skip to Main Content
ہکل بیری کے کارنامے

ہکل بیری کے کارنامے

ناول: The Adventures of Huckleberry Finn

مصنف: Mark Twain

مترجم: جاوید بسام

باب:۱

          میرا نام ہکل بیری فن ہے۔ ٹام سائر اور میں سینٹ پیٹرزبرگ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو مسیسپی دریا کے کنارے میسوری ریاست میں ہے۔ ٹام اپنی آنٹی پولی اور بھائی سڈ کے ساتھ رہتا ہے، لیکن میں پہلے اکیلا رہتا تھا،مگر جب ٹام اور میں نے ایک مہم جوئی میں بارہ ہزار ڈالر حاصل کیے جو ڈاکو انجن غار میں چھوڑ گیا تھا، تو ہم امیر ہوگئے۔ چنانچہ اب جج تھیچر ہماری رقم کی دیکھ بھال کررہے تھے اور مجھے بیوہ خاتون ڈگلس کے گھر میں مہذب بنانے کی کوشش کی جارہی تھی۔ اس گھر میں رہنا بہت مشکل تھا۔ میں زیادہ وقت وہاں نہیں گزارسکتا تھا۔ آخر میں وہاں سے بھاگ نکلا اور دوبارہ آزادی سے ان ہی پھٹے پرانے کپڑوں میں رہنے لگااور باہر سونے لگا، لیکن ٹام نے کہا کہ وہ ڈاکوؤں کا گروہ بنارہا ہے اور میں اس میں تب ہی شریک ہوسکتا ہوں، جب ایک عزت دار آدمی بن جاؤں۔ چنانچہ میں بیوہ خاتون کے پاس واپس چلاگیا۔

          وہاں پھر و ہی طور طریقے دوبارہ شروع ہوگئے۔ نئے کپڑے، میز پر بیٹھ کر کھانا اور مقدس کتاب میں سے حکایتیں۔

          بیوہ خاتون کی بہن مس واٹسن بھی وہاں رہنے چلی آئی تھیں۔ وہ کہتیں”اپنے پاؤں اوپر نہ رکھو ہکل بیری!….سیدھے ہوکر بیٹھو ہکل بیری!….“

          وہ مجھے ان بری جگہوں کے بارے میں بتاتیں، جہاں مجھے اچھا رویہ نہ رکھنے پر بھیجا جاسکتا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا۔” کیا ٹام اچھی جگہ جائے گا ؟“

          ” بالکل نہیں۔“ وہ بولیں۔

          یہ سن کر میں بہت خوش ہوا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ ٹام اور میں ایک ہی جگہ پر رہیں۔

          مس واٹسن نے پوری شام میرا ناک میں دم کیے رکھا۔ اس کے بعد انہوں نے اور بیوہ خاتون نے غلام جم کو بلایا۔ سب نے مل کر دعا کی۔ پھر اپنے اپنے بستروں پر چلے گئے۔ میں موم بتی لے کر اپنے کمرے میں چلا آیا اور کھڑکی کے پاس بیٹھ گیا۔

          ستارے چمک رہے تھے، پتے اداس آوازیں نکال رہے تھے اور دور کہیں الو کسی مردے کو پکار رہا تھا۔ میں نے خود کو بہت تنہا محسوس کیا۔ میں کسی دوست سے ملنا چاہتا تھا۔ اچانک ایک مکڑی موم بتی پہ آگری۔ یہ برا شگون تھا۔چنانچہ میں تین بار گھوما اور اپنے اوپر صلیب کا نشان بنایا۔ گھر پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ بہت دیر بعد گاؤں کے برج نے بارہ بجائے تو درختوں کے درمیان اندھیرے میں سے مجھے آواز سنائی دی۔” میاؤں میاؤں ۔“

          ” میاؤں میاؤں “ میں نے بھی ہلکے سے جواب دیا۔

           پھر میں نے موم بتی بجھائی، کھڑکی پر چڑھا اور لکڑی کے چھجے پر اتر گیا اور وہاں سے پھسل کر زمین پر چلا آیا۔ مجھے یقین تھا کہ ٹام سائر میرا انتظار کر رہا ہوگا۔

۔۔۔۔۔

           ٹام وہاں موجود تھا۔ ہم دھیرے دھیرے باغ کے راستے کی طرف رینگنے لگے۔ ابھی ہم کچھ دور ہی گئے تھے کہ میرا پاؤں جڑ پر پڑنے سے آہٹ ہوئی۔ مس واٹسن کا سیاہ فام غلام جم باورچی خانے کے دروازے کے پاس بیٹھا تھا۔ وہ اٹھا، ادھر ادھر دیکھا اور کان لگا کر سننے لگا۔ ہم اندھیرے میں زمین پر چپکے ہوئے تھے کہ جم ہمارے پاس چلا آیا اور میرے اور ٹام کے درمیان بیٹھ گیا۔ وہ بڑبڑارہا تھا۔ ” میں نے کچھ سنا ہے۔ میں یہاں بیٹھوں گا۔ جب تک دوبارہ نہ سن لوں۔“

           اس نے ایک درخت سے پشت ٹکائی اور ٹانگیں پھیلا لیں۔ اس کی ایک ٹانگ مجھے چھو رہی تھی۔ ہم خاموشی سے دبکے رہے۔ میری ناک پر خارش ہونے لگی تھی، مگر مجھ میں اسے کھجانے کی ہمت نہیں تھی۔ جم زور زور سے سانس لے رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ سو گیا۔ آخر ٹام اور میں اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں پر رینگتے ہوئے آگے بڑھے۔ ٹام نے سرگوشی کی۔” میں باورچی خانے میں جا رہا ہوں تاکہ موم بتیاں لاسکوں۔“

          ” نہیں “ میں نے منع کیا، مگر وہ چلا گیا۔ اس نے تین موم بتیاں لیں اور پانچ سینٹ بطور قیمت کے رکھ دیے۔ جب وہ رینگتا ہوا جم کے پاس سے گزررہا تھا، تو میں آگے انتظار کر رہا تھا۔ وہ میرے پاس آیا تو ہم راستے پر دوڑ گئے اور باڑ کے پاس سے ہوتے ہوئے پہاڑی کی چوٹی پر جا پہنچے۔ ٹام نے کہا۔” میں نے جم کا ہیٹ درخت کی شاخ پر لٹکا دیا ہے۔“

           بعد میں جم نے مجھے بتایا کہ اس رات چڑیلیں اس کا پیچھا کر رہی تھیں۔ انھوں نے پورے میسوری میں اسے گھمایا اور نیو اورلینز تک لے گئیں۔ پھر درخت کی شاخ پر اس کا ہیٹ لٹکادیا۔ جم کی کہانی دور تک پھیل گئی تھی۔ اس نے کہانی کو اور وسعت دی اور کہا کہ چڑیلیں پوری دنیا میں اس کا پیچھا کرتی ہیں۔ بہت سے غلام دور دور سے یہ کہانی سننے آتے تھے۔ اب وہ زیادہ اچھا ملازم نہیں رہا تھا۔

۔۔۔۔۔

           پہاڑ کی چوٹی پر سے ہم نے گاؤں اور دریا کو دیکھا جو ایک میل چوڑا اور عظیم الشان تھا۔ جو ہارپر ، بین راجر اور دوسرے لڑکے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ ہم نے ناؤ کھولی اور چپو چلاتے ڈھائی میل تک دریا میں چلتے رہے۔ جب ہم کنارے پر پہنچے تو وہاں وہ غار تھا جہاں سے ٹام اور میں نے دولت پائی تھی۔ ٹام نے تمام لڑکوں سے قسم کھانے کو کہا کہ وہ غار کے خفیہ راستے کو راز میں رکھیں گے، جو گھنی جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا۔ ہم نے موم بتیاں جلائیں اور رینگتے ہوئے غار کی گہرائی میں چلے گئے۔ ٹام نے اعلان کیا۔” اب ہم آغاز کرتے ہیں ڈاکوؤں کے گروہ کا جس کا نام’ ٹام سائر گروہ ‘ ہوگا۔ جو بھی اس میں شریک ہوگا اسے حلف لینا ہوگا اور اپنا نام خون سے لکھنا ہوگا۔“ اس نے حلف نامہ نکالا اور پڑھنا شروع کیا۔

  • گینگ سے وفادار رہوگے اور کسی کو اپنا راز نہیں بتاؤ گے۔
  • جو کسی کو بتائے گا اس کا گلا کاٹ دیا جائے گا۔
  • کوئی گینگ کے ممبر کو نقصان پہنچائے گا تو اس کے خاندان کو مار دیا جائے گا۔

           ہم سب نے اس عمدہ حلف نامے کو خوشی سے قبول کیا۔ ٹام نے بتایا کہ یہ نکات اس نے بحری قزاقوں کی کتاب سے نکالے ہیں۔

           بین راجر نے پوچھا۔ ” مگر ہک کے ساتھ ایسا کیسے ہوگا؟ اس کا تو خاندان نہیں ہے، سوائے باپ کے جو ہمیشہ نشے میں رہتا ہے۔ اور اسے ایک سال سے کسی نے نہیں دیکھا۔“

           میں نے کہا۔” میں تمہیں مس واٹسن کو مارنے کی پیشکش کرتا ہوں۔“

           سب نے میری بات کو سراہا اور کہا کہ ہک ہمارا ساتھ دے سکتا ہے۔

           پھر سب نے خون سے اپنے دستخط کیے، جو انہوں نے انگلی سے نکالا تھا۔ میں لکھنا نہیں جانتا تھا، اس لیے میں نے انگوٹھے کا نشان لگایا۔ پھر بین راجر نے کہا ” یہ گینگ کرے گا کیا؟“

           ٹام نے جواب دیا۔” ڈکیتی اور قتل۔ ہم مسافروں کو سڑک پر روکیں گے اور انھیں لوٹ کر مار ڈالیں گے۔“

          ” کیا تم عورتوں کو بھی مارو گے؟“ ایک لڑکے نے پوچھا۔

          ”تم بیوقوف ہو۔ کتاب میں کوئی ایسانہیں کرتا۔“ ٹام بولا۔

           ٹومی بارنس ایک چھوٹا لڑکا تھا۔ وہ سوگیا تھا، اٹھانے پر وہ ڈر گیا، وہ اپنی ماں کے پاس گھر جانا چاہتا تھا۔ لہٰذا ٹام نے کہا کہ اب ہم اگلے ہفتے ملیں گے۔ اپنی پہلی ڈکیتی ماریں گے اور قتل کریں گے۔

۔۔۔۔۔

           گھر آکر میں لکڑی کے چھجے پر چڑھا اور کھڑکی کے ذریعے کمرے میں چلا گیا۔ میرے نئے کپڑے میلے اور چکنے ہو گئے تھے۔ صبح مجھے مس واٹسن سے ڈانٹ پڑی مگر بیوہ خاتون ڈگلس نے کچھ نہ کہا۔ انھوں نے میرے کپڑے صاف کیے۔ وہ اداس نظر آرہی تھیں۔ میں نے فیصلہ کیاکہ اب اچھا رویہ رکھوں گا، اگر رکھ سکا تو۔

          میرے والد پاپ کو ایک سال سے اوپر ہو گیا تھا کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ وہ مجھے ہمیشہ مارتے تھے۔ اسی دوران کچھ دور دریا پر ایک لاش بہتی دیکھی گئی۔ لوگوں کا خیال تھا وہ میرے والد تھے۔ کیونکہ ان کے بال بڑے اور کپڑے پھٹے پرانے تھے، مگر پانی میں زیادہ رہنے کی وجہ سے چہرہ پہچانا نہیں جا رہا تھا۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ اپنی پیٹھ کے بل پڑے تھے۔ انہوں نے اسے ساحل پر دفنا دیا تھا۔ میں نے سکون کا سانس لیا۔ پھر مجھے خیال آیاکہ ایک ڈوبا ہوا آدمی اپنی پیٹھ کے بل نہیں بلکہ اپنے چہرے کے بل پانی پر پڑا ہوتا ہے۔ میں سمجھ گیا وہ میرے والد نہیں تھے۔ وہ کوئی مردانہ کپڑوں میں عورت تھی۔ میں پھر بے چین ہو گیا۔ میں سمجھ گیا تھا کہ وہ کسی بھی دن ظاہر ہوجائیں گے۔

۔۔۔۔۔

           ہم ڈاکوؤں کا کھیل ایک مہینے تک کھیلتے رہے۔ تمام لڑکوں نے اس میں حصہ لیا۔ ہم نے نہ کوئی ڈکیتی کی اور نہ کسی کو مارا بس ہم یہ دکھاوا کرتے تھے۔ ہم سب جنگل میں چھپ جاتے، پھر اچانک بھاگتے ہوئے خیالی گزرنے والوں پر جھپٹتے تھے۔ جب ہم غار میں جاتے تو اس پر بات کرتے کہ آج ہم نے کتنے لوگ مارے۔ ایک بار ٹام نے کہا کہ ہسپانوی سوداگروں اور امیر عربوں کا ایک بڑا قافلہ کل یہاں پڑاؤ ڈالے گا۔ اس کے ساتھ ہاتھی بھی ہوںگے۔ جن پر ہیرے اور زیورات لدے ہوئے ہوںگے۔ لہٰذا ہم ان کو مار کر تمام دولت لوٹ لیں گے۔ وہ بولا۔ ” تم سب اپنی تلواریں اور بندوقیں تیار رکھو۔ “

ہماری تلواریں اور بندوقیں فقط چھڑیاں اور جھاڑو وغیرہ تھیں۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ ہم ان سے قافلے کو مار سکیں گے، مگر میں ہاتھیوں کو دیکھنا چاہتا تھا، لہٰذا میں نے ان کا ساتھ دیا، ہم سب تیار تھے۔ ہم جنگل میں سے دوڑتے ہوئے باہر آئے۔ پہاڑی پر سے اترے ،مگر وہاں کوئی ہسپانوی، عرب یا ہاتھی نہیں تھے۔ وہاں صرف اسکول کے کچھ بچے تھے۔ جو اتوار کی سیر کے لیے وہاں آئے تھے۔ ہمیں کچھ نہیں ملا، نہ میں نے کوئی ہیرا دیکھا۔ میں نے ٹام سائر سے پوچھاکہ” وہ سب کہاں ہیں؟ “

          ٹام نے کہا۔” اگر تم نے کچھ کتابیں پڑھی ہوتیں تو تم یہ جانتے ہوتے۔ یہ جادو کی وجہ سے ہے۔ جادوگروں نے سب کو پکنک منانے والے بچوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ جب وہ پرانے چراغ کو رگڑتا ہے تو جن حاضر ہوتا ہے۔ وہ حکم دیتا ہے کہ میرے لیے ہیرے کا محل بناؤجو چالیس میل لمبا ہو یا چین کے بادشاہ کی بیٹی کو لے آؤتاکہ میں شادی کر سکوں تو وہ فوراً حکم مانتا ہے۔ صبح ہونے سے پہلے پہلے۔“

 میں اس بارے میں دو تین دن تک سوچتا رہا اور ایک پرانے چراغ کو رگڑنے کی کوشش بھی کی ، مگر کوئی جن نہیں آیا۔ میں سمجھ گیاکہ یہ بھی ٹام کا ایک جھوٹ تھا۔ وہ عربوں اور ہاتھیوں پر یقین کر سکتا تھا، مگر میں نہیں۔ میرا خیال تھا کہ وہ اسکول کے بچے ہی تھے۔

۔۔۔۔۔

باب:۲

          تین چار مہینے گزر گئے تھے۔ سردیوں کے دن تھے۔ میرا زیادہ وقت اسکول میں گزرتا تھا۔ میں نے نئے ہجے سیکھے اور کچھ کچھ پڑھنے لکھنے لگا۔ پہلے میں اسکول سے نفرت کرتا تھا مگر پھر وہاں سے صرف اس وقت بھاگتا، جب بہت تھک جاتا تھا۔ سردیوں سے پہلے مجھے بستر پر سونا بھی مشکل لگتا تھا۔ میں اکثر جنگل میں سونے کے لئے چلا تھا۔ مجھے پرانے طریقے پسند تھے، لیکن پھر نئے بھی پسند کرنے لگا۔ بیوہ خاتون کہتیں کہ میں آہستہ آہستہ بہتر ہو رہا ہوں۔ ایک دن میں صبح ناشتے میں نمک اپنے بائیں کندھے پر پھینک رہا تھا تاکہ اپنی بری قسمت کو دور کر سکوں، لیکن مس واٹسن نے مجھے روک دیا۔

          ” اپنے ہاتھ دور رکھو ہکل بیری! یہ کیا تم ہمیشہ گندگی پھیلاتے رہتے ہو۔“

           چنانچہ میں نے خود کو پریشان محسوس کیا۔ میں باہر نکلا اور باغ میں چلا گیا۔ میرے قدم گیٹ کی طرف بڑھے۔ وہاں ایک انچ موٹی برف پڑی تھی، اچانک مجھے زمین پر کسی انسان کے قدموں کے نشان نظر آئے۔ وہ جو کوئی بھی تھا، پہاڑی سے اتر کر آیا تھا۔ گیٹ پر کھڑا رہا، پھر باڑ کے ساتھ باغ کا چکر لگایا، مگر اندر نہیں آیا تھا۔ یہ بہت عجیب تھا۔ میں جھک کر نشانوں کو دیکھنے لگا۔ بائیں جوتے کی ایڑی میں کیلوں کی مدد سے شیطان کو دور رکھنے کے لیے صلیب کا نشان بنا تھا۔ میں فوراً پہاڑی سے اترا اور جج تھیچر کے گھر کی طرف دوڑ گیا۔

          ” تم اپنا منافع لینے آئے ہو؟“ انھوں نے پوچھا۔”ایک سو پچاس ڈالر تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔“

          ” مجھے وہ نہیں چاہیے ۔“میں نے کہا۔” میں چاہتا ہوں آپ میرے چھ ہزار ڈالر بھی رکھ لیں۔“

          ”یہ کیا معاملہ ہے، ہکل بیری؟“

          ”براہ مہربانی رقم لے لیں اور مجھ سے کوئی سوال نہ کریں۔ پھر مجھے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔“

          جج مجھے غور سے دیکھنے لگے۔” میرا خیال ہے میں سمجھ گیا ہوں۔ تم سب کچھ مجھے بیچنا چاہتے ہو، دینا نہیں۔“ انھوں نے کاغذ پر کچھ لکھا اور دستخط کرنے کے لئے میرے آگے رکھ دیا،” یہ کاغذ کہتا ہے کہ میں نے ادائیگی کرکے سب کچھ خرید لیا ہے ۔یہ ایک ڈالر ہے۔ اب یہاں دستخط کر دو۔“

           چنانچہ میں نے دستخط کیے، ایک ڈالر لیا اور چلا آیا۔

           رات کو میں، مس واٹسن کے غلام کے پاس گیا اور کہا کہ میرے والد واپس آگئے ہیں۔ میں نے ان کے جوتوں کے نشان دیکھے ہیں۔ جم جادو کرسکتا تھا۔ چنانچہ میں نے اس سے پوچھا ،”وہ یہاں رہیں گے یا چلے جائیں گے؟“ جم نے جن سے پوچھا۔ مگر جن نے کہا کہ پاپ ابھی یہ نہیں جانتا۔

          جب میں اپنی موم بتی جلا کر اوپر اپنے کمرے میں گیا تو دیکھا۔ وہ وہاں بیٹھے ہیں۔

۔۔۔۔۔

          میرے والد کی عمر تقریباً پچاس سال تھی۔ ان کے بال لمبے اور چکنے تھے اوررنگ سیاہ تھا جو آنکھوں پر لٹکے رہتے تھے۔ان کا چہرہ ڈراؤنا سفید تھا کسی مچھلی جیسا۔ ان کے کپڑے پھٹے پرانے تھے اور جوتوں میں سوراخ تھے۔ میں انھیں دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتا تھا۔ مگر آج نہیں ہوا تھا۔ میں نے موم بتی رکھ دی۔ کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ وہ چھجے پر چڑھ کر کمرے میں آئے تھے۔

          ” بہت عمدہ کپڑے !“ انہوں نے کہا۔” ہاں لوگ کہہ رہے ہیں کہ تم پڑھ لکھ سکتے ہو۔ تمہیں یہ بے وقوفی کرنے کو کس نے کہا تھا؟“وہ بولے۔

          ”بیوہ خاتون نے۔ “

          ”میں اسے سکھاؤں گاکہ مداخلت کیسے کی جاتی ہے۔ تمھاری ماں مری تو وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی۔ نہ میں جانتا ہوں۔مجھے پڑھ کر سناؤ۔“

          میں نے کتاب اٹھائی اور جرنل واشنگٹن کے بارے میں پڑھنا شروع کیا۔ آدھے منٹ بعد انھوں نے کتاب لے کر دور پھینک دی۔

          ”ٹھیک ہے تم یہ کر سکتے ہو، اگر میں نے تمہیں اب اسکول جاتے ہوئے دیکھا تو میں تمھیں ماروں گا۔“

          وہ ایک منٹ تک بڑبڑاتے رہے پھر ادھر ادھر دیکھا۔

          ” بستر اور بستر کی چادریں اور یہ فرش پر خوبصورت قالین….جب کہ تمہارا باپ سوروں کے باڑے میں سوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ تم بہت امیر ہو؟ “ انھوں نے کہا۔

          ” وہ جھوٹے ہیں۔“

          ” سینٹ پیٹرز برگ میں ہر کوئی کہہ رہا ہے اور میں نے دریا کی طرف بھی سنا ہے۔ اس لیے میں آیا ہوں کہ تم آج مجھے رقم دو گے۔“

          ” میرے پاس کوئی رقم نہیں ہے، تم جج تھیچر سے پوچھ سکتے ہو۔“

          ” ٹھیک ہے میں پوچھوں گا۔ تمہاری جیب میں کتنی رقم ہے؟“

          ”صرف ایک ڈالر۔“

          پاپ نے ڈالر لیا اور کہا کہ وہ نیچے جارہے ہیں تاکہ کچھ شراب لے سکیں۔ وہ چھجے پر اتر گئے۔ پھر دوبارہ اپنا سراندر ڈالا اور مجھ پر الزام لگایا کہ میں ان سے اچھا بننے کی کوشش کررہا ہوں۔ پھر جب میں سمجھ رہا تھا کہ وہ چلے گئے تو انھوں نے پھر سر ڈالا اور کہا کہ اگر تم نے اسکول جانا نہ چھوڑا، میں تمہیں مار دوں گا۔

۔۔۔۔۔

          اگلے دن جب وہ نشے میں تھے، وہ جج تھیچر کے پاس گئے اور رقم حاصل کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ عدالتی کارروائی کریں گے۔ پھر جج اور بیوہ خاتون نے عدالت میں درخواست دی کہ ان میں سے کوئی ایک مجھے گود لینا چاہتا ہے، لیکن نئے جج نے جو پاپ کو نہیں جانتے تھے نے درخواست کو رد کردیا اور کہا یہ غلط ہے کہ بچہ، باپ سے دور رکھا جائے۔ انہوں نے مجھے پاپ کے حوالے کر دیا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور کہا میرے لیے کچھ رقم لاؤ ورنہ میں ماروں گا۔ میں جج تھیچر سے تین ڈالر ادھار لے آیا۔ پاپ نے وہ لیے اور پینے میں خرچ کر دیئے۔ انھیں جیل ہوگئی۔ جب وہ جیل سے باہر آئے تو نئے جج نے کہا کہ اسے علاج کی ضرورت ہے۔ وہ پاپ کو اپنے گھر لے گئے۔ اسے کھانا دیا، صاف نئے کپڑے دیے اور اس سے بات کی کہ وہ اعتدال سے رہے اور پینے کی بدمعاشی نہ کرے۔ وہ رونے لگے اور کہا کہ میں خود کو بدلنے کی کوشش کروں گا۔ مجھ سے ہاتھ ملاؤ۔ یہ اس آدمی کا ہاتھ ہے جو نئی زندگی شروع کر رہا ہے۔ سب نے ان سے ہاتھ ملایا۔ انہوں نے پاپ کو ایک الگ بستر اوررہنے کے لیے ایک خوب صورت کمرہ دیا۔ جب رات کو انھیں پیاس لگی تو وہ باہر کود گئے اور اپنے نئے کوٹ کے بدلے شراب کا ایک جگ حاصل کیا۔ جب وہ واپس آئے تو چھت پر گر گئے اور اگلی صبح جب انھیں ڈھونڈا گیا تو تقریباً جمی ہوئی مردہ حالت میں پائے گیے۔ نئے جج نے کہا، اس کا علاج شارٹ گن کی گولی ہی ہے۔

          مگر وہ پھر رقم کے لیے جج کے پاس در خواست لے کر پہنچ گئے۔ عدالتی کارروائی آہستہ آہستہ ہورہی تھی، چنانچہ میں دو تین ڈالر جج سے لیتا تاکہ پاپ مجھے نہ مارے۔ وہ فوراً انھیں پینے میں اڑادیتے اور جیل چلے جاتے۔ دو بار انھوں نے مجھے اسکول جاتے ہوئے پکڑ کر مارا، لیکن بیوہ خاتون نے کہا کہ میرا پیچھا کرنا چھوڑ دو کہ یہ اسے پاگل کردے گا۔ پاپ نے کہا میں لوگوں کو دکھاؤں گا کہ ہک فن کا باس کون ہے۔

۔۔۔۔۔

          پھر ایک دن جب بہار آنے والی تھی۔ وہ مجھے پکڑنے کے لیے میرا انتظار کر رہے تھے۔ وہ مجھے کشتی میں تین میل دور اوپر دریا میں لے گئے۔ ہم مشرقی ساحل پر پہنچے۔ جہاں کوئی گھر نہیں تھا اور درختوں کے درمیان ایک پرانے لکڑی کے کیبن میں رہنے لگے۔ مجھے بھاگنے کا کوئی موقع نہیں مل رہا تھا۔ وہ تالا لگاکر چابی اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر سوتے۔ ان کے پاس بندوق بھی تھی۔ ہم شکار کر کے کھاتے۔ بعض اوقات وہ مجھے تالے میں بند کرکے تین میل نیچے اسٹور پر چلے جاتے کہ مچھلیوں کے بدلے شراب خرید سکیں۔ جب وہ واپس گھر آتے تو نشے میں ہوتے۔ یہ مجھے پیٹنے کا بہترین وقت ہوتا تھا۔ کچھ عرصے بعد بیوہ نے ہمارا پتا چلا لیا اور مجھے لینے کے لیے ایک آدمی کو بھیجا، مگر وہ بندوق لے کر اس کے پیچھے بھاگے۔ جلد ہی مجھے اپنی نئی زندگی پسند آگئی۔ یہ ایک سبک رفتار اور مزےدار دور تھا۔ تمام دن لیٹے رہو ، تمباکونوشی کرو اور مچھلیاں پکڑو، نہ کتابیں نہ مطالعہ۔ دو مہینے گزر گئے۔ میرے کپڑے دوبارہ چیتھڑوں میں تبدیل ہوگئے تھے۔ میں، بیوہ خاتون کے گھر میں ایسے کیسے رہ سکتا تھا۔ جہاں مجھے پلیٹ دھو کر کھانا پڑتا تھا۔ میں واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔ جنگل میں بہت اچھا وقت گزر رہا تھا، لیکن جب پاپ مجھے مارتے اور تالے میں بند کر دیتے تو یہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا، چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ میں فرار ہو جاؤں گا۔ میں نے کئی دفعہ بھاگنے کی کوشش کی، مگر مجھے راستہ نہیں ملا۔ کھڑکی چھوٹی تھی، چمنی بہت پتلی اور دروازہ بہت مضبوط تھا۔ پاپ کبھی بھی میرے پاس چاقو یا کوئی نوک دار چیز نہیں چھوڑتے تھے۔ پھر مجھے بالا خانے میں پرانا آرہ ملا۔ ایک دن جب وہ گئے ہوئے تھے۔ میں نے میز کے پیچھے لکڑی میں سوراخ کرنے کی کوشش کی۔ جب وہ واپس آئے تو ہمیشہ کی طرح غصے میں تھے۔ وہ سینٹ پیٹرز برگ گئے تھے، مگر انھیں عدالتی کارروائی کی تاریخ نہیں ملی تھی۔ وہ بولے۔” لوگوں کا خیال تھا کہ وہ آخر میں جج سے میری رقم لے لیں گے۔ مگر کچھ کا یہ بھی خیال تھا کہ بیوہ خاتون مجھے گود لے لیں گی۔“ یہ میرے لیے جھٹکا تھا کیونکہ میں اور زیادہ مہذب ہونا نہیں چاہتا تھا اور نہ ہی اب پاپ کے پاس رہنا چاہتا تھا۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے جنگل میں بھاگ جانا چاہیے۔ شکار اور مچھلیاں مجھے زندہ رکھیں گے۔ نہ پاپ اور نہ بیوہ مجھے دوبارہ پاسکیں۔ اگر پاپ آج رات زیادہ پی لیتے تو میں یہ جگہ چھوڑ سکتا تھا۔ میں ان پر نظر رکھے ہوئے تھا۔

۔۔۔۔۔

           جب میں رات کا کھانا بنا رہا تھا۔ وہ شراب لے کر واپس آئے اور پینا شروع کردی پھر اول فول بکنے لگے۔” کیا حکومت ہے!“ وہ چلائے۔ زیادہ شراب ہمیشہ انھیں حکومت پر حملہ کرنے پر اکساتی تھی،” یہاں کا قانون باپ کو بیٹے سے دور رکھنے کو تیار رہتا ہے۔ جب بیٹا کام کے لائق ہوتا ہے۔ باپ کو آرام دینا چاہتا ہے۔ تو قانون اس کو چھ ہزار ڈالر سے پرانے لکڑی کے کیبن میں دھکیل دیتا ہے۔ ان کپڑوں میں جو کسی سور کو بھی پورے نہ ہوں۔ اوہ….ہاں کیا عجیب حکومت ہے۔“ وہ بہت چلا رہے تھے۔ آخر وہ ڈول پر جاگرے اور اپنے ٹانگ زخمی کرلی۔ ان کی باقی تقریر بہت گرما گرم تھی۔ وہ کیبن میں کبھی ایک ٹانگ سے کبھی دوسری سے لنگڑاتے پھر رہے تھے۔ پھر انھوں نے اپنے الٹے پاؤں سے ڈول کو لات ماری، مگر ان کا پنجہ جوتے میں سے باہر تھا۔ انھیں چوٹ لگی اور وہ واویلا کرنے لگے اور گندگی میں گرگئے اور اپنی انگلیوں کو تھامے لعنت ملامت کرنے لگے۔

          وہ کھانے کے بعد بھی پیتے رہے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ میں اس وقت چابی چرا سکتا ہوں یا سوراخ کر کے نکل سکتا ہوں، مگر قسمت میرے ساتھ نہیں تھی۔ مجھے نیند آگئی، پھر اچانک ایک وحشت انگیز چیخ سنائی دی۔ وہ پاپ تھے۔ وہ وحشی لگ رہے تھے اور سانپ سانپ چلارہے تھے۔مگر مجھے کوئی سانپ نظر نہیں آرہا تھا، لیکن انھوں نے گول گول گھومنا اور چیخنا شروع کردیا۔” اسے دور کرو۔ اس نے میری گردن پر کاٹا ہے۔“ پھر وہ گرگئے اور لاتیں چلاتے ہوئے کہنے لگے۔ شیطانوں نے انھیں پکڑ لیا ہے۔ پھر وہ بولے موت ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ وہ رینگتے ہوئے میز کے نیچے گھس گئے اور خود کو کمبل میں لپیٹا اور چلانے لگے۔ کچھ دیر بعد وہ باہر آئے اور چاقو ہاتھ میں لے کر میرے پیچھے دوڑے۔ وہ کہہ رہے تھے میں موت ہوں۔ میں نے کہا میں صرف ہک ہوں، لیکن وہ خوفناک ہنسی ہنسے اور میرے پیچھے لگے رہے۔

 جلد ہی وہ تھک گئے اور دروازے کے آگے گر گئے۔ چاقو ان کے نیچے دبا تھا۔ وہ بولے ،وہ ایک منٹ آرام کر رہے ہیں، اس کے بعد مجھے مار دیں گے۔ کچھ دیر بعد وہ سوگئے۔ میں نے بندوق اٹھائی اور دیکھا کہ وہ لوڈ ہے۔ پھر میں ان پر نظر رکھے بیٹھ گیا۔

۔۔۔۔۔

باب:۳

          ” اٹھ جاؤ! یہ تم کیا کر رہے ہو؟ “ پاپ میرے سر پر کھڑے کہہ رہے تھے۔ میں گہری نیند میں تھا۔ سورج نکل آیا تھا۔ وہ بیمار اور چڑچڑے نظر آرہے تھے۔” تم نے بندوق کیوں اٹھا رکھی ہے؟“ انہوں نے پوچھا۔ میں سمجھ گیا کہ ان کو رات کا واقعہ یاد نہیں۔ چنانچہ میں نے فورا کہا۔” کوئی کیبن میں اندر آنا چاہتا تھا۔ میں اس کا انتظار کر رہا تھا۔“

          ” تم نے مجھے کیوں نہیں اٹھایا؟“

          ” میں نے کوشش کی تھی مگر نہ اٹھا سکا۔“

          ” ٹھیک ہے۔ تمام دن یہاں لیٹے نہ رہو۔ جاؤ دیکھو ناشتے کے لیے جال میں کوئی مچھلی پھنسی ہے یا نہیں؟“ پاپ نے دروازے کا تالا کھولا۔ میں دریا کے کنارے چلا گیا۔ دریا بپھرا ہوا تھا۔ جون میں ہمیشہ ایسا ہوتا تھا۔ لکڑی کے ٹکڑے اور بانس کے گٹھے پانی میں بہتے چلے جارہے تھے۔ میں ان میں سے کچھ کو پکڑ کر اچھی قیمت پر بیچ سکتا تھا۔ چنانچہ میں اپنی آنکھیں مل کر ہوشیار ہوگیا۔ جلد ہی ایک ڈونگا کشتی آتی نظر آئی۔ وہ بہت عمدہ تھی، تقریبا چودہ فٹ لمبی۔ میں نے کسی مینڈک کی طرح سر کے بل پانی میں چھلانگ لگائی اور تیرتا ہوا کشتی کے قریب گیا اور اس میں چڑھ گیا۔ پاپ اگر اسے دیکھتے تو بہت خوش ہوتے۔ اس کی قیمت دس ڈالر ہوگی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا، لیکن جب میں چپو چلاتے ہوئے کشتی کو کنارے پر لایا تو میرے ذہن میں خیال آیا۔ زمین پر بھاگنے کے بجائے، کیوں نہ میں دریا میں کشتی پر نشیب کی طرف پچاس میل دور نکل جاؤں اور کہیں چھپ جاؤں۔ چنانچہ میں نے کشتی چھپا دی۔ جال سے کچھ مچھلیاں نکالیں اور واپس آگیا۔ میں نے پاپ سے کہا کہ میں دریا میں گر گیا تھا۔ کیوں کہ میرے کپڑے گیلے تھے اور میں دیر سے آیا تھا۔ جب ہم ناشتہ کر رہے تھے تو وہ میرے اور بندوق کے بارے میں سوچ رہے تھے، ”اگر آس پاس کوئی دوبارہ نظر آئے تو مجھے اٹھا دینا ،سنا تم نے؟ وہ آدمی کچھ چرانا چاہ رہا تھا۔ میں اسے مار دوں گا۔“ انھوں نے کہا۔

          اس سے مجھے نیا خیال آیا۔ میں پریشان تھا کہ پاپ اور بیوہ مجھے ڈھونڈنے نکل جائیں گے، میرا پیچھا کریں گے۔ مگر اب میں جان گیا تھا کہ ان کو کیسے روکنا ہے۔

          بارہ بجے پاپ اور میں ساحل پر گئے۔ دریا تیزی سے بہہ رہا تھا اور ڈھیروں لکڑیوں کے ٹکڑے اس پر بہے جارہے تھے۔ کچھ دیر بعد بانسوں کی بنی کشتی رافٹ آتی نظر آئی۔ ہم اسے کھینچ کر ساحل پر لے آئے۔ پاپ نے فیصلہ کیا کہ وہ اسے بیچنے کے لیے سینٹ پیٹرزبرگ جائیں گے۔ انہوں نے مجھے بند کیا اور ساڑھے تین بجے تک واپس آنے کا کہہ کر چلے گیے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ رات تک واپس نہیں آئیں گے، چنانچہ میں نے لکڑی کی دیوار میں دوبارہ سوراخ کرنا شروع کر دیا۔ ان کے ساحل پر واپس آنے سے پہلے میں سوراخ سے باہر نکل آیا تھا۔

۔۔۔۔۔

          پھر میں نے کچھ گوشت اور مکئی کا تھیلا لیا اور کشتی میں رکھ دیا۔ پھر کافی، چینی، بندوق کی کچھ گولیاں، ایک بالٹی، ٹی کپ، فرائی پان، کیتلی اور اپنی پرانی آری اور دو کمبل بھی اٹھا کر کشتی میں لے آیا، ماچس اور مچھلی پکڑنے کا جال بھی میں نہیں بھولا تھا۔ پھر میں نے سب کچھ صاف کیا۔ میں نے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ کیبن اور کشتی کے درمیان آنے جانے کا کوئی نشان نہ چھوڑوں۔ پھر میں نے بندوق لی اور ایک جنگلی سور مارا۔ وہاں کیبن کے باہر ایک کلہاڑی موجود تھی۔ میں نے اس سے کیبن کا دروازہ توڑ ڈالا اور سور کو اٹھا کر کیبن کے فرش پر ڈال دیا اور کلہاڑی سے اس کی گردن کاٹ دی۔ فرش پر خون بہنے لگا۔ پھر میں نے ایک پرانے بورے میں پتھر بھرے اور اسے سور کے پاس سے گھسیٹتے ہوئے دروازے تک لے گا۔ کیبن سے باہر آکر میں نیچے دریا کی طرف بڑھا اور اسے دریا میں ڈبو دیا۔ اب سب دیکھ سکتے تھے کہ وہاں کوئی بھاری چیز گھسیٹی گئی ہے۔ میں نے سوچا کاش وہاں ٹام سائر ہوتا۔ یہ اس کا طریقہ کار تھا۔ آخر میں، میں نے اپنے سر کے کچھ بال توڑے اور خون آلود کلہاڑی پر چپکا دیے اور کلہاڑی وہاں پھینک کر سور کو دریا میں ڈال آیا۔ میں نے یہ احتیاط کی تھی کہ خون کے قطرے راستے پر نہ ٹپکیں۔ پھر میں نے دریا تک ایک راستہ بھی بنایا جیسے ڈاکو وہاں سے گزرے ہوں۔ آخر میں کشتی میں واپس چلا گیا۔

          اب اندھیرا ہوگیا تھا۔ میں چپو چلاتا دریا کے نشیب میں بید کے درختوں کے درمیان چلا آیا اور اسے ایک درخت سے باندھ دیا۔ چاند چمک رہا تھا۔ میں نے کچھ کھایا اور کشتی میں لیٹ کر پائپ پینے لگا۔ میں اپنے منصوبے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ پتھروں سے بھرے بورے کے نشانوں پر ساحل تک جائیں گے ۔میں نے اپنے آپ سے کہا اور دریا میں میری لاش تلاش کریں گے۔ پھر وہ دوسرے راستے پر ڈاکو کے نشان دیکھیں گے جو مجھے مار کر گیا ہے۔وہ دریا میں میری لاش کو تلاش کریں گے۔ مگر وہ نہیں ملے گی۔ وہ بہت کوشش کریں گے، آخر تھک جائیں گے۔ چنانچہ میں کہیں بھی رک سکتا تھا، جیسے جیکسن آئی لینڈ جسے میں اچھی طرح جانتا تھا۔ وہاں کوئی نہیں جاتا تھا….ہاں جیکسن آئی لینڈ۔

۔۔۔۔۔

          میں تھک گیا تھا، جلد ہی مجھے نیند آگئی۔ جب میں اٹھا تو ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑھ گیا کہ کہاں ہوں۔ پھر مجھے یاد آیا۔ چاند خوب چمک رہا تھا۔ ہر چیز پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ تب مجھے دریا کی طرف سے کچھ آوازیں سنائی دیں۔ میں نے بید کے درختوں کی شاخوں سے جھانک کر دیکھا تو ایک کشتی آتی نظر آئی۔ جب وہ قریب آئی تو میں نے دیکھا کہ اس میں صرف ایک آدمی ہے۔ وہ پاپ تھا۔وہ آرام سے کشتی چلا رہا تھا اور سنجیدہ لگ رہا تھا۔ میں نے فوراً مگر تیزی سے چپو چلائے اور دریا کے بہاؤپر ڈھائی میل دور درمیان میں چلا گیا اور کشتی میں لیٹ کر پائپ پینے لگا۔ آسمان پر کوئی بادل نہ تھا۔ جب میں دور نکل گیا تو اٹھ کھڑا ہوا۔ کچھ دور مجھے سیاہ پہاڑ سا نظر آیا۔ وہ جیکسن آئی لینڈ تھا، تقریبا ڈھائی میل دور دریا کے بہاؤ پر۔ وہ بہت بڑا اور درختوں میں گھرا ہواتھا اور دریا کے بیچ کسی بڑے جہاز کی طرح جس میں روشنی نہ ہو، کھڑا تھا۔

          جلد ہی میں وہاں پہنچ گیا اور جزیرے کے اگلے حصے سے گزرتے ہوئے کشتی کو کھینچ کر درختوں کے درمیان کھاڑی میں لے گیا اور بید کے درخت سے باندھ دیا۔ اب اسے باہر سے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ پھر میں جزیرے کے اوپری حصے میں گیا اور شاندار دریا اور تین میل دور سینٹ پیٹرزبرگ کا ساحل دیکھا۔

          ایک بڑی کشتی جس میں لکڑی لدی تھی، دریا میں ادھر ادھر ڈولتی آتی نظر آئی۔ اس میں لالٹین بھی تھی۔ جب وہ قریب آئی تو مجھے آدمیوں کی باتیں کرنے کی آوازیں آئیں۔ آسمان سرمئی ہو رہا تھا چنانچہ میں جنگل میں چلا گیا اور سونے کے لیٹ گیا۔

۔۔۔۔۔

آٹھ بجے کے بعد اچانک ایک زبردست گرج سنائی دی۔ ”بوم !!!….“جس سے میری آنکھ کھل گئی۔ وہ دریا کی طرف سے آئی تھی۔ میں نے درختوں کے درمیان سے ایک فیری بوٹ کو آتے دیکھاجو لوگوں سے بھری تھی۔ میں جانتا تھا کہ وہ اب کیا کریں گے۔ وہ توپ سے دریا میں گولے مار رہے تھے تاکہ میرا جسم اوپر آجائے۔” بوم !!!….“

میں بھوکا تھا مگر آگ جلانے کی جرات نہیں کر سکتا تھا، چنانچہ میں بیٹھا، بوٹ کو دیکھتا اور آواز سنتا رہا، میرے لیے یہ دیکھنا اچھا تجربہ تھا کہ وہ میری باقیات کو تلاش کر رہے ہیں۔ بوٹ دریا کے دھارے پر تیررہی تھی۔ میں جزیرے میں اندر کی طرف چلاگیا۔ پائپ جلایا اور دیکھنے لگا۔

پھر فیری بوٹ میرے بہت نزدیک آگئی۔میں نے پائپ بجھایا اور ایک درخت کے تنے کے پیچھے چھپ گیا۔ میں بوٹ کے عرشے پر کھڑے لوگوں کو دیکھ سکتا تھا۔ جلدی ہی سب مجھے نظر آنے لگے۔ پاپ، جج تھیچر، جو ہارپر، ٹام سائر اور اس کی بوڑھی آنٹی پولی اور بھائی سڈ۔ وہ سب قتل کی باتیں کر رہے تھے، لیکن کیپٹن نے انھیں چپ کرایا اور بولا۔” غور سے دیکھیں ،ہوسکتا ہے وہ پانی کے کنارے گھاس میں کہیں پھنسا ہو۔“ سب کی نگاہیں مجھے تلاش کرنے لگیں۔ میں انھیں بالکل صاف دیکھ رہا تھا، لیکن وہ مجھے نہیں دیکھ سکتے تھے۔

          ” پیچھے ہٹ جائیں۔ “ کیپٹن چلایا۔ پھر بڑی بندوق سے گولا چلا،” بوم!!!!….“ چنانچہ بہت زوردار آواز آئی۔ میں کچھ لمحوں کے لیے بہرہ ہوگیا۔ بوٹ جزیرے کے ساتھ ساتھ تیرتی رہی اور دھماکے کرتی رہی۔ پھر وہ میسوری جانے والے راستے پر چل دی۔ اب انجن کھل گیا تھا اور گولہ باری رک گئی تھی۔ میں اسے اس وقت تک دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوگئی۔

          میں جانتا تھا کہ اب میں محفوظ ہوں۔ اب مجھے کوئی ڈھونڈنے نہیں آئے گا۔ میں نے کشتی میں سے اپنا سامان نکالا اور گھنے جنگل میں کیمپ لگالیا۔ پھر ایک مچھلی پکڑی۔ جوں ہی سورج ڈوبا۔ میں نے آگ جلائی اور کھانا کھایا۔ جب اندھیرا گہرا ہوگیا تو میں آگ کے پاس آبیٹھا اور پائپ پینے لگا۔ میں مطمئن تھا، مگر کچھ دیر بعد میں نے خود کو اکیلا محسوس کیا۔ میں دریا کے کنارے جا بیٹھا اور تارے اور لکڑی کے بہنے والے ٹکڑے گننے لگا۔ پھر میں سونے کے لئے جنگل میں چلا گیا۔

۔۔۔۔۔

تین دن اور تین راتوں کے بعد جب میں پورے جزیرے میں گھومتا پھررہا تھا اور جزیرے کے نشیب میں تھا، اچانک ایک بڑے سانپ کے اوپر پاؤں رکھتے رکھتے بچا۔ میں اپنے ساتھ بندوق لایا تھا مگر اسے استعمال کرنا نہیں چاہتا تھا۔ چنانچہ میں اس سے دورہو گیا۔ پھر وہاں میری نظر کسی کے کیمپ فائر کے نشان پڑی۔ اس میں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ میں اسے دیکھنے کے لیے نہیں رکا اور جتنا تیز دوڑ سکتا تھا دوڑا اور جلد اپنے کیمپ پر پہنچ گیا۔ میں نے اپنا سامان کشتی میں رکھا۔ آگ بجھائی اور درخت پر چڑھ گیا۔ میں اس پر دو تین گھنٹے بیٹھا رہا،مگر میں نے نہ کچھ سنا ،نہ کسی کو دیکھا۔ جب اندھیرا ہوا تو میں بہت بھوکا تھا، لہٰذا چاند نکلنے سے پہلے کشتی کو چپو چلاتا ہوا کنارے سے ایک چوتھائی میل دور لے گیا اور کھانا کھایا، لیکن میں سو نہیں سکتا تھا۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ جزیرے پر میرے ساتھ کون ہے۔ پھر چاند کی روشنی میں، میں چپو چلاتا واپس کنارے کی طرف بڑھا۔ وہاں پہنچ کر میں نے بندوق اٹھائی، ساحل پر اترا اور اس طرف چل دیا۔ وہاں آگ کے قریب ایک آدمی سو رہا تھا۔ اس کا سر کمبل میں تھا۔ میں چھ فٹ دور جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ میری نگاہیں اس پر جمی تھیں۔ اب سرمئی روشنی ہونے لگی تھی۔ جلد ہی آدمی نے کمبل کھینچا اور جماہی لی۔ وہ مس واٹسن کا غلام جم تھا۔

۔۔۔۔۔

باب:۴

          ” ہیلو جم !“ میں نے کہا اور بھاگ کر اس کے پاس گیا۔ جم آنکھیں پھاڑے پاگلوں کی طرح مجھے گھورنے لگا۔

          ”مجھے مت مارو۔“ اس نے التجا کی۔ ” میں بھوت کو تنگ نہیں کرتا، بوڑھے جم کو نہ مارو جو تمہارا دوست تھا۔“

           میں نے اسے سمجھایا کہ میں بھوت نہیں ہوں بلکہ زندہ انسان ہوں۔ میں اسے دیکھ کر بہت خوش تھا اور اس سے باتیں کیے جا رہا تھا۔

          پھر میں نے کہا۔” چلو ناشتہ کرتے ہیں۔“

          ”میرے پاس سوائے پھلوں کے اور کچھ نہیں ہے۔ تم جاؤاور بندوق سے کوئی شکار مار لاؤ۔ میں اتنے میں آگ جلاتا ہوں۔“وہ بولا۔

          مگر میں واپس کشتی میں گیا اور کچھ گوشت، روٹی بنانے کے لیے مکئی، کافی اور چینی لے کر آیا۔ جم کو اس پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ چڑیلیں پھر اپنا کام کرنے لگی ہیں، لیکن وہ بہت بھوکا تھا، چنانچہ اس نے خوب ڈٹ کر کھایا۔ بعد میں اس نے پوچھا۔”ہک ! وہ اگر تم نہ تھے، تو کیبن میں کون مرا تھا؟“

           چنانچہ میں نے اسے سور اور خون کے بارے میں بتایا۔

          وہ بولا۔” یہ عمدہ کام تھا۔ ٹام سائر بھی اس سے بہتر نہیں کرسکتا تھا۔“

          ” مگر تم یہاں کیسے ہو؟ “ میں نے پوچھا۔

          جم بے چین نظر آنے لگا۔” تم کسی سے کہوگے تو نہیں؟ “

          ” نہیں ، میں وعدہ کرتا ہوں۔“

          ” ہک…. میں وہاں سے بھاگ آیا ہوں۔“

          ” جم !!!“

          ”ہک تم نے کہا تھا کسی سے نہیں کہوگے۔“

          ” لوگ مجھے گالیاں دیں گے کہ میں نے ایک غلام کو بھاگنے میں مدد دی مگر میں کسی سے نہیں کہوں گا۔“

          ” مس واٹسن میرے ساتھ تھوڑا برا سلوک کرتی تھیں۔ وہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ مجھے نہیں بیچیں گی مگر ایک شام میں نے ان کو کسی سے باتیں کرتے سنا کہ میرے آٹھ سو ڈالر مل رہے ہیں۔ میں سیدھا پہاڑی کی طرف بھاگا اور آدھی رات تک دریا کے کنارے پر چھپا رہا۔ پھر تمہارے والد وہاں آئے۔ وہ کسی سے کہہ رہے تھے کہ تمہیں کیبن میں مار دیا گیا ہے۔ ہک…. مجھے افسوس ہے کہ میں نے یہ سنا۔“

           پھر میں دریا کے اوپر چلا گیا تاکہ کوئی کشتی پکڑ سکوں۔ آخر میں نے دریا میں روشنی دیکھی ۔وہ ایک بڑا بیڑا تھا۔ میں اس کی طرف تیرنے لگا۔ اس کے مسافر درمیان میں لالٹین کے گرد بیٹھے تھے۔ چنانچہ میں اس پر چڑھ کر لکڑیوں کے پیچھے چھپ گیا، لیکن جب ہم جیکسن آئی لینڈ سے کچھ دور تھے، تو ایک آدمی لالٹین لے کر میری طرف آیا۔ مجھے بیڑا چھوڑنا پڑا اور میں تیر کر یہاں ساحل پر آگیا۔ میں خوش قسمت تھا کیونکہ میں اپنی ٹوپی میں پائپ، خشک تمباکو اور ماچس چھپا لایا تھا۔“

           جم قسمت کی بات بہت کرتا تھا۔ وہ ہر قسم کی علامتیں جانتا تھا۔” میں ایک دن بہت امیر ہو جاؤں گا۔“ وہ بولا،” کیونکہ میرے سینے پر بہت زیادہ بال ہیں۔ یہ اس کی علامت ہے۔“

۔۔۔۔۔

          میں جزیرے کے درمیان اس پہاڑی کو کھوجنا چاہتا تھا۔ جو دور سے نظر آتی تھی۔ لہٰذا ہم نے چلنا شروع کیا اور جلد وہاں پہنچ گئے۔ کیونکہ کہ جیکسن آئی لینڈ صرف تین میل لمبا اور چوتھائی میل چوڑا تھا۔ ہم اوپر چڑھے اور وہاں ایک غار کا دہانہ دیکھا۔ وہ کافی بڑا تھا۔ جم اس میں سیدھا کھڑا ہو سکتا تھا۔ وہ بولا۔ ”ہم یہاں رہ سکتے ہیں، اگر بیڑا بھی چھپا دیں۔ لہٰذا ہم چپو چلاتے اسے غار کے نیچے لے آئے اور چھپا دیا۔ پھر تمام سامان نکال کر غار میں لے آئے۔ ہم نے کمبل زمین پر بچھاد یے اور سب چیزیں پیچھے رکھ دیں۔ پھر ہم نے ایک سیدھی چٹان کے پیچھے آگ جلائی اور کھانا بنانے لگے اور اندر بیٹھ کر کھایا۔

           کچھ دیر بعد بارش شروع ہوگئی۔ وہ گرمیوں کا معمولی ہوا اور گرج چمک کا طوفان تھا۔

          دریا دس دنوں میں بہت چڑھ گیا تھا۔ جس سے جزیرے کے نشیبی علاقے تین چار فٹ ڈوب گئے تھے ،لہٰذا ہم کشتی کو درختوں کے درمیان لے آئے۔

           ایک رات ہم نے ایک اچھا بیڑہ پکڑا۔ جو بارہ فٹ چوڑا اور پندرہ فٹ لمبا تھا۔ وہ پانی سے چھ انچ اونچا بھی تھا۔

          دوسری رات مغرب کی طرف سے لکڑی کا بنا ہے ایک مکمل گھر تیرتا آتا نظر آیا۔ ہم اسے کنارے پر لے آئے، لیکن اس وقت اندھیرا تھا۔ اس لیے ہم اسے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ہم نے اسے کشتی کے ساتھ باندھ دیا اور انتظار کرنے لگے۔ جب صبح ہوئی تو ہم نے اندر جھانکا تو ایک مسہری، میزاور دو کرسیاں نظر آئیں، وہاں فرش پر سامان بھی پڑا تھا جیسے لوگ جلدی میں گھر چھوڑ کر بھاگے ہوں۔ وہاں دور کونے میں ایک آدمی بھی بیٹھا تھا۔ ہم اسے دیکھ کر چیخ پڑے۔ مگر اس نے حرکت نہیں کی۔

          ” وہ آدمی مر چکا ہے۔“ جم نے کہا اور اوپر چڑھ گیا۔ پھر گھٹنوں کے بل جھک کر دیکھا۔ ” ہاں اسے دو یا تین دن پہلے گولی ماری گئی ہے۔ اندر آجاؤ ہک مگر اس کا چہرہ مت دیکھنا۔ وہ بہت بھیانک ہے۔“جم بولا۔

           اس نے کچھ پرانے کپڑے مردے پر ڈال دیے۔ وہاں پرانے کارڈ اور بوتلیں زمین پر پڑی تھیں۔ کپڑے بھی بہت سارے تھے۔ ہم انہیں کشتی میں لے آئے۔ ہمیں وہاں سے ایک پرانی لالٹین، دو چاقو، ایک پرانے بستر کی چادر، موم بتیاں، کچھ کیلیں اور مچھلی پکڑنے کا جال بھی ملا۔ ہم جیکسن آئی لینڈ سے ایک چوتھائی میل نیچے آ گئے تھے۔ ابھی دن کی روشنی تھی۔ اس لئے میں نے جم کو کشتی میں لٹا کر چادر اس پر ڈال دی کہ کوئی دیکھ نہ سکے کہ وہ کالا غلام ہے۔ پھر میں چپو چلاتا جزیرے کی طرف بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔

          ناشتے کے بعد میں مردہ آدمی پر بات کرنا چاہتا تھا مگر جم نے کہا یہ بد قسمتی ہوگی۔ ہم تیرتے گھر سے لائے گئے کپڑوں کا جائزہ لے رہے تھے کہ ہمیں ایک پرانے کوٹ میں سے آٹھ چاندی کے ڈالر سلے ہوئے ملے۔ جم نے کہا۔” میرا اندازہ ہے کہ گھر والے ان کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔ انھوں نے کوٹ چوری کیا ہوگا۔“

          ” میرا اندازہ ہے کہ انہوں نے ہی آدمی کو مارا تھا۔“ میں نے کہا، لیکن جم اس پر بات نہیں کرناچاہتا تھا۔

          میں نے کہا۔” تم اور تمہاری بد قسمتی۔ کل جب میں سانپ کی کینچلی اٹھا لایا تو تم نے کہا یہ بد قسمتی ہے اور آج ہم نے آٹھ ڈالر پائے۔ میری خواہش ہے کہ ہماری ہر روز اس طرح کی بد قسمتی ہوا کرے۔“

          ” ارے وہ بھی آئے گی بچے وہ بھی آئے گی۔“جم بولا۔

          دس دن بعد جب ہم سونے کی تیاری کر رہے تھے تو جم کے ایک سانپ نے کاٹ لیا۔ اس نے چیخ ماری اور غار میں اچھل کود کرنے لگا۔ میں نے فوراً سانپ کو مار کر باہر پھینک دیا۔ سانپ نے اسے ایڑی میں کاٹا تھا۔ اس نے پاپ کی شراب لے کر اس پر ڈالی۔ پھر چوس کر زہر نکالنے لگا۔ وہ بار بار ایسا کرتا رہا۔ پھر تھک کر لیٹ گیا۔ میں نے دیکھا کہ اس کا پیر سوجھ رہا ہے۔ چار دن اور چار راتوں تک جم بستر پر پڑا رہا پھر آہستہ آہستہ سوجن کم ہونے لگی۔

          ایک دن میں نے کہا۔”میں سوچ رہا ہوں کہ سینٹ پیٹرز برگ ہوکر آؤں۔ تاکہ معلوم ہو کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔“

           جم کو یہ خیال پسند آیا۔ مگر وہ بولا کہ تمھیں اندھیرے میں جانا پڑے گا۔ پھر اس نے پوچھا۔”تم تیرتے گھر سے یہ خواتین کے لباس کیوں اٹھا لائے ہو؟ “

           میں نے اپنی پتلون کے پائنچوں کو موڑا اور ایک کاٹن کا پرانا گون پہن لیا ۔پھر میں نے عورتوں کا ہیٹ سر پر لگایا اور اسے اپنی ٹھوڑی کے نیچے کس لیا۔

          جم نے کہا۔”تمہیں کوئی بھی نہیں پہچان سکتا۔“ میں تمام دن وہ کپڑے پہنا رہا تاکہ اس کا عادی ہو جاؤں۔ جب اندھیرا ہوگیا تو میں نے ڈونگا نکالا اور چپو چلاتا ساحل کی طرف بڑھ گیا۔ سینٹ پیٹرز برگ پہنچ کر میں نے اسے نشیب میں باندھا اور ساحل پر چلتا ہوا گاؤں کی طرف بڑھا۔ وہاں لکڑی کے گھروں میں روشنی ہو رہی تھی۔ میں نے ایک گھر کے اندر جھانکا۔ وہاں خوش قسمتی سے ایک اجنبی عورت نظر آئی۔ میں نے دروازے پر دستک دے دی۔

۔۔۔۔۔

          ” اندر آجاؤ۔“ عورت نے کہا۔ اس نے مجھے بٹھایا اور میرا نام پوچھا۔” سارہ ولیمز “میں نے کہا۔

          ” تم کہاں رہتی ہو؟“

          ”ہوکر ویل میں سات میل نیچے۔ میری ماں بیمار ہے۔ میں اپنے چچا ابنر مور کو یہ بتانے آئی ہوں۔ وہ گاؤں کے بالائی حصے میں رہتے ہیں۔ کیا آپ انہیں جانتی ہیں؟“

          ”نہیں، مجھے یہاں رہتے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ تمہارے لئے بہتر یہ ہے کہ تم میرے شوہر کا انتظار کرو۔ وہ تمہیں لے جائیں گے۔ وہ جلدی آجائیں گے۔“ ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ جلد ہی میں نے ہک فن کے قتل کا ذکر چھیڑدیا کہ آخر اسے کس نے مارا۔ وہ بولی۔”پہلے لوگوں کا خیال تھا کہ قتل پاپ نے ہی کیا ہے۔“

          ” کیا ایسا نہیں تھا؟“

          ” جب اس نے آکر خبر سنائی تو کسی نے بھی اس کی بات کا یقین نہیں کیا، مگر پھر پتا چلا کہ اس رات سیاہ فام غلام جم بھی فرار ہوا تھا۔ اگلے دن پاپ پھر واپس آیا اور جج سے رقم لی تاکہ غلام کو پکڑ سکے لیکن اس نے نشہ کیا اور دو گندے آدمیوں کے ساتھ کہیں چلا گیا اور دوبارہ نظر نہیں آیا۔ چنانچہ جم پر تین سو ڈالر اور پاپ پر دو سو ڈالر انعام رکھا گیا ہے۔ لہٰذا اب لوگ سوچ رہے ہیں کہ اس نے لڑکے کو خود مارا تھا اور یہ ظاہر کیا کہ ڈاکو نے مارا ہے۔ وہ ایک سال بعد آئے گا اور ہک کی رقم بغیر کسی کارروائی کے لے جائے گا۔“

          ”کیا اب لوگوں نے جم کی تلاش ختم کر دی ہے ؟“ میں نے پوچھا۔

          ”نہیں، جب تین سو ڈالر کا انعام کا اعلان ہوا تو میں نے جیکسن آئی لینڈ پر دھواں اڑتے دیکھا۔ لہٰذا میرا شوہر اور ایک دوسرا آدمی آج رات وہاں ڈھونڈنے جائیں گے۔ وہ ابھی کشتی اور بندوق کا بندوبست کرنے گئے ہیں۔ وہ آدھی رات کے بعد جائیں گے جب وہ بھگوڑے سوئے ہوں گے۔“

          وہ غور سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں بے چینی محسوس کر رہا تھا۔

          ” تم نے اپنا نام کیا بتایا تھا ؟ “ اس نے پوچھا۔

          ” میری ولیمز۔ “

          ” تمہارا پہلا نام کیا ہے۔ میرا خیال ہے تم نے سارہ ولیمز کہا تھا۔“

          ” ہاں سارہ میری ولیمز۔“ میں نے کہا ۔وہ غور سے مجھے دیکھنے لگی۔

          ” میں مسز جوڈتھ لوفٹس ہوں۔ اچھا تمہارا اصل نام کیا ہے۔ بل یا ٹام یا باب ؟“

          مجھے لگا میں کسی پتے کی طرح لرز رہا ہوں۔

          ” برائے مہربانی کسی غریب لڑکی کا مذاق نہ اڑائیں۔ “میں نے کہا۔” اب میں جاتی ہوں۔“

          ” نہیں میں تمہیں تکلیف نہیں پہچانا چاہتی ۔تم کہیں سے بھاگ کر آئے ہو ۔اچھے لڑکے بنو اور مجھے اس بارے میں بتاؤ۔“

           چنانچہ میں نے کہا۔” میرے ماں اور باپ مر چکے ہیں اور عدالت نے مجھے ایک بوڑھے کسان کے پاس کام کے لیے بھیج دیا ہے۔ جو مجھ سے بہت برا سلوک کرتا ہے۔ لہٰذا میں نے اس کی بیٹی کے کپڑے چوری کیے اور اپنے چچا ابنر کو ڈھونڈنے گوشین میں چلا آیا۔“

          ” گوشین ؟؟؟ یہ گوشین نہیں ہے۔ گوشین دس میل دریا کے اوپر ہے۔“

          ” اوہ…. میں غلط سمجھ رہا تھا۔“ مسز لوفٹس نے مجھے راستے میں کھانے کے لیے کچھ دیا اور پوچھا۔ ” تمہارا اصل نام کیا ہے؟ “

          ”جارج پیٹرز“ میں نے کہا۔

          ” اچھا، یہ اچھی طرح یاد کرلو، مجھے الیگزینڈر نہ بتانا ورنہ میں تمہیں پکڑ لوں گی۔ کہو جارج الیگزینڈر اور یہ کپڑے پہن کر عورتوں کے نزدیک مت جانا۔ تم مردوں کو بیوقوف بنا سکتے ہو مگر عورتوں کو نہیں۔ جاؤاب اپنے چچا کے پاس بھاگ جاؤ۔ سارہ میری ولیمزز جارج الیگزینڈر پیٹرز۔“

          میں گھر سے باہر نکل کرتھوڑا سا پیدل چلا پھر تیزی سے ساحل کی طرف دوڑا اور کشتی میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا۔ جیکسن آئی لینڈ پر اتر کر میں اپنے پرانے کیمپ فائر کی طرف دوڑا اور اسے روشن کردیا تاکہ آنے والے دھوکہ کھا جائیں۔ پھر میں جتنا تیز دوڑ سکتا تھا دوڑا۔

          ” اٹھ جاؤ جم ! وہ ہمارے پیچھے لگے ہیں ۔“ میں غار میں پہنچ کرچلایا۔

           ڈیڑھ گھنٹے بعد ہم ڈونگے سمیت ہر چیز بیڑے میں رکھ چکے تھے۔ ہم اسے کھاڑی سے باہر لائے اور خاموشی سے چل دئیے۔

۔۔۔۔۔

باب:۵

          ہمارا بیڑا آہستہ چلتا ہوا لگ رہا تھا مگر کوئی کشتی ہمارے پیچھے نہیں تھی۔ ہم نے اسے سینٹ پیٹرزبرگ سے سولہ میل نیچے ایلی نوائے کے ساحل پر باندھ دیا۔ وہاں ہماری طرف جنگل تھا اور دوسری طرف میسوری کے پہاڑ۔ اور پانی کا دھارا میسوری کے ساحل سے نیچے بہت گہرا تھا۔ کوئی ہمیں ڈھونڈنے ادھر نہیں آسکتا تھا۔ ہم وہاں تمام دن لیٹے رہے اور دخانی کشتیوں اور بیڑوں کو گزرتے ہوئے دیکھتے رہے۔ جو دریا کے بیچ دھارے کے مخالف سمت چلے جارہے تھے۔ جم کو میں نے مسز لوفٹس کے بارے میں بتایا۔ وہ بولا۔”وہ بہت ہوشیار تھی۔“ میرا اندازہ تھا کہ جب اس نے اپنے شوہر کو میرے بارے میں بتایا ہوگا تو وہ کتے کا بندوست کرنے میں لگ گیا ہوگا۔ اس لیے اسے ہم تک پہنچنے میں دیر ہوئی۔

          جب دوبارہ اندھیرا ہوگیا تو جم نے بیڑے میں لکڑی کا مخروطی جھونپڑا بنایا جو ہمیں ٹھنڈا اور خشک رکھ سکتا تھا۔ اس پر ایک لکڑی پر لالٹین بھی لٹکا دی گئی تھی۔ تاکہ رات میں چلتی تیز رفتار دخانی کشتیاں بیڑے سے ٹکرا نہ جائیں۔ ہم نے ایک اضافی چپو بھی بنایا تھا۔

           دوسری رات دریا کا تیز رفتار دھارا ایک گھنٹے میں چار میل کی رفتار سے بہہ رہا تھا۔ ہم بیڑے کو سات گھنٹے تک اس پر چلاتے دور نکل گئے۔

           ہم نے مچھلی پکڑی، خوب تیرے، باتیں کی اور تارے دیکھتے رہے۔ موسم بہت اچھا تھا اور کئی راتوں تک ہمارے ساتھ کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہیں آیا۔ ہم دن میں چھپ جاتے اور رات میں سفر کرتے۔ میں اکثر ساحل پہ چلا جاتا تھا اور دس سینٹ کا گوشت اور کھانے کا دوسرا سامان لے آتا۔ میں کھیتوں میں بھی چلا جاتا اور مکئی اور خربوزے” ادھار“لے آتا تھا۔ پاپ ہمیشہ اسے ادھار کہتا تھا، مگر بیوہ ڈگلس کا کہنا تھا کہ یہ دوسرے لفظوں میں چوری ہے۔ یہ کرکے میں خود کو بے آرام محسوس کرتا تھا۔

          پانچویں رات ہم سینٹ لوئیس کی تمام روشنیوں کو عبور کرچکے تھے۔ وہاں کچھ دن پہلے طوفان آیا تھا۔ ہم نے وہاں ایک تباہ شدہ دخانی کشتی دیکھی۔

          ” جم آؤ اس میں چلتے ہیں۔“میں نے کہا،” ہم وہاں سے کچھ قیمتی چیزیں ادھار لا سکتے ہیں۔“ ٹام سائر اسے مہم جوئی کہتا تھا۔ وہ تباہ شدہ کشتی پر اس انداز میں جاتا جیسے کولمبس، امریکہ دریافت کررہا ہو۔

۔۔۔۔۔

          آسمان پر چمکتی بجلی کی روشنی میں ہم اپنا بیڑا کشتی کے قریب لے گئے اور اسے عرشے کے دائیں رخ پر باندھ کر رسے کی مدد سے اوپر چڑھے اور ڈھلوان پر رینگتے ہوئے عرشے کے بائیں رخ پر آئے۔ جہاں ہمیں کپتان کے کیبن کے کھلے دروازے میں روشنی نظر آئی اور نیچے راستے سے کچھ آوازیں سنائی دیں۔ جم خوفزدہ ہوگیا تھا۔ اس نے کہا کہ وہ واپس بیڑے پرجا رہا ہے۔ میں بھی یہ ہی چاہتا تھا، لیکن پھر ایک چیخ سنائی دی۔ میں راہداری میں گھٹنوں کے بل رینگتا ہوا آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک آدمی فرش پر بندھا پڑا ہے اور دو آدمی اس کے پاس کھڑے ہیں۔ ایک کے ہاتھ میں پستول تھا۔ جبکہ دوسرا لالٹین لیے ہوئے تھا۔ پستول والا فرش پر پڑے آدمی کو مارنا چاہتا تھا مگر لالٹین والا جسے پیکارڈ کہہ کر پکارا گیا تھا، گولی چلانے کا مخالف تھا۔ اس نے لالٹین کیل پر لٹکائی اور اس سے کہا کہ میرے پیچھے آؤ۔ وہ دونوں میری طرف آنے لگے۔ میں اندھیرے میں چھپا تھا۔ کچھ قریب آکر وہ رک گئے۔ وہ بحث کررہے تھے۔ ان کے پاس سے شراب کی بو آرہی تھی۔ آخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ کشتی میں سے تمام سامان ساحل پر لے جاتے ہیں اور بندھے ہوئے آدمی کو ڈبو کر مار دیتے ہیں۔ میں خوفزدہ ہوگیا۔ جب وہ آگے بڑھ گئے تو میں جم کے پاس واپس آ گیا۔

          ” جلدی کرو جم ۔“میں نے سرگوشی کی،” قاتلوں کا گروہ نیچے آنے والا ہے۔ ہمیں ان کی بوٹ ڈھونڈ کر کھولنی ہوگی تاکہ وہ کہیں جا نہ سکیں۔ میں کشتی کے بائیں حصے میں دیکھتا ہوں ہوں، تم دائیں حصے میں دیکھو۔ اور بیڑے پر چلو۔“

          ” ہمارے پاس بیڑا نہیں ہے۔ وہ ڈھیلا ہو کر پانی میں بہہ گیا ہے۔“ جم بولا۔ میں بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔ مجھے خیال آیاکہ ہم لٹیروں کی کشتی استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم اسے ڈھونڈنے لگے، آخر وہ عرشے کے بائیں طرف مل گئی۔ جوں ہی ہم اس میں جانے کے لیے بڑھے۔ ہم سے دو فٹ دور ایک دروازہ کھلا اور پیکارڈ نے ایک تھیلا کشتی میں اچھالا اور خود بھی کشتی میں چلاگیا اس کا دوست پیچھے تھا۔ ”تیار….دھکا دو۔“ پیکارڈ چلایا۔

          جم اور میں عرشے کے بائیں حصے میں چھپے کھڑے تھے جس کا کچھ حصّہ پانی میں ڈوبا ہواتھا ۔ میں تھک گیا تھا۔ خوش قسمتی سے وہ لوگ کچھ بھول آئے تھے۔ وہ اسے لینے واپس دخانی کشتی میں چلے آئے۔ جوں ہی وہ اندر گئے آدھے سیکنڈ میں، میں ان کی کشتی میں تھا۔ جم بھی میرے پیچھے فوراً کود آیا تھا۔ میں نے رسہ کاٹا اور وہاں سے روانہ ہو گئے۔

۔۔۔۔۔

          جب تک ہم محفوظ مقام تک نہ پہنچ گئے۔ ہم نے کشتی کی کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔ جم کشتی چلا رہا تھا اور میں گروہ کا سوچ کر پریشان تھا۔ پیکارڈ اور اس کا دوست اس وقت بندھے ہوئے آدمی کے لئے بہت بڑا خطرہ تھے۔ جوں ہی ہمیں روشنی نظر آئی میں نے کہا۔” میں رک رہا ہوں تاکہ کسی کو بھیج کر بندھے ہوئے آدمی کو قاتلوں سے بچا سکوں۔“ میں دریا میں نیچے چلا گیا اور روشنی اور کوئی بیڑا تلاش کرنے لگا۔ پہلے ہمیں اپنا بیڑا نظر آیا۔ جو اندھیرے میں خود بہے جا رہا تھا۔ ہماری کشتی سامان سے بھری ہوئی تھی جو لٹیروں نے دخانی کشتی سے لوٹا تھا۔ ہم نے وہ سب بیڑے پر پھینکا۔ پھر مجھے روشنی نظر آئی وہ ایک فیری بوٹ تھی جو اندھیرے میں بندھی تھی۔ میں اس طرف بڑھا۔ جم بیڑے میں ہی تھا۔

          میں نے کپتان سے جاکر کہا کہ دخانی بوٹ میں ایک امیر عورت پھنسی ہوئی ہے اسے نکالنے پر رقم دی جائے گی۔ چنانچہ اس نے کہا کہ وہ وہاں جاتا ہے۔میں کشتی پیچھے لے گیا اور انتظار کرنے لگا۔ میں خوشی محسوس کر رہا تھا۔ میری خواہش تھی کہ اس کا بیوہ ڈگلس کو پتا چل جائے۔ بہت دیر بعد تباہ شدہ کشتی تیرتی نظر آئی۔ میں نے آواز لگائی مگر کسی نے جواب نہیں دیا ۔ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ فیری بوٹ قریب آئی تو میں دور چلا گیا ۔کپتان دخانی کشتی کے گرد چکر لگانے لگا۔ میں وہاں سے واپس ہوگیا۔

          کچھ دیر بعد میں جم کے پاس پہنچ گیا۔ اب صبح ہورہی تھی۔ ہم ایک جزیرے پر چلے گئے، بیڑے کو چھپایا اور لٹیروں کی کشتی کو ڈبو دیا۔ پھر مردوں کی طرح پڑ کر سوگئے۔ جب ہم اٹھے تو ہم نے دخانی کشتی کا سامان دیکھنا شروع کیا۔ اس میں جوتے، کمبل، کتابیں، تمباکو اور دوسری ایسی چیزیں تھیں جو ہمیں امیر بنا سکتی تھیں۔ ہم تمام دوپہر لیٹے رہے ، تمباکو نوشی کی اور اچھا وقت گزارا۔ میں نے جم کو کتابوں میں سے بادشاہوں اور ڈیوک کے بارے میں پڑھ کر سنایا۔ ان کے انداز بتائے کہ وہ کیسے ایک دوسرے کو پکارتے تھے۔ یور میجسٹی، یور گریس وغیرہ۔ جم کی آنکھیں پوری طرح کھل گئی۔ وہ بولا کہ میں نے کبھی کسی بادشاہ کے بارے میں نہیں سنا سوائے مقدس کتاب میں شاہ سلمان کے۔ چنانچہ میں نے اسے لوئیس کے بارے میں پڑھ کر سنایا جس کا بہت پہلے فرانس میں سر کاٹ دیا گیا تھا اور اس کے چھوٹے لڑکے ڈوفن کو بجائے بادشاہ بنانے کے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ڈوفن بھاگ کر امریکہ آگیا تھا۔ جم کو یہ پسند آیا۔ مگر وہ خود کو اکیلا محسوس کررہا تھا۔ ” ہک ! یہاں کوئی بادشاہ یا ڈیوک نہیں ہے ؟“

          ” نہیں“ میں نے کہا۔

۔۔۔۔۔

          تین راتیں اور گزرنے کے بعد ہم نے اندازہ لگایا کہ ہم قاہرہ پہنچنے والے ہیں۔ جو ایلی نوائے کے نیچے تھا۔ جہاں سے اوہائیو دریا شروع ہوتا تھا ہم نے منصوبہ بنایا کہ ہم بیڑا بیچ دیں گے اور دخانی کشتی کے ذریعے اوہائیو میں سفر کریں گے اور محفوظ ہو جائیں گے کیونکہ وہ آزاد ریاست ہے، لیکن اگلی رات کہر چھا گیا۔ ہم نے رکنے کا فیصلہ کیا اور بیڑے کو چپو چلاتے ہوئے کنارے پر ایک درخت سے باندھ دیا۔ وہ زیادہ مضبوط نہ تھا۔ بیڑا تیز پانی میں بہہ گیا۔ میں ڈونگے میں تھا۔ میں نے اس کے پیچھے جانے کی کوشش کی لیکن وہ نظر نہیں آیا۔ کہر سفید اور بہت گہرا ہوگیا تھا۔ میں نے ”ہوہو!!!“ چیخنے کی آواز سنی اور اس کے پیچھے گیا اگلی” ہوہو!!“ دائیں طرف سے آئی۔ میں نے خواہش کی کہ جم ٹن پن پیٹ کر آواز پیدا کرے لیکن اس بےوقوف نے نہیں کی۔ میں نے بھی ”ہوہو!!“ کی مگر مجھے جواب نہیں ملا۔ کچھ دور چلنے کے بعد مجھے لگا کہ ہم چھوٹے چھوٹے جزیروں کے درمیان ہیں۔ کچھ دیر بعد میں نے ایک کھلا دریا دیکھا، مگر اب بھی مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ میں بہت تھک گیا تھا۔ میں کشتی میں لیٹ گیا۔

          جب میں سوکر اٹھا تو ستارے چمک رہے تھے اور کہر دور ہو گیا تھا۔ مجھے دریا میں کچھ دور کالا ہیولہ نظر آیا۔ میں اس کے پیچھے لگ گیا۔ وہ ہمارا بیڑا تھا۔ میں نے دیکھا جم اپنے گھٹنوں پر سر چھپائے سو رہا ہے۔ اس کا دایاں بازو چپو سنبھالے ہوا تھا۔ بیڑے کی بہت بری حالت تھی۔ وہ مٹی، پتوں اور شاخوں سے بھرا تھا۔ میں نے کشتی کو بیڑے سے باندھا اور چڑھ کر جم کے قریب لیٹ گیا۔

          ”یہ تم ہو ہک ؟ تم واپس آگئے؟ تم ڈوبے یا مرے نہیں، مجھے دیکھنے دو میرے بچے ہاں یہ وہی پرانا ہک ہے شکر ہے خدا کا۔“ جم بڑبڑایا۔

          ” کیا ہوا جم ،کیا تم نے پی رکھی ہے؟“ میں نے دکھاوا کیا کہ جیسے میں تو بیڑے سے کہیں گیا ہی نہیں۔ جم بہت حیران تھا۔” تم نے خواب دیکھا ہے۔“ میں نے اس سے کہا۔ اس نے فوراً مجھ پر یقین کرلیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے اس کی توجہ بیڑے پر پھیلے مٹی اور شاخوں کی طرف دلائی۔” یہ کیا ہے ؟“ اس نے کوڑا کرکٹ دیکھا۔ پھر مجھے دیکھنے لگا ۔پھر اسے دیکھا۔ وہ بولا۔” یہ کچرا…. اچھا تو کوئی اپنے پیار کرنے والے دوست کو بیوقوف بھی بناتا ہے؟“ وہ ناراض ہو کر جھوپڑے میں چلا گیا۔ پندرہ منٹ بعد میں نے خود کو تیار کیا اور سیاہ فام غلام سے معافی مانگی اور فیصلہ کیا کہ اب اس سے مذاق نہیں کروں گا۔

 ۔۔۔۔۔

          اگلی رات ہم نے پھر سفر شروع کیا۔ اب دریا بہت چوڑا ہو گیا تھا۔ میں پریشان تھا کہ ہم قاہرہ پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ جم نے کہا۔” میں اسے نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ میں جلد از جلد آزاد ہونا چاہتا ہوں۔ اگر میں نے اسے چھوڑا تو میں پھر غلام ملک میں چلا جاؤں گا اور مجھے آزادی کا دوسرا موقع نہیں ملے گا۔“ وہ جذبات سے لرز رہا تھا۔ میں بھی کانپ رہا تھا۔

          جم تقریباً آزاد ہونے والا تھا اور یہ میری غلطی تھی۔ ہمارا سفر جاری تھا۔ جم ہر وقت ناچتا اور گاتا رہتا۔” وہ قاہرہ ہے۔“ وہ چیختا۔ اس کی آوازیں مجھے کسی بندوق کے فائر کی طرح لگتیں۔ اس نے اپنے خاندان کے متعلق باتیں شروع کردیں۔ جو سینٹ پیٹرزبرگ کے قریب ایک فارم پر تھا۔ جوں جوں ہم آزاد ریاست کی طرف بڑھتے گئے وہ بولتا رہا۔” میں بہت ساری رقم جمع کروں گا تاکہ اپنی بیوی کو خرید سکوں۔ پھر ہم دونوں مل کر کام کریں گے اور بچوں کو خرید لیں گے اور اگر نہ خرید سکے تو انھیں بیچ دیں گے۔“

          اس بے ہودہ گفتگو نے مجھے جما دیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں کسی کو بتا دوں گا کہ یہ بھگو ڑا ہے، چنانچہ اس سے اگلی دفعہ ہم نے روشنی دیکھی تو جم چلایا۔ ” ہم قاہرہ پہنچ گئے۔“

          میں نے کہا، ”میں جاکر دیکھتا ہوں۔ “جم نے ڈونگا تیار کیا۔

          ” ہک میں جلدی ہی خوشی کی امید میں چلارہا ہوں گا۔تمہاری وجہ سے۔ تم، جم کے سب سے اچھے دوست ہو۔ “

          جب میں چپو چلاتا پچاس گز دور چلا گیا تو اس نے آواز لگائی،”اچھا ہک ! صرف سفید شریف آدمی ہی اپنا وعدہ پورا کرتے ہیں۔“

           میں نے خود کو بیمار محسوس کیا۔ میں جانتا تھا کہ مجھے کہنا پڑے گا۔ دائیں طرف سے ایک کشتی آئی جس میں دو افراد بندوقوں کے ساتھ سوار تھے۔

          ”تمہارے ساتھ کتنے آدمی ہیں؟“انھوں نے پوچھا۔

          ”صرف ایک جناب۔“ میں نے کہا۔

          ” ہم پانچ کالے غلاموں کو تلاش کر رہے ہیں۔ جو رات کو بھاگ گئے تھے۔ تمہارا آدمی کالا ہے یا سفید؟“

          میں نے کوشش کی کہ کہہ دوں کالا، لیکن نہیں کہہ سکا۔” سفید۔ اسے چیچک کی بیماری ہے۔“ میں نے کہا۔ ان دونوں نے مجھے بیس ڈالر دیئے اور وہاں سے تیزی سے چلے گئے۔

          میں بیڑے پر واپس آگیا۔ میں برا محسوس کررہا تھا، کیونکہ میں نے جم کو انھیں نہیں دیا تھا۔ جم بیڑے پر نہیں تھا۔ وہ دریا میں چھپا ہوا تھا۔ اس کی صرف ناک پانی کے اوپر تھی۔ جب میں نے کہا کہ وہ آدمی چلے گئے ہیں تو وہ اوپر چڑھ آیا۔” ہک ! یہ بہت خوبصورت طریقہ ہے خود کو محفوظ رکھنے کا۔“ اس نے کہا اور جب میں نے بیس ڈالر کا بتایا تو وہ بولا،”یہ بھی خوب ہے۔“

           جم سارا دن بیڑے کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے کی تیاری کرتا رہا۔

           رات کو دس بجے ہم نے ایک قصبے کی روشنیاں دیکھیں، مگر وہ قاہرہ نہیں تھا۔ پھر ہم ایک اور قصبے کے پاس سے گزرے، وہ بھی قاہرہ نہ تھا۔ میں شک میں پڑ گیا۔ جب دن کی روشنی ہوئی ہم نے دو چیزیں دیکھی۔ مسیسپی دریا کا مٹیالا پانی اور ساحل کے ساتھ اوہائیو کا صاف پانی۔

          ہم کہر کی وجہ سے قاہرہ کو پیچھے چھوڑ آئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔

باب:۶

          ہم بیڑے میں واپس اوپر نہیں جاسکتے تھے۔ اس کے لیے ہمیں ڈونگا استعمال کرنا پڑتا۔ چنانچہ ہم اندھیرا ہونے کا انتظار کرنے لگے اور سارا دن سوتے رہے۔ جب ہم سو کر اٹھے تو کوئی ڈونگا چرا کر لے جاچکا تھا۔ یہ مزید بدقسمتی تھی۔ چنانچہ اب ہم بیڑے پر نیچے کی طرف جا رہے تھے۔ وہ ایک سیاہ رات تھی اور کہرا بھی چھانے لگا تھا۔ ہم نے ایک بڑی دخانی کشتی کے آنے کی آواز سنی تو فوراً لالٹین جلالی، مگر دخانی کشتی دائیں جانب دھارے پر بالکل ہماری سیدھ میں آرہی تھی۔ وہ ایک بڑے کالے بادل کی طرح تھی جس کی لال گرم بھٹی خوفناک دانتوں کی طرح لگ رہی تھی۔ کوئی چلایا اور ہمیں گھنٹی بجنے اور کوسنے کی آوازیں سنائی دیں۔ جوں ہی وہ قریب آئی، جم ایک طرف اور میں دوسری طرف کودگیا۔ دخانی کشتی ہمارے بیڑے کو تباہ کرتی ہوئی سیدھی چلی گئی۔ میں اس کے بڑے پہیے سے بچنے کے لیے ایک منٹ تک پانی کے نیچے رہا۔ جب میں اوپر آیا تو میں نے کشتی کو اپنی راہ پر جاتے سنا۔ میں نے جم کو آوازیں دیں، مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ لہٰذا میں ساحل کی طرف تیرنے لگا۔

          ساحل پر پہنچ کر مجھے وہاں ایک بڑا گھر نظر آیا۔ جس میں ایک اعلیٰ خاندان رہائش پذیر تھا۔ انھیں گینجر فورڈ کہا جاتا تھا۔ وہ کتوں کے بھونکنے پر میرے پاس چلے آئے۔ انہوں نے مجھے کھانا اور کپڑے دیے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرا نام جارج جیکسن ہے اور میں دخانی کشتی سے گرگیا ہوں۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔ وہ میرے ساتھ اچھی طرح پیش آتے تھے۔ ان کے پاس کئی فارم اور سو سے زیادہ غلام تھے۔ انھوں نے مجھے بھی خدمت کے لیے غلام دیا۔ جسے جیک کہتے تھے۔ میں مزے سے رہ رہا تھا۔ تب ایک دن جیک مجھے چپکے سے ساحل پر لے گیا۔ جہاں میرا پرانا دوست جم موجود تھا۔ وہ اس رات میرا پیچھا کرتے ہوئے ساحل تک آیا تھا۔ مگر جب اس نے مجھے گھر میں جاتے ہوئے دیکھا تو جنگل میں چلا گیا اور انتظار کرنے لگا، کیونکہ وہ دوبارہ غلامی کی زندگی میں پھنسنا نہیں چاہتا تھا۔ اگلی صبح کنبے کے کچھ غلام اپنے کھیتوں پر جانے کے لیے وہاں سے گزرے تو انہوں نے اسے دیکھ لیا۔ انہوں نے اسے کھانا دیا اور میرے بارے میں بتایا۔ انہوں نے ہمارا بیڑا بھی ساحل پر ڈھونڈ نکالا تھا۔ جم نے اس کی مرمت کرلی تھی۔ اب وہ پہلے کی طرح بہت اچھا تھا، چنانچہ اگلے دن اندھیرا ہونے کے بعد وہ اور میں مسیسپی دریا میں اپنا سفر شروع کر رہے تھے۔ ہم بہت خوش تھے۔ کیونکہ بیڑے جیسا گھر کوئی نہیں تھا۔

۔۔۔۔۔

          کئی دن خاموش اور آرام سے گزرے۔ دریا ایک ڈیڑھ میل چوڑا تھا۔ ہم پہلے کی طرح رات میں سفر کرتے اور دن کی روشنی میں چھپ جاتے۔ ہم جال سمیٹ لیتے اور بیڑے کو باندھ دیتے اور دن کا آغاز پیراکی سے کرتے۔ جب ہم دریا کی سطح پر آتے تو دن کی روشنی اور ہوا کی خوشبو کو محسوس کرتے۔ جلد ہی بھرپور دن کا آغاز ہوجاتا۔ جب ہر چیز مسکراتی اور پرندے خوشی سے چہکنے لگتے۔ ہم جال سے مچھلیاں پکڑتے، گرم گرم ناشتہ بناتے اور کھا کر سو جاتے۔ جوں ہی رات ہوتی ہم بیڑے کو کھینچ کر دریا میں لے آتے اور دھارے پر ڈال دیتے، پھر اپنی ٹانگیں پانی میں ڈال کر بیٹھ جاتے۔ بعض اوقات دخانی کشتیاں ہمارے نزدیک آجاتی مگر زیادہ تر پورے دریا میں ہم اکیلے ہی ہوتے تھے۔

           تب ایک دن صبح سویرے میں نے ایک جزیرے پر ایک ڈونگا دیکھا۔ میں اس پر چڑھ گیا اور چپو چلاتا ہوا پھلوں کی تلاش میں کھاڑی کے اندر تک چلا گیا، اچانک دو آدمی بھاگ کر آتے ہوئے نظر آئے۔ کچھ لوگ کتے لیے ان کے پیچھے لگے تھے۔ وہ چلائے ہمیں اپنے ساتھ لے چلو۔ میں نے جلدی سے انھیں بٹھایا اور چپو چلاتا بیڑے میں واپس آگیا۔ ایک آدمی سفید داڑھی والا تقریباً ستر سال کا تھا۔ جبکہ دوسرا تیس سال کا تھا۔ ان کے لباس کچھ عجیب سے تھے اور انھوں نے قالین کے بڑے تھیلے اٹھا رکھے تھے۔ ناشتہ کے بعد انہوں نے باتیں شروع کیں۔ وہ دونوں قریبی قصبے میں ملے تھے۔ بوڑھے آدمی نے اعتدال پر کچھ لیکچر دیا تھا، لیکن بعد میں لوگوں نے اسے پیتے ہوئے پکڑ لیا اور اس کے پیچھے بھاگے۔ جوان آدمی نقصان دہ دوائی بیچ رہا تھا۔ لہٰذا وہ اس کے پیچھے لگ گئے۔ اسے بھی بھاگنا پڑا۔ وہ پرنٹنگ کا کام جانتا تھا۔ اس نے کہا کہ وہ ایک اداکار بھی ہے۔ بوڑھا بولا کہ میں ایک مبلغ اور قسمت بتانے والا ہوں۔

           اچانک نوجوان نے آہ بھری اور بولا۔” میں بہت بلند پیدا ہوا تھا اور اب بہت پست ہوں۔“ اس نے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھے اور پھر بولا۔”شریف لوگو! میں آپ کو ایک راز بتانے لگا ہوں کہ میں ایک ڈیوک ہوں۔“ جم کی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں۔

          ” ہاں“ آدمی نے دعویٰ کیا۔” میرے باپ کے دادا جو اپنے وطن انگلینڈ سے یہاں آئے تھے۔ ڈیوک بلج واٹر کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ ان کا ٹائٹل اور اسٹیٹ ان سے چھوٹے بیٹے نے لے لیا تھا، لیکن میں ایک اصلی ڈیوک ہوں۔“

۔۔۔۔۔

          ڈیوک اپنی آنکھوں سے آنسو پوچھ رہا تھا۔ جم اور میں نے پوچھا کہ ہم اس کی کیسے مدد کرسکتے ہیں؟ اس نے کہا کہ ہم اسے” یور گریس“کہہ کر پکارا کریں اور کھانے پر اس کا انتظار کیا کریں۔چنانچہ کھانے پر جم سیدھا کھڑا ہو گیا اور کہا۔” آپ کا اقبال بلند ہو جناب ۔یہاں بھی وہاں بھی۔“

          ڈیوک نے یہ پسند کیا۔ مگر بوڑھے نے نہیں۔ وہ دوپہر کو کھانے پر ڈیوک سے بولا۔” یہاں صرف تم ہی ایسے فرد نہیں ہو جو مشکل میں ہو۔“ اس نے رونا شروع کردیا۔” تم لوئس سولہ کے بیٹے کو دیکھ رہے ہو۔ میں غریب ڈافن ہوں جسے فرانس کا بادشاہ ہونا چاہیے۔“اس نے دعویٰ کیا۔

           جم اور میں نے بہت فخر محسوس کیا۔ ہم نے پوچھا کہ ہم اس کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں؟ کنگ نے کہا کہ ہم اسے” یور میجسٹی“ پکارا کریں اور کھانے پر پہلے اس کا انتظار کیا کریں۔ چنانچہ ہم ایسا ہی کرنے لگے۔ مگر میں نے جلد ہی یہ اندازہ لگایا کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں، لیکن میں نے جم سے کچھ نہیں کہا۔ مجھے انھیں کنگ اور ڈیوک کہنے پر بھی اعتراض نہ تھا۔ جب تک وہ امن سے رہتے ۔

           بعد میں انہوں نے پوچھا کہ ہم دن میں کیوں چھپے رہتے ہیں۔ کیا جم بھاگا ہوا غلام ہے؟

          ”خدارا….نہ، میں اور میرا خاندان نیواورلینز سے نیچے بیڑے پر سفر کر رہے تھے کہ وہ سب دریا میں ڈوب گئے، سوائے میرے اور غلام جم کے۔ اب لوگ سمجھتے ہیں کہ جم بھاگا ہوا ہے تو ہمارے لئے بہتر یہ ہے کہ ہم رات میں سفر کریں۔ “ میں نے کہا۔

          جب رات ہوئی تو ہم نے دوبارہ سفر شروع کیا۔ اچانک وہاں طوفان آگیا ۔کنگ اور ڈیوک مخروطی جھونپڑے میں یہ کہہ کر چلے گئے کہ ہم نگرانی کریں۔ کنگ نے میرا بستر لے لیا تھا۔ جو زیادہ اچھا تھا۔ ڈیوک نے آہ بھر کر جم کا بستر لے لیا۔ ہم نے اس کا برا نہیں مانا۔ بارش سے ٹھنڈ ہو گئی تھی اور ہمارے پاس گرم کپڑے نہیں تھے۔ بعد میں مجھے نیند آگئی۔ مگر طوفانی لہروں کے شور نے مجھے جلد اٹھا دیا۔ یہ دیکھ کر جم دیر تک ہنستا رہا۔

 ۔۔۔۔۔

           طوفان گزر گیا تو ہم بیڑے کو خفیہ مقام سے باہر لائے۔ ناشتے کے بعد کنگ اور ڈیوک منصوبہ بنانے لگے کہ قصبوں میں کیسے کام کرنا ہے۔ ڈیوک نے اپنے قالین کا تھیلا کھولا اور ہمیں کچھ چھپے ہوئے پمفلٹ دکھائے ۔ایک پمفلٹ میں لکھا تھا کہ وہ دنیا کا مشہور شیکسپیئرین اداکار’ ڈیوڈ گارک‘ فرام لندن ہے۔ کنگ نے کہا کہ وہ اداکاری نہیں جانتا۔

          ڈیوک نے کہا۔” تم جلد سیکھ جاؤگے۔پھر ہم کسی اچھے قصبے میں ہال کرائے پر لےںگے اور رچرڈ سوم کی طرح تلوار بازی اور چاند کی روشنی میں رومیو اور جولیٹ کے رومانی مناظر کریں گے۔“

           وہ ہمیشہ رومیو جولیٹ اور رچرڈ سوم کھیلتے ۔کنگ جولیٹ بنتا اور ڈیوک سے لڑتا۔ وہ اپنے تھیلے سے لمبی شب خوابی کی قمیض، جولیٹ کے لیے نکالتا اور دوسرے مضحکہ خیز کپڑے بھی۔ پھر وہ شیکسپیئر کی کتاب نکالتا اور اس کے کچھ حصے بلند آواز میں پڑھتا اور کتاب کنگ کو دے دیتا کہ اس کے مکالمے یاد کرے۔

          وہاں تین میل نیچے ایک چھوٹا قصبہ تھا۔ کھانے کے بعد کنگ اور ڈیوک نے کہا کہ وہ وہاں جانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا میں ڈونگے میں انھیں وہاں لے گیا۔ وہاں آس پاس کوئی نہیں تھا۔ سب جنگل میں انجیل یعنی بائبل کی مجلس سننے گئے ہوئے تھے۔ ڈیوک نے ایک خالی متروک پرنٹنگ آفس دیکھا تو اندر چلا گیا، لیکن کنگ نے کہا کہ میں بائبل کی مجلس میں جانا چاہتا ہوں۔ میں اس کے ساتھ گیا۔ وہاں تقریباً ایک ہزار لوگ جمع تھے۔ جنگل گھوڑوں اور بگھیوں سے بھرا تھا۔ گرمی بہت سخت تھی۔ خربوزے اور ٹھنڈے مشروبات بک رہے تھے۔ ہم نے دیکھا پہلا خطیب ایک اونچے پلیٹ فارم پر کھڑا بائبل پکڑے بازو ہلا ہلا کر اور چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے۔” جنت میں چلے آؤ ! تم سب گناہوں کی کالک میں لتھڑے ہو! جنت کا دروازہ کھلا ہے !“

          وہ چلا رہا تھا۔” خدا کی ثنا کرو! خدا کی ثنا کرو!“ لوگ چیخ رہے تھے۔ کنگ پلیٹ فارم پر چڑھ گیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ بحرہند میں قزاق تھا، مگر اس نے ابھی ابھی خطیب کے الفاظ سن کر توبہ کرلی ہے۔” میں نجات پاگیا ہوں، میں نجات پاگیا ہوں۔“ وہ آنسو بہاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

          چنانچہ لوگ بھی یہی کرنے لگے۔ اس نے کہا کہ جب اس کے پاس کافی رقم جمع ہو جائے گی وہ واپس بحر ہند میں جائے گا اور دوسرے قزاقوں کو نجات دلوائے گا۔

          کسی نے آواز لگائی۔” اپنا ہیٹ مجمعے میں گھماؤ۔“ کنگ مجمع میں اپنا پرانا ہیٹ لے کر گھوما اور رقم جمع کی اور چلا چلا کر ان کا شکریہ ادا کیا۔ آخر میں خوبصورت لڑکیوں نے اسے بوسہ دیا۔

۔۔۔۔۔

          بیڑے پہ آکر کنگ نے رقم گنی۔ وہ ستاسی ڈالر تھے۔ وہ شراب کا ایک بڑا جگ بھی ساتھ لایا تھا جو اسے ایک ویگن میں سے ملا تھا۔ ڈیوک نے صرف نو ڈالر جمع کیے تھے جو اس نے بل چھاپ کر بیچنے سے کمائے تھے۔ لیکن وہ ہمارے لئے ایک تصویر بھی چھاپ کر لایا تھا جو بھاگے ہوئے غلام جم کی تھی۔ اس کے نیچے دو سو ڈالر انعام لکھا تھا کہ وہ نیواورلینز کے ایک باغ سے بھاگا ہوا غلام ہے۔ چنا نچہ اب ہم بیڑا دن میں بھی استعمال کر سکتے تھے۔ ڈیوک نے ہمیں سمجھایا کہ جب ہم کسی کو آتا دیکھیں گے تو جم کو رسی سے باندھ دیں گے اور کہیں گے کہ ہم اسے گرفتار کرکے انعام لینے جا رہے ہیں۔ ڈیوک کی ہوشیاری پر ہم عش عش کر اٹھے۔

           صبح چار بجے جب جم اور میں نگرانی بدل رہے تھے تو کنگ اور ڈیوک مکمل مدہوش پڑے تھے۔ سورج اوپر چڑھ آیا تو ہم دائیں طرف جا کر رک گئے۔ کنگ اور ڈیوک دیر سے اٹھے۔ مگر نہا کر وہ بہتر ہوگئے۔ ناشتے کے بعد کنگ اپنا جولیٹ کا کردار یاد کرنے لگا۔ ڈیوک اسے سکھارہا تھا۔ اگلے دن وہ لمبی تلواریں لے آیا جو اس نے چھڑیوں کی مدد سے بنائی تھیں اور تلوار بازی کی مشق کرنے لگا۔ وہ پورے بیڑے میں اچھلتے پھر رہے تھے۔ آخر کنگ دریا میں جا گرا۔ پھر وہ بیٹھ کر آرام کرنے لگے۔

           جلد ہی ڈیوک پمفلٹ چھاپ کر لے آیا۔

          ”شیکسپیئر اسٹیج پر

          حیرت انگیز پرفارمنس

          صرف ایک رات کے لیے لئے

           دنیا کے مشہور اداکار

          ینگ ڈیوڈ گیڑک ، ڈورے لائن ٹھیٹر فرام لندن

          اور

          ایلڈر ایڈمنڈ کین

          رائل ہے مارکیٹ ٹھیٹر فرام لندن

          ان

          چاندنی میں رومانوی سین رومیو اور جولیٹ کے!!

          رومیو:مسٹر گیڑک ، جیولیٹ:مسٹر کین

          مزید

          ایک بڑی تلوار بازی کا مظاہرہ رچرڈ سوم سے!!!

          رچرڈ: مسٹر گیڑک ، ڈیوک آف رچمنڈ:مسٹر کین

          داخلہ : 25 سینٹ ، بچے اور ملازمین : 10 سینٹ“

          اگلے دو تین دن ہمارا بیڑا میدان جنگ بنارہا۔ جہاں نہ صرف تلوار بازی بلکہ اداکاری بھی ہر وقت ہوتی رہی۔

۔۔۔۔۔

باب:۷

          ایک صبح جب ہم ریاست آرکنساس کے قریب تھے۔ ہم نے دریا کے موڑ پر ایک چھوٹا قصبہ دیکھا۔ ہم نے بیڑا اس کے قریب باندھا، پھر جم کو چھوڑ کر ہم تینوں ڈونگے میں یہ دیکھنے گئے کہ وہ جگہ ہمارے ڈرامے کے لیے اچھی ہے یا نہیں۔ ان دنوں خوش قسمتی سے وہاں ایک سرکس آیا ہوا تھا۔ وہ اس کا آخری دن تھا۔ لوگ پہلے ہی وہاں جمع تھے۔ ڈیوک نے کورٹ ہاﺅس کرائے پر لے لیا اور ہم نے وہاں اشتہار چپکا دیے۔ پھر میں قصبے میں گھومنے اکیلا نکل گیا۔ وہ بہت غریب اور شکستہ قصبہ تھا۔ اس کا نام’ بکل ول‘ تھا۔ وہاں تمام دکانیں صرف ایک سڑک پر تھیں۔ ہر طرف سور گھوم رہے تھے اور جگہ جگہ لوگ کھڑے تمباکو تھوک رہے تھے۔

           دوپہر کو وہ جگہ گھوڑوں اور ویگنوں سے بھرگئی۔میں نے وہاں تین لڑائیاں دیکھیں۔ پھر کوئی چلایا۔” یہاں بوگس آرہا ہے۔ اپنے معمول کے مطابق پیے ہوئے۔“

           وہ اپنے گھوڑے پر سوار آیا، ہوہو آوازیں نکالتا اور چیختا ہوا۔” میرے راستے سے ہٹ جاؤ۔ میں جنگ کرنے کے لیے تیار ہوں اور تابوت کی قیمتیں بڑھنے جارہی ہیں۔“

           وہ پیے ہوئے تھا۔ اس کی عمر پچاس سال سے زیادہ تھی اور چہرہ بہت سرخ تھا ۔سب اس پر ہنس رہے تھے اور چلا رہے تھے۔

          ” میں بوڑھے کرنل شیر برن کو مارنے آیا ہوں۔“وہ چلایا۔ میں خوفزدہ ہوگیا، لیکن کسی نے مجھ سے کہا، ایسا نہیں ہو سکتا یہ آرکنساس کا سب سے بڑا بے وقوف ہے۔ یہ کسی کو نہیں مارتا۔ چاہے پیا ہوا ہو یا نہیں۔

          بوگس گھوڑے پر سوار قصبے کے سب سے بڑے اسٹور پر گیا اور چلایا۔” باہر آؤشیربرن! تم کتے ہو۔آؤآدمی سے ملو۔ تم بے ایمانی کرتے ہو میں تمہیں لینے آیا ہوں۔“

           وہ بار بار شیر برن کا نام لیکر پکار رہا تھا۔ سڑک تماشا دیکھنے اور ہنسنے والے لوگوں سے بھری تھی۔ کچھ دیر بعد ایک مغرور دکھنے والا، عمدہ لباس پہنے پچپن سالہ آدمی اسٹور سے باہر آیا۔

          ” میں ایک بجے تک رکا ہوا ہوں۔ اس کے بعد اگر تم نے اپنا منہ دوبارہ میرے خلاف کھولا تو میں تمہیں ختم کر دوں گا۔“وہ غصے سے بولا۔

          پھر وہ گھوما اور اندر چلاگیا۔ اب کوئی نہیں ہنس رہاتھا۔

۔۔۔۔۔

          بوگس گالیاں دیتا اور چلاتا ہوا سڑک کے آخر تک چلا گیا، مگر کچھ دیر بعد وہ پھر آیا اور دوبارہ یہی کیا۔ ایک آدمی نے اس سے کہا کہ ایک بج کر پندرہ منٹ ہوئے ہیں۔ مگر وہ اس کے گھوڑے کو وہاں سے نہیں ہٹا سکے۔ وہ گھوڑے پر سوار اسٹور تک گیا اور شیربرن کو دوبارہ گالی دی۔

          ”جلدی اس کی بیٹی کے پاس جاؤ۔ یہ اس کی بات سن لیتا ہے ۔“کسی نے کہا۔

          پانچ دس منٹ کے بعد میں نے بوگس کو پھر دیکھا۔ اب وہ گھوڑے پر نہیں تھا۔

          ” بوگس!!“ وہ کرنل شیر بن تھا ۔اس نے بوگس پر پستول تان رکھا تھا۔ وہ آواز سن کر گھوما۔ اسی وقت میں نے ایک نوعمر لڑکی کو دوڑ کر آتے دیکھا۔ بوگس نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دیئے۔ ”اوہ….خدارا مت مارو !“

          ” بینگ!!!“ پہلی گولی چلی اور بوگس لڑکھڑا کر پیچھے ہو گیا۔

          ” بینگ!!!“ دوسری گولی چلی بوگس زمین پر گر گیا اور اس کے بازو پھیل گئے۔ لڑکی تیزی سے آگے آئی اور خود کو اپنے باپ کے ساتھ گرا دیا۔ وہ چیخ رہی تھی۔” اس نے اسے مار ڈالا!“ مجمع لاش کے قریب آگیا۔ کرنل شیربرن نے اپنا پستول زمین پر پھینک دیا اور وہاں سے چلا گیا۔

           جلد ہی قصبے کے تمام لوگ لاش دیکھنے کے لیے جمع ہوگئے۔ سب پرجوش تھے۔ کسی نے کہا شیربرن کو پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے۔ سب اس کے گھر کی طرف چل دیے۔ رسیاں ہلاتے ہوئے اور چیختے ہوئے۔ مجمع شیر برن کے گھر کے آگے کھڑا ہوگیا۔ بہت شور ہو رہا تھا۔ باڑ گرادو کسی نے کہا۔ باڑ گرادی گئی۔ مجمع اس کے احاطے میں داخل ہوگیا۔ شیربرن گھر سے باہر آیا۔ اس کے ہاتھ میں بندوق تھی۔ وہ خاموش کھڑا تھا۔ شور بھی ختم ہوگیا تھا شیر برن ہنسا۔”تم کس کو لٹکاؤگے؟“ اس نے پوچھا۔” تم تب تک بہادر نہیں ہوسکتے جب تک اصل آدمی کو مار نہیں دیتے۔ اب بھاگ جاؤ!“ اس نے حکم دیا اور بندوق تان لی۔ فوراً ہی مجمع چھٹ گیا اور لوگ مختلف سمتوں میں چلے گئے۔

۔۔۔۔۔

          اس کے بعد میں سرکس میں چلا گیا اور نظر بچا کر ٹکٹ لیے بغیر خیمے میں گھس گیا۔ وہ بہت شاندار سرکس تھا۔ وہاں سب گھوڑوں پر آرہے تھے۔ دو دو کرکے مرد اورخواتین۔ وہ چالیس تھے۔ مردوں کے پیروں میں جوتے نہیں تھے۔ وہ سب مطمئن اور آرام سے تھے۔ عورتوں کے لباسوں پر ہیرے لگے تھے۔ میں نے اتنی پیاری چیز پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

          وہ ایک کے بعد ایک گھوڑے کی پیٹھ پر کھڑے ہوکر آتے ، خوبصورتی کے ساتھ تیز تیز دائرے میں گھومتے اور وقار کے ساتھ واپس چلے جاتے۔ ان کے گھوڑے جھک جھک جاتے اور رنگ ماسٹر اپنا کوڑا گھما رہا تھا۔ شائیں۔۔۔۔شائیں!!۔۔۔۔۔تمام عورتوں نے اپنے ہاتھ کمر پر رکھے ہوئے تھے اور ہر شریف آدمی نے اپنے بازو باندھ رکھے تھے۔ناظرین تالیاں بجا رہے تھے۔

           ایک شرابی نے کہا کہ وہ گھوڑے پر سواری کرنا چاہتا ہے۔ اسے آنے دیا گیا۔ جلدی ہی وہ گھوڑے پر تھا۔ اس نے اڑتے ہوئے دائرے میں سے نکلنے کی کوشش کی، مگر وہ گرگیا، سب ہنس پڑے۔ سوائے میرے، مجھے ڈر تھا کہ وہ زخمی ہوگیا ہوگا۔ لیکن وہ جلد ہی کھڑا ہوا اور دوبارہ گھوڑے پر چڑھ گیا اور آسانی سے گھوڑا دوڑانے لگا۔جیسے دوسرے دوڑا رہے تھے۔ دراصل وہ رنگ ماسٹر کا اپنا آدمی تھا۔ میں نے خود کو بیوقوف محسوس کیا۔ میں نے اتنا اچھا سرکس کبھی نہیں دیکھا تھا۔

          اس رات ہم نے اپنا پروگرام بھی کیا۔ مگر اس میں صرف بارہ لوگ آئے۔ وہ ڈیوک کے پاگل کردار پر تمام وقت ہنستے رہے۔ مگر اختتام سے پہلے ہی چلے گئے سوائے ایک لڑکے کے جو سو رہا تھا۔ ڈیوک نے کہا کہ شیکسپیئر، آرکنساس کے چھوٹے دماغ والے لوگوں کے لیے مشکل ہے۔ اس نے نئے پمفلٹ بنائے اور قصبے میں ہر طرف چپکا دیے۔ اس میں لکھا تھا۔

          ” کورٹ ہاؤس میں

          صرف تین راتیں

           لندن کے مشہور اداکار

          ڈیوڈ گاڑک اور ایڈمنڈ کین شاندار کھیل پیش کریں گے

          دی رائل بیسٹ!!!

          داخلہ: 50 سینٹ

          خواتین اور بچوں کا داخلہ بند“

          ڈیوک نے کہا ۔” اگر یہ آخری سطر بھی انہیں یہاں نہیں لائی تو سمجھو میں آرکنساس کو نہیں جانتا۔“

۔۔۔۔۔

          اس رات کورٹ ہاﺅس بھرا ہوا تھا۔ ڈیوک نے مختصر تقریر کی۔ پھر دعا کی اور کہا کہ کین کھیل کا خاص کردار پیش کریں گے۔ اس نے پردہ ہٹایا ۔کنگ دھاڑتا، ہاتھوں اور ٹانگوں کے بل چلتاا سٹیج پر نمودار ہوا۔ اس نے اپنے جسم پر رنگین دھاریاں بنا رکھی تھی۔ وہ ٹائیگر کی طرح لگ رہا تھا۔ یہ بہت مضحکہ خیز تھا۔ لوگ ہنسنے اور تالیاں بجانے لگے۔ پھر جب پروگرام ختم ہوا تو اس نے چھلانگ لگائی اور واپس چلا گیا۔ لوگوں کے شور کرنے پر وہ دوبار آیا اور اچھل کود کی۔ پھر ڈیوک نے پردہ گرا دیا۔ یہ پروگرام ختم کرنے کا اشارہ تھا۔

          ”کیا پروگرام ختم ہوگیا؟“لوگ حیران تھے۔ وہ ڈیوک کو مارنا چاہتے تھے کہ ایک لمبا چوڑا آدمی چلایا۔”جنٹلمین ہمارے ساتھ بے ایمانی ہوئی ہے مگر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہماری رقم تو ضائع ہوگئی اب قصبے کے لوگ ہم پر ہنسیں گے بھی۔ اس لیے خاموشی سے قصبے میں چلو۔“

          دوسری رات ہاؤس فل تھا۔ تیسری رات میں نے محسوس کیا کہ وہ وہی لوگ تھے۔ جو دو دنوں سے آرہے تھے۔ میں نے دیکھا ہر کوئی اپنی جیبوں میں اور کورٹ کے نیچے کچھ چھپا کے لایا ہے۔ مجھے گندے انڈوں اور مری ہوئی بلیوں کی بدبو آئی۔ جب سب اندر آگئے۔ تو ڈیوک نے اسٹیج چھوڑا اور پچھلے دروازے سے نکل گیا۔ میں اس کے پیچھے تھا۔ جوں ہی ہم گلی کے موڑ پر پہنچے۔وہ بھاگنے لگا اور مجھے پیچھے آنے کا کہا۔

           ہم دونوں بیڑے پر ایک ساتھ پہنچے اور بلاتامل اسے چلاتے پانی میں لے گئے۔ ہم نے دس میل دور جانے کے بعد روشنی کی۔ پھر ہم نے کھانا کھایا۔ کنگ اور ڈیوک بار بار ہنس رہے تھے کہ انہوں نے آرکنساس کے بیوقوف لوگوں کو کیسے لوٹا۔ انھوں نے کہا۔ ہم نے تین راتوں میں چار سو پینسٹھ ڈالر کمائے۔

۔۔۔۔۔

          ”ہک ! کیا کنگ کا رویہ تمہارے لیے حیرت انگیز نہیں؟“ جب وہ لوگ سو گئے تو جم نے پوچھا۔

           میں نے کہا۔”نہیں، تمام بادشاہ، بدمعاش ہوتے ہیں ۔تم انگلینڈ کے رچرڈ سوم کو دیکھو ۔وہ ہر روز شادی کرتا تھا اور دوسری صبح دلہن کا سر کاٹ دیتا تھا۔“

          ” اچھا! میں ان کے بارے میں اور زیادہ جاننا نہیں چاہتا۔“ جم بولا۔

          ” میں بھی یہی محسوس کرتا ہوں۔“ اسے یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی کہ ہمارے ساتھ والے اصل کنگ اور ڈیوک نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں میں نے کہا وہ اصل بادشاہ سے الگ نہیں ہیں۔

          میں جلد سو گیا۔ جب میری باری آئی تو جم نے مجھے نہیں اٹھایا۔ بعد میں جب میں اٹھا تو وہ گھٹنوں پر سر رکھے رورہا تھا۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے لیے پریشان تھا اور میسوری جانا چاہتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ اپنے خاندان کی دیکھ بھال اسی طرح کرے گا۔ جیسے سفید فام لوگ کرتے ہیں۔ جم بہت اچھا آدمی تھا۔

           اگلی رات ہم نے بید کے درختوں کے درمیان ایک چھوٹے سے جزیرے پر بیڑے کو باندھا۔ وہاں ہر جزیرے پر ایک گاؤں موجود ہوتا تھا۔ ایک آرکنساس کا اور ایک مسیسپی ریاست کا۔ کنگ اور ڈیوک منصوبہ بنانے لگے کہ یہاں کیسے کام کرنا ہے۔ جم نے ڈیوک سے کہا اس کی خواہش ہے کہ یہاں زیادہ دیر نہ رکا جائے۔ وہ جھونپڑے میں چھپا تھک جاتا ہے۔ ڈیوک بہت ہوشیار تھا۔

          اگلے دن اس نے اپنے تھیٹر کے رنگ نکالے اور جم کا چہرہ اور ہاتھ خوفناک نیلے رنگ سے رنگ دیے۔ پھر اس نے اپنے تھیلے سے ایک لمبا سفید کپڑا نکالا اور ان پر لکھا ۔یہ پاگل ہے اور جم کو جھونپڑے کے آگے بٹھا دیا۔” اب اگر کوئی آدمی بیڑے کے قریب آئے تو جم غرائے اور ایک پاؤں پر اچھلے، کسی جنگلی جانور کی طرح بس وہ فوراً دور چلے جائیں گے۔“ ڈیوک نے کہا۔ جم مطمئن ہو گیا۔ اس نے کہا کہ یہ اس سے اچھا ہے کہ وہ تمام دن چھپا لیٹا رہے۔

۔۔۔۔۔

باب:۸

          بدمعاش دوبارہ رائل بیسٹ کرنا چاہتے تھے، لیکن ان کی ہمت نہیں ہوئی۔ چنانچہ کنگ نے کہا کہ وہ مسیسپی گاؤں میں جاتا ہے، تاکہ نئے منصوبے بنا سکے۔ ہم نے ایک قصبے کے اسٹور سے نئے کپڑے خریدے تھے۔ کنگ نے وہ کپڑے پہن کر دیکھے اور کہا کہ لباس انسان کی شخصیت کو کیسے بدل دیتا ہے۔ اس کے نئے کپڑے کالے اور سفید تھے۔ وہ بائبل پڑھنے والا ایک بوڑھا آدمی نظر آنے لگا تھا۔

           ایک دخانی کشتی تین میل اوپر ایک گاؤں میں لوڈ ہو رہی تھی۔ ” ہکل بیری! ہم اس میں گاؤں جائیں گے۔ میں یہ ظاہر کروں گا کہ ہم سینٹ لوئیس یا سنسی نیٹی اوہائیو سے آئے ہیں اور تم میرے ملازم ہو۔“ کنگ بولا۔

          لہٰذا میں چپو چلاتے ہوئے ڈونگے میں مشرقی ساحل کی طرف بڑھا۔ وہاں ہم نے دیکھا کہ گاؤں کا ایک لڑکا دو قالین کے تھیلے اٹھائے چلا جا رہا ہے۔

          ” نوجوان آدمی تم کہاں جارہے ہو؟“ کنگ نے پوچھا۔

          ” نیو اورلینز دخانی کشتی پر۔“ وہ بولا۔

          ”پھر یہ میرے نوکر کو دے دو۔ وہ تمھاری مدد کرے گا۔“ اس کا اشارہ میری طرف تھا۔ نوجوان نے شکریہ ادا کیا۔

          بہت گرمی تھی اور نوجوان ممنون نظر آرہا تھا۔ ”جب میں نے آپ کو پہلی نظر میں دیکھا تو میں سمجھا آپ ضرور مسٹر ہاروے ولس ہیں، جن کا انتظار کیا جارہا ہے۔“ وہ بولا۔

          ” نہیں، میں نہیں ہوں۔ “ کنگ نے جواب دیا۔

          ” لوگ ان کا کیوں انتظار کر رہے ہیں؟ “

          ”ان کے بھائی پیٹر کا کل انتقال ہوگیا ہے۔ ان کی شدت سے خواہش تھی کہ مرنے سے پہلے اپنے بھائیوں کو دیکھ لیں، مگر وہ نہیں پہنچ سکے۔ انھوں نے وصیت نہیں کی تھی، لیکن وہ ہاروے کے لیے ایک خط چھوڑ گئے ہیں۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ دولت کہاں چھپی ہے اور کیسے ان کی جائیداد جارج کی لڑکیوں میں تقسیم ہو سکتی ہے۔“

          ” کسی نے ہاروے سے آنے کا پوچھا تھا؟“ کنگ نے سوال کیا۔

          ” اوہ ، ہاں مہینے دو مہینے پہلے خط لکھا گیا تھا۔ جب پیٹر پہلی دفعہ بیمار ہوا تھا۔ پچھلے سال پیٹر کا شادی شدہ بھائی جارج انتقال کرگیا تھا۔ اس کی تین لڑکیوں کی دیکھ بھال پیٹر کررہا تھا۔ پیٹر نے شادی نہیں کی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اس کے دو بھائی انگلینڈ میں ہیں۔ جنہیں اس نے جب سے نہیں دیکھا جب وہ لڑکے تھے۔ ہاروے جو شیفلڈ میں ایک مبلغ ہے اور ولیم جو گونگا بہرا ہے۔“

          ”تم نیواورلینز جا رہے ہو؟“کنگ نے اس کی بات کاٹی۔

          ”نہیں، صرف نیواورلینز نہیں، بلکہ میں اگلے بدھ کو جہاز میں ریوڈی جینرو جارہا ہوں ۔وہاں میرے انکل رہتے ہیں۔“

          ” بہت اچھا، لڑکیوں کی عمریں کیا ہے؟“

          ” میری جین انیس سال، سوسن سولہ سال اور جوآنا پندرہ سال۔“

          ” آہ غریب لڑکیاں! کیا اب وہ اکیلی ہیں؟“

          ” پیٹر کے کچھ اچھے دوست ہیں۔ جو ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ جیسے مبلغ مسٹر ہابسن، بین راجر اور ایبنر شیکل فورڈ، وکیل لیوی بیل، اور ڈاکٹر رابنسن اور ان کی بیویاں اور بیوہ بارٹلے۔“

۔۔۔۔۔

          کنگ نوجوان سے جب تک سوال کرتا رہا جب تک اس سے سب کچھ اگلوا نہیں لیا۔

          ”کیا پیٹر امیر آدمی تھا؟“

          ” ہاں اس کے پاس گھر تھے، زمین تھی اور کئی ہزار ڈالر جو اس نے کہیں چھپائے ہوئے ہیں۔“

          ” جنازہ کل ہے؟“

          ” ہاں کل دوپہر تک۔“

          ” تم کشتی سے کیوں جا رہے ہو؟“

          ” کیونکہ بڑی کشتی گاؤں میں نہیں رکتی۔“

          ہم نے نوجوان کو دخانی کشتی میں سوار کرایا اور جب تک کھڑے رہے جب تک کشتی روانہ نہیں ہوگئی۔

          کنگ نے مجھے ڈونگا چلانے کو کہا۔ ہم ایک میل اوپر چلے گئے۔ پھر اس نے مجھے بھیجا کہ ڈیوک کو بلا لاؤ۔” اس سے کہنا کہ اپنے نئے لباس قالین کے تھیلے میں ڈال کر لیتا آئے۔“

          میں اس کا پلان سمجھ گیا تھا۔ مگر میں نے کچھ کہا نہیں۔ میں ڈیوک کے ساتھ واپس آیا۔ کنگ نے اسے سب کچھ بتایا۔ وہ انگریز آدمی کی طرح بات کر رہا تھا اور اچھا لگ رہا تھا۔ پھر اس نے پوچھا ۔ ”تم گونگے بہرے کیسے بنوگے ؟“

          ”آسانی سے، میں یہ اسٹیج پر کرچکا ہوں۔“ ڈیوک بولا۔

          ” کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ مسٹر پیٹر کہاں رہتے ہیں؟“ ہمیں جو پہلے آدمی نظر آئے۔ کنگ نے ان سے سوال کیا۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

          ” اب ہم آپ کو صرف یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کل کہاں رہتے تھے۔“ ایک آدمی بولا۔

          ” ہمارا غریب بھائی مرگیا۔ “ کنگ نے کہا اور اس کے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگا۔ پھر اس نے ڈیوک کے ہاتھ پر نشان بنایا تو ڈیوک بھی آنسو بہانے لگا۔

          یہ آدمی کو شرمندہ کرنے کے لیے کافی تھا۔

۔۔۔۔۔

          جلد ہی ہم ہجوم میں گھرے، گھر کی طرف جا رہے تھے۔ دروازے پر تین لڑکیاں کھڑی تھی۔ بڑی میری جین بہت خوبصورت تھی۔ اس کا چہرہ اپنے چاچا کو دیکھ کر خوشی سے چمک اٹھا تھا۔ کنگ اور ڈیوک نے اپنے بازو پھیلائے اور لڑکیاں ان میں سما گئیں۔ پھر کنگ نے تابوت دیکھا جو کونے میں کرسیوں پر رکھا تھا۔ اس نے ڈیوک کو خفیہ اشارہ کیا۔ (جو میں نے دیکھ لیا)۔ وہ دونوں زور زور سے رونے اور چیخنے لگے۔ پھر دونوں تابوت کے دونوں طرف گھٹنوں کے بل جھک گئے اور دعا کرنے لگے۔ پھر کنگ نے چھوٹی سی آنسو بھری تقریر کی اور خاندان کے دوستوں کو دعوت دی کہ وہ ان کے ساتھ کھانا کھائیں۔ وہ ان کے نام بھائی کے خط میں لکھے ہونے کی وجہ سے جانتا تھا۔ مبلغ اور ڈاکٹر کسی بیمار کے پاس گئے ہوئے تھے اور لیوی بیل بھی قصبے سے باہر تھا۔ باقی سب نے کنگ سے ہاتھ ملائے۔ انہوں نے کنگ کا شکریہ ادا کیا اور ڈیوک کو مسکرا کر دیکھا۔ جس نے ہاتھوں سے اشارے کیے اور گوگو۔۔۔ کی آوازیں نکالیں۔ اس بچے کی طرح جو بول نہیں سکتا۔

           پھر میری جین اپنے انکل پیٹر کا خط لائی اور بلند آواز سے پڑھا۔ اس نے گھر اور تین ہزار ڈالر سونے کی صورت میں لڑکیوں کو دیا تھے اور دوسری جائیداد اور تین ہزار ڈالر ہاروے اور ولیم کو۔ اس نے لکھا تھا کہ تمام دولت گودام میں چھپی ہوئی ہے۔

          چنانچہ ہم تینوں گودام میں گئے اور وہاں سے سونے کا تھیلا ڈھونڈا اور فیصلہ کیا کہ تمام دولت لڑکیوں کو دے دی جائے۔( یہ ڈیوک کا منصوبہ تھا۔)

          ” ڈیوک بہت ہوشیار ہے۔ اس سے ان کے تمام اندیشے دور ہو جائیں گے۔“ کنگ نے کہا۔

           چنانچہ اس نے ایک اور تقریر کی اور سونے کا تھیلا لڑکیوں کو دے دیا۔ میری جین نے اسے پیار کیا اور سوسن اور جوآنا نے ڈیوک کو۔ سب نے کہا کہ تم لوگ کتنے پیارے اور اچھے ہو۔مگر جب ڈاکٹر رابنسن آیا۔ کنگ کا چہرہ دیکھا اور اس کی آواز سنی۔ تو وہ ہنسا اور بولا۔

          ”تم انگریز آدمی ہو؟ تم جھوٹے بے ایمان ہو۔“ وہ بولا اور میری جین کی طرف گھوما اور بولا۔” میں تم سے التجا کرتا ہوں کہ اس بد معاش کو یہاں سے بھگا دو۔“

           میری جین نے خود کو سیدھا کیا۔ وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔”یہاں میرا جواب یہ ہے۔“ اس نے کہا اور سونے کا تھیلا، کنگ کے ہاتھوں میں دے دیا۔” اب آپ ہماری دولت کی حفاظت کریں۔ جس طرح آپ پسند کریں۔“

           تب سوسن اور جوآنا کنگ سے لپٹ گئیں۔ جو فخر سے مسکرا رہا تھا۔ سب لوگوں نے تالیاں بجائیں اور ڈاکٹر وہاں سے چلا گیا۔

۔۔۔۔۔

          جب سب چلے گئے تو میری جین ہمیں زینے سے اوپر لے گئی اور ہمارے کمرے دکھائے۔ اس نے اپنا کمرہ انکل ہاروے کو دے دیا تھا اور ولیم اور میرے لئے الگ الگ کمرے تھے۔ میری جین نے کہا اگر آپ برا نہ مانیں تو اپنے لباس ان پردوں کے پیچھے لٹکا دیں۔

          رات کو شاندار کھانا کھایا گیا۔ میں، کنگ اور ڈیوک کا انتظار کر رہا تھا۔ ان کے تین غلام بھی میرے ساتھ تھے۔

           اس کے بعد جب میں کچن میں کھانا کھارہا تھا۔ جوآنا نے مجھ سے انگلینڈ کے بارے پوچھا۔”کیا تم نے بادشاہ کو دیکھا ہے؟“

          ” کون ؟ ولیم چہارم ؟ “ مجھے معلوم تھا کہ وہ کچھ سال پہلے مر چکا ہے۔ مگر میں نے کہا۔”وہ ہمارے چرچ میں آتا ہے۔“

          ” میرا خیال ہے وہ لندن میں رہتا ہے۔“

          ”ہاں بالکل۔“

          ”لیکن انکل ہاروے تو شیفلڈ میں رہتے ہیں۔“

          ” آہ….“ میں نے یہ ظاہر کیا جیسے میرے گلے میں مرغی کی ہڈی پھنس گئی ہے۔

           میں نے کہا۔” کنگ گرمیوں میں شیفلڈ آتا ہے۔“

          ” اوہ…. تو تم چرچ بھی جاتے ہو؟“ اس نے پوچھا۔

          ” ہاں“

          ” انگلینڈ میں ملازم سے کیسا سلوک کیا جاتا ہے؟ اس سے بہتر جیسا ہم غلاموں سے کرتے ہیں؟“ اس نے پوچھا۔

          ” وہ ملازموں سے کتوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ انگلینڈ میں ملازم نہ سرکس جاسکتے ہیں نہ تھیٹر اور نہ کہیں اور۔“

          ” نہ چرچ ؟“

          ” نہ چرچ۔“

          ” لیکن تم نے کہا تھا کہ تم چرچ جاتے ہو؟ “

          ” میں بھول گیا تھا کہ میں بوڑھے آدمی کا ملازم ہوں۔“ میں نے گھبرا کے کہا۔

          ” تم نے مجھ سے بہت سارے جھوٹ بولے ہیں۔“ جوآنا نے کہا۔

          ” نہیں، میں قسم کھاتا ہوں۔“

          ” میں تم پر یقین نہیں کر سکتی۔“ وہ بولی۔

           اچانک وہاں میری جین اور سوسن چلی آئیں اور جوآنا کو حکم دیا کہ مجھ سے اس طرح بات نہ کرے۔ انہوں نے اسے مجھ سے معافی مانگنے پر مجبور کیا اور اس نے خوبصورتی سے یہ کام کیا۔

          میں نے خود کو بہت حقیر محسوس کیا۔ وہ بدمعاش ان اچھی لڑکیوں سے بے ایمانی کر رہے تھے۔ ” میں انہیں واپس کر دوں گا۔“ میں نے فیصلہ کیا۔

          ” میں سونے کے تھیلے کو چراؤں گا اور چھپادوں گا۔ اور پھر جب ہم دور چلے جائیں گے تو میری جین کو خط لکھ کر بتا دوں گا کہ دولت کہاں چھپی ہے۔“

۔۔۔۔۔

           چنانچہ میں سونے کی تلاش میں کنگ کے کمرے میں گیا۔ وہاں گہرا اندھیرا تھا۔ میں بغیر روشنی کے کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ دفعتاً میں نے کنگ اور ڈیوک کے آنے کی آہٹ سنی۔ خوش قسمتی سے میرا ہاتھ پردے پر پڑا جس کے پیچھے کپڑے لٹکے تھے۔ میں ان کے پیچھے چھپ گیا۔

          ” اچھا ڈیوک کیا معاملہ ہے؟“ کنگ میں پوچھا۔

          ” ڈاکٹر نے مجھے پریشان کر دیا ہے۔ میرا خیال ہے۔ہمیں اسی وقت جو دولت مل چکی اسے لے کر یہاں سے فرار ہوجانا چاہیے۔ آخر کار ، یہ ہمیں واپس دے دیا گیا ہے۔ ہمیں اسے چوری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ ڈیوک نے کہا۔

          ” کیا! جائیداد بیچے بغیر چلے جائیں؟“

          ” سونے کا تھیلا بہت ہے۔ ہمیں لڑکیوں سے سب کچھ نہیں لوٹنا چاہیے۔“ ڈیوک نے کہا۔

          ” لیکن ہم یہ نہیں کرسکتے۔ جیسے ہی لوگوں کو پتا چلے گا کہ ہم اصل لوگ نہ تھے۔۔۔۔۔۔۔یہ سب بہرحال لڑکیوں کے پاس پھر جائے گا۔“

          وہ باتیں کرتے رہے۔ ڈیوک نے ایک اور خیال ظاہر کیا۔” میرا نہیں خیال کہ ہم نے دولت اچھی جگہ چھپائی ہے۔“ اس نے کہا۔”میری جین کسی وقت بھی اپنے کپڑے لینے یہاں آسکتی ہے۔“

          چنانچہ کنگ نے پردے کے پیچھے اپنا ہاتھ ڈالا۔ جہاں میں سانس روکے کھڑا تھا۔ اس نے تھیلا نکالا اور بستر کے گدے کے نیچے چھپا دیا۔ پھر دونوں زینے سے نیچے چلے گئے۔

          جیسے ہی وہ گئے۔ میں نے تھیلا لیا اور اوپر اپنے کمرے میں لے جاکر چھپا دیا۔ پھر میں لیٹ گیا۔

          جب رات گہری ہوئی، میں سونے کا تھیلا لے کر سیڑھیوں پر رینگ گیا۔ کہیں کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ڈائننگ روم میں موم بتیاں جل رہی تھیں، مگر تابوت کے قریب بیٹھے ہوئے لوگ اپنی کرسیوں پر سوگئے تھے۔میں بیرونی دروازے کی طرف گیا مگر اس میں تالا لگا تھا۔ اسی وقت میں نے سیڑھیوں پر کسی کے اترنے کی آواز سنی۔ میں بھاگ کر تابوت والے کمرے میں چلا گیا۔ صرف ایک ہی جگہ محفوظ تھی۔ جہاں تھیلا چھپایا جاسکتا تھا۔ اور وہ تابوت تھا۔ میں نے تھیلا چادر کے نیچے مردہ آدمی کے بندھے ہاتھوں کے پاس چھپا دیا اور خود دروازے کے پیچھے چھپ گیا۔ وہاں آنے والی میری جین تھی۔ اس نے تابوت کے آگے اپنا رومال بچھایا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر رونے لگی۔میں خاموشی سے باہر نکلا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ میں سخت پریشان تھا۔ جلد ہی وہ چادر کے نیچے سے دولت ڈھونڈ نکالیں گے۔ میں نے سوچا۔ ایک دفعہ اگر وہ کنگ کے ہاتھ آجاتی تو میں اسے دوبارہ نہیں چراسکتا تھا۔

          لیکن مجھ میں دوبارہ نیچے جانے کی ہمت نہیں تھی۔ اگر میں چھ ہزار ڈالر کے ساتھ پکڑا جاتا تو کوئی مجھ سے نہیں پوچھتا کہ میں کس طرح اس کی حفاظت کر رہا تھا۔

۔۔۔۔۔

باب:۹

          صبح کو تابوت والے کمرے کا دروازہ بند تھا اور کوئی بھی سونے کے تھیلے کا ذکر نہیں کر رہا تھا۔ دوپہر کے قریب دروازہ دوبارہ کھولا گیا۔ تابوت کی چادر پہلے کی طرح ڈھکی ہوئی تھی۔ لیکن میں اس کے نیچے دیکھنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔

          پھر وہ جنازے کو قبرستان کی طرف لے کر چل دئیے۔ بہت سارے لوگ سر جھکائے تابوت کے پیچھے چل رہے تھے۔ وہ مناجات پڑھ رہے تھے۔ قبرستان پہنچ کر مسٹر ہابسن نے خطبہ دیا۔ لڑکیاں اور ہمارے دغا باز کراہنے لگے اور آہوں اور سسکیوں کی آوازیں سنائی دیں۔ آخر تابوت کو قبر میں اتار دیا گیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ سونے کا تھیلا ابھی بھی اس میں ہے یا نہیں۔ میں یہ بات کیسے میری جین کو بتاؤں گا کہ دولت وہاں چھپی ہے۔ اگر قبر کشائی کے بعد وہاں کچھ نہیں ملا ؟؟؟ میں نے سوچا کاش میں نے دولت کو ہاتھ نہ لگایا ہوتا۔ انھوں نے پیٹر ولکس کو قبرستان میں دفنا دیا اور ہم سب گھر آگئے۔

          اسی شام کنگ نے سب سے کہا کہ اسے اپنی تبلیغ کے لیے جلد انگلینڈ جانا پڑے گا۔ اس نے اور ڈیوک نے فیصلہ کیا کہ لڑکیاں ان کے ساتھ انگلینڈ جائیں گی۔ مگر اس کے لیے ضروری تھا کہ تمام جائیداد جلد از جلد بیچ دی جائے۔

           اگلے دنوں اس نے تین غلام کچھ تاجروں کو بیچ دیئے۔ دو لڑکے میمپس دریا کی طرف گئے اور ان کی مائیں نیوآرلینز سے نیچے کی طرف۔ لڑکیاں اس طرح خاندان کی تقسیم کی توقع نہیں رکھتی تھیں۔ وہ رونے لگیں۔ ڈیوک بے چین ہوگیا تھا۔ لیکن کنگ نے ایسا ہی کیا۔

          اب باقی جائیداد اگلے دن بیچنی تھی۔ دن کی روشنی میں کنگ اور ڈیوک میرے کمرے میں آئے۔

          ” کیا تم پرسوں رات میرے کمرے میں تھے؟“ کنگ نے پوچھا۔

          ”نہیں، یور میجسٹی! “ میں نے کہا۔

          ” جھوٹ نہ بولو۔“

          ” یور میجسٹی میں سچ بول رہا ہوں۔“

          یہاں مجھے ایک خیال آیا۔ میں نے کہا۔

          ” جنازے والے دن، صبح میں نے ایک غلام کو آپ کے کمرے سے باہر آتے دیکھا تھا۔“

          ” آہ….“ دغاباز کھڑے ہوگئے۔ وہ بیمار نظر آرہے تھے۔ پھر وہ آپس میں بحث کرنے لگے۔

          ” کیا کوئی مسئلہ ہوگیا؟ “ میں نے پوچھا۔

          ” یہ تمہارا معاملہ نہیں ہے۔ تم اپنا منہ بند رکھنا۔ سنا تم نے۔“ کنگ چلایا۔

          پھر وہ ڈیوک کی طرف گھوما۔” ہمیں ابھی اس نقصان کو قبول کرنا ہے اور کچھ نہیں کہنا۔“

          ” اگر تم میرے مشورے پر عمل کرتے تو وہ غلام ابھی بھی یہاں ہوتے اور ہم نہیں۔“ ڈیوک نے کہا۔

۔۔۔۔۔

          جب میں لڑکیوں کے کمرے کے پاس سے گزر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ میری جین اندر ہے اور غلاموں کو یاد کر کے رو رہی ہے۔

          ” وہ جلد واپس آ جائیں گے۔ میں یہ بات جانتا ہوں۔“ میں نے بے سوچے سمجھے کہا۔

           میری جین یہ سن کر بہت خوش ہوئی۔ اسے اس بات سے سہارا ملا تھا۔ اسی وقت میں نے فیصلہ کیا کہ یہ موقع سچ ظاہر کردینے کا ہے۔ چونکہ سچ بولنا، جھوٹ بولنے سے بہتر اور محفوظ ہوتا ہے۔

          ”مس میری جین !اگر میں یہ کہوں کہ میں یہ کیسے جانتا ہوںتو آپ ایک دن کے لیے کہیں چلی جائیں گی؟“میں نے پوچھا۔

           اس نے وعدہ کیا کہ وہ چار میل دور مسٹر لوتھروپ کے گھر جا سکتی ہے۔ چنانچہ میں نے اسے بتایا کہ تمہارے چاچا دراصل اصلی چاچا نہیں ہیں۔ وہ غصے سے بپھر گئی۔ وہ چاہتی تھی کہ ان دونوں کو دریا میں پھینک دیا جائے۔ لیکن میں نے کہا کہ یہ کسی (جم) کے لئے پریشانی پیدا کر سکتا ہے۔ اسے اس کے بارے میں معلوم نہیں تھا ، چنانچہ اس نے اور کچھ نہیں کہا۔

          جلد ہی مجھے ترکیب آگئی کہ ان دغا بازوں سے کیسے نمٹنا ہے اور جم کو کیسے آزاد کرانا ہے لیکن میں اپنے منصوبے پر اندھیرا ہونے تک عمل نہیں کرسکتا تھا۔

          ”تم ابھی ناشتے سے پہلے مسٹر لوتھروپ کے گھر چلی جاؤاور رات نو بجے تک وہاں رہو۔“ میں نے میری جین سے کہا۔

          ”جب گھر واپس آؤ، تو اپنی کھڑکی پر موم بتی جلا دینا۔ اگر میں گیارہ بجے تک واپس نہ آیا تو اس کا مطلب ہوگا کہ میں حفاظت سے نکل گیا ہوں۔ پھر تم دغابازوں کو جیل بھیج سکتی ہو۔“

          ” میں یہی کروں گی۔“ وہ بولی۔

          ” اگر میں پکڑا گیا تو تمہیں مجھے بچانا ہوگا۔“

          ” میں بچاؤں گی۔“ اس نے وعدہ کیا۔

          ” میں یہ ثبوت نہیں دے سکتا کہ وہ دغاباز ہیں، لیکن میں کچھ لوگوں کو جانتا ہوں جو ایسا کر سکتے ہیں۔ میں نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھا۔” رائل بیسٹ۔ برک ویل“ اور میری جین کو دے دیا۔ عدالت اسے برک ویل گواہی کے لئے بھیج سکتی ہے۔

           میں نے اس سے کہا۔” انہیں جائیداد بیچنے دینا کیونکہ نیلامی مختصر نوٹس پر کی جارہی ہے۔ اس میں اتنی جلدی پیسے نہیں ملتے اور جب تک پیسے نہیں ملیں گے، دغا باز کہیں نہیں جائیں گے۔ لہٰذا بس اب جاؤ۔“

          ” مگر میرا ناشتے سے پہلے جانا کیوں ضروری ہے؟“ اس نے پوچھا۔

          ” آج تم شاید چاچا کو صبح کے سلام کا جواب دینا پسند نہیں کرو۔“ میں نے کہا۔

          وہ سر ہلانے لگی۔ پھر میں نے کہا۔” میں نے ان کے پاس سے سونے کا تھیلا چرالیا تھا، لیکن میں ابھی نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں ہے۔“ لہٰذا میں نے ایک اور کاغذ لیا اور لکھا۔”میری جین ! میں نے اسے تابوت میں چھپا دیا تھا۔ اس رات جب تم وہاں رو رہی تھیں۔“

          ” یہ مسٹر لوتھروپ کے ہاں جاتے ہوئے راستے میں پڑھنا۔“ میں نے کہا۔

          میری جین کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے کہا کہ وہ میرے لیے دعا کرے گی۔ جب وہ چلی گئی تو میں نے اسے پھر دوبارہ کبھی نہیں دیکھا، لیکن میں نے اس کے بارے میں لاکھوں بار سوچا ضرور تھا۔

۔۔۔۔۔

          میں نے میری جین کی بہنوں سے کہا کہ وہ اپنی بیمار سہیلی کی عیادت کو گئی ہے، مگر یہ بات اپنے چاچا کو نہ بتائیں ورنہ وہ انھیں بیماری لگنے کے ڈر سے انگلینڈ لے جانے سے منع کردیں گے۔ لڑکیاں انگلینڈ دیکھنا چاہتی تھیں اس لئے میں نے سوچا یہ اچھا بہانا ہے۔ شاید ٹام سائر اسے کسی اور طریقے سے کرتا۔

          نیلامی دوپہر کو پبلک اسکوائر میں منعقد کی گئی۔ جب وہ ختم ہو رہی تھی۔ ایک دخانی کشتی وہاں آئی۔ جلد ہی ایک ہجوم ہنستا اور آوازیں لگاتا آتا ہوا نظر آیا۔ پیٹرولکس کے دو اور بھائی تشریف لے آئے تھے۔

           میں نے ایک خوش شکل بوڑھے شریف آدمی کو دیکھا۔ اس کے ساتھ ایک جوان آدمی بھی تھاجس نے اپنے دائیں بازو پر پٹی باندھ رکھی تھی، لیکن کنگ اور ڈیوک اپنی باتوں اور گو گو۔۔۔ میں مگن رہے۔ بوڑھا شریف آدمی حیران نظر آرہا تھا۔ پھر اس نے ایک اصل انگریز کی طرح بولنا شروع کیا۔

          ” میں پیٹر ولکس کا بھائی ہاروے ہوں اور یہ میرا گونگا بہرا بھائی ولیم ہے۔ ہمارے بیگ دریا کے اوپر واقع قصبے میں غلطی سے اترگئے تھے اور میرا بھائی بازو پر چوٹ لگا بیٹھا۔ یہ دستخط نہیں کر سکتا لیکن جیسے ہی ہمارے بیگ واپس آئیں گے میں ثبوت دوں گا کہ ہم کون ہیں جب تک ہم ہوٹل میں انتظار کریں گے۔“ وہ بولا۔

          چنانچہ وہ چلے گئے۔ کنگ زور سے ہنسا۔” بازو پر چوٹ لگ گئی، بیگ کھوگئے۔ وہ بہت ہوشیار ہے۔“ وہ دوبارہ ہنسا۔ دوسروں نے بھی یہی کیا، لیکن ڈاکٹر نے نہیں اور نہ ہی اس کے ساتھ دخانی کشتی میں آنے والے ایک تیز فہم آدمی نے۔ جو اس سے باتیں کر رہا تھا۔ وہ وکیل لیوی بیل تھا۔

          وہاں ایک اور معتبر آدمی ہائنس بھی نظر آرہا تھا۔ وہ بھی نہیں ہنسا تھا۔

          ”تم کب آئے تھے؟“ اس نے کنگ سے پوچھا۔

          ” دوست ! جنازے سے ایک دن پہلے شام کو۔“

          ” کیسے ؟“

          ” دخانی کشتی سے۔“

          ” پھر تم صبح کیوں دخانی کشتی کے پاس تھے؟“

          ” میں نہیں تھا۔“

          ” یہ جھوٹ ہے۔ میں وہاں رہتا ہوں۔ میں نے تمہیں ڈونگے میں آتے اور ٹم کولینز سے باتیں کرتے دیکھا تھا۔ جو ریو ڈی جینیرو گیا ہے۔ یہ لڑکا بھی تمہارے ساتھ تھا۔“ ہائنس نے میری طرف اشارہ کیا۔

          ڈاکٹر قدم بڑھاتا آگے آیا اور بولا۔” پڑوسیو ! میں نہیں جانتا کہ نئی آنے والی جوڑی پیٹر ولکس کے بھائیوں کی ہے یا نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ جوڑی نہیں ہے۔ اگر ہم انھیں ہوٹل میں لے جائیں تو سچ تک پہنچ سکتے ہیں۔“

۔۔۔۔۔

          چنانچہ ہم سب ہوٹل گئے۔ تمام راستے ڈاکٹر میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے رہا تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو اس نے کنگ سے پوچھا کہ سونے کا تھیلا کہاں ہے؟

          ” اسے غلام گدے کے نیچے سے چرا کر لے گئے ہیں۔ میرا ملازم آپ کو اس کے بارے میں بتاسکتا ہے۔“ کنگ نے کہا۔

           لہٰذا میں نے انھیں وہی کچھ بتایا جو کنگ کو بتایا تھا، لیکن ڈاکٹر نے فوراً پوچھا۔”کیا تم بھی انگریز ہو؟“

          جب میں نے کہا۔” ہاں“ تو وہ زور سے ہنسا۔

          جب کنگ نے اسے اپنی کہانی سنائی اور بوڑھے شریف آدمی نے اپنی،تو ہر کوئی سمجھ سکتا تھا کہ شریف آدمی سچ بول رہا ہے۔

           پھر وکیل لیوی بیل آگے آیا اور پوچھا۔ ”تم سب کچھ لکھ کر دستخط کردو۔“

           انھوں نے ایسا ہی کیا۔

          لیوی بیل حیران نظر آنے لگا۔ اس نے ہاروے اور ولیم کے کچھ پرانے خطوط اپنی جیب سے نکالے اور ان کی لکھائی جانچنے لگا۔ کسی کی بھی لکھائی ان جیسی نہ تھی۔

          ” کوئی بھی میری لکھائی نہیں پڑھ سکتا۔“ بوڑھے شریف آدمی نے وضاحت کی۔ ” چنانچہ میرا بھائی ولیم ہمیشہ میرے خط نقل کرتا ہے۔“

          ” تب ہم تمہارے بھائی سے لکھوا کر دیکھیں گے۔“ لیوی بیل نے کہا۔

          ” وہ اپنا الٹا ہاتھ استعمال نہیں کر سکتا لیکن اگر آپ ان پرانے خطوط کا دوبارہ جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ سب کسی ایک ہی آدمی کے لکھے ہوئے ہیں۔“

           وکیل نے دیکھا اور کہا۔” ہاں یہ ایک ہی آدمی کی لکھائی لگ رہی ہے۔ بہرحال ہمارے پاس ان دونوں کے خلاف بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔“ اس نے کنگ اور ڈیوک کی طرف اشارہ کیا۔

          جلد ہی بوڑھا بولا۔” مجھے کچھ یاد آرہا ہے میرے بھائی کے سینے پر ٹیٹو کھدا تھا۔ تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟“

          ” ہاں ، حرف ER اور چھوٹا نیلا تیر تھے۔“ کنگ نے کہا۔

          ” نہیں حرف PW تھے۔ “ بوڑھا بولا۔

          وکیل اچھل کر میز پر چڑھ گیا۔ ” سچ کو جاننے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ ہمیں قبر کھود کر نعش نکالنی ہو گی۔“

          ” ہاں ! اور اگر ہمیں ٹیٹو کے نشان نہ ملے تو ہم پورے گینگ کو لٹکا دیں گے۔“ ہجوم چلایا۔

۔۔۔۔۔

          میں اب خوفزدہ ہوگیا تھالیکن وہاں سے فرار نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ اب ہمارے آگے مارچ کرتے ہوئے قبرستان کی طرف جارہے تھے۔ میں ہائنس کے ساتھ گھسٹ رہا تھا۔ کاش میں میری جین کو دور نہیں بھیجتا۔ وہ مجھے بچا سکتی تھی۔ جو منصوبہ میں نے بنایا تھا۔ وہ ناکام ہوگیا تھا۔

          جب ہم قبرستان پہنچے تو نو بج چکے تھے اور طوفان آنے والا تھا۔ انہوں نے کھودنا شروع کیا۔ اندھیرا گہرا گیا تھا اور بارش بھی شروع ہو گئی تھی۔ تیز ہوا چل رہی تھی، لیکن انھوں نے پروا نہیں کی۔ آخر انھوں نے تابوت نکالا اور چادر ہٹائی۔ لوگ دیکھنے کے لئے ایک دوسرے کو دھکے دے رہے تھے۔ ہائنس نے میری کلائی سختی سے پکڑ رکھی تھی۔

           اچانک زور سے بجلی چمکی اور کوئی چلایا۔” لاش کے سینے پر سونے کا تھیلا رکھا ہے۔ ہائنس نے سب کی طرح نعرہ لگایا اور اسی جوش و خروش میں میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔

          چنانچہ میں پلٹا اور تیزی سے گاؤں کی طرف بھاگ گیا۔ طوفان کی وجہ سے سڑک پر کوئی نہیں تھا۔ جب میں گھر کے پاس پہنچا تو میری جین کے کمرے میں موم بتی جل رہی تھی۔ میرا دل تیری سے دھڑک رہا تھا۔ میں جن لڑکیوں کو جانتا تھا۔ وہ ان میں سب سے اچھی لڑکی تھی۔

          جلد ہی میں گاؤں سے باہر نکل گیا۔ میں نے ایک ڈونگا ادھار لیا اور چل دیا۔” باہر آؤ جم !!!۔ ہم جاسکتے ہیں۔“ بیڑے کے پاس پہنچ کر میں چلایا۔

          جم خوشی سے دوڑتا ہوا جھونپڑے سے باہر آیا۔ اس کے بازو پھیلے ہوئے تھے۔ میں بھول گیا تھا کہ وہ ایک خوفناک رنگ میں رنگا ہوا ہے میں ڈر کر پانی میں جاگرا لیکن اس نے مجھے دو سیکنڈ میں دریا سے نکال لیا۔ آزاد ہو کر وہ بہت خوش تھا۔

          پھر میں نے ایک آواز سنی جو میں بخوبی پہچانتا تھا۔ وہ کنگ اور ڈیوک کی آواز تھی جو کشتی میں ہماری طرف سے چلے آرہے تھے۔ میں ہار مان کر نیچے لیٹ گیا۔ جب وہ بیڑے پر چڑھ آئے تو کنگ نے مجھے کالر سے پکڑ کر جھنجھوڑا اور چلایا کہ میں کیوں بھاگ آیا تھا۔ ڈیوک نے اس سے کہا رک جاؤ کیوں کہ وہ دونوں خود بھی سونے کا تھیلا دریافت ہوتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔

          پھر وہ بحث کرنے لگے کہ تھیلا کس نے چراکر تابوت میں رکھا تھا جبکہ غلام، چور نہیں تھے۔ وہ ایک دوسرے پر شک کر رہے تھے۔ ڈیوک نے کنگ کا گلا پکڑ لیا۔

          آخر اس نے مان لیا کہ میں نے تھیلا چھپایا تھا تو ڈیوک نے اسے مارنا بند کیا۔ یہ سن کر میں نے خود کو مطمئن محسوس ہوا۔

          پھر کنگ جھونپڑے میں شراب لے کر رینگ گیا۔ جلد ہی ڈیوک نے بھی یہی کیا اور دونوں دوبارہ دوست بن گئے۔ کچھ دیر میں وہ سو گئے تو میں نے جم کو سب کچھ بتایا۔

۔۔۔۔۔

باب:۱۰

          ہم میں رکنے کا حوصلہ نہ تھا۔ ہم کئی دن تک دریا کے نیچے کی طرف سفر کرتے رہے یہاں تک کہ لوزیانا کے جنوب میں گہرائی تک چلے گئے۔ تب بدمعاشوں نے قصبوں میں کام شروع کیا۔

          وہ وعظ کرتے، ناچتے اور لوگوں کو ان کی قسمتوں کے بارے میں بتاتے مگر انہیں دولت حاصل نہیں ہوتی تھی۔ تب وہ جھونپڑے میں چپکے چپکے دھیمی آواز میں باتیں کرتے رہتے۔ جم اور میں بہت بے چین تھے۔ وہ کوئی منصوبہ بنارہے تھے۔

          ایک دن صبح سویرے ہم نے بیڑا ایک چھوٹے قصبے پکس ویل کے قریب چھپایا اور کنگ ساحل پر یہ دیکھنے گیا کہ یہ رائل بیسٹ کرنے کے لیے اچھی جگہ ہے یا نہیں۔

           آدھا دن گزر گیا مگر وہ واپس نہیں آیا تو ڈیوک اور میں اس کے پیچھے گئے اور اسے مدہوش پایا۔ میں نے موقع دیکھا تو بھاگ کر بیڑے پہ چلا گیا۔

          ” جم ! بیڑا دھکیلو۔ ہم پھر آزاد ہیں۔“ میں چلایا۔ لیکن کوئی جواب نہیں ملا اور نہ کوئی جھونپڑے سے باہر آیا۔ جم کہیں چلاگیا تھا۔

          میں خوب چلایا، آوازیں لگائیں۔ جنگل میں دوڑتا پھرا مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ آخر میں نے سڑک کے ساتھ چلنا شروع کیا۔ کچھ دور چل کر مجھے ایک لڑکا ملا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے کسی غلام کو دیکھا ہے جس نے عجیب سے کپڑے پہنے ہوئے تھے؟

           لڑکے نے کہا۔ ” ہاں، وہ بھاگا ہوا غلام تھا۔ وہ اسے پکڑ کر دو میل پیچھے سلاس فلپ ہاؤس لے گئے ہیں۔ کیا تم اسے تلاش کر رہے ہو؟“

          ” نہیں، مگر اسے کس نے پکڑا تھا؟“ میں نے پوچھا۔

          ” ایک بوڑھے آدمی نے۔ اس پر دو سو ڈالر انعام تھا۔میں نے پمفلٹ دیکھا تھا لیکن اس نے چالیس ڈالر میں بیچ دیا۔“

           بہرحال میں سمجھ گیا کہ یہ دغابازوں کا کام ہے۔ انھوں نے جم کو چالیس ڈالر کے لیے دوبارہ غلام بنا دیا تھا۔

۔۔۔۔۔

          میں واپس بیڑے پرچلا گیا اور سوچنے لگا کہ اگر جم دوبارہ غلام بن گیا ہے تو یہ اس کے لیے اچھا ہی ہوا۔ اب شاید وہ واپس میسوری اپنے خاندان کے پاس چلا جائے۔ کیا مجھے ٹام سائر کو یہ لکھ دینا چاہیے تاکہ وہ مس واٹسن کو بتادے؟ نہیں مس واٹسن اسے پھر بیچ دیں گی۔ تب یہ ہر کوئی جان جائیگا کہ ہک فن کالے آدمی کی آزادی میں مدد کر رہا تھا۔

           میں نے اس پر اور سوچا مگر ہر بار ہی مجھے برا رخ نظر آیا۔ میں نے دعا کرنی چاہی، مگر نہ کر سکا پھر میرے دماغ میں خیال آیا کہ میں مس واٹسن کو لکھتا ہوں کہ وہ میری دعا میں مدد کریں۔ میں نے کاغذ کا ٹکڑا لیا اور لکھا۔

          ”مس واٹسن ! آپ کا بھاگا ہوا غلام جم یہاں پکس ویل میں مسٹر سلاس کے پاس موجود ہے۔“ ہک فن۔

          مجھے لگا کہ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار گناہ کو دھو لیا ہے۔ میں اب دعا کرسکتا ہوں۔ لیکن جب میں نے اپنے دریا کے سفر کے متعلق سوچنا شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ میں اور جم کیسے ساتھ ساتھ باتیں کرتے ، گاتے اور ہنستے دریا پر بہتے جاتے تھے۔ وہ کیسے خوش تھا جب میں کہر میں سے واپس آیا تھا۔ وہ کتنا مہربان، اچھا اور شکر گزار تھا۔ میں نے وہ خط دیکھا جو میں نے لکھا تھا اور اسے پھاڑ دیا۔ ٹھیک ہے میں دوبارہ بدمعاش بن جاتا ہوں اور چوریاں شروع کر دیتا ہوں تاکہ جم کو غلامی سے آزاد کراسکوں۔

           اندھیرا ہونے کے بعد میں دریا میں تھوڑا نیچے گیا اور ایک جزیرے پر بیڑا باندھ دیا۔ پھر میں نے اپنے نئے کپڑے پہنے، کچھ چیزوں کا بنڈل بنایا اور ڈونگے پر بیٹھ کر ساحل کی طرف بڑھ گیا۔ میں اندازہ لگا کر فلپ ہاؤس کے قریب اترا۔ پھر میں نے ڈونگا اور اپنا سامان چھپا دیا اور گاؤں کی طرف بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔

          گاؤں میں جو مجھے پہلا آدمی نظر آیا، وہ ڈیوک تھا۔ وہ دیواروں پر تین نئے دی رائل بیسٹ کے پوسٹر چپکارہا تھا۔”ہیلو ! بیڑا کہاں ہے؟ “اس نے خوش دلی سے پوچھا۔

          میں نے یہ ظاہر کیا جیسے میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ وہ جم اور بیڑے کو لے گئے تھے۔ تب اس نے مجھے بتایا کہ کنگ نے جم سے کیا سلوک کیا اور اسے بیچ کر تمام رقم شراب میں اڑا دی۔ وہ بولا۔”جب میں اسے لے کر رات کو بیڑے پر پہنچا تو وہ جا چکا تھا۔ ہم نے سوچا وہ تم لے گئے ہو۔ ہمارے پاس کچھ بھی رقم نہیں تھی۔ چنانچہ اب ہم کھیل دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔“

          ” میں جم کو ڈھونڈوں گا!“ میں چلایا۔”وہ پوری دنیا میں میری واحد ملکیت تھا۔“

          ” اوہ…. اچھا۔ جس آدمی نے اسے خریدا ہے۔اس کا نام ابرام جی فاسٹر ہے۔“ ڈیوک نے جھوٹ بولا۔” وہ لافیاٹی سے چالیس میل دور رہتا ہے۔“

           وہ چاہتا تھا کہ میں اس کے پروگرام کے آس پاس نہ رہوں۔ میں نے یہ ظاہر کیا کہ جیسے میں اس طرف جارہا ہوں اور چل دیا پھر واپس جنگل میں چلا گیا۔جب میں فلپ ہاؤس کے قریب پہنچا تو وہ روشن، گرم اور اتوار کے دن کی طرح پرسکون تھا۔ مجھے کچھ دور کپاس کے کھیت نظر آئے۔ مرد کام کرنے جاچکے تھے۔ اچانک کتے مجھ پر بھونکنے لگے اور ایک سیاہ فام عورت لکڑی کے باورچی خانے سے دوڑتی ہوئی باہر آئی۔ اس کے پیچھے بچے تھے۔ پھر ایک سفید فام ادھیڑ عمر عورت بھی گھر سے باہر نکلی۔

          ” یہ تم ہو آخر تم آگئے؟“ وہ بولی۔

          ” ہاں ماں۔“ میں نے بغیر کچھ سوچے سمجھے کہا۔اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس نے مجھے پیار کیا” تم مجھے اپنے بچے جیسے نہیں لگ رہے۔“ اس نے کہا ہے۔” مگر میں تم سے مل کر بہت خوش ہوں۔“ وہ مجھے اندر لے گئی۔

          ” بچو !! اپنے کزن سے ملو۔ ہم تمہاری آج آمد کی توقع کررہے تھے۔ کیا تمہاری کشتی میں تاخیر ہوئی ہے؟“

          ” ہاں ماں۔“

          ” مجھے خالہ سیلی کہو۔“ اس نے حکم دیا۔

          ” کیا تم سڑک پر اپنے انکل سلاس سے ملے تھے؟ وہ تمہیں دیکھنے ایک گھنٹے پہلے قصبے میں گئے تھے۔“

          ” نہیں خالہ سیلی ،کشتی صبح سویرے آئی تھی۔ میں نے اپنا تھیلا گودی چھوڑ دیا تھا اور گھومتا ہوا آیا ہوں۔ کیونکہ میں یہاں جلدی آنا نہیں چاہتا تھا۔“ میں نے کہا۔

          میں خود کو بے آرام محسوس کر رہا تھا اور بچوں سے پوچھنا چاہتا تھا کہ میں کون ہوںمگر جب مسٹر فلپ آئے اور مسز فلپ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ” دیکھو سلاس! یہ ٹام سائر ہے۔“

          میں تقریباً گرتے گرتے بچا۔ جب آدمی نے میرا ہاتھ پکڑ کر زور سے ہلایا۔ عورت ہنسی اور خوشی سے چلائی اور دونوں مجھ سے آنٹی پولی اور سڈ کے بارے میں دریافت کرنے لگے۔ انھیں کوئی شک نہیں تھا۔ میں یہ جان کر بہت خوش تھا کہ میں کون ہوں۔

۔۔۔۔۔

          کچھ دیر بعد جب میں نے سنا کہ ایک دخانی کشتی دریا میں آرہی ہے۔ کیا ٹام سائر اس میں آرہا ہے ؟ میں نے خود سے سوال کیا۔ بہتر یہ ہے کہ میں گودی پر جاؤ ںاور اپنا تھیلا لے آؤ۔ میں ویگن خود چلا سکتا ہوں۔ میں نے کہا۔

           میں قصبے کی طرف چل دیا۔ کچھ دور جاکر ایک ویگن آتی نظر آئی۔ میری نظریں اس پر جمی تھیں۔ آخر مجھے ٹام سائر نظر آگیا۔ اس نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا۔ وہ اتر آیا۔ اس کا منھ حیرت سے کھلا تھا۔ پھر وہ تھوک نگل کر بولا۔” مہربان تم بھوت تو نہیں ہو؟“

          ”نہیں مہربان میں نہیں ہوں۔“

          ” تم قتل نہیں ہوئے تھے؟ “

          ” نہیں۔“ میں نے جواب دیا۔

          ٹام میری پوری مہم جوئی سننا چاہتا تھا، لیکن میں نے اسے پہلے فلپ ہاؤس میں ہونے والی مسئلے کے بارے میں بتایا۔ وہ کچھ منٹ تک سوچتا رہا پھر بولا۔”تم میرا بیگ اپنی ویگن میں رکھ لو اور آہستہ آہستہ واپس جاؤ۔ میں آدھا گھنٹہ بعد تمہارے پیچھے آؤن گا۔“

          ”وہاں اور کچھ بھی ہے۔ مس واٹسن کا غلام جم بھی وہاں موجود ہے۔“

          ” کیا ؟ “ وہ حیرت سے چلایا۔

          ” ہاں، اور میں اسے غلامی سے نجات دلانے کے لیے کوشش کررہا ہوں۔“

           ٹام کی آنکھیں چمکنے لگیں۔” میں تمہاری مدد کروں گا۔“

           ٹام سائر غلام کو چرانے کے لیے تیار ہے۔ میں یقین نہیں کرسکتا تھا۔ بہرحال، میں نے کہا۔ ” اگر تم بھگوڑے کے متعلق کچھ سنو تو یاد رکھنا ہم اسے نہیں جانتے۔ “

           میں نے ٹام کا بیگ لیا اور واپس چل دیا۔ آدھے گھنٹے بعد ٹام بھی آگیا۔ اپنے نئے کپڑوں اور اسٹائل کے ساتھ اس نے پروقار انداز میں اپنا ہیٹ اٹھا رکھا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ مسٹر ولیم تھامسن آف اوہائیو ہے اور مسٹر آرچی بلڈ نکولس کو تلاش کر رہا ہے۔

          جب اس نے خالہ سیلی کو پیار کیا تو بولا کہ وہ اس کا بھائی سڈ ہے۔ پھر وہ بولا۔ آپ کی بہن پولی ٹام کے ساتھ آرہی تھیں، مگر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم سب کو حیران کریں گے۔ چنانچہ خالہ سیلی نے اسے اور پیار کیا۔ جب ہم رات کا کھانا کھانے بیٹھے تو انکل سلاس نے بہت لمبی دعا کروائی، لیکن کھانا اتنا اچھا تھا کہ انتظار کرنا برا نہ لگا۔

۔۔۔۔۔

          تمام دوپہر خاندان کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں مگر کسی نے بھاگے ہوئے غلام کا اشارہ نہیں دیا۔ بچوں میں سے ایک نے پوچھا ،کیا ہم رائل بیسٹ دیکھنے جا سکتے ہیں؟ لیکن چاچا سلاس نے کہا کہ نہیں کیونکہ لوگ دو آدمیوں کو قصبے سے باہر ڈبونے کے لیے جا رہے ہیں۔

           میں نے سوچا یہ کنگ اور ڈیوک کے لیے اچھا انتباہ ہے۔ ٹام اور میں سونے کے لیے جلدی چلے گئے۔ پھر کھڑکی سے باہر نکلے اور قصبے میں گھومنے لگے۔ راستے میں ، میں نے ٹام کو دونوں دغابازوں اور اپنی مہم جوئی کے بارے میں بتایا۔

          ہم ساڑھے آٹھ بجے وہاں پہنچے۔ لیکن ہمیں بہت دیر ہو گئی تھی۔ ایک ہجوم ہمارے آگے جارہا تھا۔ چلاتا ، شور مچاتا اور برتن بجاتا۔ اور ہجوم کے بیچ میں ایک لمبی بلی پر کنگ اور ڈیوک ہاتھوں پیروں کے بل بندھے الٹے لٹکے تھے۔ ان کے جسموں پر پرندوں کے پر چپکے ہوئے تھے اور وہ انسان نہیں لگ رہے تھے۔

          میں کھیتوں کے درمیان سے ٹام کے ساتھ واپس آیا۔ اچانک ٹام نے کہا۔

          ” میں جانتا ہوں جم کہاں ہے۔ میں نے ایک غلام کو پچھلی باڑ کے پاس ایک جھونپڑے کا تالا کھولتے اور اس میں خربوزے لیے جاتے دیکھا ہے۔ جم ضرور وہاں ہوگا۔ چنانچہ ہم اسے وہاں سے چرالیں گے۔ کوئی ترکیب سوچو۔ میں بھی سوچ رہا ہوں جو منصوبہ اچھا ہوگا، اس پر عمل کریں گے۔“

          پہلے میں نے اسے اپنا منصوبہ سنایا۔ ٹام نے کہا یہ بہت آسان ہے ۔پھر اس نے اپنا سنایا۔

           میں اس کا منصوبہ بیان نہیں کروں گا کیونکہ وہ اس نے تبدیل بھی کردیا تھا۔ یہاں ایک بات یقینی تھی کہ ایک ذمہ دار لڑکا ایک سیاہ فام غلام کو آزادی دلانے کے لیے میرا ساتھ دے رہا تھا۔ میں اسے نہیں سمجھ سکا تھا اور نہ ٹام واضح کر رہا تھا۔

          گھر اندھیرے میں ڈوبا تھا۔ مگر کتے نہیں بھونکے کیونکہ وہ اب ہمیں پہچاننے لگے تھے۔ چنانچہ ہم ہٹ دیکھنے کے لیے چلے گئے۔ اس میں کھڑکی کے سوراخ کو ایک بورڈ لگا کر کیلوں سے ٹھونک کر بند کردیا گیا تھا۔

          ” جم یہاں سے باہر آسکتاہے اگر ہم یہ بورڈ ہٹادیں۔“ میں نے کہا۔

          ” میری خواہش ہے کہ ہم اس سے کوئی مشکل طریقہ ڈھونڈ نکالیں۔ ہک فن۔“ ٹام نے جواب دیا۔

          پھر ہم نے ایک شیڈ دیکھا جو ہٹ اور باڑ کے ساتھ ہی تھا۔ وہ خالی تھا۔ اس میں بس گندا فرش تھا۔ ٹام خوش ہوگیا۔” ہم اسے کھودیں گے۔ اس میں ہمیں ایک ہفتہ لگے گا۔ “

۔۔۔۔۔

باب:۱۱

          اگلی صبح ہم جم کے ہٹ کی طرف گئے۔ ہم نے اس غلام کو اپنا دوست بنالیا تھا جو جم کو کھانا دیتا تھا۔ اس کا نام ناٹ تھا۔ وہ سادہ چہرے والا اچھا آدمی تھا۔ اس کے بال گچھوں کی شکل میں تھے ،جو چڑیلوں نے باندھ رکھے تھے۔ چڑیلیں اس کے لیے مشکلات کھڑی کرتی رہتی تھیں۔ یہ اس کا کہنا تھا۔” تم یہ کھانا کیوں لے جا رہے ہو؟ “ٹام نے اس سے پوچھا۔” کیا یہ کتے کے لئے ہے؟ “

          ناٹ دھیرے سے مسکرایا۔ ” ہاں ماسٹر سڈ۔ کیا آپ اسے دیکھنا چاہتے ہیں؟“

          ”ہاں “

          ” یہ منصوبہ نہیں ہے ٹام۔“ میں نے سرگوشی کی۔ لیکن ناٹ نے دروازے کا تالا کھولا تو ہم نے جم کو دیکھا۔

          ”ہک ! اور ماسٹر ٹام !“ جم چلایا۔

          ” یہ ظاہر نہ کروکہ تم ہمیں جانتے ہو۔“ٹام نے سرگوشی کی۔” ہم تمہیں آزاد کرانے آئے ہیں۔“

          ” کیا یہ آپ کو جانتا ہے شریف آدمیو؟ “ ناٹ نے حیرت سے پوچھا۔

          ” نہیں، تم نے یہ کیوں سوچا؟“ ٹام نے کہا۔

          ” کیونکہ اس نے آپ کو پکارا ہے۔“ ناٹ بولا۔

          ” پکارا ہے ؟“ٹام نے دہرایا۔ ”پکارا تو کسی نے نہیں، تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہے؟“

          ” اوہ…. پھروہ چڑیلیں ہوں گی۔“ غریب ناٹ بولا۔

           مگر ٹام ناامید نظر آنے لگا تھا۔ سب کچھ بہت آسان ہے۔ اس نے مجھ سے بعد میں کہا۔” انکل سلاس سب پر بھروسا کرتے ہیں۔ صرف ایک زنجیر جم کے ٹانگ سے بندھی ہے۔ ہمیں مشکل پیدا کرنی پڑے گی۔ ہمیں پلنگ کی ٹانگ کاٹنے کے لیے آری چاہیے ہوگی۔“

          ” مگر ہم اسے تھوڑا سا اٹھا کر زنجیر نکال بھی سکتے ہیں۔“میں نے کہا۔

          ”ہک فن ! کیا تم نے کبھی کوئی کتاب پڑھی ہے؟ وہ ہمیشہ پلنگ کی ٹانگ کے لئے آری استعمال کرتے ہیں۔ پھر ہیرو اپنی زنجیر نکالتا ہے، رسی کی سیڑھی کےذریعے نیچے جاتا ہے، اچھل کر اپنے گھوڑے پر بیٹھتا ہے اور دور بھاگ جاتا ہے۔ ہم اپنے بستروں کی چادریں پھاڑ کر رسی کی سیڑھی بنائیں گے اور اسے پائی میں چھپا کر جم کو بھیج دیں گے۔“

          جب میں نے کہا کہ اگر ہم نے خالہ سیلی کی چادریں پھاڑیں تو وہ غصے سے پاگل ہو جائیں گی۔ تو وہ مان گیا کہ میں چادروں کی جگہ دوسرے کپڑے استعمال کر سکتا ہوں۔ اس نے کہا میں اس کے لیے قمیض لے سکتا ہوں۔ جس پر جم اپنے خون سے لکھے گا۔ جب میں نے کہا کہ جم لکھنا نہیں جانتا۔ ٹام نے کہا کہ وہ نشان ڈال سکتا ہے۔

          چنانچہ میں نے ایک چادر اور ایک قمیض آدھار لی۔ میں اسے ادھار لینا کہتا تھا۔ ٹام چوری کہتا تھا، لیکن وہ چوری جو قیدیوں کی مدد کے لیے کی جائے وہ جرم نہیں ہوتا۔ وہ چادر اور قمیض شیڈ میں لے گیا اور کہا اب ہمیں کچھ چاقو بھی چاہیے۔

          ” کس لیے ؟“ میں نے پوچھا۔

          اس نے مجھے افسوس سے دیکھا اور بولا۔”کھودنے کے لیے۔“

          ” یہ بےوقوفی ہے ٹام! یہاں شیڈ میں پہلے سے ہی کئی بیلچے موجود ہیں۔“

          ”لیکن یہ درست طریقہ نہیں ہے۔“ ٹام نے کہا۔” ایک قیدی سینتیس سال تک کھودتا رہتا ہے۔ لیکن ہم اتنا لمبا عرصہ نہیں لے سکتے۔ ہم اسے جلد سے جلد کھودنے کی کوشش کریں گے لیکن ظاہر ایسا کرے گے جیسے سینتیس سال لگے ہوں۔ لہٰذا تین چاقو چرالاؤ۔ دو کھودنے کے لیے اور ایک آری بنانے کے لیے۔“

          ” لیکن لکڑی کے شیڈ کے قریب ایک آری موجود ہے۔“ میں نے کہا۔

          اس نے آہ بھری اور بولا۔” ہک ! تم کو سکھانے کی کوشش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ دوڑ کر جاؤ اور تین چاقو چرا لاؤ۔“

          چنانچہ میں نے یہی کیا۔

 ۔۔۔۔۔

          اس رات ہم نے گندے فرش کو چاقوؤں سے کھودنا شروع کیا۔ لیکن یہ بہت سست عمل تھا اور ہم نے اپنے ہاتھ بھی زخمی کرلیے۔ ہم آدھی رات تک کھودتے رہے۔ تب ٹام نے کہا ہمیں بیلچے استعمال کرنے چاہیے۔ مگر اس طرح جیسے وہ چاقو ہوں۔ ایک گھنٹے میں ہم نے ایک بڑا سوراخ کر لیا۔ اگلے دن اس نے کچھ شمع دان چرائے تاکہ جم کے لکھنے کے لیے قلم بناسکے اور میں نے تین اسٹیل کی پلیٹیں چرائیں تاکہ جم ہمارے پیغامات اس سے کھرچ سکے۔ ہم اس رات فرش بھی کھودتے رہے۔ اور اس میں سے رینگتے ہوئے گزر کر دوگھنٹے میں جم کے پلنگ کے نیچے جاپہنچے۔ وہ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ وہ چاہتا تھا کہ ہم اس کی زنجیر کاٹ دیں اور اسے باہر نکال دیں، لیکن ٹام نے وضاحت کی کہ یہ درست طریقہ نہیں ہے۔

           چنانچہ ہم بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے۔ جم نے کہا کہ اکثر انکل سلاس اور خالہ سیلی اسے دیکھنے آتے ہیں کہ وہ آرام سے ہے یا نہیں۔

          ” اچھا، پھر ہم ان کے ذریعے چھوٹی چیزیں تمہیں بھیج دیا کریں گے۔“ ٹام نے کہا۔

          جب اس نے جم کو بتایا کہ ہم رسی کی سیڑھی اور دوسری بڑی چیزیں ناٹ کے ذریعے بھیجیںگے۔ اور اسے اپنی قمیض پر خون سے ڈائری لکھنی پڑے گی۔ تو ٹام ہمیں حیرت سے تکنے لگا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا، لیکن وہ راضی ہوگیا کہ ہم زیادہ بہتر جانتے ہیں اور کہا کہ وہ ویسا ہی کرے گا جیسا ٹام کہے گا۔

          پھر ٹام اور میں رینگتے ہوئے سوراخ سے باہر آئے اور گھر جاکر بستر پر لیٹ گئے۔ ٹام نے کہا کہ یہ بہت مزیدار مہم ہے اور ان میں سب سے بڑی ہے۔ جو ہم نے اب تک کی ہیں۔ وہ چاہتا تھا جم فرار ہونے میں اسی سال لگائے۔

۔۔۔۔۔

           وقت اسی طرح گزرتا رہا۔ ٹام ہر وقت اپنے پلان پر کام کرتا رہتا تھا۔ اگلے دن ہم نے شمع دان کے ٹکڑے کیے اور جم کے ناشتے میں چھپا دیے۔ جو تقریباً اس کے دانت توڑ سکتے تھے۔ اسی دوران جب ہم نظر رکھے ہوئے تھے کہ کئی کتے اس سوراخ میں داخل ہوکر جم کے بیڈ کے نیچے پہنچے اور زور سے بھونکے۔ ناٹ چلایا۔”چڑیلیں !!“ اور گر کر خوف سے رونے لگا۔ چنانچہ ٹام نے اس سے کہا کہ جب چڑیلوں کے کتے بھوکے ہوتے ہیں تو انھیں چڑیل پائی کھانی ہوتی ہے۔ اس نے کہا کہ وہ چڑیل پائی بنائے گا۔

           خالہ سیلی بہت ناراض تھیں، کیونکہ انکل سلاس نے اپنی ایک قمیض کھودی تھی اور خود ان کے شمع دان اور پلنگ پوش غائب تھے۔ ہم چھوٹی چیزیں انکل سلاس کی کوٹ کی جیب میں یا خالہ سیلی کے ایپرن کی جیب میں رکھ دیتے۔ ہمیں ان کے ساتھ شعبدہ بازی کرنی پڑتی تھی۔ ہم چیزیں چھپاتے اور ڈھونڈتے اور انھیں پتا بھی نہیں چلتا کہ کیا ہونے جارہا ہے۔

          ایک رات بعد جم ہماری مدد سے چادر کے ٹکڑوں کو بل دے کر رسی بنانے لگا تھا۔ اسی دن ٹام اور میں کچھ آٹا لے کر جنگل میں گئے اور خوش شکل پائی پکائی جس میں رسی چھپی تھی۔ ہم نے ناٹ کو کہا کہ یہ چڑیل پائی ہے۔ چنانچہ وہ اسے جم کے کھانے کے ساتھ لے گیا۔ ہم نے اس میں ٹن کی تین پلیٹیں بھی چھپا دی تھیں۔

          جب ناٹ اپنے خیالوں میں تھا۔ جم نے سیڑھی پائی میں سے اٹھا کر پلنگ کے نیچے چھپا دی۔ ایک کیل ہم نے خالہ سیلی کے ایپرن میں چھپا دی تھی۔ وہ پلیٹ پر کچھ نشان بطور پیغام کھرچ سکتا تھا۔ پھر اسے کھڑکی کے سوراخ سے باہر پھینک سکتا تھا۔

          شمع دان سے قلم بنانا مشکل تھا۔ چنانچہ ٹام نے فیصلہ کیا کہ ہم بڑی پتھر کی چکی استعمال کریں گے۔ جو اس نے باغ میں دیکھی تھی۔ پتھر کی چکی قلم اور آری بنانے میں مدد کرسکتی تھی۔ اس نے کہا۔” جم اس سے غمگین الفاظ لکھے گا جیسے،’ یہاں ایک اکیلا دل شکستہ آدمی سینتیس سال سے قید ہے۔“‘

          جم نے کہا کہ اسے کھرچنے میں ایک سال لگ جائے گا۔ علاوہ ازیں وہ لکھنا بھی نہیں جانتا۔ ٹام نے کہا ہم مدد کریں گے۔ چنانچہ ہم چکی کو لڑھکاتے جھونپڑے میں لے گئے اور سوراخ سے جم تک پہنچائی۔

          پھر ٹام نے کہا کہ قیدیوں کے پاس ہمیشہ چوہے بھی ہوتے ہیں۔ جم کو کوئی چوہا نہیں چاہیے تھا۔ اس نے کہا کہ وہ قیدی بن کر اور مشکل میں پھنس گیا ہے۔ اور پریشان ہے کہ یہ کس طرح ہوگا۔

          ٹام کو اس پر غصہ آگیا۔ وہ بولا۔” ایک قیدی کے پاس زیادہ مواقع نہیں ہوتے۔ تمھیں ہمارا شکر گزار ہونا چاہیے۔“

          چنانچہ جم نے کہا کہ وہ معافی مانگتا ہے۔ اب وہ خراب رویہ نہیں کرے گا۔

۔۔۔۔۔

          اسی طرح تین ہفتے گزر گئے۔ سب کچھ صحیح تھا۔ جم کو دوسری پائی میں ایک اور قمیض مل گئی تھی۔ جس پر وہ اپنے خون سے لکھ چکا تھا۔ ہم چکی کی مدد سے غمگین الفاظ لکھتے تھے۔ پلنگ کی ٹانگ کاٹ کر ہم تینوں بہت تھک چکے تھے۔

          انکل سلاس نے نیوآرلینز خط بھیج دیا تھا، لیکن مالک اپنے بھگوڑے کو لینے نہیں آیا تھا۔ چنانچہ انھوں نے کہا کہ وہ سینٹ لوئس اور نیواورلینز کے اخباروں میں اشتہار دے رہے ہیں۔ تو میں جان گیا کہ ہمیں جم کو جلداز جلد چرانا ہوگا۔

          ” اب ہم خاندان کو خبردار کریں گے۔“ ٹام نے کہا۔

          ”کیوں ٹام ؟ انہیں خود ہی معلوم کرنے دو ۔“میں نے کہا۔

          ” لیکن وہ بہت بھروسہ کرتے ہیں۔ اگر ہم نے انھیں خبردار نہ کیا تو ہمیں کوئی نہیں روکے گا ہمارا مشکل کام’ فرار‘ آسان ہو جائے گا۔“ ٹام نے کہا۔” ہم پیغام چھوڑ دیں گے جیسے کتابوں میں ہوتا ہے۔“

           اس رات ہم نے پیغام لکھا۔” باہر دیکھو ! مشکل آ رہی ہے۔اجنبی دوست ۔“اور بیرونی دروازے سے اندر ڈال دیا۔

           اگلی رات ہم نے تابوت کی تصویر پچھلے دروازے پر چپکا دی۔

          کنبہ بہت پریشان تھا۔ کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا یا کچھ محسوس ہوتا تو خالہ سیلی اچھل پڑتیں۔ وہ بستر پر جانے میں بھی خوف محسوس کرتی تھیںاور نیچے رہ رہی تھیں۔ انکل سلاس نے کہا کہ وہ پوری رات کے لیے غلاموں کو ہر دروازے پر نگرانی کے لیے بٹھا رہے ہیں۔

           ٹام نے کہا ہاں یہ قابل اطمینان ہے اور سب سے بہتر ہے۔

           اگلی صبح جب پچھلے دروازے کا نگران غلام سوگیا تھا۔ ٹام نے اس کے ہاتھ میں پیغام رکھ دیا۔ اس میں لکھا تھا۔

          ” ایک گروہ آج رات آپ کا غلام چراکر لے جائے گا۔وہ آپ کو ڈرائیں گے۔ چنانچہ آپ کو اندر ہی رہنا چاہیے۔ ٹھیک آدھی رات کو وہ جھونپڑے میں اسے لینے جائیں گے۔ جب وہ اس کی زنجیر کھول رہے ہونگے تو آپ انھیں بند کرکے مار سکتے ہو۔ مجھے کوئی انعام نہیں چاہیے۔ نامعلوم دوست۔ “

۔۔۔۔۔

          ٹام اور میں بہت اچھا محسوس کر رہے تھے۔ ناشتے کے بعد ہم نے ڈونگا لیا اور جزیرے پر چلے گئے۔ جہاں میں نے بیڑے کو چھپایا ہوا تھا۔ ہم بہت دیر سے واپس آئے اور دیکھا کہ انکل سلاس اور آنٹی سیلی پریشان ہیں۔ انہوں نے کچھ نہیں کہا تھا، لیکن ہم جانتے تھے کہ اس کی وجہ وہ پیغام ہیں۔

          انہوں نے ہمیں کھانے کے بعد فوراً بستروں میں بھیج دیا۔ ٹام نے مجھ سے کہا کہ نیچے جاؤاور کھانے کو کچھ لے آؤ۔ اسی دوران وہ جم کو خالہ سیلی کا سوتی لباس دینے گیا جو اس نے چرایا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ فرار ہونے والے قیدی ہمیشہ خواتین کے لباس پہنتے تھے۔

          لیکن جب میں اوپر آرہا تھا تو میں نے نشست گاہ میں بندوقیں لیے کسانوں کا ہجوم دیکھا۔ میں ایک سیکنڈ میں اوپر گیا اور کھڑکی کے ذریعے باہر نکلا اور شیڈ میں چلا گیا۔ ” ٹام ! گھر لوگوں اور بندوقوں سے بھرا ہوا ہے۔“

          اس کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔ ” اوہ ہک! میں صرف یہ ہی چاہتا تھا۔“

          ” جلدی کرو۔ جم کہاں ہے؟ “جوں ہی میں بولا۔

           باہر سے کسانوں کی آواز آئی۔” ہم بہت جلد آگئے۔“ ایک آدمی نے کہا۔” وہ اب تک نہیں آئے دروازے پر تالا لگا ہے۔“

          انھوں نے دروازہ توڑ ڈالا اور اندر گھس آئے لیکن وہ اندھیرے کی وجہ سے ہمیں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ہم تیزی سے سوراخ میں گھس گئے۔ جم سب سے آگے ،دوسرا میں اور ٹام سب سے پیچھے تھا۔ اب ہم شیڈ میں تھے۔ ہم آواز سن رہے تھے۔ جم اور میں خاموشی سے باڑ پھلانگ گئے مگر ٹام کی پتلون باڑ میں اٹک کر پھٹ گئی۔ ایک کسان چلایا۔ ” کون ہے؟ جواب دو ورنہ میں گولی مار دوں گا۔“

           ہم نے جواب نہیں دیا اور بھاگ کھڑے ہوئے۔

          ”بینگ! بینگ! “ہمارے پیچھے گولیاں چلیں۔

          ” وہ دریا کی طرف بھاگے ہیں۔ کتے کھول دو۔“ کسان ہمارے پیچھے دوڑتے ہوئے چلا رہے تھے۔

          لیکن ہم نے ان کی طرح جوتے نہیں پہنے ہوئے تھے۔ وہ ہمیں نہیں ڈھونڈ سکتے تھے۔ کتے بھی ہمیں جانتے تھے، وہ ہماری طرف آنے کی زحمت نہیں کر رہے تھے۔ چنانچہ ہم نے جھاڑیوں میں سے اپنے ڈونگے کو دھکیلا اور تیزی سے چپو چلاتے اسپینش آئی لینڈ کی طرف بڑھ گئے، جہاں ہمارا بیڑا چھپا ہوا تھا۔ ہم اپنے پیچھے لوگوں کے چیخنے اور کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سن رہے تھے، مگر آہستہ آہستہ آوازیں آنی بند ہوگئیں۔

          ” اب بوڑھے جم ! تم پھر آزاد ہو گئے ہو۔“ میں نے بیڑا چلاتے ہوئے کہا۔

          ” ہاں کیا بہترین کام تھا ہک ! کوئی بھی اسے اس سے بہتر طریقے سے نہیں کر سکتا تھا۔ “ ہم سب بہت خوش تھے، لیکن ٹام کچھ زیادہ ہی خوش تھا۔ کیونکہ اس کی ٹانگ میں گولی لگی تھی۔

 ۔۔۔۔۔

باب:۱۲

          ٹام کی ٹانگ سے خون نکل رہا تھا اور وہ بہت تکلیف میں تھا۔ ہم اسے جھونپڑے میں لے گئے اور ڈیوک کی قمیض پھاڑکر پٹی بنائی۔

          ”بے وقوفو ! یہاں مت رکو بیڑا دھکیلو۔“ ٹام نے کہا۔

           میں نے جم کو دیکھا اور جم نے مجھے۔

          ” مسٹر ٹام مجھے ڈاکٹر کو لانے دیں۔“ جم نے کہا۔”میں یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک ڈاکٹر کو نہیں لے آتا۔“

          چنانچہ میں نے ٹام سے کہا کہ میں ڈاکٹر کو لینے گاؤں جا رہا ہوں۔ ٹام بحث کرنے لگا اس نے خود ہی بیڑے کو دھکیلنے کی کوشش کی، لیکن ہم نے اسے روک دیا۔

          ” اچھا ٹھیک ہے تم ڈاکٹر کو قسم ضرور کھلواؤگے کہ وہ کسی قبرستان کی طرح خاموش رہے گا اور اسے رات میں لے کر آؤ گے۔“ وہ بولا۔

           میں نے وعدہ کیا اور جم سے یہ کہہ کر چلا گیا کہ جب وہ ڈاکٹر کو آتے دیکھے تو چھپ جائے۔

          ڈاکٹر ایک بوڑھا اچھا آدمی تھا۔ میں نے اس سے کہا۔ میں اور میرا بھائی اسپینش آئی لینڈ پر اپنے بیڑے پر شکار کھیلنے گئے تھے۔ جب ہم آرام کر رہے تھے تو نیند میں میرے بھائی کی لات لگنے سے بندوق چل گئی۔ کیا تم چل کر اس کی ٹانگ دیکھ سکتے ہو؟ ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ بات ہمارے کنبے کو پتا نہ چلے۔

          ” کون سا کنبہ ؟ “ ڈاکٹر نے پوچھا۔

          ” فلپس۔“

          ” اچھا“ اس نے لالٹین جلائی اور میرے ساتھ دریا کے کنارے کی طرف چل دیا۔

          ” ڈونگا دو آدمیوں کے لئے محفوظ نہیں ہے۔“ اس نے کہا۔

          ” پریشان نہ ہو جناب یہ کل ہم تینوں کو لے گیا تھا۔“

          ” کون تینوں؟ “

          ” میں، اور میرا بھائی سڈ اور…. ہماری بندوق۔“

          ” اوہ اچھا۔“ اس نے کہا۔

          مگر وہ مجھے ڈونگے میں لے جانے پر راضی نہیں ہوا۔ آخر میں وہاں رک گیا۔ پھر کچھ دیر بعد جنگل میں جاکر سوگیا۔

۔۔۔۔۔

          جب میں جاگا تو سورج سر پر آ گیا تھا۔ میں ڈاکٹر کے گھر کی طرف بھاگا۔ مگر وہ ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔ لگتا ہے ٹام ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے سوچا۔ بہتر یہ ہے کہ میں واپس جزیرے پر چلا جاؤں۔ لیکن موڑ پر پہنچ کر مجھے خیال آیا کہ انکل سلاس پریشان ہوں گے۔ میں گھر کی طرف دوڑ گیا۔

          ” تم سارا وقت کہاں غائب تھے ؟ “ وہ غصے سے بولے ۔

          ” ہم بھگوڑے کو ڈھونڈ رہے تھے۔ ہم لوگوں اور کتوں کے پیچھے تھے، لیکن انہیں کھوبیٹھے۔ پھر ہمیں دریا کے کنارے ایک ڈونگا مل گیا۔ ہم اس میں بیٹھ کر بھگوڑے کو تلاش کرتے رہے مگر وہ نہیں ملا۔ آخر ہم جنگل میں چلے گئے۔ ہم بہت تھک گئے تھے۔ پھر ہمیں نیند آگئی۔ اب سڈ، ڈاک خانے گیا ہے۔“

           چنانچہ میں اور انکل سلاس ڈاک خانے گئے مگر وہاں سڈ نہیں تھا۔ کچھ دیر ہم اس کا انتظار کرتے رہے پھر انکل سلاس نے خط لیا اور مجھے ویگن میں لے کر واپس آئے۔ جب ہم گھر پہنچے تو خالہ سیلی مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور مجھ پر چلائیں بھی۔ گھر کسانوں اور ان کی بیویوں سے بھرا تھا۔ سب کھانا کھانے آئے تھے۔ خوب شور ہو رہا تھا۔

           ایک عورت نے کہا۔” ہم نے جھونپڑا دیکھا ہے۔ میرا خیال ہے آپ کا بھگوڑا پاگل تھا۔ اس نے عجیب چیزیں چکی کے پتھر پر لکھی ہیں۔ “

          ” اور اس کی دھجیوں سے بنی سیڑھی کے بارے میں کیا خیال ہے؟“ کسی نے پوچھا۔

          ” اور وہ پلنگ کی کٹی ہوئی ٹانگ ؟“تیسری نے کہا۔

          ” اور وہ قمیض جو افریقی نشانوں سے بھری ہے جو خون سے بنائے گئے ہیں۔ اس جگہ کے ہر غلام نے اس کی مدد کی تھی۔“ کوئی بولا۔

          خالہ سیلی بولیں۔” ہاں وہ سب چیزیں یہاں سے چرائی گئی تھیں۔ وہ بھوتوں کی طرح تھے اور ہمیں بےوقوف بنا رہے تھے۔ وہ ہماری ناک کے نیچے سے غلام کو چھڑا کر لے گئے۔ سولہ آدمی اور بائیس کتے ان کے پیچھے لگے تھے، لیکن وہ کوئی نشان نہیں چھوڑ گئے۔ میرے کنبے کے دو غریب لڑکے رات کو اوپر سوئے تھے۔ میں پریشان تھی کہ کہیں وہ انھیں نقصان نہ پہنچائیں۔ اس لیے میں نے انھیں باہر سے تالا لگا دیا تھا….“

          وہ بولتے بولتے چپ ہوگئیں اور حیرت سے میری طرف دیکھنے لگیں۔ جوں ہی ہماری نظریں ملیں۔ میں جلدی سے اٹھا اور چہل قدمی کرنے باہر نکل گیا۔

          بعد میں جب لوگ چلے گئے تو میں اندر گیا اور خالہ سیلی کو وضاحت کی کہ ہم فائرنگ کی آواز سے اٹھ گئے تھے۔ جب ہم نے دیکھا کہ دروازے میں تالا ہے۔ تو میں اور سڈ کھڑکی پر چڑھے اور باہر اتر گئے۔ میں نے خالہ سیلی کو وہی بتایا جو پہلے انکل سلاس کو بتا چکا تھا۔

           انہوں نے مجھے معاف کر دیا۔ پھر پوچھا۔ ” سڈ کہاں ہے ؟“

          ” میں جاتا ہوں اور اسے ڈھونڈ کر لاتا ہوں۔ “

          ” نہیں ،تم نہیں جاؤ۔ “ وہ بولیں۔

           پھر انکل سلاس گئے اور اکیلے واپس آئے۔ وہ پریشان نظر آرہے تھے۔ خالہ سیلی نے کہا۔ وہ اس کے لیے سیڑھیوں سے نیچے روشنی جلی چھوڑ رہی ہیں اور مجھ سے پوچھا کہ اب تو تم اس طرح نہیں جاؤگے؟ میں ٹام کے لیے جانا چاہتا تھا، لیکن میں نے وعدہ کیا۔

          اس رات کو دو دفعہ میں نیچے گیا اور انھیں موم بتی کے پاس بیٹھے دیکھا، تیسری دفعہ وہ ہاتھوں پر سر رکھے سو رہی تھیں۔

۔۔۔۔۔

          ناشتے پر انکل سلاس اور خالہ سیلی نے کچھ نہیں کھایا اور انکی کافی بھی یوں ہی ٹھنڈی ہوگئی۔ کچھ دیر بعد انہوں نے خالہ سیلی کو ایک خط دیا۔” یہ کل میں ڈاک خانے سے لایا تھا مگر تمہیں دینا بھول گیا تھا۔ “وہ بولے۔

          ” یہ میری بہن کا ہے اور سینٹ پیٹرزبرگ سے آیا ہے۔“

          ”اوہ“ لیکن خالہ سیلی نے خط بغیر کھولے پھینکا اور باہر بھاگیں۔ انہوں نے کچھ دیکھا تھا۔ وہ، ٹام سائر تھا اسٹریچر پر، اس کی آنکھیں بند تھیں اور اس کے ساتھ ڈاکٹر اور جم بھی تھے۔ جم نے زنانہ لباس پہن رکھا تھا اور اس کے ہاتھ بندھے تھے۔ پیچھے بہت سارے لوگ بھی نظر آ رہے تھے۔

           میں نے خط چھپایا اور باہر نکلا۔

          ” وہ زندہ ہے، شکر خدا کا۔“خالہ سیلی چلائیں۔ انہوں نے جھک کر ٹام کو پیار کیا اور واپس اندر بھاگ گئیں تاکہ اس کے لیے بستر تیار کرسکیں۔

          سب ان کے پیچھے اندر گئے۔ میں جم کے لیے باہر ہی رکا رہا۔ کچھ لوگ جم کو لٹکا دینا چاہتے تھے۔مگر کچھ ایسا نہیں چاہتے تھے، ان کا خیال تھا کہ جب تک اس کا مالک نہ آجائے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ وہ اسے گالیاں دے رہے تھے اور ایک دو بار اسے مارا بھی تھا۔ جم کچھ نہیں کر رہا تھا، نہ اس نے ظاہر کیا کہ وہ مجھے جانتا ہے۔

          وہ جم کو واپس جھونپڑے میں لے گئے اور اسے اسکے کپڑے پہنا دئیے اور پیروں کے ساتھ ہاتھوں میں بھی زنجیریں ڈال دیں اور کہا کہ اب اسے سوائے روٹی اور پانی کے کچھ کھانے کو نہیں دیا جائے گا۔ پھر ڈاکٹر وہاں آیا اور ان سے کہا کہ اس کے ساتھ برا سلوک نہ کریں۔ جب لڑکا بہت بیمار تھا تو مجھے گولی نکالنے کے لیے ایک مددگار کی ضرورت تھی تو یہ بھگوڑا نہ جانے کہاں سے رینگتا ہوا چلا آیا۔ اسے لڑکے کے لئے آزادی دے دینی چاہیے۔ میں نے اس سے اچھا تیماردار کبھی نہیں دیکھا ۔اس جیسا غلام ہزار ڈالر میں بھی سستا ہے ۔یہ بہت مہربان ہے۔میں ڈاکٹر کا بہت شکر گزار تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں خالہ سیلی کو جلد از جلد یہ بات بتا دوں گا۔ اس سے پہلے کوئی اور مشکل آئے۔ میں کہوں گا کہ میں یہ ذکر کرنا بھول گیا تھا کہ سڈ کیسے زخمی ہوا تھا۔

۔۔۔۔۔

          اگلی صبح میں نے سنا کہ ٹام کی حالت بہتر ہے۔ میں اس کے کمرے میں گیا اور اس کے جاگنے کا انتظار کرنے لگا۔ مجھے امید تھی کہ وہ اور میں کوئی ایسی کہانی بنا لیں گے جس پر وہ اعتبار کرلیں گے۔ لیکن اس سے پہلے ہی خالہ سیلی وہاں چلی آئیں۔ میں کچھ نہ کر سکا۔ ٹام جاگ گیا تھا اور اس نے بڑے فخر اور خوشی کے ساتھ شروع سے آخر تک پوری کہانی انھیں سنادی۔

          ” اچھا، چھوٹے بدمعاشو !یہ تم تھے؟“ وہ چلائیں۔ ” ہمیں پریشان اور خوفزدہ کرنے والے۔ واہ تم تفریح کررہے تھے۔ اب کرو تفریح کیونکہ میں نے تمہیں اور بھگوڑے کو پکڑ لیا ہے۔“

          ” کیا وہ فرار نہیں ہوا ؟“ ٹام چلایا۔

          ” نہیں، و ہ جھونپڑے میں ہے۔ اسے دوبارہ زنجیروں سے باندھ دیا گیا ہے۔ جب تک اس کے مالک نہیں آجاتے یا اسے بیچ نہیں دیتے۔ ہم اسے نہیں چھوڑے گے۔“ خالہ سیلی نے کہا۔

           ٹام بستر پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور مجھ پر چلایا۔ ” اسے ایک منٹ میں آزاد کراؤ۔ وہ غلام نہیں ہے۔“

          ”بچے تمہارا کیا مطلب ہے؟“خالہ سیلی نے پوچھا۔

          ” میرا مطلب ہے کہ مس واٹسن دو مہینے پہلے مر چکی ہیں اور انہوں نے جم کو آزاد کردیا تھا کیونکہ وہ اس منصوبے پر شرمندہ تھیں۔ جس پر جم کو دریا سے دور بیچا جانا تھا۔“ ٹام بولا۔

          ” پھر تم نے یہ پریشانی کیوں اٹھائی جب وہ پہلے ہی آزاد ہو چکا تھا ؟“

          ” میں بس کچھ مہم جوئی کرنا چاہتا تھا۔“

          ” اوہ خدایا آنٹی پولی!!!“

           وہ دروازے پر کھڑی تھیں اور اتنی ہی پیاری لگ رہی تھیں جتنی وہ ہوسکتی تھیں۔

          خالہ سیلی دوڑ کر ان کے پاس گئی اور میں پلنگ کے نیچے چھپ گیا۔ وہاں چھپ کر میں نے باہر دیکھا خالہ پولی اپنے چشمے میں سے ٹام کو دیکھ رہی تھیں۔

          ” تم ٹام !!! “ وہ چلائیں۔

          ” یہ سڈ ہے۔“خالہ سیلی نے کہا۔”ٹام کہاں گیا، وہ ایک منٹ پہلے یہاں تھا؟ “

          ” تمہارا مطلب ہک فن کہاں ہے۔“ خالہ پولی نے کہا۔

          ” ہک فن! پلنگ کے نیچے سے باہر آجاؤ۔“

           میں باہر آگیا۔ اسی وقت انکل سلاس کمرے میں آئے اور سب کچھ بتایا۔

          ” جب تم لوگوں نے لکھا کہ ٹام اور سڈ خیریت سے یہاں پہنچ گئے ہیں تو میں سمجھ گئی کہ یہ ٹام کی کوئی نئی شعبدہ بازی ہے۔ چنانچہ مجھے گیارہ سو میل کا فاصلہ طے کر کے آنا پڑا تاکہ حقیقت جان سکوں،کیونکہ تم نے مجھے خط کا کوئی جواب بھی نہیں دیا تھا۔ “

          ” لیکن مجھے تمہارا کوئی خط نہیں ملا۔ “ خالہ سیلی نے کہا۔

          خالہ پولی پلنگ کی طرف گھومیں اور بولیں۔

          ”تم ٹام ؟ “

          ٹام نے نظریں چرائیں اور بولا۔” آپ کے دو خط میرے بیگ میں ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ مشکل پیدا کریں گے۔ “

          ” میں نے تیسرا خط بھی لکھا تھا کہ میں آ رہی ہوں؟ “ خالہ پولی بولیں۔

          ” اوہ…. وہ کل مجھے ملا تھا، لیکن میں اسے بھی ابھی تک نہیں پڑھ سکی۔“ خالہ سیلی بولیں۔

۔۔۔۔۔

          ٹام نے مس واٹسن کے متعلق بات کی۔ خالہ پولی نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے۔ تمام پریشانیاں دور ہوچکی ہیں۔ جم اب آزاد غلام ہے۔

           مگر میں اب تک نہیں سمجھا تھا کہ ایک ذمہ دار لڑکے نے غلام کو آزاد کرانے میں کیوں مدد کی ہے۔ بعد میں جب ٹام اور میں اکیلے رہ گئے تو میں نے پوچھا فرار کے بعد تمہارا کیا منصوبہ تھا۔

          ٹام نے کہا اس کا منصوبہ یہ تھا کہ ہم جم کو لے کر دریا کے دہانے تک جائیں گے اور تمام راستے مہم جوئی کریں گے پھر اسے دخانی کشتی میں سینٹ پیٹرزبرگ فخر کے ساتھ واپس لے کر آئیں گے اور ہیرو بن جائیں گے۔

          ” ہم ابھی بھی کر سکتے ہیں۔ ہم جم کو زنجیروں سے آزاد کر لیں گے۔“

           جب کنبے کو یہ معلوم ہوا کہ جم نے کتنی محبت سے زخمی ٹام کی مدد کی تھی تو انہوں نے اس کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا اور جو اس نے مانگا وہ اسے کھانے کو دیا ہے۔

          پھر ہم اسے لے کر باہر آئے اور ٹام کو جاکر دیکھا۔ ٹام نے اسے چالیس ڈالر بطور اچھا قیدی بننے کے لیے دئیے۔ جم بہت خوش ہوا۔ اس نے کہا۔”ہک !میں نے تم سے جیکسن آئرلینڈ میں کہا تھا نا کہ میں امیر ہونے والا ہوں۔“

          ٹام چاہتا تھا کہ ہم تینوں کچھ اور مہم جوئی کے لیے بھاگ چلیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے مگر مجھے کچھ اور رقم کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب تک باپ میرے چھ ہزار ڈالر جج تھیچر سے لے جا چکا ہوگا۔

           ” نہیں، تمہارا باپ واپس نہیں آیا تھا۔“ ٹام نے کہا۔

          ” ہک ! وہ واپس نہیں آئے گا۔“ جم نے آہستہ سے کہا۔ ” تمہیں یاد ہے تم نے بہتے ہوئے گھر میں ایک آدمی کی لاش دیکھی تھی ،وہ باپ تھا۔“

           چنانچہ بس اب لکھنے کے لیے کچھ نہیں ہے ۔ٹام اب کافی بہتر ہے اور وہ اپنی گردن میں وہ گولی پہنے رہتا ہے جو اسے لگی تھی۔ لیکن میرا خیال ہے کچھ آرام کے بعد میں پھر گھومنے نکل جاؤں گا۔ کیونکہ خالہ سیلی کہتی ہیں کہ وہ مجھے گود لینے جارہی ہیں تاکہ مہذب بنا سکیں اور میں دوبارہ اس مقام پر نہیں جانا چاہتا، جہاں پہلے تھا۔

 ۔۔۔۔۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top