skip to Main Content

گلاب ڈھیری کا نیلم

انور سعید صدیقی
۔۔۔۔۔
(1)
’’لو بیٹے یہ لو۔ میں مصروف تھی اس لیے تمھاری سالگرہ کے موقع پر تمھارے لیے کوئی تحفہ خرید کر نہ لا سکی۔ تم اب خود اپنی پسند سے کوئی چیز خرید لاؤ۔ ‘‘جاوید کی ماں مرجان نے اپنے بیٹے کو پچاس روپے کا نوٹ دیتے ہوئے کہا۔
’’پچاس روپے! ‘‘جاوید نے خوشی سے کہا ،’’مجھے جو چیز لینی ہے اس کے لیے پچاس روپے ہی کی تو ضرورت تھی۔ ‘‘
’’کیا چیز ہے وہ جو تم خریدنا چاہتے ہو؟ ‘‘جاوید کی چھوٹی بہن شاداب نے پوچھا۔
’’میں تمھیں بعد میں بتاؤں گا ۔‘‘جاوید بولا ۔
’’بعد میں کیوں؟ ابھی بتاؤ نا ؟‘‘
’’بس۔ کہہ دیا نا۔ میں اس وقت تمھیں نہیں بتاؤں گا۔ تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے آج میری سالگرہ پر مجھے کوئی تحفہ کیوں نہیں دیا؟‘‘
  ’’لیجیے یہ میرا تحفہ ہے۔‘‘شاداب نے جھٹ سے ایک چھوٹا سا پیکٹ جاوید کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
  جا وید نے پیکٹ کھول کر دیکھا تو اس میں پلاسٹک کی ایک چھوٹی ہی خوبصورت گھڑی نکلی جس میں ڈائل کی جگہ ایک چمکدار نیلے رنگ کابڑا ساپتھر لگا ہوا تھا۔
’’بھیا۔ میں نے یہ گھڑی پچیس روپے میں خریدی تھی۔ ہے نا۔ اچھی؟‘‘شاداب نے بھائی کو گھڑی پہناتے ہوئے کہا مگر اس دوران گھڑی ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گئی اور اس میں لگا ہوا مصنوعی نیلم گھڑی سے علاحدہ ہو گیا۔
’’ دیکھو تم نے اپنا تحفہ خود ہی خراب کر دیا۔‘‘جاوید نے اسے گھڑی واپس کرتے ہوئے کہا،’’میں اسے اپنے دوستوں کو دکھاتا ،وہ اسے اصلی نیلم سمجھتے۔‘‘ شاداب اپنے تحفے کے ٹوٹ جانے پر افسوس کرنے لگی تو جاوید نے اسے تسلی دی،’’افسوس مت کرو۔ میں اسے ٹھیک کرلوں گا۔‘‘
پھر جاوید نے گھڑی اور مصنوعی نیلم دونوں کو اٹھا کر اپنی میز کی دراز میں رکھ دیا۔
’’جاوید! اب یہ تو بتاؤ کہ تم ان پچاس رپوں سے کیا خریدو گے؟‘‘ اس کی امی نے پوچھا۔
’’امی میں دو کدالیں خریدوں گا۔‘‘ جاوید نے بتایا۔
’’سالگرہ کے تحفے سے کدالیں خریدوگے؟‘‘مرجان نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں امی جان! اس سال میرے لیے یہ سب سے اچھا سالگرہ کا تحفہ ہو گا۔‘‘جاوید نے کہا،’’آپ کو معلوم ہے کہ میں ان کدالوں سے کیا کروں گا؟‘‘
’’مجھے کیا معلوم !‘‘
’’میں ان سے وہ کام کروں گا جو میرے ابو جی ادھورا چھوڑ گئے تھے۔‘‘جاوید نے راز دارانہ انداز میں کہا۔
’’وہ تو اسکول میں پڑھاتے تھے۔ کیا تم اسکول میں پڑھاؤ گے اور وہ بھی ان کدالوں سے؟‘‘ جاوید کی امی نے تعجب سے کہا۔
جاوید نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’میں پڑھانا کیا جانوں۔ میں تو خود ابھی پڑھتا ہوں۔ آپ کو یاد ہے کہ ابو نے ہیروں کی کان کنی کے لیے کچھ زمین پٹے پرلی تھی۔ وہ اس کام کے پورا ہونے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اب میں اس کام کو پورا کروں گا۔ پٹہ ختم ہونے میں ابھی تین مہینے باقی ہیں۔ اس عرصے میں مجھے یہ کام کرنا ہے۔‘‘
’’بیٹا !تم ہیرے نکالنے کا کام کیسے کرو گے یہ ایک مشکل اور محنت والا کام ہے۔ جو ان لڑکوں کے لیے بھی زمین کھودنا مشکل ہوتا ہے۔ تم یہ کام کیسے کر سکتے تم تو ابھی صرف تیرہ سال کے ہو۔ میں تمھیں اتنا سخت کام کرنے کی اجازت نہیں دوں گی۔‘‘ اس کی امی نے کہا۔
’’یہ کام مشکل اور سخت ضرور ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں اور اگر اللہ نے چاہا تو میں اس میں ضرور کامیاب ہوں گا۔‘‘ 
’’مجھے یقین نہیں کہ تم اتنا مشکل کام کر سکو گے۔ خیر تمھارے ابو کا بھی یہی حال تھا۔ انھوں نے اس امید پر کہ ایک قیمتی ہیرا مل جائے گا سخت محنت کی۔ میرا خیال ہے کہ اسی سخت محنت و مشقت کی وجہ سے وہ اس دنیا سے جلد چلے گئے۔‘‘
’’امی! آپ گھبرائیں نہیں۔‘‘جاوید نے ماں کو تسلی دیتے ہوئے کہا،’’کام کرنے سے کبھی کوئی مرا نہیں۔ مجھے اپنے اوپر اعتماد ہے کہ میں ہر مشکل سے مشکل کام کر سکتا ہوں۔ میں نے چچا رحمت سے بھی اس بارے میں بات کی تھی۔ وہ بھی کہہ رہے تھے کہ کان کنی کے کام کو جاری رکھنا چاہیے۔ انھوں نے اس کام میں میری ہر طرح کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ وہ اپنے بھتیجے عالم کو بھی میرے ساتھ کام پر بھیجنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ چچا رحمت اور میں نے ابو کے ان اوزاروں کو ڈھونڈا تھا جو وہ کان کنی کے کام میں استعمال کرتے تھے۔ ان اوزاروں میں سے چھوٹی کدالیں زنگ لگ کر خراب ہو گئی ہیں۔ میں بس یہی چھوٹی کدالیں خریدنا چاہتا تھا۔ یہ کدالیں پچاس روپے میں آجائیں گی۔ اسی لیے تو میں کہ رہا تھا کہ آپ کا تحفہ میرے لیے بہت کار آمد ہو گا۔‘‘
’’بیٹا! میں اب بھی تم سے کہوں گی کہ یہ ایک مشکل کام ہے، مگر خیر تمھاری مرضی۔ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ وہ تمھاری مدد کرے۔‘‘
’’ بھیا!‘‘شاداب نے خوشی سے کہا،’’یہ ایک دلچسپ مشغلہ ہو گا۔ میں بھی تمھارے ساتھ یہ کام کروں گی۔ گرمیوں کی چھٹیاں بھی ہونے والی ہیں۔ ہمارے پاس ہیرے تلاش کرنے کے لیے پورے دو مہینے ہوں گے۔‘‘ 
مرجان نے کہا، ’’میں مہتاب سے کہوں گی کہ وہ گھر کا سودا سلف لانے کے بعد خالی وقت میں تمھارا ہاتھ بٹایا کرے۔ یہ اچھی بات ہے کہ رحمت بھائی تمھاری مدد کر رہے ہیں اور انھوں نے عالم کو بھی تمھارے ساتھ بھیجنے کے لیے کہا ہے۔ ‘‘
(2)
سوات کی خوبصورت وادی میں واقع کالام کا علاقہ اپنے ہیروں اور دوسرے قیمتی پتھروں کے لیے ساری دنیا میں مشہور تھا۔ قدرتی حسن سے مالا مال اس علاقے میں زمین کے اندر بھی ہیروں کی صورت میں زبر دست خزانہ موجود تھا۔ حکومت نے اس علاقے کا باقاعدہ سروے کر کے انھیں کان کنی کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ یہاں زمین کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ کر ایک خاص مدت کے لیے پٹے پر دے دیا جاتا تھا تا کہ محنت کرنے والے لوگ یہاں قسمت آزمائی کر سکیں۔ اور زمین کا سینہ چیر کر یہاں سے ہیرے نکال سکیں۔یہ پٹہ عام طور پر ایک سال کے لیے ہوتا تھا۔ شرط یہ ہوتی تھی کہ یہاں سے جو بھی قیمتی پتھر یا ہیرا ملے گا اسے پہلے حکومت کے محکمہ معدنیات کے پاس جمع کرایا جائے گا۔ پھر یہ محکمہ ان پتھروں کو نیلام کر کے بیچے گا اور اس سے جور قم آئے گی اس میں سے اسی فیصد اس شخص کو مل جائے گی جو یہ ہیرے لے کر آئے گا۔ بقیہ بیس فیصد رقم حکومت کے خزانہ میں جمع ہو جائے گی۔
جاوید کے والد شیر محمد، گلاب ڈھیری کے ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ یہ گاؤں کا لام سے دس کلو میٹر دور واقع تھا۔ دوسرے گاؤں کی طرح اس کے آس پاس بھی ایسے قطعے موجود تھے جہاں نیلم اور پکھراج پائے جاتے تھے۔ اس لیے یہاں کے لوگ بھی یہ قطعے پٹے پر لے لیا کرتے تھے۔ شیر محمد نے بھی اس مقصد کے لیے زمین کے کچھ ٹکڑے پٹے پر لیے تھے۔ اسے اللہ پر بھروسہ تھا کہ وہ اس کی محنت کا پھل دے گا اور اسے یہاں سے کچھ اچھے ہیرے مل جائیں گے جن کے ذریعہ سے وہ اپنی زندگی آرام سے گزار سکے گا۔ رحمت خان شیر محمد کا دوست تھا،وہ اس کا ہم جماعت بھی رہ چکا تھا۔ اس کے پاس ویگن تھی جسے وہ خود ہی چلایا کرتا تھا۔ رحمت خان کے پاس جب بھی وقت ہوتا تھا، وہ شیر محمد کی اس کام میں مدد کیا کرتا تھا۔ ان دونوں نے کافی دنوں تک بہت کھدائی کی مگر انھیں کوئی قیمتی پتھر نہ مل سکا۔ چند چھوٹے چھوٹے ہیرے ضرور ملے جن سے وہ چند ہزار روپے سے زیادہ نہ حاصل کر سکے۔
کچھ دنوں بعد شیر محمد بیمار ہو کر اللہ کو پیارا ہو گیا اور اپنے پیچھے دو بچے جاوید اور شاداب چھوڑ گیا۔ یہ دونوں بچے اپنی ماں مرجان کے ساتھ اپنے دن گزار رہے تھے کہ اچانک مرجان کو بھی اپنی طبیعت خراب محسوس ہونے لگی۔ اس نے اس کا ذکر ایک معالج صاحب سے کیا جنھوں نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ مرجان کو سرطان کی بیماری لاحق ہو گئی ہے۔ معالج نے اسے مشورہ دیا کہ وہ طبی معائنے کے لیے کراچی چلی جائے۔ لیکن مرجان اتنی امیر نہیں تھی کہ وہ کراچی جا کر کسی بڑے ہسپتال میں معائنہ کرا سکے۔ اس نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ وہ اس کی بیماری کا ذ کر کسی نے نہ کریں۔ پھر بھی جاوید کو کسی طرح اپنی ماں کی بیماری کا پتا چل گیا۔ مگر وہ گھبرانے کے بجائے اس سوچ میں پڑ گیا کہ وہ اپنی امی کو کس طرح کراچی لے جائے۔ زمین سے ہیرے نکالنے کا کام بھی وہ اسی مقصد کے لیے شروع کرنا چاہتا تھا۔
(3)
سب لوگ گھر میں تھے کہ دروازے پر کسی نے دستک دی۔
’’جاوید !دیکھو تو کون آیا ہے؟‘‘ مرجان نے بیٹے سے کہا ۔
جاوید نے جا کر دیکھا تو اپنے چچا ظاہر شاہ کو دروازے پر پایا۔
’’آیئے اندر آجائیے۔‘‘جاوید ظاہر شاہ کو اپنے ساتھ گھر میں لے آیا۔ مرجان جو باورچی خانے میں شاداب کے ساتھ کام کر رہی تھی اتنے دنوں بعد ظاہر شاہ کو اپنے گھر میں دیکھ کر پریشان ہو گئی،’’خدا خیر کرے۔ یہ اتنے دنوں بعد ہمارے یہاں کیوں آئے ہیں؟‘‘ مرجان نے آہستہ سے کہا۔
’’امی! یہ جاوید کے لیے سالگرہ کا تحفہ لے کر آئے ہوں گے؟‘‘ شاد اب بولی۔
’’ظاہر شاہ اور سالگرہ کا تحفہ؟‘‘مرجان بولی۔
  ظاہر شاہ جو ایک لالچی شخص تھا جاوید کے دادا کے بھائی کا بیٹا تھا۔ اس رشتے سے وہ جاوید اور شاداب کا چچا ہوتا تھا۔ جاوید کے دادا اور ظاہر شاہ کے والد بچپن میں اکٹھے اس گھر میں رہتے تھے جس میں آج کل جاوید، اس کی بہن اور امی رہتی تھیں۔ بعد میں خاندانی جائیداد کی تقسیم کے بعد ظاہر شاہ کے والد دوسری جگہ منتقل ہو گئے تھے۔
ظاہر شاہ نے بھی شیر محمد کی زمین کے قریب کان کنی کے لیے کافی بڑی زمین پٹے پر لے رکھی تھی۔ وہ ایک دولت مند شخص تھا اور اس نے کان کنی کے لیے بہت سے مزدور بھی ملازم رکھے ہوئے تھے۔
جب مرجان باورچی خانے سے نمٹ کر شاداب کے ساتھ ظاہر شاہ کے پاس گئی تو ظاہر شاہ نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔
’’بھابی! میں آپ کی مدد کے لیے یہاں آیا ہوں۔ آپ کو تو پتا ہے کہ بھائی شیر محمد نے ہیروں کی کان کنی کے لیے کچھ زمین پٹے پر لی تھی۔یہ زمین میری زمین کے قریب ہے۔ اب ان کا تو انتقال ہو چکا ہے اور یہ زمین بیکار پڑی ہے۔ میں نے سوچا کہ آپ کا کچھ فائدہ ہی ہو جائے۔ میں اتنے روپے میں یہ زمین آپ سے لینے کو تیار ہوں جو بھائی شیر محمد نے حکومت کو دیے تھے۔‘‘
یہ سن کر جاوید کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں اس کی امی اس کو اس سخت کام سے روکنے کے لیے یہ زمین ظاہر شاہ کے حوالے نہ کر دیں۔ مگر مرجان نے ظاہر شاہ سے کہا،’’آپ کی بہت بہت مہربانی! آپ نے ہمارے فائدے کی بات سوچی لیکن مجھے یہ زمین کسی کو نہیں دینی کیونکہ جاوید یہ کام خود کرنا چاہتا ہے۔‘‘
’’کیا! یہ اتنا سالڑ کا یہ کام کرے گا۔ اسے معلوم ہے کہ یہ کتنا مشکل کام ہے؟‘‘ ظاہر شاہ نے حیرت سے کہا۔
’’وہ کہتا ہے کہ وہ یہ کام کر سکتا ہے۔‘‘
’’مجھے افسوس ہے بھابی آپ اس لڑکے کو خراب کر رہی ہیں۔ ابھی وہ اتنا بڑا نہیں کہ یہ کام کر سکے۔ اگر وہ ایسا کرے گا بھی تو اسے کوئی ہیر اوہاں سے نہیں ملے گا۔‘‘
’’لیکن میں کیا کر سکتی ہوں۔ اس نے یہ کام کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔‘‘ مرجان نے کہا۔
’’ آپ کو معلوم ہے کہ شیر محمد جیسا مضبوط شخص بھی اس کام کی سختی نہ سہہ سکا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اس نے ہیرے نکالنے کا کام نہ کیا ہوتا تو وہ ابھی اور زندہ رہتا۔‘‘
’’جاوید اس کام میں اکیلا نہیں ہے۔ رحمت خان نے بھی اس کام میں اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
’’ وہی رحمت جس نے اس کے باپ کی مدد کی اور اس کو اس دنیا سے رخصت کرا دیا، بہر حال آپ کی مرضی ۔میں تو آپ کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ میں آپ کو مزید کچھ اور رقم بھی دینے کو تیار ہوں اگر مجھے آپ کی زمین سے کچھ ہیرے ملے تو ان کی قیمت کادس فیصد بھی آپ کو دے دوں گا۔‘‘ ظاہر شاہ نے لالچ دینا چاہا۔
’’میرا خیال ہے کہ ہم نے جو فیصلہ کیا ہے وہ ہی درست ہے۔‘‘ جاوید کی ماں نے ظاہر شاہ کو قطعی جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’اچھا تو ٹھیک ہے۔‘‘ ظاہر شاہ غصے میں بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔
اسی دوران گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی۔
’’شاید رحمت چچا آئے ہیں؟‘‘ جاوید نے کہا۔ اسی دوران شاداب رحمت چچا کو ساتھ لے کر اندر آگئی۔ 
’’رحمت چچا!‘‘جاوید نے انھیں دیکھتے ہوئے کہا۔’’ میرے پاس پچاس روپے ہیں جن سے ہم کدالیں خرید سکیں گے۔‘‘
’’ہاں ضرور مگر کیا تمھاری امی نے تمھیں اس کام کی اجازت دے دی ہے؟‘‘رحمت نے کہا۔
’’انھوں نے اجازت تو دے دی ہے مگر بڑی مشکل سے۔‘‘جاوید نے بتا یا۔ اس دوران مرجان بھی آگئی۔ اس نے رحمت سے کہا،’’آپ کے خیال میں اس عمر کے لڑکے کے لیے یہ کام مشکل نہیں ہے؟‘‘
’’ بلاشبہ یہ ایک مشکل کام ہے۔‘‘رحمت بولے ،’’مگر جاوید کو اس کام سے جتنی دلچسپی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ کرلے گا۔ میں نے اپنے بھتیجے عالم کو اس کے ساتھ کام پر بھیجنے کا وعدہ کیا ہے اور جب میں فارغ ہوا کروں گامیں بھی اس کا کچھ نہ کچھ ہاتھ بٹاؤں گا۔‘‘
’’میرے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘ شاداب نے رحمت چچا سے پوچھا۔
  ’’ہاں ہاں تم بھی یہ کام کر سکتی ہو۔‘‘ رحمت نے شاداب کی ہمت بڑھائی۔
’’ آپ کے خیال میں زمین کی کھدائی اور چٹانوں کو توڑنا اتنا آسان کام ہے ؟‘‘مرجان نے پوچھا۔
’’نہیں بھابی! ‘‘رحمت بولا۔ ’’چٹانیں توڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس علاقے میں ہیرے زمین کی اوپر کی سطح اور نیچے موجود چٹانوں کے درمیان مٹی میں پائے جاتے ہیں۔ ہیروں کی کان کنی دراصل مٹی میں سے ہیرے تلاش کرنے کو سمجھتے ہیں۔ اس کے لیے بس زمین کی کھدائی اور پھر اس مٹی کو ایک جگہ جمع کرنا کافی ہے۔ا س کے بعد اس مٹی میں سے ہیرے تلاش کیے جاتے ہیں۔ یہ پتھروں اور کنکروں کے ساتھ ہوتے ہیں جب تک آپ انھیں صاف نہ کرلیں آپ کو یہ پتا نہیں چل سکے گا کہ پتھر کون سا ہے اور ہیرا کون سا۔ہیرے چھوٹے پتھروں اور دوسری چیزوں کے ساتھ اتنے عرصے سے اس مٹی میں دبے ہوئے ہیں کہ یہ سب ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ ہاں جب انھیں پانی سے دھویا جاتا ہے تو پھر یہ دوسرے عام پتھروں سے علاحدہ نظر آتے ہیں۔‘‘
’’ رحمت چچا !ہم یہ کام کب شروع کریں گے؟‘‘ جاوید نے پوچھا۔ 
’’ تم کل سے یہ کام شروع کر سکتے ہو۔‘‘رحمت بولے، ’’آج ہم کدالیں خرید نے چلتے ہیں۔ اس دوران اپنی امی سے زمین کے پٹے کے کاغذات نکلوا لو۔ محکمہ معدنیات کے محافظ ان کانوں کا گشت کرتے ہیں اور ان کاغذات کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ کام کے دوران یہ کاغذات ساتھ رکھنا ہوتے ہیں۔‘‘ 
’’کاغذات صندوق میں رکھے ہیں مگر یہ کاغذات میرے مرحوم شوہر کے نام ہیں۔‘‘
’’ کوئی حرج نہیں۔ آپ کے شوہر کے پاس جو کچھ تھا اب آپ ہی اس کی مالک ہیں۔ اگر اس میں کوئی دقت پیش آئی تو ہم یہ کاغذات آپ کے نام کرائیں گے۔ ‘‘
جاوید جو کدالیں خریدنے کے لیے بے چین تھا،ر حمت چچا سے بولا: ’’بازار چلیں کدالیں خریدنا ہیں۔‘‘
  پھر رحمت چچا دونوں بچوں کو اپنی ویگن میں بٹھا کر بازار لے گئے۔
’’چچا! ہمیں کدالوں کے علاوہ اور کس چیز کی ضرورت ہوگی ؟‘‘ جاوید نے پو چھا۔
’’نہیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘ رحمت بولے، ’’ہمارے پاس دوبیلچے، دو تین ٹوکریاں، بالٹیاں، ہتھوڑے اور ایک دو کلہاڑیاں موجود ہیں۔ مٹی چھاننے کے لیے چھلنی اور تسلے کی ضرورت ہوگی وہ بعد میں لے لیں گے۔‘‘
  بازار سے واپسی پر رحمت چچانے ویگن کا رخ گھر کے بجائے شیر محمد کی زمین کی طرف موڑ لیا تا کہ بچوں کو وہ جگہ دکھائے جہاں انھیں قسمت آزمائی کرنا تھی۔ جاوید اور شاداب وہ جگہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔
’’ وہ کیا ہے؟‘‘بچوں نے ایک کو ٹھری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
  ’’یہ کان کھودنے کے اوزار اور دوسرا سامان رکھنے کے لیے ہے۔ روزانہ سار ا سامان لے کر گھر جانا اور پھر دوسرے دن پھر لاد کر لانا کوئی عقلمندی نہیں۔ ہم اس کوٹھڑی کی مرمت کر لیں گے اور اپنا سامان یہیں رکھا کریں گے۔ اس کے لیے ایک اچھے سے تالے کی ضرورت ہوگی۔‘‘ 
’’ہم کام کب شروع کریں گے۔ ہماری گرمی کی چھٹیاں دو تین روز میں شروع ہونے والی ہیں۔‘‘جاوید نے پوچھا۔
’’بس تمھاری چھٹیاں ہوتے ہی کام شروع کر دیا جائے گا ،اس دوران میںاس کو ٹھڑی کو ٹھیک ٹھاک کر لوں گا۔‘‘
(4)
مرجان کو فکر ہو رہی تھی بچے اب تک گھر نہیں لوٹے تھے۔ جیسے ہی بچے اندرداخل ہوئے مرجان نے ان سے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی۔
’’ہم وہ زمین دیکھنے گئے تھے جہاں سے ہم ہیرے نکالیں گے۔‘‘ جاوید نے ماں کو بتا یا۔
’’اس جگہ کو تو میں بھی دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘مرجان نے کہا۔
’’ امی جب ہم کھدائی شروع کر لیں تو آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔‘‘جاوید نے ماں سے کہا۔
’’ میں اس قابل تو نہیں ہوں کہ تمھارے ساتھ کھدائی کر سکوں۔‘‘مرجان نے کہا۔
’’ہم آپ سے کھدائی تو نہیں کرائیں گے۔ بس آپ بیلچے سے تھوڑی سی مٹی نکال کر اس کام کی ابتدا کر دیں۔‘‘جاوید نے کہا۔
  ’’ہاں یہ اچھا خیال ہے۔‘‘رحمت نے بھی بچوں کی ہاں میں ہاں ملائی۔ ’’بھابی اس کام کا آغاز کریں گی تو اس میں ضرور برکت ہو گی۔‘‘
جاوید اور شاداب کے لیے یہ دو دن بہت لمبے ہو گئے تھے۔ وقت تھا کہ گزر ہی نہیں رہا تھا۔ ان کے دماغ میں تو بس ایک ہی خیال بسا ہوا تھا کہ یہ دن ختم ہوں اور ہیرے نکالنے کا کام شروع کر سکیں۔
آخر وہ دن آہی گیا۔ اسکول کی چھٹیاں ہو گئیں۔ جاوید اور شاداب صبح سویرے ہی اٹھ بیٹھے۔ جلدی سے ہاتھ منھ دھویا، کپڑے بدلے اور اپنی امی کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگے۔
جب مرجان کی آنکھ کھلی تو اس نے بچوں کو بالکل تیار پایا۔
’’ تم لوگ ابھی سے تیار ہو گئے ابھی تو صبح بھی نہیں ہوئی۔ ‘‘
’’رحمت چچا بھی بس آتے ہی ہوں گے۔ ہم تو آپ کے اٹھنے کا انتظار کر رہے تھے کہ آپ تیار ہو کر ہمارے ساتھ چلیں۔‘‘
’’میں نماز پڑھ لوں۔ پھر تیار ہو کر تمھارے ساتھ چلوں گی۔‘‘ اس کی امی نے کہا: ’’ہاں شاداب۔ تم اتنی دیر میں ناشتہ تیار کر لو۔‘‘
’’امی ہمیں دیر ہو جائے گی۔‘‘جاوید نے کہا۔
’’ پھر تم چلے جاؤ۔ میں نہیں جارہی۔‘‘مرجان نے غصے سے کہا۔
’’امی جان! آپ تو ناراض ہو گئیں۔ میں جلدی سے چائے اور کھانے کے لیے پر اٹھے تیار کر لیتی ہوں۔‘‘شاداب بولی۔
مرجان جتنی دیر میں نماز پڑھ کر آئی اتنی دیر میں مہتاب بھی سو کر اٹھ گیا اور بچوں نے چائے اور پراٹھے تیار کرلیے۔ سب نے مل کر جلدی جلدی ناشتہ کیا۔ پھر رحمت بھی وہاں پہنچ گیا اور سب کے سب اس کی ویگن میں بیٹھ کر کانوں کی طرف روانہ ہو گئے۔
جب یہ لوگ اپنی زمین پر پہنچے تو رحمت خان نے مرجان کے ہاتھ میں کدال دے کر کہا وہ تھوڑی سی زمین کھو دے۔ مرجان نے تھوڑی سی زمین کھود کر اس کام کا آغاز کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ وہ بچوں کو اس کام میں کام یابی عطا کرے۔ پھر جاوید اور شاداب نے کدالیں سنبھالیں اور انھیں زور سے زمین پر مارا۔ لیکن زمین پتھریلی اور سخت تھی ان کی کدالیں اندر نہ جاسکیں۔ کھدائی کا کام واقعی مشکل تھا لیکن انھوں نے اسے جاری رکھنے کا پکا ارادہ کر لیا تھا۔
’’میں نہ کہتی تھی کہ یہ مشکل کام ہے تم نہ کر سکو گے۔‘‘مرجان نے کہا۔
  ’’جی ہاں امی جان! مشکل تو ہے لیکن ہم ہمت نہیں ہاریں گے۔ محنت کریں گے۔ ہر کام کرنے ہی سے تو ہوتا ہے۔‘‘
’’ اچھا بچو! اب میں تو چلتی ہوں۔ رحمت بھائی مجھے گھر پر چھوڑ دیں گے۔ تم لوگ بھی بارہ بجے تک واپس گھر آجانا۔ تھک جاؤ گے۔‘‘ مرجان نے کہا ۔رحمت نے جاتے ہوئے جاوید اور شاداب سے کہا کہ وہ عالم کو بھی ان کی مدد کے لیے بھیج دے گا اتنے وہ لوگ خود کام کریں۔ پھر وہ مرجان کو گھر چھوڑنے کے لیے روانہ ہو گیا۔
مرجان دل پر بھاری پتھر رکھ کر وہاں سے لوٹی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس نے بچوں کو ان کانوں میں خواہ وہاں ہیرے ہی کیوں نہ ہوں کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ ایک محنت کا کام تھا۔ اسے پتا نہیں تھا کہ بچے یہ کام کر سکیں گے یا نہیں۔ جب وہ گھر پہنچی تو اس نے جاتے ہی سب سے پہلے اللہ سے دعا کی کہ وہ اس کے بچوں کو سلامت رکھے۔ ادھر عالم بچوں کی مدد کے لیے کانوں پر پہنچ گیا۔ وہ اٹھارہ انیس سال کا مضبوط اور صحت مند جوان تھا۔ اس نے جاوید کو کدال سے زمین کھودتے دیکھا تو کہا،’’تم زمین کھودنا نہیں جانتے۔ تم کو زمین کھودنا پھر بہت ساری مٹی نکال کر دوسری جگہ لے جانا ہے۔ دیکھو! وہ مزدور جس طرح کام کر رہے ہیں تم بھی اسی طرح زمین کھودو۔‘‘ اس نے قریب واقع دوسری کانوں میں کام کرنے والے لوگوں کی طرف اشارہ کیا جہاں مٹی کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا۔ بچے اتنا بڑا ڈھیر دیکھ کر مایوسی سے بولے: 
’’ہم اتنی ساری زمین کیسے کھود سکتے ہیں؟‘‘
’’ ہمیں زمین کھود کر اس سے بھی زیادہ مٹی نکالنا پڑ سکتی ہے۔‘‘ عالم نے جاوید سے کہا۔’’ہیرے نکالنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اب تم لوگ پہلے کھدائی کا طریقہ سیکھو۔ اب میں اور مہتاب کھدائی کرتے ہیں۔ تم اور شاداب ٹوکر یوں میں مٹی بھرو اور اس درخت کے نیچے لے جا کر جمع کر دو۔‘‘ 
عالم اور مہتاب نے سخت محنت کے ساتھ کھدائی شروع کی اور جاوید اور شاداب لڑکھڑاتے ہوئے یہ مٹی ٹوکریوں میں بھر کر درخت کے پاس لے جانے لگے۔ اس دوران رحمت چچابھی وہاں آگئے۔ انھوں نے جاوید اور شاداب کی یہ حالت دیکھتے ہوئے ان سے کہا کہ وہ ٹوکری آدھی بھر کر اٹھائیں اس طرح زیادہ وزن محسوس نہیں ہو گا۔
’’رحمت چچا!‘‘جاوید نے کہا،’’آپ تو بہت جلدی واپس آگئے ہم عالم اورمہتاب سے مٹی کھودنے کا طریقہ سیکھ رہے تھے۔‘‘
  ’’ہاں انھیں تھوڑا بہت کام آتا ہے۔‘‘ رحمت نے کہا،’’لیکن تم سب بھی ٹھیک کام کر رہے ہو۔ اپنے آپ کو زیادہ مت تھکاؤ۔ بس تم لوگ تھوڑی تھوڑی مٹی کھو دو اور اسے نکال کر ایک جگہ جمع کرتے جاؤ۔ ہاں اگر تمھیں کوئی چمکتی ہوئی چیز نظر آئے تو اسے اٹھا کر ضرور الگ کر لو ہو سکتا ہے کہ وہ ہیرا ہو۔‘‘
شاداب کو یہ کام امید سے زیادہ مشکل لگا۔ اتنے میں ملیشیا کی وردی میں دو محافظ ادھر آنکلے۔ ان کے ہاتھوں میں رائفلیں تھیں۔ وہ بچوں کو کام کرتا دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔
’’ آپ لوگ کس کے لیے کام کر رہے ہیں؟‘‘ان میں سے ایک نے پوچھا۔
  ’’یہ زمین ہمارے ابو کی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ان کا انتقال ہو گیا۔ ہم اس کام کو دوبارہ شروع کر رہے ہیں جو ابو کے انتقال کی وجہ سے رک گیا تھا۔‘‘جاوید بولا۔
’’آپ کے پاس اجازت نامہ ہے؟‘‘ایک محافظ نے پوچھا۔ 
’’جی ہاں!‘‘ جاوید نے کاغذات نکال کر انھیں دکھائے۔
’’ان کاعذات کا مالک کون ہے؟‘‘ ایک محافظ نے پوچھا۔
’’ہماری امی مرجان بیگم ان کی مالک ہیں۔‘‘جاوید بولا۔
’’ ٹھیک ہے۔‘‘محافظ نے کہا،’’لیکن یہ اچھا ہو گا کہ آپ لوگ یہ کاغذات اپنی امی کے نام منتقل کرالیں۔ کیونکہ اگر آپ کو کوئی اچھا ہیرا ہاتھ لگا تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اس کا دعوے دار بن کر سامنے آجائے۔‘‘ 
’’لیکن میرے ابو کی زمین تو میری امی ہی کی ملکیت ہوئی۔‘‘ جاوید نے کہا۔
’’ہاں یہ تو ہے۔‘‘اس شخص نے جواب دیا۔
’’ فرض کرو۔ تمھارے ابو نے کسی شخص کو یہ زمین کان کنی کے لیے دینے کا وعدہ کیا ہو اور وہ آکر اپنا د عویٰ جتانے لگے تو ؟‘‘
  اس وقت رحمت چچانے مداخلت کرتے ہوئے کہا،’’آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ ٹھیک ہے۔ ہم جاوید کی امی کو بغلام لے جا کر پٹہ ان کے نام منتقل کرالیں گے ۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ محافظ یہ کہتے ہوئے وہاں سے روانہ ہو گئے۔
(5)
جاوید اور شاداب جب رحمت چچا کے ساتھ گھر واپس پہنچے تو وہ بہت تھک چکے تھے۔
ان کی ماں نے انھیں دیکھتے ہی پوچھا،’’ کچھ کام یابی ہوئی؟‘‘
’’ابھی تو ہم نے کام شروع کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں کچھ بھی نہ ملے اور یہ بھی ممکن ہے کہ بہت کچھ مل جائے۔ معدنیات کے محکمے کے محافظوں نے جو آج ہماری کانوں پر آئے تھے پٹے کے کاغذات آپ کے نام منتقل کرانے کے لیے کہا ہے۔ ایسا ہونے سے کوئی دوسرا شخص ہماری زمین یا اس سے نکلنے والے ہیروں پر کوئی دعویٰ نہ کر سکے گا۔‘‘ جاوید نے کہا۔
’’جو کچھ تمھارے ابو چھوڑ گئے ہیں وہ اب ہمارا ہے۔ اس پر کون دعویٰ کر سکتا ہے؟‘‘مرجان نے کہا۔
’’ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔‘‘رحمت نے جواب دیا،’’لیکن ایسا ہو سکتا ہے کہ ہمیں کوئی اچھا بڑا ہیرا مل جاتا ہے اور ظاہر شاہ کی نیت خراب ہو جاتی ہے ،وہ محکمہ معدنیات میں جا کر یہ دعویٰ کر دیتا ہے کہ آپ کے شوہر نے اپنی موت کی صورت میں اس زمین پر کان کنی کا کام بھی اس کے سپرد کر دیا تھا۔‘‘
’’لیکن ایسی کوئی بات تحریری طور پر موجود نہیں ہے۔‘‘مرجان نے جواب دیا۔
’’ بعض اوقات زبانی وعدوں کی بھی اہمیت ہو جاتی ہے۔‘‘ رحمت خان بولے۔ 
’’تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ‘‘مرجان نے کہا۔
’’ ہمیں کالام جا کر پٹے کے کاغذات آپ کے نام منتقل کرانا ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے میں دو پہر کو آپ لوگوں کو محکمہ معدنیات کے دفتر لے چلوں گا۔‘‘ رحمت خان نے کہا۔
دو پہر کو سب لوگ ویگن میں کا لام روانہ ہوئے۔ر استے بھر جاوید اور شاداب بس ہیروں کے بارے میں ہی بات کرتے رہے۔ وہ ایک مشن کی حیثیت دے رہا تھا۔
ویگن کا لام پہنچ کر ایک بڑی سی سفید عمارت کے سامنے رک گئی۔ رحمت خان ان سب کو اس عمارت کے اندر واقع دفتر میں لے گئے۔ متعلقہ افسر سے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ افسر نے رحمت خان کو بغور دیکھتے ہوئے کہا،’’جب شیر محمد نے پٹے پر دستخط کیے تھے تو آپ ہی ان کے ساتھ آئے تھے اور آپ نے گواہ کے طور پر کاغذات پر دستخط بھی کیے تھے۔‘‘
’’جی ہاں آپ بالکل درست فرمارہے ہیں۔ ویسے آپ کی یاد داشت بہت اچھی ہے؟‘‘ رحمت خان نے افسر سے کہا۔
’’جی ہاں ہمیں کچھ باتیں تو یا د رکھنا ہی پڑتی ہیں۔‘‘افسر نے جواب دیا،’’اب آپ ایسا کریں کہ اس فارم پر ریونیو اسٹیمپ لگا کر اس پر شیر محمد کی بیوی سے دستخط کرالیں۔ یہ کاغذات ان کے نام منتقل ہو جائیں گے۔‘‘ 
’’یہ ریونیو ا سٹیمپ کہاں سے ملے گا؟‘‘جاوید نے پوچھا۔
افسر نے مسکراتے ہوئے چپر اسی کو آواز دی اور اس سے ٹکٹ لانے کو کہا۔ افسر نے کاغذات پر مرجان سے دستخط کرانے کے بعد اپنی مہر لگائی اور کاغذات کی ایک نقل اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا، ’’میرا خیال ہے آپ کو کان کنی کے تمام قاعدوں اور ضابطوں کا پتا ہوگا۔ کھدائی کے دوران اگر آپ کو کوئی ہیرا یا قیمتی پتھر ملے گا تو آپ پر لازم ہو گا کہ آپ اسے معدنیات کے محکمہ کے پاس جمع کرا دیں۔ محکمہ ان کا نیلام کرا کے بیس فیصد رقم خود رکھ کر بقیہ رقم آپ کو دے دے گا۔‘‘
’’جی ہاں ہمیں ان باتوں کا علم ہے میں اس کام میں شیر محمد کی مدد کرتا رہا ہوں۔‘‘ رحمت خان نے کہا ۔
’’جب بھی آپ کان میں کام کریں تو یہ کاغذات آپ کے پاس ہونے چاہییں کیونکہ محکمے کے محافظ گشت کے دوران ان کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔‘‘
’’ بہت اچھا جناب!‘‘رحمت نے کہا۔ 
سب لوگ خوشی خوشی گھر جانے کے لیے ویگن میں بیٹھ گئے۔ مرجان کو خیال آیا کہ واپس جاتے ہوئے وہ اپنے بھائی امیر گل سے ملتی چلے جن کا گھر راستے میں ہی واقع ہے۔ اس نے اس کا ذکر رحمت خان سے کیا۔ بچے بھی یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔
’’ میں آپ لوگوں کو امیر بھائی کے گھر چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘رحمت خان نے کہا ،’’مجھے خود بھی ایک ضروری کام ہے۔ واپسی پر میں آپ لوگوں کو یہاں سے لے لوں گا۔‘‘
مرجان، جاوید اور شاداب جب امیر گل کے گھر پہنچے تو سب لوگ گھر میں موجود تھے۔ وہ اچانک مرجان اور اس کے بچوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ مرجان نے انھیں آنے کی وجہ بتائی اور یہ بھی بتایا کہ جاوید کان کنی کا کام کر رہا ہے۔
امیر گل یہ سن کر سوچنے لگے۔ انھوں نے اپنی بہن سے کہا،’’میرے خیال میں جاوید کی عمر کے بچوں کو یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ آپ اسے اس کام سے روکتی کیوں نہیں؟‘‘
’’میں نے توروکنے کی بہت کوشش کی مگر اس کو تو ز مین سے ہیرے نکالنے کی دھن لگی ہوئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ شاداب بھی اس کام میں دلچسپی لے رہی ہے۔‘‘مرجان نے بھائی کو بتایا،’’آپ ان سے خود ہی پوچھ لیں۔‘‘
امیر گل نے دونوں کو بلایا اور پیار اور شفقت سے انھیں سمجھایا کہ یہ ایک مشکل کام ہے۔بچے ایسے کام نہیں کر سکتے۔
’’ماموں جان! ہماری دومہینے کی چھٹیاں ہو گئی ہیں۔ اس دوران ہم تھوڑی سی محنت کر لیں تو کیا برائی ہے۔ بچوں نے کہا۔
’’ اگر چھٹیاں ہیں تو تم لوگ کا لام سیر کے لیے چلے جاؤ۔ اکرم اور نیلی بھی وہاں جار ہے ہیں۔ تم ان کے ساتھ چلے جاؤ۔‘‘
  ’’شکریہ ماموں مگر مجھے ہیرے نکالنے کا بہت شوق ہے۔ میں یہ کام ضرور کروں گا۔‘‘ جاوید نے کہا۔
’’اچھا بھئی! اگر تم نے اس کام کا پختہ ارادہ کر ہی لیا ہے تو ضرور کرو۔ اللہ تمھاری مدد کرے ۔میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ تمھاری عمر کے بچوں کے لیے یہ کام مشکل ہے۔‘‘ امیر گل نے کہا۔ 
’’ کالام سے واپسی پر ہم بھی ہیرے نکالنے کے کام میں شریک ہوں گے۔‘‘ امیر گل کے بچوں نے باپ سے کہا۔
’’ اچھی بات ہے ابھی سے اس کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘امیر گل نے کہا۔
  امیر گل اور اس کی بیوی نے چائے اور تازہ پھلوں سے اپنے مہمانوں کی خاطر کی۔ بعد میں مرجان اپنے بھائی اور بھابی سے گھر معاملات پر بات چیت کرنے لگی اور بچے باہر صحن میں کھیلنے چلے گئے۔ شام کو رحمت چچاانھیں لینے آگئے اور پھر سب اپنے گھر واپس آگئے۔
راستے بھر جاوید خاموش بیٹھا رہا۔ اس کا خیال تو ہیروں میں لگا ہوا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ہیرے نکالنا مشکل کام ہے اور وہ ابھی ایسے کاموں کے لیے چھوٹا ہے لیکن اسے ہر صورت میں یہ کام کرنا تھا۔ اسے اپنی ماں کو علاج کے لیے کراچی لے جانا تھا اور اس کے لیے رقم اسی طرح مل سکتی تھی۔ وہ اپنی ماں کی دیکھ بھال اور خدمت اپنا فرض سمجھتا تھا۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا اس کی ماں کو یہ پتا چلے کہ وہ ہیرے نکالنے کا کٹھن کام کس لیے کر رہا ہے۔ جاوید کو یہ بھی معلوم تھا کہ ظاہر شاہ کی زمین بھی قریب ہی ہے اور وہ ان سے ناراض ہے۔ اس کے پاس بہت سے مزدور بھی کام کرتے ہیں اس لیے اس کی طرف سے چوکنار ہنا ضروری ہے۔ جاوید اگر چہ چھوٹا تھا مگر اس میں بلا کی ہمت اور اعتماد تھا۔ وہ ہیرے نکالنے کے کام کے پیچھے ایک نیک اور عظیم مقصد رکھتا تھا یعنی ماں کی خدمت اور اسے ہر حالت میں یہ مقصد حاصل کرنا تھا۔
(6)
اگلے دن جاوید اور شاداب صبح سویرے کانوں پر جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ رحمت چچا بھی انھیں لینے کے لیے ویگن میں آگئے۔
’’ رحمت چچا!‘‘جاوید نے کہا، ’’آپ ہر روز ہمیں لینے مت آیا کریں۔ آپ کو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔کانیں گھر سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ ہم پیدل یا سائیکلوں پر وہاں پہنچ جایا کریں گے۔ جنگل کے اندر سے ایک چھوٹا راستہ بھی وہاں جاتا ہے ہم اس راستے سے وہاں جلد پہنچ سکتے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے تم لوگ وہاں سے آجایا کرنا میں آج خاص طور پر اس لیے آیا تھا کہ آج ہمیں سارے اوزار اور سامان بھی تو وہاں لے جاناہے۔ شام کو ہم اس سامان کو وہیں جھونپڑی کے اندر رکھ کر تالا لگادیں گے۔ کل سے تم لوگ خود آجایا کرنا۔‘‘
بچوں نے سارے اوزار اٹھائے اور گاڑی کے اندر رکھے۔ وہ لوگ ویگن کے اندر بیٹھنے لگے تو جاوید کی امی نے ان سے کہا کہ وہ مہتاب کے ہاتھ کھانے پینے کی چیزیں بھیج دیں گی۔ رحمت بچوں کو لے کر کانوں پر پہنچ گئے۔ عالم اس وقت تک وہاں نہیں پہنچا تھا۔ رحمت اس پر غصے سے بولے، ’’میں نے اسے صبح سویرے یہاں پہنچنے کے لیے کہا تھا۔ وہ ہمیشہ دیر سے اٹھتا ہے اور سستی کرتا ہے۔‘‘
’’ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا رحمت چچا!‘‘جاوید نے کہا،’’عالم جب کام کرتا ہے تو اکیلا ہی ہم سب سے زیادہ کام کر لیتا ہے۔‘‘ 
’’ٹھیک ہے وہ تم سے بڑا اور طاقتور بھی تو ہے۔‘‘
اتنے میں عالم بھی آگیا اور اس نے جاوید کے ساتھ مل کر زمین کھودنا شروع کردی۔
’’ٹھہرو!‘‘رحمت خان ان دونوں سے مخاطب ہوئے۔’’ تم لوگ ہر وقت یہ بات اپنے ذہن میں رکھو کہ یہ کھدائی کیوں کی جارہی ہے ۔تم لوگ ہیرے نکالنے کے لیے کھدائی کر رہے ہو۔ اس لیے تمھیں زمین کی سطح کے نیچے مٹی میں سے ہیرے تلاش کرنا ہیں۔ ہیرا کسی بھی جگہ مٹی میں چھپا ہو سکتا ہے۔ یہ تمھارے پیروں کے نیچے بھی ہو سکتا ہے اور دس بارہ میٹر نیچے بھی۔ ہمارا کام ان کو نکالنا ہے۔ ہو سکتا ہے پہلی کدال زمین پر لگتے ہی ہیرا نکل آئے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کافی گہرائی تک زمین کھود نے کے باوجود کوئی ہیرانہ ملے۔ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ کھدائی کرتے ہوئے چمکنے والی ہر چیز کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ اگر ایسی کوئی چیز دکھائی دے تو اس کو باہر نکال کر اچھی طرح دیکھ لینا چاہیے کہ وہ کوئی ہیرا یا قیمتی پتھر تو نہیں ہے۔ لیکن ہیرے عام طور پر اتنی آسانی سے نہیں ملتے۔ یہ ہزاروں سال سے زمین کے اندر دبے ہوئے ہیں اور ان پر مٹی اور گرد کی تہہ جم جاتی ہے اس طرح پتھر کنکروں اور دوسری چیزوں اور ان میں کوئی خاص فرق نہیں رہتا۔ ہیرے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم تمام کنکروں، پتھروں اور سنگریزوں کو ایک جگہ جمع کریں اور پھر انھیں صاف کر کے دیکھیں کہ ان میں سے کون سا ہیرا ہے اور کون معمولی پتھر۔ اب تم لوگ مٹی کھود کر اسے ایک جگہ جمع کرو۔ اس مٹی کو چھان کر ہم پتھروں کو اکٹھا کر لیں گے اور انھیں پانی سے دھو کر صاف کریں گے اس کے بعد ہی ہیروں کا پتا چل سکے گا۔‘‘ 
’’میں کھدائی کرتا ہوں تم لوگ مٹی لے جا کر ایک جگہ جمع کرو۔‘‘عالم نے جاوید اور شاداب سے کہا۔
  جاوید بھی زمین کھود نا چاہتا تھا مگر عالم جتنی مٹی کھودرہا تھا شاداب اسے اکیلے اٹھا نہیں سکتی تھی اس لیے وہ بھی مٹی اٹھانے کے کام میں شاداب کے ساتھ لگ گیا۔ دن چڑھے مہتاب ناشتہ لے کر پہنچ گیا۔
  ’’مجھے دو پراٹھے دینا میں بڑا ہوں۔‘‘عالم نے کہا۔
’’ہاں ہاں بالکل یہ آپ کا حق ہے۔‘‘جاوید نے کہا ۔
پراٹھے کافی تھے۔ سب نے مزے لے لے کر کھائے۔ جب لسی پینے کی باری آئی تو پتا چلا کہ مہتاب گلاس لے کر نہیں آیا۔ رحمت چچانے بچوں کو بتایا کہ پتوں کا گلاس بنا کر اس میں لسی پی جا سکتی ہے۔ سب نے ناشتہ کر کے اللہ کا شکر ادا کیا۔ جاوید بولا ،’’اب ہم نے ناشتہ کر لیا ہے۔ اب ہمیں زیادہ محنت سے کام کرنا ہو گا۔‘‘
  اگلے دن جاوید اور شاداب سائیکلوں پر صبح سویرے کان پر پہنچ گئے۔ رحمت اور عالم بھی کچھ دیر میں آگئے۔ رحمت نے مٹی کا اچھا خاصاٹیلہ دیکھ کر کہا۔’’ میرا خیال ہے بارش کے موسم سے پہلے ہم ساری مٹی کھود لیں گے۔‘‘
’’بارش سے ہمیں فائدہ ہو گا یا نقصان؟‘‘ جاوید نے پو چھا۔
’’ فائدہ اور نقصان دونوں ہو سکتے ہیں۔ ہم مٹی میں سے ہیرے تلاش کر رہے ہیں۔ ہیرے تلاش کرنے کے لیے ہمیں سارے پتھروں اور کنکروں کو پانی سے دھوناہے۔ یہاں پانی موجود نہیں ہے اس لیے بارش کی وجہ سے ہمیں کافی پانی مل جائے گا۔ نقصان یہ ہے کہ بارش کی وجہ سے تمام گڑھوں میں پانی بھی بھر جاتا ہے جس سے کھدائی مشکل ہو جاتی ہے۔‘‘
’’کیا ہم کہیں اور سے پانی نہیں لا سکتے؟‘‘ جاوید نے پوچھا۔
’’ہم ایسا کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘رحمت بولے،’’ مگر اس کے لیے کافی پیسے خرچ ہوں گے۔ خیر ابھی تو ہمیں کافی کھدائی کرنا ہے۔ اس کے بعد مٹی سے ہیرے نکالنے کا کام ہو گا۔‘‘ رحمت خان تو یہ کہہ کر اپنی گاڑی لے کر چلے گئے۔ بعد میں بچوں نے عالم اور مہتاب کے ساتھ مل کر اتنا کام کیا جتنا وہ کر سکتے تھے۔ پھر انھوں نے سارا سامان جھونپڑی میں رکھ کر اسے تالالگا یا اور گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
(7)
جاوید اور اس کے ساتھیوں نے کئی دن تک مٹی کی کھدائی کا کام جاری رکھا۔ رحمت خان کو بھی جب وقت ملتاوہ کام کی نگرانی کرنے ،مشورے اور ہدایات دینے وہاں آجاتے۔ ادھر ظاہر شاہ ہر وقت اس ٹوہ میں لگار ہتا تھا کہ لڑکے کیا کر رہے ہیں اور انھیں اس کام میں کچھ حاصل بھی ہوا ہے یا نہیں۔ وہ کبھی کبھی آکر جاوید سے پوچھتا۔’’ تم نے اب تک کتنے ہیرے نکالے؟‘‘
’’ ایک بھی نہیں۔‘‘جاوید بتاتا ،’’لیکن مجھے یقین ہے کہ ہم کچھ عمدہ ہیرے حاصل کرنے میں ضرور کام یاب ہو جائیں گے۔‘‘
’’جب تمھیں کوئی اچھا ہیرا ملے تو مجھے بتانا۔‘‘وہ طنزیہ انداز میں کہتا اور چلا جاتا۔
اب سخت مشقت کا اثر بچوں پر ظاہر ہونے لگا تھا خاص طور پر شاداب بہت تھکی تھکی نظر آنے لگی تھی۔ صبح کو اب اس کی آنکھ بھی دیر سے کھلتی تھی۔ مرجان نے اس بات کو محسوس کرتے ہوئے بچوں سے کہا، ’’میرا خیال ہے کہ تم لوگ اب ایک آدھ ہفتے چھٹی کر کے آرام کر لو۔
’’ امی میں بالکل ٹھیک ہوں، ہاں شاداب چند روز کی چھٹی کر لے۔‘‘جاویدبولا ۔
’’اگر تم ٹھیک ہو تو میں بھی ٹھیک ہوں۔‘‘شاداب نے کہا۔
  ’’میری رائے میں تم دونوں کو آرام کی ضرورت ہے کچھ دن کام روکنے سے کچھ نہیں ہو گا۔‘‘
’’امی آپ کو نہیں معلوم، اگر میں نے کام جاری نہ رکھا تو وہ سارا کام بے کار ہو جائے گا جو ہم نے اب تک کیا ہے۔ آپ مجھے اسکول کھلنے سے پہلے پہلے یہ کام پورا کر لینے دیں۔‘‘
مرجان عجیب پریشانی میں مبتلا تھی۔ وہ جانتی تھی کہ جاوید کے جذبات کیا ہیں۔وہ اسے اتنا سخت کام جاری رکھنے دینا نہیں چاہتی تھی۔ لیکن اگر وہ اس وقت اسے اس کام سے روکتی تو جاوید کادل ٹوٹ جاتا۔
’’ ٹھیک ہے۔‘‘مرجان نے کہا،’’میں اب تم سے یہ تو نہیں کہتی کہ تم کام روک دو لیکن تم لوگ جتنی سخت محنت اس وقت کر رہے ہو اتنی محنت نہ کرو۔ کم کام کرو اور ہر گھنٹے کی محنت کے بعد آرام کرو۔ شاداب بھی کام کرے گی مگر صرف صبح صبح یا شام کو۔ اس طرح وہ کم تھکے گی۔‘‘
’’کیوں امی آپ مجھے جاوید سے کمزور سمجھتی ہیں؟ میں بھی اتنی طاقتور ہوں جتنا جاوید۔ وہ مجھ سے صرف تھوڑا سا بڑا اور لمباہی تو ہے۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے جو کچھ میں کہہ رہی ہوں بس وہی کرو ور نہ میں تمھیں گھر سے باہر نہیں جانے دوں گی۔ تم لڑکی ہو اور لڑکیوں کو گھر کے اندر ہی رہنا چاہیے۔‘‘مرجان نے کہا۔
شاداب یہ سن کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
  ایک روز جب رحمت خان، جاوید اور دوسرے لڑکوں کے کیے ہوئے کام کا جائزہ لے رہا تھا تو جاوید تیزی سے اس جگہ گیا جہاں عالم کھدائی کر رہا تھا۔ اس نے مٹی کو کریدا اور اس میں سے چمکتی ہوئی کوئی چیز اٹھائی اور ہیرا ہیرا چلاتے ہوئے رحمت خان کی طرف گیا۔ رحمت نے جاوید سے کہا، ’’تم ایک منٹ ٹھہرو!‘‘اس دوران وہ ایک پتا لے آئے اور جاوید سے وہ پتھر پتے پر رکھنے کو کہا۔ جاوید نے وہ پتھر کا ٹکڑا پتے پر رکھ دیا مگر یہ بات اس کی سمجھ میں نہ آئی کہ رحمت خان نے ایسا کیوں کیا ہے۔ اس نے پوچھ ہی لیا،’’رحمت چچا! آپ اسے پتے پرکیوں رکھوا رہے ہیں۔ ‘‘
’’بیٹا! کانوں میں کام کرنے والوں کا پرانے وقتوں سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ اگر ہیرے کو ہتھیلی پر رکھا جائے تو اس کا وزن کم ہو جاتا ہے۔ اس لیے میں نے اسے پتے پر رکھ دیا ہے۔‘‘
’’یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ آپ بھی ایسی باتوں پر یقین رکھتے ہیں ؟‘‘
’’یقین میں بھی نہیں رکھتا بس ایک روایت کے طور پر میں بھی اس پر عمل کر رہا ہوں۔ ‘‘
شاداب نے پتھر کے اس ٹکڑے کو دیکھا اور پوچھا ،’’کیا ہیرے ایسے ہوتے ہیں؟‘‘ 
’’جب اسے صاف کیا جائے گا اور تراشا جائے گا تو پھر یہ چمکے گا۔‘‘رحمت نے پتھر کا غور سے جائزہ لیتے ہوئے کہا،’’ یہ ایک اچھا ہیرا ہے لیکن بہت چھوٹا۔ یہ مشکل سے ایک ہزار روپے کا ہو گا۔‘‘
’’کیا ہمیں آج مزید ہیرے ملنے کا امکان ہے ؟‘‘ شاداب نے پوچھا۔
’’ یہ ہیرا ہمیں اتفاقاًملا ہے۔‘‘ رحمت نے کہا،’’ہم کھدائی کا کام جاری رکھتے ہیں۔ جب ہم بہت ساری مٹی جمع کر لیں گے تو پھر اسے صاف کر کے اس میں ہیرے تلاش کریں گے لیکن یہ کام کچھ دنوں بعد کیا جائے گا۔ اس وقت تو ہمیں معدنیات کے دفتر جا کر اس ہیرے کو جمع کرانا ہو گا جو آج ہمیں ملا ہے۔‘‘رحمت نے کہا۔
بعد میں رحمت، جاوید اور شاداب نے بغلام جا کر ہیرا جمع کرا دیا۔ جاوید کی امی یہ سن کر بہت خوش ہوئیں کہ بچوں کو تھوڑی سی کام یابی حاصل ہوئی اور انھیں ایک ہیرا ملا۔ لیکن جاوید اور شاداب اس چھوٹے سے ہیرے سے مطمئن نہ تھے۔
بہر حال ہیرے کی کان پر کام زورو شور سے جاری رہا۔ اسکول کھلنے میں اب صرف تین ہفتے رہ گئے تھے۔ جاوید کو ڈر تھا کہ کہیں اس تھوڑے وقت میں وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام نہ ہو جائے۔ اس نے اور زیادہ محنت اور لگن سے کام شروع کر دیا حتیٰ کہ خود رحمت کو بھی اس کی طرف سے فکر ہو گئی کہ کہیں وہ بیمار نہ ہو جائے۔ جاوید ہر روز سب سے پہلے کان پر پہنچتا اور سب سے آخر میں وہاں سے واپس آتا۔ عالم اور مہتاب کی مدد سے اس نے بہت بڑا علاقہ کھوداتھا اور اس سے نکلنے والی مٹی نے اب ایک چھوٹی سی پہاڑی کی صورت اختیار کرلی۔
پھر ایک دن رحمت نے بچوں کو بتایا، ’’ہم اب اپنے کام کا دوسرا حصہ شروع کرنے والے ہیں۔ ہم اب مٹی کو چھا نیں گے اور کنکر پتھر الگ کریں گے۔‘‘
’’آپ بارش کا انتظار کیوں نہیں کرتے؟‘‘جاوید نے پوچھا۔
’’بہتر ہو گا ہم یہ کام ابھی شروع کر دیں۔تمھارے اسکول کھلنے میں تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ ہم اس سے پہلے پہلے ہیرے نکالنے کا کام مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے پانی سے بھرے ہوئے دو تین ٹب منگوانے کے لیے کہہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ مٹی چھاننے کے لیے دو بڑے چھننے بھی کل یہاں پہنچ جائیں گے۔‘‘
’’یہ ٹھیک ہے۔ہم پھر پتھروں کو دھو کر انھیں صاف کریں گے اور ہیرے جمع کریں گے۔‘‘
’’یہ نہ سمجھو کہ ہیرے اتنی آسانی سے مل جاتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ تمھیں کچھ قیمتی پتھر مل جائیں یا ایک بھی نہ ملے۔ یہ سب قسمت کی بات ہے۔‘‘
’’ہو سکتا ہے کہ اس جگہ ہیرے موجود ہی نہ ہوں۔‘‘شاداب نے مایوسی سے کہا، ’’اس طرح تو ہماری اب تک کی ساری محنت بیکار ہو جائے گی۔‘‘
’’اتنا مایوس بھی نہ ہو، اس زمین کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں ہیرے موجود ہیں اور مجھے اللہ پر پورا بھروسا ہے کہ ہمیں کچھ نہ کچھ ہیرے ضرور ملیں گے۔ اگر ہمیں چند اچھے اور بڑے ہیرے مل جائیں تو کیا ہی کہنے؟‘‘ رحمت نے کہا۔
’’ہمیں کھدائی جاری رکھنی چاہیے ہمیں پانی کے ٹبوں اور چھننوں کے آنے سے پہلے پہلے مزید مٹی کھود لینی چاہیے۔‘‘ جاوید بولا ۔
اگلے دن جب رحمت چچا آئے تو ان کی ویگن کی چھت پر تاروں کے بنے ہوئے دو بڑے چھننے بھی رکھے ہوئے تھے۔ 
’’یہ کیا ہے ؟‘‘جاوید اور شاداب نے پوچھا۔
’’ یہ وہی چھننے ہیں جن کے لانے کا میں نے وعدہ کیا تھا۔ اب تم لوگوں کو ان کے استعمال کا طریقہ بتاتا ہوں۔‘‘
رحمت چچانے ویگن کی چھت سے چھننے نیچے اتارے اور انھیں ترچھی حالت میں زمین پر کھڑا کر دیا۔’’ اب تم لوگ مٹی اٹھا اٹھا کر چھننے پر ڈالو۔‘‘رحمت چچانے بچوں سے کہا۔
’’ مٹی اور ریت اس میں چھن کر نیچے گر جائے گی اور بڑے ٹکڑے اور پتھر او پر رہ جائیں گے ان کو جمع کر کے پھر پانی سے دھویا جائے گا۔‘‘
اتنے میں ایک خچر گاڑی پانی کے دو بڑے ڈرم لیے ان لوگوں کے پاس آکر رکی۔ اور اس میں سے پانی کے ڈرم اتار کر نیچے رکھ دیے گئے۔
’’ اب تم لوگوں کو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ پانی ضائع نہ ہو۔‘‘ رحمت چچانے کہا، ’’اس پانی کو ہم پھینکیں گے نہیں بلکہ کئی بار استعمال کریں گے۔ اب تم لوگ بالٹیاں پتھروں کے ڈھیر کے پاس لے جاؤ اور پتھروں کو دھو کر انھیں صاف کرو۔ جب یہ سارے پتھر صاف ہو جائیں گے تو ہم انھیں دھوپ میں سکھائیں گے۔‘‘
سب نے بڑی احتیاط اور لگن سے ان پتھروں کو صاف کیا جو مٹی سے نکالے گئے تھے۔ ان میں سنگریزے، کنکر، چمکتے ہوئے لال پتھر اور شیشے کی طرح کے ٹکڑے سب ہی موجود تھے۔ ان سب کو دھو کر ایک کپڑے پر بچھا دیا گیا۔ پھر رحمت چچانے ان سب کو علاحدہ علاحدہ کرنا شروع کیا۔ انھوں نے بہت ساری چیزوں کو جو کسی کام کی نہ تھیں پھینک دیا لیکن کچھ کو علاحدہ کر کے رکھ لیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے جیب سے ایک گول شیشہ نکالا اور ان میں سے ہر ایک کا جائزہ لینا شروع کیا۔ انھیں کچھ ہیرے ملے مگر وہ سب چھوٹے اور معمولی قسم کے تھے لیکن تھے تو ہیرے۔
’’ہمیں ہیروں کے کچھ چھوٹے ٹکڑے مل گئے ہیں۔ ‘‘رحمت چچانے بچوں سے کہا ،’’مگر یہ زیادہ قیمت کے نہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ ایک ہزار روپے کے ہوں گے۔ اب ہمیں معدنیات کے محکمے میں جا کر انھیں جمع کر ادینا چاہیے۔‘‘
’’ تو تم لوگ آج تھوڑا بہت تو حاصل کرنے میں کام یاب ہو ہی گئے۔‘‘پیچھے سے آواز آئی۔
  سب نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں ظاہر شاہ کو طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے پایا۔
  ’’ہم ایک ہزار روپے قیمت کا ایک ہیرا پہلے ہی جمع کراچکے ہیں۔‘‘شاداب بول پڑی۔
’’ تو تم لوگوں کو اس مٹی سے اور بھی ہیرے ملیں گے جو تم نے کھو دی ہے۔‘‘ظاہر شاہ نے کہا۔
’’ہم کو اس میں سے بڑے ہیرے ملنے کی بھی توقع ہے۔‘‘شاداب نے جواب دیا۔
’’اچھا دیکھیں گے۔‘‘ظاہر شاہ یہ کہتا ہوا اپنی زمین کی طرف چلا گیا۔ 
(8)
رحمت، جاوید اور شاداب اپنے چھوٹے ہیرے لے کر ایک بار پھر بغلام گئے۔ جب وہ گھر لوٹے تو ماموں امیر گل کے بچے نیلی اور اکرم وہاں موجود تھے۔ وہ اپنے وعدے کے مطابق جاوید اور شاداب کی مدد کے لیے آئے تھے۔ سب بچے ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش تھے۔ شاداب نے انھیں اس تھوڑی بہت کام یابی سے آگاہ کیا جو انھیں کان کنی میں ہوئی تھی لیکن اس نے بتایا کہ انھیں بہت جلد بڑ ے ہیرے بھی ملیں گے۔
’’تم لوگ کانوں پر آج چلو گے یا کل صبح؟ ‘‘شاداب نے مہمانوں سے پوچھا۔
’’آج نہیں۔‘‘مرجان بولی،’’آج تم لوگ آرام کرو۔ کل صبح کانوں پر جانا۔‘‘
’’ تمھیں پتا ہے کہ ہم لوگ آج کل کیا کر رہے ہیں؟‘‘ شاداب نے نیلی اور اکرم سے پوچھا۔
’’ ہمیں کیا پتا؟‘‘نیلی بولی،’’ہم نے تو ابھی کانیں ہی نہیں دیکھیں۔‘‘
’’ ہم آج کل اس مٹی کو صاف کر رہے ہیں جو ہم نے کھو دی ہے۔‘‘شاداب نے انھیں بتایا، ’’اس مٹی میں بہت سے ہیرے ہیں ہم ان کو تلاش کر رہے ہیں۔ ہم مٹی کو چھانتے ہیں اور چھوٹے ٹکڑوں اور پتھروں کو علاحدہ کرتے ہیں۔ یہ سب ایک جیسے نظر آتے ہیں لیکن ان میں سے بعض ہیرے ہیں۔‘‘
’’ یہ تو بہت دلچسپ کام ہے ۔ہم کل صبح تمھارے ساتھ چلیں گے۔ ہم اس کام میں تمہار ا ہاتھ بٹانے کی کوشش کریں گے۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ ۔یہ کوئی بہت اچھا کام نہیں ہے۔ پھر بھی تم لوگ مٹی چھاننے میں ہماری مدد کر سکتے ہو۔‘‘
بچے رات کو دیر تک ہیروں کے بارے میں ہی بات چیت کرتے رہے۔ صبح کو جاوید کانوں پر جانے کے لیے سب سے پہلے تیار ہو گیا۔ اس نے شاداب سے کہا کہ وہ جلدی جارہا ہے نیلی اور اکرم کو وہ ساتھ لے آئے۔
یہ جون کا مہینہ تھا اور اس کے آخر میں بارش ہونے کا امکان تھا اس لیے ہر جگہ تیزی سے کام ہو رہا تھا۔ زیادہ سے زیادہ کھدائی ہو رہی تھی اور ہر جگہ مٹی کے بڑے بڑے ڈھیر نظر آرہے تھے۔ محافظ بھی چوکنے ہو گئے تھے کیونکہ کسی بھی وقت کسی بھی جگہ ہیرے مل سکتے تھے۔ جاویدان لوگوں میں سے ایک تھا جو صبح سویرے کانوں پر پہنچ گئے تھے۔ اس نے دیکھا کہ ظاہر شاہ اپنے بہت سارے ملازمین کے ساتھ اس کی طرف آرہا ہے۔ 
’’کل تمھیں اور کچھ ملا؟‘‘ ظاہر شاہ نے جاوید سے پوچھا۔
’’کوئی خاص چیز نہیں بس چند چھوٹے ٹکڑے ملے تھے ۔‘‘ جاوید نے جواب دیا۔’’ لیکن آج ہمیں کچھ ملنے کی توقع ہے۔ آج ہم نے کام کے لیے کچھ اور لوگوں کو بھی بلایا ہے۔ ماموں امیر گل کے بچے بھی اس کام میں ہماری مدد کے لیے آج یہاں آئیں گے۔‘‘
’’تمھیں مبارک ہو۔‘‘ظاہر شاہ یہ کہتے ہوئے واپس چلا گیا۔
جلد ہی شاداب ،نیلی اور اکرم کے ساتھ وہاں پہنچ گئی۔ جاوید نے انھیں بتایا کہ مٹی کیسے چھاننی ہے۔ بچے ہوئے ٹکڑوں اور پتھروں کو کیسے جمع کیا جاتا ہے اور پھر پانی سے کس طرح انھیں دھونا ہے۔ عالم بھی تھوڑی دیر بعد وہاں پہنچ گیا۔ اس نے کہا ،میں مٹی کھودنے کا کام جاری رکھوں گا کیونکہ ہمیں بارش سے پہلے پہلے زیادہ سے زیادہ مٹی کھود لینی چاہیے۔ مٹی چھاننے اور صاف کرنے کا کام جاری رہا۔ اس دوران مہتاب ناشتہ لے کر آگیا۔ بچے ناشتہ کرنے لگے اور مہتاب کھدائی کرتا رہا۔
پھر رحمت بھی وہاں آگئے۔ انھوں نے اتنی ساری مٹی جمع دیکھی تو پو چھا کہ کیا تم لوگ رات کو بھی کام کرتے رہے ہو؟
’’ہم آج صبح تڑکے ہی آگئے تھے۔ کچھ ہمارے دوستوں نے بھی کام میںہمارا ہاتھ بٹایا ہے۔‘‘جاوید نے کہا۔
’’ اچھا ہے تم لوگ کام جاری رکھو۔ اور صاف کیے ہوئے پتھروں کو احتیاط سے الگ الگ رکھو۔ ان میں سے کچھ ٹکڑے ہیروں کے بھی ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ تم خود ہیروں کو پہچان لو۔ مگر دیکھو کسی سے ذکر نہ کرنا کہ تمھیں کوئی ہیر املا ہے۔میں ابھی جارہا ہوں لیکن جلد ہی واپس آجاؤں گا۔‘‘ 
پھر رحمت اپنی ویگن میں چلے گئے۔ بچوں نے کام جاری رکھا۔ وہ اپنے کام میں اتنے مگن تھے کہ ان میں سے کسی کو شام ہونے کا احساس تک نہ ہوا۔
جب اندھیرا ہونے لگا تو مرجان کو فکر ہوئی اور وہ خود چل کر کان تک آئی۔ جاوید نے کہا کہ وہ مٹی کو چھاننے میں اتنے مصروف تھے کہ وقت کا پتا ہی نہ چلا۔
’’ نہیں نہیں ۔تمھیں ہیرے ملیں یا نہ ملیں۔ میں تمھیں اس طرح کام کرنے کی اجازت نہیں دوں گی۔ تم اس طرح تو اپنے مہمانوں نیلی اور اکرم کو بھی تکلیف دے رہے ہو۔ وہ تھک گئے ہیں اور بھوکے بھی ہیں۔‘‘
’’امی معاف کر دیں۔یہ میری غلطی ہے۔ مجھے اپنے مہمانوں کو اتنی تکلیف نہیں دینی چاہیے تھی۔‘‘
’’نہیں۔ ہم لوگ تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں ۔ہم خود گھر جانا نہیں چاہتے تھے اور ہمیں ابھی بھوک بھی نہیں لگی ہے۔‘‘ نیلی نے کہا۔
’’ خیر اب تم سب گھر چلو۔‘‘مرجان نے کہا۔
’’امی! میں ابھی نہیں جاؤں گا۔ آپ اوروں کو لے جائیں۔ میں رحمت چچا کے آنے تک یہاں سے نہیں جاسکتا۔‘‘
’’ٹھیک ہے تم عالم کے ساتھ یہاں رکو۔‘‘مرجان نے کہا۔
’’ پھپو! آپ لڑکیوں کو ساتھ لے جائیں میں جاوید بھائی کے ساتھ یہیں رکوں گا۔‘‘اکرم بولا۔
’’ ہم بھی کوئی کمزور اور ڈرپوک نہیں ہیں ۔‘‘شاداب بولی،’’امی ہمیں بھی یہاں رکنے دیجیے۔ یہ لڑکے ہمیں اتنا کمزور کیوں سمجھتے ہیں؟‘‘
’’ہاں۔ میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘نیلی نے شاداب کی حمایت کی۔
مرجان نہیں چاہتی تھی کہ بچے اتنی شام کو یہاں رکیں لیکن اس نے بچوں کے سامنے خود کو بے بس پایا۔ پھر وہ مہتاب کے ساتھ گھر واپس چلی گئی۔ بچے دوبارہ مٹی صاف کرنے کے کام میں لگ گئے۔ جاوید نے کہا،’’ اب ہم نے اتنی مٹی صاف کر لی ہے اور کنکر پتھر علاحدہ کر دیے ہیں۔ اب اس میں سے ہیرے کیوں نہ تلاش کیے جائیں۔‘‘
’’ ہمارے پاس شیشہ تو ہے نہیں جو رحمت چچا استعمال کر رہے تھے۔‘‘شاداب نے کہا۔
’’کیا تم ہیرا دیکھو تو پہچان سکتے ہو؟‘‘ جاوید نے اکرم سے پوچھا۔
’’ہاں!‘‘اکرم نے جواب دیا۔ ’’ہیرا دنیا میں پائی جانے والی چیزوں میں سب سے سخت ہوتا ہے۔ یہ دوسری چیزوں پر نشان ڈال سکتا ہے مگر خود اس پر کسی چیز سے کوئی نشان نہیں پڑ سکتا۔ اگر ہم یہ معلوم کرنا چاہیں کہ جو کچھ ہمارے ہاتھ میں ہے وہ ہیرا ہے تو اس سے شیشے کے ایک ٹکڑے پر نشان لگانا پڑے گا۔ اگر یہ اس پر نشان چھوڑتا ہے تو پھر یہ ہیرا ہے۔‘‘ 
’’ہم ایسا شیشہ کہاں سے لائیں؟‘‘جاوید نے کہا۔
’’کھانے کے برتنوں میں پانی پینے کا گلاس تو موجود ہے۔ ہم یہ طریقہ اس پر آزماتے ہیں۔‘‘ شاداب بولی۔
’’ہاں یہ تم نے اچھی بات بتائی ۔‘‘اکرم نے کہا۔ بچے رحمت چچا کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ آئیں تو پھر شیشے کے ذریعہ سے ہیروں کا پتا چلا یا جائے مگر رحمت چچا نہیں آئے۔ بچوں نے فیصلہ کیا کہ وہ خود ہی یہ کام کرتے ہیں۔ وہ ایک ایک پتھر اٹھا کر شیشے کے گلاس پر نشان لگاتے رہے مگر ان میں سے کسی سے بھی گلاس پر نشان نہیں پڑا۔ یہ سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا۔ مگر کوئی ہیرانہ ملا۔ اس بات سے بچے بہت مایوس ہوئے۔ اتنے میں رحمت چچابھی آگئے۔
’’کیا ہو رہا ہے ؟‘‘ رحمت نے پوچھا۔
’’ہم دیکھ رہے ہیں ان سنگ ریزوں میں کوئی ہیرا تو نہیں ہے۔‘‘جاوید نے انھیں بتایا۔
رحمت نے کہا۔’’ اب کافی دیر ہو چکی ہے اندھیرا بھی ہو گیا ہے۔ اس وقت ہیرے تلاش کرنا ٹھیک نہیں ہے قانون کے تحت ہم یہاں سے کوئی چیز باہر نہیں لے جاسکتے ہیں۔ لیکن ہم ان صاف شدہ سنگریزوں کو بھی یہاں چھوڑ نہیں سکتے۔ اب ایک ہی راستہ ہے کہ ہم ان سنگریزوں کو جھونپڑی کے اندر رکھ کر اسے تالا لگادیں۔‘‘ 
پھر بچوں نے تمام صاف شدہ سنگریزوں کو بالٹیوں اور ٹوکریوں میں بھر کر جھونپڑی کے کونے میں رکھ دیا اور انھیں اپنے اوزار اور دوسرے سامان سے ڈھک دیا۔ اس کے بعد سب کے سب گھر چلے گئے۔
مرجان بچوں کو اتنی محنت کرتے دیکھ کر پریشان رہتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ بچے اب یہ کام بند کر دیں۔
’’تم دونوں اپنی صحت کے پیچھے پڑ گئے ہو۔‘‘ مرجان نے جاوید سے کہا۔
’’ نہیں امی! محنت کرنے سے تو ہماری صحت اور اچھی ہو جائے گی۔ پھر آپ ہی تو کہتی ہیں محنت سے راحت ہے۔‘‘ جاوید بولا۔
(9)
اگلے روز بچے پھر صبح ہی صبح زمینوں پر پہنچ گئے۔ لیکن وہاں وہ یہ دیکھ کر پریشان ہو گئے کہ جھونپڑی کا دروازہ ٹوٹا ہوا ہے اور سنگریزے غائب ہیں۔ ان کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ وہ رحمت کا انتظار کرنے لگے مگر وہ بھی سوائے افسوس کے کچھ نہ کر سکے۔ یہ صاف چوری تھی اور ظاہر ہے کسی ایسے شخص کی حرکت تھی جو ان صاف شدہ پتھروں کی اہمیت سے واقف تھا۔
’’ہم کیا دوسروں کی زمینوں پر جا کر اپنے سنگریزے تلاش کر سکتے ہیں؟‘‘جاوید نے رحمت چچا سے پوچھا۔
’’نہیں ہم صرف اس کی اطلاع پولیس کو دے سکتے ہیں۔ لیکن پولیس بھی کچھ نہ کر سکے گی۔‘‘
’’تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ شاداب نے پوچھا۔
’’ہم کھدائی کا کام جاری رکھیں گے اور جب بارش ہوگی تو پھر مٹی چھاننے اور ہیروں کو تلاش کرنے کا کام کریں گے۔‘‘ رحمت بولا ۔
’’لیکن ہمارے اسکول کھلنے میں اب صرف دو ہفتے رہ گئے ہیں۔‘‘ شاداب نے کہا۔
’’امید ہے کہ آئند ہ چند روز میں بارش ہو جائے گی۔‘‘ اکرم نے بتایا جس نے اس بارے میں اخبار میں پڑھا تھا۔
’’ ٹھیک ہے ہم کھدائی کا کام جاری رکھتے ہیں۔‘‘جاوید نے مرجھائے ہوئے لہجے میں کہا۔ 
شام کو جاوید گھر پر بھی خاموش اور بجھا بجھا رہا، لیکن اس نے اس کا اظہار اوروں سے نہیں کیا۔ اکرم اور نیلی بھی اس چوری پر بہت افسردہ تھے۔ اکرم نے جاوید سے کہا،’’جو پتھر چوری ہوئے ہیں وہ صرف زمین کے ایک چھوٹے سے حصے سے جمع کیے گئے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں کوئی بھی ہیرا نہ ہو۔‘‘
’’ہاں ہو سکتا ہے۔‘‘جاوید نے جواب دیا۔’’مجھے یقین ہے کہ ہماری محنت ضائع نہیں جائے گی۔ جب بارش ہو گی تو پھر ہیرے تلاش کرنے کا کام شروع ہوگا۔‘‘.
’’لیکن افسوس ہے کہ ہم زیادہ دنوں تک تمھارے ساتھ نہیں ٹھہر سکتے۔‘‘ نیلی نے کہا، ’’ہمیں دو دنوں کے بعد واپس گھر چلے جانا ہے۔ ہم تمھارے لیے دعاہی کر سکتے ہیں۔‘‘
’’آپ لوگوں کا بہت بہت شکریہ !‘‘جاوید نے کہا،’’بہر حال کل تو آپ لوگ ہمارے ساتھ چلیں گے۔‘‘
’’ہاں ہاں بالکل ۔‘‘ اکرم نے جواب دیا،’’ہم کل تمھارے ساتھ کھدائی کریں گے۔‘‘
اگلے دو روز چاروں بچوں نے زبر دست محنت کے ساتھ کھدائی کی اور پھر اکرم اورنیلی اپنے اپنے گھر چلے گئے۔
’’دیکھو! جب تمھیں کوئی اچھا ہیرا ملے تو ہمیں ضرور بتانا ۔‘‘نیلی نے کہا ۔
’’بالکل ہم آپ لوگوں کو اس کی اطلاع ضرور دیں گے۔‘‘ شاداب نے وعدہ کیا۔
اکرم اور نیلی کے چلے جانے سے جاوید اور شاداب خود کو تنہا تنہا محسوس کرنے لگے۔ چھٹیاں ختم ہونے میں ابھی دو ہفتے باقی تھے۔ جاوید جانتا تھا کہ وقت کم رہ گیا ہے مگر اس نے اس وقت کا زیادہ سے زیادہ بہتر استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ایک روز سب بچے کانوں پر کام میں مصروف تھے کہ اچانک آسمان پر کالے بادل جمع ہونا شروع ہو گئے۔ ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ بادل بھی گرجنے لگے اور پھر زور کی بارش شروع ہو گئی۔
’’ہمیں واپس گھر چلنا چاہیے بارش بہت تیز ہو رہی ہے۔‘‘ عالم نے کہا پھر جاوید اور شاداب اپنی اپنی سائیکلوں پر اور عالم پیدل گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔
دو روز تک بارش کا سلسلہ جاری رہا۔ جاوید کان پر جانے کے لیے بے چین تھا مگر مرجان نے اسے جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ رحمت چچا اس دوران گھر آئے تو جاوید نے ان سے بھی اپنی بے چینی کا اظہار کیا۔ انھوں نے جاوید کو مشورہ دیا کہ وہ بارش رکنے کا انتظار کرے۔ تیسرے روز آسمان صاف ہو گیا اور جاوید شاداب کے ساتھ صبح صبح کان پر پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر میں رحمت چچابھی تین نئے چھننے لے کر آگئے۔
’’ آپ یہ اور چھننے کیوں لے آئے؟‘‘شاداب نے رحمت چچا سے معلوم کیا۔
’’ اس لیے کہ کام تیزی سے ہو۔‘‘ رحمت چچانے جواب دیا ۔
بارش کے خاتمے کے بعد تمام ہی کانوں پر کام تیزر فتاری سے شروع ہو گیا۔ ہر طرف کھدائی اور مٹی صاف کرنے اور پتھروں کو دھو کر سکھانے کا کام جاری تھا۔ عالم اور مہتاب بھی اب صبح سویرے کانوں پر پہنچنے لگے۔ تینوں چھننے لگا کر مٹی صاف کرنے کا کام تیزر فتاری سے کیا جانے لگا۔
’’ دیکھو یہ خیال رکھنا بارش کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ ہیرے خود زمین کی سطح پر آجائیں۔ اس لیے مٹی اٹھاتے وقت اس کا خیال رکھنا۔‘‘ 
جب بہت سی مٹی صاف کر لی گئی تو رحمت چچا بولے،’’اب کنکروں اور پتھروں کو دھونے اور صاف کرنے کا کام شروع کرو۔ گڑھوں میں پانی بھی کافی موجود ہے اسے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘
  عالم اور مہتاب مٹی چھاننے کا کام کرنے لگے اور جاوید اور شاداب نے پتھروں کو صاف کرنے اور دھونے کا کام سنبھالا۔
’’ جو سنگریزے صاف کر لو انھیں بالٹی میں ڈال دو۔‘‘رحمت بولے،’’میں انھیں سکھانے کے لیے خود کپڑے پر ڈالوں گا اور پھر ہیرے تلاش کروں گا۔‘‘ 
یہ لوگ شام تک کام کرتے رہے مگر ایک بھی ہیرا ہاتھ نہ آیا۔ شام کو جب جاوید اور شاداب گھر واپس لوٹے تو بہت افسردہ تھے۔ ان سے اچھی طرح کھانا بھی نہ کھایا گیا۔
’’تم دونوں کو کیا ہوا ہے؟‘‘ مرجان نے پوچھا۔
  جاوید نے کوئی جواب نہ دیا لیکن شاداب نے ماں کو بتایا، ’’ہم نے آج سارے دن مٹی چھانی مگر اس میں ایک بھی ہیرا نہ ملا۔‘‘
’’تم لوگ اتنے پریشان نہ ہو۔‘‘مرجان نے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’ہیرے کانوں کے علاقے میں ہر جگہ تو نہیں ملتے کہیں ہوتے ہیں اور کہیں نہیں۔ تم لوگوں کو کچھ ہیرے تو پہلے مل چکے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ جب تم لوگ ساری مٹی چھان لو گے تو تمھیں اور ہیرے بھی ملیں گے۔‘‘
  جاوید نے سوچا کہ ماں جو کچھ کہہ رہی ہے وہ درست ہے۔ ابھی ہم نے ساری مٹی تو صاف نہیں کی ہے۔
مٹی چھاننے اور صاف کرنے کا کام اگلے تین روز تک جاری رہا۔ مگر کوئی ہیرانہ ملا۔ چوتھے روز رحمت چچا کو ہیروں کے چند چھوٹے ٹکڑے ملے۔ لیکن جاویدان سے مطمئن نہ ہوا۔ وہ اتنی محنت سے کام کر رہا تھا کہ آدھی سے زیادہ مٹی چھانی جاچکی تھی۔
بارش کے بعد یہ پانچویں روز شام کی بات ہے۔ جاوید مٹی چھان رہا تھا کہ کسی چمکتی ہوئی چیز پر اس کی نظر پڑی۔ اس نے اسے اٹھا کر دیکھا اور خوشی سے چیخ اٹھا۔’’ ہیرا!‘‘
رحمت ،عالم اور شاداب سب اس کی طرف لپکے۔ رحمت نے ہیرا اپنے ہاتھ میں لے کر دیکھا ۔یہ واقعی ہیرا تھا اور اچھا بڑا۔ اس نے غور سے اس کا جائزہ لیا اور کہا۔
’’ یہ نیلم ہے اور بہت قیمتی ہے۔‘‘ 
’’نیلم کس کے پاس ہے؟‘‘ اچانک پیچھے سے ظاہر شاہ کی آواز آئی۔
’’رحمت چچا کے پاس۔‘‘شاداب نے اسے جواب دیا۔ ظاہر شاہ نے ہیرا اپنے ہاتھ میں لے کر دیکھا اور کہا ،’’واقعی یہ نیلم ہے اور کافی قیمتی معلوم ہوتا ہے۔ مبارک ہو۔ لیکن اب کافی دیر ہو گئی ہے معدنیات کا دفتر بند ہو گیا ہو گا۔ رات کو اس کی حفاظت کرنا ہوگی۔ میرے خیال میں تم لوگ اپنے گھر پر اس کی حفاظت نہ کر سکو گے۔ میرے پاس گھر میں سیف ہے مجھے دو میں اس کو حفاظت سے رکھ دوں گا۔ کل صبح تم مجھ سے لے کر دفتر میں جمع کرا دینا۔‘‘
’’ نہیں! اسے ہم خود اپنے پاس رکھیں گے۔‘‘جاوید نے جواب دیا۔ 
’’ہاں جاوید تم اپنے گھر رکھو گے۔‘‘رحمت چچانے بھی اس کی تائید کی۔
’’ جیسی تمھاری مرضی۔ ‘‘ظاہر شاہ بولا،’’میں تو تمھارے فائدے ہی کی بات کر رہا تھا۔‘‘ پھر ظاہر شاہ غصے سے وہاں سے چلا گیا اور رحمت ،جاوید اور شاداب کو لے کر ان کے گھر روانہ ہو گئے۔ جاوید نے گھر پہنچتے ہی آواز لگائی، ’’امی! امی! ہمیں ایک اچھا ہیرا مل گیا ہے۔ نیلم۔ یہ بہت قیمتی ہے۔‘‘
مرجان نے ہیرا ہاتھ میں لے کر دیکھا۔ پھر اس نے رحمت سے پوچھا،’’واقعی یہ ہیرا قیمتی ہے؟‘‘ 
’’ہاں یہ اچھا بڑا ہیرا ہے اور مجھے یقین ہے اس کی اچھی قیمت لگے گی شاید ایک لاکھ روپے مل جائیں۔‘‘رحمت نے جواب دیا۔
’’ایک لاکھ روپے؟‘‘شاداب نے حیرت اور خوشی سے پوچھا۔’’ اتنے سارے پیسوں کا ہم کیا کریں گے۔‘‘ 
’’تم چپ رہو۔‘‘جاوید نے شاداب کو ڈانٹا،’’ہم اس رقم کو صحیح خرچ کرنے کا طریقہ بھی نکال لیں گے۔‘‘
’’لیکن رحمت بھائی !کیا اتنے قیمتی ہیرے کو گھر میں رکھنا مناسب ہو گا؟‘‘مرجان نے کچھ سوچ کر کہا۔
’’ہم اسے حکومت کے دفتر میں جمع کرا دیتے۔‘‘رحمت نے کہا،’’ مگر دیر ہو جانے کی وجہ سے دفتر بند ہو گیاتھا اب ہم اسے کل صبح ہی جمع کرا سکتے ہیں۔ میں بھی اس کی حفاظت کے لیے رات کو یہاں سوؤں گا۔‘‘
’’یہ ٹھیک ہے۔‘‘ جاوید نے کہا۔
’’میں اب اپنے گھر جاتا ہوں اور کھانا کھا کر جلد ہی واپس آ جاؤں گا۔‘‘رحمت چچا یہ کہتے ہوئے اپنے گھر روانہ ہو گئے۔
(10)
رحمت خان کے جانے کے تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ جاوید نے دروازہ کھولا تو وہاں ایک دبلے پتلے آدمی کو جس کے چہرے پر چیچک کے داغ تھے ایک ڈبا ہاتھ میںلیے کھڑا پایا۔ اس نے مرجان کو آواز دی۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ مرجان نے اس آدمی سے پوچھا،’’آپ کے بھائی امیر گل نے آپ کے بچوں کے لیے کچھ مٹھائی بھیجی ہے وہ آپ سے ملنے ایک دو روز میں آئیں گے۔ ‘‘اس آدمی نے جواب دیا۔
جاوید نے ڈبا کھولا تو وہ تازہ مٹھائی سے بھرا ہوا تھا۔
’’ امیر ماموں کتنے اچھے ہیں۔ اچھی اچھی چیزیں بھیجتے رہتے ہیں۔‘‘شاداب نے مٹھائی کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’ ایسے نہیں کھاتے۔‘‘مرجان نے بیٹی کو ٹوکتے ہوئے کہا،’’باورچی خانے سے پلیٹیں لے آؤ اور مہتاب کو بھی بلا لو ۔‘‘
شاداب باورچی خانے کی طرف گئی اور وہ اجنبی شخص سلام دعا کرنے کے بعد واپس چلا گیا۔ شاداب اور جاوید بہت خوش تھے کہ ماموں امیر گل نے انھیں مٹھائی بھیجی اور وہ بھی ایسے موقع پر جب انھیں ایک قیمتی ہیرا ہاتھ لگا ہے۔ شاداب باورچی خانے سے پلیٹیں لے آئی اور مہتاب سمیت سب لوگوں نے خوشی خوشی مٹھائی کھائی۔
مٹھائی کھانے کے بعد جاوید نے ماں سے پوچھا کہ ’’ہیرے کو رکھا کہاں جائے؟‘‘
’’ مجھے ایک خفیہ جگہ کا پتا ہے جہاں یہ ہیرا ر کھا جا سکتا ہے۔‘‘مرجان نے بیٹے کو بتایا،’’تمھارے ابو کے سونے کے کمرے میں دیوار میں ایک الماری ہے۔ ہم یہ ہیرا وہاں رکھ سکتے ہیں۔‘‘
مرجان اور بچے پھر اس کمرے میں گئے اور الماری کھول کر دیکھی۔ جاوید کی امی نے ان ساری چیزوں کو نکالا جو الماری کے نچلے خانے میں رکھی تھیں۔ یہ خانہ با لکل سادہ سا نظر آرہا تھا مگر جب مرجان نے ایک بٹن دبایا تو اس کا ایک حصہ اوپر اٹھ گیا اور اس کے نیچے ایک چھ انچ چوڑا چھ انچ لمبا خفیہ خانہ نظر آنے لگا۔ اس کے اندر کچھ زیورات اور کچھ پیسے رکھے تھے جو مرجان نے وہاں سے نکال کر اوپر کے خانے میں رکھ دیے۔ پھر اس نے جاوید سے کہا،’’اب تم اپنا ہیرا حفاظت سے یہاں رکھ سکتے ہو۔‘‘ جاوید نے اس خفیہ خانے کا جائزہ لیا اور ہیرا اپنی جیب سے نکالا۔ یہ ہیرا کپڑے کے ایک ٹکڑے میں لپٹا ہوا تھا جب وہ اسے اندر رکھ رہا تھا تو شاداب نے اس سے یہ ہیرا ایک بار اور دکھانے کی فرمائش کی۔
’’ نہیں!‘‘جاوید بولا،’’ہم اسے کئی بار دیکھ چکے ہیں۔‘‘ اس نے لپٹے ہوئے کپڑے کو اس خانے کے اندر رکھ دیا اور اس کی ماں نے دوبارہ بٹن دبایا جس سے یہ خانہ بالکل اس طرح بند ہو گیا جیسے یہاں کوئی خانہ تھا ہی نہیں۔
’’ میرا خیال ہے کہ ہمارا ہیرا ہمیں کافی اچھی رقم دے گا۔‘‘ شاداب نے کہا۔
  ’’بالکل۔‘‘جاوید نے بھی اس کی تائید کی۔
’’اب تم لوگ کھانا کھا کر سو جاؤ!‘‘مرجان نے بچوں سے کہا۔
  ’’امی مجھے رحمت چچا سے ایک کام ہے میں ان سے مل کر ابھی آتا ہوں۔‘‘جاوید نے ماں سے کہا۔
’’ اس وقت رات کے نو بجے تمھیں کیا کام یاد آگیا اور رحمت تو خود یہاں آنے والے ہیں جب وہ یہاں آئیں تو تم ان سے بات کر لینا۔‘‘
’’ مجھے ان کے پاس سے ایک پیچ کس اور پانا لانا ہے اپنی سائیکل کی مرمت کے لیے۔‘‘
’’ اس وقت مرمت کرو گے؟‘‘ 
’’نہیں سائیکل تو صبح ہی ٹھیک کروں گا لیکن یہ اوزار تو ابھی لاکر یہاں رکھ لوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے جاؤ مگر جلدی آجانا ۔‘‘
جاوید دوڑتا ہو ارحمت چچا کے گھر پہنچا اور ان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ رحمت اور عالم اس وقت کھانا کھارہے تھے وہ جاوید کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔
’’خیریت تو ہے تم اس وقت کیسے آئے ہو؟ میں تو خود تھوڑی دیر بعد تمھارے گھر آنے والا تھا۔‘‘ رحمت خان نے پوچھا ۔
’’ہاں! میری سائیکل خراب ہو گئی ہے۔ میں آپ سے پانا اور پیچ کس لینے آیا ہوں۔ اسے ٹھیک کرنے کے لیے۔‘‘ جاوید نے کہا۔
’’ سائیکل کی مرمت تو کل صبح بھی ہو سکتی تھی۔‘‘
’’جی ہاں! مرمت تو صبح ہی کو کروں گا۔ مگر میں نے سوچا کہ اوزار ابھی جمع کرلوں ۔‘‘ 
’’ٹھیک ہے ۔‘‘رحمت بولے،’’یہ چابی لو ویگن کے ٹول بکس میں سے جو لینا ہے لے لو۔‘‘
جاوید ٹول بکس سے اپنی ضرورت کا سامان نکال کر آگیا اور پھر رحمت کے ساتھ واپس اپنے گھر آگیا۔ گھر پہنچتے پہنچتے جاوید کو سخت نیند آنے لگی اور وہ فوراًہی پلنگ پر لیٹ کر سو گیا۔ رحمت خان نے اپنا پلنگ بر آمدے میں ڈال لیا جبکہ شاداب اور اس کی امی اپنے کمرے میں چلے گئے اور جاتے ہی سو گئے۔ ہر شخص گہری نیند سورہا تھا۔ گھر میں مکمل خاموشی تھی۔ آدھی رات گزری ہوگی کہ رحمت کو کسی شخص کے چلنے پھرنے کی آہٹ محسوس ہوئی۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ انھیں ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی الماری کھول رہا ہے۔ رحمت اٹھا اور اس کمرے کی طرف گیا جہاں الماری رکھی تھی۔ اس نے کمرے کا دروازہ کھلا پا یا وہاں اندھیرے میں ایک سایہ سا نظر آیا۔ وہ لپک کر اس کی طرف بڑھا اور اس کو پکڑنے کی کوشش کی یکایک اس کے سر پر کوئی سخت چیزآکر لگی جس سے وہ چکر ا کر نیچے گر پڑا لیکن اس نے اپنے حواس بر قرار رکھے اور زور زور سے’’چور چور‘‘چلا یا۔ اس نے جاوید اور شاداب کو بھی آوازیں دیں مگر وہ سب گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ حد یہ ہے کہ مرجان بھی نہیں جاگی۔
’’ان سب لوگوں کو کیا ہو گیا ہے۔‘‘رحمت نے زور سے کہا اور پھر جاوید کو جا کر زور زور سے ہلایا،’’جاوید اٹھو! گھر میں چور گھس آیا ہے۔‘‘
اتنے میں مرجان کی آنکھ کھل گئی۔’’کیا بات ہے؟‘‘اس نے پوچھا۔
  جاوید بھی شور سن کر اٹھ بیٹھا وہ بھی پوچھنے لگا۔’’کیا ہوا؟‘‘
’’کوئی چور گھر میں گھس آیا تھا۔ میں نے ایک شخص کو تمھارے ابو کے کمرے میں دیکھا تھا۔ وہ الماری کھول رہا تھا۔ میں نے اسے پکڑنا چاہا تو اس نے میرے سر پر کوئی چیز دے ماری اور مجھے نیچے گرا دیا۔‘‘ رحمت نے بتایا۔
مرجان نے لیمپ جلایا اور پھر سب کے سب الماری کی طرف دوڑے۔ شاداب کی بھی آنکھ کھل گئی۔ اس نے رحمت خان کے ماتھے پر خون دیکھ کر پوچھا،’’کیا آپ کو چوٹ لگی ہے؟‘‘
’’ کیا؟‘‘جاوید نے حیرت سے دیکھا،’’آپ کو تو کافی چوٹ لگی ہے ماتھے سے خون بہہ رہا ہے۔‘‘
’’ نہیں کوئی خاص چوٹ نہیں لگی۔‘‘رحمت چچا بولے،’’ہمیں پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کوئی چیز چرائی تو نہیں۔‘‘
الماری کا تالہ ٹوٹا ہواتھا اور اس کے اندر کی ساری چیزیں بکھری پڑی تھیں۔ خفیہ خانے کو کھولا تو وہاں ہیرا موجود نہ تھا۔
’’ہمارا ہیرا چوری ہو گیا۔‘‘شاداب رونے لگی۔ مرجان بھی ایک دم سکتے ہیں آگئی۔ وہ جانتی تھی کہ بچوں کو کتنا افسوس ہوا ہو گا۔ اس نے شاداب کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے اسے تسلی دی۔’’ فکر مت کرو۔ ہم پولیس کے پاس چوری کی رپورٹ درج کرائیں گے ۔ وہ ہمارا ہیرا ہمیں واپس دلائے گی۔‘‘
مرجان کو یقین تھا کہ پولیس کچھ نہ کر سکے گی وہ صرف بچوں کا حوصلہ رکھنے کے لیے یہ بات کہہ رہی تھی۔
  ’’یہ میری غلطی سے ہوا۔ میں نے ہیرے کی حفاظت کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر نہ کر سکا۔‘‘ رحمت نے کہا۔ 
جاوید جو بالکل خاموش تھا ،اس نے رحمت چچا سے کہا۔’’آپ فکر مت کریں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ پولیس ہمارا ہیرا ہمیں دلا دے گی۔اس وقت ہمیں سب سے پہلے آپ کے زخم کی مرہم پٹی کرناہے۔‘‘
جاوید کی امی بولیں۔’’آپ کو ہسپتال جانا چاہیے۔‘‘
  رحمت بولے،’’نہیں معمولی چوٹ ہے۔ ذرا سا خون نکل گیا ہے۔‘‘
’’شاداب آیوڈین کی شیشی لاؤ!‘‘ مر جان نے کہا،’’جاوید تم پانی لا کر زخم کو دھو کر تھوڑی آیوڈین اس پر لگاؤ ۔‘‘
بچوں نے ایسا ہی کیا۔ رحمت نے خیال ظاہر کیا کہ چور کوئی ایسا شخص تھا جس کو گھر کے بارے میں سب کچھ پتا تھا۔ اسے یہ پتا تھا کہ ہیرا کہاں رکھا جا سکتا ہے۔
’’یہ تو ایک خفیہ خانہ تھا۔ جاوید کے دادا نے جب یہ گھر بنا یا تھا تو دیوار میں الماری بنائی تھی۔ انھوں نے قیمتی چیزیں رکھنے کے لیے اس الماری میں ایک خفیہ خانہ بھی بنا یا تھا۔‘‘ 
’’کیا اور لوگوں کو بھی اس خفیہ خانے کا علم تھا۔‘‘ رحمت نے مرجان سے پوچھا۔
’’ یہ گھر اس وقت بنا تھا جب جاوید کے دادا اور ان کے بھائی ساتھ رہتے تھے۔ جب ان کے بھائی نے اپنا مکان علاحدہ بنا یا تو وہ ایسی ہی الماری اور خفیہ خانہ بنانے کے لیے اس کو دیکھنے کی غرض سے یہاں آئے تھے۔‘‘
’’ اس کا مطلب ہے۔ ظاہر شاہ کو بھی اس کا علم ہو گا؟‘‘ رحمت نے پو چھا۔
’’چچا ظاہر شاہ نے ہی ہمارا ہیرا چرا یا ہے۔‘‘شاداب ایک دم بولی۔
’’جس چور نے میرے ساتھ طاقت آزمائی کی تھی وہ ظاہر شاہ نہیں تھا۔‘‘ رحمت بولے،’’وہ آدمی نوجوان اور دبلا پتلا تھا۔ وہ مسلح تھا اور اس نے ایک ڈنڈا میرے سر پر مارا تھا۔‘‘
’’ ہم نے کوئی آواز نہیں سنی۔ نہ الماری کھولنے کی نہ پکارنے کی۔‘‘جاوید کی امی نے کہا۔
’’میں تو گھوڑے بیچ کر سورہا تھا۔‘‘جاوید نے کہا، ’’جب تک آپ نے مجھے ہلا ہلا کر جگا یا نہیں۔ مجھے کچھ پتا نہیں چلا۔‘‘
’’یہ بڑے تعجب کی بات ہے۔ ہم اس طرح سور ہے تھے جیسے کہ کسی نے نشہ پلا دیا ہو۔‘‘
’’ہم نے مٹھائی کھائی تھی ۔کہیںماموں امیر گل نے ہمیں نشہ والی مٹھائی تو نہیں بھیج دی تھی؟‘‘شاداب پٹ سے بولی۔
’’نہیں۔ وہ ایسا کیوں کریں گے۔‘‘ مرجان نے کہا۔
’’ہو سکتا ہے کہ کسی نے ہمیں دھوکا دینے کے لیے امیر گل کا نام استعمال کیا ہو۔‘‘ رحمت چچانے کہا۔
’’بہتر ہو گا ہم اس واقعے سے پولیس کو مطلع کر دیں۔‘‘ مرجان نے کہا۔
’’ آپ پہلے ڈاکٹر کے پاس چلیں۔ پھر تھانے جائیں گے۔‘‘ جاوید نے رحمت سے کہا۔
’’ نہیں نہیں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں، معمولی چوٹ ہے۔ ٹھیک ہو جائے گی۔‘‘رحمت نے کہا۔
اب صبح ہو گئی تھی۔ جاوید نے ان لوگوں سے کہا،’’میں ابھی آتا ہوں۔ پھرتھانے چلیں گے۔‘‘
’’مگر تم اس وقت کہاں جارہے ہو؟‘‘ رحمت نے پوچھا۔
’’ میں آپ کے اوزار آپ کی ویگن کے ٹول بکس میں رکھنے جارہا ہوں۔‘‘ جاوید نے کہا۔
’’میں خود جا کر ویگن یہاں لے آتا ہوں۔‘‘رحمت نے کہا۔
’’ نہیں۔ آپ اس طرح نہیں جا سکتے۔ پہلے چائے پی لیں پھر جائیں۔‘‘مرجان نے رحمت سے کہا۔
’’امی آپ چائے بنائیں۔ میں ابھی آتا ہوں رحمت چچا کا گھر ہے ہی کتنی دور؟‘‘ 
جاوید چند منٹوں میں واپس آگیا۔ واپس آنے کے بعد اس نے اپنی امی، رحمت چچا اور شاداب کو آواز دی اور بتایا، ’’ہمارا ہیرا چوری ووری نہیں ہوا۔ یہ میرے پاس ہے۔‘‘
سب تعجب سے جاوید کو دیکھنے لگے۔
’’یہ ہیرا کہاں تھا؟ ‘‘سب نے پوچھا۔
’’ کل رات میں نے یہ ہیرا الماری کے خفیہ خانے میں نہیں رکھا تھا۔ میں ہیرا رحمت کے گھر لے گیا تھا اور اسے ویگن کے اندر ٹول بکس میں چھپادیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہاں یہ زیادہ محفوظ رہے گا۔ ‘‘
’’لیکن میں نے تمھیں ہیرے کو الماری میں رکھتے دیکھا تھا؟‘‘اس کی امی نے کہا۔
’’جی ہاں۔ لیکن یہ اصلی ہیرا نہیں تھا بلکہ شاداب کے دیے ہوئے تحفے میں لگا ہوا مصنوعی نیلا پتھر تھا۔ میں نے اسے کپڑے میں لپیٹ کر وہاں رکھ دیا تھا۔‘‘
’’ واقعی تم نے بہت ہوشیاری کا کام کیا شاباش!‘‘رحمت چچانے جاوید کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا۔
’’ میں بہت خوش ہوں کہ یہ ہیرا چوری ہونے سے بچ گیا۔‘‘مرجان بولی۔
’’تم تو دنیا کے سب سے ہوشیار لڑکے نکلے۔‘‘شاداب بھی بولی۔
’’کیا سمجھتی ہو مجھے، خیر اب تعریف بہت ہو گئی، اب یہ بتاؤ کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔‘‘ جاوید نے کہا۔
’’ ہم اب بغلام جا کر یہ ہیرا جمع کرائیں گے۔‘‘رحمت نے کہا۔
’’لیکن پہلے آپ کو ہسپتال جا کر اپنی چوٹ دکھانی چاہیے۔‘‘جاوید نے کہا۔’’پھر تھانے جا کر رپورٹ درج کرائیں گے۔‘‘
’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘رحمت چچا بولے۔ ’’میرا خیال ہے کہ جب تک پولیس نہ کہے ڈاکٹر کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہمیں پہلے تھانے اور پھر بغلام جانا چاہیے۔‘‘
پھر طے یہ ہوا کہ تھانے جایا جائے اور رپورٹ درج کرائی جائے۔ سب لوگ تھانے گئے۔ پولیس افسر نے وعدہ کیا کہ وہ اس معاملہ کی چھان بین کرے گا۔
بعد میں مرجان، جاوید اور شاداب، رحمت چچا کے ساتھ ویگن میں بغلام روانہ ہو گئے۔ ابھی وہ آدھے راستے میں تھے کہ شاداب نے کہا،’’دیکھو دیکھو! جاوید چچا ظاہرشاہ لال رنگ کی جیپ میں ہمارے پیچھے آرہے ہیں۔‘‘
’’ہو سکتا ہے وہ اپنے کسی کام سے بغلام جار ہے ہوں۔‘‘رحمت نے کہا۔
’’رحمت چچا!‘‘جاوید نے کہا،’’فرض کریں ہیرا ظاہر شاہ نے ہی چرا یا ہو اور پھر اس کو پتا چلا ہو کہ یہ تو محض شیشہ کا ایک ٹکڑا ہے۔ اصل ہیرا نہیں تو پھر وہ چھیننے کے لیے کہیں ہمارے پیچھے نہ آرہا ہو۔‘‘ 
’’کیا چچا ظاہر شاہ ہم سے ہمارا ہیرا چھیننے کے لیے ہم پر حملہ کریں گے۔‘‘شاداب نے پوچھا۔
’’ چپ کرو!‘‘جاوید نے کہا ،’’کوئی بھی ہم پر حملہ کرنے نہیں آرہا۔ ہو سکتا ہے کہ انھیں اپنی کانوں سے کوئی ہیرا املا ہو جسے جمع کرانے وہ بغلام جارہے ہوں۔‘‘ 
ظاہر شاہ کی جیب قریب آنے لگی۔ مرجان نے کہا، ’’ہو سکتا ہے اس کے ارا دے نیک نہ ہوں۔ بہتر ہو گا کہ اس کے بغلام پہنچنے سے پہلے ہم وہاں پہنچ کر اپنا ہیرا جمع کرا دیں۔‘‘
’’میری ویگن کافی پرانی ہے۔‘‘رحمت بولے، ’’پھر بھی میں اس کو تیز دوڑانے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘
اچانک سامنے بہت سی گاڑیاں ،بسیں،ٹرک اور کار یں قطار میں کھڑی ہوئی نظر آئیں جہاں پولیس والے ان کے کاغذات چیک کر رہے تھے۔ رحمت خان نے بھی اپنی ویگن ان گاڑیوں کے پیچھے روک لی۔ جاوید یہ دیکھ کر بولا، ’’اب تو ہمیں دیر ہو جائے گی اور چچا ظاہر شاہ ہم سے آگے نکل جائیں گے۔‘‘
رحمت خان نے اسے تسلی دی۔’’میں انسپکٹر سے بات کرتا ہوں۔ا نھوں نے انسپکٹر سے جاکر کہا، ’’ہمیں ایک ضروری کام سے جلد بغلام جانا ہے۔ ہم واپسی پر آپ کو گاڑی کے کاغذات چیک کرا دیں گے۔‘‘
’’ ٹھیک ہے۔‘‘انسپکٹر نے انھیں جانے کی اجازت دے دی۔ 
پھر سب بغلام کی طرف روانہ ہوگئے۔
(11)
محکمہ معدنیات کا دفتر ابھی کھلا ہی تھا کہ رحمت سب کو لے کر وہاں پہنچ گیا۔ جاوید نے ہیرے کو جو کپڑے میں بندھا ہوا تھار حمت کے حوالے کر دیا۔ رحمت خان نے متعلقہ افسر کے دفتر کے سامنے بیٹھے ہوئے چیر اسی سے کہا،’’ ہم آپ کے افسر صاحب سے ملنے آئے ہیں۔‘‘
چپراسی نے دروازے سے چک اٹھا کر انھیں اندر جانے کے لیے کہا۔ جاوید نے اندر جاکر افسر کو بتایا، ’’ہم ایک ہیرا جمع کرانے آئے ہیں جو ہمیں اپنی کانوں سے ملا ہے۔‘‘ افسر نے وہ ہیرا دیکھاتو وہ اس کو دیکھتا ہی رہ گیا۔
’’آپ لوگ بہت خوش قسمت ہیں۔ یہ بہت قیمتی ہیرا ہے۔ آپ کو پتا ہے یہ نیلم ہے۔‘‘ افسر نے ایک آلے سے ہیرے کا جائزہ لیا اور کہا، ’’میں نے اپنی زندگی میں جو اچھے ہیرے دیکھے ہیں۔ یہ ان میں سے ایک ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ہیرا بہت قیمتی ہے۔‘‘
’’کیا ہمیں اس کے دولاکھ روپے مل جائیں گے؟‘‘ شاداب نے سوال کیا۔
’’ چپ رہو۔‘‘مرجان نے بیٹی سے کہا۔
افسر نے ہیرے کا وزن کیا اور مرجان سے کہا، ’’بی بی یہ دو لاکھ روپے سے زیادہ کا بک جائے گا۔‘‘
  اس نے مزید بتایا کہ حکومت اس کی بیس فیصد قیمت رائلٹی کے طور پر اپنے پاس رکھ لے گی۔
’’ یہ بات ہمیں معلوم ہے۔آپ یہ بتائیں کہ یہ ہیرا کب فروخت کیا جائے گا؟‘‘ جاوید نے کہا۔
’’یہ ستمبر کے مہینے تک بک سکے گا۔‘‘ افسر نے اسے بتایا، ’’ہم نے ہیروں کے نیلام کے لیے ستمبر کا پہلا ہفتہ مقرر کیا ہے۔‘‘
’’ آپ ہمیں اس ہیرے کے بدلے کچھ رقم پیشگی نہیں دیں گے۔‘‘ جاوید نے افسر سے کہا۔ 
’’میں معافی چاہتا ہوں۔‘‘ افسر نے کہا،’’پیشگی رقم دینے کا ہمارے ہاں کوئی طریقہ نہیں۔ آپ کو ر سید بنا کر دے سکتا ہوں اور جب نیلام کی تاریخ قریب آئے گی تو آپ کو اس سے مطلع کر دیا جائے گا۔ ‘‘
پھر افسر نے ایک رسید بنا کر جاوید کے حوالے کردی۔ جب یہ لوگ رسید لے کر دفتر سے نکل رہے تھے تو انھوں نے ظاہر شاہ کو اپنی جیپ سے نیچے اترتے دیکھا۔ وہ خوش نظر آرہا تھا۔ اس نے جاوید اور شاد اب سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا کرنے آئے تھے؟
’’ ہم وہ ہیرا جمع کرانے آئے تھے جو کل ہمیں ملا تھا۔اور پتا ہے یہ ہیرا دو لاکھ روپے سے بھی زیادہ کا بکے گا۔‘‘ شاداب بھی بولی۔
ظاہر شاہ یہ سن کر سکتے میں آگیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اسے دل کا دورہ پڑنے والا ہے۔
شاداب نے پھر کہا، ’’کوئی شخص یہ ہیرا چوری کرنے ہمارے گھر آیا تھا۔ لیکن وہ شیشہ کا ایک ٹکڑا ہی لے جا سکا۔ جاوید نے اصلی ہیرا کہیں اور چھپادیا تھا۔‘‘
ظاہر شاہ بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کی جان نکل رہی ہو پھر وہ کسی اہم کام کا بہانہ کر کے وہاں سے جانے لگا۔ 
’’ہاں آپ وہ ہیرے جمع کرانے آئے ہوں گے جو آپ کو ملے ہوں گے ؟‘‘جاوید نے اس سے پوچھا۔
’’ہاں چند ہیرے ملے تھے۔‘‘ظاہر شاہ نے اسے بتا یا۔
ر حمت چچا سب بچوں کو لے کر واپس گھر آگیا۔ سب لوگ بہت خوش تھے سوائے جاوید کے۔ وہ سارے راستے فکر مند اور خاموش رہا۔
’’ کانوں پر چند روز کا کام اور باقی ہے ہم اسے بھی مکمل کر لیتے ہیں تمھاری کیا رائے ہے؟‘‘رحمت نے جاوید سے کہا۔
’’ اب یہ کام عالم اور مہتاب کریں گے۔‘‘جاوید نے جواب دیا، ’’مجھے جو کچھ حاصل کرنا تھا وہ میں نے کر لیا ہے۔‘‘
  رحمت چچا نے جاوید کی حالت دیکھ کر اسے اپنے ساتھ باہر سیر کے لیے چلنے کو کہا۔
’’ نہیں شکریہ چچا ! اس وقت میرا جی نہیں چاہ رہا۔‘‘ جاوید نے کہا۔
لیکن رحمت اسے زبر دستی باہر لے گیا۔ تھوڑی دور جانے کے بعد رحمت چچانے جاوید سے پوچھا ۔’’کیا بات ہے؟تم کچھ خاموش خاموش سے ہو۔ تمھیں تو خوش ہونا چاہیے۔’’
’’رحمت چچا !امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ڈاکٹر کو شبہ ہے کہ ان کو سرطان کی بیماری ہے۔ اس نے ان کے تفصیلی طبی معائنے کے لیے انھیں کراچی جانے کے لیے کہا ہے۔ ہم کراچی جانے کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔ امی نے ڈاکٹر سے کہا تھا ،وہ ان کی بیماری کے بارے میں کسی کو کچھ نہ بتائے لیکن مجھے معلوم ہو گیا۔ میں نے ہیرے نکالنے میں جو اتنی محنت کی تو اس کی وجہ یہی تھی کہ ہمیں اتنی رقم مل جائے کہ ہم امی کو کراچی لے جاسکیں۔ اب ہمیں جو نیلم ملا ہے اس کی قیمت تو ستمبر میں ملے گی اس وقت تک تو بہت دیر ہو جائے گی۔‘‘ جاوید نے کہا۔
رحمت تھوڑی دیر تک سوچتا رہا اور پھر بولا، ’’تم نے یہ بات مجھے پہلے کیوں نہ بتائی۔ میرے ایک دوست ہیں جو مجھے کچھ رقم ادھار دے سکتے ہیں۔ تم بتاؤ تمھیں اس کام کے لیے کتنے روپے کی ضرورت ہے۔‘‘ 
’’مجھے تو کوئی اندازہ نہیں۔‘‘جاوید نے کہا،’’ڈاکٹر سے معلوم کرتے ہیں ،وہ شاید کچھ بتا سکے۔‘‘
’’ہاں ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔‘‘رحمت بولا۔
  جب یہ لوگ ڈاکٹر کے پاس پہنچے تو اس نے جاوید سے پوچھا،’’کہو بیٹے کیسے آئے؟‘‘
’’میں اپنی امی کے بارے میں آپ سے کچھ پوچھنے آیا ہوں۔‘‘جاوید نے کیا۔
’’اچھا بیگم مرجان شیر محمد کے بارے میں، پوچھو کیا بات ہے؟‘‘ڈاکٹر نے کہا۔
’’کیا میری امی بہت بیمار ہیں۔ کیا انھیں کوئی خطرناک بیماری ہے؟‘‘
’’ہاں میں نے انھیں طبی معائنے کے لیے کراچی جانے کا مشورہ دیا تھا۔ مجھے کچھ شبہ ہے۔ اور میں نے یہی بہتر سمجھا ہے کہ ان کا تفصیلی معائنہ کرا لیا جائے۔‘‘
’’ہم اگر انھیں کراچی لے جائیں تو اس پر کتنا خرچ آئے گا؟‘‘جاوید نے پوچھا۔
’’ اگر آپ سب ان کے ساتھ کراچی جائیں اور پھر وہاں ان کا خصوصی طبی معائنہ کرایا جائے تو دس پندرہ ہزار روپے خرچ ہو جائیں گے ۔‘‘
’’شکریہ ڈاکٹر صاحب!آپ نے مجھے اس سلسلے میں ضروری ہدایات دے دیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ کراچی میں ایک ماہر ڈا کٹر ہیں۔ میں تمھیں ایک رپورٹ لکھ کر دوں گا جو تم ان کو دکھا دینا ۔‘‘
’’شکریہ ڈاکٹر صاحب!‘‘جاوید اور رحمت یہ کہتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوگئے۔
’’ اب ہمیں امی سے ان کے کراچی جانے کے پروگرام کے بارے میں بات چیت کرنا چاہیے لیکن پہلے رقم کا انتظام ہو جائے۔‘‘
’’فکر نہ کرو۔ روپے کا انتظام ہو جائے گا۔‘‘رحمت بولا۔
پھر وہ گھر واپس آگئے تو مر جان نے پوچھا،’’مہتاب یہ معلوم کر رہا ہے کہ اسے کل کام کے لیے کانوں پر جانا ہے یا نہیں۔‘‘
’’ پٹے کے ختم ہونے میں ابھی دن باقی ہیں ۔‘‘جاوید نے کہا،’’عالم اور مہتاب اگر چاہیں تو وہاں کام کرتے رہیں۔ دیکھیں انھیں کیا ملتا ہے۔‘‘
مرجان نے کہا۔’’ اب ہمیں ان لوگوں کو بھی معاوضہ دینے کے بارے میں سوچنا چاہیے جو ہمارے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے تمھارے ابو نے مجھے بتا یا تھا کہ رحمت خان ان کے ساتھ کانوں پر کام کرتے ہیں اگر انھیں منافع ہوا تو اس میں ان کا بھی حصہ ہو گا۔‘‘
  ’’اس وقت ہمیں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہیے۔ میں کسی فائدے یار قم کے لیے جاوید کی مدد نہیں کر رہا تھا۔ ہاں عالم کو اس کی محنت کا کچھ معاوضہ دے سکتے ہو لیکن وہ بھی اس وقت جب تمھیں ہیرے کی فروخت سے رقم مل جائے۔‘‘
’’ امی!‘‘جاوید نے کہا، ’’ہم آپ سے ایک اور معاملے پر بات کرنے آئے ہیں۔ ہم ڈاکٹر صاحب سے ملے تھے۔ اس نے کہا ہے کہ آپ کو طبی معائنے کے لیے کراچی لے جایا جائے۔‘‘
’’یہ بات تمھیں ڈاکٹر نے بتائی ہے یا تم نے ان سے کچھ پوچھا تھا؟‘‘مرجان نے سوال کیا۔
’’ ہم ان سے ملے تھے۔‘‘جاوید نے کہا، ’’میں نے ان سے آپ کی صحت کے بارے میں پوچھا تھا تو اس نے مجھے وہ بات بتائی جو میں نے آپ سے کہی ہے۔‘‘
’’ اچھا اچھا!‘‘مرجان بولی ،’’انھوں نے ایک دفعہ مجھے یہ مشورہ دیا تھا۔ اب ہم کو اس کام کے لیے اس وقت تک انتظار کرنا چاہیے جب تک ہمیں ہیرے کی رقم نہ مل جائے۔‘‘
’’ ہم اتنا انتظار نہیں کر سکتے ۔رحمت چچاکسی سے رقم کا انتظام کر رہے ہیں۔ ہیرے کی فروخت کے بعد ہم یہ رقم لوٹا دیں گے۔‘‘
’’تم رحمت بھائی کو اتنی تکلیف کیوں دے رہے ہو؟‘‘مرجان نے بیٹے سے کہا۔
’’ یہ بھی کوئی تکلیف ہے؟‘‘رحمت بولے،’’کل شام تک میں روپے کا انتظام کر دوں گا بلکہ ہو سکا تو یہ رقم لیتا آؤں گا۔‘‘
’’ہاں ہمیں بھائی امیر گل سے بھی تو ملنے جانا ہے اور ہیرے کے بارے میں بتانا ہے۔‘‘مرجان نے کہا ،’’اگر ہو سکے تو رحمت بھائی آپ کل ہمیں وہاں لے جائیں۔‘‘
’’ہاں کیوں نہیں کل میں آپ کو وہاں لے جاؤں گا۔‘‘رحمت نے وعدہ کیا۔
(12)
قیمتی نیلم کی دریافت ایک بڑی خبر تھی۔ محکمہ معدنیات نے اخبارات کو اس سے مطلع کر دیا تھا۔ اس لیے تمام اخبارات میں یہ خبر نمایاں طور پر شائع ہوئی۔ چناں چہ اگلے دن مرجان بچوں کو ساتھ لے کر امیر گل کے گھر جانے کی تیاری کر رہی تھی کہ امیر گل مبارکباد دینے کے لیے خود اپنے گھر والوں کے ساتھ ان کے ہاں پہنچ گئے۔ ایک دوسرے کو مبارک باد دینے کے بعد جاوید نے پوچھا:
’’ ماموں یہ بتائیں کہ آپ نے پرسوں ہمارے لیے مٹھائی بھیجی تھی؟‘‘
’’مٹھائی؟ نہیں۔‘‘امیر گل نے بتایا،’’ہم نے تو کوئی مٹھائی نہیں بھیجی تھی۔‘‘
’’تو پھر کس نے بھیجی تھی؟‘‘ شاداب نے پوچھا۔
  مرجان نے امیر گل کو وہ سارا واقعہ بتایا کہ کس طرح ہیرا چرانے کی کوشش کی گئی اور جاوید نے کتنی ہوشیاری سے اس ہیرے کو محفوظ رکھا۔
’’آپ لوگوں نے پولیس کو اطلاع کی؟‘‘امیر گل نے پوچھا۔
  اتنے میں رحمت چچا بھی آگئے۔ انھوں نے امیر گل کو بتایا کہ انھوں نے تھانے میں رپورٹ درج کرائی ہے اور پولیس اس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
’’ ہیرا چوری کرانے کی کوشش کون کر سکتا ہے؟‘‘امیر گل سوچ میں پڑ گئے۔
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ایک پولیس انسپکٹر اور دو سپاہی ایک شخص کے ساتھ ان کے گھر آئے۔ 
’’یہ تو وہی شخص ہے جو پر سوں مٹھائی لے کر آیا تھا۔‘‘شاداب اس شخص کو دیکھ کر بولی۔
امیر گل نے انسپکٹر سے آنے کا مقصد پوچھا۔ تو وہ کہنے لگا ر حمت خان نے رپورٹ درج کرائی تھی کہ اس گھر میں رات کو کوئی شخص گھس آیا تھا۔ یہ آدمی جس کو آپ دیکھ رہے ہیں ،یہ ایک جرائم پیشہ شخص ہے اور کئی مرتبہ قید کی سزا بھگت چکا ہے۔ یہ تھوڑے دن پہلے جیل سے بھاگ گیا تھا۔ کل شام ہم نے اس کو دوبارہ پکڑا ہے۔ تفتیش کے دوران اس نے بہت سے جرائم کے بارے میں بتایا ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ اسے امیر گل نام کے ایک آدمی نے اس گھر میں گھسنے اور الماری توڑ کر اس میں سے ایک قیمتی ہیرا چرانے کے لیے کہا تھا۔ الماری کے ایک خفیہ خانے کے بارے میں بھی بتایا تھا۔ پہلے اس کو گھر جا کر اس کا نقشہ دیکھنے کی ہدایت کی تھی۔ اس نے اس مقصد کے لیے بچوں کو مٹھائی دینے کا طریقہ اختیار کیا۔ یہ شخص مٹھائی لے کر یہاں آیا اور غور سے اس کمرے کے راستے کا جائزہ لیا جہاں سے اس کو وہ قیمتی ہیرا چرانا تھا۔ پھر یہ آدھی رات کے بعد یہاں آیا اور الماری سے وہ ہیرا لے کر فرار ہو رہا تھا کہ کسی شخص نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی مگر یہ بھاگ نکلا۔ بعد میں اس نے وہ ہیرا اس آدمی کو دے دیا اور اس کام کے ایک ہزار روپے وصول کرلیے ۔‘‘
’’ جس شخص نے اس کو اس کام کے لیے لگا یا تھا وہ امیر گل نہیں تھا۔‘‘ امیر گل نے انسپکٹر کو بتایا، ’’امیر گل تو میرا نام ہے۔ میں ان بچوں کا ماموں ہوں۔ اس شخص نے دھوکہ دینے کے لیے میرا نام استعمال کیا ہو گا۔‘‘
’’ کیا جس شخص نے تمھیں ہیرا چرانے کے لیے یہاں بھیجا تھا وہ یہ ہیں؟‘‘ انسپکٹر نے امیر گل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چور سے پوچھا۔
’’نہیں یہ تو وہ شخص نہیں ہے۔‘‘چور نے انسپکٹر کو بتایا۔
پھر انسپکٹر نے مرجان اور امیر گل سے کہا اگر آپ چاہیں تو ہم اس شخص کا پتا چلا سکتے ہیں جس نے اس آدمی سے یہ جرم کرایا تھا۔
’’ اب آپ نے چور تو پکڑ ہی لیا ہے۔‘‘مرجان نے انسپکٹر سے کہا ،’’یہ بہتر ہو گا کہ آپ اس شخص کو چھوڑ دیں جس نے یہ جرم کرایا ہو۔ ویسے بھی اس نے خود کوئی چیز نہیں چرائی۔‘‘
رحمت کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ اس نے کہا،’’یوں تو آپ کی مرضی ہے۔ مگر ایک طرح سے اس جرم کا اصل ذمہ د اروہی شخص ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے آپ اس معاملے کو قانون کے سپرد کر دیں وہ خود اس سے نمٹے گا۔‘‘ امیر گل نے مشورہ دیا۔
یہ سن کر انسپکٹر اور سپاہی اس شخص کو لے کر وہاں سے چلے گئے۔
’’ میں آپ سے کچھ مشورہ کرنا چاہتی ہوں۔‘‘مرجان نے اپنے بھائی امیر گل سے کہا،’’مجھے ڈاکٹر نے طبی معائنہ کے لیے کراچی جانے کو کہا ہے۔ جاوید کا کہناہے کہ ہمیں اس میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے رقم کا انتظام بھی ہو گیا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
امیر گل نے کہا،’’جتنا جلد ہو سکے تم چیک اپ کرالو۔تمھاری بھابی کا ایک بھائی کراچی میں کاروبار کرتا ہے۔ میں اس کو خط لکھ دوں گا۔ تم کراچی جا کر اس کے گھر ٹھہرنا۔‘‘ 
’’ہم سب کراچی جائیں گے۔‘‘شاداب بولی۔
’’ ہاں ہاں! تم سب وہاں ٹھہر سکتے ہو۔‘‘امیر گل نے کہا۔
  دو دن کے اندر مرجان، جاوید اور شاداب کراچی روانہ ہو گئے۔ مہتاب دیکھ بھال کے لیے گھر پر ہی رک گیا۔ کراچی پہنچنے پر امیر گل کی بیوی کے بھائی نے ریلوے اسٹیشن پر ان کا استقبال کیا اور پھر مرجان کو بڑے ہسپتال میں ماہر ڈاکٹر کے پاس لے جا کر اس کا طبی معائنہ کرایا۔ ان لوگوں کو ایک ہفتے کراچی میں ٹھہرنا پڑا۔ اس دوران جاوید اور شاداب نے کراچی کے مشہور مقامات کی سیر کی۔ وہ سمندر دیکھنے کلفٹن اور کیماڑی گئے۔ انھوں نے چڑیا گھر ،ہل پارک، عزیز بھٹی پارک ،سفاری پارک کی سیر بھی کی اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا مزار بھی دیکھا۔
ڈاکٹر نے مرجان کے معائنہ کی رپورٹ تیار کر کے جاوید کو دے دی۔ اس میں سرطان کی بیماری کا کوئی ذکر نہ تھا۔ بس پیٹ میں تھوڑی سے خرابی کاذکر تھا جس کے لیے کچھ دوائیں تجویز کی گئی تھیں۔
جب یہ لوگ واپس اپنے گھر گلاب ڈھیری پہنچے تو پتا چلا کہ رحمت نے اپنی ویگن بیچ دی ہے۔وہ ان سے ملنے ان کے گھر بھی نہیں آیا۔جاوید رحمت کی خیریت معلوم کرنے ان کے گھر گیا۔
’’آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے آپ آئے نہیں تو فکر ہوئی۔‘‘جاوید نے پوچھا۔
  ’’ہاں میں ٹھیک ہوں تم سناؤ تمھاری امی کا کیا حال ہے۔ رپورٹ تو ٹھیک ہے؟‘‘رحمت خان نے معلوم کیا۔ 
جاوید نے اسے رپورٹ کے بارے میں بتایا اور کہا کہ فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ جاوید نے کہا،’’رحمت چچا۔ آپ نے تو ویگن بیچ دی ہے اب ہم نیلام دیکھنے کے لیے بغلام کیسے جائیں گے ؟‘‘
’’فکر نہ کرو ۔میں تمھیں ٹیکسی میں وہاں لے جاؤں گا۔‘‘ رحمت نے تسلی دی۔
  اور پھر نیلام کا دن بھی آگیا۔ رحمت ان سب لوگوں کو ایک ٹیکسی میں بغلام لے گئے۔ نیلام کی جگہ پر بہت بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ ہر شخص کی زبان پر گلاب ڈھیری کے نیلم کاذکر تھا۔ نیلام شروع ہوا تو بہت سے لوگوں نے اس کی بولی لگائی۔ آخر میں سواد و لاکھ روپے میں اس کا سودا طے ہوا۔
مرجان کو اس میں سے ایک لاکھ اسی ہزار روپے ملے۔ اس کے علاوہ اسے چھوٹے چھوٹے ہیروں کے بھی دس ہزار روپے مل گئے۔ شام کو مرجان ،بچے، رحمت خان، عالم اور مہتاب سب گھر پر جمع تھے۔
’’ اب ہمیں سب کا حساب چکانا ہے۔‘‘مرجان نے جاوید سے کہا ۔’’عالم کو کیا دیا جائے؟‘‘ مرجان نے پوچھا۔
’’آپ اس کو دو ہزار روپے بھی دے دیں گی تو یہ بہت ہوں گے۔‘‘ رحمت نے کہا۔
’’ اتنے کم؟‘‘جاوید بولا۔’’رحمت چچا ہمیں اس کو کم سے کم پانچ ہزار روپے تو دینا چاہییں۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے۔ ہم عالم کو پانچ ہزار روپے دیں گے۔‘‘مرجان اور شاداب نے کیا۔
’’رحمت بھائی! ہم آپ کا شکریہ کیسے ادا کریں۔‘‘جاوید کی امی نے کہا ،’’ہمیں پہلے تو وہ پندرہ ہزار روپے واپس کرنا ہیں۔ آپ نے کسی سے ادھارلیے تھے۔‘‘
’’یہ ادھار نہیں تھا۔‘‘مہتاب نے بتایا، ’’رحمت چچانے اپنی ویگن بیچ کر آپ لوگوں کو کراچی جانے کے لیے روپے فراہم کیے تھے۔‘‘
  ’’رحمت چچا آپ عظیم انسان ہیں۔‘‘جاوید نے کہا،’’آپ نے ہمارے لیے بڑی قربانی دی۔‘‘
’’ہمیں ہیرے کی رقم میں سے کم سے کم پچاس ہزار روپے رحمت بھائی کو دینا چاہیں۔‘‘مرجان نے کہا۔
’’جی ہاں امی! اگر رحمت چچا ہماری مدد نہ کرتے تو ہم یہ کام کبھی نہ کر سکتے۔‘‘
’’ نہیں۔ میں سوائے اپنے دیے ہوئے ادھار کے رپوں کے اور کچھ نہیں لوں گا۔‘‘رحمت خان نے کہا۔
’’آپ کو انکار نہیں کرنا چاہیے۔‘‘مرجان نے کہا،’’آپ کونئی ویگن خرید نا ہو گی اور بھی بہت سے دوسرے کام کر یں گے۔‘‘
’’ ٹھیک ہے!‘‘رحمت بولے، ’’اگر آپ لوگوں کی یہی خوشی ہے تو پھر یوں کیجیے کہ ایک ٹیکسی خرید لیجیے۔ میں اسے چلاؤں گا۔ اور اس سے جو بھی آمدنی ہو گی اسے ہم آدھی آدھی کر لیں گے۔‘‘
’’نہیں نہیں! ایسا نہیں ہو گا۔ ٹیکسی آپ کے نام پر خریدی جائے گی اور آپ ہی کی ملکیت ہوگی اور اس کی ساری آمدنی بھی آپ کی ہوگی۔‘‘ مرجان نے فیصلہ کن لہجے میں جواب دیا۔
اب جاوید اور شاداب کی چھٹیاں بھی ختم ہو گئیں۔
  وہ جب اپنے اسکول گئے تو ان کی بڑی تعریف ہوئی۔
٭٭٭
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top