skip to Main Content

بھوت کی موت

تحریر:The Canterville Ghost
مصنف:Oscar Wilde
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔
برطانیہ میں امریکہ کے نئے ایلچی مسٹر ایچ۔جی۔اوٹس اپنے اور اپنے کنبے کے لیے ایک مکان لینا چاہتے تھے۔جب انہوں نے کینٹر ویل حویلی دیکھی تو انہیں پسند آئی اور انہوں نے اسے خریدنے کا ارادہ کرلیا۔لوگوں کا خیال تھا کہ اس سے بڑی حماقت نہیں ہو سکتی کیوں کہ ہر شخص اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ کینٹرویل حویلی آسیب زدہ ہے۔
گھر کے مالک نواب کینٹرویل نے مسٹر اوٹس کو کینٹرویل حویلی کے بھوت کے بارے میں کچھ یوں بتایا:
’’میں نے اور میرے خاندان نے اسی وقت سے یہاں رہنا چھوڑ دیا تھا جب بھوت نے میری خالہ کو ڈرایا تھا۔ہوایہ کہ ایک رات جب وہ عشائیے کاارادہ کررہی تھیں،ایک ڈھانچے نے پیچھے سے آکر ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھ دیے۔اس کے بعد ان کو غشی کے دورے پڑنے لگے اور وہ مکمل طور پر کبھی صحت یاب نہ ہو سکیں۔ان کے اس خوف ناک تجربے کے بعد ہمارے نوجوان ملازموں میں سے کوئی بھی یہاں رہنے کو تیار نہیں۔میں آپ کو یہ بھی ضرور بتاتا چلوں کہ گھر کے دیگر افراد نے بھی بھوت کو دیکھا اور سنا ہے۔ کتب خانے اور راہ داری سے انجانی آوازیں آتی رہتی ہیںجن کی وجہ سے میں اور میری اہلیہ تو سو ہی نہیں سکتے تھے ۔‘‘
’’اچھا۔‘‘مسٹر اوٹس نے کہا،’’میں آپ سے یہ گھر،اس میں موجودسامان اور بھوت سمیت لے لوں گا۔میں ایک جدید ملک سے آیا ہوں جہاں اگر ہمارے پاس دولت ہوتوہر چیز خریدی جا سکتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یورپ میں جہاں کہیں بھی اگر کوئی بھوت ہو،تو ہمارے ہاں کے روشن دماغ نوجوانوں میں سے کوئی بھی اسے تلاش کر سکتا ہے،امریکہ بھی لے جا سکتا ہے اور عجائب گھر میں رکھ بھی سکتا ہے۔‘‘
جب نواب کینٹرویل نے یہ سنا تو وہ مسکرایا اور بولا،’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بھوت موجود ہے مگر ممکن ہے یہ امریکہ کے روشن دماغ نوجوانوں سے کم ہوشیار ہو۔یہ اس گھر میں 1584ء سے موجود ہے اور عام طور پر یہ خاندان کے کسی فرد کے انتقال سے پہلے ظاہر ہوتا ہے۔‘‘
مسٹر اوٹس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا،’’خاندانی طبیب بھی ایسا ہی کرتا ہے…نواب کینٹرویل!میں بھوتوں پر یقین نہیں رکھتا اور آپ مجھے قائل نہیں کر سکتے کہ ان کا وجود ہے۔‘‘
’’ ٹھیک ہے۔‘‘نواب کینٹرویل نے کہا،’’اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک بھوت آپ کا دل بہلانے کے لیے موجود ہے اور میں بڑی خوشی سے آپ کو یہ گھر فروخت کرنے کو تیار ہوں۔‘‘اور اس طرح مسٹر اوٹس نے وہ حویلی خرید لی۔
چند ہفتوں بعدہی مسٹر اوٹس اور ان کا خاندان اپنے نئے گھر میں منتقل ہونے کی تیاری کرچکے تھے۔مسٹر اوٹس کے گھرانے میں وہ خود،ان کی اہلیہ، ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی شامل تھے۔بیگم اوٹس ایک خوش اخلاق ادھیڑ عمر خاتون تھیں۔سب سے بڑا بیٹا سنہرے بالوں والا بیس سالہ ایک سمجھ دار نو جوان تھا۔اس کا نام واشنگٹن تھا۔بیٹی ورجینیا ایک پندرہ سالہ خوب صورت بچی تھی۔یہ گھوڑوں کی بہت شوقین تھی اور انہیں بہتر انداز میں دوڑانا بھی جانتی تھی۔ ان کے علاوہ نو سالہ دو جڑواں بچے تھے جنہیں کرتب دکھانے کا بہت شوق تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
کینٹر ویل حویلی اسکاٹ سے سات میل کے فاصلے پر تھی اور قریب ترین ریلوے اسٹیشن اسکاٹ میں ہی تھا۔مسٹراوٹس اور ان کے کنبے نے اسکاٹ کے لیے ریل پکڑی اور وہاں سے گھوڑا گاڑی کرکے ایک خوش گوار سفر کے بعد گھر پہنچے ۔یہ جولائی کی ایک شام تھی۔تازہ ہوا صنوبر کے درختوں کی خوش بو سے مہک رہی تھی۔جنگلی کبوتروں کی سریلی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔خرگوش اور گلہریاں درختوں کے درمیان ادھر ادھر دوڑ رہے تھے جبکہ چکوروں کا جوڑا جھاڑیوں کے کہیں پیچھے سے چہک رہا تھا۔جیسے ہی وہ کینٹرویل حویلی پہنچے،ویسے ہی آسمان پر بادل چھاگئے اور پرندوں کے بڑ ے بڑے غول ان کے سروں پر خاموشی سے اڑنے لگے۔پھر وہ جیسے ہی مرکزی دروازے پر آئے،بوندا باندی شروع ہوگئی۔سیاہ لباس میں ملبوس سر پر سفید ہیٹ رکھے ایک بزرگ خاتون مرکزی دروازے کے باہر ان کا انتظار کر رہی تھیں،ان کا نام مسز اومنی تھا اور وہ گھریلو ملازمہ تھیں۔وہ گھر میں آنے والے نئے خاندان کا خیر مقدم کرنے کے لیے وہاں کھڑی تھیں۔ سب لوگ جیسے ہی گھوڑا گاڑی سے اترے،انہوں نے سر جھکا کر انہیں خوش آمدید کہا۔پھر وہ لوگ مسز اومنی کے پیچھے پیچھے ایک عظیم الشان ہال سے گزرکر کتب خانے میں آگئے۔یہ ایک لمباسا کمرہ تھا جس میں رنگین شیشوں والی ایک کھڑکی تھی۔اوٹس گھرانے نے اپنے کوٹ اتار کر ایک طرف رکھے اور بیٹھ کر ارد گردکا جائزہ لینے لگے، جبکہ مسر اومنی انہیں چائے پیش کرنے لگیں۔
اچانک بیگم اوٹس کی نظر انگیٹھی کے قریب فرش پر لگے لال دھبوں پر پڑی۔انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے مسز اومنی سے کہا، ’’میرا خیال ہے وہاں کچھ گرا ہوا ہے۔‘‘
’’جی بیگم صاحبہ !‘‘ملازمہ نے دھیمی آواز میں کہا،’’یہاں خون پھیلا ہوا ہے۔‘‘
’’کتنی ہول ناک بات ہے!‘‘مسز اوٹس نے کہا،’’کتب خانے کے فرش پر خون کے دھبے؟…ان کو فوراً ہٹائیے!‘‘
بزرگ خاتون پراسرار انداز میں مسکرائیں اور اسی طرح دھیمی آواز میں بولیں،’’یہ خون لیڈی الینر ڈی۔ کینٹرویل کا ہے۔وہ اپنے شوہر سر سائمن ڈی۔ کینٹرویل کے ہاتھوںموقع پرہی قتل ہوگئی تھیں اور اس کے نو برس بعد سر سائمن خود بھی پراسرار طور پر غائب ہو گئے تھے۔ ان کی لاش تو نہ مل سکی مگر ان کی مجرم روح نے آج تک حویلی کوآسیب زدہ کر رکھا ہے…خون کے دھبے نہیں مٹائے جا سکتے۔‘‘
’’یہ سب بکواس باتیں ہیں۔‘‘واشنگٹن بولا،’’دھبے مٹانے والا گلابی محلول یہ سب دھبے مٹادے گا۔‘‘وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر سرخی نما کسی چیز سے فرش پرپڑے دھبوں کو رگڑنے لگا۔تقریباً ایک منٹ بعدسارے دھبے غائب ہو چکے تھے۔’’میں جانتا تھا کہ گلابی محلول ہمیشہ کام کرتا ہے۔‘‘یہ کہتا ہوا وہ خاندان کے دیگر افراد کی طرف دیکھنے لگا۔اسی وقت بجلی چمکی اور بادل اس زور سے گرجا کہ سب کے سب دہل گئے۔مسز اومنی دہشت کے مارے چیخ مارکے بے ہوش ہوگئیں۔
’’اس ملک کا موسم کتنا بپھرا ہوا ہے۔‘‘مسٹر اوٹس پر سکون انداز میں بولے۔
’’میرے سرتاج!‘‘بیگم اوٹس چلائیں،’’اس بے چاری بے ہوش خاتون کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟‘‘
’’یہ جتنی دیر بے ہوش رہیں گی،ہم ان کی اتنی دیر کی تنخواہ کاٹ لیں گے۔‘‘مسٹر اوٹس نے جواب دیا۔
مسز اومنی نے آنکھیں کھول دیں ۔وہ بہت پریشان تھیں۔انہوں نے مسٹر اوٹس سے کہا،’’محتاط رہیے،گھر میں کوئی مصیبت آنے والی ہے…میں کچھ ہول ناک چیزیں دیکھ رہی ہوں جناب!…ایسی چیزیں جو ہر فرد کوخوف زدہ کر دیں گی…ہاں، وہی چیزیں جو رات بھر مجھے جگائے رکھتی ہیں۔‘‘
بیگم اور مسٹر اوٹس نے بزرگ ملازمہ سے کہا کہ وہ بھوتوں سے خوف زدہ نہیں ہیں۔پھر وہ ان سے ان کی تنخواہ کے بارے میں بات کرنے لگے اور انہوں نے مسز اومنی کو ترقی دینے کا فیصلہ کیا۔مسز اومنی نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔
طوفان ساری رات جاری رہامگر کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہیں آیا۔اگلی صبح گھر والے جب نچلی منزل پر اترے تو کتب خانے کے فرش پر دوبارہ دھبے دکھائی دیے۔واشنگٹن سخت حیران ہوا،’’یہ تو بہت تعجب والی بات ہے۔‘‘وہ بولا،’’گلابی محلول ہمیشہ کام کرتا ہے۔‘‘اس نے جلدی سے دھبے صاف کیے مگر اگلی صبح دھبے پھر موجود تھے۔تیسری رات بیگم اوٹس نے سونے سے پہلے کتب خانے کے دروازے کو تالا لگادیااور چابیاں اپنے ساتھ اوپر والی منزل پر لے گئیں ،مگر دھبے صبح پھر موجود تھے۔پورا کنبہ عجیب حیرت میں مبتلا تھا مگر وہ اب بھی یقین کرنے کو تیار نہیں تھے کہ گھر میں بھوت موجود ہے ۔البتہ چوتھی رات یہ گھرانا اپنی سوچ تبدیل کرکے بھوتوں پر یقین کرناشروع کرچکا تھا۔
اُس شام وہ سب باہر گئے ہوئے تھے اور نوبجے تک واپس نہ آئے۔انہوں نے عشائیہ بھی باہر ہی کیا۔کھانے کے دوران امریکی فنکاروں کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر بھی گفتگو ہوتی رہی کہ برطانیہ میں ان کے پسندیدہ امریکی کھانے کہاں سے ملیں گے۔نہ انہوں نے بھوتوں پر تبادلہ خیال کیا اور نہ ہی سر سائمن کینٹرویل کا کوئی ذکر آیا۔گیارہ بجے سب پہلی منزل پر آرام گاہوں میں آگئے اور ساڑھے گیارہ بجے تک سب سو چکے تھے۔
کچھ دیر بعد مسٹر اوٹس کی آنکھ کھلی۔انہیں کمرے کے سامنے والی راہ داری سے عجیب سی آوازیں سنائی دیں۔یہ دھات سے بنی کسی چیز کے بجنے کی آوازیں تھیں جو قریب آتی جا رہی تھیں۔انہوں نے اٹھ کر تیلی جلائی اور وقت دیکھا تو ٹھیک ایک بج رہا تھا۔انہوں نے نہایت اطمینان کے ساتھ دراز کھول کر اس میں سے ایک بوتل نکالی،پائوں میں چپلیں ڈالیں اورجاکر دروازہ کھول دیا۔ان کے سامنے ایک وحشت ناک عمر رسیدہ شخص کھڑا تھا۔اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔لمبے اور میلے بال کندھوں پر پڑے ہوئے تھے اور اس نے پرانی وضع کا لباس پہن رکھا تھاجو انتہائی میلااور پھٹا ہوا تھا۔اس کی کلائیوں اور ٹخنوں میں بھاری زنجیریں پڑی ہوئی تھیں اور انہی کی آوازسے مسٹر اوٹس کی آنکھ کھل گئی تھی۔
’’میرے محترم!‘‘مسٹر اوٹس اس سے مخاطب ہوئے،’’یہ زنجیریں خوف ناک شور پیدا کررہی ہیں۔میں تھوڑا سا سورج مکھی کاپرانا تیل لے آیا ہوں،مہربانی کرکے ان زنجیروں میں ڈال لیجیے ورنہ آج رات ہم سو نہیں سکیں گے۔‘‘
مسٹر اوٹس نے بوتل سنگ مرمر کی میز پر رکھی،دروازہ بند کیا اور بستر میں آکر سو گئے۔
بھوت کو یقین ہی نہ آیا ۔ایک لمحے کے لیے وہ آرام گاہ کے بند دروازے کوحیرانی سے تکتا رہا،پھر غصے میں چنگھاڑتے ہوئے بوتل کو اٹھا کر زمین پر دے مارا۔پھر واپس مڑا اورایک خوف ناک آواز نکالتا ہوا چمک دار سبز رنگ دھار کر راہ داری سے نیچے کی طرف دوڑا۔ ابھی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہی تھا کہ دروازہ کھلا اور دو بچے شب خوابی کے لباس میں برآمد ہوئے۔انہوں نے ایک تکیہ اس کی طرف اچھالا جو سیدھا اس کے سر پر پڑا۔بھوت دیوار کے اندر غائب ہو گیااور گھر میں ایک بار پھر سناٹا چھاگیا۔
بھوت اپنے چھوٹے سے خفیہ کمرے میں آگیا اور گھر میں پیدا ہونے والی نئی صورت حال پر غور کرنے لگا۔تین سو سال کی آسیبی زندگی میں اسے پہلے کبھی اس طرح کا تجربہ نہیں ہوا تھا جیسا آج ہوا۔وہ اپنے ماضی کے بارے میں سوچنے لگا:
ایک مرتبہ میں ڈھانچے کے روپ میں بولٹن کی جاگیردارنی کے پیچھے ظاہر ہوا تھا۔اس وقت وہ عشائیے کی تیاری کر رہی تھی۔میں نے اس کے کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھے تو وہ اس قدر خوف زدہ ہوئی کہ فوراً بے ہوش ہو گئی تھی۔اور ایک مرتبہ چار گھریلو ملازمائوں کو میں نے کھڑکی کے پردے سے گھور کر دیکھاتو وہ نیم پاگل ہوگئی تھیں۔ایک اور رات تاریک کتب خانے میں پادری اس وقت دھڑام سے گر گیا تھا جب میں نے اس کی موم بتی پھونک مار کر بجھا دی تھی۔ایک مرتبہ میں نے میڈم ڈی۔ٹریمولک کواس وقت ڈرایا تھا جب وہ صبح سو کر اٹھی تھی … اس نے دیکھا کہ ایک ڈھانچہ اس کی آرام کرسی پر بیٹھا اس کی ڈائری پڑھ رہا تھا۔اس کے بعد وہ چھ ہفتے تک بستر پر ہی پڑی رہی۔ ایک مرتبہ جب میں نے اپنے سبز رنگ کے ہاتھ سے باورچی خانے کی کھڑکی کھٹکھٹائی تو باورچی اتنا دہشت زدہ ہوا کہ اس نے خود کشی کرلی۔
’’ہاں!‘‘اس نے سوچا،’’میری کامیابیوں کا طویل سفر ہے ،اور اب یہ خوف ناک امریکی کنبہ مجھے پیش کش کر رہا ہے کہ میں ان سے تیل لے لوںاور اپنی زنجیروں میں ڈال لوں اور میرے سر پر تکیے پھینکے جا رہے ہیں۔تاریخ میں کسی بھوت کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہوا ہوگاجیسا آج میرے ساتھ ہوا ہے۔میں انہیں پچھتانے پر مجبور کردوں گا۔‘‘اور وہ رات کو بجائے آرام کرنے کے انتقام کے طریقے سوچنے لگا۔
اگلی صبح مسٹر اوٹس کا کنبہ ناشتے کی میز پر جمع ہوا تو بھوت کے بارے میں گفتگو ہونے لگی۔مسٹر اوٹس کو راہ داری سے تیل کی ٹوٹی ہوئی بوتل ملی تھی اور یقینا یہ کوئی اطمینان بخش بات نہیں تھی۔وہ بولے،’’اگر بھوت زنجیروں میں تیل نہیں ڈالتا تو لازم ہے کہ ہم زنجیروں کو اس سے دور کردیں ورنہ ہم کبھی بھی رات کو آرام کرنے قابل نہیں ہو سکیںگے۔‘‘پھرانہو ں نے جلدی سے اپنا رخ جڑواں بچوں کی طرف پھیرا اور بولے، ’’البتہ میرا خیال ہے کہ یہ بھی کچھ زیادہ ہی بداخلاقی ہے کہ اس کے سر پر تکیہ ہی پھینک دیا جائے…تمہیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ ہم سے بہت عرصہ پہلے سے یہاں رہ رہا ہے۔‘‘جڑواں یہ سن کر قہقہے لگانے لگے۔
ایک ہفتے کی خاموشی کے بعد گھر کا ماحول پرسکون تھا۔ہر شخص آرام کی نیند سورہا تھا مگر کتب خانے کے فرش پر صبح دھبوں کا ظاہر ہونا معمول تھا۔یہ تعجب والی بات تھی کیوں کہ بیگم اوٹس کتب خانے کے دروازے کو روزانہ تالا لگا دیتی تھیں اور کھڑکی پر سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ اس سے زیادہ تعجب والی بات یہ تھی کہ دھبے روزانہ مختلف رنگوں کے ہوتے تھے۔ایک صبح تیز لال،اگلی صبح چمک دار لال،اس سے اگلی صبح جامنی،اور اس سے اگلی صبح چمک دار ہرا رنگ۔تمام افراد دھبوں کے بدلتے رنگوں کو دلچسپی سے دیکھتے اور محظوظ ہوتے مگر…ایک ورجینیا تھی کہ نہ ہنستی اور نہ ہی کوئی لفظ منہ سے نکالتی۔جس صبح دھبے سبز دکھائی دیے،وہ تقریباً چیخ اٹھی مگر یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کیوں؟
اتوار کی رات بھوت ایک مرتبہ پھر ظاہر ہوا۔ابھی گھر والوں کو بستر میں گھسے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ مرکزی ہال سے کسی بھاری چیز کے ٹوٹنے کی آواز آئی ۔مسٹراوٹس اور ان کے بچے دوڑ کر سیڑھیوں سے نیچے اترے ۔انہوں نے دیکھا کہ ایک بھاری زرہ فرش پر گری پڑی تھی اور قریب ہی بھوت کھڑا تھا۔وہ اپنے گھٹنے کو رگڑ رہا تھا اوراس کے چہرے پر تکلیف کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔جڑواں بچوں نے فوراً غلیل نکالی اور کاغذ کی دو گولیاں اسے کھینچ ماریں ۔مسٹر اوٹس جو اپنے ساتھ بندوق لیتے آئے تھے، بھوت پر تان کر بولے ،’’ہاتھ اوپر اٹھا دو۔‘‘
بھوت غصے میں چلاتا ہوا بھاگا اور دھویں کی شکل اختیار کرگیا۔جب وہ سیڑھیوں سے اوپر پہنچا تو اس نے اپنا وہ مشہور شیطانی قہقہہ لگانے کا فیصلہ کیا جس قہقہے نے راتوں رات ایک ملازم کے بالوں کو بھورا کرکے رکھ دیا تھا۔اس نے منہ کھولا اور پوری قوت لگا کر اپنا خوف  ناک قہقہہ لگانا شروع کیا،مگرابھی ختم نہ کرپایا تھا کہ دروازہ کھلا اور بیگم اوٹس نیلے لباس میں باہر آئیں اور بولیں:
’’او غریب آدمی!…تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔میں تمہارے لیے کچھ بہترین دوائیں لائی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اس سے تم ٹھیک ہو جائوگے۔‘‘
بھوت کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔پہلے تو وہ سکتے کے عالم میں چند لمحے کھڑا رہا۔پھراس نے ایک بڑے سیاہ کتے کا روپ دھارنا چاہا ، مگر اس نے جڑواں بچوں کے آنے کی آواز سنی ،چنانچہ وہ زور سے کراہتا ہوا غائب ہو گیا۔جب وہ اپنے خفیہ کمرے میں پہنچا تو بے حد پریشان تھا اور سوچ رہا تھا کہ’’یہ جڑواں اور بیگم اوٹس تو بہت ہی خطرناک ہیں۔‘‘وہ واقعی بہت گھبرایا ہوا تھا اور اس قابل بھی نہیں تھا کہ زرہ پہن سکے،کیوں کہ وہ بہت وزنی تھی اور اس کے گرنے سے وہ خود زخمی ہو گیا تھا۔حالانکہ یہ اس کی اپنی زرہ تھی اورزندہ ہوتے ہوئے وہ اسے جنگی صورت حال میں پہنا کرتاتھا۔
۔۔۔۔۔
اس کے چند دن بعد بھوت سخت بیمار پڑگیا۔وہ کمرے سے صرف اسی وقت نکلتا جب اسے کتب خانے کے فرش پر دھبے لگانے ہوتے۔ جب و ہ کچھ بہتر ہوا تو اس نے ایک مرتبہ پھر اوٹس گھرانے کو ہراساں کرنے کا فیصلہ کیا۔
بھوت نے ظاہر ہونے کے لیے 17اگست جمعے کا دن منتخب کیا اور دن کا زیادہ حصہ یہ سوچنے میں لگادیا کہ اسے کیا پہننا چاہیے۔ بالآخر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ بڑی سی سفید چادر اوڑھے گا اور لال پر والا اونچا ہیٹ سر پر رکھے گا۔چنانچہ جب وہ تیار ہو گیا تو اس نے ایک لمبا زنگ آلود خنجر بھی ساتھ رکھ لیا۔
رات کا اندھیرا گھنا ہوتے ہی شدید طوفان شروع ہوگیا ۔ہوا اتنی تیز تھی کہ کھڑکیاں لرزنے لگیں۔بھوت بہت خوش تھا کیوں کہ یہ اس کا پسندیدہ موسم تھا۔وہ پورے خاندان کو ہراساں کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔اس نے سوچا،’’میں سب سے پہلے واشنگٹن کے کمرے میں جائوں گاکیونکہ سب سے پہلے دھبے صاف کرکے شروعات بھی تو اسی نے کی تھیں۔میں اس کے پائوں کی طرف کھڑے ہو کر اپنی گردن کو پرانے خنجر کے ساتھ کاٹوں گا اور غمگین آوازیں نکالوں گا اور ساتھ ہی ہلکی سی پرسوز موسیقی بجے گی۔اگلا مرحلہ یہ ہوگا کہ بیگم اوٹس کی پیشانی پر بھیگا ہو اٹھنڈا ہاتھ رکھوں گا۔میں انہیں اور مسٹر اوٹس کو ایسا ڈرائوں گا کہ وہ دوبارہ مجھے تیل اور دوائیاں دینے قابل نہیں رہیں گے۔البتہ میں ورجینیا کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیوں کہ بہرحال اس نے میری کوئی توہین نہیں کی۔اس کے لیے ایک کراہ بھی کافی ہوسکتی ہے۔ہاں، میں ان خوف ناک جڑواں کو ایسا سبق سکھائوں گاکہ وہ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔میں ان کی چارپائیوں کے درمیان کھڑا ہو جائوں گا۔جب صبح ان کی آنکھ کھلے گی تو انہیں ہرے رنگ کی برفیلی لاش کھڑی نظر آئے گی۔جب لڑکے شدید خوف کا شکار ہو جائیں گے تو سفید چادر فرش پر اتار پھینکوں گا ۔ اس کے بعد انہیں صرف ہڈوں کا ڈھانچا نظر آئے گاجس کی صرف آنکھیں گھوم رہی ہوں گی اور یہ طریقہ ماضی میں بڑا کامیاب رہا ہے۔میں ان کے لیے کبھی نہ بھولنے والا خیال بن جائوں گا۔‘‘
ساڑھے دس بجے اس نے سنا کہ سارا کنبہ سونے جا رہا ہے۔تھوڑی دیر بعد اس نے جڑواں کے ہنسنے کی آواز سنی مگرسوا گیارہ بجے مکمل خاموشی چھاگئی۔آدھی رات سے ذرا پہلے بھوت نے اپنا کمرہ چھوڑ کرواشنگٹن کے کمرے کی جانب بڑھنا شروع کیا۔اس کے کمزور چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔جیسے ہی اس نے کھڑکی پار کی،چاند بادلوں کی اوٹ میں چلاگیا جیسے اسی سے چھپ رہا ہو۔جب وہ واشنگٹن کے کمرے کے ساتھ والی راہ داری میں پہنچاتو اچانک اسے کوئی آواز سنائی دی۔وہ ایک لمحے کے لیے رکامگر وہ محض ایک کتے کی آواز تھی جو پڑوسیوں کے باغ میں بھونک رہا تھا۔اس نے اپنے دل میں کہا،’’یہی وقت ہے۔‘‘وہ دل ہی دل میں مسکرایااور شیطانی سائے کی طرح آگے بڑھنے لگا۔مگر جیسے ہی وہ کونے کی طرف مڑا،سامنے ایک ایسی چیز کھڑی تھی کہ دہشت سے اس کی چیخ نکل گئی۔ایک خوف ناک شبیہ اس کے سامنے کھڑی تھی جس کا سر چمک دار گٹھڑی جیسا تھا۔چہرہ بڑا اور گول۔آنکھوں سے لال شعاعیں نکل رہی تھیں۔منہ ایسے لگ رہا تھا جیسے اس میں آگ ہو۔اس کا لباس بالکل ویسا ہی تھا جیسا کینٹرویل بھوت نے پہنا ہوا تھا۔اس نے اپنے سر سے اوپر تلوار بلند کر رکھی تھی اور گردن میں ایک تختی لٹکائی ہوئی تھی جس پر عجیب سی عبارت لکھی ہوئی تھی۔
کینٹرویل بھوت کو احساس ہو گیا کہ یہ بھی ایک بھوت ہی ہے مگر اس نے اس سے پہلے کبھی اس طرح کا بھوت نہیں دیکھا تھااور یہ تو تھا ہی بہت ڈرائونا۔وہ اتنا بدحواس ہو کر بھاگا کہ اپنی چادر سیڑھیوں پر چھوڑگیا اوراس کا زنگ آلود خنجرمسٹر اوٹس کے جوتوں کے پاس گرگیا جو صبح ملازمین کو ملا۔وہ بھاگتا ہوا اپنے کمرے میں پہنچا اور بستر میں گھس کر منہ چادر میں چھپا لیا،یہاں تک کہ رات گزر گئی۔ سورج نکلنے سے تھوڑاپہلے اس نے کچھ ہمت باندھی اور اُس دوسرے بھوت سے دوستی کرنے کا فیصلہ کیا۔’’ایک بھوت سے بھلے دو بھوت۔‘‘ اس نے سوچا، ’’اس سے مجھے اس خوف ناک خاندان کو ڈرانے میںبھی مدد ملے گی۔‘‘
وہ اٹھا اور راہ داری میں اس جگہ پہنچا جہاں اس نے دوسرا بھوت دیکھا تھا۔جب وہاں پہنچا تو اسے ایک اور جھٹکا لگا۔دوسرے بھوت کے ساتھ بھی کوئی بھیانک واقعہ پیش آچکا تھا۔آنکھوں اور منہ سے نکلتی شعاعیں بجھ چکی تھیں اور تلوار زمین پر گری پڑی تھی۔اس نے مزید قریب جا کر جب اس کے بازو ہلائے تو اس کا سر زمین پر گرا اور لڑھکنیاں کھانے لگا۔اس نے ڈرتے ڈرتے سر کو اٹھایا تو وہ محض ایک بڑا سا میٹھا کدو تھا جس میں سوراخ کرکے منہ اور آنکھیں بنائی گئی تھیں۔اس کاجسم کیا تھا…بستر کی ایک سفید چادر جسے جھاڑو پر کھڑا کیا گیا تھا۔ پھر کینٹرویل بھوت نے اس کے گلے میں لٹکی تختی پر لکھے الفاظ پڑھے:
’’اوٹس بھوت
اصلی اور سچا بھوت
خبردار!نقالوں سے ہوشیار
باقی تمام جعلی ہیں۔‘‘
اب بھوت کی سمجھ میں ہر چیز آگئی کہ اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلا گیا ہے۔اس نے شدید غصے میں اپنا ہاتھ بلند کیا اور بولا،’’میں قسم کھاتا ہوں کہ جب بھی مرغادوبار اذان دے گا،میں انتقام لوں گا۔‘‘جیسے ہی اس نے یہ الفاظ کہے،دورباغ سے مرغے کی اذان کی آواز آئی۔وہ انتظار کرتا رہ گیاکہ مرغا دوسری مرتبہ اذان دے مگر مرغے نے نہ دینی تھی نہ دی۔ساڑھے سات بجے جب گھر کے افراداٹھنا شروع ہو گئے تب وہ واپس خفیہ کمرے میں آگیا۔اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ مرغے نے ایک ہی بار کیوں اذان دی۔اس نے اپنی جادو کی کتابوں میں بھی جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔پھر وہ دل میں کہنے لگا،’’تعجب کی بات ہے کہ ساری کتابیں یہی کہہ رہی ہیں کہ مرغادوبار اذان دیتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ نحوست والی بات ہے۔ہوسکتا ہے میرا جادو بہترطریقے سے کام نہ کررہا ہو کیوں کہ میں بری طرح تھکا اور گھبرایاہوا ہوں۔‘‘پھر وہ آرام دہ تابوت میں جاکر لیٹ گیا اور شام تک اسی میں پڑا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن بھوت بہت تھکاوٹ اور کمزوری محسوس کررہا تھا۔گزشتہ چار ہفتوں کی ہلچل نے اسے بہت پریشان کردیا تھا۔وہ اتنا گھبرایا ہوا تھا کہ ہلکے سے شور سے بھی اچھل پڑتا تھا۔وہ پانچ دن تک اپنے کمرے میں ہی پڑا رہا یہاں تک کہ اس نے کتب خانے کے فرش پر دھبے لگانا بھی چھوڑدیے۔اس نے سوچا،’’اگراوٹس گھرانہ نہیں چاہتا تو پھر یہ اس قابل ہی نہیں ہیں۔‘‘مگرپھر بھی وہ اپنی حرکتیں نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ ایک بھوت ہوتے ہوئے اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ ہفتے میں ایک بار راہ داری میں چہل قدمی کرے۔ویسے بھی ہر ماہ کی پہلی اور تیسری بدھ کو بڑی والی گول کھڑکی میں ظاہر ہونا اس کا معمول تھا۔اپنی زندگی میں وہ ایک کاہل شخص تھا مگر بطور بھوت اس نے اپنی ذ مہ داریوں کو بہت سنجیدگی سے لیاتھا۔
اگلے تین ہفتوں تک، وہ ہفتے کی راتوں کو تین بجے سے نصف رات کے دوران معمول کے مطابق راہ داریوں میں چہل قدمی کرتا رہا۔چہل قدمی کے دوران وہ بہت محتاط رہتا کہ کوئی فرد اسے دیکھ یا سن نہ سکے۔وہ سیاہ چوغہ پہنے جتنا آرام سے ممکن ہوتا ننگے پائوں چلتا تاکہ جوتوں کی آواز بھی پیدانہ ہو۔بیگم اوٹس کا تھوڑا سا تیل چرا کر اس نے اپنی زنجیروں میں ڈال لیا تھا تاکہ وہ کسی قسم کا شورپیدا نہ کریں۔
وہ جانتا تھا کہ ابھی کئی اونچ نیچ کے مراحل باقی ہیں اور بہت سی مصیبتیں آنی ہیں۔ان سب سے نمٹنے کے لیے اس نے پہلے سے تیاری کرلی تھی۔جڑواں اپنے کرتب دکھانے سے باز نہیں آرہے تھے۔ انہوں نے راہ داری میں جہاں بھوت چہل قدمی کرتا تھا،دائیں سے بائیں ایک رسی تان دی تھی تاکہ وہ دھڑام سے منہ کے بل گرے۔ایک رات انہوں نے سب سے اوپر والی سیڑھی پر تھوڑا سا مکھن ڈال دیا۔بھوت کاپیر جیسے ہی اس پر پڑا ،وہ پھسلا اور اوندھے منہ سیڑھیوں پر گرا۔بھوت ان کی اس حرکت سے اتنا غضب ناک ہوا کہ اس نے ان شریر جڑواں کو آخری بار سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا۔اس نے سرکٹے نواب کے روپ میں ان کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔یہ ایک اتنا کامیاب بہروپ تھا کہ اس نے آخری بار جب اسے دھارا تھا تو نتیجے کے طور پر دو افراد کی موت واقع ہو گئی تھی۔بھوت کے لیے سرکٹے نواب کی شکل میں ظاہر ہونا اتنا آسان نہیں تھا۔یہ نہ صرف مشکل تھا بلکہ اس کی تیاری میں بھی کم از کم تین گھنٹے چاہیے تھے۔وہ کافی محنت کے بعدتیار ہوا۔ لمبے جوتے پہنے اور ایک بندوق بھی اٹھالی۔پھر وہ دیوار کے ذریعے نکل کر جڑواں کے کمرے کی جانب بڑھا۔ان کے کمرے کے باہر پہنچ کر چند لمحے رکا، پھر ہلکا سا دروازہ کھولا۔مگر وہ ڈرائونے انداز میں داخل ہونا چاہتا تھا۔یہی سوچ کراس نے اچانک جیسے ہی دروازہ کھولا،پانی سے بھرا ایک وزنی جگ اس کے بالکل اوپر گرا اور اس کے پورے جسم کو بھگوتا چلا گیا۔اسی وقت اسے جڑواں کے بستروں کی جانب سے قہقہے سنائی دیے۔
بھوت جتنی تیز بھاگ سکتا تھا ،بھاگتا ہوا کمرے میں پہنچا اور اگلے پورے دن شدید ٹھنڈ کا شکار رہا۔صرف ایک بات سوچ کر اسے کچھ اطمینان ہوا ،اوروہ یہ تھی کہ اچھا ہوا جب مصیبت آئی تو اس کا سر اس کی گردن پر نہیں تھا۔
بھوت اپنی ساری امید کھو چکا تھا۔وہ بد اخلاق امریکی خاندان کو خوف زدہ کرنے بھی نہیں جا پا رہا تھا۔بس پائوں میں کھلی چپلیں ڈال کر راہ داریوں میں گھومتا رہتا تھا۔ٹھنڈی ہوا مسلسل چل رہی تھی جس سے حفاظت کے لیے اس نے گردن میں اونی اسکارف لپیٹ رکھا تھا۔ایک پرانی بندوق بھی سنبھال رکھی تھی کیوں کہ وہ جڑواں سے بے حد خوف زدہ تھا، تاہم 19 ستمبر کی رات اسے آخری ضرب لگی۔وہ مرکزی ہال میں جانے کے لیے سیڑھیاں اترنے لگا کیوں کہ وہ ہال ہر لحاظ سے محفوظ تھا۔ نیچے اتر کروہ ایلچی اور اس کے خاندان کی تصاویر کو دیکھ کر محظوظ ہونے لگا۔یہ نئی تصاویر حال ہی میں کینٹرویل کے خاندان کی تصاویر کی جگہ لگائی گئی تھیں۔تقریباً سوا دو بجے رات کا وقت تھا۔ اس نے سوچا کہ سب سوئے ہوئے ہیں ، لہٰذا یہ مناسب ترین وقت ہے کہ پورے گھر کا چکر لگایا جائے۔
اچانک اندھیرے کونے سے دو لڑکوں نے چھلانگ لگائی اور اس کے کان میں آکر’’بوووو‘‘ کی زوردارآواز لگائی۔بھوت گھبرا گیا اور جتنی تیز بھاگ سکتا تھا ،سیڑھیوں کی طرف بھاگا،مگر وہاں واشنگٹن بندوق لیے کھڑا تھا۔اب اس کے پاس فرار ہونے کا ایک ہی راستہ تھا …اور وہ تھی انگیٹھی۔خوش قسمتی سے انگیٹھی میں آگ بھی نہیں تھی ،چنانچہ وہ تیزی سے انگیٹھی میں غائب ہوا اور چمنی کے راستے کمرے کی طرف بھاگا۔
اس کے بعد لمبے عرصے تک بھوت راہ داریوں میں نظر نہ آیا۔جڑواں نے کئی مرتبہ راہ داریوں میں اخروٹ کے چھلکے پھیلا کر بھوت کا انتظار کیا۔کچراپھیلانے پر والدین اور ملازمین نے ناراضی کا اظہار بھی کیا مگر بھوت نے نہ آنا تھا نہ آیا۔صاف لگ رہا تھا کہ اس کے جذبات کو شدید دھچکا لگا ہے۔
بھوت کے بغیر کینٹرویل حویلی میں آباد گھرانے کے معمولات بالکل بدل ہوچکے تھے۔مسٹر اوٹس تاریخ پر کتاب لکھنے میںمصروف ہو گئے۔بیگم اوٹس ایک بڑی دعوت کی تیاریوں میں لگ گئیں۔لڑکے روایتی امریکی کھیلوں میں مگن ہو گئے اور ورجینیاشہر سے باہر نوجوان نواب زادے ڈیوک کے ساتھ گھڑ سواری کرنے لگی۔نواب زادہ ڈیوک گرمی کی چھٹیاں گزارنے کینٹرویل حویلی آیا ہوا تھا۔ہر فرد یہ سمجھ رہا تھا کہ بھوت حویلی چھوڑ کر جا چکا ہے۔مسٹر اوٹس نے نواب کینٹرویل کو خط لکھ کر یہ خوش خبری سنائی ۔نواب حیرت انگیز خبر سن کر بہت خوش ہوا۔
مگر یقینا وہ سب غلط فہمی کا شکار تھے کیوں کہ بھوت ابھی تک گھرہی میں موجود تھا مگر کافی بیمار تھا۔جب وہ تھوڑا سا بہتر ہوا اور اسے معلوم ہوا کہ نواب زادہ ڈیوک حویلی میں ٹھہرا ہوا ہے تو بھوت کو گزرا وقت یاد آگیا۔ایک مرتبہ ڈیوک کے دادا نواب اسٹلٹن نے کینٹرویل بھوت کے ساتھ چھکا کھیل کر بڑی رقم جیت لی تھی۔اگلی صبح بوڑھا نواب کھیل والے کمرے میں فرش پر خوف کے مارے بے حس و حرکت پڑا ہوا ملاتھا۔اس نے بڑی لمبی عمر پائی مگر ساری زندگی ایک ہی لفظ’’دو چھکے‘‘کے علاوہ کچھ نہ کہہ سکا۔بھوت یہ سوچ کر بڑا خوش ہوا کہ چلو اچھا ہوا کسی دوسرے خاندان کے فرد کو ڈرانے کا موقع ملا۔اس نے نوجوان نواب زادے کے سامنے خون پینے والے درویش کے روپ میں آنے کا فیصلہ کیا۔وہ تیار تو ہو گیا مگر جڑواںکے خوف سے کمرے سے نکلنے کاحوصلہ نہ کرسکا۔چنانچہ نوجوان ڈیوک آرام سے خواب خرگوش کے مزے لیتا رہا۔
چند دن بعد ورجینیا ڈیوک کے ساتھ گھڑ سواری کے لیے جنگل گئی جہاں درخت کے ٹہنی سے اٹک کر اس کے کرتے کی آستین پھٹ گئی۔وہ فوراً واپس گھر آئی اور جیسے ہی تصویروں والے کمرے کے سامنے سے گزرنے لگی،اسے ایسا لگا کہ کمرے میں کوئی ہے۔اس نے سوچا کہ شاید ملازمائوں میں سے کوئی ہے،اورمیں ا سے کہتی ہوں کہ میرا کرتا رفو کردے، مگر وہ جیسے ہی اندر داخل ہوئی، ششدر رہ گئی۔ کینٹرویل بھوت کھڑکی کے پاس بیٹھا باغ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ بہت افسردہ تھااور اسے ورجینیا کے آنے کا بھی پتا نہیں چلا تھا۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ کمرے سے باہر بھاگ جائے مگر جب اس نے دیکھاکہ بھوت بے چارہ غمگین نظرآرہا ہے تو اس نے بھوت سے گفتگو کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس نے بھوت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،’’میں معذرت خواہ ہوں… مگر میں آپ کو یہ بتانا چاہ رہی تھی کہ آپ پریشان نہ ہوں،…کل سے چھٹیاں ختم ہو رہی ہیں اور میرے بھائی دوبارہ اسکول جانا شروع کر دیں گے اور پھر آپ کو تنگ کرنے والا کوئی نہیں ہوگا…اگر آپ اپنی حد میں رہے۔‘‘
بھوت نے جب نوجوان لڑکی کو اپنے سے مخاطب ہوتے دیکھاتوپہلے سخت حیران ہوا ،پھر اس کی طرف مڑا اور بولا،’’یہ کیا بے وقوفوں والی بات ہے ۔میں اپنی حد میں نہیں رہ سکتا۔میں واضح طور پر بتانا چاہتاہوں کہ میں زنجیریں کھنکھنائوں گا،چابی کے سوراخوں سے ہائے ہائے کروں گا اور رات کو چہل قدمی بھی کروں گا۔‘‘
’’تم ان میں سے کوئی کام نہیں کرو گے۔‘‘ورجینیانے جواب دیا۔’’تم ایک بہت ہی گھٹیا شخص ہو۔مسز اومنی نے ہمیں بتایا ہے کہ تم نے اپنی بیوی کو قتل کردیا تھا۔‘‘
’’ہاں، کیا تھامگر یہ میرا خاندانی معاملہ ہے۔‘‘بھوت بولا،’’کسی اور کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘‘
’’قتل کرنا بہت ہی برا کام ہے۔‘‘ورجینیا نے کہا۔
’’بے وقوف…‘‘بھوت بولا،’’وہ بہت بدصورت اور بدسلیقہ باورچن تھی… اور میں اس سے نجات پانا چاہتا تھا۔یہ بہت زیادتی نہیں تھی کہ اس کے بھائی مجھے بھوکا مارنا چاہتے تھے؟‘‘
ورجینیا نے غضب ناک انداز میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،’’تمہیں بھوکا مارنا؟…اوہ…محترم بھوت صاحب!معاف کیجیے گا…آپ کو بھوک لگی ہے…میرے بستے میں ایک سینڈوچ ہے…آپ کھانا پسند کریں گے؟‘‘
’’نہیں ،تمہارا شکریہ۔‘‘بھوت نے جواب دیا،’’یہ تمہاری مہربانی ہے مگر میں اب کوئی چیز نہیں کھانا چاہتا۔البتہ میں ایک بات ضرور کہنا چاہتا ہوںکہ تم اپنے خوف ناک، بداخلاق اور بددیانت خاندان سے بہت اچھی ہو۔‘‘
’’منہ سنبھال کر بات کرو۔‘‘ورجینیا چلائی،’’تم خود ہو خوف ناک،بداخلاق اور بددیانت۔میںجانتی ہوں کہ تم میرے رنگ چرا چرا کر کتب خانے کے فرش ہر دھبے ڈالتے رہے ہو۔پہلے تم نے سارے لال رنگ چرائے،پھر ہرے اورپھر پیلے۔حالانکہ مجھے تمہاری اس حرکت پر بہت غصہ تھا مگر میں نے ایک لفظ کسی سے نہیں کہا۔یہ بہت ہی مضحکہ خیز بات ہے …بھلاآج تک کسی نے چمکتا ہوا سبز خون سنا ہے؟‘‘
’’اچھا۔‘‘بھوت نے کہا،’’اور بھلامیں کیا کر سکتا تھا؟…آج کل اصلی لال خون حاصل کرنا بہت ہی مشکل کام ہے…بہرحال سبز خون بہت زیادہ عجیب بات بھی نہیں ہے۔یاد رکھو!ہم کینٹرویل والوں کے پاس تو نیلا خون بھی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ تم امریکی ان چیزوں کو کبھی نہیں سمجھ سکتے۔‘‘
’’تم امریکہ کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔‘‘ورجینیا نے جواب دیا،’’میرا خیال ہے تمہیں وہاں جانا چاہیے اور مجھے یقین ہے کہ میرے ابو تمہارے جانے کا انتظام بھی کر دیں گے۔تمہیں نیویارک میں بہت پذیرائی ملے گی۔وہاںبہت سے لوگ تمہیں خاندانی بھوت رکھ لیں گے اور اس کام کا بہت بڑا معاوضہ بھی دیں گے۔‘‘
بھوت نے ورجینیا کی طرف دیکھا اور بولا،’’میں نہیں سمجھتا کہ امریکہ مجھے پسند آئے گا۔وہاں کے لوگ بد تہذیب معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
ورجینیا نے یہ سنا تو اپنی توہین محسوس کی اور جانے کے لیے مڑی،’’ورجینیا!مہربانی کرکے مت جائو!‘‘بھوت چلایا۔’’میں بہت ہی بدقسمت اور اکیلا ہوں…میں سونے کے لیے جانا چاہتا ہوں مگر جا نہیں سکتا۔‘‘
’’یہ کیا پاگلوں والی بات ہے۔‘‘ورجینیا بولی،’’سیدھے بستر پر جائو،موم بتی بجھائو اور سو جائو۔یہ بات ٹھیک ہے کہ بعض اوقات جاگنا بہت مشکل ہو جاتا ہے،خاص طور پر گرجا گھر میں جاگنا…مگر سونا کون سا مشکل کام ہے۔اتنا آسان ہے کہ بچے بھی آرام سے سو جاتے ہیں حالانکہ وہ تو اتنے ہوشیار نہیں ہوتے۔‘‘
بھوت انتہائی افسردہ لہجے میں بولا،’’میں بہت بدقسمت ہوں کہ گزشتہ تین سو سال سے نہیں سو سکا۔‘‘
یہ سن کر ورجینیا بہت سنجیدہ ہو گئی اور اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔اس نے گھٹنوں کے بل جھک کر بھوت کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،’’بے چارے ،غریب بھوت!…تمہارے پاس ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں جا کر تم سو سکو؟‘‘
’’وہاں درختوں کے پار ایک جگہ ہے ۔‘‘اس نے جواب دیا،’’وہ ایک خوب صورت باغ ہے جہاں رات بھر بلبل کے نغمے سنائی دیتے ہیں اور وہاں کے درختوں کے سائے سونے والوں کے لیے بہت آرام دہ ہیں۔‘‘
یہ سن کر ورجینیا کی آنکھیں بھر آئیں،’’تمہارا مطلب ہے قبرستان؟‘‘اس نے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘بھوت نے جواب دیا،’’قبرستان…موت کتنی خوب صورت ہوگی…میں مرنا چاہتا ہوں،اور تم میری مدد کر سکتی ہو…تم میرے لیے موت کے دروازے کھول سکتی ہو…دیکھو!محبت تمہارے ساتھ ہے …اور محبت موت سے زیادہ طاقت ور ہے۔‘‘
یہ سن کر ورجینیا لرز کر رہ گئی۔چند منٹ کے لیے خاموشی چھاگئی۔ورجینیا کو ایسا لگا جیسے وہ دونوںکسی ڈرائونے خواب میں ہوں۔
  ’’تم نے کبھی کتب خانے کی کھڑکی پر لکھی پیش گوئی پڑھی؟‘‘بھوت نے پوچھا۔
’’اوہ ہاں۔‘‘ورجینیا نے جواب دیا۔’’وہ صرف چار سطریں ہیں اور میں انہیں دل سے مانتی ہوں۔‘‘
’’جب سنہری لڑکی رو کر دعا کرے گی۔
جب بادام کا سوکھا درخت ہرا ہو جائے گا۔
تب گھر تو اپنی جگہ ساکت رہے گا۔
مگر کینٹرویل میں سکو ن آجائے گا۔‘‘
مگر میں نہیں جانتی کہ اس کا مطلب کیا ہے؟‘‘
’’اس کا مطلب ہے۔‘‘وہ افسردگی سے بولا،’’تم لازمی میرے گناہوں کے لیے روئو کیوںکہ میرے پاس آنسو نہیں ہیں۔تم لازمی میرے لیے دعا کرو کیوں کہ میرے پاس یقین نہیں ہے…موت کا فرشتہ تمہیں سن کر مجھ پر مہربان ہوگا…تمہیں خوف ناک شکلیں نظر آئیں گی اور تمہارے کانوں میں شیطانی آوازیں آئیں گی مگر… کوئی چیز تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی کیوں کہ تمہاری معصومیت تمہارا دفاع کرے گی۔‘‘
پہلے تو ورجینیا کچھ نہ بولی پھر یکایک اٹھ کھڑی ہوئی اور بھوت کی طرف دیکھ کر بولی،’’میں ہر گز خوف زدہ نہیں ہوں اور میں موت کے فرشتے سے کہوں گی کہ وہ تم پر رحم کرے۔‘‘
بھوت خوشی سے چیخ اٹھا۔اس نے ورجینیا کا ہاتھ اٹھا کر اسے بوسہ دیا۔اس کی انگلیاں برف کی طرح ٹھنڈی تھیں مگر اس کے ہونٹ آگ کی طرح جل رہے تھے۔وہ اپنے پیچھے پیچھے اسے تصویروں والے کمرے سے باہر لے آیا۔وہ چلتے جا رہے تھے اور ان کے سامنے چھوٹے چھوٹے بھوتنے ظاہر ہوتے جا رہے تھے اور شور مچاتے جا رہے تھے۔’’واپس جائو!واپس جائو ننھی ورجینیا!‘‘مگر بھوت نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھا تھا اور اس نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔کمرے کے آخری سرے پر پہنچ کر وہ رک گئے ۔بھوت نے کچھ عجیب الفاظ کہے اور ورجینیا نے بھی آنکھیں کھول دیں۔ان کے سامنے دیوار میں شگاف پڑ گیا جس میں سے ٹھنڈی ہوا آنے لگی۔
’’جلدی،جلدی،‘‘بھوت چلایا،’’ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔‘‘ایک لمحے بعد ہی پھٹی ہوئی دیوار ان کے پیچھے دوبارہ مل گئی اور تصویروں والا کمرہ سنسان ہو گیا۔
تقریباً دس منٹ بعد ناشتے کے لیے گھنٹی بجی۔جب ورجینیا نہ آئی تو بیگم اوٹس سمجھیں کہ شاید وہ گل دان کے لیے تازہ پھول توڑنے باغ میں گئی ہوئی ہے اور اس نے گھنٹی نہیں سنی ہوگی۔مگر جب گھڑی نے چھ بجے کا گھنٹہ بجایا تو بیگم اوٹس واقعی فکر مند ہوگئیں۔انہوں نے جڑواں کو باغ میں دیکھنے بھیجا اور بیگم اوٹس خود گھر کے ہر کمرے میں اسے تلاش کرنے لگیں۔ساڑھے چھ بجے جڑواں نے آکر بتایا کہ ورجینیا انہیں باغ میں کہیں نہیں ملی۔وہ سب سخت پریشان ہو گئے ۔مسٹر اوٹس نے واشنگٹن کے ساتھ دو ملازمین کو بھیجا کہ وہ اسے سارے علاقے میں تلاش کریں۔خود انہوں نے ملک کے تمام انسپکٹروں کو تار بھیج کر بیٹی کے گم ہونے کی اطلاع دی۔ انہوںنے اسکاٹ جا کر ورجینیا کو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔نوجوان امیرزادہ ڈیوک بھی بہت فکر مند تھا اور وہ بھی اسکاٹ جانا چاہتا تھامگر مسٹر اوٹس اسے نہیں لے جانا چاہتے تھے۔مسٹر اوٹس نے اپنا گھوڑا لیا اور اسکاٹ کی طرف چل پڑے۔ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ انہوں نے اپنے پیچھے ایک اور گھوڑا آتا محسوس کیا۔انہوںے نے پیچھے مڑکر دیکھا تو ڈیوک اپنے گھوڑے پر ان کے پیچھے پیچھے آرہا تھا۔
’’میں معذرت خواہ ہوں مسٹر اوٹس!‘‘لڑکا بولا،’’جب ورجینیا گم ہو چکی ہے تو میں آرام سے گھر میں کیسے بیٹھ سکتا ہوں؟…مجھ سے ناراض نہ ہوئیے…اور مہربانی کرکے مجھے واپس بھی نہ کیجیے گا ،میں واپس نہیں جائوں گا۔‘‘
مسٹر اوٹس نے لڑکے کی طرف سے منہ پھیر لیا۔وہ سوچ رہے تھے کہ یہ بھی میری ہی بیٹی کے بارے میں فکر مند ہے۔’’اگر تم واپس نہیں جانا چاہتے تو میں یہی سمجھوں گا کہ تم لازمی میرے ساتھ چلنا چاہتے ہو۔‘‘اور وہ دونوں چل پڑے۔
جب وہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو مسٹر اوٹس نے اسٹیشن ماسٹر کو ورجینیا کے بارے میں تفصیل بتائی اور پوچھا کہ کیا اس نے اسے کہیںدیکھاہے،مگر اس نے انکار کردیا۔پھر جب وہ گائوں کے قریب پہنچے تو وہاں بھی کچھ لوگوں سے پوچھا مگر کسی نے کچھ نہیں بتایا۔
جب وہ واپس کینٹرویل حویلی پہنچے تو تقریباً آدھی رات گزر چکی تھی۔وہ بہت تھکے ہوئے اور افسردہ تھے کہ بدقسمتی سے وہ ورجینیا کو کہیں نہیں ڈھونڈ پائے ۔واشنگٹن اور جڑواں گھر کے باہر ان کا انتظار کر رہے تھے۔
وہ سب گھر کی جانب چل پڑے ۔گھرپہنچتے ہی مسٹر اوٹس کتب خانے کے صوفے پر گر پڑے۔وہ بے حد پریشان تھے۔بیگم اوٹس نے محسوس کیا کہ اس وقت سب کو بھوک لگی ہے چنانچہ انہوں نے ملازمین سے کھانا لگانے کو کہا۔دسترخوان پر ایسی خاموشی چھائی ہوئی تھی کہ لگتا تھا مریض بیٹھے ہیں۔حتیٰ کہ جڑواں بھی چپ چاپ تھے۔کھانا کھانے کے بعد بیگم اوٹس بولیں،’’اب آج رات تو ہم مزید کچھ نہیں کر سکتے، لہٰذا کل صبح دوبارہ تلاش شروع کریں گے۔‘‘
جیسے ہی وہ طعام گاہ سے باہر نکلے، گھڑی نے آدھی رات کا گھنٹہ بجایا۔ابھی گھنٹہ آخری بار بج ہی رہا تھاکہ انہوں نے چیخ کی آواز کے ساتھ بادلوں کی ایسی خوف ناک گرج سنی جس نے مکان کو ہلا کر رکھ دیا۔پھر عجیب و غریب موسیقی سنائی دینے لگی اور سیڑھیاں اوپر جا کر جہاں ختم ہوتی تھیں ،ساتھ کی دیوار میں شگاف پڑ گیا۔دیوار پھٹتے ہی اندر ورجینیا کھڑی نظر آئی۔اس کا رنگ سفید پڑچکا تھا اور اس نے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی صندوقچی اٹھا رکھی تھی۔وہ سب اس کی طر ف لپکے۔بیگم اوٹس نے دوڑ کر اسے گلے لگا لیا ۔جڑواں نے ایسے اٹھک بیٹھک شروع کردی جیسے قدیم انڈین قبائلی جنگی رقص کررہے ہوں۔
’’پیاری بہشتی بچی!تم کہاں چلی گئی تھیں؟‘‘بیگم اوٹس قدرے ناراض ہوتے ہوئے بولیں ۔ وہ یہ سمجھ رہی تھیں کہ یہ نادان بچی ہمارے کے ساتھ مذاق مذاق میں کوئی کھیل کھیل رہی تھی۔’’ہم نے تمہیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔دوبارہ کبھی اس طرح کا کھیل مت کھیلنا۔‘‘
’’سوائے بھوت کے!سوائے بھوت کے۔‘‘جڑواں چلا چلا کر اوپر نیچے چھلانگیں لگانے لگے۔
’’ابو!‘‘وہ سرگوشی والے انداز میں بولی،’’میں بھوت کے ساتھ تھی۔وہ مرچکا ہے اور اگر آپ کو یقین نہ آئے تو میرے ساتھ چل کر دیکھیے۔یہ بات درست ہے کہ وہ بہت ہی بداعمال تھا مگر اس کو اپنے کیے پر بے حد پچھتاوا تھا۔یہ دیکھیے اس نے مرنے سے پہلے مجھے خوب صورت زیورات کی یہ صندوقچی دی ہے۔‘‘
وہ سب اسے حیرت سے دیکھنے لگے مگر وہ بے حد سنجیدہ تھی ۔وہ واپس مڑی اور سب کو اپنے ساتھ لے کر دیوار میں پڑے شگاف  کے ذریعے خفیہ گزرگاہ میں اتر گئی۔بالآخر وہ ایک بڑے پھاٹک پر پہنچے ۔ورجینیا نے اسے دھکا دیا اور سب اندر داخل ہوگئے۔یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی۔فرش پر ایک ڈھانچہ پڑا تھا جس کی کلائی زنجیر سے جکڑی ہوئی تھی ۔ زنجیر کا دوسرا سرا دیوارمیں جڑا ہواتھا۔ڈھانچے کا ایک ہاتھ اس چھوٹی سی میز کی طرف بڑھا ہوا تھا جس پر ایک پرانا جگ اور تھالی رکھی ہوئی تھی ۔ورجینیا گھٹنوں کے بل ڈھانچے کے پاس بیٹھ کر اس کی مغفرت کے لیے دعا کرنے لگی۔اب وہ سب سمجھ چکے تھے کہ یہ ہے سر سائمن کا دردناک انجام … کہ وہ بھوک سے مر گیا۔
جڑواں میں سے ایک نے کھڑکی سے باہر جھانکا اور بولا’’دیکھو، دیکھو!…بادام کا پورا درخت پھولوں سے بھر چکا ہے اور چاند کی روشنی میں صاف دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘
ورجینیا اٹھ کھڑی ہوئی اور بولی،’’خدا اس پر رحم کرے۔‘‘اور اس کے چہرے پر ایک خوب صورت روشنی پھیل گئی جس پر ڈیوک نے کہا،’’تم ایک فرشتہ ہو۔‘‘
ان پراسرار واقعات کے چاردن بعد رات گیارہ بجے بھوت کی میت کا جلوس کینٹرویل حویلی سے نکلا۔میت گاڑی میں آٹھ گھوڑے جڑے ہوئے تھے۔تابوت کو ایک بڑی جامنی چادر سے ڈھانپ دیا گیا تھا اور اوپر کینٹرویل کا کوٹ رکھ دیا گیا تھا۔کوٹ کی آستینوں پر سونے کی تاروں سے کڑھائی کی گئی تھی۔
میت گاڑی کے پیچھے تین بگھیاں چلی جا رہی تھیں۔پہلی بگھی میں نواب کینٹرویل اور ورجینیا،دوسری میں مسٹر اوٹس اور ان کا کنبہ جبکہ تیسری میں بزرگ ملازمہ مسز اومنی سوار تھیں۔گرجے کے قبرستان کے ایک کونے میں ایک سدا بہار پرانے درخت کے نیچے ایک گہری قبر کھودی گئی تھی ۔تابوت کو اس میں دفن کر دیا گیا۔ورجینیا نے بادام کے درخت سے سفید اورگلابی پھول توڑ کر ایک گلدستہ بنایا اور قبر پر رکھ دیا۔اسی لمحے چاند نے بادلوں سے اپنا چہرہ نکالا تو پورے قبرستان میں چاندنی پھیل گئی۔ورجینیا کو قبرستان کے بارے میں بھوت کی کہی گئی بات یاد آگئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔وہ بہت افسردہ تھی اور گھر جاتے ہوئے بڑی مشکل سے چند الفاظ بول سکی۔
اگلی صبح مسٹر اوٹس نے نواب کینٹرویل سے زیورات کی اس صندوقچی کے بارے میں بات کی جو ورجینیا کو بھوت نے دی تھی۔وہ بولے،’’میں جانتا ہوں کہ یہ زیوارت آپ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔آپ کو انہیں ضرور لے جانا چاہیے۔ورجینیا کی عمر ابھی زیورات میں دلچسپی لینے کی نہیں ہے۔تاہم وہ صندوقچی کو ہی بھوت کی نشانی سمجھ کر خوشی سے سنبھال کر رکھ لے گی۔‘‘
نواب کینٹرویل مسکرا کر بولے،’’میں چاہتا ہوں کہ آپ کی بیٹی انعام کے طور پر ان زیورات کو اپنے پاس رکھے۔بالآخر تین سو سال بعد سر سائمن کو سکون مل گیا، یہی بہت ہے۔اگر میں نے یہ زیورات اس سے لے لیے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بوڑھا بداعمال شخص واپس نکل آئے اور مجھے ڈرانا کرنا شروع کردے اور ویسے بھی جب آپ نے گھر خریدا تھا تو بھوت اور اس کے سامان سمیت ہر چیزخرید لی تھی … لہٰذا زیورات ورجینیا کے پاس ہی رہیں گے۔‘‘
چند سالوں بعد ورجینیا اور نوجوان نواب زادے کی شادی ہوگئی اور ورجینیاقصبہ چیشائر کی جاگیردارنی بن گئی۔شادی پر اس نے بھوت کے دیے گئے زیورات میں سے چند ایک پہنے تو ہر شخص یہی کہتا نظر آیاکہ بہت شان دار زیورات ہیں جوپہلے کبھی نہیںدیکھے گئے۔
شادی کے چند دن بعد جب ڈیوک اور چیشائر کی جاگیردارنی کینٹرویل حویلی آئے تو ایک دن دوپہر کوٹہلتے ٹہلتے گرجے کے قبرستان کی طرف نکل گئے ۔وہ سر سائمن کی قبر کی طرف گئے اور کتبے پر لکھی عبارت پڑھنے لگے۔یہ وہی ایک پرانی پیش گوئی تھی جو کتب خانے کی کھڑکی پر لکھی ہوئی تھی۔ورجینیا نے چند خوب صورت پھول توڑ کر اس کی قبر پر رکھے اور پھر وہ آگے بڑھ گئی۔کچھ دور جا کر وہ رک گئے۔ورجینیا ایک پتھر پر بیٹھ گئی اور ڈیوک اس کے ساتھ ہی زمین پر۔اس نے اچانک ورجینیا کی طرف دیکھا اور بولا،’’ورجینیا!تمہیں مجھ سے کوئی بات راز نہیں رکھنی چاہیے۔‘‘
’’سرتاج!میں نے آپ سے کون سی بات راز رکھی ہے؟…کوئی بھی نہیں۔‘‘
’’ہاں رکھی ہے۔‘‘ڈیوک نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’تم نے مجھے یہ نہیں بتایا کہ جب تم بھوت کے ساتھ اکیلی تھیں اس وقت کیا ہوا تھا۔‘‘
’’یہ تو میں نے کسی کو بھی نہیں بتایا سرتاج۔‘‘ورجینیا نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’میں جانتا ہوں ۔‘‘ڈیوک بولا،’’مگر میں نے سوچا کہ تم مجھے ضرور بتائوگی۔‘‘
’’براہ کرم مجھ سے یہ مت پوچھیے۔‘‘ورجینیا سرگوشی کرتے ہوئے بولی،’’میں آپ کو نہیں بتا سکتی…بے چارے سر سائمن! … میں ان کی بہت احسان مند ہوں کہ انہوں نے مجھے سمجھا دیا کہ زندگی کیا ہے اور موت کے کیا معانی ہیں۔اور یہ بھی کہ کیسے محبت ان دونوں سے زیادہ طاقت ور ہے۔‘‘
وہ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر ڈیوک بولا،’’شایدایک دن ایسا آئے کہ جب تم یہ بات اگلی نسلوں کو بتا سکو… جوتم آج نہیں بتاپا رہی ہو…ہے کہ نہیں؟‘‘اور پھر دونوں مسکرانے لگے۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top