skip to Main Content

امتحان اور سردرد

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

”نوید تمہیں کیا ہوا؟“
ڈاکٹر خورشید نے نوید کا بازو ہلا کر پوچھا۔ نوید اس وقت بازوؤں میں منہ چھپائے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔
”سر میں سخت درد ہو رہا ہے، بھائی جان۔“نوید نے منہ پر سے باز و ہٹائے بغیر جواب دیا۔
”اچھا، کب سے؟“ ڈاکٹر خورشید نے نوید کی نبض چھو کر دیکھی۔پھر بولے:
”بخار تو نہیں ہے، قبض تو نہیں؟“
”شاید وہ بھی ہے؟“ نوید کی کمزوری آواز آئی۔
”اور ہاں، تمھارا امتحان بھی تو ہے کل۔“ڈاکٹر خورشید نے یاد دلایا۔
”جی ہاں، بھائی جان، کل آخری پرچہ ہے، حیاتیات (بائیالوجی) کا۔“جواب ملا۔
”او ہو، یہ بات ہے، اچھا تو تیاری ہوگئی؟“ ڈاکٹر خورشید نے پوچھا۔
”ہو تو گئی ہے، مگر بھائی جان، اس پرچے کی تیاری کے لیے وقت کم ملا، اس لیے تین چار سوالوں کے جواب یاد نہیں ہو سکے۔“
”بس بس، میں سمجھ گیا۔ خیر، تم اٹھ کر کچھ کھا لو، پھر میں تمھیں دوا دیتا ہوں، اس کے بعد مجھے بتانا کہ کون سے سوالوں کے جواب یاد نہیں ہیں۔“ ڈاکٹر خورشید نے تسلی دی اور جا کر وضو کرنے لگے۔ انہیں عشا کی نماز ادا کرنی تھی۔
نوید بڑی مشکل سے اُٹھا۔ اس نے منہ ہاتھ دھو کر تھوڑی سی ڈبل روٹی دودھ کے ساتھ کھائی، پھر ڈاکٹر خورشید نے اسے دوا دی اور تھوڑی دیر سکون سے لیٹے رہنے کی ہدایت کر کے اخبار پڑھنے لگے۔ نصف گھنٹے بعد نوید کے سر کا درد خاصا کم ہو گیا تو ڈاکٹر خورشید نے اسے پاس بٹھا کر حیاتیات کے سوالوں کے جواب اتنی اچھی طرح سمجھائے کہ اسے پوری طرح یاد ہو گئے۔ آخری سوال کا جواب سمجھنے کے بعد نوید کچھ حیرانی سے بولا:
”بھائی جان! آپ نے جو دوا دی، اس سے مجھے اتنا سکون مل رہا ہے کہ کیابتاؤں، اب سر میں درد بالکل نہیں ہے۔“
ڈاکٹر خورشید مسکرائے اور بولے:
”ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ یہ بیماریاں اور تکالیف تو اللہ کی طرف سے آزمائشیں ہیں۔ ان کی وجہ سے مومن کے چھوٹے چھوٹے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ ویسے کوئی بھی تکلیف پہنچے تو انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھنا چاہیے۔ یہ دعا صرف کسی کے انتقال ہی پر نہیں پڑھی جاتی۔ اس کا مطلب ہے:”ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“ اللہ تعالیٰ اس دعا پڑھنے والے کو بہت زیادہ اجر دیتے ہیں اور اس کے نقصان کی تلافی کر دیتے ہیں۔“
”بھائی جان!میں نے یہ دعا تو پڑھ لی تھی۔ آپ نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کا علاج بھی پیدا فرمایا ہے۔ میں آپ کا انتظار کر رہا تھا کہ آپ آئیں تو آپ سے دوالے لوں۔“ نوید نے کہا۔
”اچھا اب سو جاؤ دعا پڑھ کر کل مجھے بتانا کہ سر میں درد پھر تو نہیں ہوا۔“

٭٭٭

اگلے دن ڈاکٹر خورشید کلینک سے واپس آئے تو نوید سے پوچھا: ”تمہاری طبیعت کیسی ہے؟“
”الحمد للہ ٹھیک ہوں، بھائی جان۔“ نوید آنکھیں ملتا ہوا بولا: ”بھائی جان! پر چہ اتنا شاندار ہوا ہے کہ بس۔ اگر آپ کل مجھے وہ سوالات نہ سمجھاتے تو میرا پرچہ اتنا اچھا نہیں ہوسکتا تھا۔“
”یہ تو اچھی بات ہوئی، اللہ کا شکر ہے۔ اب جاؤ نماز پڑھو۔“ ڈاکٹر خورشیدنے کہا۔
نوید نے نماز ادا کرنے کے بعد کھانا کھایا۔ پھر وہ ڈاکٹر خورشید کے قریب آکر بیٹھ گیا جو ایک کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے۔ اسے دیکھ کر ڈاکٹر خورشید نے کتاب رکھ دی اور بولے:
”نوید! اب تو سر میں درد نہیں؟“
”نہیں بھائی جان! الحمد للہ اب بالکل درد نہیں۔ ہاں، صبح امتحان دینے کے لیے جا رہا تھا تو اس وقت سر میں ہلکا درد تھا۔“ نوید نے بتایا۔
”میں سمجھ گیا، بیٹھو، میں تمھیں بتاتا ہوں کہ تمھارے سر میں درد کیوں ہو رہا تھا۔“
”بتائیے بھائی جان۔“
”در اصل نوے فی صد صورتوں میں سر کا درد تناؤ کی وجہ سے ہوتا ہے، جسے لوگ ٹینشن بھی کہتے ہیں۔ اس قسم کا درد، پریشانی، کرب، تھکن اور اداس رہنے کی وجہ سے شروع ہو جاتا ہے۔ سر کے پٹھے کھنچتے ہیں اور درد کا سبب بن جاتے ہیں۔ تمہارے معاملے میں یہی ہوا کہ تمھیں حیاتیات کے چند سوالوں کے جواب یاد نہیں ہو سکے تھے اور وقت محدود تھا، اسی فکر میں تمہارے سر میں درد ہو گیا۔ جب یہ فکر دور ہو گئی تو سر کا درد جاتا رہا۔ تم سمجھ رہے تھے کہ دوا کھانے سے در دختم ہو گیا۔“
”مگر بھائی جان! جب تک فکر رہے گی، سر میں درد تو ہوتا رہے گا۔“
”مومن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان اور توکل کی جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں، ان کے ہوتے ہوئے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ جب تم سچے دل سے یہ محسوس کرو گے کہ ساری آزمائشیں اور تکالیف اللہ کے حکم سے ہیں اور اللہ ہی ان تمام آزمائشوں اور تکالیف کو دور کرنے والا ہے تو یہ ایمان دل کو سکون بخشے گا۔ پھر جب اللہ پر مکمل بھروسا کر کے، مومن اللہ سے دعا مانگتا ہے تو اللہ کی یاد اس کے دل کو اطمینان عطا کرتی ہے۔ پھر اسے یہ بھی تسلی رہتی ہے کہ اللہ بہت مہربان اور بڑی قدرت والا ہے اور وہ اپنے بندوں کی دعا کو کبھی رد نہیں کرتا۔ پھر یہ یقین بھی ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ کے فیصلوں کو دل سے قبول کرنا ہے۔ اگر اس کا فیصلہ ہے کہ ہمیں تکلیف پہنچنی ہے تو ہم اس کے خلاف بولنے والے کون ہوتے ہیں۔ البتہ ہمیں اللہ سے مسلسل دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ آزمائشوں کو ٹال دے اور اپنی حفظ وامان میں رکھے۔“
”بھائی جان! تناؤ کی وجہ سے سر میں درد ہو تو کیا کرنا چاہیے؟“
”دوالی جا سکتی ہے لیکن دواؤں سے ہر شخص کو فائدہ نہیں پہنچتا،پھر زیادہ مقدار میں دواؤں کے باعث گردوں، معدے اور جگر کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دوا بار بار استعمال کریں تو اس کی عادت پڑ جاتی ہے۔ یہ بھی ہے کہ دوا کا اثر ختم ہوتے ہی پھر دوا کی ضرورت پڑ جاتی ہے، اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ دوا کے بغیر علاج کی کوشش کرنی چاہیے۔“
”وہ کیسے؟“
”ایک تو سردرد کے مریض کو بھوکا نہیں رہنا چاہیے۔ دوسرے، غذا میں مناسب تبدیلیاں لائی جائیں، مثلاً سبزیاں، پھل اور دالوں کا استعمال بڑھایا جائے۔ نمک، چینی، چکنائی اور گوشت میں کمی لائی جائے۔ پھر ایک اہم بات یہ ہے کہ تازہ پکی ہوئی غذا کھائی جائے، دیر سے رکھی ہوئی مسالے دار غذا، مناسب نہیں ہے۔“
”میں تو اکثر فریج میں دیر سے رکھی ہوئی چیزیں نکال کر کھا لیتا ہوں۔“ نوید نے شرمندگی سے کہا۔
”اب احتیاط کرنا۔ اچھا، ذرا ذرا سی بات پر، پریشان ہونے سے سر میں درد ہو جاتا ہے۔ درد کو دور کرنے کے لیے سکون سے بیٹھ کر گہرے سانس لیں۔ سر، گردن، کندھوں اور چہرے کے پٹھوں کو ڈھیلا کریں اور کوئی خوب صورت منظر اپنے تصور میں لائیں۔ دردسر عموماً عصر اور مغرب کے وقت زیادہ ہوتا ہے۔ اس کو روکنے کے لیے دو پہر کو آرام ضروری ہے۔ ایک خاموش اور تاریک کمرے میں لیٹنے اور آہستہ آہستہ، گہرے سانس لینے سے بھی ذہن میں کشادگی پیدا ہوتی ہے۔ ایسے موقع پر جسم کے تمام پٹھوں کو ڈھیلا چھوڑ دینا چاہیے۔“
”بھائی جان! مجھے جب بھی کوئی فکر ہوتی ہے کسی کام میں تاخیر ہورہی ہوتی ہے تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے میرا سر مضبوطی سے جکڑا ہوا ہے۔“
”یہی ہوتا ہے، اول تو تمام کام منصوبہ بندی سے اور ترتیب وار کرنے چاہئیں، جو کام زیادہ اہم اور فوری ہیں، انہیں پہلے کریں۔ پھر جن کاموں کو انجام دینے کے لیے مہارت درکار ہوں، ان کی مشق بہت پہلے سے شروع کر دینی چاہیے تا کہ عین وقت پر دشواری نہ ہو مثلاً کسی مضمون کے مشکل سوالات کی تیاری بہت دن پہلے سے شروع کر دیں۔“
”بھائی جان، کیا سر میں درد صرف فکر کی وجہ سے ہوتا ہے؟“
”نہیں، بعض دیگر امراض یا اندرونی خرابیوں کے باعث بھی ہوتا ہے لیکن ایسا کم ہوتا ہے۔ آپ پہلے تو دوا کے بغیر درد کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھ جائیں یا پلنگ پر لیٹ جائیں۔ اپنے تمام پٹھوں کو سر سے پاؤں کی انگلیوں تک کھینچ کر سخت کر لیں، دوسیکنڈ تک اسی طرح رہنے کے بعد پٹھوں کو ڈھیلا چھوڑ دیں۔ اب تین بار گہرے سانس لیں، پھر اپنی آنکھیں بند کر کے تصور کریں کہ آپ کسی خوشگوار تفریحی مقام پر موجود ہیں۔ دس منٹ تک یہ عمل جاری رکھیں، آپ کے اعصاب اور پٹھے پرسکون ہو جائیں گے۔“
”اور اگر پھر بھی سر کا درد اس سارے عمل سے دور نہ ہو تو؟“
”ہاں، اگر کئی بار سر میں درد ہو یا دوڑنے، کھانسنے، چھینکنے پر درد سر ہو یا درد کے ساتھ متلی اور قے ہو یا کسی خاص وقت سر میں درد ہو تو ڈاکٹر سے مشورہ لینا ضروری ہے۔اور ہاں، کھانے کے اوقات کی پابندی نہ کرنے والوں، خصوصاً ناشتا نہ کرنے والوں کو بھی سر میں درد کی شکایت ہو سکتی ہے۔ یہ لوگ پابندی سے کھانا کھانے کی عادت ڈال لیں اور ناشتا اچھا کیا کریں تو سر درد کی شکایت نہیں ہوگی۔“
”بھائی جان آپ کا بے حد شکریہ، آپ نے بہت کام کی باتیں بتائیں۔“
نوید نے کہا اور دوسرے کمرے میں جا کر بستر سکون سے لیٹ گیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top