skip to Main Content

انوکھا ہار

کہانی: A Necklace of Water Drops
مصنف: David MCRobbie
مترجمہ: ماہم احسن
۔۔۔۔۔
بہت عرصہ گزرا ایک عظیم بادشاہ جو سلطان کہلاتا تھا، چین پر حکومت کرتا تھا۔ یہ کہانی دراصل بادشاہ کی بیٹی شہزادی کی ہے۔ سلطان بہت امیر تھا۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک خوب صورت محل میں رہتا تھا۔ محل میں شہزادی کے بہت سے کمرے تھے۔ اسے بہت سے کمروں کی ضرورت تھی کیونکہ اس کے پاس بہت سی چیزیں تھیں۔ تمام کمرے چھت تک اس کی چیزوں سے بھرے ہوئے تھے۔ اس کو تحائف وصول کرنا بہت پسند تھا جو بہت زیادہ قیمت کے ہوتے تھے۔ ہر دفعہ جب بھی اس کے بابا کہیں جاتے تو واپسی پر وہ اپنی بیٹی کے لیے تحفہ ضرور لاتے۔ اگر کوئی سیاح محل میں ملنے کے لیے آتا تو وہ بھی ہمیشہ شہزادی کے لیے تحفہ لاتا۔ ملک کے تمام لوگوں نے یہ سن رکھا تھا کہ شہزادی کے پاس ہر وہ چیز ہے جو اسے پسند ہے۔ جب جب شہزادی کی سالگرہ آتی تو سلطان اس کے لیے پہلے سے ہی تحفہ خرید چکا ہوتا۔ لیکن اس شہزادی کی سالگرہ ہر ہفتے آتی تھی جب کہ ہر کسی کی سالگرہ سال میں ایک دفعہ آتی ہے۔
”ہم نے تمھاری سالگرہ پچھلے ہفتے ہی تو منائی تھی۔“ اس کے بابا نے کہا۔
”اچھا واقعی۔“ شہزادی نے اپنے بابا سے کہا:”اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں اس ہفتے دوبارہ سالگرہ مناؤں گی۔“
جیسے جیسے شہزادی بڑی ہوئی،اس کے پاس بہت سے تحائف جمع ہوتے گئے۔ جنھیں رکھنے کے لیے اور زیادہ کمروں کی ضرورت پڑتی گئی۔ جیسے ہی وہ ایک چیز حاصل کرتی تو دوسری چیزوں کے بارے میں سوچنے لگتی جو اس کو چاہیے تھیں۔
ایک دن شہزادی نے ایک امیر آدمی کے باغ میں ایک خوب صورت فوارہ دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ پانی ہوا میں اُڑتا ہے پھر نیچے چھوٹے سے تالاب میں گرتا ہے۔ بلا شبہ یہ ایک خوب صورت منظر تھا۔ یہ منظر اور بھی خوب صورت لگتا، خاص طور پر اس وقت جب سورج کی شعاعیں اس پر پڑتیں۔
شہزادی محل واپس پہنچی اور اس نے اپنے بابا سے فوارے کا مطالبہ کیا۔ سلطان نے اپنے ملازموں کو ایک خوب صورت فوارہ بنانے کا حکم دیا۔ ملازموں نے بہت محنت سے کام کیا۔ جب انھوں نے کام ختم کر لیا تو شہزادی اس خوب صورت فوارے کو دیکھنے آئی۔
”یہ واقعی بہت خوب صورت ہے۔“ وہ خوشی سے چلائی۔ اس نے اچھلتے ہوئے پانی کو دیکھا۔ ایک چھوٹا سا پانی کا قطرہ اس کے ہاتھ پر ٹپکا اور پھسلتا ہوا اس کی انگلی کے کنارے پر آ گیا۔ وہ کچھ سیکنڈ تک اس کی انگلی کے کنارے پر اٹکا رہا۔ قطرہ سورج کی روشنی میں چمک رہا تھا۔ شہزادی اس قطرے کو دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتی رہی۔
اس نے کہا:”بابا جان ایک اور بھی ایسی چیز ہے جو مجھے چاہیے۔“
سلطان خاموش رہا۔
”مجھے ایک پیارا سا ہار چاہیے جو میری گردن کے گرد نہایت ہی خوب صورتی سے لٹکا رہے۔“ اس نے جملہ پورا کیا۔
”لیکن تمھارے پاس تو پہلے سے ہی ہزاروں ہار ہیں۔“سلطان نے حیرانی سے کہا۔
”وہ ہار بالکل مختلف ہوگا۔“شہزادی نے جواب دیا: ”مجھے بس ایک ہی چیز چاہیے اور وہ ہے پانی کے قطروں سے بنا ہوا ہار!!!“
”پانی کے قطرے؟؟“ سلطان نے حیرت سے پوچھا: ”لیکن کوئی کیسے پانی کے قطروں سے ہار تیار کر سکتا ہے؟“
”مجھے کوئی پروا نہیں کہ یہ ہار کیسے بنے گا۔“شہزادی نے کہا۔
”مجھے یہ ہر حال میں چاہیے۔ کیوں کہ آج تک مجھے ایسی کوئی چیز نہیں ملی۔ میں چاہتی ہوں کہ جب ہم اگلی بار دعوت کریں تو میں یہ ہار پہنوں۔“شہزادی کے لہجے میں ضد تھی۔
سلطان خاموش رہا۔ اگلے دن اس نے اپنے غلاموں کو ملک کے سب سے بہترین جوہری کو بلانے بھیجا۔
”میں چاہتا ہوں کہ تم میری بیٹی کے لیے ایک خاص ہار تیار کرو۔“اس نے جو ہری کو حکم دیا: ”دراصل میں چاہتا ہوں کہ تم میری بیٹی کے لیے پانی کے شفاف قطروں کا ہار بناؤ۔“
”لیکن جناب! میں یہ کیسے کر سکتا ہوں؟“ بیچارہ جوہری چیخ اٹھا۔
”مجھے پروا نہیں کہ تم یہ کیسے کرو گے۔“ سلطان کے سر میں درد ہونے لگا:”لیکن کام شروع کرو۔“
جوہری واپس اپنی دکان پر گیا اور کام شروع کیا۔ اس نے مختلف قسم کے دھاگوں کو جمع کیا اور تھوڑا سا پانی مرتبان میں بھر لیا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ مرتبان میں ڈالا اور واپس نکال لیا۔ اس نے وہ تھوڑے سے پانی کے قطرے جو اس کے ہاتھ میں لگ گئے تھے دھاگے میں ڈالے پھر اس نے یہی عمل دوبارہ دہرایا۔ لیکن پانی کے قطرے پھسل کر زمین پر گر گئے۔ اس نے کوشش کی کہ قطرے دھاگے پر ٹھہر جائیں لیکن وہی ہوا جو پہلے ہوا تھا یعنی قطرے پھر گر گئے۔ اس نے پھر کوشش کی،بار بار کوشش کی کہ وہ ہار بنائے لیکن اس کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ وہ واپس سلطان کے محل میں پہنچا اور اس نے سلطان کو بتایا کہ وہ یہ نہیں کر سکتا۔
سلطان بہت ناراض ہوا۔ اس نے چاہا کہ وہ جو ہری کو سزا دے۔ اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ جوہری کو محل کے سب سے اندھیرے قید خانے میں پھینک دیں۔
”کسی دوسرے جو ہری کو ڈھونڈ کر لاؤ۔“ سلطان چلایا۔ لیکن دوسرا جوہری بھی پانی کے قطروں سے ہار نہیں بنا سکا۔ سپاہیوں نے اسے بھی محل کے سب سے اندھیرے قید خانے میں پھینک دیا۔
”تم تب تک یہاں رکو گے جب تک کوئی دوسرا جو ہری پانی کے قطروں سے ہار نہیں بنا لیتا۔“ سلطان غرایا۔ پھر اس نے اپنے غلاموں کو تیسرا جوہری لانے بھیجا۔
جلد ہی قید خانہ بھر گیا۔ ایک دن ایک بوڑھا آدمی محل میں پہنچا۔
”کیا تم جو ہری ہو؟“ سلطان نے پوچھا۔
”نہیں میں بھکاری ہوں۔“ بوڑھے آدمی نے جواب دیا: ”لیکن میں نے تمھاری مشکل کے بارے میں سن رکھا ہے۔“
”کیا تم پانی کے قطروں سے ہار بنا سکتے ہو؟“ سلطان نے خوشی سے پوچھا۔
”بالکل“ بوڑھے آدمی نے جواب دیا: ”یہ واقعی بہت آسان ہے۔ لیکن مجھے تھوڑی ہی مدد چاہیے۔“
”میں سلطان ہوں۔“ سلطان نے کہا۔ ”میں تمھیں ہر طرح کی مدد فراہم کر سکتا ہوں۔ مجھے بتاؤ تمھیں کیا مدد چاہیے۔“
”مجھے شہزادی کی مدد چاہیے کہ وہ پانی کے قطرے میرے لیے جمع کرے۔“ بوڑھے آدمی نے کہا:”جب شہزادی میرے لیے پانی کے قطرے جمع کرلے گی تو میں ان قطروں کو دھاگے میں پرو دوں گا۔ یہ ہار بہت خوب صورت لگے گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔“
سلطان نے شہزادی کو بلا بھیجا۔ اس نے بوڑھے آدمی کی بات سنی اور خوشی سے مسکرائی۔ وہ بھاگتی ہوئی فوارے کے پاس پہنچی اور ہاتھوں کا پیالہ بنا کر اس میں پانی بھرنے لگی۔ مگر جب وہ واپس پہنچی تو اس کے ہاتھ خالی تھے۔
”کوئی بات نہیں۔“بوڑھے آدمی نے کہا:”دوبارہ جاؤ اور پانی کے کچھ قطرے لے کر آؤ۔ میں یہاں تمھارا انتظار کر رہا ہوں۔“
شہزادی دوبارہ فوارے کے پاس پہنچی اور پانی کے قطرے جمع کیے۔ لیکن جب وہ بھکاری کے پاس پہنچی تو اس کے ہاتھ خالی تھے۔ وہ سمجھ گئی کہ کوئی بھی پانی قطروں سے ہار نہیں بنا سکتا، یہ نا ممکن ہے۔
”بیوقوف لڑکی!“ بھکاری نے کہا: ”اگر تم پانی کے قطرے جمع نہیں کر سکتیں تو میں تمھارے لیے ہار کیسے بناؤں؟“
شہزادی نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
”اور وہ سارے جوہری کیسے تمھارے لیے ہار بنا سکتے ہیں؟“ بھکاری کہتا چلا گیا۔
”بیوقوف لڑکی!“ اس نے دہرایا اور چلا گیا۔
سلطان نے بھکاری کی باتوں پر غور کیا تو وہ بھی سمجھ گیا کہ وہ بھی بیوقوف بن چکا۔ اس نے قید خانہ کھلوایا اور تمام جوہریوں کو ان کے گھر واپس بھیج دیا۔ بعد میں سلطان نے اپنی بیٹی کو اور تحائف نہیں دیے۔ یہاں تک کہ اس نے اپنی بیٹی کے سب سے اچھے تحفے بیچ دیے اور پیسے ان جوہریوں کو بھجوائے جن کو اس نے قید خانے میں بند کیا تھا۔
شہزادی نے بھی اپنی بہت سی چیزیں چین کے غریب لوگوں کو دے دیں۔ وہ ایک بہت اچھی، خاموش اور مہربان لڑکی بن چکی ہے۔ وہ اب اپنی سالگرہ بھی سب کی طرح سال میں ایک بار ہی مناتی ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top