skip to Main Content

دوسری بس

کہانی:The Wrong Bus
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔

کالن اور سوئی اپنی خالہ فائیلیس سے ملنے ان کے گھر گئے۔خالہ کے ساتھ خوب صورت اور یادگار وقت گزارنے کے بعد جب واپس ہونے لگے تو خالہ نے ان سے کہا:
’’تمہیں معلوم ہے ناں ۔۔۔کہ کون سے کونے پر بس کا انتظار کرنا ہے۔۔۔؟سڑک کے اختتام پر وہی موڑ۔۔۔ جس کے پاس ایک بڑا سا شاہ بلوط کا درخت ہے۔۔۔ بس ہمیشہ وہیں رکتی ہے۔‘‘
اوربچے بس پکڑنے کو اٹھ کھڑے ہوئے۔
خالہ فائیلیس شہر سے دور ایک قصبے میں رہتی تھیں اور یہ بچے بل کھاتے راستوں ، پگڈنڈیوں، اونچی اونچی جھاڑیوں اور خود رو سدا بہار پودوں کے دلدادہ تھے جن پر زرد رنگ کے پھول سال بھر کھلے رہتے تھے۔
’’کیا یہ موڑ ہم درست راستے کی جانب مڑے ہیں؟‘‘ اچانک سوئی نے سوال کیا۔’’مجھے تو یہ راستہ دیکھا بھالا معلوم نہیں ہوتا۔‘‘
’’اچھا!!۔۔۔مگر دیکھو!۔۔۔اس طرف سڑک کے اختتام پر شاہ بلوط کا ایک بڑا سا درخت تو موجود ہے۔‘‘کالن بولا۔’’ اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ سب کچھ بالکل ٹھیک ہے۔ اب یہاں کھڑے ہو کر انتظار کرتے ہیں۔‘‘
بالکل قریب ہی سڑک کا اختتام جہاں تھا لکڑی کی چند نشستیں لگی ہوئی تھیں اور ان پر مختلف لوگ بیٹھے انتظار کر رہے تھے۔ دونوں بچے ٹکٹکی باندھے انہیں دیکھنے لگے۔یہ عجیب سا اجنبی ماحول ان کے لیے خاصا حیران کن تھا۔
انتظار کرنے والوں میں انہیں ایک بوڑھا شخص نظر آیا جس نے لال رنگ کی ٹوپی لگا رکھی تھی اور اس ٹوپی پر ایک پیلے رنگ کا لمبا پر لگا ہوا تھا۔قدرے بڑی عمر کی دو خواتین جن میں سے ایک کے کندھے پر دل کش رنگوں والا ایک توتا بیٹھا تھاجبکہ دوسری نے گود میں ایک سیاہ بلی اٹھا رکھی تھی جس کی آنکھیں کٹے ہوئے سیب کی طرح سبزتھیں۔وہاں ایک نوجوان خاتون بھی موجود تھی جس کی گود میں ایک بچہ تھا۔یہ بچہ اتنا ہی معصوم اور دل کش تھا جتنے کہ بچے ہوا کرتے ہیں مگر اس کے نہایت عجیب سے کان نیلی ٹوپی کے نیچے سے نکلے کھڑے تھے۔ بچے کے کان معمول سے زیادہ لمبے تو تھے ہی مگر ان کی نوکیں بھی اوپر کو نکلی ہوئی تھیں۔اس چھوٹی دنیا نے ہاتھ میں ایک جھنجھنا پکڑ رکھا تھا جس سے اچھوتی سی ’’چھن چھن‘‘ کی آواز آرہی تھی۔
اسی وقت بس آپہنچی اور لوگ اسے پکڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔یہ نیلے رنگ کی ایک خوش نما بس تھی جس کے پہییے لال اور چھت پیلے رنگ کی تھی۔ کالن اور سوئی یہ انتظار کیے بغیر کہ پہلے اترنے والے اتر جائیں۔۔۔ باقی سب کو سامنے سے دھکیلتے ہوئے اور بزرگ کو کہنی مارکے ایک طرف ہٹاتے ہوئے بس میں جا گھسے جوکہ ان کا معمول تھا۔
’’یہ کیا بد اخلاقی ہے!‘‘ بوڑھے آدمی نے کہا مگر کالن اور سوئی نے کوئی پروا نہ کی۔وہ بس میں سوار ہو چکے تھے اور انہیں اور کسی سے نہ تو کوئی مطلب تھا، نہ کسی کی فکر۔وہ آرام سے بیٹھ گئے۔بس زیادہ ہی بھری ہوئی تھی اور بوڑھی خاتون کے بیٹھنے کو کوئی نشست خالی نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دھاتی ڈنڈے کو پکڑے راہ داری میں کھڑی تھیں۔
’’اے لڑکے! تم کھڑے ہو جائواور اپنی نشست اس بزرگ خاتون کو دے دو۔‘‘بزرگ شخص نے کہا۔’’تم کچھ اخلاقیات بھی جانتے ہو؟ تمہارے دل میں ذرا بھی ہمدردی ہے؟۔۔۔اور تم دیکھ نہیں رہے کہ ایک بوڑھی خاتون جس نے خریداری بھی کر رکھی ہے۔۔۔اور تھکی ماندی ہے، وہ کھڑی ہوئی ہے۔‘‘
’’ میںنے اپنی نشست کا کرایہ ادا کیا ہے اور میں یہاں بیٹھنے کا حق رکھتا ہوں۔‘‘ کالن نے روکھا سا جواب دیا۔وہ ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتا تھا چاہے دنیا ادھر سے ادھر ہی کیوں نہ ہوجائے اور اب بھی وہ کھڑے ہو کر اپنی نشست کسی کو نہیں دینے لگا تھا۔
اتنے میں کوئی اور سواری کھڑی ہوگئی اور بزرگ خاتون ایک آہ بھرتی ہوئی نشست پر بیٹھ گئیں۔ عین اسی لمحے ایک اور خاتون گود میں بچہ اٹھائے بس میں سوار ہوئی اور لوہے والا ڈنڈا پکڑ کر راہ گزر میں کھڑی ہوگئی۔ بزرگ خاتون نے سوئی کو پیچھے سے ٹہوکا دیا۔’’کھڑی ہو جائو اور نشست اسے دے دو۔ تمہیں نظر نہیں آتا کہ تم بیٹھی ہو اور کوئی دوسرا صحت مند بچے کو اٹھائے کھڑاہے۔‘‘
’’آپ خود کیوں کھڑی نہیں ہو جاتیں؟‘‘ سوئی نے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ جواب دیا۔
’’ کیسے ہول ناک بچے ہیں!‘‘ بزرگ خاتون بولیں۔ اسی لمحے ان کی کالی بلی نے سوئی کوپنجہ مارا جس سے اس کے ہاتھ پر ایک خراش پڑ گئی۔سوئی نے پہلے چیخ ماری اور پھر ایک زوردار ضرب بلی کو لگائی جس کے رد عمل میں بلی نے ایک اور خراش لگادی۔
’’میری بلی تک یہ سوچ رہی ہے کہ تم ایک گندی بچی ہو۔‘‘بزرگ خاتون بولیں،پھر بلی سے مخاطب ہوئیں۔’’سوتی۔۔۔! کسی کو خراشیں مت لگائو جب تک کہ کوئی زیادہ ہی وحشت ناک نہ ہو جائے۔‘‘
پھر کالن کے سامنے کھڑی خاتون کے بچے کا جھنجھنا گرگیا۔ کالن نے دیکھا بھی کہ جھنجھنا گرگیا ہے مگر اس نے ہاتھ بڑھا کراٹھانے کی زحمت نہ کی اور آرام سے بیٹھا سامنے کی طرف دیکھتا رہا۔
’’مہربانی کرکے بچے کا جھنجھنااٹھا دیجیے۔‘‘نوجوان خاتون نے کالن سے کہا،’’ میں بچہ اٹھائے ٹھیک سے جھک نہیں سکتی۔‘‘
کالن نے کوئی توجہ دی اور نہ ہی جھنجھنا اٹھاکر دیا۔
’’کس قدرناپسندیدہ لڑکا ہے۔‘‘ بزرگ شخص نے کہا اور جھنجھنا اٹھانے کو جھکنے لگے۔ وہ جیسے ہی جھکے، ان کی جیب سے کوئی چیز نکل کر نیچے گر گئی جس کا ان کوتو پتا نہ چل سکا مگر کالن کو ضرور چل گیا۔یہ چمڑے کا ایک چھوٹا سا بٹوہ تھا۔کالن نے فوراً اس پر اپنا پیر رکھ دیا اور پھر جان کر اپنا دستی رومال نیچے گرادیا۔رومال اٹھانے کے بہانے وہ نیچے جھکا اور رومال کے ساتھ بٹوہ بھی اٹھالیا۔وہ ابھی اسے جیب میں ڈالنے ہی لگا تھا کہ بزرگ خاتون کا توتا زور زور سے چلانے لگا۔’’ یہ چور ہے! یہ چور ہے! یہ چور ہے!‘‘
ہر شخص ایک دوسرے کودیکھنے لگا…چور کون تھا؟بزرگ شخص نے دیکھا تو کالن کا چہرہ لال ہو گیا۔بزرگ نے دیکھا کہ اس کا ہاتھ اس کی جیب کی طرف جا رہا ہے اور بٹوہ بھی جیب کی نذر ہونے ہی والا ہے۔
’’ تم نے میرا بٹوہ اٹھایا ہے؟‘‘ وہ چلائے۔’’ہاں۔۔۔؟ تمہارے ہی پاس تو ہے اے گندے لڑکے! اسے اوپر اٹھائو اور مجھے واپس کرو!‘‘
کالن گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔’’میں نے آپ کا بٹوہ نہیں اٹھایا۔‘‘ وہ بولا۔
’’ یہ کہانیاں کر رہا ہے…یہ کہانیاں کر رہا ہے۔‘‘ توتے نے برہم ہوتے ہوئے کہا اور پھر زور زور سے آوازیں نکالنے لگا۔
اتنے میں کنڈکٹر آگیا۔ اس نے کالن کی جیب میں ہاتھ ڈال کر بٹوہ برآمد کرلیا…اُس لمحے ہر کسی کی کی سانسیں تیز چل رہی تھیں اور دل زور زور سے دھڑک رہے تھے۔
’’ یہ بچے نہ صرف یہ کہ بداخلاق ہیں بلکہ بددیانت، جھوٹے اور سنگ دل بھی ہیں۔‘‘ دہشت زدہ بزرگ شخص نے کہا۔
’’سادہ سی بات ہے کہ ان کے ماں باپ بھی انہی کی طرح خوف ناک ہوں گے۔‘‘ بلی والی بزرگ خاتون نے کہا۔
’’ہاں، ضرور یہ غلط چیزیں انہوں نے ہی اپنے بچوں کو سکھائی ہیں۔‘‘ بزرگ شخص نے سر جھکاتے ہوئے کہا۔’’کتنے ہی افسوس کی بات ہے کہ دیکھنے میں یہ بچے کتنے سلجھے ہوئے لگتے ہیں مگرہیں نہیں…بالکل بھی نہیں۔‘‘
’’میرے خیال میں بہت ہی بہترہوگا کہ ہم انہیں درویش خاتون کے پاس لے جائیں۔‘‘توتے والی بزرگ خاتون بولیں۔’’یہ کام وہی کر سکتی ہیں کہ ان بچوں کو ان کے برے والدین سے لے کر ان کے بدلے میں ان کو اچھے والدین دیں جو انہیں اخلاقیات، ہمدردی اور دیانت داری سکھائیں۔اور ویسے بھی والدین اگر اپنے بچوں کویہ سب کچھ نہ سکھائیں تو ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘
’’میری امی بہت اچھی اور پیاری ہیں۔‘‘ سوئی چلائی۔’’ ان کے بارے میں کچھ بھی کہنے کی ہمت مت کرنا۔‘‘
’’ اور میرے والد ایک مصروف ڈاکٹر ہیں۔وہ روزانہ نہ جانے کتنے ہی لوگوں کا علاج کرتے ہیں ،لہٰذا ان کے بارے میں کوئی غلط لفظ منہ سے مت نکالنا۔‘‘ کالن چیخا مگر اچانک اسے خوف محسوس ہونے لگا۔ بس میں بیٹھے سارے ہی لوگ عجیب سے تھے جن سے اجنبیت ٹپک رہی تھی۔ کیا اس نے اور سوئی نے غلط بس پکڑ لی تھی…؟
’’ ہم تمہاری بات کا یقین نہیں کر سکتے۔‘‘ بزرگ شخص نے کہا۔’’ اگر تمہارے والدین اچھے ہوتے تو تمہیں اچھی چیزیں سکھاتے۔ تم ہمدرد اور مہربان ہوتے۔ تمہارے اخلاق اچھے ہوتے اور تم اچھے رویے کا مظاہرہ کرتے مگر حقیقت یہ ہے کہ تم بھیانک قسم کے بچے ہو۔‘‘
’’اور ہم نے ہمیشہ یہی مشاہدہ کیا ہے کہ شرانگیز بچوں کے والدین بھی شر انگیز ہی ہوتے ہیں۔‘‘توتے والی بڑھیا نے کہا تو توتا بھی تائید میں زور زور سے سر ہلانے لگا۔
’’تمہارے والدین اگر دیانت دار ہوتے تو تم چورکیسے ہو سکتے تھے؟‘‘ بزرگ شخص نے کہا۔تم ضرور انہیں کی نقل کرتے ہو۔اگر وہ سچے ہیں تو تم کیسے جھوٹے بن گئے…؟ بچے ہمیشہ اپنے امی ابو ہی کی نقل کرتے ہیں۔ جب ہم بچوں کو دیکھتے ہیں تو اچھی طرح جان جاتے ہیں کہ ان کے والدین کیسے ہیں۔‘‘
’’میں نے تمہیں پہلے بھی بتایا ہے کہ میرے والد ایک ہمدرد اور ایمان دار انسان ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر شخص ان سے محبت کرتا ہے۔‘‘ سہمے ہوئے کالن نے کہا۔
’’ اور میں جانتی ہوں کہ میری امی ہر ایک کے ساتھ کتنی خوش اخلاقی سے پیش آتی ہیں۔‘‘ سوئی نے روتے ہوئے کہا۔’’ یقین کیجیے وہ ایسی ہی ہیں…‘‘
’’ یقین نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ بزرگ شخص بولے۔’’یہ ممکن ہی نہیں…تمہاری ماںضرور تمہاری ہی جیسی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ ہر کسی کو دھکے دے کر ہٹاتی ہے اور بس میں سوار ہو جاتی ہے۔۔۔اور پھر اس سے پہلے کہ کوئی اور بیٹھے۔۔۔نشست پر براجمان ہو جاتی ہے اور اسے کوئی پروا نہیں ہوتی ہے بوڑھے مرد یا خواتین کھڑے ہیں۔۔۔اور وہ ان لوگوں سے بٹوے بھی چرا لیتی ہوگی اور…‘‘
’’اوہ،اوہ۔ کتنی بد لحاظی کے ساتھ آپ یہ سب باتیں کیے جا رہے ہیں۔‘‘ سوئی بھیگی آنکھوں کے ساتھ اپنی بامروت اور ہمدرد ماں کے بارے میں سوچنے لگی۔’’ امی ایسی نہیں ہیں…بالکل ایسی نہیں ہیں،وہ تو ہمیشہ ہی سے مہربان ہیں۔‘‘
’’ بہتر یہی ہے کہ ہم درویش خاتون کے پاس چلیں اور ان بچوں کے والدین کے نام انہیں بتا کر یہ دیکھیں کہ جو کچھ یہ بچے بتا رہے ہیں…کہیں خدا نخواستہ یہ سچ تو نہیں۔‘‘ بزرگ آدمی نے کہا۔’’ کنڈکٹر…!! مہربانی کرکے درویش خاتون کی کٹیا کے سامنے بس رکوائوگے …؟‘‘
آدھ منٹ بعد ہی ہارن بجا اور بس رک گئی۔ہر ایک،حتیٰ کہ بلی تک اٹھ کھڑے ہوئے اور سامنے دو سہمے ہوئے بچوں کو دھکیلتے ہوئے شکستہ اور مضحکہ خیز کٹیا کی طرف چل پڑے جو قریب ہی تھی۔
’’ہم نے غلط بس پکڑ لی ہے…!!‘‘ کالن نے سوئی سے سرگوشی کی۔’’ خدا ہی جانتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں اور ہمیں کہاں لیے جا رہے ہیں۔‘‘
درویش خاتون ایک متأثر کن شخصیت کی مالک تھیں۔بوڑھی ہونے کے باوجود ان کے چہرے پر جوانوں جیسی رونق تھی۔انہوں نے سردیوں کے آسمانی رنگ جیسا نیلے رنگ کا چوغہ پہن رکھا تھا۔اس لباس میں بھی کچھ ایسا عجیب تأثر تھا کہ چمکتی دھند جیسامعلوم ہوتا تھا۔
بزرگ شخص نے وضاحت کے ساتھ اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو درویش خاتون نے اپنی نظریں اُن دونوں کی طرف گھمائیں اور بولیں:
’’مجھے ان دونوں بچوں میں بد تمیزی اور بے رحمی نظر آرہی ہے۔‘‘ انہوں نے پانی کی موجوں کی ترنگ جیسی آواز میں کہا۔’’ ان کے دل بہت سخت ہیں…ہاں! میرا خیال ہے کہ ہمیں ضرور ان کے والدین کو تبدیل کرکے ان کی جگہ دوسرے دینے چاہئیں۔کوئی بچہ اچھی نشو ونما پاہی نہیں سکتا اگر اس کے والدین اچھے نہ ہوں…نالائق والدین بچوں کو خراب کردیتے ہیں بلکہ ان کو بے رحم اور ناقابل اعتماد بھی بنا دیتے ہیں۔‘‘
انہوں نے ایک لچک دار چھڑی اٹھا کر پہلے سوئی اور پر کالن کی طرف اشارہ کیا۔
’’آپ کیا کر رہی ہیں؟‘‘کالن دہشت زدہ ہو کر چلایا۔’’ہمیں نئے والدین نہیں چاہئیں۔ ہم اپنے ہی والدین سے محبت کرتے ہیں جو اچھے بھی ہیں اور مہربان بھی۔‘‘
’’ میں ممکن حد تک یہ جاننے کی کوشش کروں گی کہ ان بچوں کے والدین خراب ہیں کہ نہیں…‘‘ درویش خاتون نے کہا اور ایک گول آئینہ ہاتھ میں تھام کراس میں غور سے دیکھنے لگیں۔ کالن نے کوشش کی کہ وہ بھی آئینے میں جھانک لے مگر اسے اپنے چہرے کے علاوہ اس میں گھومتے ہوئے بگولے نظر آرہے تھے۔
درویش خاتون چند منٹ تک خاموش رہیں۔ ہر فرد صبر کا دامن تھامے خاموشی اور تحمل کے ساتھ انتظار کر رہا تھا۔سوئی پر کپکپی طاری ہوگئی۔وہ سوچ رہی تھی کہ کتنی خوف ناک بات ہوگی کہ اگرہم اپنے ہی رویے کی وجہ سے اپنے والدین کو کھودیں…وہ نئے والدین نہیں چاہتی تھی۔
’’ اب یہ بھی ایک عجیب بات ہے۔‘‘ درویش خاتون نے آئینہ نیچے رکھتے ہوئے کہا۔’’یہ بچے اپنے ماں باپ کے بارے میں سچ کہہ رہے ہیں۔ وہ اچھے اور خوش اخلاق تو ہیں ہی مگر اس سے زیادہ وہ مہربان اور قابل اعتماد بھی ہیں۔ان کو یقین ہے کہ ان کے بچے من بھاتے اورمہربان ہیں …اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے مکار ہیں اور بد اخلاقی کا مظاہرہ صرف اس وقت کرتے ہیں جب یہ گھر سے باہر ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے والدین کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ حقیقت میں یہ کتنے بدتمیز اور سنگ دل ہیں۔‘‘
’’ایک برا بچہ برے والدین ہی سے آتا ہے۔‘‘ بزرگ شخص نے ڈھٹائی سے کہا۔’’ ہم ہمیشہ سے یہی جانتے ہیں کہ …اگر آپ نے دیکھنا ہو کہ اس بچے نے اپنی ماں سے کیا حاصل کیا ہے تو اس کے رویے کو دیکھو، آ پ کو پتا چل جائے گا۔‘‘
’’ بالکل درست کہا۔‘‘ توتے والی بڑھیا نے کہا۔‘‘ جب میں کسی اخلاق سے عاری بچے کو دیکھتی ہوںتو یہی کہتی ہوں کہ چونکہ اس کی ماں کو کسی چیز کا پتا نہیں اس لیے وہ اس کو بھی کچھ نہ سکھا سکی…درویش خاتون!ان بچوں کے والدین تبدیل کردیجیے۔ آپ کا آئینہ کچھ بھی کہے مگر ان لوگوں نے خراب ہی رہنا ہے۔‘‘
سوئی سسکیاں لینے لگی جبکہ کالن بھی پیلاپڑ گیا۔’’مہربانی کیجیے!‘‘ وہ بولا۔’’ہمیںایک موقع اور دیجیے۔میں جانتاہوں کہ خراب ماں باپ ہی بچوں کو خرابی کے ساتھ پروان چڑھاتے ہیں مگر ہمارے معاملے میں ہم ہی غلط ہیں… ہم ہی نے نہیں سیکھا۔ہمارے پاس اچھے والدین ہیں مگر ہم ہی نے ان کی قدر نہیں کی…ہم ہی نے ایسا رویہ اپنایا جیسے ہمیں سب کچھ بُرا ملا ہو…‘‘
’’مگر ہم دوبارہ ایسا نہیں کریں گے۔‘‘سوئی نے کہا۔اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔’’ میں نہیں سمجھتی کہ لوگ ہمارے رویے کی وجہ سے ہمارے والدین کو جان سکتے ہیں…جیسا کہ میں جانتی ہوں کہ آپ لوگوں نے یہ اندازہ لگایاکہ ہمارے والد اور والدہ خراب ہیں۔ مجھے اپنا رویہ بہتر کرنا چاہیے تھا…مگر میں اب کروں گی…اگر آپ لوگوں نے ہمیں ایک موقع اور دیا۔‘‘
’’ میں ہمیشہ ہی لوگوں کو موقع دیتی ہوں۔‘‘ درویش خاتون نے اپنی شفاف اور گہری آنکھوں سے بچوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔’’لہٰذا تمہارے پاس بھی ایک موقع ہے۔گھر کے لیے اگلی بس پکڑو،اور ہاں…اس بار ٹھیک بس پکڑنا،تم نے پہلے بھی غلط بس پکڑ لی تھی مگر یاد رکھو کہ اگر تم نے مجھ سے اور ان لوگوں سے کوئی سبق سیکھا ہے تو پھر یہ بات معنی نہیں رکھی…اب جائو!‘‘
بچے ایک مرتبہ پھر بھاگ کھڑے ہوئے۔انہوں نے دیکھا کہ بس’’گھررگھرر‘‘ کرتی ہوئی سڑک پر چلی آرہی ہے۔وہ ان کے قریب آکر رک گئی اور وہ لپک کر اس پر چڑھ گئے۔ارد گرد نظریں دوڑائیں۔ہاں…اب والے لوگ بالکل معمول کے مطابق لگ رہے تھے ،نہ کالی بلیاں تھیں، نہ بک بک کرنے والا توتا اور نہ ہی نوکیلے کانوں والے بچے۔
اگلے اسٹاپ سے ایک بزرگ خاتون سوار ہوئیں۔ کالن نے فوراً کھڑے ہو کر اپنی نشست انہیں پیش کی۔وہ احسان مندی کے ساتھ بیٹھ گئیں۔
’’ کیا ہی عمدہ اخلاق والا بچہ ہے۔‘‘ انہوں نے اپنے پڑوس میں بیٹھی خاتون سے کہا۔’’ اس نے ایک اچھی ماں پائی ہے…اس میں کوئی شک نہیں۔‘‘
کتنا عجیب ماجرا تھا، ہے کہ نہیں؟…مجھے تعجب ہے کہ لوگ آپ کا برتائو دیکھ کر آپ کے امی ابوکے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
ایک لمحے کے لیے سوچیے، آپ کی سمجھ میں آجائے گا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top