skip to Main Content

شہزادہ اور فقیر

ناول: The Prince and the Pauper
مصنف: Mark Twain
مترجم: ستار طاہر
۔۔۔۔۔
ایک ہی دن
سولہویں صدی کی دوسری چوتھائی کا زمانہ تھا،جب لندن جیسے قدیم شہر میں ایک بہت ہی نادار خاندان میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ خاندان کو غربت کی وجہ سے اب کسی بچے کی ضرورت نہیں تھی لیکن اس بچے کو دنیا میں آنا تھا،اس لیے وہ آ گیا۔
یہ موسمِ خزاں کا ایک دن تھا۔جب نادار ترین خاندان کے گھر پیدا ہونے والے بچے کے ساتھ،اسی دن،انگلستان کے حکمران ٹیوڈر خاندان میں ایک بچہ پیدا ہوا۔
یہ وہ بچہ تھا،جس کی پیدائش کے لیے ان گنت لوگوں نے دعائیں مانگی تھیں اور اس دن جب حکومت کا ولی عہد شہزادہ پیدا ہوا تو پورے انگلستان میں خوشیاں منائی گئیں،لوگ گلیوں،بازاروں میں خوشی سے نعرے لگانے لگے۔ہر شخص نے اس دن کام سے چھٹی کی اور کیا کوئی بڑا تھا یا چھوٹا،غریب تھا یا امیر،رقص کرنے لگا۔دعوتیں اڑانے لگا۔خوشی اور مسرت کا یہ جشن کئی دنوں تک جاری رہا۔ ہر گھر پر رنگارنگ خوبصورت جھنڈے لہرا رہے تھے۔رات کو شہر کے ہر بازار،گلی اور کونے گوشے میں آگ جلا کر روشنی کی گئی۔
پورے انگلستان میں اگر کوئی بات ہو رہی تھی تو وہ شہزادے کی تھی۔ایڈورڈ ٹیوڈر…شہزادہ،ولی عہد سلطنت، جو اس شور ہنگامے اور جشن سے بے خبر قیمتی ریشمی لباس میں لپٹا ہوا تھا،بڑے بڑے لارڈ اور بیگمات اس پر واری جا رہی تھیں۔
لیکن اسی روز غریب ترین خاندان میں پیدا ہونے والے بچے ٹام کینٹی کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔وہ جس خاندان میں پیدا ہوا،وہ بھکاری تھے اور اس کی پیدائش سے خوش نہیں تھے۔وہ چیتھڑوں میں لپٹا اپنوں ہی کی بے نیازی اور حقارت کا سامان بنا ہوا تھا…
ٹام کی ابتدائی زندگی
لندن اس وقت پندرہ سو برس پرانا شہر تھا،جس کی آبادی کئی لاکھ تھی۔ٹام جس علاقے میں رہتا تھا،وہ لندن کا سب سے نادار اور گندہ علاقہ تھا۔یہاں کے مکان دیکھنے میں بڑے،لیکن انتہائی خستہ حال تھے۔ٹام کے والدین جس علاقے میں رہتے تھے اسے اوفل کورٹ کہتے تھے۔یہ علاقہ غریبوں اور خستہ حال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔مکان کی تیسری منزل میں ایک کمرہ تھا،جس میں یہ سارا کنبہ رہتا تھا۔یہ انتہائی گندا اور ٹوٹا پھوٹا کمرہ تھا۔اس کی ماں اور باپ ایک کونے میں رکھے ایک ٹوٹے پھوٹے پلنگ نام کی چیز پر سوتے تھے۔ ٹام،اس کی دادی اور اس کی جڑواں بہنوں بیٹ اور نان کے سونے، اٹھنے، بیٹھنے کے لئے فرش تھا۔فرش پر ایک طرف گندی سوکھی گھاس بچھی تھی۔کمبل کے دو پھٹے پرانے ٹکڑے تھے۔یہ ان لوگوں کی ’’خواب گاہ‘‘ تھی۔
ٹام کی دونوں بہنیں خوش شکل تھیں لیکن گندی میلی رہتی اور چیتھڑے لٹکائے پھرتی تھیں۔ان کی عمر پندرہ سال ہو چکی تھی، لیکن وہ ان پڑھ اور جاہل تھیں۔ان کی ماں کی حالت بھی ایسی تھی۔لیکن ٹام کی دادی اور اس کے باپ کینٹی کے رنگ ڈھنگ ذرا مختلف تھے۔لباس تو ان کا بھی ایسا ہی تھا، لیکن جوں ہی موقع ملتا، شراب پینے سے باز نہ آتے تھے۔وہ دونوں بہت جھگڑالو تھے اور ہمیشہ کسی نہ کسی سے الجھتے اور لڑتے رہتے تھے۔
اس علاقے میں ایک بوڑھا نیک دل پادری اینڈریو بھی رہتا تھا۔وہ اس علاقے کے خستہ حال نادار بچوں کے کسی اور کام تو نہیں آ سکتا تھا مگر وہ کوشش کرتا تھا کہ یہ بچے کچھ لکھنا پڑھنا سیکھ جائیں۔دوسرے بچوں کو تو لکھنے پڑھنے میں کوئی خاص شغف نہیں تھا لیکن ٹام نے لکھنے پڑھنے میں دلچسپی لی تھی اور پادری اینڈریو نے اسے لاطینی میں کچھ لکھنا پڑھنا ضرور سکھا دیا تھا۔
اس علاقے کا مجموعی منظر بہت تکلیف دہ تھا۔بچے چیتھڑے لٹکائے آوارہ پھرتے دکھائی دیتے۔یہاں بھوک ہی نہیں تھی بلکہ لڑائی جھگڑے کا بھی راج تھا۔لوگ شراب پی کر دنگا فساد کرتے اور آئے دن ایک دوسرے کے سر پھوڑتے۔اگرچہ ٹام کی زندگی بہت دشوار اور مصیبتوں سے بھری تھی لیکن وہ ایک شاکر لڑکا تھا۔اس کا باپ اسے بھیک مانگنے کے لیے بھیجتا۔اکثر جب وہ رات کو خالی ہاتھ لوٹتا تو اس کا باپ اس کی پٹائی کرتا اور دادی لعنتیں بھیجتی۔
ٹام کو کم سے کم وقت میں جتنی بھیک ملتی،وہ اس پر شاکر ہوکر پادری اینڈریو کے پاس چلا جاتا۔اس سے لکھنا پڑھنا سیکھتا اور مزے مزے کی کہانیاں سنتا،یہ کہانیاں بادشاہوں، شہزادوں، قلعوں اور محلات کے بارے میں ہوتی تھی۔جب اسے موقع ملتا تو وہ پادری کی پرانی کتابوں کا مطالعہ کرنے لگتا۔اس سے سوال پوچھ کر ان باتوں کی وضاحت چاہتا، جو اس کی سمجھ میں نہ آتی تھیں۔
ان کہانیوں اور کتابوں سے ٹام کو بہت تسکین حاصل ہوتی۔وہ جاگتے میں خواب دیکھتا،ان خوابوں اور کتابوں کے ذریعے وہ شہزادوں کی عادات و اطوار کے بارے میں بہت کچھ سیکھ گیا تھا اور بعض اوقات اپنے ہم عمر ساتھیوں کو وہ اداکاری کرکے بتاتا۔خود شہزادہ بنتا اور شہزادوں کی مکمل نقل اتارتا۔اسے یہ کھیل بہت پسند تھا کہ وہ دربار لگائے۔خود شہزادہ یا بادشاہ بن کر فریادیوں کی فریاد سنے اور فیصلے کرے۔ اس کھیل میں وہ ہر حرکت شہزادوں جیسی کرتا۔
لیکن وہ ایک فقیر اور گداگر تھا۔زندہ رہنے کے لیے اپنے ظالم باپ کی مار پیٹ سے محفوظ رہنے کے لئے اسے بہرحال بھیک مانگنی پڑتی اور اسے بہت تکلیف ہوتی۔اس کی زندگی کا سب سے بڑا خواب اور سب سے جذباتی خواہش یہ تھی کہ وہ شہزادہ بن جائے۔اپنی اس آرزو کو اس نے اپنے اوپر مسلط کر لیا تھا۔سارا دن ننگے پاؤں، پھٹے پرانے کپڑوں میں سردی سے ٹھٹھرتا، گداگری کرتا اور جب رات کو اس کا باپ اسے پیٹتا اور دادی لعنتیں بھیجتی اور اسے کھانے کے لیے کچھ نہ دیا جاتا، تو وہ سوکھی گھاس کے بستر پر لیٹ کر خواب دیکھتا کہ وہ شہزادہ بن گیا ہے۔محل میں رہ رہا ہے۔شاندار لباس پہنے ہوئے ہے اور ملازم اس کے اشارے پر اس کے ہر حکم کی تعمیل کر رہے ہیں۔دنیا بھر کی خوشیاں اسے حاصل ہیں، ساری رات وہ جاگتے اور سوتے میں یہی خواب دیکھتا لیکن جب صبح اس کی آنکھ کھلتی تو وہ اپنے آپ کو پہلے سے بھی زیادہ بھوکا اور خستہ حال پاتا، تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے۔
شہزادہ اور فقیر
یوں دن گزرتے گئے۔ایک دن ٹام حسب معمول بھوکا اٹھا اور گھر سے نکل گیا۔وہ بے کار گھومتا رہا،چلتا رہا۔اگر کسی سے اس نے سوال کیا تو اس نے اسے دھتکار دیا۔یوں ہی گھومتے اور ذلیل ہوتے ہوئے وہ شاہی محل کے قریب جا نکلا۔ شاندار محل، بڑے بڑے دروازے جن کے دونوں طرف شیروں کے ہیبت ناک مجسمے اور انگریز شاہی خاندان کے علامتی نشان بنے ہوئے تھے۔
ٹام کے پاؤں وہاں جم گئے۔اس نے دل میں کہا۔ہاں یہ وہ محل ہے،جہاں بادشاہ رہتا ہے۔زندہ سلامت بادشاہ…شاہی محل کے شاندار دروازے کے ساتھ شاہی محافظ شاہی وردی پہنے کھڑے تھے۔کئی بڑے بڑے لارڈ اندر جا رہے تھے اور باہر آ رہے تھے۔
بے اختیار ہو کر وہ بھی دروازے کی طرف بڑھا۔اسے یہ بھی احساس نہ رہا کہ وہ میلا اور گندہ ہے۔اس نے چیتھڑے پہن رکھے ہیں۔وہ ننگے پاؤں ہے۔اس کے جسم سے بو آرہی ہے۔سب کچھ بھول کر وہ آگے بڑھا۔دم سادھے اشتیاق سے وہ آگے بڑھتا رہا۔وہ اپنے خیالوں میں اتنا گم تھا کہ اسے اس وقت ہوش آیا جب کسی نے اسے انتہائی کھردرے انداز میں، غصے سے اٹھا کر لوگوں کے اوپر سے، ایک طرف پھینک دیا۔وہ لوگ جو تماشہ دیکھ رہے تھے،وہ قہقہے لگانے لگے۔شاہی محافظ چیخ رہے تھے:
’’گداگر،فقیر…کہاں گھسے جارہے تھے…‘‘
عین اس وقت ولی عہد شہزادہ محل کے اندر خوبصورت باغ میں کھیل رہا تھا۔ اس کے ملازم اس کے اشاروں پر کام کر رہے تھے۔اس نے شاندار لباس پہن رکھا تھا اور ٹوپی جس پر کسی پرندے کے بہت رنگین، چمکدار اور قیمتی پر لگے ہوئے تھے۔ شہزادے کو اپنے ہم عمر لڑکے کے ساتھ محافظوں کا یہ سلوک پسند نہ آیا۔ وہ بھاگتا ہوا بڑے گیٹ کی طرف آیا تو محافظ چوکس ہو گئے اور باہر کھڑے لوگ نعرے لگانے لگے:
’’شہزادہ زندہ باد…شہزادہ زندہ باد۔‘‘
اور شہزادے نے حکم دیا:
’’گیٹ کھول دو اور اسے اندر لے آؤ۔‘‘
حکم کی فوری تعمیل ہوئی اور ٹام کو شہزادہ ایڈورڈ کے سامنے پیش کر دیا گیا۔شہزادہ ایڈورڈ نے ایک نگاہ میں اس کا جائزہ لیا اور کہا:
’’تم بھوکے اور تھکے ہوئے لگتے ہو۔ تمہارے ساتھ اچھا سلوک بھی نہیں ہوا۔ آؤ میرے ساتھ آؤ۔‘‘
کئی محافظ آگے بڑھے۔ شہزادہ ایڈورڈ نے ہاتھ ہلا کر انہیں پیچھے ہٹنے کا حکم دیا۔ وہ ایک طرف ہو گئے اور شہزادہ ٹام کو اپنے ساتھ لے کر محل کے اندر آ گیا، جس کی ایک ایک چیز اور شان و شوکت دیکھ کر ٹائم حیرت زدہ ہو رہا تھا۔
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’جناب ٹام کینٹی…‘‘
’’بڑا عجیب نام ہے۔کہاں رہتے ہو؟‘‘
ٹام نے اپنا پتہ بتایا۔تو شہزادہ ایڈورڈ نے پوچھا:
’’کیا تمہارے والدین ہیں؟‘‘
’’ہاں جناب، میرا والد بہت ظالم ہے اور دادی بھی…میری دو بہنیں بھی ہیں اور ماں بھی…‘‘
’’ظالم باپ…اور دادی…‘‘شہزادے نے کہا۔
’’ہاں جناب،وہ مجھے بہت پیٹتے ہیں…دادی بھی اور والد بھی…بے حد پیٹتے ہیں۔‘‘
شہزادے کو غصہ آگیا:
’’ہم انہیں سزا دیں گے…تمہاری ماں کا سلوک کیسا ہے؟‘‘
’’جناب وہ بہت نیک اور رحمدل ہے۔ وہ میرے لئے روٹی کا ٹکڑا بچا کر رکھتی ہے۔ میری دونوں بہنیں بھی بہت اچھی ہیں۔‘‘
’’کیا عمر ہے ان کی؟‘‘
’’پندرہ برس جناب۔‘‘
’’ میری بہن لیڈی الزبتھ کی عمر چودہ برس ہے اور میری کزن لیڈی جین کی عمر میری جتنی ہے۔وہ دونوں نوکروں کو بہت تنگ کرتی ہیں۔‘‘ شہزادے نے کہا۔
ٹام نے کہا:
’’جناب ہمارے ہاں نوکر نہیں، اس لیے وہ کسی کو تنگ نہیں کرتی ہیں۔‘‘
شہزادہ ایڈورڈ نے حیرت سے کہا:
’’تمہارے گھر میں نوکر نہیں…تو کام کاج کون کرتا ہے۔ تمہارے بستر کون بچھاتا ہے؟‘‘
’’جناب ہمارے ہاں بستر نہیں ہیں اور سب کام کاج ہم خود کرتے ہیں۔‘‘
’’تم اچھی گفتگو کرتے ہو۔ ‘‘شہزادے نے پوچھا۔ ’’کیا تم پڑھے لکھے ہو؟‘‘
’’جناب، مجھے علم نہیں کہ میں پڑھا لکھا ہو یا نہیں، مہربان پادری اینڈریو نے مجھے کچھ لکھنا پڑھنا سکھایا ہے۔‘‘
’’ لاطینی جانتے ہو؟’’
’’تھوڑی سی جناب۔‘‘
’’ اچھا تو تمہاری زندگی کیسے گزرتی ہے؟ ‘‘شہزادے نے پوچھا۔
’’بھوک… سردی… اور بچوں کے ساتھ کھیل کود۔ ہم بہت کھیلتے ہیں۔ خوب گھومتے ہیں۔‘‘
شہزادے کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ ’’اور بتاؤ؟‘‘
’’جناب ہم دوڑیں لگاتے ہیں کہ سب سے تیز کون دوڑتا ہے؟‘‘
’’واہ… یہ تو مجھے بہت پسند ہے۔‘‘ شہزادے نے کہا۔
گرمیوں میں ہم نہر اور دریا میں خوب نہاتے ہیں، چیختے ہیں، پانی اڑاتے ہیں۔ ہنستے ہیں۔‘‘
’’میرا دل بھی چاہتا ہے کہ میں بھی کم از کم ایک بار تو ایسے ہی کھیلوں کودوں، آزادی سے گھوموں پھروں، نہر اور دریا میں نہاؤں۔‘‘
ٹام نے کہا۔
’’جناب ہم خوب ناچتے ہیں۔مٹی سے کھیلتے ہیں۔ کیچڑ کی پیسٹریاں بناتے ہیں۔ ‘‘
شہزادے کے دل میں ہلچل مچی ہوئی تھی، اس نے کہا:
’’بس… بس…کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک بار میں تمہاری دنیا میں چلا جاؤں، تمہاری طرح گھوموں پھروں… آزادی سے اس محل کی چار دیواری سے باہر نکل جاؤں۔بس ایک بار…ایک بار۔‘‘
پھر شہزادے کو عجب سوجھی…اس نے ٹام سے کہا کہ وہ اپنا لباس اسے دے دے…
تھوڑی دیر کے بعد شہزادہ ایڈورڈ چیتھڑے پہنے ہوئے تھا اور ٹام نے اس کا شاہی لباس پہن رکھا تھا۔
وہ دونوں کمرے میں موجود شاندار قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہوگئے۔
حیرت سے انہوں نے پہلے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر آئینے میں، پھر ایک دوسرے کو اور پھر آئینے میں… وہ بہت پریشان اور حیران دکھائی دے رہے تھے۔ شہزادے نے جو چیتھڑے پہنے ہوئے تھا، کہا:
’’تمھارے بال میرے جیسے ہیں،میری جیسی آنکھیں،میری جیسی آواز،ایک سا قد اور ایک سے خدوخال۔کوئی بھی دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم دونوں میں سے کون کون ہے،بس اب تم میری جگہ لو اور میں تمہاری جگہ لے لیتا ہوں۔یاد رکھو کہ یہ عارضی بات ہے۔میں واپس آ جاؤں گا۔جلد ہی، ایک یا آدھ دن میں…‘‘
اچانک شہزادے کی نظر میز پر رکھی ایک سرکاری شاہی مہر پر پڑی۔اس نے اسے جلدی سے اٹھایا اور اسے ایک محفوظ جگہ رکھ کر کہا:
’’جب تک میں واپس نہیں آتا تم میرا یہاں شہزادہ بن کر انتظار کرو۔‘‘
اس سے پہلے کہ ٹام کچھ کہہ سکتا،شہزادہ چیتھڑے لہراتا بھاگا اور کمرے سے نکل گیا۔شاہی گیٹ کی سلاخوں کو پکڑ کر اس نے محافظوں کو حکم دیا:
’’دروازہ کھول دو…‘‘
محافظ نے دروازہ کھول دیا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ یہ شہزادہ ہے۔ اس نے ایڈورڈ کے کان کھینچے، پھر اسے اٹھا کر دور پھینک دیا۔ باہر کھڑا ہجوم قہقہے لگانے لگا۔
شہزادے نے چیخ کر کہا:
’’بدتمیزو، احمقو! تم اپنے شہزادے پر ہنس رہے ہو۔ میں مزہ چکھا دوں گا۔‘‘
لوگوں کے قہقہے اونچے ہوگئے…کچھ لوگ اس کے پیچھے لگ گئے اور اس کا مذاق اڑانے لگے۔
شہزادے کی مصیبتیں
بہت دور تک لوگ اس کا پیچھا کرتے اور اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ شہزادہ ننگے پاؤں تھا۔ اس کے پیروں سے خون بہنے لگا تھا۔ آس پاس کا ماحول دیکھ کر وہ کراہت محسوس کرنے لگا تھا۔ چلتے چلتے وہ ایک ایسے گرجے کے پاس پہنچ گیا، جو بہت بڑا تھا اور اس کے پاس چند مکانات تھے۔شہزادے نے اسے پہچان لیا کہ یہ وہ گرجا ہے جس کی شاہی حکم سے مرمت ہو رہی ہے اور جہاں نادار اور غریب بچوں کو رہائش فراہم کی جائے گی۔ وہاں ان گنت مزدور کام کرتے دیکھ کر شہزادے ایڈورڈ کا دل خوش ہوگیا۔
گندے بچوں کے ہجوم میں جو اوٹ پٹانگ کھیل میں مصروف تھے، شہزادہ ایڈورڈ کو نیا تجربہ ہوا۔ کوئی اسے اپنے ساتھ کھلانے کے لئے تیار نہ تھا۔جب اس نے انہیں بتایا کہ وہ شہزادہ اور ولی عہد ہے تو وہ اس کا مذاق اڑانے لگے۔ کچھ لڑکوں نے اسے گھسیٹ کر زمین پر گرا کر اچھی خاصی ٹھکائی بھی کردی۔کئی جگہ پر ایسا ہی ہوا۔شہزادہ ایڈورڈ کا جسم زخمی ہو گیا تھا۔ وہ کیچڑ میں لت پت ہو گیا تھا۔ سردی بھی بڑھ گئی تھی اور جب شام ہوئی تو بوندا باندی ہونے لگی۔ شہزادے نے سوچا۔ اب اسے آرام اور پناہ کی ضرورت ہے اور یہ پناہ اسے ٹام کے گھر ہی مل سکتی ہے، کیونکہ یہی ایک ٹھکانہ تھا، جس کا اسے نام آتا تھا۔ وہ چلتا رہا، گھسٹتا رہا، گندی تنگ و تاریک خم دار گلیوں میں چلتا رہا۔ ہر طرف غربت تھی اور بدبو۔ پھر اچانک کسی کے کھردرے سخت ہاتھوں نے اسے گریبان سے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا:
’’رات کے اس وقت واپس آئے ہو اور خالی ہاتھ… اگر آج میں نے تمہاری ہڈی پسلی ایک نہ کر دی تو میرا نام بھی کینٹی نہیں۔‘‘
زور لگا کر شہزادے نے اپنا گریبان چھڑایا اور کینٹی کو دیکھ کر بولا:
’’اچھا تو تم اس کے باپ ہو…‘‘
کینٹی نے دھاڑتے ہوئے کہا:
’’اس کا باپ…کیا مطلب؟میں تمہارا باپ ہوں…ذرا گھر چلو،پھر مزہ چکھاتا ہوں۔‘‘
’’میری بات دھیان سے سنو،میں پہلے ہی زخمی ہوں۔مجھے میرے والد بادشاہ معظم کے پاس لے چلو۔وہ تمہیں دولت مند بنا دے گا۔میری بات پر یقین کرو۔ہاں…میں جھوٹ نہیں بول رہا۔میں واقعی ولی عہد ہوں۔‘‘
کینٹی نے اسے غور سے دیکھا،کچھ حیران ہوا پھر اسے کالر سے پکڑ کر جھنجوڑتے ہوئے کہنے لگا:
’’اچھا تو تم،پاگل بن رہے ہو یا مجھے بنا رہے ہو۔جو بھی ہو۔تھوڑی دیر کی بات ہے۔ تمہاری دادی اور میں دونوں پہچان لیں گے کہ تم کون ہو۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ شہزادہ ایڈورڈ کو گھسیٹتے ہوئے لے گیا۔ شہزادے کا تو پہلے ہی برا حال تھا۔ اب وہ مزاحمت نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اسے گھسیٹتا گیا۔ لوگ اسے دیکھتے، قہقہے لگاتے۔ ایڈورڈ کا بہت برا حال ہو رہا تھا۔
شہزادہ پاگل ہو گیا
شہزادہ ایڈورڈ جب چلا گیا تو ٹام اکیلا رہ گیا۔وہ آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے شاندار شاہی لباس کا نظارہ کر کے خوش ہونے لگا۔کبھی وہ تلوار نیام سے نکال کر اداکارہ کرتا۔ کبھی ٹوپی اتار کر دیکھتا، جس میں چمکیلے قیمتی ہیروں کی کلغی بنی ہوئی تھی۔پھر اچانک اسے خیال آیا کہ شہزادے کو گئے کافی دیر ہوگئی ہے۔اگر کسی کو معلوم ہو گیا کہ میں ایک فقیر ہوں تو…
وہ گھبرا کر ٹہلنے لگا۔ اچانک دروازہ کھلا، پہلے چھ سپاہی اور پھر ان کے پیچھے دو ملازم لڑکے داخل ہوئے۔ انہوں نے اسے سلام کیا۔ ٹام نے دل میں کہا:
’’یہ میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ابھی مجھے لے جا کر موت کے گھاٹ اتار دیں گے۔‘‘
ایک خادم نے اعلان کیا:
’’لیڈی جین تشریف لاتی ہیں۔‘‘
ٹام کو یاد آگیا کہ شہزادہ ایڈورڈ نے اسے بتایا تھا کہ لیڈی جین اس کی کزن ہے۔ سپاہی باہر چلے گئے اور لیڈی جین شاندار لباس پہنے اندر داخل ہوئی۔ اس نے گھٹنوں کے بل جھک کر ٹام کو سلام کیا اور پھر یک دم پریشان لہجے میں پوچھنے لگی:
’’مائی لارڈ…کیا آپ کی طبیعت ناساز ہے۔‘‘
ٹام کا جی چاہا کہ وہ بتا دے کہ وہ ایک فقیر ہے اور فقیر کینٹی کا بیٹا۔ مجھ پر رحم کرو۔میں شہزادہ ایڈورڈ نہیں ہوں۔ پھر وہ بے اختیار لیڈی جین کے سامنے گھٹنوں کے بل جھک گیا۔ لیڈی جین حیران رہ گئی کہ آداب کے خلاف، ولی عہد اس کے سامنے جھک رہا ہے۔ وہ چیخی:
’’ولی عہد آپ اور میرے سامنے گھٹنوں کے بل جھک رہے ہیں۔ا وہ میرے خدا…‘‘
اور پھر وہ حیران پریشان وہاں سے بھاگ نکلی۔ ٹام بہت خوف زدہ ہوا اور کہنے لگا:
’’بس اب میرا خاتمہ ہوا۔ اب وہ آئیں گے اور مجھے لے جائیں گے۔‘‘
خوف سے اس کی جان نکلی جا رہی تھی۔ اسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ پورے محل میں ایک سرگوشی پھیل گئی ہے، چھوٹے سے چھوٹے نواب، لارڈ اور اس کی بیگم تک پہنچ گئی ہے۔ وہ سرگوشی جس نے طوفان برپا کر دیا، ایک جملے پر مشتمل تھی۔ ’’شہزادہ پاگل ہو گیا ہے…‘‘
ہر شخص سرگوشی میں یہی بات کر رہا تھا۔ہر شخص مایوسی کی تصویر بنا ہوا تھا اور پھر بادشاہ کا ایک فوری فرمان جاری کردیا گیا…
’’بادشاہ معظم کے نام پر…کوئی اس احمقانہ اور فضول موضوع پر گفتگو نہ کرے۔کوئی کسی سے یہ بات نہ کرے،نہ اسے پھیلائے ۔ بادشاہ کا حکم ہے کہ یہ بات باہر نہ نکلے۔فوراً عمل کیا جائے۔‘‘
ٹام پریشان حالت میں خود ہی کمرے سے نکل پڑا۔محل کی راہداریوں میں کھڑے لارڈ،بیگمات،شاہی ملازم اس کے آگے سر جھکانے لگے۔جھکے ہوئے سروں کے ساتھ وہ اسے محتاط آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ٹام پریشانی کی تصویر بنا ہوا تھا۔
ٹام کو علم نہیں تھا کہ اس کے پیچھے پیچھے شاہی طبیب اور خاص ملازم چلے آرہے ہیں۔
ایک اہم رتبے کا شاہی ملازم اس کے ساتھ کچھ فاصلہ چھوڑ کر چل رہا تھا۔ وہ گویا ٹام کو راستہ دکھا رہا تھا۔
اور پھر ٹام کے سامنے ایک بہت بڑے کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ اس کے اندر داخل ہو گیا۔ٹام نے دیکھا کہ تھوڑے فاصلے پر اسے ایک بڑے سے چہرے والا آدمی دکھائی دیا، جس کا لباس شاہانہ تھا۔ وہ بہت موٹا تھا۔ اس کا بہت بڑا سر سفید تھا اور بڑی بڑی مونچھیں بھی سفید تھیں۔ اس کی ایک سوجی ہوئی ٹانگ کے نیچے تکیہ رکھا ہوا تھا اور اس ٹانگ پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔ ٹام کو یہ سخت چہرے والا آدمی غور سے دیکھ رہا تھا۔
وہ انگلستان کا بادشاہ ہنری ہشتم تھا۔جب وہ بولا تو اس کا لہجہ نرم تھا:
’’ایڈورڈ،میرے شہزادے…کیسے ہو تم۔کیا تم اپنے اچھے بادشاہ کو جو تمہیں بے انتہا چاہتا ہے، دکھ دے رہے ہو۔‘‘
ٹام نے جب یہ الفاظ سنے اور اسے اندازہ ہوا کہ اس سے بات کرنے والا انگلستان کا بادشاہ ہنری ہشتم ہے تو وہ کانپ گیا اور آگے بڑھ کر بادشاہ کے قدموں میں گر کر کہنے لگا:
’’آپ شہنشاہ معظم ہیں تو پھر بلاشبہ میں مارا گیا۔‘‘
اس ایک جملے نے شہنشاہ معظم کو حیران کر دیا۔ وہ کھوئی کھوئی نگاہوں سے ٹام کو دیکھنے لگا۔ پھر اس نے ٹام کو مخاطب کرکے کہا:
’’افسوس میں نے سوچا تھا کہ افواہ جھوٹی ہے لیکن اب تو اس میں سچائی دکھائی دے رہی ہے۔ ‘‘اس نے لمبا سانس لیا پھر نرمی سے کہا۔ ’’اٹھو، میرے پاس آؤ۔اپنے والد کے پاس… میرے بچے…واقعی تم بیمار ہو۔‘‘
ملازم نے سہارا دے کر ٹام کو اٹھا کر انگلستان کے شہنشاہ معظم کے قریب کر دیا۔ ٹام کے خوف زدہ چہرے کو اپنے کانپتے ہاتھوں میں تھام کر محبت سے پوچھا:
’’میرے بچے…میرا دل نہ توڑنا۔ تم اپنے باپ کو پہچانتے ہو نا…کہو کہ تم مجھے پہچانتے ہو۔‘‘
ٹام نے جواب دیا:
’’ہاں آپ میرے لارڈ شہنشاہ معظم ہیں۔‘‘
’’ سچ کہا… گھبراؤ مت… یہاں کوئی ایسا نہیں جو تمہیں تکلیف پہنچا سکتا ہو۔ سب تمہیں پیار کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو سنبھالے رکھو۔ حواس میں رہو، میرے بیٹے۔‘‘
ٹام نے کانپتے ہوئے کہا:
’’مائی لارڈ…مجھے معاف کر دیجیے۔ میں سچ بول رہا ہوں۔ میں تو آپ کی رعایا میں سب سے کم تر ہوں۔ میں تو پیدائشی فقیر ہوں ۔ ایک حادثے کی وجہ سے میں یہاں آگیا۔ جس میں میری کوئی غلطی نہیں تھی۔ مجھے اس کم عمری میں موت سے بچا لیں۔ آپ کا ایک لفظ مجھے زندگی دے سکتا ہے۔‘‘
شہنشاہ انگلستان،ہنری ہشتم نے نرمی سے کہا:
’’موت…مرنے کی بات نہ کرو۔ اپنے دل کو دکھ نہ دو میرے بچے…تم نہیں مروگے۔‘‘ٹام اپنی زندگی کی بات سن کر بادشاہ کے قدموں میں گر کر کہنے لگا:
’’میرے شہنشاہ آپ نے مجھ پر ترس کھایا۔ مجھے زندگی بخش دی۔ ‘‘پھر وہ اٹھا اور وہ دونوں امراء جو اس کے قریب کھڑے تھے، انہیں مخاطب کر کے کہنے لگا:
’’سنا آپ نے، بادشاہ سلامت نے کہہ دیا ہے کہ میں نہیں مروں گا۔‘‘
دونوں لارڈ خاموشی سے اس کے سامنے جھکے۔ٹام ہچکچاتے ہوئے بادشاہ کی طرف مڑا اور ادب سے کہنے لگا:
’’کیا میں اب جا سکتا ہوں۔‘‘
’’اگر تم جانا چاہتے ہو تو ضرور جاؤ۔‘‘ بادشاہ سلامت نے کہا۔ ’’لیکن تھوڑی دیر رک جاؤ۔ بتاؤ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟‘‘
ٹام نے آنکھیں جھکا کر ادب سے جواب دیا:
’’ وہیں، جہاں میں یہاں اتفاقیہ آنے سے پہلے رہتا تھا۔ اپنے خستہ حال کمرے میں، جہاں میری ماں اور بہنیں رہتی ہیں۔ جہاں غربت ہے۔ جہاں ایسی شان و شوکت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ حضور… مجھے جانے دیں۔‘‘
بادشاہ کا چہرہ مضطرب ہوا۔ کچھ دیر وہ کچھ سوچتا رہا، پھر اس نے امتحان لینے کے لیے ٹام سے لاطینی میں ایک سوال پوچھا۔ جب ٹام نے اسی زبان میں جواب دیا تو بادشاہ سلامت کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ کمرے میں موجود شاہی طبیب اور امراء بھی خوش دکھائی دینے لگے۔ بادشاہ شاہی طبیب سے مخاطب ہوا:
’’میرا خیال ہے اس کا دماغ کچھ پریشان ہے، لیکن حملہ کاری نہیں ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
شاہی طبیب سرجھکا کر آداب بجا لایا پھر کہنے لگا:
’’حضور عالی کی رائے بالکل درست ہے۔ میرا ناچیز خیال بھی یہی ہے۔‘‘
بادشاہ سلامت اس جواب سے خوش ہوا اور مزید امتحان کے لیے ٹام سے فرانسیسی زبان میں ایک سوال پوچھا۔ ٹام کا چہرہ بے تاثر تھا۔ پھر اس نے ادب سے کہا:
’’ حضور مجھے یہ زبان نہیں آتی۔‘‘
بادشاہ سلامت بہت مایوس ہوا۔پھر اس نے اشارہ کیا اور ٹام کو قریب بلا کر اس کا سر اپنے سینے پر رکھتے ہوئے کہا:
’’تم جلدی ٹھیک ہو جاؤ گے۔ ڈرو مت۔ ‘‘پھر بادشاہ سلامت نے وہاں کھڑے افراد سے کہا:
’’تم سب توجہ سے سنو۔ میرا بیٹا پاگل ہوگیا ہے لیکن یہ مستقل حالت نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہر وقت پڑھتے رہنے سے اس کا دماغ متاثر ہوا ہے۔ کچھ عرصے کے لیے کتابوں اور اس کے استادوں کو اس سے دور رکھو۔ اسے کھیلنے دو، تاکہ اس کے دماغ سے بوجھ اتر سکے۔‘‘
اچانک بادشاہ سلامت کی آواز میں جلال پیدا ہوگیا۔ وہ کہنے لگا:
’’ اگر یہ پاگل بھی ہے تو بھی ہمارا ولی عہد ہے۔ ہمارا بیٹا ہے۔ انگلستان کا مستقبل کا شہنشاہ ہے۔ہمارا فرمان ہے کہ جو کوئی اس کی صحت کے بارے میں بات کرے گا، سلطنت کے خلاف سازش اور غداری کا ارتکاب کرے گا اور اسے اسی جرم کی سزا دی جائے گی۔ اسے زندہ جلا دیا جائے گا۔ پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔‘‘
پھر بادشاہ نے ایک نواب کی طرف دیکھ کر کہا:
’’لارڈ ہرٹفورڈ اس فرمان پر عمل کرائیں۔‘‘
لارڈ ہرٹفورڈ بادشاہ کے سامنے جھکا اور کہا:
’’شہنشاہ معظم…سلطنت کا ایک باغی… سلطنت کا ایک نام نہاد جانشین… زندان میں ہے۔وہ آپ کے فرمان کا…‘‘
بادشاہ سلامت نے تیزی سے کہا:
’’اس کا نام ہمارے سامنے نہ لو۔ پارلیمنٹ سے کہو کہ اس کی موت کا حکم جاری کرے۔ میری پارلیمنٹ کو میری خواہش سے آگاہ کردو کہ میں نارفوک کی موت چاہتا ہوں۔‘‘
بادشاہ سلامت کے چہرے پر شدید غصہ اور نفرت تھی۔ لارڈ ہرٹفورڈ نے ادب سے کہا:
’’بادشاہ سلامت کا فرمان پورا ہوگا۔‘‘
بادشاہ سلامت نے بوکھلائے ہوئے خوف زدہ ٹام کو پیار کیا۔ اسے تسلیاں دیں۔ اسے کھیل کود میں جی لگانے کا مشورہ دیا۔پھر کہا:
’’اپنے انکل لارڈ ہرٹفورڈ کے ساتھ جاؤ۔ وہ تمہارا پورا خیال رکھیں گے۔‘‘
ٹام نے ادب سے سلام کیا اور چل دیا۔
لارڈ ہرٹفورڈ، شاہی طبیب اور دوسرے لارڈ اس کے ساتھ ادب سے چلنے لگے۔
ٹام نے سوچا… میں ہمیشہ شہزادہ بننے کی آرزو کرتا تھا لیکن اب جب مجھے شہزادہ سمجھ لیا گیا ہے تو میں اتنا ناخوش اور خوف زدہ کیوں ہوں…
حقیقت کتنی تلخ ہے۔
کہاں سے کہاں
ٹام نے شہزادوں کے بارے میں کئی کہانیاں سنی تھیں۔ خاصا کچھ پڑھا تھا۔ خود بھی ان کے طور اطوار اور آداب کی اداکاری اور نقلیں کرتا رہا تھا لیکن اب وہ اپنے آپ کو انتہائی مشکل میں گرفتار پارہا تھا۔
لارڈ ہرٹفورڈ نے اسے بتایا کہ بادشاہ سلامت کا حکم ہے کہ جہاں تک اس کے بس میں ہو، وہ اپنی ذہنی حالت پر قابو پائے اور کسی پر اس کو ظاہر نہ ہونے دے۔ اپنے وقار کو بلند رکھے۔ اپنی یادداشت کو کریدے۔ باد شاہ سلامت اس کی مکمل صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔‘‘
ٹام نے جواب دیا:
’’میں بادشاہ سلامت کے ہر حکم کی تعمیل کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔‘‘
’’شہزادہ معظم، آپ اب اپنی کتابوں کو کچھ عرصے کے لیے بھلا دیں اور کھیل کود اور دوسری تفریحات میں دلچسپی لیں۔‘‘
ٹام کی جان شدید مصیبت میں پھنس گئی تھی۔ وہ مجبور تھا کہ بادشاہ سلامت کے احکام کی تعمیل کرے لیکن وہ شہزادہ نہیں تھا۔ کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ اس لیے اس سے پے در پے غلطیاں بھی ہو رہی تھیں اور لارڈ ہرٹفوڈ پوری کوشش کرتا تھا کہ ان غلطیوں پر کسی طرح پردہ ڈال دے۔ لارڈ ہرٹفورڈ نے اسے مشورہ دیا کہ وہ ولی عہد ہے۔ اس لیے اگر وہ کسی شخص سے ملنا نہیں چاہتا تو اسے شرف باریابی بخشنے سے انکار کر سکتا ہے۔ تاکہ شہزادے کی ذہنی اور ظاہری حالت کم سے کم لوگوں پر ظاہر ہو۔
ٹام کے لیے اپنی حیرت اور پریشانی پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا۔ معمولی سے معمولی کام کے لیے شاہی خدمت گزار تھے۔ وہ پانی کا گلاس تک بھی اپنے ہاتھوں سے نہیں اٹھا سکتا تھا۔ کوئی کپڑے بدلنے والا تھا،کوئی کپڑے پہنانے والا،کوئی جوتے اتارنے اور پہنانے والا ۔ ہر کام کے لیے ایک ملازم… وہ حیران تھا کہ کیا کرے۔ اس لئے بار بار اس کی زبان سے نکل جاتا تھا کہ وہ شہزادہ نہیں بلکہ ایک فقیر ہے اور فقیر کے گھر پیدا ہوا تھا…
لارڈ ہرٹفوڈ نے کئی بار اس نکتے پر غور کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس خیال کو دل سے جھٹک دیا اور یہی تسلیم کیا کہ شہزادہ ذہنی مریض بن گیا ہے لیکن جلدی ٹھیک ہو جائے گا۔
اسی روز جب ٹام کو پہلی بار شاہی کھانا کھانے کا اتفاق ہوا تو اس کے لیے اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ ایسی شان و شوکت، چاندی اور سونے کے ایسے برتن، ایسے لذیذ، خوش رنگ، مہنگے شاہی کھانوں کا تو وہ تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔ پھر ہر کھانے سے پہلے ایک شخص کھانے کو چکھتا تھا کہ کہیں زہر نہ ملا ہو۔ درجنوں ملازم اس اکیلے کو کھانا کھلانے پر مامور تھے۔ کئی بار اس کے منہ سے لقمہ گرا، کئی بار کھانے کی کوئی چیز میز یا لباس پر گر گئی۔ لیکن کسی نے اعتراض نہ کیا، نہ ہی ایسی نظروں سے دیکھا کہ ٹام کو شک ہو کہ اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ 
کیسے کیسے کھانے تھے، کیسی کیسی سوغاتیں تھیں… پہلے تو وہ جھجکتا رہا۔ پھر بے تکلفی سے کھاتا چلا گیا۔ جب کھانا ختم ہوا تو ایک شاہی ملازم اس کے سامنے ایک بڑا کھلے منہ والا سونے کا برتن لے کے آیا، جس میں خوشبودار پانی تھا۔ اس کے پیچھے ایک تولیہ بردار خادم کھڑا تھا۔ یہ پانی منہ صاف کرنے اور ہاتھ دھونے کے لئے تھا، لیکن بے چارے ٹام کو اس کی کیا خبر تھی۔وہ پریشانی سے اس برتن کو دیکھتا رہا۔ پھر اس نے اسے اٹھا کر ہونٹوں سے لگا کر گھونٹ بھر لیا…پھر بولا:
’’یہ مجھے اچھا نہیں لگا…‘‘
اس کی اس لاعلمی پر بھی کسی نے ہلکا سا ردعمل بھی ظاہر نہیں ہونے دیا۔ پھر وہ اسے اس کے شاہی سونے کے کمرے میں لے گئے۔ ایسا کمرہ تو اس نے خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک بار پھر ملازموں نے اس کا لباس بدلا اور اسے شب خوابی کا لباس پہنا کر بستر پر لٹا کر چلے گئے۔
کہاں وہ سوکھی گھاس کا ٹھنڈا بستر، پھٹے ہوئے کمبل کے ٹکڑے اور کہاں یہ شاہی خواب گاہ…!!
شاہی مہر
لارڈ ہرٹفورڈ جو شہزادہ ایڈورڈ کا ماموں تھا، اس نے اور لارڈ سینٹ جان نے ٹام کو ولی عہد سمجھ کر اس کے مرض کو چھپانے کے ساتھ ساتھ اس کا علاج کرنے کی بھی کوششیں شروع کر دیں۔ بہت سے امور میں وہ پریشان بھی ہو جاتے تھے۔ یہ درست تھا کہ سرکاری فرمان کے ذریعے ولی عہد کی دماغی بیماری کے بارے میں کوئی سرعام گفتگو نہیں کرتا تھا۔ لیکن یہ بات تو پورے لندن میں پھیل چکی تھی کہ ولی عہد شہزادہ پاگل ہو چکا ہے۔ ظاہر ہے کہ بہت سے لوگ اس پر یقین بھی کرنے لگے تھے۔ اس لیے یہ پوری کوشش کی جاتی تھی کہ محل میں آنے والے امراء، نوابوں اور اہم افراد کو شہزادے کی بیماری کا یقین نہ ہو۔ پھر ایک مشکل یہ تھی کہ لندن شہر کے معزز افراد نے ایک خاص دعوت کا اہتمام کر رکھا تھا۔چوں کہ بادشاہ سلامت ہنری ہشتم بیماری کی وجہ سے معذور ہو چکا تھا۔ اس لئے اس خاص دعوت میں ولی عہد شہزادہ ایڈورڈ نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرنی تھی۔
بادشاہ سلامت کی یہ آرزو تھی کہ اس دعوت میں شہزادے کا رویہ اور اطوار ایسے ہوں کہ لوگوں کے دلوں میں اس کے پاگل پن کے بارے میں جو باتیں پھیلی ہوئی ہیں، وہ دم توڑ جائیں۔ لارڈ ہرٹفورڈ اور لارڈ سینٹ جان بطور خاص اس تقریب کے لیے ٹام کو تیار کر رہے تھے کہ وہ اس تقریب میں جو لندن کے گلڈہال میں منعقد ہونے والی تھی، کوئی ایسی غلطی نہ کر بیٹھے کہ جس سے لوگوں کو یہ پختہ یقین ہو جائے کہ ولی عہد شہزادہ پاگل ہو گیا ہے۔
جہاں گلڈ ہال میں شہزادے کی آمد کے سلسلے میں شاندار تیاریاں ہو رہی تھیں، وہاں ٹام کو بھی دن رات تیار کیا جارہا تھا۔ ٹام اب بے حد مجبور ہو چکا تھا۔ اصلی شہزادہ ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔اس لیے اس نے نیک دلی سے یہ ارادہ کر لیا کہ اسے جو کہا جائے گا وہ اس کی تعمیل کرے گا تاکہ جب اصلی شہزادہ ایڈورڈ واپس آئے تو وہ بھی اسے داد دے کہ اس کی عدم موجودگی میں اس نے اس کا کردار خوبی سے ادا کیا تھا۔ایک بات تو اب تک ٹام پر واضح ہوچکی تھی کہ اس کی اصل حقیقت پر کہ وہ ایک گداگر اور فقیر ہے، کوئی یقین کرنے کے لئے آمادہ نہ تھا۔ اس لئے وہ اصلی شہزادے کی واپسی کی آس لگا کر اس کی غیر حاضری میں اس کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
O
اچانک بادشاہ سلامت ہنری ہشتم کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے بڑبڑاتے ہوئے اپنے آپ سے کہا:
’’پریشان کرنے والے خواب آتے ہیں۔ نیند میں بھی سکون نہیں ملتا۔ لیکن میں اس وقت تک نہیں مروں گا،جب تک وہ مجھ سے پہلے نہیں مر جاتا۔‘‘
اسے بیدار دیکھ کر ملازم خاص نے عرض کی کہ وزیر خاص ملاقات کے خواہاں ہیں۔ ہنری ہشتم نے حکم دیا کہ اسے فوراً اندر لایا جائے ۔
لارڈ نارفوک، ہنری ہشتم کے عزیزوں میں تھا۔ اگر اس کا اکلوتا بیٹا، ولی عہد شہزادہ ایڈورڈ مر جائے تو لارڈ نارفوک ہی بادشاہ بنتا۔ لارڈ نارفوک پر بادشاہ کو شبہ تھا کہ وہ اس کے خلاف بغاوت کر رہا ہے۔خطرناک سازش کر رہا ہے اس لیے اس نے اسے زنداں میں ڈال رکھا تھا۔اس کے بارے میں اس کی آرزو تھی کہ وہ اس سے پہلے دنیا سے اٹھ جائے۔ تاہم ہنری ہشتم براہ راست اس کی موت کی ذمہ داری اپنے سر لینا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے ہی وزیر خاص کو حکم دیا کہ وہ پارلیمنٹ سے لارڈ نارفوک کی موت کا پروانہ حاصل کرے اور پارلیمنٹ کو بتائے کہ یہ بادشاہ سلامت کی خواہش ہے۔
وزیر خاص نے حاضر ہو کر جھک کر سلام کیا اور پھر بادشاہ سلامت کو اطلاع دی کہ اس نے پارلیمنٹ کو رضامند کر لیا ہے کہ وہ لارڈ نارفوک کو غدار قرار دے کر موت کی سزا سنا دے۔
یہ خبر سن کر بادشاہ کا چہرہ کھل گیا۔
قاعدے کے مطابق ایسا جو فیصلہ پارلیمنٹ کرتی تھی۔ اس کی تصدیق بادشاہ اپنی شاہی مہر لگا کر کرتا تھا۔ ہنری ہشتم نے کہا:
’’میں خود پارلیمنٹ جاکر اس فیصلے پر شاہی مہر لگاؤں گا۔‘‘
لیکن فوراً اسے اپنی معذوری کا خیال آیا کہ وہ تو چل پھر نہیں سکتا۔ تو اس نے اپنے خوبصورت قیمتی ریشمی تکیوں کا سہارا لے کر اپنے آپ کو تھوڑا سا اوپر اٹھاتے ہوئے کہا:
’’افسوس، میری کتنی خواہش تھی کہ میں پارلیمنٹ میں جاکر خود اس فیصلے پر مہر لگاتا، لیکن میری بیماری اور معذوری میری اس خواہش کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے۔ خیر تم ایسا کرو کہ چند بہت اہم ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ دستاویز تیار کرکے ان کے سامنے اس پر شاہی مہر ثبت کر دو۔ یہ کام جلدی ہونا چاہیے۔بہت جلدی۔ تاکہ اسے جلد سے جلد انجام تک پہنچایا جائے۔‘‘
وزیر خاص نے عرض کیا:
’’حکم کی تعمیل ہو گی۔ وہ مہر مجھے دے دی جائے۔‘‘
بادشاہ نے غصے سے کہا:
’’کیا کہہ رہے ہو، وہ مہر تو تمہاری تحویل میں رہتی ہے۔‘‘
وزیر خاص نے عرض کیا:
’’شہنشاہ معظم، حضور کو یاد ہوگا کہ دو دن پہلے وہ مہر آپ نے مجھ سے لے لی تھی کہ آپ خود نارفوک کی موت کے پروانے پر اپنے ہاتھوں سے وہ شاہی مہر لگائیں گے۔‘‘
بادشاہ کا غصہ قدرے کم ہوا:
’’ہاں… میں نے مہر لی تھی… مگر اسے کس کے حوالے کیا تھا؟ یاد نہیں آرہا… میں بہت کمزور ہو گیا ہوں۔ میرا حافظہ جواب دے رہا ہے…‘‘
لارڈ ہرٹفورڈ بھی اس وقت موجود تھا۔ اس نے بڑے ادب سے کہا:
’’ شہنشاہ معظم اگر اجازت دیں تو میں آپ کو یاد دلاؤں کہ وہ شاہی مہر آپ نے ولی عہد کو میرے سامنے دی تھی کہ وہ اسے سنبھال کر رکھے…‘‘
’’بالکل ٹھیک… جاؤ جلدی سے جا کر ولی عہد سے وہ شاہی مہر لے آؤ۔‘‘
لارڈ ہرٹفورڈ بھاگا ٹام کے پاس پہنچا۔ لیکن وہ خاصی تاخیر کے بعد واپس آیا۔ اس کے چہرے پر مایوسی تھی اور اس کے ہاتھ خالی تھے۔اس نے بادشاہ سلامت سے کہا:
’’حضور شہنشاہ معظم، مجھے افسوس ہے کہ میں یہ بری خبر لے کے آیا ہوں کہ شہزادے کا حافظہ جواب دے چکا ہے اور اسے یاد ہی نہیں آ رہا کہ حضور نے شہزادے کو کب وہ شاہی مہر دی تھی۔ولی عہد کو یاد کرانے کی بہت کوشش کی گئی لیکن افسوس کہ انہیں کچھ یاد نہیں آ رہا۔‘‘
بادشاہ سلامت کا چہرہ پہلے طیش سے سرخ ہوا، پھر آہستہ آہستہ چہرے پر نرمی دکھائی دی اور کہا:
’’آہ میرا پیارا بیٹا، ولی عہد، اسے تنگ نہ کرو۔ میرا دل اس کی مصیبت کے بارے میں سوچ کر بھاری ہو جاتا ہے۔اسے جب یاد آئے گا تو وہ بتا دے گا۔تم مزید کریدنے کی کوشش کرکے اسے تکلیف نہ پہنچانا۔‘‘
بادشاہ سلامت نے آنکھیں بند کر لیں۔ پھر آنکھیں کھول کر سب کو دیکھا اور کہا:
’’ اب ہمیں انتظار کرنا ہوگا۔ مہر لگائے بغیر نارفوک کو موت کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ اب کچھ روز اور اسے زنداں میں رکھو۔‘‘
قیامت کی رات
کینٹی شہزادے کو اپنا بیٹا ٹام سمجھتے ہوئے گھسیٹتا ہوا اپنے کمرے میں لے آیا۔شہزادے نے اپنے آپ کو دنیا کے سب سے گندے اور بدحال کمرے میں پایا۔ اس نے دو لڑکیوں اور ایک ادھیڑ عمر کی عورت کو دیکھا تو فوراً سمجھ گیا کہ یہ ٹام کی بہنیں اور اس کی ماں ہے، اور پھر اس نے بوڑھی جھڑوس عورت کو دیکھا جو ٹام کی دادی تھی۔ کینٹی نے اسے فرش پر گراتے ہوئے کہا:
’’اب کہو تم کون ہو؟‘‘
شہزادے کا زخمی جسم درد کر رہا تھا۔ خون رس رہا تھا۔ اس نے جواب دیا:
’’تم انتہائی ظالم اور بد اخلاق شخص ہو۔ میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہوں اور پھر بتاتا ہوں کہ میں شہزادہ ایڈورڈ، انگلستان کا ولی عہد ہوں…‘‘
اس کے ساتھ ہی ٹام کی دادی اور اس کے باپ نے اس پر مکوں،گھونسوں اور لاتوں کی بارش کر دی۔ٹام کی ماں بھا گ کر آئی اور اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ وہ اسے بھی مارنے لگے… بے چاری عورت کہہ رہی تھی:
’’ہائے میرا بیٹا… مظلوم بیٹا۔ دیکھا، میں نہ کہتی تھی کہ زیادہ پڑھا نہ کرو۔ ان کتابوں کے اثر سے تمہارا دماغ چل گیا ہے۔‘‘
شدید درد اور تکلیف کے باوجود شہزادے نے ٹام کی ماں سے کہا:
’’تمہارا بیٹا بالکل ٹھیک ہے۔ وہ محل میں ہے اور میرے والد شہنشاہ معظم میری واپسی کے بعد اسے انعام سے نوازیں گے۔‘‘
بے چاری دکھیا ماں کے دل پر قیامت گزر گئی۔ اسے یقین ہو گیا کہ اس کا ٹام پاگل ہوگیا ہے، اسی لئے تو اپنے آپ کو بادشاہ کا بیٹا بتا رہا ہے۔
’’بیٹے ہوش میں آؤ، خدا کے لیے۔ تمہاری ماں کا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ جس نے تمہیں جنم دیا اور جو تم سے محبت کرتی ہے۔‘‘
شہزادے نے بڑے دکھی لہجے میں کہا:
  ’’تمہیں تکلیف پہنچا کر مجھے بہت دکھ ہوگا لیکن یقین کرو، آج سے پہلے میں نے کبھی تمہارا چہرہ نہیں دیکھا۔‘‘
دکھی عورت چہرے پر ہاتھ رکھ کر زار و قطار رونے لگی۔اس کا خاوند کینٹی شہزادے کا مذاق اڑانے لگا۔ اپنی بیٹیوں سے کہا:
’’ دیکھو تمہارے سامنے ولی عہد بیٹھا ہے۔ اس کے آگے گھٹنے کے بل جھک جاؤ۔‘‘ پھر وہ خوفناک قہقہے لگانے لگا۔
ٹام کی بہنوں اور ماں نے باپ سے التجا کی:
’’ اب اسے کچھ نہ کہو۔ یہ بہت مار کھا چکا۔اس کی حالت تو دیکھو۔ اب تم بھی آرام کرو۔ ٹام بھی صبح تک ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
کینٹی نے شہزادے کو ٹھوکر مارتے ہوئے کہا:
دھیان سے سنو، کل ہمیں اس کمرے کا کرایہ ادا کرنا ہے۔ چھ ماہ سے ہم کرایہ نہیں دے سکے۔ بتاؤ، آج کتنی بھیک لائے ہو۔‘‘
شہزادے نے پھر اسے جواب دیا:
’’میں نے کبھی بھیک نہیں مانگی۔ میں پھر تمہیں بتا رہا ہوں کہ میں بادشاہ کا بیٹا ہوں۔‘‘
کینٹی اسے پھر پیٹنے لگا۔ ٹام کی ماں شہزادے سے لپٹ گئی اور وہ شہزادے کو بچانے کے لیے خود مار کھانے لگی۔شہزادے نے اسے کہا:
’’نیک عورت، تم میرے لیے کیوں مار کھاتی ہو۔ اس سور کو آج اپنی سی کرلینے دو۔‘‘
سور کا لفظ سننا تھا کہ کینٹی اور اس کی ماں دونوں مل کر شہزادے کو پیٹنے لگے۔ انہوں نے اس کے ساتھ ہمدردی کرنے کے جرم میں دونوں بہنوں اور ٹام کی ماں کی بھی خوب پٹائی کی۔جب وہ خود ہی تھک گئے تو ہانپتے کانپتے سونے کے لیے چلے گئے…
جب دادی اور گھر کے مالک کے خراٹے گونجنے لگے تو بے چاری ٹام کی ماں اپنے درد چھپاتی شہزادے کے پاس آئی۔اسے پیار کیا۔اس کے لیے روٹی کا جو ٹکڑا چھپا کر رکھا تھا،اسے دیا۔اس پٹائی سے شہزادے کا جسم پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔اس کی بھوک مر چکی تھی۔وہ اس بہادر،مہربان اور صابر عورت سے بہت متاثر ہوا۔ کالی روٹی کے ٹکڑے کو چکھا تو اس کا منہ بن گیا۔
اس نے شہزادوں کے پورے وقار کے ساتھ ٹام کی ماں کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے اس کے لئے مار برداشت کی تھی۔بے چاری عورت کو یقین ہوگیا کہ اس کا بیٹا ٹام پاگل ہوگیا ہے۔وہ بے چاری چپکے چپکے آنسو بہاتی اپنی قسمت کا ماتم کرنے لگی۔
بہت دیر تک وہ جاگتی سوچتی رہی۔ پھر اچانک اس کے دل نے اسے شبہ میں ڈال دیا کہ یہ لڑکا جو ٹام کا ہم شکل ہے۔ ہو بہو ٹام ہے ۔ اس کا اپنا ٹام نہیں ہے…وہ اس کے لئے بہت محبت، بہت ترس اور رحم اپنے دل میں محسوس کر رہی تھی۔پھر بھی محسوس کرنے لگی کہ یہ اس کا بیٹا نہیں ہے…وہ سوچنے لگی تھی میں کس طرح جان سکوں گی کہ یہ میرا بیٹا ٹام نہیں ہے…پھر اسے اپنے بیٹے کی ایک عادت یاد آئی ۔ ہزاروں بار اس نے دیکھا تھا کہ جب سوتے میں ٹام کے چہرے پر روشنی آتی تو وہ سوتے میں اپنا ہاتھ اٹھا کر آنکھوں کے اوپر رکھ لیتا تھا۔یہ اس کی خاص عادت تھی۔
وہ آہستہ سے اٹھی۔ شہزادہ جو درد اور تھکان کے باعث سو گیا تھا۔ اس پر ایک نظر ڈالی اور پھر اس نے ہاتھ کا سایہ کر کے ایک موم بتی روشن کی اور اس کی روشنی شہزادے کے چہرے کے قریب کر دی… شہزادہ سویا رہا۔اس نے ٹام کی طرح اپنے ہاتھ کو اپنی آنکھوں کے سامنے نہ کیا۔ بے چاری عورت کا دل ڈوبنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے پھر یہی امتحان لیا۔ شہزادہ سوتا رہا۔
ہزاروں بار کی عادت کو اس نے نہ دہرایا تو بے چاری عورت کو یقین ہو گیا کہ یہ اس کا بیٹا ٹام نہیں ہے۔ وہ سوچنے لگی تو پھر میرا ٹام کہاں ہے اور یہ چیتھڑوں میں لپٹا ہوا زخموں سے چور چور لڑکا کون ہے۔ اور پھر وہ چونکی… شہزادہ سوتے میں کچھ کہہ رہا تھا۔ وہ اس کے قریب ہوگئی۔ شہزادہ سوتے میں اپنے ملازم ولیم کو بلا رہا تھا۔
’’کیا یہ خواب ہے ولیم… یا حقیقت۔ ایک فقیر شہزادہ اور ایک شہزادہ فقیر بن گیا…اب میں کیسے محل میں آؤں …آہ…ٹام نے میرے ساتھ دھوکا کیا۔اس نے محل میں کسی کو نہیں بتایا کہ وہ گداگر ہے۔اصلی شہزادہ نہیں…اسے اس کی سزا میں دوں گا…‘‘
اب بے چاری عورت کو یقین آگیا کہ یہ ٹام نہیں ہے…
اور پھر اسی وقت دروازے پر کوئی زور زور سے دستک دینے لگا۔ شہزادہ بھی اٹھ گیا۔ کینٹی چیخا:
’’ کون ہے؟‘‘
باہر سے آواز آئی:
’’ پولیس تمہیں پکڑ نے آ رہی ہے۔ تمہاری چوریوں کا پتہ مل گیا ہے۔ یہاں سے جتنی جلدی ہو سکے، بھاگ جاؤ۔‘‘
کینٹی نے آواز پہچان لی۔ یہ اس کے ساتھی کی تھی۔
پانچ منٹ کے بعد کینٹی اپنے کنبے کو گھسیٹتا ہوا مکان سے باہر لے آیا۔ اس نے شہزادے کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور اسے اپنے ساتھ گھسیٹ رہا تھا۔اس نے پھنکارتے ہوئے کہا:
’’پاگل، غور سے سنو، اپنا اصلی نام اب کسی کو نہ بتانا۔ جب تک یہ قانون کے کتے ہم سے دور نہیں ہوں گے، ہم اپنا کوئی دوسرا نام رکھ لیں گے۔اگر بھاگ دوڑ میں ہم بچھڑ جائیں تو لندن کے برج کے علاقے میں پہنچ جانا۔ سنا، وہاں سے کچھ دور ایک دکان ہے، وہاں پہنچ کر ہمارا انتظار کرنا…‘‘
اور پھر بھگدڑ مچ گئی۔ اس علاقے کے سارے جرائم پیشہ بھاگ رہے تھے۔ اس بھگدڑ میں شہزادے نے کینٹی سے اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگنا شروع کر دیا۔ یہ قیامت کی رات تھی۔محل سے نکلنے کے بعد شام سے اب تک اس پر کئی بار قیامت ٹوٹ چکی تھی۔
زخموں سے چور ہمت کر کے بھاگتا رہا۔ بھاگتے بھاگتے اسے خیال آیا کہ جیسے بھی ہو اسے گلڈ ہال پہنچنا چاہیے۔ جہاں اس کے اعزاز میں ضیافت دی جانے والی ہے۔ پھر اسے ٹام کا خیال آیا اور شہزادہ غصے سے دانت کچکچانے لگا۔اس فقیر نے میرے ساتھ دھوکا کیا۔ خود میری جگہ شہزادہ بن کر عیش کر رہا ہوگا۔ میں اسے ایسی سزا دوں گا کہ ساری عمر یاد رکھے گا۔ ہاں… وہ شہزادہ بن کر گلڈ ہال ضرور آئے گا…!
بادشاہ مرگیا، بادشاہ زندہ باد
گلڈ ہال روشنیوں سے جگمگ جگمگ کر رہا تھا۔انسانوں کا بڑا ہجوم وہاں جمع تھا۔دریا کے دونوں کناروں پر بھی لوگ جمع تھے۔ایک جشن کا سماں تھا۔
ٹام شاہی اور شاندار لباس پہنے گلڈ ہال میں موجود تھا۔یہ اس کے لئے ایک ناقابل یقین،حیران کن،شاندار منظر تھا۔اس کے دائیں بائیں شہزادی الزبتھ اور لیڈی جین بیٹھی تھیں۔لارڈ میئر نے اس کا ولی عہد کی حیثیت سے زبردست استقبال کیا تھا۔ لندن شہر کے معززین سرخ چوغے پہنے اس کے سامنے بار بار آ کر جھک کر سلام کر کے اپنی خوشی اور اپنی فرماں برداری کا ثبوت پیش کر رہے تھے۔ نقارچی نقارے بجارہے تھے۔ بگل بج رہے تھے۔ ٹام کو اونچی شاہی کرسی پر بٹھایا گیا۔ شہر کا بڑے سے بڑا آدمی اس کے حضور مؤدب کھڑا تھا۔
جب ٹام کی خدمت میں ولی عہد سلطنت کی حیثیت سے اس کا جام صحت پیش کیا گیا اور وہ آداب کے مطابق اٹھ کر کھڑا ہوا تو وہاں موجود ہر شخص اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ ولی عہد کی صحت کا جام دعائیہ کلمات سے پیا گیا اور ’’ولی عہد شہزادہ باد‘‘ کے نعرے لگائے گئے۔
اس کے بعد ولی عہد کی تفریح کے لیے طرح طرح کے کھیل تماشے اور پروگرام پیش کئے گئے۔ہر شخص ولی عہد کی خوشنودی حاصل کرنے کا خواہاں تھا اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ ولی عہد کے دل پر کیا بیت رہی ہے کیونکہ وہ تو ٹام تھا۔ایک فقیر اور اس نے تو خواب میں بھی کبھی ایسا نہیں دیکھا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ وہ سچ مچ شہزادہ بنے، بیٹھا ہوگا۔
اس کے سامنے جو کچھ ہو رہا تھا وہ حقیقت تھا لیکن اس کے لیے ناقابل یقین بھی تھا۔جب رقص شروع ہوا تو ٹام کے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہوگئیں۔ موسیقی کی ایسی آوازیں اس کے کانوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنی تھیں۔
ایسے لمحوں میں جبکہ ہجوم لطف اندوز ہورہا تھا، ولی عہد شہزادہ ایڈورڈ ہجوم میں راہ بناتا آگے بڑھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ چیخ رہا تھا:
’’ میں تمہیں سچ کہہ رہا ہوں کہ میں ولی عہد ہوں۔‘‘
لوگ اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ گندے چیتھڑوں میں ملبوس گندہ خستہ حال لڑکا دعویٰ کر رہا تھا کہ وہ ولی عہد ہے۔ وہ اس کو تنگ کر رہے تھے۔ ہاتھ بھی چھوڑ دیتے تھے۔ ولی عہد اپنے آپ کو انتہائی بے بس اور مجبور محسوس کر رہا تھا۔ وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا:
’’کوئی میری بات نہیں سنتا۔ کوئی نہیں جو میرا سہارا بنے… لیکن میں سچ کہتا ہوں۔ میں ہی ولی عہد ہوں۔‘‘
اس وقت جبکہ لوگ اس کو چھیڑ رہے تھے۔ مار رہے تھے۔ اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ ایک شخص آگے بڑھا۔ اس کا جسم مضبوط تھا۔ وہ ایک لمبا شخص تھا۔ اس نے جو لباس پہن رکھا تھا، وہ بہت قیمتی کپڑے کا تھا لیکن کثرت استعمال سے میلا ہو کر پھٹنے والا ہو رہا تھا۔اس کا ہیٹ میلا اور پچکا ہوا تھا۔ اس کی ظاہری حالت بتاتی تھی کہ وہ ایک ایسا جواں مرد ہے جو کبھی بہت خوش حال اور امیر تھا لیکن اب وہ حالات کی گردش کے ہاتھوں خستہ حال ہو گیا ہے۔
وہ شخص مائیلز ہینڈن تھا۔ ایک ایسا شخص جسے اپنوں نے اس حال کو پہنچا دیا تھا۔ وہ آگے بڑھا۔ اس نے شہزادے کو تنگ کرنے والے لوگوں کی گرفت سے نکال کر بلند آواز میں اعلان کیا:
’’تم شہزادے ہو یا نہیں لیکن میں نے دیکھ لیا ہے کہ تم ایک بہادر لڑکے ہو۔اپنے آپ کو اکیلا نہ سمجھو۔میں تمہارا دوست ہوں اور میں ثابت کردوں گا کہ میں تمہارا سچا دوست ہوں اور میں دیکھوں گا کہ اب کون ہے جو تمہارا مذاق اڑاتا ہے اور تمہیں تکلیف پہنچاتا ہے۔ میرے دوست تم اب خاموش رہو کہ میں آگیا ہوں اور میں تمہارا دوست ہوں۔‘‘
ہجوم میں سے کوئی چیخ کر بولا:
’’لو بھئی ایک اور شہزادہ آگیا۔اس کی حالت تو دیکھو۔‘‘
ایک دوسرے نے طنز کیا۔’’جیسا وہ شہزادہ ویسا یہ بھکاری شہزادہ۔‘‘
وہ شہزادے کو پھر چھیڑ نے اور مارنے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ ہینڈن نے نیام سے تلوار نکالی اور بولا:
’’خبردار جو کسی نے اسے چھونے کی کوشش کی۔‘‘
ایک شخص ہنستا ہوا آگے بڑھا تو ہینڈن نے اسے سمجھایا لیکن وہ شہزادے کی طرف بڑھتا گیا۔ہینڈن نے تلوار سے اس پر وار کیا تو وہ دھڑام سے ہجوم کے درمیان گرا اور لوگ چیخنے لگے:
’’قاتل کو پکڑو…جانے نہ پائے…اسے قتل کر دو۔‘‘
سارا ہجوم مشتعل ہو کر آگے بڑھنے لگا۔اتنے سارے لوگوں کا مقابلہ ممکن نہیں تھا۔ہینڈن واقعی مضبوط اور قوی آدمی تھا۔اس نے جلدی سے ایک ہاتھ آگے بڑھا کر ولی عہد ایڈورڈ کو اپنے بازو پر اٹھایا اور دوسرے ہاتھ سے تلوار لہرانے لگا۔ہجوم چھٹ گیا۔
ہینڈن شہزادے کو اٹھائے جس حد تک بھی ممکن ہوسکتا تھا، تیز بھاگنے لگا۔وہ جانتا تھا کہ وہاں اب رکنا اس کے اور اس لڑکے کے لیے انتہائی خطرناک ہوگا جس سے اس نے ابھی ابھی دوستی کا پیمان باندھا ہے۔
شاہی تقریب میں اس بدنظمی کو دیکھ کر فوج کے گھڑسوار دستے نے حرکت کی کہ ہجوم کی بدنظمی پر قابو پایا جاسکے…
یہ ہینڈن کے لیے اچھا موقع تھا۔اس کی رفتار تیز ہو گئی اور وہ شہزادے ایڈورڈ کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔
عین اس وقت گھوڑے پر سوار ایک شخص نمودار ہوا۔وہ اونچی آواز میں کہہ رہا تھا:
’’راستہ دو…میں شاہی قاصد ہوں۔‘‘ 
اسی لمحے تک ہینڈن شہزادے کو لے کر وہاں سے نکل چکا تھا۔
اور پھر شاہی قاصد کو آگے بڑھنے کے لیے راستہ دیا گیا۔لوگ خاموش ہوگئے۔وہ جاننا اور سننا چاہتے تھے کہ شاہی قاصد اس لمحے کیا پیغام لے کر آیا ہے۔وہ شاہی قاصد اونچی مسند پر پہنچا اور اس نے بلند آواز میں اعلان کیا:
’’بادشاہ سلامت مر گئے۔‘‘
سب لوگوں نے یہ خبر سن کر اپنے سر بادشاہ سلامت ہنری ہشتم کے احترام میں جھکا لیے۔چند لمحوں کی گہری خاموشی کے بعد کسی نے نعرہ لگایا:
’’نیا بادشاہ زندہ باد۔‘‘
O
بے چارے ٹام کے لیے یہ پھر ایک بے حد مشکل وقت تھا۔بڑے لارڈ اور شہر کے معززین اس کے سامنے آ کر جھک رہے تھے۔ اس نے لارڈ ہرٹفورڈ کی طرف دیکھا۔جس نے ٹام کی پریشانی بھانپ کر اس کے کان میں آہستہ سے کہا:
’’اب آپ ولی عہد نہیں ہیں بلکہ اپنے والد بادشاہ ہنری ہشتم کی وفات کے بعد اب آپ انگلستان کے بادشاہ اور حکمران ہیں اور آپ کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ اب قانون ہے۔ انگلستان کے نئے بادشاہ کی حیثیت سے آپ پہلا حکم جاری کریں۔‘‘
ٹام کے لیے یہ سب کچھ پھر حیران کن اور ناقابل یقین تھا۔تاہم لارڈ ہرٹفورڈ بار بار اشارہ کر رہا تھا کہ وہ اپنا پہلا حکم اسی تقریب میں صادر کرے۔ٹام سوچنے لگا۔محل میں شہزادہ ایڈورڈ کی جگہ رہتے ہوئے اس نے ایک بات بہت غور سے سنی اور سمجھی تھی کہ لارڈ نارفوک نے کوئی سازش نہیں کی تھی اور بادشاہ ہنری ہشتم کو اس سے ذاتی دشمنی پیدا ہو گئی تھی، اس لئے اس نے اس کی موت کا فرمان پارلیمنٹ سے منظور کرا دیا تھا۔ٹام کے کان میں یہ بات بھی پڑ چکی تھی کہ اگر شہزادہ ایڈورڈ کو کچھ ہو جائے تو پھر تخت کا وارث نارفوک ہوگا۔لیکن اب چونکہ وہ شہزادہ ایڈورڈ کی جگہ فرائض انجام دے رہا تھا اور اب لارڈ نارفوک کے بادشاہ بننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اور انگلستان کی رعایا کی اکثریت لارڈ نارفوک کو بے گناہ سمجھتی تھی، اس لئے ٹام نے اپنا پہلا فرمان اس کے بارے میں جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس نے لارڈ ہرٹفورڈ سے پوچھا:
’’کیا واقعی میں جو کہوں گا، وہ پورا ہوگا۔‘‘
’’ہاں بادشاہ سلامت،آپ کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ حکم اور قانون کا درجہ رکھتا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے تو میں پہلا حکم جاری کرتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر ٹام نے اپنا گلا صاف کیا۔چاروں طرف دیکھا اور اونچی آواز میں بولا:
’’اب انگلستان میں خون نہیں بہایا جائے گا۔میرا پہلا حکم یہ ہے کہ لارڈ نارفوک کی موت کی سزا کا فیصلہ منسوخ کیا جاتا ہے۔‘‘
ہجوم نے یہ الفاظ سنے اور پھر انہیں کئی لوگوں نے دہرایا اور سب لوگ خوش ہو گئے۔وہ نئے بادشاہ کی دانائی اور امن پسندی سے خوش ہو کر نعرے لگانے لگے:
’’بادشاہ انگلستان،بادشاہ معظم ایڈورڈ،زندہ باد۔‘‘
بادشاہ اور اس کا دوست
ہجوم سے نکل کر اپنا تعاقب کرنے والوں کو پیچھے چھوڑ کر وہ لندن کی تنگ گلیوں سے گزر رہے تھے، جب ایڈورڈ نے ان نعروں کی آواز سنی۔ اس نے اپنے دل میں کہا:
’’تو میں بادشاہ بن گیا ہوں۔میں کیسے عجیب حالات سے گزر رہا ہوں لیکن میں بادشاہ بن گیا ہوں؟‘‘
ہینڈن کو کیا معلوم کہ وہ جس لڑکے کو ہجوم سے بچا کر نکال لایا تھا، وہ اس وقت ولی عہد تھا اور اب انگلستان کا بادشاہ بن چکا تھا۔وہ تو اسے اپنے ساتھ آگے ہی آگے لیے جا رہا تھا۔وہ لندن برج کے علاقے میں جا پہنچے۔جھاڑیوں سے دامن بچاتے وہ چلتے جا رہے تھے۔
یہ ایک عجیب و غریب علاقہ تھا۔لندن برج کا علاقہ،جہاں ٹوٹے پھوٹے مکان تھے۔چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں اور چاروں طرف غربت دکھائی دیتی تھی۔یہاں غربت کی گود میں بچے آنکھ کھولتے اور یہیں بڑے ہو کر مر جاتے۔یہ لوگ ہمیشہ نادار اور جاہل رہتے تھے۔ وہ جرائم بھی کرتے تھے۔کیوں کہ پیٹ تو بہرحال بھرنا ہی پڑتا ہے۔اس علاقے سے کچھ فاصلے پر جنگل تھا اور پھر دیہات کا علاقہ شروع ہو جاتا تھا۔اس علاقے کے غریب لوگوں پر شہر کی بجائے دیہات کے اثرات زیادہ گہرے تھے۔
ہینڈن اس علاقے میں واقع ایک سرائے میں رہتا تھا۔ایڈورڈ اور ہینڈن اس سرائے کے قریب تھے کہ ہینڈن کو اپنے عقب میں ایک آواز سنائی دی:
’’تو آخر کار تم آگئے…ہم تمہارا انتظار کر رہے تھے۔تم بہت ڈھیٹ ہو ۔ تمہیں ابھی اور سبق سکھانا پڑے گا ۔ تمہاری ہڈیوں کو پٹائی کی ضرورت ہے۔‘‘
ہینڈن سمجھ گیا کہ بات کرنے والا اس کے ساتھ آنے والے لڑکے سے مخاطب ہے۔ ہینڈن نے مڑ کر کہا:
’’اتنی تیزی نہ دکھاؤ۔ تم بہت سخت باتیں کر رہے ہو۔ اس لڑکے سے تمہارا کیا واسطہ ہے۔ کون ہو تم؟‘‘
’’کینٹی…‘‘ٹام کے والد نے جواب دیا:
’’ہمارے معاملے میں مداخلت نہ کرو۔سنو…یہ میرا بیٹا ہے۔‘‘
’’یہ جھوٹ ہے۔‘‘ایڈورڈ نے غصے سے کہا۔ہینڈن نے ایڈورڈ کی طرف دیکھا۔ جس لہجے میں اس نے کینٹی کو جھوٹا کہا تھا۔ اس سے ہینڈن بہت متاثر ہوا تھا۔
’’تم نے جو کہا وہ مجھے سچ لگتا ہے ۔ تم اس کے بیٹے ہو یا نہیں ؟ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ یہ شخص تمہیں ہاتھ تک نہیں لگا سکے گا۔تم اگر میرے ساتھ چلنا چاہتے ہو تو چلو۔‘‘
’’میں چلوں گا۔‘‘بادشاہ ایڈورڈ نے جواب دیا۔’’میں اسے نہیں جانتا اور میں اس سے نفرت کرتا ہوں۔ میں اس کے ساتھ نہیں جاؤں گا۔‘‘
’’بس تو پھر فیصلہ ہوگیا۔‘‘ ہینڈن نے کہا۔
’’میں دیکھ لوں گا کہ تم اسے کیسے لے جا سکتے ہو؟‘‘کینٹی نے کہا:
’’میں اسے طاقت سے اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔‘‘
ہینڈن نے اسی لمحے اپنی تلوار کے نیام پر ہاتھ رکھ کر کہا:
’’تو پھر تم اپنی طاقت آزما دیکھو ،یہ میری حفاظت میں ہے ۔اسے دنیا کی کوئی طاقت مجھ سے جدا نہیں کرسکتی اور پھر اس نے کہہ دیا ہے کہ وہ تمہارے ساتھ جانے کے لئے تیار نہیں ۔ طاقت آزمانا چاہتے ہو تو پھر آؤ سامنے۔ تمہارے لئے یہی بہتر ہوگا کہ تم فوراً یہاں سے دفع ہو جاؤ۔‘‘
کینٹی اس جانباز ہینڈن کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا ۔ اس کے تیور ہی خطرناک نظر آ رہے تھے ۔ وہ غصے میں بڑبڑاتا لعنتیں بھیجتا ایک طرف چلا گیا۔
ہینڈ ن، ایڈورڈ کو ساتھ لیے سیڑھیاں چڑھ کر سرائے میں اپنے کمرے میں پہنچا اور اپنے ملازم کو حکم دیا کہ وہ کھانا لے کر اوپر آ جائے آئے۔
اس کے کمرے کی حالت خراب تھی۔ پلنگ پرانا اور بھدا تھا۔ جو چند کرسیاں اور ایک میز تھی وہ بھی ٹوٹی پھوٹی اور پرانی تھی۔ شمعدان کی حالت بھی خستہ تھی اور موم بتیاں بھی سستی اور گھٹیا تھیں۔
ایڈورڈ جواب بادشاہ تھا، اس نے بھدے پرانے بستر پر قبضہ جمایا اور اس پر لیٹ گیا ۔ وہ بہت تھکا ہوا اور بھوکا تھا۔ ننگے پیر چل چل کر اس کے پاؤں زخمی ہوگئے تھے ۔کینٹی اور اس کی ماں کی پٹائی سے اس کا جسم دکھ رہا تھا۔ اس تمام خستہ حالی کے باوجود وہ بادشاہ تھا۔ اس نے بادشاہوں کی طرح ہیڈن کو حکم دیا:
’’جب کھانا لگ جائے تو مجھے جگا دینا۔‘‘اور یہ کہتے ہی وہ گہری نیند سو گیا۔
ہینڈ ن مسکر انے لگا۔ وہ اس لڑکے کی بہادری اور عادات پر حیران ہو رہا تھا۔ کس بے تکلفی سے اس نے اس کے بستر پر قبضہ جما لیا تھا، جیسے یہ اس کا اپنا بستر ہو ۔ پھر وہ کس طرح سے حکم دیتا ہے اور ذرا بھی تشکر اور احسان مندی کا اظہار نہیں کرتا ،جیسے میں نے اس کے لئے جو کچھ کیا ہے ،وہ میرا فرض تھا ۔ ہینڈن نے اپنے آپ سے کہا:
’’یقینا اس لڑکے کا دماغ چل گیا ہے، اس لئے تو اپنے آپ کو ولی عہد بتا رہا تھا۔ خیر یہ بہت بہادر ہے اور میں اس کا دوست اور محافظ بنوں گا۔مجھے یہ گستاخ اور بے تکلف لڑکا اچھا لگ رہا ہے ۔ میں جس حد تک ممکن ہو گا، اس کی ضرورتوں کا خیال رکھوں گا ۔ کوشش کروں گا کہ یہ جس بیماری میں مبتلا ہے، وہ دور ہو جائے ۔اس کا بیمار ذہن اسے یہ باور کرا چکا ہے کہ یہ شہزادہ اور ولی عہد ہے اور اب جب کہ بادشاہ سلامت فوت ہوگئے ہیں تو یہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھنے لگا ہے۔ یہ بھی خوب رہی۔‘‘
ہینڈن نے دل میں سوچا۔ سات برس ہو گئے مجھے اپنے گھر والوں کی کوئی خبر نہیں ملی۔ اگر میرے حالات ٹھیک ہوتے تو میں اسے اپنی جاگیر پر لے جاتا اور اسے کوئی تکلیف نہ ہونے دیتا اور اس کا علاج بھی کرواتا۔میں تو خود سات برسوں سے دربدر ہو چکا ہوں ۔ میں اپنے بھائی آر تھر سے بھی نہیں ملا…اور میرا دوسرا بھائی ہیو بڑا مکار ہے، وہ درندہ ہے۔ مجھے اس سے بھی نمٹنا ہے۔
ایک ملازم کمرے کے اندر داخل ہوا۔وہ کھانا لے کر آیا تھا۔اس نے کھانا میز پر چنا اور کرسیاں پاس رکھ کر چلا گیا۔اس نے دروازہ زور سے بند کیا تو بادشاہ ایڈورڈ کی آنکھ کھل گئی۔وہ ہڑ بڑا کر اٹھا اور چاروں طرف نگاہ ڈالتے ہوئے کہنے لگا:
’’آہ…کیسا برا خواب تھا۔‘‘
پھر اس کی نظر ہینڈن پر پڑی۔اور اسے یاد آیا کہ اس شخص نے اس کا ساتھ دیا ہے اور مہربانی کی ہے۔ایڈورڈ نرمی سے کہنے لگا:
’’تم نے میرے ساتھ اچھا سلوک کیا۔‘‘
پھر وہ اٹھا اور چلتا ہوا کمرے کے کونے میں گیا۔جہاں منہ دھونے کا بیسن تھا اور اس کے پاس کھڑا ہو گیا…ہینڈن نے کہا:
’’کھانا گرم ہے۔آؤ کھانا کھائیں۔تمہیں اب کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
لڑکے نے کوئی جواب نہ دیا۔بلکہ بڑی حیرت سے ہینڈن کی طرف دیکھا۔ہینڈن اس کی اس نگاہ سے حیران ہوا اور پوچھا:
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’میں ہاتھ منہ دھونا چاہتا ہوں۔‘‘
ہینڈن نے خوش مزاجی سے جواب دیا:
’’مجھ سے اجازت لینے یا پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہاں جو کچھ ہے اسے اپنا سمجھو اور استعمال میں لاؤ۔‘‘
اس کے باوجود جب وہ کھڑا رہا تو ہینڈن نے پوچھا:
’’اب کیا ماجرا ہے؟‘‘
ایڈورڈ نے اسے حکم دیا:
’’میرا ہاتھ منہ دھلاؤ…زیادہ باتیں نہ کرو۔‘‘
ہینڈن نے پہلے زوردار قہقہہ لگایا،پھر یکدم سنجیدہ ہوکر اپنے آپ سے کہا کہ یہ لڑکا بیمار ہے۔ویسے اس کی حرکتیں بالکل بادشاہوں جیسی ہیں،پھر وہ تیزی سے آگے بڑھا اور اس نے ادب و احترام سے ایڈورڈ کا ہاتھ منہ دھلایا۔ہاتھ منہ دھو کر ایڈورڈ میز کی طرف بڑھا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔
ہینڈن بھی کھانے کے لیے کرسی پر بیٹھا تو ایڈورڈ نے فوراً حکم دیا:
’’خبردار…اٹھ جاؤ…جانتے نہیں کہ بادشاہ سلامت کے سامنے نہیں بیٹھا جاتا۔‘‘
ہینڈن فوراً اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور اس نے دل میں کہا کہ یہ تو واقعی اپنے آپ کو بادشاہ سمجھنے لگا ہے لیکن میں اسے مایوس نہیں کروں گا۔ ہینڈن اٹھ کر ایڈورڈ کی کرسی کے پیچھے ادب سے کھڑا ہو گیا۔جیسا بادشاہ کے ملازم کھڑے ہوتے ہیں۔کھانا کھاتے ہوئے ایڈورڈ نے پوچھا:
’’تو تمہارا نام مائیلز ہینڈن ہے؟‘‘
’’ہاں حضور،میرا یہی نام ہے۔‘‘
’’میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے اپنی کہانی سناؤ۔کیا تمہارا تعلق اچھے خاندان سے ہے؟‘‘
ہینڈن نے ادب سے جواب دیا:
’’ہاں حضور،میرے والد ایک نواب ہیں…اور جاگیردار۔ہینڈن ہال،کینٹ کے علاقے میں ہماری جاگیر ہے۔‘‘
’’خوب…بیان کرتے رہو۔‘‘ایڈورڈ نے کہا۔
’’میرے والد بہت مہربان شخص ہیں۔میں لڑکا ہی تھا کہ میری والدہ کا انتقال ہوگیا۔میرے دو اور بھائی بھی ہیں۔آرتھر بڑا ہے،جو میرے والد کی طرح نیک اور فیاض ہے اور ہیو،دوسرا بھائی۔لیکن وہ بہت کمینہ، دھوکے باز،ظالم اور سانپ کی طرح زہریلا ہے۔وہ ہمیشہ سے ایسا ہے۔آخری بار کئی برس پہلے جب میں نے اسے دیکھا تو وہ انیس برس کا تھا اور اور ایک سانپ کی طرح ہی زہریلا تھا۔
میری ایک کزن ہے۔ایڈتھ اس کا نام ہے۔جب میں نے اسے آخری بار دیکھا تو وہ سولہ برس کی تھی اور اب اسے دیکھیںدس برس تو ہو گئے ہیں۔وہ بہت خوبصورت تھی۔ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے لیکن جب وہ پیدا ہوئی تو اس وقت سے اسے میرے بڑے بھائی آرتھر کے ساتھ منسوب کر دیا گیا تھا۔لیکن آرتھر کو ایک دوسری دوشیزہ سے محبت تھی۔
آرتھر کو امید تھی کہ کوئی ایسا موقع ضرور آئے گا کہ جب وہ والد سے بات کرکے اس دوشیزہ سے شادی کرنے کی اجازت حاصل کر لے گا،جسے وہ چاہتا ہے۔یہ ایڈتھ ہماری کزن ایک دولت مند ارل کی بیٹی ہے اور ساری جائیداد کی وارث بھی ہے۔ہیو اسے اس لئے چاہنے لگا کہ وہ اس کی جاگیر اور دولت پر قبضہ جمانا چاہتا تھا۔چونکہ ہیو چھوٹا ہے، اس لیے وہ ہمارے والد کا بڑا چہیتا تھا۔وہ والد کو ورغلاتا رہتا تھا اور ہمارے والد اس کی باتوں پر یقین کرتے تھے،کیوں کہ وہ بڑا چاپلوس ہے۔اسے میٹھی باتوں سے اپنا مطلب نکالنا آتا ہے۔میرا مزاج شروع سے ہی تیز ہے۔اس لئے والد میرے مزاج کی تیزی کی وجہ سے بھی مجھ سے کھینچے رہتے تھے۔ ادھر میرا چھوٹا بھائی ہیومیرے خلاف میرے والد کے کان بھرتا رہتا تھا۔ وہ میری چھوٹی سی غلطی کو پہاڑ بنا کر بتا تا۔ وہ جانتا تھا کہ آرتھر کو کسی اور سے محبت ہے۔ اس لئے وہ میرے خلاف باتیں کر کے یہ چاہتا تھا کہ کہیں میری اور ایڈ تھ کی شادی نہ ہو جائے۔
میرے والد نے میرے لئے یہ فیصلہ کیا کہ میں جنگوں میں حصہ لوں۔ گھر سے چلا جاؤں۔ اس طرح میرے مزاج کی تندی ختم ہو جائے گی اور میں دانا بن جاؤں گا۔ میں اپنے والد کے حکم کو ٹال نہیں سکتا تھا۔ میں تو دل سے چاہتا تھا کہ میرے والد کے دل میں میرے خلاف جو غلط فہمیاں پیدا کر دی گئی ہیں، وہ دور ہو جائیں۔ میرے والد نے مجھے تین سال کے لئے گھر سے بھیج دیا۔ میں نے ان تین برسوں میں کئی معرکوں میں حصہ لیا۔ کئی لڑائیوں میں بہادری کا مظاہرہ کیا۔ میری بدقسمتی کہ آخری معرکے میں مجھے دشمن نے قیدی بنالیا اور سات برس تک میں قید رہا۔ ایسی زمین دوز کوٹھڑیوں میں، جہاں تازہ ہوا بھی نہیں آتی تھی۔ بالآخر میں اپنی ہمت اور جرات سے فرار ہونے میں کامیاب ہو کر لندن پہنچا۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ ان دس برسوں میں ہمارے گھر اور خاندان پر کیا بیتی ہے۔میرے حالات ہیں۔ لیکن میں اپناحق حاصل کر کے رہوں گا۔حضور، بس میری اتنی ہی کہانی ہے۔‘‘
ایڈورڈ نے بڑے شاہانہ انداز سے کہا:
’’ واقعی تمہارے ساتھ زیادتی ہوئی لیکن میں تمہاری تمام مصیبتیں ختم کر دوں گا۔ یادرکھو یہ ایک بادشاہ کا وعدہ ہے۔‘‘
ہینڈن کی زندگی کی داستان سننے کے بعد ایڈورڈ پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے بھی اپنی پوری کہانی ہنڈن کو سنا دی کہ کس طرح وہ فقیر ٹام کے کپڑے پہن کر محل سے نکلا اور تب سے اب تک وہ کتنی مصیبتوں کا سامنا کر چکا ہے…
ہینڈن نے دل میں کہا:
’’کچھ بھی ہو یہ لڑکا ہے بہت ذہین۔ دیکھو تو کیسی زبردست کہانی گھڑ کر مجھے سنا دی ہے۔ یہ کتنا مظلوم ہے۔ دماغی بیماری نے اسے کیا سے کیا بنا دیا ہے۔ میں اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گا۔ حالات بہتر ہوتے ہی اس کا علاج کراؤں گا۔ مجھے یقین ہے جب یہ دماغی بیماری سے آزاد ہوا تو بڑا نام کمائے گا اور تب میں فخر سے کہہ سکوں گا کہ وہ بڑے نام والاشخص میرا بنایاہوا ہے۔‘‘
کم عمر بادشاہ کہہ رہا تھا:
’’ تم نے میری حفاظت کی۔ مجھے شرمندگی سے بچایا۔ بلکہ میری زندگی بچائی۔تم نے تاج برطانیہ کی حفاظت کی۔ اس کا تمہیں بہت بڑا انعام ملنا چاہیے۔ کیونکہ ایسی خدمت کا صلہ بڑا ہی ہوتا ہے۔ تم اپنی ایک خواہش بیان کرو۔ ہم اپنے شاہی اختیارات کو بروئے کار لا کر اسے پورا کریں گے۔‘‘
ہینڈن کا جی چاہا کہ وہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھنے والے اس لڑکے سے کہے کہ حضور بادشاہ سلامت، میں نے جو کچھ کیا۔ وہ میرا فرض تھا اور میں اس کا کوئی صلہ نہیں چاہتا۔ لیکن ایک انوکھا خیال اس کے ذہن میں آیا۔
وہ خود بہت تھکا ہوا تھا۔ اسے آرام کی ضرورت تھی اور چونکہ وہ لڑ کا اپنے آپ کو سچ مچ بادشاہ سمجھتا تھا، اس لئے وہ اس کی خوشی کے پیش نظر اس کے ساتھ یا سامنے بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ اس خیال سے ہی وہ کانپ رہا تھا کہ وہ کب تک اس کے سامنے کھڑارہا کرے گا۔ جب تک اس کا دماغ ٹھیک نہیں ہوتا۔ اس کی دلجوئی کے لئے اگر وہ کھڑارہا تو پھر اسے کبھی بیٹھنا نصیب نہ ہو گا۔اس لئے اس نے کہا:
’’حضور بادشاہ سلامت، میں تو آپ کی رعایا ہوں۔ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا، جس کا انعام مجھے ملے۔لیکن چونکہ حضور انتہائی فیاضی کا اظہار کر تے ہوئے اصرار فرمارہے ہیں، اس لئے میں اپنی یہ خواہش عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں کہ مجھے اپنے حضور میں بیٹھنے کی اجازت دیدی جائے۔ حتیٰ کہ جب حضور بادشاہ اپنا در بار لگائیں تو مجھے دربار میں بھی کرسی پیش کی جائے۔‘‘
یہ کہہ کر ہینڈ ن ادب سے گھٹنوں کے بل جھک گیا۔
کم سن با دشاہ ایڈورڈ نے شاہانہ انداز میں میں حکم دیا:
’’ اٹھ کر کھڑے ہو جاؤ۔ تمہاری خواہش انوکھی ہے۔لیکن ہم بادشاہ کی حیثیت سے وعدہ کر چکے ہیں،اس لئے تمہاری خواہش پوری کی جاتی ہے۔ تم ہی نہیں بلکہ تمہاری آنے والی نسلوں کو بھی جب تک انگلستان کی حکومت قائم ہے۔ ہمارے بعد میں آنے والے بادشاہوں کے حضور بیٹھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ہمارے دربار میں جب سب امراء، وزراء اور درباری کھڑے ہوں گے تمہیں اور تمہارے وارثوں کو بیٹھنے کے لئے کرسی دی جائے گی۔ ہمارا یہ فیصلہ انگلستان کی تاریخ کا حصہ بنے گا۔‘‘
ہینڈن نے اٹھ کر کم سن بادشاہ کا شکر یہ دا کیا اور دل میں کہنے لگا:
’’ میری چال کامیاب رہی۔ اب میری ٹانگوں کوتو آرام نصیب ہو گا۔ واقعی یہ لڑ کا اپنے آپ کو بادشاہ سمجھ رہا ہے۔ بہر حال یہ ہمیشہ میرے پاس رہے گا۔ میں اس کا خیال رکھوں گا۔ اس کی حفاظت کروں گا۔اور اس کا علاج کراؤں گا۔‘‘
ایڈورڈ غائب
کم عمر بادشاہ ایڈورڈ اور ہینڈن دونوں کو شدید نیند آ رہی تھی۔ ایڈورڈ پھر بے تکلفی سے بستر پر لیٹ گیا تھا۔ ہینڈن سوچ رہا تھا کہ میں کہاں سوؤں؟ کیا کروں؟ ایڈورڈ نے جیسے اس کے خیالات بھانپ لئے۔اس نے حکم صادر کیا:
’’ تم دروازے کے پاس سوؤ گے اور پہرہ بھی دو گے۔‘‘
ہینڈن نے سوچا، یہ تو پیدائشی بادشاہ لگتا ہے۔اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن دیکھا کہ ایڈورڈ گہری نیند سو گیا ہے۔ ہینڈن نے اپنے دل میں کہا کہ سات برسوں میں، میں بدترین حالات میں، زندان میں سویا ہوں۔اب کچھ دنوں کے لئے بستر پر نہ سوؤں گا تو میرا کچھ نہیں بگڑے گا۔البتہ اس بیمارلڑ کے کو آ را م مل جائے گا۔
وہ تھکا ماند ہ تو تھاہی،ایسی لمبی نیند سویا کہ دو پہر کے وقت آنکھ کھلی، دیکھا تو ایڈورڈ جاگ رہا تھا۔ سردی سے ہینڈن کا جسم اکڑ رہا تھا ۔ اس نے ایڈورڈ کو مخاطب کر کے کہا:
’’جناب، آپ ابھی سو جائیں۔ آپ کو نیند کی بہت ضرورت ہے۔ مجھے باہر کچھ ضروری کاموں کے لئے جانا ہے۔ آپ آرام کریں، میں جلدی لوٹ آؤں گا۔‘‘
ہینڈن نے دیکھا کہ ایڈورڈ پھر سو گیا ہے۔ وہ چپکے سے وہاں سے کھسک گیا۔ تیس چالیس منٹ کے بعد وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھوں میں ایڈورڈ کے لئے لباس پکڑا ہوا تھا۔ ایڈورڈ کو چیتھڑوں میں ملبوس دیکھ کر اسے بہت دکھ ہوا تھا۔ یہ لباس سستا تھالیکن مکمل اور نیا لباس تھا ۔اگر ہینڈن کے پاس پیسے ہوتے تو وہ اس کے لئے اچھا لباس خرید کر لاتا لیکن اس کا اپنا ہاتھ بہت تنگ تھا۔
یہ لباس وہاں رکھ کر وہ پھر چلا گیا۔ اور جب وہ دوبارہ واپس آ یا تو ایڈورڈ وہاں موجود نہیں تھا۔ ہینڈن نے آس پاس تلاش کیا پھر نیچے اتر کر سرائے کے مالک کو جا پکڑا اور اس سے بڑی سختی سے ایڈورڈ کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا:
’ ’آپ کے جانے کے کچھ دیر بعد ایک لڑکا آیا۔ اس نے مجھے کہا کہ آپ اس لڑ کے کو اپنے پاس بلوار ہے ہیں، جو آپ کے کمرے میں ہے۔ میں اس پیغام لانے والے لڑکے کے ساتھ گیا۔لڑکے نے اسے کہا کہ آپ اسے لندن برج کے آخری کونے میں بلا رہے ہیں اور وہ جلدی چلے۔ وہ اس پیغام لانے والے لڑکے کے ساتھ بڑبڑا تا ہوا چلا گیا۔‘‘
ہینڈن سمجھ گیا کہ یہ ایک چال چلی گئی ہے اور یہ اسی شخص کی چال ہے، جو ایڈورڈ کو اپنا بیٹا بتا رہا تھا۔ اس نے سرائے کے مالک سے پھر پوچھا کہ وہ پیغام لانے والا لڑکا اکیلا تھا یا اس کے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔اس نے جواب میں بتایا کہ وہ اکیلا تھا۔
پھر اسے کچھ یادآ یا اور کہنے لگا:
’’ہاں میں نے ایک فقیر کو بھی دیکھا تھا لیکن وہ دوسرائے سے دور رہا…‘‘
ہینڈن کا شبہ یقین میں تبدیل ہو گیا۔ وہ سرائے کے مالک کو کچھ ہدایات دے کر تیزی سے ایڈورڈ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔
ٹام کا گدا گر باپ کینٹی بڑے زوروں میں تھا۔ وہ گدا گروں کے خاص گروہ کوجمع کر چکا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے، جو گدا گری بھی کرتے تھے لیکن دراصل وہ چوری چکاری کو زیادہ تر جیح دیتے اور اس میں بہت طاق تھے۔اس خاص گروہ کے اپنے اصول تھے۔ اگر کوئی نافرمانی کرتا تو اسے سخت سزادی جاتی اور کوڑے مارے جاتے تھے۔ چونکہ گدا گروں کو ان کے اپنے جرائم کی وجہ سے پولیس تلاش کر رہی تھی، اس لئے وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر لندن برج کے اس علاقے میں آ چھپے تھے، جہاں سے دیہات بھی قریب تھے اور وہ دیہات میں چوری کرنے کا منصو بہ بنا چکے تھے۔ ٹام کے باپ نے گہری چال چلی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کو اسی گروہ کے ساتھ چوری کرنے کے لئے بھیجنا چاہتا تھا۔ وہ ایڈورڈ کو اپنا بیٹا ٹام سمجھتا تھا، اس لئے اس نے سرائے پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ جیسے ہی ہینڈن با ہر نکلا، اس نے ایک گدا گرلڑ کے کی ڈیوٹی لگا دی کہ وہ سرائے میں جا کر ایڈورڈسے کہے کہ اسے ہینڈن نے بلایا ہے اور وہ فوراً پہنچے۔ 
اس کی چال کامیاب رہی۔
ایڈورڈ جونہی سرائے سے باہر اس لڑکے کے ساتھ آیا۔ کینٹی نے اسے دبوچ لیا۔ اور پھروہ ایڈورڈ کو مارتا گھسیٹتا اپنے ساتھ لے گیا۔ ایڈورڈ پھر مصیبت میں پھنس گیا تھا۔
بادشاہ ٹام
ٹام اب ولی عہد نہیں رہا تھا۔ بلکہ وہ بادشاہ تھا۔ انگلستان کا بادشاہ…و ہ بھی حالات کے ہاتھوں یہ کردارادا کرنے پر مجبور تھا۔ وہ ایڈورڈ اصلی بادشاہ کا انتظار کرتا تھا۔ اب بھی کوئی یہ ماننے کے لئے تیار نہ تھا کہ وہ گدا گر ہے اور گدا گر کا بیٹا ہے۔ اس کی ایسی باتوں کو اس کے دماغ کی خرابی سے تعبیر کیا جا تا تھا۔ ویسے بھی اب وہ زیادہ ہوشمندی سے اپنا کر دار ادا کر رہا تھا۔اس لئے قریبی لارڈ اور بطور خاص لارڈ ہرٹفورڈ کا خیال تھا کہ بادشاہ اب ٹھیک ہو رہا ہے۔ اس کی یادداشت بھی بہتر ہوگئی ہوگی،اس لئے اس نے پھر ٹام سے شاہی مہر کے بارے میں پوچھا کہ وہ اس نے کہاں رکھ دی تھی۔ لیکن ٹام کو تو شاہی مہر کا علم ہی نہ تھا۔ اس لئے وہ اس کے بارے میں کیسے بتا سکتا تھا کہ وہ کہاں رکھی ہوئی ہے۔
ایک بار اس نے دیکھا کہ کئی خستہ حال عورتوں اور مردوں کو ہتھکڑیاں پہنائے سرکاری حکام کہیں لے جار ہے ہیں۔ ٹام نے حکم دیا کہ ان لوگوں کو اس کے سامنے پیش کیا جائے۔اس کا یہ حکم انوکھا تھا لیکن وہ اس کی تعمیل کرنے پر مجبور تھے۔
وہ سب اس کے سامنے کھڑے تھے۔عورتیں، مرد، سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے، ان کے چہروں پرموت کی زردی تھی۔ ٹام کو بتایا گیا کہ یہ سب لوگ مجرم ہیں۔ جنہوں نے مختلف جرائم کیے ہیں اور انہیں موت کی سزادی گئی ہے۔
ٹام نے جب ایک ایک کر کے ان مجرموں سے سوالات پوچھے تو اس کا دل ان کے ساتھ کی جانے والی بے انصافی پر رونے لگا۔ یہ لوگ غریب تھے۔ ان میں سے بہت سے ایسے تھے، جنہیں شبہے میں پکڑا گیا اور ضروری کارروائی کئے بغیر ہی موت کی سزا دیدی گئی تھی۔ افسروں کے رویے سے صاف ظاہر تھا کہ ان کے نزدیک ان غریبوں کی زندگی اور موت کوئی حیثیت نہ رکھتی تھی۔ ٹام کوفورا ًخیال آیا کہ وہ اس وقت بادشاہ ہے اور اس کا ہر حکم قانون کا درجہ رکھتا ہے۔ اس نے ان سب کو معاف کر کے آزاد کر دیا۔ اس کی اس حرکت کو بھی اس کے دماغ کی خرابی کا نتیجہ قرار دیا گیالیکن بادشاہ کے حکم کوٹا لانہیں جاسکتا تھا۔ 
وہ لوگ روتے ہوئے، دعائیں دیتے چلے گئے۔
ٹام بادشاہ نہیں تھا لیکن وہ اس وقت بادشاہ ہی سمجھا جا رہا تھا اور وہ بھی بادشاہت سے اب لطف اندوز ہونے لگا تھا۔ لیکن وہ اصلی بادشاہ ایڈورڈ سے کوئی غداری نہیں کر رہا تھا۔ وہ شاندار کھانے کھا تا۔ شاندارلباس پہنتا،شاندار پلنگ پر سوتا۔اس کے سینکڑوں ملازم تھے، جو اس کی خدمت کے لئے ہرلمحہ حاضر رہتے۔ بڑے بڑے لارڈ اس کا حکم بجالاتے تھے۔اس کے ایک اشارے پر موت کی سزا پانے والوں کو رہا کر دیا جا تا تھا۔ 
ٹام جوخودغریب تھا۔ جس نے خودغر بت دیکھی تھی،اب وہ غریبوں کے کام آ رہا تھا۔
زندگی کا نیا روپ
ایڈورڈ مجبور تھا۔
ایک معمولی سے شوق کی تکمیل کے لئے اس نے اپنی زندگی اجیرن کر لی تھی۔ وہ تو ٹام کے کپڑے پہن کر فقیر کے روپ میں ایک آدھ دن کے لئے لندن کے گلی کوچوں کی سیر کرنا چاہتا تھا اور عام بچوں کی طرح آزادی سے کھیلنا کودنا چا ہتا تھا لیکن اب وہ خود گدا گر سمجھ لیا گیا تھا، بلکہ چوروں اور مجرموں کے ساتھ رہنے پر مجبور تھا۔
ٹام کے باپ کینٹی نے اس کی خوب پٹائی کی۔ پھر اسے چالاک گدا گر چوروں کی منڈلی کے سپر دکر دیا اور حکم دیا کہ اس پر نگاہ رکھی جائے۔ اسے نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا جائے اور اس سے دیہات میں چوریاں کرائی جائیں…
ہینڈن جس وقت اسے تلاش کر رہا تھا، ایڈورڈ چوروں کے گروہ کے ساتھ دیہات میں پہنچ گیا تھا۔
وہ جو بادشاہ تھا، اس نے وہ کچھ دیکھا جو بادشاہ کی حیثیت سے بھی نہ دیکھ سکتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ دیہات کتنے گندے ہیں۔ دیہاتی کتنے غریب ہیں اور کیسے برے حال میں زندگی بسر کر تے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔اس نے دیکھا کہ جب چوروں کا گروہ کسی دیہاتی کے گھر میں داخل ہوتا ہے تو وہ کتنے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو کتنا مجبور اور بے بس پاتے ہیں اورلٹ جاتے ہیں۔ دیہات کے کسانوں کی غربت اور لا چاری دیکھ کر کم عمر بادشاہ ایڈورڈ کا دل رونے لگا لیکن وہ تو خود مجبور تھا۔ کوئی اس کی بات پر یقین نہیں کر رہاتھا اور اب تو وہ ایسے کڑے حالات سے گزر رہا تھا کہ اپنے لئے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ ہاں وہ دل میں ارادے باندھتا کہ جب و ہ محل میں پہنچے گا، جھوٹے دغا باز ٹام کو سزا دے کر خود تخت پر بیٹھے گا تو ان غریب کسانوں کے دکھوں کا مداوا کرے گا۔ ان کی زندگیوں کو آسودہ بنانے کی ہرممکن کوشش کرے گا۔
ایڈورڈ ہرلمحہ چوکس رہتا۔ تلاش میں رہتا کہ موقع ملے تو کسی طرح فرار ہو جائے۔
اور یہ موقع اسے ایک شام مل گیا۔ وہ چوروں کی منڈلی سے آنکھ بچا کر بھاگ نکلا۔ اسے نہ راستے کا علم تھا نہ منزل کا لیکن وہ جنگل میں بھاگتا چلا گیا۔ اس کی ٹانگوں نے جواب دینا شروع کر دیا۔ وہ ہانپنے لگا لیکن وہ بھا گتا رہا۔ وہ کہیں چھپنا، پناہ لینا اور آرام کرنا چاہتا تھا لیکن دور دور تک کوئی ایسی جگہ دکھائی نہیں دے رہی تھی۔اسی لمحے اسے ہینڈن کی یاد آئی۔ وہ دل سے دعا کرنے لگا کہ ہینڈن اس کی مدد کے لئے پہنچ جائے۔اسے کیا معلوم کہ ہینڈ ن خوداس کی تلاش میں اسی جنگل میں خاک چھان رہا تھا۔
اور پھر ایڈورڈ کو جنگل میں ایک چھوٹا سا گھر دکھائی دیا۔ وہ تیزی سے اس کی طرف لپکا۔ وہ جھونپڑے نما مکان میں داخل ہوا۔ جس کے پہلے کمرے میں اسے کوئی بھی دکھائی نہ دیا۔ کچھ دیر وہ اسی کمرے کے ننگے کھر درے فرش پر بیٹھا سانس لیتا رہا۔ اسے یہ بھی ڈر تھا کہ یہ گھر کسی مجرم کا نہ ہو، اور ایسا نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں۔ وہ بڑی احتیاط سے پنجوں کے بل خاموشی سے چلتا ہوا دوسرے کمرے کی طرف بڑھا۔
اس نے اس کمرے میں ایک راہب کو دیکھا۔
ایڈورڈ نے دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ ایک ایسے گھر میں آ نکلا ہے جہاں دنیا کوترک کرنے والا ایک مقدس راہب رہتا ہے۔ اس راہب کو جیسے اس کی آمد کا علم ہو گیا تھا۔اس نے ایڈورڈ کو دیکھتے ہوئے کہا:
’’اندر آ جاؤ لیکن اندر آنے سے پہلے اپنے سارے گناہ باہر چھوڑ آئو…کیونکہ تم جس زمین پر کھڑے ہو یہ مقدس اور پاک ہے۔‘‘
کم عمر بادشاہ ایڈورڈ اندر داخل ہوا۔ راہب اس کو گھور رہا تھا:
’’تم کون ہو؟‘‘
’’میں بادشاہ ہوں۔‘‘ ایڈورڈ نے جواب دیا۔
’’ خوش آمد ید بادشاہ…آگے آجاؤ۔‘‘ راہب عجیب حرکتیں کرنے لگا۔ اس نے آتش دان میں کچھ لکڑی ڈالی۔ ہاتھ ملنے لگا۔ یوں لگتا تھا جیسے اچا نک اسے بخار چڑھ گیا ہو۔ وہ کہہ رہاتھا:
’’ یہاں بہت سے لوگ پناہ لینے آئے لیکن وہ اس کے مستحق نہیں تھے۔ اس لئے انہیں یہاں سے نکال دیا گیا۔ تم کیسے بادشاہ ہو کہ تمہارا لباس پھٹا ہوا ہے۔ پھر بھی خوش آمدید…تم یہاں ٹھہر سکتے ہو۔ خدا کی عبادت کر سکتے ہو۔ ہم تمہیں کھانے کو جڑی بوٹیاں دیں گے اور تمہارے جسم سے برائی اور گناہوں کو نکالنے کے لئے، اسے پاک کرنے کے لئے روزانہ تمہارے جسم کی تواضح کوڑوں سے کر یں گے۔ ہم تمہیں پہننے کے لئے بالوں کا لباس دیں گے۔ یہاں تمہیں پینے کے لئے صرف سادہ پانی ملے گا۔ یہاں تمہیں سکون ملے گا۔ تمہارے سارے گناہ دھل جائیں گے۔ ‘‘
کم عمر بادشاہ ایڈورڈ خوفزدہ ہو گیا۔ راہب کا چہرہ بہت خوفناک تھا۔ وہ کمرے میں ادھرسے ادھر چکر کاٹ رہا تھا۔ ایڈورڈ نے کچھ کہنے کے لئے اس کی طرف دیکھا تو راہب نے کہا:
’’شش …میں تمہیں ایک راز بتاؤں گا۔‘‘
ایڈورڈ دلچسپی اور حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ راہب خاموشی سے چلتا ہوا کھڑکی کے پاس گیا۔اس نے کھڑ کی سے باہر جھانکا۔اس کے بعد بڑے پراسرار انداز میں ایڈورڈ سے کہا:
’’ میں فرشتہ ہوں۔‘‘
ایڈورڈ خوفزدہ ہو گیا۔اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ را ہب جو دنیا چھوڑ کر اس جنگل میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔ایک جنونی راہب ہے۔ ایڈورڈ اپنی قسمت کو کو سے بغیر نہ رہ سکا۔ پہلے وہ چوروں اور ا چکوں کے چنگل میں پھنس گیا تھا اور اب وہ ایک پاگل اور جنونی راہب کی قید میںتھا۔ راہب بولتا جار ہا تھا:
’’ تم سہمے ہوئے نظر آ رہے ہو۔ کیوں؟ سنو میں نے آسمانوں کی سیر کی ہے۔ میں فرشتہ ہوں۔ میں پلک جھپکتے میں آ سمانوں پر جا اور واپس آ سکتا ہوں۔ میرے ہاتھ کو پکڑو، ڈرونہیں،میں چاہوں تو پوپ بن جاؤں۔ جو چا ہے بن جاؤں۔‘‘
یکدم اس پر جیسے پاگل پن کا دورہ پڑا۔ وہ عجیب طرح سے بولتا، ہاتھ لہراتا، چیختا چلا تا۔ کمرے سے نکل گیا اور جاتے جاتے اس نے دروازہ بند کر نے سے پہلے کہا:
’’ تم یہیں ٹھہرو گے۔ میں تمہاری ایسی تواضح کروں گا جوتم عمر بھر یادرکھو گے، بس میںابھی آ سمانوں کا ایک چکر لگا کر آیا۔‘‘
ایڈورڈ بے حد خوفزدہ ہوا۔ اب وہ قیدی تھا۔ اور قیدی بھی ایک جنونی راہب کا۔ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ تھوڑی دیر میں راہب واپس آ گیا۔اس نے پوچھا:
’’کیا تم بادشاہ ہو؟ کہاں کے بادشاہ ہو؟‘‘
ایڈورڈ نے جواب دیا:
’’ہاں، میں انگلستان کا بادشاہ ہوں۔‘‘
’’انگلستان کا،تو کیا ہنری ہشتم مر گیا؟‘‘
’’ہاں افسوس کہ وہ انتقال کر گئے۔ میں ان کا بیٹا ہوں۔‘‘
راہب کا چہرہ غصے سے بھیا نک ہو گیا۔اس نے کہا:
’’کیا تم جانتے ہو کہ یہ ہنری ہشتم تھا جس کی وجہ سے ہم بے گھر ہو گئے۔‘‘
ایڈرورڈ بے چارہ کیا جواب دیتا۔ راہب جوش میں اٹھا۔ ادھر ادھر پڑی چیزوں کو یوں پھینکنے لگا جیسے کسی چیز کی تلاش میں ہو۔ پھر اس نے ایک بڑا چھرا اٹھایا اور مسکرانے لگا جیسے اسے جس چیز کی ضرورت تھی، وہ اسے مل گئی ہو۔ وہ اس چھرے کو تیز کر نے لگا۔ وہ بہت خوش تھا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ ایڈورڈ خوف سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اسے راہب کے ارادے بہت خطرناک لگ رہے تھے۔ جو بڑی خوشی سے چھرے کو پتھر پر رگڑتے تیز کرتے کہہ رہا تھا:
’’ یہ تیز ہورہا ہے۔ یہ بہت تیز ہورہا ہے۔‘‘
پھر وہ اچا نک غضب میں آ گیا:
’’یہ بادشاہ ہنری کا بیٹا ہے۔اس کے باپ نے ہمیں تباہ کیا۔اب وہ جہنم میں ہوگا۔اوراس کا بیٹا بھی۔‘‘
وہ زورزور سے ہنسنے لگا۔ پھر یکدم سنجیدگی سے کہنے لگا:
’’اگر وہ مر دود با دشاہ نہ ہوتا تو میں آج پوپ ہوتا۔ انگلستان کا سب سے بڑا پادری لیکن خیر۔ لیکن اب بھی کم نہیں۔ میں فرشتہ ہوں ۔‘‘
پھر وہ ہاتھ میں چھرا پکڑے اچھل کر کھڑا ہوا اور جہاں ایڈورڈ بیٹھا تھا اس کے پاس جا کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ وہ ہانپ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔ پھر بولا:
’’ آدھی رات ہو چکی…تم چیخو گے تو یہاں کون سنے گا؟‘‘
اور پھر اس سے پہلے کہ ایڈورڈ سنبھل سکتا۔ اس نے ایک رسی سے اس کے دونوںٹخنے باندھ دیئے۔ ایڈورڈ نے بہت کوشش کی کہ وہ کسی طرح بچ جائے لیکن نا کام رہا۔
اور پھر وہ چیخنے لگا…!
ہینڈن آ گیا
ایڈورڈ کی چیخیں دور دور تک پھیل گئیں۔ راہب دیوانہ ہو رہا تھا۔ وہ بادشاہ کے بیٹے، نئے بادشاہ کوقتل کر کے بدلہ چکانے کا پختہ عزم کر چکا تھا۔
جنگل میں ہینڈن نے چیخوں کی آواز سنی اور فوراً پہچان گیا کہ یہ چیخیں اسی لڑکے کی ہیں۔ جسے وہ تلاش کر رہا ہے اور جس کی حفاظت کی قسم اس نے خوداپنے آپ سے کھائی تھی۔ وہ چیخوں کی آواز کی طرف بھاگا۔ اور پھر جب وہ اس جھونپڑے نما مکان کے قریب پہنچا تو اس نے پھرچیخ سنی اور اس کے بعد سناٹا چھا گیا۔
ہینڈ ن نے بند دروازے کو زور سے کھٹکھٹانا شروع کیا۔ اسے علم نہ ہو سکا کہ اب چیخوں کی آواز کیوں نہیں آ رہی تھی۔ کیونکہ جنونی راہب نے ایڈورڈ کے منہ میں کپڑا ٹھونس کر اسے خاموش کر دیا تھا اور پچھلے دروازے سے جنگل میں ایک جگہ چھپادیا تھا۔ راہب نے دروازہ کھولا اور غصے سے پوچھا:
’’کیوں درواز ہ تو ڑر ہے ہو۔ کون ہوتم؟‘‘
’’ لڑ کا کہاں ہے؟‘‘ ہینڈن نے پوچھا۔
’’لڑکا، کون لڑکا، یہاں کوئی لڑکا نہیں ہے۔‘‘
ہینڈن نے اسے دھکا دے کر ایک طرف کیا اور تیزی سے اندر داخل ہوا۔اس نے پہلے کمرے کو دیکھا پھر دوسرے کمرے میں گھس گیا۔ اس کمرے میں بھی وہ لڑ کانہیں تھا۔
ہینڈن جہاں بے حد طیش میں تھا، وہاں حیران بھی ہو رہا تھا۔ اس نے راہب کو گریبان سے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا:
’’بتاؤ وہ لڑ کا کہاں ہے؟‘‘
راہب اسے سرخ سرخ آنکھوں سے گھور نے لگا۔
’’یہاں کوئی لڑکا نہیں ہے۔‘‘
ہینڈن نے ایک بار پھر تلاشی لی اور پھر اسے عقبی درواز ہ دکھائی دیا۔ وہ ا سے کھول کر باہر نکلا تو سامنے جنگل تھا۔ وہ ایڈورڈ کو پکارنے لگا۔ رسیوں میں بندھا ایڈورڈ ہینڈ ن کی آواز سن کر خوش ہو گیا۔ اس نے پوری طاقت سے اپنے آپ کو ہلا نا شروع کیا۔ یہ آواز سن کر ہینڈن اس طرف لپکا اور پھر تاریکی میں اس نے بندھے ہوئے ایڈورڈ کو تلاش کر لیا۔ اس نے جلدی سے اس کے ہاتھ پاؤں کھولے۔اس کے منہ سے کپڑا نکالا تو ایڈورڈ نے کہا:
’’ اچھے ہینڈن تم آ گئے…شاباش…تمہیں بادشاہ سلامت کی جان دوسری بار بچانے کا بھی بہت بڑا انعام دیا جائے گا۔‘‘
ہینڈ ن دل میں ہنسا، اب بھی یہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہے۔اس نے کہا:
’’بادشاہ سلامت آپ کی خدمت کرنا میرا فرض ہے۔‘‘
قیدی بادشاہ
اور پھر اچانک انہوں نے اپنے آپ کو لوگوں میں گھرے پایا۔ بہت سے لوگ ایک سپاہی کے ساتھ جانے کیسے یکدم وہاں آ گئے تھے۔ ایک عورت چیخ رہی تھی:
’’ میرا سب کچھ چوری ہوگیا…ہائے یہی چور ہیں۔‘‘
ایڈورڈ کو دیکھ کر اس عورت نے چیخ ماری اور بولی:
’’یہ لڑ کا بھی چوروں کے ساتھ تھا۔ جنہوں نے میرے گھر چوری کی۔‘‘
وہ عورت ٹھیک کہتی تھی۔ جب اس کے ہاں چوری کی گئی تو ایڈورڈ بھی چوروں کے ساتھ تھا، کیونکہ وہ مجبور تھا۔ لیکن اس نے اس عورت کے گھر سے نہ تو کوئی چیز اٹھائی تھی نہ چوری کی تھی۔ لیکن دوسرے تمام چور چونکہ اب موجود نہ تھے۔اس لئے وہ عورت اس پر چوری کا الزام لگارہی تھی۔
پولیس اور لوگوں کا ہجوم ان دونوں کو عدالت میں لے گیا۔ جہاں عورت نے جج کے سامنے گواہی دی کہ ایڈورڈ چور ہے۔ یہی اس کے گھر دوسرے چوروں کے ساتھ آیا تھا۔
جج نے کچھ سوچ کر کمرے سے سب کو نکال دیا۔ کمرے میں اب ہینڈن، ایڈورڈ، وہ عورت اور سرکاری اہلکار باقی رہ گئے۔ تمام غیر متعلقہ افراد کو نکال دیا گیا تھا۔
جج نے نرم لہجے میں عورت کو مخاطب کر کے کہا:
’’یہ لڑ کا ابھی کم سن ہے۔ اس کا چہرہ معصوم ہے۔ ہوسکتا ہے بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس نے چوری کی ہو۔ اے عورت کیا تم جانتی ہو کہ جب کوئی شخص تیرہ روپے سے زیادہ مالیت کی چوری کرتا ہے تو اسے موت کی سزادی جاتی ہے۔‘‘
بادشاہ ایڈورڈ کو اس قانون کا علم نہیں تھا۔ وہ حیران رہ گیا کہ تیرہ روپوں سے زیادہ رقم کی چوری پر چور کو پھانسی پر لٹکا دیا جا تا تھا اور عورت نے اپنی چوری کی مالیت تو اس سے کئی گنا زیادہ بتائی تھی۔ بے چاری عورت کو بھی ایسے وحشیانہ قانون کا علم نہیں تھا۔ وہ کہنے لگی:
’’ اوہ میرے خدا، یہ میں نے کیا کر دیا۔ خدا کے لئے اس بے چارے لڑکے کو پھانسی پر نہ لٹکا نا۔ حضور مجھے بتائیے، میں کیا کروں۔ اسے بچانے کے لئے کیا کرسکتی ہوں؟‘‘
حج نے سنجیدگی سے کہا:
’’ چونکہ ابھی ریکارڈ پر رقم کا اندراج نہیں ہوا، اس لئے رقم پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے۔‘‘
عورت نے منت کرتے ہوئے کہا:
’’تو حضور، رقم آٹھ روپے کر دیجیے…‘‘
ہینڈن اتنا خوش ہوا کہ وہ عدالت کے آداب کو بھول کر ایڈورڈ سے لپٹ گیا کہ اس کی جان بچ گئی تھی۔ وہ عورت بھی خوش تھی کہ وہ اس معصوم صورت لڑکے کی جان بچانے میں کامیاب رہی تھی۔ وہ عورت اپنا کام کر کے چلی گئی۔
جج نے ایڈورڈ کی طرف دیکھا جو اب تک اس ساری صورتحال پر حیران تھا۔ جج نے فیصلہ سناتے ہوئے ایڈورڈ کو ایک مختصر عرصے کے لئے عام جیل میں بھجوانے اور رہائی کے بعدسرعام کوڑے مارنے کا حکم صادر کر دیا۔
ایڈورڈ یوں محسوس کر رہا تھا، جیسے یہ اس کے ساتھ نہیں بلکہ کسی اور کے ساتھ ہورہا ہے۔ اس نے منہ کھولنے کی کوشش کی لیکن ہینڈن نے اسے کسی نہ کسی طرح روک دیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر اس نے اس وقت وہاں اپنے بادشاہ ہونے کا اعلان کر دیا تو جج اس کی سزا میں اضافہ کر دے گا۔ سزا کے حکم کے بعد سپاہی ایڈورڈ کو اپنے ساتھ جیل لے جانے کے لئے روانہ ہو گئے۔با ہر نکل کر ایڈورڈ نے ہینڈن سے مخاطب ہو کر کہا:
’’ احمق…ذراسو چو…یہ کیا کر رہے ہو، مجھے جیل میں بھیجوار ہے ہیں۔‘‘
ہیڈن نے اسے سمجھایا:
’’ہمت سے کام لو۔ اگر تم نے اپنی اصلیت بتائی تو تمہیں مزید سزا دی جائے گی۔صبر سے حالات بدلنے کا انتظار کرو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں…‘‘
فرار
یہ ایک بے حد ٹھنڈا دن تھا۔ شام ہونے والی تھی۔ سردی اور شام کی وجہ سے گلیوں اور بازاروں میں اکا دکا آدمی ہی دکھائی دے رہے تھے۔ ایڈورڈ حیران تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ ملک کے بادشاہ کو اس طرح قیدی بنا کر گلیوں میں سے گزارا جارہا ہے۔لیکن ہنڈن جو ساتھ ساتھ چلا آ رہا تھا۔اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں خاموش رہنے اور انتظار کرنے کا اشارہ کر رہا تھا۔
جب سپاہی ایڈورڈ کو لئے ایک ویران چوک کے قریب پہنچا تو ہینڈن نے اچا نک آ گے بڑھ کر سپاہی سے کہا:
’’جناب ایک منٹ رکیے۔ یہاں کوئی دیکھنے والانہیں، اس لئے آپ میری بات سن لیں۔‘‘
’’میر افرض مجھے رکنے سے منع کرتا ہے۔‘‘ سپاہی نے کہا۔
ہینڈن نے عجیب بات کہی:’’اچھا تو آپ ایسا کر یں کہ منہ پھیر لیں۔ تا کہ یہ لڑ کا بھاگ سکے۔‘‘ 
سپاہی نے حیرانی سے ہینڈن کی طرف دیکھا اور بولا:
’’جانتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو۔ میں اس جرم میں تمہیں بھی گرفتار کر سکتا ہوں۔‘‘
ہینڈن نے آہستہ سے کہا:
’’وہ عورت جو چوری کی شکایت لے کر جج کے سامنے آئی تھی اور جس کی چوری کے جرم میں اس لڑکے کو سزاملی ہے، اس عورت سے تم نے رشوت لی تھی اور میں دیکھ رہا تھا۔ وہ عورت میرے کہنے پر جج کے پاس جا کر تمہاری شکایت کر سکتی ہے۔ کہو، اسے بھاگنے کا موقع دیتے ہو یامیں اس عورت کو ساتھ لے جا کر جج کے پاس جاؤں۔ جانتے ہو پھر تمہیں کیا سزامل سکتی ہے؟‘‘
سپاہی چلتے چلتے رک گیا۔ اس نے ہینڈن کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ اس نے کسی عورت سے رشوت نہیں لی اور ہنڈن نے جو دیکھا، وہ غلط تھا لیکن ہینڈن اپنی بات پر زور دیتا رہااور پھر اس نے دھمکی دی:
’’ میں تو تمہاری بھلائی کی بات کر رہا تھا۔ اب اگر تم میرا کہا نہیں مانتے تو نہ سہی لیکن یاد رکھو کہ رات ہونے تک تم بھی جیل میں پہنچ چکے ہو گے۔‘‘
سپاہی نے رشوت لی تھی اور وہ ہینڈ ن کی شخصیت سے بھی مرعوب ہو گیا تھا۔ وہ کہنے لگا:
’’ لیکن اگر میں اسے بھگا دوں تو بھی میں تباہ ہو جاؤں گا۔‘‘
ہینڈن نے کہا:
’’بے وقوف رشوت لینے کی سزا موت ہے۔اگر یہ لڑ کا بھاگ گیا تو تم کہہ سکتے ہو کہ اسے کچھ لوگ راستے میں چھڑانے آئے۔تم نے ان کا مقابلہ کیا اور وہ تمہیں مار پیٹ کر بے ہوش کر کے بھاگ گئے۔ تم اس طرح صاف بچ نکلو گے۔ اب جلدی فیصلہ کرو۔ میں زیادہ دیر انتظار نہیں کرسکتا۔‘‘
سپاہی کارنگ اڑ گیا تھا اور اس کی ٹانگیں کا نپنے لگی تھیں۔ اس نے کہا:
’’حضور مجھے موت سے بچالیں…میں منہ پھیر لیتا ہوں…ہاں…‘‘
ہینڈن نے اسے داددی:
’’شاباش تم ایک عقل مند اور صحیح فیصلہ کرنے والے آدمی ہو۔ ‘‘
سپاہی نے کہا:
’’ جناب آپ اب میرے ساتھ زبردستی کر یں۔ مجھے مار کر نیچے گرا د یں۔ قیدی کو کھول کر بھاگ جائیں۔ یہاں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔‘‘
اور پھر ایسا ہی ہوا۔
با دشاہ ایڈورڈ کو ہینڈن نے پھر بچالیا تھا۔
ہینڈن ہال
جب وہ سپاہی کی نظروں سے بہت دور ہو گئے تو ہینڈن نے ایڈورڈ سے کہا کہ وہ خود سرائے جا رہا ہے تا کہ وہاں کا حساب کتاب کر دے۔ ایڈورڈ کا اس علاقے میں جانا مناسب نہیں۔اس لئے اس نے ایڈورڈ سے کہا کہ وہ تیزی سے لندن سے باہر ایک جگہ جا کر اس کا انتظارکرے۔
ایسا ہی ہوا۔ ایک گھنٹے کے اندر ہینڈن اس جگہ پہنچ گیا جہاں اس نے ایڈورڈ کو انتظار کرنے کے لئے کہا تھا۔اس کے بعد ان دونوں کا سفر شروع ہوا۔ ہینڈ ن دس سال بعد اب گھر جارہا تھا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ان دس برسوں میں تقدیر نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ وہ دونوں چلتے رہے۔ جب دس میل کا فاصلہ پیدل طے کر چکے تو ایک گاؤں پہنچے۔ انہوں نے گاؤں کی سرائے میں رات بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔ 
سرائے میں کھانے کے وقت ہینڈن ،ایڈورڈ کی میز کے پیچھے خادم کی طرح کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے ایڈورڈ کے لئے بستر ٹھیک کیا اور اسے اس پر لٹا دیا۔ پھر ایک کمبل لپیٹ کر خود دروازے کے پاس سوگیا…
یوں تین دن تین راتیں وہ سفر کرتے رہے۔ ہینڈن کا علاقہ جوں جوں قریب آ رہا تھا۔ ہینڈن بے چین ہورہا تھا۔ وہ بات کرتا تو خود ہی رک جا تا۔ دس برس کے بعد اپنے گھر جانے کا تصور اس کے لئے بہت بے چین کر دینے والا تھا اور اسے کچھ علم نہیں تھا کہ ان دس برسوں میں وہاں کیا کچھ ہوا ہے۔ خاص طور پر وہ اپنے چھوٹے بھائی ہیو کے بارے میں بہت پر یشان تھا، جو سانپ کی طرح زہر یلا تھا۔ اسے اپنی محبوبہ ایڈتھ کی یاد بھی ستانے لگی تھی۔ وہ سوچتا ایڈتھ اسے کس حال میں ملے گی…اور پھر پر یشان ہونے لگتا۔
اور پھر بالآخر وہ اپنے علاقے اور گھر کے قریب پہنچ گیا۔
ہینڈن نے ایڈورڈ سے کہا:
’’میرے بادشاہ…وہ سامنے ہماری جاگیر کا گاؤں ہے اور یہاں سے ہماری حویلی ہینڈن ہال کے مینار بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ سامنے میرے والد کا باغ ہے۔ آپ کو بتاؤں…اس حویلی میں ستر کمرے ہیں اور بیس ملازم کام کرتے ہیں۔ ذرا تیز چلیں… اب میں صبر نہیں کر سکتا اور جلد از جلد اپنی حویلی پہنچنا چاہتا ہوں۔‘‘
جب وہ گاؤں میں داخل ہوئے تو سہ پہر ہو چکی تھی۔ ہینڈن بہت جذ باقی ہور ہا تھا۔ یہ گر جا ہے…یہ نلکاہے… کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ ہاں دس سالوں میں لوگ بدل گئے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ ایک شاندار حویلی کے سامنے کھڑے تھے۔ ہیڈن نے بڑے جذباتی لہجے میں کہا:
’’میرے بادشاہ…خوش آمدید، ہینڈن ہال آپ کا استقبال کرتا ہے۔ میرے والد،ایڈتھ اور میرے بھائی میری واپسی پر بہت خوش ہوں گے۔ان کے خیال میں تو شاید میں مرکھپ چکا ہوں گالیکن مجھے زندہ دیکھ کر وہ خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے۔ اگر شروع میں وہ آپ کااستقبال پر جوش انداز سے نہ کر یں تو آپ برا نہ منائیے گا۔ وہ جلدی آپ سے گھل مل جائیںگے۔ میں انہیں بتاؤں گا کہ میں نے آپ کو اپنا رکھا ہے اور آپ سے بے حد محبت کرتا ہوں۔‘‘
وہ دونوں اندر داخل ہوئے۔ وہ ایک بڑے کمرے میں گئے، جہاں ایک میز کے سامنے آتش دان کے پاس ایک نو جوان شخص بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا۔ ہینڈن نے پر جوش انداز میں کہا:
’’ہیو، میرے بھائی، اٹھو اور میرے سینے سے لگ جاؤ۔ اعلان کرو کہ تمہیں میری واپسی سے بے انتہا مسرت ہوئی ہے اور والد کو آواز دو۔ انہیں بتاؤ کہ میں آ گیا ہوں۔اپنے گھر واپسی کی خوشی اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی، جب تک میں والد سے ہاتھ نہ ملاؤں۔ان کے سینے سے نہ لگوں۔‘‘
ہیو نے پہلے تو ہینڈن کو تعجب اور پریشانی سے دیکھا پھر اس نے جلدی سے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ وہ بالکل بے تاثر چہرہ لئے بیگانگی سے بیٹھا رہا۔ پھر اس نے کہا:
’ ’اجنبی میں تمہارے لباس اور تمہاری حالت سے اندازہ لگا سکتا ہوں کہ دنیا اور وقت نے تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا لیکن یہ بتاؤ کہ تم مجھے کیا سمجھ کر مخاطب کر رہے ہو؟‘‘
ہینڈن نے تیزی سے جواب دیا:
’’ تم کیا کہہ رہے ہو۔ تم ہیو ہینڈن ہو اور میں تمہیں اسی حیثیت سے مخاطب کر رہاہوں۔‘‘
ہیو نے پھر بڑی بیگانگی سے کہا:
’’ اور اپنے آپ کو تم کیا سمجھا ہے ہو؟‘‘
ہینڈن یکدم غصے میں آ گیا:
’’سمجھنے سے کیا مطلب ہے تمہارا…کیا تم مجھے نہیں جانتے…میں تمہارا بھائی مائیلزہینڈن ہوں۔‘‘
ہیو کے چہرے پر طنز یہ مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ کہنے لگا:
’ ’خوب… تم کیا مذاق کرر ہے ہو۔ کیا مردے زندہ ہو سکتے ہیں۔اتنے برسوں کے بعد تم زندہ ہو کر آ گئے۔ خدا کی شان تمہیں … میرے ساتھ ایسا مذاق نہیں کرنا چاہیے۔ سنا …ذرا سامنے روشنی میں آؤ۔ میں تمہیں غور سے دیکھوں کہ …‘‘
ہینڈن اس کے قریب ہوا تو وہ اٹھ کر اسے غور سے دیکھنے لگا ۔کبھی چہرہ دیکھتا۔ کبھی بازوٹٹولتا۔ ہینڈن نے کہا:
’’میں تمہارا بھائی ہوں ہیو…جیسے مرضی دیکھ لو…میرے بھائی، اپنا ہاتھ مجھے دو۔ میرے سینے سے لگ جاؤ۔ آج بڑا اہم دن ہے۔ برسوں کے بعد ہم ایک دوسرے سے ملے ہیں۔‘‘
کم عمر بادشاہ ایڈورڈ ایک طرف بیٹھا یہ سب کچھ دلچسپی اور توجہ سے دیکھ رہا تھا۔ ہیونے بڑے اداس لہجے میں کہا:
’’خدا نے مجھے مایوس کیا۔‘‘
’’مایوس کیا؟ کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ ہینڈن نے پوچھا۔’’ کیا میں تمہارا بھائی نہیں ہوں؟‘‘ 
ہیونے سر ہلاتے ہوئے اداس لہجے میں کہا:
’’ کاش میرا بھائی زندہ ہوتا۔ بس…اب مجھے سو فیصدی یقین ہو گیا ہے کہ وہ خط صحیح اور سچا تھا۔‘‘
’’کیسا خط؟‘‘ ہینڈن نے پوچھا۔
’’چھ سات سال پہلے سمندر پار سے آنے والا خط۔‘‘ ہیو نے کہا۔ ’’جس میں ہمیں اطلاع دی گئی تھی کہ ہمارا بھائی مارا گیا ہے۔‘‘
’’ یہ جھوٹ ہے۔ ‘‘ہینڈن نے چیخ کر کہا۔’’والد صاحب کو بلائو…وہ مجھے پہچان لیںگے۔‘‘
ہیو نے جواب دیا۔’ ’مردوں کو کون بلاسکتا ہے؟‘‘
’’والد صاحب مر گئے۔‘‘ ہینڈن نے دکھ سے کہا۔اس کے ہونٹ کا نپنے لگے۔
’’میرے والد مر گئے اوہ…میری آدھی خوشی غارت ہوگئی۔ میرا بھائی آرتھر کہاںہے؟‘‘
’’وہ بھی مر چکا ہے۔‘‘ ہیو نے جواب دیا۔
ہیڈن نے بڑے دکھ بھرے لہجے میں کہا:
’’وہ بھی مر گیا، میرے والد مر گئے، میرا بڑا بھائی مر گیا۔ وہ جو اچھے تھے، انہیں خدا نے اٹھالیا اور میں جو نا کارہ ہے، اسے چھوڑ دیا۔ آہ میرے خدا رحم فرما…‘‘
اور ایڈ تھ، کیا وہ…‘‘
ہیو نے جواب دیا:
’’وہ زندہ ہے۔‘‘
’’شکر ہے خدا کا، وہ تو زندہ ہے۔ میرے بھائی تاخیر نہ کرو اور ایڈتھ کو بلاؤ، ہمارے پرانے خادم کو بلاؤ۔ وہ پہچان لیں گے۔‘‘
ہیونے کہا۔’’ اس وقت یہاں دوسرے ملازم موجود ہیں۔ ‘‘
یہ کہہ کر وہ کمرے سے چلا گیا۔ ہینڈن کا غصے، دکھ اور پریشانی سے برا حال ہور ہا تھا۔ وہ کمرے میں بے چینی سے گھومتا ہوا، بڑ بڑا رہا تھا:
’’وہ جومیرے خیر خواہ تھے۔سب چلے گئے۔صرف میرے دشمن باقی رہ گئے۔‘‘
کم عمر بادشاہ ایڈورڈ اپنے وفادار ہینڈن کی مصیبت کومحسوس کر رہا تھا۔ ایڈورڈ نے کہا:
’’اچھے آدمی،قسمت کے مذاق پر زیادہ جی نہ جلاؤ۔ اس دنیا میں اور بھی بہت سے ایسے ہیں، جنہیں لوگوں نے پہچاننے سے انکار کر دیا ہے۔ جن کے دعوے کو جھٹلا دیا ہے۔تم…‘‘
ہینڈن نے اسے دیکھا اور کہنے لگا:
’’میرے بادشاہ…میرے بارے میں تم غلط رائے قائم نہ کرنا۔ میں کوئی دھو کے باز نہیں ہوں۔ ابھی ایڈ تھ آئے گی اور وہ اپنے شیر یں ہونٹوں سے کہے گی کہ میں ہینڈن ہوں۔ یہ سب تصویر یں جو دیواروں پر دکھائی دے رہی ہیں۔ میں ان سب کو پہچانتا ہوں۔ یہ میرے آباء و اجداد ہیں۔ میں سچ کہتا ہوں۔ میں یہاں پیدا ہوا اور یہیں میں نے پرورش پائی۔ خدا کے لئے تم مجھ پر شبہ نہ کرنا۔ میں برداشت نہ کر سکوں گا…‘‘
کم عمر بادشاہ ایڈورڈ نے بچوں کی ہی سادگی اور سچائی کے ساتھ کہا:
’’میں تم پر شبہ نہیں کر رہا۔‘‘
ہینڈن نے تہہ دل سے اس کا شکر یہ ادا کیا تو کم عمر بادشاہ نے اس سادگی سے پوچھا:
’’ کیا میں جو کہتا ہوں تم اس پر شبہ کرتے ہو؟‘‘
اس سے پہلے کہ ہینڈن اس نازک سوال کا کوئی جواب دیتا۔ کمرے کا دروازہ کھلا اور ہیو بہت قیمتی اور خوبصورت لباس میں ملبوس ایک خاتون کے ساتھ اندر داخل ہوا اور ان کے پیچھے پیچھے کئی ملازم بھی اندر داخل ہوئے۔ خاتون سر جھکائے آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ اس کا چہرہ اداس تھا۔ ہینڈن اسے دیکھ کر آگے بڑھا اور جذباتی ہوکر کہنے لگا…
’’اوہ میری پیاری ایڈ تھ…‘‘
لیکن ہیونے ہاتھ ہلاتے ہوئے ہینڈن کو قریب نہ آنے دیا اور اس خاتون سے پوچھا:
’’اسے دیکھو، کیا تم اسے جانتی ہو؟‘‘
ایڈتھ کے رخسار سرخ ہوئے، وہ کا نپی۔ کئی لمحے وہ خاموش کھڑی رہی۔ پھر اس نے اپنا سراو پر اٹھایا اور ہینڈن کو بڑی اجنبیت سے دیکھا۔ اس کے چہرے پر خوف دکھائی دیا۔ پھر اس نے بڑی مرجھائی ہوئی آواز میں کہا:
’’میں اسے نہیں جانتی۔‘‘
پھر وہ مڑی اور آہ بھرتے ہوئے کمرے سے چلی گئی۔
ہینڈن کا ردعمل بہت شدید تھا۔ وہ ایک کرسی پر گر گیا اور اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپالیا۔ معمولی سے وقفے کے بعد ہینڈن  کے بھائی ہیو نے کمرے میں موجود تمام ملازموں کو مخاطب کر کے پوچھا:
’’تم نے اسے دیکھا۔ کیا تم اسے جانتے ہو؟‘‘
ان سب نے انکار میں سر ہلا دیئے۔ ہیو نے ہینڈن سے کہا:
’’ جناب، ملازم بھی آپ کو نہیں جانتے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ آپ نے یہ بھی دیکھا کہ میری بیوی ایڈتھ بھی آپ کو نہیں جانتی۔‘‘
ہیو کے لیجے میں بلا کا ز ہر تھا۔ ہینڈ ن چونکا:
’’تمہاری بیوی؟‘ ‘اس نے حیرت سے پوچھا۔ ’’اوہ میں اب سب کچھ جان گیا۔ تمہارا دل لومڑی کا ہے۔ تم نے میری محبوبہ کو اڑا لیا۔ اس کی ساری جائیداد پر قبضہ کر لیا۔ میرے حصے کو ہڑپ کر گئے اور مجھے جو تمہارا بھائی ہوں، جاننے سے انکاری ہو۔ بس اب میں جو ایک بہادر اور باوقار سپاہی ہوں تمہیں اپنی تلوار سے قتل کر کے رہوں گا۔‘‘
یہو کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کا سانس رک گیا ہے۔ وہ گھوم کر قریبی کرسی پر بیٹھ گیا اور اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ وہ اس اجنبی کو پکڑ لیں۔ ملازم ہچکچائے اور ان میںسے ایک نے کہا:
’’جناب یہ مسلح ہے اور ہم نہتے ہیں۔‘‘
ہیو نے چیخ کر کہا:
’’اگر یہ مسلح ہے تو کیا ہوا، یہ اکیلا ہے اور تم تعداد میں زیادہ ہو۔اسے پکڑ لو۔‘‘
ہینڈن نے للکارا:
’’جس میں ہمت ہے وہ آگے بڑھے۔ تم جانتے ہو کہ میں پہلے کی طرح بہادر ہوں۔‘‘
سارے ملازم پیچھے ہٹ گئے۔ ہیونے چیخ کر کہا:
’’پز دلو، جاؤ اور جا کر اپنے ہتھیار لے آؤ اور دروازے پر پہرہ دو اور میں خود پولیس کو بلاکر لاتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر ہیواٹھا اور دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے بولا:
’’بہادر ہوتو اب یہاں سے فرار نہ ہونا۔‘‘
ہینڈن نے بڑے وقار سے کہا:
’’میں اور بھاگ جاؤں، ناممکن، میں ہینڈن ہال کا مالک ہوں، یہاں جو کچھ ہے وہ میراہے۔ میں یہیں رہوں گا۔‘‘
انکار
کم عمر بادشاہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ جب ہیو چلا گیا تو اس نے کہا:
’’ عجیب…بہت ہی عجیب…میں تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایسا بھی ہوتا ہے۔‘‘
ہینڈن نے جواب دیا:
’’میرے آقا، اس میں کچھ بھی عجیب نہیں ہے۔ میں اسے جانتا ہوں۔ یہ فطری طور پر ہی ایسا ہے۔ اپنی پیدائش کے وقت ہی یہ بد قماش تھا۔‘‘
’’مگر میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ رہا۔ میں تو کچھ اور کہہ رہا تھا۔‘‘
ہینڈن نے پوچھا:
’’اس کے بارے میں نہیں تو پھر کون سی عجیب چیز ہے جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں۔‘‘
کم عمر بادشاہ ایڈورڈ نے کہا:
’’ عجیب بات جو میں نے دیکھی وہ یہ ہے کہ کسی کو بھی محسوس نہیں ہوا کہ بادشاہ کہیں گم ہوگہا ہے۔‘‘
’’ جناب میں سمجھا نہیں۔‘‘ ہینڈن نے کہا۔
’’تم نے دیکھا ہو گا کہ ملک میں کوئی تلاش نہیں ہورہی۔ بادشاہ کی گمشدگی کا اعلان نہیںکیا جارہا۔ کسی کو پروا ہی نہیں کہ ملک کا حکمران گم ہو گیا ہے۔‘‘
ہینڈن نے جواب دیا:
’’بادشاہ سلامت آپ درست فرماتے ہیں۔ میں بھی بھول گیا تھا کہ…‘‘پھر اس نے اپنے آپ سے کہا کہ بے چارہ لڑ کا۔ ہرلمحہ ایک ہی خواب دیکھتا ہے۔
کم عمر بادشاہ نے کہا:
’ ’لیکن میرے ذہن میں ایک منصو بہ آیا ہے۔جس سے ہم دونوں کو ہی فائدہ پہنچے گا۔میں ایک خط تین زبانوں، انگریزی،لاطینی اور فرانسیسی میں لکھتا ہوں اور تم یہ خط لے کر جلد از جلدلندن روانہ ہو جاؤ اور یہ خط تم کسی اور کو نہیں بلکہ میرے ماموں لارڈ ہرٹفورڈ کی خدمت میں پیش کرو گے۔ جب وہ اس خط کو پڑھے گا تو وہ سب کچھ جان جائے گا اور مجھے فوراً بلوا بھیجے گا۔‘‘
ہینڈن نے دل میں کہا کہ بے چارے لڑکے پر پاگل پن کا دورہ پڑ چکا ہے۔اسے میںدلیل سے ہی قائل کر سکوں گا۔اس نے کہا:
’’بادشاہ سلامت، کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم کچھ عرصہ یہاں انتظار کر یں تا کہ میں یہاں اپنی جاگیر پر اپناحق جتا کر، اسے حاصل کر سکوں۔ میرے خیال میں یہ بہتر رہے گا کہ پہلے میں اپنا حق حاصل کروں اور…‘‘
کم عمر بادشاہ نے اس کوٹو کتے ہوئے سختی سے کہا:
’’ کیا کہہ رہے ہو۔ یہ تمہاری جا گیر کیا ہے؟ ایک پوری قوم کے وقار اور حکومت کے تخت کے سامنے اس کی کیا حیثیت ہے۔‘‘
پھر یکدم اس نے سخت لہجہ ترک کر کے نرمی سے کہا:
’’میرے حکم کی تعمیل کرو۔ خوف نہ کھاؤ۔ میں تمہیں تمہارا حق دلواؤں گا۔ سب کچھ دلواؤں گا۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ جتنا تمہاراحق ہے۔ میں تمہیں یادرکھوں گا اور نوازوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر کم عمر بادشاہ نے قلم اٹھایا اور لکھنے لگا۔ ہینڈن اسے لکھنے میں مصروف د یکھ کر سوچنے لگا۔ اس کی گفتگو، اس کے اٹھنے بیٹھنے کے انداز، ہر عمل کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بادشاہ نہیں۔ اندازہ کرو کہ یہ کہہ رہا ہے کہ وہ لاطینی اور فرانسیسی زبانیں بھی جانتا ہے۔ آج اس کا دماغی مرض…
ہینڈن کے اپنے ساتھ جو کچھ ہورہا تھا، وہ اتنا حیران کن اور تکلیف دہ تھا کہ وہ جلد ہی ایڈورڈ کو بھول گیا۔ آج اس کے دل پر سب سے کاری زخم لگا تھا کہ اس کی اپنی ایڈتھ نے بھی اسے جاننے سے انکار کر دیا تھا حالانکہ وہ سمجھتا تھا کہ ساری دنیا اس سے انکاری ہوسکتی ہے لیکن ایڈتھ اسے پہچان لے گی۔ 
وہ انہی گہرے غم سے بھرے خیالوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ کم عمر بادشاہ نے خط لکھ کر تہہ کر کے اسے پکڑا دیا۔ ہینڈن نے اپنے خیالوں میں گم، اس خط کو اپنی جیب میں رکھ لیا لیکن اس کا ذہن انہی باتوں میں الجھا ہوا تھا۔ ہاں وہ جس کے بارے میں، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اس نے مجھے پہچاننے سے کیوں انکار کیا۔ یقینا اسے جھوٹ بولنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
مجھے چاہیے کہ میں اس سے ملوں، اسے بچپن اور محبت کے لمحوں کی یاد دلاؤں، وہ ضرور مان لے گی۔ سچ بولے گی۔ اپنی مجبوری بتا دے گی۔صرف وہی مجھے اس بربادی سے بچاسکتی ہے۔
وہ اپنے خیال کوعملی جامہ پہنانے کے لئے دروازے کی طرف بڑھا اور اسی لمحے ایڈتھ کمرے کے اندر داخل ہوئی۔اس کا چہرہ زرد اور بے حد اداس تھالیکن وہ بڑے وقار سے چل رہی تھی۔ ہینڈن اس کی طرف آگے بڑھا تو ایڈتھ نے اسے اشارے سے روک دیا اور خو د ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ اور بڑے وقار سے کہنے گی:
’’ جناب میں آپ کو خبر دار کر نے آئی ہوں کہ پاگلوں کو ان کے خیالوں کی دنیا سے باہر نہیں نکالا جا سکتا۔ لیکن انہیں یہ ضر ور ترغیب دی جاسکتی ہے کہ وہ تباہی سے اپنے آپ کو بچالیں۔میرا خیال ہے کہ آپ اپنے آپ کو جو سمجھ رہے ہیں، وہ آپ کے نزدیک ایک سچے خواب کی طرح ہے اور میں اسے جرم نہیں سمجھتی۔ لیکن آپ کو یہاں رکنا نہیں چاہیے کیونکہ یہاں آپ کے لئے خطرہ ہے۔‘‘
ہینڈن کتنا پر یشان اور حیران ہوا،اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ وہ چلا یا:
’’ لیکن محترم خاتون میں حقیقت ہوں۔ میں کوئی پاگل نہیں، کوئی خواب نہیں دیکھ رہا۔‘‘
ایڈتھ نے کہا:
’’آپ جو سوچتے ہیں۔ وہ آپ کے نزدیک سچ ہے اور میں اس پر کوئی اعتراض نہیں کر رہی لیکن یہاں آپ کے لئے خطرہ ہے۔ میرا شوہر اس علاقے کا مالک ہے۔ اس کی طاقت بے اندازہ ہے۔لوگ اس کی مرضی سے جیتے اور مرتے ہیں۔ ہر شخص وہی کہے گا جو اس کی زبان پر آئے گا اور اس کی نظر میں آپ دھو کے باز اور جعل ساز ہیں اور ہر کوئی اس سے اتفاق کرے گا۔‘‘
ہینڈن ایک ایک لفظ کو دھیان سے سن رہا تھا۔اس نے کہا:
’’آپ نے جو کہا یقینا اس میں بہت زیادہ سچائی ہے۔ میں اس طاقت سے کیسے انکار کر سکتا ہوں جو ایک پرانے دوست کو مجبور کر دے کہ وہ کسی کو پہچاننے سے ہی انکار کر دے۔ جہاں انسان روٹی کا محتاج ہو، وہاں وہ روٹی دینے کا اختیار رکھنے والے کی ہی بات سنے گا اور دہرائے گا۔‘‘
ایڈتھ کے چہرے کا رنگ ایک بار بدلا لیکن جب اس نے بات شروع کی تو اس میں وہی سنجیدگی تھی:
’’میں نے آپ کو خبر دار کر دیا۔ میں پھر کہتی ہوں کہ یہاں سے چلے جائیں ورنہ وہ شخص آپ کو تباہ کر دے گا۔ وہ ایک ایسا جلاد ہے جس کے دل میں رحم نہیں۔ میں بھی اس کی ایک لونڈی بن چکی ہوں۔سنو، دیر نہ کرو۔ یہاں سے فوراً چلے جاؤ۔ اگر تمہارے پاس پیسے نہیں تو میرا یہ پرس لے جاؤ۔ میں درخواست کرتی ہوں، ملازموں کو رشوت دے د و تا کہ وہ تمہیں یہاں سے جانے دیں۔‘‘
ایڈتھ نے اپنا پرس اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا۔ ہینڈن نے پرس کو لینے سے انکار کر تے ہوئے اسے ایک طرف ہٹادیا۔ اور ایڈتھ کے بالکل سامنے اور قریب ہوکر کہنے لگا:
’’ آپ مجھ پر صرف ایک مہربانی کر یں۔ میری طرف دیکھیں، میری آنکھوں میں جھانک کر بتا ئیں۔ کیا میں مائیلز ہینڈ ن نہیں ہوں؟‘‘ اس نے جواب دیا:
’’میں آپ کو نہیں جانتی۔‘‘
’’قسم کھاؤ۔‘‘
’’اب جلدی سے نکل بھا گو۔ اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کرو۔‘‘
اور اسی لمحے پولیس کے افسر اور کارندے اندر داخل ہوئے۔ ہینڈن اور ان کی کشمکش شروع ہوئی۔لیکن پولیس نے اسے قابو کر لیا۔
بادشاہ ایڈورڈ اور ہینڈن کو لے کر وہ جیل کی طرف چل پڑے۔
جیل میں
جیل کی سب کوٹھڑیاں قیدیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ اس لئے ان دونوں کو ایک بڑے کمرے میں بند کر دیا گیا۔ جہاں مختلف جرائم کا ارتکاب کرنے والے قیدی بند تھے۔ قیدیوں میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی۔
بادشاہ ایڈورڈ بہت ناراض تھا کہ ایک بادشاہ کے ساتھ ایسا گھٹیا سلوک کیا جار ہا تھا۔ جبکہ ہینڈن کے سر پر خون سوار تھا۔ وہ بہت غصے میں تھا۔ وہ تو اس امید کے ساتھ اپنے گھر لوٹا تھا کہ اب اس کی مصیبت کے دن ختم ہو جائیں گے۔اسے اس کی محبوبہ ایڈ تھ مل جائے گی۔ لیکن وہاں تو اسے دھو کے باز سمجھا جار ہا تھا اور کوئی بھی اسے پہچاننے کے لئے تیار نہ تھا۔ وہ بار بار ایڈتھ کے بارے میں سوچتا تھا۔ اس کی ایک ایک بات پر وہ بار بارغور کرتا تھا۔ پھر اس نے دل میں یقین کر لیا کہ وہ ا سے پہچانتی تھی لیکن مجبور تھی۔ اسے اب بھی اس کی جان پیاری تھی اس لئے اسے وہاں سے نکل بھاگنے کے لئے بار بار کہہ رہی تھی۔
جیل میں انہیں اوڑھنے کو جوکمبل دیئے گئے۔ وہ پھٹے ہوئے تھے۔ زمین گیلی اور ٹھنڈی تھی اور یوں بادشاہ ایڈورڈ اور ہینڈن نے جیل میں وہ رات بہت تکلیف میں بسر کی۔ اس کے بعد کئی دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ہر روز بہت سے لوگ جنہیں ہینڈن نے بھی نہیں دیکھا تھا، آتے اور اس کی طرف اشارہ کر کے کہتے:
’’دیکھو وہ دھو کے باز ہے۔‘‘
یہ سب کچھ ہیو کے اشارے پر ہورہا تھا۔ جیل کے داروغہ کو بھی یقین دلایا جارہا تھا کہ ہینڈن ایک جعل ساز اور دھو کے باز ہے۔
اور پھر ایک بوڑھا اسے دیکھنے آیا۔ ہینڈن کا دل پہلی بارخوشی سے دھڑ کا۔اس نے کہا یہ بلیک ہے۔ ہمارا خاندانی ملازم۔ میرے والد کے زمانے کا وفادار۔ یہ ضرور مجھے پہچان لے گا۔ لیکن جیل کے داروغہ کے سامنے اس نے بھی اسے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ لیکن وہ داروغہ کے جانے کے بعد رکا رہا اور پھر ہینڈن کے سامنے جھک کر سرگوشی میں کہنے لگا:
’ ’خدا کا شکر ہے کہ تم زندہ ہو۔ ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ تم مر چکے ہو۔ میں تو پہلی نظر میں ہی تمہیں پہچان گیا تھا لیکن حالات کا تقاضا تھا کہ انکار کر دوں۔ میں ایک بوڑھا اور بے بس غریب آدمی ہوں لیکن تمہارے والد کا نمک کھایا ہے۔ حکم کرو، میں کیا کروں، میں اپنی جان بھی دینے کے لئے تیار ہوں۔‘‘
ہینڈن نے بڑے جذباتی لہجے میں کہا:
’’ نہیں ابھی تمہیں ایسا کچھ نہیں کرنا۔ خاموش رہو۔ تم نہیں جانتے کہ تم نے مجھے پہچان کر مجھے میرا کھویا ہوا اعتما دلوٹا یا ہے۔ میں تمہارا دل سے شکر گزار ہوں۔‘‘
اس کے بعد وہ بوڑھا وفا دار ملازم بلیک ہر روز حیلے بہانے سے وہاں آنے لگا۔ وہ یہی ظاہر کرتا کہ وہ جعل ساز کولعن طعن کرنے آتا ہے۔ جبکہ وہ آہستہ آہستہ ہینڈن کو تمام معلومات فراہم کرتا چلا گیا اور یوں ساری داستان ہینڈ ن کو معلوم ہوگئی۔اس نے بتایا:
’’ چھ سال پہلے ہینڈن کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ہینڈن کی گمشدگی نے اس کے والد کی صحت کو بہت متاثر کیا۔ مرنے سے پہلے وہ چاہتا تھا کہ ایڈتھ اور ہیو کی شادی کر دی جائے لیکن ایڈتھ اس شادی کو ٹالتی رہی۔ کیونکہ وہ ہینڈن سے شادی کرنا چاہتی تھی اور پھر وہ خط آ گیا ۔ جس میں ہینڈن کی موت کی اطلاع دی گئی تھی کہ وہ میدان جنگ میں مارا گیا تھا۔ اب وہ مجبور تھی کہ ہینڈن کے مرتے ہوئے والد کی آخری خواہش پوری کر دے۔اس لئے ان دونوں کی شادی ہو گئی لیکن شادی کے بعد ہی اسے معلوم ہو گیا کہ ہینڈن کی موت کا جو خط آیا تھا، وہ جعلی تھا اور وہ خط اس کے خاوند ہیو نے تیار کیا تھا۔ جب ہینڈن کے والد کو اس جعل سازی کا علم ہوا تو وہ اسی صدمہ برداشت نہ کر سکا اور مر گیا۔ ہیواپنے ملازموں، اپنے مزارعوں کسانوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنی بیوی ایڈتھ کے ساتھ بھی انتہائی ظالمانہ سلوک کرتا ہے۔‘‘
ایک دن باتوں باتوں میں بوڑھے بلیک نے ایک ایسی افواہ سنائی جس میں کم عمر بادشاہ نے گہری دلچسپی لی۔اس نے بتایا کہ یہ افواہ پھیلی ہوئی ہے کہ بادشاہ پاگل ہو گیا ہے لیکن اس بات کوزبان پر لانے کی سزا موت ہے۔ 
کم عمر بادشاہ ایڈورڈ کوغصہ آ گیا اور اس نے کہا:
’’بادشاہ سلامت پاگل نہیں ہیں۔ تم اپنے کام سے کام رکھو بڑے میاں اور ایسی افواہیں مت پھیلاؤ۔‘‘ 
بوڑھا بلیک حیران ہوا۔ پھر کہنے لگا:
’’ اس ماہ کی سولہ تاریخ کو آنجہانی بادشاہ ہنری ہشتم کی تدفین ہونے والی ہے اور بیس تاریخ کو ویسٹ منسٹر کے گر جے میں نئے بادشاہ کی تاجپوشی ہوگی۔‘‘
کم عمر بادشاہ نے کہا:
’’میرے خیال میں انہیں پہلے بادشاہ کو تلاش تو کر لینا چاہیے لیکن خیر،سب دیکھا جائے گا۔‘‘
بوڑھے بلیک کو اب بھی لڑ کے کی بات سمجھ میں نہ آئی۔ وہ اپنی بات کہتا چلا گیا۔
’’ ہیو تاج پوشی کی رسم میں شرکت کے لئے جائے گا اور وہ بہت خوش ہے کہ اسے خطاب سے جلد ہی نوازا جائے گا۔‘‘ 
اس بوڑھے سے ہی بادشاہ ایڈورڈ کومعلوم ہوا کہ نارفوک جسے پہلے موت کی سزا دی گئی تھی، اس کی جان بخشی کر دی گئی ہے۔ بوڑھا نئے بادشاہ کی بہت تعریف کرنے لگا کہ اس نے ظلم و ستم اور بے انصافی کوختم کرنے کے لئے بہت سے اچھے کام کئے ہیں۔
اصلی با دشاہ ایڈورڈ یہ سب باتیں سن کر بہت اداس ہوا۔ اسے رہ رہ کر ٹام کا خیال آتا تھا۔ وہ گدا گر اور فقیر جس کا پھٹا پرانا لباس پہن کر و ہ محل سے باہر نکلا اور ان مصیبتوں میں پھنس گیا، جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ ایڈورڈ کے دل میں ٹام کے لئے بہت نفرت پیدا ہو گئی تھی۔ وہ سوچتا، وہ میری جگہ بادشاہ بن بیٹھا ہے۔ اگر وہ غدار نہ ہوتا تو وہ سب کو بتا تا کہ وہ بادشاہ نہیں ہے اور مجھے تلاش کرنے پر زور دیتا لیکن وہ مجھے بھلا کر خو دا چھے اچھے فیصلے کر رہا تھا۔ کیا وہ واقعی ایک فقیر تھا یا کسی معزز گھرانے کا لڑکا۔ کیونکہ ایڈ ورڈ ایک فقیرلڑ کے سے ایسی باتوں کی توقع نہیں کر سکتا تھا۔ جو وہ نئے بادشاہ کے بارے میں سن رہا تھا۔
اس پر ایسی اداسی اور مایوسی چھائی کہ ایڈورڈ اپنے وفادار سر پرست اور ساتھی ہینڈن کی تمام کوششوں کے باوجو دخوش نہ ہوا۔ ویسے بھی اب تک وہ زندگی کے ایسے چہرے دیکھ چکا تھا۔ جو و ہ محل میں رہ کر کبھی نہیں دیکھ سکتا۔ اس نے انسانوں کو ظالم اور بے رحم بنتے دیکھا تھا۔ ٹام کے باپ کینٹی کو دیکھا تھا۔ فقیر، چور اور ظالم۔ جواپنی بیٹیوں اور بیوی پرظلم ڈھاتا تھا۔ اس نے چوری اور دوسرے جرائم کرنے والے ان افرادکود یکھا تھا۔ خودان کے ساتھ رہا تھا۔ جن کے نزدیک صرف پیٹ بھرنا ہی زندگی کا مقصد تھا۔ اس نے ان کسانوں کو دیکھا تھا، جو جاگیرداروں اور نوابوں کی زمینوں کا سینہ چیر کر اناج اگاتے تھے اور خود ان کی جھولی خالی رہتی تھی۔ اس نے غریبوں میں خدا کا خوف دیکھا تھا اور اس نے ہینڈن کو دیکھا تھا جس کا اپنا بھائی، جس کی اپنی محبوبہ اسے پہچاننے سے انکار کر رہے تھے اور پھر وہ اب جیل میں تھا اور ان عورتوں اور مردوں کو دیکھ رہا تھا جنہیں حالات اور غربت نے مجرم بنا دیا تھا…
وہ جو انگلستان کا حقیقی بادشاہ تھا، جسے خودکوئی پہچان نہیں رہا تھا۔ وہ اب جیل میں تھا اور کیسے خوش رہ سکتا تھا۔ اس جیل کی اس بڑی کوٹھڑی میں دن رات وہ ان لوگوں کے ساتھ رہ رہا تھا، جواس کے دوست بن گئے تھے۔اس گھٹن میں اگر کوئی چیز اس کے لئے سہارا بن رہی تھی تو وہ ان لوگوں کا ساتھ تھا۔ جو مجبوری،غریبی اور بے بسی کے ہاتھوں مجرم بن گئے تھے۔
اور ایک دن جب ان سب قیدیوں کو جیل کی کوٹھڑی سے باہر بڑے صحن میں لے جایا گیا اور وہاں جو عدالت لگی اور جس طرح بے نیازی اور بے انصافی سے ان مجبور انسانوں کی قسمت کے فیصلے کئے گئے،اس سے خود کم عمر بادشاہ بھی لرز گیا۔ وہ غریب قیدی مرداور عورتیں جن کی دکھ بھری کہانیوں سے وہ واقف تھا۔ جو کئی دنوں سے اس کے ساتھ جیل کے اس پرانے کمرے میں تھے۔ جو اسے ایک معصوم لڑ کا سمجھ کر اس سے محبت اور شفقت کا سلوک کرتے تھے۔ جب انہیں اس کے سامنے سزائیں دی گئیں تو اس کا دل تڑپ اٹھا۔
اس نے اپنے آپ سے کہا، اگر میں تخت پر ہوتا تو ان کے ساتھ یہ زیادتی کبھی نہ ہوتی۔ وہ سوچتا آخر وہ دن کب آئے گا جب میں تخت پر بیٹھوں گا اور ان ظالمانہ قوانین کوختم کر دوں گا۔ جنہوں نے انسانوں کو جانوروں سے بھی کم حیثیت دے رکھی ہے۔لیکن ابھی وہ جیل میں تھا اور کچھ نہیں جانتا تھا کہ کب اسے اس جیل سے نجات ملے گی اور کیسے وہ یہ ثابت کر سکے گا کہ وہ حقیقی بادشاہ ہے۔
قربانی
ہینڈن بھی جیل میں پڑا پڑا تنگ پڑ چکا تھا۔ وہ ایک ایسا شخص تھا جوعمل اور حرکت میں یقین رکھتا تھا لیکن اب اسے جیل میں بند کر دیا گیا تھا اور وہ اس قابل نہیں رہا تھا کہ کچھ کیا جا سکے۔ وہ دل سے دعا کرتا تھا اس پر جو مقدمہ چلایا جا نا ہے، وہ چلے اور اسے معلوم ہو سکے کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جانے والا ہے۔ وہ ہر طرح کی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہو چکا تھا۔ 
اس پر مقدمہ چلایا گیا اور اسے ایک’’آوارہ گردفراڈ‘‘ قرار دے کر جوسزا دی گئی، وہ اس کی توقع کے برعکس تھی۔ اس کے اس دعویٰ کو کہ وہ ہینڈن ہال کا وارث اور مالک ہے، یکسر نظر انداز کر دیا گیا اور یوں اس کی بے عزتی کی گئی۔ لیکن اسے جو سزا دی گئی، وہ اس سے بھی زیادہ ذلیل کرنے والی تھی۔
اس سزا میں اسے اس کے بھائی کے ہی حوالے کر کے لوگوں کے سامنے ذلیل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ دراصل یہ سزا ہینڈ ن کو اس کے غاصب بھائی ہیو کے مشورے کے مطابق دی جا رہی تھی۔ اس سزا پر اس نے بہت شور مچایا اور احتجاج کیا۔ لیکن اس سزا پر عمل کرانے کے لئے پولیس کے آدمی اسے کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ ہینڈن ہال کے چوک میں لے گئے۔ وہاں سارا گائوں جمع ہو چکا تھا۔ یہاں ایک افسر نے اونچی آواز میں ہجوم کو بتایا کہ یہ شخص ایک آوارہ گرد دھوکے باز ہے۔ اسے عدالت کے حکم کے مطابق سر جھکا کر بیٹھنا ہو گا۔ اور اسے عوام سزا د یں گے۔
ہینڈن کو باندھ کر بٹھا دیا گیا اور پھر اس پر گندے انڈے، ٹماٹر اور پتھر برسائے جانے لگے۔ کم عمر بادشاہ ایڈورڈ جسے ہینڈن کا ساتھی قرار دیا گیا تھا۔ اس کے لئے خاموش رہناممکن نہ رہا۔اس نے چیخ کر کہا:
’’اسے مت مارو، آزادکر دو۔ یہ میرا خاص ملازم ہے۔ میں…‘‘
لیکن ہینڈن نے اس کا جملہ پورا نہ ہونے دیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر ایڈورڈ نے اپنے آپ کو بادشاہ کہہ دیا تو سارا ہجوم اس کے خلاف ہو جائے گا اور کچھ بھی کر دے گا۔ وہ چیخا:
’’خدا کے لئے چپ رہو…تم اپنے آپ کو تباہ کر لو گے۔‘‘
پھر اس نے پولیس افسر کومخاطب کر کے کہا:
’ ’آپ اس کی بات پر دھیان نہ دیں۔ یہ لڑ کا پاگل ہے۔‘‘
افسر نے بڑے طنزیہ لہجے میں کہا:
’’میں کیوں اس کی بات پر دھیان دوں لیکن میرا خیال ہے کہ اس پاگل کا دماغ توٹھیک کرنا ہی ہوگا۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے اپنے ایک ماتحت سے کہا:
’’میرا خیال ہے اس لڑکے کو دو ایک کوڑوں کا مزہ تو چکھاہی دینا چاہیے۔‘‘
ہینڈن کا ظالم بھائی جو وہاں ہینڈن کی ذلت کا تما شا د یکھنے کے لئے موجود تھا۔اس نے افسر سے کہا:
’’ایک دو کیوں…کم از کم چھ کوڑے اسے مارے جانے چاہئیں۔‘‘
کم عمر بادشاہ ایڈورڈ کو پکڑ لیا گیا۔ اس نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ تو اس خیال سے ہی شل ہو کر رہ گیا تھا کہ کوئی بادشاہ کو بھی کوڑے لگا سکتا ہے۔
اس وقت تو اس کے سامنے ایک بات تھی کہ یا تو وہ معافی مانگ کر اپنے آپ کو ان کوڑوں کی سزا سے بچانے کی کوشش کرے یا پھر خاموشی سے کوڑے برداشت کرے اور اسی لیے کم عمر ایڈورڈ کے ذہن میں وہی خیال آیا جو ایک بادشاہ کے ذہن میں آ تا ہے۔اس نے اپنے آپ سے کہا کہ بادشاہ کبھی معافی نہیں مانگتا۔ 
وہ کوڑے لگوانے کے لئے تیار ہو گیا۔
ہینڈن یہ برداشت نہ کر سکتا تھا۔ اس نے اس پاگل لڑکے کی حفاظت کا عہد کیا تھا۔ وہ اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دے سکتا تھا۔اس نے چیخ کر کہا:
’’بے رحم لوگو، اس لڑکے کو چھوڑ دو۔ کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا کہ وہ کتنا کمزور اور چھوٹا ہے۔اسے جانے دو۔ اس کی سزا میں بھگتنے کے لئے تیار ہوں۔ میں کوڑے کھاؤں گا۔‘‘
ہیو کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا ۔وہ تو ہینڈن کو زیادہ سے زیادہ تکلیف پہنچانا چاہتا تھا۔اس نے بڑے چہکتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا:
’’یہ تو ایک اچھا مشورہ ہے۔ اس پر عمل کیا جائے گا۔ اس چھوٹے فقیر کو جانے دو اور اس کے بدلے اس آوارہ گرد کو بارہ کوڑے لگاؤ۔ ہاں پورے بارہ اور پورے زور سے۔‘‘
ہینڈن کو کھڑا کر کے اس کی کمرننگی کر دی گئی۔ جب اسے پہلا کوڑا پڑا تو کم عمر بادشاہ نے منہ پھیر لیا۔یہ شخص اس کی جگہ کوڑے کھا رہا تھا۔ اس کی قربانی اور تکلیف کے احساس سے ایڈورڈ رونے لگا اور بادشاہ ہونے کے باوجود اس نے اپنے آنسو چھپانے کی کوشش نہ کی۔ وہ اپنے دل میں کہہ رہا تھا:
’’ اس کی یہ قربانی،ایسی وفاداری کو میں کبھی فراموش نہ کر سکوں گا۔ اس نے اپنے بادشاہ کو زخموں، تکلیف اور موت سے بچایا ہے۔ یہ میرے لئے کوڑے کھا رہا ہے۔ اس نے اپنے بادشاہ کو رسوائی اور ذلت سے بچا کر پوری حکومت پر احسان کیا ہے۔‘‘
ہینڈن نے ہر کوڑا ہمت سے برداشت کیا۔ وہ چیخا نہ ہی کوئی آواز نکالی۔ وہ لوگ جو یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ ان کے دل میں بھی ہینڈن کے لئے احترام کے جذبات پیدا ہوئے کیونکہ اس نے ایک کم عمر کمز ورلڑ کے کی سزا خود قبول کی تھی اور مردانہ وار برداشت کر رہا تھا۔
جب کوڑے پورے ہو گئے اور ہینڈن کو ایک بار پھر باندھ دیا گیا تا کہ وہ اپنی سزا کا وقت پورا کر سکے تو بادشاہ ایڈورڈ اس کے پاس آیا اور آہستہ سے کہنے لگا:
’’ کوئی بادشاہ تمہاری اس قربانی کا صلانہیں دے سکتا۔ تم ایک عظیم انسان ہو۔ تم خود بادشاہوں سے اونچے اور برتر ہو۔ ایک بادشاہ تمہاری عظمت کو سلام کر سکتا ہے۔ وہ لوگوں کو بتا سکتا ہے کہ تم کتنے عظیم ہو۔‘‘
یہ کہہ کر کم عمر بادشاہ نے آہستہ سے ہینڈن کے زخمی کند ھے کو چھوا اور کہا:
’’ انگلستان کا بادشاہ ایڈورڈ تمہیں ارل کا عہدہ اور خطاب پیش کرتا ہے۔‘‘
ہینڈن اس جملے سے بہت متاثر ہوا۔اس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔ وہ سوچنے لگا،یہ لڑ کا جو پاگل پن میں اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہے۔ اس طرح سے ہی اپنی محبت اور جذبات کا اظہار کر سکتا تھا لیکن اپنی جگہ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ میں اس وقت کڑی سزا برداشت کر رہا ہوں۔ مجھے بھاری وزن اٹھا کر پہاڑی کی طرف لے جانا پڑ رہا ہے۔ میں کوڑوں کی سزا کے بعد زخمی ہو چکا ہوں اور میرا خون بہہ رہا ہے۔ ایسے بدترین حالات میں کون سوچ سکتا ہے کہ مجھے کبھی ارل کا خطاب بھی دیا جا سکتا ہے لیکن یہ لڑ کا مجھ سے محبت کرتا ہے۔ 
اس وقت جبکہ میرا بھائی تک مجھے پہچاننے سے انکار کر کے مجھے یہ ساری سزائیں اور اذیتیں دلا رہا ہے، جب میری محبو بہ اس کی بیوی بن کر مجبور ہو چکی ہے، اس لڑکے کی محبت میرے لئے خالص ہے اور اس کی کوئی قیمت ادانہیں کی جاسکتی۔
مجھے یہ سزا بھگتنی ہے۔ اور اس لڑکے کی رفاقت میں ہی زندگی بسر کرنی ہے۔ اب یہ میرے لئے میرے چھوٹے بھائی کی طرح ہے ۔ اس کی محبت میرے لئے بڑا سہارا ہے۔
لندن کی طرف
جب ہینڈن کی سزا مکمل ہوگئی تو اس کی تلوار بھی اسے دیدی گئی۔ اب عدالت کے فیصلے کے مطابق انہیں اس علاقے سے ہمیشہ کے لئے نکل جانا تھا۔ وہ علاقہ جہاں ہینڈن پیدا ہوا تھا۔ جو اس کی اپنی ملکیت تھی۔لیکن وہ اس بے انصافی کے فیصلے پرعمل کرنے کے لئے مجبور تھا۔ جب تک وہ دونوں آنکھوں سے اوجھل نہ ہو گئے،لوگ انہیں دیکھتے رہے…وہ ایک عجیب جوڑی تھی۔ ایک لمبا صحت مند، زخمی آدمی اور ایک کمز ور دبلا پتلا لڑکا…
ہینڈن کے ذہن میں ان گنت سوال پیدا ہور ہے تھے۔
اب مجھے کیا کرنا ہے؟
کہاں جانا ہے، کہاں رہنا ہے؟
جب تک انتہائی موثر اور طاقتور مدد نہیں ملتی، وہ اپنا حق نہیں لے سکتا اور یہ مددا سے کہاں سے مل سکتی ہے؟ وہ ساری زندگی ایک بے گھر اور غریب آدمی کی طرح تو زندگی بسر نہیں کر سکتا تھا۔ اسے مدد کی ضرورت تھی اور مدد کسی ایسے شخص کی ہونی چاہیے تھی جو بہت بااختیار اور بہت طاقتور ہو، جو اس کے بھائی کے مظالم کا پردہ چاک کر کے اسے اس کا حق دلوا سکے، جو عدالت کے فیصلے کو تبدیل کر سکے۔
اچانک اسے اپنے پرانے بوڑھے بلیک کی باتیں یادآ ئیں کہ انگلستان کا نیا بادشاہ ایک رحم دل لڑکا ہے، جو ظلم اور بے انصافی کو ختم کر رہا ہے، جو سب کی سنتا ہے۔ کیوں نہ وہ انصاف کے لئے بادشاہ سلامت کے پاس جائے۔ ٹھیک ہے اس وقت اس کی حالت ایک گدا گر سے بھی بدتر ہے لیکن اس کے حالات کا تقاضا ہے کہ وہ بادشاہ سے ملے۔اس سے فریاد کرے۔اسے حقیقت سے آگاہ کرے۔ اور اپنے حق کے لئے درخواست پیش کرے۔اس کے دل میں دوسرا اہم سوال پیدا ہوا کہ وہ بادشاہ تک رسائی کیسے حاصل کرے۔ بادشاہ تک پہنچنا بھی تو آسان کام نہ تھا۔ وہ سوچنے لگا۔ پھر اسے سر مارلو کا خیال آیا جو اس کے والد کا گہرا دوست تھا۔ وہ بادشاہ سلامت کے محل میں اہم ترین عہد ے پر فائز تھا۔ اسے یہ یاد نہیں آرہا تھا کہ سر مارلو کا کیا عہدہ ہے لیکن اسے یقین تھا کہ وہ بادشاہ کے محل میں بادشاہ کی خدمت انجام دیتا ہے اور بادشاہ کے قریب ہے۔
ہینڈن کو کچھ اطمینان حاصل ہوا۔ اپنی منزل کا احساس ہوا تو اس نے سراٹھا کر دیکھا۔ اب تو وہ سر جھکائے چلا آ رہا تھا۔ اب اس نے دیکھا کہ وہ اپنے گاؤں اور جا گیر سے بہت دورآچکا ہے۔ کم عمر بادشاہ اپنے خیالوں میں گم تھا۔ اس نے جب ہینڈن کو قدرے بشاش دیکھا تو پوچھا:
’’اب ہماری منزل کہاں ہے؟‘‘
’’ لندن،حضور ہم لندن جار ہے ہیں۔‘‘ ہینڈن نے جواب دیا۔
جب وہ لندن برج کے قریب پہنچے تو یہ انیس فروری کی رات تھی۔ روشنیاں ہو رہی تھیں۔ بادشاہ ہنری ہشتم کو دفنایا جا چکا تھا اور کل نئے بادشاہ کی تاجپوشی کی رسم ادا کی جانے والی تھی اور ابھی سے اس کی خوشیاں منائی جارہی تھیں۔ لوگ ہجوم در ہجوم ناچ رہے تھے، گا ر ہے تھے اور پی رہے تھے۔ ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے، وہ ہلڑ بازی بھی کر رہے تھے اور اس ہجوم میں ہینڈن اور ایڈورڈ، ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔
اور ٹام
اصل بادشاہ ایڈورڈ چیتھڑوں میں لپٹا زندگی بھر کی مصیبتوں اور تکلیفوں کو برداشت کر چکا تھا۔ اس نے دکھی انسانیت کا مشاہدہ کیا تھا اور وہ بھوکا، بے گھر اور بے آسرا تھا۔ جب کہ ٹام…با دشاہ بن چکا تھا…ٹام جو ایک فقیر تھا۔
ٹام بادشاہ بن کر بادشاہت کے مزے اڑارہا تھا۔اب وہ بہت سے خوف اور ڈر بھلا چکا تھا۔اس کی حرکتوں میں بھی اب پہلے جیسی لاعلمی اور بوکھلا ہٹ نہیں رہی تھی۔اس میں ایک اعتماد پیدا ہو گیا تھا۔ اب وہ لیڈی الزبتھ اور لیڈی جین سے بھی نہیں گھبرا تا تھا بلکہ ان کے ساتھ مختلف کھیلوں میں حصہ لے کر اپنا وقت خوشگوار طریقے سے بسر کرتا تھا۔ کھانے پینے کے آداب سے بھی وہ پوری طرح واقف ہو چکا تھا ۔ اب وہ نوکروں کی کثرت پر بھی حیران نہ ہوتا تھا۔ اب تو ہاتھ ہلائے بغیر سب کچھ نوکروں سے کرانے کا بھی عادی ہو چکا تھا۔لباس تو اب بھی اسے ملازم ہی پہناتے تھے لیکن اب وہ اس لباس کے رکھ رکھاؤ کو بخوبی سمجھ گیا تھا۔ اس دوران میں اسے شاہی بینڈ کے نغمے سننے میں بھی دلچسپی پیدا ہوگئی تھی اور وہ اپنا دل خوش کر نے کے لئے شاہی بینڈ کو نغمے بکھیرنے کا اکثر حکم دیا کرتا تھا۔
ان سب بدلتی عادتوں کے باوجود ٹام کے دل میں بادشاہت کا غرور پیدانہیں ہوا تھا۔ وہ ایک نرم دل لڑ کا ہی رہا۔ وہ مظلوموں کی مدد کرتا تھا۔ اس نے کئی ایسے احکام صادر کئے تھے، جن کی وجہ سے بڑی بڑی بے انصافیوں کا خاتمہ ہوا تھا۔
اس محل میں اس کے جو ابتدائی شب و روز بسر ہوئے تھے، ان میں وہ اصلی شہزادے کی گمشدگی پر خاصا پر یشان رہا تھا۔ یہ اصلی شہزادے کی مہربانی اور شفقت تھی کہ جس کی وجہ سے وہ با دشاہ بن کر عیش کر رہا تھا۔ وہ دل سے اصلی بادشاہ کی واپسی کا خواہاں تھا۔لیکن جیسے جیسے اصلی بادشاہ کی واپسی میں دن گزرتے گئے، ٹام کے دل سے شہزادے کا خیال بھی کم ہوتا چلا گیا۔ محل اور بادشاہت کے تجربات نے اسے ذہنی طور پر بہت مصروف کر دیا۔اس کے لئے یہاں کی ہر چیز انوکھی تھی۔اس لئے وہ محل اور اپنی بادشاہت میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لینے لگا۔
شروع شروع میں اسے اپنی مظلوم ماں اور بہنوں کا خیال بھی بہت ستا تا رہا۔ وہ اپنے دل میں ان کے لئے دکھ اور در دمحسوس کرتا لیکن بعد کے دنوں میں وہ اور طرح سے سوچنے لگا کہ اگر اس کی اصلیت کھل گئی، اس کی ماں اور بہنیں بھی سامنے آ گئیں اور اسے پہچان لیا تو پھر وہ اسے گھسیٹ کر اس دنیا میں واپس لے جائیں گی، جہاں سردی، مار پیٹ، بھوک اور ذلت کے سوا کچھ نہیں۔اس خیال سے ہی وہ کانپ اٹھتا لیکن آہستہ آہستہ اس کی ماں اور بہنیں بھی اس کے ذہن سے نکلنے لگیں۔
19 فروری کی اس رات کو، ٹام اپنے شاہی بستر پرمیٹھی نیند سورہا تھا۔ باہر اس کے محافظ پہرہ دے رہے تھے۔ وہ بہت مسرور حالت میں سویا ہوا تھا کیونکہ کل اس کی تاجپوشی ہو نے والی تھی۔ کل وہ قانونی طور پر انگلستان کا بادشاہ بننے والا تھا۔
اور عین اسی لمحے، نصف شب کے وقت اصلی بادشاہ ایڈورڈ، بھوکا پیاسا، چیتھڑوں میں ملبوس، تھکا ماندہ، لوگوں کے ہجوم میں پھنسا ہوا تھا۔ وہ ویسٹ منسٹر گر جے کے قریب پہنچ گیا۔ جہاں کل نئے بادشاہ کی تاجپوشی کی تقریب ہونے والی تھی اور کچھ کاریگر وہاں کام کر رہے تھے ۔ تقریب کی بھر پور تیاریاں ہو رہی تھیں۔
جلوس
صبح جب ٹام کینٹی نیند سے بیدار ہوا تو وہ جانتا تھا کہ آج وہ بادشاہ بننے والا ہے۔ صبح اٹھنے کے بعد اس نے سب سے پہلے جو آواز یں سنیں، وہ توپوں کے دھاڑ نے کی تھیں۔ سارا لندن رات سے جاگ رہا تھا۔ بادشاہ کے جلوس کے استقبال کی تیاریاں ہو چکی تھیں۔
آج کے خاص دن کے لئے ٹام کے لئے خاص شاہی لباس تیار کیا گیا تھا، جواسے پہنایا گیا اور پھر پوری شاہانہ تیاری کے ساتھ فوجی بینڈ اور گھڑ سوار شاہی دستوں کے ساتھ جلوس محل سے نکلا۔ اسے جس شاہی بگھی پر سوار کیا گیا، اس کے گھوڑے لاکھوں میں ایک تھے۔ لارڈ ہرٹفورڈ اس کے ساتھ ساتھ گھوڑے پر سوار اس کی رہنمائی کے لئے موجود تھا۔ حکومت کے اہم عہد یدار اور در باری اپنے اپنے رتبے اور عہدے کے مطابق ادب سے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
جلوس جس راستے سے گزرتا، وہاں لوگ استقبال کے لئے موجود تھے۔ ہر طرف پر چم لہرار ہے تھے۔لوگوں نے اس جشن کی مناسبت سے نئے اور رنگ بر نگے کپڑے پہن رکھے تھے اور چاروں طرف رنگینیاں پھیلی ہوئی تھیں۔
شہر میں بادشاہ کا جلوس داخل ہوا تو لوگوں نے دعاؤں کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔شہر کے تمام معززین استقبال کے لئے موجود تھے۔ نئے بادشاہ کے لئے نعرے لگائے جار ہے تھے۔ لوگ’’بادشاہ ایڈورڈ زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا کر اپنی محبت کا اظہار کر رہے تھے۔ ٹام جو بادشاہ بنا بیٹھا تھا، ہاتھ ہلا کر ان کے سلام کا جواب دے رہا تھا۔ راستے میں جگہ جگہ آرائشی محرا بیں بنی ہوئی تھیں۔ بڑی بڑی شاندار سجی ہوئی سٹیجوں پر لوگ ترانے گا ر ہے تھے۔
ٹام کی سواری جب ایک جگہ سے آگے بڑھتی تو ایک شور اٹھتا…انعام…انعام…اور وہ مٹھیاں بھر بھر کے سکے ہجوم کی طرف پھینکنے لگتا تھا۔ لارڈ ہرٹفورڈ اس کے پاس کھڑا اسے اشارہ کرتا اور وہ سکے پھینکنے لگتا۔ وہ لوگوں پر سکے نچھاور کر رہا تھا اور لوگ اس پر گلاب کے پھولوں کی پتیاں لٹا ر ہے تھے۔ اعلیٰ عہد یدار، نواب اور معززین بھی اسے پھول پیش کر رہے تھے۔
یوں یہ شاہی جلوس اپنی شان وشوکت اور عوام کی زبردست پذیرائی کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔ ہر راستہ سجا ہوا تھا۔ چاروں طرف رنگارنگ پر چم لہرارہے تھے اور ٹام سوچ رہا تھا:
’’ یہ سب کچھ میرے استقبال کے لئے صرف میرے لئے کیا گیا ہے۔‘‘
نقلی بادشاہ کے رخسار خوشی سے سرخ ہورہے تھے۔اس کی آنکھوں میں بے پناہ چمک تھی۔خوشی سے وہ پھولے نہیں سما رہا تھا۔
لیکن مسرت کے یہ لمحے عارضی تھے۔
عین اسی لمحے جب وہ مٹھیوں میں سکے بھر کر انہیں ناداروں کی طرف پھینکنے والا تھا، اس کی نگاہ ہجوم میں کھڑی ایک خستہ حال غریب عورت پر پڑی جوا سے بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔ جب ٹام نے اسے اپنی طرف گھورتے دیکھا تو اس کا ہاتھ بے اختیار پرانی عادت کے مطابق آنکھوں کے سامنے آ گیا اور اس نے اپنے ہاتھ سے اپنی آنکھوں اور چہرے کو چھپانے کی کوشش کی۔
وہ عورت اس کی ماں تھی۔
جو ٹام کی پرانی عادت کو د یکھ کر فوراً سمجھ گئی کہ ٹام اس وقت بادشاہ بنا ہوا ہے۔ اور وہ لڑ کا جوان کے گھر آیا اور جسے وہ اپنا بیٹا سمجھتی تھی، وہ ٹام نہیں بلکہ حقیقی بادشاہ تھا۔ وہ اپنے کھوئے ہوئے بیٹے کو دیکھ کر یہ بھی بھول گئی کہ وہ بادشاہ بنا بیٹھا ہے۔ ہجوم کو چیرتی، وہ اس کی طرف بڑھی اور چیخنے لگی:
’’میرا بیٹا…میرا پیارا بیٹا۔‘‘
اس شور وغل نعروں اور ہنگامے میں اس کی آواز پر کون توجہ دیتا لیکن ٹام نے وہ پکار سن لی تھی اور پھر ہجوم نے اس عورت کو پیچھے دھکیل دیا اور ٹام کی شاہی سواری آگے بڑھ گئی۔
ٹام کا دل بجھ کر رہ گیا۔اب اسے جلوس کی شان و شوکت، اپنے استقبال کی گرم جوشی۔ آرائشی محرابوں، پر چموں اور لوگوں کے زندہ باد کے نعروں سے کوئی دلچسپی نہ رہی۔ اس کی آ نکھیں جھک گئیں۔ وہ اب کسی چیز کو دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ لوگ چیخ رہے تھے ،نعرے لگا رہے تھے لیکن وہ سر جھکائے کھڑا تھا۔
لارڈ ہرٹفورڈ نے اسے آہستہ سے کہا:
’’ حضور یہ وقت سر جھکانے کا نہیں۔ لوگ آپ کو سر جھکائے دیکھ ر ہے ہیں۔لوگوں کی طرف دیکھیں۔ ان پر سکے نچھاور کر یں۔ اپنا چہرہ اوپر اٹھا ئیں۔لوگوں کے نعروں اور سلام کاجواب مسکرا کر دیں۔‘‘
ٹام نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن اب وہ پہلے کی طرح خوش نہیں ہوسکتاتھا۔ لارڈ ہرٹفورڈ نے اسے پھر سمجھایا اور کہنے لگا:
’’بادشاہ سلامت شاید فقیروں کی حالت دیکھ کر اداس ہو گئے ہیں۔ ہاں وہ ایک عورت بھی تو چیخ رہی تھی۔ میں سمجھتا ہوں حضور والا کہ ایسی باتیں اور مناظر بادشاہوں کے مزاج پر گراں گزرتے ہیں۔‘‘
ٹام نے مردہ آواز میں کہا:
’’وہ عورت جو چیخ رہی تھی، وہ میری ماں تھی۔‘‘
لارڈ ہرٹفورڈ کو زبردست دھچکا لگا۔ اس نے غور سے ٹام کی طرف دیکھا اور دل میںگہرے رنج سے کہا:
’’آہ بادشاہ پر پھر پاگل پن کا دورہ پڑ گیا ہے۔‘‘
تاجپوشی
لندن کے تاریخی گر جے ویسٹ منسٹر میں جہاں ہمیشہ بادشاہ کی تاجپوشی کی رسم ادا کی جاتی تھی، وہاں تاجپوشی کے تمام انتظامات مکمل ہو چکے تھے۔
لاٹ پادری تشریف لا چکے تھے۔ ان کے عملے کے پادری اور ملک کے دوسرے اہم پادری بھی وہاں اپنے فرائض انجام دینے کے لئے پہنچ چکے تھے۔ پادریوں کے شاندار قیمتی چغے چاروں طرف نظروں کو لبھا رہے تھے۔ سلطنت کے تمام اہم عہدیدار با دشاہ سلامت کی پیشوائی اور استقبال کے لئے وہاں موجود تھے۔
توپیں دھاڑ رہی تھیں اور بادشاہ سلامت کی آمد کا اعلان کر رہی تھیں۔ ساز بج رہے تھے اور پھر بادشاہ کا جلوس آ پہنچا۔ سب نے استقبال کیا اور ٹام کو لاٹ پادری، دوسرے پادریوں، اہم عہد یداروں کے جلو میں تخت کے قریب لے جایا گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی تاجپوشی کی رسومات کا سلسلہ مختلف دعاؤں سے شروع کر دیا گیا۔ پورے احترام کے ساتھ ہر شخص اس تقریب کی رسومات کو دیکھ رہا تھا۔ ٹام کا رنگ زرد سے زرد ہوتا جار ہا تھا۔ اس کا دل کسی گہرے غم سے بوجھل ہورہا تھا اور اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
آخر کار رسم کا آخری مرحلہ شروع ہوا۔
انگلستان کے لاٹ پادری نے ایک شاندار تپائی پر رکھا انگلستان کے بادشاہ کا روایتی شاندار تاج اپنے ہاتھوں میں اٹھایا۔ تاج میں جڑے ہیروں اور جواہرات کی چمک نے لوگوں کی آ نکھیں خیرہ کر دیں۔
ہر شخص بہت مؤدب، بہت سنجیدہ ہوکر تقریب کے اس آخری مرحلے کو دیکھ رہا تھا۔
لیکن اچانک… ایک لڑکا جو ننگے سر تھا، جس کا لباس پھٹا ہوا تھا، وہ آ گے بڑھا۔ اس کی سنسنی خیز غیر متوقع آمد نے سب حاضرین کو گنگ اور ششدر کر دیا اور پھر اس کی بارعب آواز ویسٹ منسٹر گر جے کے بڑے ہال میں گونجی۔ وہ حکم دے رہا تھا:
’ ’میں آپ کو منع کرتا ہوں کہ انگلستان کے بادشاہ کا یہ مقدس تاج اس دھو کے باز کے سر پر نہ رکھیں۔ اصلی بادشاہ میں ہوں۔‘‘ 
وہ سب لوگ جواب تک گنگ اور بے حس تھے۔ اس آواز کے ساتھ ہی چونکے اور بہت سے ہاتھ آگے بڑھے تا کہ اسے پکڑ کر یہاں سے باہر نکال دیں لیکن اسی لمحے بادشاہ کے لباس میں ملبوس ٹام نے کہا:
’’اسے چھوڑ دو…اسے کوئی ہاتھ نہ لگائو۔ یہی بادشاہ ہے۔‘‘
پورے ہال میں سنسنی پھیل گئی۔ لوگ حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ وہ تصدیق کرنا چاہتے تھے کہ جو کچھ ان کے کانوں نے سنا کیاوہ صحیح تھا۔ لوگ آداب کو نظر انداز کر کے اپنی نشستوں سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ وہ سب اس چیتھڑوں میں لپٹے لڑ کے اور بادشاہ کو دیکھ ر ہے تھے۔ لارڈ ہرٹفورڈ جو پہلے حیران ہو گیا تھا۔ اس نے جلدی سے اپنے آپ کو سنبھالا اور اس نے واضح الفاظ میں حکم دیا:
’’ بادشاہ سلامت کی بات پر توجہ نہ دی جائے۔ ان کی ذہنی حالت پھر بگڑ گئی ہے۔اس آوارہ گر دکو پکڑ لیا جائے۔‘‘
لارڈ ہرٹفورڈ کے حکم کی تعمیل کے لئے شاہی افسر پھر ایڈورڈ کو پکڑنے گئے تو ٹام نے حکم دیا:
’’ہوش کر …عقل سے کام لو۔اسے چھوڑ دو۔ یہی بادشاہ ہے۔‘‘
اصلی بادشاہ ایڈورڈ کی طرف بڑھنے والے ہاتھ پھر رک گئے۔ سب بے حس وحرکت ہو کر رہ گئے۔ پھر سناٹا چھا گیا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہورہا ہے اور وہ کیا کریں اور پھروہاں موجودلوگوں نے ایک حیران کن اور نا قابل یقین منظر دیکھا۔
ان کا بادشاہ، جس کی تاجپوشی کی رسم میں شرکت کے لئے وہ سب یہاں ویسٹ منسٹر میں جمع ہوئے تھے۔ وہ اپنی جگہ سے چلتا ہوا آگے بڑھا اور پھر بڑے ڈرامائی انداز میں بھاگتا ہوا اس فقیر لڑ کے کے قدموں میں جھک کر کہنے لگا:
’’میرے آقا…بادشاہ سلامت، ٹام آپ کے ساتھ دھوکا نہیں کر سکتا۔ آپ بادشاہی کا تاج سر پر رکھیں اور اپنے تخت پر بیٹھ جائیں۔‘‘
لارڈ ہرٹفورڈ جو پہلے بہت غصے اور سخت نظروں سے چیتھڑوں میں لپٹے لڑ کے کو دیکھ رہاتھا۔ اچانک اس کی نظر یں بدلیں۔ ان میں حیرانی پیدا ہوئی۔ دونوں لڑ کے ہو بہوایک جیسے اور ہم شکل تھے۔اس نے دل میں کہا:
’’یہ مشابہت کتنی حیران کن ہے۔‘‘
اور پھر یکدم اس کے ذہن میں ایک خیال آیا اور اس نے ایڈورڈ کو مخاطب کر کے کہا:
’’میں تم سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں؟‘‘
ایڈورڈ نے پورے اعتماد سے جواب دیا:
’’آپ مجھ سے ہر سوال پوچھ سکتے ہیں۔‘‘
اس کے بعد لارڈ ہرٹفورڈ نے ایڈورڈ سے، شاہی در بار، آنجہانی بادشاہ ہنری ہشتم، شہزادی اور دوسرے امور کے بارے میں بہت سے ذاتی سوال پوچھے۔ایڈورڈ نے ہر سوال کا جواب اعتماد سے صحیح دیا۔
وہ سب جو سن رہے تھے، حیران ہور ہے تھے کہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس یہ لڑکا محل اور در بار اور ہر سوال کا جواب بالکل صحیح صحیح دے رہا تھا۔ ان کی حیرانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔اور پھر لارڈ ہرٹفورڈ نے سر ہلاتے ہوئے کہا:
’’ یہ حیران کن اور عجیب بات ہے کہ ہر سوال کا جواب بالکل درست دیا گیا ہے۔ لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ یہ آوارہ گرد بادشاہ ہے۔‘‘ 
ٹام جو خوش ہورہا تھا کہ اب اصلی بادشاہ کو پہچان لیا جائے گا، وہ پھر مایوس ہونے لگا۔ وہ کس طرح یقین دلاتا کہ وہ حقیقی بادشاہ نہیں بلکہ فقیر ہے اور اصلی بادشاہ وہ ہے جو فقیروں کے لباس میں سب کے سامنے کھڑا ہے۔
قصہ ختم کرنے کے لئے لارڈ ہرٹفورڈ نے حکم دیا:
’’اس لڑکے کو گرفتار کر لیں…‘‘
پھر اچا نک اسے ایک خیال آیا اور اس نے تیزی سے کہا:
’’ نہیں۔ابھی رک جاؤ۔ میں اس سے ایک آخری سوال کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
ایک بار پھر پورے ہال میں سناٹا چھا گیا۔لارڈ ہرٹفورڈ نے ایڈورڈ سے پوچھا:
’’ بتاؤ وہ شاہی مہر کہاں ہے جو بادشاہ نے شہزادے کو دی تھی۔ اگر تم اس شاہی مہر کا پتہ بتا دیتے ہوتو پھر یہ سارا معمہ حل ہو جا تا ہے کیونکہ اصلی بادشاہ وہی ہے، جسے اس مہر کا علم ہے کہ وہ اس نے کہاں رکھی تھی؟‘‘
واقعی یہ بہت اہم سوال تھا۔ اور اس سوال کے صحیح جواب پر ہی یہ معمہ حل ہوسکتا تھا۔ ریاست کے وزیر اور در باری جو جانتے تھے کہ شاہی مہر جسے مرنے والے بادشاہ ہنری ہشتم نے اپنے ولی عہد کو دی تھی، وہ نہیں مل رہی اور جو بادشاہ بننے والا ہے اسے بھی وہ مہر یاد نہیں رہی اور اس کو اس کی بیماری پرمحمول کیا گیا تھا۔ اب اگر یہ فقیرلڑ کا اس مہر کا پتہ بتا دیتا ہے تو پھر یہی اصل بادشاہ ہے۔ سب نے لارڈ ہرٹفورڈ کی موقع شناسی کی دل ہی دل میں داد دی اور بڑے شوق سے دیکھنے لگے کہ اب وہ فقیرلڑ کا کیا جواب دیتا ہے۔
ایڈورڈ نے اپنے خاص پرو قارشاہی انداز میں کہا:
’’ یہ کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے۔ آپ لارڈ سینٹ جان کومحل بھجوائیں۔میرے کمرے میں ایک خفیہ الماری ہے جو داہنی دیوار کے ایک کونے میں ہے۔ اس پر ایک تصویر آویزاں ہے۔اس تصویر کے نیچے ایک بٹن ہے۔ اسے دبائیں تو دیوار میں ایک الماری دکھائی دے گی۔ اسے کھولیں گے تو اندر ایک صندوقچی ملے گی۔ جو میرے خاص ہیرے جواہرات سے بھری ہے۔ اس کے پاس شاہی مہرمل جائے گی۔‘‘
ایڈورڈ نے بات ختم کی۔ سب حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔اس کے بات کرنے کا انداز سب کو متاثر کر رہا تھا۔ایسے میں ٹام نے کہا:
’’آپ لوگ کیوں کھڑے ہیں۔ سینٹ جان، آپ نے بادشاہ سلامت کا حکم نہیں سنا۔فور اًاس حکم کی تعمیل ہو۔‘‘
امرائے سلطنت میں سے لارڈ جان نے لارڈ ہرٹفورڈ کی طرف دیکھا اور لارڈ ہرٹفورڈنے اسے جانے کا اشارہ کیا۔
لارڈ جان تیزی سے حکم کی تعمیل کے لئے نکل گیا۔
اس دوران میں پورے ہال پر ایسی خاموشی چھائی رہی۔ جس میں ہلکی ہلکی سرگوشیاں بھی شامل تھیں۔ ہر شخص بے حد بے چینی سے لارڈ جان کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا۔
O
اور پھر تیز تیز چلتا لارڈ جان ہال میں داخل ہوا اور اس نے لارڈ ہرٹفورڈ کومخاطب کر کے کہا:
’’جناب…شاہی مہر وہاں نہیں ہے۔‘‘
سب لوگ بولنے لگے۔ وہی فقیر لڑ کا جس میں سب گہری دلچسپی لینے لگے تھے، اب وہ ان کی نگاہوں میں ایک فقیر اور دھو کے بازلڑ کے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ اور ایڈورڈ اپنے آپ کوتنہا اور بے آسرا محسوس کر نے لگا تھا۔
لارڈ ہرٹفورڈ کی آواز گونجی:
’’ اس فقیر کوحراست میں لے کر باہر لے جائیں۔اسے سخت سزا دی جائے گی۔ لیکن اس سے پہلے اسے بازار میں لے جا کر کوڑے مارے جائیں تا کہ سب کو عبرت حاصل ہو۔‘‘
شاہی دستے کے سپاہی آگے بڑھے تا کہ ایڈورڈ کوحراست میں لے سکیں لیکن ٹام نے چیخ کر کہا:
’’پیچھے ہٹ جاؤ۔ جس نے اسے ہاتھ لگایا، اپنی جان سے جائے گا۔‘‘
سپاہی جہاں تھے، وہیں رک گئے۔
لارڈ ہرٹفورڈ سب سے زیادہ پریشان اور حیران تھا۔اس نے لارڈ جان سے پوچھا :
’’کیا آپ نے اچھی طرح تلاشی لی تھی۔‘‘
جب اس نے یقین دلایا کہ وہ خوب اچھی طرح تلاشی لینے کے بعد خالی لوٹا ہے تو لارڈ ہرٹفورڈ کی حیرت اور پر یشانی میں اضافہ ہو گیا۔
اسی دوران میں ٹام کو اچا نک یاد آ گیا کہ جب ایڈورڈ اور اس نے کپڑے بدلے تھے اور جب ایڈورڈ اس کے بھیس میں باہر جانے والا تھا تو اس نے ایک چیز اٹھا کر ایک خاص جگہ رکھی تھی۔ یقینا وہی شاہی مہر ہو گی اور اب مصیبتوں کی وجہ سے ایڈورڈ بھول گیا ہے کہ اس نے وہ مہر کہاں رکھی تھی۔اس نے چونکہ اس مہر کو خفیہ الماری میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اس لئے وہ سمجھ رہا تھا کہ وہ مہر اس نے وہاں رکھ دی تھی۔ حالانکہ وہ مہر وہاں رکھی ہی نہیں گئی تھی۔اس لئے وہاں سے کیسے مل سکتی تھی۔
ٹام نے سب کی طرف دیکھا پھر لارڈ ہرٹفورڈ سے مخاطب ہوا:
’’یہ جو ہم سب کے سامنے پھٹے کپڑوں میں کھڑا ہے یہی ہمارا اصلی بادشاہ ہے۔ اور یہی آپ کو بتائے گا کہ شاہی مہر کہاں ہے۔اس وقت ان کی یادداشت کمزور پڑ گئی ہے۔ میں بادشاہ سلامت کو کچھ یادکرانا چاہوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر ٹام نے ایڈورڈ کی طرف دیکھا اور کہا:
’’بادشاہ سلامت یاد کیجئے۔ آپ نے میرے کپڑے پہنے۔ میں نے آپ کے ،ہم دونوں بڑے آئینے کے سامنے کھڑے ہوئے۔ ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے کتنے ملتے جلتے ہیں۔ بالکل ایک جیسے قد ،شکل، خد و خال اور ہاتھ پاؤں اور پھر آپ نے باہر کی دنیا کی سیر کا ارادہ کیا۔ آپ جب کمرے سے تیز تیز جانے لگے تو آپ نے ایک چیز اٹھا کر رکھی تھی…یاد کیجئے۔کوشش کریں بادشاہ سلامت، آپ کو سب کچھ یادآ جائے گا۔‘‘
ایڈورڈ سر ہلا رہا تھا۔ وہ اس منظر کی ایک ایک تفصیل کو ذہن میں تازہ کر رہا تھا۔ ایک ایک بات اسے یاد آ رہی تھی۔ اور پھر بڑے اعتماد سے بولا:
’’ خدا کا شکر ہے کہ مجھے سب کچھ یاد آ گیا۔ لارڈ جان آپ پھر محل میں میرے کمرے میں جائیں۔ وہاں دیوار کے ساتھ ایک زرہ بکترلٹکی ہوئی ہے۔اس کے اندر وہ شاہی مہر موجودہے۔‘‘
ٹام نے خوشی سے اونچی آواز میں کہا:
’’بالکل ٹھیک، بادشاہ سلامت، آپ کو یادآ گیا۔ میں نے آپ کو جاتے جاتے اس زرہ بکتر میں کچھ رکھتے دیکھا تھا لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ شاہی مہر ہے۔ لارڈ جان آپ فوراً جا ئیں اور بادشاہ سلامت نے جہاں بتایا ہے وہاں سے مہر لے آئیں۔ ‘‘
لارڈ جان ایک بار پھر محل کی طرف روانہ ہوا۔
ایک بار پھر سناٹے میں لوگ سرگوشیاں کرنے لگے۔ ہر شخص بے حد بے چین تھا۔ سنسنی نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ایسازبر دست حیران کن سنسنی خیز ڈراما، انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ابھی یہ فیصلہ ہو نے والا تھا کہ اصل بادشاہ کون ہے۔ وہ جو شاہی لباس پہنے کھڑا ہے یا وہ لڑکا جو پھٹے پرانے کپڑوں میں ہے…جب تک لارڈ جان واپس نہیں آیا۔ پورے ہال میں سنسنی اور اشتیاق کی لہر نے ایک ایک شخص کو اپنے نرغے میں لے لیا۔ ہر دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
O
اور پھر لارڈ جان ہال میں داخل ہوا۔ اس بار اس کے چہرے کے تاثرات مختلف تھے۔ اس نے تخت شاہی کے پاس جا کر شاہی مہر لارڈ ہرٹفو رڈ کو پیش کردی…اور پھر سارا ہال نعروں سے گونجنے لگا۔
’’بادشاہ سلامت زندہ باد…بادشاہ سلامت زندہ باد۔‘‘
کئی منٹوں تک نعرے گونجتے رہے۔نعرہ لگانے والوں میں ٹام بھی شامل تھا۔ اور ایڈورڈ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ ہر شخص اس کے سامنے جھک رہا تھا۔ کیونکہ وہی تو اصل بادشاہ تھا۔
اور پھر ٹام نے بادشاہ ایڈورڈ کے پاس جا کر درخواست کی:
’’میرے بادشاہ، آپ اپنا شاہی لباس پہنیں اور مجھے اپنے یہ پھٹے پرانے کپڑے دید یں۔‘‘
لارڈ ہرٹفورڈ نے حکم دیا:
’’ اس کے کپڑے اتار لئے جائیں اور اسے زندان میں ڈال دیا جائے۔ اس کی سزا موت ہے۔‘‘
لیکن نئے اور حقیقی بادشاہ ایڈورڈ نے کہا:
’’میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ کوئی اسے ہاتھ نہیں لگائے گا اور میرے ماموں جان۔‘‘ 
اس نے لارڈ ہرٹفورڈ کو مخاطب کر کے کہا:
’’آپ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ آپ اس لڑ کے کے ساتھ یہ سلوک روا رکھیں، جس نے آپ کے عہدے اور رتبے میں اضافہ کیا۔ جبکہ وہ حقیقی بادشاہ نہیں تھا۔اس لئے میں تم سے وہ عہدہ واپس لیتا ہوں جو اس نے تمہیں بخشا تھا۔‘‘
لارڈ ہرٹفورڈ نے جھک کر بادشاہ کو سلام کیا اور ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
بادشاہ سلامت ایڈورڈ نے ٹام کی طرف دیکھا اور کہا:
’’میں سمجھتا تھا کہ تم دھو کے باز ہو۔ تم بدل گئے ہو۔ لیکن تم نے ثابت کر دیا ہے کہ تم دل کے اچھے ہو۔ تم نے میرا تخت و تاج واپس دلانے میں میری مدد کی۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر تم کوشش نہ کرتے تو شاید میں اپنا تخت اور تاج حاصل نہ کر سکتا۔‘‘
ٹام ادب سے سر جھکائے کھڑا رہا۔ وہ اپنی تعریف سن کر خوش ہور ہا تھا۔
اس کے بعد ایڈورڈ کو شاہی لباس پہنایا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ پھر سے تاجپوشی کی رسموں کا نئے سرے سے آغاز ہوا اور پھر بادشاہ زندہ باد کے نعروں میں اس کے سر پر انگلستان کا تاج رکھ دیا گیا۔
بادشاہ ایڈورڈ
ہینڈن جب ایڈورڈ سے بچھڑ گیا تو اس نے ایڈورڈ کو ہجوم میں تلاش کرنے کی بہت کوشش کی۔ اس کوشش میں وہ ہجوم کے اندر تک گیا اور اس ہجوم میں پھنس گیا۔ کسی ماہر جیب تراش نے اس کی پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کی جیب میں جو چند بچے کھچے روپے رہ گئے تھے وہ بھی نکال لئے۔اب ہینڈن کے پاس ایک پیسہ بھی نہ ر ہا تھا۔
با ہمت اور بہادر ہینڈن کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ وہ ہر حال میں ایڈورڈ کو تلاش کرنا چاہتا تھا۔ وہ بات کا دھنی تھا اور اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ اس لڑکے کی حفاظت کرے گا اور اسے بے یارو مددگار اور بے سہارانہیں ہونے دے گالیکن اس وقت ہزاروں انسان کے ہجوم میں ایڈورڈ کو تلاش کرنا اس کے لئے ممکن نہ رہا تھا۔ اس کے باوجود اس نے دل نہیں ہارا۔ وہ گھنٹوں ایڈورڈ کو تلاش کرتا رہا۔
یوں ساری رات بیت گئی اور صبح ہوگئی۔
ہینڈن کو شدید بھوک لگ رہی تھی۔ لمبے سفر، کوڑوں کی سزا سے زخمی اور رات بھر ایڈورڈ کی تلاش کی تھکاوٹ نے اس کی بھوک چمکا دی تھی۔ وہ ناشتہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں تھا۔ اپنی تلوار بیچنے کے خیال سے ہی وہ کانپ اٹھا۔ وہ اپنے وقار اور عزت کی نشانی کو بیچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ادھر بادشاہ کا جلوس دیکھنے کے لئے لوگ اکٹھے ہور ہے تھے۔ ہینڈن بھوک سے نڈھال،لندن کے مضافاتی علاقے میں چلا گیا۔ وہ بہت تھکا ہوا بھی تھا۔ وہ ایک جگہ جا کر سستانے لگا اور پھر نیند اور بے ہوشی اس پر غالب آ گئی۔اس کی آنکھ اس وقت کھلی، جب تو پیں چل رہی تھیں۔اس نے اپنے آپ سے کہا:
’’اچھا تو نئے بادشاہ کی تاجپوشی ہوگئی۔‘‘
اس کے بعد وہ پھر سو گیا۔ وہ مسلسل سوتا رہا۔ اور اگلے دن صبح کے وقت اس کی آنکھ کھلی۔ اس نے یہ بھی اندازہ نہ لگایا کہ وہ کم وبیش تیس گھنٹے سوتا یا بے ہوش رہا ہے۔ وہ اٹھا، چلتے ہوئے اسے تکلیف ہورہی تھی۔ اس کا سر گھوم رہا تھا۔
قریب ہی دریا تھا۔ جہاں اس نے ہاتھ منہ دھویا۔ دریا سے پانی پیا۔ وہ اپنے آپ کو کوسنے لگا کہ اس نے سو کر اتنا وقت ضائع کر دیا۔ اس نے سوچا مجھے ہر حال میں اپنے والد کے دوست سر مارلو سے ملنا چاہیے تا کہ وہ مجھے بادشاہ سلامت سے ملوا سکے اور میں بادشاہ سے درخواست کروں کہ وہ میرے ساتھ انصاف کرے اور میرے بھائی ہیو نے جوظلم میرے ساتھ کیاہے اس کا بدلہ لے سکوں۔
اپنے پرانے پھٹے لباس میں وہ کسی نہ کسی طرح گیارہ بجے کے قریب محل پہنچ گیا۔ اور سر مارلو کی رہائش گاہ کے پاس جا کر رک گیا۔ ایک لڑکا باہر نکلا۔ جس نے اسے گھور کر دیکھا۔ہیڈن نے اسے روکا اور کہا:
’’تم جس گھر سے نکلے ہو، کیاو ہیں رہتے ہو؟‘‘
’’ ہاں جناب۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔
’ ’تم سر مارلوکو جانتے ہو؟‘‘ ہینڈن نے پوچھا۔ 
لڑکے نے حیران ہو کر اسے دیکھا اور بولا:
’’ہاں میں انہیں جانتا ہوں۔‘‘
لڑکے نے دل میں کہا کہ یہ کیسا اجنبی ہے جو یہ نہیں جانتا کہ میں ہی سر مارلو کا بیٹا ہوں۔‘‘
’’کیا وہ گھر کے اندر ہیں؟‘‘ ہینڈن نے پوچھا۔
لڑکے نے اداس لہجے میں جواب دیا:
’’ نہیں جناب، وہ تو قبر میں سور ہے ہیں۔‘‘
ہینڈن کو پھر بھی بات کی سمجھ نہ آئی۔ اس نے کہا کہ وہ ان سے ملنا چاہتا ہے۔ انہیں اطلاع دی جائے کہ ہینڈ ن ہال سے مائیلز ہینڈ ن آ یا ہے۔
لڑکے نے دل میں سوچا،یہ شخص مشکوک آدمی ہے۔ خدا جانے کیسے محل کے اندر گھس آیا ہے اور اس کے ارادے کیا ہیں۔اس نے ہینڈن سے کہا:
’’ آپ ادھر بیٹھیں میں اندراطلاع کرتا ہوں۔‘‘
لڑکے نے اسے جہاں بیٹھنے کے لئے کہا تھا۔ ہینڈ ن وہاں بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد محل کے شاہی دستے کے سپاہیوں نے اسے گھیرے میں لے کر گرفتار کر لیا۔ ہینڈن کچھ کہنا چاہتا تھا کہ افسر نے اسے چپ کرا دیا اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کی تلوار اتار لی جائے اور اس کی تلاشی لی جائے۔ ہیڈن نے بڑے مزاحیہ انداز میں کہا:
’ ’خدا کرے میری تلاشی سے آپ کو کچھ مل جائے۔ میں تو اپنے کپڑوں میں کوئی چیز بھی تلاش کرنے میں نا کام رہا ہوں۔‘‘
واقعی اس کے لباس سے کچھ نہ ملا۔ سوائے ایک لفافے کے۔افسر نے لفافہ پھاڑا۔اس میں سے کاغذ نکالا تو اس وقت ہینڈن کو یاد آ یا کہ یہ خط اس کے پاگل دوست نے اسے لارڈہرٹفورڈ کو پہنچانے کے لئے دیا تھا۔
افسر نے اس کاغذ کو پڑھنا شروع کیا۔ جو تین زبانوں انگریزی،فرانسیسی اور لاطینی میں لکھا گیا تھا۔ انگریزی کی عبارت پڑھ کر اس کا رنگ سرخ ہو گیا اور وہ بے اختیار بول پڑا۔
’’اوہ میرے خدا ،تخت کا ایک اور وارث …خرگوش کے بچوں کی طرح تخت کے وارث پیدا ہور ہے ہیں۔
پھر اس نے سخت لہجے میں سپاہیوں کو حکم دیا:
’’اس بدمعاش کو جیل میں ڈال دو۔ میں یہ قیمتی کا غذ بادشاہ سلامت کی خدمت میںبھجوا تا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ تیزی سے وہاں سے چلا گیا۔ ہینڈن نے کہا:
’’اب میری بدبختی کا قصہ ختم ہونے والا ہے۔ مجھے پھانسی کے پھندے سے لٹکا دیا جائے گا۔اوہ میرے خدا اس پاگل لڑکے کا کیا بنے گا…‘‘
سپاہی اسے اپنے ہاتھ لے گئے۔ اسے جیل کے ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ ایک کے بعد ایک، کئی افسر اسے دیکھنے آتے ہیں اور اسے دیکھ کر سر ہلاتے چلے جاتے ہیں۔
اور پھر یکدم ساری صورتحال تبدیل ہوگئی۔ایک افسرآ یا اور اسے اپنے ساتھ محل کی طرف لے گیا۔ اسے محل کے ایک افسر کے سپر د کر دیا گیا جس نے اسے بڑا احترام دیا اور بڑی عزت سے پیش آیا۔ ہینڈن بہت حیران ہوا کہ یکدم یہ کیسی تبدیلی رونما ہوئی ہے کہ اس کے ساتھ ایسااچھا اور باوقارسلوک کیا جانے لگا ہے۔
اور پھر اسے بادشاہ ایڈورڈ کے دربار میں لے جایا گیا…
بادشاہ ایک طرف منہ کئے تخت پر بیٹھا، اپنے ایک لارڈ سے کچھ کہہ رہا تھا۔ چند گز کے فاصلے پر کھڑا ہینڈن بادشاہ کا پورا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس نے سوچا کہ مجھے یہاں عزت و احترام سے لا کر دراصل مجھے ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اب بادشاہ اس بڑے افسر کو میری سزا کے بارے میں حکم دے رہا ہے۔
اور پھر بادشاہ نے اپنا چہرہ اس کی طرف کیا۔
ہینڈن ششدر رہ گیا۔ وہ سب کچھ بھول کر بادشاہ کوگھورتا رہ گیا جو وہی تھا۔ وہی لڑکا…جو بادشاہ ہونے کا دعویٰ کرتا تھا۔ 
اور پھر اس نے بادشاہ کو کہتے سنا۔
’’تم نے دیکھا کہ تم جو مجھے خواب دیکھنے والا سمجھتے تھے۔ میری حقیقت کیا ہے؟ ‘‘
ہینڈن سے کچھ بھی نہ بولا گیا۔ پھر اس نے ہمت کی اور کہا:
’’واقعی یہ تو سب کچھ حقیقت ہے۔خواب نہیں ہے۔‘‘
لیکن پھر بھی اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہی لڑ کا بادشاہ بھی ہوسکتا ہے۔ پھر اسے کچھ یاد آ یا۔ اس نے امتحان لینے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ بڑی جرات سے جہاں کھڑا تھا، وہاں سے چلتا ہوا ایک کرسی کے قریب پہنچا اور اس کے اوپر بیٹھ گیا۔
دربار میں کھڑے تمام در باری حیران رہ گئے۔ بادشاہ سلامت کے سامنے بیٹھنا ایسی گستاخی تھی جس کی سزا موت تھی۔
ہینڈن نے ایک کھردری آواز سنی، در بار کا ایک اعلیٰ افسر کہہ رہا تھا:
’’ اٹھ کر کھڑے ہو جاؤ۔ بدتمیز گستاخ…کیا تم نہیں جانتے کہ بادشاہ سلامت کے سامنے کرسی پر نہیں بیٹھا جا تا۔‘‘
تخت پر بیٹھا بادشاہ ایڈورڈمسکرایا، پھر اس نے کہا:
’’ہم اسے زبان دے چکے ہیں کہ اسے دربار میں کرسی دی جائے گی۔ یہ خاص رعایت اسے اور اس کے وارثوں کو بھی ہمیشہ حاصل رہے گی۔‘‘
ہینڈن نے فوراً یقین کرلیا کہ وہ جسے پاگل لڑ کا سمجھا تھا، وہی حقیقی بادشاہ ہے۔ اور جب وہ اپنے آپ کو بادشاہ کہا کرتا تھا تو جھوٹ نہیں کہتا تھا۔ وہ ادب سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
بادشاہ سلامت نے در بارکو مخاطب کر تے ہوئے کہا:
’’خواتین، لارڈ ز اور در بار یو! اسے دیکھو …یہ مائیلزہینڈن، میرا سب سے وفادار ،سچا اور چہیتا خادم ہے۔اس نے مجھے کئی بار موت کے منہ سے بچایا۔ اس لئے میں اسے سر کے خطاب سے نوازتا ہوں اور یہی وہ وفادارشخص ہے جس نے میری جگہ کوڑے کھا کر مجھے شرمساری سے بچایا۔ اس کی اس بے مثال قربانی کی وجہ سے میں ارل آف کینٹ بنا تا ہوں۔ اسے اس کی خدمات کے مطابق سونا اور جاگیر عطا کی جائے گی اور ہمارے فرمان کے مطابق اسے اور اس کی آنے والی نسلوں کو ہمیشہ بادشاہ کے دربار میں کرسی دی جائے گی۔‘‘
ہینڈن نے ابھی تک یہ نہیں دیکھا تھا کہ دربار میں اس کا بھائی ہیو اور ایڈتھ بھی موجود ہیں۔ یہ دونوں ابھی ابھی دربار میں پہنچے تھے۔ بادشاہ کو پہچان کر ہیو کی جان نکلی جا رہی تھی۔ چیتھڑوں میں لپٹا یہی لڑکا اس کے بھائی کے ساتھ ہینڈن ہال آیا تھا اور اسے، اس نے کوڑے مارنے کا حکم دیا تھا۔اسے جیل میں ڈال دیا تھا۔ اور وہ…با دشاہ تھا۔
وہ تیزی سے آگے بڑھا اور اسی لمحے ہینڈن نے اپنے بھائی ہیو کو دیکھا جو بادشاہ کے قدموں میں گرا، گڑ گڑار ہا تھا۔ بادشاہ نے حقارت سے اپنے پاؤں پیچھے ہٹا کر حکم دیا:
’ ’اس ڈاکو کو حراست میں لے کر جیل میں ڈال دو۔‘‘
بادشاہ سلامت کے حکم کی فوراً تعمیل کی گئی۔اسے حراست میں لے کر دربار سے لے جایاگیا…
O
تھوڑی دیر بعد دربار میں… ٹام داخل ہوا۔ اس کا لباس قیمتی اور خوبصورت تھا۔ وہ آ کر بادشاہ سلامت کے سامنے جھک گیا۔ بادشاہ نے کہا:
’’ان دو ہفتوں میں جب تم ولی عہد اور بادشاہ بنے رہے، تم نے جو کچھ کیا،اس کی پوری تفصیل میرے علم میں آ چکی ہے۔ ہم تم سے بہت خوش ہیں۔ تم نے لوگوں پر رحم کیا، تمہاری والدہ اور تمہاری بہنیں اب آرام اور سکون کی زندگی بسر کر یں گی اور تمہارے والد کو پھانسی دیدی جائے گی کہ وہ اس سزا کا مستحق ہے۔
ہم نے غریب اور نادار بچوں کی رہائش، خوراک اور تعلیم کا معقول انتظام کر دیا ہے۔ تم اس ادارے کے نگران بنائے جاتے ہو۔ لوگ اپنے بادشاہ ایڈورڈ کو ہمیشہ یادرکھیں گے کیونکہ ہم غریبوں کی غربت اور جہالت دور کر دیں گے۔ ظالمانہ قوانین ختم کر دیں گے۔‘‘
ٹام نے بادشاہ کے ہاتھ کا بوسہ دیا۔اجازت لی اور در بار سے نکل گیا۔ وہ بھاگ رہا تھا تا کہ جلدی سے اپنی بہنوں اور ماں کو خوشخبری سنا سکے کہ ان کے دکھ دور ہو گئے ہیں۔
انصاف
جب سارے معمے ختم ہو گئے، ہر بات واضح ہوگئی تو ہیو نے بھی اپنے جرائم کا اعتراف کر لیا۔ اس نے ایڈ تھ اور اپنے والد کی ساری جائیداد ہڑپ کرنے کے لئے یہ جرائم کئے تھے۔اس نے اپنے ملازموں کو ڈرایا دھمکایا تھا کہ وہ ہیڈن کو پہچاننے سے انکار کر دیں۔ ایڈتھ کو اس کی چالبازی اور حالات نے اگر چہ اس کی بیوی بنادیا تھا۔ اس کے باوجود وہ ہینڈ ن کو دل سے چاہتی تھی اور اس کی زندگی بچانا چاہتی تھی۔ ہیو نے اسے دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے ہینڈ ن کو شناخت کر لیا تو وہ ہینڈن کو قتل کرا دے گا۔ اس لئے ہینڈن کی جان بچانے کے لئے اس نے اسے پہچاننے سے انکار کر دیا تھا۔
ہیو کے جرائم کی فہرست بہت طویل تھی۔ اس نے بادشاہ کو بے عزت کیا اور کوڑے لگانے کا حکم دیا تھا۔ اسے پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
ہینڈن ہال بھی ہینڈ ن کی جاگیر میں شامل ہو گیا اور ایڈ تھ اور اس کی شادی پر اس کے گاؤں میں زبردست جشن منایا گیا اور خود بادشاہ سلامت نے دولہا اور دلہن کو قیمتی تحائف بھجوائے۔
ٹام کا والد کینٹی کہیں غائب ہو گیا۔ تلاش کے باوجود وہ نہ مل سکا۔
بادشاہ ایڈورڈ نے کسانوں کے لئے نئے قوانین بنائے۔ ان سب لوگوں کو اس نے انعام دیئے جو اس کے ساتھ برے دنوں میں اچھی طرح پیش آئے تھے۔ بہت سے ظالمانہ قوانین ہمیشہ کے لئے ختم کر دیئے گئے۔اس نے تاریخ میں ایک انصاف پسند بادشاہ کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔
ٹام اور ہینڈن ہمیشہ بادشاہ کے بہت قریب رہے ۔وہ ان سے بہت محبت کرتا تھا۔ وہ اکثر ان دنوں کی کہانی سنا تا، جب وہ فقیر سمجھا گیا تھا۔ جب بھی کوئی کسی غریب پرظلم کرتا تو وہ کہتا:
’’تم غربت اور تکلیف کو کیا جانتے ہو۔ میں نے غربت اور بھوک کا مزہ چکھا ہے۔ غریبوں سے ہمیشہ محبت کرو۔ ان کے دکھ دور کرو۔‘‘
بادشاہ ایڈورڈ کا دور حکومت انگلستان کی تاریخ کا سنہرا دور تھا۔ کیونکہ سب کو انصاف ملتا تھا۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top