دانا بوڑھا
ہندکولوک کہانی
اردو ترجمہ: جدون ادیب
۔۔۔۔۔
بزرگوں کے احترام اوران کی اہمیت کے متعلق کون نہیں جانتا، ان کی رائے اور عقل پختہ ہوتی ہے اور ان کے پاس عمر بھر کا تجربہ اورمشاہدہ ہوتاہے، جس کی بدولت وہ دوسروں کی درست سمت میں رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ کہانی ہزارہ کی ہے، صوبہ خیبر پختونخوا کا ہزارہ ڈویژن ایک مکمل اور الگ تھلگ خطہ ہونے کے باوجود مقامی آبادی پر پختون رنگ نمایاں ہے اور آبادی بھی پختون قبائل کی زیادہ ہے۔ شادی بیاہ کے معاملات میں بھی صوبے کے دوسرے حصے کے لوگوں کی رسوم نظر آتی ہیں مگر کچھ رسوم واقعی منفرد ہیں، جن میں سے ایک ”ٹمن“ اور دوسری”بت کر“ ہے۔
جب دولھا والے بارات لے کر دلھن کولینے جاتے ہیں تو یہ دو رسمیں پوری کرنا پڑتی ہیں جو دراصل دو شرطیں ہوتی ہیں۔
ڈولی اٹھانے سے پہلے دولھا کے دوستوں کو بھاری بھر کم پتھر اٹھانا پڑتا ہے۔ اگر دولھا والوں میں سے کوئی وہ پتھر نہ اٹھا سکے تو دلھن کی طرف سے کوئی اس پتھر کو اٹھاتا ہے۔ اسی طرح کسی اونچے درخت کی چوٹی پر چھوٹی سی چمک دار چیز باندھی جاتی ہے جسے ٹمن گرانا کہتے ہیں۔ دولھا کے ماہر نشانہ باز دوست ٹمن گراتے ہیں، وہ نہ گرا سکیں اور ہار مان لیں تو دلھن کی طرف سے نشانہ باندھ کر اسے گرایا جاتا ہے۔جب تک یہ دو رسمیں ادا نہ ہوں، ڈولی نہیں دی جاتی۔ چناں چہ بارات میں ماہر نشانہ باز اور پتھر اٹھانے والے طاقت ور لوگ ضرور ساتھ جاتے ہیں۔
ان دونوں رسموں کا مقصد جسمانی سرگرمیوں کی ترویج کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو نیچا دکھانا بھی مقصود ہوتا ہے۔ ان رسوم کی وجہ سے بعض اوقات رخصتی رک جاتی ہے یا لڑائی جھگڑا بھی ہو جاتا ہے مگر صدیوں سے ان رسموں کے بغیر شادی کوادھورا خیال کیا جاتا ہے۔
…………
ایک دفعہ کا ذکرہے کہ ایک بارات دور ایک گاؤں میں پہنچی۔ بارات میں سو افراد شریک تھے اور یہ دلھن والوں کی طرف سے شرط تھی کہ بارات میں صرف سو افراد شامل ہوں گے اور ان میں سے کسی کی عمر چالیس سال سے زائد نہ ہو۔
کہانی یہ تھی کہ دو خاندانوں کے بیچ برسوں سے جھگڑا چلا آ رہا تھا۔ بڑی مشکل سے صلح ہوئی اور یہ شادی اسی صلح کو تقویت دینے کے لیے کی جا رہی تھی۔ بظاہر سب کچھ ٹھیک تھا مگر اس شرط نے دولھا والوں کے کان کھڑے کر دیے اور انھوں نے بھی خوب بندوبست کر لیا۔
بارات کا شاندار استقبال ہوا۔ بہترین کھانوں سے مہمانوں کی تواضع کی گئی۔ اس کے بعد باراتی ”ٹمن“ اور”بت کر“ کے لیے تیار ہونے لگے تب دلھن والوں کی طرف سے کہا گیا کہ وہ ایک شرط پوری ہونے کے بعد دلھن دیں گے۔
جب شرط پوچھی گئی تو انھوں نے کہا کہ سو باراتیوں کو سو بکرے کھانا پڑیں گے ورنہ ان کو بغیر دلھن کے واپس جانا پڑے گا۔ یہ شرط سن کر دولھا والے دنگ رہ گئے، بھلا ایک آدمی ایک سالم بکرا کیسے کھا سکتا ہے۔
وہ سب پریشان ہو گئے اور آپس میں صلاح مشورے کرنے لگے مگر کسی کو اس مسئلے کاحل نہ سوجھا، پھر اچانک ان کو یاد آیا کہ وہ لوگ ایک بوڑھے کو بڑے ڈھول میں چھپا کر لائے ہیں، اس سے مشورہ کرتے ہیں۔
وہ لوگ چپکے سے مہمان خانے میں آئے اور بوڑھے کو سارا احوال سنایا۔ بوڑنے نے کچھ دیر سوچا اور پھر مسئلے کا حل بتا دیا۔دولھا والے باہر آئے اور دلھن والوں سے کہا کہ وہ یہ شرط پوری کرنے کو تیار ہیں مگر بکرا ایک ایک کر کے لایا جائے۔ فوری طور پر ایک سالم بکرا بھنا جانے لگا۔ دولھا کے دوست میدان میں کسرت کرنے لگے، ورزش کرنے لگے تاکہ کھانا ہضم ہو جائے۔ جب ایک بکرا اچھی طرح بھون لیا گیا تو دوسرا ذبح کر دیا گیا۔ سالم بکرا جب دولھا والوں کے پاس لایا گیا تو دولھا کو چھوڑ کر باقی سب افراد بکرے پر ٹوٹ پڑے اور کھا پی کر وہ پھر میدان میں جا کر کھیل کود میں مصروف ہو گئے۔ اس طرح وہ چار بکرے کھا گئے اور شام ہوگئی اب دلھن والے پریشان ہو گئے۔
ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ دولھا والوں کی تضحیک ہو اور وہ سو بکرے کھانے سے انکار کر دیں، وہ ڈولی نہیں روکنا چاہتے تھے مگر یہ معاملہ شروع کر کے وہ خود پھنس چکے تھے۔ دولھا والے بغیر بسم اللہ پڑھے بکرے پر ٹوٹ پڑتے اور چند ہی لمحوں میں پورا بکرا غائب ہو جاتا۔
جب پانچواں بکرا بھنا جا رہاتھا تو دلھن والوں کو شک ہوا کہ بکروں کو اس طرح کھانے کا طریقہ کوئی نوجوان نہیں جان سکتا تھا۔ضرور ان کے ساتھ کوئی دانا بوڑھا ہے۔ انھوں نے ایک تیز طرار بچے کو مہمانوں کی طرف روانہ کیا اور ان کے سامان میں گھس گیا اورآخر اس نے بوڑھے کو تلاش کر لیا۔
اس پر خوب شور شرابہ ہوا اور دلھن والوں نے شرط پوری نہ کرنے پر واویلا مچایا۔ دولھا والوں نے ناجائز شرط رکھنے پر احتجاج کیا۔ آخر دلھن والوں کی طرف سے بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے میں کوئی ہارا اور نہ کوئی فتح یاب ہوا۔
تھوڑی دیر بعد دولھا والے فتح کے شادیانے بجاتے ڈولی لے کر جا رہے تھے اور وہ دانا بوڑھا نوجوانوں کے کاندھے پر سوار تھا اورہنس ہنس کر کہَ رہا تھا کہ”کم بختو! مجھے نیچے اتارو۔“مگر نواجوان اس کی سن ہی نہیں رہے تھے اور دلھن کے گاؤں کے لوگ، عورتیں اور بچے چھتوں پر چڑھ کر اس دانا بوڑھے کو دیکھ رہے تھے جس نے اپنی عقل مندی سے ان کو شکست دی تھی۔
یہ شادی برسوں تک زیرموضوع رہی اور آج بھی اس کا قصہ مشہور ہے۔
٭٭٭