skip to Main Content

زیادہ سخی کون؟

طالب ہاشمی

۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بخل یعنی کنجوسی اور تنگ دلی کو بہت بری عادت قرار دیا ہے۔ اس لیے آپ کے ساتھی صحابہ خواہ وہ غریب تھے یا امیر،سبھی بڑے در یادل تھے اور اللہ کی راہ میں اپنی ضرورتیں چھوڑ کر بھی خرچ کرنے سے نہیں ہچکچاتے تھے۔ ان میں سے بعض تو حد سے زیادہ سخی تھے اور دوسروں کے لیے ان کی برابری کرنا بہت مشکل تھا۔ ایسے صحابہ میں یہ تین حضرات بہت مشہور تھے:
ا۔ حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما
یہ رسول اکرم ﷺ کے چچازاد بھائی حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے۔ ان کے دروازے سے کبھی کوئی سوالی خالی ہاتھ نہ جا تا تھا۔
۲۔حضرت قیس بن سعد انصاری رضی اللہ عنہما
یہ مدینہ منورہ کے قبیلہ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے فرزند تھے۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بھی بڑے سخی تھے اور سینکڑوں لوگ ان کے دسترخوان پر پلتے تھے۔ اسی طرح حضرت قیس بھی حد سے زیادہ سخی تھے۔جو حاجت مندان سے سوال کر تا، اس کی مدد، اس کی حاجت سے بڑھ کر کرتے تھے۔
۳۔ حضرت عرابہ بن اوس انصاری رضی اللہ عنہ
یہ مدینہ منورہ کے قبیلہ اوس کے سرداروں میں سے تھے۔انتہادر جے کے سخی تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی حاجت مندان کے دروازے پر آئے اور اس کی حاجت پوری نہ ہو۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ تینوں اصحاب سخاوت میں ایک دوسرے کی ٹکر یا ایک دوسرے سے بڑھ کر سمجھے جاتے تھے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مدینہ منورہ میں چند دوست ایک جگہ بیٹھے تھے کہ ان کے درمیان اس بات پر بحث چھڑ گئی کہ حضرت عبداللہ بن جعفر، حضرت قیس بن سعد اورعرابہ بن اوس میں سب سے زیادہ سخی کون ہے۔ ہر ایک کی رائے جداجدا تھی۔ آخر یہ فیصلہ ہوا کہ ایک ایک آدمی ان تینوں اصحاب میں سے ان کے پا س جائے جن کو وہ ز یادہ سخی سمجھتا ہے۔ وہ ان سے کچھ مانگے، پھر جو کچھ ان سے ملے،وہ اس مجلس میں آ کر بتائے۔ اس فیصلے کے مطابق تین اشخاص ان تینوں کے پاس گئے اور جو سلوک ان کے ساتھ ہوا،اس کا حال انہوں نے یوں بیان کیا:
جو شخص حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کے پاس گیا، اس نے عرض کیا:
”میں مسافر ہوں،راستے کا خرچ ختم ہو گیا ہے۔ آپ سے مدد کی درخواست ہے۔“
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما اس وقت گھوڑے پر سوار کہیں جانے کے لیے تیار تھے۔ مسافر کی درخواست سن کر اسی وقت گھوڑے سے اترے اور گھوڑے کی باگ مسافر کے ہاتھ میں دے کر فرمایا:
”بھائی گھوڑے کی رکاب میں پاؤں رکھو اور اس پر سوار ہو جاؤ۔ اب اس گھوڑے کے مالک تم ہو اور اس کی زین کے ساتھ ایک تھیلی بھی ہے،اس میں جو کچھ ہے وہ بھی تمہارا ہے۔“
جب وہ گھوڑے پر سوار ہو گیا تو اس کو ایک تلوار بھی عنایت فرمائی اور اسے بتایا کہ ”یہ میرے دادا حضرت علی اسد اللہ الغالب رضی اللہ عنہ کی تلوار ہے۔ اسے سنبھال کر رکھنا۔“
جب وہ گھوڑا لے کر واپس مجلس میں پہنچا اور تھیلے کوکھولا گیا تو اس میں چار ہزار دینار اور قیمتی عمدہ چادریں تھیں۔ ان کے علاوہ شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلوار بھی حضرت عبداللہ کا عطیہ تھی۔
دوسراشخص حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہما کے گھر گیا تو وہ سوئے ہوئے تھے۔ ان کی کنیز نے پوچھا:
”تم کس غرض سے حضرت قیس سے ملنا چاہتے ہو؟“
اس نے کہا:
”مسافر ہوں،اور راستے کا خرچ (زادراہ) ختم ہو گیا ہے۔“
کنیز نے کہا:
”تمہاری اس معمولی ضرورت کے لیے حضرت قیس کو جگانا مناسب نہیں۔“
پھروہ اندر جا کر ایک تھیلی لائی اور اسے سائل کو تھماتے ہوئے کہا:
”اس میں سات سود ینار ہیں۔ اس وقت حضرت قیس کے گھر میں اتنی ہی رقم ہے۔ (دینا سونے کا ایک قیمتی سکہ ہوتا ہے) گھر کے ساتھ کی حویلی میں اونٹ بندھے ہوئے ہیں، ان میں سے اپنی مرضی کا ایک اونٹ پسند کرلو، وہاں حضرت قیس کا ایک غلام بھی موجود ہے، اسے بھی اب اپنا غلام سمجھو۔اب اس غلام کے ساتھ اونٹ پر سوار ہوکر اپنے سفر پر روانہ ہو جاؤ۔ مجھے حضرت قیس نے لوگوں کی ایسی معمولی حاجتیں پوری کرنے کا پورا اختیار دے رکھا ہے۔“
جب سائل چلا گیا تو کچھ دیر کے بعد حضرت قیس نیند سے بیدار ہو گئے۔لونڈی نے سارا قصہ بیان کیا تو انہوں نے فرمایا:
”معلوم نہیں تم نے جو کچھ اس مسافر کو دیا ہے، اس سے اس کی حاجت پوری ہوگئی ہے یا نہیں لیکن میرا قیاس ہے کہ جو کچھ اس کو ملا، اس سے وہ خوش ہو گیا کیونکہ اس نے میرے جاگنے کا انتظار نہیں کیا اور اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔ تم نے جو نیک کام کیا اس کے بدلے میں آج سے تم آزاد ہو۔“
ادھر وہ شخص اونٹ، دیناروں کی تھیلی اور غلام کے ساتھ دوستوں کی مجلس میں پہنچ گیا۔
تیسر اشخص حضرت عرا بہ بن اوس انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچا۔ ان دنوں حضرت عرا بہ بہت بوڑھے، نابینا اور کمزور ہو چکے تھے اور نماز کے لیے دو غلاموں کے سہارے مسجد میں جایا کرتے تھے۔ اس وقت حضرت عرابہ دو غلاموں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے نماز کے لیے مسجد کی طرف جارہے تھے۔ اس شخص نے ان کو سلام کیا اور کہا:
”اے عرا بہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی! آپ میری بات سنیں گے۔“
حضرت عرابہ نے فرمایا:
”کہو کیا کہتے ہو؟“
اس نے کہا:
”میں ایک مسافر ہوں اور میراراستے کا خر چ ختم ہو گیا ہے۔ آپ کے پاس مدد کے لیے حاضر ہوا ہوں۔“
یہ سن کر حضرت عرابہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ غلاموں کے کندھوں سے ہٹائے اور بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ پر زور سے مارکر فر ما یا:
”عرابہ نے اپنا تمام مال اللہ کے راستے میں خرچ کر دیا ہے۔ یہ دو غلام باقی رہ گئے ہیں۔ تم ان کو لے جاؤ۔ اب یہ تمہارے حوالے ہیں۔“
سائل نے کہا: ”حضرت آپ کو تو خودان کی سخت ضرورت ہے، میں انہیں نہیں لوں گا۔“
حضرت عرابہ نے فرمایا: ”میں ان کو تمہارے حوالے کر چکا اب یہ تمہارے ہیں۔ اگر تم چاہوتو انہیں آزاد کر دو اور چاہو تو اپنے پاس رکھو۔“
یہ فرما کر وہ دیوار کا سہارا لے کر آ گے بڑھے اور ٹٹولتے ہوئے مسجد کی طرف چل دیے۔
وہ شخص ان غلاموں کو ساتھ لے کر مجلس میں پہنچ گیا۔ ایک مقررہ دن کو سب دوست اکٹھے ہوئے اور ان کی اس مجلس میں تینوں آ دمی جن کو انہوں نے سائل بنا کر تینوں بزرگوں کے پاس بھیجا تھا، حاضر ہوئے اور ہر ایک نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کا حال سنایا تو سب عش عش کر اٹھے اور تینوں بزرگوں کے بارے میں کہا کہ تینوں بہت سخی اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں۔ اب رہی یہ بات کہ ان تینوں میں اس وقت سخاوت کے لحاظ سے سب سے زیاد سخی کسے کہا جائے تو وہ حضرت عرابہ ہیں کہ انہوں نے اپنا سب کچھ اللہ کے راستے میں دے دیا۔
یہ تو ایک خاص واقعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں بزرگ بے انتہاسخی تھے۔ وہ سخاوت میں ایک دوسرے کا مقابلہ نہیں کرتے تھے بلکہ اللہ کو راضی کرنے کی خاطر حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنے کے لیے ان سے جو کچھ بھی ہوسکتا تھا کر گزرتے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top