skip to Main Content

شہزادہ محفوظ اور پانچ دوست

عنوان: الشاطر محفوظ
مصنف: یعقوب شارونی
ترجمہ و تلخیص: محمد فیصل علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سمندر کے بیچوں بیچ ایک بے آباد جزیرہ واقع تھا۔اس جزیرے پر ایک بہت بڑا قید خانہ تھا جہاں سینکڑوں نوجوان قید تھے۔یہ سب نوجوان ملکہ نیکان کے قیدی تھے۔ملکہ نے انھیں اس لیے قید کیا ہوا تھا کہ وہ ملکہ کی طرف سے سپرد کردہ مہمات پوری کرنے میں ناکام ہوگئے تھے۔ ملکہ نیکان ریاست ”نامان“کی حکمران تھی۔اس کے خاوندبادشاہ قاسم وفات پاگئے تھے۔بادشاہ قاسم کی ایک خوب صورت بیٹی تھی،جس کا نام شہزادی مسکان تھا۔ملکہ نیکان شہزادی مسکان کی سوتیلی ماں تھی۔اس کی سگی اولاد نہیں تھی۔اب شاہی خاندان میں سے صرف شہزادی مسکان ہی اس سلطنت کے تخت وتاج کی مالک تھی،جس کے لیے اس کی شادی ہونا لازمی تھی لیکن ملکہ نیکان اپنی بادشاہت کو طول دینے کی اندھی لالچ میں مبتلا تھی،اس لیے وہ شہزادی کی شادی نہیں کرانا چاہتی تھی۔
اس نے شہزادی مسکان سے شادی کے لیے ایک اعلان کرا رکھا تھا کہ جو شخص فلاں فلاں شرائط کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جائے گا تواسے شہزادی کا ہاتھ دے دیا جائے گا اور اگر وہ شرائط مکمل کرنے میں ناکام رہا تو اسے جزیرے کے قید خانے میں عمر بھر کے لیے قید رہنا ہوگا۔ یہ اعلان سنتے ہی گردوپیش سے سینکڑوں نوجوان شہزادی سے شادی کرنے کے لیے سامنے آگئے لیکن ملکہ کی پیش کردہ شرائط ایسی ہوتی تھیں جن کا پورا ہونا بے حد مشکل تھا،مثلاً ملکہ کہتی کہ دنیا میں نایاب قرار پانے والے فلاں پرندے کو لے آؤ، صدیوں پہلے کے فلاں بادشاہ کے ہار کا موتی لاؤ،محدود وقت میں بھاری صندوقوں کو پہاڑ کی چوٹی پر پہنچاآؤ، وغیرہ۔ظاہر ہے ایسی ناممکن شرائط کوئی بھی پوری نہیں کرسکتا تھایوں شہزادی کی شادی میں تاخیر ہوتی جارہی تھی جب کہ ملکہ نیکان کی سلطنت کے دن بڑھتے جا رہے تھے۔
رفتہ رفتہ یہ خبر ارد گرد کے ملکوں میں بھی پھیلتی جارہی تھی۔ایک دن یہ خبر شہزادہ محفوظ تک بھی پہنچ گئی۔وہ ریاست”بہارستان“ کے گورنر کا بیٹا تھا۔اس نے اپنے باپ سے کہا:
”ابو جان!!اگر آپ کی اجازت ہو تو میں بھی قسمت آزمائی کرنا چاہتا ہوں۔“
اس کے والد نے جواب دیا:
”کیا تم بھی باقی لوگوں کی طرح قید خانے میں سڑنا چاہتے ہو؟،میں اس کی ہرگز اجازت نہیں دوں گا۔“
یہ جواب سن کر محفوظ رنجیدہ ہو گیا۔کئی دن گزرنے کے بعد بھی اس کا ملال ختم نہ ہوا۔یہ صورت حال دیکھ کر اس کے باپ نے کہا:
”لگتا ہے تم دل میں ٹھان چکے ہو، اس لیے تمھیں روکنا درست نہیں،جاؤ بیٹے اللہ کی امان میں،لیکن تدبیر کے ساتھ کام کرنا اور یہ میرا خاص گھوڑا بھی لے جاؤ۔“
محفوظ خوش ہو گیا اور کہا:
”مجھے اپنے پیارے ابو جان سے یہی امید تھی،مجھے دعاؤں کے ساتھ رخصت کریں۔“
”میری دعائیں تمھارے ساتھ رہیں گی۔“
والد نے کہا اور محفوظ چل پڑا۔اس کا گھوڑا منزلیں مارتا دوڑاجارہا تھا کہ اچانک اسے ایک نسوانی چیخ سنائی دی۔وہ اس وقت ایک گھنے جنگل سے گزر رہا تھا۔اس نے دائیں بائیں دیکھا اور چیخ کی سمت کا اندازہ کرکے گھوڑااس طرف ڈال دیا۔تھوڑی دیر بعد وہ چیخ وپکار کرنے والی عورت تک پہنچ چکا تھا۔
”کیا بات ہے، اے خاتون تم کیوں رو رہی ہو؟“محفوظ نے پوچھا۔
”ارے!!!یہ تو مکمل سفید گھوڑا ہے۔“عورت نے محفوظ کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے حیرت سے کہا۔
”اس کا کیا مطلب؟“محفوظ نے پوچھا۔
”اے بہادر جوان!!!میرے بیٹے کو کچھ دیوزادوں نے قید کرلیا ہے اور ان کی شرط یہ ہے کہ میں ایک ایسا گھوڑا لاؤں جو مکمل سفید ہو۔“
”اوہ!“ محفوظ چونکا۔”میں ان دیوزادوں سے لڑکر تمہارا بیٹا لے آتا ہوں، مجھے بتاؤ وہ کدھر ہیں۔“محفوظ نے پوچھا۔
”نہیں! مجھے وہاں اکیلے جانا ہوگا،تم گھوڑا دے دو تو مہربانی ہوگی۔“
عورت نے اصرار کیا۔اب محفوظ مجبور ہو گیا اور پھر اس نے اپنا گھوڑا اس کے حوالے کر دیا۔عورت مسکرائی اور گھوڑے پر سوار ہو کر اسے ایڑلگادی۔جیسے ہی گھوڑا وہاں سے آگے بڑھا اسے نور کے ہالے نے چاروں طرف سے گھیر لیا۔محفوظ پلکیں جھپکانا تک بھول گیا اور وہ گھوڑے کو دیکھتا رہ گیا۔اسی وقت اس عورت نے گھوڑا روکا اور محفوظ کی طرف مڑی اور کہا:
”اے جوان!! واپس گھر نہ جانا،تمہارا پیدل سفر کرنا ضروری ہے، اس لیے یہ گھوڑا میں لے کر جارہی ہوں۔راستے میں پانچ عجائب تمہارے منتظر ہیں۔“
محفوظ حیران رہ گیا،خدا جانے وہ عورت جن تھی یا فرشتہ تاہم اب محفوظ گھوڑے سے محروم ہو چکا تھا کیوں کہ اب وہ عورت بہت دور جا چکی تھی۔چنانچہ محفوظ پیدل مارچ کرتا چلا جارہا تھا۔ اچانک اس نے ایک عجیب چیز دیکھی اوروہ زور سے چونکا۔
٭٭٭
محفوظ جس راستے سے گزررہاتھاوہ راستہ بالکل صاف تھا۔وہاں کوئی رکاوٹ نہیں تھی لیکن اب اس راستے میں ایک چھوٹا سا ٹیلہ نظر آرہا تھا۔مزید عجیب بات یہ تھی کہ وہ ٹیلہ آہستہ آہستہ ہل رہا تھا۔اس کا رنگ بھی عجیب تھا۔محفوظ آگے بڑھا اور اس ٹیلے پہ چڑھ گیا۔اگلے ہی لمحے وہ ششدر رہ گیا۔وہ کسی ٹیلے پر نہیں تھا بلکہ وہ تو ایک بہت ہی لحیم شحیم موٹے انسان کے پیٹ پر چڑھا ہوا تھا جو نیند میں تھا اور نیند میں سانس لینے کی وجہ سے آہستہ آہستہ ہل بھی رہا تھا۔اس کا چہرہ بہت ہی ہیبت ناک تھا۔
محفوظ آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگا کہ اچانک اس کا پاؤں پھسلا اور وہ نیچے لڑھکتا چلا گیا،ساتھ ہی اس موٹے آدمی کی آنکھ کھل گئی۔وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور تڑپ کر کھڑا ہو گیا۔محفوظ اس کی پھرتی پہ حیران رہ گیا۔اس نے تلوار نکال لی۔تلوار کی جھنکار سن کر وہ فوراً اس کی طرف مڑا اور اس کو سامنے دیکھ کر ہنس پڑا۔ساتھ ہی اس نے دائیں بائیں کے دو پیڑ جڑ سمیت اکھاڑ کر اٹھا لیے،اب وہ ان پیڑوں کو محفوظ پر پھینک کر اسے کچل سکتا تھا۔یہ دیکھ کر محفوظ نے تلوار پھینک دی اور کہا:
”کاش! ہم دوست بن سکتے!“
اس کی بات سن کر اس موٹے آدمی نے درخت دور پھینک دیئے اور کہا:
”اگر تم مجھے کھانا کھلاؤ تو ہم دوست بن سکتے ہیں۔“
”واہ یہ ہوئی نا بات!! تمہارا نام کیا ہے دوست!!“محفوظ چہکا۔
”میرانام بدین ہے۔“
اس کے لب ہلے۔شہزادہ محفوظ نے اثبات میں سر ہلادیا،پھر اس نے تیرکمان سنبھال لیا اور شکار تلاش کرنے لگا۔وہ شکار کرتا گیا اور دیو ہیکل آدمی انھیں کھاتا گیا۔آخر شام ہوگئی اور محفوظ بھی تھک گیا تب وہ آدمی بولا:
”بس اتنا کافی ہے، اب میں چھ ماہ سکون سے گزار لوں گا۔“
”چھ ماہ؟ مطلب تم اب چھ ماہ کچھ نہیں کھاؤ گے۔“محفوظ نے شدید حیرت سے پوچھا۔
”جی ہاں۔“وہ ہنسا۔
محفوظ نے شکار کردہ جانوروں کے سر گنے تو وہ اب تک پینتیس ہرن،تیرہ بکریاں اور انیس خرگوش کھاچکا تھا۔یہ دیکھ کر محفوظ نے گہری سانس لی۔وہ رات انھوں نے آرام میں گزار دی۔ اگلے دن ان کا سفر شروع ہو گیا۔چلتے چلتے ان کا گزر ایک وادی سے ہوا۔ اچانک وہاں سخت تیز ہوا چلنے لگی حالانکہ افق بالکل صاف تھا اورآسمان پر آندھی طوفان کے آثار بالکل نہیں تھے۔لیکن اب شدید ہوا چلنے لگی تھی۔ہواکے جھکڑ اس قدر تیز تھے کہ محفوظ کے قدم اکھڑنے لگے، تب دیوہیکل آدمی نے محفوظ کو اٹھا لیا اور آگے بڑھنے لگا۔
کچھ دور آگے ایک عجیب نظارہ ان کا منتظر تھا۔پہاڑ کے دامن میں ایک آٹا پیسنے والی چکی نصب تھی اور تیز ہوا سے اس کے پر حرکت کررہے تھے اور یوں یہ کارخانہ چل رہا تھا۔عجیب بات یہ تھی کہ یہ ہوا ایک بہت لمبی ناک والے لمبے تڑنگے آدمی کی ناک سے نکل رہی تھی۔ اس نے ایک نتھنے پہ اپنی انگلی رکھی ہوئی تھی اور اس کے دوسرے نتھنے سے تیز ہوا نکل کر چکی کے پروں کو چلا رہی تھی۔محفوظ کا شدت حیرت سے برا حال تھا۔اسی لمحے بدین نے اسے آواز دی تو وہ چونک پڑا اور ناک سے ہوا نکالنا بند کردی۔
”کیا کررہے ہو دوست؟“بدین نے پوچھا تو وہ مسکرا دیا پھر کہا:
”شکر ہے تم نے مجھے دوست کہا ورنہ ابھی ہماری لڑائی شروع ہو چکی ہوتی۔“
”شکریہ دوست“بدین ہنسا۔
”کون ہو تم؟“لمبا آدمی ان کی طرف بڑھا۔
”میں شہزادہ محفوظ ہوں،میں ایک مہم پہ جارہا ہوں۔تمہارا نام کیا ہے؟“محفوظ نے اونچی آواز میں کہا۔
”میرانام انفی ہے اور میں اس چکی کا خادم ہوں۔“اس نے جواب دیا۔
”آپ چکی کیوں چلاتے ہیں،کیا یہ آپ کا اپنا کارخانہ ہے؟“محفوظ نے پوچھا تو وہ اداس انداز میں مسکرایا پھر بولا:
”نہیں شہزادے نہیں،یہ میرے مالک کی ہے،وہ بہت کنجوس ہے،میں تو پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں کھا سکتا۔“انفی نے براسا منہ بنایا۔
”اوہ!!“بدین کے منہ سے نکلا۔
”تم ہمارے ساتھ چلو ہم جہاں جارہے ہیں وہاں بہت زیادہ کھانا ہوگا۔“محفوظ نے کہا۔
”کیا واقعی؟“وہ چونکا۔
”ہاں بالکل اس نے مجھے بھی بہت کھانا کھلایا ہے۔“
بدین نے کہا تو وہ لمبا تڑنگا آدمی انفی بھی ان کے ساتھ چل پڑا۔راستے میں ایک جگہ اچانک وہ رکا اور دائیں بائیں غور سے دیکھنے لگا،پھر اس نے اپنے کان زمین سے لگادئیے جیسے کچھ سن رہا ہو۔تھوڑی دیر بعد وہ اٹھا اور کہا:
”دوستو!میری ناک کی طرح میرے کان بھی عجیب طاقت کے مالک ہیں۔میں کئی میل دور کی آوازیں سن سکتا ہوں اور ابھی مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ اس راستے پر چھ میل دور ایک گرم دلدل ہے جس کا پانی کھول رہا ہے،میں اس کے کھولنے کی آواز صاف سن رہا ہوں، اس لیے ہمیں راستہ بدل لینا چاہیے۔“
”اوہ، تم واقعی باکمال ہو دوست!“

محفوظ نے اس کی تحسین کی اور پھر انہوں نے راستہ تبدیل کر لیا۔ابھی وہ چند قدم ہی چلے ہوں گے کہ ان کے سامنے ایک کمزور سا شخص آگیا جس نے اپنی دونوں آنکھیں لکڑی سے چھپائی ہوئی تھیں۔
”اے جوان! کیا تمہاری آنکھوں میں تکلیف ہے؟“محفوظ نے پوچھا،مگر وہ چپ رہا۔
”مجھے لگتا ہے کہ یہ بے چارہ نابینا ہے۔“بدین نے افسوس سے کہا۔
تب وہ شخص ہنسا اور لکڑی کا ٹکڑا آنکھوں سے ہٹادیا، تب انھوں نے اس کی عقابی چمک دار آنکھیں دیکھیں،ادھر وہ جوان کہنے لگا:
”میرا نام حاد ہے۔میں سب کچھ دیکھ سکتا ہوں۔ میرے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں آسکتی۔میں تو دیواروں کے آرپار بھی دیکھ سکتا ہوں۔میں سینکڑوں میل دور بھی صاف دیکھ سکتا ہوں۔میں زمین کے اندر بھی دیکھ سکتا ہوں،البتہ جب میں نے قریب کی چیزیں دیکھنی ہوں تو میں یہ ٹکڑا آنکھوں پہ رکھ لیتا ہوں اور بس!“
”اوہ پھر تو تمہیں میرے ساتھ چلنا چاہیے،تم میری مہم میں میری مدد کروگے۔“محفوظ نے کہا۔
”ضرور میں نے تمہاری بہادری اور عقل مندی کے بہت قصے سن رکھے ہیں،میں تمہارے ساتھ ہوں۔“
وہ آدمی بولا تو بدین اور انفی شہزادے کو دیکھنے لگے جب کہ شہزادے نے سینے پہ ہاتھ رکھ کر اس کاشکریہ اداکیا۔اب محفوظ اپنے تین باکمال دوستوں کے ساتھ منزل کی طرف رواں دواں ہوگیا۔وہ سفر بھی کرتے اور آرام بھی،یوں وہ منزل کے قریب ہوتے جارہے تھے۔ ایک دن وہ سفر میں تھے کہ اچانک انہوں نے راستے کے ساتھ عجیب سی چیز دیکھی۔محفوظ نے قریب جا کر دیکھا اور کہا:
”یہ دو بڑے درختوں کے تنے ہیں۔شاید ہوا سے گر گئے ہیں۔“
”لیکن شہزادے ان تنوں پہ یہ عجیب بال کہاں سے آگئے؟“بدین نے کہا۔
”اوہ!“ تیز نگاہ شخص حادکی آواز سنائی دی۔
”کیا ہوا؟“محفوظ نے پوچھا۔
”یہ درختوں کے تنے نہیں بلکہ ایک سوئے ہوئے شخص کے بازو ہیں۔اس نے اپنے بازو پیچھے کیے ہوئے ہیں اور اب ہم اس کے سر کی طرف جارہے ہیں۔“
”کیا!!!“محفوظ چلایا۔
”جی ہاں، میں اسے دیکھ چکا ہوں۔“
تیز نگاہ آدمی ہنسا اور پھر وہ سب اس طرف چل پڑے۔کچھ دیر بعد وہ اس کے پاس پہنچ گئے۔اس کا قداور وجود بہت بڑا تھا۔
”تم کون ہو دوست؟“محفوظ نے پوچھا۔
”میں کامل ہوں۔میں اپنے بازو سکیڑ بھی سکتا ہوں اور لمبے بھی کرسکتا ہوں۔اس کے علاوہ میری اصل طاقت میری ٹانگیں ہیں۔ میں ایک قدم میں کئی کئی میل کا سفر کرسکتا ہوں۔“
”تم یہاں کیا کر رہے ہو؟“محفوظ نے پوچھا۔
”میں ایک بادشاہ کا غلام تھا۔اس نے ایک بار مجھے ایک مہم پر بھیجا تھا۔میں نے وہ مہم چند منٹوں میں مکمل کرلی اور واپسی پر میں سوگیا۔ میری کمزوری یہ ہے کہ مجھے نیند بہت آتی ہے۔میری اس غلطی پر اس نے مجھے وہاں سے نکال دیا۔“کامل بولا۔
”ٹھیک ہے، آج سے تم میرے دوست ہو،میرے ساتھ چلو۔“
محفوظ نے کہا تو اس نے ہامی بھرلی۔جلد ہی یہ قافلہ آگے بڑھ گیا۔محفوظ اور اس کے ساتھی جس جگہ سے گزر رہے تھے، وہاں گرمی بہت زیادہ تھی لیکن اچانک وہ چونک اٹھے۔انھیں ماحول کا درجہ حرارت بدلتا محسوس ہوا جیسے اچانک سردی آگئی ہو۔یہ صرف چند لمحوں کے لیے ہوا تھا پھر دوبارہ ویسے ہی گرمی ہوگئی تھی۔اسی وقت انہیں ایک درخت کے نیچے ایک آدمی سکڑا سمٹا ہوا نظر آیا۔اس نے بھاری بھاری کپڑے لپیٹے ہوئے تھے۔
”ارے میاں!! خیر تو ہے ہمیں گرمی جلائے دے رہی ہے اور تمہیں سردی لگی ہوئی ہے کیا؟“محفوظ نے پوچھا۔
”میں تم سے مختلف ہوں شہزادے یہ دیکھو!!“یہ کہہ کر اس نے اپنی چادر کو ہٹایا۔فوراً ہی ماحول میں خنکی بڑھنے لگی۔
”اوہ!!یہ کیا ہے؟“محفوظ نے پوچھا۔
”میں بارد ہوں۔میرے اندر سردی بھری ہوئی ہے۔“وہ بولا۔
”ٹھیک ہے۔تم چاہو تو ہمارے ساتھ چلو۔“
محفوظ نے کہا اور وہ بھی ساتھ چل پڑا۔آخرایک لمباسفر طے کرکے وہ شہزادی مسکان کی ریاست نامان جاپہنچے۔شہزادے نے اپنے دوستوں کو باہر ایک جگہ رکنے کو کہا اور خود آگے بڑھ گیا۔جلد ہی وہ محل میں داخل ہورہا تھا۔
٭٭٭
”تو تم شہزادی سے شادی کرنا چاہتے ہو؟“ملکہ نیکان نے محفوظ کو طنزیہ انداز میں دیکھا۔
”جی ہاں ملکہ عالیہ!!“
”ٹھیک ہے میری طرف سے تمہارے لیے مہمات ہیں، اگر وہ پوری کردو تو مجھے یہ رشتہ منظور ہے۔“
”ٹھیک ہے ملکہ آپ بتائیے؟“
”پہلی مہم یہ ہے کہ یہاں سے سو میل کے فاصلے پر نیلے جنگل میں ایک کنواں ہے جو بہت گہرا ہے،چند سال پہلے اس میں میری انگوٹھی گری تھی۔آج شام سے پہلے وہ لے آؤ،اگر ایسا نہ ہوا تو تمہیں جزیرے پہ قید کردیا جائے گا۔“
”ٹھیک ہے ملکہ عالیہ!!“
محفوظ نے کہا اور شہر سے باہر نکل آیا۔اب وہ سیدھا اپنے دوستوں کے پاس پہنچا اور ساری بات بتائی۔ابھی ان کا باہمی مشورہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ کامل اٹھا اور کہا:
”میں ابھی لاتا ہوں۔“یہ کہ کر وہ بھاگ کھڑا ہوا۔
”ارے ارے رکو!!!“محفوظ چلایا مگر وہ جاچکا تھا۔
سارے دوست اس کی جلدبازی پہ تلملا کررہ گئے۔کچھ دیر بعد وہ آندھی طوفان کی طرح لوٹا تو اس کا منہ لٹکا ہوا تھا۔
”کیا ہوا؟“دوستوں نے پوچھا۔
”مجھے انگوٹھی نہیں ملی۔“کامل نے منہ بنایا۔
”بھلے آدمی تم رکے ہی نہیں،پہلے ہم سوچ تو لیتے۔“محفوظ نے اسے سمجھایا۔
اس کے بعد محفوظ نے تیز نگاہ والے آدمی کو کہاکہ تم اچھی طرح انگوٹھی کو تلاش کرو۔اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے آنکھوں سے لکڑی ہٹائی، اس کی نگاہوں سے پردے ہٹتے چلے گئے اورپھر وہ انگوٹھی دیکھنے لگا،پھر وہ بولا:
”کامل اب تم جاؤ اور کنویں میں ہاتھ ڈال کر گول ڈبی تلاش کرو، وہ ڈبی پتھروں میں دبی ہوئی ہے۔وہ انگوٹھی اسی میں ہے۔“
یہ سن کر کامل ہوا ہوگیا،کامل کے جانے کے بعد وہ سب باتوں میں لگ گئے۔باتیں کرتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوا اور شام ہوگئی۔اچانک محفوظ کی نگاہ سورج پہ پڑی تو وہ چونک پڑا۔
”ارے ذرا کامل کو دیکھو وہ کہاں رہ گیا ہے؟“محفوظ نے پریشانی کے عالم میں حاد سے کہا۔
تیز نگاہ آدمی نے دیکھا تو کہا:
”شہزادے!!! کامل اس وقت کنویں کے قریب ہی ایک درخت کے نیچے سورہا ہے اور انگوٹھی اس کی جیب میں ہے۔“
”اوہ!!!“
محفوظ نے بے اختیار سر پکڑلیا اور پھر اس نے کہا:
”اسے فوری جگانے کی ضرورت ہے۔“
اب لمبی ناک والا انفی اٹھا اور اپنی ناک کا رخ ادھر کرکے ناک سے تیز ہوا نکالی،یہ ہوا تیز آندھی کی صورت میں کنویں کی طرف چلنے لگی اور درخت ہلنے لگے۔درختوں کے ہلنے سے ان کے پھل بھی گررہے تھے۔جس درخت کے نیچے کامل سو رہا تھا اس کے پھل بھی گرے اور سیدھے کامل کے سر پر لگے۔وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا،تب اسے یاد آیا کہ وہ تو انگوٹھی لینے آیا تھا۔اب وہ واپس روانہ ہوا۔تھوڑی دیر بعد وہ محفوظ کے پاس انگوٹھی لیے کھڑا تھا۔اس وقت سورج غروب ہونے ہی والا تھااوراب محفوظ کے پاس رکنے کے لیے بالکل وقت نہیں تھالہٰذامحفوظ محل کی طرف چل پڑا۔وہاں پہنچ کر وہ ملکہ کے پاس جا پہنچا۔ملکہ اسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔
”یہ لیجیے ملکہ عالیہ!!!“
محفوظ نے انگوٹھی ملکہ کو پیش کردی۔انگوٹھی دیکھ کرملکہ کا رنگ اڑ گیا اس نے الٹ پلٹ کر دیکھا تو یہ اس کی ہی انگوٹھی تھی۔
”ٹھیک ہے شہزادے!!!اگلی مہم کل صبح۔“ملکہ نے چہرے پر زہریلی مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا۔
محفوظ بھی مسکرا دیا۔
اگلے دن محفوظ ملکہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ملکہ بولی:
”تم نے کل بہت بڑی مہم سر کی ہے لہٰذا تمہیں بھوک تو لگی ہوگی،میرے محل کے ساتھ ایک فارم ہے۔وہاں تیس گائیں موجود ہیں۔ تم نے آج شام ہونے سے پہلے وہ سب کھانی ہیں۔یہ تمہاری دوسری مہم ہے۔“
محفوظ نے یہ بات سنی،پھرمسکرا کر گویا ہوا:
”ملکہ عالیہ اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اپنے ساتھ اپنے خادم کو بھی شریک کرلوں جو میرا کھانا بناتا ہے۔“
ملکہ سوچنے لگی پھر اس نے کہا:
”ضرور، تمہیں اجازت ہے۔“
اب محفوظ نے لمبی ناک والے انفی کو بلایا اور اسے تمام جانور کھانے کی دعوت دی۔ اس نے مر بھوکوں کی طرح کھانا شروع کر دیا۔ شام تک محل کے تمام جانور کھائے جاچکے تھے۔ملکہ نے شام کو محل کا چکر لگایا تو اس نے دیکھاکہ تمام جانور غائب ہیں۔اس نے محل کے خادموں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا:
”وہ سب جانورتو شہزادہ محفوظ اور اس کا خادم کھاچکے ہیں۔“
یہ سن کر ملکہ گرتے گرتے بچی۔شام کو اس نے شہزادے کو کل کے ناشتے کی دعوت دی جسے شہزادے نے قبول کر لیا۔اگلے روز انھوں نے بے تکلف ناشتہ کیا،اس کے بعد ملکہ نے کہا:
”تیسری مہم یہ ہے کہ تم کل سارا دن شہزادی کی نگہبانی کرو گے،اگر شام تک شہزادی کو کچھ ہوا یا وہ غائب ہوئی تو پھر تمہارا ٹھکانہ قید خانہ ہوگا۔“
محفوظ نے یہ مہم بھی قبول کر لی۔اب ملکہ نے یہ چال چلی کہ اس نے شہزادے کے مشروب میں نشہ آور دوا ملا دی۔کھانا کھانے کے بعد شہزادہ اور شہزادی کمرے میں آگئے اور باتیں کرنے لگے۔محفوظ کی آنکھیں نشہ آور دوا کی بدولت بند ہونے لگیں اور جلد ہی وہ سو گیا۔ ملکہ نیکان نے اپنے خاص بندوں کے ذریعے شہزادی کو اغوا کرلیا اور اسے سمندر میں ایک کشتی پہ باندھ کر چھوڑ دیا۔شام کے وقت شہزادہ گہری نیند سے جاگا اور شہزادی کو نہ پاکر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔اس کے بعد وہ بھاگتا ہوا اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہا:
”حاد!! فوراً شہزادی کو تلاش کرو۔“
”جو حکم شہزادے!!“
اس نے فوراً ہی اردگرد دیکھا تو اسے شہزادی سمندر میں ایک کشتی پہ بندھی نظر آئی۔اب شہزادہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گیا اور شہزادی کو واپس لے آیا اور پھر وہ دونوں اسی کمرے میں بیٹھ گئے۔سورج ڈوبنے کے بعد ملکہ اپنی کنیزوں کے ہمراہ خراماں خراماں چلتی ہوئی کمرے میں آئی۔اس کا خیال تھا کہ شہزادہ سورہا ہو گا اور شہزادی غائب ہو گی لیکن شہزادی اور شہزادہ تو ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے۔یہ دیکھ کر ملکہ کے ہوش اڑ گئے۔لیکن وہ بہت شاطر تھی، چنانچہ اس نے خود کو سنبھالا اور کہا:
”شاباش شہزادے!!،تم نے تینوں مہمات کامیابی سے مکمل کر لی ہیں۔اب کل شادی کی تقریب منعقد کی جائے گی لہٰذا تم اپنے تمام ساتھیوں سمیت ہمارے مہمان خانے میں آجاؤ۔“
محفوظ بہت خوش ہوا اور اپنے ساتھیوں سمیت مہمان خانے میں آگیا۔مہمان خانے کا فرش اور دیواریں پیتل کی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ پیتل کا بہت بڑا ڈبہ ہو۔دراصل ملکہ نیکان شہزادے کو جان بوجھ کر اس کمرے میں لائی تھی اور اب وہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے جارہی تھی۔اس نے اپنے خاص خادموں کو بلایا اور کہا:
”پیتل والے کمرے کے نیچے آگ جلاؤ،یہ آگ صبح تک بھڑکتی رہنی چاہیے۔تاکہ یہ منحوس کوئلہ ہو جائیں۔“
خادموں نے ایسے ہی کیا۔جیسے ہی آگ کے الاؤ جلے،کمرے میں گرمی بڑھنے لگی۔شہزادہ بوڑھی ملکہ کی چال سمجھ گیاتھا۔اب اس نے بارد کو کہا کہ تم اپنی چادر اتار دو تاکہ کمرے میں ٹھنڈک پیدا ہو اور درجہ حرارت معتدل ہو جائے۔اس نے شہزادے کی ہدایت کے مطابق ہی کیا اور یوں وہ آگ سے بچ گئے۔اگلی صبح ملکہ نے دیکھا کہ وہ سب صحیح سلامت ہیں تو وہ آگ بگولہ ہو گئی۔اب وہ کھل کر سامنے آگئی اور شہزادی کو اغوا کر کے ایک قلعے میں چھپا لیا اور شہزادے کے خلاف جنگ شروع کر دی۔شہزادے نے اپنے خادموں کے ساتھ مل کر ملکہ کی خاص فوج کے چھکے چھڑا دیئے اور جلد ہی ملکہ گرفتار ہوگئی۔یوں شہزادہ محفوظ نے شہزادی کو بازیاب کرا لیا۔اگلے دن ملکہ نیکان ویران جزیرے پر قید تھی جب کہ شہزادی اور شہزادہ تخت پہ بیٹھے مسکرا رہے تھے۔ان کا تخت شہزادے کے ساتھیوں نے اٹھایا ہوا تھا اور وہ سب خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top