غدود یا ہارمون
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
نوید اپنے اساتذہ اور اسکول کے دوستوں کے ساتھ آج شہر کی تفریح گاہ گیا تھا۔ وہاں سے گھر واپسی پر وہ گھر کے تمام افراد کو تفریح گاہ کی باتیں بتانے لگا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ گھر کے تمام لوگوں کو ابھی تفریح گاہ لے جائے۔اس نے بڑے جوش سے کہا:
”امی! اتنے اونچے اونچے جھولے ہیں جو بجلی سے چلتے ہیں اور لوگ گھومتے ہیں اور لوہے کی اونچی نیچی چکر کھاتی پٹریوں میں چھوٹے چھوٹے ڈبے اتنی تیزی سے دوڑتے ہیں کہ ان ڈبوں میں بیٹھے لوگوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ میرا تو سر چکرانے لگا تھا۔ دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ کیا بتاؤں۔“
ڈاکٹر خورشید بھی نوید کی یہ باتیں سن رہے تھے۔ انھوں نے چائے کی پیالی ہاتھ سے رکھتے ہوئے پوچھا:
”تمہیں معلوم ہے، تیز دوڑنے والی اور اونچی نیچی پٹریوں پر تیزی سے چکرانے والی گاڑی ”رولر کوسٹر“ میں بیٹھ کر تمہارا دل تیزی سے کیوں دھڑ کنے لگا تھا؟“
”یہ تو ہوتا ہی ہے، بھائی جان سب کے ساتھ۔“ نوید نے جواب دیا تو ڈاکٹر خورشید بولے:
”ہوتا تو ہے لیکن اس کی کوئی وجہ بھی ہوتی ہے۔ دراصل یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے جسم کی حفاظت کا ایک بڑا تفصیلی اور شاندار نظام ہے۔“
”تفصیلی اور شاندار نظام؟“ نوید نے حیران ہو کر کہا۔
”ہاں، ہمارے جسم میں مختلف کاموں کو کنٹرول کرنے کے لیے اللہ نے دو بہترین نظام عطا فرمائے ہیں۔ ایک تو ہے اعصابی نظام جس میں دماغ سے نکلنے والے اعصاب پورے جسم میں پہنچ کر دماغ کے احکام پہنچاتے ہیں اور دوسرا ہے ہارمون کا نظام جن میں مختلف غدود سے خارج ہونے والے مخصوص کیمیائی مادے جسم کے مختلف حصوں میں پہنچ کر کئی قسم کے افعال کو کنٹرول کرتے ہیں۔“
”بھائی جان یہ ہارمون کتنی مقدار میں خارج ہوتے ہیں؟“
”تمھیں یہ جان کر حیرت ہوگی کہ غدود خارج ہونے والے ہارمون کی مقدار بہت کم ہے۔ ملی گرام میں یا اس سے بھی کم لیکن یہ درست جگہ پہنچ کر مطلوبہ عضو کو کام کرنے پر آمادہ کر دیتے ہیں۔“
”یہ ہارمون کیا کسی عضو میں پہنچ کرحل ہو جاتے ہیں؟“
”نہیں، ہارمون نہ تو ہضم ہوتے ہیں نہ تبدیل ہوتے ہیں، بس وہ ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں اور ان کے حصے پیشاب یا فضلے میں جسم سے خارج ہو جاتے ہیں۔“
”بھائی جان، ہارمون نہ تو ہضم ہوتے ہیں، نہ کسی سے ملتے ہیں، پھر وہ اپنا کام کس طرح کرتے ہیں۔“
”یہ اللہ کا بنایا ہوا حیرت انگیز نظام ہے کہ ہر ہارمون خون میں شامل ہو کر سیدھا اسی جگہ پہنچتا ہے جہاں کے لیے وہ بنایا گیا ہے۔ ہر خلیے میں ایک یا ایک سے زیادہ ہارمون کو قبول کرنے والے حصے ہوتے ہیں۔ ہارمون آکر ان حصوں سے اس طرح جڑ جاتا ہے جیسے تم ”جگسا“ کے ٹکڑے جوڑ کر مکمل تصویر بنا لیتے ہو۔ تم نے دیکھا ہوگا، کسی تصویر کے بہت سے ٹکڑے کر دیے جاتے ہیں اور جب تک ہر ٹکڑا دوسرے ٹکڑے سے مناسب جگہ پر نہیں مل جاتا تصویر مکمل نہیں ہو پاتی۔ ہارمون بھی خلیوں سے اسی طرح جا کر ملتے ہیں، پھر وہ مختلف طریقوں سے خلیوں کو کیمیائی تبدیلیوں پر آمادہ کرتے ہیں۔ تمھیں معلوم ہے ہمارے خون میں شکر کی مقدار کو بھی ہارمون ہی قابو میں رکھتے ہیں۔“
”نہیں، مجھے نہیں معلوم۔“
”جن لوگوں کو شکر کی بیماری، ذیا بیطس ہو جاتی ہے، ان کے یہی ہارمون کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ ہمارے معدے کے قریب ایک عضو ہوتا ہے لبلبہ، یہ دو ہارمون پیدا کرتا ہے۔ ایک تو انسولین ہے جو جسم میں شکر کے استعمال کو تیز کرتی ہے، اس طرح خون میں شکر کی مقدار معمول پر رہتی ہے۔ دوسرا ہارمون گلوکاٹون ہے جو خون میں شکر کی مقدار عارضی طور پر بڑھا دیتا ہے۔ یہ دونوں ہارمون مل کر خون میں شکر کی مقدار کو مناسب سطح پر رکھتے ہیں۔“
”اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟“
”فائدہ؟ ارے بھائی، ہمارے تمام اعضا کے کام کرنے کا انحصار اسی بات پر ہے کہ انھیں ضروری مقدار میں تو انائی ملتی رہے۔ یہ توانائی غذائی شکر سے آتی ہے جو خون کے ذریعے سے ان اعضا تک پہنچتی ہے۔ اگر خون میں شکر کی مقدار کم ہو جائے تو اعضا تک شکر نہیں پہنچ جائے گی اور انھیں کام کرنے میں مشکل ہو گی۔ اگر خون میں شکر کی مقدار بڑھ جائے لیکن وہ اعضا تک نہ پہنچ رہی ہو تو بھی مشکل ہوگی۔ ایک بات اور سنو کہ ہماری نشوو نما میں بھی ہارمون اہم کردار ادا کرتے ہیں۔“
”اچھا؟“
”ہاں! اگر مخصوص ہارمون میں کمی یا اضافہ ہو جائے تو جسم یا تو چھوٹا رہ جاتا ہے یا بہت بڑا ہو جاتا ہے۔ تم نے بہت چھوٹے قد یا بہت بڑے قد والے انسانوں کے بارے میں پڑھا ہوگا۔“
”جی ہاں۔ تصاویر بھی دیکھی ہیں۔“
”اس لیے، ہمیں اللہ کا بہت زیادہ شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں مناسب بدن عطا فرمایا اور ہمارے اندر ایسا بہترین خودکار نظام پیدا فرما دیا جس کی وجہ سے ہمارے اعضا اپنے تمام کام ٹھیک طرح انجام دیتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے جسم کو ہمیشہ بھلائی کی خاطر استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔“
”آمین“ نوید نے بڑے خلوص سے کہا۔ اس کی آنکھوں میں اللہ کے شکر کے جذبہ سے آنسو بھر آئے تھے۔