میں نے کہا:
’’میں نے آپ کو معاف کیا! ‘‘انھوں نے میرے ہاتھ دبائے اور مجھے جانے نہیں دیا۔ انھوں نے کہا: ’’شروع میں میرا مقصد برا نہیں تھا۔ میں اسٹیلا کو صرف تکلیف سے بچانا چاہتی تھی، مستقل تکلیف سے، ایسی تکلیف سے جیسی مجھے ہوئی تھی لیکن وہ بڑی ہوتی گئی اور اس کا حسن نکھرتا گیا۔ میں نے اس کو جواہرات دیے اور اس کی تعریف کی اور اس کو تنبیہ کرتی رہی کہ وہ کسی کے دھو کے میں نہ آئے لیکن کچھ ہی عرصے میں اس کا دل برف کی طرح سرد ہو گیا۔‘‘
میں نے ان سے اپنے ہاتھ چھڑائے اور ایک اسٹول لے کر ان کے برابر بیٹھ گیا۔ میں نے آہستہ سے پوچھا:’’ اسٹیلا کس کی اولاد ہے؟‘‘مس شام نے اپنا سر ہلایا:
’’مجھے نہیں معلوم! میری غم زدہ زندگی میں ایک وقت ایسا آیا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ ایک ننھی سی بچی پالوں اور اس کو اپنی جیسی سیاہ قسمت کی سیاہی سے بچالوں۔ میں نے یہ بات جاگرس صاحب سے کہی۔ انھوں نے کہا کہ اچھا میں کوئی یتیم بچی تلاش کروں گا۔ ایک رات وہ دو تین سال کی ایک بچی لے کر آئے۔ میں نے اس کو گود لے لیا اور اس کا نام اسٹیلا رکھ دیا۔‘‘
ہم نے پھر کوئی بات نہیں کی۔ میں ان کے پاس کچھ دیر رکا، کیوں کہ وہ کرسی سے اٹھتے وقت آتش دان کے پاس گر گئی تھیں۔ پھر میں زینے سے نیچے اتر آیا اور گھر میں ذرا دیر گھوما پھرا، کیوں کہ میں آخری بار اس گھر کو دیکھ رہا تھا۔
یکا یک ایک خوف ناک چیخ سنائی دی۔ میں اوپر کی جانب دوڑا تو دیکھاکہ مس شام کا کمرہ شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ مسں شام لڑ کھڑاتی ہوئی میری طرف آئیں۔ ان کے عروسی لباس اور نقاب سے شعلے بھڑک رہے تھے۔ میں نے جلدی سے اپنا کوٹ اتارا اور مس شام پر لپیٹا تا کہ شعلے بجھ سکیں۔ انھوں نے مجھے دھکا دینا چاہا، لیکن میں نے ان پر قابو پالیا اور اس کے ساتھ ان کے بالوں کی طرف لپکتے ہوئے شعلوں کو بچھانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس دوران مس شام چلاتی رہیں:
’’اس سے کہہ دو کہ میں اسے معاف کرتی ہوں، اس سے کہہ دو کہ میں اسے معاف کرتی ہوں!‘‘
ملازم بھی دوڑے دوڑے آئے اور شعلوں سے لڑنے لگے۔ ایک ملازم ڈاکٹر کو بلانے کے لیے دوڑا۔ مس شام زندہ رہیں لیکن بے ہوش تھیں۔ بری طرح جلے ہوئے میرے ہاتھوں پر مرہم لگانے کے بعد ڈاکٹر نے مجھے جانے کی اجازت دے دی، اس لیے میں دوسرے دن لندن آگیا۔
گھر پہنچنے کے بعد بھی میرے ذہن پر اثر رہا۔ میری حالت اچھی نہ تھی۔ ہربرٹ نے میرے ہاتھوں پر پٹی باندھ دی اور مجھے لٹا دیا۔ پٹی کے با وجود میں سیدھے ہاتھ کی انگلیاں ہلا سکتا تھا، لیکن الٹے ہاتھ کو بالکل بے حرکت رکھنا تھا۔ ڈاکٹر نے اس ہاتھ کو گلے میں پنی ڈال کر لٹکانے کی ہدایت کی تھی۔ درد کے باوجود مجھے مس شام کے حادثے کی اطلاع پہنچانے کے لیے کئی جگہ جانا تھا، لیکن مجھے بخار بھی ہو گیا، اس لیے ہربرٹ نے اصرار کر کے خود یہ کام کیا۔ اس نے اپنے والد کے علاوہ مس شام کے بعض دوسرے عزیزوں کو بھی مس شام کے ساتھ ہونے والے حادثے کی اطلاع پہنچائی۔ اس نے جاگرس صاحب کے بتائے ہوئے پتے پر اسٹیلا کو بھی اطلاع بھجوائی۔ اسٹیلا پیرس میں تھی۔
ہر برٹ کی مدد کے باوجود بعض کام ایسے تھے جو صرف مجھے ہی کرنے تھے۔ جب میں ذرا سنبھلا تو جا گرس صاحب کے ہاں گیا اور ان کو مس شام کا پر چہ پہنچایا۔ انھوں نے کلاریکر کے نام 900 پاؤنڈ کا چیک بنایا اور آدمی بھیج کر اس کو اپنے دفتر بلوایا۔ کلار یکر نے چیک وصول کر لیا۔ اس رقم کے بعد ہمارے معاہدے کے مطابق ہربرٹ کو کمپنی کے مالکوں میں شامل ہونا تھا۔ کلا ریکر نے بتایا:
’’ہمارا جہازوں کا کارو با ر خوب ترقی کر رہا ہے اور ہر برٹ کو بہت جلد کمپنی کا حصے دار بنا لیا جائے گا، لیکن ہر برٹ کو پہلے مشرق کی طرف بھیجا جائے گا، تا کہ وہ وہاں ہمارے دفتر کی ایک شاخ کھولیں اور تمام دفتری انتظام سنبھال لیں۔‘‘
کلا ریکر کے جانے کے بعد جاگرس صاحب مجھے ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے کہ کسی کا نام زبان پر نہ لانا۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ شخص لندن چھوڑ دے۔ حکومت کے افسران اس کی سخت نگرانی کر رہے ہیں اور اس کے گرد گھیرا تنگ کرتے جا رہے ہیں۔
گھر آکر میں نے ہر برٹ کو یہ بات بتائی۔ ہم دونوں کی نگاہیں ایک ساتھ ہی میرے زخمی ہاتھوں پر ٹک گئیں، کیوں کہ اب میں کشتی نہیں چلا سکتا تھا۔ کیا کریں؟ ہم دونوں کچھ دیر خاموش رہے۔ آخر ہر برٹ نے حل نکالا کہ اسٹار ٹاپ سے مدد لی جائے۔ اسٹار ٹاپ، میرے اور قابل نفرت ڈرمل کے ساتھ ہر برٹ کے والد سے پڑھتا تھا۔ اسٹار ٹاپ ایمان دار اور بھروسے کے قابل تھا۔ وہ ہماری مدد کرنے کو تیار ہو گیا۔
ہم چھپتے چھپاتے، بچتے بچاتے دریا کے کنارے کلارا کے گھر پہنچے، جہاں میگ وچ کو چھپا رکھا تھا۔ ہم نے میگ وچ کو تمام حالات بتائے۔ وہ میرے زخمی ہاتھوں کو دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔ اپنے فرار کے معاملے سے زیادہ اس کو یہ فکر ہوگئی کہ مجھے کتنی تکلیف ہو رہی ہو گی۔ اس نے کہا:
’’عزیز من! میں تمھاری ہمدردی کا مستحق نہیں ہوں۔ تم مجھے بیٹے سے زیادہ عزیز ہو، جو مجھے کبھی نصیب نہیں ہوا۔ اپنی بیٹی سے بھی زیادہ پیار ہے، جو کبھی تھی۔‘‘
میں نے کہا: ’’آپ نے کبھی اپنے کسی بچے کا ذکر نہیں کیا۔ آپ کی بیٹی اب کہاں ہے؟‘‘
میگ وچ نے ایک گہرے ٹھنڈے سانس کے ساتھ کہا:
’’یہ ایک درد ناک کہانی ہے، لیکن تم دونوں میرے بارے میں ہر چیز جاننے کے مستحق ہو۔ میں ذرا پائپ سلگالوں، پھر شروع کرتا ہوں! ‘‘
میگ وچ نے اپنے پائپ میں بدبودار تمباکو بھرا۔ حال آنکہ میں نے اس کولندن میں باہر سے آنے والا بہترین تمباکو پیش کیا تھا۔ اب میگ و چ نے کہنا شروع کیا:
’’مجھے نہیں معلوم کہ میرے ماں باپ کون تھے۔ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ میں تمام زندگی جیل جاتا اور آتا رہا لیکن ایک بار میں نے شادی بھی کر لی تھی۔ وہ ایک خانہ بدوش عورت تھی یا کم سے کم اس میں خانہ بدوشوں کا خون شامل تھا۔ ہمارے ہاں ایک لڑکی ہوئی۔ میری بیوی بہت تیز مزاج عورت تھی۔ایک دن اس نے ایک عورت کو مارڈالا۔ اس کا خیال تھا کہ میں اس عورت کو پسند کرتا ہوں۔ ‘‘
میگ وچ تھوڑی دیر رکا۔ وہ شاید ان دونوں عورتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جو اس کی زندگی میں آئی تھیں۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور پھرکہنا شروع کیا:
’’میری بیوی مجھ سے اتنی سخت ناراض تھی کہ اس نے کہا کہ میں اپنی ننھی بچی کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کرتا، وہ غائب ہو گئی۔ دوسرے دن صبح مجھے معلوم ہوا کہ وہ گرفتار ہوگئی ہے اور اس پر ایک عورت کو قتل کرنے کے الزام میں مقدمہ چلے گا۔ یہ الزام بالکل صحیح تھا، لیکن جا گرس صاحب نے اس کی وکالت شروع کر دی۔ اس طرح میں جاگرس صاحب کے نام سے واقف ہوا۔ مجھے چھپنا پڑا، کیوں کہ میں ہوتا تو مجھے گواہی دینی پڑتی کہ میری بیوی نے ہماری بچی کو بھی مار ڈالا ہے۔ بہت مدت کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ جاگرس صاحب نے میری بیوی کو بچا لیا اور وہ قتل کے الزام سے بری ہوگئی ہے۔ جاگرس صاحب عجیب و غریب آدمی ہیں، لیکن اگر ان کو معلوم ہوتا کہ اس عورت نے ہماری بچی کو بھی ختم کیا ہے تو وہ اس کو نہ بچاتے۔ بس پپ! تم ہی اب میرے بچے ہو۔‘‘
یہ غنیمت تھا کہ میرے ہاتھوں کے زخموں کی وجہ سے میرا چہرہ بھی ست گیا اور پیلا پڑ گیا تھا، اس لیے میگ وچ اور ہر برٹ اس کہانی کا اثر میرے چہرے پر نہ دیکھ سکے۔ مجھ پر اتنا اثر ہوا تھا کہ میں ایک لفظ بھی منھ سے نہ نکال سکا۔ میگ کا پائپ بجھ گیا۔ اس نے دوبارہ جلایا اور اپنی بات دوبارہ شروع کی:
’’ اس تمام عرصے میں، میں نے اپنی بیوی سے نفرت نہیں کی لیکن مجھے صرف ایک شخص سے نفرت ہے۔ یہ وہی شخص ہے، جس سے میں اس روز قبرستان میں لڑ رہا تھا، جب میرا یہ بچہ مجھے پہلی بار ملا تھا۔‘‘ یہ کہہ کر میگ و چ آگے بڑھا اور میرے گھٹنے کو تھپتھپانے لگا۔ میں نے اخلاقاً مسکرانے کی کوشش کی، حال آنکہ میرا سراب بھی گھوم رہا تھا۔ میگ وچ بولتا رہا:
’’ وہ خبیث آدمی مجھے اپنے مقصد اور فائدے کے لیے استعمال کرتا رہا، خود ایک شریف آدمی بنا رہا۔ وہ جرم کی اسکیم بناتا اور مجھ سے اس پر عمل کراتا۔ اس طرح وہ محفوظ اور آزا در ہا اور میں خطروں سے کھیلتا رہا۔ ہم جرم کر کے جو دولت حاصل کرتے اس کا زیادہ حصہ وہ لے لیتا۔ وہ کہتا کہ اصل میں کام یابی اس کے دماغ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ میری جیسی محنت اور ہمت تو کوئی بھی کر سکتا ہے، لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ وہ پکڑا گیا۔ وہ مجھ سے الگ ہو گیا اور سارا الزام مجھ پر ڈال دیا کہ میں نے ہی اس کو جرم پر ابھارا تھا۔ اس کی ظاہری شرافت اور عمدہ کپڑے دیکھ کر کون اس کی بات کا اعتبار نہ کرتا۔ وہ میرے خلاف بولتا رہا۔ آخر کار عدالت نے بھی اثر لیا۔ وہ آزاد ہو گیا اور میں جیل بھیج دیا گیا۔‘‘
میگ وچ نے اپنی بات جاری رکھی:
’’میں نے اس دھو کے باز آدمی سے بدلہ لینے کی قسم کھائی تھی۔ جب میں جیل سے رہا ہوا تو اس آدمی کی بیوی نے مجھے بتایا کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔ وہ کینٹ میں تھا اور ایک امیر عورت کو فریب دے رہا تھا کہ میں تم سے شادی کرلوں گا۔ وہ اس کی دولت لوٹ رہا تھا۔ میں نے اس کا پیچھا اس وقت بھی کیا اور بعد میں بھی مسلسل اس کی تلاش میں رہا۔ ایک دن میں نے اسے دلدلی علاقے کے قبرستان میں پالیا، مگر پولیس بھی وہاں آگئی۔ اگر میں چاہتا تو با آسانی بچ سکتا تھا لیکن اس طرح کو مپیسن بھی بچ جاتا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ گرفتار ہو جائے۔‘‘
کو مپیسن کا نام سن کر میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن خاموش رہا۔ ہم میگ وچ کے پاس سے روانہ ہوئے تو دونوں ہی آپس میں بات کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ میری آواز بلند تھی اور میں نے پہلے اپنی بات کہنی شروع کر دی۔ میں نے ہر برٹ کو مولی کے بارے میں بتایا اور ویمک نے جو کچھ مولی کے متعلق کہا تھا وہ بھی دہرایا۔ میں نے اپنی معلومات کو میگ وچ کی کہانی سے جوڑ اتو پتا چلا کہ میگ وچ اسٹیلا کا باپ ہے لیکن اس بات کا انکشاف کرنا کسی کے حق میں بھی مفید نہیں ہوگا۔ ہر برٹ نے میری رائے سے اتفاق کیا اور ہم نے اس کو راز رکھنے کا عہد کیا۔ ہربرٹ کے منھ سے نکلا:
’’یہ شخص کو میپسن ۔۔۔‘‘میں نے فورا ًاس کی بات کاٹ کر کہا:
’’ کومپیسن لندن میں ہے، مگر میگ و چ کو معلوم نہیں ہونا چاہیے۔ ویمک نے مجھے بتادیا تھا، مگر میں نے تمھیں اس وقت اس لیے نہیں بتایا تھا کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ میگ وچ کو خبر ہو۔‘‘
ہر برٹ بولا: ’’میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کو مپیسن ہی مس شام کا منگیتر تھا!‘‘
٭٭٭
ہم نے آنے والے بدھ کا دن میک وچ کے فرار کے لیے مقرر کیا۔ پیر اور منگل کو ہربرٹ اور میں نے دوسرے ملکوں کے جہازوں کے متعلق معلومات جمع کیں کہ وہ کس کس وقت روانہ ہور ہے ہیں تا کہ ہم دیکھیں کہ ہماری کشتی کس وقت ان تک پہنچ سکتی ہے۔ ہم نے ایک جہاز منتخب کیا۔ یہ جہاز ہیمبرگ اور جرمنی جانے والا تھا۔ ہم نے اس کی شکل اپنے ذہن میں بٹھالی تا کہ پہچاننے میں دقت نہ ہو۔ پروگرام یہ بنا کہ کشتی کلارا کے گھر کے قریب لے جائی جائے اور میگ وچ کشتی کو دیکھتے ہی مکان سے باہر نکل آئے اور انتظار کرے۔ اسٹار ٹاپ اور ہر برٹ کشتی چلائیں گے اور میں ان کی مدد کروں گا۔ اسٹار ٹاپ کو ہم نے پوری بات نہیں بتائی، بلکہ صرف یہ کہا کہ ہم ایک خفیہ مقصد سے لندن سے باہر جارہے ہیں۔
میں نے جاگرس صاحب کی مدد سے پاسپورٹ حاصل کیا۔ اسی دوران ہر برٹ نے اسٹار ٹاپ اور میگ وچ کو چوکنا کر دیا۔ مجھے اور ہر برٹ کو ہر وقت یہ خیال رہتا تھا کہ کوئی ہمارا پیچھا کر رہا ہے، کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے، مگر ہمیں کوئی آدمی نظر نہیں آیا۔ شاید یہ ہمارا وہم ہی تھا۔
مارچ کا مہینا تھا۔ اس موسم میں دھوپ میں گرمی لگتی ہے اور سائے میں سر دی۔ ہر برٹ اور میں نے بھاری جیکٹ پہنے اور ایک تھیلا بھی لیا۔ تھیلے میں ضروری چیزیں اور چند کپڑے رکھے۔ میں کہاں جارہا ہوں اور وہاں کیا کروں گا؟ اس کے متعلق میں نے کچھ نہیں سوچا۔ مجھے بس میگ وچ کو بچانے کی فکر تھی۔ میں اپنے کمرے سے نکل کر گھر سے باہر آیا تو پلٹ کر گھر پر ایک آخری نظر ڈالی کہ شاید میں پھر کبھی یہاں نہیں آ سکوں گا۔
اسٹار ٹاپ میری کشتی کے پاس کھڑا انتظار کر رہا تھا۔ ساڑھے آٹھ بجے ہم نے کشتی کی رسی کھولی۔ جلد ہی دوسری کشتیوں، اسٹیمروں اور مچھلی والوں کی کشتیوں کے ساتھ ہماری کشتی بھی شامل ہوگئی۔ ان کشتیوں میں بیٹھنے والے تفریح یا ورزش کے لیے جا ر ہے تھے۔ ہم پانی کی لہروں کے ساتھ تین بجے تک بہتے رہے۔ اس کے بعد ہمارا رادہ یہ تھا کہ ہم پانی کے بہاؤ کے خلاف اس وقت تک چلتے رہیں گے جب تک اندھیرا نہ ہو جائے۔ اس طرح ہم کینٹ اور اسیسکس کے درمیان کہیں پہنچ جائیں گے، جہاں دریا چوڑا اور سنسان ہے۔ پھر ہم رات کو کسی گم نام سی سرائے میں ٹھیر جائیں گے اور جہاز کا انتظار کریں گے، جو جمعرات کی صبح ہیمبرگ کو روانہ ہوگا۔
جب ہم کلا را کے گھر کے قریب پہنچے تو ہم نے میگ وچ کو پتھروں کی سیڑھیوں سے نیچے آتے دیکھا۔ وہ ہماری طرف آرہا تھا اور اس کے ہاتھ میں کینوس کا ایک کالا تھیلا تھا۔ اس لباس میں وہ ایک بحری کپتان لگ رہا تھا۔ ہم نے کشتی جلدی سے قریب کی اور ہر برٹ نے ہاتھ بڑھا کر میگ وچ کو سہارا دے کر کشتی میں بٹھا لیا۔ میگ وچ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا:
’’میرے پیارے وفادار بیٹے! تم نے بہت اچھا کیا۔ شکریہ شکریہ۔ ‘‘
میں نے اس کا ہاتھ دبایا اور گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھا کہ کوئی ہمیں دیکھ تونہیں رہا ہے، مگر سب حالات ٹھیک تھے۔ چناں چہ ہم نے دریا میں آگے بڑھنا شروع کر دیا۔ میک وچ پائپ پینے لگا۔ وہ ہم میں سب سے کم پریشان تھا۔
رات ہوتے ہوتے ہماری کشتی کنارے پر بنی ایک معمولی سی سرائے کے سامنے چلی گئی۔ سرائے والے میاں بیوی غنڈے قسم کے لگتے تھے لیکن انھوں نے ہمیں بہت عمدہ کھانا دیا۔ ہم نے آتش دان کے پاس بیٹھ کر کھانا کھایا۔ ہربرٹ اور اسٹار ٹاپ تمام دن کشتی کھیتے کھیتے تھک گئے تھے۔
اسٹارٹاپ کو اب فرار کا پورا پروگرام معلوم ہو گیا تھا۔ وہ دونوں گہری نیند سو گئے۔ میں سرائے میں میگ وچ کے کمرے میں رہا۔ میں اس کو ایک لمحے کے لیے بھی اپنی نظروں سے دور نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں کپڑے بدلے بغیر سو گیا۔ رات میں کئی بار میری آنکھ کھلی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے لوگ باتیں کر رہے ہوں۔ آخری بار جب کسی کے بولنے کی آواز میرے کانوں میں آئی تو میں نے کھڑ کی سے باہر دیکھا۔ چاند کی روشنی میں مجھے وہ کھمبا نظر آ گیا، جس سے ہم نے اپنی کشتی با ند ھی تھی۔ دو آدمی کشتی کے اندر دیکھ رہے تھے لیکن جب وہ سرائے کی طرف دیکھے بغیر علاقے کی طرف چلے گئے تو میں سمجھا کہ یہ کسٹم کے انسپکٹر تھے۔ صبح ہم جلدی اُٹھ گئے اور کشتی میں آکر بیٹھ گئے اور اس وقت کا انتظار کرنے لگے کہ جب ہیمبرگ جانے والا جہاز نظر آ جائے۔ میگ وچ اور میں نے اپنا اپنا تھیلا سنبھال لیا۔ میں نے اسٹار ٹاپ اور ہربرٹ سے ہاتھ ملایا۔
ہر برٹ کی اور میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ جب ہم جہاز کے قریب پہنچ رہے تھے تو دوسری طرف سے ایک اور کشتی بھی اسی طرف آتی نظر آئی۔ یہ کشتی ہمارے قریب آنے لگی۔ اس میں کشتی کھینے والوں کے علاوہ ایک آدمی ہدایت دینے والا تھا اور ایک آدمی مسافر معلوم ہوتا تھا۔ مسافر سیاہ چوغا پہنے ہوئے تھا اور اس کا ٹوپ اس کی آنکھوں کو ڈھکے ہوئے تھا۔ وہ دوسرے آدمی کے کان میں کچھ کہہ رہا تھا۔
چوغے والے آدمی نے ہم سے چیخ کر کہا۔ ’’تمھارے ساتھ ایک مجرم ہے جو فرار ہو کر آیا ہے۔ میں میگ وچ کو حکم دیتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر دے۔ میں تمھیں بھی حکم دیتا ہوں کہ اس کو پکڑنے میں ہماری مدد کرو!‘‘
اس کے ساتھ وہ کشتی ہماری کشتی کے سامنے اس طرح آگئی کہ ہمارا راستہ رک گیا۔ اس کشتی والے کے ہاتھ فوراً آگے آئے اور انھوں نے ہماری کشتی کو کھینچ کر اپنی کشتی سے ملالیا۔ یہ دیکھ کر جہاز پر شور مچ گیا۔ کچھ لوگ ہمیں پکار رہے تھے اور کچھ لوگ اپنے جہاز کو رکنے کے لیے کہہ رہے تھے لیکن جہاز ہماری طرف جھکا رہا۔ اس سے پہلے کہ میں یا ہر برٹ کچھ بولتے، میگ وچ آگے جھکا اور اس نے مسافر کا چوغا کھینچ لیا۔ جب چوغا اترا تو میں نے دیکھا کہ وہ شخص وہی ہے، جس کو میں نے میگ وچ کے ساتھ قبرستان میں دیکھا تھا۔ وہ کومپیسن تھا۔ میگ وچ نے جب اپنی کشتی سے دوسری کشتی میں چھلانگ لگائی تو کو مپیسن پیچھے جھک گیا اور وہ دونوں پانی میں گر گئے۔ دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئے تھے لیکن میگ وچ نے ہماری کشتی کو پکڑ لیا ۔ہماری کشتی الٹ گئی اور ہم تینوں بھی پانی میں گر پڑے، لیکن ہمیں کھینچ کر دوسری کشتی پر چڑھا لیا گیا۔ میں نے گھبرا کر نیچے دیکھا۔ میگ و چ نقاہت کے ساتھ پانی میں ہاتھ پیر مار رہا تھا۔ کشتی والوں نے اس کو دیکھ لیا اور اس کو بھی او پر کھینچ لیا اور زنجیر سے اس کے ہاتھ پیر باندھ دیے۔ میگ وچ کے فرار کا ہمارا پروگرام ناکام ہو گیا!
٭٭٭
میگ وچ بہت زخمی ہو گیا تھا۔ وہ بڑی مشکل سے سانس لے رہا تھا۔اس کے سینے میں زخم آیا تھا۔ جہاز کے پیندے سے ٹکرا کر اس کا سر بھی پھٹ گیا تھا۔ میں نے اس کو اپنے بازوؤں میں لے لیا۔ اس نے بڑی دقت سے یہ بتایا کہ وہ اور کو مپیسن ایک دوسرے سے گتھے ہوئے پانی میں گرے تھے۔ میں نے جد و جہد کی اور اپنے آپ کو آزاد کرالیا۔ دوسری کشتی نے کئی چکر لگائے اور کو مپیسن کو ڈھونڈنے کی کوشش کی، مگر کام یابی نہیں ہوئی۔ بعد میں اس کی لاش دریا کے کنارے کے قریب ملی، غالباً اسے تیر نا نہیں آتا تھا۔
ہم واپس سرائے لائے گئے اور میں نے اجازت لے کر میگ وچ کے لیے نئے کپڑے خریدے لیکن پولیس کے افسر نے کہا کہ مجرم قیدی کے گیلے کپڑے، رقم اور اس کی سب چیزیں لندن لے جائی جائیں گی اور سرکاری افسران کو دے دی جائیں گی۔ میں نے سوچا کہ میگ وچ کا دل ٹوٹ جائے گا، اس لیے یہ سب باتیں اس کو نہیں بتائیں۔ میگ وچ کے پاس بیٹھ کر میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور کہا کہ اس کو اپنی طاقت بچانی چاہیے لیکن وہ باتیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کہا:
’’میرے بیٹے! میں سمجھتا تھا کہ میں انگلستان واپس آکر خطرہ مول لے رہا ہوں، لیکن درحقیت میں تم سے ملنا چاہتا تھا۔ میں نے تمھیں دیکھ لیا اور اب میں مطمئن ہوں۔ میرا بیٹا میرے بغیر بھی بڑا آدمی بن سکتا ہے، لیکن یہ بہت اچھا ہے کہ تم میری طرح نہیں ہو۔ تم برابر کے کمرے میں اس طرح بیٹھے رہو کہ میں تمھیں دیکھتار ہوں، مجھے کچھ اور نہیں چاہیے۔‘‘
میں نے چلا کر کہا:
’’نہیں، میں یہاں سے نہیں ہلوں گا۔ میں تمھارے سرہانے بیٹھا رہوں گا اور اس وقت تک بیٹھا رہوں گا جب تک یہ لوگ مجھے اجازت دیں گے۔ میں تم سے اتنا ہی پیار کروں گا جتنا تم نے مجھ سے کیا ہے۔‘‘
میرے ہاتھوں میں اس کا ہاتھ کا نپنے لگا۔ خوشی کی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیلنے لگی۔ تھوڑی دیر میں وہ سکون سے سو گیا۔ میگ وچ پر مقدمہ چلایا گیا۔ یہ بہت مختصر کا رروائی تھی اور بات بالکل صاف تھی۔ جاگرس صاحب نے اس کی وکالت کی لیکن انھوں نے مجھے بتا دیا تھا کہ جیتنے کی امید بہت کم ہے، پھر بھی جاگرس صاحب نے ثابت کیا کہ میگ وچ نے اپنی اصلاح کر لی تھی اور اب وہ ساؤتھ ویلز میں ایک مال دار اور معزز آدمی بن گیا تھا، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ تھی کہ میگ وچ ایک مفرور مجرم تھا اور اس کو پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ انگلستان واپس آنے کی سزا موت ہے۔
سینے میں زخم کی وجہ سے میگ و چ روز بہ روز کم زور ہوتا گیا۔ اس نے مقدمے کی کارروائی میں کم زوری کے باوجود بڑی ہمت سے حصہ لیا، لیکن ججوں کی ہمدردی حاصل نہیں کر سکا اور قانون کے مطابق مجرم قرار دیا گیا۔ جب حج نے میگ وچ کو موت کی سزا سنائی تو میگ وچ نے کہا:
’’مائی لارڈ! مجھے اللہ قادر مطلق نے سزادی ہے اور میں آپ کے فیصلے کے سامنے اپنا سرخم کرتا ہوں۔‘‘
میرا دل چاہتا تھا اور میں نے دعا بھی کی کہ اس سے پہلے کہ جج کے فیصلے کے مطابق میگ وچ کو موت کے گھاٹ اتارا جائے، اس کو خود ہی موت آجائے، لیکن یہ سوچ کر کہ ہو سکتا ہے اس کی زندگی کے دن ابھی پورے نہ ہوئے ہوں، میں اس عدالتی فیصلے کے خلاف حکومت کے ہر متعلقہ افسر کو رحم کی اپیل پر اپیل لکھ کر بھیجتا رہا۔ رحم کی ان اپیلوں میں، میں میگ وچ کی پوری داستان حیات لکھتا اور ساتھ ہی اپنی کہانی بھی لکھ دیتا۔ پھر میں خود ذاتی طور پر ان افسروں سے ملتا بھی رہا۔ میں میگ وچ سے جیل کے اسپتال میں روزانہ ملتا۔ اس کی زندگی کا آفتاب دھیرے دھیرے ڈوب رہا تھا۔ اب وہ مشکل ہی سے بات کرتا تھا، لیکن جب میں اس کا کم زور ہاتھ تھا متا تو وہ ہلکے سے میرا ہاتھ دبا کر جواب دیتا۔ دسویں دن جب میں آیا تو اس میں تبدیلی دیکھی۔ اس کی آنکھیں دروازے پر لگی تھیں۔ جیسے ہی میں داخل ہوا اس کی آنکھوں میں روشنی آگئی۔ اس نے کہا: ’’پیارے بیٹے! تم ہمیشہ وارڈ میں داخل ہونے والے پہلے آدمی ہوتے ہو۔‘‘
میں نے کہا:
’’میں پھاٹک کے پاس انتظار میں کھڑا ہوتا ہوں کہ جیسے ہی پھاٹک کھلے، میں آپ کے پاس ایک منٹ ضائع کیے بغیر پہنچ جاؤں۔‘‘
’’تمھارا شکر یہ پیارے بچے! اللہ تمھیں خوش رکھے۔ تم نے مجھے کبھی دھوکا نہیں دیا۔ ‘‘میں نے خاموشی سے اس کا ہاتھ دبایا، کیوں کہ میں نے ایک بار اس کو خوش فہمی میں مبتلا رکھنے کی کوشش کی تھی کہ میں اس کے ساتھ انگلستان سے باہر جا رہا ہوں، حال آنکہ میرا ارادہ یہ تھا کہ اس کو انگلستان کے باہر چھوڑ کر واپس آجاؤں گا۔
میگ وچ نے اپنی بات جاری رکھی:’’ اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ میں جب سے مصیبت میں مبتلا ہوا ہوںتم مجھ سے ہمیشہ قریب رہے ہو۔ یہ میرے لیے سب سے بڑی خوشی کی بات ہے۔‘‘اس کی سانس اکھڑنے لگی اور اس کے چہرے پر سیاہی پھیلنے لگی۔
میں نے اس سے پوچھا: ’’کیا آپ کو آج بہت زیادہ تکلیف ہو رہی ہے؟‘‘
’’میں شکایت نہیں کرتا عزیز من! ‘‘یہ اس کے آخری الفاظ تھے۔ اس نے اپنے ہاتھ سے ایک ہلکا سا اشارہ کیا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ چاہتا ہے کہ میں اپنا ہاتھ اس کے سینے پر رکھوں۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ وہ مسکرایا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے ہاتھ کو ڈھک لیا۔ جیل کا ڈاکٹر وارڈ میں داخل ہوا تو ملاقات کا وقت ختم ہونے کی گھنٹی بج گئی۔ ڈاکٹر نے جھک کر میگ وچ کو غور سے دیکھا اور افسوس کے ساتھ اپنا سر ہلایا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا کہ میں اپنی جگہ بیٹھا رہوں۔ میں سمجھ گیا کہ میگ وچ کے آخری لمحات آپہنچے ہیں۔ میں نے جھک کر آہستہ سے کہا:
’’میرے محترم! آپ کی زندگی کے ان آخری لمحات میں، میں آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ کیا آپ سن رہے ہیں؟ ‘‘میگ وچ نے دھیمے سے میرا ہاتھ دبایا، گویا اس نے بتایا کہ ہاں وہ سن اور سمجھ رہا ہے۔ میں نے کہا:
’’آپ کی ایک لڑکی تھی، جس کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ‘‘
میگ وچ کے ہاتھ کے دباؤ میں اضافہ ہو گیا۔ میں نے اپنی بات جاری رکھی:
’’حقیقت میں وہ لڑکی قتل نہیں کی گئی تھی، جیسا کہ آپ کا خیال ہے۔ وہ زندہ رہی اور اس کو اچھے دوست ملے۔ اب بھی وہ ایک خوب صورت خاتون کی صورت میں زندہ ہے۔ مجھے وہ اچھی لگتی ہے۔‘‘
میگ وچ نے ایک آخری کوشش کی اور میرا ہا تھ اپنے ہونٹوں تک لے گیا اور اس کو بوسہ دیا۔ پھر اس نے میرے ہاتھ کو ڈھیلا چھوڑ کر اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے چھپا لیا۔ اس کے چہرے پر اطمینان کے آثار ظاہر ہوئے اور اس کا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔ میگ وچ کی روح اس کا جسم چھوڑ چکی تھی۔ مرتے ہوئے کو اتنے قریب سے دیکھ کر میں خوف زدہ نہیں ہوا۔ میں بھی اتنا ہی پرسکون رہا جتنا تکیے پر میگ وچ کا بوڑھا اور خاموش چہرہ تھا۔ میں نے اپنی سگی بہن مسز جو گارگری کے ساتھ اتنا خلوص نہیں برتا تھا، لیکن میگ وچ کے ساتھ آخر تک دل سے سچا وفادار اور اس کا پیارا بیٹا بنا رہا۔ میگ وچ کے انتقال کے بعد جب میرے ہوش و حواس ٹھکانے آئے اور میں اپنی زندگی اور اس سے وابستہ کاموں پر توجہ کرنے کے قابل ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ میں پریشانیوں میں گھرا ہوا ہوں۔ میں قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔ میرے پاس جو کمرے تھے، ان کا کرایہ بہت زیادہ تھا۔ کرائے نامے کے مطابق میں مقررہ وقت سے پہلے ان کو نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ چناں چہ میں نے ان کو ایک آدمی کو کرائے پر دے دیا۔ ہر برٹ جا چکا تھا۔ اس کو قاہرہ (مصر) میں کلاریکر کمپنی کی نئی شاخ کا انتظام کرنا تھا۔ اس نے جانے سے پہلے مجھے یقین دلایا تھا کہ اس شاخ میں میرے لیے ہر وقت مناسب جگہ ہوگی، لیکن میں اپنی زندگی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر سکا، کیوں کہ میں بیمار ہو گیا تھا۔ کئی ہفتوں سے مجھے اندازہ ہور ہا تھا کہ میں سخت بیمار ہونے والا ہوں لیکن میگ وچ کی موت تک میں نے ہمت سے کام لیا، مگر اب مجھے تیز بخار چڑھ گیا اور میرا سارا بدن دکھنے لگا۔ میں بستر میں لیٹا ہوا سردی سے کانپ رہا تھا۔ کبھی کبھی میں ہذیانی کی کیفیت میں اپنی ساری جسمانی قوت جمع کر کے گلیوں میں لڑکھڑاتا پھرتا۔ ایک دن مجھے ہوش آیا تو میں گھر کے باہر ایک گلی میں پڑا تھا۔ مجھے سخت بخار تھا اور دو آدمی مجھ پر جھکے ہوئے غور سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے درشت لہجے میں ان سے پوچھا: ’’آپ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟‘‘
ان میں سے ایک نے جواب دیا: ’’جناب! ہم قرض ادا نہ کرنے پر آپ کو گرفتار کرنے آئے ہیں! ‘‘
میں درد سے کراہا اور اٹھنے کی کوشش کی، لیکن میری ٹانگوں نے میرا ساتھ نہیں دیا۔ آخر میں نے ان سے کہا: ’’میں چلنے کے قابل ہوتا تو آپ کے ساتھ ضرور چلتا لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں کتنا بیمار اور کم زور ہوں۔‘‘
وہ دونوں آدمی ذرا دور چلے گئے اور آپس میں بحث کرنے لگے لیکن تھوڑی دیر میں بحث ختم کر کے چلے گئے۔ میں جیسے تیسے گھر واپس پہنچا اور پھر بستر پر غافل ہو کر پڑ گیا۔ وہ تمام لوگ جو مجھے جانتے تھے، ایک کے بعد ایک کر کے آتے اور میرے پاس بیٹھ کر چلے جاتے تھے۔ میں ان سے کبھی باتیں کرتا اور کبھی لڑتا جھگڑتا۔ آخر آہستہ آہستہ ان آدمیوں کا آنا بند ہو گیا۔ اب صرف ایک آدمی میرے پاس رہ گیا تھا، وہ جو تھا۔ وہ ہاتھ جو میری گرم پیشانی پر ٹھنڈے پانی کا کپڑا رکھ رہا تھا اور وہ آنکھیں جو مجھے محبت سے دیکھ رہی تھیں، وہ جو ہی کی تھیں۔ آخر میں نے کم زور آواز میں پوچھا:
’’کیا تم جو ہو؟‘‘
اس نے تپاک سے جواب دیا:’’ ہاں میں جو ہوں، پیارے پپ!‘‘
میں نے بے تحا شارونا چلا نا شروع کر دیا۔ میں ہذیانی کیفیت میں نہیں تھا، ہوش و حواس میں تھا۔ میں نے اس سے کہا: ’’جو! میں سمجھا تھا کہ تم مجھ سے ناراض ہو گے۔ تمھیں ہونا چاہیے۔ مجھے مارو! میں تمھاری مہربانی کا مستحق نہیں ہوں!‘‘
جو خوش تھا کہ میں نے اس کو پہچان لیا ہے۔ وہ میرے بستر پر جھکا اور اس نے مجھے لپٹا لیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔ اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا:
’’میرے پیارے پپ! تم اور میں ہمیشہ اچھے دوست رہے ہیں۔ اب تم آ رام کرو اور جلدی سے صحت یاب ہو کر ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرنے لگو! ‘‘
جو نے بڑی محبت سے کوئی ایک مہینے تک میری تیمارداری کی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس سے پہلے میں کتنے عرصے بیمار پڑا رہا۔ بہر کیف رفتہ رفتہ میں صحت یاب ہو نے لگا۔ میری قوت بحال ہونے لگی۔ مجھے احساس ہونے لگا کہ جیسے میں اپنے ہی گھر میں ہوں اور میں اپنے آپ کو وہی ننھا سا پپ سمجھنے لگا، کیوں کہ جو مجھ سے اسی سادگی سے باتیں کرنے اور اسی پرانے انداز سے میرا خیال رکھنے لگا تھا۔ جب جو نے اندازہ کر لیا کہ میں اب صحت مند ہو گیا ہوں تو ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ مس شام زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسیں اور توقع کے مطابق وہ اپنی تمام دولت اسٹیلا کے لیے چھوڑ گئیں۔ جب جو نے یہ بات چھیڑی تو پھر میں نے اس کو اپنی خواہشات اور اپنے محسن کے متعلق بتایا۔ ظاہر ہے کہ یہ محسن مس شام نہیں تھیں۔ جو نے مجھے بتایا کہ وہ بھی اس سلسلے میں مختلف باتیں سنتا رہا ہے، لیکن دوستوں اور بھائیوں کے لیے یہ باتیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ پھر وہ رات کا کھانا تیار کرنے چلا گیا اور ہماری باتوں کا سلسلہ رک گیا۔ جب میں پوری طرح صحت یاب ہو گیا تو جو واپس اپنے گھر چلا گیا۔ وہ ایک دن صبح سویر ے خاموشی سے روانہ ہو گیا۔ کاغذ کے پرزے پر اس نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لکھ دیا کہ میں جا رہا ہوں۔ بڈی نے اس کو پڑھنا لکھنا سکھا دیا تھا۔ جو نے مجھے یہ بات بڑے فخر سے بتائی تھی۔
پرچے کے ساتھ ایک رسید بھی تھی۔ یہ اس رقم کی رسید تھی جو مجھ پر قرض تھی۔ جو نے میرا قرض بھی ادا کر دیا تھا۔ اب تک تو میں سمجھ رہا تھا کہ میرے قرض خواہ نے میری بیماری ختم ہونے تک صبر کر لیا ہے۔ مجھے ذرا بھی گمان نہیں تھاکہ جو نے یہ قرض ادا کر دیا ہے۔ میں جو کا پرچہ اور رسید ہاتھ میں لے کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ میری موجودہ زندگی کتنی احمقانہ اور خود غرضانہ رہی ہے۔ مجھے وہ صاف اور تازہ ہوا یاد آئی جو دریا کی طرف سے آتی تھی اور وہ دلدلی علاقہ بھی یاد آیا جہاں میرا معصوم بچپن گزرا تھا۔ عقل مند اور سلیقے مند بڈی کا مہربان چہرہ بھی میرے سامنے آیا۔ وہ میری ہم درر تھی اور میری بہن کی موت کے بعد میری رازدار بھی تھی۔ میں نے سوچا کہ اپنی زندگی بدلنے کا اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ میں بڈی سے شادی کرلوں۔ میں بڈی پر ثابت کروں گا کہ میں کتنا فرماں بردار اور مخلص ہوں۔ میں اس سے کہوں گا کہ وہ میری بیوی بن جائے۔ اس طرح ہم دونوں کا مستقبل بن جائے گا۔ اگر وہ یہ چاہے کہ میں جو کے ساتھ بھٹی میں کام کروں تو میں بہ خوشی کروں گا اور اگر اس کی خواہش ہوگی کہ میں گاؤں ہی میں کوئی کام ڈھونڈلوں تو میں اس کی خاطر یہ بھی کرلوں گا۔ میں اسے یہ بھی بتادوں گا کہ ہر برٹ نے کہا ہے کہ میں قاہرہ جا کر اس کے ساتھ کام کر سکتا ہوں۔ اگر بڈی پسند کرے گی تو میں ایسا ہی کروں گا۔
تین دن بعد میں کینٹ کے لیے روانہ ہو گیا۔ جون کا مہینا تھا اور موسم بہت خوش گوار تھا۔ آسمان صاف اور نیلا تھا۔ سبز کھیتوں پر پرندے اُڑ رہے تھے۔ جب میں جو کی بھٹی کے پاس پہنچا تو مجھے جو کے ہتھوڑے کی آواز نہیں آئی۔ جب میں بالکل قریب پہنچا تو ڈر کے مارے کانپ گیا۔ بھٹی بند تھی لیکن گھر خالی نہیں تھا، کیوں کہ مجھے کھلی ہوئی کھڑکی سے ڈرائنگ روم کا پردہ اُڑتا ہوا نظر آیا۔ میں جلدی سے کھڑکی کے پاس گیا اور اس میں سے اندر جھانکا۔ بڈی اور جو پاس پاس کھڑے تھے۔ وہ مجھے دیکھ کر خوشی سے چلائے اور فورا ً مجھے گلے لگانے کے لیے دوڑ پڑے۔ بڈی صحت مند اور بہت خوش نظر آ رہی تھی۔ اس نے کہا:’’ عزیز ترین پپ! بہت اچھا ہوا تم آگئے۔ اب ہماری شادی کی خوشی مکمل ہو گئی۔ جو اور میں ابھی ابھی زندگی بھر کے ساتھی بنے ہیں۔‘‘
میں نے اپنی مایوسی پر قابو پاتے ہوئے انھیں مبارک باد دی۔ اس کے بعد میں نے ان کے ساتھ چند گھنٹے گزارے اور پھر ان دونوں پیارے انسانوں سے رخصت ہو کر واپس لندن کے لیے روانہ ہو گیا۔ لندن میں، میں نے اپنا تمام اسباب بیچ کر اپنا تھوڑا سا قرض ادا کیا اور قاہرہ کے لیے روانہ ہو گیا، تا کہ میں کلاریکر کمپنی میں ایک کلرک کی حیثیت سے ملازمت کرلوں۔ ہربرٹ نے کلارا سے شادی کر لی تھی۔ میں ان کے ساتھ رہنے لگا۔ دھیرے دھیرے میں ترقی کرنے لگا اور میں نے اپنا تمام قرض ادا کر دیا۔ اب میں اپنی کمائی سے اچھی زندگی گزارنے لگا۔ جو اور بڈی کو میں برابر خط لکھتا رہا۔ چند سال کے بعد میں کلا ریکر کمپنی کا حصے دار بن گیا اور میر اشمار مالکوں میں ہونے لگا۔ ہماری کمپنی بہت بڑی نہیں تھی، لیکن ہم نے اچھا منافع کمانے کے ساتھ ساتھ اچھا نام بھی پیدا کیا۔ کلاریکر، ہر برٹ سے یہ بات نہیں چھپا سکے کہ میں نے ہر برٹ کو کمپنی میں شامل کرنے کے لیے مالی مدد کی تھی۔ ہربرٹ کے حصے دار بننے میں خود اس کی محنت اور صلاحیت کا بھی بڑا دخل تھا، لیکن میں نے جو ر قم کلار یکر کو ہر برٹ کے لیے دی تھی اس کی وجہ سے ہر برٹ مجھ سے اور زیادہ محبت کرنے لگا تھا۔
٭٭٭
گیارہ سال بعد میں انگلستان واپس آیا۔ یہ دسمبر کی ایک سردترین شام تھی۔ اندھیرا ہو چکا تھا۔ میں جو کے گھر پہنچا اور آہستہ سے باورچی خانے کا دروازہ کھولا۔ جو بیٹھا ہوا پائپ پی رہا تھا۔ اس میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی تھی۔ بس بال ذرا سفید ہو گئے تھے۔ اس کے سامنے پرانے اسٹول پر ننھا’’پپ ‘‘بیٹھا ہوا تھا۔ جو مجھے دیکھتے ہی اُچھلا اور مجھے چھو چھو کر دیکھنے لگا۔ وہ یہ یقین کرنا چاہتا تھا کہ میں واقعی پپ ہوں، لیکن ننھا لڑ کا پیچھے ہٹ گیا۔ بڈی بھی دوڑی دوڑی آئی اور خوشی سے مجھے لپٹا لیا۔
چند دن کے بعد ننھے پپ سے میری خوب دوستی ہوگئی۔ اس کا نام میرے نام پر رکھا گیا تھا۔ ہم گھومنے کے لیے قبرستان کی طرف نکل جاتے تھے۔ میں نے ننھے پپ کو اپنے خاندان کی قبریں دکھائیں۔ اس کے خیالات اور جذبات کو سمجھنے کے لیے مجھے صرف اپنا بچپن یاد کرنا پڑا کہ اس وقت اس جگہ آکر میں کیا کیا سوچا کرتا تھا۔ میں جب جو کے گھر سے رخصت ہونے لگا تو ننھے پپ کو مجھ سے اتنا ہی لگاؤ ہو چکا تھا جتنا مجھے اپنے بچپن میں جو سے تھا۔ وہ بھٹی کے پاس کھڑا ہوا الوداع کہنے کے لیے اس وقت تک مسلسل ہاتھ ہلاتا رہا جب تک میں اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا۔
لندن روانہ ہونے سے پہلے میں مس شام کا گھر دیکھنے کے لیے گیا۔ گھر پوری طرح جل چکا تھا اور کوئی چیز نہیں بچی تھی۔ صرف باغ رہ گیا تھا۔ میں پرانے پھاٹک سے داخل ہوا، جو اب بند نہیں تھا۔ میں پتھر کی ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ بے اختیار مجھے اسٹیلا کا خیال آنے لگا۔ میں نے سنا تھا کہ بینٹلے ڈرمل کے ساتھ اسٹیلا خوش نہیں رہی اور یہاں تک کہ وہ اس سے علاحدہ ہو گئی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ اس علاحدگی کے بعد ڈرمل ایک حادثے میں ختم ہو گیا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ اس بات کو دو سال ہو گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس عرصے میں اسٹیلا نے دوسری شادی کر لی ہو۔ میں باغ کے اندرونی حصے کی طرف گیا۔ باغ سردی کی ہواؤں سے ویران سا ہو گیا تھا۔ درخت پتوں سے خالی تھے۔ اچانک مجھے آگے کی طرف ایک عورت کا سایہ دکھائی دیا، وہ چاندنی رات میں تنہا اور ساکت کھڑی تھی۔ میرے قدموں کی چاپ سن کر وہ مڑی اور ہم دونوں نے بہ یک وقت ایک دوسرے کو پہچان لیا۔
’’اسٹیلا!‘‘میں چلا یا اور تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔
اس نے نرمی سے کہا: ’’پپ میں بہت بدل چکی ہوں۔ تعجب ہے کہ تم نے مجھے پھر بھی پہچان لیا۔‘‘ اس کی خوب صورتی میں واقعی بہت فرق آ چکا تھا، لیکن کشش اور جاذ بیت ابھی باقی تھی۔ اس کی پر غرور آنکھیں بھی بدل گئی تھیں اور ان میں نرمی اور غم جھانک رہا تھا۔
ہم دونوں ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ میں نے اس سے پوچھا: ’’کیا تم اکثر یہاں آتی ہو؟‘‘
اس نے جواب دیا:
’’نہیں، میں آج پہلی بار یہاں آئی ہوں۔ اس جگہ کو الوداع کہنے۔ یہ جگہ میرا آخری اثاثہ تھی۔ میں نے اسے بیچ دیا ہے۔ پپ !کیا تم اب بھی دوسرے ملک میں رہتے ہو؟‘‘
میں نے اس کو بتایا کہ میں کلار یکر کمپنی کا حصے دار بن گیا ہوں۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئی۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا:
’’میں اکثر تمھارے بارے میں سوچا کرتی تھی۔ ایک وقت تھا کہ میں تمھارا اور تمھاری محبت کا خیال تک دل میں نہیں لاتی تھی۔ میں نے اپنی نادانی سے تمھیں کھو دیا تھا، لیکن اب خوش قسمتی سے تمھیں دوبارہ پا لیا ہے۔ ‘‘
میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے جواب دیا:
’’تمھارے لیے میرے دل میں ہمیشہ جگہ رہی ہے۔‘‘
ہم دونوں تھوڑی دیر خاموش بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ پھر اسٹیلا دھیمی آواز میں بولی:
’’میری مصیبتوں نے مجھے بہت کچھ سکھا دیا ہے۔ ان برسوں میں، میری پریشانیوں نے ہی استاد کا کام کیا ہے۔ یہ پریشانیاں ہر استاد سے زیادہ اچھی استاد ثابت ہوئی ہیں۔ میں اندر سے ٹوٹ چکی ہوں، لیکن مجھے امید ہے کہ کوئی بہتر صورت ضرور پیدا ہوگی۔ میں تم سے اب پھر جدا ہو رہی ہوں، کیوں کہ میں اس جگہ کو بھی چھوڑ رہی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ تم نے مجھے معاف کر دیا ہو گا اور تم پہلے کی طرح میرا خیال کرو گے اور ہم دوستوں کی طرح ایک دوسرے سے رخصت ہوں گے۔ ‘‘
میں نے زور سے کہا: ’’ہم دوست ہیں! جہاں تک جدا ہونے کی بات ہے، یہ بعد میں دیکھا جائے گا۔‘‘
ہم دونوں بینچ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا۔ ہم آہستہ آہستہ چلنے لگے۔ ہم نے مس شام کا سایہ ہمیشہ کے لیے پیچھے چھوڑ دیا۔
٭٭٭
Facebook Comments