حماقتیں
کہانی: Simon’s Clean Handkerchief
مصنفہ: Enid Blyton
مترجمہ: ماہم احسن
۔۔۔۔۔
”امی!“ ایک دن سائمن نے کہا۔”میری استانی نے کہا ہے کہ مجھے لازمی ایک صاف ستھرا رومال روزانہ اسکول لے کر آنا ہے۔“
”زبردست! میں نے بھی یہی سوچا تھا۔“ اس کی امی نے کہا۔”تمہیں پتا ہے کہ تمہارے پاس بہت سے رومال ہیں۔ خیر تم کل ضرور ایک اچھا سا رومال اسکول لے جانا۔“
اگلے دن سائمن نے صبح ایک نہایت پیارا اور صاف ستھرا رومال نکالا۔ وہ اس رومال کو پا کر بے حد خوش تھا۔ وہ آج اسکول میں اپنی استانی کو یہ رومال دکھانے والا تھا۔ اس نے رومال تہہ کرکے اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ لیکن راستے میں سائمن کو پل پر چڑھنا پڑا۔اس نے اپنا رومال بہت احتیاط کے ساتھ پل کی سیڑھیوں پر رکھا۔
اور کیا آپ یقین کریں گے،اس نے اس نے اپنا رومال پل پر ہی چھوڑ دیا۔ جب وہ اسکول پہنچا تو مس براؤن نے اس سے کہا۔
”سائمن کیا تمہیں رومال لانا یاد رہا ہے؟“
”جی بالکل“سائمن نے جواب دیا۔
لیکن نہ تو وہ اس کے ہاتھ میں تھا اور نہ اس کی جیب میں۔۔
”اففف میں اپنا رومال پل پر ہی چھوڑ آیا ہوں۔“
اسکول سے چھٹی کے بعد سائمن سیدھا اس طرف گیا جہاں اس نے رومال چھوڑا تھا۔ اور وہاں اس نے کیا دیکھا؟ رومال کے چیتھڑے! سائمن کی غیر موجودگی میں ڈیزی گائے وہاں آئی۔ اس نے پل پر ایک پیارا سا رومال رکھا ہوا دیکھا۔ اس نے اشتیاق سے رومال منہ میں رکھا مگر چبا کر وہیں تھوک دیا۔ وہ بالکل بھی مزے دار نہیں تھا۔اب رومال بے کار ہوگیا تھا۔
اگلی صبح سائمن نے اپنی دراز سے ایک اور رومال نکالا۔
”میں اس میں ایک گرہ باندھ لیتا ہوں تاکہ مجھے اسے اسکول لے جانا یاد رہے۔“اس نے سوچا۔پھر سائمن نے اس رومال کی
ایک گرہ اپنے ہاتھوں پر باندھ لی۔ اب وہ اسکول جانے کے لیے تیار تھا۔ وہ خوشی خوشی اسکول کی طرف جانے والے راستے پر دوڑتا چلا گیا۔ اچانک اس کی نظر ایک خوبصورت تتلی پر پڑی۔
اسکول کی طرف جانے کا ارادہ ترک کرکے وہ تتلی کے پیچھے دوڑنے لگا۔وہ اس تتلی کو ہر قیمت پر پکڑنا چاہتا تھا۔اور پھر تتلی اچانک رک گئی۔ اچانک تتلی رکی اور ایک پھول پر بیٹھ گئی۔ سائمن نے احتیاط سے اپنا رومال نیچے گھاس پر رکھااور تتلی کی طرف لپکا۔ابھی وہ جھپٹنا چاہتا تھا کہ تتلی ہوا میں اوپر کی جانب اڑ گئی۔
”اففف!“ سائمن نے جھلا کر ماتھے پر ہاتھ مارا۔ پھر اسکول کی طرف جانے والے راستے پر مڑ گیا۔ اس کا رومال اسی جگہ گھاس پر پڑا ہوا تھا۔وہ اسے اٹھانا بھول گیا تھا!
”تمھارا رومال کہاں ہے سائمن؟“ مس پراؤن نے پوچھا۔
”کیا آپ جانتی ہیں مس براؤن۔“ سائمن نے فخر سے کہا۔”میں نے اپنے رومال میں ایک گرہ باندھ لی تھی تاکہ مجھے اسے اسکول لانا یاد رہے! کتنا چالاک ہوں نا میں؟“
”ٹھیک ہے…… ٹھیک ہے…… اب مجھے دکھا بھی دو……“ مس براؤن نے کہا۔اور ظاہر ہے سائمن اپنا رومال نہیں دکھا پایا کیونکہ اس نے تو اسے گھاس پر ہی چھوڑ دیا تھا۔
مس براؤن کو بہت غصہ آیا۔
”برائے مہربانی کل ضرور یاد سے لے آنا۔“
اگلی صبح سائمن نے دوبارہ ایک اور رومال دراز سے نکالا چونکہ وہ اپنا سابقہ رومال جو اس نے گھاس پر ہی چھوڑ دیا تھا تلاش نہیں کر پایا کیونکہ ہوا اسے اڑا کر لے گئی تھی۔
”اس مرتبہ میں ضرور اپنا رومال لے جانا یاد رکھوں گا۔ اور اسے اسکول پہنچنے تک اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑوں گا۔“ اس نے پکا عزم کیا۔
جیسے ہی وہ گھر سے نکلنے لگا اس کی امی نے اسے پکارا:
”بیٹا سائمن، کیا تم میرے لیے یہ خط راستے میں جاتے ہوئے پوسٹ کردوگے؟“
”ہاں کیوں نہیں امی!“ سائمن نے خط لیا اور جلدی جلدی چلنے لگا۔
”کل تمام بچے چھ کا پہاڑا یاد کر کے آئیں۔کل سنا جائے گا۔“مس براؤن کا کہا اسے یاد آیا۔
”چھ ایکم چھ……چھ دونی بارہ……“
وہ چھ کا پہاڑا پڑھتے ہوئے لال رنگ کے چمکتے ہوئے پوسٹ باکس کے نزدیک پہنچ گیا۔اس کو خوشی تھی کہ اس کو پورا پہاڑا یاد تھا۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں اس نے پھر سے کیا بے وقوفی کی؟
اس نے اپنی امی کے خط کے بجائے اپنا رومال پوسٹ کردیا! اوہ بے چارا سیدھا سادہ سائمن۔
”ہاں بھئی سائمن!“ مس براؤن نے کہا جب وہ اسکول پہنچا۔”مجھے امید ہے کہ تم آج ضرور اپنا رومال لائے ہوگے۔“
”جی! مس براؤن۔“سائمن نے فخریہ انداز سے کہا۔”میں نے اسے سارا وقت اپنے ہاتھ میں رکھا…… دیکھیں!“ اور جب اس نے اپنا ہاتھ آگے کیا تو اس کے ہاتھ میں خط تھا۔
مس براؤن نے اسے حیرانی سے دیکھا۔ ”لیکن یہ تو ایک خط ہے!!“ وہ چیخیں۔
”ش۔ش۔ا شاید۔۔میں نے۔۔“ سائمن ہکلایا۔ ”اوہ میرے خدا! میں نے تو خط کے بجائے رومال پوسٹ کردیا۔“
”سائمن میں تم پر شدید غصہ ہوں۔ برائے مہربانی کوشش کرو کہ تم ایک صاف ستھرا رومال کل تک لے آؤ۔ میں تمہیں آخری موقع دے رہی ہوں۔“ مس براؤن نے خشمگین انداز سے کہا۔
اب سائمن نے ایک اور رومال اپنی دراز سے نکالا۔ اس نے وہ رومال اپنی جیب میں رکھ لیا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر وہ رومال جیب میں رکھے گا تو بحفاظت اسکول تک لے جائے گا۔ وہ خراماں خراماں اسکول کی طرف جارہا تھا۔ لیکن اچانک چلتے چلتے وہ نہ جانے کیسے ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔ اس کا گھٹنا چھل گیا اور دونوں ہاتھ مٹی سے اٹ گئے۔ سائمن نے اپنا رومال نکالا اور اپنے گھٹنے اور ہاتھوں کو صاف کیا۔ لیکن آج شاید اس کی خوش قسمتی کا دن نہیں تھا۔ جب وہ اسکول پہنچا تو اس نے فخریہ انداز میں اپنا رومال مس براؤن کے آگے لہرایا۔
”سائمن یہ کیا ہے؟خوفناک،گندا،بدبودار چیتھڑا۔“ وہ چلائیں۔”مجھے یقین ہے کہ یہ رومال نہیں ہے! کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ صاف ستھرا رومال لانا؟“ ان کی آواز کانپ رہی تھی۔
”کل صبح لازمی لے آنا ورنہ سزا کے لیے تیار رہنا۔“ مس براؤن نے خشک لہجے میں کہا۔
بیچارا سائمن پورا راستہ روتا رہا۔جب وہ گھر پہنچا تو اس کی امی نے اس سے پوچھا۔
”کیا ہوا؟ تم کیوں رو رہے ہو؟“ امی نے ڈر کر پوچھا۔”کیا کسی سے لڑائی ہوگئی ہے؟“
سائمن نے روتے روتے تمام بات امی کے گوش گزار دی۔ وہ اس سے خفا ہوئیں اور وہ مزید ناراض ہوئیں جب ان کو معلوم ہوا کہ وہ اپنا ہیٹ بھی کھوچکا ہے!
”اوہ سائمن تم اتنے بے وقوف کیسے ہو سکتے ہو؟“ وہ افسردگی سے بولیں۔”خیر یہ تمھارے ابو کا رومال ہے۔ چونکہ تم نے اپنے تمام رومال استعمال کرلیے ہیں اور تم اپنا ہیٹ بھی کھوچکے ہو۔ گرمی بھی بہت ہے تو اب میرے پاس ایک آئیڈیا ہے اور وہ یہ ہے کہ میں رومال کے ایک ایک کونے پر گرہ لگاکر تمھارے لیے ایک ہیٹ بنارہی ہوں۔ تم اس کو پہن کر اسکول جاؤگے۔ اگر تم نے اسے مسلسل پہن کر رکھا تو یہ تم سے نہیں کھوئے گا۔“ وہ اسے تفصیل سے سمجھا رہی تھیں۔سائمن رومال کا ہیٹ پہن کر بے حد خوش نظر آرہا تھا۔ اس کے ابو کا رومال بڑا تھا۔ وہ سرخ و سفید دھبوں کے ساتھ بڑا پیارا لگ رہا تھا۔سائمن اس خوبصورت رومال کو پہن کر اپنے آپ کو بہت خوش قسمت تصور کر رہا تھا۔ لیکن جب وہ اسکول پہنچا تو بھول گیا کہ اس کے سر پر رومال ہے!!
”اپنا رومال دکھاؤ!“ مس براؤن نے تحکم بھرے لہجے میں کہا۔
سائمن نے اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالا،وہ خالی تھیں۔ ادھر ادھر دیکھا لیکن رومال کہیں بھی نظر نہ آیا۔ مس براؤن نے اس کو کن انکھیوں سے دیکھا۔
”سائمن!“ مس براؤن نے اشتعال سے کہا،”کیا تم مجھے یہ بتانا چاہتے ہو کہ تم آج پھر سے رومال نہیں لائے؟“
”نہیں مس براؤن!“، سائمن نے گھبرا کر کہا۔”میں آج لے کر آیا تھا۔۔ ہاں میں لایا تھا۔۔ لیکن کہاں گیا؟“
”رہنے دو۔ اپنا ہیٹ اتارو اور سزا کے لیے تیار ہو جاؤ۔ میں آج تمہیں دھوپ میں کھڑا کرنے والی ہوں۔“ مس براؤن نے طیش سے کہا۔
سائمن نے بے چارگی سے اپنا سرخ و سفید ہیٹ اتارا اور ہیٹ اتارتے ہی اسے سو واٹ کا جھٹکا لگا۔ وہ اس کے ابو کا خوبصورت رومال تھا!!
”مس براؤن۔۔مس براؤن۔۔۔ یہ رہا میرا رومال۔“ وہ خوشی سے لرزتے ہوئے بولا۔”میں اسے پورا راستہ ہیٹ کی طرح پہن کر آیا تھا۔ اور دیکھیں یہ بالکل صاف ستھرا ہے!!“
”اوہ سائمن! آج تم نے خود کو سزا سے بچا لیا ہے۔ لیکن یاد رکھوتمہیں آئندہ بھی رومال لانا ہے اس کے لیے تم اپنی امی سے کہنا کہ وہ تمھارا رومال تمھاری جرسی سے پن کردیں تاکہ تم روز حفاظت سے رومال اسکول لاپاؤ اور مجھے دکھا سکو۔۔“ اور سائمن نے کیا کیا ہوگا؟؟؟
سائمن کی امی اس دن گھر پر نہیں تھیں۔ سائمن نے خود ایک سیفٹی پن تلاش کی اور اپنے رومال کو پن کیا لیکن افف اس نے پھر غلطی کردی۔ اس نے اپنے چھوٹے بھائی کا سفید کوٹ پن کردیا!!
آپ کا کیا خیال ہے مس براؤن کیا کہیں گی؟؟؟