skip to Main Content

خواب نگر

ناول: Lost Horizon
مصنف: James Hilton
مترجم: رفیع الزماں زبیری
۔۔۔۔۔
تمہید 
میرا نام روتھر فورڈ ہے۔ میں نومبر میں، چین کے شہر ہان کاؤ میں اپنے ایک دوست سے ملنے گیا ہوا تھا۔ وہاں سے واپس آتے ہوئے پیکن ایکسپریس میں میری ملاقات ایک فرانسیسی کانونٹ کی بڑی نَن سے ہوئی۔ وہ بڑی شگفتہ مزاج خاتون تھیں۔ وہ چنگ کیانگ جا رہی تھیں جہاں اُن کا کانونٹ اور اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا ہسپتال تھا۔ بڑی نَن نے راستے میں مُجھے بتایا کہ ابھی چند ہفتے ہوئے ایک مریض کو ہسپتال میں لایا گیا ہے۔ جب وہ آیا تو اسے تیز بُخار تھا۔ وہ اپنے بارے میں کُچھ نہیں بتا سکا۔ اُس کے پاس کوئی چیز بھی ایسی نہیں تھی جس سے اس کی شناخت ہو سکتی۔ ایسا لگتا ہے کہ بیماری کی وجہ سے وہ اپنی یادداشت کھو بیٹھا ہے۔ صورت اور حلیے سے وہ یورپین لگتا ہے۔ وہ بہت اچھّی چینی زبان جانتا ہے۔ ہم نے اُس سے انگریزی میں باتیں کیں اور پھر جب اُسے معلوم ہوا کہ ہم فرانسیسی ہیں تو وہ ہم سے فرانسیسی میں باتیں کرنے لگا۔ 
جب ٹرین چنگ کیانگ پہنچی تو بڑی نَن نے مجھے دعوت دی کہ اگر کبھی مُجھے اِس طرف آنے کا موقع ملے تو اُن کے کانونٹ ضرور آؤں۔ میں نے ہامی بھر لی، لیکن مجھے اِس کا امکان کم ہی نظر آتا تھا۔ اب اتّفاق دیکھیے کہ میں چند گھنٹے بعد ہی چنگ کیانگ میں تھا۔ ہوا یہ کہ ہماری ٹرین چند میل ہی چلی ہو گی کہ انجن میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی۔ اب ٹرین آگے نہیں جا سکتی تھی لہٰذا اسے کسی طرح واپس چنگ کیانگ اسٹیشن پر لانے کی کوشش کی گئی۔ چنگ کیانگ اسٹیشن پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ بارہ گھنٹے سے پہلے دوسرا انجن نہیں آ سکے گا جو ٹرین کو آگے لے جا سکے۔ اب میرے پاس وقت تھا۔ میں بڑی نَن کی دعوت سے فائدہ اُٹھا سکتا تھا۔ چنانچہ میں اسٹیشن سے کانونٹ چلا گیا۔ 
کانونٹ میں بڑی نَن مُجھے دیکھ کر خوش بھی ہوئیں اور حیران بھی۔ میں نے اُن کے ساتھ کھانا کھایا۔ پھر وہ مُجھے اس اجنبی یورپین سے ملانے ہسپتال لے گئیں جو سب کُچھ بھُول چُکا تھا۔ اس کو اپنے بارے میں بھی کُچھ یاد نہیں رہا تھا۔ ایک نوجوان چینی ڈاکٹر بھی ہمارے ساتھ تھا۔ کانونٹ کا ہسپتال نہایت صاف سُتھرا تھا اور اس کا انتظام بھی اعلیٰ تھا۔ بڑی نَن نے مُجھ سے کہا کہ میں اس شخص سے انگریزی میں بات کروں۔ میں جب اس کے پاس پہنچا تو وہ سر جھُکائے بیٹھا تھا۔ میں نے اُسے سلام کیا تو اس نے سر اٹھا کر مُجھے دیکھا اور میرے سلام کا جواب دیا۔ اس کا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ پڑھا لکھا آدمی ہے لیکن اس سے پہلے کہ میں کُچھ پوچھتا میں اس کو پہچان چکا تھا۔ وہ کانوے تھا۔ میرا اسکول کا ساتھی۔ ہم دونوں آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی ساتھ تھے۔ وہ بہت ذہین اور تیز تھا۔ آکسفورڈ میں اس نے بہت سے اعزاز حاصل کیے تھے اور پیانو تو وہ ایسا بجاتا تھا کہ کوئی اس کا مُقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے اس کا نام لے کر اُسے مخاطب کیا اور اپنا نام بھی بتایا لیکن وہ مُجھے اس طرح دیکھتا رہا جیسے یہ دونوں نام اس کے لیے بے معنی ہیں۔ تاہم میں نے اُسے پہچاننے میں کوئی غَلَطی نہیں کی تھی۔ کانونٹ کی بڑی نَن اور نوجوان چینی ڈاکٹر کو یہ جان کر کہ میں اس اجنبی سے واقف ہوں خوشی ہوئی اور ہم دیر تک اُس کے بارے میں گفت گو کرتے رہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کانوے یہاں کیسے پہنچا لیکن وہ کُچھ نہیں بتا سکے۔ 
اِس خیال سے کہ شاید میری موجودگی سے کانوے کی یادداشت واپس لانے میں مدد ملے میں دو ہفتے کانونٹ میں ٹھیرا رہا۔ میں اس سے باتیں کرتا اور اسے ماضی کے واقعات یاد دلانے کی کوشش کرتا لیکن اسے کُچھ یاد نہیں آیا۔ مُجھے اس کی یادداشت واپس لانے میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ تاہم اس دوران میں علاج اور دیکھ بھال سے اس کی صحت بہت بہتر ہو گئی۔ میں اس کو بتاتا کہ وہ کون ہے تو وہ خاموش رہتا لیکن جب میں نے اس سے کہا کہ وہ میرے ساتھ انگلستان چلے تو فوراً تیّار ہو گیا۔ 
کُچھ دِن بعد ہم دونوں چنگ کیانگ سے روانہ ہو گئے۔ پہلے بحری جہاز میں دریائے یانگسی کے راستے نانگنگ آئے اور پھر وہاں سے ٹرین میں شنگھائی گئے۔ جس رات ہم شنگھائی پہنچے اتّفاق سے اس رات ایک بحری جہاز امریکا جا رہا تھا۔ ہمیں اُس میں جگہ مل گئی۔
بحری جہاز پر سفر کے دوران ہم نئے سِرے سے دوست بنے۔ میں اُس کے بارے میں جو کُچھ جانتا تھا وہ میں نے اُسے بتایا۔ اس نے پوری توجّہ سے سُنا۔ اُس نے کہا کہ اُس کا ہندوستان سے کوئی تعلّق ضرور رہا ہے، کیوں کہ وہ ہندوستانی زبان جانتا ہے۔ 
یوکوہاما میں ہمارے جہاز پر کُچھ اور مسافر سوار ہوئے۔ ان میں مشہور پیانو نواز سیوکنگ بھی تھا۔ ایک رات مسافروں کے بے حد اصرار پر وہ پیانو بجانے بیٹھ گیا۔ میں اور کانوے بھی موجود تھے۔ اس نے بہت اچھّی دُھنیں بجائیں۔ وہ جب پیانو بجا رہا تھا تو میں نے ایک دو بار کانوے کی طرف دیکھا۔ وہ بڑے انہماک سے سُن رہا تھا۔ مُجھے یاد آیا کہ جب ہم اکٹھے آکسفورڈ میں پڑھتے تھے تو وہ بہت اچھا پیانو بجاتا تھا۔ جب سیوکنگ پیانو بجانا ختم کر کے اپنے کیبن کی طرف جانے لگا تو اچانک کانوے اپنی جگہ سے اُٹھ کر پیانو کے قریب گیا اور بیٹھ کر پیانو بجانے لگا۔ اُس نے ایک ایسی دُھن چھیڑی جو میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سُنی تھی۔ سیوکنگ جاتے جاتے رُک گیا اور پلٹ کر کانوے کے پاس آیا اور اُس سے پوچھنے لگا کہ یہ کونسی دُھن ہے جو وہ بجا رہا ہے۔ کانوے خاموش ہو گیا۔ اُس کے چہرے پر ایسا تاثر تھا جیسے وہ کُچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ پھر وہ بولا۔ ’’یہ دُھن شوپن کی بنائی ہوئی ہے۔‘‘ 
سیوکنگ نے گردن ہلائی اور کہنے لگا: ’’میرے دوست شوپن کی بنائی ہوئی ساری دُھنیں مُجھے یاد ہیں۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو دُھن تُم ابھی بجا رہے ہو وہ ہے تو اُسی انداز کی لیکن یہ شوپن کی نہیں ہے۔ میں چیلنج کرتا ہوں، مُجھے یہ دُھن اُس کی کِسی کتاب میں دِکھا دو۔‘‘ 
کانوے سوچ میں پڑ گیا پھر بولا: ’’ہاں، مُجھے یاد آیا۔ یہ دُھن کسی کتاب میں نہیں چھپی۔ میں نے ایک ایسے آدمی سے سیکھی ہے جو کسی زمانے میں شوپن کا شاگرد رہا ہے، میں تمہیں ایسی ہی ایک اور دُھن سُناتا ہوں۔ یہ بھی مَیں نے اُس آدمی سے سیکھی ہے۔‘‘ 
کانوے نے جب نئی دُھن بجانی شروع کی تو سیوکنگ کی حالت عجیب ہو گئی۔ کانوے کا کہنا تھا کہ یہ دُھن شوپن کی بنائی ہوئی ہے اور یہ اس نے خود شوپن کے ایک شاگرد سے سیکھی ہے۔ اب اگر میں یہ بتاؤں کہ شوپن کا انتقال1849ء میں ہوا تھا تو کانوے کا یہ کہنا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے کہ وہ شوپن کے ایک شاگرد سے ملا ہے اور اس سے شوپن کی بنائی دُھنیں سیکھی ہیں۔ اس کے باوجود سیوکنگ نے یہ اعتراف کیا کہ یہ دُھنیں شوپن ہی کی ہو سکتی ہیں کسی دوسرے موسیقار کی نہیں۔ 
میری نظر کانوے کے چہرے پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ وہ سخت تھکا تھکا لگ رہا ہے۔ میں نے فوراً اُٹھ کر اُس کا ہاتھ پکڑا اور اسے کمرے میں لے جا کر بستر پر لِٹا دیا۔ میں نے اُس سے کہا کہ وہ سو جائے اور میں بھی سونے کے لیے اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ ابھی پوری طرح میری آنکھ نہیں لگی تھی کہ وہ میرے کمرے میں آیا اور کہنے لگا: ’’روتھر فورڈ! میری یادداشت واپس آ گئی ہے، مُجھے سب کُچھ یاد آ گیا ہے۔‘‘ 
مگر میں نے دیکھا کہ خوشی کے بجائے اس کے چہرے پر سخت مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ اُس نے بتایا کہ جب سیوکنگ پیانو بجا رہا تھا تو اچانک اُسے سب کُچھ یاد آ گیا۔ وہ میرے پاس بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا۔ میں اس کی باتیں خاموشی سے سُنتا رہا۔ میں نے کوئی سوال نہیں کیا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ خود ہی سب کُچھ کہے۔ پھر میں نے کپڑے پہنے اور اس کے ساتھ باہر آ گیا۔ ہم جہاز کے عرشے پر ٹہلنے لگے۔ وہ بولتا رہا بولتا رہا یہاں تک کہ دِن نکل آیا۔ پھر وہ چُپ ہو گیا۔ وہ بہت رنجیدہ اور بے چین لگ رہا تھا۔ ہم کافی دیر تک ٹہلتے رہے۔ اگلے دِن ہم آدھی رات کے قریب ہونولولو پہنچنے والے تھے۔ وہ سارا دِن میرے ساتھ رہا۔ رات کے دس بجے وہ مُجھ سے رخصت ہو کر اپنے کیبن میں چلا گیا۔ اس کے بعد پھر میں نے اُسے نہیں دیکھا۔ جب جہاز ہونولولو پہنچا تو وہ چُپکے سے جہاز سے اُتر کر غائب ہو گیا۔ میں نے اسے بہت تلاش کیا لیکن اس کا کُچھ پتا نہ چلا۔ تین مہینے بعد بینکاک سے اس کا ایک خط آیا۔ خط کے ساتھ اس رقم کا ایک چیک بھی تھا جو میں نے اُس پر خرچ کی تھی۔ خط میں اس نے صرف اتنا لکھا تھا کہ وہ شمال مشرق کی طرف جا رہا ہے۔ 
کانوے نے اس رات مُجھے جو کہانی سُنائی تھی وہ بڑی عجیب تھی۔ میں نے اُس وقت اُس کی باتیں نوٹ کر لی تھیں اور پھر بعد میں ان نوٹس کی مدد سے پوری کہانی لکھ ڈالی۔ وہ کہانی اب میں آپ کو سُناتا ہوں۔ 
پہلا باب
مئی 1931ء کے تیسرے ہفتے میں باسکل میں لڑائی شدّت پکڑ گئی۔ یورپی باشندوں کو وہاں سے نکال لے جانے کے لیے 20 مئی کو ہوائی جہاز پہنچ گئے۔ ان میں سے بیشتر برطانوی فضائیہ کے بڑے ہوائی جہاز تھے جنہیں بُلند پہاڑوں پر سے پرواز کر کے یورپی باشندوں کو پشاور پہنچانا تھا لیکن کُچھ چھوٹے ہوائی جہاز بھی تھے۔ اُن چھوٹے ہوائی جہازوں میں ایک چندا پُور کے مہاراجہ کا طیارہ تھا جو اُنہوں نے یورپینوں کو باسکل سے پشاور لے جانے کے لیے عارضی طور پر دے دیا تھا۔ اِس ہوائی جہاز میں چار مسافر تھے، ایک لڑکی مِس برنک لُو، ایک امریکی ہنری برنارڈ، برطانوی قونصل جس کا نام کانوے تھا اور نائب قونصل کیپٹن چارلس میلن سن۔ 
کانوے کی عمر37 سال تھی۔ وہ بھورے بالوں اور سرمئی نیلی آنکھوں والا لمبے قد کا آدمی تھا۔ وہ دو سال سے باسکل میں تعینات تھا اور اب انگلینڈ میں چند مہینوں کی چھٹّی کے بعد اُس کا کہیں اور تقرّر ہونے والا تھا۔ پچھلے چوبیس گھنٹے مسلسل کام کرنے کے باعث وہ تھک گیا تھا اور خوش تھا کہ باسکل سے جا رہا ہے۔ ہوائی جہاز میں سوار ہو کر وہ اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ وہ خوش تھا کہ فضائیہ کے کسی بڑے ہوائی جہاز میں سوار نہیں ہے جس میں مسافروں کا ہجوم ہوتا ہے۔ ہوائی جہاز فوراً ہی چل پڑا۔ 
ہوائی جہاز کو پرواز کرتے ہوئے ایک گھنٹے سے زیادہ ہو گیا تھا کہ اچانک کیپٹن میلن سن نے کہا کہ اُس کے خیال میں ہوائی جہاز صحیح راستے پر نہیں جا رہا ہے۔ میلن سن کانوے کی نشست سے اگلی نشست پر تھا۔ اُس کی عمر چوبیس پچیس سال ہو گی۔ پرواز کے دوران اُس نے دو تین مرتبہ کانوے سے باتیں کرنے کی کوشش کی، لیکن کانوے باتوں کے موڈ میں نہیں تھا۔ اب میلن سن کی بات سُن کر اُس نے اپنی خوابیدہ آنکھیں کھولیں اور بولا: ’’پائلٹ کو معلوم ہو گا کہ وہ کِدھر جا رہا ہے۔‘‘ 
آدھے گھنٹے کے بعد میلن سن نے کہا: ’’کانوے ،میرا خیال ہے کہ فے نر ہمارا ہوائی جہاز نہیں اُڑا رہا ہے۔‘‘ 
’’کیوں کیا وہ نہیں ہے؟‘‘ کانوے نے غنودگی کے عالم میں سوال کیا۔ 
’’پائلٹ نے ابھی پیچھے مُڑ کر دیکھا تھا اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ فے نر نہیں ہے۔‘‘ میلن سن نے جواب دیا۔ 
’’تو پھر کوئی اور ہو گا۔ اِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘ کانوے بول اُٹھا۔ 
’’مگر یہ ہے کون؟‘‘ میلن سن نے کہا۔ 
’’میرے دوست میں کیا جانوں یہ کون ہے۔ کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ میں فضائی فوج کے ہر آدمی کو جانتا ہوں؟‘‘ کانوے نے کہا۔ 
’’خیر میں اُن میں سے بیشتر کو جانتا ہوں، لیکن اِس شخص کو میں نے نہیں پہچانا۔‘‘  میلن سن بولا۔ 
کانوے مُسکرایا اور کہنے لگا: ’’تو پھر یہ وہ اُن میں سے کوئی ہو گا جِن کو تُم نہیں جانتے ہو۔ جب ہم پشاور پہنچ جائیں تو تُم اُس سے پوچھ لینا کہ وہ کون ہے؟‘‘ 
’’ہمارا پشاور پہنچنا تو مُمکن نظر نہیں آتا۔ مُجھے یقین ہے کہ پائلٹ راستہ بھول گیا ہے۔‘‘ اُسی لمحے ہوائی جہاز نے نیچے اُترنا شروع کر دیا۔ 
’’اف خُدایا!’’میلن سن کھڑکی سے جھانکتے ہوئے بولا۔ ’’ذرا نیچے کی طرف تو دیکھو۔‘‘ 
کانوے نے کھڑکی سے نیچے کی طرف دیکھا۔ یہ وہ منظر نہیں تھا جس کی اُسے توقّع تھی۔ نیچے زمین پر مکانوں کے قطاروں کے بجائے دُور تک پھیلا ہوا ریگستان تھا جِس کے ایک سِرے پر چٹیل پہاڑوں کا ایک سِلسِلہ چلا گیا تھا۔ یہ پشاور کے آس پاس کا علاقہ تو ہرگز نہیں تھا۔ 
کانوے بولا: ’’میں نہیں سمجھ سکا یہ کیا جگہ ہے۔‘‘ پھر وہ میلن سن سے کہنے لگا کہ ’’تم شاید ٹھیک ہی کہہ رہے تھے کہ پائلٹ راستہ بھول گیا ہے۔‘‘ 
ہوائی جہاز اب بڑی تیزی سے نیچے آ رہا تھا اور ہوا گرم ہوتی جا رہی تھی۔ ہوائی جہاز ہچکو لے کھا رہا تھا۔ چاروں مسافروں نے مضبوطی سے اپنی نشستیں تھام لی تھیں کہ کہیں لُڑھک نہ جائیں۔ 
’’ایسا لگتا ہے جیسے یہ یہاں اُترنا چاہ رہا ہے۔‘‘ امریکی نے چلّا کر کہا۔ 
’’یہ نہیں ہو سکتا۔ اگر پائلٹ نے یہاں اُترنے کی کوشش کی تو ہوائی جہاز تباہ ہو جائے گا اور ہم ہلاک ہو جائیں گے۔‘‘ 
لیکن پائلٹ نے بڑی ہوشیاری سے ایک چھوٹی سی وادی میں ہوائی جہاز اُتار لیا۔ ہوائی جہاز کے زمین پر اُترتے ہی پگڑیاں باندھے داڑھی والے قبائلیوں نے اُسے چاروں طرف سے گھیر لیا اور سوائے پائلٹ کے کسی کو ہوائی جہاز سے باہر آنے نہیں دیا۔ پائلٹ کاک پٹ سے اُتر کر اُن کے پاس گیا اور جلدی جلدی اُن سے باتیں کرنے لگا۔ اب کانوے نے اُسے دیکھا۔ وہ واقعی فے نر نہیں کوئی اور تھا۔ اِس دوران میں پیٹرول سے بھرے ہوئے ڈبّے لائے گئے اور ہوائی جہاز کی ٹنکی بھر دی گئی۔ ہوائی جہاز کے اندر بند چاروں مسافروں نے اُنہیں آواز دیں مگر کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور اپنے کام میں لگے رہے۔ 
جب ہوائی جہاز کی پیٹرول کی ٹنکی بھر گئی اور پانی سے بھرا ایک ڈبّا ہوائی جہاز کے اندر رکھ دیا گیا تو پائلٹ کاک پٹ میں جا بیٹھا اور ہوائی جہاز ایک بار پھر فضا میں بُلند ہو گیا۔ کافی بلندی پر پہنچنے کے بعد اُس کا رُخ مشرق کی طرف ہو گیا۔ یہ دوپہر کا وقت تھا۔ 
ہوائی جہاز جس سمت پرواز کر رہا تھا اُس کا اندازہ سورج سے ہو رہا تھا۔ وہ مسلسل مشرق کی طرف جا رہا تھا، لیکن گاہے گاہے شمال کی طرف مُڑتا جاتا تھا۔ کانوے کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کِدھر جا رہے ہیں۔ اُس نے آنکھیں بند کر لی تھیں لیکن وہ سو نہیں رہا تھا اور گہری سوچ میں تھا۔ یہ ایک عجیب صورتِ حال تھی۔ سب سے زیادہ وہ اُس لڑکی کی طرف سے فکر مند تھا جو ہوائی جہاز میں اُن کے ساتھ تھی۔ اُسے اب کوئی شُبہ نہیں تھا کہ اُنہیں تاوان کی خاطر اغوا کر لیا گیا ہے۔ 
اغوا کا منصوبہ بڑی ہوشیاری سے بنایا گیا تھا اور اِس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اُن کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے گا، لیکن تاوان کی رقم وصول ہونے تک وہ کِس حال میں رہیں گے یہ الگ معاملہ تھا۔ کانوے کو یہ بھی فکر تھی کہ اُس کے ساتھیوں کا ردِّ عمل نہ جانے کیا ہو گا۔ میلن سن خاص طور پر بڑا پریشان اور گھبرایا ہوا نظر آ رہا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا اُس کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ اُسے خاص طور پر کانوے کی خاموشی اور سکون پر جھنجلاہٹ ہو رہی تھی۔ بالآخر وہ ضبط نہ کر سکا اور چیخ کر بولا:  
’’سنیئے جناب، ہم کب تک اِس طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں گے۔ یہ پاگل آدمی نہ جانے ہمیں کہاں لے جا رہا ہے۔ ہم کاک پٹ کا دروازہ توڑ کر اُسے پکڑ کیوں نہیں لیتے؟‘‘ 
’’اس لیے کہ اُس کے پاس پستول ہے۔ ہمارے پاس نہیں ہے۔ اِس کے علاوہ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ ہوائی جہاز کو نیچے کس طرح اُتارا جائے گا۔‘‘ کانوے نے جواب دیا۔ 
’’یہ کوئی بہت مُشکل کام نہیں ہے۔ مُجھے یقین ہے کہ تُم یہ کر سکتے ہو۔‘‘ میلن سن بولا۔ 
’’میرے دوست ایسے کارنامے انجام دینے کی توقع تُم مُجھ ہی سے کیوں کرتے ہو؟‘‘ کانوے نے کہا۔ اب اُس کو اِس نوجوان کی باتوں سے جھنجھلاہٹ ہونے لگی تھی۔ 
’’چلو خیر کیا ہم اس کو نیچے اُترنے پر بھی مجبور نہیں کر سکتے؟‘‘ میلن سن بولا۔ اُس کی گھبراہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔ 
’’اچھا تو تُم بتاؤ ہم اُسے نیچے اُترنے پر کس طرح مجبور کریں؟‘‘ کانوے نے سوال کیا۔ 
’’کیا ہم یونہی خاموش بیٹھے اُسے دیکھتے رہیں؟ ہم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اُس کو یہ بتانے پر مجبور کریں کہ یہ سارا کھیل کیا ہے؟‘‘ 
’’اچھا ٹھیک ہے۔ لاؤ دیکھتے ہیں۔‘‘ کانوے نے کہا۔ وہ اپنی نشست سے اُٹھ کر اُس چھوٹی سی کھڑکی کی طرف گیا جو کیبن اور کاک پٹ کے درمیان تھی۔ اُس نے کھڑکی کے شیشے کو دھپ دھپایا۔ اُس کے جواب میں وہی ہوا جس کی اُسے توقع تھی۔ پائلٹ نے مُڑ کر بغیر کُچھ کہے پستول کا رُخ کانوے کی طرف کر دیا۔ کانوے چُپ چاپ پلٹ کر اپنی نشست پر آ کر بیٹھ گیا۔ 
میلن سن جو یہ سب کُچھ دیکھ رہا تھا اب بھی پوری طرح مطمئن نہیں ہوا۔ وہ کہنے لگا: ’’میں نہیں سمجھتا وہ تُم کو گولی مارنے کی جرأت کرتا۔‘‘ 
’’ہو سکتا ہے، لیکن یہ تجربہ تُم کیوں نہ کرو؟‘‘ کانوے نے کہا۔ پھر اُس نے میلن سن کو تسلّی دی اور کہنے لگا: ’’میں جانتا ہوں کہ تمہارے جذبات کیا ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اِس وقت کُچھ بھی نہیں کر سکتے۔‘‘ 
اب چوں کہ کُچھ اور نہیں کیا جا سکتا تھا اِس لیے کانوے نے اپنا سر اپنی نشست کی پشت سے ٹکایا اور آنکھیں بند کر کے سو گیا۔ 
جب اُس کی آنکھ کھُلی تو اُس نے دیکھا کہ اُس کے دوسرے ساتھی بھی سو رہے ہیں۔ اُس نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ آسمان صاف تھا۔ سہ پہر کی ہلکی دھوپ میں سامنے کا منظر اِس قدر دِلفریب تھا کہ وہ اُسے دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔ دُور جہاں تک نظر جاتی تھی، برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں کا ایک لمبا سا سِلسِلہ چلا گیا تھا۔ یہ پہاڑ یوں کھڑے تھے جیسے کوئی سفید دیوار ہو جو آسمان تک چلی گئی ہو، اور اس پر پڑنے والی سورج کی شعاعوں نے اسے بقعہ نور بنا دیا ہو۔ کانوے خاموش بیٹھا اِس منظر کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہ کون سی جگہ ہو سکتی ہے۔ 
اُس نے نقشوں کے بارے میں سوچا۔ ذہن میں فاصلوں کو ناپا۔ ہوائی جہاز کی رفتار اور وقت کا حساب لگایا۔ پھر اُس نے دیکھا کہ اُس کے دوسرے ساتھی بھی جاگ گئے ہیں، اور جواب طلب نظروں سے اُس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ 
دوسرا باب 
کانوے نے کھڑکی سے باہر چمکتے ہوئے پہاڑوں کی اُس دیوار کی طرف اِشارہ کیا۔ جب اُنہوں نے یہ منظر دیکھا تو وہ بھی گُم صُم اُسے دیکھتے رہ گئے۔ پھر برنارڈ نے کانوے سے پوچھا کہ کیا وہ بتا سکتا ہے کہ یہ کون سا علاقہ ہے؟ 
کانوے نے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ ہم ابھی ہندوستان میں ہیں۔‘‘ اس نے بتایا کہ وہ کئی گھنٹوں سے مشرق کی طرف پرواز کرتے رہے ہیں۔ اُن کا ہوائی جہاز کافی بُلندی پر ہے اِس لیے۔۔۔ کُچھ زیادہ دِکھائی تو نہیں دے رہا لیکن اُس کا خیال ہے کہ وہ کسی دریا کی وادی کے ساتھ ساتھ پرواز کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ دریائے سندھ کی بالائی وادی ہو۔ ‘‘
’’کیا تُم یہ بتا سکتے ہو کہ اِس وقت ہم کہاں ہیں؟‘‘ برنارڈ نے پوچھا۔ 
’’نہیں۔  یہ تو میں نہیں بتا سکتا کیوں کہ میں پہلے کبھی اِس طرف نہیں آیا ہوں، لیکن میرا خیال ہے کہ یہ سامنے جو پہاڑ نظر آ رہا ہے وہ نانگا پربت ہے۔‘‘ کانوے نے کھڑکی کی طرف اشارہ کیا۔ 
’’ایسا لگتا ہے کہ ہم اُن سامنے والے پہاڑوں کی طرف ہی جا رہے ہیں۔ یہ کون سے پہاڑ ہیں؟‘‘ برنارڈ نے سوال کیا۔ 
’’میرا خیال ہے کہ یہ قراقرم کا پہاڑی سِلسِلہ ہے۔ اگر ہمارا پائلٹ ادھر جانا چاہتا ہے تو اُس کے کئی راستے ہیں۔‘‘ کانوے نے جواب دیا۔ 
’’پائلٹ مت کہو۔ دیوانہ کہو۔ بھلا کوئی صحیح دماغ کا آدمی اِس قسم کے علاقے میں پرواز کرے گا؟‘‘ میلن سن نے کہا۔ 
کانوے بولا: ’’میں جانتا ہوں۔ کوئی بڑا ماہر ہوا باز ہی ایسا کر سکتا ہے۔ یہ دُنیا کے سب سے اُونچے پہاڑ ہیں اور اِن کے اوپر پرواز کرنا ایک ایسا پاگل پن ہے جو بہت سمجھ بُوجھ کر کیا گیا ہے۔‘‘ 
کانوے یہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔ اِس موضوع پر مزید کوئی بات کرنے کو اُس کا دِل نہ چاہا۔ اِس میں شک نہیں تھا کہ صورتِ حال نہایت گھمبیر تھی۔ لیکن اِس وقت یہ بحث بے کار تھی کہ کیا ہو گا اور کیا نہیں ہو گا۔ اس وقت تو وہ قطعی بے بس تھے۔ 
اس نے ایک بار پھر کھڑکی کی طرف رُخ کیا اور باہر دیکھنے لگا۔ اب سورج غروب ہو رہا تھا اور شفق کی سُرخی وادی سے اُٹھ کر پہاڑوں کی چوٹیوں تک پھیل گئی تھی۔ پھر اچانک پہاڑوں کا رنگ بدل گیا۔ پورے چاند نے ایک آسمانی چراغ کی طرف اُبھر کر بُلند بالا پہاڑوں کو منوّر کر دیا۔ یُوں لگتا تھا جیسے سیاہ آسمان کے نیچے کسی نے پورے اُفق پر چاندی بکھیر دی ہو۔ اب فضا میں ٹھنڈک بڑھ گئی تھی اور ہوا بھی تیز ہو گئی تھی۔ ہوائی جہاز ہچکو لے کھانے لگا تو مسافروں کی پریشانی کُچھ اور بڑھ گئی۔ کانوے نے محسوس کیا کہ ہوائی جہاز اب جلد ہی زمین پر اُترنے والا ہے۔ آخر پیٹرول کب تک چلے گا۔
اچانک مس برنک لُو نے کانوے کی طرف دیکھا اور کہنے لگی: ’’آپ کو پتا ہے کہ یہ میرا ہوائی جہاز کا پہلا سفر ہے! میرے ایک دوست نے ایک مرتبہ مُجھ سے بہت کہا کہ میں لندن سے ہوائی جہاز میں پیرس چلوں لیکن میں نے انکار کر دیا۔‘‘ 
’’اور اب تُم ہوائی جہاز میں ہندوستان کے بجائے تِبّت جا رہی ہو۔‘‘ برنارڈ بولا۔ اس پر مس برنک لُو نے مُسکرا کر سر ہلایا۔ 
کانوے سوچنے لگا کہ مس برنک لُو کا ہر صورت حال کو سکون کے ساتھ قبول کرنے کا رویّہ آگے چل کر مُفید ثابت ہو گا۔ وہ اُس کی طرف دیکھ کر مُسکرایا اور پھر آنکھ بند کر کے اطمینان کے ساتھ سو گیا۔ 
ہوائی جہاز اُڑتا رہا۔ 
اچانک ایک زور کے جھٹکے سے سب کی آنکھ کھُل گئی۔ ہوائی جہاز تیزی سے ایک طرف مُڑا۔ کانوے کا سر کھڑکی سے ٹکرایا اور وہ نشستوں کی قطار کے درمیان گِر گیا۔ اُس کے کانوں میں عجیب سی آوازیں آ رہی تھیں۔ اب اُس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ہوائی جہاز کا انجن بند کر دیا گیا ہے اور وہ تیز ہوا کے مُقابل اُڑ رہا ہے۔ اُس نے کھڑکی سے نیچے جھانک کر دیکھا۔ ہوائی جہاز زمین سے بہت قریب آ گیا تھا۔ 
’’وہ ہوائی جہاز نیچے اُتار رہا ہے!‘‘ میلن سن نے چلّا کر کہا اور برنارڈ جو جھٹکا لگنے سے اپنی نشست سے نیچے گِر گیا تھا وہیں سے بولا: ’’اگر اس کی قسمت اچھی ہے تو اُتار سکے گا۔‘‘ مس برنک لُو سب سے کم پریشان نظر آ رہی تھیں۔ وہ اپنا ہیٹ اِس طرح ٹھیک کر رہی تھیں جیسے ڈوور کی بندر گاہ قریب آ گئی ہو اور وہ اُترنے کی تیّاری کر رہی ہو۔
پھر ہوائی جہاز کے پہیّے زمین سے ٹکرائے اور جہاز نے کئی جھٹکے کھائے۔ وہ چاروں پہلے اِدھر گرے پھر اُدھر گِرے۔ کسی چیز کے ٹوٹنے کی آواز آئی اور ایک ٹائر پھٹ گیا۔ میلن سن نے لپک کر کیبن کا دروازہ کھولا اور زمین پر کودنا چاہا۔ 
’’احتیاط سے!‘‘ کانوے نے چیخ کر کہا۔ 
’’احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ میلن سن نے جواب دیا۔ ’’یہ دُنیا کا آخری سِرا ہے۔ یہاں کوئی نظر نہیں آ رہا ہے۔‘‘ 
چند لمحوں بعد اُن سب کو اس حقیقت کا احساس ہو گیا۔ سردی اور خوف سے کسی قدر کانپتے ہوئے وہ چاروں جب ہوائی جہاز سے باہر آئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ وہ ایک چٹیل میدان میں کھڑے ہیں۔ اُس وقت تیز ہوا چل رہی تھی اور چاند بادلوں کے پیچھے چھُپ گیا تھا۔ البتّہ دُور اُفق پر پہاڑ ستاروں کی روشنی میں چمک رہے تھے۔ 
میلن سن ہوائی جہاز کے سامنے والے حصّے کی طرف گیا اور کاک پٹ میں چڑھ گیا۔ چند ہی لمحوں میں وہ نیچے آ گیا اور کانوے کا بازو پکڑ کر اُسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے آہستہ سے بولا: ’’کانوے! عجیب ماجرا ہے۔ یہ آدمی مر گیا ہے یا بے ہوش ہو گیا ہے۔ ذرا اوپر جا کر تو دیکھو۔‘‘ 
کانوے جلدی سے اُوپر چڑھا اور کاک پٹ میں جھانک کر دیکھنے لگا۔ 
ہوا باز سامنے کی طرف جھُکا ہوا تھا۔ اُس کا سر اُس کے ہاتھوں میں تھا اور وہ بالکل بے جان تھا۔ کانوے نے اُسے ہلایا اور اُس کی قمیص کا کالر کھُول کر کپڑے ڈھیلے کر دیے۔ پھر وہ نیچے آیا اور کہنے لگا: ’’ہاں، اِسے کُچھ ہو گیا ہے۔ اُسے باہر لانا چاہیے۔‘‘ 
برنارڈ اور میلن سن کی مدد سے کانوے نے ہوا باز کو اُس کی نشست پر سے اُٹھایا اور نیچے لا کر زمین پر لِٹا دیا۔ وہ بے ہوش تھا، لیکن مرا نہیں تھا۔ کانوے نے اُسے جھُک کر دیکھا اور کہنے لگا: ’’میرا خیال ہے اِتنی بُلندی پر پرواز کرنے کی وجہ سے اِس پر دِل کا دورہ پڑا ہے۔ لیکن یہاں ہم کُچھ نہیں کر سکتے۔ تیز ہوا سے بچنے کے لیے ہمیں اِسے ہوائی جہاز کے اندر لے جانا چاہیے۔‘‘ 
وہ تینوں اُسے کیبن میں لے گئے اور نشستوں کے درمیان فرش پر لِٹا دیا۔ کانوے اُس کا معائنہ کرنے لگا اور برنارڈ ایک کے بعد ایک ماچس کی تیلیاں جلا کر تھوڑی بہت روشنی کرتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد کانوے نے دیکھا کہ ہوا باز کے پپوٹے ہلے۔ 
یکایک میلن سن نے قہقہے لگانے شروع کر دیے۔ ’’معاف کرنا‘‘ وہ بولا۔ ’’مُجھ سے ضبط نہیں ہو رہا۔ دیکھو ہم سب کتنے احمق لگ رہے ہیں۔ ماچس کی تیلیاں جلا جلا کر ایک مُردہ آدمی کی لاش پر روشنی کر رہے ہیں۔ ذرا اِس کی شکل تو دیکھو۔ مُجھے تو یہ چینی لگتا ہے۔‘‘ 
’’ہو سکتا ہے۔‘‘ کانوے نے سختی سے کہا۔ ’’لیکن یہ کوئی لاش نہیں ہے۔ یہ ابھی زندہ ہے اور اگر قسمت اچھی ہوئی تو وہ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ 
کانوے کو احساس ہوا کہ اب حوصلے اور ہمّت سے کام لینے کی ضرورت ہے ورنہ وہ شاید زندہ نہ بچ سکیں۔ اگرچہ کانوے نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ ہمالیہ کے مغربی سِلسِلہ کوہ کو پار کر کے کافی اندر تک آ چکے ہیں اور اس وقت دُنیا کے سب سے اُونچے مقام تِبّت میں ہیں، لیکن اُن کی صحیح پوزیشن صرف ہوا باز ہی بتا سکتا تھا۔ تِبّت کی نچلی وادیاں تک سطح سمندر سے دو میل بُلند ہیں اور یہاں ہر وقت برفانی ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔ 
کانوے نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو اُسے ایک لمبی وادی نظر آئی جس کے دونوں طرف مدور پہاڑیاں گہرے نیلے آسمان کے نیچے سایہ کی طرح کھڑی تھیں۔ وادی کے آخری سِرے پر ایک بلند پہاڑ تھا جسے دیکھ کر کانوے کو خیال آیا کہ دُنیا میں ایسا خُوب صُورت پہاڑ شاید اور کوئی نہ ہو گا۔ لیکن اُس کی برف سے ڈھکی ہوئی چوٹی کو دیکھ کر تنہائی اور خوف کا احساس ہوتا تھا۔ کانوے نے سوچا کہ قریب ترین آبادی بھی یہاں سے سیکڑوں میل دور ہو گی اور اُن کی حالت یہ ہے کہ نہ کھانے پینے کو کُچھ ہے نہ اُس تیز ٹھنڈی ہوا سے محفوظ رہنے کے لیے گرم کپڑے ہیں۔ ہوائی جہاز بھی اُڑنے کے قابل نہیں رہا ہے۔ اِن حالات میں اُن کا واحد سہارا ہوائی جہاز کا پائلٹ تھا۔ وہ اب زیادہ گہرے سانس لے رہا تھا اور کُچھ حرکت بھی کر رہا تھا۔ میلن سن کا خیال تھا کہ وہ چینی ہے۔ چینیوں کی طرح اُس کی ناک چپٹی اور رُخسار کی ہڈیاں اُبھری ہوئی تھیں۔ 
رات آہستہ آہستہ گُزرتی رہی۔ چاند کی روشنی مدھم پڑتی گئی اور دور پہاڑ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اندھیرے کے ساتھ سردی بڑھ گئی اور ہوا بھی تیز ہو گئی، لیکن سورج کے نکلتے ہی ہوا رُک گئی، پہاڑ پھر نظر آنے لگا۔ پہلے سرمئی پھر نقرئی اور پھر جب سورج کی کرنیں اُس پر پڑیں تو وہ گلابی ہو گیا۔ جب ہوا میں کُچھ گرمی آئی تو کانوے نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہوا باز کو اب کیبن سے باہر لے جانا چاہیے۔ شاید باہر کی خُشک ہوا اُس پر اچھّا اثر ڈالے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور وہ چاروں ہوا باز کی حالت بہتر ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ 
بالآخر ہوا باز نے آنکھیں کھولیں اور بولنا شروع کیا۔ چاروں اُس پر جھُک گئے لیکن کانوے کے سوا کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ کانوے کبھی کبھی اُس کو جواب بھی دیتا جاتا تھا۔ کُچھ دیر بعد ہوا باز کی حالت بگڑنے لگی۔ اُسے بولنے میں دشواری ہونے لگی اور کُچھ دیر بعد وہ مر گیا۔ یہ کوئی دوپہر کا وقت تھا۔ 
اب کانوے اپنے ساتھیوں کی طرف مُڑا اور کہنے لگا: ’’مُجھے افسوس ہے کہ اس شخص نے مُجھے بہت کم باتیں بتائی ہیں۔ اُس نے صرف یہ بتایا کہ ہم تِبّت میں ہیں جس کا مُجھے خود بھی اندازہ ہو گیا تھا، لیکن اس نے مُجھے یہ نہیں بتایا کہ وہ ہمیں یہاں کیوں لایا ہے۔ وہ ایک ایسی چینی زبان بول رہا تھا جو میں اچھّی طرح نہیں سمجھ سکتا، لیکن میرا خیال ہے کہ وہ ایک خانقاہ کا ذکر کر رہا تھا جو یہاں سے قریب ہے اور جہاں ہمیں پناہ مل سکتی ہے۔ اُس خانقاہ کا نام اُس نے ’شانگری لا‘ بتایا تھا۔ وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ ہمیں وہاں چلا جانا چاہیے۔‘‘ 
’’یہ شانگری لا یقینا کسی ویران علاقے میں ہو گی۔ میں آبادی سے قریب جانا چاہتا ہوں دُور نہیں۔ خُدارا بتاؤ کیا ہم کبھی یہاں سے واپس بھی جا سکیں گے؟‘‘ میلن سن نے کہا۔ 
’’ہمارے ہر طرف سینکڑوں میل تک ایسا ہی ویران علاقہ ہے۔ مُجھے اُمّید نہیں کہ ہم پیدل چلتے ہوئے پشاور پہنچ سکتے ہیں۔‘‘ کانوے نے بڑے تحمّل سے جواب دیا۔ 
مس برنک لُو بولیں: ’’میں تو یہ ہمّت نہیں کر سکتی۔‘‘ 
’’اور نہ میں۔‘‘ برنارڈ بولا۔ 
کانوے کہنے لگا: ’’ہمارے سامنے ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم کسی آبادی کو تلاش کریں اور یہ آبادی ہمیں خانقاہ ہی میں مل سکتی ہے۔‘‘ پھر اُس نے وادی پر ایک نظر ڈالی اور بولا: ’’مُجھے اِس وادی کے ساتھ ساتھ ایک راستہ جاتا نظر آ رہا ہے۔ اگرچہ یہ بہت ڈھلواں نہیں معلوم ہوتا لیکن ہمیں احتیاط سے آہستہ آہستہ چلنا ہو گا۔ واپسی کے سفر کے لیے ہمیں قُلیوں کی ضرورت ہو گی اور خانقاہ کے راہب ہمیں قُلی مہیّا کر سکیں گے۔ اِس لیے میری رائے ہے کہ ہمیں فوراً چل پڑنا چاہیے۔‘‘ 
میلن سن بولا: ’’لیکن آپ نے یہ کیسے جان لیا کہ جب ہم وہاں پہنچیں گے تو وہ ہمیں قتل نہیں کر دیں گے؟‘‘ 
کانوے نے جواب دیا: ’’کسی بودھ خانقاہ میں قتل کر دیے جانے کی توقّع نہیں کی جاتی بہرحال بھوک سے مر جانے یا سردی سے ٹھٹھر کر مر جانے سے تو قتل کر دیے جانے کا خطرہ مول لینا بہتر ہے۔‘‘ 
میلن سن ابھی تک سخت جھنجھلایا ہوا تھا، لیکن وہ کہنے لگا: ’’ٹھیک ہے۔ شانگری لا چلتے ہیں، لیکن اللہ کرے یہ اِس پہاڑ کی چوٹی کے قریب نہ ہو۔‘‘ وہ سب اُس پہاڑ کی طرف مُڑے جو وادی کے آخری سِرے پر تھا اور پھر حیرت سے اُسے تکنے لگے۔ اُنہیں دور پہاڑ کی ڈھلوان پر کُچھ آدمی، نظر آئے جو اُن کی طرف آ رہے تھے۔ 
  
تیسرا باب 
پہاڑ کی ڈھلوان سے اُتر کر آنے والے لوگ جب قریب آئے تو کانوے نے اُنہیں دیکھا۔ وہ کوئی بارہ آدمی تھے۔ دو آدمی ایک کرسی اُٹھائے ہوئے تھے، جس پر نیلا لباس پہنے ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ کانوے کو کوئی اندازہ نہ تھا کہ یہ لوگ کِدھر جا رہے ہیں۔ لیکن اُس نے اُسے خوش قسمتی سمجھا کہ ایسے وقت جب اُنہیں مدد کی ضرورت تھی، وہ اُن کے پاس سے گُزر رہے تھے۔ جب وہ اور قریب آ گئے تو کانوے اُن کے پاس گیا اور جھُک کر آداب کیا۔ اس کے جواب میں کرسی پر سوار شخص اُٹھا اور کانوے کے قریب آ کر اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔ وہ چینی تھا اور اس کے بال سفید تھے۔ اس نے کانوے سے ہاتھ ملایا اور پھر دھیمے لہجے میں بڑی احتیاط سے انگریزی میں کہا: ’’میں شانگری لا کی خانقاہ سے آیا ہوں۔‘‘ 
کانوے نے اسے بتایا کہ وہ اور اس کے ساتھی کس طرح اِس سُنسان علاقے میں پہنچے ہیں۔ چینی نے جا کر ہوائی جہاز کو دیکھا جو اب اُڑنے کے قابل نہیں تھا اور بولا: ’’واقعی یہ بڑے تعجّب کی بات ہے۔‘‘ پھر اس نے کہا: ’’میرا نام چانگ ہے۔ کیا آپ اپنے دوستوں کا تعارف نہیں کرائیں گے؟‘‘ کانوے کو اس عجیب و غریب چینی سے جو تِبّت کے اِس دور دراز ویران سے علاقے میں اتنی عمدہ انگریزی بول رہا تھا دِل چسپی پیدا ہو گئی۔ وہ اپنے ساتھیوں کی طرف مُڑا اور چینی سے ان کا تعارف کرانے لگا: ’’یہ مس برنک لُو ہیں۔ یہ برنارڈ ہیں جو امریکی ہیں۔ یہ میلن سن ہیں۔ اور میرا نام کانوے ہے۔ ہم آپ کی خانقاہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ ہمیں راستہ بتائیں گے؟‘‘ 
’’اس کی ضرورت نہیں۔ میں خود آپ کو وہاں لے چلوں گا۔‘‘ چینی نے کہا۔ 
کانوے بولا: ’’نہیں نہیں، آپ یہ زحمت نہ کیجئے۔ ہمیں راستہ بتا دیجئے ہم خود وہاں پہنچ جائیں گے۔‘‘ 
چینی نے کہا: ’’یہ راستہ آسان نہیں ہے۔ میں آپ کے اور آپ کے دوستوں کے ساتھ چلوں گا۔‘‘ 
کانوے نے چینی کا شکریہ ادا کیا، لیکن میلن سن جلدی سے بولا: ’’ہم وہاں زیادہ دِن نہیں ٹھہریں گے، اور جو کُچھ ہم لیں گے اس کی قیمت ادا کریں گے۔ واپسی کے سفر کے لیے ہمیں آپ کے کُچھ آدمی بھی درکار ہوں گے۔ آپ کے خیال میں یہاں سے ہندوستان پہنچنے میں ہمیں کتنا وقت لگے گا؟‘‘ 
’’میں کُچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘ چینی نے بڑے تحمّل سے جواب دیا۔ 
’’خیر کوئی بات نہیں ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔‘‘ میلن سن نے تُنک کر کہا۔ 
چانگ نے کہا: ’’مسٹر میلن سن، میں آپ کو یقین دِلاتا ہوں آپ کے ساتھ احترام کا سلوک کیا جائے گا اور آخر میں آپ کو کوئی افسوس نہیں ہو گا۔‘‘ 
’’آخر میں؟‘‘ میلن نے کہا۔ اس کے لہجے سے شکوک و شبہات کا اظہار ہو رہا تھا اور وہ یہ پوچھنے ہی والا تھا کہ اس سے چینی کا مطلب کیا ہے کہ پہاڑ پر سے آنے والوں نے کانوے اور اس کے ساتھیوں کو پھل اور مشروبات پیش کر دیے جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ اس طرح بات وہیں ختم ہو گئی۔ 
جب وہ لوگ کھانے پینے میں مصروف تھے تو کانوے وادی کے سِرے پر واقع پہاڑ کو دیکھنے لگا۔ چانگ جو کُچھ دیر سے کانوے کو غور سے دیکھ رہا تھا بولا: ’’مسٹر کانوے، معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ہمارا پہاڑ پسند آیا ہے۔‘‘ 
’’ہاں یہ بڑا حسین پہاڑ ہے۔ اس کا کوئی نام تو ہو گا۔‘‘ کانوے نے جواب دیا۔ 
’’جی ہاں یہ کراکل کہلاتا ہے۔ یہ اٹھائیس ہزار فیٹ سے زیادہ بُلند ہے۔ چانگ نے جواب دیا۔ پھر بولا: ’’اچھا اب اگر آپ تیّار ہوں تو ہم اپنا سفر شروع کریں۔‘‘ 
کُچھ ہی دیر میں وہ سب شانگری لا کی طرف چل پڑے۔ پوری صُبح وہ آہستہ آہستہ پہاڑ پر چڑھتے رہے۔ راستہ زیادہ دشوار گزار نہیں تھا۔ لیکن زیادہ بُلندی کی وجہ سے اُنہیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔ چانگ اپنی کرسی پر بیٹھا تھا جسے دو آدمی اٹھائے ہوئے چل رہے تھے۔ سفر شروع ہوتے ہی اُس نے آنکھیں بند کر لی تھیں اور ایسا لگتا تھا جیسے وہ سو رہا ہے۔ کانوے ان تِبّتی باشندوں کی جو چانگ کی کرسی اٹھائے ہوئے تھے، باتیں بڑے غور سے سُن رہا تھا۔ وہ تِبّتی زبان زیادہ نہیں جانتا تھا، لیکن ان کی باتوں سے وہ یہ سمجھ گیا کہ وہ خانقاہ واپس جانے پر خوش ہیں۔ 
دو میل چلنے کے بعد اب راستہ زیادہ ڈھلوان ہو گیا تھا۔ سورج کو بادلوں نے ڈھانپ لیا تھا اور ہوا زیادہ سرد ہو گئی تھی۔ کُچھ ہی دیر میں اُنہیں ایسا محسوس ہوا جیسے وہ اُس جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں چڑھائی ختم ہو جاتی ہے۔ چانگ کے کرسی بردار چند منٹ وہاں دم لینے کے لیے رُک گئے۔ برنارڈ اور میلن سن کا سانس پھُول گیا تھا اور وہ اس قدر تھک گئے تھے کہ اُن کے لیے سفر جاری رکھنا مُشکل نظر آ رہا تھا۔ تِبّتی بار برداروں نے اِشاروں ہی اِشاروں میں بتایا کہ اب آگے سفر اتنا تھکا دینے والا نہیں ہے۔ اُنہوں نے رسّیاں نکالیں اور لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اِس طرح باندھنا شروع کر دیا جیسے کوہ پیا پہاڑ پر چڑھتے وقت باندھتے ہیں۔ جب اُنہوں نے دیکھا کہ کانوے ایک تجربہ کار کوہ پیا ہے تو اُنہوں نے احتراماً یہ کام اُس پر چھوڑ دیا۔ کانوے نے اپنے ساتھیوں کی ترتیب یوں رکھی کہ اپنے اور میلن سن کے آگے اور پیچھے انہی تِبّتیوں کو رکھا۔ اس کے بعد برنارڈ اور مس برنک لُو اور آخر میں پھر تِبّتیوں کو۔ اس طرح ایک قطار میں یہ قافلہ روانہ ہوا۔ 
پہاڑ کے ساتھ ساتھ راستہ چٹانوں کو کاٹ کر بنایا گیا تھا جو بعض مقامات پر تو دو فیٹ سے زیادہ چوڑا نہیں تھا۔ جب یہ لوگ نیچے اُترنے لگے تو ہوا کُچھ گرم ہو گئی۔ کانوے نے موڈ خوشگوار رکھنے کے لیے کہا: ’’سچ بات ہے اگر ہم خود آتے تو ہمیں راستہ کبھی نہیں ملتا۔‘‘ لیکن میلن سن پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس کا موڈ بدستور خراب تھا۔ اس نے تُنک کر پوچھا: ’’اچھّا جب ہم وہاں پہنچ جائیں گے تو پھر کیا کریں گے؟ جس راستے سے ہم جا رہے ہیں۔ اِس راستے سے واپس آنے کے لیے تو ہمیں خاصی جدوجہد کرنا پڑے گی۔‘‘ 
کانوے نے اِس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اب نیچے اُتر آئے تھے اور اُن کے عین سامنے تھوڑے فاصلے پر شانگری لا کی خانقاہ تھی۔ عجیب شان دار منظر تھا۔ نا قابلِ یقین۔ پہاڑی کی کِگر پر کُچھ رنگین عمارتیں اِس طرح بنی ہوئی تھیں، جیسے کسی پھول کی نازک پتیاں ایک چٹان پر رکھی ہوں۔ اُس کے آگے کراکل کی برفانی چوٹی سورج کی روشنی میں جگمگا رہی تھی اور اس کے دامن میں ایک سر سبز و شاداب وادی دُور تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ وادی تیز ہواؤں کی دست بُرد سے محفوظ اور بیرونی دُنیا سے الگ تھلگ تھی۔ اِس منظر کو دیکھتے ہوئے اچانک کانوے کو ایک اَن جانے خوف کا احساس ہوا اور یہ خیال اُس کے ذہن میں کوندا کہ شاید میلن سن کے شبہات درست ہیں۔ 
کانوے کو یہ تو اچھّی طرح یاد نہیں رہا تھا کہ وہ اور اُس کے ساتھی کس طرح خانقاہ پہنچے، لیکن اُسے یہ یاد تھا کہ جب اس نے خانقاہ میں اپنے کمرے کو دیکھا کہ وہ کس قدر صاف ستھرا وسیع اور گرم ہے تو وہ حیران رہ گیا تھا۔ چانگ اپنی کرسی سے اُٹھ گیا تھا اور اُنہیں اپنے ساتھ لے کر آ رہا تھا۔ اس کا رویّہ اب بہت دوستانہ تھا۔ وہ کہنے لگا: ’’میں معافی چاہتا ہوں کہ میں راستے میں آپ کے ساتھ نہیں چلا۔ دراصل اِس قسم کے سفر تھکا دیتے ہیں اور مُجھے اپنا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ کہیں آپ تو زیادہ تھک نہیں گئے؟‘‘ 
’’بس، ہم نے کسی نہ کسی طرح یہ راستہ طے کر ہی لیا۔‘‘ کانوے نے مُسکرا کر کہا۔ 
’’خوب۔‘‘ چانگ بولا اور پھر کہنے لگا: ’’آئیے، اب آپ میرے ساتھ چلئے۔ میں آپ لوگوں کو آپ کے کمروں میں پہنچا دوں۔ یقینا آپ نہانا چاہتے ہوں گے۔ اس کے بعد آپ میرے ساتھ کھانا کھائیں گے اور یہ میرے لیے ایک اعزاز ہو گا۔‘‘ 
’’شکریہ‘‘۔ کانوے نے شائستگی سے کہا، لیکن میلن سن خاصا بد اخلاق ہو رہا تھا۔ وہ بولا: ’’اور اس کے بعد اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہوا تو ہم یہاں سے واپس جانے کے انتظامات پر غور کریں گے۔ میں جتنی جلدی مُمکن ہو یہاں سے نکل جانا چاہتا ہوں۔‘‘ 
چوتھا باب 
رات کو کھانے پر چانگ نے مُسکرا کہا: ’’میرا خیال ہے کہ آپ نے ہمارے بارے میں جو سوچا تھا ہم اس سے زیادہ مہذّب نکلے ہیں۔‘‘ 
کانوے اِس سے انکار نہیں کر سکتا تھا۔ شانگری لا میں اب تک جو انتظامات اس نے دیکھے تھے وہ اس کی توقّع سے کہیں زیادہ بڑھ کر تھے۔ بلکہ یوں کہنا بہتر ہو گا کہ اُس کی توقّع کے بالکل خلاف تھے۔ خانقاہ میں جدید دور کی تمام آسائشیں موجود تھیں، اعلیٰ قسم کے حمام شامل تھے جنہیں امریکا سے لایا گیا ہو گا۔ کھانا کھلانے والے ملازم چینی تھے جو چین کے رواج کے مطابق کھانا کھِلا رہے تھے۔ 
کانوے نے دس سال چین میں گزارے تھے اور وہ اِن دس سالوں کو اپنی زندگی کا سب سے خوش گوار دور تصوّر کرتا تھا۔ اُسے چین کے لوگ اور اُن کے طور طریقے پسند تھے۔ خاص طور پر اُسے چینی کھانے مرغوب تھے اور شانگری لا میں کھانا اسے بہت اچھّا لگا تھا۔ اس نے دیکھا کہ چانگ نے تھوڑی سی سبزیوں کے علاوہ کوئی چیز نہیں کھائی اور نہ شراب کو ہاتھ لگایا۔ 
’’میں بہت تھوڑا کھاتا ہوں۔ مُجھے اپنا خیال رکھنا پڑتا ہے۔‘‘ وہ کہنے لگا۔ کانوے کو خیال آیا کہ اُس نے پہلے بھی یہ بات کہی تھی کہ وہ سوچنے لگا کہ اسے کیا بیماری ہے اور احتیاط کرنے کی ضرورت کیوں ہے۔ چانگ کی عُمر کا اندازہ لگانا مُشکل تھا یا تو وہ ایسا جوان تھا جو وقت سے پہلے بُوڑھا ہو گیا تھا یا پھر وہ ایسا بُوڑھا تھا جسے اپنی صحت کا ہر وقت خیال رکھنا پڑتا تھا۔ 
کھانا کھا چُکنے کے بعد کانوے چانگ سے کہنے لگا: ’’میرا خیال ہے کہ یہاں باہر سے لوگ کبھی کبھار ہی آتے ہوں گے؟‘‘ 
’’جی ہاں۔ اِس راہ سے مسافر کم ہی گُزرتے ہیں۔‘‘ چانگ نے جواب دیا۔ 
کانوے مُسکرایا اور بولا: ’’آپ سچ کہتے ہیں۔ جب میں یہاں آیا تو میں نے محسوس کیا کہ اِس سے زیادہ سُنسان جگہ دُنیا میں کوئی نہیں ہو گی۔‘‘ 
مس برنک لُو نے چانگ سے کہا کہ وہ اس خانقاہ کے بارے میں اُنہیں کُچھ بتائے۔ کتنے لوگ یہاں رہتے ہیں اور خود اُس کا تعلّق کس ملک سے ہے۔ 
چانگ نے جواب دیا: ’’یہاں کوئی پچاس لامہ ہیں۔ اِن کے علاوہ اور لوگ بھی ہیں جیسے میں ہوں جو ابھی تک لامہ نہیں بنے ہیں۔  یہ زیادہ تر تِبّتی ہیں یا چینی، لیکن بہت سے دوسرے ملکوں کے بھی ہیں۔‘‘ 
’’آپ کے سب سے بڑے لامہ بھی تِبّتی یا چینی ہوں گے؟‘‘ مس بر تک لُو نے کہا۔ 
’’نہیں۔‘‘ چانگ نے کہا۔ 
’’کیا یہاں کوئی انگریز بھی ہے؟‘‘ برنک لُو نے سوال کیا۔ 
’’جی ہاں بہت سے۔‘‘ چانگ نے جواب دیا۔
’’یہ حیرت کی بات ہے۔‘‘ مس برنک لُو نے کہا۔ پھر بولیں: ’’اچھا، بتائے آپ کا عقیدہ کیا ہے؟‘‘ 
کانوے بولا: ’’ہاں یہ تو میں بھی جاننا چاہوں گا۔‘‘ 
چانگ نے دھیمے لہجے میں آہستہ آہستہ بولنا شروع کیا: ’’چند لفظوں میں کہوں گا کہ ہم ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔ اِس وادی میں کئی ہزار آدمی رہتے ہیں جو ہمارے کنٹرول میں ہیں۔ ہم اپنے اختیارات اِس طرح استعمال کرتے ہیں کہ نہ زیادہ سختی کرتے ہیں نہ زیادہ نرمی برتتے ہیں اور اُن سے اِتنی ہی وفاداری چاہتے ہیں جتنا ہم اُن کا خیال رکھتے ہیں۔ ہم مکمّل اچھّائی کی اور ایمانداری کی اُن سے توقّع نہیں کرتے۔ اس کے بَین بَین رہنے میں ہم سب خوش ہیں۔‘‘ 
میلن سن جو یہ گُفت گُو سُن رہا تھا بولا: ’’یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن یہاں سے واپسی کے بارے میں بھی تو سوچنا چاہیے۔ ہم جلد سے جلد ہندوستان پہنچنا چاہتے ہیں۔ آپ بتائیے مسٹر چانگ، آپ ہمیں کتنے قُلی مہیّا کر سکتے ہیں؟‘‘ 
اس سوال پر چانگ کُچھ دیر خاموش رہا پھر بولا: ’’مسٹر میلن سن، مُجھے افسوس ہے قُلیوں کے معاملے سے میرا کوئی تعلّق نہیں، لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اِس کا انتظام جلد نہیں ہو سکے گا۔‘‘ 
میلن سن بولا: ’’تاہم کُچھ نہ کُچھ تو ضرور کرنا ہو گا۔ ہم سب کو اپنے اپنے کام پر واپس پہنچنا ہے۔ پھر ہمارے دوست اور رشتہ دار بھی ہماری طرف سے فکر مند ہوں گے۔‘‘  
چانگ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 
میلن سن نے کُچھ دیر انتظار کیا اور پھر بولا: ’’قریب ترین ٹیلی گراف لائن کہاں ہے؟ جب آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو آپ کہاں سے پیغام بھیجتے ہیں؟‘‘ اچانک اُس کے لہجے سے خوف جھلکنے لگا اور وہ کرسی پیچھے کھِسکا کر کھڑا ہو گیا۔ اُس کا چہرہ پیلا پڑ گیا اور وہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ اُس نے دیوانوں کی طرح چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے کہا: ’’اف، میں کِس قدر تھک گیا ہوں اور آپ میں سے کوئی بھی میری مدد کرنے کو تیّار نہیں۔ میں نے ایک سیدھا سا سوال کیا تھا۔ اِس کا کوئی تو جواب آپ کے پاس ہو گا۔ یہاں جو آپ نے جدید قسم کے حمّام بنا رکھے ہیں اُن کے لیے آپ نے سامان کس طرح منگوایا ہے؟‘‘ 
کمرے میں خاموشی رہی۔ کوئی نہیں بولا۔ 
’’اچھا تو آپ مُجھے نہیں بتائیں گے؟ یہ بھی شاید کوئی راز ہے۔‘‘ میلن سن نے کہا۔ پھر وہ کانوے سے مخاطب ہو کر بولا: ’’کانوے، ہمیں کل ہی یہاں سے نکل جانا چاہیے۔ یہ انتہائی ضروری ہے۔‘‘ 
اس پر ہیجانی کیفیّت طاری ہو رہی تھی اور وہ فرش پر گِرنے ہی والا تھا کہ برنارڈ نے اُس کو سنبھال لیا اور پکڑ کر کرسی پر بِٹھا دیا۔ کانوے نے یوں محسوس کیا جیسے وہ کسی عجیب خواب سے جاگا ہو۔ اس نے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ ہم سب تھک گئے ہیں۔ ہمیں یہ بحث ختم کر کے سو جانا چاہیے۔ برنارڈ !تُم میلن سن کو لے جاؤ۔ مس برنک لُو، میں سمجھتا ہوں کہ تمہیں بھی آرام کی ضرورت ہے۔ جاؤ۔ شب بخیر! میں بھی تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔‘‘ کانوے نے یہ کہتے ہوئے اپنے تینوں ساتھیوں کو کمرے سے باہر دھکیل دیا۔ 
اب وہ چانگ کی طرف مُڑا اور اس سے مخاطب ہو کر سنجیدگی سے کہنے لگا: ’’اچھّا جناب، اب میں آپ سے کُچھ کہنا چاہتا ہوں۔ میرا دوست سخت پریشان ہے۔ میں اُسے کوئی الزام نہیں دیتا۔ وہ صحیح کہہ رہا تھا۔ ہمارے واپسی کے سفر کا انتظام ہونا چاہیے اور یہ ہم آپ کی مدد کے بغیر نہیں کر سکتے۔ اگر یہ صحیح ہے کہ آپ ہمارے لیے خود کُچھ نہیں کر سکتے تو ہمیں اُس سے ملا دیجئے جو کر سکتا ہے۔‘‘ 
چانگ نے کہا: ’’میرے محترم دوست، آپ اپنے ساتھیوں سے زیادہ ذہین ہیں اور اِس لیے اتنے بے صبر نہیں ہیں۔‘‘ 
پھر وہ مُسکرایا اور بولا: ’’میں نہیں سمجھتا ہوں کہ آپ کو آسانی سے ایسے لوگ مل جائیں گے جو اِس سفر کے لیے تیّار ہوں۔ اِس وادی میں رہنے والے باہر کی دُنیا کا لمبا اور تھکا دینے والا سفر پسند نہیں کرتے۔‘‘ 
’’ان کو اِس کے لیے آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ آج صُبح آپ کو لے کر کہاں جا رہے تھے؟‘‘ کانوے نے کہا۔ 
’’آج صُبح؟ اوہ وہ کُچھ اور بات تھی۔‘‘ 
’’وہ اور بات کیسے تھی؟ کیا آپ کسی سفر پر نہیں نکلے تھے کہ ہم مل گئے؟‘‘ کانوے نے سوال کیا۔ 
چانگ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ کانوے نے ایک لمحہ توقّف کیا اور پھر دھیمے لہجے میں بولا: ’’میں سمجھ گیا۔ یہ کوئی اتّفاقیہ ملاقات نہیں تھی۔ آپ قصد کر کے ہم سے ملنے آئے تھے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو معلوم تھا کہ ہم آ رہے ہیں۔ اب دِل چسپ سوال یہ ہے کہ آپ کو یہ کس طرح معلوم ہوا تھا؟‘‘ 
لیمپ کی روشنی میں چانگ کا چہرہ پُر سکون نظر آ رہا تھا۔ اُس پر کوئی تاثر نہیں تھا۔ اس نے کہا: ’’آپ سمجھ دار ہیں، لیکن جو کُچھ آپ نے کہا ہے سب صحیح نہیں ہے۔ اِس لیے میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ پریشان نہ ہوں۔ یقین جانیے شانگری لا میں آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘ 
’’ہم کِسی خطرے کی وجہ سے پریشان نہیں ہیں۔ ہمیں اپنی واپسی میں تاخیر سے پریشانی ہے۔‘‘ کانوے نے کہا۔ 
چانگ بولا: ’’مُجھے اِس کا احساس ہے۔ یقینا کُچھ تاخیر ہو گی جو ناگزیر ہے۔ اِس دوران میں مَیں چاہوں گا کہ آپ اور آپ کے ساتھی یہاں اپنے قیام سے پوری طرح لُطف اندوز ہوں۔‘‘ 
کانوے نے کہا: ’’خیر اگر تھوڑی سی تاخیر ہو جاتی ہے تو مُجھے اعتراض نہیں ہو گا۔ یہ ایک نیا اور دِل چسپ تجربہ ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں تھوڑے سے آرام کی ضرورت ہے۔‘‘ 
اُس نے باہر کی طرف دیکھا۔ نیلے آسمان کے سایہ میں کراکل پہاڑ چاند کی تیز روشنی میں چاندی کی طرح چمک رہا تھا۔ اُسے یوں لگا جیسے وہ اپنا ہاتھ بڑھائے تو اُسے چھُو سکتا ہے۔ اُسے اندر سے ایک خواہش ہوئی اور اس نے پوچھا: ’’کراکل کا کیا مطلب ہے؟‘‘ 
چانگ نے جواب دیا: ’’یہاں کی زبان میں کراکل کے معنی ہیں۔ نیلا چاند۔ ‘‘
پانچواں باب 
دوسرے دِن صُبح ناشتے پر میلن سن نے کانوے سے پوچھا: ’’کیا تُم میرے جانے کے بعد اِس چینی سے کوئی بات معلوم کر سکے؟‘‘ 
کانوے نے جواب دیا: ’’ہماری زیادہ دیر بات نہیں ہوئی۔ میں واپسی کے سفر کے بارے میں اُس سے کوئی حتمی وعدہ نہیں لے سکا۔‘‘ 
اُسی وقت چانگ کمرے میں داخل ہوا اور نرمی سے اُن سے پوچھنے لگا کہ کیا رات ان کو اچھّی طرح نیند آئی۔ کانوے نے اُس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ اب اپنے آپ کو کافی بہتر محسوس کر رہا ہے، لیکن میلن سن پھٹ پڑا۔ وہ کہنے لگا:
’’اگر اِسے آپ بد اخلاقی نہ سمجھیں تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم سب جتنی جلدی مُمکن ہو یہاں سے چلے جانا چاہتے ہیں۔ آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو میں آج صُبح کُچھ قلی تلاش کروں؟‘‘ 
چانگ نے پُر سکون لہجے میں جواب دیا: ’’مُجھے افسوس ہے کہ اِس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ہمارے ہاں کوئی آدمی ایسا نہیں ملے گا جو اپنے گھر سے اِتنی دور آپ کے ساتھ جانے کو تیّار ہو۔‘‘ 
’’اف خُدایا، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم اِس جواب سے مطمئن ہو جائیں گے۔‘‘ میلن سن نے چیخ کر کہا۔ 
’’مُجھے افسوس ہے۔ میں اِس کے علاوہ اور کُچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘ 
’’دیکھیے جناب۔‘‘ میلن سن نے بگڑ کر کہا۔ ’’ہم یہاں ہمیشہ نہیں رہ سکتے اور خود یہاں سے نکلنا بھی مُمکن نہیں۔ ایسی صورت میں آپ کا مشورہ کیا ہے؟‘‘ 
چانگ مُسکرایا اور کہنے لگا: ’’گاہے گاہے ہمیں بیرونی دُنیا سے کُچھ چیزیں منگانی پڑتی ہیں۔ یہ چیزیں قُلیوں کی جماعتیں لاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک جماعت عنقریب آنے والی ہے۔ جب وہ یہ چیزیں ہمیں پہنچا دیں گے تو واپس چلے جائیں گے۔ میرا خیال ہے کہ آپ اُن قُلیوں کے ساتھ واپس جانے کا کوئی انتظام کر سکیں گے۔‘‘ 
’’یہ لوگ کب آئیں گے؟‘‘ میلن سن نے سوال کیا۔ 
’’صحیح تاریخ بتانا تو مُمکن نہیں۔ تاخیر بھی ہو سکتی ہے، لیکن میرا خیال اب سے ایک مہینہ بعد یہ لوگ یہاں پہنچیں گے۔ بہرحال دو مہینے سے زیادہ دیر نہیں ہو گی۔‘‘ چانگ نے جواب دیا۔ پھر وہ دروازے کی طرف بڑھا۔ پلٹ کر کانوے کی طرف تھوڑا سا جھُکا اور یہ کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا کہ ’’میں اُمّید کرتا ہوں کہ اُس وقت تک آپ یہاں اپنا وقت آرام سے گزاریں گے۔‘‘ 
کانوے اور اُس کے ساتھیوں کا صُبح کا باقی وقت یہاں سے اپنی واپسی کے مسئلہ پر غور کرنے میں گزرا۔ یہ خیال کہ تِبّت کی ایک خانقاہ میں اُنہیں دو مہینے پڑا رہنا پڑے گا، پریشان کُن تھا۔ میلن سن کہنے لگا: ’’اِس سارے معاملے میں مُجھے گڑبڑ نظر آتی ہے۔ ہم سے کُچھ چھُپایا جا رہا ہے۔ میں تو اِسی لمحے یہاں سے نِکل جانا چاہتا ہوں۔‘‘ 
کانوے بولا: ’’تُم غَلَط نہیں کہہ رہے، لیکن بد قسمتی سے ہم اِس معاملے میں بالکل بے بس ہیں۔ اگر یہ لوگ ہمارے لیے اِس وقت قُلیوں کا اِنتظام نہیں کرتے ہیں یا نہیں کر سکتے ہیں تو ہمیں مجبوراً اُن قُلیوں کا انتظار کرنا پڑے گا جو آنے والے ہیں۔ دُنیا کے کسی اور ویران علاقے میں دو مہینے گزارنے سے بہتر ہے کہ یہیں گُزار لیے جائیں۔‘‘ یہ آخری جملہ اُس نے میلن سن کو حوصلہ دینے کے لیے کہا۔ اُسے میلن سن کی بے چینی کا احساس تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ اس نوجوان کے ماں باپ لندن میں اُس کے منتظر ہیں اور وہ لڑکی بھی جس سے اُس کی شادی ہونے والی ہے۔ وہ کہنے لگا: ’’میں اِس اعتبار سے خوش قسمت ہوں کہ میرا کوئی نہیں جو میری طرف سے فکرمند ہو، لیکن جِن کے دوست اور عزیز ہیں اُن کے لیے واقعی یہاں اِتنا وقت گزارنا بہت مُشکل ہو گا۔‘‘ 
برنارڈ اپنی خوش مزاجی کی عادت کے مطابق بولا: ’’دو مہینے یہاں رہنے سے میں بھی مر نہیں جاؤں گا۔ میرے گھر والوں کو کوئی فکر نہیں ہو گی۔ میں یوں بھی اُنہیں خط کم ہی لکھتا ہوں۔‘‘ 
کانوے نے کہا: ’’مت بھولو کہ ہمارے نام اخباروں میں آ جائیں گے۔ ہوائی جہاز کے بارے میں خبر ہو گی کہ وہ لا پتہ ہے اور ہمارے بارے میں لوگ سمجھ لیں گے کہ ہوائی جہاز کے تباہ ہونے سے ہم ہلاک ہو گئے ہیں۔‘‘
برنارڈ ہنسا اور بولا: ’’ہاں یہ صحیح ہے، لیکن جہاں تک میرا تعلّق ہے اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ 
کانوے کو خوشی ہوئی لیکن اُس کے اِس جملے سے وہ چونکا۔ پھر اُس نے مس برنک لُو کی طرف دیکھا۔ وہ بولی: ’’جیسا کہ مسٹر برنارڈ نے کہا دو مہینے یہاں رہنے میں کیا پریشانی ہے۔ میں یہاں بہت خوش ہوں۔‘‘ 
برنارڈ اور مس برنک لُو جِس سکون کے ساتھ اس صورتِ حال کو قبول کر رہے تھے۔ اِس پر کانوے کو تعجّب تو ہوا، لیکن اُس نے اطمینان کا سانس لیا۔ اب میلن سن تک کی اداسی بھی آہستہ آہستہ دُور ہوتی جا رہی تھی اور جب دوپہر کے کھانے کے بعد چانگ اُن لوگوں کے پاس آیا تو اُنہوں نے خوش مزاجی سے اُس کا خیر مقدم کیا۔ اس نے کہا کہ کانوے اور اُس کے ساتھی خانقاہ کی کُچھ عمارتیں دیکھنا پسند کریں گے تو اُسے اُنہیں یہ عمارتیں خود لے جا کر دِکھانے میں خوشی ہو گی۔ 
برنارڈ نے کہا: ’’ہاں ضرور۔ ہم اِس جگہ کو اچھّی طرح دیکھنا چاہیں گے کیوں کہ پھر نہ جانے دوبارہ کب یہاں آنا ہو۔‘‘ اس کے سب ساتھیوں نے اُس کی تائید کی۔ 
شانگری لا پہلی خانقاہ نہیں تھی جو کانوے نے دیکھی تھی لیکن یہ یقیناسب سے بڑی اور سب سے عجیب خانقاہ تھی۔ اُنہیں خانقاہ کے بہت سے حصّوں میں نہیں لے جایا گیا اِس کے باوجود پوری سہ پہر خانقاہ کا دورہ کرنے میں گزر گئی۔ کانوے نے جو کُچھ دیکھا اُس سے خانقاہ سے اس کی دِل چسپی اور بڑھ گئی۔ اُس نے وہاں ایسی نادر و نایاب چیزیں دیکھیں جو کسی اعلیٰ میوزیم کی زینت ہو سکتی تھیں۔ خُوب صُورت قدیم گُل دان، قلمی نقّاشی اور کندہ کاری کے اعلیٰ نمونے اور قلمی تصویریں جِن میں سے بعض تو ایک ہزار سال سے زیادہ پرانی تھیں۔ اِن کے علاوہ ایک نفیس لائبریری بھی تھی جس میں ہزاروں بیش قیمت کتابیں تھیں۔ کانوے نے کتابوں کی الماریوں پر ایک اُچٹتی ہوئی نظر ہی ڈالی تھی، لیکن یہی اُس کو حیران کرنے کے لیے کافی تھا۔ دُنیا کا بہترین لٹریچر وہاں تھا۔ انگریزی، فرانسیسی، جرمن اور روسی کتابوں کے علاوہ بڑی تعداد میں چینی اور دوسری مشرقی زبانوں کی کتابیں بھی موجود تھیں۔ وہ قدیم نوادرات اور علم و ادب کے اِس خزانے کو دیکھنے میں اتنا محو ہوا کہ اُسے وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا اور جب چانگ نے اُس کو چائے پینے کی دعوت دی تو اُسے احساس ہوا کہ شام ہو گئی ہے۔ 
مس برنک لُو نے چانگ سے پوچھا کہ کیا وہ اُنہیں خانقاہ کے راہبوں سے نہیں ملائیں گے؟ اِس پر چانگ نے بڑی نرمی سے جواب دیا کہ معاف کیجئے گا، یہ مُمکن نہیں، خانقاہ کا دورہ کرنے والے لاماؤں سے نہیں مل سکتے۔ 
’’یہ واقعی افسوس کی بات ہے۔‘‘ برنارڈ نے کہا: ’’میں تو آپ کے بڑے لامہ سے ملنا چاہتا تھا۔‘‘ 
چانگ نے کہا: ’’افسوس کہ یہ مُمکن نہیں؟‘‘ اور پھر وہ ہمیں لے کر ایک چھوٹے سے خوب صورت باغ میں آ گیا جس کے بیچ میں کنول کے پھولوں سے بھرا ایک حوض تھا۔ باغ کے دوسری طرف ایک کمرہ تھا جس میں ایک جدید قسم کا پیانو رکھا تھا۔ کانوے اُسے دیکھ کر خوش ہو گیا۔ چانگ نے بتایا کہ لامہ مغربی موسیقی کے بڑے دِلدادہ ہیں، خاص طور پر موزارٹ کی بنائی ہوئی دُھنیں اُنہیں بہت پسند ہیں اور کُچھ لامہ بہت عمدہ پیانو بجانا بھی جانتے ہیں۔ 
برنارڈ کو سب سے زیادہ حیرت اِس بات کی ہوئی کہ اتنا بڑا پیانو یہاں تک کیسے لایا گیا ہو گا۔ اُس نے حیرت سے پوچھا: ’’کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ یہ پیانو اُس راستے سے یہاں لایا گیا ہے جس راستے سے ہم کل یہاں پہنچے ہیں؟‘‘ 
چانگ نے جواب دیا: ’’جی ہاں۔ اِس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔‘‘ 
اُس لمحے کُچھ تِبّتی ملازم خُوشبو دار چائے کی پیالیاں لے کر آ گئے۔ اُن کے پیچھے چینی لباس میں ایک لڑکی تھی۔ وہ خاموشی سے پیانو کی طرف گئی اور بیٹھ کر پیانو بجانا شروع کر دیا۔ وہ جتنی خوب صورتی سے پیانو بجا رہی تھی اُتنی ہی خُوب صورت وہ خود بھی تھی۔ مانچو نسل کے لوگوں کی طرح اُس کی ناک لمبی اور نازک تھی، اُس کا چہرہ کِسی گُلابی پھُول کی مانند تھا۔ جب پیانو پر دُھن ختم ہو گئی تو وہ اُٹھی اور مہمانوں کے سامنے تعظیماً جھُک کر کمرے سے باہر چلی گئی۔ 
چانگ نے مُسکرا کر اُسے جاتے دیکھا اور پھر وہ کانوے کی طرف مُڑا اور بولا: ’’مُجھے اُمّید ہے کہ آپ کو لُطف آیا ہو گا۔‘‘ 
’’یہ کون ہے؟‘‘ میلن سن نے سوال کیا۔ 
’’اس کا نام لوتے سن ہے۔ یہ مغربی موسیقی کی ماہر ہے اور میری طرح ابھی پوری طرح لامہ بننے کی اہل نہیں ہوئی ہے۔‘‘ چانگ نے جواب دیا۔ 
مس برنک لُو بولی: ’’واقعی یہ ابھی لامہ کیسے بن سکتی ہے۔ بالکل بچّی ہی لگتی ہے۔ کیا عُمر ہو گی اِس کی؟‘‘ 
’’میں نہیں بتا سکتا۔‘‘ چانگ نے جواب دیا۔ 
برنارڈ مُسکرایا اور بولا: ’’کسی خاتون کی عُمر نہیں بتائی جاتی کیوں ہے نا یہی بات؟‘‘ 
’’بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔‘‘ چانگ بولا اور ایک ہلکی سی مُسکراہٹ اُس کے چہرے پر نمودار ہوئی۔ پھر اِس سے قبل کہ اُس سے مزید سوال کیے جائیں وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔ 
اس رات کھانے کے بعد کانوے اپنے ساتھیوں کو وہیں چھوڑ کر باہر صحن میں چلا گیا۔ چاند کی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور ہر طرف خاموشی تھی۔ سردی تھی لیکن ہوا بند تھی۔ کراکل پہاڑ دِن کی روشنی میں دُور لگتا تھا، لیکن اِس وقت بہت قریب لگ رہا تھا۔ جسمانی طور پر کانوے مطمئن اور خوش تھا لیکن اُس کے ذہن میں ایک اُلجھن تھی۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کُچھ جو اُن کے ساتھ ہوا ہے کیوں ہوا ہے۔ اِس کی کوئی وجہ ضرور ہے۔ اور اگر یہ وجہ معلوم ہو جائے تو پھر ہر بات واضح ہو جائے گی۔ صحن سے گزر کر وہ اس ٹیرس پر پہنچ گیا جو وادی کے کنارے پر آگے کو نکلا ہوا تھا۔ وہاں وہ جھک کر نیچے تاریک کھائی کی طرف دیکھنے لگا۔ اچانک اسے دور وادی کی طرف سے کُچھ آوازیں آتی سُنائی دیں۔ یہ ڈھول پر تھاپ کی آواز تھی۔ کُچھ لوگوں کے بولنے کی بھی ہلکی سی آوازیں تھیں۔ اچانک دو تِبّتی خاموشی سے آئے اور صحن کو پار کر کے ٹیرس کے آخری سِرے پر دیوار کی طرف بڑھ گئے۔ اب ڈھول اور نفیری کی آوازیں زیادہ واضح سُنائی دے رہی تھیں۔ اِس دوران کانوے نے سُنا۔ ایک تِبّتی دوسرے تِبّتی سے کہہ رہا تھا: ’’اُنہوں نے تالو کو دفنا دیا ہے۔‘‘ 
کانوے کو تِبّتی زبان زیادہ نہیں آتی تھی لیکن وہ اُن کی باتیں غور سے سُننے لگا۔ سوال کرنے والے کی بات تو وہ نہیں سُن سکا لیکن جواب دینے والے کی بات وہ سُن رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا: 
’’تالو کا اِنتقال ہو گیا۔ اس نے شانگری لا کے بڑوں کے حُکم پر عمل کیا۔ وہ ایک عظیم پرندے پر سوار، عظیم پہاڑوں پر اُڑتا ہوا آیا تھا۔ وہ اپنے ساتھ کُچھ اجنبیوں کو لایا تھا۔ تالو نہ باہر کی سردی سے ڈرتا تھا نہ باہر کی تیز ہوا سے۔ وہ کافی مدّت ہوئی باہر چلا گیا تھا، لیکن نیلے چاند کی وادی اُسے بھولی نہیں تھی۔‘‘ 
اِس کے بعد اُن دونوں کے درمیان اور کوئی گُفت گُو نہیں ہوئی۔ کانوے نے کُچھ دیر انتظار کیا اور پھر وہ بھی اپنے کمرے میں لوٹ آیا۔ اُس نے جو کُچھ سُنا تھا اُس سے یہ بات صاف ہو گئی کہ باسکل سے اُن کے ہوائی جہاز کی پرواز کِسی دیوانے کی بے مقصد حرکت نہیں تھی۔ یہ ساری کارروائی شانگری لا کے حُکم پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی گئی تھی۔ ہوا باز کو یہاں رہنے والے جانتے تھے اور اُس کے نام تک سے واقف تھے۔ وہ اُن ہی میں سے تھا اور اُس کی موت کا یہاں سوگ منایا گیا ہے۔ لیکن یہ سب کُچھ کیوں کیا گیا؟ برطانوی حکومت کے ایک ہوائی جہاز میں سفر کرنے والے چار آدمیوں کو یہاں اُس سُنسان اور خُفیہ مقام پر کیوں لایا گیا ہے؟ 
یہ ایک سخت اُلجھا دینے والا معاملہ تھا۔ ایک معمّہ تھا۔ کانوے نے اُسی لمحے ایک فیصلہ کیا کہ وہ اپنے شُبہات کسی پر ظاہر نہیں کرے گا۔ کیوں کہ اُس کے ساتھی اُس کی کوئی مدد نہیں کر سکتے تھے اور ظاہر تھا کہ چانگ یقینااُس کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔ 
چھٹا باب 
کانوے اور اس کے ساتھیوں نے شانگری لا کی زندگی کو قبول کر لیا تھا اور اب وہ آہستہ آہستہ اس ماحول کے عادی ہوتے جا رہے تھے۔ وقت گزارنے کے لیے مس برنک لُو نے تِبّتی زبان سیکھنا شروع کر دی تھی اور کانوے نے اِس مسئلے کے علاوہ جس کے بارے میں وہ سوچتا رہتا تھا اپنے لیے کئی اور دِلچسپیاں ڈھونڈ لی تھیں۔ گرم چمکیلے دِنوں میں وہ لائبریری یا میوزک روم میں چلا جاتا۔ اُس کا اندازہ تھا کہ لائبریری میں بیس سے تیس ہزار کتابیں ہوں گی۔ چانگ نے بتایا تھا کہ1930ء تک شائع ہونے والی اور بھی بہت سی کتابیں ہیں جو خانقاہ پہنچ چکی ہیں، لیکن ابھی لائبریری میں نہیں رکھی گئی ہیں۔ اس نے کہا: ’’آپ نے دیکھا ہم اپنے آپ کو جدید حالات سے خاصا باخبر رکھتے ہیں۔‘‘ 
کانوے نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا: ’’کُچھ لوگ آپ سے اس معاملے میں اتّفاق نہیں کریں گے۔ آپ کو معلوم نہیں گزشتہ سال سے اب تک دُنیا میں بہت کُچھ تبدیلیاں ہو چکی ہیں۔‘‘ 
’’کوئی بات ایسی نہیں ہوئی ہو گی جناب جسے دس سال بعد سمجھا نہ جا سکے۔‘‘ چانگ نے جواب دیا۔ کانوے بولا: ’’چانگ صاحب میرا خیال ہے میں اب آپ کو کُچھ کُچھ سمجھنے لگا ہوں۔ آپ کی نظر میں وقت کی وہ اہمیّت نہیں جو دوسرے لوگوں کی نظر میں ہے۔ اگر میں لندن میں ہوں تو میں وہ اخبار دیکھنا چاہوں گا جو ایک گھنٹہ پہلے شائع ہوا ہے، لیکن یہاں شانگری لا میں آپ کو ایک سال پرانا اخبار دیکھنے کی بھی کوئی خاص خواہش نہیں ہو گی۔ میرے خیال میں تو یہ ایک معقول رویّہ ہے۔ اچھّا خیر یہ تو بتائیے آخری مرتبہ بیرونی دُنیا سے یہاں کسی آدمی کو آئے کتنا عرصہ ہو گیا ہو گا؟‘‘ 
’’معاف کیجئے گا، مسٹر کانوے میں یہ آپ کو نہیں بتا سکتا۔‘‘ چانگ نے جواب دیا۔ 
عموماً ایسے ہی جواب سے گُفت گُو ختم ہو جایا کرتی تھی لیکن اب کانوے اِس کا عادی ہو گیا تھا اور اُسے اِس سے اُلجھن نہیں ہوتی تھی۔ وہ چانگ کو پسند کرنے لگا تھا۔ لیکن یہ تعجّب کی بات تھی کہ خانقاہ میں چند ہی لوگوں سے اُس کی ملاقات ہوئی تھی۔ اگر لاماؤں سے ملنا مُمکن نہیں تھا تو چانگ جیسے کُچھ دوسرے لوگ تو یقیناوہاں ہوں گے جن سے وہ مل سکتا تھا۔ 
چینی لڑکی لوتے سن سے البتّہ ملاقات ہو جاتی تھی۔ وہ میوزک روم آتی تھی، لیکن اُسے انگریزی نہیں آتی تھی اور کانوے کِسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ وہ چینی زبان جانتا ہے۔ وہ یہ محسوس کرتا تھا کہ چینی زبان سے اپنی واقفیت کو راز میں رکھنا آگے چل کر اُس کے لیے مُفید ثابت ہو گا۔ وہ لوتے سن کو پیانو پر خُوب صورت دُھنیں بجاتے دیکھتا تھا لیکن یہ جاننا مُشکل تھا کہ اُس کے ذہن میں کیا ہے۔ وہ کیا سوچ رہی ہے۔ اِس سے بھی زیادہ یہ جاننا مُشکل تھا کہ اُس کی عُمر کیا ہے۔ وہ تیس سال سے زیادہ کی نہیں لگتی تھی اور تیرہ سال سے کم کی بھی نہیں معلوم ہوتی تھی۔ تاہم عجیب بات یہ تھی کہ اگر کوئی یہ کہتا کہ وہ تیس سال سے زیادہ کی ہے یا تیرہ سال سے کم کی ہے تو اس پر بھی یقین کیا جا سکتا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ عُمر کی قید سے آزاد ہو۔ 
میلن سن بھی جو کبھی کبھی اس کی موسیقی سُننے کے لیے آیا کرتا تھا، اس کے بارے میں حیران تھا۔ اس نے کئی بار کانوے سے کہا: 
’’میری سمجھ میں نہیں آتا، یہ لڑکی یہاں کیاکر رہی ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے، کیا یہ یہاں خوش ہے؟‘‘ 
’’وہ نا خوش ہو بھی تو نہیں معلوم ہوتی۔‘‘ کانوے کا جواب ہوتا۔ 
ایک دِن جب یہی گُفت گُو چھِڑی تو میلن سن کہنے لگا: ’’ایسا لگتا ہے جیسے اس لڑکی کے کوئی جذبات ہی نہیں ہیں۔ وہ انسان سے زیادہ چینی کی ایک گُڑیا لگتی ہے۔ بھلا اُس کی عمر کیا ہو گی؟‘‘ وہ رُکا، پھر بولا: ’’اور تمہارے خیال میں چانگ کی عُمر کیا ہو گی؟‘‘ 
’’انچاس اور ایک سو انچاس سال کے درمیان کُچھ بھی۔‘‘ کانوے نے ہنس کر جواب دیا۔ 
دریں اثنا مس برنک لُو کو تِبّتی زبان سیکھنے میں لُطف آ رہا تھا۔ برنارڈ بھی بہت خوش تھا اور ہنسی مذاق کی باتیں کرتا رہتا تھا۔ اُس کا یہ ہنستا بولنا میلن سن کو اچھّا نہیں لگتا تھا۔ اُس نے جب کانوے سے یہ بات کہی تو کانوے نے کہا: ’’یہ تو اچھّی بات ہے کہ وہ یہ دِن ہنسی خوشی گزار رہا ہے۔‘‘ 
میلن سن بولا: ’’مُجھے تو یہ عجیب سا لگتا ہے۔ وہ ایک جہاں گشت کاروباری آدمی ہے۔ اُس کو تو یہاں کی خاموش زندگی نے پاگل کر دیا ہوتا۔ تُم اس کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ کانوے؟ کیا تُم نے اُس کا پاسپورٹ دیکھا ہے؟‘‘ 
’’شاید میں نے دیکھا ہے، مُجھے یاد نہیں، مگر تُم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘ کانوے نے کہا۔ 
’’اس لیے کہ اس کا پاسپورٹ جعلی ہے۔ یہ شخص برنارڈ نہیں ہے۔‘‘ میلن سن نے جواب دیا۔ 
کانوے نے یہ بات دِلچسپی سے سُنی لیکن اُسے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ وہ برنارڈ کو پسند کرتا تھا۔ اُسے اِس سے غرض نہیں تھی کہ وہ کون ہے۔ اُس نے پوچھا: ’’اچھّا تو پھر یہ کون ہے؟‘‘ 
’’یہ کالمر برائنٹ ہے۔‘‘ میلن سن نے جواب دیا۔ 
’’اچھا وہ ہے۔ لیکن تمہیں کیسے معلوم ہوا؟‘‘ کانوے نے پوچھا۔ 
میلن سن نے کہا: ’’آج صُبح اُس کی نوٹ بک کہیں گِر گئی تھی۔ وہ چانگ کو پڑی ملی۔ اُس نے اُٹھا لی اور یہ سمجھ کر شاید یہ میری ہے مُجھے دے دی۔ اُس میں بہت سے اخباری تراشے تھے۔ میں اُنہیں دیکھے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ سب برائنٹ اور اُس کی تلاش کے بارے میں تھے۔ ایک تراشے میں برائنٹ کی تصویر بھی تھی جو ہو بہو برنارڈ کی تصویر ہے۔‘‘ میلن سن نے بتایا۔ 
کانوے سوچ میں پڑ گیا۔ ’’شاید تُم ٹھیک کہتے ہو۔ اِسی وجہ سے وہ یہاں مطمئن نظر آتا ہے۔ اُسے گرفتاری سے بچنے کے لیے اُس سے بہتر جگہ اور کہاں مل سکتی تھی۔‘‘
’’اب اِس معاملے میں تُم کیا کرو گے؟‘‘ میلن سن نے سوال کیا۔ 
’’فی الحال تو کُچھ نہیں کر سکتا۔ اگر وہ مجرم ہے بھی تو جب تک ہم یہاں ہیں ہمیں اُس کے ساتھ رہنا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ تُمہیں جو کُچھ معلوم ہوا ہے اُسے اپنے تک ہی رکھنا۔ کسی کو نہیں بتانا۔‘‘ 
میلن سن بولا: ’’لیکن یہ شخص چور ہے۔ میں بہت سے ایسے آدمیوں کو جانتا ہوں جن کا سرمایہ اُس شخص کی وجہ سے ڈوبا ہے۔‘‘ 
کالمر برائنٹ نیویارک میں کمپنیوں کے ایک بڑے گروپ کا سربراہ تھا۔ اِن کمپنیوں کا دیوالیہ نکل گیا اور سیکڑوں لوگوں کا سرمایہ ڈوب گیا۔ کمپنیوں کے دیوالیہ ہو جانے کی ذمّہ داری برائنٹ پر آتی تھی۔ وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنا سارا روپیہ لے کر یورپ بھاگ گیا۔ کئی ملکوں کی پولیس اُس کی تلاش میں لگ گئی۔ لیکن اُس کا کہیں پتا نہ چل سکا۔ کانوے کو اِن باتوں کا عِلم تھا۔ اگرچہ پوری تفصیلات اُسے نہیں معلوم تھیں۔ 
وہ کہنے لگا: ’’خیر میلن سن تُم میرا مشورہ مانو تو اِس کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔ اُس کی خاطر نہیں بلکہ اِس وجہ سے کہ اگر یہاں لوگوں کو یہ بات معلوم ہوئی تو ہمیں شرمندگی ہو گی۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ ہو سکتا ہے یہ شخص برائنٹ نہ ہو۔‘‘ 
لیکن وہ برائنٹ ہی تھا اور اُس کا اعتراف اُس نے خود کیا۔ اُس رات کھانے کے بعد جب چانگ اُٹھ کر چلا گیا تو مس برنک لُو تِبّتی زبان سیکھنے میں لگ گئی۔ کانوے ،میلن سن اور برنارڈ بیٹھے تھے۔ کانوے نے محسوس کیا کہ میلن سن کا برنارڈ کے ساتھ رویّہ پہلے جیسا نہیں ہے۔ برنارڈ نے بھی یہ محسوس کر لیا تھا کہ کوئی بات ضرور ہے۔ 
اچانک وہ بولا: ’’میرا خیال ہے کہ تُم لوگوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ میں کون ہوں؟‘‘ 
تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر مس برنک لُو نے کہا: ’’مُجھے نہیں معلوم مسٹر برنارڈ آپ کون ہیں؟ لیکن میرا خیال ہے یہ آپ کا اصلی نام نہیں ہے۔‘‘ 
سب اُس کو حیرت سے تکنے لگے۔ وہ کہنے لگی: ’’مُجھے یاد ہے کہ جب مسٹر کانوے نے کہا تھا کہ ہمارے نام اخباروں میں چھپ جائیں گے تو آپ نے کہا تھا کہ جہاں تک آپ کا تعلّق ہے اِس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اُس وقت میں یہ سمجھی تھی کہ شاید برنارڈ آپ کا اصلی نام نہیں ہے۔‘‘ 
برنارڈ مُسکرایا اور بولا: ’’محترمہ آپ ایک اچھّی سُراغ رساں ہیں۔ خیر، مُجھے اِس کا افسوس نہیں کہ یہ بات آپ لوگوں کو معلوم ہو گئی ہے کہ میں برنارڈ نہیں ہوں۔ آپ سب نے میرے ساتھ بڑا اچھا برتاؤ کیا ہے اور میں آپ کے لیے مشکلات پیدا کرنا نہیں چاہتا۔ اس وقت جو صورتِ حال ہے ،اِس میں ہمیں ایک دوسرے کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ آئندہ کیا ہو گا یہ آنے والے وقت پر چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘ 
کانوے نے تحسین آمیز نظروں سے برنارڈ کو دیکھا۔ اُسے یہ کُچھ عجیب سا لگا کہ یہ بھاری بھر کم، خوش مزاج بزرگانہ انداز رکھنے والا شخص جو کسی اسکول کا ہیڈ ماسٹر لگتا تھا وہ اتنا بڑا دھوکہ باز اور چور ہو۔ وہ بولا: ’’ہاں، تُم ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘  
برنارڈ ہنسا اور کہنے لگا: ’’پہلے پہل تو اِس میں بڑا لطف آیا۔ پولیس سارے یورپ میں میرے پیچھے دوڑتی رہی اور میں اُس کے ہاتھ نہیں لگا، لیکن جب میں ویانا میں پکڑے جانے سے بال بال بچا تو گھبرا گیا۔ آپ جو مُجھے یہاں اِس قدر مطمئن دیکھتے ہیں تو اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں میں پولیس کی گرفت سے دور ہوں۔ یہاں سکون ہے، آرام ہے۔ کوئی ٹیلی فون نہیں کہ مُجھے پریشان کرے۔‘‘ 
’’اور باتوں کا تو مُجھے زیادہ عِلم نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں یہاں ٹیلی فون ہوتا تو اچھّا تھا۔‘‘ کانوے بولا۔ 
برنارڈ نے کہا: ’’مالی کاروبار در اصل قسمت کا کھیل ہے۔ میری قسمت خراب تھی اور میرا سارا سرمایہ ڈوب گیا۔ بس یہی بات تھی۔‘‘ 
’’تُم نے دوسرے لوگوں کا سرمایہ بھی تو ڈبویا۔‘‘ میلن سن نے کہا۔ 
’’ہاں اُن کا سرمایہ بھی ڈوبا، مگر کیوں؟ اِس لیے کہ وہ اپنے سرمایہ سے نفع کمانا چاہتے تھے، اور اُن کے پاس اِتنی عقل نہیں تھی کہ وہ خود ایسا کر سکتے۔‘‘ برنارڈ نے جواب دیا۔ 
  میلن سن نے بولا: ’’میں یہ نہیں مانتا۔ ان کی رقم اس لیے ڈوبی کہ اُنہوں نے تم پر بھروسہ کیا اور سمجھے کہ ان کا سرمایہ محفوظ ہے۔‘‘ 
برنارڈ نے کہا۔ ’’نہیں۔ اُن کا سرمایہ محفوظ نہیں تھا۔ ہو بھی نہیں سکتا تھا ،اسٹاک مارکیٹ میں قیمتیں اچانک گِر جائیں تو کوئی کُچھ نہیں کر سکتا۔ میں بے بس تھا۔ بالکل اُسی طرح جیسے باسکل سے روانگی کے بعد جو کُچھ ہوا اُس میں ہم بے بس ہیں۔ ‘‘برنارڈ نے جواب دیا۔
اس سے پہلے کہ میلن سن کُچھ کہتا کانوے نے کہا: ’’بہتر ہے کہ ہم یہ بحث ختم کر دیں۔ اِس وقت اہم بات یہ ہے کہ یہاں اپنے قیام کو خوش گوار بنانے میں ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ اچھّی بات یہ ہے کہ ہم چار افراد میں سے تین یہاں کے قیام سے مطمئن ہیں۔‘‘ 
’’آپ مُجھے تو اُن میں شامل نہیں کر رہے ہیں؟‘‘ میلن سن بگڑ کر بولا۔ 
’’نہیں۔‘‘ کانوے نے پُر سکون لہجے میں جواب دیا۔ ’’میں برنارڈ، مس برنک لُو اور اپنی بات کر رہا ہوں۔ میرے اطمینان کی وجہ بڑی سادہ سی ہے۔ بس مُجھے یہاں رہنا اچھا لگ رہا ہے۔‘‘ 
یہ ایک حقیقت تھی۔ کانوے کو شانگری لا میں رہنا اچھّا لگ رہا تھا۔ خانقاہ اور یہاں رہنے والوں کا معمّہ اب آہستہ آہستہ اُس کی سمجھ میں آتا جا رہا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ اِس معمّے کا حل اُس نے تلاش کر لیا ہے۔ یہاں شانگری لا میں ہر طرف خاموشی اور سکون تھا۔ اندھیری راتوں میں ستارے جگمگاتے تھے اور پہاڑ آسمان کی نیلگوں روشنی میں نہائے نظر آتے تھے۔ کانوے نے اچانک محسوس کیا کہ بیرونی دُنیا سے آنے والے قُلی اگر ابھی آ جائیں تو اُسے زیادہ خوشی نہیں ہو گی۔ وہ اِن ہی خیالوں میں گُم تھا کہ چانگ دبے پاؤں وہاں آ گیا۔ 
وہ کہنے لگا: ’’جناب میں آپ کو ایک اہم بات بتانے آیا ہوں۔ بڑے لامہ نے آپ کو بُلایا ہے۔ وہ آپ سے فوراً ملنا چاہتے ہیں۔‘‘ چانگ بہت جوش میں تھا۔ وہ کہنے لگا: ’’آپ کو یہاں آئے ابھی پندرہ دِن ہی ہوئے ہیں کہ بڑے لامہ نے آپ کو طلب کر لیا ہے۔ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا ہے!‘‘ 
چانگ کا جوش و خروش دیکھ کر کانوے کو حیرانی ہو رہی تھی۔ وہ بولا: ’’اِس وقت اُن سے ملاقات کے لیے رات زیادہ تو نہیں ہو گئی ہے؟‘‘ 
چانگ نے کہا: ’’اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا جناب۔ آپ یہ باتیں جلدی ہی سمجھ جائیں گے۔ یقین کیجئے جب آپ مُجھ سے کُچھ پوچھتے تھے اور میں اُن کا جواب نہیں دیتا تھا تو مُجھے کتنی تکلیف ہوتی تھی۔ شکر ہے کہ اب اِس کی نوبت نہیں آئے گی۔‘‘ 
کانوے نے کہا: ’’اچھّا تو اب کُچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں۔ چلئے مُجھے راستہ دکھائیے۔‘‘ 
ساتواں باب 
چانگ کے ساتھ خالی دالانوں اور صحنچیوں سے گُزرتے ہوئے کانوے بظاہر پُر سکون تھا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ بڑے لامہ سے ملاقات کے خیال نے اُسے ایک ہیجان میں مبتلا کر دیا تھا۔ چانگ نے جو کُچھ کہا تھا اُس کا مطلب یہ تھا کہ جو باتیں اب تک راز میں تھیں وہ اب کھُل کر سامنے آنے والی ہیں اور بہت جلد اُسے یہ معلوم ہو جائے گا کہ اُس نے جو سوچا تھا وہ کہاں تک صحیح ہے۔ 
کانوے نے دیکھا کہ چانگ اُس کو ایسے راستوں سے لے جا رہا ہے جہاں سے وہ پہلے کبھی نہیں گُزرا تھا۔ کئی کمروں سے گُزرنے کے بعد وہ چند سیڑھیاں چڑھے۔ پھر ایک دروازے پر پہنچ کر چانگ نے دستک دی۔ ایک تِبّتی خادم نے دروازہ کھولا۔ چانگ کانوے کو لے کر اندر داخل ہو گیا۔ خانقاہ کے اِس حصّے کی ہوا خُشک اور گرم تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کھڑکیاں بند ہوں اور کمروں کو گرم رکھنے والا اسٹیم پلانٹ پوری رفتار سے چل رہا ہو۔ کُچھ اور آگے بڑھنے کے بعد چانگ ایک دروازے پر پہنچ کر رُک گیا اور آہستہ بولا: ’’لامہ اعظم آپ سے اکیلے میں ملیں گے۔‘‘ 
اس نے دروازہ کھولا، کانوے کو اندر جانے کا اشارہ کیا اور کانوے کے اندر جانے کے بعد آہستہ سے دروازہ بند کر دیا۔ کانوے کمرے میں داخل ہونے کے بعد کُچھ دیر خاموش وہیں کھڑا رہا تاکہ اُس کی آنکھیں کمرے کے اندھیرے کی عادی ہو جائیں۔ اُس نے دیکھا کہ وہ نیچی سی چھت والے ایک کمرے میں ہے اور سامنے ایک کرسی پر ڈھیلے ڈھالے چینی لباس میں ایک منحنی سا بُوڑھا شخص کسی پرانی دُھندلی سی تصویر کی مانند بے حس و حرکت بیٹھا ہے۔ کانوے اُس کی طرف بڑھا۔ اس کے قریب آنے پر بوڑھے لامہ نے نہایت شستہ انگریزی میں کہا: 
’’آپ مسٹر کانوے ہیں۔‘‘ 
’’جی ہاں۔‘‘ کانوے نے جواب دیا۔ 
’’مُجھے آپ سے مل کر خوشی ہوئی، مسٹر کانوے۔ آئیے یہاں میرے قریب بیٹھ جائیے اور ڈریے نہیں۔ میں ایک بُوڑھا آدمی ہوں، کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‘‘ اس نے کہا۔ 
کانوے بولا: ’’آپ کی خدمت میں باریابی میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔‘‘ 
’’شکریہ!‘‘ بڑے لامہ نے کہا۔ ’’جیسا کہ میں نے کہا ہے یہ لمحہ میرے لیے بڑی مسرّت کا ہے۔ میری بینائی کمزور ہے لیکن میں آپ کو اپنی آنکھوں سے اور اپنے ذہن دونوں سے دیکھ سکتا ہوں۔ مُجھے اُمّید ہے کہ شانگری لا میں آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی ہو گی۔‘‘ 
’’جی نہیں۔ میں بہت آرام سے ہوں۔‘‘ کانوے نے جواب دیا۔ 
’’مُجھے یہ سُن کر خوشی ہوئی۔ مُجھے یقین ہے چانگ نے آپ کے آرام کا پورا پورا خیال رکھا ہو گا۔ اُس نے مُجھے بتایا ہے کہ آپ ہماری خانقاہ اور یہاں کے معاملات کے بارے میں بہت کُچھ پوچھتے رہے ہیں۔‘‘ بڑے لامہ نے کہا۔ 
’’جی ہاں۔ میں اس کے بارے میں یقینا جاننا چاہتا ہوں۔‘‘ کانوے نے جواب دیا۔ 
’’اچھّا اگر آپ مُجھے کُچھ وقت دیں تو میں آپ کو اس خانقاہ کا مختصر حال بتاؤں۔‘‘ بڑے لامہ نے کہا۔ 
’’اس سے بڑھ کر مُجھے اور کیا خوشی ہو گی۔‘‘ کانوے نے جواب دیا۔ 
’’تو سُنئے۔‘‘ بڑے لامہ نے کہنا شروع کیا۔ ’’آپ تِبّت کی تاریخ سے تھوڑی بہت واقفیت تو رکھتے ہوں گے۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ سترھویں صدی میں روم نے ایشیا میں عیسائی مذہب کی تبلیغ کے لیے بہت سے مشنری بھیجے تھے۔ 1719ء میں بیلجیئم کے چار عیسائی پادری اِس مقصد کے لیے چین سے تِبّت کی طرف روانہ ہوئے۔ وہ کئی مہینے تک جنوب مغرب کی جانب سفر کرتے رہے۔ اُن میں سے تین راستے میں مر گئے۔ چوتھا بھی مرنے کے قریب تھا کہ اُسے اتّفاق سے نیلے چاند کی وادی کو جانے والا پہاڑی راستہ نظر آ گیا اور وہ اس پر چل پڑا۔ خوش قسمتی سے وادی میں اُس کو ہمدرد لوگ مل گئے جنہوں نے اُس کے ساتھ بہت اچھّا برتاؤ کیا اور وہ اُن کے ساتھ رہنے لگا۔ وادی کے لوگ بودھ مذہب کے پیرو تھے لیکن وہ عیسائی مذہب کے بھی خلاف نہیں تھے۔ اِس پہاڑی پر ایک قدیم بودھ خانقاہ تھی۔ عیسائی مشنری نے یہیں ایک مسیحی خانقاہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اِس غرض سے خانقاہ کی پُرانی عمارتوں کی مرمّت کی گئی اور کُچھ نئی عمارتیں بھی تعمیر کی گئیں۔ پادری نے خانقاہ میں رہنا شروع کر دیا۔ یہ1734ء کی بات ہے۔ اس وقت اس پادری کی عُمر ترپن سال تھی۔ 
اُس پادری کا نام پیرالٹ تھا۔ پادری بننے سے پہلے اُس نے پیرس اور یورپ کی دوسری یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ ایک عالم تھا۔ موسیقی اور فنونِ لطیفہ سے اُسے خاص دِلچسپی تھی اور وہ بہت سی غیر ملکی زبانیں بھی جانتا تھا۔ جسمانی طور پر بھی وہ مضبوط تھا۔ یہاں اپنے قیام کے ابتدائی زمانے میں اس نے دوسرے لوگوں کی طرح اپنے ہاتھوں سے کام کیا۔ خود زمین کھودی اور طرح طرح کے درخت اور پودے لگائے۔ وہ عملی آدمی تھا۔ کس خیالی دُنیا میں نہیں رہتا تھا۔ دُنیا کی اچھّی چیزوں سے لُطف اُٹھانا پسند کرتا تھا۔ وہ یہاں کے لوگوں کو اپنے مذہب کی باتیں بھی سِکھاتا تھا اور اُس کے ساتھ کھانا پکانا بھی سکھاتا تھا۔ آپ یوں سمجھئے کہ وہ ایک مُخلص سیدھا سادہ زندہ دِل، پڑھا لکھا آدمی تھا جو مذہبی عالم ہونے کے باوجود عام لوگوں کی طرح کام کرنے کو عار نہیں سمجھتا تھا۔ 
وقت گُزرتا گیا یہاں تک کہ پیرالٹ بُوڑھا ہو گیا۔ اس کے پیروکار آہستہ آہستہ پھر بودھ مذہب کی طرف راغب ہو گئے۔ یہ کوئی تعجّب کی بات نہیں تھی کیوں کہ صدیوں کی عادتوں اور عقیدوں کا بدلنا ایک آدمی کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس کے پیروکار اگرچہ اُس کی دی ہوئی تعلیم بھُول چکے تھے، لیکن وہ اس سے بہت محبّت کرتے تھے اور عقیدت رکھتے تھے۔ پیرالٹ جسمانی اور ذہنی دونوں طرح سے چاق و چوبند تھا۔ ترانوے سال کی عُمر میں اس نے بودھ مذہب کا مطالعہ شروع کیا۔ 
پیرالٹ کی زندگی کا یہ دور بڑے سکون اور اطمینان کا تھا۔ وہ بہت بُوڑھا ہو چُکا تھا۔ لیکن نہ اُسے کوئی بیماری تھی اور نہ کوئی فکر۔ بس ایک موت کا انتظار تھا جسے اب آنا ہی آنا تھا۔ وہ اس کے لیے تیّار تھا۔ اس کے کھانے اور کپڑے کا انتظام وادی کے لوگوں نے اپنے ذمّے لے رکھا تھا اور وہ اپنا وقت کتابوں کے مطالعے اور پرانی یادوں میں گزارتا تھا۔ ذہن کو آرام پہنچانے کے لیے وہ ایک قدرتی بوٹی استعمال کرتا تھا اور جسم کو درست رکھنے کے لیے یوگا کے طریقے پر عمل کرتا تھا۔ 1798ء میں جب پیرالٹ کی عُمر ایک سو آٹھ سال کی ہو گئی تو وادی میں یہ خبر پہنچی کہ اُس کے اِس دُنیا سے جانے کا وقت آ گیا ہے۔ 
پیرالٹ اس کمرے میں بسترِ مرگ پر پڑا تھا۔ جہاں سے وہ کھڑکی میں سے کراکل کی سفید پوش چوٹی کو دیکھ سکتا تھا۔ اس کا ذہن پُر سکون تھا اور وہ خوش خوش موت کی آغوش میں جانے کے لیے تیّار تھا۔ اس نے اپنے دوستوں اور خادموں کو اپنے پاس بلایا تاکہ اُن کو الوداع کہہ سکے۔ پھر اُس نے اُن سے کہا کہ وہ اُس کو تنہا چھوڑ دیں۔ وہ پُر سکون تنہائی میں اِس دُنیا سے گزر جانا چاہتا تھا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ ابھی اُس کا وقت نہیں آیا تھا۔ کئی ہفتوں تک وہ بے حس و حرکت خاموش اپنے بستر پر لیٹا رہا اور پھر یکایک اُس کی حالت بدلنے لگی اور اُس کی طاقت و توانائی واپس آ گئی۔‘‘ 
بڑے لامہ نے یہ کہنے کے بعد ذرا توقّف کیا۔ اُس کی خوابیدہ نظریں دور ماضی میں کُچھ تکتی رہیں اور پھر وہ اپنا سِلسِلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بولا: ’’خانقاہ کے پرانے راہب ایک ایک کر کے انتقال کرتے گئے اور1794ء میں جب آخری راہب کا انتقال ہوا تو پیرالٹ اُس وقت بھی زندہ سلامت تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے قدرتی بوٹی کے استعمال اور یوگا کے طریقے پر عمل سے اس نے ابدی زندگی کا سُراغ پا لیا ہے۔ وادی کے سیدھے سادھے لوگ اسے دیو تا سمجھنے لگے جو غیر معمولی قوّتوں کا مالک ہے۔ وہ روزانہ شانگری لا آتے اور کھانے پینے کی چیزیں اور کپڑے نذرانے کے طور پر چھوڑ جاتے۔ اگر یہاں کوئی کام ہوتا تو وہ بھی کر جاتے۔ 
پیرالٹ کو اب وہ زندگی میسّر تھی جس کا وہ ہمیشہ سے آرزو مند تھا۔ پہلے اُسے پڑھنے کا کم وقت ملتا تھا۔ اب مطالعے کے لیے وقت ہی وقت تھا۔ پڑھنے کے لیے اُسے کتابوں کی ضرورت تھی، کُچھ کتابیں وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ اُن میں ایک انگریزی گرامر کی کتاب اور ایک ڈکشنری تھی۔ اِن دو کتابوں کی مدد سے اس نے انگریزی زبان پر عبور حاصل کر لیا۔ طالبِ علمی کے زمانے میں اس کا حافظہ جتنا تیز تھا اب اُس سے کہیں زیادہ تیز ہو گیا تھا اور اب وہ ہر چیز سیکھ سکتا تھا۔ 
پھر1804ء میں ایک دوسرا اجنبی یورپ سے نیلے چاند کی وادی میں پہنچا۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھا جس کا نام ہنشل تھا۔ اُس کا تعلّق آسٹریا کے ایک اعلیٰ خاندان سے تھا۔ وہ یہاں کیسے پہنچا یہ بھی اپنی جگہ ایک دِل چسپ کہانی ہے۔ اگرچہ خود اس کو اس کا صحیح عِلم نہیں تھا کیوں کہ وہ نیم مُردہ حالت میں یہاں پہنچا تھا۔ وادی کے لوگوں نے بڑی توجّہ سے اُس کی دیکھ بھال کی اور وہ بہت جلد صحت یاب ہو گیا۔ آپ کو شاید معلوم ہو کہ یہاں سونے کی کانیں ہیں۔ ہنشل اِن کانوں سے سونا نکالنے کے منصوبے بنانے لگا۔ اس کا اِرادہ تھا کہ وہ تھوڑے سے وقت میں جتنی زیادہ سے زیادہ دولت کما سکے کما لے اور پھر یورپ واپس چلا جائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایک دِن وہ شانگری لا کی خانقاہ دیکھنے آیا۔ یہاں پیرالٹ سے اُس کی ملاقات ہوئی۔ پہلی ہی ملاقات میں ہنشل پیرالٹ کا گرویدہ ہو گیا۔ پیرالٹ نے اس نوجوان کو اپنے عِلم سے آگاہ کیا اسے اپنے خواب سنائے اور مُستقبل کے بارے میں اپنی اُمّیدوں کا ذکر کیا۔‘‘ 
بڑا لامہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہوا تو کانوے نے کہا: ’’میں سمجھا نہیں یہ مستقبل کی اُمّیدیں کیا تھیں؟‘‘ 
بڑے لامہ نے کہا: ’’میں ابھی آپ کو بتاؤں گا لیکن پہلے میں یہ کہانی پوری کر لوں۔ خانقاہ میں چینی آرٹ کے جو نمونے آپ نے دیکھے ہیں وہ ہنشل نے ہی جمع کرنے شروع کیے تھے۔ اُنہوں نے ہی لائبریری کے لیے دوسری کتابوں کے علاوہ موسیقی کی کتابیں منگوائیں۔1809ء میں وہ ایک لمبا اور خطرناک سفر کر کے پیکن گئے اور وہاں سے بہت سی چیزیں اپنے ساتھ لائے۔ اس کے بعد وہ خود تو وادی سے باہر نہیں گئے، لیکن اُنہوں نے ایک ایسا نظام بنا دیا جس کے ذریعہ ہم بیرونی دُنیا سے اپنی ضرورت کی چیزیں حاصل کر لیتے ہیں۔‘‘ 
’’میرا خیال ہے ان چیزوں کی قیمت آپ سونے میں ادا کرتے ہوں گے؟‘‘ کانوے نے کہا۔ 
’’جی ہاں۔ خوش قسمتی سے ہمارے پاس وہ دھات ہے جس کی دُنیا میں بڑی قیمت ہے۔‘‘ 
’’یہ بھی آپ کی خوش قسمتی ہے کہ لوگ سونے کی تلاش میں اس طرف نہیں دوڑ پڑے ہیں۔‘‘ کانوے نے کہا۔ 
بڑے لامہ نے اثبات میں سر ہلایا اور کہنے لگا: ’’ہنشل کو یہی ڈر لگا رہتا تھا۔ اس نے یہ احتیاط کی تھی کہ باہر سے سامان لانے والے قُلی وادی کے اندر نہ آنے پائیں۔ وہ یہ سامان یہاں سے ایک دِن کی مسافت پر چھوڑ جاتے تھے اور وادی کے لوگ جا کر اُسے لے آتے تھے۔ پھر اس راز کو پوشیدہ رکھنے کا کہ وادی میں سونا ہے اُنہوں نے ایک اور زیادہ محفوظ اور زیادہ آسان طریقہ بھی سوچ لیا۔‘‘ 
’’اچھا۔‘‘ کانوے نے کہا۔ اچانک اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کہیں یہی تو وہ بات نہیں ہے جس کو وہ ابھی تک سمجھ نہیں پایا ہے۔ 
بڑے لامہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں کسی فوج کے حملے کا تو کوئی اندیشہ نہیں تھا۔ طویل فاصلوں اور دشوار گزار راستوں کے پیش نظر ایسا مُمکن نہیں تھا۔ کُچھ خطرہ اُن چند لوگوں کی طرف سے تھا جو بھٹکتے بھٹکاتے یہاں پہنچ سکتے تھے، لیکن وہ اگر مسلح بھی ہوتے تو یہاں تک آتے آتے ادھ مُوئے ہو جاتے۔ چناں چہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ جو اجنبی بھی یہاں پہنچ جائے گا اس کا شانگری لا میں خیر مقدم کیا جائے گا اور اسے یہاں رہنے کی دعوت دی جائے گی۔ 
پچھلے برسوں کے دوران ایسے کُچھ لوگ یہاں آئے۔ اُن میں کُچھ چینی تاجر، تِبّتی خانہ بدوش اور دو انگریز مشنری شامل تھے۔ 1820ء میں ایک یُونانی تاجر اپنے بیمار اور فاقہ زدہ نوکروں کے ساتھ پہاڑی درّہ کے اوپر نیم مُردہ حالت میں ملا۔1822ء میں اسپین کے تین باشندے سونے کی تلاش میں بھٹکتے بھٹکاتے یہاں پہنچے۔ اس کے بعد1830ء میں پانچ کھوجیوں کی ایک جماعت ہماری خانقاہ میں آئی۔ اِن میں دو جرمن، ایک روسی، ایک انگریز اور ایک سویڈن کا باشندہ تھا۔ اس دوران شانگری لا کے طریقوں میں ایک تبدیلی آ گئی۔ اب اگر کوئی اجنبی وادی تک پہنچنے کا راستہ پا لیتا تھا تو نہ صرف یہ کہ اُس کا خیر مقدم کیا جاتا تھا بلکہ آگے بڑھ کر اس سے ملا جاتا اور اس کو اپنے ساتھ لے آیا جاتا۔ اس کی وجہ میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا لیکن جو بات میں یہاں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ خانقاہ کو نہ صرف اس کی ضرورت تھی کہ نئے لوگ یہاں آئیں بلکہ ہماری خواہش تھی کہ وہ آئیں۔ 
اس دوران میں خانقاہ میں رہنے والوں کی تعداد بھی بڑھی اور یہاں عمارتوں اور سہولتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ شانگری لا آج جو ہے وہ پیرالٹ اور ہنشل کی بدولت ہے۔ ہنشل نے اپنی موت سے پہلے یہاں بہت کُچھ کر دیا۔‘‘ 
’’وہ مر گیا؟‘‘ کانوے نے پوچھا۔ 
’’ہاں۔ اس کا انتقال اچانک ہی ہو گیا۔ اس کی موت 1857ء میں واقع ہوئی۔ اس کے انتقال سے کُچھ ہی دِن پہلے ایک چینی مصوّر نے اُس کی ایک تصویر بنائی تھی۔ میں آپ کو وہ تصویر دِکھاتا ہوں۔ وہ اس کمرے میں ہے۔‘‘ 
بڑے لامہ نے کمرے کے آخری سِرے پر ایک چھوٹے سے پردے کی طرف اشارہ کیا۔ کانوے اپنی کرسی سے اٹھا اور قریب جا کر پردہ سِرکایا۔ دیوار پر ایک خوب صورت جوان آدمی کی تصویر لگی تھی۔ 
’’لیکن… آپ تو کہہ رہے تھے کہ یہ تصویر اس کی موت سے چند دن پہلے ہی بنائی گئی تھی؟‘‘ کانوے نے حیران ہو کر سوال کیا۔
’’جی ہاں۔ یہ اسی کی تصویر ہے۔‘‘ بڑے لامہ نے جواب دیا۔
’’ لیکن اگر وہ1857ء میں مرا تو…‘‘ کانوے نے کہا۔
’’ہاں۔ اسی سن میں۔‘‘ بڑے لامہ نے کہا۔  
’’اور وہ یہاں 1804ء میں آیا تھا۔ اس وقت وہ جوان تھا؟‘‘ کانوے بولا۔ 
’’جی ہاں۔‘‘ بڑے لامہ نے جواب دیا۔ 
کانوے ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گیا۔ پھر اس نے سوال کیا: ’’اس کی موت کیسے واقع ہوئی؟‘‘ 
بڑے لامہ نے جواب دیا: ’’ایک انگریز نے اسے گولی مار دی۔ یہ انگریز ایک کھوجی تھا جو چند ہفتے پہلے ہی آیا۔‘‘  
’’اس نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ کانوے نے سوال کیا۔  
’’کچھ قلیوں کے بارے میں اس کا جھگڑا ہوا تھا۔ ہنشل نے جب اسے وہ شرط بتائی جس پر اجنبیوں کا شانگری لا میں خیر مقدم کیا جا تا ہے تو وہ آگ بگولا ہو گیا۔‘‘ 
  بڑے لامہ نے کہا۔ پھرا ذرا توقف کے بعد وہ بولا: ’’آپ شاید یہ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ شرط کیا ہے؟‘‘ 
  کانوے نے دھیمے لہجے میں آہستہ آہستہ جواب دیا: ’’میرا خیال کہ میں سمجھ گیا ہوں۔‘‘ 
’’کیا واقعی آپ سمجھ گئے ہیں؟ میری اس عجیب و غریب کہانی سے آپ نے اور کیا سمجھا ہے؟‘‘
کانوے جو سوچ رہا تھا اس پر خود حیران تھا۔ وہ بولا: ’’یہ ناممکن نظر آتا ہے۔ ناقابلِ یقین…بہت عجیب۔‘‘ 
’’کیا میرے بیٹے؟‘‘ بڑے لامہ نے سوال کیا۔ 
’’یہ کہ فادر پیرالٹ، آپ اب تک زندہ ہیں!‘‘ کانوے نے آہستہ سے جواب دیا۔ 
آٹھواں باب 
بڑے لامہ کے خادم چھوٹے چھوٹے نازک سے چینی پیالوں میں خوشبودار چائے لے کر آ گئے۔ بڑے لامہ نے موسیقی کے بارے میں باتیں کرنا شروع کر دیں۔ اس نے کہا: ’’خوش قسمتی سے ہمارے پاس ایک بہت اچھا موسیقار ہے۔ اس نے خود شوپن سے موسیقی سیکھی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ اس سے ضرور ملے ہوں گے۔‘‘ 
وہ چائے پیتے رہے اور موسیقی کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ پھر خادم آ کر چائے کے پیالے اُٹھا لے گئے۔ ان کے جانے کے بعد کانوے نے پُر سکون لہجے میں بڑے لامہ سے کہا: ’’تو گویا آپ ہمیں یہاں رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے مہمانوں کے لیے یہی اہم شرط ہوتی ہے۔‘‘ 
’’ہاں میرے بیٹے تُم نے صحیح سمجھا ہے۔‘‘ بوڑھے لامہ نے جواب دیا۔ 
کانوے بولا: ’’مگر یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی ہے کہ ساری دُنیا میں سے ہم چار آدمیوں ہی کو کیوں یہاں لایا گیا ہے؟‘‘ 
’’میں بتاتا ہوں۔‘‘ بڑے لامہ نے کہا۔ ’’ہماری کوشش ہوتی ہے کہ شانگری لا میں ایک خاص تعداد میں لوگ رہیں۔ بد قسمتی سے یورپ میں حالیہ جنگ اور روس میں انقلاب کی وجہ سے یہاں سیّاحوں اور کھوجیوں کے آنے کا سلسلہ تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ 1912ء کے بعد سے کوئی یہاں نہیں آیا ہے۔ پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ ہمیں یہاں آنے والے ہر شخص کے معاملے وہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی جو ہم چاہتے ہیں۔ ہمارے کُچھ مہمان تو جیسے آئے تھے ویسے ہی رہے اور کُچھ بڑھاپے تک جئے اور پھر معمولی سی بیماری سے مر گئے۔ چینی اور تِبّتی باشندوں کے معاملے میں ہمیں زیادہ ناکامی ہوئی ہے۔ لیکن یورپینوں کے معاملے میں ہم بہت کامیاب رہے ہیں۔ 
اب میں آپ کے اس سوال کا جواب دوں گا کہ آپ چار آدمیوں کو یہاں کیوں لایا گیا۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ گزشتہ بیس سال سے کوئی نیا آدمی یہاں نہیں آیا تھا۔ اس دوران میں ہمارے بہت سے لوگ مر بھی گئے۔ جب ہمارے لیے مسئلہ پیدا ہونے لگا تو ہماری وادی کے ایک نہایت قابلِ اعتماد نوجوان نے، جسے ہمارے مقصد سے پوری ہمدردی تھی، یہ تجویز پیش کی کہ وہ یہاں سے کسی غیر ملک میں جا کر رہنے لگے اور ایک ایسے طریقے سے جو پہلے مُمکن نہ تھا کُچھ افراد کو یہاں لے آئے۔‘‘ 
’’آپ کا مطلب یہ ہے کہ اُس کو خاص اِس مقصد کے لیے باہر بھیجا گیا تھا کہ وہ ہوائی جہاز کے ذریعہ لوگوں کو یہاں لائے؟‘‘ کانوے نے سوال کیا۔ 
’’جی ہاں۔ منصوبہ یہ تھا کہ پہلے وہ کسی امریکی فلائنگ اسکول میں ہوا بازی کی تربیت حاصل کرے گا اور پھر اگلا قدم اُٹھائے گا۔‘‘ بڑے لامہ نے جواب دیا۔ 
’’لیکن اگلا قدم وہ کیسے اُٹھاتا؟ یہ تو محض اتّفاق تھا کہ باسکل میں اُسے ایک ہوائی جہاز مل گیا۔‘‘ کانوے بولا۔ 
’’سچ کہتے ہو، لیکن بہت سی باتیں اِتّفاقاً ہی ہوتی ہیں۔ تالو، اُس نوجوان کا نام تھا وہ ایسے ہی ایک موقع کی تلاش میں تھا اور اسے باسکل میں یہ موقع مل گیا۔ خوش قسمتی سے اسے زیادہ انتظار بھی نہیں کرنا پڑا۔‘‘ بڑے لامہ نے جواب دیا۔ 
’’لیکن اس سب کا مقصد کیا ہے؟‘‘ کانوے نے سوال کیا۔ 
بڑا لامہ مُسکرایا اور کہنے لگا: ’’جس سکون کے ساتھ تُم نے یہ سوال کیا ہے اس سے مُجھے بڑی خوشی ہوئی۔ ماضی میں جب میں نے کسی کو یہ بات جو تُم پوچھ رہے ہو بتائی تو مختلف قسم کا ردِّ عمل ہوا۔ کسی نے شدید نفرت کا اظہار کیا کسی نے رنج کا۔ کوئی طیش میں آ گیا اور کوئی حیرت میں ڈوب گیا۔ لیکن تم نے حقیقی دِلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ کیوں کیا میں صحیح کہہ رہا ہوں؟ میں تُم سے صرف یہ وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ جو کُچھ میں تمہیں بتاؤں گا اس کا ذکر فی الحال تم اپنے ساتھیوں سے نہیں کرو گے۔‘‘ 
کانوے خاموش رہا۔ بوڑھے لامہ نے کہنا شروع کیا: ’’میں تمہارے سامنے پہلے حالات کی اچھّی تصویر پیش کروں گا۔ تم ابھی جوان ہو اور اُمّید کر سکتے ہو کہ بیس تیس سال اور جیو گے، لیکن اگر تم شانگری لا کے خوش قسمت انسانوں میں سے ایک ہوئے تو نوّے سال کی عُمر کو پہنچ کر بھی تم اتنے ہی جوان رہو گے جتنے کہ آج ہو۔ ہنشل کی طرح تُم بھی ایک لمبی اور پُر مسرّت جوانی کا لُطف اُٹھاؤ گے۔ پھر ایک وقت آئے گا جب دوسروں کی طرح تُم بھی بوڑھے ہو جاؤ گے۔ لیکن یہ بڑھاپا دیر میں آئے گا۔ اسّی سال کی عُمر میں بھی تُم میں جوانوں جیسی طاقت ہو گی۔ اگرچہ ہم موت پر فتح حاصل نہیں کر سکے ہیں اور نہ بڑھاپا آنے کو روک سکے ہیں، لیکن ہم نے زندگی کے سفر کی رفتار کو کم کر دیا ہے تاکہ بڑھاپا آہستہ آہستہ اور زیادہ دیر میں آئے۔ 
ذرا سوچو! سال پر سال گُزرتے چلے جائیں گے۔ تمہارے پاس ہر کام کے لیے وقت ہی وقت ہو گا۔ وقت قدرت کا ایک حسین اور انمول تحفہ ہے۔ جسے تم مغربی ملکوں کے لوگوں نے اپنی عجلت پسندی اور جلد بازی میں کھو دیا ہے۔‘‘ بوڑھا لامہ ایک لمحے کے لیے چُپ ہو گیا اور پھر جب کانوے خاموش رہا تو کہنے لگا: ’’عزیزِ من، تُم کُچھ بولے نہیں۔ شاید تُم اپنے بیوی بچّوں، رشتہ داروں اور دوستوں کے بارے میں سوچ رہے ہو گے جنہیں تُم اپنے وطن میں چھوڑ آئے ہو یا شاید تمہیں اپنے کاموں کے ادھورا رہ جانے کا افسوس ہو گا۔ ہو سکتا ہے اِن سب سے جُدائی کا غم ابتدا میں بہت تکلیف دہ ہو، لیکن میں، تمہیں یقین دِلاتا ہوں کہ دس سال بعد تمہیں اُن کی یاد تک نہ آئے گی۔ لیکن جہاں تک میں تمہارے ذہن کو پڑھ سکتا ہوں تمہیں ایسی کوئی فکر نہیں ہے۔‘‘ 
اپنے خیالات کا صحیح اندازہ لگانے پر کانوے بڑے لامہ کو دیکھ کر مُسکرایا اور بولا: ’’آپ نے صحیح سمجھا۔ میری شادی نہیں ہوئی ہے۔ میرے قریبی دوست دو چار ہی ہیں۔ میری کوئی بڑی خواہشیں بھی نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کی پُر سکون زندگی مُجھے اچھّی لگی ہے اور جیسا کہ آپ نے کہا ہے میں بہت جلد یہاں کے ماحول کا عادی ہو جاؤں گا۔‘‘
’’بس یہی۔ کیا تُم اِس سے زیادہ کے طلب گار نہیں ہو؟‘‘ بوڑھے لامہ نے سوال کیا۔
کانوے کُچھ دیر چُپ رہا۔ پھر بولا: ’’آپ نے مُستقبل کی جو تصویر کھینچی ہے۔ مُجھے اِس سے زیادہ آپ کی ماضی کی داستان سے دِلچسپی ہے۔ میں اتنا آگے کا نہیں سوچ سکتا۔ اگر مُجھے اگلے ہفتے شانگری لا سے جانا پڑا تو مُجھے افسوس ہو گا بلکہ شاید ایک سال بعد بھی میں یہاں سے جانا پسند نہیں کروں گا۔ لیکن اگر میں یہاں سو سال رہوں، تو کیا محسوس کروں گا یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ میں کبھی کبھی سوچا کرتا ہوں کہ کیا زندگی کا کوئی مقصد ہے۔ زندہ رہنے کی کوئی وجہ ہے اور اگر نہیں ہے تو عُمر کو طول دینے سے کیا حاصل۔‘‘ 
بوڑھے لامہ نے جواب دیا: ’’میرے دوست ہمارا دین ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی کا ایک مقصد ہے۔‘‘ 
’’ہو سکتا ہے، لیکن سو سال سے یا اس سے زیادہ عرصے تک زندہ رہنے کا کیا مقصد ہے؟‘‘ 
بوڑھے لامہ نے جواب دیا: ’’بہت واضح مقصد ہے اور شانگری لا اس کا مظہر ہو گا۔ ہم کوئی خیالی تجربہ نہیں کر رہے ہیں۔ مُستقبل کے لیے ہمارا ایک خواب ہے ،ایک اُمّید ہے۔ جب میں 1789ء میں اِس کمرے میں لیٹا اپنی موت کا منتظر تھا تو جیسا کہ میں نے تمہیں بتایا ہے۔ میں نے اپنی گزشتہ لمبی زندگی پر ایک نگاہ ڈالی۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ لالچ اور ہوس، ظلم اور زیادتیاں لڑائی اور جھگڑے ایک دِن زندگی کا سارا حُسن ختم کر دیں گے اور دُنیا خُوب صُورت چیزوں سے خالی ہو جائے گی۔ کتابیں ،تصویریں، موسیقی ،نوادرات کُچھ باقی نہیں رہے گا۔ سب کُچھ ایک ایسی خوفناک جنگ میں تباہ ہو جائے گا جو پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ کانوے یقین کرو یہ کوئی بھیانک خواب نہیں۔ ایسا ہو کر رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنی ایک الگ چھوٹی سی دُنیا یہاں بسائی ہے اور ہم اُمّید کرتے ہیں کہ اس تباہی کے بعد بھی یہ موجود رہے گی۔‘‘ 
’’دُنیا کی تباہی کے بعد بھی موجود رہے گی۔‘‘ کانوے نے حیرت سے کہا۔ 
’’ہاں۔۔۔‘‘ بڑے لامہ نے جواب دیا۔ ’’اس کا امکان ہے۔ قبل اِس کے کہ تُم میری طرح بوڑھے ہو یہ تباہی جس کا خطرہ ہر طرف سے بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔‘‘ 
’’اور آپ کا خیال ہے کہ شانگری لا۔ اس تباہی سے محفوظ رہے گا؟‘‘ کانوے نے سوال کیا۔ 
’’شاید۔۔۔‘‘ بڑے لامہ نے جواب دیا۔ ’’ہمیں یہ توقع نہیں کہ کوئی رحم کھا کر ہمیں چھوڑ دے گا لیکن یہ اُمّید ضرور ہے کہ ہماری طرف کوئی توجّہ نہیں دے گا اور ہم یہاں اپنی کتابوں اپنی موسیقی اپنے نوادرات اپنے تصوّرات اپنے امن اور سکون کے ساتھ محفوظ رہیں گے اور اس طرح ہم اس مٹ جانے والی تہذیب کے نازک اور حسین آثار آئندہ نسلوں کے لیے بچا کر وہ عقل و دانش تلاش کریں گے جس کی انسان کو اس وقت ضرورت ہو گی جب وہ نفرت اور ظُلم سے تنگ آ جائے گا۔‘‘ 
’’پھر اُس کے بعد؟‘‘ کانوے نے پوچھا۔ 
’’پھر اُس کے بعد میرے بیٹے، ہم انسانوں کو سمجھائیں گے کہ زندگی اور حُسن کے اصل معنی کیا ہیں؟‘‘ بڑے لامہ نے جواب دیا اور اپنی کرسی سے اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اچانک کانوے نے وہ کیا جو اُس نے اِس سے پہلے کبھی نہ کیا تھا۔ وہ اٹھا اور بے اختیّار بڑے لامہ کے سامنے گھٹنوں کے بل جھُک گیا اور بولا: ’’میرے روحانی باپ، میں سمجھ گیا۔‘‘ 
اسے یہ یاد نہیں تھا کہ وہ بڑے لامہ سے کیسے رُخصت ہوا اور کب کمرے سے باہر آیا۔ وہ ایک خواب کی سی حالت میں تھا اور یہ حالت بڑی دیر بعد تک قائم رہی۔ چانگ اُس کے ساتھ تھا۔ باہر صحن میں ہوا برف کی طرح سرد تھی۔ آسمان پر تارے چمک رہے تھے۔ وہ دونوں خاموشی سے چلتے ہوئے خانقاہ کے اس حصّے میں آئے جہاں وہ اور اس کے ساتھی مقیم تھے۔ رات خاصی گُزر چکی تھی اور کانوے کو یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ اُس کے ساتھی سو چُکے ہیں۔ 
نواں باب 
کانوے جب صُبح سو کر اُٹھا تو سوچنے لگا کہ رات جو کُچھ ہوا تھا وہ کوئی خواب تو نہیں تھا۔ لیکن بہت جلد اُس کو معلوم ہو گیا کہ بڑے لامہ سے واقعی اُس کی ملاقات ہوئی ہے۔ وہ جب ناشتے کی میز پر پہنچا تو اُسے اپنے ساتھیوں کے تابڑ توڑ سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ 
برنارڈ بولا: ’’معلوم ہوتا ہے رات تمہاری بڑی لمبی گُفت گُو ہوئی ہے۔ ہم نے سوچا تھا کہ ہم تمہارے آنے تک جاگتے رہیں گے لیکن جب بہت دیر ہو گئی اور ہم انتظار کرتے کرتے تھک گئے تو سونے کے لیے لیٹ گئے۔ بتاؤ یہ بڑا لامہ کس قسم کا آدمی ہے؟‘‘ 
’’اُس نے کُچھ قُلیوں کے بارے میں بھی بات کی؟‘‘ میلن سن نے پوچھا۔ 
کانوے نے محتاط انداز سے کہا: ’’میرا خیال ہے میرے جواب سے تمہیں مایوسی ہو گی۔ اُنہوں نے قُلیوں کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا اور جہاں تک ان کی شکل و صورت کا تعلّق ہے تو وہ ایک بہت بُوڑھے آدمی ہیں۔ وہ بہترین انگریزی بولتے ہیں اور بہت ذہین ہیں۔‘‘ 
’’لیکن یہ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ تُم نے اُن سے قُلیوں کے بارے میں بات کیوں نہیں کی؟‘‘ میلن سن نے بگڑ کر کہا۔ 
’’مُجھے اِس کا خیال نہیں آیا۔‘‘ کانوے نے جواب دیا۔ 
میلن سن نے حیران ہو کر اُس کی طرف دیکھا اور بولا: ’’میری سمجھ میں نہیں آتا تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ باسکل میں تو تُم نے اتنی اچھی طرح سب معاملات طے کر دیے تھے۔ یوں لگتا ہے جیسے تُم وہ آدمی ہی نہیں ہو۔ تم بالکل بدل گئے ہو۔‘‘ 
’’میں معافی چاہتا ہوں۔‘‘ کانوے نے مختصر جواب دیا اور ناشتے کی میز سے اُٹھ کر باہر صحن میں چلا گیا۔ وہ اس وقت کس بحث کے لیے تیّار نہیں تھا۔ 
وہ سوچ رہا تھا کہ آئندہ چند ہفتوں کے دوران اسے دُہری زندگی گزارنی پڑے گی اور اس کے لیے اُسے اپنے آپ پر قابو رکھنا ہو گا۔ اپنے تین ساتھیوں پر تو اُسے یہ ظاہر کرنا ہو گا کہ وہ قُلیوں کا منتظر ہے اور ہندوستان جانے کے لیے بے چین ہے اور تنہائی میں وہ مُستقبل کے ناقابلِ یقین خوابوں میں کھویا رہے گا۔ اب اس کے لیے نیلے چاند کا مفہوم بدل گیا تھا۔ اب مستقبل نیلے چاند سے وابستہ تھا۔ 
چانگ اب اس سے آزادی کے ساتھ باتیں کرنے لگا تھا۔ خانقاہ کے معاملات پر بھی اُن کے درمیان کئی بار گُفت گُو ہوئی۔ کانوے کو معلوم ہوا کہ پہلے پانچ سال وہ معمول کے مطابق گزارے گا اور کوئی خاص پابندیاں اس پر عائد نہیں ہو گی۔ چانگ کا کہنا تھا یہ خانقاہ کا عام دستور ہے تا کہ جسم یہاں کی آب و ہوا کا عادی ہو جائے اور ذہن سے ہر طرح کی فکر اور پریشانی دور ہو جائے۔ 
کانوے نے پوچھا: ’’کیا آپ کو واقعی یقین ہے کہ محبّت کے رشتے پانچ سال کی جُدائی برداشت نہیں کر سکتے، ٹوٹ جاتے ہی؟‘‘چانگ نے جواب دیا: ’’یقینا کر سکتے ہیں، لیکن اتنی مدّت گُزرنے کے بعد محبّت کے ان رشتوں کی ایک سہانی یاد ہی باقی رہ جاتی ہے۔‘‘ 
چانگ کہنے لگا کہ پہلے پانچ سال گزرنے کے بعد بڑھاپے کا عمل سُست ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر یہ عمل کامیاب رہا تو اگلے پچاس سال تک کانوے کی عمر چالیس سال کی رہے گی۔ 
’’آپ کے معاملے میں کیا ہوا؟‘‘ کانوے نے پوچھا۔ 
چانگ نے جواب دیا: ’’خوش قسمتی سے میں جب یہاں پہنچا تو میری عُمر بہت کم تھی۔ میں بائیس سال کا تھا۔ میں فوجی تھا۔ 1855ء میں ہم کُچھ دُشمن قبیلوں سے لڑ رہے تھے اور میں اس لڑائی کے دوران پہاڑوں میں راستہ بھُول گیا۔ میری حالت خراب تھی کہ وادی کے لوگوں نے مُجھے پا لیا اور یہاں شانگری لا مُجھے لے آئے۔‘‘ 
’’بائیس سال۔‘‘ کانوے نے آہستہ سے کہا۔ ’’تو گویا اب آپ 97 سال کے ہیں۔‘‘ 
’’ہاں۔ اب مُجھے اُمّید ہے کہ میں بہت جلد پورا لامہ بن جاؤں گا۔‘‘ چانگ بولا۔ 
’’اور اِس کے بعد کیا ہو گا۔ آپ کتنا اور جئیں گے؟‘‘ کانوے نے سوال کیا۔ ’’شاید سو سال اور یا اس سے زیادہ۔‘‘ چانگ نے اطمینان سے جواب دیا۔ 
کانوے نے پوچھا: ’’آپ پر بڑھاپے کے آثار کب سے ظاہر ہونا شروع ہوئے؟‘‘ 
چانگ نے جواب دیا: ’’جب میں ستّر سال سے زیادہ کا ہوا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میں اب بھی اپنی عُمر سے کم لگتا ہوں۔‘‘ 
’’بلا شُبہ آپ اپنی عُمر سے بہت کم ہی لگتے ہیں۔ اچھّا یہ بتائیے کہ اگر آپ اب وادی سے باہر چلے جائیں تو کیا ہو گا؟‘‘ کانوے نے پوچھا۔ 
’’اگر میں چند دِن وادی سے باہر رہا تو مر جاؤں گا۔‘‘ چانگ نے جواب دیا۔ 
کانوے بولا۔ ’’اِس کا مطلب یہ ہوا کہ جوان رہنے کے لیے وادی کی آب و ہوا ضروری ہے۔ اچھا اگر آپ تیس سال پہلے جب آپ کی عمر 67 سال تھی، لیکن آپ جوان لگتے تھے۔ وادی سے باہر چلے جاتے تو کیا ہوتا؟‘‘ 
چانگ نے جواب دیا: ’’شاید میں اُس وقت بھی مر جاتا۔ بہرحال وادی سے نکلتے ہی میری اصل عُمر ظاہر ہونے لگتی ہے۔ چند سال ہوئے ہمیں اِس قسم کا ایک تجربہ ہوا ہے۔ ہمارے ساتھیوں میں ایک شخص سیّاحوں کی تلاش میں وادی سے باہر چلا گیا۔ یہ شخص جب ہمارے پاس آیا تھا تو اُس کی عُمر چالیس سال تھی اور جب یہ وادی سے نکلا تو اس وقت 80 سال سے زیادہ کا تھا۔ ایک خانہ بدوش قبیلے کے لوگوں نے اُسے پکڑ لیا اور کُچھ دور لے گئے۔ تین مہینے کے بعد وہ وہاں سے فرار ہو کر ہمارے پاس واپس آ گیا۔ لیکن اب وہ ایک مختلف آدمی تھا۔ وہ اپنی اصل عمر کے مطابق 80 سال کا لگتا تھا اور ویسی ہی باتیں بھی کرتا تھا۔ کُچھ عرصے بعد اِسی طرح اُس کا انتقال ہو گیا جس طرح بوڑھے مرتے ہیں۔‘‘ 
کانوے بولا: ’’بڑی خوف زدہ کرنے والی بات ہے چانگ۔ ایسا لگتا ہے جیسے وقت وادی کے باہر انتظار کر رہا ہے کہ جیسے ہی کوئی یہاں سے بھاگے وہ اُسے دبوچ لے۔‘‘ 
اگلے چند دِنوں میں کانوے کی ملاقات خانقاہ کے کئی لاماؤں سے ہوئی۔ اُن میں ایک جرمن تھا۔ وہ کھوجی تھا اور 1880ء کی دہائی میں یہاں پہنچا تھا۔ ایک دو روز بعد کانوے اُس شخص سے ملا جس کا بڑے لامہ نے خاص طور پر ذکر کیا تھا۔ یہ موسیقار انفانسو بریک تھا۔ وہ فرانسیسی تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ شوپن کا شاگرد ہے۔ بریک نے کانوے کو شوپن کی بنائی ہوئی کئی مشہور دُھنیں سُنائیں۔ اُسے شوپن کی بہت سی ایسی دُھنیں بھی آتی تھیں جو اس کی موسیقی کی کسی کتاب میں شائع نہیں ہوئی تھی۔ کانوے نے محنت کر کے اُس سے یہ دُھنیں سیکھ لیں۔ 
کانوے کی لوتے سن سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اکثر موسیقی کے کمرے میں چلا جاتا اور لوتے سن کو پیانو بجاتے سُنتا۔ وہ بڑا اچھّا پیانو بجاتی تھی۔ وہ بہت کم بات کرتی تھی حالانکہ اب تو اُسے یہ بھی معلوم ہو چکا کہ کانوے کو چینی زبان آتی ہے۔ ایک دِن کانوے نے چانگ سے اُس کے بارے میں پوچھا۔ چانگ نے بتایا کہ اس کا تعلّق مانچو کے شاہی خاندان سے ہے۔ وہ ترکستان کے شہزادے سے شادی کرنے کے لیے کاشغر جا رہی تھی کہ اس کا قافلہ راستہ بھٹک گیا۔ 
’’یہ واقعہ کب کا ہے؟‘‘ کانوے نے پوچھا۔ 
’’1884ء کا۔ وہ اس وقت اٹھّارہ برس کی تھی۔‘‘ چانگ نے جواب دیا۔ 
’’اٹھارہ برس کی؟‘‘ کانوے نے حیرت سے کہا۔ 
’’جی ہاں۔ اُس کے معاملے میں بڑی ہی کامیابی ہوئی ہے۔ آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ چانگ نے جواب دیا۔ 
کانوے یہ باتیں سُن کر اس قدر حیران ہو گیا تھا کہ اُس نے چانگ سے اِس سِلسِلے میں مزید کوئی سوال نہیں کیا۔ کُچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے کہا: ’’آپ کے خیال میں بڑے لامہ سے میری دوبارہ ملاقات کب ہو گی؟‘‘ 
’’غالباً پہلے پانچ سال ختم ہونے پر۔‘‘ چانگ نے جواب دیا۔ 
لیکن چانگ کا خیال غَلَط تھا۔ شانگری لا آنے کے ایک مہینے کے اندر ہی کانوے کو دوبارہ بڑے لامہ کی خدمت میں طلب کر لیا گیا۔ 
دسواں باب 
چانگ نے جب یہ سُنا کہ کانوے کی بڑے لامہ سے دوسری بار ملاقات ہوئی ہے تو وہ حیران رہ گیا۔ اس نے کہا کہ اس سے پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا۔ بڑے لامہ پہلے پانچ سال پورے ہونے سے پہلے کسی سے ملنا پسند نہیں کرتے۔ کسی اجنبی سے گُفت گُو کرنے میں وہ بڑا بوجھ محسوس کرتے ہیں۔ 
کانوے کے لیے بھی یہ ایک اچنبھے کی بات تھی لیکن جب وہ لامہ سے تیسری اور چوتھی بار ملا تو پھر اس میں کوئی اچنبھا نہیں رہا۔ 
دِن اس طرح ہفتوں میں بدلتے گئے اور ہفتے مہینوں میں۔ کانوے پوری طرح مطمئن اور خوش تھا۔ پیرالٹ، ہنشل اور اُن جیسے دوسرے لوگوں کی طرح نیلے چاند کا جادُو اُس پر بھی چل گیا تھا اور اس سحر سے نکلنے کا اب کوئی سوال نہیں تھا۔ 
اُس نے محسوس کیا کہ وہ لوتے سن سے محبّت کرنے لگا ہے۔ لیکن اس کی یہ محبّت خاموش محبّت تھی۔ بس لوتے سن کی موجودگی اُس کے لیے کافی تھی۔ اس کے نزدیک شانگری لا اور لوتے سن دونوں حُسن اور خوبی کے اعلیٰ مقام پر تھے۔ وہ لوتے سن کو اپنا بنا لینے کے خواب دیکھا کرتا تھا لیکن اسے کوئی جلدی نہیں تھی۔ اس کے پاس وقت تھا لا محدود وقت۔ ایک سال بعد، دس سال بعد بھی اس کے پاس وقت ہو گا۔ 
کانوے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھی کُچھ وقت گزارتا تھا۔ میلن سن کی بے صبری، برنارڈ کی لطیفہ گوئی اور مس برنک لُو کی زندہ دِلی میں اُسے لطف آتا تھا۔ اُسے خوشی ہوتی اگر اس کے ساتھیوں کو بھی شانگری لا کے بارے میں اُن باتوں کا عِلم ہو جاتا جو وہ جانتا تھا۔ اُسے یقین تھا کہ برنارڈ اور مس برنک لُو آسانی سے نئے حالات کو قبول کر لیں گے۔ اُسے ایک دِن ہنسی بھی آئی جب برنارڈ نے اس سے کہا: ’’کانوے! میں سمجھتا ہوں یہ چھوٹی سی خوب صورت جگہ مُستقل رہنے کے لیے بہت اچھّی ہے۔ پہلے میرا خیال تھا کہ اخبار اور سینما کے بغیر دِل نہیں لگے گا۔ لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ آہستہ آہستہ انسان ہر چیز کا عادی ہو جاتا ہے۔‘‘ 
’’میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘ کانوے نے مُسکرا کر جواب دیا۔ 
برنارڈ کہنے لگا: ’’اِسی سِلسِلے میں مَیں تُم سے ایک بات کہنا چاہ رہا تھا۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اِس بار میں قُلیوں کے ساتھ نہیں جاؤں گا۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ یہاں باقاعدگی سے آتے رہتے ہیں۔ میں اگلی بار اُن کے آنے کا انتظار کروں گا۔‘‘ 
’’کیا مطلب؟ کیا تُم ہمارے ساتھ نہیں چلو گے؟‘‘ کانوے نے سوال کیا۔ 
برنارڈ بولا: ’’ہاں میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کُچھ عرصے یہاں رہوں گا۔ تُم لوگ جب واپس جاؤ گے تو تمہارے دوست احباب، رشتہ دار تمہارا استقبال کریں گے، لیکن جب میں واپس جاؤں گا تو میرا استقبال پولیس والے کریں گے اور میں اِس کے لیے تیّار نہیں ہوں۔‘‘ میلن سن جو اس گُفت گُو میں شریک تھا ناگواری سے بولا: ’’بھئی یہ تمہارا ذاتی معاملہ ہے۔ تُم اگر ساری زندگی یہیں رہنے کا فیصلہ کرو تو تمہیں کون روک سکتا ہے۔‘‘ 
مس برنک لُو نے اچانک ہاتھ میں لی ہوئی کتاب ایک طرف رکھ دی اور کہنے لگی: ’’میں بھی یہیں رہوں گی۔‘‘ 
’’کیا؟‘‘ وہ سب ایک ساتھ بول اُٹھے۔ 
مس برنک لُو مُسکرائی اور بولی: ’’مُجھے یقین ہے کہ اللہ نے مُجھے یہاں ایک مقصد کے لیے بھیجا ہے اس لیے میں یہاں رہوں گی۔‘‘ 
تینوں حیرت سے مس برنک لُو کو تکنے لگے۔ وہ کہنے لگی: ’’میں ان لوگوں کو اپنے مذہب کی تعلیم دوں گی۔ اِس لیے میں تِبّتی زبان سیکھ رہی ہوں۔ میں اِن لوگوں کو جانتی ہوں۔ آپ لوگ فکر نہ کریں میں اپنا مقصد حاصل کر لوں گی۔‘‘ 
’’دیکھا!‘‘ برنارڈ نے ہنس کر کہا۔ ’’میں نہ کہتا تھا کہ اس جگہ میں کوئی بات ایسی ہے جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔‘‘ 
میلن سن نے بگڑ کر کہا۔ ’’اگر آپ کو قید خانہ پسند ہو تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ بعد میں وہ کانوے سے اکیلے میں کہنے لگا: ’’اس برنارڈ نے مُجھے بے زار کر دیا ہے۔ اگر یہ ہمارے ساتھ واپس نہ گیا تو مُجھے کوئی افسوس نہیں ہو گا۔‘‘ وہ کُچھ دیر غصّے میں خاموش کھڑا رہا پھر کہنے لگا: ’’کیا اچھا ہو کہ چینی لڑکی اس کے بجائے ہمارے ساتھ چلے۔‘‘ 
کانوے نے آہستہ سے اس کا بازو تھام لیا۔ اسے میلن سن پر ترس آ رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ جب اس نوجوان کو جو نہ جانے کیا کیا خواہشیں رکھتا ہے، اصل حقیقت کا پتا چلے گا تو وہ کس قدر رنجیدہ ہو گا۔ وہ نرمی سے بولا: ’’میلن سن تم چینی لڑکی کی فکر نہ کرو، وہ یہاں بہت خوش ہے۔‘‘ 
اس کے بعد جب کانوے کی چانگ سے ملاقات ہوئی تو اُس نے چانگ سے کہا: ’’میں میلن سن کی طرف سے فکر مند ہوں۔ مُجھے اندیشہ ہے کہ جب اُس کو اصل حقیقت کا عِلم ہو گا تو وہ بہت بگڑے گا۔‘‘ 
چانگ نے ہمدردی سے سر ہلایا اور کہنے لگا: ’’ہاں میں جانتا ہوں۔ یہ آسان نہیں ہو گا، لیکن اب سے بیس سال بعد وہ مطمئن اور خوش ہو گا۔‘‘ 
کانوے نے سوچا کہ یہ اتنی سادہ بات نہیں ہے۔ اس نے کہا: ’’میں یہ غور کر رہا ہوں کہ اُس کو کس طرح بتایا جائے گا۔ وہ تو قُلیوں کے آنے کے دِن گِن رہا ہے اور وہ نہیں آئے تو۔۔۔‘‘ 
’’قُلی تو آئیں گے۔ ہمیں آئندہ چند ہفتوں میں اُن کے آنے کی توقّع ہے۔‘‘ چانگ نے جواب دیا۔ 
’’تو پھر میلن سن کو روکنا آپ کے لیے مُشکل ہو گا۔‘‘ کانوے بولا۔ 
چانگ نے کہا: ’’ہم اُسے روکیں گے نہیں۔ قُلی ہی کسی کو اپنے ساتھ واپس لے جانے کو آمادہ نہیں ہوں گے۔ وہ مایوس ضرور ہو گا، لیکن پھر اس اُمّید پر کہ شاید اگلی بار جو قُلی نو دس مہینوں میں آنے والے ہیں وہ اس کو لے جانے پر آمادہ ہو جائیں، مطمئن ہو جائے گا۔‘‘ 
’’آپ کا خیال غَلَط ہے۔ امکان یہ ہے کہ وہ خود اپنے طور پر یہاں سے فرار ہونے کی کوشش کرے گا۔‘‘ کانوے نے کہا۔  
’’فرار ہونے کی کیا بات ہے؟‘‘ چانگ نے کہا۔ ’’راستہ تو کھُلا ہے۔‘‘ 
کانوے بولا: ’’اچھا تو آپ لوگوں کو فرار ہونے کا موقع دیتے ہیں۔ کیوں کہ آپ جانتے ہیں کہ کوئی بے وقوف انسان ہی یہ حرکت کرے گا۔ پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ کوئی ایسا کر سکتا ہے۔‘‘ 
چانگ نے کہا: ’’ہاں، کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے، لیکن ایک رات ہی باہر گزارنے کے کا تجربہ کافی ہوتا ہے۔ یہاں جانے والے عموماً واپس آ جاتے ہیں۔‘‘ 
کانوے چاہتا تھا کہ میلن سن کو واپس جانے کی باقاعدہ اجازت مل جائے۔ اس نے چانگ سے پوچھا کہ کیا یہ مُمکن ہے؟ 
چانگ نے جواب دیا: ’’بالکل مُمکن ہے، لیکن کیا یہ دانش مندی ہو گی کہ ہم آپ کے دوست پر بھروسہ کر لیں کہ وہ ہمارا شکر گزار ہو گا اور یہاں سے باہر جا کر ہمیں اور ہمارے مُستقبل کو خطرے میں نہیں ڈالے گا۔‘‘ 
کانوے نے اعتراف کیا کہ چانگ صحیح کہہ رہا ہے۔ اِس بارے میں اُسے کوئی شُبہ نہیں تھا کہ میلن سن ہندوستان پہنچتے ہی کیا کرے گا۔ وہ شانگری لا کے سخت خلاف تھا اور فوراً حکومت کو رپورٹ کرے گا۔ 
کانوے میلن سن کی طرف سے مُسلسل فکر مند تھا اور اس نے دیکھا کہ بڑے لامہ کو بھی اُس کی فکر ہے۔ وہ اکثر راتوں کو بڑے لامہ کے پاس چلا جاتا تھا۔ اور گھنٹوں اُس کے پاس رہتا تھا یہاں تک خادم چائے کے پیالے اُٹھا لے جاتے اور ان کو جا کر آرام کرنے کے لیے چھُٹّی دے دی جاتی۔ ہر ملاقات میں بڑا لامہ اُس سے اُس کے ساتھیوں کی خیریت ضرور دریافت کرتا۔ ایک شب بڑے لامہ نے اس سے کہا: ’’تمہارا نوجوان دوست ابھی تک ہمارے ماحول کا عادی نہیں ہوا ہے۔‘‘ 
کانوے نے جواب دیا: ’’جی ہاں۔ وہ ایک مسئلہ بنے گا۔‘‘ 
بوڑھا بولا: ’’مُجھے فکر ہے کہ یہ تمہارے لیے ایک مسئلہ ہو گا۔‘‘ 
’’میرے لیے کیوں؟‘‘ کانوے نے حیرت سے پوچھا۔ 
بڑے لامہ نے بڑے سکون سے جواب دیا: ’’اس لیے میرے بیٹے کہ میں مرنے والا ہوں۔‘‘ 
بڑے لامہ نے یہ بڑی عجیب بات کہی تھی اور تھوڑی دیر کے لیے کانوے کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہے۔ 
بڑے لامہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’تمہیں تعجّب ہوا ہے؟ لیکن اِس میں تعجّب کی کیا بات ہے۔ ہم سب فانی ہیں۔ یہاں شانگری لا میں بھی۔ ہو سکتا ہے ابھی میری زندگی کے چند لمحے یا چند سال باقی ہوں۔ لیکن مُجھے اپنی زندگی کا انجام اب قریب نظر آ رہا ہے۔ میں بالکل مطمئن ہوں اور اب صرف ایک کام باقی ہے جو مُجھے کرنا ہے۔ کیا تُم سمجھ سکتے ہو کہ وہ کام کیا ہے؟‘‘ 
کانوے بوڑھے لامہ کے سامنے ادب سے ذرا سا جھُکا لیکن کُچھ بولا نہیں۔ 
بڑے لامہ نے کہنا شروع کیا: ’’تُم جانتے ہو ہماری بار بار ملاقاتیں ایک غیر معمولی بات پر ہے۔ یہ یہاں کا دستور نہیں کہ میں کسی سے اتنی جلدی جلدی ملوں۔ لیکن ہمارے قاعدے قوانین اتنے سخت نہیں کہ اُنہیں توڑا نہ جا سکے۔ ہم وہی کرتے ہیں جو بہتر سمجھتے ہیں اور اِس سِلسِلے میں اپنے ماضی کے تجربوں، حال کی دانش اور مُستقبل کی اُمّیدوں سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ 
میرے بیٹے میں ایک لمبے عرصے سے تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ میں یہاں اپنے کمرے میں بیٹھا نئے آنے والوں کے چہرے دیکھتا رہا ہوں اور یہ اُمّیدکرتا رہا ہوں کہ کسی نہ کسی دِن تمہیں پا لوں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ شانگری لا میں تُم میری جگہ سنبھالو۔ میرے دوست یہ ایسی ذمّہ داری نہیں جو تم نِبھا نہ سکو۔ تمہیں نرمی و تحمّل سے کام لینا ہو گا۔ عقل و دانش کی حفاظت کرنا ہو گی، اور جب باہر کی دُنیا طوفان کی لپیٹ میں آئے گی تو یہاں اپنے لوگوں کی نگہبانی کا فرض ادا کرنا ہے۔ یہ کام تُم بڑی خوبی سے کر سکتے ہو اور مُجھے یقین ہے کہ تُم اس میں خوشی محسوس کرو گے۔‘‘ 
کانوے نے کُچھ کہنا چاہا لیکن نہ کہہ سکا۔ اُس وقت زور سے بجلی چمکی اور دُور سے بادل کے گرجنے کی آواز آئی۔ 
’’وہ طوفان جس کا آپ ذکر کرتے ہیں۔ کیا وہ یہی ہے؟‘‘ 
بوڑھے لامہ نے کہا: ’’نہیں میرے بیٹے، وہ طوفان ایسا ہو گا کہ اُس جیسا دُنیا میں کسی نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔ ایک جنگ ہو گی جو ساری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اس دُنیا کی ساری حسین چیزوں کو تباہ نہ کر دے اور انسان کی بنائی ہوئی ہر شے برباد ہو کر خاک میں نہ ملا دے۔ اس تباہی سے کوئی نہ بچ سکے گا۔ کوئی جائے پناہ نہ ہو گی۔ سوائے اُس شانگری لا جیسی جگہ کے جس کا نہ کسی کو عِلم ہے اور نہ کوئی اِدھر توجّہ دے گا۔ دُنیا کے عظیم شہروں کو تباہ کرنے والے ہوا باز موت کا سامان اپنے ہوائی جہاز میں بھر کر ہمارے راستے سے کبھی نہیں گزریں گے۔‘‘ 
’’آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کُچھ میری زندگی میں ہو گا؟‘‘ کانوے نے سوال کیا۔ 
’’میں سمجھتا ہوں یہ طوفان تمہاری زندگی میں آئے گا اور تُم اِس طوفان سے گزر جاؤ گے۔ عُمر کے ساتھ ساتھ تمہاری عقل و دانش اور صبر و تحمّل بڑھتا جائے گا۔ لوگ تمہارے پاس آئیں گے، تُم اُن کو عقل و دانش کی باتیں سکھاؤ گے اور پھر جب تم خود بہت بُوڑھے ہو جاؤ گے تو شاید اُن ہی لوگوں میں سے کوئی تمہاری جگہ لے لے گا۔ میں بہت دور مُستقبل میں ایک نئی دُنیا دیکھ رہا ہوں جو پرانی دُنیا کے کھنڈرات پر تعمیر ہو گی اور اپنے گُم شدہ خزانے تلاش کرے گی اور یہ تمام خزانے میرے بیٹے نیلے چاند کی وادی میں پہاڑوں کے پیچھے یہاں چھُپے ہوں گے۔ ہم نئی دُنیا کی خوشیوں کے لیے اُنہیں محفوظ رکھیں گے۔‘‘ 
بُوڑھا لامہ بولتے بولتے چُپ ہو گیا۔ کانوے نے دیکھا وہ بے حس و حرکت تھا اور اُس کی آنکھیں بند تھیں۔ اُس کے چہرے پر ایک عجیب سا حُسن تھا۔ 
کانوے اسے کُچھ دیر تک یونہی تکتا رہا اور پھر یکایک اسے احساس ہوا کہ بڑا لامہ مر چُکا ہے۔ 
کانوے اپنی کرسی سے اُٹھ کر کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اُسے یہ سب کُچھ ایک خواب لگ رہا تھا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ بادل چھٹ چکے تھے، آسمان صاف تھا اگرچہ دُور پہاڑوں پر بجلی بھی چمک رہی تھی۔ اس نیم خوابیدہ حالت میں اُس کو یاد آیا کہ اب وہ شانگری لا کا حاکمِ اعلیٰ ہے۔ یہ تمام چیزیں جو اُسے محبوب تھیں۔ یہ پُر سکون ماحول۔ یہ خُوب صُورت وادی جہاں وہ دُنیا کی پُر شور ہنگامہ خیز زندگی سے دُور امن اور چین کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ رہ سکتا ہے۔ یہ سب اُس کا ہے۔ وہ کمرے سے نِکل کر باہر صحن میں کنول کے پھولوں سے بھرے حوض کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ کراکل پہاڑ کے پیچھے پورا چاند آسان میں تیر رہا تھا۔ کُچھ دیر بعد اُسے محسوس ہوا کہ میلن سن اُس کے پاس کھڑا ہے۔ اس نے کانوے کا بازو پکڑا اور گھسیٹ کر اُسے ایک طرف لے گیا۔ اس کی کُچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ سب کیا ہے، مگر اُس نے دیکھا کہ میلن سن بڑے جوش میں ہے۔ 
گیارہواں باب 
میلن سن کانوے کو پکڑ کر اُس کمرے میں لے گیا جہاں وہ کھانا کھایا کرتے تھے۔ یہاں آ کر وہ کہنے لگا: ’’کانوے، جلدی کرو۔ اپنا سامان پیک کرو۔ ہمیں سورج نکلنے سے پہلے پہلے یہاں سے نکل جانا ہے۔ قُلیوں کی جماعت اِس جگہ سے جہاں سے پہاڑی راستہ شروع ہوتا ہے۔ پانچ میل کے فاصلے پر مقیم ہے۔ وہ کتابیں اور دوسرا بہت سا سامان لے کر گُزشتہ روز پہنچے تھے اور اب کل اُن کی واپسی شروع ہونے والی ہے۔‘‘ پھر وہ گھبرا کر بولا: ’’ارے کانوے یہ تمہیں کیا ہو رہا ہے؟ کیا تُم بیمار ہو؟‘‘ 
کانوے کُرسی پر گِر گیا اور دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا۔ اُس نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا اور پھر اِس طرح بولا جیسے نیند میں ہو: ’’بیمار؟ نہیں، میں ٹھیک ہوں۔ بس ذرا تھک گیا ہوں۔‘‘ 
’’یہ شاید طوفان کا اثر ہے۔ مگر تُم اتنی دیر سے تھے کہاں؟ میں گھنٹوں سے تمہارا انتظار کر رہا تھا۔‘‘ میلن سن نے کہا۔ 
’’میں، میں بڑے لامہ کے پاس تھا۔‘‘ کانوے نے جواب دیا۔ 
’’اچھا۔ اُس کے پاس تھے۔ چلو یہ تمہاری آخری ملاقات بھی تھی۔‘‘ میلن سن بولا۔
’’ہاں یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔‘‘ کانوے نے اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ اس نے سگریٹ جلانے کی کوشش کی تو اُس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ ’’ہاں میلن سن، تُم کُچھ کہہ رہے تھے۔ میں ٹھیک طرح سمجھا نہیں۔ شاید تُم قُلیوں کی بات کر رہے تھے۔‘‘ 
’’ہاں بھئی۔ میں نے بتایا نا کہ قُلیوں کی جماعت آ گئی ہے۔ ہمیں فوراً چل دینا ہے۔‘‘ میلن سن نے کہا۔ 
’’فوراً چل دینا ہے؟‘‘ کانوے نے کہا۔ اُسے اب کُچھ ہوش آ چلا تھا۔ وہ بولا: ’’کیا تمہیں اندازہ ہے کہ یہ سب اِتنا آسان ہے جتنا تُم سمجھ رہے ہو؟ اِس کا باقاعدہ انتظام کرنا ہو گا احتیاط سے پلاننگ کرنا ہو گی۔‘‘ 
’’سب انتظام ہو گیا ہے۔‘‘ میلن سن نے بے چینی سے کہا۔ ’’قُلیوں کو پیشگی رقم دے دی گئی ہے اور وہ ہمیں ساتھ لے جانے کے لیے تیّار ہیں۔ یہ راستے کے لیے کپڑے ہیں اور یہ کھانے پینے کا سامان ہے۔ آؤ بس چلیں۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے تِبّتی پہاڑی بوٹ پہننے شروع کر دیے۔ 
’’لیکن یہ سب انتظامات کِس نے کیسے ہیں؟‘‘ کانوے نے پوچھا۔ 
’’لوتے سن نے۔ وہ اِس وقت قُلیوں کے پاس ہے اور ہمارا انتظار کر رہی ہے۔‘‘ میلن سن نے پلٹ کر جواب دیا۔ 
’’انتظار کر رہی ہے؟‘‘ کانوے نے حیران ہو کر پوچھا۔ 
’’ہاں وہ بھی ہمارے ساتھ چل رہی ہے۔ مُجھے اُمّید ہے کہ تمہیں اِس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔‘‘ میلن سن نے جواب دیا۔ 
لوتے سن کا نام سُن کر کانوے چلّا اُٹھا: ’’کیا احمقانہ بات ہے۔ یہ ناممکن ہے۔‘‘ 
’’کیوں ناممکن ہے۔‘‘ میلن سن نے بگڑ کر پوچھا۔ 
کانوے نے کہا: ’’کیوں کہ… خیر چھوڑو۔ بہت سی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ لیکن میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ مُمکن نہیں ہے۔‘‘ 
میلن سن بولا: ’’یہ بالکل مُمکن ہے۔ وہ یہاں سے جانا چاہتی ہے۔‘‘ 
کانوے بولا: ’’نہیں، وہ نہیں جانا چاہتی۔ اگر تُم ایسا سمجھ رہے ہو تو یہ تمہاری بھول ہے۔ وہ یہاں بہت خوش ہے۔‘‘ 
میلن سن مُسکرایا اور بولا: ’’اچھّا۔ اگر وہ یہاں خوش ہے تو اُس نے یہ کیوں کہا کہ وہ ہمارے ساتھ جانا چاہتی ہے؟‘‘ 
’’وہ یہ کیسے کہہ سکتی ہے؟ اُسے انگریزی بولنی کب آتی ہے۔‘‘ کانوے نے کہا۔ 
میلن سن بولا: ’’میں نے اُس سے تِبّتی زبان میں پوچھا تھا۔ مُجھے مِس برنک لُو نے بتایا تھا کہ کیا کہوں۔‘‘ 
کانوے اپنے آپ کو بڑا تھکا تھکا اور پریشان محسوس کر رہا تھا۔ اُس نے نرمی سے پوچھا: ’’تمہارا کیا خیال ہے یہاں سے نکل کر وہ کہاں جائے گی؟‘‘ 
میلن سن نے جواب دیا: ’’چین میں یا کہیں اور اُس کے دوست ہوں گے۔ اگر کسی نے اُس کو نہ پوچھا تو میں اُس کی خبر گیری کروں گا۔ جب آپ ایک شیطانی جگہ سے نکل جانے میں کسی کی مدد کرتے ہیں تو اُس سے یہ تھوڑی پوچھتے ہیں کہ وہ کہاں جائے گا۔‘‘  
’’تم شانگری لا کو ایک شیطانی جگہ سمجھتے ہو؟‘‘ کانوے نے کہا۔ 
میلن سن بولا: ’’ہاں یہ جگہ مُجھے بڑی پُر اسرار اور شیطانی نظر آتی ہے۔‘‘ 
کانوے بولا: ’’اچھّا میں تمہیں بتاتا ہوں کہ لوتے سن یہاں سے تمہارے ساتھ کیوں نہیں جا سکتی؟‘‘ 
پھر اُس نے بہت مختصر طور پر شانگری لا کی پوری داستان جو اُس نے بڑے لامہ اور چانگ سے سُنی تھی، میلن سن کو سُنائی۔ وہ تیزی سے اور روانی سے بولتا رہا۔ جب وہ پوری داستان سُنا چُکا تو اُس نے بڑا اطمینان محسوس کیا۔ اُس نے بہت اچھی طرح سب کُچھ بتا دیا تھا۔ 
میلن سن خاموشی سے بیٹھا سُنتا رہا۔ پھر بولا: ’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہوں سوائے اِس کے تُم بالکل پاگل ہو گئے ہو۔‘‘ 
وہ دونوں ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ کانوے اُسے حیرانی سے دیکھ رہا تھا اور میلن سن جوش میں تھا۔ کُچھ دیر کی خاموشی کے بعد کانوے بولا: ’’اچھّا، تو تُم سمجھتے ہو کہ میں پاگل ہو گیا ہوں؟‘‘ 
میلن سن ہنس دیا: ’’میرا مطلب یہ تھا کہ یہ سب احمقانہ باتیں ہیں کہ لاماؤں کی عُمریں سیکڑوں برس کی ہیں اور یہ کہ اُنہوں نے ہمیشہ جوان رہنے کا طریقہ معلوم کر لیا ہے۔ یہ سب نا مُمکن ہے۔‘‘ 
کانوے نے کہا: ’’مُجھے تسلیم ہے کہ یہ ایک عجیب سی بات ہے، لیکن کیا یہ جگہ خود عجیب و غریب نہیں ہے؟ ذرا سوچو پہاڑوں کے درمیان ایک گُم شُدہ وادی جس کا کسی کو عِلم نہیں۔ ایک ایسی خانقاہ جس کی لائبریری یورپ کی کتابوں سے بھری ہے۔‘‘ 
میلن سن بولا: ’’اور ہاں کمروں کو گرم رکھنے کا مرکزی نظام اور یورپین حمّام۔ یہ سب واقعی خوب ہے۔‘‘ 
’’کیا تُم بتا سکتے ہو یہ سب کیا ہے؟‘‘ کانوے نے پوچھا۔ 
’’نہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اِس میں کیا بھید ہے۔ لیکن یورپین حمّام ایک حقیقت کے طور پر اور چیز ہے اور کسی کے محض کہنے پر کہ وہ سینکڑوں سال کا ہے، اِس پر اعتبار کر لینا اور بات ہے۔‘‘ میلن سن نے جواب دیا۔ پھر اُس نے کُچھ فکرمند ہو کر کانوے کی طرف دیکھا اور بولا: ’’خیر، اب جلدی کرو۔ اپنا سامان پیک کرو اور یہاں سے نکل چلو۔ باقی بحث اب ہندوستان پہنچ کر کریں گے۔‘‘ 
’’مُجھے ہندوستان واپس جانے کی کوئی خواہش نہیں۔‘‘ کانوے نے آہستہ سے کہا۔ 
میلن سن بولا: ’’کیا مطلب؟ کیا تُم بھی برنارڈ اور مس برنک لُو کی طرح میرے ساتھ نہیں چل رہے؟ خیر تمہاری مرضی لیکن تُم مُجھے جانے سے نہیں روک سکتے۔‘‘ وہ لپک کر دروازے کی طرف بڑھا اور دیوانوں کی طرح چیخ کر بولا: ’’تُم پاگل ہو۔ بالکل پاگل! بہرحال میں جا رہا ہوں۔ میں نے وعدہ کر لیا ہے۔‘‘ 
’’کِس سے وعدہ کر لیا ہے؟‘‘ کانوے نے سوال کیا۔ 
’’لوتے سن سے!‘‘ اُس نے جواب دیا۔ 
کانوے کُرسی سے کھڑا ہو گیا اور اُس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا: ’’اچھا میلن سن، اللہ حافظ!‘‘ 
میلن سن بولا: ’’دیکھو کانوے میں آخری بار پُوچھ رہا ہوں۔ تُم ہمارے ساتھ چل رہے ہو کہ نہیں؟
’’نہیں‘‘ کانوے نے کہا: ’’میں نہیں جا سکتا۔‘‘ 
میلن سن نے اُس سے ہاتھ ملایا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ کانوے کمرے میں اکیلا بیٹھا اُن باتوں کو سوچنے لگا جو بڑے لامہ نے اُس سے کہی تھیں۔ کُچھ دیر بعد اُس نے گھڑی دیکھی۔ تین بجنے میں دس منٹ تھے۔ وہ اِسی طرح خاموش بیٹھا تھا کہ میلن سن واپس آیا اور دروازے میں آ کر خاموش کھڑا ہو گیا۔ کانوے نے نگاہ اُٹھا کر اسے دیکھا اور بولا: ’’کیوں، کیا ہوا؟ تُم واپس کیوں آ گئے؟‘‘ 
میلن سن آہستہ آہستہ کمرے کے اندر آیا۔ اُس نے اپنا بھاری کوٹ اُتارا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کا چہرہ سفید ہو رہا تھا اور اس کا سارا جسم کانپ رہا تھا۔ وہ مایوسی کے عالم میں کہنے لگا: ’’میں خوف زدہ ہوں۔ میں اُس جگہ تک پہنچ گیا تھا جہاں ہم نے اپنے آپ کو رسّی سے باندھ تھا لیکن اُس سے آگے جانے کی میری ہمّت نہیں ہوئی۔‘‘ 
اس کی عجیب کیفیّت تھی۔ وہ ہنس بھی رہا تھا اور رو بھی رہا تھا۔ دیوانگی کے عالم میں وہ کہنے لگا: 
’’اُن لوگوں کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ شانگری لا پر کوئی فوج کشی نہیں کرے گا، لیکن اللہ کی قسم میں ہوائی جہاز سے بمباری کر کے اِسے تباہ کرنے کی خواہش ضرور رکھتا ہوں!‘‘  
’’میلن سن، تُم ایسا کیوں کرنا چاہتے ہو؟‘‘ کانوے نے سوال کہا۔ 
میلن سن بولا: ’’اس لیے کہ یہ جگہ تباہ کر دیے جانے کے لائق ہے۔ یہ بڑی خراب جگہ ہے۔ بہت سے ہیبت ناک بُوڑھے مکوڑوں کی طرح یہاں اِس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کوئی قریب آئے اور یہ اُس کو اپنے جال میں پھانس لیں۔ یہ بات کِس قدر قابلِ نفریں ہے! کانوے، تُم ہمارے ساتھ کیوں نہیں چلتے؟ مُجھے تُم سے اِلتجا کرتے ہوئے اچھّا نہیں لگتا لیکن ذرا سوچو تو۔ میں جوان ہوں، یہاں میرا دم گھُٹتا ہے۔ میں اِس گھُٹن کے ماحول میں کیسے رہ سکتا ہوں۔ پھر وہ چینی لڑکی بھی جوان ہے۔ کیا تمہیں اُس کا کوئی خیال نہیں؟‘‘ 
’’وہ جوان نہیں ہے۔‘‘ کانوے نے کہا۔ 
میلن سن نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا اور بولا: ’’وہ جوان نہیں ہے؟ اُس کی عمر سترہ سال سے زیادہ نہیں ہو گی، لیکن شاید تُم یہ کہنا چاہتے ہو کہ وہ نوّے سال کی ہے۔‘‘ 
کانوے بولا: ’’میلن سن، تمہیں نہیں معلوم۔ وہ 1884ء میں یہاں آئی تھی۔ اُس وقت وہ جوان تھی۔‘‘ 
’’تُم تو پاگل ہو گئے۔‘‘ میلن سن جھنجھلا کر بولا۔ 
کانوے کہنے لگا: ’’اُس کی خُوب صُورتی اور جوانی یہیں تک ہے جہاں خوب صورت چیزوں سے پیار کیا جاتا ہے۔ اِس وادی سے نِکل جانے کے بعد یہ باقی نہیں رہے گی۔ وہ ایک بُوڑھی عورت بن جائے گی۔‘‘ 
میلن سن زور سے ہنسا اور بولا: ’’میں یہ سب نہیں مانتا۔ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے۔ کیا لوتے سن نے تمہیں اپنی کہانی سنائی ہے؟‘‘ 
’’نہیں۔ لیکن۔۔۔‘‘ کانوے بولا۔ 
’’تو پھر سُنی سُنائی بات کا کیوں اعتبار کرتے ہو؟ تُم کہتے ہو کہ یہ لوگ ہمیشہ جوان رہنے کے لیے کوئی جڑی بُوٹی استعمال کرتے ہیں۔ اچھّا بتاؤ وہ کونسی جڑی بُوٹی ہے۔ کیا تُم نے یہ جڑی بُوٹی دیکھی ہے؟ اُسے چکھّا ہے؟‘‘ 
’’نہیں۔‘‘ کانوے نے آہستہ سے کہا۔ اب وہ سوچنے لگا تھا کہ شاید میلن سن ٹھیک ہی کہہ رہا ہے۔ اُس نے اِن تمام باتوں پر اِس لیے یقین کر لیا تھا کہ وہ یقین کرنا چاہتا تھا۔ 
میلن سن بولا: ’’تُم نے کوئی تحقیق کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کوئی تفصیل نہیں پوچھی۔ بس ہر داستان کو سچ سمجھ لیا۔ اور یہ مُستقبل میں ہونے والی تباہ کن جنگ کا قصّہ۔ بھلا یہ کون جانتا ہے کہ آئندہ جنگ کب ہو گی اور کِس قسم کی ہو گی؟‘‘ 
کانوے چُپ رہا۔ میلن سن بولتا رہا: ’’میری سمجھ میں نہیں آتا تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ کاش میں سمجھ سکتا۔ کانوے، کیا میں تمہاری کوئی مدد کر سکتا ہوں؟ بتاؤ مُجھے کیا کرنا چاہیے۔ تُم کیا چاہتے ہو؟‘‘ 
کانوے بڑی دیر تک خاموش رہا پھر بولا: ’’مُجھے تُم سے بس ایک سوال کرنا ہے۔ بُرا مت ماننا۔‘‘ 
’’کیا؟‘‘ میلن سن نے پوچھا۔ 
کانوے نے کہا: ’’کیا تُم لوتے سن سے محبّت کرتے ہو؟‘‘ 
’’ہاں۔ میں اُس سے محبّت کرتا ہوں۔‘‘ 
کانوے نے کہا: ’’میں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ دُنیا میں مُجھے دو ہی ہستیاں عزیز ہیں۔ ایک تُم اور دوسری وہ لڑکی۔ شاید تمہیں یہ بات عجیب سی معلوم ہو لیکن یہ حقیقت ہے۔‘‘ 
کانوے کرسی سے اُٹھ کر کھڑکی کی طرف چلا گیا اور برف سے ڈھکے ہوئے چاندی جیسے پہاڑ کراکل کو دیکھنے لگا۔ اُس نے محسوس کیا کہ جو خواب وہ دیکھ رہا تھا وہ ٹوٹ گیا ہے اور حقیقت دِن کی روشنی کی طرح سامنے آ گئی ہے۔ وہ اپنے آپ کو بہت اداس محسوس کرنے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اُسے کیا ہوا ہے۔ کیا وہ پہلے دیوانہ تھا اور اب ہوش مند ہو گیا ہے یا پہلے ہوش مند تھا اور اب دیوانہ ہو گیا ہے۔ 
اچانک وہ مُڑا اور میلن سن سے بولا: ’’اگر میں تمہارے ساتھ آؤں تو کیا تم رسّی کے سہارے پہاڑی راستے پر چل سکو گے؟‘‘
میلن سن یہ سُن کر اُچھل پڑا اور بولا: ’’کانوے کیا تُم ہمارے ساتھ چلو گے؟ کیا تُم نے فیصلہ کر لیا ہے؟‘‘ 
’’ہاں۔‘‘ کانوے نے کہا اور سفر کے لیے اپنا سامان تیّار کرنے لگا۔ پھر وہ فوراً ہی چل پڑے۔ 
خانقاہ کے نیم تاریک خاموش صحنوں سے گُزرتے ہوئے اُنہیں کوئی نہیں ملا۔ میلن سن مُسلسل کُچھ بولے جا رہا تھا لیکن کانوے کا ذہن کہیں اور تھا وہ کُچھ نہیں سُن رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ وہ اِس خُوب صُورت اور پُر اسرار جگہ کو جہاں اُس کو اتنا سکون اور مسرّت حاصل ہوئی تھی، یوں اچانک چھوڑ کر چلا جا رہا ہے۔ 
چڑھائی پر چڑھتے ہوئے راستے میں جب وہ ایک موڑ پر پہنچے تو اُنہوں نے رُک کر شانگری لا کا آخری بار نظّارہ کیا۔ نیچے نیلے چاند کی وادی بادلوں کے ایک سمندر کی طرح نظر آ رہی تھی جس میں مکانوں کی رنگین چھتیں کشتیوں کی طرح تیرتی محسوس ہو رہی تھیں۔ یہاں پہنچ کر کانوے نے رسّیاں نکالیں کیوں کہ اب راستہ بہت ڈھلوان تھا۔ اب اُس کی دو دُنیائیں تھیں۔ ایک دُنیا خواب تھی اور دوسری حقیقت۔ اُسے اب اپنی زندگی اِن ہی دو دُنیاؤں کے درمیان گزارنی تھی، لیکن فی الحال اُسے اپنے نوجوان ساتھی میلن سن کی مدد کرنا تھی کیوں کہ وہ میلن سن سے محبّت کرتا تھا۔ پہاڑی راستے کا یہی وہ ٹکڑا تھا جسے میلن سن اکیلا پار کرنے سے ڈر رہا تھا۔ کانوے نے جو ایک ماہر کوہ پیما تھا، اُسے پار کرا دیا۔ جب وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے تو سستانے کے لیے چند منٹ وہاں رُکے۔ میلن سن کہنے لگا: ’’کانوے، تُم نے میرے ساتھ آ کر مُجھ پر بڑا احسان کیا ہے۔ میں تمہیں بتا نہیں سکتا کہ میں تمہارا کس قدر شکر گزار ہوں۔‘‘ 
’’تو پھر مُجھے بتانے کی کوشش مت کرو۔‘‘ کانوے نرمی سے کہا۔ 
صُبح ہوتے ہوتے وہ قُلیوں کے کیمپ پہنچ گئے۔ قُلی اُن کے مُنتظر تھے۔ وہ اُن کو لے کر تت سین فو جانے کے لیے تیّار تھے جو مشرق کی طرف گیارہ سو میل دُور چین کی سرحد پر واقع تھا۔ قُلیوں کے کیمپ میں جب لوتے سن سے اُن کی ملاقات ہوئی تو میلن سن خوشی سے چلّا کر بولا: ’’یہ بھی ہمارے ساتھ چل رہے ہیں۔‘‘ 
  وہ خوشی میں بھول گیا تھا کہ لوتے سن انگریزی نہیں جانتی۔ 
چینی لڑکی نے مُسکرا کر کانوے کو دیکھا اور کانوے نے محسوس کیا کہ وہ شاید زندگی میں کبھی اتنی خوش نہیں ہو گی جتنی اب ہے۔ 
آخری باب 
کانوے کی کہانی یہاں پہنچ کر ختم ہو گئی۔ اُس نے یہ نہیں بتایا کہ قُلیوں کے کیمپ میں پہنچنے کے بعد کیا ہوا۔ میلن سن اور چینی لڑکی لوتے سن کا کیا حشر ہوا اور وہ خود چین کیسے پہنچا اور چنگ کیانگ کے کانونٹ ہسپتال میں اُسے کون لایا۔ 
بینکاک سے اُس نے مُجھے جو خط لکھا تھا اُس میں اُس نے یہ بتایا تھا کہ وہ شمالی مغرب کی طرف روانہ ہو رہا ہے۔ میں نے اُس کی تلاش شروع کی تو پہلے بینکاک سے شمالی مغرب ہی کی طرف گیا۔ لیکن مُجھے توقّع ہی نہیں تھی کہ وہاں اُس کا کوئی سُراغ مل سکے گا۔ 
میرا خیال تھا کہ نیلے چاند کی وادی کو تلاش کرنا بہتر ہو گا۔ کیوں کہ لازمی طور پر وہ اُس طرف گیا ہو گا اور وہیں اُس کا پتا چل سکے گا۔ لیکن نیلے چاند کی وادی کو تلاش کرنا خود ایک بڑا مرحلہ تھا۔ اُس کے لیے ایک لمبا سفر درکار تھا۔ میں نے کانوے کو ڈھونڈنے کا تہیّہ کر لیا تھا۔ اس لیے اس سفر پر چل پڑا۔ میں نے ہزاروں میل سفر کیا۔ میں باسکل، بینکاک، چنگ کیانگ اور کاشغر گیا کیوں کہ اِن ہی مقامات کے درمیان کسی جگہ شانگری لا کی خانقاہ ہو سکتی تھی۔ یہ بہت وسیع علاقہ ہے اور انتہائی کوشش کے باوجود مُجھے وہاں کانوے کے بارے میں کوئی خاص معلومات حاصل نہ ہو سکی۔ میں تِبّت جانا چاہتا تھا لیکن حکومت کے آدمیوں نے مُجھے بتایا اور یہ بات صحیح بھی تھی کہ اگر میرے پاس دُنیا کے تمام پاسپورٹ ہوں تو بھی میں تِبّت کی سرحد پار نہیں کر سکتا۔ یہاں بڑے بڑے پہاڑ ہیں اور اِن پہاڑوں اور اِن کی وادیوں کے بارے میں معلومات بہت کم ہے۔ 
اپنے سفر کے دوران مُجھے ایک امریکی سیّاح ملا جس نے اِن پہاڑوں کو عبور کرنے کی ایک بار کوشش کی تھی لیکن اسے راستہ نہیں ملا۔ اس علاقے کے کوئی نقشے نہیں ہیں۔ میں نے امریکی سیاح سے نیلے چاند کی وادی کا ذکر کیا اور پوچھا کہ کیا اُس نے کہیں یہ نام سُنا ہے تو اُس نے کہا کہ یہ نام اُس نے کہیں نہیں سُنا۔ میں نے کراکل اور شانگری لا کا نام بھی لیا مگر اُس نے یہ نام بھی نہیں سُنے تھے۔ میں نے تِبّت کی خانقاہوں کے بارے میں اُس سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اُس نے کہا کہ اُسے بودھ خانقاہوں سے کوئی دِلچسپی نہیں۔ ہاں اُس نے بتایا کہ ایک مرتبہ تِبّت میں اُسے ایک شخص ملا تھا جس نے اُسے ایک خانقاہ میں لے جانے پر بہت اصرار کیا تھا لیکن وہ نہیں گیا۔ اُس سے میں چونکا اور میں نے اُس سے پوچھا کہ یہ کب کی بات ہے۔ اس نے کہا کہ اسے کافی عرصہ ہو گیا۔ غالباً 1911ء میں اُسے وہ شخص ملا تھا جو اُس کو کسی خانقاہ میں لے جانا چاہتا تھا۔ امریکی سیاح نے بتایا کہ وہ امریکی کھوجیوں کی ایک جماعت کے ساتھ سفر کر رہا تھا اور یہ شخص اُنہیں تِبّت کی سرحد پر کوئن لنز میں ملا تھا۔ وہ چینی تھا اور بہت اچھّی انگریزی بول رہا تھا۔ وہ ایک کرسی پر سوار تھا جسے چند تِبّتی خادم اُٹھائے ہوئے تھے۔ اُس نے امریکیوں سے بہت اصرار کیا کہ وہ اس کے ساتھ ایک خانقاہ چلیں جو وہاں قریب ہی واقع ہے، لیکن اُنہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ نہ اُن کے پاس وقت ہے اور نہ اُنہیں کسی خانقاہ سے کوئی دِلچسپی ہے۔ 
کانوے کی تلاش کے دوران جگہ جگہ میں نے برنارڈ کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اُس کا بھی کُچھ پتا نہ چلا۔ غالباً وہ کالمر برائنٹ ہی تھا جیسا کہ کانوے نے بتایا تھا۔ برائنٹ کا غائب ہو جانا بھی ایک معمّہ تھا۔ 
میں نے اُس ہوا باز کے بارے میں بھی سُراغ لگانے کی کوشش کی جس کا نام تالو تھا اور جو کانوے کو اور اس کے ساتھیوں کو لے گیا تھا۔ اِس میں بھی مُجھے ناکامی ہوئی لیکن ایک عجیب بات معلوم ہوئی وہ یہ کہ پچھلی صدی کے وسط میں جنیا میں ایک جرمن پروفیسر 1887ء میں تِبّت گیا تھا لیکن واپس نہیں آیا۔ کہا جاتا تھا کہ وہ ایک دریا پار کرتے ہوئے ڈوب گیا تھا۔ اس کا نام فریڈرک میسٹر تھا۔ کانوے نے اپنی کہانی میں اُس شخص کا ذکر کیا تھا۔ اِس کے علاوہ مُجھے اُن میں سے کسی اور کے بارے میں کُچھ پتا نہ چل سکا جن کا ذکر کانوے نے کیا تھا۔ نہ ہی پیرالٹ اور ہنشل کا میں نے کہیں ذکر سُنا۔ 
کانوے نے مُجھے اپنی داستان صرف وہاں تک سُنائی تھی جب وہ قُلیوں کے کیمپ میں پہنچ کر میلن سن اور چینی لڑکی کے ساتھ دوسری صُبح چین کی سرحد کی طرف روانہ ہونے والا تھا۔ اُس کے بعد کیا ہوا یہ وہ نہیں بتا سکا یا اُس نے بتانا نہیں چاہا۔ میں صرف قیاس کر سکتا ہوں کہ کوئی بڑا سانحہ پیش آیا ہو گا۔ اِس کا تو مُجھے یقین ہے کہ میلن سن چین تک نہیں پہنچ سکا۔ میں نے شنگھائی اور پیکن میں اچھّی طرح معلوم کر لیا۔ میں نے تت سین فو میں بھی جہاں چین اور تِبّت کی سرحدیں ملتی ہیں، یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ قُلیوں کی کوئی جماعت تو دو برطانوی باشندوں اور ایک چینی لڑکی کے ساتھ وہاں نہیں پہنچی تھی۔ وہاں کے لوگ بہت ملنسار ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ ایسی کوئی جماعت وہاں نہیں آئی۔ مُجھے یہ بھی پتا نہیں چل سکا کہ کانوے چنگ کیانگ کیسے پہنچا۔ شاید بھٹکتا بھٹکتا وہاں تک پہنچ گیا ہو۔ ہاں ایک عجیب بات مُجھے معلوم ہوئی اور اُس سے کوئی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے۔ 
میں چنگ کیانگ کے مشن ہسپتال میں یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کانوے وہاں کس طرح آیا تھا۔ کیا وہ اکیلا تھا اور خود چل کر آیا تھا یا اسے کوئی لے کر آیا تھا۔ ہسپتال کے عملے کو کُچھ یاد نہیں، لیکن ایک نَن نے کہا کہ ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے غالباً یہ بتایا تھا کہ اُسے ایک عورت لے کر آئی تھی۔ یہ ڈاکٹر اب چنگ کیانگ کے ہسپتال میں نہیں تھا اور شنگھائی میں کسی بڑے ہسپتال میں چلا گیا تھا۔ میں نے نَن سے اس کا پتا لیا اور اس سے ملنے شنگھائی پہنچا۔  
میں نے جب اُس سے کانوے کے بارے میں پوچھا تو اُس نے کہا ہاں اسے وہ انگریز مریض اچھّی طرح یاد ہے جو سب کُچھ بھول گیا تھا۔ جب میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا یہ صحیح ہے کہ کوئی عورت اس کو لے کر ہسپتال آئی تھی تو اس نے کہا: ’’ہاں بالکل۔ اُسے ایک عورت لائی تھی۔ وہ چینی تھی وہ خود بھی بہت بیمار تھی اور ہسپتال آتے ہی مر گئی۔‘‘ 
میں نے اب ڈاکٹر سے ایک آخری سوال کیا: 
’’کیا وہ عورت جوان تھی؟‘‘ ڈاکٹر نے ایک لمحے مُجھے گھور کر دیکھا اور پھر بولا: ’’ارے نہیں۔ وہ ایک بُوڑھی عورت تھی۔ اتنی بوڑھی کہ میں نے اِس سے پہلے کبھی دیکھی بھی نہیں تھی۔‘‘ 
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top