skip to Main Content

چار بے وقوف

سیّدہ شاہ بینہ شاہین
ہندی ادب سے
۔۔۔۔۔

پرانے وقتوں کی بات ہے کسی جگہ چار بھائی رہتے تھے۔ وہ اپنی بیوقوفی کی وجہ سے ”چار بیوقوف“ کے نام سے مشہور تھے، وہ چاروں اتنے بے وقوف تھے کہ کوئی کام کاج بھی نہ کر سکتے تھے۔ انھیں کسی کام وغیرہ کی سمجھ ہی نہ آتی۔ اُن کے شہر میں سب لوگ چار بے وقوفوں کی بے وقوفی جان گئے تھے، اس لیے کوئی اُن چاروں کو اپنے پاس کام نہ دیتا۔ چاروں بھائیوں نے سوچا کہ کسی دوسری جگہ جا کر کام تلاش کرتے ہیں جہاں کوئی اُن کی بے وقوفی کو نہ جانتا ہو۔چناں چہ چاروں بے وقوف کام کی تلاش میں ایک گاؤں میں پہنچ گئے، جہاں کوئی انھیں نہیں جانتا تھا۔ اُس گا ؤں کے ایک امیر آدمی کو کام کے لیے کچھ مزدوروں کی ضرورت تھی۔اُس نے جب چار ہٹے کٹے جوان دیکھے تو خوش ہوگیا کہ یہ چاروں ضرورت مند ہیں اور اُسے بھی ملازم چاہییے تھے۔
”کیا کام کر لیتے ہو تم لوگ؟“ امیر آدمی نے پوچھا۔
”صاحب! ہم ہرکام کر سکتے ہیں۔ آپ نے کیا کام کروانا ہے؟“ ایک بے وقوف جلدی سے بولا، باقی تین نے سَر ہلاکر اُس کی تائیدکی۔
”ٹھیک ہے تم لوگ جنگل میں جاؤ اور لکڑیاں کاٹ کر لا ؤ۔بیل گاڑی لے جانا اور لکڑیاں اُس پر لاد کر گھر لے آنا۔“
امیر آدمی نے سمجھا یا تو چاروں نے جھٹ سے سَر ہلایا اور بیل گاڑی پر بیٹھ کر لکڑیاں لینے چلے گئے۔چاروں بے حد خوش تھے کہ اُن کی بے وقوفی سے نا واقف امیر آدمی نے انھیں کام پر رکھ لیا۔، جنگل سے واپسی پر چاروں لکڑیوں کے گٹھے بیل گاڑی پر رکھ کر خود بھی بیٹھ گئے اور گھر (امیر آدمی کے) واپس روانہ ہوئے۔راستہ آدھا کچی سڑک تھی اور کچھ فاصلے پر جاکر سڑک پکی آگئی۔ کچی سڑک پر چلتے ہوئے بیل گاڑی کے پہیے عجیب آدازیں نکال رہے تھے مگر پکی سڑک پر چڑھتے ہی پہیے تیز چلنے لگے اور پہیوں کی چوں چوں بند ہو گئی۔ اچانک ایک بے وقوف نے چلتی بیل گاڑی سے چھلانگ لگا دی اور چلاّیا:
”اترو، اترو،گڈا مَر گیا ہے،گڈا مَر گیا ہے۔“
باقی تینوں اُس کی تقلید میں گڈے سے اُتر آئے اور پوچھنے لگے کہ تمھیں کیسے پتہ چلا کہ گڈا مَر گیا ہے۔
”بے وقوفو تھوڑی دیر پہلے گڈا بول رہا تھا اب چپ ہے چوں چوں کی آواز نہیں آ رہی ہے، بیچارہ زیا دہ بوجھ برداشت نہیں کر سکا اور مَر گیا۔“
”یہ کیا ہوگیا ہم سب مُردے پر سفر کر رہے تھے؟چلو اِس کا انتم سنسکار کریں۔“
باقی تینوں نے جلدی سے ہاں میں ہاں ملائی اور گڈے کو لکڑیو ں سمیت آگ لگا کر اُس کی چتا جلادی اور بیل وہیں موجود ایک غریب آدمی کودان کر دیے اور خالی ہاتھ واپس آگئے۔
امیر آدمی نے گڈے کی مَرنے کی خبر سن کر سرپکڑ لیا اور بولا:”بے وقوفو لکڑی کا گڈا کیسے مَر سکتا ہے؟ بے جان ہوتا ہے گڈاتو۔“
مگر وہ چاروں بولے۔”نہیں صاحب وہ بولتا تھا پھر چپ ہوگیا مَر ہی گیا نا بیچارہ۔“
”اور میرے قیمتی بیل کہاں ہیں؟“ امیر آدمی نے پوچھا۔
”صاحب اَب بھلا مُردے کا سامان آپ کیسے رکھ سکتے ہیں، تو بیل ہم نے ایک غریب کو دان کر دیے۔“
”کیا؟دان کردیے؟“ امیر آدمی چلاّیا۔”ارے یہ کیا کیا تم لوگوں نے، میر ا اتنا نقصان کر دیا۔“
”صاحب آپ پریشان نہ ہو ں،بس آپ ہمیں کوئی نیا کا م بتائیں جس سے ہم آ پ کو کوئی بڑا فائدہ پہنچا سکیں۔“ایک بے وقوف بولا۔
”کیا کر سکتے ہو تم لوگ سمجھ نہیں آرہا،کونسا کام دوں تم لوگوں کو، اچھا کپڑا بیچ لو گے؟“ امیر آدمی نے کچھ دیر سوچنے کے بعد پوچھا۔
”ہاں ہاں صاحب ہم بہت اچھا کپڑا بیچیں گے،بس آپ ہمیں کپڑے کی دکان کھول دیں۔“ چاروں جلدی سے بولے تو امیر آدمی نے ایک بڑی کپڑے کی دُکان اُنکے حوالے کر دی۔
چاروں بے وقوف بڑی فکر کے ساتھ گاہکوں کے انتظار میں بیٹھ گئے، کچھ دیر گزری مگر کوئی گاہک نہ آیا۔آدھا دِن گزر گیا مگر ایک گاہک بھی نہ آیا۔
”یہ سب لوگ دوسر ی دُکانوں میں کیوں جارہے ہیں،ہمارے پاس کیوں نہیں آرہے کپڑا خریدنے؟“ ایک بے وقوف فکر مندی سے بولا۔
”ہاں یار سب دوسری دُکانوں سے کپڑا خرید رہے ہیں مگر ہم صبح سے فارغ بیٹھے ہیں“۔دوسرا بولا۔
”ایسا کرتے ہیں کہ گاہکوں کو زبردستی لے آتے ہیں دکان میں اور کپڑا بیچ دیتے ہیں۔“ ایک نے تجویز دی۔
”بالکل بالکل!اگر کپڑا نہ بکا تو ہم امیر آدمی کو کیا جواب دیں گے۔ چلو آ ؤلوگوں کو زبر دستی پکڑ کر لائیں۔“باقیوں نے تائیدکی اور چاروں اُٹھ کر دکا ن سے باہر آگئے اور لوگوں کوزبردستی کھینچنے لگے۔”آ ؤ آؤکپڑا لے لو،ہمارے پاس بڑا اچھا کپڑا ور قیمتی کپڑا ہے لے جا ؤ۔“چاروں کہہ رہے تھے۔
”مگر ہم لوگ تم سے کپڑا نہیں خرید سکتے۔“ایک آدمی بولا۔
”وہ کیوں؟“چاروں یک زبان پوچھنے لگے۔
”بھئی میں جس دُکان سے کپڑا خرید تا ہوں وہ مجھے کبھی کبھار اُدھار بھی دے دیتا ہے،تم لوگ پتہ نہیں اُدھار کپڑا دوگے یا نہیں۔“ اُس گاہک نے بتایا۔
”کیوں نہیں دیں گے اُدھار، جتنا چاہو کپڑا خریدو اور پیسے بعد میں دے جانا۔“ ایک بے وقوف نے باقی تینوں بے وقوفوں کی طرف دیکھتے ہوئے تائید چاہی۔
”ہاں ہاں لے جاؤ،جتنا کپڑا لے جانا ہے مگر آؤضرور ہماری دکان پر……“باقی نے بھی تائید کر دی۔
چناں چہ پورے بازار میں گھوم پھر کر چاروں بے وقوف گاہک لاتے رہے اور اُدھار کپڑا دیتے رہے شام تک پوری دُکان خالی ہوگئی سارا کپڑا ختم ہو گیا، چاورں بے حد خوش ومسرور تھے کہ لو کام کردِکھا دیا،ایویں لوگ ہمیں بے وقوف کہتے ہیں۔
شام میں امیر آدمی ٹہلتے ٹہلتے آیا کہ دُکان اور نئے دکانداروں کا حال احوال دریافت کرے مگر پوری دکان خالی دیکھ کر وہ ششدررہ گیا۔
”ارے…یہ کیا،سارا کپڑا بک گیا،وہ بھی ایک دن میں؟“امیر آدمی کے حلق میں الفاظ اٹکنے لگے تھے مارے خوشی کے۔
”جی صاحب سارا مال بِک گیا۔“ چاروں نے بڑے فخریہ انداز میں یک زبان جواب دیا۔
”لاؤ پیسے کہاں ہیں؟“ امیر آدمی نے خوشی سے معمور لہجے میں کہا۔
”نہیں صاحب! ہم نے کپڑا پیسوں کانھیں بلکہ اُدھار بیچا ہے۔“ ایک بے وقوف نے بتایا۔
”کیا کہا؟اُدھار….مطلب؟“امیر آدمی غم سے ہکلایا۔
”جی صاحب کوئی گاہک آہی نہیں رہا تھاہم نے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر سارا کپڑا اُدھار دے دیا اِس طرح سارا کپڑا بک گیاورنہ ہم تو یونہی بیٹھے رہتے سارا دِن۔“ بے وقوفوں نے بتایا۔
”تو رجسٹر ہی دِکھا دو جس پرادھار لینے والوں کے نام لکھے ہیں۔“
”نہیں صاحب ہم نے کوئی رجسٹر نہیں بنا یا، ہم تو ان پڑھ لوگ ہیں لکھ نہیں سکتے نا……“ بے وقوفوں نے مجبوری بتائی۔
امیر آدمی کا دماغ گھوم کررہ گیا،”کیا کیانقصان کرو گے میرا،کیا برائی کی میں نے تم لوگوں کے ساتھ؟کیسے پکڑیں گے اُدھار لیجانے والوں کو۔اب کوئی ہاتھ نہیں آئے گا۔“ امیر آدمی بے بسی سے سَر پکڑ کر کہنے لگا۔
”صاحب اب آپ ہمیں جو کا م دیں گے ہم وہ پوری ذمہ داری کے ساتھ کریں گے۔“ چاروں امیر آدمی کے پیر پکڑکر لجاجت سے کہنے لگے۔ بیچارہ امیر آدمی خاصا اچھا انسان تھا، پھر سے اُن پر اعتبار کر کے بولا:
”اچھا جا ؤکھیتوں میں،وہاں مٹی کا ایک بڑا سا ڈھیر ہے وہ ساری مٹی اُٹھاکر گھر لے آؤ“
”گھر لا کر کہاں پھینکنی ہے؟“ چاروں نے جاننا چاہا۔
”جہاں میری ماں کہے وہاں پھینک دینا۔“ امیر آدمی نے جواب دیا تو چاروں بھاگے کھیتوں کی طرف،بڑے مٹی کے تسلے بھرے اور گھر آگئے۔
”ماں جی!کہاں پھینکنی ہے مٹی؟“ آتے ہی انھوں نے امیر آدمی کی ماں سے پوچھا،ماں جی بیٹے کے نقصان ہونے پر غصے میں بھری بیٹھی تھیں، جَل کربولیں۔”میرے سَر پر پھینک دو۔“
چاروں نے حکم کی تعمیل میں چار بڑے تسلے مٹی بھر ے بڑھیا کے اُوپر اُلٹ دیے،بے چاری بڑھیا مٹی ہٹا نا چاہتی تھی مگرچاروں بھاگ کر (کھیت قریب تھا گھر سے)جاتے اور چار تسلے اماں کے اُوپر۔اماں بے چاری نے کچھ کوشش کی مٹی ہٹانے کی بالآخر نیچے دَب گئی اور اگلے جہاں روانہ ہوگئی۔
”ہاں بھئی مٹی پھینک دی جہاں میری ماں نے کہا تھا۔“امیر آدمی نے پوچھا۔
”جی پھینک دی ہے صاحب۔“
”میری ماں کہاں ہے؟“ امیر آدمی نے پوچھا۔
”اِس مٹی کے نیچے۔“چاروں اکٹھے بولے۔
”کیا کہا مٹی کے نیچے،کیوں؟ کیوں ہے مٹی کے نیچے میری ماں؟“ امیر آدمی نے روتے ہوئے پوچھا۔
”صاحب آپ نے کہا تھا جہاں میری ماں کہے وہاں مٹی پھینک دینا۔انھوں نے کہا کہ مٹی اُن کے (بڑھیا کے)سَر میں پھینک دیں تو ہم نے پھینک دی۔“ جواب مِلا۔
”میری ماں کو ماردیا تم نے۔“ امیر آدمی رونے لگا۔”اچھا اب میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو، چلو اور میری ماں کی چتا جلانے کا انتظام کرو۔“
امیر آدمی نے مٹی میں دبی ماں کو نکالا اور ایک چارپائی پر لٹایا۔چاروں نے ایک بار پھر خدمات پیش کر دیں۔
”جا ؤشمشان گھاٹ،میری ماں کی چارپائی لے جا ؤ اور لکڑیاں جمع کر کے رکھو،میں آتا ہوں رشتہ داروں کو اطلاع کرکے۔“
امیر آدمی نے کہاتوچاروں نے بڑھیا کی چارپائی اُٹھائی اور بھاگے شمشان گھاٹ، چاروں چارپائی اُٹھا کر بھاگ رہے تھے،بے چاری بڑھیا چارپائی سے گر گئی اور وہ بے وقوف خالی چارپائی لے گئے اور لکڑیاں جمع کر کے جب چارپائی کے پاس آئے تو وہاں بڑھیا نہیں تھی۔
”بڑھیا کہاں گئی؟“ چاروں حیران ہوئے اور اردگرد بڑھیا کو تلاش کرنے لگے۔تھوڑ ے فاصلے پر ایک بڑھیا لکڑیاں (ایندھن) جمع کررہی تھی،چاروں بے وقوف اُس زندہ بڑھیا کو امیر آدمی کی مُردہ ماں سمجھ بیٹھے اور بڑھیا کے پاس جا کر بولے:
”ارے اماں اتنی زیادہ لکڑیاں ہم نے رکھ لی ہیں،کافی ہیں تمھارے جلنے کے لیے تم کیوں محنت کر رہی ہو، آ ؤ تمھیں جلانے کاٹائم ہوگیا ہے۔“
یہ کہہ کر چاروں نے کسی دوسری زندہ بڑھیا کو پکڑا اور لکڑیوں پر لٹا کر آگ لگا دی،بے چاری کی ایک نہ چلی اور وہ جَل گئی۔تھوڑی دیر میں امیر آدمی آیا تو وہ اپنی مردہ ماں کو اُٹھا ئے آیا اور بولا:
”بے وقوفو!میری ماں کوتم لوگ وہیں پھینک آئے تھے،لو اب جلاتے ہیں میری ماں کو……“
”صاحب کتنی مائیں ہیں آپ کی ایک کو تو ہم نے جلادیا۔“ ایک بے وقوف نے بتایا۔
”ارے کم بختو! کِس کی ماں کو جلا دیا تم لوگوں نے؟کیا کیا بے وقوفی کروگے، دفع ہو جاؤمیرے سامنے سے آئندہ اس گا ؤں کیا ارد گرد کے کسی گا ؤں میں بھی نظر آگئے تو زندہ نہیں چھوڑ وں گا۔“
امیر آدمی نے غصے کی شدت سے چلاتے ہوئے کہا تو چاروں بے وقوف بھائی بھاگ کھڑے ہوئے،مگر جاتے جاتے بھی وہ سوچ یہی رہے تھے کہ آخر انھوں نے اَب تک امیر آدمی کے سامنے کونسی بے وقوفی دِکھائی؟

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top