فتح اور شکست کا راز
طالب ہاشمی
۔۔۔۔۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ بنے تو اسلامی خلافت کی اپنے ہمسایہ طاقتور دشمنوں روم اور ایران سے جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ مسلمان ایک طرف ایران میں لڑ رہے تھے اور دوسری طرف ملک شام میں جس پر اس زمانے میں روم کا قبضہ تھا۔ ہرقل شاہ روم کے پاس لاکھوں سپاہیوں پر مشتمل بڑی زبردست فوجیں تھیں جن کے پاس جنگی ساز و سامان کی کوئی انتہا نہ تھی۔ ان کے مقابلے میں مسلمان فوج تعداد میں بہت کم تھی اور اس کے پاس ساز و سامان بھی واجبی سا تھا۔ اس کے باوجود مسلمان مجاہدین رومیوں کو پے در پے شکستیں دے کر شام کے کئی بڑے شہروں،دمشق، حمص، لاذقیہ وغیرہ پر قبضہ کر چکے تھے۔شاہ روم ہرقل اپنی فوجوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے خودشام آ کر انطاکیہ میں مقیم ہو گیا تھا۔ دمشق، حمص وغیرہ میں شکست کھا کر جو رومی وہاں سے بھاگے تھے۔انہوں نے انطا کیہ پہنچ کر ہرقل سے فریاد کی کہ عربوں نے سارے شام کو روند ڈالا ہے۔ ہم نے ان کو روکنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی لیکن وہ سیلاب کی طرح آگے ہی آگے بڑھ رہے ہیں۔ان کوروکنے کی آپ ہی کوئی تد بیرکر یں۔
اس فریاد پر ہرقل نے ان میں سے چند ہوشیار اور معزز آدمیوں کو دربار میں طلب کیا اور ان سے پوچھا کہ تم وہی ہوجنہوں نے ایرانیوں اور ترکوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ اب ایک خانہ بدوش قوم کے گنتی کے سپاہیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے حالانکہ وہ تعداد، ہتھیاروں اور ساز وسامان میں بھی تم سے کہیں کم ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس پر سب نے شرم سے سر جھکا لیے اور کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر ایک تجربہ کار بوڑھا آدمی اٹھا اور آگے بڑھ کر یوں تقریر کی:
”بادشاہ سلامت! اس کی وجہ یہ ہے کہ عربوں کے اخلاق ہمارے اخلاق سے اچھے ہیں۔ وہ رات کو عبادت کرتے ہیں،دن کو روزے رکھتے ہیں، کسی پر ظلم نہیں کر تے، آپس میں برابری کے ساتھ رہتے ہیں، وہ اپنے اللہ کی اطاعت اور اپنے دین کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ ان کے لشکر کے ہر آ دمی کو زندگی سے زیادہ موت پیاری ہے، لڑتے ہیں تو اپنے اللہ سے مدد مانگتے ہیں، لڑائی میں مارے جانے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں،اس لیے سرہتھیلی پر رکھ کر لڑ تے ہیں، جنگ کے میدان سے بھاگنے یا ہتھیار ڈالنے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کے مقابلے میں ہمارا یہ حال ہے کہ شراب پیتے ہیں، دھوم دھڑلے سے برے کام کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا ہر کام ہمت اور استقلال سے خالی ہوتا ہے اور عربوں کے ہر کام میں جوش اور استقلال پایا جا تا ہے۔“
یہ تقریر سن کر ہرقل نے سر جھکالیا۔ بوڑھے رومی نے جو کچھ کہا تھا وہ اس کو جھٹلا نہیں سکتا تھا۔ اس لیے خاموش ہو گیا لیکن دل میں اس کو یقین ہوگیا کہ جس قوم سے رومیوں کو پالا پڑاہے وہ اس سے کبھی نہیں جیت سکتے۔
یہ واقعہ ایک اور طریقے سے بھی بیان کیا جا تا ہے، وہ اس طرح کہ اجنادین کی لڑائی میں رومیوں کی زبردست فوج کو شکست ہوئی تو کچھ عرصہ بعد اس کے سپہ سالار نے (جو شاہ روم کا بھائی تھا) ایک عیسائی عرب کو مسلمانوں کے لشکر میں یہ معلوم کرنے کے لیے بھیجا کہ ہر لڑائی میں مسلمانوں کی فتح کا کیا راز ہے۔ وہ شخص مسلمانوں کے لشکر میں آ کر گھل مل گیا اور کئی دن تک ان کے ساتھ رہ کر دیکھتا رہا کہ مسلمان دن رات کیسے گزارتے ہیں۔
اس نے دیکھا کہ مسلمان پانچوں وقت پابندی سے نماز پڑھتے ہیں، رات کو دیر تک عبادت کرتے رہتے ہیں۔ ہرشخص اپنے امیر کا دل و جان سے فرمانبردار ہے۔ امیر بھی اپنی بڑائی نہیں جتاتا۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتاہے۔سب ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں،جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں۔ اس شخص نے واپس جا کر اپنے سپہ سالارکو یہ باتیں بتائیں تو بے اختیار اس کے منہ سے نکلا،جس قوم میں یہ صفتیں ہوں اس کا مقابلہ کرنا اپنی موت کو دعوت دینا ہے۔