skip to Main Content

ہماری ہڈیاں

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

”امی! آج کیسا سالن بنایا ہے آپ نے، ہڈیاں ہی ہڈیاں نظر آ رہی ہیں، گوشت تو شاید ہے ہی نہیں۔“ نوید نے بسم اللہ پڑھ کر پہلا لقمہ منہ میں رکھتے ہی احتجاج کیا۔
”میں کیا جانوں بیٹے، گوشت تو آپ ہی خرید کر لائے تھے۔“ امی نے اطمینان سے جواب دیا تو نوید ذرا شرمندہ ہو کر کہنے لگا:
”میں کیا کرتا، مقیم بھائی نے یہی دیا تھا، آپ نے بھی تو ہڈی والا گوشت منگوایا تھا۔“
”ہڈی کا بھی اپنا ذائقہ ہوتا ہے۔ جب پائے پکتے ہیں تو کیوں کھاتے ہو؟“ امی نے کہا۔
”پائے کی بات اور ہے۔ میرا خیال ہے بکروں اور گایوں میں پائے کی ہڈی کے سوا کوئی ہڈی نہیں ہونی چاہیے!“ نوید نے خیال ظاہر کیا تو سب لوگ ہنس پڑے اور ڈاکٹر خورشید کہنے لگے:
”اگر بکری یا گائے میں ہڈی نہ ہو تو وہ چلیں پھریں گی کیسے، بلکہ کھڑی بھی کیسے ہوں گی؟ خود تمھارے اندر اگر اللہ نے ہڈیاں نہ بنائی ہوتیں تو تم گوشت کا ڈھیربنے زمین پر پڑے رہتے!“
”ہاں یہ تو ہے!“ نوید جھینپ کر بولا، ڈاکٹر خورشید کہنے لگے:
”ہڈیاں، جسم کے اعضاء کو نہ صرف سہارا دیتی ہیں، بلکہ ان کی حفاظت بھی کرتی ہیں اور اس کے علاوہ بھی کئی مفید کام انجام دیتی ہیں۔“
”کئی مفید کام؟“ نوید نے حیران ہو کر پوچھا: ”مجھے ان کے بارے میں بتائیے بھائی جان۔“
”اچھا پہلے ایک مفید کام کر لیں کہ کھانا ختم کر لیں۔“ امی نے ٹوکا تو ڈاکٹرخورشید بولے:
”ہاں ہاں، کھانے کے بعد ہڈیوں کی خدمات پر بات ہوگی۔“
کھانے سے فارغ ہو کر نوید نے الحمد للہ کہہ کر مسنون دعا پڑھی، پھر ہاتھ دھو کر سیدھا ڈاکٹر خورشید کے کمرے میں پہنچ گیا۔ ڈاکٹر خورشید اسے دیکھتے ہی سنبھل کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے:
”آؤ بھئی تمھیں ہڈیوں کا دوست بنا دیں!“؎
نوید ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ ڈاکٹر خورشید بولے:
”اللہ نے ہمیں جو جسم عطا فرمایا ہے وہ اللہ کی زبر دست قدرت اور مہارت کا بے مثل شاہکار ہے۔ دنیا کے بڑے سے بڑے انجینئر مل کر ایسی حیرت انگیز مشین نہیں بنا سکتے جیسی مشین، ہمارے جسم کی صورت میں کام کر رہی ہے۔ اس مشین کا ہر پرزہ باکمال ہے۔ ان تمام پرزوں کو اپنی جگہ رکھنے اور ان کی حفاظت کا کام، ہڈیاں اور عضلات انجام دیتے ہیں۔ عضلات کو انگریزی میں ”مسلز“ کہتے ہیں۔ تم جانتے ہو ہمارے جسم میں کتنی ہڈیاں ہیں؟“
”دو سو چھ!“ نوید نے جھٹ جواب دیا۔”یہ سوال تو معلومات عامہ کے ہر مقابلے میں پوچھا جاتا ہے۔“
”بالکل درست، اور ایک بچے کے جسم میں کتنی ہڈیاں ہوتی ہیں؟“
”واہ بھائی جان، آپ ایسے سوال کر رہے ہیں کہ میں چکرا جاؤں، ظاہر ہے بچے کے جسم میں بھی دو سو چھ ہڈیاں ہی ہوں گی۔“ نوید نے جواب دیا تو ڈاکٹرخورشید مسکرائے اور بولے:
”بالکل غلط! بچے کے جسم میں تین سو سے زائد ہڈیاں ہوتی ہیں۔“
”تین سو سے زیادہ؟ وہ کیوں بھائی جان؟“ نوید نے حیران ہوکر پوچھا۔
”اس لیے کہ بچے کا جسم بڑھ رہا ہوتا ہے۔ اس کے جسم میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی نرم و نازک ہڈیاں رکھی ہوتی ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ، ان میں سے بہت سی ہڈیاں آپس میں جڑ کر مضبوط ہڈیاں بن جاتی ہیں، اس طرح بڑے ہونے پر ان کی تعداد کم ہو کر دو سو چھ رہ جاتی ہے۔“ ڈاکٹر خورشید نے وضاحت کی، پھر وہ کہنے لگے:
”یہ اللہ کی عظیم حکمت اور قدرت ہے کہ اس نے ہمارے جسم کے ہر حصے کی مناسبت سے ہڈیاں عطا کی ہیں۔ جہاں جس قسم کی ہڈی کی ضررت ہو ویسی ہڈی بنائی ہے، مثلاً ٹانگ کی ہڈیاں لمبی اور مضبوط ہوتی ہیں، چونکہ وہ سارے جسم کا بوجھ بھی اٹھاتی ہیں اور انسان ان کی مدد سے چلتا پھرتا، دوڑتا بھاگتا، کھیلتا، کسی شے مثلا ًفٹ بال کو زور سے ٹھوکر لگاتا ہے۔ پھر یہ کہ ہاتھ اور کلائی میں اللہ نے ستائیس ہڈیاں دیں اور پیر کے اندر انتیس ہڈیاں بنا دیں تا کہ ہم مختلف کام آسانی سے کر سکیں۔ دوسری طرف کان کے اندر ایک ہڈی ہوتی ہے جو مشکل سے چاول کے ایک دانے کے برابر ہوتی ہے لیکن سننے کے عمل میں اس ہڈی کا اہم کردار ہے۔ اچھا یہ بتاؤ کہ کیا ہڈیاں ٹھوس ڈنڈوں کی طرح ہوتی ہیں؟“
”یقینا ہوتی ہوں گی ورنہ ہم ان کی مدد سے اتنے سارے کام کیسے لیتے۔“ نوید نے کہا تو ڈاکٹر خورشید مُسکرائے اور بولے:
”نہیں، ہڈیاں خشک اور ٹھوس مردہ ڈنڈوں کی طرح نہیں ہوتیں، بلکہ ہڈیوں کے اندر پورا کارخانہ کام کر رہا ہوتا ہے۔“
”کارخانہ؟“
”ہاں! ہڈیاں اوپر سے تو بہت سخت ہوتی ہیں، اس لیے معمولی چوٹ لگنے سے وہ ٹوٹتی نہیں ہیں لیکن اوپر کی سخت حفاظتی تہ کے بعد اسفنج نما ہوتی ہے جو شہد کی مکھیوں کے چھتے کی طرح ہوتی ہے، یہ ہلکی ہوتی ہے۔ اگر اللہ نے ہماری ہڈیوں کی اندرونی تہ اسفنج نما اور سوراخ دار نہ رکھی ہوتی تو ہڈیوں کا وزن اتنا زیادہ ہو جاتا کہ ہم مشکل سے چل پھر پاتے۔ اس سوراخ دار تہ کے اندر جیلی کی طرح کا، ہڈیوں کا گودا ہوتا ہے۔ یہ گودا، خون کے خلیات بنانے کا کارخانہ ہے!۔“
”سبحان اللہ“ نوید نے کہا۔ ڈاکٹر خورشید بولے:
”پھر یہ دیکھو کہ ہمیں مختلف کاموں کے لیے اپنے اعضا کو موڑنے، حرکت دینے کے لیے اللہ نے ہماری ہڈیوں میں تین سو ساٹھ جوڑ عطا فرما دیے ہیں۔ ہر عضو کے لحاظ سے اس کے جوڑ مختلف انداز کے ہیں تا کہ وہ عضو اپنا کام ٹھیک طرح کر سکے، مثلاً کولہے کی ہڈی کا جوڑ ایسا ہے کہ ہم اپنی ٹانگوں کو مختلف انداز سے حرکت دے سکتے ہیں۔ گھٹنوں کا جوڑ ایسا ہے کہ وہ آگے پیچھے حرکت کر سکتا ہے۔ کندھوں اور بازو کا جوڑ ایسا ہے کہ ہم اپنے باز و دائرے کی شکل میں گھما سکتے ہیں۔ پھر ایک اور بات ہے۔“
”وہ کیا بھائی جان؟“
”اللہ نے ہڈیوں کے ہر جوڑ میں ایک چکنا مائع رکھ دیا ہے۔ اس کی وجہ سے جوڑ کے مقام پر دو ہڈیاں حرکت کرتے ہوئے نہ تو کسی قسم کی آواز پیدا کرتی ہیں، نہ ان ہڈیوں کو کوئی نقصان پہنچتا ہے، ورنہ ہمارے اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے، ہڈیوں میں سے آوازیں نکل رہی ہوتیں! ایک اور اہم بات ہے۔“
”وہ کیا بات ہے؟“
”آج سے چودہ سو برس پہلے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تھا کہ انسان کے جسم میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں۔ اس زمانے میں تو سائنس دانوں کو بھی انسانی جسم میں جوڑوں کی تعداد اور ان کی اہمیت کا علم نہ ہو گا۔ آپ ﷺنے فرمایا، انسان کے جسم میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر جوڑ کی طرف سے صدقہ کرے۔ صحابہ نے عرض کیا، اس کی طاقت کسے ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، اگر مسجد میں گندگی پڑی ہو تو اسے صاف کر دو اور راستے سے تکلیف دینے والی چیز ہٹا دو تو یہ صدقہ ہو جائے گا، اور اگر موقع نہ ملے تو چاشت کی دو رکعت نفل نماز تمہارے لیے کافی ہو جائے گی۔ (ابوداؤد) اس قسم کی احادیث بخاری اور مسلم میں بھی بیان ہوئی ہیں۔“
”بے شک اللہ نے جب ہمیں اتنا بہترین جسم عطا فرمایا تو ہمیں اس کے شکر کے طور پر نیک کام کرنے چاہئیں۔“ نوید نے کہا۔
”شاباش، اب ذرا ایک نیک کام کرو کہ مجھے پانی پلا دو۔!“ ڈاکٹر خورشید مسکراتے ہوئے بولے اور نوید پانی لانے کے لیے کمرے سے نکل گیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top