ایسے بھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
طالب ہاشمی
۔۔۔۔۔
پاکستان بننے سے کچھ عرصہ پہلے کا ذکر ہے کہ ہندوستان کے ایک شہر کپورتھلہ میں دین کے ایک بڑے عالم مولانامحمود علی شاہ رہتے تھے۔ وہ رند ھیر کالج کپورتھلہ میں عربی کے پروفیسر تھے۔ وہ نہایت نیک اور سچے مسلمان تھے۔ انھوں نے اونچے در جے کی کئی دینی کتابیں لکھیں جو مسلمانوں میں بہت مقبول ہوئیں۔ان میں سے کچھ کتابوں کے نام یہ ہیں:
دین و دولت
دین و دانش
سنت و بدعت
ترجمہ قصیدہ بردہ شریف
مولا ناہر ماہ اپنی تنخواہ سے کچھ رقم بچا کر الگ رکھ لیتے تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ جب اتنی رقم جمع ہو جائے جس سے (قرض لیے بغیر) ایک مکان بنایا جا سکے تو وہ اپنا مکان بنوالیں گے۔ آخر چند سالوں کے بعد وہ دن آ گیا جب مولانا اپنا ارادہ پورا کر سکیں۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور کپور تھلہ میں ایک صاف ستھرا اچھا سا مکان بنوالیا۔ ان کے ملنے والے ایک شخص کو یہ مکان اتنا پسند آیا کہ اس نے مولانا سے یہ مکان کرائے پر لینے کی خواہش ظاہر کی۔ مولانا اس پر راضی نہ ہوئے لیکن اس شخص نے اتنا اصرار کیا اور اتنی منت سماجت کی کہ مولا نا کا دل پسیج گیا اور انھوں نے اسے وہ مکان کرائے پر دے دیا۔ کرایہ دار بھی اپنے وعدہ کے مطابق ہر ماہ کا کرایہ پابندی سے ادا کر دیتا تھا۔ اس طرح کئی سال گزر گئے۔ ایک دن جب کرائے دار معمول کے مطابق کرایہ ادا کرنے آیا تو مولانا نے فرمایا:
”آپ نے آج تک جس قد رقم کرائے کے طور پر ادا کی ہے میں نے وہ سب اپنے پاس جمع کر رکھی ہے۔ نہ اسے بینک میں جمع کرایا اور نہ اس میں سے کبھی ایک پیسہ تک خرچ کیا۔ اب یہ ساری رقم اس رقم کے برابر ہوگئی ہے جو میں نے مکان بنوانے پر خرچ کی تھی۔
اب میں اس سے زیادہ کا حق دار نہیں ہوں اس لیے آپ سے مزید کر ایہ نہیں لے سکتا۔اب دو صورتیں ہیں۔ آپ جو پسند کر یں وہی اختیار کی جائے گی۔ پہلی صورت یہ ہے کہ میرے پاس جمع کرائے کی ساری رقم آپ لے لیجیے اور مکان میرے حوالے کر دیجیے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ میرے ساتھ کچہری چلیے اور مکان اپنے نام رجسٹری کرا لیجیے۔ مولانا کی گفتگو سن کر کرائے دار حیران رہ گیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس زمانے میں کوئی شخص اتنا پر ہیز گار ہوسکتا ہے لیکن جب مولانا نے کرائے کی جمع کی ہوئی ساری رقم مکان کے کاغذات سمیت اس کے سامنے رکھ دی تو اس کو یقین آ گیا کہ ایسے نیک
”کچھ لوگ ابھی باقی ہیں جہاں میں“
اس نے مولانا کے ہاتھ چومے۔ مولانا کا بار بارشکر یہ ادا کیا اور کوئی بھی صورت اختیار کرنے سے انکار کیا لیکن مولانا نے اس کی ایک نہ سنی اور اسے مجبور کر دیا کہ وہ ان کی بات مان لے۔
مشہور عالم اور ادیب مولانا جعفر شاہ ندوی پھلوار وی مرحوم نے اپنے ایک مضمون میں یہ واقعہ بیان کیا ہے اور آخر میں لکھا ہے کہ:
”مولا نا محمود علی شاہ سے میرے خاصے مراسم تھے اور میں ان کے ہاں اور وہ میرے ہاں آیا جایا کرتے تھے۔ اس واقعے کو سننے کے بعد میرے دل میں ان کی وقعت بہت بڑھ گئی تھی۔“
جب وہ میرے پیچھے جمعہ یا کوئی اور نماز ادا کر تے تو میرے لیے یہ فیصلہ مشکل ہو جا تا کہ میں ان کا امام بن کر مزید گناہوں کا بوجھ اپنے سر لے رہا ہوں یا ان کی برکت سے میرے گناہوں کا کفارہ ادا ہورہا ہے۔
(اردو ڈائجسٹ جنوری 64 ء سے ماخوذ)