بہار نگر
احمد نعمان شیخ
۔۔۔۔۔۔
بہار نگر بہت ہی خوبصورت اورپر امن جنگل تھا۔ سینکڑوں سالوں سے جنگلکی حکمرانی مورس ببر شیر کے خاندان کے پاس تھی۔پچھلے پانچ سال سے شاکان ، بہار نگر کا بادشاہ تھا۔ جنگل کے تمام جانور ، پرندے اور حشرات شاکان کو پسند کرتے تھے۔ وہ ہر ایک کی فریا د سنتا، مظلوم کا ساتھ دیتا اور ظالم کو سزا دیتا۔ جب سے شاکان بادشاہ بنا تھا، اس نے جنگل کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔جنگل دن بہ دن مزید خوبصورت ہوتا چلا گیا اور زراعت کا شعبہ ترقی کرنے لگا۔ بہار نگر والے پھول اور سبزیاںدوسرے جنگلوں میں برآمد کرنے لگے۔ اسی لیے آس پاس کے دوسرے جنگلوں کے جانور بھی بہار نگر میں مستقل طور پر رہائش اختیار کرنا پسند کرتے تھے۔ جنگل میں خوشحالی تھی اور ضروریات کی چیزیں بہت سستے داموں ملتی تھیں۔
بہار نگر کے شمال میں بیگال نامی ایک چھوٹا سا جنگل تھا۔ آج اس جنگل کا بادشاہ، رولو اپنی وزیر جیری لومڑی کے ساتھ شاکان سے ملنے آیا ہوا تھا۔ شاکان نے ہمیشہ کی طرح مہمانوں کی کافی آئو بھگت کی۔
’’شاکان صاحب! آپ جانتے ہیں کہ ہمارا جنگل دن بہ دن ویران ہوتا جا رہا ہے۔ سبزہ بھی ختم ہو گیا ہے اور جنگل میں بہنے والی نہر بھی سوکھ رہی ہے۔ اللہ نے آپ کے بہار نگر کو واقعی اپنی قدرت سے مالا مال کیا ہوا ہے۔ کیا آپ ہمیں اس جنگل کا کچھ حصہ عنایت کر سکتے ہیں ؟‘‘ رولو نے کھانا کھانے کے بعد درخواست پیش کی۔
’’رولو صاحب! آپ کیسی بات کر رہے ہیں ؟ ہم اپنے جنگل کا حصہ آپ کو کیسے دے سکتے ہیں ؟‘‘ شاکان نے حیرت کا اظہار کیا۔
’’آپ شاید میرا مطلب نہیں سمجھے، ہمارے جنگل میں آبادی مستقل طور پر بڑھ رہی ہے اور وسائل ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم ایک نئی زمین کی تلاش میں ہیں۔ ہم آپ سے باقاعدہ معاہدہ کریں گے اور آپ کو زمین کا کرایہ ادا کریں گے۔ ‘‘ رولو نے وضاحت پیش کی۔
’’کرایہ۔۔۔۔‘‘ شاکان بڑبڑایا۔
’’جی بادشاہ سلامت! ہم آپ کوہر ماہ باقاعدہ کرایہ ادا کریں گے جس سے آپ کا جنگل مزید ترقی کرے گا۔ عوام مزید خوشحال ہو گی اور جب آپ اپنی زمین واپس لینا چاہیں ہمیں دو ماہ کا نوٹس دے دیں، ہم زمین خالی کر دیں گے۔ ‘‘ جیری لومڑی بولی۔
’’ہاں! یہ اچھی پیش کش ہے۔ ویسے بھی شمالی علاقہ خالی ہے، وہاں سردی کی شدت کی وجہ سے زیادہ جانور نہیں رہتے۔ ہم وہ علاقہ آپ کے لیے خالی کر سکتے ہیں۔ ‘‘ شاکان نے ہامی بھر لی۔ اس کے بعد دونوں فریقین میں معاملات طے کیے گئے اور دستاویزات پر دستخط ہوئے۔
اگلے مرحلے میں نقل مکانی شروع ہو گئی، بیگال کے لڑاکا جانور یعنی شیر، چیتا، بھیڑیا، ریچھ اور گینڈے بہار نگر میں بسنے لگے۔ یہ دیکھ کروزیر کالیا الو پریشان ہو گیا اور شاکان سے بولا:
’’حضور! میں خطرے کی بو سونگھ رہا ہوں۔ بیگال سے سب خونخوار اور لڑاکا جانور ہی ہجرت کرکے آئے ہیں۔ ہم سمجھتے تھے کہ رولو یہاں بھیڑ، بکریاں، ہرن اور بارہ سنگھا جیسے جانور بھیجے گا۔‘‘
’’کالیا! پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، معاہدے میں صرف یہ درج ہے کہ بیگال کے کچھ جانور ہمارے شمالی علاقے میں رہیں گے۔ کون سے جانور ہجرت کریں گے اور کون سے نہیں، اس بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ ‘‘ شاکان بولا۔
’’اگر ان سب جانوروں نے ہمارے علاقوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا اور ہمارے معصوم جانوروں کا شکار کر لیا تو بہت برا ہو گا۔ ‘‘ کالیا نے تشویش کا اظہار کیا۔
’’تم شمالی علاقے کے گرد اپنی فوج کی نفری بڑھا دو اور پہرا سخت کر دو۔ اس علاقے کا کوئی بھی جانور ہمارے علاقے میں آنا چاہے تو اس کی نگرانی کی جائے۔ ‘‘ شاکان نے حکم دیا تو کالیا الو بولا:
’’حضور ! آپ جانتے ہیں، ہماری فوج اتنی طاقتور نہیں ہے۔ ‘‘
شاکان کے پاس کالیا کی اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔
دن گزرنے لگے ۔آہستہ آہستہ شمالی علاقے کے جانور بہار نگر میں سیاحت کے بہانے آنے جانے لگے۔ کچھ عرصہ ان کی نگرانی کی گئی لیکن کوئی تشویش کی بات نظر نہ آئی بلکہ بیگال کے خونخوار جانور ہر موقع پر بہار نگر کے جانوروں کی مدد کرتے تھے۔ چوں کہ بہار نگر ایک پر امن جنگل تھا ، اس لیے مورس خاندان نے کبھی بھی اپنے دفاع پر توجہ نہ دی۔ بیگال کے ساتھ معاہدہ کرنے پر اب ان کا دفاع بھی مضبوط ہو گیا تھا۔
اس معاہدے کو ایک سال گزر چکا تھا ۔ ایک رات اچانک شمالی علاقے کے جانوروں نے بہار نگر کے مغربی حصے پر حملہ کر دیا ۔ تمام جانورخوابِ غفلت میں سو رہے تھے، اسی لیے اچانک حملے کی تاب نہ لا سکے اور بہت سے جانور ہلاک ہو گئے۔ رولو اور جیری لومڑی مزید جانوروں کے ساتھ مغربی حصے میں جمع ہو گئے اور اس علاقے پر بھی قبضہ کر لیا۔
’’بادشاہ سلامت!بہار نگر کے شمالی علاقے کے ساتھ ساتھ اب مغربی حصے میں بھی ہمارا قبضہ ہو گیا ہے۔ ‘‘ جیری بولی۔
’’ہاں جیری! ایک سال پہلے تم نے بہت اچھا مشورہ دیا تھا۔ پہلے شمالی حصہ کرائے پر حاصل کرو، اس کے بعد مغربی حصے پر حملہ کرو اور پھر جنوبی حصہ بھی اپنے قبضے میں لے لیں گے۔ ‘‘
’’اس کے بعد بہار نگر کے سب سے قیمتی علاقے گولڈن مینار پر بھی ہمارا قبضہ ہو جائے گا۔ وہ علاقہ ہمارے آباء و اجداد کا تھا، جس پر شاکان کا خاندان مورس قابض ہو گیاتھا۔ ‘‘
’’ہاں ہاں! ہمیں اپنا مقدس علاقہ گولڈن مینار بہار نگر سے واپس لینا ہو گااور وہ تب ہی ممکن ہو گا ، جب ہم تین چوتھائی حصے پر اپنا قبضہ جما لیں۔ ‘‘
’’بادشاہ سلامت! آپ فکر نہ کریں، وہ دن بھی جلد آئے گا۔ ‘‘ جیری مسکراتے ہوئے بولی۔
اگلے دن شاکان کو جب اس بات کا پتا چلا تو وہ بہت پریشان ہوا۔
’’حضور! میں نے آپ کو ایک سال پہلے ہی خبردار کیا تھا، مجھے اسی بات کا ڈر تھا۔ ‘‘ کالیا الو نے پریشانی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
’’میں جنگلستان کی عالمی عدالت میںجائوں گااور اپنا پورا حصہ واپس حاصل کروں گا۔ ‘‘ شاکان نے پر جوش انداز میں کہا۔
’’حضور! عالمی عدالت صرف طاقتور کی سنتی ہے، اسی کا ساتھ دیتی ہے۔ ہم ساری زندگی سیاحت اور زراعت پر توجہ دیتے رہے ، اپنے جنگل کو خوبصورت سے خوبصورت بناتے گئے اور ہمارا ہمسایہ طاقتور فوج بنا کر ہمارے آدھے حصے پر قابض ہو گیا ۔ ‘‘
’’تمہاری بات درست ہے۔ درحقیقت رولو ہمارے مقدس علاقے گولڈن مینار پر قبضہ کرنا چاہتا ہے لیکن میں ایسا ہونے نہیں دوں گا۔ اب ہمیں بھی ایک مضبوط فوج بنانا ہوگی، جدید اسلحہ خریدنا ہوگا تاکہ اپنے کھوئے ہوئے علاقے دوبارہ حاصل کر سکیں۔ ‘‘ شاکان ایک بار پھر پر جوش ہو گیا۔ کالیا جانتا تھا کہ یہ دیوانے کا خواب ہے۔ پچھلے پچاس سالوں میں جس شعبے پر توجہ نہ دی گئی، اب کیسے دے سکیں گے !
شاکان نے عالمی عدالت میں اپنا کیس پیش کیا لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی۔ رولو نے اپنا موقف پیش کیا کہ بہار نگر ایک کمزور ریاست ہے، دشمن اس پر حملہ کر کے ساری ریاست پر قابض ہو سکتا ہے۔ بیگال کا ساتھ بہار نگر کو مضبوط کرے گا۔ عالمی عدالت نے رولو کی بات مان لی اور فیصلہ رولو کے حق میں دے دیا۔
کچھ عرصہ گزرا تو منصوبے کے مطابق بہار نگر کے مغربی حصے پر بھی قبضہ کر لیا گیا اور اب شاکان اور اس کی عوام صرف مشرقی حصے تک محدود رہ گئے۔ شاکان اور اس کے وزراء عالمی عدالت میں بار بار اپنا کیس پیش کرتے لیکن اس بار بھی عالمی عدالت نے بیگال کا ساتھ دیا۔ کچھ عرصہ پہلے بہار نگر میں آنے والے چند مہمانوں نے پوری ریاست کا تختہ الٹ دیاتھااوربہار نگر کی فوج ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ شاکان نے اپنے دوست ریاستوں سے بھی بات کی لیکن کوئی بھی اس کی مدد کو تیار نہ ہوا۔
بہار نگر کے عوام اب بھی کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں جو انہیں بیگال سے آزادی دلوائے اور ان کے جنگل کی رونق پھر سے بحال ہو جائے، ایسا کب ہو گا ؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔
٭٭٭
’’دادا جان! یہ کیا ۔۔۔۔ میں نے تو آپ سے مسئلہ فلسطین کا پوچھا تھا اور آپ نے ہمیں بہار نگر کے جانوروں کی کہانی سنا ڈالی۔‘‘ دس سالہ حسن نے منہ بنا کر کہا۔ اس کی بات سن کر دادا جان مسکرا دیے اور حریم کی طرف دیکھ کر پوچھا:
’’کیا کہانی پسند نہیں آئی ؟‘‘
’’کہانی تو اچھی ہے لیکن آپ نے ہمیں کیوں سنائی؟‘‘
’’تم دونوں کو مسئلہ فلسطین اس سے بہتر انداز میں نہیں سمجھایا جا سکتا تھا۔ ‘‘ دادا جان نے مسکرا کر کہا اور پھر بولے:
’’بس بہار نگریعنی فلسطین اور بیگال یعنی اسرائیل۔بس دونوں ملکوں کی یہی کہانی ہے۔ یہ سرزمین فلسطینی عربیوں کی تھی جو ہزاروں سال سے یہاں آباد تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب ہٹلر نے لاکھوں یہودیوں کو مار دیا تو بچے کھچے یہودی اپنی ایک آزاد ریاست بنانا چاہتے تھے۔ 1948ء میںبرطانیہ نے انہیں فلسطین کے قریب ایک چھوٹا سا خطہ رہنے کے لیے دے دیا جس کا نام اسرائیل رکھا گیا۔ آہستہ آہستہ یہودی طاقتور ہوتے چلے گئے اور فلسطین پر قبضہ کرتے چلے گئے۔ اب حالات یہ ہیں کہ تقریباً تین چوتھائی حصے پر یہودی قابض ہو چکے ہیں۔ بیت المقدس مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے لیے بھی خاص اہمیت رکھتاہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے لیکن یہودی بیت المقدس پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ ‘‘
’’اوہ! یعنی وہ گولڈن مینار، بیت المقدس۔۔۔۔‘‘ حسن بولا۔
’’ہاں! آپ دونوں کو سمجھانے کے لیے میں نے یہ مثال دی ۔ ‘‘دادا جان بولے۔
’’دادا جان! تو فلسطینیوں کو ان کا حق کب ملے گا ؟‘‘
’’جیسے بہار نگر والے بھی کسی مسیحا کے انتظار میںہیں، ویسے ہی اس دنیا کے مسلمان بھی ۔ اس خطے میں امن کب ہو گا اور مسلمانوں کی آواز کب سنی جائے گی، یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ ‘‘
دادا جان نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ حسن اور حریم جان گئے تھے کہ دادا جان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔ دادا جان ہی کیا شاید کسی بھی مسلمان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔
٭٭٭