skip to Main Content

غلام پہلوان

طالب ہاشمی

۔۔۔۔۔

”پہلوان“ فارسی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی سور ما، طاقتور، شہ زور اور کشتی لڑنے والے کے ہیں۔ جسمانی طاقت کو ہر زمانے میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔خوداللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جسمانی طاقت کو اپنی بہت بڑی نعمت قرار دیا ہے۔ ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ طاقتور مسلمان اللہ کے نزدیک کمز ور مسلمان سے زیادہ اچھا اور پیارا ہے۔ دنیا میں قوت یا طاقت واقعی بہت اچھی چیز ہے اور یہ دین دنیا دونوں میں کا میابی کا ذریعہ بنتی ہے۔ قوت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان صحت کی حفاظت کے اصولوں پر عمل کرے۔ ورزش اور محنت پابندی سے کرے۔ہر قسم کی نشہ لانے والی چیزوں اور بری عادتوں سے پر ہیز کرے۔
پرانے زمانے میں جب بندوقیں، تو پیں وغیرہ ایجاد نہیں ہوئی تھیں، اسی شخص کو پہلوان کیا جا تا تھا جو بہت طاقتور ہو اور تلوارا، نیزہ اور تیر وغیرہ جیسے ہتھیار خوب چلا سکتا ہو۔ جوں جوں زمانہ گزرتا گیا اور تیر، تلوار نیزہ وغیرہ کی جگہ بندوق،توپ، بم وغیرہ نے لے لی، پہلوان صرف اسی شخص کو کہا جانے لگا جو بڑا شہ زور ہو اور کشتی لڑنے میں مہارت رکھتا ہو۔ یوں تو بعض دوسرے ملکوں کی طرح برصغیر پاک و ہند میں بھی کشتی کا شوق صدیوں سے چلا آتا ہے لیکن گزشتہ دو صدیوں میں اس سرزمین میں چند ایسے نامی پہلوان پیدا ہوئے جن کی بے مثال شہ زوری نے دنیا بھر میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ ان پہلوانوں میں ایک نام ”غلام پہلوان“ کا ہے جس کو انیسویں صدی کا سب سے بڑا پہلوان کہا جا تا ہے۔
غلام پہلوان کا پورا نام ”غلام محمد“ تھا۔ اس کا والد ”علیا پہلوان“ پنجاب کے شہر امرتسر کا رہنے والا تھا اور ہندوستان کی ایک ریاست جودھپور کے مہاراجہ کے ہاں سات روپیہ یومیہ پر ملازم تھا۔1824 عیسوی میں علیا کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام اس نے غلام محمد رکھا۔ یہی غلام محمد آ گے چل کر ”غلام پہلوان“ کے نام سے مشہور ہوا۔ علیا کی دلی آرزوتھی کہ اس کا بیٹا بڑا ہو کر ایک زبردست پہلوان بنے، چنانچہ اس نے بیٹے کی پرورش اور تربیت اس انداز سے کی کہ بارہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے غلام محمد بڑے زور اور قد کاٹھ کا مالک ہوگیا۔ علیا جودھپور سے امرتسر آ تا تو غلام محمد کو بھی اپنے ساتھ لاتا اور امرتسر کے تجر بہ کار پہلوانوں سے اکھاڑے میں اس سے زور کرواتا۔ اس طرح غلام محمد کو بارہ سال کی عمر ہی میں کشتی کے فن میں بڑی مہارت حاصل ہوگئی۔ اسی سال (1876ء میں) علیا فوت ہو گیا۔ مہاراجہ جودھ پورکو اس کی وفات سے سخت صدمہ ہوا اور اس نے غلام محمد کو بلا کر علیا کی تنخواہ اس کے نام کر دی اور غلام محمد کی سر پرستی اور قدردانی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اسی طرح دوہی سالوں میں وہ ایک شہ زور پہلوان بن گیا اور غلام پہلوان کے نام سے مشہور ہو گیا۔
غلام پہلوان کی سب سے پہلی کشتی 1878 عیسوی میں ملا ہانڈہ پہلوان سے ہوئی۔ اس وقت غلام پہلوان کی عمر صرف پندرہ سال کی تھی۔ اس کا مقابلہ ایک ایسے پہلوان سے تھا جو بڑا تجربہ کار اور قد کاٹھ، جسم اور طاقت ہر لحاظ سے غلام سے بڑھ چڑھ کر نظر آ تا تھا لیکن جب کشتی شروع ہوئی تو غلام نے دس منٹ کے اندر اپنے طاقتور حریف کو چاروں شانے چت کر دیا۔
غلام پہلوان کی دوسری کشتی فیروز پہلوان سے ہوئی۔فیروز بڑا مشہور شہ زور پہلوان تھا۔ نوجوان غلام نے اسے بھی چند منٹ کے اندر گرالیا۔
اس کی تیسری کشتی چراغ پہلوان عالی والا سے ہوئی۔ چراغ ایک پرانا پہلوان تھا جو بے شمار داؤ پیچ جا نتا تھا اور ملک کے نامی گرامی پہلوانوں کو ہرا چکا تھا۔ غلام پہلوان سے اس کی کشتی 1880 عیسوی میں جودھپور میں ہوئی۔ اس کو دیکھنے کے لیے لوگ بڑی دور دور سے آئے۔ ان میں کئی ریاستوں کے راجے مہارا جے اور نواب بھی شامل تھے۔ غلام پہلوان نے اس نامی پہلوان کو بھی ایک گھنٹے کی سخت کوشش کے بعد زیر کر لیا اور اس کے ساتھ ہی سارے ملک میں غلام پہلوان کی شہرت کے ڈنکے بجنے لگے۔
1886 عیسوی میں غلام مہاراجہ جودھ پور سے رخصت لے کر امرتسر آ گیا۔ ان دنوں کیکر سنگھ نام کے ایک نہایت شہ زور پہلوان نے برصغیر میں اپنی شہرت کے جھنڈے گاڑ رکھے تھے۔ وہ اٹاری ضلع امرتسر کا رہنے والا ایک جاٹ تھا۔ اس کا اصل نام تو پریم سنگھ تھا لیکن ایک دفعہ وہ اپنے کھیت سے کیکر (ببول) کا ایک بہت بڑا درخت کاٹ کر اکیلے ہی اپنے کندھے پر اٹھا کر لے آیا تھا، اس لیے کیکر سنگھ کے نام سے مشہور ہو گیا۔ وہ گہرے سانولے رنگ کا ایک گرانڈ یل، لمبے قد کاٹھ کا انتہائی طاقتور پہلوان تھا۔ کہا جا تا ہے کہ اس میں گینڈے کی سی طاقت اور شیر کی سی پھرتی تھی۔ مہاراجہ کشمیر نے اس کی بھاری تنخواہ مقرر کر رکھی تھی۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سارے ملک میں کیکر سنگھ کی ٹکر کا کوئی پہلوان نہیں ہے۔ مہاراجہ کشمیر نے غلام پہلوان کی شہرت سنی تو اسے 1886ء میں جموں بلا بھیجا۔ غلام اپنے چند شاگردوں کے ساتھ امرتسر سے جموں پہنچا۔ وہاں ایک بہت بڑے دنگل کا انتظام کیا گیا تھا۔ اسے دیکھنے کے لیے ہزار ہالوگ جموں میں جمع ہو گئے۔ دنگل شروع ہوا تو کیکر سنگھ ایک مست ہاتھی کی طرح چھلانگ لگا کر اکھاڑے میں اترا۔ اس کے مقابلے میں غلام آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا عاجزی کی تصویر بنا ہوا اکھاڑے میں آیا۔ غلام اور کیکر سنگھ کے قد کا ٹھ اور جسم و جان میں بڑا فرق تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ کیکرسنگھ اس کو پیس کر رکھ دے گالیکن کشتی شروع ہوئی تو لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہی غلام جو عاجزی کی تصویر بنا ہوا تھا۔ شیر ببر بن گیا اور کیکر سنگھ کو دھکیلتا ہوا اکھاڑے کے باہر لے گیا لیکن مہاراجہ کے حکم سے دونوں پھر اکھاڑے کے اندر آ گئے۔ دو گھنٹے تک دونوں ایک دوسرے کو گرانے کے لیے جان توڑ کوشش کرتے رہے، آخر غلام نے ایک زوردارنعرہ لگایااور بجلی کی سی تیزی کے ساتھ ایک ایسا داؤ مارا کہ کیکر سنگھ چاروں شانے چت ہو گیا۔ تماشائیوں نے تعریف اور شاباش کے نعروں سے آسمان سر پر اٹھالیا اور ہر طرف سے غلام پر پھولوں کی بارش ہونے لگی۔ مہاراجہ نے غلام کو بہت بھاری انعام دیا اور اسے اپنے پاس ملازم رکھ لیا لیکن سات ماہ کے بعد وہ اپنے پرانے مہر بان مہاراجہ جو دھپور کے بلانے پر جودھپور چلا گیا۔
1890 عیسوی میں مہاراجہ کوچ بہار کی سر پرستی میں کلکتہ میں ایک عظیم الشان دنگل کا انتظام کیا گیا۔ اس میں برصغیر کے تمام بڑے بڑے پہلوانوں کو بلایا گیا۔ غلام پہلوان بھی کلکتہ پہنچا۔ اس دنگل کا سب سے بڑا انعام چاندی کا ایک گرز تھا جس کی قیمت اس زمانے میں سولہ ہزار روپے کے لگ بھگ تھی۔ غلام لنگوٹ کس کر اکھاڑے میں اترا اور اس گرز پر ہاتھ رکھ کر بلند آواز سے کہا:
جو شخص مجھ سے کشتی لڑنا چاہے وہ میدان میں آئے۔“
لیکن کسی کو اس کے مقابلے پر آنے کی ہمت نہ ہوئی۔ پھر غلام نے للکار کر کہا:
”اگر ایک پہلوان مجھ سے کشتی نہیں لڑ سکتا تو دوآ جائیں اور دونوں مل کر میرے ساتھ کشتی لڑ یں ورنہ اس انعام پر میراحق ہوگا۔“
اب بھی کسی کو اس کے سامنے آنے کی ہمت نہ پڑی۔ چنانچہ ججوں نے اتفاق رائے سے انعامی گرز غلام کو دے دیا۔ اس کے چند دن بعد غلام کے مہربان مہاراجہ جودھپور نے وفات پائی اور غلام ہمیشہ کے لیے اپنے وطن واپس آ گیا۔
ان دنوں لاہور میں ایک زندہ دل ٹھیکے دار ”میاں صوبہ شیر فروش“ پہلوانوں کا بے حد قدردان تھا اور کبھی کبھی دنگل کرا تار ہتا تھا۔
1895 عیسوی میں اس نے شاہدرہ (لاہور) میں ایک عظیم الشان دنگل کرایا۔ اس میں سب سے بڑا جوڑ غلام پہلوان اور کیکر سنگھ کا تھا۔ ان کی کشتی دیکھنے ملک کے چپے چپے سے لوگ اس کثرت سے شاہدرہ آئے کہ محکمہ ریلوے کواسپیشل گاڑیاں چلانی پڑیں۔اس کشتی کا فیصلہ دس بارہ منٹ میں ہو گیا اور ججوں نے غلام کو فاتح (جیتنے والا) قرار دیا لیکن کیکر سنگھ کے حامیوں نے یہ فیصلہ تسلیم نہ کیا، چنانچہ اگلے سال 1896ء میں لاہور میں پھر ایک بہت بڑا دنگل ہوا۔ اس میں غلام اور کیکر سنگھ ساڑھے تین گھنٹے تک ایک دوسرے سے زور آزمائی کرتے رہے۔ اس دوران میں کیکر سنگھ نے غلام کی انگلیاں چباڈالیں اور منصفوں نے کشتی چھڑ ادی۔ اس طرح دنگل ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوگیا۔
1897ء میں ان نامی پہلوانوں کی آخری اور سب سے بڑی کشتی ریاست اندور میں ہوئی۔ مہاراجہ اندور نے ہزاروں روپے خرچ کر کے اس دنگل کا انتظام کیا۔ دنگل میں تقریباً دولا کھ لوگوں کا مجمع تھا جس میں ملک کے ہر حصے کے لوگ شامل تھے۔ کشتی شروع ہوئی تو لوگوں میں اتنا جوش و خروش تھا کہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا۔
بیس منٹ کی زور آزمائی کے بعد غلام نے کیکر سنگھ کی پیٹھ زمین پر لگا دی۔ اس موقع پر لوگ پھولوں کی بارش کرنے کے ساتھ غلام کو شاباش دیتے نہیں تھکتے تھے۔ اس کے بعد کیکر سنگھ کو کبھی غلام کے مقابلے پر آنے کی ہمت نہ ہوئی۔
1898ء میں مہاراجہ پٹیالہ نے غلام پہلوان کو بلا بھیجا اور ملتان کے ایک مشہور پہلو ان شاہ نواز سے اس کی کشتی کرائی۔ غلام پہلوان نے سات منٹ میں شاہنواز کوگرالیا اور مہاراجہ سے بھاری انعام حاصل کیا۔ اس کے بعد غلام نے مہاراجہ کے سامنے رسہ کھینچ گر اس کو بتایا کہ اللہ نے اس کو کتنی طاقت عطا کی ہے۔ ایک طرف وہ اکیلا تھا اور دوسری طرف پندرہ نہایت طاقتور جوان تھے۔ غلام نے زور مارا تو یہ سارے جوان گھسٹتے ہوئے اس کی طرف آگرے۔
1900 عیسوی میں پیرس(فرانس) میں ایک عالم گیرنمائش منعقد ہوئی۔ اس وقت کے مشہور کانگریسی لیڈر پنڈ ت موتی لال نہرو غلام پہلوان کو اس نمائش میں اپنے ساتھ لے گئے۔ وہاں یورپ اور امریکہ کے بڑے بڑے نامی پہلوان جمع تھے۔ غلام نے سب کو چیلنج دیا کہ اس کے ساتھ کشی لڑ یں۔ ایک ترک پہلوان قادر احمد کے سوا کسی کو اس کا چیلنج قبول کرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ قادر احمد تن وتوش میں غلام سے کہیں بڑھ کر تھا لیکن کشتی میں اس کی کچھ پیش نہ چلی اور اس نے ہار مان لی۔ یورپ، امریکہ اورترکی کے تمام مشہور اخباروں میں غلام کی شہ زوری کی بہت تعریف کی گئی۔ اس طرح دنیا بھر میں اس کی شہرت پھیل گئی۔ غلام جب وطن واپس آیا تو لوگوں نے اس کا اتنا شاندار استقبال کیا کہ کسی بڑے سے بڑے لیڈر کا بھی ایسا استقبال کبھی نہیں ہوا تھا۔
چند ماہ بعد 1901ء میں غلام کی کشتی بہار کے ایک نامی پہلوان سچیت سنگھ سے ہوئی۔ سچیت سنگھ کا قد سات فٹ سے بھی اوپر تھا اور اس کا وزن ساڑھے سات من تھا۔ اس دیو جیسے پہلوان کو غلام نے صرف آٹھ منٹ میں چاروں شانے چت گرا دیا۔ اس فتح کے بعد غلام کلکتہ پہنچا اور اخبارات میں اشتہار دیا کہ کسی پہلوان کو میرے ساتھ کشتی لڑنے کی خواہش ہوتو وہ میرے مقابلے پر آئے۔ چنانچہ دنگل کی تاریخ مقرر ہوگئی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔20 مئی 1901ء کو غلام اکھاڑے سے ورزش کر کے اپنی قیام گاہ پر واپس آیا تو اس پر ہیضے کا شدید حملہ ہوا۔ ڈاکٹروں نے علاج میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی لیکن اس کا آخری وقت آ پہنچا تھا۔ کوئی علاج کارگر ثابت نہ ہوا اور شام کو سات بجے انیسویں صدی کا یہ سب سے بڑا پہلوان صرف 37 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کی موت کی خبر پھیلی تو سارے ملک میں کہرام مچ گیا۔ کوئی آ نکھ ایسی نہ تھی جو اس کی جواں مرگی پرنم نہ ہوئی ہو۔ مرحوم غلام پہلوان کو 21 مئی 1901ء کو کلکتہ میں حاجی زکریا کے قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا۔ اس کے جنازے میں تیس ہزار لوگ شریک ہوئے۔ اس کی قبر کلکتہ میں آج بھی ”پیر پہلوان کی قبر“ کے نام سے موجود ہے۔
بے مثال شہ زوری اور دنیا بھر میں مشہور ہونے کے باوجود غلام پہلوان میں غرور یا خود پسندی نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ وہ بڑا خوش اخلاق اور ملنسار تھا۔ اکثر خاموش رہتا تھا اور نماز روزے کی سختی سے پابندی کرتا تھا۔ وہ ساری عمرکسی نشہ لانے والی چیز کے قریب تک نہ گیا۔ اس سے لوگ ٹوٹ کر محبت کرتے تھے اور اس کے اکھاڑے کی خاک تبرک سمجھ کر لے جاتے تھے۔
غلام پہلوان نے جو کارنامے سرانجام دیے،وہ اس کا نام اس وقت تک زندہ رکھیں گے جب تک پہلوانی اور کشتی کافن باقی ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top