skip to Main Content
بتاؤں

بتاؤں

محمد الیاس نواز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک ایسے سادہ دل کاذکر کہ جسے ’’بینگن‘‘پسند نہیں تھے۔اتفاق اور شرارت کی کہانی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج تو سرباز کے گھر کا دروازہ عجیب ہی بہار دکھا رہاتھاکسی نے تازہ’’ بتاؤں ‘‘(پنجابی میں ’’بینگن ‘‘کو’’بتاؤں‘‘کہتے ہیں)ہری ٹہنیوں سمیت توڑ کر بڑی ترتیب کے ساتھ اسکے دروازے پر لٹکا دئیے تھے۔ویسے یہ کون سی کوئی نئی بات تھی ۔ہر دوسرے دن محلے کے شرارتی نو جوان یا تو اس کے گھر میں بینگن پھینک جاتے یا پھر اس کے دروازے پربینگن لٹکا جاتے کیوں کہ بستی وزیرخان کے باقی ترکھانوں(بڑھئیوں)کی طر ح سرباز کو بھی بینگن سے سخت چڑ تھی۔بینگن کھانا پکانا تو دور کی بات اس کے آگے کو ئی نام بھی لے لیتا تواس کو بُرا لگتا تھا۔مگر زندگی بھی اس کے ساتھ عجیب ہی مذاق کرتی۔کبھی تو کسی کی شرارت کی وجہ سے اس کا واسطہ بینگنوں سے پڑ جاتا تو کبھی اتفاق سے اس کے سامنے بینگنوں کا ذکر آجاتا۔
سب سے پہلا اتفاق تو تب ہوا کہ جب اس کے سسرال والوں نے اسکی شادی کے لئے جو سوٹ بنوایا وہ ہلکے بینگنی رنگ کا تھا۔اور اس کے بعد جب بھی وہ سسرال جاتا’’ شوربے والے بینگن‘‘ پکے ہو تے۔
شادی کے فوراًبعد ایک دن اسکی پڑوسن غلامے کی بیوی اسکی بیوی سے ملنے آئی۔ دعا ء سلام کے بعد اس نے سرباز کی بیوی سے پوچھا کہ بہن آج کیا پکایا ہے تم نے ؟۔ اس کی بیوی نے جواب دیا کہ بہن میں نے تو آج دال پکائی ہے ۔اری بہن تم نے کیا پکایا ؟جب اس کی بیوی نے پوچھا تو پڑوسن تھوڑی شرمائی اور بولی ’’وہ ‘‘پکالئے تھے آج ،ابا بڑے شوقین ہیں نا ’’اُس ‘‘کے ۔اسکی بیوی کی سمجھ میں کچھ نہ آیااس نے پھر پوچھا بہن کیا پکایا ہے ۔پڑوسن نے پھر کہا ’’وہ‘‘۔سرباز کی بیوی نے ہنستے ہوئے پوچھا’’وہ‘‘ کیا مطلب ؟ تم نے اپنے’’ شوہر ‘‘غلامے کو ہی پکا دیا جو شرما کے کہہ رہی ہو ’’وہ‘‘۔آخر پڑوسن کو وہ بات کہنی ہی پڑی جو وہ نہیں کہنا چاہ رہی تھی ،وہ جھلا کے بولی ارے نہیں بھئی ’’بتاؤں ‘‘پکائے ہیں ۔سرباز اندر بیٹھا سن رہا تھا ۔وہ جھلا کے رہ گیا۔اس سے برداشت نہیں ہوا ۔وہ اُٹھا اور اپنے دوست کے گھر چلاگیا تاکہ اس سے وہ رقم وصول کی جاسکے جو اس کے دوست نے بطور قرض لی تھی ۔
اس نے دوست کے گھر کے دروازے پر جاکے آواز لگائی تو اس کا بیٹا باہر آیا۔سرباز نے اس سے پوچھا بیٹا ابو ہیں گے گھر پر؟بچہ بولا ابو تو نہیں ہیں گھر میں ۔کہاں گئے ہیں گے؟اس نے بچے سے سوال کیا۔چاچا وہ …ابو تو ’’بتاؤں ‘‘لینے گئے ہیں۔منہ تو اس کا ویسے ہی لٹکا ہوا تھا یہ سن کے اسکا منہ اور زیادہ لٹک گیا۔وہ اپنا لٹکتا ہوا منہ لئے دوبارہ گھر کی طرف آگیا ۔جب اپنی گلی میں داخل ہوا تو اتفاقاً سامنے سے فقیر آگیا اور اس سے پہلے کہ فقیر کوئی سوال کرتا پیچھے سے ایک آواز آئی سبزی لے لو تازہ سبزی۔سبزی والے کو دیکھ کرفقیر کو ترکیب آئی اس نے سوچا کہ اگر اس آدمی (سرباز)سے دوسروں کی طرح بھیک مانگوں گا تو یہ بھی ایک،دو روپے ہی دیدے گا۔لہٰذا اس نے ایک نیا انداز اپنایا اور منہ ٹیڑھا کرکے بولا:بھائی جی خدا کے نام پر دو کلو ’’بتاؤں‘‘ دلا دے ،اللہ تیرا بھلا کرے گا۔اب تو اس کا لٹکتا ہوا چہرہ سیدھا گھٹنوں پر آپڑا۔ظالم آدمی بتاؤں اور وہ بھی ’’خدا نام کے بتاؤں‘‘؟؟؟
وہ وا پس گھر آکے بو جھل دل کے ساتھ سو گیاکیوں کہ اسے اگلے دن کراچی کے لئے روانہ ہونا تھاجہاں اس کے گاؤں کے دوست رہتے تھے۔اسے شہر دیکھنے کا ویسے بھی بڑاشوق تھا اور پھر کراچی کا تو اس نے چرچا ہی بڑا سن رکھاتھا۔چنانچہ اسی لئے وہ کراچی کی سیر کے لئے جا رہا تھا۔
اگلے دن وہ بس کی سیٹ پر بیٹھا سوچوں میں گم تھا کہ کراچی ایسا ہوگا ….ویسا ہو گا ……..بازار گھوموں گا….سمندر دیکھوں گا…….کہ اسے ایک جھٹکا سا لگا جب برابر والی سیٹ پر بیٹھی ایک چھوٹی بچی نے اپنی امی کو موبائل فون دکھاتے ہو ئے کہا ’’امی…امی….یہ دیکھیں ……بتاؤں ….بتاؤں …..بھائی جان کا کیا میسج آیا ہے …یہ دیکھیں۔سرباز کو بھلا کیا سمجھ میں آنا تھا سوائے ’’بتاؤں‘‘ کے۔اس نے دل ہی دل میں کوسنا شروع کردیا ’’بیڑہ غرق ہووے ان کامپنی والوں کا یہ موبیل ہے گاکہ سبزی کی دوکان ہے گی، جو اب اس میں بھی ظالماں نے بتاؤں گھسا دئیے ہیں گے ۔ان کو بھی ہمارے ساتھ دشمنی ہے گی۔
ابھی وہ دل بھر کے کوس بھی نہیں پایا تھا کہ ایک دم اس کے کانوں میں چیختی ہو ئی آواز آئی۔بتاؤں آباد…….بتاؤںآباد…چلو بھئی بتاؤں آباد والے….وہ سوچنے لگا کہ شاید کنڈکٹر کوئی اس کا جاننے والا ہے اس لئے اس سے مذاق کر رہا ہے ۔مگر اس کو شدید حیرت ہوئے جب گاڑی رُکی اور ساتھ ہی کچھ لوگ بس سے اُتر گئے۔
یااللہ تیری زمین پر’’ بتاؤں ‘‘نام کا شہر بھی آباد ہے گا؟؟؟کیسے بیوقوف ہیں گے یہ لوگ جنہوں نے اپنے علاقے کا نام اس’’ منحوس سبزی‘‘ کے نام پر رکھا ۔پھر وہ بڑبڑایا ’’ارے جو لوگ اترے ہیں وہ بھی تو ’’بتاؤں‘‘کی طرح ہی تھے ناں….ویسے ہمیں تو یہ سفر بھی لڑ ہی گیا ہے گا۔چلو گاؤں میں تو لوگ ہم بڑھیؤں کے ساتھ مذاق کر لیتے تھے مگر یہ تو مذاق نہیں ہے ناں!….لے !بھئی سربازے !تجھے شہر جانا راس ہی نہیں آیا‘‘۔وہ بُرا سا منہ بنا کے بڑ بڑا۔اور ساتھ ہی چادر لپیٹ کر سیٹ پر لمبی ٹیک لگا کے سونے کی کوشش کرنے لگا۔
………………………………………………………….
کراچی پہنچ کر وہ بہت خوش تھا ۔اس کے دوست اس سے گاؤں کاحال احوال لے رہے تھے اور ساتھ انہوں نے اس سے سفر کا بھی تفصیلی حال احوال لیا۔اس نے بتایا کہ کس طرح اسے راستے میں ’’بتاؤں ،بتاؤں ‘‘سننا پڑا۔اس نے دونوں سے مخاطب ہو کے کہا ’’لو بھئی مجھے پتا ہے کہ تم لوگ اپڑیں گاؤں کا سوہن حلوہ بہت پسند کارتے ہو۔میں نے دو دن پہلے ہی اپڑاںیارہے نا جانو حلوائی اس کو آڈر دیدیا تھا کہ ذرا شپیشل سا حلوہ بنا کے اور اچھا سا پیک کارکے میرے گھار پُچادے ۔لو بھئی پرسوں اس کا لڑکا دے گیا تھا گھار پہ‘‘اور ساتھ ایک بڑا سا ڈبہ اپنے سامان سے نکال کر فیقے کی طرف بڑھا دیا ۔فیقا ڈبہ کھولتے ہی بولا ’’لے بھئی بڑا اچھا ہے ۔کس سے بنوایا تھا؟؟اپنا جانو حلوائی سے …..اور کس سے سرباز نے زو ر دے کے کہا۔لے بھئی اگر جانو سے بنوایا تھا تو پھر جانو اپنا کام کر گیا۔فیقا بولا توسرباز چونک پڑا’’وہ کیسے؟۔وہ ایسے، اور ساتھ ہی فیقے نے ڈبہ اس کی طرف بڑھا دیا۔جسے دیکھ کے وہ غصے سے آگ اور شرم سے پانی ہو گیا۔کیوں کہ حلوے کے ڈبے میں توبینگن کا سالن بھرا ہواتھا۔اب تو اس نے باقاعدہ خشوع خضوع کے ساتھ برا بھلا کہنا شروع کیا’’نی تیرا بیڑا غرق ہووے،نی جانیا !تیرا چھتیا ناس ہووے‘‘بڑی دیر تک اسکا یہ وظیفہ جاری رہا۔تھوڑا غصہ ٹھنڈا ہوا تو بولا ’’اچھا میں نے کون سا کراچی میں ہی بیٹھا رہنا ہے گا،جب واپس جاؤں گا تو چھوڑوں گا نہیں۔
فیقے اور گامے نے رخ موڑتے ہوئے پوچھا کہ ..ہاں ..بھئی سربازے کل کہاں چلنا ہے گھومنے ؟؟یار مجھے شہر کے بازار دیکھنے کا بڑا شوق ہے گا، سب سے پہلے مجھے یہاں کے بازار گھمالاؤ۔سرباز خوش ہو کے بولا۔دوسرے دن وہ اسے صدر لے گئے ا ور بازار میں داخل ہونے سے پہلے ہی اسے یہ کہہ کے بددل کردیاکہ یہ ہے کراچی کا سب سے بڑا ’’بتاؤں بازار‘‘۔اُس بیچارے کو کونسی اردو پڑھنی یا بولنی آتی تھی جو اسے پتا چلتا۔ انکا مقصد یہ تھا کہ اسے پہلے ہی بددل کردیا جائے تاکہ وہ کوئی فرمائش نہ کر سکے۔وہ دونوں ویسے ہی حددرجہ کنجوس تھے بھلا سرباز کو کیسے خریداری کرواسکتے تھے مگرپھر بھی اس نے ایک فرمائش کرہی دی ۔وہ بولا یار ….وہ…مجھے جو ہے….فوٹو..بنوانے کا بہت …شوق ہے گا …تو میں تصویر ضرور بنواؤں گا چاہے کچھ بھی ہو….بڑی دیر کے بعد بالآخران میں یہ طے پایا کہ تصویر تو وہ بنوادیں گے اور اس کو اچھا سا فریم بھی کروا دیں گے مگر اس شرط پر کہ یہ تصویر وہ گاؤں جاکر ہی کھولے گا۔وہ فوراًراضی ہو گیا چنانچہ انہوں نے سوچا کہ بازار گھومنے کے بعد تو حلیہ ہی بگڑ جائے گالہٰذا!پہلے تصویر بنوالی جائے ۔انہوں نے اسٹوڈیو سے سرباز کی تصویر بنوائی ،فیقے نے ڈیزائنر کو تصویر کی ڈیزائننگ کے بارے میں بتایا اور وہ آگے بڑھ گئے۔
جب وہ آدھا بازار گھوم چکے تو اس کے دوستوں نے سوچا کہ ہمارا دوست کیا کہے گا کہ کچھ کھانے کا بھی نہیں پوچھا۔وہ آئسکریم کی دوکان کے سامنے رکے ۔کنجوس تو وہ تھے ہی فیقے نے گامے کو اشارہ کیاکہ دیکھ تصویر پر کافی خرچہ ہو گیا ہے ۔گامے نے دور سے ہی آئسکریم والے کو ہاتھ سے اشارہ کرکے پوچھا کہ کون کون سی آئسکریم ہے ۔اس نے آئسکریم کی مشین کی طرف اشارہ کر کے پوچھا ’’بھّیا!بتاؤں؟‘‘مگر اس سے پہلے کہ وہ بتاتاگاما آگے بڑھ گیا کیوں کہ لفظ’’بتاؤں ‘‘نے اس کاکام کردیا تھا۔اس نے بات بناتے ہوئے زور سے فیقے کو بتایاتاکہ سرباز بھی سن لے کہ’’ شام ہو گئی ہے ناں… اور گرمی بھی زیادہ ہے تو صرف ’’بتاؤں کی آئسکریم ‘‘ بچی ہے۔
تھوڑا سا اور آگے گئے تو گنے کے رس کی دوکان آگئی فیقے نے سوچا کہ چلو یاریہ سستی چیز ہے یہ ہی پلا دیتے ہیں۔وہ جب دوکان پر آئے تو اتفاق سے وہاں دوکاندار کے پاس بینگنوں سے بھری تھیلی رکھی تھی ۔ دوکاندار نے وہ تھیلی اُٹھا کے اپنے بیٹے کو دیتے ہوئے کہا’’گھر جا رہے ہوتو یہ لیتے جاؤ،کل پکا لیں گے‘‘۔فیقے کوتو بات بنانے کا موقع مل گیا۔وہ دونوں کو کھینچتا ہوا دوکان سے آگے لے آیا اور بولا دیکھا تم نے اس کمبخت کو ؟بیٹے سے کہہ رہا ہے کہ رس میں ’’بتاؤں‘‘ کا ذائقہ کم ہو گیا ہے۔ گنوں کے ساتھ تھوڑے بتاؤں بھی ڈال دے۔سرباز پہلے ہی آئسکریم والی کہانی سے حیران تھا اب اس نے پریشانی سے پوچھاکہ ’’یار گاؤں میں تو ہم رس نکالتے ہوئے اسکا ذائقہ بڑھانے کے لئے اس میں لیموں کی ٹہنیاں ملادیتے ہیں مگر یہاں……؟….گامے نے اس کی طرف دیکھا اور بولا ہاں .ہاں..یار یہ کراچی ہے یہاں تو’’ کریلوں کا حلوہ ‘‘بن جاتا ہے۔اس دن اگر وہ باٹا کے شوروم میں بھی گھستے تو فیقا اورگاما جوتوں کو بھی ’’بتاؤں‘‘بنادیتے۔وہ بڑاپریشان ہوا کہ یااللہ میں کہاں آگیا ہوں۔لگتا ہے یہ ’’بتاؤں‘‘قبر میں بھی میرا پیچھا کریں گے۔
دوسرے دن گامے کے ایک دوست دانش نے انہیں کھانے پر بُلایااور بولا یار !چکن،بریانی اور کڑہائی وغیرہ تو ہم کھاتے ہی رہتے ہیں آج میں نے ایک اسپیشل ڈش بنوائی ہے ۔جب دسترخوان لگا اور کھانا سجا تو پتا چلا کہ’’ بھگارے بینگن‘‘ ہیں۔سربازنے تو اچار ،چٹنی سے گزارا چلا لیا۔دانش کھانا بھی کھاتا جاتا اور سرباز سے کہتا بھی جاتا’’بھیا!آپ کے نصیب ،کیا سُریلے پکے ہیں بھئی ،آج تک نہیں کھائے،سرباز منہ ہی منہ بڑبڑایا’’بتاؤں نہ ہوئے ’’خان مہدی حسن خان‘‘ہو گئے‘‘۔اب توایک لقمہ اس کے لئے زہر ہو گیااور اس کا دل شہر سے بھی پھرنے لگا۔پہلے بازار میں کیا ہوا اب مہمان نوازی نے مار دیا۔
اس سے اگلے دن تو حد ہی ہوگئی ۔سربازگامے کے مکان کے سامنے کھڑا دوکانوں پرلوگوں کو خریداری کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا کہ ایک عجیب جھگڑا کھڑا ہو گیا ۔ہوا یوں کہ ایک سادہ سا دیہاتی لڑکا جو شاید کراچی میں نیا آیا تھا۔وہ بوڑھے سبزی والے کے پاس آیا اور بولا دوکلو ’’بتاؤں ‘‘دیدو۔بوڑھا بولا بتاؤ؟؟؟لڑکے نے پھر کہا’’باباجی دوکلو’’بتاؤں ‘‘دیدو‘‘۔بوڑھا پھر بولا۔بتا بھی دے۔تیسری بار پھر لڑکے نے زور دے کے کہا’’دوکلو بتاؤں‘‘اتنے میں بوڑھے کو غصہ آگیا اس نے جوتی پیر سے اتاری اور لڑکے کو’’ مہریں‘‘ لگانے لگا۔ لوگ چھڑانے کے لئے آئے تو بوڑھا برس پڑا کہ کل کا بچہ ہو کے مجھ سے مذاق کرتا ہے ’’کہتا ہے بتاؤں؟اور پھر بتاتا نہیں ہے کہ کیا چاہئے‘‘بھلا اس کی اور میری عمر میں کوئی فرق نہیں ہے ؟؟۔سرباز کو پورے معاملے کا تو پتا نہیں چلا مگر’’ دوکلو بتاؤں‘‘ اس کی سمجھ میں آگئے ۔وہ دانت پیستے ہوئے بڑبڑایا’’چاچا اور مار اسکو تیری خیر ہووے اور مار۔اتنی سڑی گرمی میں یہ منحوس سبزی کھانے کا موسم ہے گا؟۔لے بھئی لڑکے تجھے اس سبزی نے پٹوایاہے گا‘‘بس پھر اس نے شہر سے واپس گاؤں جانے کا فیصلہ کرلیااوردوستوں کے روکنے کے باوجود دوسرے دن ہی گاؤں کے لئے روانہ ہو گیا۔
گاؤں پہنچ کے وہ خوشی خوشی بس سے اترنے لگا۔جب گیٹ پر پہنچا تو اسے چھت سے آواز آئی کہ ’’بچ بھیاٹوٹا ہوا ہے‘‘۔شایدکنڈکٹر کسی سواری کا سامان اتار رہا تھا۔جب تک سرباز نے اوپر دیکھا اتنے میں اُو پر والے کے ہاتھ سے ٹوکرا چھوٹ چکا تھا۔ٹوکرا چھوٹنے کی دیر تھی کہ سارے’’ بتاؤں‘‘ سرباز کے سر پر برس پڑے اور پھر غضب ہوا کہ جب دیکھنے والے بھی ہنس پڑے۔بات اتنی ہی ہوتی تو شاید اسے اتنا افسوس نہ ہوتا مگر اسکا چہرہ تو اس وقت ’’بتاؤں‘‘ جیسا ہو گیا جب اسے پتا چلا کہ یہ وہی ٹوکرا ہے جو اسے دوستوں نے کراچی سے تحفے میں دیا تھا۔وہ بڑبڑایا’’یار میں نے کیا بگاڑا ہے بھلا ان ’’بتاؤوں ‘‘کا۔یہ میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتے ہیں گے۔میں نے توآج تک ان کو کاٹا ہے گا، نہ کھایا ہے گا۔
گھر آکے سب سے پہلے اس نے اپنے سامان میں سے اپنی تصویر نکالی ۔واقعی بڑی کمال کی تصویر تھی۔اس تصویر کی کرامت یہ تھی کہ اس نے سرباز کو پہلے خوش کیااور پھر غمگین۔پہلے تو اس کی نظر تصویرکے پھولوں والے بارڈر(Border)اور خوبصورت فریم پر پڑی جسے دیکھ کر وہ بڑا خوش ہوا۔مگر جب تصویر میں اپنے چہرے کو دیکھا تو اس کا دل دھک سے رہ گیاکیوں کہ گردن پر آدھا تو چہرہ تھا اور آدھا…… ’’بتاؤں‘‘۔بُرا بھلا کہنے کے لئے اسے جس جس زبان کے جوجو الفاظ یاد تھے ان سب کو ملا کے اس نے دوستوں پر فراخ دلی کے ساتھ’’غائبانہ سلام‘‘بھیجے۔
گاؤں آنے کے کچھ ہی دن کے بعد رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو گیا۔سرباز کی خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ وہ حافظ قرآن تھا ۔اس نے گاؤں کی بڑی مسجد میں پہلی بار تراویح میں قرآن سنا کر سب کو حیران کردیا ۔سرباز اتنا خوبصورت اورد ل سوز آواز میں قرآن پڑھتا ہے یہ کسی کو پتا نہیں تھا۔جس دن اس نے تراویح میں قرآن ختم کیا اس دن سب لوگ خوش تھے اورسب گاؤں والے اس کی تعریف کر رہے تھے اور اس کو دعائیں دے رہے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسے کافی تعداد میں تحفے اور مٹھائیاں بھی پیش کیں۔اس کے علاوہ چھ چھ انچ موٹے گلاب کے پھولوں کے ہار بھی پہنائے گئے ۔مٹھائی کے ڈبوں سے تو خیر جو ’’چاندی ورق لگے بتاؤں‘‘ نکلے وہ تو الگ رہا مگر پھولوں کے ہاروں کی صحت پر جب تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ پہلے رسی میں چھوٹے چھوٹے بتاؤں پروئے گئے تھے پھر ان پر گلاب کے پھول دھاگے میں پرو کراچھی طرح مضبوطی سے لپیٹ دئیے گئے تھے۔
دوسرے دن ہی وہ اپنا دُکھڑا سنانے چوہدری شمیم کے گھر پہنچ گیا۔ایک وہی تو تھا جو سب کے دُکھ درد سن لیتا تھا۔اس نے سرباز سے کہا’’دیکھ سربازے! اس میں لوگوں کا کیا قصور ہے ۔آخر انہوں نے تم سے مذاق کیا ہے تو یہ سمجھ کے ہی کیا ہوگا نا کہ تم بڑے دل کے مالک ہو اور خوشی سے ان کے مذاق کو برداشت کروگے ورنہ وہ تم سے کیوں مذاق کرتے ۔وہ جانتے ہیں کہ تم خوش مزاج آدمی ہو ۔وہ تم سے محبت کرتے ہیں جب ہی تو تمہارے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔اتنی دیر میں اس کی مہمان نوازی کیلئے چائے اور پکوڑے آگئے ۔چوہدری نے اس سے کہا کہ غم نہ کر اور یہ لے تازہ پکوڑے کھا۔آجکل ہر چیز کی طرح سبزی پر بھی سائنسی تجربے ہو رہے ہیں ۔دو سبزیوں کے ملاپ سے تیسری سبزی اگا لی جاتی ہے۔اب دیکھو ناں ..یہ سبزی چائنا سے آئی تھی تو میں نے اس پکوڑوں میں بھی ڈلوادی ۔پکوڑے واقعی بڑے شاندار تھے ۔باقی سب نے تو ایک ،ایک ،دو،دوکھائے مگر سرباز تو پوری پلیٹ چٹ کرکے چائے کی پیالی اپنے سامنے رکھ کے ہنستے ہوئے بولا’’چوہدری صاحب!اللہ آپ کو برکت دے ،ویسے کبھی کبھی ہو جانے چاہئیں یہ ’’چائنا کی سبزی والے پکوڑے‘‘۔یہ سنناتھا کہ چوہدری نے پیچھے مُڑ کے چادر کے نیچے سے دو کلو کی ’’بتاؤوں‘‘کی تھیلی نکالی اور زبردستی اس کی گود میں دھکیلتے ہوئے بولا ’’یہ لے چائنا کی سبزی اور گھر جا کے پکوڑے بنوالے ۔میں نے کوئی دوکان نہیں کھولی ہے پکوڑوں کی‘‘ یہ سن کر تو سرباز کی انگلیاں جو وہ چاٹ رہا تھا منہ میں ہی رہ گئیں۔اور آنکھوں کے ڈھیلے پاؤ،پاؤباہر آگئے ۔بھلا ڈھیلے پاؤ،پاؤ کیسے باہر نہ آتے کہ وہ پکوڑوں میں ڈیڑھ پاؤ’’ بتاؤں‘‘ جو کھا بیٹھا تھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top