skip to Main Content

جادوگر کا ہاتھی

مترجم: جاوید بسام
۔۔۔۔۔

باب:1
انیسویں صدی کے اختتام پر ایک دن بلتیس شہر کے بازار میں ایک لڑکا کھڑا تھا۔ اس کے سر پر فوجی ٹوپی اور ہاتھ میں ایک سکہ تھا۔ اس کا نام پیٹر آگسٹس ڈوچین تھا اور جو سکہ اس کے پاس تھا وہ اس کا نہیں تھا بلکہ اس کے سرپرست ولنا لٹز نامی بوڑھے سپاہی کا تھا، جس نے لڑکے کو مچھلی اور روٹی لینے کے لیے بازار بھیجا تھا۔
اس دن بازار کے چوک پر مچھلی فروشوں، پارچہ بافوں، نان بائیوں اور چاندی کے کاریگروں جیسے معمولی اور غیر معمولی اسٹالوں کے درمیان ایک کاہنہ کا سرخ خیمہ بغیر کسی سج دھج کے استادہ تھا۔ اس پر ایک کاغذ کا ٹکڑا لگا تھا، جس پر کشیدہ الفاظ میں ایک پیغام درج تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ پیغام عجلت میں لکھا گیا ہے۔
’’بہت پیچیدہ اور مشکل سوال جو انسانی دماغ یا دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے جواب ایک فلورٹ (سکہ) کے عوض دیے جاتے ہیں۔‘‘
پیٹر نے ایک بار پھر چھوٹی سی تحریر پڑھی اور لفظوں کی شدت سے اس کا سانس لینا دشوار ہوگیا۔ اس نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا، جس میں ایک ہی سکہ تھا۔
’’میں یہ نہیں کرسکتا۔‘‘ اس نے خود کلامی کی۔ ’’اگر میں نے ایسا کیا تو ولنا لٹز پوچھے گے کہ سکہ کہاں گیا؟ اور مجھے جھوٹ بولنا پڑے گا اور جھوٹ بولنا بری بات ہے۔‘‘
اس نے سکہ جیب میں رکھا اور اپنی فوجی ٹوپی سر سے اتار دی، لیکن پھر دوبارہ سر پر رکھ لی اور خیمے سے کچھ دور چلا گیا، مگر پھر واپس آیا اور ایک نظر پرچے پر ڈالی۔ وہ اس حیرت انگیز تحریر پر غور کررہا تھا۔
’’لیکن مجھے پتہ ہونا چاہیے۔‘‘اس نے خود کلامی کی اور سکہ جیب سے نکال لیا۔’’میں حقیقت جاننا چاہتا ہوں۔ میں یہ کروں گا، لیکن میں جھوٹ نہیں بولوں گا اور اس طرح کچھ تو معزز رہوں گا۔‘‘پیٹر نے ان الفاظ کے ساتھ خیمے میں قدم رکھا اور کاہنہ کے ہاتھ پر ایک فلورٹ رکھ دیا۔
کاہنہ نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔’’ایک سکے میں آپ کو ایک جواب ملے گا۔ کیا آپ سمجھ گئے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ پیٹر نے کہا۔
وہ خیمے کی کھڑکی کے کھلے کینوس سے آنے والی روشنی کے چھوٹے سے ٹکڑے میں کھڑا تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ بڑھاکر کاہنہ کے ہاتھ میں دے دیا۔ موخر الذکر باریک بینی سے اس کا جائزہ لینے لگی۔ اس کی نظریں آگے پیچھے ہورہی تھیں۔ گویا پیٹر کی ہتھیلی پر باریک لفظوں میں زندگی کی پوری کتاب تحریر ہو۔ پھر کاہنہ نے اس کا ہاتھ چھوڑدیا۔ اس کے چہرے پر تکلیف دہ تاثر تھا:
’’ہمم…لیکن… تم ابھی بچے ہو۔‘‘
’’میں دس سال کا ہوں۔‘‘پیٹر نے کہا۔ پھر اپنے سر سے ہیٹ اتارا اور جتنا ہوسکتا تھا اتنا سیدھا اور تن کر کھڑا ہوگیا پھر بولا۔’’میں ایک بہادر اور سچا سپاہی بننے کی تربیت لے رہا ہوں، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میری عمر کتنی ہے۔ آپ نے فلورٹ لیا ہے، لہٰذا آپ مجھے جواب دیں۔‘‘
’’ایک بہادر اور سچا سپاہی؟‘‘کاہنہ نے کہا۔ وہ ہنسی اور زمین پر تھوک دیا۔ ’’ٹھیک ہے بہادر اور سچے سپاہی، اگر آپ کہتے ہیں تو ایسا ہے ہوگا۔ اپنا سوال پوچھئے۔‘‘
پیٹر کو خوف کی لہر محسوس ہوئی۔ اتنے عرصے کے بعد اگر وہ سچائی برداشت نہ کرسکا تو؟
’’پوچھو! کیا پوچھنا ہے؟‘‘کاہنہ نے کہا۔
’’میرے والدین؟‘‘پیٹر نے کہا۔
’’یہ تمھارا سوال ہے؟ وہ مرچکے ہیں۔‘‘کاہنہ نے کہا۔
پیٹر کے ہاتھ کپکپانے لگے۔’’یہ میرا سوال نہیں ہے۔ یہ میں پہلے سے جانتا ہوں۔ آپ کو مجھے وہ بتانا ہے جو میں نہیں جانتا۔‘‘
کاہنہ نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا اور بولی: ’’آہ… تمھاری بہن؟یہ تمھارا سوال ہے، ٹھیک ہے وہ زندہ ہے۔‘‘
’’وہ زندہ ہے۔ وہ زندہ ہے۔‘‘ان الفاظ نے پیٹر کے دل کو گرفت میں لے لیا۔
’’نہیں، میرا سوال یہ ہے کہ وہ کہاں ہے؟‘‘پیٹر نے آنکھیں بند کرلیں اور انتظار کرنے لگا۔
’’ہاتھی!‘‘کاہنہ بولی۔
’’کیا؟؟‘‘پیٹر نے آنکھیں کھولیں ،وہ کچھ نہیں سمجھا تھا۔
’’تمھیں ہاتھی کو ڈھونڈنا ہوگا۔ وہ تمھاری رہنمائی کرے گا۔‘‘کاہنہ نے کہا۔
پیٹر کا تیزی سے دھڑکتا دل اب ڈوبنے لگا تھا۔ اس نے اپنی ٹوپی سر پر جمائی اور بولا۔’’آپ مجھ سے مذاق کر رہی ہیں۔ ہمارے شہر میں کوئی ہاتھی نہیں ہے۔‘‘
’’یہ سچ ہے، لیکن حقیقت ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی۔ وہ بدل بھی جاتی ہے۔ تھوڑا انتظار کرو۔ تم دیکھ لو گے۔‘‘
پیٹر قدم اٹھاتا خیمے سے باہر نکل گیا۔
آسمان گہرے سرمئی بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ پیٹر کے آس پاس لوگ باتیں اور ہنسی مذاق کر رہے تھے، پھیری والے آوازیں لگا رہے تھے اور بچے کھیل کود رہے تھے۔ چوک کے درمیان ایک فقیر اپنے کالے اندھے کتے کے ساتھ کھڑا تاریکی کے بارے میں گانا گا رہا تھا۔ وہاں کوئی ہاتھی نظر نہیں آرہا تھا۔
پیٹر کے بے چین دل کو سکون نہیں مل رہا تھا۔ وہ بار بار یہ جملہ دہرا رہا تھا۔’’وہ زندہ ہے۔ وہ زندہ ہے۔‘‘
کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ نہیں، کیوں کہ اس کا مطلب ہوگا کہ ولنا لٹز نے جھوٹ بولا تھا اور ایک سپاہی، ایک اعلیٰ افسر کے لیے جھوٹ بولنا اچھی بات نہیں ہے۔ وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ پیٹر سوچ میں گم تھا۔
’’یہ موسم سرما ہے۔‘‘فقیر نے گایا۔’’یہ سرد اور تاریک ہے اور چیزیں ویسی نہیں جیسی نظر آتی ہیں اور حقیقت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔‘‘
’’میں نہیں جانتا سچ کیا ہے۔‘‘پیٹر بڑبڑایا۔’’لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔ میں ولنا لٹز کو سچائی بتاؤں گا کہ میں کیا کر کے آیا ہوں۔‘‘
اس نے اپنے کندھے سیدھے کیے، ٹوپی کو سر پر جمایا اور پالونیا اپارٹمنٹس کی طرف واپس چل دیا۔
اس اثناء میں لمبے راستے پر چلتے ہوئے سردیوں کی دوپہر شام میں ڈھل گئی اور سرمئی روشنی نے اداسی کو راستہ بخشا۔ پیٹر کے دماغ میں خیالات گردش کر رہے تھے۔ کاہنہ جھوٹ بول رہی ہے…نہیں ولنا لٹز جھوٹ بول رہا ہے… نہیں کاہنہ جھوٹ بول رہی ہے…نہیں ولنالٹز…اس طرح سارا راستہ کٹا۔
جب وہ پولونیا اپارٹمنٹس پہنچا اور آہستہ آہستہ ایک ایک قدم اٹھاتا اٹاری کی سیڑھیاں چڑھنے لگا تو ہر قدم پر اس کا دل پکار رہا تھا۔ وہ زندہ ہے، وہ زندہ ہے۔
بوڑھا سپاہی کھڑکی کے پاس کرسی پر بیٹھا اس کا انتظار کررہا تھا۔ اس کی گود میں جنگ کا نقشہ پڑا تھا۔ کمرے میں ایک شمع جل رہی تھی اور پیچھے سپاہی کا لمبا سایہ دیوار پر کانپ رہا تھا۔
’’تمھیں دیر ہوگئی ہے ڈوچین! اور تم خالی ہاتھ آئے ہو؟‘‘وہ بولا۔
پیٹر نے اپنی ٹوپی اتاری اور بولا۔’’جناب! میں نہ مچھلی لاسکا نہ روٹی۔ میں نے وہ رقم کاہنہ کو دے دی ہے۔‘‘
’’کاہنہ؟‘‘بوڑھے نے کہا۔’’ایک قسمت بتانے والی!‘‘ اس نے اپنا الٹا پاؤں جو لکڑی کا تھا فرش پر مارا۔ٹک ٹک ٹک…آواز آئی۔ ’’میں انتظار کر رہا ہوں۔ ڈوچین! میں تمھاری وضاحت کا منتظر ہوں۔‘‘اس نے کہا۔
پیٹر نے کہا۔’’جناب…مجھے کچھ شبہ تھا۔ میں اپنا شبہ دور کرنا چاہتا تھا۔‘‘
’’شبہ…کیسا شبہ؟ اس کی وضاحت کرو۔‘‘
’’جا…جناب میں اس کی وضاحت نہیں کرسکتا۔ میں نے تمام راستے سوچا ہے، لیکن کوئی وضاحت سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘
’’ٹھیک ہے پھر مجھے اجازت دو میں وضاحت کرتا ہوں۔ تم وہ سکہ جو تمھارا نہیں تھا، بیوقوفی سے کہیں اور خرچ کرچکے ہو۔ یہ غلط بات ہے۔ تمھیں سزا ملے گی۔ تمھیں آج رات کھانا نہیں ملے گا۔‘‘
’’جناب…ہاں جناب۔‘‘پیٹر نے ہکلا کر کہا اور اپنی ٹوپی ہاتھ میں لیے سامنے کھڑا رہا۔
’’تم اس متعلق کچھ کہنا چاہتے ہو؟‘‘
’’نہیں… ہاں‘‘
’’کیا؟ ہاں یا نہ؟؟‘‘
’’جناب، کیا آپ نے کبھی جھوٹ بولا ہے؟‘‘
’’میں نے؟‘‘
’’ہاں، جناب آپ نے۔‘‘
ولنا لٹز کرسی پر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر اپنی داڑھی پر پھیرا اور بالوں کو سنوارنے لگا پھر بولا۔’’تم نے وہ پیسے خرچ کردیے جو تمھارے نہیں تھے۔ تم نے غیر کی رقم میں خیانت کی۔ مجھے بتاؤ جھوٹا کون ہے؟‘‘
’’میں معذرت خواہ ہوں۔‘‘پیٹر نے کہا۔
’’تم کو برخاست کیا جاتا ہے۔‘‘ وہ بولا۔ پھر اس نے اپنے جنگی منصوبوں کو اٹھایا اور انھیں موم بتی کی روشنی میں پڑھنے لگا اور خود کلامی کی۔’’تو اور پھر…ایسا ہی ہونا چاہئے…تو ہاں۔‘‘
رات کو جب شمع بجھ چکی تھی، کمرہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور بوڑھا سپاہی خراٹے لے رہا تھا۔ پیٹر زمین پر بچھے گدے پر لیٹا چھت کو گھورتے ہوئے اپنے خیالات میں گم تھا۔ وہ جھوٹ بولتا ہے، وہ جھوٹ بولتی ہے، وہ جھوٹ بولتا ہے۔ وہ جھوٹ بولتی ہے۔ کوئی ایک جھوٹ بولتا ہے، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون ہے۔ اگر وہ زندہ ہے، ہاتھی کی اس مضحکہ خیز بات کے ساتھ… تو میں ولنا لٹز کے مطابق بیوقوف ہوں… کوئی بیوقوف ہی اس پر یقین کرے گا کہ ایک ہاتھی ظاہر ہوگا اور میری بہن تک رہنمائی کرے گا، لیکن اگر وہ جھوٹا ہے تو میری بہن عدلی زندہ ہے۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔’’ہاں مجھے یقین ہے سپاہی جھوٹ بول رہا ہے۔‘‘اس نے زور سے تاریکی سے کہا۔
پولونیا اپارٹمنٹس سے کچھ دور کئی چھتوں کے پار سردیوں کی رات کے اندھیرے میں بلفینڈورف اوپیرا ہاؤس تھا۔ جہاں اس شام اسٹیج پر ایک بوڑھا جادوگر اپنی ناکام پیشہ ورانہ زندگی کو سہارا دینے کے لیے سب سے حیران کن جادو دکھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
جادوگر کا ارادہ تھا کہ وہ پھولوں کا گلدستہ ظہور میں لائے گا، لیکن اس کے بجائے ایک ہاتھی سامنے آیا۔ وہ اوپیرا ہاؤس کی چھت توڑتا ہوا اینٹوں اور پلیستر کے ٹکڑوں اور دھول کی بارش کے ساتھ ایک معزز خاتون میڈم بیتین لاون کی گود میں جاگرا۔ جن کو جادوگر نے گلدستہ پیش کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ میڈم لاون کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں۔ لوگوں کو یقین تھا کہ وہ اپنے بڑھاپے تک اپنی زندگی کے اس خوفناک لمحے کو یاد رکھے گی اور جو بھی سننے پر تیار ہو اس سے پورا قصہ بیان کریں گی۔’’نہیں، تم سمجھ نہیں رہے،‘‘ وہ بار بار دہرائے گی۔ ایک ہاتھی نے میری ٹانگیں کچل دیں! وہ آسمان سے گرا تھا، چھت ٹوٹ گئی تھی اور میں زندگی بھر کے لیے معذور ہوگئی۔‘‘
جادوگر کی بات کی جائے تو اسے فوری طور پر میڈم لاون کے کہنے پر زنداں خانے میں قید کردیا گیا تھا اور ہاتھی کو گھوڑے کے اصطبل میں بند کردیا گیا تھا۔ اس کے بائیں ٹانگ کے گرد لوہے کی زنجیر لپٹی تھی جو زمین میں مضبوطی سے لگائی گئی لوہے کی سلاخ سے منسلک تھی۔ اسے چکر آرہے تھے۔ جب اس نے سر دائیں بائیں موڑا تو احساس ہوا کہ دنیا پریشان کن طریقے سے گھوم رہی ہے۔ لہٰذا اس نے پھر اپنا سر نہیں موڑا اور آنکھیں بند کرلیں۔ اسے چاروں طرف شور اور گرج دار آوازیں آرہی تھیں۔ ہاتھی نے ان کو نظرانداز کیا۔ اس کے لیے صرف ایک چیز اہم تھی کہ اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نہ نکلے۔ چند گھنٹوں بعد چکر آنا بند ہوگئے۔ ہاتھی نے آنکھیں کھولیں اور اپنے اردگرد نگاہ ڈالی اور اسے احساس ہوا کہ وہ کسی نئی جگہ پر ہے۔ وہ وہاں نہیں ہے۔ جہاں اسے ہونا چاہئے تھا۔

باب:2
جس رات ہاتھی وہاں آیا۔ اس کے اگلے دن پیٹر پھر بازار کے چوک پر کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک اور سکہ تھا، لیکن کاہنہ کا خیمہ وہاں سے جاچکا تھا۔ آج بوڑھے سپاہی نے بڑی لمبی چوڑی تفصیل کے ساتھ اسے سمجھایا تھا کہ اس سکے سے پیٹر کو ایک روٹی خریدنی ہے اور روٹی ایسی ہونی چاہیے جو کم سے کم ایک دن پہلے کی ہو، دو دن پرانی ہو تو اس کو ترجیح دینا، لیکن تین دن پرانی اگر مل جائے تو وہ سب سے بہترین ہوگی دراصل تم نے یہ دیکھنا ہے کہ کونسی روٹی سڑنا شروع ہوگئی ہے۔ اسے ڈھونڈنا ہے۔ سپاہی بننے کے لئے پرانی روٹی کھانا ایک بہترین مشق ہے۔ فوجیوں کو لازمی طور پر سخت روٹی کا عادی ہونا چاہیے جس کو چبانا مشکل ہو۔ یہ دانت مضبوط بناتی ہے اور مضبوط دانت، دل کو مضبوط بناتے ہیں جو ایک بہادر سپاہی کے لیے ضروری ہے۔ اتنی سخت روٹی، مضبوط دانت اور ایک مضبوط دل پیٹر کے لیے ایک معمہ تھا، لیکن جب صبح ولنا لٹز نے یہ بات کی تو واضح محسوس ہورہا تھا کہ وہ بخار کی لپیٹ میں ہے اور اپنے ہوش میں نہیں ہے۔ اس کے ماتھے پر پسینہ بہہ رہا تھا اور داڑھی نم تھی۔ وہ کہہ رہا تھا کہ تم کو دو چھوٹی مچھلیاں لانی ہیں۔ ہاں یاد رکھنا مچھلیاں بڑی نہ ہوں۔ سب سے چھوٹی مچھلیاں لے کر آنا، لیکن ایسا نہ ہو کہ تم خالی ہاتھ آؤ اور تمھارے لبوں پر کاہنہ سے ملاقات کا جھوٹا بہانہ ہو۔ میں بہتر ہو رہا ہوں، سمجھے ڈوچین! تم کو لازمی طور پر سب سے چھوٹی مچھلی ملنی چاہیے۔
لہٰذا پیٹر بازار کے چوک میں مچھلی فروش کی قطار میں کھڑا تھا۔ اس کے دماغ میں مختلف خیالات گردش کر رہے تھے۔ وہ کاہنہ، اپنی بہن، ہاتھی، بخار اور چھوٹی مچھلیوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس نے جھوٹ کے بارے میں بھی سوچا کہ کس نے جھوٹ بولا اور کس نے نہیں؟ دماغ میں ان سارے خیالات کی وجہ سے وہ صرف آدھی کہانی سن سکا جو مچھلی فروش قطار میں آگے والی عورت کو سنا رہا تھا۔
’’وہ زیادہ بڑا جادوگر نہیں تھا اور اس سے کسی بڑے شعبدے کی توقع بھی نہیں تھی۔‘‘مچھلی فروش نے ایپرن پر ہاتھ پونچھتے ہوئے کہا۔’’اس نے حاضرین سے کوئی خاص چیز کا وعدہ بھی نہیں کیا تھا اور لوگ اس کی توقع بھی نہیں کر رہے تھے۔‘‘
عورت نے کہا۔’’آج کل کسی خاص چیز کی توقع رکھنا بیکار ہے۔ میں خاص چیزوں کی توقع کرتے کرتے تھک چکی ہوں۔‘‘ پھر اس نے ایک بڑی مچھلی کی طرف اشارہ کیا۔’’مجھے ان میں سے ایک ماکریل کیوں نہیں دیتے؟‘‘
’’ماکریل یہ ہے۔‘‘مچھلی فروش نے ایک مچھلی کو ترازو پر پھینکتے ہوئے کہا۔
وہ ایک بہت بڑی مچھلی تھی۔ ولنا لٹز اسے کبھی قبول نہیں کرتا۔ پیٹر نے مچھلی فروش کے اسٹال کا جائزہ لیا۔ اس کا پیٹ خالی تھا۔ وہ بھوکا اور پریشان تھا اور بوڑھے سپاہی کو خوش کرنے کے لیے ابھی تک کوئی چھوٹی مچھلی نظر نہیں آئی تھی۔
خاتون نے کہا۔’’مجھے تین کیٹ فش بھی دو۔ لمبی مونچھوں والی۔ میں ان کا ذائقہ چکھنا چاہتی ہوں۔‘‘
مچھلی فروش نے ترازو میں تین کیٹ فش ڈال دیں اور مزید کہا۔’’بہرحال، وہ سب بیٹھے ہوئے تھے، معزز خواتین، شہزادے اور شہزادیاں، سب مل کر اوپیرا ہاؤس میں تفریح کررہے تھے۔‘‘
پیٹر نے گھبرا کر اپنا وزن ایک پاؤں سے دوسرے پاؤں پر منتقل کیا۔ وہ پریشان تھا کہ اگر چھوٹی مچھلی نہیں ملی تو کیا ہوگا؟ ولنا لٹز کیا کہے گا؟ جو بار بار چڑھتے عجیب بخار میں مبتلا ہے۔
’’دراصل، وہ بالکل بھی ایک ہاتھی کی توقع نہیں کر رہے تھے۔‘‘ مچھلی فروش نے بات جاری رکھی۔
’’ہاتھی!!‘‘عورت چلائی۔
’’ہاتھی؟؟؟‘‘پیٹر نے کہا۔ دوسرے کے منہ سے یہ لفظ سن کر اسے ایڑی سے چوٹی تک ایک جھٹکا محسوس ہوا تھا۔ وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔
’’ہاں ایک ہاتھی! اوپیرا ہاؤس کی چھت سے سیدھا نیچے آیا اور میڈم لاون نامی ایک رئیس خاتون کے سر پر جاگرا۔‘‘مچھلی فروش نے کہا۔
’’ہاتھی آگیا؟‘‘پیٹر نے سرگوشی کی۔
خاتون نے کہا۔’’ہاہاہا…یہ نہیں ہوسکتا۔‘‘
’’ایسا ہی ہوا تھا۔‘‘مچھلی فروش نے کہا۔’’اس نے عورت کی ٹانگیں توڑ دیں تھیں۔‘‘
’’کیا مذاق ہے؟ میری دوست مارسل، میڈم لاون کے کپڑے دھوتی ہے۔ پھر اتنی بڑی خبر مجھ تک کیوں نہیں پہنچی؟‘‘
’’معاف کیجیے گا، کیا آپ نے ہاتھی کہا؟؟ آپ سچ کہہ رہے ہیں؟‘‘پیٹر نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں، میں نے ہاتھی کہا ہے اور وہ چھت سے گرا تھا؟‘‘مچھلی فروش نے کہا۔
’’اب وہ ہاتھی کہاں ہے؟‘‘پیٹر نے پوچھا۔
’’پولیس اسے لے گئی تھی۔‘‘مچھلی فروش نے کہا۔
’’اچھا، قانون نافذ کرنے والے۔‘‘پیٹر نے کہا۔ پھر اس نے اپنی ٹوپی اتاری، پھر پہنی اور پھر دوبارہ اتارلی۔ پھر بڑبڑایا۔’’یہ بالکل ایسا ہی ہے۔ جیسا کاہنہ نے کہا تھا۔ ہاتھی آگیا ہے۔‘‘
’’کیا؟ کس نے کہا تھا؟‘‘مچھلی فروش نے پوچھا۔
’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاتھی آگیا ہے۔ یعنی وہ زندہ ہے۔‘‘پیٹر نے کہا۔
’’کون؟‘‘ مچھلی فروش نے پوچھا۔
پیٹر خاموش رہا۔
عورت نے کہا۔’’اچھا اس کا کیا بنا جس نے یہ سب شروع کیا تھا؟ یعنی جادوگر اب کہاں ہے؟‘‘
’’اس کو زنداں خانے کی سب سے تاریک اور خوفناک کوٹھری میں بند کر کے چابی کہیں پھینک دی گئی ہے۔‘‘ مچھلی فروش بولا۔
جس کوٹھری میں جادوگر قید تھا۔ وہ بہت چھوٹی اور تاریک تھی۔ بہت اوپر ایک چھوٹا روشن دان تھا۔ رات کے اندھیرے میں جادوگر بھوسے پر لیٹا اپنی چادر اوڑھے روشن دان سے باہر تاریکی میں دیکھ رہا تھا۔ آسمان گہرے بادلوں سے تقریباً ڈھکا ہوا تھا، لیکن اگر جادوگر کافی دیر تک گھورتا رہتا تو بادل ہٹ جاتے اور ایک انتہائی روشن ستارہ ظاہر ہوتا۔
جادوگر نے ستارے سے کہا۔’’میں نے صرف کنول کا گلدستہ لانے کی کوشش کی تھی۔ صرف کنول کا ایک گلدستہ۔‘‘
اس رات جادوگر نے جادو دکھاتے ہوئے کچھ الفاظ کو بدل دیا تھا جو اس نے اپنے استاد سے سیکھے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ الفاظ طاقتور ہیں اور حالات کو دیکھتے ہوئے کسی حد تک غلط بھی، لیکن وہ کچھ حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہتا تھا۔ جس کے بعد اوپیرا ہاؤس میں اچانک چیخ وپکار مچ گئی اور لوگ اس پر لعن طعن اور الزامات لگانے لگے، اس شور شرابے کے دوران جادوگر کے پاس ایک شاندار ہاتھی کھڑا تھا۔ جس کے پاس سے سوکھے سیبوں اور کھاد کی بو آرہی تھی۔ جادوگر نے اپنا ہاتھ اس کے سینے پر رکھا اور اس کے دھڑکتے دل کو محسوس کیا۔ پھر اسے خیال آیا۔ میں نے یہ کیا کردیا۔
رات کی اختتامی گھڑیوں میں شہر کی انتظامیہ کی طرف سے جس میں میئر، ڈیوک، ایک شہزادی اور پولیس چیف وغیرہ شامل تھے اس کو حکم دیا گیا کہ وہ ہاتھی کو واپس بھیج دے یعنی اسے غائب کردے تو جادوگر نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا اور منتر پڑھا، مگر کچھ نہیں ہوا، وہ بار بار منتر دہراتا رہا، لیکن کچھ نہیں ہوا۔ ہاتھی اپنے پورے وجود کے ساتھ مضبوطی سے قدم جمائے وہاں موجود رہا۔

باب:3
شہر بلتیس کا پولیس چیف ایک ایسا شخص تھا جو قانون پر پختہ یقین رکھتا تھا۔ تاہم پولیس کتابچے کے بار بار صفحے پلٹنے کے باوجود اسے ایک حرف، ایک لفظ، ایک سطر بھی ایسی نہیں ملی جو کسی جانور سے نمٹنے کے طریقہ کار سے متعلق ہو، جو نامعلوم جگہ سے ظاہر ہوا تھا اور جس نے اوپیرا کی چھت کو تباہ کر کے ایک معزز عورت کو اپاہج بنادیا تھا۔ آخر اس نے بڑی ہچکچاہٹ کے ساتھ اپنے ماتحتوں سے درخواست کی کہ وہ رائے دیں کہ ہاتھی کا کیا، کیا جائے؟
ایک نوجوان سارجنٹ نے کہا۔’’سر وہ خود نمودار ہوا ہے۔ اگر ہم صبر کریں گے تو خود ہی غائب ہوجائے۔‘‘
’’کیا وہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ خود غائب ہو جائے؟‘‘پولیس چیف نے پوچھا۔
نوجوان سارجنٹ نے کہا۔’’سر میرا خیال ہے کہ میں آپ کے سوال کو سمجھ نہیں پایا۔‘‘
’’میں آپ کی ناسمجھی سے بخوبی واقف ہوں۔‘‘ چیف نے کہا۔’’آپ میں عقل کا فقدان ہاتھی کی طرح عیاں ہے۔‘‘
سارجنٹ نے کہا۔’’ہاں جناب۔‘‘اس کی پیشانی پر سلوٹیں نظر آئیں پھر اس نے ایک لمحہ کے لیے سوچا اور بولا۔’’شکریہ جناب مجھے یقین ہے۔‘‘
اس گفتگو کے تبادلے کے بعد وہاں طویل اور تکلیف دہ خاموشی چھاگئی۔
پھر ایک پولیس اہلکار بولا۔’’یہ بہت آسان ہے۔ ہاتھی مجرم ہے، لہٰذا مجرم کی حیثیت سے اس پر مقدمہ چلنا چاہیے اور سزا دی جانی چاہیے۔‘‘
’’لیکن ہاتھی مجرم کیوں ہے؟‘‘ایک چھوٹے پولیس اہلکار نے پوچھا۔ جس کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں۔
’’ہاتھی مجرم کیوں نہیں ہے؟‘‘ پولیس چیف نے اسے غصیلی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
چھوٹا پولیس اہلکار جس کا نام لیو میٹین تھا۔ وہ بولا۔’’اس لیے جناب کہ جادوگر اگر کسی کھڑکی پر پتھر پھینکے تو کیا ہم شیشہ ٹوٹنے پر اس پتھر کو مورد الزام ٹھہرائیں گے؟‘‘
’’کیا جادوگر پتھر بھی پھینکتا ہے؟‘‘پولیس چیف نے حیرت سے کہا۔
لیومیٹین نے کہا۔’’جناب آپ غلط سمجھے۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ ہاتھی نے چھت توڑی اور عورت کو معذور کیا۔ لیکن ہاتھی قصوروار نہیں۔ وہ ایک ذہین جانور ہے، وہ عموماً احمقانہ کام نہیں کرتے۔ اس کا یہ فعل غیر ارادی ہے۔ وہ کوئی مجرم نہیں ہے۔‘‘
’’میں تم سے اس مسئلے کا حل پوچھ رہا ہوں۔ اب ہم اس ہاتھی کا کیا کریں؟‘‘
’’جی جناب میں اسی متعلق بات کررہا ہوں۔‘‘
پولیس چیف نے دونوں ہاتھوں سے اپنے بال نوچتے ہوئے کہا۔ ’’مگر تم ہاتھی کی تعریف میں قلابے ملا رہے ہو؟‘‘
’’سر میرا خیال ہے کہ یہ اسی متعلق ہے۔‘‘
چیف نے پھر سے اپنے بالوں کو کھینچا۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔
’’جناب، ہمیں اس ہاتھی کے لیے کوئی گھر تلاش کرنا چاہیے؟‘‘ایک اور پولیس والے نے کہا۔
’’کیا تلاش کرنا ہے؟ گھر؟‘‘چیف دھیرے سے اس کی طرف متوجہ ہوا۔’’اوہ… مجھے کیوں یہ عظیم الشان خیال نہیں آیا؟ ہمارے پاس ہر گلی کے کونے پر ہاتھیوں کے لیے گھر موجود ہیں۔ اسے فوری طور پر ہاتھیوں کے بحالی گھر بھیج دوں۔‘‘
’’یہ سچ ہے جناب، لیکن ایسے فلاحی ادارے کہاں ہیں؟‘‘ پولیس والے نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’ارے ہمارے روشن خیال دور میں اتنے فلاحی ادارے کھولے گئے ہیں، جنہیں آپ یاد بھی نہیں رکھ سکتے۔‘‘پولیس چیف نے طنزیہ لہجے میں بولتے ہوئے زور سے اپنے بال نوچے پھر مزید کہا۔’’تم سب بے وقوف ہو۔ مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ میں اس مسئلے کو کسی کی مدد کے بغیر حل کرلوں گا۔‘‘
ایک ایک کر کے سب پولیس اہلکار اسٹیشن سے چلے گئے۔
لیومیٹین سب سے آخر میں گیا۔ اس نے اپنا ہیٹ اٹھایا اور بولا۔’’سر میری خواہش ہے کہ آپ کی شام اچھی گزرے اور میں التجا کرتا ہوں کہ آپ اس خیال پر غور کریں کہ ہاتھی قصوروار نہیں ہے۔‘‘
’’براہ مہربانی مجھے اکیلا چھوڑ دو۔‘‘
’’شام بخیر سر!‘‘
پولیس اہلکار لیو میٹین شام کی اداسی میں گھر کی طرف چلا جارہا تھا۔ چلتے چلتے اس نے سیٹی پر ایک اداس گانے کی دھن بجائی اور ہاتھی کے مستقبل پر غور کیا۔ کیا ہوگا اگر وہ ہاتھیوں کے سلسلے کا پہلا ہاتھی ہوا؟ کیا ہوگا، اگر ایک ایک کرکے افریقہ کے تمام ہاتھیوں کو پورے یورپ کے اوپیرا گھروں کے اسٹیجوں پر طلب کیا جائے؟ اگر اگلے مرحلے میں مگرمچھ، زرافے اور گینڈے چھتوں سے گریں۔ تو کیا ہوگا؟ لیو میٹین کے اندر ایک شاعر کی روح تھی اسی لیے وہ اُن سوالات پر غور کرنا پسند کرتا تھا جن کے جوابات نہیں ہوتے تھے۔ لیو پہاڑی کی چوٹی پر آیا اور رک گیا۔ اس کے نیچے سڑک کے کنارے قطار میں لگے قمقمے روشن کیے جارہے تھے۔ لیو کھڑے ہوکر انھیں دیکھنے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا، آخر ہاتھی کس وجہ سے بلتیس آیا ہے؟ اگر یہ آسماں سے پیغام ہے تو کیا ہے؟ اس کی آمد سے شہر پر کیا اثرات ہوں گے؟ وہ پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا کافی دیر انتظار کرتا رہا۔ یہاں تک کہ راستہ پوری طرح سے روشن ہوگیا۔ پھر وہ روشن راستے پر اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ اس نے چلتے ہوئے سیٹی بجائی اور ایک حیرت انگیز گانا گایا:
’’ کیا اگر؟
کیوں نہیں؟
یہ ہوسکتا ہے؟‘‘
پیٹر، پولونیا اپارٹمنٹس کی اٹاری کی کھڑکی میں کھڑا تھا۔ اس نے لیومیٹین کو دیکھنے سے پہلے اس کی آواز سنی۔ ہمیشہ یہی ہوتا تھا سیٹی پہلے سنائی دیتی اور لیو بعد میں نظر آتا تھا۔ وہ انتظار کرتا رہا آخر پولیس اہلکار ظاہر ہوا۔ اس نے کھڑکی کھول دی اور اپنا سر باہر نکال کر چلایا۔ ’’لیو میٹین! کیا یہ سچ ہے کہ ایک ہاتھی چھت توڑ کر آگرا ہے؟ اور پولیس کے پاس ہے؟‘‘
لیو رک گیا۔ اس نے اوپر دیکھا:
’’پیٹر…!‘‘وہ مسکراتے ہوئے بولا۔’’پیٹر آگسٹس ڈوچین! پولونیا اپارٹمنٹس کا ہمارا پڑوسی، اٹاری کی دنیا کا چھوٹا کویل۔ ہاں واقعی ایک ہاتھی آیا ہے۔ یہ سچ ہے اور وہ پولیس کی تحویل میں ہے۔‘‘
’’وہ کس جگہ پر ہے؟‘‘
’’میں نہیں بتاسکتاکیوں کہ ہاتھی کے خطرناک مجرم ہونے کی وجہ سے اسے راز میں رکھا جارہا ہے۔‘‘
’’کھڑکی بند کردو! بہت سردی ہے۔‘‘ولنا لٹز نے بستر پر سے آواز لگائی۔
واقعی بہت سردی تھی، لیکن گرمیوں کے موسم میں بھی ولنا لٹز جب وہ اپنے عجیب و غریب بخار کی لپیٹ میں ہوتا تو سردی کی شکایت کرتا اور مطالبہ کرتا تھا کہ کھڑکی بند رکھی جائے۔
’’آپ کا شکریہ!‘‘پیٹر نے کہا اور کھڑکی بند کر کے بوڑھے سپاہی کے پاس آیا۔
’’تم کس سے باتیں کر رہے تھے؟ کھڑکی سے چیخ کر بات کرنا غیر اخلاقی طریقہ ہے؟‘‘سپاہی نے پوچھا۔
’’جناب! لیو میٹین کا کہنا ہے کہ ایک ہاتھی شہر میں آیا ہے۔‘‘ پیٹر نے جواب دیا۔
’’ہاتھی! اونہہ…خیالی درندہ۔‘‘ ولنا لٹز نے کہا اور تھک کر تکیہ پر پیچھے جھک گیا۔ پھر اچانک سیدھا ہوا اور بولا۔’’سنو! کیا تمھیں بندوق کی کڑک اور توپوں کی گرج سنائی دے رہی ہے؟‘‘
’’نہیں جناب۔‘‘ پیٹر نے کہا۔
’’شیطان، ہاتھی، خیالی درندہ۔‘‘
’’خیالی نہیں بالکل اصلی ہاتھی۔ یہ سچ ہے۔ لیو میٹین پولیس افسر کا بھی یہی کہنا ہے۔‘‘
’’اونہہ!‘‘میں قانون کے اس مونچھوں والے افسر اور اس کی تخیل شدہ مخلوق پر لعنت بھیجتا ہوں۔‘‘ بوڑھا سپاہی بولا۔
وہ تکیے پر پیچھے ہوکر لیٹ گیا اور اپنا سر پہلے ایک طرف، پھر دوسری طرف کیا اور بولا۔ ’’میں سن رہا ہوں۔ میں جنگ کی آوازیں سن رہا ہوں۔ لڑائی شروع ہوگئی ہے۔‘‘
’’ہاتھی آگیا ہے۔ کاہنہ ٹھیک کہتی تھی۔ میری بہن زندہ ہے۔‘‘پیٹر دھیرے سے بولا۔
’’آپ کی بہن؟ آپ کی بہن فوت ہوچکی ہے۔ میں آپ کو کتنی بار بتاؤں؟ اس نے پیدائش کے بعد سانس نہیں لیا تھا۔ وہ سب مرچکے ہیں۔ کھیت پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ وہ سب مرچکے ہیں۔ ان میں آپ کے باپ بھی ہیں۔‘‘
’’میں سمجھ رہا ہوں۔‘‘پیٹر نے کہا۔
’’میرا پیر کہاں ہے؟‘‘ولنا لٹز نے کہا اور کمرے میں چاروں طرف دیکھا۔
’’پلنگ پر۔‘‘پیٹر نے کہا۔
اس نے پاؤں اٹھایا۔’’یہ میرا پرانا دوست ہے۔‘‘ اس نے لکڑی کے پاؤں کو پیار سے تھپتھپایا اور سر تکیے پر رکھ کر کمبل کو اپنی ٹھوڑی کے نیچے تک کھینچ لیا۔ پھر بولا۔’’ڈوچین! جلد ہی میں ٹھیک ہوجاؤں گا۔ پھر تم اور میں پینترے بازی کی مشق کریں گے۔ میں تم کو ایک عظیم سپاہی بناؤں گا۔ تم اپنے باپ جیسے بہادر اور سچے سپاہی بنو گے۔‘‘
پیٹر، ولنا لٹز کے پاس سے ہٹ گیا اور کھڑکی میں آکر اندھیرے میں ڈوبی دنیا کو دیکھنے لگا، نیچے کسی دروازے کے کھلنے کی آواز آئی ۔ پھر کسی کی ہنسی سنائی دی۔ اسے معلوم تھا کہ لیومیٹین کا ان کی اہلیہ گھر کے دروازے پر استقبال کررہی ہے۔ پیٹر نے سوچا۔ یہ کیسے ہوتا ہے جب کوئی جانتا ہو کہ آپ گھر لوٹیں گے اور آپ کا کھلے دل سے استقبال کیا جائے گا؟
اسے ایک شام یاد آئی۔ جب وہ ایک باغ میں تھے۔ آسمان کا رنگ جامنی ہورہا تھا اور لیمپ جلا لیے گئے تھے۔ پیٹر بہت چھوٹا تھا۔ اس کے والد نے اسے اٹھایا اور اوپر اچھالا، پھر پھرتی سے پکڑ لیا۔ وہ بار بار ایسا کرنے لگے۔ پیٹر کی والدہ بھی وہاں تھیں۔ انھوں نے سفید لباس پہن رکھا تھا۔ جو ارغوانی رنگ کی شام میں چمک رہا تھا۔
’’اسے گرا مت دینا۔‘‘وہ ہنس کر بولی تھیں۔
’’میں ایسا نہیں کروں گا، کیوں کہ یہ پیٹر آگسٹس ڈوچین ہے۔ یہ ہمیشہ میرے پاس واپس آتا ہے۔‘‘ والد نے کہا اور بار بار ہوا میں اچھالنے لگا۔ پیٹر ایک لمحے کے لیے خود کو بے ہوش ہوتے ہوئے محسوس کرتا۔ پھر وہ زمین کی مٹھاس اور اپنے والد کے منتظر گرم بازوؤں میں لوٹ آتا۔
’’دیکھو! کیا تم دیکھ رہی ہو؟ یہ ہمیشہ میرے پاس واپس آتا ہے۔‘‘انھوں نے پوچھا۔
پولونیا اپارٹمنٹس کے اٹاری والے کمرے میں اب پوری طرح اندھیرا تھا۔ بوڑھا سپاہی ایک طرف بستر میں پڑا تھا۔ اس نے آواز لگائی۔’’کھڑکی بند کردو۔ بہت سردی ہے۔‘‘
وہ باغ جس میں پیٹر کے والد اور والدہ رہتے تھے بہت دور دکھائی دیتا تھا۔ اسے لگ بھگ یقین تھا کہ یہ باغ کسی دوسری دنیا میں ہے، لیکن اگر کاہنہ پر یقین کیا جائے، اور اسے یقین کرنا چاہیے، تو ہاتھی اس باغ کا راستہ جانتا ہے۔ وہ اسے وہاں لے جاسکتا تھا۔
’’براہ کرم کھڑکی بند کردو! بہت سردی ہے۔‘‘ولنا لٹز نے پھر کہا۔

باب:4
جس سال ہاتھی آسمان سے گرا۔ بلتیس شہر کا موسم بہت خراب تھا۔ آسمان پر گہرے بادل چھائے رہتے اور سورج ہمیشہ غائب رہتا تھا۔ سخت سردی تھی اور ہر طرف اداسی اور ناامیدی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ اوپیرا سانحہ کے بعد میڈم لاون کی زندگی بھی مایوسی کے اندھیرے میں ڈوب گئی تھی، لیکن پھر وہ روزانہ جادوگر کے پاس زندان خانے جانے لگیں۔
میڈم لاون عموماً دوپہر کے اختتام پر وہاں پہنچتیں۔ ایک خادم جیل کی لمبی راہداری میں ان کی وہیل چیئر لے کر آتا۔ پہلی دفعہ جادوگر نے جب وہیل چیئر دھکیلنے کی آواز سنی تو وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ جب معزز خاتون کوٹھری کے سامنے آئیں تو ان کی آنکھوں میں حیرت اور تکلیف نمایاں تھی اور ان کی ٹانگوں پر کمبل پڑا ہوا تھا۔ جادوگر نے انتہائی احترام کے ساتھ ان کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا۔
میڈم لاون بولیں۔’’نہیں، تم سمجھ نہیں رہے، میری ٹانگیں ایک ہاتھی نے کچل دی تھیں۔ ایک ہاتھی آسمان سے گرا، چھت سے ٹکرایا، اور میں عمر بھر کے لیے معذور ہوگئی۔‘‘
جادوگر نے کہا۔’’میڈم لاون! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں۔ میں آپ کو کنول کا گلدستہ پیش کرنا چاہتا تھا۔‘‘
پھر یہ ہی ہونے لگا۔ ہر دوپہر میڈم اور جادوگر جیل کے اداس ماحول میں ایک دوسرے کا سامنا کرتے اور یہ روح پرور گفتگو دہرائی جاتی تھی۔ جیسے وہ پہلی بار یہ الفاظ ایک دوسرے سے کہہ رہے ہوں۔
معزز خاتون کے خادم کا نام ہنس اک مین تھا۔ وہ بچپن ہی سے میڈم لاون کی خدمت پر مامور تھا۔ وہ ان کا مشیر اور قابل بھروسہ آدمی تھا۔ میڈم لاون کی خدمت میں آنے سے پہلے ہنس اک مین ایک چھوٹے پہاڑی قصبے میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتا تھا، بھائی، والدہ، والد اور ایک کتا۔ جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ دریا کے پار چھلانگ لگا سکتا ہے۔ دریا قریبی جنگل سے گزرتا تھا۔ ہنس اک مین اور اس کے بھائیوں کے لیے دریا بہت چوڑا تھا۔ یہاں تک کہ ایک بڑے آدمی کے لیے بھی وہ بہت وسیع تھا، لیکن کتا دوڑتا ہوا آتا اور چھلانگ لگا کر آسانی سے پانی کے پار چلا جاتا۔ وہ چھوٹی نسل کا سفید رنگ کا کتا تھا اور لمبی چھلانگ لگانے کے سوا اس میں کوئی دوسری خوبی نہیں تھی۔ ہنس اک مین کی عمر بڑھی تو وہ کتے کے بارے میں بھول گیا۔ اس کی معجزاتی قابلیت اس کے دماغ سے نکل گئی تھی، لیکن جس رات ہاتھی گرا۔ اسے کتا بار بار یاد آرہا تھا۔ جیل میں کھڑے ہوکر میڈم لاون اور جادوگر کے مابین نہ ختم ہونے والے تبادلہ خیال کو سنتے ہوئے ہنس اک مین نے اپنے لڑکپن کے بارے میں سوچا۔ جب وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ دریا کے کنارے کتے کو بھاگتا ہوا دیکھتا تھا۔ وہ جیسے ہوا میں اڑ رہا ہوتا۔ اسے یاد آیا کہ وہ کس طرح چھلانگ کے درمیان خوش ہوکر اپنے جسم کو معمولی سا موڑتا تاکہ یہ ظاہر کرے کہ یہ ناممکن چیز اس کے لیے کتنی آسان ہے۔ ہنس اک مین نے آنکھیں بند کیں اور اسے دریا پر معلق کتے کی یاد آگئی، اس کا سفید جسم سورج کی روشنی میں چمک رہا تھا، لیکن کتے کا نام اسے یاد نہیں آیا۔ وہ مرچکا تھا اور اس کا نام بھی اس کے ساتھ ختم ہوگیا تھا۔ زندگی کتنی مختصر ہے۔ بہت ساری خوب صورت چیزیں زندگی سے نکل گئی تھیں۔ مثال کے طور پر اب وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے بھائی کہاں ہیں؟
میڈم لاون نے کہا۔’’وہ میرے اوپر آگرا۔ ایک ہاتھی نے مجھے کچل دیا۔‘‘
جادوگر نے کہا۔’’میں نے صرف کنول کا گلدستہ لانے کی کوشش کی تھی۔‘‘
’’براہ کرم آپ جو کہنا چاہتے ہیں جلدی کہہ دیں۔ وقت بہت کم ہے۔ آپ کو ضروری باتیں کرنی چاہیے۔‘‘ہنس اک مین نے کہا۔
جادوگر اور رئیس خاتون ایک لمحہ کے لیے خاموش ہوگئے۔
پھر میڈم لاون نے منہ کھولا اور کہا۔’’لیکن شاید تم سمجھتے نہیں ہو۔‘‘
جادوگر نے کہا۔’’میں نے صرف گلدستہ لانے کی کوشش کی تھی۔‘‘
’’بس اتنا کافی ہے۔‘‘ہنس اک مین نے کہا اور وہیل چیئر کا رخ موڑ لیا۔ پھر اسے چلاتا ہوا لمبی راہداری میں لے گیا۔ آخر جیل سے نکل کر سردی اور اندھیرے میں غائب ہوگیا۔
پیٹر، اپنے اٹاری والے کمرے کی کھڑکی سے جیل کے برج دیکھ سکتا تھا۔ اس نے دیکھا شہر کے سب سے بڑے گرجا گھر کے جھکے ہوئے منقش پرنالے چھجوں پر چمک رہے ہیں۔ اس نے بہت دور پہاڑی کی طرف دیکھا تو وہاں بزرگوں کے عظیم الشان گھر دکھائی دیے۔ اس کے نیچے ٹیڑھی میڑھی پتھر کے فرش کی گلیاں تھیں۔ وہاں چھوٹی چھوٹی دکانیں بھی تھیں، جن کی چھتیں ڈھلوان تھیں۔ ان پر ہمیشہ کبوتر بیٹھے رہتے تھے۔ اسے خیال آیا، وہ شاید ان چھتوں میں سے کسی کے نیچے چھپی ہوگی؟ شاید کسی تاریک گلی میں رہ رہی ہوگی؟ جس کی اسے تلاش تھی۔
اگرچہ تمام مشکلات کے باوجود شہر میں معجزانہ طور پر ہاتھی ظاہر ہوگیا تھا، لیکن فوراً غائب بھی ہوگیا تھا۔ اب پیٹر کو اس کی ضرورت تھی، لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اسے کیسے تلاش کرے؟ صبح سے شام تک شہر کی چھتوں کو گھورتے ہوئے پیٹر نے فیصلہ کیا کہ امید رکھنا اتنا آسان نہیں ہے۔ بلکہ ایک خوفناک اور روح کو تھکا دینے والی مشق ہے اور مایوسی میں مبتلا ہونا بہت آسان ہے۔
’’کھڑکی سے ہٹ جاؤ!‘‘ ولنا لٹز نے آواز لگائی۔
پیٹر یوں ہی خاموش کھڑا رہا۔ اسے احساس ہوا کہ ولنالٹز کا سامنا کرنا مشکل ہوگا۔
’’ڈوچین!‘‘ ولنا لٹز نے کہا۔
’’جناب!‘‘پیٹر نے مڑے بغیر کہا۔
’’ڈوچین! اچھائی اور برائی کے مابین جنگ جاری ہے۔ آپ کس طرف سے لڑیں گے؟‘‘ ولنا لٹز نے پوچھا۔
پیٹر نے مڑ کر بوڑھے کی طرف دیکھا۔
’’یہ کیا؟ تم رو رہے ہو؟‘‘
’’نہیں، میں نہیں رورہا۔‘‘پیٹر نے کہا۔ لیکن جب اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو اسے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس کے رخسار نم تھے۔
’’یہ اچھی بات نہیں ہے۔ سپاہی نہیں روتے، مجھے یہ برداشت نہیں کہ فوجی روئیں۔ جب ایک سپاہی روتا ہے تو کائنات میں کچھ غلط ہورہا ہوتا ہے۔ ڈوچین! کیا آپ کو بندوق چلنے کی آواز آرہی ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘پیٹر نے کہا۔
بوڑھے سپاہی نے کہا۔’’اوہ سردی بڑھ گئی ہے۔ ہمیں پینترے بازی کی مشق کرنی چاہیے؟ یا مارچ ہونا چاہیے؟ چلو مارچ شروع کرو!‘‘
پیٹر نے حرکت نہیں کی۔
’’ڈوچین! مارچ کرو! فوجوں کو حرکت میں رہنا چاہیے۔‘‘
پیٹر نے آہ بھری۔ اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا، لیکن اس نے حرکت کی۔ پہلے ایک پاؤں اٹھایا اور پھر دوسرا۔
’’تیز! مضبوطی سے! ایک مرد کی طرح! جیسے آپ کے والد کرتے تھے۔‘‘ولنا لٹز چلایا۔
شہر میں ہاتھی ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ پیٹر نے سوچا۔ مستقبل کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے، وہ سچ لگتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ مذاق ہے، ایک بڑا اور خوفناک مذاق ہے۔ میری بہن کا انتقال ہوچکا ہے۔ امید کی کوئی کرن نہیں۔ پیٹر جتنا مارچ کرتا رہا، اتنا مایوس ہوتا گیا۔ ہاتھی کی بات اسے مضحکہ خیز لگ رہی تھی۔

باب:5
جوں جوں وقت گزرتا رہا ،خبر پھیلتی رہی اور بلتیس شہر کے لوگوں کا ہاتھی دیکھنے کا اشتیاق بڑھتا رہا۔ بازاروں، چوکوں، ناچ گھروں، اصطبلوں اور گرجا گھروں میں ایسے جملے سنائی دیتے۔ ’’ہاتھی ہاں ہاتھی…جو چھت سے گر گیا…ہاتھی جو جادو سے آیا تھا…ہاتھی نے ایک رئیس خاتون کو معذور کردیا…‘‘
شہر کے نان بائیوں نے ایک نیا مزیدار بن متعارف کرایا۔ جس میں کریم بھری ہوئی تھی اور اوپر دار چینی اور پسی ہوئی شکر چھڑکی جاتی تھی۔ انھوں نے اسے ’’ہاتھی کا کان‘‘ کا نام دیا۔ لوگوں نے جوں ہی اس کے بارے میں سنا ،وہ اسے خریدنے لگے اور وہ انہیں بہت پسند آیا۔ گلیوں میں پھیری والے گراں قیمتوں پر پلاسٹر کے ان ٹکڑوں کو فروخت کر رہے تھے جو ہاتھی کی آمد پر اسٹیج پر گرے تھے۔ وہ چیخ رہے تھے۔ ’’معجزات…! عظیم ترین واقعہ کی یاد میں…! سانحہ کے خاموش گواہ…! خرید لیں خرید لیں…! آپ کو اس پر افسوس نہیں ہوگا۔‘‘
عوامی باغات میں ہونے والے کٹھ پتلی شو میں بھی ہاتھی نمایاں تھے جو اسٹیج پر گررہے ہوتے تھے اور دوسری کٹھ پتلیوں کو اپنے نیچے کچل رہے ہوتے، جنھیں دیکھ کر بچے خوشی سے ہنستے اور تالیاں بجاتے تھے۔ گرجا گھروں میں مبلغین پیغام الٰہی، تقدیر کے الٹ پھیر، گناہوں کا بدلہ اور جادوگر کی غیر ذمہ دارانہ چالوں اور اس پر ملنے والی خوفناک سزا کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ ہاتھی کے ڈرامائی اور غیر متوقع ظہور نے بلتیس شہر کے لوگوں کو بہت متاثر کیا تھا۔ جہاں تک شہر کے جوتشیوں کا تعلق ہے۔ وہ خاص طور پر مصروف تھے۔ وہ صبح سے شام تک کافی کے کپوں کو گھورتے رہتے یا شیشے کے پیالوں میں جھانکتے رہتے، انھوں نے ہزاروں ہاتھوں کی لکیریں پڑھیں، ستاروں کا مطالعہ کیا اور کھنکھارتے ہوئے پیش گوئی کی کہ ابھی اور معجزات ہونے والے ہیں۔ اگر ہاتھی بغیر کسی اطلاع کے آگرتا ہے تو یہ ایک نشانی ہے کہ کائنات میں کچھ بڑا ہوا ہے! ستارے پہلے ہی انوکھے واقعات کی توقع میں ایک قطار میں کھڑے ہیں۔ انتظار کرو اور بھروسہ رکھو۔
ایک دن کاؤنٹیس نے اپنے شوہر سے کہا۔’’ہاتھی کی آمد نے معاشرتی زندگی کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ سب اس کے بارے میں بات کررہے ہیں۔ یہ زمانہ جنگ کی طرح ہے، بلکہ اس سے بھی بدتر۔ جنگ میں کم از کم عمدہ لباس پہنے ہیرو تو نظر آتے ہیں جو دلچسپ گفتگو کرتے ہیں، لیکن یہاں کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ سوائے ایک بدبودار اور مکروہ جانور کے۔ مگر لوگوں کو اس کے سوا کچھ یاد نہیں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے بلکہ مجھے یقین ہے کہ اگر میں نے دوبارہ ہاتھی کا لفظ سنا تو میں پاگل ہوجاؤں گی۔‘‘
’’ہاتھی…‘‘کاؤنٹ بڑبڑایا۔
’’آپ نے کیا کہا؟‘‘کاؤنٹیس نے پوچھا اور مڑکر اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ کاؤنٹ نے کہا۔
’’آخر اس کا تدارک کیسے کیا جائے۔‘‘کاؤنٹیس نے پوچھا۔
کاؤنٹ نے گلا صاف کیا اور بولا۔’’میری پیاری! آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ واقعہ واقعی غیر معمولی تھا۔‘‘
’’میں یہ کیوں مانوں؟ اس میں کیا خاص بات ہے؟‘‘
کاؤنٹیس اس شام اوپیرا ہاؤس میں نہیں تھی۔ اس لیے وہ اس انوکھے واقعے کو دیکھنے سے محروم رہی تھی،جب کہ کاؤنٹ وہاں تھا۔ وہ اسٹیج کے اتنا قریب بیٹھا تھا کہ اس نے ہوا کا سخت دباؤ محسوس کیا تھا۔ جس نے ہاتھی کی شکل اختیار کرلی تھی۔
کاؤنٹیس نے کہا۔’’معاشرتی زندگی کو اعتدال پر لانے کے لیے کوئی راستہ ڈھونڈنا پڑے گا۔‘‘
کاؤنٹ نے آنکھیں بند کرلیں۔ ایک بار پھر اسے ہاتھی کی آمد یاد آرہی تھی۔ یہ سب ایک دم ہی ہوا، بلکہ آہستہ آہستہ بھی۔ وہ کبھی نہیں رویا تھا، لیکن اس رات وہ رویا، گویا ہاتھی نے اس سے بات کی اور کہا۔’’چیزیں جیسی نظر آتی ہیں وہ ویسی نہیں ہوتیں۔‘‘
’’میری پیاری! میرے پاس ایک تجویز ہے۔ آپ اس پر عمل کریں؟‘‘کاؤنٹ نے کہا۔
’’کیا؟‘‘
’’اگر لوگ ہاتھی کے سوا دوسری بات نہیں کررہے اور آپ معاشرتی زندگی کا مرکز یکساں کرنا چاہتی ہیں تو آپ کو بھی یہی کرنا ہوگا۔‘‘
’’آپ کا کیا مطلب ہے؟‘‘کاؤنٹیس نے پوچھا۔
’’میرا مطلب ہے کہ آپ ہاتھی کو یہاں لے آئیں۔‘‘
لہٰذا یہی ہوا۔ اگرچہ ان کا گھر کسی ہاتھی کے لیے مناسب نہیں تھاکیوں کہ ہاتھی کے اندر جانے کے لیے اتنا بڑا کوئی دروازہ نہیں تھا۔ لہٰذا کاؤنٹیس نے ایک درجن کاریگروں کی خدمات حاصل کیں۔ ان لوگوں نے چوبیس گھنٹے کام کیا اور دیوار توڑ دی اور ایک بہت بڑا، چمک دار رنگوں سے سجا ہوا دروازہ لگایا۔
ہاتھی کورات کے وقت پولیس چیف خود اپنی نگرانی میں وہاں لایا اور نئے تعمیر کردہ دروازے سے اندر لے گیا۔ اس نے معاملہ خیر اسلوبی سے ختم ہونے پر بے حد سکون محسوس کیا تھا، اس نے اپنی ٹوپی اتاری اور کاؤنٹیس کے سامنے جھکا اور رخصت ہوگیا۔ اس کے پیچھے دروازہ بند کر کے مقفل کردیا گیا تھا۔ اب ہاتھی کاؤنٹیس کی ملکیت بن گیا تھا، جس نے اوپیرا ہاؤس کے مالک کو اتنی رقم ادا کی تھی کہ وہ پوری چھت کو ایک درجن بار مرمت کروا سکتا تھا۔ کاؤنٹ نے میڈم لاون کو خط لکھا جس میں بزرگ خاتون کے ساتھ ہونے والے خوفناک اور ناقابل فہم سانحے پر اظہار غم کیا گیا تھا۔ اس نے جادوگر کو سزا دینے میں میڈم لاون کو مکمل حمایت اور مدد کی پیش کش بھی کی تھی۔ ہاتھی کی قسمت پوری طرح سے کاؤنٹ اور کاؤنٹیس کے ہاتھ میں تھی۔ چنانچہ ہاتھی سونڈ سے دم تک ان کا ہوچکا تھا۔ ہاتھی کو بال روم میں رکھا گیا اور تمام خواتین و حضرات، شہزادی شہزادے، نواب اور مہارانیاں اور بچے اسے دیکھنے آنے لگے تھے۔ وہ ہر وقت اس کے آس پاس جمع رہتے۔

باب:6
پیٹر نے خواب دیکھا کہ ولنالٹز ایک میدان میں بھاگ رہاہے اور پیٹر اس کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ ’’جلدی کرو! تم کو سپاہی کی طرح دوڑنا چاہیے۔‘‘ولنا لٹز چلایا۔
وہ گندم کا کھیت تھا اور جیسے جیسے پیٹر بھاگ رہا تھا گندم کی فصل بڑھتی جارہی تھی۔ جلد ہی وہ اتنی لمبی ہوگئی کہ ولنالٹز اس کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ اب صرف آواز سنائی دے رہی تھی۔ ’’جلدی کرو! مردوں کی طرح دوڑو! سپاہی کی طرح دوڑو!‘‘
پیٹر نے سوچا۔ یہ اچھی بات نہیں، میں نے اسے کھو دیا ہے۔ اب میں اسے نہیں پکڑ سکوں گا۔ دوڑنا بے معنی ہے۔ اس نے رک کر نیلے آسمان کی طرف دیکھا۔ اس کے آس پاس گندم اگتی رہی، سنہری دیوار بنتی گئی۔ یہ اس میں تقریباً دفن ہونے جیسا تھا، اس نے سوچا میں ہمیشہ یہاں رہوں گا۔ مجھے کبھی کوئی نہیں ملے گا۔ پھر اس نے دیکھا کہ گندم کی دیوار میں ایک دروازہ بھی ہے۔ پیٹر اس کے قریب گیا اور دستک دی، دروازہ کھلا تھا۔
’’کوئی ہے؟‘‘پیٹر نے آواز لگائی۔
کسی نے جواب نہیں دیا۔
’’ہیلو؟‘‘ اس نے پھر آواز لگائی۔
اور جب کوئی جواب نہیں ملا تو اس نے دروازہ دھکیلا اور گھر میں داخل ہوگیا۔ یہ وہی گھر تھا، جس میں وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا۔ اسے کسی کے رونے کی آواز آئی۔ وہ خواب گاہ میں گیا، وہاں بستر پر کمبل میں لپٹی ایک تنہا بچی نظر آئی۔
’’یہ کس کی بچی ہے؟‘‘ پیٹر نے پکارا۔
بچی روتی رہی۔ اس کی آواز سے پیٹر کا دل دہلنے لگا۔ آخر وہ جھکا اور اسے اٹھالیا۔
’’اوہ، شش شش…‘‘اس نے بچی کو چپ کرانے کی کوشش کی اور گود میں لے کر جھولا جھلانے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ چپ ہوکر سوگئی۔ پیٹر کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کتنی بڑی ہے۔ اسے اٹھانا کتنا آسان تھا۔ وہ کتنے آرام سے اس کے بازوؤں میں آگئی تھی۔ گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ وہ گندم کی فصل میں چلتی ہوا کی موسیقی سن رہا تھا۔ اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا اور شام کے سورج کو کھیت میں سنہری کرنیں بکھیرتے دیکھا۔ جہاں تک اس کی آنکھ دیکھ سکتی تھی، روشنی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ وہ جان گیا تھا کہ جس بچی کو اس نے اپنی بانہوں میں تھام رکھا ہے۔ وہ اس کی بہن عدلی ہے۔
وہ خواب سے بیدار ہوا تو سیدھا ہوکر بیٹھ گیا اور تاریک کمرے میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔’’ہاں وہ رو رہی تھی۔ مجھے یاد ہے۔ میں نے اسے تھام لیا تھا۔ وہ روئے جارہی تھی۔ یعنی وہ سانس لے رہی تھی۔ ولنا لٹز نے غلط کہا تھا کہ وہ مردہ پیدا ہوئی تھی۔‘‘
وہ پھر لیٹ گیا اور اپنی بہن کے وزن کو بازؤں میں محسوس کیا۔ اسے یاد آیا۔ وہ رو رہی تھی۔ میں نے اسے تھام لیا تھا اور ماں سے کہا تھا کہ میں ہمیشہ اس کا خیال رکھوں گا۔ ہاں مجھے یاد ہے۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور پھر دوبارہ خواب والے دروازے کا تصور کیا۔ وہ مکان کے اندر گیا اور اپنی بہن کو گود میں اٹھایا اور روشن کھیت کو دیکھا۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ خواب بہت خوبصورت تھا۔ کاہنہ نے جھوٹ نہیں بولا تھا۔ اگر اس نے جھوٹ نہیں بولا تھا تو اس مطلب ہے کہ ہاتھی کے بارے میں بھی سچ کہا تھا۔
’’ہاتھی۔‘‘پیٹر نے کہا۔
اس نے اونچی آواز میں یہ الفاظ گہرے اندھیرے میں خراٹے لیتے ولنالٹز اور سوئے ہوئے لاتعلق شہر سے بلند آواز میں کہے۔ ہاتھی کی اہمیت ہے۔ وہ کاؤنٹیس کے پاس ہے۔ مجھے اس سے ملنے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ میں لیومیٹین سے پوچھوں گا۔ وہ پولیس افسر ہے۔ پھر ہم عدلی کو ڈھونڈ لیں گے۔
پولونیا اپارٹمنٹس سے پانچ بلاکس کے فاصلے پر ایک تاریک عمارت تھی جس میں ایک یتیم خانہ قائم تھا۔ اس عمارت کی اوپری منزل پر ایک لمبے غار جیسے کمرے میں دیوار کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بستر دھاتی سپاہیوں کی طرح ایک قطار میں لگے تھے۔ ان میں سے ہر بستر پر ایک بچہ سوتا تھا اور بستروں کی قطار کا آخری بستر عدلی نامی ایک چھوٹی لڑکی کا تھا۔ جو اوپیرا ہاؤس واقعے کے بعد ہاتھی کے خواب دیکھنے لگی تھی۔
عدلی کے خوابوں میں ایک رات ہاتھی آیا اور یتیم خانے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سسٹر میری (جن کے ذمے یتیم خانے کا دروازہ کھولنے اور بند کرنے کی زمہ داری تھی) نے ہاتھی کی دستک کا جواب دیا۔
ہاتھی نے سسٹر کی طرف سر جھکاتے ہوئے کہا۔ ’’شام بخیر! میں اس چھوٹی بچی کو لینے آیا ہوں۔ جسے سب عدلی کے نام سے پکارتے ہیں۔‘‘
’’معذرت!‘‘بہن میری نے کہا۔
ہاتھی نے کہا۔’’میں عدلی کے لیے آیا ہوں، میں اسے وہاں لے جاؤں گا جس جگہ سے وہ تعلق رکھتی ہے۔‘‘
سسٹر میری نے کہا۔’’آپ زور سے بولیں۔ میں بوڑھی ہوں، اچھی طرح سے سن نہیں سکتی۔‘‘
ہاتھی نے قدرے بلند آواز میں کہا۔’’میں عدلی کو لینے آیا ہوں۔‘‘
سسٹر میری نے کہا۔’’مجھے افسوس ہے۔ میں آپ کی بات نہیں سمجھ سکی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ہاتھی ہیں؟ مجھ میں ہاتھیوں کی زبان سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ آپ بہت خوبصورت ہاتھی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں آپ کی باتوں کا کوئی مطلب نہیں نکال سکتی۔ اس لیے مجھے آپ کو شب بخیر کہنا ہوگا۔‘‘
اس کے ساتھ ہی سسٹر میری نے دروازہ بند کردیا۔ یتیم خانے کی ایک کھڑکی سے عدلی نے ہاتھی کو واپس جاتے ہوئے دیکھا۔
’’ہاتھی…!‘‘ وہ کھڑکی پیٹتے ہوئے چیخی۔’’میں حاضر ہوں۔ میں یہاں ہوں۔ میں عدلی ہوں۔ میں وہی ہوں۔ جسے آپ ڈھونڈ رہے ہیں۔‘‘
لیکن ہاتھی چلتا رہا۔ وہ گلی میں دور جاتے ہوئے چھوٹا اور چھوٹا ہوتا گیا، یہاں تک کہ ہاتھیوں کے ساتھ جو اکثر خوابوں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک چوہے میں تبدیل ہوگیا۔ پھر گٹر میں گھس کر عدلی کے خواب سے مکمل طور پر غائب ہوگیا۔
پھر برف باری شروع ہوگئی۔ گلیاں اور چھتوں کی اینٹیں سفید ہوتی گئیں۔ یہاں تک کہ سب کچھ غائب ہوگیا۔ ایسا لگتا تھا کہ گرتی برف جلد ہی پوری دنیا کو ڈھانپ لے گی۔ آخر میں کچھ نہیں ہوگا، سوائے عدلی کے جو انتظار میں اپنی خواب گاہ کی کھڑکی پر تنہا کھڑی ہوگی۔

باب:7
بلتیس کے لوگوں کو لگ رہا تھا جیسے شہر محاصرے میں ہے، لیکن دشمن فوج کے نہیں بلکہ موسم کے۔ سردیوں میں اتنا سرمئی ابرآلود آسمان پہلے کبھی کسی کو یاد نہیں تھا۔ سورج غائب تھا اور سخت سردی تھی۔ موسم نے لوگوں کو اداس اور غمگین کردیا تھا۔ ایسے میں یہ مناسب نہیں تھا کہ ہاتھی جیسی حیرت انگیز، خوبصورت اور ذہین مخلوق کو شہر کے بیشتر باشندوں کے لیے بند کردیا جائے۔ وہ ہاتھی دیکھنا چاہتے تھے۔ آخر بلتیس کے عام باشندوں نے ہاتھی کے دروازے پر دستک دی۔ جب کسی نے جواب نہیں دیا تو انھوں نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، لیکن اسے سختی سے بند کیا گیا تھا۔’’باہر ٹھہرو۔ جو کچھ اندر ہے وہ اندر رہے گا۔‘‘جیسے دروازہ کہہ رہا تھا۔ یہ سب غیر منصفانہ تھا۔ ہاتھی بھی خوش نہ تھا۔ فانوس کی چمک، آرکسٹرا کی آواز، تیز ہنسی، بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو، سگار کا دھواں اور پاؤڈر۔ یہ سب اس میں عدم اعتماد اور اذیت کا باعث بن رہے تھے۔ اس نے وہاں سے رخصت ہونے کی کوشش کی اور آنکھیں بند کرلیں، لیکن کوئی فرق نہیں پڑا۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں تو سب کچھ ویسا ہی تھا۔ ہاتھی کو اپنے سینے میں درد محسوس ہو رہا تھا۔ اسے سانس لینے میں بھی مشکل ہورہی تھی اور دنیا بہت چھوٹی لگ رہی تھی۔
پھر کاؤنٹیس نے اپنے مشیروں کے ساتھ مشاورت کی اور فیصلہ کیا کہ شہر کے عام باشندوں، یعنی جنھیں ملاقاتوں، عشائیوں اور پارٹیوں میں مدعو نہیں کیا جاتا۔ ان کی خوشی اور تفریح کے لیے ہر مہینے کے پہلے ہفتے کو ہاتھی دیکھنے کی اجازت ہوگی۔ اس نے پوسٹر اور کتابچے چھپوائے جو پورے شہر میں بانٹ دیے گئے۔ لیومیٹین تھانے سے گھر جاتے ہوئے پڑھنے کے لیے رک گیا۔ وہ خوش تھا، کیوں کہ اب وہ بھی حیرت انگیز معجزہ دیکھ سکے گا۔ وہ بڑبڑایا۔’’آپ کا بہت شکریہ، کاؤنٹیس! یہ بڑی خوشخبری ہے۔‘‘
بھکاری قریب ہی کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ کالا کتا بھی تھا۔ جیسے ہی لیو میٹین نے یہ الفاظ ادا کیے۔ بھکاری نے انھیں گانے میں تبدیل کردیا۔ ’’یہ بڑی خوشخبری ہے! واقعی یہ بڑی خوشخبری ہے!‘‘
لیو میٹین مسکرایا اور بولا۔’’ہاں یہ بڑی خوشخبری ہے۔ میں ایک لڑکے کو جانتا ہوں جو ہاتھی دیکھنے کے لیے بے چین ہے۔ اس نے مجھ سے مدد کرنے کو کہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ اب وہ یہ سن کر بہت خوش ہوگا۔‘‘
’’ایک لڑکا، جو واقعی ہاتھی کو دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘ بھکاری نے گایا۔
لیومیٹین نے بھکاری کے ہاتھ میں ایک سکہ رکھا اور گھر کی طرف چل دیا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔
جب لیو اپنے اپارٹمنٹ کے قریب پہنچا تو اسے اٹاری کی کھڑکی کھلنے کی آواز آئی اور پیٹر کا پُر امید چہرہ نظر آیا۔’’براہ کرم… لیو میٹین! کیا آپ کو اندازہ ہے کہ میں کاؤنٹیس سے کیسے مل سکتا ہوں؟‘‘پیٹر نے پوچھا۔
’’پیٹر! اٹاری کے چھوٹے کویل۔ آپ واحد شخص ہیں جس سے میں اس وقت ملنے کا خواہش مند تھا، لیکن رکیں آپ کی ٹوپی کہاں ہے؟‘‘
’’میری ٹوپی؟‘‘ پیٹر نے کہا۔
’’ہاں، میں آپ کے لیے ایک بڑی خوشخبری لایا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ اسے صحیح طریقے سے سننے کے لیے آپ کے سر پر ٹوپی ہونی چاہیے۔‘‘
’’ایک منٹ رکو!‘‘پیٹر نے کہا۔ وہ کھڑکی سے غائب ہوگیا اور سر پر ٹوپی رکھ کر دوبارہ لوٹ آیا۔
’’اب آپ باضابطہ لباس میں ہیں اور خوش کن خبر سننے کے لیے تیار ہیں۔ جس پر لیومیٹین کو فخر ہے۔‘‘لیو نے اپنا گلا صاف کیا۔ ’’مجھے آپ کو یہ بتاتے ہوئے مسرت ہورہی ہے کہ اب جادوگر کا ہاتھی عوام کی خوشی کے لیے اپنے درشن کرائے گا۔‘‘
’’اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘پیٹر نے کہا۔
’’اس کا مطلب ہے کہ مہینے کا پہلا ہفتہ عوام کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے، لہٰذا آپ اسی ہفتے ہاتھی کو دیکھنے جاسکتے ہیں۔‘‘
پیٹر نے کہا۔’’اوہ! میں ہاتھی دیکھوں گا۔ میں اسے ڈھونڈوں گا۔‘‘اس کا چہرہ اچانک اتنا چمک اٹھا کہ لیومیٹین نے، اگرچہ وہ جانتا تھا کہ یہ بیوقوفی ہے، مڑ کر دیکھا کہ کیا سورج بادلوں کی اوٹ سے باہر آگیا ہے؟ لیکن سورج غائب تھا۔
اٹاری سے بوڑھے سپاہی کی آواز آئی۔ ’’کھڑکی بند کردو۔ بہت سردی ہے۔‘‘
’’شکریہ…شکریہ!‘‘پیٹر نے لیومیٹین سے کہا اور کھڑکی بند کردی۔
اپنے اپارٹمنٹ میں لیومیٹین آتش دان کے سامنے بیٹھا جوتے اتار رہا تھا۔
’’لیو اپنے موزے مجھے دے دو۔‘‘اس کی بیوی نے کہا۔
لیو نے موزے اتار کر دیے۔ گلوریا نے فوراً انھیں صابن کے پانی والی بالٹی میں ڈال دیا۔
پھر گلوریا بولی۔’’آپ کیا سوچ رہے ہیں؟‘‘
لیومیٹین نے کہا۔’’میں پیٹر کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ اسے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ وہ ہاتھی دیکھ سکتا ہے۔ اس کا چہرہ خوشی سے اس طرح چمک اٹھا جو میں نے پہلے کبھی کسی کا نہیں دیکھا۔‘‘
گلوریا نے کہا۔’’یہ اس لڑکے کے ساتھ اچھا نہیں ہو رہا۔ ایسا لگتا ہے بوڑھے سپاہی نے اسے اغوا کرکے قید کر رکھا ہے۔ کیا نام ہے اس کا؟‘‘
لیو نے کہا۔’’ولنالٹز۔‘‘
’’وہ سارا دن لڑکے کو ڈرل اور مارچ کرنے کا حکم دیتا رہتا ہے۔ میں ان کی خوفناک آوازیں سنتی ہوں۔‘‘
لیومیٹین نے سر ہلایا۔’’یہ ظلم ہے، مجھے لگتا کہ وہ بہت کمزور ہے اور فوجی خدمت کے لیے مناسب نہیں ہے۔ وہ بہت پیارا اور نرم دل لڑکا ہے۔‘‘
’’یقینا ایسا ہی ہے۔‘‘گلوریا نے کہا۔
’’وہاں اس کے پاس محبت کرنے والا کوئی نہیں اور ہم یہاں اکیلے ہیں۔‘‘لیومیٹین نے آہ بھر کر کہا اس کی آواز میں اولاد سے محرومی کی جھلک تھی۔

باب:8
عدلی نے ایک دن پھر اپنے لمبے کمرے میں ہاتھی کا خواب دیکھا، لیکن اس بار سسٹر میری اپنی جگہ پر نہیں تھیں۔ اس لیے کوئی بھی دروازہ کھولنے نہیں آیا۔ عدلی خاموشی سے لیٹی رہی۔ کچھ دیر بعد پھر اس نے ہاتھی کو دیکھا، جو بار بار دستک دے رہا تھا، لیکن کسی نے بھی اس کی دستک کا جواب نہیں دیا۔ اس نے چادر ہٹائی اور بستر سے باہر نکل آئی۔ پھر ٹھنڈی اور اندھیری سیڑھیوں سے اترتی سامنے والے دروازے کی طرف بڑھی۔ یہ دیکھ کر اسے بہت سکون ہوا کہ سسٹر میری ہمیشہ کی طرح اپنی کرسی پر بیٹھی ہیں۔ ان کا سر آگے جھکا ہوا تھا اور وہ ہلکی آواز میں خراٹے لے رہی تھیں۔ ’’سسٹر میری!‘‘وہ راہبہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
سسٹر اچھل پڑیں۔’’دروازہ بند نہیں ہے۔ ہمیشہ کی طرح کھلا ہے۔ آپ کو صرف دستک دینی چاہیے۔‘‘
عدلی نے کہا۔’’میں تو پہلے ہی اندر ہوں۔ ‘‘
’’اوہ، عدلی! تم آدھی رات کو یہاں کیا کررہی ہو۔ تمھیں اپنے بستر پر ہونا چاہیے۔‘‘
’’میں نے خواب دیکھا ہے۔‘‘عدلی نے کہا۔
’’کیسا خواب؟‘‘سسٹر میری نے پوچھا۔
’’ہاتھی۔‘‘
’’اچھا ہاتھی کا خواب۔ ہاں، مجھے بھی ہاتھیوں کے خواب آتے ہیں۔‘‘
’’میں نے دیکھا کہ ایک ہاتھی آیا ہے اور دستک دے رہا ہے، لیکن کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔‘‘
’’ایسا نہیں ہوسکتا۔ میں ہمیشہ یہاں بیٹھتی ہوں۔‘‘ سسٹر نے کہا۔
’’گزشتہ رات بھی میں نے خواب دیکھا تھا کہ دستک ہورہی ہے۔ آپ نے دروازہ کھولا۔ وہ ہاتھی تھا۔ اس نے میرا پوچھا، لیکن آپ نے اسے اندر آنے نہیں دیا۔‘‘
’’نہیں، میں کسی کو اندر آنے سے منع نہیں کرتی۔‘‘ سسٹر میری نے کہا۔
’’آپ نے کہا تھا کہ آپ اس کی بات نہیں سمجھیں۔‘‘
’’ہاں، میں سمجھتی ہوں دروازہ کب کھولا جائے کب نہیں۔ میں نے یہ تمہارے لیے کیا۔‘‘سسٹر نے آہستہ سے کہا۔
عدلی، کرسی کے پاس فرش پر بیٹھ گئی اور گھٹنوں کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ پھر بولی۔’’جب میں آپ کے پاس آئی تو کیسی تھی۔‘‘
’’اوہ، پھول کی طرح چھوٹی، نرم نازک سی۔ آپ کی عمر صرف چند گھنٹے تھی۔‘‘
’’کیا آپ میرے آنے سے خوش تھیں؟‘‘
’’آپ کے آنے سے پہلے میں یہاں اکیلی اس کرسی پر بیٹھی رہتی تھی اور دنیا بہت تاریک تھی پھر اچانک آپ میری بانہوں میں آگئیں اور میں نے آپ کی طرف دیکھا۔‘‘
’’اور آپ نے میرا نام لیا؟‘‘عدلی نے کہا۔
’’ہاں، میں نے آپ کا نام لیا۔‘‘
’’آپ کو میرا نام کیسے معلوم ہوا؟‘‘
’’دائی نے بتایا تھا کہ آپ کی والدہ نے مرنے سے پہلے آپ کا نام عدلی رکھا تھا۔‘‘
’’اور میں مسکرائی؟‘‘
’’ہاں، اور اچانک لگا کہ ہر طرف اجالا ہوگیا ہے۔ دنیا روشنی سے بھرگئی تھی۔‘‘
عدلی نے آنکھیں بند کیں اور پوچھا۔’’کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہاتھیوں کے بھی نام ہوتے ہیں؟‘‘
’’اوہ ہاں، خدا کی تمام مخلوقات کے نام ہیں۔ ہر ایک کا ایک نام ہے۔ مجھے اس پر یقین ہے۔‘‘
سسٹر میری صحیح تھیں، یقیناہر ایک کا نام ہے۔
بھکاریوں کے بھی نام ہوتے ہیں۔ یتیم خانے کے قریب ایک تنگ گلی میں تھامس نامی ایک بھکاری بیٹھا رہتا تھا۔ اس کے ساتھ ہمیشہ ایک کالا کتا ہوتا۔ تھامس اپنا پورا نام نہیں جانتا تھا ،نہ اسے یہ پتا تھا کہ اس کے ماں باپ کون تھے۔ اسے صرف اتنا پتہ تھا کہ وہ بھکاری ہے۔ وہ جانتا تھا کہ کس طرح ہاتھ پھیلا کر مانگنا ہے۔ وہ جانتا تھا کیسے گایا جاتا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ کس طرح روزمرہ کی بول چال سے سادہ جملے نکالنے ہیں اور ان سے مختلف اور خوبصورت گانے تخلیق کرنے ہیں، جس سے زندگی کا کوئی منظر ابھر آئے۔
کتے کا نام ایڈو تھا۔ ایک وقت تھا جب وہ میدان جنگ میں دوڑتا نظر آتا تھا۔ وہ جنگ کے دوران پیغامات، خطوط اور جنگی منصوبے لانے اور لے جانے کام کرتا تھا اور اس کی ذمے فوج کے ایک افسر سے دوسرے افسر تک معلومات پہنچانا تھا۔ پھر ایک دن ماڈگنیل کے قریب میدان جنگ میں جب وہ گھوڑوں، سپاہیوں اور خیموں کے درمیان اپنا راستہ بنا رہا تھا، توپ کے گولے کی زد میں آگیا۔ جس نے اسے اوپر ہوا میں اچھال دیا۔ جب وہ نیچے گرا تو ہمیشہ کے لیے اندھا ہوگیا تھا۔ تاریکی میں اترتے ہی اس کو پہلا خیال آیا۔ اب پیغامات کون پہنچائے گا؟ آج بھی جب وہ سورہا ہوتا تو خواب میں خط، نقشے اور جنگی منصوبے لیے دوڑرہا ہوتا تھا جو جنگ جتوا سکتے تھے۔ ایڈو، ان دونوں ایک خواب دیکھ رہا تھا کہ وہ پیغام رساں بنا ہے۔ جس کام کے لیے وہ پیدا ہوا تھا اور اس کی تربیت کی گئی تھی۔ وہ زندگی میں کم از کم ایک بار پھر دل کے ساتھ یہ خدمت انجام دینا چاہتا تھا۔
وہ سرد اور سنسان گلی میں اپنے مالک تھامس کے ساتھ گلے لگ کر نیند میں سرگوشی کر رہا تھا۔ تھامس نے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور بولا۔ ’’شش…سوجاؤ میرے پیارے ایڈو۔ سوجاؤ۔ چاروں طرف اندھیرا ہے، لیکن قسمت ہماری طرف لوٹ آئے گی۔ لڑکا انتظار کر رہا، لڑکے نے یقین کیا۔ آپ پر! اور ستاروں پر! یہ حیرت انگیز خبر ہے…حیرت انگیز خبر ایک گانا بن گئی۔‘‘
وہاں سے کچھ دور عوامی باغ اور پولیس اسٹیشن کے پار درختوں سے گھری پہاڑی پر کاؤنٹ اور کاؤنٹیس کی حویلی تھی۔ اس حویلی میں ایک تاریک بال روم میں ہاتھی کھڑا تھا۔ اب تک اسے سوجانا چاہیے تھا، لیکن اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ ہاتھی اپنا نام لے کر خود سے کچھ کہہ رہا تھا۔ وہ نام جس کے ذریعہ اس کے بھائی بہن اسے پکارتے تھے۔ وہ نام جس پر انہوں نے ہنسی اور کھیل کھیلا تھا۔ یہ وہ نام تھا جو اسے اس کی ماں نے دیا تھا اور وہ اکثر محبت سے پکارتی تھی۔ اس نے یہ نام بار بار دہرایا۔ اس نے خود کو یاد دلانے کی کوشش کی کہ وہ کون ہے۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ کہیں مختلف جگہ پر وہ اپنے لوگوں میں رہتا تھا اور اس سے پیار کیا جاتا تھا۔

باب: 9
آخرکار ولنالٹز کا بخار اترگیا اور ایک بار پھر اس کی فوجی طرز کی سخت اور یک رنگی تقریریں شروع ہوگئیں۔ وہ بستر سے اٹھا، اپنی داڑھی کو اتنا تراشا کہ وہ تکونی اور نوکدار ہوگئی۔ پھر ٹین کے سپاہیوں کے ایک پورے گروہ کے ساتھ فرش پر بیٹھ گیا اور انھیں نقشے پر ایک مشہور لڑائی کی جگہوں پر ترتیب دینے لگا ۔آخر بولا۔’’ڈوچین! آپ دیکھ رہے ہیں۔ جنر ل وان فلکن ہینگر کی یہ ایک خاص اور زبردست حکمت عملی تھی۔ اس نے اپنے منصوبے کو اس قدر مہارت اور بہادری سے انجام دیا کہ دشمن کو ان فوجیوں کے آنے کی کانوں کان خبر نہ ہوئی، نہ انھیں توقع تھی۔ اس نے انہیں یہاں پہنچایا اور پھر پہلو سے اچانک حملہ کردیا۔ آخر دشمن کو شکست ہوئی! شاندار! سب اس منصوبہ بندی کو سراہتے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کیا یہ قابل تعریف ہے؟‘‘
’’ہاں جناب! میں بھی اس کی تعریف کرتا ہوں۔‘‘ پیٹر نے کہا۔
’’اس صورت میں میری بات کو غور سے سنیں۔ آپ کو کسی بات سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ولنا لٹز نے زور دے کر کہا اور اپنی لکڑی کی ٹانگ فرش پر ماری۔ ’’ہم اہم باتیں کررہے ہیں۔ آپ کے والد کی بہادری کے بارے میں، فوج کے بارے میں، جی دار مردوں کی فوجی خدمت کے بارے میں۔‘‘
پیٹر نے کھلونا فوجیوں کی طرف دیکھا اور اپنے باپ کے بارے میں سوچنے لگا جو کیچڑ سے بھرے ہوئے کھیت میں پڑا تھا۔ اس کے ایک طرف گہرا زخم تھا جس سے خون بہہ رہا تھا۔ اس نے باپ کی موت کے بارے میں سوچا۔ پھر اسے عدلی کا خواب یاد آیا، ہاتھوں میں اس کا وجود اور دروازے سے باہر کی سنہری روشنی یاد آئی۔ اسے یاد آیا کہ اس کے والد نے اسے باغ میں کیسے پکڑا تھا اور پہلی بار پیٹر کو فوجی خدمت، کوئی عظیم کام نہ لگی۔ بلکہ وہ حماقت اور ایک خوفناک حرکت محسوس ہو رہی تھی۔
ولنالٹز نے اپنا گلا صاف کیا اور بولا۔’’تو جیسا کہ میں نے پہلے واضح کیا ہے یہ سپاہی، یہ بہادر آدمی، یہ ہیرو، بہادر جنرل وان فلکن ہینگر کے براہ راست حکم پر اس کنارے پر آئے اور پیچھے سے حملہ کیا جس سے شاندار فتح نصیب ہوئی۔ کیا آپ اس منصوبے کو سمجھ گئے؟‘‘
پیٹر نے ٹین کے سپاہیوں کی طرف دیکھا۔ وہ چوکس کھڑے تھے۔ اس نے ولنا لٹز کی طرف نظریں اٹھائیں، پھر دوبارہ سپاہیوں کی طرف دیکھا۔
’’نہیں۔‘‘آخرکار اس نے جواب دیا۔
’’کیوں؟ اچھا پھر نقشے پر دیکھ کر بتائیں۔ اس سے بہتر کیا منصوبہ ہوسکتا تھا؟‘‘
’’کوئی نہیں، میں اس چیز کو ختم کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ختم کرنا؟‘‘
’’ہاں، کوئی سپاہی نہیں، کوئی جنگ نہیں۔‘‘پیٹر نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
ولنالٹز حیرت سے منھ کھولے پیٹر کو گھورنے لگا۔ اس کی داڑھی کی نوک کانپ رہی تھی۔ پیٹر کو اپنے اندر کچھ ناقابل برداشت گرم ابلتا ہوا محسوس ہوا جو حلق کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اسے احساس ہوا کہ اب وہ سب کچھ کہہ دے گا۔ آخر بولا۔’’وہ زندہ ہے۔ کاہنہ نے مجھے بتایا تھا کہ وہ زندہ ہے۔ ایک ہاتھی مجھے اس کے پاس لے جائے گا اور چوں کہ ہاتھی ظاہر ہوچکا ہے اس لیے میں اس پر یقین کرتا ہوں۔ آپ پر نہیں۔ میں آپ پر یقین نہیں کرتا۔‘‘
’’تم کیا کہہ رہے ہو؟ کون زندہ ہے؟‘‘
’’میری بہن!۔‘‘پیٹر نے کہا۔
’’تمھاری بہن؟ کیا میں نے غلط سنا؟ کیا ہم پرامن زندگی اور رشتوں کی باتیں کررہے ہیں؟… نہیں! ہم جنگوں کے بارے میں بات کررہے ہیں۔ ہماری بات چیت جرنیلوں کی شاندار صلاحیتوں، ان کی حکمت عملی اور سپاہیوں کی ہمت کے بارے میں ہے۔‘‘ بوڑھے جنگجو نے اپنی لکڑی کی ٹانگ زور سے فرش پر مارتے ہوئے کہا۔
’’وہ کہاں ہے؟ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا؟‘‘
بوڑھا سپاہی غمزدہ ہوگیا۔ اس نے پاؤں نیچے رکھا اور اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے بولا۔ ’’میں نے آپ کو متعدد بار بتایا ہے کہ وہ جنت میں آپ کی ماں کے ساتھ ہے۔‘‘
پیٹر نے کہا۔’’میں نے رونے کی آواز سنی تھی اور اسے تھام لیا تھا۔‘‘
’’نہ نہ…‘‘ولنا لٹز نے کہا۔ اس کی انگلی اب بھی آسمان کی طرف اشارہ کیے کانپ رہی تھی۔’’وہ نہیں روئی تھی۔ وہ مردہ پیدا ہوئی تھی۔ وہ سانس نہیں لے رہی تھی۔‘‘
’’میں نے خواب دیکھا ہے۔ وہ زندہ تھی اور رورہی تھی۔‘‘
’’وہ رو رہی تھی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ زندہ تھی۔ بالکل نہیں، اگر تمام رونے والے بچے ابھی بھی زندہ ہوتے تو دنیا بہت بھیڑ والی جگہ ہوتی۔‘‘
’’وہ کہاں ہے؟‘‘ پیٹر نے پوچھا۔
ولنالٹز نے آہستہ سے سسکی لی۔
’’کہاں؟‘‘ پیٹر نے پھر کہا۔
بوڑھے سپاہی نے کہا۔’’میں نہیں جانتا۔ دایہ اسے لے گئی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ وہ بہت چھوٹی ہے۔ وہ مجھ جیسے شخص کے ہاتھ میں اتنی نازک چیز نہیں دے سکتی۔‘‘
’’آپ نے کہا تھا کہ وہ مرچکی ہے!…آپ نے مجھے بتایا تھا کہ وہ مرچکی ہے… آپ نے جھوٹ بولا تھا!‘‘ پیٹر چلایا۔
’’اسے جھوٹ نہ کہو۔ اسے سائنسی مفروضہ کہو۔ نومولود بچے اکثر ماں کے بغیر زندہ نہیں رہ پاتے۔ وہ بہت چھوٹی تھی۔‘‘
’’آپ نے… مجھ سے جھوٹ بولا۔‘‘
’’نہیں، نہیں ۔ڈوچین میں نے تمھارے فائدے کے لیے یہ کیا۔ اگر تم جانتے تو کیا کرتے؟ اس سے صرف تمھارے دل کو تکلیف ہوتی۔ میں نے تمھاری پروا کی۔ تمھارے بارے میں جو اپنے والد کی طرح ایک سپاہی بنے گا۔ ایسا سپاہی جس کی میں ہمیشہ تعریف کرتا تھا۔ میں نے تمہاری بہن کو اس لیے نہیں لیا تھا کہ وہ بہت چھوٹی تھی۔ میں بچوں اور ان کی ضروریات کے بارے میں کیا جانتا ہوں؟ میں اسے کیسے سنبھال سکتا تھا، میں تو ایک سپاہی ہوں۔‘‘
پیٹر فرش سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ کھڑکی کے پاس گیا اور رک گیا، گرجا کے منقش پرنالے کو دیکھتا رہا جہاں پرندے ہوا میں چکر لگارہے تھے۔ پھر بولا۔’’جناب میں کل ہاتھی کے پاس جاؤں گا اور اپنی بہن کو ڈھونڈوں گا اور میں آپ کے ساتھ نہیں رہوں گا۔ میں سپاہی بننے سے تھک گیا ہوں۔ فوج میں خدمت انجام دینا بیکار اور بے معنی چیز ہے۔‘‘
’’ایسی بات مت کرو۔ اپنے باپ کے بارے میں سوچو۔‘‘ولنا لٹز نے کہا۔
پیٹر نے کہا۔’’ہاں میں اپنے باپ کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔‘‘
اس نے باغ میں اپنے والد اور میدان جنگ کے بارے میں سوچا۔ جہاں اس کا خون بہہ رہا تھا اور وہ مررہا تھا۔

باب:10
موسم خراب تھا۔ تاریکی بڑھتی جارہی تھی۔
پناہ گاہ کے سرد، تاریک اور غار جیسے کمرے میں عدلی ہاتھی کا خواب دیکھتی رہی۔ خواب اتنا مستقل تھا کہ تھوڑی دیر بعد عدلی ان الفاظ کو دہرا سکتی تھی کہ ہاتھی نے سسٹر میری سے کیا کہا۔ خاص طور پر ایک بہت خوبصورت جملہ عدلی نے دن کے وقت دہرانے کا فیصلہ کیا۔ ’’یہ وہی ہے جسے آپ عدلی کہتے ہیں، میں اسے لینے آیا ہوں۔‘‘ اس نے ان الفاظ کو بار بار دہرایا۔ گویا یہ کوئی حمد یا برکت کی دعا ہو۔ ’’یہ وہی ہے جسے آپ عدلی کہتے ہیں۔ میں اسے لینے آیا ہوں۔ یہ وہی ہے جسے آپ عدلی کہتے ہیں، میں اسے لینے آیا ہوں۔‘‘
’’آپ کس سے باتیں کر رہی ہیں؟‘‘ لیزیٹ نامی ایک بڑی لڑکی نے پوچھا۔
وہ اور عدلی پناہ گاہ کے باورچی خانے میں اکٹھی بیٹھی بالٹی پر جھکی آلو چھیل رہی تھیں۔
عدلی نے کہا۔’’کوئی نہیں۔‘‘
لیزیٹ نے کہا۔’’لیکن آپ کے ہونٹ ہل رہے ہیں ۔میں نے دیکھا ہے آپ نے کچھ کہا تھا۔‘‘
’’میں ہاتھی کی باتیں دہرا رہی تھی۔‘‘عدلی نے کہا۔
’’ہاتھی کی باتیں؟‘‘
’’میرے خوابوں میں ہاتھی آیا تھا۔ وہ مجھ سے بات کرتا ہے۔‘‘
لیزیٹ نے کہا۔’’اوہ، آپ مجھے بیوقوف بنارہی ہیں۔ اچھا خوابوں میں بات کرنے والا ہاتھی اور کیا کہتا ہے؟‘‘
عدلی نے کہا۔’’ہاتھی دروازے پر دستک دیتا ہے اور مجھ سے بات کرتا ہے۔‘‘اس نے آواز ہلکی کی پھر بولی۔’’مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے یہاں سے لے جانے کے لیے آیا ہے۔‘‘
’’آپ کو لینے کے لیے؟‘‘ لیزیٹ نے کہا۔ اس کی آنکھیں سکڑ گئیں۔’’اور وہ آپ کو کہاں لے جائے گا؟‘‘
عدلی نے کہا۔’’گھر‘‘
’’ہاہاہا! اچھا آپ کی عمر کتنی ہے؟‘‘
’’چھ… تقریباً سات سال۔‘‘عدلی نے کہا۔
’’اچھا، آپ لگ بھگ سات سالوں سے انتہائی نادر اور اعلیٰ بیوقوف ہیں۔‘‘لیزیٹ نے کہا۔
باورچی خانے کے دروازے پر دستک ہوئی۔
’’سنو!‘‘ لیزیٹ نے کہا۔’’کوئی دستک دے رہا ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ ہاتھی ہو۔‘‘وہ اٹھ کر دروازے کے پاس گئی اور اسے کھولا۔
’’دیکھو عدلی! یہاں کون آیا ہے؟ ہاتھی آپ کو لینے آیا ہے۔ ‘‘ وہ چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ لاتے ہوئے بولی۔
درحقیقت دروازے پر کوئی ہاتھی نہیں تھا۔ اس کے بجائے پڑوسی بھکاری اور اس کا کتا کھڑا ہوا تھا۔
’’ہمارے پاس تمہیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘‘ لیزیٹ نے بلند آواز میں کہا۔’’ ہم یتیم ہیں۔ یہ ایک پناہ گاہ ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا پاؤں پٹخا۔
بھکاری نے کہا۔’’ہمارے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں ہے، لیکن دیکھو عدلی! ہاتھی آگیا ہے۔ یہ بہت اچھی خبر ہے۔ وہ تمھیں برف میں واپس لے جائے گا۔‘‘
عدلی نے بھکاری کے چہرے پر نگاہ ڈالی تو محسوس کیا کہ اسے بھوک لگی ہے۔
’’عدلی! حیرت انگیز خبر کا انتظار کرو۔ حیرت انگیز خبر ایک گانا بن جائے گی…سب کچھ ایک ساتھ بدل جائے گا…‘‘ بھکاری نے کہا۔
’’گانا بند کرو!‘‘لیزیٹ نے کہا اور دروازہ بند کر کے عدلی کے پاس آکر بیٹھ گئی۔’’کیا تم نے دیکھا کہ کون آیا تھا؟ کتا اور اندھا بھکاری جو بے معنی گانے گاتا ہے۔ کیا تم کو لگتا ہے کہ وہ ہمیں گھر لے جانے کے لیے آئے تھے؟‘‘
عدلی نے کہا۔’’وہ بھوکا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کے گال پر ایک آنسو گرا ہے، پھر دوسرا، پھر تیسرا۔‘‘
’’تو کیا ہوا؟ تم جانتی ہو کون بھوکا نہیں ہے؟‘‘ لیزیٹ نے کہا۔
’’کوئی نہیں۔‘‘عدلی نے ایمانداری سے جواب دیا۔ وہ خود ہمیشہ بھوکی رہتی تھی۔
’’ہاں، ہم سب بھوکے ہیں۔‘‘ لیزیٹ نے کہا۔
’’تو کیا اس کو پتہ نہیں تھا کہ جواب میں کیا کہنا ہے۔‘‘عدلی نے کہا۔
وہ سب اس کے خواب والے ہاتھی کے الفاظ تھا۔ اگرچہ وہ زیادہ نہیں تھے، لیکن وہ اسی کے تھے۔ وہ پھر ان کو دہرانے لگی۔’’یہ وہی ہے جسے آپ عدلی کہتے ہیں۔ میں اسے لینے آرہا ہوں۔ یہ وہی ہے۔ جسے آپ عدلی کہتے ہیں۔ میں اسے وہاں لے جاؤں گا۔ جہاں سے اس کا تعلق ہے۔‘‘
’’خاموش ہوجاؤ! کوئی ہمارے لیے نہیں آئے گا۔‘‘ لیزیٹ نے سختی سے کہا۔

باب:11
بلتیس کے بے شمار لوگ ہاتھی دیکھنے کے لیے ہفتے کے دن باہر نکل آئے۔ کاؤنٹیس کے محل سے سڑک تک اور پہاڑی کے نیچے جہاں تک نظر جاتی عورتوں، مردوں اور بچوں کی سانپ کی طرح بل کھاتی لمبی قطار نظر آتی تھی۔ وہاں مونچھوں کو تاؤ دیے اور بالوں میں تیل ڈالے نوجوان مرد بھی تھے اور بوڑھی عورتیں بھی جو عاریتاً لیے کپڑے پہن کر آئی تھیں، آج ان کے جھریوں بھرے چہرے خاص اہتمام سے دھوئے گئے تھے۔ وہاں موم بتی بنانے والے بھی تھے جن کے پاس سے گرم موم کی بو آرہی تھی اور موٹے کھردرے ہاتھوں والی دھوبنیں بھی جو امید بھرے چہروں کے ساتھ پرانے کپڑوں میں ملبوس چلی آئی تھیں۔ بچے ان کے سینے سے چمٹے ہوئے تھے اور بوڑھے لوگ اپنی چھڑیوں کے سہارے آئے تھے،ٹوپی ساز سر اونچے کیے کھڑے تھے، ان کے سروں پر نئی طرز کی تخلیقات فخر کے ساتھ دھری تھیں۔ چراغ روشن کرنے والے نیند سے بھری آنکھیں لیے دربانوں کے پاس کھڑے تھے، سڑک کے پار جھاڑو لگانے والے بھی موجود تھے۔ جنھوں نے جھاڑو سامنے کی طرف اس طرح تھام رکھی تھیں جیسے وہ تلواریں ہیں۔ وہاں پجاری اور کاہن بھی شانہ بشانہ کھڑے ایک دوسرے کو ناگوار نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ بلتیس کا پورا شہر ہاتھی کو دیکھنے قطار میں آکھڑا ہوا ہے۔ ہر ایک کے پاس اپنی اپنی امیدیں، خواب اور خواہشات تھیں۔حالاں کہ وہ جانتے تھے کہ حقیقت میں ایسا ہونا مشکل ہے، مگر ان کو توقع تھی کہ ہاتھی کی ایک نظر انھیں کچھ نہ کچھ ضرور دے گی۔قطار میں پیٹر کے آگے والا آدمی مکمل سیاہ لباس میں ملبوس تھا، اس کے سر پر چوڑے کناروں والی ٹوپی تھی۔ وہ بار بار اپنا وزن ایک پاؤں سے دوسرے پاؤں پر منتقل کررہا تھا اور مسلسل جھومتے ہوئے بڑبڑا رہا تھا۔’’ہاتھیوں کی جسامت انسانی تصور کو جھنجوڑ دیتی ہے۔ ہاتھی بہت بڑے ہوتے ہیں۔ میں آپ سب کو ہاتھیوں کی اصلی جسامت کے بارے میں بتاؤں گا۔‘‘
پیٹر نے کان لگائے۔ وہ ہاتھیوں کی جسامت کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ وہ بہت مفید معلومات ہوتی، لیکن سیاہ پوش آدمی نے کوئی اعداد و شمار نہیں بتائے بس وہ ہاتھیوں کی جسامت کی معلومات دینے کا اعلان کرتا رہا۔
قطار آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔ دن کے اختتام تک خوش قسمتی سے آگے والے آدمی کی بڑبڑاہٹ کم ہوگئی تھی، پھر بھکاری نمودار ہوا اور ہاتھ پھیلائے گانے لگا۔ اس کے ساتھ کتا بھی تھا، بھکاری کی آواز مدھر اور گانا دلکش تھا۔ پیٹر آنکھیں بند کیے سن رہا تھا۔ اس آواز نے پیٹر کی تیز دل کی دھڑکن کو پرسکون کردیا تھا اور اسے تسلی اور امید دلائی تھی۔
’’دیکھو عدلی! یہ ہے تمہارا ہاتھی عدلی!‘‘بھکاری نے گایا۔
پیٹر نے چونک کر بھکاری کو دیکھنے کے لیے سر گھمایا ۔اسے یہ نام سنا ہوا لگا، لیکن بھکاری نظر نہیں آیا۔ پیٹر خیالوں میں کھو گیا۔ اسے یاد آیا۔ جس رات بہن پیدا ہوئی اسی رات ماں فوت ہوگئی تھی۔ مرنے سے پہلے ماں نے دائی سے کہا تھا۔’’اسے پیٹر کی گود میں دے دو۔‘‘
دائی نے کہا۔’’مجھے نہیں لگتا کہ وہ اسے سنبھال سکے گا۔ وہ بہت چھوٹا ہے۔‘‘
’’نہیں، وہ اسے گلے لگائے گا۔‘‘ماں نے کہا۔ دائی نے روتی ہوئی بہن کو اسے دے دیا۔
ماں نے کہا۔’’تمہیں یاد رکھنا ہے۔ یہ تمھاری بہن ہے۔ اس کا نام عدلی ہے۔ یہ تمھاری ہے۔ کیا تم یاد رکھو گے؟‘‘
پیٹر نے سر ہلایا۔
’’کیا تم اس کا خیال رکھو گے؟‘‘
پیٹر نے پھر سر ہلایا۔
’’کیا تم مجھ سے وعدہ کرتے ہو پیٹر؟‘‘
’’ہاں۔‘‘اس نے کہا۔ پھر ان الفاظ کو بار بار دہرانے لگا…’’جی ہاں۔ جی ہاں۔‘‘
ماں کے ساتھ ساتھ عدلی نے بھی گویا اسے سنا اور رونا بند کردیا۔
پیٹر نے آنکھیں کھولیں۔ بھکاری کہیں چلاگیا تھا۔ اس نے اپنی ٹوپی اتاری پھر دوبارہ پہن لی پھر اسے اتارتے ہوئے بمشکل اپنے آنسو روکنے کی کوشش کرنے لگا اور بڑبڑایا۔’’میں نے ماں سے وعدہ کیا تھا۔ میں نے وعدہ کیا تھا۔‘‘
اچانک اسے پیچھے سے دھکا لگا اور کرخت آواز آئی۔’’کیا تم اپنی ٹوپی سے کوئی جادو کرنے کی کوشش کررہے ہو؟ یا قطار میں کھڑے ہو؟‘‘
پیٹر نے کہا۔’’اچھا تو آگے بڑھوں؟ کیوں نہیں۔‘‘
اس نے ٹوپی سر پر رکھی اور ایک سپاہی کی طرح آگے بڑھا۔ ایک ماہر سپاہی جس نے سالوں تربیت حاصل کی تھی۔ کاؤنٹ اور کاؤنٹیس کے بال روم میں لوگ بھرے تھے۔ وہ ہاتھی کو چھوتے، مسلتے، ٹیک لگاتے، ہنستے، روتے اور دعا مانگتے گزر رہے تھے۔ ہاتھی اداس کھڑا تھا۔ وہ بہت ساری چیزوں کو سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اس کے بھائی بہن کہاں تھے؟ اس کی ماں؟ لمبی گھاس اور روشن سورج کہاں تھا؟ گرم دن، تاریک شامیں اور ٹھنڈی راتیں کہاں تھیں؟ دنیا بہت سرد اور الجھی ہوئی تھی۔ اس نے اپنا نام یاد کرنا چھوڑ دیا تھا اور فیصلہ کیا تھا کہ اسے اب مرجانا چاہیے۔

باب: 12
کاؤنٹیس نے جلد محسوس کیا کہ بال روم میں ہاتھی رکھنا ایک ناگوار عمل ہے۔ لہٰذا اس نے صفائی ستھرائی کے لیے ایک بونے آدمی کی خدمات حاصل کی جس کا کام ہاتھی کے پیچھے ہمیشہ ایک بالٹی اور بیلچہ لیے تیار کھڑے رہنا تھا۔ اس بونے کی پیٹھ جھکی ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس کا چہرہ اٹھانا اور کسی چیز کو براہ راست دیکھنا تقریباً ناممکن ہوگیا تھا۔
اس کا نام بارٹوک وین تھا۔ ہاتھی کے پیچھے کھڑا ہونے سے پہلے وہ ایک سنگ تراش تھا اور شہر کے گرجا گھروں کے اوپر پتھر سے مجسمے اور پرنالے بناتا تھا۔ یہ ایک خطرناک کام تھا۔
موسم گرما کے آخری دن جب ہاتھی بلتیس پہنچا۔ بارٹوک وین زندگی کا سب سے مشکل پرنالہ بنانے میں مصروف تھا، اچانک اس نے اپنا توازن کھویا اور نیچے گرنے لگا۔ چوں کہ وہ بہت اونچائی پر کام کررہا تھا، لہٰذا اس کو زمین پر جانے میں کافی وقت لگا۔ اسے خیال آیا میں مرجاؤں گا۔ پھر دوسرا خیال آیا، میں کچھ جانتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ زندگی مضحکہ خیز چیز ہے۔ اس خیال پر وہ اونچی آواز میں ہنس پڑا، نیچے سڑک پر موجود لوگوں نے اسے ہنستے ہوئے سنا۔ انہوں نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ ایک شخص موت کا شکار ہورہا ہے اور ہنس رہا ہے۔
بارٹوک وین زمین پر جاگرا۔ اس کا جسم ٹوٹ پھوٹ گیا اور خون بہہ رہا تھا۔ اس کے ساتھی اسے اٹھاکر گلیوں سے گزرتے اس کے گھر لے گئے، جہاں اس کی بیوی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسے جنازے کا انتظام والے سے رابطہ کرنا چاہیے یا ڈاکٹر سے۔ آخر وہ ڈاکٹر کے پاس گئی۔ ڈاکٹر نے بارٹوک کی اہلیہ کو بتایا۔’’اس کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور یہ زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘
بارٹوک وِین جس کی بے ہوشی کچھ لمحوں کے لیے ٹوٹ گئی تھی۔ اس نے ہلکی سی آواز نکالی اور ڈاکٹر کا کوٹ پکڑ کر کھینچا۔
’’ایک منٹ رکو… وہ کچھ کہہ رہا ہے۔ کوئی خاص بات۔‘‘ڈاکٹر نے کہا اور اپنا بازو لہراتے ہوئے کوٹ ایک طرف پھینکا اور بارٹوک کے مجروح جسم پر جھک کر کان، منھ کے قریب لے گیا۔
’’ہی ہی ہی…‘‘ڈاکٹر کے کان میں بارٹوک وِین نے سرگوشی کی۔’’ہی ہی ہی…‘‘
’’وہ کیا کہہ رہا ہے؟‘‘ بیوی نے پوچھا۔
ڈاکٹر کھڑا ہوگیا۔ اس کا چہرہ پیلا ہورہا تھا۔ وہ بولا۔’’آپ کا شوہر کچھ نہیں کہہ رہا۔‘‘
’’کچھ نہیں؟‘‘بیوی نے کہا۔
بارٹوک نے ایک بار پھر ڈاکٹر کے لباس کو کھینچا۔ ڈاکٹر پھر نیچے جھکا، لیکن اس بار اس کا جوش نمایاں طور پر کم تھا۔’’ہی ہی ہی…‘‘ بارٹوک وین ڈاکٹر کے کان میں پھر ہنسا۔
ڈاکٹر سیدھا ہوگیا۔ اس نے اپنا کوٹ ٹھیک کیا۔
’’کیا اس نے کچھ نہیں کہا؟‘‘ بیوی نے ہاتھ ملتے ہوئے پوچھا۔
’’میڈم، وہ ہنس رہا ہے۔ اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے اب اس کا زندہ رہنا مشکل ہے۔‘‘ڈاکٹر نے کہا۔
لیکن سنگ تراش کی ٹوٹی ہوئی کمر حیرت انگیز طور پر ٹھیک ہوگئی، گرنے سے پہلے وہ پانچ فٹ نو انچ قد کا ایک مضبوط آدمی تھا۔ جو دو ہفتوں میں کبھی ایک دو بار ہنستا تھا، گرنے کے بعد اس کی لمبائی چار فٹ گیارہ انچ رہ گئی تھی۔ اب وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کسی وجہ یا بلاوجہ کے ہنس پڑتا تھا۔ وہ گرجا پر اعلیٰ کام کرنے کے لیے واپس بلایا گیا۔ اس نے ہاتھ میں چھینی پکڑی اور پتھر کے سامنے کھڑا ہوگیا، لیکن زیادہ دیر اپنی ہنسی نہیں روک سکا اور ہنس پڑا اور دیر تک ہنستا رہا۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے، پتھر جوں کا توں برقرار رہا، پرنالے ظاہر نہیں ہوئے اور بارٹوک وین کو نوکری سے نکال دیا گیا۔ چنانچہ وہ بالٹی اور بیلچہ لے کر ہاتھی کے پیچھے چلا آیا اور اس طرح دن کے اختتام پر جب پیٹر نے محل کے دروازے پر قدم رکھا تو اسے ہنسی سنائی دی۔ ہاتھی لوگوں کی بھیڑ میں غائب تھا۔ آخر جب لوگ چھٹے تو ہاتھی نظر آیا۔ وہ اس کی توقع سے بہت بڑا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھی نے سر نیچے کیا اور آنکھیں بند کرلیں۔
’’ہاہاہا…‘‘چھوٹے آدمی نے بیلچہ چلایا اور بولا۔ ’’آپ کو حرکت میں رہنا ہوگا۔ تاکہ ہر کوئی ہاتھی کو دیکھ لے۔‘‘
پیٹر نے ٹوپی سر سے اتار کر اپنے سینے پر دبالی پھر ایک قدم بڑھا کر ہاتھی پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس کی جلد کھردری اور سخت تھی اور جسم تھرتھرا رہا تھا۔ پیٹر اس کے کان کے قریب بڑھا اور سرگوشی کی کہ وہ کس لیے آیا ہے۔ وہ کچھ مانگ رہا تھا جو صرف ہاتھی اسے دے سکتا تھا۔
’’براہ کرم، آپ جانتے ہیں کہ میری بہن کہاں ہے؟ مجھے راہ دکھائیں؟‘‘ اس نے کہا اور محسوس کیا کہ ہاتھی اداس ہے اور شاید سو رہا ہے۔
’’چلو، چلو… ہاہا…ہی ہی!‘‘ چھوٹا آدمی چیخا۔
’’براہ مہربانی!‘‘ پیٹر نے ہاتھی سے پھر سرگوشی کی۔’’مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ کیا آپ آنکھیں کھول سکتے ہیں؟ کیا آپ میری طرف دیکھ سکتے ہیں؟‘‘
ہاتھی نے جھولنا بند کردیا۔ وہ خاموش کھڑا رہا۔ پھر آنکھیں کھولیں اور براہ راست اس کی طرف دیکھا۔
پیٹر، عدلی، اپنے والدین، جوتشی، بوڑھے سپاہی، میدان جنگ، جھوٹ، وعدے، پیش گوئی سب بھول گیا۔ اس نے ہاتھی کی نظر میں جو کچھ دیکھا، اس کی خوفناک سچائی کے سوا وہ سب کچھ بھول گیا۔ ہاتھی دل شکستہ تھا۔ اسے اپنے گھر اور دوستوں میں پہنچنا ضروری تھاورنہ وہ مرجاتا۔ جہاں تک ہاتھی کی بات ہے۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں اور پیٹر کو دیکھا تو اسے ہلکا سا جھٹکا لگا۔ اس کی نظروں میں شناسائی تھی۔ اوپیرا ہاؤس کی چھت سے گرنے کے بعد پہلی بار ہاتھی کو کچھ امید محسوس ہوئی تھی۔
’’فکر نہ کریں۔‘‘ پیٹر نے سرگوشی کی۔’’میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ آپ کو گھر بھیج سکوں۔‘‘
ہاتھی نے اس کی طرف دیکھا۔
’’میں وعدہ کرتا ہوں۔‘‘پیٹر نے کہا۔
’’چلو… چلو!‘‘بونا چلایا۔’’کھڑے نہ رہو! ہاہاہا! ابھی بہت سارے لوگ سڑک پر ہیں، وہ بھی ہاتھی دیکھنا چاہتے ہیں!‘‘
پیٹر وہاں سے چلا گیا۔
اس نے ہاتھی سے وعدہ تو کرلیا تھا، لیکن وہ اسے کیسے پورا کرے گا وہ نہیں جانتا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ ہاتھی کہاں سے آیا ہے، افریقہ یا ہندوستان اور اسے بھیجنے کا کیا طریقہ ہے۔ اسے خیال آیا میں نے یہ کیا کیا؟ مجھے ایسا وعدہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جادوگر نے غلط کیا۔ اسے ہاتھی نہیں لانا چاہیے تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ جیل میں ہے۔ اسے رہائی نہیں ملنی چاہیے۔ وہ خوفناک آدمی ہے۔ پھر ایک خیال پیٹر کے دماغ میں آیا۔ وہ رک گیا۔ اس نے اپنی ٹوپی سر سے اتاری، پھر رکھ لی۔ پھر اتاری پھر رکھ لی۔ وہ بار بار یہ کرتا رہا۔ پھر بڑبڑایا۔ ’’جادوگر …اگر جادوگر کے پاس ہاتھی کو طلب کرنے کی طاقت ہے تو اس جادو کو ختم کرنے کی طاقت بھی ہوگی۔ وہ ہاتھی کو گھر بھیج سکتا ہے۔‘‘
’’ لیومیٹین!‘‘وہ چیخا۔ پھر اپنی ٹوپی سر پر جمائی اور بھاگ کھڑا ہوا۔

باب: 13
لیو میٹین نے اپنے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھولا۔ وہ ننگے پاؤں تھا۔ اس کے گلے میں نیپکن بندھا تھا اور اس کی بڑی بڑی مونچھوں میں گاجر اور روٹی کے بھورے لگے نظر آرہے تھے۔ دروازہ کھلنے سے سرد تاریک گلی میں اسٹو (گوشت کے سالن) کی خوشبو چلی آئی۔
’’اچھا، پیٹر آگسٹس ڈوچین ہے! اس کے سر پر ٹوپی ہے۔ وہ میرے سامنے کھڑا ہے اور آج ہمیشہ کی طرح اٹاری کی کھڑکی سے کویل کی طرح نہیں جھانک رہا۔‘‘
پیٹر نے کہا۔’’جناب کھانے کے وقت آپ کو پریشان کرنے پر معذرت خواہ ہوں، لیکن میں اسی وقت جادوگر سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’تم مجھ سے کیسی مدد چاہتے ہو؟‘‘
’’آپ مجھے جادوگر سے ملاقات کے لیے جیل لے جائیں۔ آپ پولیس اہلکار، قانون نافذ کرنے والے افسر ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ آپ کو اندر جانے دیں گے۔‘‘
’’کون ہے؟‘‘گلوریا میٹین نے پوچھا اور باہر آکر اپنے شوہر کے پاس کھڑی ہوگئی۔
’’رات بخیر، میڈم میٹین!‘‘پیٹر نے کہا اور اپنی ٹوپی اتار کر گلوریا کے سامنے جھکا۔
’’مجھے کھانے پر آپ کو پریشان کرنے کا افسوس ہے، لیکن مجھے فوری طور پر جیل جانا ہے۔‘‘
’’یہ کیا کہہ رہا ہے۔ اسے جیل جانے کی کیا ضرورت ہے؟ پلیز اس پر توجہ دیں۔ یہ کتنا کمزور ہورہا ہے؟‘‘گلوریا میٹین نے کہا۔
’’ہاں، یقینا، کیا بوڑھا آدمی تمھیں کھانے کو نہیں دیتا؟‘‘ لیو نے کہا۔
’’ڈبل روٹی اور کبھی مچھلی بھی… بہت تھوڑی سی۔‘‘پیٹر نے کہا۔
’’تم اندر آؤ۔ اس وقت یہ سب سے ضروری بات ہے۔‘‘ گلوریا نے کہا۔
’’ لیکن؟‘‘پیٹر نے کہا۔
’’اندر آجاؤ، پھر ہم بات کرتے ہیں۔‘‘لیو بولا۔
’’ہاں، پہلے ہم کچھ کھائیں گے پھر بات کریں گے۔‘‘ گلوریا بولی۔
لیو اور گلوریا میٹین کا اپارٹمنٹ خوب روشن تھا اور کھانے کی میز آتش دان کے قریب کھینچ لی گئی تھی۔
’’بیٹھو۔‘‘لیو نے کہا۔
پیٹر بیٹھ گیا۔ اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھی اور دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔’’میرا خیال ہے ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ اگر ہم نے دیر کی…‘‘
گلوریا نے پیالہ اس کے آگے رکھ دیا۔’’کھاؤ!‘‘
پیٹر نے چمچہ اٹھایا اور منہ تک لے گیا پھر چباتا رہا اور نگل لیا۔ اسے بریڈ اور مچھلی کے علاوہ کچھ اور کھائے بہت عرصہ ہوگیا تھا۔
’’کیا ہوا؟ارے یہ تو رورہا ہے۔‘‘ گلوریا بولی۔
’’شش… پریشان نہ ہو، چپ کر جاؤ۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘ لیو نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
’’ہم مل کر کام کریں گے، دیکھیں گے تمھیں کس چیز کی ضرورت ہے، لیکن ابھی تمھیں صرف کھانا کھانا چاہیے۔‘‘لیو نے کہا۔
پیٹر نے گردن ہلائی۔ اس نے دوبارہ چمچہ اٹھایا اور کھانے لگا۔
ایک بار پھر وہ خود پر قابو نہ رکھ سکا۔ اس کا دل بھر آیا۔ اس کے گالوں پر آنسو بہنے لگے۔ ’’یہ بہت اچھا اسٹو ہے۔ میڈم میٹین۔‘‘ وہ بمشکل بولا۔
اس کے ہاتھ لرزے اور پیالہ بج اٹھا۔
جب پیٹر فارغ ہوا تو لیو میٹین نے اس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کر کہا۔’’ہاں، اب بتاؤ۔ تم کیا کہہ رہے تھے؟‘‘
پیٹر باغ سے شروع ہوا۔ اس نے اپنی کہانی کا آغاز اس سے کیا کہ اس کے والد نے اسے ہوا میں اچھالا اور پکڑ لیا۔ اس نے ایک ماں کے ذکرکے ساتھ بات شروع کی جو ہنستے ہوئے ایک سفید اجلے لباس میں ملبوس تھی، آسمان ارغوانی تھا اور چراغ جل گئے تھے۔
’’ہاں، میں سمجھ رہا ہوں۔ اب تمہارے والد کہاں ہیں؟‘‘
’’وہ ایک سپاہی تھے۔ میدان جنگ میں مرگئے۔ ولنا لٹز ان کا دوست تھا۔ وہ میرے والد کی موت کی خبر دینے ہمارے گھر آئے تھے۔‘‘
’’ولنا لٹز!‘‘گلوریا میٹین نے اس طرح کہا جیسے منہ میں کوئی کڑوی چیز آگئی ہو۔
’’جب میری ماں نے یہ خبر سنی تو اس کی طبیعت خراب ہوگئی۔ پھر میری بہن عدلی پیدا ہوئی۔‘‘پیٹر رک گیا۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا۔ ’’جب میری بہن پیدا ہوئی تو ماں دنیا سے چلی گئی۔ اس کے مرنے سے پہلے میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ میں ہمیشہ بہن کا خیال رکھوں گا، لیکن پھر میں ایسا نہیں کرسکا، کیوں کہ دائی بچی کو لے گئی اور ولنا لٹز مجھے اپنے ساتھ لے آیا، تاکہ مجھے سپاہی بننے کی تربیت دے سکے۔‘‘
گلوریا میٹین کھڑی ہوئی اور چلائی۔’’ولنا لٹز…!‘‘ پھر اس نے چھت کی طرف منہ اٹھا کر مکا لہرایا۔ ’’میں اس سے خود بات کروں گی۔‘‘
’’بیٹھو، براہ کرم بیٹھو۔‘‘لیو میٹین نے کہا۔
گلوریا بیٹھ گئی۔
’’اور تمہاری بہن کا کیا ہوا؟‘‘ لیو نے پیٹر سے پوچھا۔
’’ولنا لٹز نے مجھے بتایا تھا کہ وہ مردہ پیدا ہوئی تھی۔‘‘
گلوریا میٹین نے آہ بھری۔
’’مگر بعد میں اس نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے جھوٹ بولا تھا۔ وہ مری نہیں تھی۔‘‘
گلوریا میٹین غصے سے چلائی۔’’ولنا لٹز…!‘‘ اور چھت کی طرف دیکھ کر پھر مکا ہلایا۔
’’کاہنہ نے مجھے بتایا کہ وہ زندہ ہے۔ پھر میں نے خواب میں بھی یہی دیکھا۔ کاہنہ کا کہنا تھا کہ ہاتھی مجھے اس کے پاس لے جائے گا، لیکن آج… آج دوپہر میں نے ہاتھی کو دیکھا۔ وہ بہت غمگین ہے۔ اگر اسے واپس نہیں بھیجا گیا تو وہ مرجائے گا۔ جادوگر کو اسے وہاں بھیج دینا چاہیے۔‘‘
لیو کرسی سے اٹھا اور ہاتھ پیچھے باندھ لیے۔ اس کی گردن جھکی ہوئی تھی۔ وہ گہری سوچ میں گم کمرے میں چہل قدمی کرنے لگا۔ پھر وہ کھنکھارا اور بولا۔’’اچھا… اگر… لیکن…؟‘‘
’’بس بس… یہ سوال اٹھانے کا وقت نہیں ہے۔‘‘ گلوریا بولی۔
’’دھپ… دھپ… دھپ‘‘ اوپر کہیں سے ولنا لٹز کے لکڑی کے فرش پر چلنے کی آواز آئی۔
گلوریا نے چھت کی طرف غصے سے دیکھا۔
لیو نے سر ہلایا اور بولا۔’’ہاں، یہ ہمارے زنداں خانے جانے کا وقت ہے۔‘‘
پیٹر اٹھ کھڑا ہوا۔
گلوریا میٹین نے بڑھ کر اسے پیار کیا۔ وہ پھر رونے لگا۔
’’اوہ بے وقوف لڑکے۔ تم بہادر اور سچے ہو۔ تم دنیا کو بدلنا چاہتے ہو۔ تمھیں کون روک سکتا ہے؟ اتنے بہادر اور مخلص لڑکے سے بھلا کون پیار نہیں کرے گا؟‘‘

باب :14
کاؤنٹیس کے محل میں ہاتھی نے خواب دیکھا کہ وہ چمکتے نیلے آسمان کے نیچے گھاس کے وسیع میدانوں کے لامتناہی سلسلوں پر چل رہا ہے۔ سورج اس کی کمر کو گرم کر رہا ہے اور اس سے کچھ فاصلے پر ایک لڑکا کھڑا ہے۔ جب وہ اس کے قریب پہنچا تو لڑکے کو پہنچان گیا ۔وہ وہی تھا جسے دن کے وقت بھیڑ میں دیکھا تھا، لیکن اب وہ خاموش تھا۔ دونوں لمبی گھاس پر ایک ساتھ چلنے لگے۔ ہاتھی کو خیال آیا، اس لڑکے کی ہم راہی کتنی اچھی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میری زندگی میں سب کچھ درست ہونے والا ہے۔
کچھ دور جیل میں جادوگر تنکوں کے بستر پر چادر اوڑھے لیٹا تھا۔ اس کی نیند غائب تھی اور نظریں روشن دان سے باہر اس امید پر لگی تھیں کہ بادل چھٹ جائیں گے اور چمکدار ستارہ نظر آئے گا۔ وہ گزشتہ کئی راتوں سے سو نہیں پا رہا تھا۔ جیسے ہی وہ آنکھیں بند کرتا۔ اسے ہاتھی نظر آتا جو اوپیرا ہاؤس کی چھت توڑ کر میڈم لاون پر جا گرتا۔ وہ اب کچھ اور نہیں سوچتا تھا سوائے ہاتھی اور اس عظیم کرتب کے بارے میں جو اس نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ وہ تنہائی کا شکار تھا۔ اس نے سوچا، کاش میں کوئی انسانی چہرہ دیکھ سکوں، کوئی بھی، چاہے بدقسمت میڈم لاون کا چہرہ۔ وہ معذور خاتون چاہے الزام لگائیں، چاہے دھمکیاں دیں، میں پھر بھی خوش رہوں گا۔ اب وہ یہاں آئی تو میں انھیں چمکدار ستارہ دکھاؤں گا اور پوچھوں گا، آپ نے کبھی ایسی خوبصورتی دیکھی ہے؟ اسی دوران اس نے جیل کا دروازہ کھلنے کی آواز سنی اور پیروں کے دو جوڑوں کی آہٹ راہداری میں گونجنے لگی۔ جادوگر نے اٹھ کر چادر اوڑھ لی۔ پھر اس نے سلاخوں سے جھانکتے ہوئے تاریک راہداری میں لالٹین کی روشنی دیکھی۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ وہ چلّایا۔’’میں کنول لانا چاہتا تھا۔سمجھے میں کنول کا گلدستہ لانا چاہتا تھا۔‘‘
لیومیٹین نے لالٹین اوپر اٹھائی۔ پیٹر نے قیدی کو دیکھا۔ ایک لمبی، بے ترتیب داڑھی، ٹوٹے ہوئے ناخن، داغدار چادر جس میں سوراخ تھے۔ اگرچہ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں، لیکن وہ کسی خطرناک جانور کی آنکھیں لگتی تھیں۔ جن میں مایوسی، التجا اور غصہ ایک ساتھ نمایاں تھے۔ پیٹر کی امیدیں دم توڑنے لگیں۔ اس نے سوچا، شاید ہی کوئی یہ بے مثال کرشمہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، کیا اس سے ہاتھی کو واپس بھیجنے جیسے مشکل معاملے کا ذکر کرنا چاہیے؟
’’تم کون ہو؟ تمھیں کس نے بھیجا ہے؟‘‘ جادوگر نے پوچھا۔
’’میرا نام لیومیٹین ہے۔‘‘پولیس اہلکار نے کہا۔’’اور یہ پیٹر آگسٹس ڈوچین ہے۔ ہم تم سے ہاتھی کے بارے میں بات کرنے آئے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے، بات کرو۔‘‘ جادوگر نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
پیٹر نے کہا۔’’ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہاتھی کو واپس بھیج دیں۔‘‘
جادوگر ہنسا۔ اس کی ہنسی خوشگوار نہیں تھی۔’’ہاہاہا…واپس بھیج دوں، کیوں؟‘‘
’’اگر اسے واپس نہیں بھیجیں گے تو وہ مرجائے گا۔‘‘ پیٹر نے وضاحت کی۔
’’وہ کیوں؟‘‘
’’کیوں کہ اسے گھر کی یاد آرہی ہے۔ وہ اداس ہے۔ آپ نے اس کا دل توڑ دیا۔‘‘پیٹر نے کہا۔
’’تو اب آپ کو آرزو اور ٹوٹے ہوئے دل پر توجہ کی ضرورت ہے؟ ‘‘جادوگر نے آہ بھری پھر سر ہلا کر ہنسا اور بولا۔’’آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ جو کچھ ہوا وہ بہت خوبصورت، شاندار اور حیرت انگیز تھا اور وہ کیسی سبکی پر ختم ہوا۔‘‘
اس نے اپنی پیشانی جیل کی سلاخوں پر رکھی اور خاموش ہوگیا۔ پیٹر نے دیکھا وہ رو رہا ہے۔ بڑے بڑے آنسو اس کے چہرے سے بہہ کر اس کی داڑھی میں گم ہورہے تھے۔
’’مجھے یقین ہے۔‘‘پیٹر نے نرمی سے کہا۔
’’کیسا یقین؟‘‘ جادوگر نے سر اٹھائے بغیر پوچھا۔
’’مجھے یقین ہے۔ آپ اب بھی کرشمہ کرنے کے قابل ہیں۔‘‘ پیٹر بولا۔
جادوگر نے نفی میں سر ہلایا۔
’’دوبارہ کوشش کرنے میں کیا ہے۔‘‘لیو میٹین نے کہا۔
’’میں ایک بار کرچکا ہوں۔ کچھ نہیں ہوا۔‘‘ اس کے چہرے پر آنسو بہہ رہے تھے۔’’اور…میں نہیں چاہتا کہ ایسا ہو! وہ بہت خوبصورت ہے! وہ میری زندگی کا بہترین کرشمہ ہے۔‘‘
لیومیٹین نے کہا۔’’اسے گھر بھیجنا بھی ایک کرشمہ ہوگا۔‘‘
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘ جادوگر نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’براہ مہربانی۔‘‘پیٹر نے کہا۔
لیو کے ہاتھ میں لالٹین ٹمٹما رہی تھی، اس کا شعلہ لرز رہا تھا اور جادوگر کا سایہ اس کے پیچھے کوٹھری کی دیوار پر رقص کررہا تھا۔ پہلے وہ کم ہوا، تقریباً غائب ہوگیا، پھر بڑھتا گیا اور مالک کے اوپر لٹک گیا، جیسے اس سے بالکل مختلف اور الگ مخلوق ہو۔ سایہ بھی پیٹر کے ساتھ جادوگر کے فیصلے کا منتظر تھا۔
’’اچھا۔’’جادوگر نے کہا۔’’میں کوشش کروں گا، لیکن مجھے دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ ایک ہاتھی اور دوسری میڈم لاون۔ اس عورت کو ہاتھی کے ساتھ یہاں لے آؤ۔‘‘
’’لیکن کس طرح؟ یہ ناممکن ہے!‘‘ پیٹر نے چونک کر کہا۔
’’کرشمات کا تعلق ہمیشہ ناممکنات سے ہوتا ہے۔ وہ ناممکن سے شروع ہوتے ہیں اور ناممکن پر ختم ہوتے ہیں، اور درمیان میں بھی کئی ناممکن آتے ہیں۔ بس اس لیے وہ کرشمے ہیں۔‘‘جادوگر نے کہا۔

باب: 15
میڈم لاون کو اکثر رات کو نیند نہیں آتی تھی کیوں کہ وہ اپنی ٹانگوں میں درد کی وجہ سے تڑپتی رہتی تھیں۔ آج بھی ان کو درد پریشان کررہا تھا۔ وہ جاگ رہی تھیں اور ان کے حکم پر گھر کے باقی سب لوگ بھی ان کے ساتھ جاگ رہے تھے۔ مزید برآں، وہ سوویں بار پوری تفصیل کے ساتھ سننے پر مجبور تھے کہ کس طرح مادام لاون اس بدقسمت شام کو اوپیرا میں گئیں۔ وہ کیسے تھیٹر کی عمارت میں داخل ہوئیں۔ کیسے چھت ٹوٹی، کیسے ایک زندہ ہاتھی ان کی ٹانگوں پر آگرا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس وقت تھیٹر میں کتنا خوفناک منظر تھا۔ معزز خاتون نے مطالبہ کیا کہ تمام نوکر اس کی بات توجہ اور دلچسپی سے سنیں، خواہ وہ دلچسپی مکارانہ ہی ہو۔ اب وہ کہہ رہی تھی کہ کس طرح جادوگر نے تمام لوگوں میں سے انھیں چنا۔ جس کو وہ جادوئی تحفہ پیش کرنا چاہتا تھا۔ لونڈیاں، نوکرانیاں، باغبان اور باورچی، میڈم کے اردگرد جمع تھے، سب سن رہے تھے یا سننے کا مکر کررہے تھے۔ وہ کہہ رہی تھیں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کوئی ہاتھی آسمان سے گرے گا اور اگلے ہی لمحے وہ ایک ناقابل تردید حقیقت بن گیا۔ ہاتھی اپنے گھٹنوں کے بل گر گیا تھا۔
’’تو میں معذور ہوگئی۔‘‘میڈم لاون نے اپنی کہانی ختم کی۔’’ہاتھی نے مجھے معذور کر دیا۔ وہ چھت توڑ کر بالکل میرے اوپر آگرا۔‘‘
نوکر ایک ایک لفظ جانتے تھے۔ پوری تفصیل انھیں ازبر ہوگئی تھی، کسی سبق، نظم اور دعا کی طرح۔ اس لیے وہ مالکن کے ساتھ مل کر بولتے تھے، اونچی آواز میں نہیں، بلکہ ہلکے ہلکے خود کلامی کی طرح اور یہ ایک خفیہ مذہبی رسم کی طرح لگتا تھا۔ اس وقت، میڈم لاون کی حویلی کے دروازے پر دستک ہوئی۔ چوکیدار نے ہنس اک مین کو اطلاع دی کہ ایک پولیس اہلکار آیا ہے اور اسی وقت میڈم سے ملاقات کا خواہش مند ہے۔
’’اس وقت؟‘‘ میڈم لاون کے قابل اعتماد نوکر نے پوچھا۔
تاہم وہ دربان کے پیچھے گیا۔ حویلی کے سامنے کے دروازے پر چھوٹے قد اور بڑی مونچھوں والا ایک پولیس اہلکار موجود تھا۔ اس نے ہنس اک مین کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔’’شام بخیر! میں لیو میٹین ہوں۔ میں محکمہ پولیس میں خدمت انجام دیتا ہوں۔ تاہم، میں یہاں کسی دفتری کام سے نہیں آیا بلکہ میں میڈم لاون کے پاس ایک ذاتی درخواست لے کر حاضر ہوا ہوں۔‘‘
’’یہ میڈم لاون کے آرام کا وقت ہے۔ آج ان کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ہنس اک مین نے کہا۔
’’براہ مہربانی! یہ بہت ضروری ہے۔‘‘ اچانک ایک باریک آواز آئی۔ پولیس اہلکار کے پیچھے ایک لڑکا اپنے ہاتھوں میں فوجی ٹوپی پکڑے کھڑا کہہ رہا تھا۔
میڈم لاون کے نوکر نے لڑکے کی آنکھوں میں دیکھا…تو وہ اسے اپنی آنکھیں لگیں، جب وہ نوجوان تھا اور کرشمات پر یقین رکھتا تھا۔ اسے یاد آیا وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ دریا کے کنارے کھڑا ہے اور سفید کتا اڑتا ہوا دریا کے پار جارہا ہے، اچانک ہنس اک مین کو کتے کا نام یاد آگیا۔’’روز‘‘ گویا اس کے ذہن میں تصویر کا آخری ٹکڑا اپنی جگہ پر آگیا ہو۔ ہنس خوش ہوگیا۔
’’براہ مہربانی ہمیں اندر آنے دیں۔‘‘ پیٹر نے پھر کہا۔
ہنس کی نظریں دروازے سے باہر، پولیس اہلکار کو چھوتی، لڑکے کے پاس سے گزرتی گھنے اندھیرے میں دیکھنے لگیں۔ جہاں اس نے دیکھا کہ تیز ہوا چل رہی اور برف گرنے لگی ہے۔
’’اندر آجاؤ!‘‘اس نے کہا اور دروازہ کھول دیا۔ ’’آجاؤ! برف گرنے لگی ہے۔‘‘
برف واقعی گررہی تھی۔ بلتیس کے پورے شہر پر، زمین پر، تاریک گلی کوچوں اور راستوں کو سفید کرتے ہوئے، اوپیرا ہاؤس کی نئی اینٹوں پر، زنداں خانے کے میناروں اور پولونیا اپارٹمنٹس کی چھت پر جہاں سجے سجائے گھر تھے۔ وہ کاؤنٹیس کے محل میں ہاتھی کے لیے بنائے گئے بڑے دروازے کے دستے پر خوبصورتی سے جمع ہو رہی تھی اور گرجا گھر میں اس نے عجیب و غریب سفید پرنالوں کے سروں کو ڈھانپ لیا تھا۔ جو ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے لگ رہے تھے اور شہر کو نفرت اور حسد سے دیکھ رہے تھے۔ کشادہ شاہراہ پر شام کے جلتے لیمپوں کے نیچے گرتی برف تیز ہوا سے بھنور کی طرح گھوم رہی تھی، جہاں یتیموں کی پناہ گاہ کی سنسان عمارت واقع تھی، برف نے اسے اپنے گھنے سفید پردے میں لپیٹ لیا تھا، جیسے اسے انسانی نظروں سے چھپانے کی کوشش کررہی ہو۔
بارٹوک وین سوگیا تھا۔ اس نے سوتے میں خواب دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں چھینی ہے اور وہ ایک پتھر تراش رہا ہے۔ اس نے ایک ایسے کام کا خواب دیکھا جسے وہ جانتا اور پسند کرتا تھا۔ پتھر سے مجسمے بنانا۔ مگر اب خواب میں وہ پرنالے نہیں بنارہا تھا بلکہ وہ انسان تھے۔ ایک مجسمہ فوجی ٹوپی اوڑھے لڑکے کا تھا، دوسرا ایک چھوٹے آدمی کا جس کی بڑی مونچھیں تھیں، تیسرا وہیل چیئر پر بیٹھی ہوئی ایک معذور عورت کا اور اس کے ساتھ نوکر بھی تھا۔ پھر اس نے ایک چھوٹا آدمی بنایا جس کی پیٹھ پر کُب تھا اور گردن ٹیڑھی تھی۔ وہ حیران رہ گیا۔’’یہ تم ہو۔‘‘اس نے نیند میں کہا۔’’اور تم! کون ہو؟‘‘
برف باری جاری تھی اور سسٹر میری یتیموں کی پناہ گاہ کے دروازے پر بیٹھی خواب دیکھ رہی تھی کہ وہ دنیا کے اوپر اڑ رہی ہے اور ان کا چوڑا سیاہ لباس پروں کے جوڑے کی طرح ان کے پیچھے پھڑپھڑا رہا ہے۔ سسٹر میری نے ہمیشہ اپنے دل کی گہرائیوں سے یقین رکھا تھا کہ وہ اڑسکتی ہیں۔ اب وہ اس خوش نصیبی پر پھولے نہیں سما رہی تھی۔ خوابوں کو سچ ہوتے دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ سسٹر میری نے نیچے دنیا کو دیکھا۔ انھیں لاکھوں ستارے چمکتے نظر آئے۔ انھوں نے سوچا، کیا میں زمین پر نہیں اڑ رہی؟ میں ستاروں سے بھی اوپر اڑ رہی ہوں! لیکن پھر ان پر انکشاف ہوا۔ نہیں یہ زمین ہی ہے اور یہ ستارے، وہ ستارے نہیں ہیں، بلکہ خدا کی مخلوق ہیں۔ وہ سب بھکاری، کتے، یتیم، رحم دل بادشاہ، ہاتھی، اور سپاہی روشنی پھیلارہے ہیں۔ وہ باہر نکلتے ہیں اور چھوٹے روشن مینار بن جاتے ہیں۔ راہبہ کا دل غبارے کی طرح پھول گیا اور اسے اونچا اور اونچا اڑانے لگا۔ اگرچہ انھوں نے کتنی ہی اونچی پرواز کی، لیکن چھوٹی سی چمکتی ہوئی زمین ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوئی۔
’’اوہ، کتنا شاندار احساس ہے، لیکن مجھے اس کی توقع نہیں تھی، بلکہ اس کے برعکس کچھ دیکھنے کی توقع تھی۔‘‘ یتیم خانے کے دروازے پر رکھی کرسی پر درازسسٹر نے نیند میں کہا۔

باب: 16
ہنس اک مین، میڈم لاون کی وہیل چیئر کو دھکیل رہا تھا، لیومیٹین نے پیٹر کا ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ وہ چاروں تیزی سے برف سے ڈھکی سڑکوں پر کاؤنٹ کے محل کی طرف جارہے تھے۔
’’کیا ہورہا ہے؟ تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔‘‘ میڈم لاون نے بے چینی سے کہا۔
’’میرے خیال میں وقت آگیا ہے۔‘‘ ہنس اک مین نے کہا۔
’’وقت؟ کیسا وقت؟ کہاں سے آیا؟‘‘ میڈم لاون اور بھی پریشان ہوگئیں۔’’تم پہیلیوں میں بات کیوں کررہے ہو؟‘‘
’’زنداں خانے جانے کا وقت۔‘‘
’’لیکن آدھی رات کو اور زنداں خانہ دوسری طرف ہے۔‘‘میڈم لاون نے اپنا بازو ہلایا جس کی کلائی میں چوڑیاں اور ہر انگلی میں انگوٹھیاں تھیں۔
’’وہاں جانے سے پہلے، ہمیں ایک اور کام بھی ہے۔‘‘ لیو میٹین نے کہا۔
’’کیا کام؟‘‘ میڈم لاون نے پوچھا۔
پیٹر نے جواب دیا۔’’جادوگر کے پاس جانے سے پہلے ہم ہاتھی لینے جارہے ہیں۔‘‘
’’ہاتھی لینے؟‘‘ میڈم لاون اپنی کرسی میں تڑپ اٹھی۔ ’’ہاتھی کو اٹھانا آسان ہے؟ اسے جادوگر کے پاس کیوں لے جانا ہے؟ کیا وہ پاگل ہے؟ لڑکے کیا تم پاگل ہوگئے ہو؟ کیا پولیس والا بھی پاگل ہے؟ کیا تم سب کے دماغ خراب ہوگئے ہیں؟‘‘
ہنس اک مین نے فوراً جواب نہیں دیا۔’’ ہاں۔‘‘اس نے توقف کے بعد کہا۔’’میرے خیال میں یہی بات ہے۔ ہر کوئی تھوڑا سا پاگل ہوگیا ہے۔‘‘
پھر وہ خاموشی سے آگے بڑھتے رہے، ایک شریف خاتون اپنے نوکر کے ساتھ اور ایک پولیس اہلکار ایک لڑکے کے ساتھ۔ صرف وہیل چیئر کے پہیے چرچرا رہے تھے اور پاؤں کے تین جوڑے ٹکرا رہے تھے، لیکن پھر یہ تمام آوازیں برف میں دب گئیںجس نے سڑک کو ڈھانپ رکھا تھا۔ تاہم، میڈم لاون نے پھر خاموشی توڑی۔’’میں سمجھی نہیں، لیکن یہ بہت دلچسپ، انتہائی دلچسپ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کچھ بھی۔‘‘
’’بالکل ایسا ہی۔‘‘ہنس اک مین نے کہا۔
اسی دوران جادوگر اپنے زنداں خانے میں سوچ رہا تھا اگر وہ آگئے تو کیا ہوگا؟ اگر وہ واقعی ہاتھی کو یہاں لے آئے؟ پھر میں انکار نہیں کرسکوں گا۔ مجھ کو جادو کرنا پڑے گا۔ مجھے اس کا ساتھ چھوڑنا پڑے گا۔ افسوس، افسوس…
اچانک، جادوگر نے سر اٹھا کر روشن دان سے باہر دیکھا اور ہوا میں برف کے تودے ناچتے دیکھ کر حیران رہ گیا۔
’’زبردست!‘‘ اس نے بلند آواز میں کہا۔’’برف پڑ رہی ہے۔ کتنا خوبصورت منظر ہے۔‘‘
وہ کھڑا برف گرتے دیکھتا رہا۔ سب سے بڑے کرشمے کے ساتھ آنے والی جدائی کا غم جو وہ اپنی زندگی میں انجام دینے والا تھا، کم ہوگیا تھا۔ وہ تنہائی کا شکار، مایوس اور ناامید تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ شاید زندگی کے باقی دن یہاں جیل میں اکیلے گزارنے پڑیں۔
پیٹر، لیو میٹین، ہنس اک مین، اور میڈم لاون، کاؤنٹیس کے محل کی دیوار میں ایک ہاتھی کے لیے بنائے گئے گیٹ کے سامنے رک گئے۔ لیومیٹین نے دستک دی مگر دروازہ نہیں کھلا۔ آخر چاروں دستک دینے لگے۔ پیٹر لوہے کے دروازے پر مکے مار رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ ہمیشہ سے یہ کام کررہا ہے۔ سردی سے اس کی انگلیاں بے حس ہوگئی تھیں اور برف اس کے چہرے پر چبھ رہی تھی۔ ’’شاید یہ خواب ہے؟ شاید ہم سب ایک ہی خواب دیکھ رہے ہیں؟‘‘میڈم لاون نے کہا۔
پیٹر کو یاد آیا کہ گندم کے کھیت کا دروازہ کیسے کھلا اور اس نے عدلی کو اپنی بانہوں میں کیسے پکڑا۔ اور پھر اسے یاد آیا کہ ہاتھی نے کن نظروں سے اسے دیکھا تھا۔ وہ کتنی مایوسی کا شکار تھا۔
آخر اندر سے کسی نے پوچھا۔’’کون ہے؟‘‘
’’برائے مہربانی! ہمیں اندر آنے دیں!‘‘پیٹر چلایا۔
’’ہمیں اندر آنے دو!‘‘ لیو میٹین نے کہا۔
آخرکار ایک سخت آواز کے ساتھ بولٹ کو ہٹایا گیا، ہک واپس پھینکا گیا، چابی تالے میں گھمائی گئی اور آہستہ آہستہ، جیسے ہچکچاتے ہوئے، دروازہ کھلنے لگا۔ دہلیز پر ایک چھوٹا کبڑا آدمی کھڑا تھا۔ اس نے گلی میں قدم رکھا، باری باری اپنی گردن موڑ کر پہلے بائیں پھر دائیں گرتی برف کی طرف دیکھا اور ہنسا۔
’’کیا آپ نے دستک دی ہے؟‘‘ اس نے پوچھا اور ہنس دیا۔
جب پیٹر نے اسے بتایا کہ وہ کیوں آئے ہیں تو بارٹوک وین پھر ہنس پڑا۔
’’تو آپ ہاہاہا… ہاتھی کو لے جانا چاہتے ہیں، ہی ہی ہی… جیل میں، جادوگر کے پاس؟ اوہ میں یہ نہیں کر سکتا، یہ عجیب بات ہے! تاکہ وہ جادو کر کے اسے گھر بھیج دے، واہ ہاہاہا…‘‘
وہ اتنا زور سے ہنسا کہ وہ اپنا توازن کھو بیٹھا اور برف میں جاگرا۔
’’کیا مذاق کی بات ہے؟ ہمیں بتاؤ، ہم بھی آپ کے ساتھ ہنسنا چاہتے ہیں۔‘‘ میڈم لاون نے کہا۔
’’میرے ساتھ مل کر؟ ٹھیک ہے، ہنسو! آخر کل میں ایک ٹھنڈی لاش بن جاؤں گا۔ ہاہاہاہا! عمدہ مذاق؟ ذرا تصور کریں، کاؤنٹیس صبح اٹھتی ہے اور ہاتھی غائب۔ ہاہاہاہا… اسے چوری کرنے کی اجازت کس نے دی؟ بارٹوک وین کے سوا یہاں کوئی نہیں ہے۔ ہی ہی ہی … ‘‘
کبڑا منہ کھولے ہنسی سے لرز رہا تھا۔ اس کی ہنسی بے آواز تھی۔
’’اچھا، اگر تم صبح یہاں نہیں ہوئے تو کیا ہوگا؟‘‘ لیومیٹین نے پوچھا۔’’تم بھی ہاتھی کے ساتھ غائب ہوسکتے ہو؟‘‘
’’کیا؟ ہاہاہاہا۔‘‘ بارٹوک وین ہنس پڑا۔’’آپ نے کیا کہا؟ ہاہاہا…‘‘
’’میں نے کہا آپ بھی غائب ہوسکتے ہیں۔ آپ ہاتھی کی طرح اس جگہ پر پہنچ سکتے ہیں جہاں آپ کو ہونا چاہیے۔‘‘
بارٹوک وین ساکت ہوگیا۔ لیو میٹین، ہنس اک مین، پیٹر اور میڈم لاون سب انتظار کر رہے تھے۔
آسمان سے برف گررہی تھی اور اس کے بعد آنے والی خاموشی میں بارٹوک وین نے ان لوگوں کو پہچان لیا۔ یہ اس کے خواب کے لوگ تھے۔
اس رات کاؤنٹیس کے محل کے بال روم میں جب ہاتھی نے آنکھیں کھول کر پیٹر کو دیکھا تو اسے بالکل حیرت نہیں ہوئی۔ بس اس نے سوچا۔ یہ تم ہو؟ مجھے معلوم تھا کہ تم میرے پاس آؤ گے۔

باب: 17
ایڈو نے گرتی برف کو محسوس کیا تو چونک گیا۔ اس نے سر اٹھاکر ہوا کو سونگھا۔ اس میں برف کے علاوہ کسی اور چیز کی آمیزش بھی تھی۔ وہ اچھل پڑا اور اپنی دم ہلاتے ہوئے زور زور سے بھونکنے لگا۔
’’شش…شش۔‘‘ تھامس نے کہا، لیکن وہ مسلسل بھونکتا رہا۔ اسے یقین تھا کہ کوئی انہونی ہونے والی ہے اور وہ اس کا اعلان کرنے والا پہلا فرد ہوگا۔
پناہ گاہ کے اوپری منزل پر عدلی نے اپنی خواب گاہ میں کتے کے بھونکنے کی آواز سنی۔ وہ بستر سے اٹھ کر کھڑکی میں چلی آئی۔ برف پڑ رہی تھی۔ برفانی جھکڑ یوں چل رہے تھے، جیسے برف رقص کررہی ہو، وہ گلی کے لیمپوں کے نیچے چمکتے نظر آرہے تھے۔
’’برف، جیسے میرے خواب میں تھی۔‘‘ عدلی نے خود کلامی کی۔
کھڑکی پر کہنیاں ٹیکتے ہوئے اس نے دنیا کی طرف دیکھا جو سفید ہوتی جارہی تھی، اچانک برف کے پردے کے پیچھے عدلی نے ایک ہاتھی کو دیکھا جو گلی میں چلا آرہا تھا، اس کے ساتھ ایک لڑکا اور ایک پولیس اہلکار بھی تھا۔ ان کے پیچھے ایک نوکر وہیل چیئر سنبھالے ہوئے تھا جس پر ایک معزور عورت بیٹھی تھی اور ان سب کے پیچھے ایک کبڑا کشاں کشاں چل رہا تھا۔ اسی وقت عدلی نے بھکاری اور اس کے دوست سیاہ کتے کو بھی اس جلوس میں شامل ہوتے دیکھا۔
’’اوہ!‘‘ عدلی نے چونک کر کہا۔
اس نے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، خود کو یہ سمجھنے کے لیے نہیں روکا کہ یہ خواب ہے یا حقیقت۔ وہ فوراً ننگے پاؤں دوڑتی ہوئی تاریک سیڑھیوں سے نیچے دالان میں گئی، پھر سوئی ہوئی سسٹر میری کے پاس سے گزری اور یتیم خانے کا دروازہ کھول دیا۔’’میں یہاں ہوں!‘‘ وہ چلائی۔’’میں یہاں ہوں!‘‘ یہ کہہ کر وہ دوڑتی ہوئی باہر سڑک پر چلی گئی۔
کالا کتا ایڈو ،اس کے پاس دوڑا چلا آیا اور برف میں اس کے گرد چکر لگانے لگا۔ وہ بغیر کسی وقفے کے بھونک رہا تھا، جیسے کہہ رہا ہو۔ ’’اچھا تم یہاں ہو۔ ہم تمھیں ڈھونڈ رہے تھے۔‘‘
’’ہاں، میں یہاں ہوں۔‘‘ عدلی نے کتے سے کہا۔
سسٹر میری چونک کر بیدار ہوئیں اور عادت کے مطابق زور سے بولیں۔’’دروازے بند نہیں ہیں۔ ہم انہیں کبھی بند نہیں کرتے۔ دستک دیں اور داخل ہوجائیں۔‘‘
لیکن جب پوری طرح ہوشیار ہوئیں تو دیکھا کہ دروازے چوپٹ کھلے ہیں اور ان کے پیچھے رات کی تاریکی میں برف گر رہی ہے ۔ وہ اپنی کرسی سے اٹھی اور اچانک انھوں نے گلی میں ایک ہاتھی کو آتے دیکھا۔
’’بچاؤ… رحم کرو!‘‘ سسٹر میری چلائیں۔
اور پھر انھوں نے عدلی کو شب خوابی کے لباس میں ننگے پاؤں برف میں کھڑے دیکھا۔
’’عدلی!… عدلی!‘‘ سسٹر میری چلائی۔
عدلی نے ان کی آواز نہیں سنی، لیکن پیٹر نے سن لیا۔ وہ ہاتھی سے آگے نکل آیا۔ اس کے ہاتھ میں ٹوپی تھی، جسے وہ گھبراہٹ میں چرمر کررہا تھا۔
’’عدلی؟‘‘ اس نے دہرایا۔
جس طرح سے اس نے’’عدلی‘‘کہا وہ ایک سوال بھی تھا اور جواب بھی۔ اس کی آنکھیں ستاروں کی طرح چمک رہی تھیں۔ وہ معجزہ کا منتظر تھا۔ درحقیقت، وہ تمام منظر ستاروں اور سسٹر میری کے خواب کی روشنی کی طرح چمکدار تھا۔
اس نے دوڑ کر عدلی کو اپنی بانہوں میں اٹھالیا، کیوں کہ سخت سردی میں وہ برف پر ننگے پاؤں کھڑی تھی اور یوں بھی کہ ایک بار اس نے اپنی ماں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہمیشہ اس کا خیال رکھے گا۔
’’عدلی… عدلی۔‘‘ اس نے نام دہرایا۔
’’تم کون ہو؟‘‘ لڑکی نے پوچھا۔
’’میں تمہارا بھائی ہوں۔‘‘
’’بھائی۔‘‘
’’ہاں بھائی۔‘‘
وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی، پہلے بے یقینی سے، پھر پورے اعتماد اور خوشی کے ساتھ۔’’تم میرے بھائی ہو۔ تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
’’پیٹر۔‘‘
’’پیٹر…پیٹر…‘‘ عدلی کہا۔’’پیٹر، کیا تم ہاتھی لائے ہو؟‘‘
’’ہاں بھی اور نہیں بھی، دوسرے لفظوں میں وہ مجھے تمہارے پاس لے کر آیا ہے۔ بس سب کچھ کاہنہ کے کہنے کے مطابق ہوا۔‘‘ پیٹر ہنسا اور پلٹ کر چلایا۔ ’’لیو میٹین! یہ میری بہن ہے!‘‘
’’میں جانتا ہوں!‘‘ لیو نے جواب دیا۔’’ میں پہلے ہی سمجھ گیا تھا۔‘‘
’’یہ…یہ کون ہے؟‘‘ میڈم لاون پریشان تھیں۔
’’اس لڑکے کی بہن۔‘‘ ہنس اک مین نے کہا۔
’’میں کچھ نہیں سمجھی۔‘‘میڈم لاون نے غصے سے کہا۔
’’کرشمہ…کرشمہ ہوا ہے۔‘‘ ہنس اک مین نے کہا۔
راہبہ پناہ گاہ سے نکل کر برف سے ڈھکے فرش پر چلی آئی تھی۔ وہ لیو میٹین کے قریب رکی اور کہا۔’’سب کچھ کتنا شاندار ہے! اِس نے خواب میں ایک ہاتھی دیکھا اور اس کا خواب حقیقت بن گیا۔‘‘
’’ہاں، یہ ایک کرشمہ ہے!‘‘لیومیٹین نے اتفاق کیا۔
راہبہ اور لیو کے پاس کھڑے بارٹوک وین نے ہنسنے کی کوشش کی اور اپنا منہ کھولا، لیکن وہ ایسا نہ کر سکا۔
’’مجھے چاہیے…میں تمہارا مقروض ہوں…‘‘ اس نے بات شروع کی، لیکن پوری نہ کرسکا۔
اس دوران ہاتھی انتظار کر رہا تھا اور برف مسلسل گر رہی تھی۔ سب سے پہلے عدلی نے توجہ دی۔ اس نے بھائی سے کہا۔’’سخت سردی ہے۔ تم اسے کہاں لے جا رہے ہو؟‘‘
’’گھر۔‘‘ پیٹر نے کہا۔’’ہم اسے اِس کے گھر لے جا رہے ہیں۔‘‘

باب: 18
سب واپس چل دیے۔ پیٹر سب سے آگے ہاتھی کی رہنمائی کررہا تھا۔ اس نے عدلی کو گود میں اٹھایا ہوا تھا۔ لیومیٹین اس کے ساتھ تھا۔ ہاتھی کے پیچھے ہنس اک مین، مادام لاون کی وہیل چیئر چلا رہا تھا، ان کے پیچھے بارٹوک وین تھا، اس کا تعاقب بھکاری تھامس اپنے کتے ایڈو کے ساتھ کررہا تھا، اور سب کے پیچھے سسٹر میری تھی، جس نے پچاس سالوں میں پہلی بار پناہ گاہ کے دروازے پر اپنی نشست چھوڑی تھی۔
پیٹر برف سے ڈھکی گلیوں میں چلا جارہا تھا۔ اسے لگا ہر چیز چوک کے قمقمے، برآمدے، درخت، دروازے، یہاں تک کہ ہر اینٹ بھی اس کی طرف ایک قدم اٹھاتی اور سرگوشی میں وہی خوش کن الفاظ کہہ رہی ہے۔ جو اس نے ایک بار کہے تھے، جو خواب میں بدلے اور آخرکار سچ ہوگئے۔’’وہ زندہ ہے، وہ زندہ ہے، وہ زندہ ہے۔‘‘
وہ زندہ تھی۔ اس کی سانسیں پیٹر کے رخسار کو گرم کر رہی تھیں اور اس کا وزن کچھ بھی نہیں تھا۔ پیٹر ہمیشہ اسے اپنی گود میں اٹھائے رکھ سکتا تھا۔
ٹاور کی گھڑی آدھی رات کا گجر بجا رہی تھی۔ کچھ دیر بعد جادوگر نے زنداں کے بڑے بیرونی دروازے کے کھلنے ،پھر بند ہونے کی آواز سنی۔ پھر راہداری قدموں کی آوازوں سے گونج اٹھی۔ چابیوں کا ایک گچھا چھچھنایا۔
’’کون ہے؟ جواب دو۔‘‘جادوگر چلایا۔
کوئی جواب نہیں، لیکن لالٹین کی روشنی کے ساتھ ساتھ قدم بھی قریب آرہے تھے۔ آخرکار، ایک پولیس اہلکار نظر آیا جسے وہ جانتا تھا۔ وہ جادوگر کے حجرے کے قریب رکا اور اسے چابی دکھاتے ہوئے کہا۔’’وہ باہر تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
’’کون؟‘‘ جادوگر نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔’’کون میرا انتظار کررہے ہیں؟‘‘
’’سب لوگ۔‘‘ لیو میٹین نے کہا۔
’’کیا تم ہاتھی اور میڈم لاون کو ساتھ لائے ہو؟‘‘
’’ہاں، وہ موجود ہیں۔‘‘پولیس اہلکار نے جواب دیا۔
’’خداوند کریم! آخر عمل کا وقت آگیا۔‘‘جادوگر بولا۔
لیو نے سر ہلا کر تصدیق کی۔ پھر اس نے چابی سوراخ میں ڈال کر دروازہ کھولا۔
’’چلو، کسی چیز کو غائب کرنا اسے ظاہر کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ یہاں تم کو زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ تجربہ کار جادوگروں کے لیے بھی الٹا منتر کوئی آسان کام نہیں ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
جادوگر اس بات سے بخوبی واقف تھا، لہٰذا کئی مہینوں بعد سرد برفانی رات میں سڑک پر آکر اس نے خوشی محسوس نہیں کی، بلکہ وہ خوف زدہ تھا کہ اگر ناکام ہوگیا تو کیا ہوگا؟
پھر اس نے ہاتھی کو دیکھا۔ اس کا شاندار حقیقی کارنامہ، ناقابل یقین، اتنا خوبصورت، اتنا طلسمی۔ وہ برف میں سر جھکائے کھڑا تھا، لیکن یہ الٹا منتر شروع کرنے کا وقت تھا۔ اسے اپنی پوری کوشش کرنی تھی۔
’’کیا تم اسے دیکھ رہی ہو؟ اس نے یہ سب کیا ہے۔‘‘ میڈم لاون نے عدلی سے پوچھا جو اب ان کی گود میں بیٹھی تھی۔
’’وہ برا آدمی نہیں لگتا۔ بس اداس ہے۔‘‘ لڑکی نے کہا۔
’’لیکن اس نے مجھے اپاہج کر دیا! کیا اداس لوگ ایسا کرتے ہیں؟‘‘میڈم لاون نے کہا۔
’’میڈم!‘‘ جادوگر میڈم لاون کی طرف جھک گیا۔
’’میرا کنول کا گلدستہ لانے کا ارادہ تھا۔‘‘
’’تم شاید سمجھ نہیں رہے…‘‘میڈم لاون نے بات شروع کی۔
’’رکیں، میں آپ سے التجا کرتا ہوں۔‘‘ ہنس اک مین نے کہا۔
’’میں کنول لانا چاہتا تھا۔‘‘ جادوگر نے کہا۔’’میں کوئی بڑا کام کرنا چاہتا تھا۔ میں نے پوری مہارت کو استعمال کیا اور ہاتھی آگیا، آپ اپاہج ہوگئیں۔ یہ غیر ارادی تھا، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں۔ میں اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کروں گا۔‘‘
’’کیا میں دوبارہ چل سکوں گی؟‘‘ میڈم لاون نے پوچھا۔
’’مجھے نہیں لگتا۔‘‘ جادوگر نے جواب دیا۔’’ میں آپ سے معافی کا خواستگار ہوں۔ میرا مقصد آپ کو نقصان پہنچانا نہیں تھا۔‘‘
خاتون نے خاموشی سے اسے دیکھا پھر ہنسی اور منہ پھیر لیا۔
’’براہ کرم!‘‘ پیٹر نے التجا کی۔’’ہاتھی کو مت بھولیں۔ یہاں بہت سردی ہے۔ اسے گرم ملک… اپنے گھر جانا ضروری ہے۔ کیا آپ عمل شروع کرنے کے لیے تیار ہیں؟‘‘
’’ٹھیک ہے، چلو شروع کرتے ہیں۔ سب ایک ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں۔‘‘ جادوگر نے کہا اور آخری بار میڈم لاون کی طرف جھکتے ہوئے، وہ ہاتھی کی طرف مڑ گیا۔
پیٹر نے دھیرے دھیرے ہاتھی کے کھردری جلد پر ہاتھ پھیرا اور بولا۔’’میں آپ کو الوداع کہنا نہیں چاہتا۔‘‘اس نے آہ بھری ۔ ’’آپ نے جو کچھ کیا ہے اس کے لیے آپ کا شکریہ… خدا حافظ۔‘‘
اور پھر وہ بھی ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔
جادوگر آہستہ آہستہ کچھ پڑھتے ہوئے ہاتھی کے گرد دائرے میں گھومنے لگا۔ اسی وقت اس نے ستارے کے بارے میں سوچا، جسے وہ کوٹھری کے روشن دان سے دیکھتا تھا۔ پھر گرتی برف کو دیکھا اور میڈم لاون کے چہرے کا تصور کیا۔ اس کے پڑھنے میں تیزی آتی گئی۔ وہ مسلسل اور خلوص دل سے الٹا منتر پڑھ رہا تھا۔ تاہم، وہ جانتا تھا کہ سب کچھ قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے جادو کی کوئی حیثیت نہیں ۔ پھر اچانک… برف گرنی بند ہوگئی۔ آسمان حیرت انگیز طور پر صاف ہوگیا اور اس پر ہزاروں ستارے چمکنے لگے۔ ان ستاروں کو سسٹر میری نے فوراً دیکھا۔
’’دیکھو! دیکھو!‘‘اس نے اپنی انگلی اوپر کرتے ہوئے کہا۔
سب اوپر دیکھنے لگے۔ بارٹوک وین، تھامس، ہنس اک مین، میڈم لاون، لیومیٹین، عدلی، یہاں تک کہ ایڈو بھی۔
صرف پیٹر نے ہاتھی اور جادوگر سے نظریں نہیں ہٹائی تھیں جو مسلسل ہاتھی کے گرد چکر لگا رہا تھا اور کچھ پڑھ رہا تھا۔ لہٰذا صرف پیٹر نئے کرشمے کا واحد گواہ تھا، صرف پیٹر نے ہاتھی کو غائب ہوتے دیکھا۔ وہ وہاں کھڑا تھا اور اگلے ہی لمحے غائب ہوگیا۔ جیسے ہی وہ غائب ہوا، ستارے بھی غائب ہوگئے۔ کیوں کہ آسمان پھر بادلوں سے ڈھک گیا اور برف گرنے لگی۔حیرت ہے کہ بلتیس شہر میں شور و شرابے سے آنے والا ہاتھی اتنی خاموشی سے اسے چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ صرف برف گرنے کی ہلکی آواز سنائی دے رہی تھی۔ ایڈو نے ہوا سونگھی اور آہستہ سے بھونک کر استفسار کیا۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘ تھامس نے کہا۔’’وہ ابھی تھا، ابھی غائب ہوگیا۔‘‘
’’بہت خوب۔‘‘ لیومیٹین نے کہا۔
پیٹر نے جھک کر برف میں ہاتھی کے چار گول پیروں کے نشانات کا جائزہ لیا۔
’’چلاگیا۔‘‘ اس نے سرگوشی کی۔’’مجھے امید ہے کہ وہ اچھی جگہ ہوگا۔‘‘
پھر اس نے سر اٹھا کر اپنی بہن کی طرف دیکھا جو صدمے اور حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
پیٹر مسکرایا۔’’ہاتھی اپنے گھر گیا ہے۔‘‘ اس نے وضاحت کی۔
عدلی مسکرادی۔ اس کی مسکراہٹ میں عدم اعتماد کی جگہ غیر منقسم یقین تھا۔ وہ خوش تھی۔
جادوگر گھٹنوں کے بل گر گیا اور کانپتے ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا اور چلایا۔’’چلاگیا! میں نے ہاتھی واپس بھیج دیا۔ مجھے سب معاف کر دیں۔‘‘
لیومیٹین نے اپنا ہاتھ جادوگر کی طرف بڑھایا اور اسے اٹھنے میں مدد کی۔
’’کیا آپ اسے دوبارہ جیل لے جائیں گے؟‘‘ عدلی نے پوچھا۔
’’یہ میرا فرض ہے۔‘‘ لیومیٹین نے کہا۔
لیکن میڈم لاون بولی۔’’یہ بے معنی ہے۔ کیا یہ واقعی بے معنی ہے؟‘‘
’’آپ کیا کہہ رہی ہیں؟‘‘ ہنس اک مین کو بات سمجھ نہیں آئی۔
’’اسے جیل میں رکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘‘ میڈم لاون نے وضاحت کی۔’’میرے ساتھ جو ہوا وہ ہوچکا ہے۔ یہ اب تبدیل نہیں ہوسکتا، میں اس کے خلاف تمام الزامات واپس لیتی ہوں۔ میں کسی بھی کاغذ پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اسے رہا کیا جائے۔ اسے جانے دو!‘‘
لیومیٹین نے جادوگر کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ وہ میڈم لاون کی طرف متوجہ ہوا۔
’’میڈم!‘‘ اس نے کہا۔
’’جناب!‘‘ وہ بولیں۔
اور جادوگر چلاگیا۔
وہ سب کھڑے دیکھتے رہے۔ اس کی کالی چادر آہستہ آہستہ سفید برف کے پس منظر میں سیاہ نقطے میں تبدیل ہو رہی تھی۔ پھر وہ نقطہ ایک جگہ جم گیا۔ آخر جادوگر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
اس لمحے میڈم لاون نے ایک ناقابل یقین سکون محسوس کیا۔ جیسے ایک بہت بڑا پرندہ جو اپنے وزن سے ان کے کندھوں کو دبائے بیٹھا تھا، اچانک پھڑپھڑا کر اڑ گیا ہو۔ میڈم لاون زور سے ہنسی، اپنے بازو عدلی کے گرد لپیٹ کر اسے قریب کرلیا اور بولیں۔’’بچی ٹھنڈی ہورہی ہے۔ چلو میری گرم آغوش میں آجاؤ۔‘‘
اور یوں یہ کہانی ختم ہوئی۔ یہ بہت خاموشی سے ہوا۔ کیوں کہ دنیا کی ہر چیز کو ایک مہربان اور قادر ہاتھ نے آسمانوں سے برف بکھیر کر سفید اور ہموار کردیا تھا۔

باب: 19
اب پیٹر اور عدلی، لیو میٹین کے گھر میں رہ رہے تھے۔ وہاں اکثر تھامس اور اس کا کتا ایڈو بھی آجاتے۔ کتا ہمیشہ چولہے کے قریب بیٹھ جاتا اور تھامس گانے لگتا۔ وہ کبھی زیادہ دیر نہیں ٹھہرے، لیکن وہ اکثر آتے تھے، اس لیے لیو، گلوریا، پیٹر اور عدلی بھی تھامس سے گانا سیکھ گئے۔ اب وہ مل کر ہاتھی، سچائی اور خوشیوں کے بارے میں عجیب و غریب گانے گاتے تھے۔ جب وہ گا رہے ہوتے تو کبھی کبھار اٹاری کی چھت پر کھٹ کھٹ سنائی دیتی۔
ایسے میں عدلی وہاں جاتی اور ولنا لٹز سے پوچھتی کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ وہ عام طور پر واضح جواب نہیں دے پاتا، بس وہ کہتا کہ سردی ہے اور کھڑکی بند کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ کبھی کبھی، جب وہ بخار میں مبتلا ہوتا تو وہ عدلی کو اپنے پاس بٹھا کر اس کا ہاتھ پکڑ لیتا اور کہتا۔ ’’ہمیں دشمن کو گھیرنا ہے! میری ٹانگ کہاں ہے؟ میں پوچھتا ہوں۔ میری ٹانگ کہاں ہے؟‘‘
پھر وہ مایوسی اور اداسی سے کہتا۔’’میں بچی کو نہیں لے سکتا۔ درحقیقت وہ بہت چھوٹی ہے۔‘‘
’’چپ…کرجائیں۔ فکر نہ کریں۔‘‘ عدلی کہتی۔
بوڑھے جنگجو کے سوجانے کے بعد وہ نیچے گھر میں چلی آتی، جہاں سب اس کا انتظار کر رہے ہوتے۔
جب وہ کمرے میں داخل ہوتی تو پیٹر کا دل خوشی سے لبریز ہوجاتا۔ جیسے اس نے عدلی کو طویل عرصے بعد دیکھا ہو۔ جب بھی وہ اپنی بہن کی طرف دیکھتا، اسے سکون ملتا اور وہ خوش اور مطمئن ہوجاتا۔ اسے اپنے خواب کا گھر یاد آتا، گندم کی سنہری بالیاں، روشن آسمان اور سب سے خاص عدلی اس کی پیاری بہن جو آج اس کے ساتھ تھی۔ اس نے اپنی ماں سے کیا وعدہ نبھایا تھا۔
جادوگر چرواہا بن گیا اور بکریاں چرانے لگا۔ اس نے ایک ایسی عورت سے شادی کی جس کے دانت نہیں تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے پیار کرتے تھے۔ وہ ایک اونچے پہاڑ کے دامن میں ایک جھونپڑی میں بکریوں کے ساتھ رہتے۔ وہ کبھی کبھار گرمیوں کی شاموں میں پہاڑ پر چڑھتے اور سیاہ آسمان میں ستاروں کو دیکھتے۔ جادوگر نے اپنی بیوی کو وہ ستارہ دکھایا جسے وہ جیل میں اکثر دیکھتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ یہی ستارہ تھا جس نے اس کی مدد کی تھی۔ جادوگر نے پھر کبھی کرتب نہیں دکھائے اور نہ جادو کیا۔
ہاتھی نے بہت لمبی زندگی گزاری اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ لوگ ہاتھیوں کی حیرت انگیز یاداشت کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ بلتیس شہر میں اس کے ساتھ جو کچھ ہوا، اسے کچھ یاد نہیں۔ نہ اوپیرا ہاؤس، نہ جادوگر، نہ کاؤنٹیس اور نہ ہی بارٹوک وین۔ اسے یاد نہیں کہ برف کیا ہوتی ہے اور کتنی پراسرار طریقے سے آسمان سے گرتی ہے۔ شاید اس نے ان سب کے بارے میں سوچنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ کیوں کہ یادیں اسے تکلیف دیتی تھیں یا وہ ایک خواب کی طرح تھیں، ایک عجیب ڈراؤنا خواب جسے وہ بھول جانا چاہتا تھا۔
تاہم، بعض اوقات جب وہ لمبی گھاس سے گزر رہا ہوتا یا درختوں کے سائے میں دھوپ سے چھپ جاتا تو پیٹر کا چہرہ اس کی یادوں میں چمک اٹھتا اور اسے ایک حیرت انگیز احساس ہوتا ہے کہ اسے ڈھونڈا گیا، وہ مل گیا، وہ بچ گیا اور اس کی روح تشکر سے لبریز ہوجاتی ہے، حالاں کہ وہ نہیں جانتا کہ یہ کس کے لیے اور کس لیے ہے۔
ہاتھی شہر اور اس کے باشندوں کو بھول گیا اور وہ بھی ہاتھی کو بھول گئے۔ پہلے تو اس کی گمشدگی کے بارے میں بہت سی باتیں اور افواہیں پھیلیں، لیکن وہ جلد ہی ختم ہوگئیں۔ شہر کے لوگوں کی یادوں میں ہاتھی بس ایک ماضی کی شاندار مخلوق رہا، حیرت انگیز اور ناقابل یقین ۔ دھیرے دھیرے یادیں دھندلا گئیں، اب کسی کو یاد نہیں تھا کہ وہ کیسے اچانک ظاہر ہوا اور کیسے اچانک غائب ہوگیا۔

باب: 20
لیکن ایسا ہوا تھا اور ان حیرت انگیز واقعات کے اگرچہ کم، لیکن کافی مادی ثبوت اب بھی موجود ہیں۔ عظیم الشان شہر بلتیس کے بڑے گرجا گھر کے اوپر شاندار پرنالوں کے درمیان، ایک پتھر ہے۔ جس پر ایک ہاتھی چل رہا ہے، اس کے آگے ایک لڑکا ہے جس کی گود میں ایک بچی ہے اور اس کے پیچھے ایک جادوگر، ایک پولیس اہلکار، ایک راہبہ، ایک عظیم خاتون، ایک نوکر، ایک بھکاری، ایک کتا اور آخر میں ایک چھوٹا کبڑا بھی موجود ہے۔ وہ سب ایک دوسرے کو تھامے ہوئے ہیں۔ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، وہ آگے اور قدرے اوپر کی طرف دیکھ رہے ہیں جیسے ان کی نظریں ستاروں کی روشنی پر جمی ہوں۔ اگر آپ کبھی بلتیس شہر کا دورہ کریں تو بالکل نہ جھجکئے، مقامی لوگوں سے پوچھئے۔ ان میں یقینا کوئی ایسا ہوگا جو آپ کو اس گرجا گھر کا راستہ دکھا دے گا۔ اس مجسمے کی طرف، اس سچائی کی طرف جو صدیوں پہلے بارٹوک وین نے پتھر سے تراش کر ہمارے لیے وہاں چھوڑ دیا تھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top