عمّون کی تباہی
ناول:The Magician’s Nephew
مصنف: C.S.Lewis
مترجم: ظفر محمود
۔۔۔۔۔
جادُو کی انگوٹھیاں
عُرفی اِس پرانے اور تاریخی شہر خان گڑھ کے آخری حصّے میں ایک پُرانے سے مکان میں رہتا تھا۔ اُس کا مکان دوسرے مکانوں کی لمبی قطار کے بالکل بیچ میں واقع تھا۔ اُن سب کی چھتّیں آپس میں ملی ہوئی تھیں۔ ایک دِن عُرفی اپنے مکان کے صحن میں کیاری کے پاس ٹہل رہا تھا کہ صحن کی دیوار کی دوسری طرف سے اُسے ایک لڑکے کا چہرہ نظر آیا جس کی عمر تیرہ چودہ سال ہو گی۔ اُس لڑکے کو دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا۔ کیوں کہ برابر والے مکان میں اُس نے کبھی کسی لڑکے کو نہیں دیکھا تھا۔ وہاں تو صرف دو بوڑھے بہن بھائی دانیال صاحب اور ثریّا بیگم رہا کرتے تھے۔ اُن کے ساتھ ایک بوڑھی ملازمہ اور ایک بُوڑھا سا نوکر بھی رہتا تھا۔ اُن کے علاوہ اُس نے کبھی بھی اُس مکان میں کسی کو نہیں دیکھا تھا۔ اب اُس اجنبی لڑکے کو دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا۔ پھر اُس نے دیوار کے پاس جا کر اُس لڑکے کو آواز دی:
’’سنو! تمہارا کیا نام ہے؟‘‘
’’میرا نام اشعر ہے۔ اور تمہارا نام؟‘‘
’’میں عُرفی ہوں۔ تُم اِس مکان میں کب آئے؟‘‘
’’میں اپنے ابّو کے ساتھ دوسرے شہر میں رہتا ہوں۔ میری امّی کی طبیعت بہت خراب ہے۔ میرے ماموں اور خالہ یہاں رہتے ہیں۔ میری امّی کو ڈاکٹر نے آب و ہوا بدلنے کے لیے یہاں بھیجا ہے۔ میں امّی کے ساتھ آیا ہوں۔ مگر میرا یہاں دِل نہیں لگ رہا ہے۔ مُجھے تو اپنے ماموں اور خالہ عجیب سے نظر آتے ہیں۔ خالہ ہر وقت بہکی بہکی باتیں کرتی رہتی ہیں اور ماموں پتا نہیں چھت والے کمرے میں کیا کرتے رہتے ہیں۔‘‘ کہتے کہتے اشعر کی آواز بھرّا گئی۔
اُس کی باتیں سُن کر عُرفی کو اُس سے ہمدردی سی ہو گئی۔ وہ پھر بولا۔’’تمہارے ماموں کیا کرتے رہتے ہیں؟‘‘
’’پتا نہیں۔ وہ کُچھ خبطی سے ہیں۔ چھت پر اُن کا کمرا ہے اور خالہ ثریّا نے مُجھے اُن کے کمرے میں جانے سے سختی سے منع کر رکھا ہے ۔ یہ بات میری سمجھ میں بالکل نہیں آتی۔ اِس کے علاوہ جب کبھی ماموں، مُجھ سے بولتے ہیں تو خالہ ثریّا فوراً ہی اُن کی بات کاٹ دیتی ہیں۔ کبھی کہتی ہیں کہ اشعر کو پریشان نہ کرو۔ کبھی کہتی ہیں کہ اِس کی سمجھ میں تمہاری باتیں نہیں آئیں گی اور کبھی مُجھے یہ کہہ کر چلتا کر دیتی ہیں کہ جاؤ جا کر باہر کھیلو۔‘‘
’’تمہارے ماموں تُم سے کیا کہنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’معلوم نہیں۔ ویسے کل رات کی بات بتاؤں تمہیں۔ میں سونے کے لیے اپنے کمرے میں جا رہا تھا تو میں نے ایک عورت کی چیخ سُنی تھی۔ میرا خیال ہے کہ ماموں دانیال کی کوئی پاگل بیوی بھی ہیں جن کو وہ کمرے میں بند کر کے رکھتے ہیں۔ مُجھے تو یہ سب کُچھ بہت ہی زیادہ پُر اسرار لگنے لگا ہے۔‘‘
’’مُجھے پُر اسرار چیزیں بہت پسند ہیں۔‘‘ عُرفی نے کہا۔
’’مگر مُجھے پسند نہیں۔ مُجھے تو ڈر لگتا ہے۔‘‘ اشعر نے مُنہ بناتے ہوئے کہا۔ یہ عُرفی اور اشعر کی پہلی ملاقات تھی۔ اُن کے اسکولوں کی چھٹّیاں تھیں۔ وہ ایک جیسی عُمر کے تھے اور دونوں ایک ہی جماعت میں پڑھتے تھے۔ اُن میں بہت جلد دوستی ہو گئی۔ جب بھی اشعر عُرفی سے ملتا تو وہ ہر بار اپنے ماموں دانیال اور خالہ ثریّا کے بارے میں عجیب عجیب باتیں بتاتا جنہیں عُرفی بڑے شوق سے سُنتا۔
ایک دِن موسم صُبح سے ہی خوش گوار تھا۔ اِس کے بعد بارش بھی ہونے لگی تو اشعر اور عُرفی کی ملاقات نہ ہو سکی۔ مگر دوپہر کے بعد جب بارش رُک گئی تو عُرفی کھیلنے کے لیے باہر نِکل آیا اور اشعر کو دیکھ کر کہنے لگا:
’’میرے گھر کی چھت پر کونے میں ایک الگ تھلگ سا چھوٹا سا کمرا بنا ہوا ہے۔ میں اکثر اُس میں بیٹھ کر پڑھتا رہتا ہوں۔ اُس کمرے کے اندر ایک دروازہ بھی ہے۔ اُس کو کھول کر چند سیڑھیاں چڑھنی پڑیں گی۔ میری امّی کو بھی نہیں معلوم کہ یہ سیڑھیاں کہاں ختم ہوتی ہیں۔ وہ سُرنگ نما راستہ پتا نہیں کہاں جا کر ختم ہوتا ہے۔ میں اُس سے آگے کبھی گیا ہی نہیں۔ چلو، آج میرے ساتھ چلو۔ دیکھتے ہیں کہ یہ راستہ کہاں نکلتا ہے۔‘‘
اشعر بھی صُبح سے گھر میں بیٹھا بور ہو رہا تھا، اِس لیے وہ فوراً تیّار ہو گیا۔ دونوں چھت پر اُس کمرے میں پہنچے جس کے بارے میں عُرفی نے اشعر کو بتایا تھا۔ اشعر نے جب گول بانس سے بنی ہوئی سیڑھی پر قدم رکھا تو اُسے تھوڑا سا ڈر لگا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ نیچے گِر جائے گا۔ مگر پھر ہمّت کر کے وہ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ پھر اُس نے رُک کر کہا:
’’عُرفی! اگر یہ راستہ کسی کے گھر میں نکلا تو؟‘‘
’’تو کیا ہوا؟‘‘
’’چوری کا الزام لگ جائے گا۔‘‘
’’نہیں، ہم تو صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ راستہ ہمارے گھر سے کہاں جاتا ہے۔‘‘
’’تو پھر آگے چلوں؟ ایسا نہ ہو کہ ہم کسی خالی مکان میں پہنچ جائیں اور وہاں کوئی بھُوت ہمارے اِستقبال کے لیے بیٹھا ہو؟‘‘
’’اشعر! تُم بہت بُزدل ہو۔ جب میں نہیں ڈر رہا ہوں تو تُم کیوں ڈرتے ہو؟‘‘
اس کے بعد اشعر نے پہلے کُچھ سوچا اور پھر اللہ کا نام لے کر چل پڑا۔ وہ بہت احتیاط کے ساتھ قدم رکھ رہا تھا، کیوں کہ فرش بھی بانس کے ڈنڈوں کا تھا۔ اُن پر سے اگر پیر پھِسل جاتا تو اُن کی خیر نہ ہوتی۔ عُرفی اشعر کے بالکل پیچھے پیچھے آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا چل رہا تھا۔ اندھیرے کی وجہ سے اُن کی رفتار اور بھی سُست تھی۔ وہ دونوں دیواروں کو ٹٹولتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ اِس خیال سے اُن کے دِل زور زور سے دھڑک رہے تھے کہ یہ راستہ پتا نہیں کہاں نکلے گا۔ کافی دُور چلنے کے بعد اشعر رُک گیا۔ آگے راستہ بند تھا۔ اشعر نے دونوں ہاتھوں سے ٹٹولا تو اُس کے ہاتھ میں ایک دروازے کا ہینڈل آ گیا۔ اشعر کے ماتھے پر پسینا بہہ رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ نہ جانے دوسری طرف کیا ہو گا۔ اندھیرے میں وہ دونوں کُچھ دیر خاموش کھڑے رہے۔ پھر اشعر نے ہمّت کر کے دروازے کے ہینڈل کو اپنی طرف کھینچا۔ ایک چرچراہٹ کے ساتھ دروازہ کھُل گیا۔
دروازہ کھُلتے ہی تیز روشنی سے اُن کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ اُنہوں نے آنکھیں جھپکا کر دیکھا تو حیران رہ گئے۔ وہ کسی چھت پر نہیں تھے، بلکہ ایک سجے سجائے کمرے میں تھے۔ کمرا خالی تھا اور ہر طرف خاموشی تھی۔ عُرفی نے آگے بڑھ کر کمرے کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ کمرہ خاصا بڑا تھا اور اُس کو بڑی خوب صورتی سے سجایا گیا تھا۔ دیواروں میں الماریاں تھیں جو کتابوں سے بھری ہوئی تھیں۔ ایک طرف آتش دان تھا جس میں آگ جل رہی تھی۔ آتش دان کے بالکل سامنے ایک بڑی سی آرام کرسی پڑی ہوئی تھی۔ کرسی کی پُشت اُن دونوں کی طرف تھی۔ کُرسی کے قریب ایک میز پر کُچھ کتابیں، سادہ کاغذ، قلم، دوات اور ایک چھوٹی سی دُور بین بھی رکھی ہوئی تھی۔ میز پر ایک خوب صورت سی تھالی میں پیلے اور ہرے رنگ کی بہت سی انگوٹھیاں رکھی ہوئی تھیں۔ دیکھنے میں وہ عام سی انگوٹھیاں معلوم ہوتی تھیں مگر وہ بہت چمک دار تھیں۔ اتنی چمک دار انگوٹھیاں عُرفی نے اِس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔
کمرے میں بالکل خاموشی تھی۔ مگر نہیں، اشعر اور عُرفی نے جب غور کیا تو اُنہیں ہلکی سی آواز سُنائی دی۔ پتا نہیں وہ کِس چیز کی آواز تھی، مگر بالکل صاف سُنی جا رہی تھی۔ عُرفی کی سمجھ میں کُچھ نہ آیا، پھر اُس نے اشعر سے کہا:
’’یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے، مگر یہ آواز کیسی ہے، جیسے کوئی زور زور سے سانس لے رہا ہو۔‘‘ اس نے بہت آہستہ سے کہا۔ اشعر بھی سہما ہوا تھا۔ اُس کا چہرہ سفید پڑ گیا تھا۔ اس نے عُرفی سے کہا:
’’یہ کوئی اچھّی بات نہیں ہے کہ ہم کسی کی اجازت کے بغیر اُس کے گھر میں داخل ہوں۔ آؤ اِس سے پہلے کہ کوئی یہاں آئے، بھاگ چلیں۔‘‘
عُرفی نے انگوٹھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’مگر اِن انگوٹھیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’چھوڑو اِن انگوٹھیوں کو۔ چلو جلدی سے واپس چلیں۔‘‘ اشعر نے جھنجھلا کر کہا۔
مگر ابھی اُس کی بات ختم ہوئی ہی تھی کہ آتش دان کے آگے رکھی ہوئی اُونچی پُشت والی آرام کرسی گھومی اور ایک پتلا دُبلا، عجیب سے چہرے والا آدمی اُٹھ کھڑا ہوا۔ یہ کوئی اور نہیں بلکہ اشعر کے ماموں دانیال تھے۔ وہ بہت غصّے میں نظر آ رہے تھے۔ ماموں دانیال کو دیکھ کر تو عُرفی اور اشعر کے اوسان جاتے رہے۔ اب انہیں احساس ہوا تھا کہ وہ کہاں ہیں۔ یہ دانیال کا گھر تھا اور وہ اُس کمرے میں تھے جہاں اشعر کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اُنہیں اگر ذرا بھی شُبہ ہوتا کہ وہ ماموں دانیال کے کمرے میں پہنچ جائیں گے تو وہ شاید کبھی اِدھر نہ آتے۔ مگر اب تو غَلَطی ہو چُکی تھی۔
ماموں دانیال بہت لمبے اور دُبلے تھے۔ اُن کی داڑھی مُونچھیں بالکل صاف تھیں۔ اُن کی توتے جیسی خم کھائی ہوئی ناک اور چھوٹی چھوٹی چمک دار آنکھیں اِس وقت بالکل اُس جادُوگر جیسی معلوم ہو رہی تھیں جس کا قصّہ اُنہوں نے اپنے اسکول کی کہانی کی کتاب میں پڑھا تھا۔ ماموں دانیال کے لمبے لمبے بال اُن کے شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ اُن کو دیکھ کر اشعر کی تو زبان ہی گُنگ ہو گئی۔ ماموں دانیال نے غصّے سے اُن دونوں کو گھورا اور پھر آگے بڑھ کر وہ دروازہ بند کر دیا جس کے ذریعہ سے وہ اُن کے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔ پھر اُنہوں نے دروازے میں تالا بھی ڈال دیا۔ یہ دیکھ کر اشعر اور عُرفی کی سانسیں رُکنے لگیں۔ بچّوں کے خوف زدہ چہروں کو دیکھ کر ماموں دانیال مُسکرا دیے۔ اُن کے پیلے پیلے بھدّے اور گندے دانت عُرفی کو بہت بُرے لگے۔ ایسا لگتا تھا جیسے اُنہوں نے مدّت سے اپنے دانت صاف نہیں کیے ہیں۔ وہ دونوں لڑکوں کو کُچھ دیر خاموشی سے دیکھتے رہے پھر بولے:
’’مُجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے بھانجے صاحب اپنے ساتھ اپنے پڑوسی دوست کو بھی یہاں لے آئیں گے۔ خیر کوئی بات نہیں۔ اِس وقت تُم دونوں کے آنے سے میرا ایک مسئلہ حل ہو گیا۔‘‘
عُرفی جلدی سے بولا۔’’دانیال صاحب! معاف کیجیے گا۔ مُجھے تو یہ اشعر یہاں لے آئے ہیں۔ میں واپس جا رہا ہوں۔‘‘
’’تُم اب کہیں نہیں جا سکتے۔ در حقیقت تُم دونوں بڑے اچھّے موقع پر آئے ہو۔ میں اِس وقت ایک تجربہ کر رہا ہوں اور یہ تجربہ بہت ہی اہم ہے۔ اِس تجربے کی کام یابی یا ناکامی کا پتا جبھی چلے گا جب تُم میری مدد کرو گے۔ یوں تو میں یہ تجربہ ایک خرگوش پر کر چُکا ہوں۔ مگر ظاہر ہے خرگوش یہ نہیں بتا سکتا کہ اُس پر کیا گزری۔ اِس کے علاوہ میں نے اُس خرگوش کو جہاں اپنے تجربے کے ذریعہ سے بھیجا تھا، وہاں سے میں اُسے واپس نہیں لا سکتا۔‘‘
’’دیکھئے ماموں دانیال۔‘‘ اشعر نے کہا۔’’آپ ہمیں واپس جانے دیجیے۔ میری امّی الگ پریشان ہوں گی اور عُرفی کی امّی بھی اِس کا اِنتظار کر رہی ہوں گی۔ ہم کہہ کر بھی تو نہیں آئے ہیں۔ آپ ہمیں واپس جانے دیجیے۔‘‘
’’واپس؟‘‘ ماموں دانیال نے تیوری چڑھا کر اشعر کو گھورا۔ اشعر اور عُرفی ایک دوسرے کو بے بسی سے اِس طرح دیکھ رہے تھے جیسے کہہ ہی رہے ہوں ’’بُرے پھنسے‘‘ پھر عُرفی ہمّت کر کے بولا:
’’خیر، اِس وقت تو ہمیں جانے دیجیے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ رات کو کھانا کھانے کے بعد ہم پھر آ جائیں گے۔‘‘
’’مگر اِس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تُم واپس آ جاؤ گے؟‘‘ ماموں دانیال نے کہا اور جیسے اُنہیں کوئی خیال آیا۔ وہ بڑی نرمی سے بولے:
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ اگر تُم دونوں جانا چاہتے ہو تو چلے جاؤ۔ میں تمہیں روکنے والا کون ہوتا ہوں۔ اور یوں بھی مُجھ جیسے بوڑھے اور خبطی انسان کی بات کوئی کیا سمجھے گا۔‘‘
پھر اُنہوں نے ٹھنڈی سانس بھر کر بڑی اداسی سے کہا: ’’تمہیں کیا معلوم کبھی کبھی میں اپنے آپ کو کتنا اکیلا محسوس کرتا ہوں۔ خیر، کوئی بات نہیں۔ تُم لوگ جا سکتے ہو۔ مگر جانے سے پہلے میں تُمہیں ایک تُحفہ دینا چاہتا ہوں۔‘‘
ماموں دانیال کی باتیں سُن کر عُرفی کو اُن سے ہمدردی سی ہونے لگی۔ وہ سوچنے لگا کہ لوگ اِن کے ساتھ بڑی زیادتی کرتے ہیں ۔ اِنہیں دیوانہ کہتے ہیں۔ پھر ماموں دانیال نے عُرفی سے کہا:
’’اِس تھالی میں کُچھ انگوٹھیاں رکھی ہوئی ہیں۔ تمہیں جو پسند ہے لے لو۔ مگر ہری والی نہ لینا۔ وہ میں کسی کو نہیں دے سکتا۔ ہاں! پیلی انگوٹھی تُم لے سکتے ہو۔‘‘
اُن کی بات سُن کر عُرفی کُچھ حیران ہوا۔ چمک دار انگوٹھیاں بہت اچھّی لگ رہی تھیں۔
اُس نے سوچا کہ وہ خوب صورت انگوٹھی اپنی امّی کو دے دے گا۔ وہ انگوٹھیوں والی تھالی کی طرف بڑھا کہ اُس میں سے ایک انگوٹھی اُٹھا لے تو دانیال کے چہرے پر عجیب سی مُسکراہٹ آ گئی جو اشعر کی آنکھوں سے چھُپی نہ رہ سکی۔ وہ زور سے چیخا:
’’عُرفی، خبردار! اِن انگوٹھیوں کو ہرگز نہ چھُونا۔‘‘
مگر دیر ہو چُکی تھی۔ جِس وقت وہ چیخا عین اُسی وقت عُرفی نے ایک پیلی انگوٹھی اُٹھائی اور اچانک عُرفی غائب ہو گیا۔ اب کمرے میں صرف اشعر اور اُس کے ماموں دانیال تھے۔
عُرفی کہاں گیا؟
یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ اشعر ہکّا بکّا رہ گیا تھا۔ خوف سے اُس کی ایسی حالت ہو گئی تھی کہ وہ اپنی جگہ سے ہِل بھی نہیں سکا۔ اُس نے بولنا چاہا مگر اُس کے حلق سے کوئی آواز نہیں نکلی۔ وہ چیخنا چاہتا تھا کہ ماموں دانیال نے آگے بڑھ کر اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’خبردار! کوئی آواز نہ نکالنا۔ اگر تم چیخے تو تمہاری امّی سُن لیں گی۔ اور تُم یہ بات اچھی طرح سمجھ سکتے ہو کہ تمہاری چیخیں سُن کر اُن کی کیا حالت ہو گی۔ ویسے بھی وہ بہت بیمار ہیں۔ وہ تُم کو ڈھونڈتی پھریں گی اور تُم اُنہیں نظر نہیں آؤ گے تو وہ مر جائیں گی۔‘‘
ماموں دانیال کی بات اشعر کی سمجھ میں اچھّی طرح آ گئی تھی۔ وہ بڑا لا چار اور بے بس نظر آ رہا تھا۔ وہ خاموش تخت پر بیٹھ گیا اور پھر اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھک کر رونے لگا۔
دانیال نے اُس کا کندھا تھپتھپایا اور تسلّی دیتے ہوئے بولے:
’’تمہیں ڈر لگنا ہی چاہیے۔ پہلی بار تُم نے اپنی آنکھوں کے سامنے کسی کو غائب ہوتے دیکھا ہے۔ پہلی بار جب میری نظروں کے سامنے خرگوش غائب ہوا تھا، اُس وقت مُجھے بھی بہت ڈر لگا تھا۔‘‘
’’عُرفی کے ساتھ آپ نے کیا کِیا؟ وہ کہاں ہے؟‘‘ اشعر نے روتے ہوئے پوچھا۔
’’اشعر! مُجھے مبارک باد دو۔ میرا تجربہ کام یاب ہو گیا ہے۔ عُرفی غائب ہو چکا ہے۔ وہ ہماری اس دنیا سے بہت دُور چلا گیا۔‘‘
’’کیا مطلب ہے آپ کا؟‘‘ اشعر نے حیرانی سے سوال کیا۔
’’اُ س کو میں نے دوسری دُنیا میں بھیج دیا ہے۔‘‘
’’کیا آپ نے اُسے جان سے مار دیا ہے؟‘‘ اشعر نے گھبرا کر پُوچھا۔
’’نہیں، وہ زندہ ہے۔ میں تُم کو بتاتا ہوں۔ پہلے آرام سے بیٹھ جاؤ۔‘‘ ماموں دانیال نے اُس کو بِٹھایا اور پھر بولے:
’’تُم نے کبھی پیپل والی امّاں کا نام سُنا ہے؟‘‘
’’ہاں، مُجھے امّی نے اُن کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ ہر وقت پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھی رہتی تھیں۔ آندھی آئے یا طوفان وہ وہاں سے نہیں ہٹتی تھیں۔ اُن کا کوئی نہ تھا۔ بہت لوگوں نے چاہا کہ وہ اُن کے گھر آ جائیں، مگر وہ پیپل کا درخت چھوڑنے کو تیّار نہیں ہوتی تھیں۔ کبھی کِسی سے کُچھ نہیں مانگتی تھیں۔ نہ جانے وہ کھاتی پیتی کہاں سے تھیں۔ مگر وہ تو شاید مر چُکی ہیں؟‘‘
’’بالکل ٹھیک۔ پیپل والی امّاں نے مُجھے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ وہ کیا تھیں یہ تو میں تُم کو نہیں بتاؤں گا، البتّہ یہ ضرور بتاؤں گا کہ مرنے سے پہلے اُنہوں نے مُجھے لکڑی کا ایک چھوٹا سا ڈبّا دیا تھا اور سختی سے ہدایت کی تھی کہ اُن کے مرنے کے بعد میں ڈبّے کو جلا دوں۔ اُنہوں نے مُجھے اُس کو کھولنے سے بھی منع کیا تھا۔ میں نے اُن سے وعدہ کر لیا تھا مگر میں اپنا وعدہ پورا نہ کر سکا۔ جب میں نے اُس ڈبّے کو اپنے ہاتھوں میں اُٹھایا تو مُجھے ایسا لگا جیسے کوئی بہت بڑا راز میرے ہاتھوں میں ہے۔ پھر بھی کافی عرصے تک میں اُس کو نہ کھول سکا۔ میں جب بھی اُس کو کھولنے کی کوشش کرتا، یہ سوچ کر رُک جاتا کہ کوئی گڑبڑ نہ ہو جائے۔‘‘
اشعر اپنے ماموں کی بات بڑے غور سے سُن رہا تھا۔ پھر اُسے اچانک عُرفی کا خیال آ گیا۔ ’’مگر عُرفی کا کیا ہو گا؟‘‘
دانیال نے جیسے اُس کی بات سُنی ہی نہیں۔ وہ بولتے رہے:
’’اس ڈبّے کو کھولنے کا شوق روز بہ روز بڑھتا جا رہا تھا۔ بڑا عجیب سا ڈبّا تھا۔ وہ ہمارے مُلک کا بنا ہوا تو تھا ہی نہیں۔ پتا نہیں یونان کا تھا، مِصر کا تھا، اُندلس کا تھا یا چِین کا تھا۔ وہ تھا بہر حال کِسی بہت پرانے زمانے کا۔ مُجھے یہ اندازہ بھی ہو گیا تھا کہ اُس ڈبّے میں کوئی بہت زبردست جادُو بند ہے۔ پھر بھلا میں اُسے کھولنے کی کوشش کیوں نہ کرتا۔ میں نے بہت سے لوگوں سے معلومات اکٹھّی کی۔ کئی جادُوگروں سے ملا۔ بہت سے منتر سیکھے اور راتوں کو قبرستانوں میں اور ویران جگہوں پر پتا نہیں کتنے عمل کیے۔ میری صحت تباہ ہو گئی۔ میرے سارے بال کھچڑی ہو گئے۔ جادُو سیکھنے والے کے ہاتھ میں آخر میں کُچھ بھی نہیں آتا۔ وہ ساری زندگی بھاگتا رہتا ہے، دوڑ دھوپ کرتا رہتا ہے مگر اُس کو کُچھ نہیں ملتا۔ میں نے بڑی محنت کے بعد اُس پُر اسرار ڈبّے کا راز جان لیا۔‘‘
اس کے بعد ماموں دانیال نے جھُک کر اشعر کے کان میں بہت آہستہ سے کہا:
’’اس ڈبّے میں وہ چیز تھی جو دوسری دُنیا سے لائی گئی تھی، اُس وقت جب ہماری دُنیا بننی شروع ہوئی تھی۔ اس میں مٹّی تھی۔‘‘
’’مٹّی؟‘‘ اشعر نے چونک کر پوچھا۔ اُسے ماموں دانیال کی باتوں میں دِل چسپی پیدا ہونے لگی تھی۔
’’ہاں مٹّی۔ سوکھی مٹّی، مگر بہت عمدہ۔ میں نے اُس کو چھُوا نہیں، کیوں کہ وہ دوسری دُنیا کی مٹّی تھی۔ یہ کِسی سیّارے کی مٹّی نہیں تھی۔ ہمارے نظامِ شمسی میں جتنے سیّارے ہیں وہ سب تو ہماری دُنیا کا ہی ایک حصّہ ہیں۔ یہ مٹّی کِسی اور دُنیا کی تھی۔ اپنی دُنیا کے پڑوسی سیّاروں پر تو ہم اگر چاہیں تو جا سکتے ہیں۔ وہاں تک پہنچنا ناممکن نہیں ہے۔ مگر وہ دُنیا جو ہماری آنکھوں سے اُوجھل ہے، اُس تک پہنچنا بالکل نا مُمکن ہے ۔ وہ کوئی اور ہی کائنات ہے۔ تُم اگر ہمیشہ ہمیشہ بھی سفر کرتے رہو تو وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ وہ دُنیا ہے لڑکے! جہاں صرف جادُو کے ذریعہ سے ہی پہنچا جا سکتا ہے۔‘‘
یہاں تک پہنچ کر ماموں دانیال نے ایک بار پھر اپنی انگلیاں چٹخائیں اور بولے:
’’اتنا میں سمجھ گیا تھا کہ اگر میں اُس مٹّی کو ایک خاص طریقے سے استعمال کروں تو اُس کے ذریعہ سے اُس دُنیا میں پہنچا جا سکتا ہے جہاں سے وہ مٹّی آئی تھی۔ بس اُس مٹّی کو ایک خاص طریقے سے استعمال کرنا تھا۔ شروع میں مُجھے اِس میں بہت پریشانی ہوئی۔ میں اُس کو صحیح طرح استعمال نہیں کر پا رہا تھا۔ میں نے کُچھ خرگوشوں پر ابتدائی تجربے کیے۔ اُن میں سے کُچھ مر گئے اور کُچھ بم کی طرح پھٹ گئے۔ اُن کے جسموں کی دھجّیاں اُڑ گئیں۔‘‘
’’یعنی آپ نے بے کار تجربوں میں معصوم جانوروں کی جانیں ہیں۔ بڑا ظُلم کیا ماموں آپ نے!‘‘ اشعر بولا۔
’’تو کیا جانوروں کے بجائے انسانوں پر تجربہ کرتا؟ خیر چھوڑو اِس بات کو۔ ہاں، میں کیا کہہ رہا تھا۔ یاد آیا۔ میں اُس مٹّی کی انگوٹھیاں بنانے میں آخر کام یاب ہو ہی گیا۔ یہ انگوٹھیاں پیلے رنگ کی تھیں۔ ان میں یہ خاصیّت تھی کہ اُن کو چھونے والا آدمی پلک جھپکتے دوسری دُنیا میں پہنچ سکتا تھا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ پیلے رنگ کی انگوٹھی پہنا کر کسی کو دوسری دُنیا میں تو بھیجا جا سکتا تھا، مگر وہاں اُس نے کیا دیکھا اور اُس کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا یہ مُجھے کیسے معلوم ہو گا۔ اِس کے لیے میں نے ایک ایسی ترکیب سوچنی شروع کی جس سے میں اُس دُنیا میں بھیجنے والے کو واپس اِس دُنیا میں لا سکوں۔ اپنی دُنیا میں تاکہ وہ مُجھے انجان دُنیا کے بارے میں بتا سکے۔‘‘
’’مگر ماموں آپ خود دوسری دُنیا میں کیوں نہیں چلے گئے۔ آپ خُود اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے۔‘‘ اشعر بولا۔
دانیال نے اُس کو جھِڑکتے ہوئے کہا:
’’اشعر! تُم تو پاگل ہو گئے ہو۔ میری عُمر کا بُوڑھا، کم زور اور بیمار آدمی اتنا بڑا خطرہ کِس طرح مول لے سکتا تھا؟ تمہیں معلوم ہے کہ کیا کہہ رہے ہو؟ تمہیں معلوم ہے ایک انجانی دُنیا میں جانے کا کیا مطلب ہے؟ وہاں کُچھ بھی پیش آ سکتا ہے۔ کوئی بھی خطرناک بات ہو سکتی ہے۔‘‘
’’اور آپ نے اِس مُشکل کا حل یہ نکالا کہ میرے دوست کو اُس خطرناک دُنیا میں بھیج دیا۔ آپ میرے ماموں ہیں لیکن میں یہ کہے بغیر نہیں رہوں گا کہ آپ جیسا بُزدل اور خُود غرض آدمی میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ آپ نے ایک سیدھے سادھے نیک لڑکے کو اس جگہ بھیج دیا ہے جہاں جاتے ہوئے آپ خود ڈرتے ہیں۔‘‘ اشعر غصّے سے بولا۔
ماموں دانیال نے اپنا ہاتھ اُٹھا کر کہا:
’’بس خاموش ہو جاؤ۔ بہت کر لی تقریر۔ میں اِتنے چھوٹے بچّوں کے مُنہ سے ایسی بڑی بڑی باتیں سُننا پسند نہیں کرتا۔ تمہیں معلوم نہیں میں کیا ہوں۔ میں ایک بہت بڑا دانش ور، فلسفی اور جادُوگر ہوں۔ آنے والے وقت میں قوم مُجھے اپنا لیڈر تسلیم کرے گی۔ میرے عظیم کارنامے تاریخ میں سُنہرے حروف سے لکھے جائیں گے۔ لوگ میرے کارناموں کو مانیں گے۔ بھلا میں اپنی جان اِس تجربے میں کیوں گنواؤں؟ چلو اگر میں اپنے اوپر تجربہ کر بھی لوں لیکن اِس میں ہلاک ہو جاؤں تو میرا مشن کون آگے بڑھائے گا؟ میرا کام تو ادھورا رہ جائے گا نا! کیا فوج کے ہر بڑے افسر کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ہر عام سپاہی کے ساتھ میدانِ جنگ میں جا کر لڑے؟ اُس کا کام صرف رہ نمائی کرنا ہوتا ہے۔‘‘
’’جو کُچھ بھی ہو، مُجھے آپ کے تجربے سے کوئی دِل چسپی نہیں ہے۔ آپ عُرفی کو فوراً واپس لائیے۔‘‘ اشعر کو بھی اب غصّہ آ گیا تھا۔
’’اُسی کے بارے میں تو بات کرنے والا تھا، مگر تُم تو بہت بد تمیز ہو۔ بیچ بیچ میں ٹوکتے چلے جا رہے ہو۔ میں تو تمہیں یہ بتا رہا تھا کہ میں نے اُس انجان دُنیا سے واپسی کا طریقہ بھی ڈھونڈ نکالا ہے۔ یہ ہری والی انگوٹھی اُس انجان دُنیا سے واپسی کے لیے ہی تو ہے۔‘‘
’’مگر عُرفی کے پاس تو ہری انگوٹھی نہیں ہے۔‘‘ اشعر نے کہا۔
’’نہیں۔‘‘ ماموں دانیال نے چالاکی سے مُسکراتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر وہ واپس کس طرح آئے گا؟‘‘
’’وہ واپس آ سکتا ہے، اگر کوئی اُس کے پیچھے پیلی انگوٹھی پہن کر اُس انجان دُنیا میں جائے اور اپنے ساتھ دوہری انگوٹھیاں لے جائے تو وہ اُس کو واپس لا سکتا ہے۔ ایک انگوٹھی سے اپنے آپ کو اور دوسری سے عُرفی کو۔‘‘
اشعر سمجھ گیا کہ وہ ماموں دانیال کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس گیا ہے۔ اب اُس کو وہی کرنا تھا جو وہ چاہتے تھے۔ عُرفی اُس کا دوست تھا اور اُسے ہر حال میں واپس لانا تھا۔ وہ حیرت سے مُنہ کھولے ماموں دانیال کو تَک رہا تھا۔ اُس کا چہرہ خوف سے سفید پڑ چکا تھا۔
’’اشعر! مُجھے تُم پر فخر ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آنے والے وقت میں لوگ یہ کہیں کہ میرے خاندان کے ایک لڑکے نے مُصیبت کے وقت میں اپنے دوست کی مدد نہیں کی۔‘‘ دانیال نے چاپلوسی کے انداز میں کہا۔
’’اونہہ! خاندان! فخر! کیا اچھّے خاندان کے لوگوں کی یہی حرکتیں ہوتی ہیں؟ آپ نے یہ سب کُچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا ہے۔ پہلے غریب عُرفی کو دھوکے سے دوسری دُنیا میں بھیجا اور اب تجربہ مکمّل کرنے کے لیے مُجھے اُس کے پیچھے بھیجنا چاہتے ہیں۔‘‘ اشعر بڑبڑایا۔
’’ظاہر ہے مُجھے تجربہ تو کرنا ہی تھا۔‘‘ ماموں دانیال نے بے رحمی سے مُسکراتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ میں ضرور جاؤں گا۔ آج سے پہلے میں جادُو وغیرہ پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ مگر آج میں نے اپنی آنکھوں سے جادُو دیکھ لیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے جادُو کی جتنی بھی کہانیاں پڑھی ہیں وہ سب سچ ہیں۔ مگر اِن کہانیوں میں جادُوگر کا انجام ہمیشہ بُرا دِکھایا گیا ہے۔ مُجھے یقین ہے کہ اِس جادُوئی داستان کے خاتمے پر آپ کا حشر بھی بہت بُرا ہو گا۔‘‘ اشعر کی باتیں سُن کر ماموں دانیال کا چہرہ غصّے سے سُرخ ہو گیا، مگر پھر چالاکی سے مُسکراتے ہوئے اُنہوں نے کہا:
’’کوئی بات نہیں۔ تُم جو چاہو کہہ لو۔ ظاہر ہے ایک بچّے کو جِس کی پرورش عورتوں میں ہوئی ہو اِس سے زیادہ اور معلوم بھی کیا ہو سکتا ہے؟ مگر اشعر! اب تُم وقت ضائع نہ کرو عُرفی کو گئے کافی دیر ہو گئی ہے۔ نہ جانے وہ بے چارہ کِس حال میں ہو گا۔ اچھا اب تیّار ہو جاؤ۔‘‘
یہ کہہ کر ماموں دانیال اُٹھے اور اُنہوں نے اپنے ہاتھوں میں چمڑے کے دستانے پہن لیے۔ پھر اُنہوں نے انگوٹھیوں کی تھالی کی طرف بڑھتے ہوئے کہا:
’’یہ انگوٹھیاں صرف اُس صورت میں کام کرتی ہیں جب یہ تمہاری کھال سے چھُو جائیں۔ یہ دستانے پہن کر میں اِنہیں اُٹھا سکتا ہوں، کُچھ نہیں ہو گا۔ مگر تمہیں بہت ہوشیار رہنا ہو گا۔ اپنے ہاتھ جیب سے باہر رکھنا۔ کہیں غَلَطی سے انگوٹھی کو نہ چھو دینا۔ جس وقت تُم پیلے رنگ کی انگوٹھی کو چھوؤ گے تُم اِس دُنیا سے غائب ہو جاؤ گے اور انجان دُنیا میں پہنچ جاؤ گے۔ اِس کے بعد جیسے ہی تم ہری انگوٹھی کو چھوؤ گے تو وہاں سے واپس اپنی دُنیا میں آ جاؤ گے۔ اب میں یہ واپس لانے والی دوسری انگوٹھیاں تمہارے کوٹ کی داہنی جیب میں رکھ رہا ہوں۔ اب اچھّی طرح یاد رکھنا کہ داہنی جیب میں ہری انگوٹھیاں ہیں، یعنی داہنی جیب واپسی کی ہے۔ اب تُم ایک پیلی انگوٹھی اپنے ہاتھ سے اُٹھا لو۔‘‘
اشعر ہاتھ بڑھا کر پیلی انگوٹھی اُٹھانے لگا تھا کہ رُک گیا۔
’’امّی کو آپ کیا بتائیں گے، وہ مُجھے گھر میں نہ دیکھ کر پریشان ہو جائیں گی۔‘‘ اُس نے پوچھا۔
’’اِس کام میں دیر نہیں لگے گی۔ تُم جلدی سے جاؤ اور جلدی ہی واپس آ جاؤ۔‘‘ دانیال نے جواب دیا۔
’’مگر آپ کو کیا معلوم کہ میری واپسی اِس دُنیا میں کہاں ہو گی؟‘‘ اشعر نے کہا۔
ماموں دانیال نے اُس کی بات سُن کر اُس کو کندھے سے پکڑا، دروازے کا تالا کھولا اور اُس سے کہا:
’’جاؤ، تمہارے کھانے کا وقت ہو گیا ہے۔ عُرفی کو چھوڑو۔ اُسے جنگلی جانور چیر پھاڑ کر کھاتے ہیں تو کھانے دو۔ تُم کیوں پریشان ہوتے ہو؟ بہتر یہی ہو گا کہ عُرفی کی امّی کو ساری بات جا کر بتا دو۔ یہ بھی کہہ دینا کہ تُم وہاں جانے سے خوف زدہ تھے، اِس لیے تُم نے پہلی انگوٹھی پہننے سے اِنکار کر دیا۔‘‘
اشعر نے اپنے چالاک ماموں کو گھُور کر دیکھا اور تھالی میں سے ایک پیلی انگوٹھی اُٹھا لی۔
یہ کون سی دُنیا ہے؟
ماموں دانیال اور اُن کا وہ جادُو کا کمرا پل بھر میں غائب ہو گیا۔ اس کے بعد ایک لمحے کے لیے ہر چیز دُھندلا گئی۔ اِس کے بعد اشعر کو ایسا محسوس ہوا جیسے کہیں اُوپر سے ہری ہری اور بڑی لطیف سی روشنی اُس پر پڑ رہی ہے۔ نیچے کی طرف اندھیرا تھا۔ وہ یہ نہ سمجھ سکا کہ وہ کھڑا ہے، بیٹھا ہے یا لیٹا ہے۔ اُس کے آس پاس کُچھ بھی نہ تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ شاید میں پانی کے اندر ہوں۔ تھوڑی دیر کے لیے اُسے کُچھ خوف محسوس ہوا۔ پھر اُسے لگا کہ وہ اُوپر اُٹھتا چلا جا رہا ہے۔ اس کا سر اچانک ہی پانی سے باہر نِکل آیا اور اُس نے اپنے آپ کو ایک تالاب کے کنارے پر پایا۔
یہاں ہر طرف گھاس تھی۔ جب وہ کھڑا ہوا تو اُس نے دیکھا کہ اُس کے کپڑے بالکل سُوکھے تھے۔ وہ ایک چھوٹے سے تالاب کے کنارے کھڑا ہوا تھا جو ایک جنگل میں تھا۔ ہر طرف گھنے درخت تھے۔ اُن کی شاخیں آپس میں اِس طرح ملی ہوئی تھیں کہ وہاں سے آسمان کی جھلک تک نظر نہیں آ رہی تھی۔ پتّوں اور شاخوں سے ہری روشنی چھَن چھَن کر نیچے آ رہی تھی۔ اِس جنگل میں بالکل سنّاٹا تھا۔ نہ وہاں پرندے تھے، نہ کیڑے، نہ جنگلی جانور اور نہ ہوا چل رہی تھی۔ بس ہر طرف درخت ہی درخت تھے۔ اِس جگہ صرف وہی ایک تالاب نہیں تھا جس میں سے نکل کر اشعر باہر آیا تھا۔ وہاں تو بے شُمار تالاب تھے۔ جہاں تک اشعر کی نظر نے کام کیا، تھوڑے تھوڑے فاصلے پر تالاب نظر آ رہے تھے۔ درختوں کی جڑیں تالابوں کا پانی پیتی محسوس ہو رہی تھیں۔
سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ اشعر کو کُچھ یاد نہ تھا کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کیوں آیا ہے؟ اُسے نہ ماموں دانیال یاد تھے اور نہ عُرفی۔ اُسے تو اپنی امّی تک یاد نہیں تھیں۔ اِس جگہ اُسے نہ کوئی ڈر محسوس ہو رہا تھا اور نہ اُنسیت۔ ایک بے نام سی کیفیّت تھی۔ اگر اشعر سے کوئی اِس وقت پوچھتا کہ تُم کہاں سے آئے ہو تو شاید وہ یہ جواب دیتا کہ میں تو ہمیشہ سے یہیں رہتا ہوں۔
کافی دیر تک اشعر اِس جنگل کو خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہا۔ یکایک اُس کی نظر ایک لڑکے پر پڑی جو ایک درخت کے نیچے لیٹا ہوا تھا۔ اُس کی آنکھیں بند تھیں مگر وہ سو نہیں رہا تھا۔ کافی دیر تک اشعر اُس لڑکے کو دیکھتا رہا مگر اس نے اُس سے کُچھ کہا نہیں۔ تھوڑی دیر بعد لڑکے نے آنکھیں کھول دیں۔ وہ کافی دیر تک اشعر کو دیکھتا رہا مگر مُنہ سے کُچھ نہ بولا۔ پھر اُس نے خواب کی سی حالت میں کہا:
’’میں نے تُم کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔‘‘
’’لگتا تو مُجھے بھی ایسا ہی ہے۔‘‘ اشعر نے اُس کو غور سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ پھر اشعر نے اُس سے پوچھا۔’’تُم یہاں کب سے ہو؟‘‘
’’ہمیشہ سے۔ مُجھے یاد نہیں کہ کب سے ہوں۔ شاید بہت لمبے عرصے سے۔‘‘ لڑکے نے آہستہ سے کہا۔
’’میں بھی ہمیشہ سے یہاں ہوں۔‘‘ اشعر نے کہا۔
”نہیں، تُم ہمیشہ سے یہاں نہیں ہو۔ میں نے ابھی ابھی تمہیں تالاب سے نِکل کر باہر آتے دیکھا ہے۔‘‘
’’ہاں، مُجھے کُچھ کُچھ یاد تو آ رہا ہے۔‘‘ اشعر نے اپنی پیشانی کو مسلتے ہوئے کہا۔ ’’مگر میں بھُول گیا ہوں۔‘‘
کافی دیر تک وہ دونوں خاموش رہے۔ پھر لڑکا بولا:
’’مُجھے اِس بات پر بڑی حیرت ہو رہی ہے کہ میں نے تُم کو پہلے بھی دیکھا ہے۔ مگر کہاں؟ میرے ذہن میں ایک تصویر سی ہے۔ دو لڑکوں کی بالکل ہمارے جیسے۔ وہ لوگ الگ الگ جگہوں پر رہتے ہیں۔ شاید میں نے خواب دیکھا ہو۔‘‘
’’کُچھ اِسی طرح کا خواب مُجھے بھی یاد آ رہا ہے۔ وہ لڑکا میرے گھر کے برابر میں رہتا ہے۔ وہ بانس کی سیڑھیوں پر چل رہا ہے۔‘‘ یہ کہتے کہتے اشعر کی نگاہ ایک خرگوش پر پڑی۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’یہ خرگوش ہے۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔ وہ ایک موٹا تازہ خرگوش تھا مگر سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ اُس خرگوش کی کمر پر ایک پیلے رنگ کی چمک دار انگوٹھی ایک ڈوری سے بندھی ہوئی تھی۔ اُس پر نظر پڑتے ہی اشعر چیخ اُٹھا:
’’دیکھو، دیکھو، وہ رہی پیلے رنگ کی انگوٹھی۔ اِسی طرح کی انگوٹھی تمہاری انگلی میں بھی ہے اور میری انگلی میں بھی ہے۔‘‘
اشعر کی بات سُن کر لڑکا اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ وہ دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے کو غور سے دیکھتے رہے، کُچھ یاد کرنے کی کوشش کرتے رہے اور پھر ایک ساتھ بول اُٹھے۔’’ماموں دانیال!‘‘
اس کے بعد اُنہیں سب کُچھ یاد آ گیا۔ وہ لڑکا عُرفی ہی تھا۔ کافی دیر وہ دونوں باتیں کرتے رہے۔ پھر عُرفی نے اشعر ہے پو چھا۔
’’اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیوں نہ خرگوش کو ساتھ لیں اور واپس چلیں؟‘‘ اشعر نے مُنہ پھاڑ کر لمبی سی جمائی لیتے ہوئے کہا:
’’اتنی جلدی کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
’’ضرورت ہے۔‘‘ عُرفی نے جواب دیا۔’’یہ پُر اسرار جنگل کتنا خاموش ہے۔ بالکل خواب سا معلوم ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی سونے پر مجبور ہیں۔ اگر ہم ایک مرتبہ اِس جنگل کے اندر چلے گئے تو شاید پھر کبھی باہر نہ نِکل سکیں گے، ہمیشہ اِس جنگل کی خاموش فضا میں سوتے رہیں گے؟‘‘
’’کتنا اچھّا لگتا ہے یہ سب۔‘‘ اشعر نے کہا۔
’’ہاں، ہے تو۔ مگر ہمیں واپس چلنا چاہیے۔‘‘ پھر عُرفی اُٹھا اور خرگوش کی طرف بڑھا مگر کُچھ سوچ کر رُک گیا اور بولا:
’’یہ تو یہاں بہت خُوش اور مطمئن لگتا ہے۔ اِس کو یہیں رہنے دیں تو کیا ہرج ہے۔ اگر ہم اِسے واپس گھر لے گئے تو تمہارے ماموں اِس غریب کے ساتھ پھِر کوئی ایسی ہی حرکت کریں گے۔ اللہ جانے کِس خطر ناک تجربے میں اِس کو اِستعمال کر لیں۔‘‘
’’ہاں، یقینا وہ اِس کے ساتھ پھر کوئی حرکت کریں گے۔ آخر اُنہوں نے ہمارے ساتھ بھی تو یہ حرکت کی ہے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ ہم واپس کِس طرح چلیں۔‘‘ اشعر نے کہا۔
عُرفی جلدی سے بولا۔’’اِس تالاب میں دوبارہ چھلانگ لگا دو۔‘‘
وہ دونوں تالاب کے کنارے آ کر کھڑے ہو گئے۔ تالاب کے صاف شفاف پانی میں درختوں کی شاخوں اور پتّوں کا عکس پڑ رہا تھا۔
’’مگر ہمارے کپڑے تو گیلے ہو جائیں گے۔‘‘ عُرفی نے کہا۔
’’جب آتے وقت گیلے نہیں ہوئے تھے تو اب کس طرح ہوں گے۔‘‘ اشعر نے جواب دیا۔
’’کیا تمہیں تیرنا آتا ہے اشعر؟‘‘
’’تھوڑا تھوڑا اور تمہیں؟‘‘
’’بس تھوڑا بہت۔‘‘
’’مگر ہمیں تیرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ ہمیں تو پانی میں نیچے کی طرف جانا ہو گا۔‘‘ اشعر نے کہا۔
ان دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا، ایک دو تین کہا اور آنکھیں بند کر کے تالاب میں چھلانگ لگا دی۔ مگر جب اُنہوں نے آنکھیں کھولیں تو وہ اُسی جنگل میں، اُسی تالاب میں کھڑے ہوئے تھے۔ اُن کے صرف ٹخنوں تک پانی تھا۔ تالاب بس اتنا ہی گہرا تھا۔ وہ دونوں تالاب سے نِکل کر ایک بار پھر گھاس پر آ گئے۔
’’یہ ہم کِس چکّر میں پھنس گئے ہیں، کیا گڑبڑ ہوئی ہے؟‘‘ عُرفی نے خوف زدہ آواز میں کہا۔
’’اوہ! میں سمجھ گیا۔ غَلَطی تو ہماری ہی ہے۔ ہم نے ابھی تک پیلی انگوٹھیاں پہن رکھی ہیں۔ یہ تو دوسری دُنیا کے سفر کے لیے ہیں، واپسی کے لیے نہیں۔ ہری انگوٹھیاں ہم کو واپس لے جائیں گی۔ اب ہمیں انگوٹھیاں بدلنی ہوں گی۔ تُم اپنی پہلی انگوٹھی اُتارو اور اپنی بائیں جیب میں رکھ لو۔ میرے پاس دو ہری انگوٹھیاں ہیں۔ ایک تمہارے لیے ہے۔‘‘ اب اُنہوں نے اپنی پیلی انگوٹھیاں اُتار کر اپنی بائیں جیب میں رکھ لیں۔ ہری انگوٹھیاں دائیں جیب میں تھیں۔
ایک بار پھر وہ دونوں تالاب کے کنارے پہنچے مگر چھلانگ لگانے سے پہلے اشعر بولا:
’’میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اِس جنگل میں موجود یہ دوسرے تالاب کِس لیے ہیں۔ اگر ہم اِس تالاب میں چھلانگ لگا کر اپنی دُنیا میں پہنچ سکتے ہیں تو کیا پھر ہم دوسرے تالاب میں کود کر کسی اور دُنیا میں نہیں پہنچ سکتے؟ شاید ہر تالاب کے نیچے ایک الگ دُنیا آباد ہے۔ یہ جنگل میرے خیال میں ایک دُنیا سے دوسری دُنیا کا سفر کرنے کے لیے درمیانی اسٹیشن کا کام دیتا ہے۔ یہ خود کوئی دُنیا نہیں۔ یہ ایک طرح کا جنکشن ہے جہاں سے کسی بھی دُنیا کا سفر آسانی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ مگر ہر دُنیا کا سفر کرنے کے لیے پہلے یہاں آنا ہو گا۔‘‘
’’تم چاہے کسی بھی دُنیا میں جاؤ مگر میں کہیں نہیں جاؤں گا۔ میں تو اپنی دُنیا میں واپس جانا چاہتا ہوں۔‘‘ عُرفی نے کہا۔
اشعر نے گویا اس کی بات سُنی ہی نہیں۔ وہ بولا:
’’یہی وجہ ہے کہ یہاں اتنی خاموشی ہے۔ یہاں کبھی کُچھ نہیں ہوتا۔ یہاں کوئی گھر نہیں ہے، لوگ نہیں ہیں، چہل پہل نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم یہاں سے کسی اور دُنیا کا سفر کر سکتے ہیں۔ ہمیں ابھی اِس تالاب میں چھلانگ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں سے ہم آئے ہیں۔‘‘
اشعر کی باتیں سُن کر عُرفی بھی سوچ میں پڑ گیا، پھر کہنے لگا:
’’میں تمہارا ساتھ اُس وقت تک نہیں دوں گا جب تک مُجھے یقین نہ ہو جائے کہ بعد میں ہمیں اپنی دُنیا میں واپس جانے میں کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ ایسا کرو کہ اپنی دُنیا کا سفر شروع کرو، صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ ہری انگوٹھی کام کرتی ہے یا نہیں۔ اگر اُس نے ٹھیک کام کیا تو آدھے راستے میں ہم ہری انگوٹھیاں اُتار کر پیلی والی پہن لیں گے اور دوبارہ یہیں آ جائیں گے۔‘‘
’’پتا نہیں ہم آدھے راستے سے واپس آ سکیں گے یا نہیں؟‘‘ اشعر نے پریشانی سے کہا۔
’’ہمیں تالاب سے باہر آنے میں بھی تو وقت لگا تھا۔ اِسی طرح ہمیں جانے میں بھی وقت لگے گا۔ مُجھے تو اِس بات کا پکّا یقین ہے۔‘‘ عُرفی نے اُسے سمجھایا۔
اشعر کُچھ دیر سوچتا رہا۔ پھر آخر میں اُس کو راضی ہونا ہی پڑا، کیوں کہ دوسری صورت میں عُرفی نے ساتھ دینے سے صاف اِنکار کر دیا تھا۔ وہ ایسا ڈرپوک نہیں تھا لیکن اُسے انجانی جگہوں پر جانے کا کوئی شوق بھی نہ تھا۔ اِس کے بر عکس اشعر کو نئی نئی چیزوں کی کھوج لگانا اور انجانی جگہوں کو دیکھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔
تھوڑی بہت بحث کے بعد وہ دونوں ہری انگوٹھیاں استعمال کرنے پر تیّار ہو گئے۔ اُنہوں نے ہری انگوٹھیاں پہن لیں اور ایک دو تین کہہ کر تالاب میں چھلانگ لگا دی۔ اِس بار وہ کام یاب ہوئے۔ یہ بتانا بہت مُشکل ہے کہ اُنہیں کیا محسوس ہوا، کیوں کہ ہر چیز بہت تیزی کے ساتھ ہوتی چلی گئی۔ شروع میں اُن کو سیاہ آسمان پر چمک دار روشنیاں حرکت کرتی نظر آئیں۔ اس کے بعد وہ سیّارہ مُشتری کے بالکل قریب سے گُزرے، اِتنے قریب سے کہ اُن کو اُس کا چاند تک نظر آ گیا۔ ایک لمحے بعد اُن کو مکانوں کی چھتّیں اور ہرے بھرے جنگل نظر آنے لگے۔ جب اُنہیں اپنے شہر کی جامع مسجد کے اُونچے اُونچے مینار نظر آئے تو اُنہیں یقین ہو گیا کہ وہ صحیح سِمت میں سفر کر رہے ہیں۔ اِس کے ساتھ ہی عُرفی زور سے چیخا۔’’واپس!‘‘
اور اُنہوں نے پھُرتی سے اپنی بائیں جیبوں میں ہاتھ ڈال دیے۔ پیلی انگوٹھیوں سے اُن کی انگلیاں ٹکرائی ہی تھیں کہ واپسی کا سفر شروع ہو گیا۔ اُن کی دُنیا خواب کی طرح نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ اُن کے سروں کے اُوپر وہی سبز روشنی نظر آئی اور پھر اُن کے سر تالاب سے باہر آ گئے۔ ایک بار پھر وہ اُسی خاموش سُنسان جنگل میں تھے۔ سب کُچھ ویسا ہی تھا۔ کُچھ بھی تو نہ بدلا تھا۔ اِس سارے کام میں شاید ایک لمحہ لگا ہو گا۔
’’اب تو تمہاری تسلّی ہو گئی؟‘‘ اشعر نے عُرفی سے پوچھا۔
عُرفی نے خاموشی سے سر ہلا دیا۔ جیسے ہی اشعر آگے بڑھا عُرفی بولا:
’’ٹھہرو! پہلے اِس تالاب پر کوئی نشانی لگا دو تا کہ ہمیں یاد رہے کہ ہماری دُنیا کی واپسی والا تالاب کون سا ہے۔‘‘
یہ بات سُن کر اشعر ایک دم رُک گیا۔ عُرفی نے بڑی عقل کی بات کی تھی۔ اگر خدا نخواستہ وہ اِس تالاب کو بھُول جاتے تو شاید زندگی بھر انجان دنیاؤں میں بھٹکتے رہتے۔ وہاں تو بے شمار تالاب تھے اور سب ایک جیسے تھے۔ اشعر نے اپنا جیبی چاقو نکالا اور تالاب کے کنارے ایک درخت پر ایک نشان بنا دیا۔ اِس کے بعد وہ عُرفی کے ساتھ ایک دوسرے تالاب پر پہنچا۔ دونوں نے اپنی بائیں طرف والی جیبوں میں ہاتھ ڈالا اور ایک دو تین کہہ کر تالاب میں چھلانگ لگا دی۔ چھپاکے کی آواز ہوئی اور کُچھ بھی نہ ہوا۔ وہ اِسی طرح ٹخنوں ٹخنوں پانی میں کھڑے ہوئے تھے۔
’’اب کیا ہو گیا؟‘‘ اشعر نے جھنجھلا کر کہا۔
بات دراصل یہ تھی کہ اُن کے جادُوگر ماموں نے جو انگوٹھیاں اُن کو دی تھیں وہ یہ کہہ کر دی تھیں کہ پیلی انگوٹھیاں دوسری دُنیا کا سفر کرنے کے لیے ہیں اور ہری والی واپسی کے لیے ہیں۔ لیکن اُن کو یہ معلوم نہ تھا کہ پیلی انگوٹھیاں صرف اِس درمیانی اسٹیشن میں آنے کے لیے ہیں اور کسی اور دُنیا کا سفر کرنے کے لیے ہری انگوٹھی کی ضرورت ہو گی۔
دانیال کو یہ معلوم نہ تھا کہ دُنیاؤں کے بیچ میں کوئی خاموش جنگل بھی ہے اور وہاں سے اور بہت سی دُنیاؤں تک پہنچا جا سکتا ہے۔
عمّون کی ملکہ
اب اشعر اور عُرفی نے ہری انگوٹھی آزمانے کا فیصلہ کیا۔ ایک دو تین کہہ کر اُنہوں نے اپنے ہاتھ دائیں جیبوں میں ڈال دیے جہاں ہری انگوٹھیاں اُن کی انگلیوں سے ٹکرائیں۔
اِس بار وہ تالاب کی گہرائیوں میں اُترتے چلے گئے۔ نیچے اندھیرا تھا، گھٹا ٹوپ اندھیرا۔ اُن کو اندھیرے میں عجیب و غریب سائے سے نظر آئے۔ اِس کے بعد ہلکی ہلکی روشنی نظر آئی۔ اچانک انہیں محسوس ہوا کہ وہ کسی ٹھوس چیز پر کھڑے ہوئے ہیں۔ پھر ہر چیز نظروں کے سامنے آ گئی۔
’’کیسی عجیب اُجاڑ اور سُنسان سی جگہ ہے۔‘‘ اشعر نے کہا۔
عُرفی نے آہستہ سے کہا۔’’مُجھے یہ جگہ پسند نہیں آئی۔‘‘ اُس کی آواز میں ڈر صاف محسوس کیا جا سکتا تھا۔
اُنہوں نے سب سے پہلے روشنی پر توجّہ کی۔ نہ تو یہ سورج کی روشنی معلوم ہو رہی تھی، نہ بجلی کی، نہ لالٹین کی اور نہ موم بتّی کی۔ اِس طرح کی عجیب و غریب روشنی اُنہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ یہ مدھم سی، کُچھ لال سی روشنی تھی جو بالکل اچھّی نہیں لگ رہی تھی۔
اُنہوں نے چاروں طرف دیکھا۔ وہ ایک اُونچے سے ٹیلے پر کھڑے تھے۔ اُن کے چاروں طرف اُونچی اُونچی بوسیدہ اور کھنڈر نما عمارتیں تھیں۔ اُن کے اوپر چھت نظر نہیں آ رہی تھی۔ وہ دونوں اس وقت ایک بہت بڑی عمارت کے صحن میں تھے۔ آسمان کا رنگ، جو نیلا ہونا چاہیے تھا، سیاہ تھا۔ اُس آسمان پر چاند ستاروں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ روشنی نہ تھی۔
اشعر نے کہا۔ ’’کیسا عجیب و غریب ماحول ہے اور کتنا خوف ناک موسم ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بجلی اور کڑک کا طوفان آنے والا ہے یا شاید کوئی زلزلہ آ رہا ہے۔‘‘
عُرفی نے کہا۔’’مُجھے یہ جگہ بالکل پسند نہیں آئی۔‘‘
وہ دونوں آپس میں سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے۔ اُنہوں نے ابھی تک ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ وہ ایک جگہ جمے کھڑے تھے، کُچھ خوف زدہ سے اور کُچھ سہمے ہوئے سے۔
اس صحن کے چاروں طرف بہت اُونچی اُونچی دیواریں تھیں۔ اُن میں بہت بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں۔ اِن کھڑکیوں کے دوسری طرف اندھیرا نظر آ رہا تھا۔
اِن کے نیچے بہت بڑے بڑے محراب دار ستون بنے ہوئے تھے جو دُور تک چلے گئے تھے۔ اِن ستونوں کے درمیان میں دُور دُور تک صرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ موسم ٹھنڈا تھا۔
جن پتھّروں سے یہ عمارتیں بنائی گئی تھیں اُن کا رنگ سُرخ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اُس عجیب و غریب مدھم اور مری مری سی روشنی کی وجہ سے وہ سُرخ نظر آ رہے ہوں۔ بہر حال یہ جگہ بہت زیادہ پُرانی تھی۔ صحن میں بڑے بڑے پتھّر رکھے ہوئے تھے جو جگہ جگہ سے چٹخ گئے تھے ۔ دیواروں میں دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔ شگافوں اور جھریوں سے پتھّر باہر جھانک رہے تھے۔ دونوں بچّے اِس صحن کو گھوم پھِر کر دیکھتے رہے۔ اُنہیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی اُن کو برابر دیکھ رہا ہے۔ اُن کھڑکیوں میں سے کوئی جھانک رہا ہے۔ شاید یہ اُن کا وہم تھا کیوں کہ وہاں اندھیرے کے سوا کُچھ بھی نہ تھا۔ آخر کار اشعر نے سرگوشی میں عُرفی کے کہا:
’’کیا یہاں کوئی رہتا ہے؟‘‘
’’نہیں، یہاں کوئی نہیں رہتا ہو گا۔ یہ جگہ تو بالکل ویران اور کھنڈر ہے۔ بھلا یہاں کون رہے گا؟ جب سے ہم یہاں آئے ہیں ہم نے ہلکی سی آواز بھی نہیں سُنی ہے۔ کوئی ہوتا تو کوئی آواز تو آتی۔‘‘
’’آؤ، خاموشی سے ایک جگہ کھڑے ہو جائیں اور غور سے سُننے کی کوشش کریں۔‘‘ اشعر نے تجویز پیش کی۔
وہ دونوں خاموشی سے کھڑے ہو گئے اور غور سے سُننے لگے۔ اُنہیں آواز ضرور آئی مگر وہ اُن کے اپنے دِل کی دھڑکن کی آواز تھی۔ یہ جگہ بھی بالکل اُسی طرح خاموش اور سُنسان تھی جس طرح وہ درمیانی اسٹیشن یعنی خاموش جنگل تھا۔ مگر اُس کی خاموشی جنگل سے کُچھ مختلف تھی۔ خاموش جنگل میں درخت تو تھے، وہاں کی فضا میں زندگی کی حرارت تو محسوس ہوتی تھی۔ یہاں تو قبرستان کا سا سنّاٹا تھا۔ بڑی ویران اور اُجاڑ جگہ تھی۔ عُرفی نے آہستہ سے کہا:
’’اشعر! اب بھی وقت ہے، واپس چلو؟‘‘
’’مگر ابھی تو ہم نے کُچھ بھی نہیں دیکھا ہے۔ اب جب کہ ہم یہاں آ ہی گئے ہیں تو کیوں نہ اِس کو اچھّی طرح سے دیکھ لیا جائے۔‘‘ اشعر نے جواب دیا۔
’’بھئی، یہاں دیکھنے کے لیے ہے ہی کیا ہے؟ اِس کھنڈر کو ہم کیا دیکھیں گے؟‘‘ عُرفی نے کہا۔
’’عُرفی! تُم تو خواہ مخواہ ڈر رہے ہو۔ اگر ہمیں یہاں کوئی خطرہ محسوس ہوا بھی تو ہمارے پاس اپنے بچاؤ کے لیے اور یہاں سے بھاگ نکلنے کے لیے جادُوئی انگوٹھیاں جو موجود ہیں۔‘‘
’’یہ تُم سے کس نے کہا کہ میں ڈر رہا ہوں؟‘‘ عُرفی نے تیوریاں چڑھاتے ہوئے کہا۔
’’میرا خیال ہے تُم اِس جگہ کو دیکھنے کے خواہش مند نظر نہیں آ رہے ہو؟‘‘ اشعر نے جواب دیا۔
’’تم جہاں بھی جاؤ گے میں پیچھے نہیں رہوں گا۔‘‘ عُرفی نے غصّے سے کہا۔
’’ہم لوگ جس وقت چاہیں یہاں سے واپس جا سکتے ہیں۔ بس ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ ہری انگوٹھیاں جو یہاں سے نِکلنے کے لیے اِستعمال ہوں گی ہماری دائیں جیب میں ہیں۔ غَلَطی سے کہیں بائیں جیب میں پڑی ہوئی پیلی انگوٹھی کو نہ چھُو دینا۔‘‘
اس کے بعد وہ دونوں بہت آہستگی سے ایک دروازے کی طرف بڑھے۔ اُنہوں نے دروازے پر رُک کر اندر کی طرف دیکھا، مگر سوائے اندھیرے کے اور کُچھ نظر نہیں آیا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے رہے اور کافی دیر بعد ایک بہت بڑے ہال میں پہنچے جس میں ہلکی ہلکی روشنی تھی۔ ہال بالکل خالی تھا۔ اُس کے دوسرے سِرے پر محراب دار ستونوں کی ایک لمبی قطار نظر آ رہی تھی۔ ستونوں کی اِس قطار کے درمیان سے ہلکی ہلکی روشنی پھُوٹ رہی تھی۔ اُنہوں نے بڑی احتیاط سے ہال کو پار کیا۔ کافی دیر تک چلنے کے بعد وہ پھر محرابوں کے درمیان آ گئے اور اُن کے دوسری طرف سے گُزر کر وہ ایک زیادہ بڑے سے صحن میں پہنچ گئے۔
’’یہ جگہ تو کافی غیر محفوظ سی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ عُرفی نے سامنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اشعر نے اُدھر دیکھا۔ واقعی صحن کے سامنے والی دیوار بالکل ایک طرف جھُکی ہوئی تھی۔ اُس کو دیکھ کر بڑا خوف محسوس ہو رہا تھا۔ یُوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ گِرنے ہی والی ہے۔ محرابوں کے بیچ میں سے ایک ستون گِرا ہوا تھا جس سے اُس کے اُوپر والی محراب تِرچھی ہو کر جھُک گئی تھی۔ اس کے نیچے کوئی سہارا نہیں تھا۔ کسی بھی وقت ہلکی سی جُنبش سے وہ محراب گِر سکتی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ جگہ سینکڑوں بلکہ شاید ہزاروں برسوں سے اِسی طرح ویران پڑی ہے۔ اشعر نے بہت آہستہ سے کہا:
’’اگر یہ جگہ کافی لمبے عرصے سے اِسی طرح ویران ہے تو پھر اور بھی کافی عرصے تک اِسی طرح رہ سکتی ہے۔ مگر ہم بہت آہستہ باتیں کریں گے۔ ایسا نہ ہو کہ آواز کے شور سے کوئی کھنڈر گِر جائے اور اگر ایک بار یہاں اِن بوسیدہ عمارتوں کے گِرنے کا سِلسِلہ شروع ہو گیا تو مُشکل سے رُکے گا۔ تُم جانتے ہو کہ جس طرح پہاڑوں میں آواز کی باز گشت سُنائی دیتی ہے، اِسی طرح یہاں بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
وہ دونوں اب دوسرے صحن کے داخلی دروازے میں پہنچ گئے تھے۔ پتھّر کی چند ٹوٹی پھوٹی سیڑھیاں چڑھ کر وہ اُوپر پہنچے جہاں دونوں طرف بڑے بڑے کمروں کی لمبی قطاریں تھیں۔ یہاں سے گُزرتے ہوئے وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ ہر کمرے سے گُزرتے ہوئے وہ سوچ رہے تھے کہ بس ان کھُلی جگہ میں پہنچ جائیں گے مگر یہ عمارت تو شیطان کی آنت کی طرح لمبی تھی، ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ہر بار وہ ایک نئے صحن میں پہنچ جاتے اور اُس کے دروازے میں داخل ہو کر پھر دوسرے صحن میں ہوتے تھے۔ وہ جگہ واقعی بڑی شان دار اور عظیم الشّان تھی۔ جس زمانے میں لوگ وہاں رہتے ہوں گے تو اِس کی شان ہی دوسری ہو گی۔ ایک صحن میں اُنہوں نے پتھّر کا بنا ہوا ایک بہت بڑا عُقاب دیکھا جو کسی زمانے میں فوّارے کا کام کرتا ہو گا۔ اُس کے پَر پھیلے ہوئے تھے۔ اُس کی چونچ سے پانی گِرتا ہو گا۔ عُقاب کے مجسّمے سے بالکل نیچے پتھّر کا ایک بہت بڑا پیالہ سا تھا جِس میں اُس کی چونچ سے گِرنے والا پانی جمع ہوتا ہو گا۔ مگر اِس وقت فوّارہ بالکل خُشک پڑا تھا۔ اشعر اور عُرفی دِل چسپی اور حیرت سے تمام مناظر دیکھتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔
بڑی عجیب و غریب جگہ تھی۔ اِس ویرانے میں نہ چیونٹیاں تھیں، نہ مکڑیاں اور نہ اِس قسم کے کیڑے مکوڑے جو عام طور سے کھنڈرات میں پائے جاتے ہیں۔ وہاں کوئی جان دار شے نہیں تھی۔ زمین جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی مگر اُس میں بھی کِسی طرح کی گھاس نظر نہیں آ رہی تھی۔
یہ جگہ اتنی بھیانک، پُر اسرار اور عجیب و غریب تھی کہ ایک بار تو اشعر کے دِل میں بھی آیا کہ پیلی انگوٹھی کے ذریعہ سے اُسی سر سبز اور خاموش جنگل میں پہنچ جائے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اُسے سامنے سو بہت بڑے اور بُلند دروازے نظر آئے۔ وہ کسی سُنہری دھات کے بنے ہوئے تھے۔ شاید سونے کے۔ اشعر اور عُرفی پہلے تو ہچکچائے مگر پھر اندر داخل ہو گئے اور وہاں جو کُچھ نظر آیا اُس نے اُنہیں حیرت میں ڈال دیا۔
یہ ایک بڑا سا کمرا تھا جو بے شمار لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ سب خُوب صورت کُرسیوں پر بالکل ساکت بیٹھے ہوئے تھے۔ عُرفی اور اشعر خاموش کھڑے اُنہیں دیکھنے لگے۔ کافی دیر تک اِسی طرح کھڑے رہنے کے بعد اشعر کو احساس ہوا کہ جِن لوگوں کو وہ دیکھ رہے ہیں وہ سچ مچ کے انسان نہیں ہیں۔ اُن میں نہ کوئی حرکت تھی اور نہ آواز۔ وہ بے جان مجسّمے معلوم ہو رہے تھے۔
اِس بار عُرفی نے ہمّت کی۔ وہ آگے بڑھا۔ اِس کمرے میں شاید کوئی ایسی بات تھی جس نے عُرفی کو اشعر سے زیادہ اس میں دِل چسپی لینے پر مجبور کر دیا۔ وہ تمام مجسّمے بڑے شان دار لباس پہنے ہوئے تھے۔ ان کے کپڑوں کی چمک اگرچہ ماند پڑ چُکی تھی مگر پھر بھی اِتنی تھی کہ اُس سے وہ کمرا دوسرے کمروں کے مُقابلے میں کافی روشن لگ رہا تھا۔ اس میں بہت سی کھڑکیاں بھی تھیں۔
ان سب مجسّموں کے سروں پر تاج تھے۔ اِن کے کپڑے بھڑکیلے، قِرمزی، سفید، سُرخ اور سبز رنگوں کے تھے۔ اُن پر پھولوں، پتّوں، عجیب و غریب جانوروں اور بیل بُوٹوں کی کشیدہ کاری تھی۔ اُن سب کے تاجوں میں بڑے قیمتی اور خوب صورت نگینے جڑے ہوئے تھے۔ اُن کے گلوں میں سُنہری زنجیریں تھیں جِن میں ہیرے لٹکے ہوئے تھے۔
’’یہ کپڑے اتنا عرصہ گُزر جانے کے بعد بھی پھٹے کیوں نہیں؟‘‘ عُرفی نے پوچھا۔
’’جادُو۔‘‘ اشعر نے اُس کے کان میں کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ یہ سارا کمرا جادُو کا ہے۔ جس وقت میں اِس کمرے میں داخل ہوا تھا مُجھے اُسی وقت کُچھ عجیب سا محسوس ہوا تھا۔‘‘
عُرفی نے کہا۔ ’’یہ لباس تو بہت قیمتی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
کمرے کے دونوں طرف پتھّر کی کُرسیوں کی قطاریں تھیں جِن پر وہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اُن میں عورتیں بھی تھیں اور مرد بھی تھے۔ درمیان میں جگہ خالی تھی۔ اشعر اور عُرفی آہستہ آہستہ چل کر ہر مجسّمے کے آگے رُک جاتے، اُس کو غور سے دیکھتے اور پھر آگے بڑھ جاتے۔
اشعر نے کہا۔’’بہت شان دار، صحت مند اور خوب صورت لوگ تھے۔‘‘
واقعی وہ سب بے حد خُوب صُورت تھے۔ اُن کے چہروں سے ذہانت، رحم دِلی صاف نظر آتی تھی۔ اُن کا تعلّق کسی بہت اچھّی اور تہذیب یافتہ قوم سے تھا۔ چند قدم آگے بڑھنے پر جو چہرے اُن کے سامنے آئے وہ پہلے والوں سے کُچھ مختلف تھے۔ اُن کے چہرے سپاٹ تھے۔ نہ اُن میں کوئی رحم تھا اور نہ بے رحمی۔ اور آگے بڑھنے پر جو چہرے اُنہوں نے دیکھے وہ اُن کو بالکل پسند نہیں آئے۔ یہ چہرے بڑے مغرور اور ظالم لگ رہے تھے۔ کُچھ اور آگے بڑھنے پر بے رحم چہرے نظروں کے سامنے آ گئے۔ اِس کے بعد والے چہرے کُچھ خوف زدہ سے تھے۔
آخری چہرہ سب سے زیادہ دِل چسپ تھا۔ یہ ایک عورت کا چہرہ تھا جس کا لباس دوسری تمام عورتوں سے زیادہ شان دار اور قیمتی تھا۔ وہ دوسروں سے زیادہ لمبی تھی۔ اُس کے چہرے پر غضب کا جاہ و جلال تھا۔ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا مُشکل تھا۔ وہ بہت خوب صورت تھی۔ اِتنی حسین عورت اشعر اور عُرفی نے کبھی نہیں دیکھ تھی۔ اِس عورت کے چاروں طرف بہت سی خالی کُرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔
اشعر نے کہا۔ ’’میرا دل چاہ رہا ہے کہ اِس جگہ کی تاریخ کِسی طرح معلوم ہو جائے۔‘‘
عُرفی بولا۔’’ایسا کرتے ہیں پچھلے کمرے میں چلتے ہیں۔ وہاں ایک لمبی سی میز رکھی ہوئی ہے جس پر بہت سی عجیب و غریب چیزیں ہیں۔ شاید ہمیں اُن سے اِس جگہ کے بارے میں کُچھ پتا لگ سکے۔‘‘
عُرفی نے جِس چیز کو میز کہا تھا وہ میز نہیں تھی بلکہ پتھّر کا ایک چوکور ٹکڑا تھا جو کافی اونچا اور لمبا چوڑا تھا۔ اُس کے بالکل بیچ میں ایک سُنہری محراب بنی ہوئی تھی جس میں ایک سونے کی گھنٹی لٹکی ہوئی تھی۔ اُس کے بالکل نیچے سونے کی بنی ہوئی ایک چھوٹی سی ہتھوڑی بھی رکھی ہوئی تھی۔ شاید اِس سُنہری ہتھوڑی سے اُس گھنٹی کو بجایا جاتا ہو گا۔
اُس کو دیکھ کر اشعر تو حیران رہ گیا۔ عُرفی نے کہا:
’’دیکھو اشعر! یہاں کُچھ لکھا ہوا ہے۔‘‘ اِس چوکور پتھّر کے ایک طرف کُچھ کھُدا ہوا تھا۔
‘‘ہے تو سہی، مگر ہم اِس کو پڑھیں گے کیسے؟ یہ تو کوئی عجیب سی زبان ہے۔‘‘ اشعر نے کیا۔
وہ دونوں غور سے پتھّر میں کھُدے ہوئے اِن لفظوں کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے رہے، مگر اُن کی سمجھ میں کُچھ نہیں آیا۔ وہ مایوس ہو گئے تھے کہ اچانک عُرفی کو احساس ہوا کہ الفاظ اُس کی سمجھ میں آ رہے ہیں۔ واقعی وہ جادُو نگری تھی۔ وہاں کی ہر بات پُر اسرار اور عجیب تھی۔ اب شاید اِسی جادُو کے بل پر وہ عجیب تحریر اُن کی سمجھ میں آ رہی تھی۔ اس پتھّر پر یہ الفاظ کھُدے ہوئے تھے۔
’’اے اجنبی، اگر تو کُچھ جاننا چاہتا ہے تو اِس ہتھوڑی کو اُٹھا اور زور سے گھنٹی پر مار۔ اِس کے بعد تُو جو کُچھ دیکھے گا وہ تُجھے حیران کر دینے کے لیے کافی ہو گا۔ تیری خواہش ضرور پوری ہو گی۔‘‘
عُرفی نے کہا۔’’اشعر! ہم کوئی خطرہ مول نہیں لیں گے۔ گھنٹی بجانا بہت آسان ہے، مگر اُس کے بعد اللہ جانے کیا ہو۔‘‘
اشعر نے کہا۔’’تُم پھر ڈرنے لگے ہو۔ میں یہ گھنٹی ضرور بجاؤں گا۔‘‘
’’تُم گھنٹی بجاؤ گے تو میں واپس چلا جاؤں گا۔‘‘ یہ کہہ کر عُرفی نے اپنا ہاتھ پیلی انگوٹھی والی جیب کی طرف بڑھایا۔ اشعر کو خطرے کا احساس ہو گیا تھا۔ اُس نے جلدی سے آگے بڑھ کر ایک ہاتھ سے عُرفی کا وہ ہاتھ پکڑ لیا جس سے وہ پیلی انگوٹھی کو چھُونے والا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اُس نے ہتھوڑی اُٹھائی اور گھنٹی پر دے ماری۔ ایک بہت ہلکی اور نرم سی آواز گونجی۔ پھر اشعر نے عُرفی کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ وہ ایک طرف کھڑا ہو کر اُسے گھورنے لگا۔ اُسے غصّہ آ رہا تھا۔ اِس سے پہلے کہ وہ چیختا ایک عجیب بات ہوئی۔ گھنٹی کی آواز ختم نہیں ہوئی۔ وہ دوبارہ گُونجی مگر پہلے سے زیادہ تیز۔ اِس کے بعد آہستہ آہستہ یہ آواز تیز ہوتی گئی۔ گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ اُن کو اپنے کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہو رہے تھے۔ عُرفی اور اشعر نے پریشان ہو کر اپنے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس لیں۔ اِس گھنٹی کی آواز میں عجیب سی دہشت تھی۔ ساری عمارت اُس کی آواز سے لرزنے لگی تھی۔ اُنہیں اپنے پیروں کے نیچے زمین بھی ہلتی محسوس ہو رہی تھی۔ اِس کے بعد اُس آواز میں ایک اور آواز بھی شامل ہو گئی۔ یہ بڑی گرج دار اور بھیانک آواز تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کُچھ فاصلے پر کوئی آتش فشاں پہاڑ پھٹ گیا ہو۔ پھر یوں لگا جیسے کوئی بہت بڑا درخت گِرا ہو۔ اب بھاری بھاری چیزوں کے لُڑھکنے اور ٹوٹے پھوٹنے کی آوازیں آنے لگیں۔ اُس کے بعد بہت زور کا کڑاکا ہوا اور اُس کمرے کی آدھی چھت ایک زور دار دھماکے کے ساتھ نیچے بیٹھ گئی۔ اُن کے چاروں طرف پتھّروں کے بڑے بڑے اور بھاری بھاری ٹکڑوں کا ڈھیر لگ گیا۔ دیواریں تڑخ گئیں اور زور دار آواز کے ساتھ ڈھے گئیں۔ گھنٹی کا شور ایک دم رُک گیا۔ دھول کا بادل صاف ہو گیا اور پہلے کی طرح خاموشی چھا گئی۔
عُرفی نے اشعر سے کہا۔’’میرا خیال ہے اب تمہارے دِل کی تمنّا پوری ہو گئی ہو گی۔‘‘
اشعر نے جواب دیا۔ ’’ہاں، لگتا تو ایسا ہی ہے۔‘‘
وہ دونوں یہ سمجھ رہے تھے کہ جو ہونا تھا ہو چکا، اب کُچھ نہیں ہو گا۔ مگر اُنہیں کیا معلوم تھا کہ اُنہوں نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غَلَطی کر ڈالی ہے۔
تباہی
اشعر اور عُرفی حیرت سے مُنہ کھولے اُس گھنٹی کی طرف دیکھ رہے تھے جو ابھی تک آہستہ آہستہ ہِل رہی تھی۔ مگر اُس میں سے اب کوئی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ اچانک انہیں کمرے کے آخری حصّے کی طرف سے ایک آواز سُنائی دی۔ کمرے کا وہ حصّہ محفوظ تھا۔ وہ، دونوں تیزی سے اُس طرف گھومے۔ خوب صورت لمبی عورت کے مجسّمے میں حرکت ہو رہی تھی۔ پھر وہ ایک جھٹکے کے ساتھ اپنی کرسی سے اُٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اب وہ اَور بھی لمبی نظر آ رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں، اُس کا تاج، اُس کا شان دار لباس، اُس کا انداز اور اُس کی ایک ایک حرکت یہ ظاہر کر رہی تھی کہ وہ کوئی ملکہ ہے۔
اُس نے چاروں طرف دیکھا۔ گِری ہوئی عمارت کو دیکھا اور اُن دونوں لڑکوں پر نظر ڈالی۔ اُس کے چہرے پر بڑی حیرت تھی۔ وہ لمبے لمبے قدم اُٹھاتی آگے آئی اور رُعب دار آواز میں بولی:
’’مُجھے کِس نے جگایا ہے؟ میرے اِس محل کو کِس نے نُقصان پہنچایا ہے؟‘‘
’’مم… میں… نے۔‘‘ اشعر نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
’’تُم نے؟‘‘ ملکہ نے اپنا لمبا اور بھاری بھر کم ہاتھ اشعر کے کندھے پر رکھتے ہوئے حیرت سے کہا۔
اشعر کو ایسا لگا جیسے کسی نے ایک پتھّر اُس کے کندھے پر رکھ دیا ہے۔ ملکہ بولی:’’مگر تُم تو ایک چھوٹے سے لڑکے ہو؟ چہرے سے بھی شاہی خاندان کے معلوم نہیں ہوتے۔ تُم نے میرے محل میں داخل ہونے کی جرأت کیسے کی؟‘‘
’’ہم دوسری دُنیا سے یہاں آئے ہیں، جادُو کے ذریعہ سے۔‘‘ عُرفی نے کہا۔
ملکہ نے گھوم کر اُسے دیکھا اور بولی:
’’کیا یہ سچ ہے؟‘‘
’’ہاں، یہ سچ ہے۔‘‘ اِس بار جواب اشعر نے دیا۔
ملکہ نے اشعر کی ٹھوڑی اوپر کر کے اُس کو غور سے دیکھا۔ اشعر نے اُس کی آنکھوں میں دیکھنا چاہا مگر جلد ہی اُس نے اپنی نگاہیں جھُکا لیں۔ اُس کی آنکھوں میں بڑا رُعب تھا۔ تھوڑی دیر تک اشعر کا جائزہ لینے کے بعد ملکہ نے اُس کی ٹھوڑی کو چھوڑ دیا اور اس سے بولی:
’’تُم تو جادُوگر نہیں ہو۔ تمہارے چہرے میں جادُوگروں والی کوئی بات نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے تُم کسی جادُوگر کے غلام ہو اور اُس کے جادُو کے زور پر یہاں آئے ہو۔‘‘
’’جی ہاں، میرے ماموں دانیال ایک جادُوگر ہیں؟‘‘ اشعر نے جواب دیا۔
اسی وقت کہیں قریب سے پہلے گڑگڑاہٹ سی سُنائی دی، پھر کسی چیز کے ٹوٹنے کی آواز آئی۔ اُس کے بعد کسی بڑے ستون کے گِرنے کی آواز سے فرش لرزنے لگا۔
’’یہاں تباہی شروع ہو چکی ہے۔ پورا محل گرنے والا ہے۔ اگر ہم فوراً ہی یہاں سے باہر نہ نکلے تو اِس کھنڈر میں دفن ہو کر رہ جائیں گے۔‘‘ ملکہ نے بڑی آہستگی سے کیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کہہ رہی ہو کہ آج کا دِن بہت اچھّا ہے۔ اس کے بعد اس نے اشعر اور عُرفی کا ہاتھ پکڑا اور اُنہیں لے کر تیزی سے باہر کی طرف چل دی۔ حال آں کہ ملکہ نے اُن سے بہت نرمی سے بات کی تھی، مگر عُرفی کو ملکہ شروع سے پسند نہیں آئی تھی۔ وہ اپنا ہاتھ ملکہ کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتا تھا، مگر اِس سے پہلے کہ وہ اور کُچھ سوچتا اُس کا ہاتھ ملکہ کے فولادی پنجے میں جکڑ گیا۔
عُرفی نے سوچا:
’’کتنی ظالم عورت ہے یہ! لگتا ہے میرا ہاتھ توڑ کر چھوڑے گی۔ اُس نے پکڑا بھی تو میرا بایاں ہاتھ ہے۔ اب اگر میں پیلی انگوٹھی کو چھُونا چاہوں تو کیا کروں اور اگر میں اپنا دایاں ہاتھ گھُما کر بائیں طرف جیب تک لے جاؤں گا تو یہ شک کرے گی کہ پتا نہیں میں کیا کر رہا ہوں۔‘‘
عُرفی نے فیصلہ کر لیا تھا کہ چاہے کُچھ ہو جائے ملکہ کو ہماری پُر اسرار انگوٹھیوں کے بارے میں کُچھ معلوم نہیں ہونا چاہیے۔ وہ سوچنے لگا:’’اللہ کرے اشعر کے دل میں بھی یہی بات آ جائے اور وہ بھی اپنا مُنہ بند رکھے۔‘‘
ملکہ اُن کو لیے چلی جا رہی تھی۔ ہال میں سے نِکل کر وہ ایک لمبی راہ داری میں آ گئے۔ اِس کے بعد اُنہوں نے بے شمار سیڑھیاں چڑھیں اور بہت سے صحن پار کیے۔ تھوڑی تھوڑی دیر میں کہیں نہ کہیں سے محل کا کوئی حصّہ گِرتا اور زمین لرز اُٹھتی۔ دھماکا کبھی دور ہوتا کبھی قریب۔ ایک بار تو وہ ایک بہت بڑی محراب کے نیچے سے گُزرے ہی تھے کہ ایک زور دار آواز کے ساتھ وہ محراب نیچے آ گِری۔ اشعر اور عُرفی دھک سے رہ گئے۔ اگر ایک لمحے کی بھی دیر ہو جاتی تو وہ پتھّروں کے ڈھیر کے نیچے دبے ہوتے۔ ملکہ کی رفتار خاصی تیز تھی۔ دونوں کو ساتھ چلنے کے لیے دوڑنا پڑ رہا تھا۔ ملکہ کے چہرے سے کِسی پریشانی، ڈر یا خوف کا اظہار نہیں ہو رہا تھا۔ اشعر سوچ رہا تھا کہ یہ عورت کتنی بہادر ہے۔ یہ واقعی ملکہ ہونے کے قابل ہے۔ اشعر کا دِل چاہ رہا تھا کہ ملکہ اپنی اور اپنے محل کی کُچھ کہانی سُنائے۔ بعد میں ملکہ نے اُنہیں کُچھ باتیں بھی بتائیں۔ ایک دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُس نے بتایا:
’’یہ تہہ خانے میں جانے کا راستہ ہے اور وہ راستہ اُس کمرے میں جا رہا ہے جہاں خطرناک قیدیوں کو سزا دی جاتی تھی۔‘‘
پھر ایک بڑے کمرے میں پہنچ کر اُس نے کہا:
’’یہ وہ ہال ہے جہاں میرے پر دادا نے مُلک کے سات سو بڑے اور عظیم دانش وروں اور فلسفیوں کی دعوت کی تھی اور اُس کے بعد اُن سب کو قتل کرا دیا تھا۔ وہ سب میرے پر دادا کے خلاف بغاوت کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔‘‘
اسی طرح چلتے چلتے وہ ایک بہت بڑے اور وسیع ہال میں پہنچے۔ اُس کی چھت سب ہالوں سے اُونچی تھی۔ اِس ہال کی لمبائی چوڑائی اور اُس کے بلند و بالا دروازوں کو دیکھ کر اشعر کو کُچھ اُمّید ہوئی کہ اب وہ اصل دروازے تک آ پہنچے ہیں۔ دروازے بالکل سیاہ رنگ کے تھے ۔ اُن میں لوہے کی بڑی بڑی اور موٹی موٹی سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ وہ سلاخیں اِتنی مضبوط، اتنی اونچی اور اتنی بھاری تھیں کہ کسی عام آدمی کے لیے اُن پر چڑھنا یا اُن کو اُٹھانا مُمکن نہ تھا۔
ملکہ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور پھر اُونچا کیا۔ وہ بالکل تن کر کھڑی ہو گئی۔ پھر اُس نے انجان زبان میں کُچھ کہا جو بچّے بالکل نہ سمجھ سکے۔ مگر اِس وقت اشعر اور عُرفی کو ملکہ کا چہرہ دیکھ کر کُچھ ڈر محسوس ہوا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی چیز کو دروازہ کھولنے کا حُکم دے رہی ہے۔ وہ دروازے ایک لمحے کے لیے لرزے۔ اُس وقت ایسا لگا جیسے یہ کسی نازک چیز کے بنے ہوئے ہیں۔ اچانک اُن کے آگے ایک غُبار سا اُٹھا۔ جب غُبار ہٹا تو دروازے کھُل چکے تھے۔
’’دیکھا تُم نے! میرے راستے میں آنے والے ہر شخص کا یہی انجام ہوتا ہے۔‘‘ ملکہ نے اکڑ کے کہا۔
ملکہ اُن کو لے کر دروازے سے باہر نِکلی تو اُنہوں نے اپنے آپ کو کھُلی فضا میں پایا۔ اُن کے جسم سے جو ہوا ٹکرائی وہ ٹھنڈی تھی۔ وہ ایک بہت اُونچے جھروکے میں کھڑے ہوئے تھے۔ اُن کے سامنے دُور کافی فاصلے پر اُفق کے کنارے پر سُورج چمک رہا تھا۔ اُس کی روشنی سُرخ تھی۔ یہ سُورج ہماری دُنیا کے سُورج سے کافی بڑا تھا۔ اس کو دیکھتے ہی اشعر کے دِل میں فوراً یہ خیال آیا کہ یہ سورج ہمارے سُورج سے زیادہ عُمر کا ہے۔
اس سُورج کی زندگی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی تھی۔ سُورج کے بائیں طرف کافی بُلندی پر ایک بڑا سا ستارہ چمک رہا تھا۔ اس سیاہ آسمان میں بس وہ دو ہی تھے۔ سامنے دُور تک، جہاں تک اُن کی نظر جاتی تھی، ایک بڑا اور عظیم الشّان شہر پھیلا ہوا تھا۔ مگر اِس شہر میں کوئی جان دار نظر نہیں آ رہا تھا۔ شہر کی پُرانی اور اُونچی اُونچی عمارتیں بے جان سُورج کی روشنی میں سائے کی طرح نظر آ رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے اُن کا وقت پورا ہو چُکا ہے۔ شہر کے بیچوں بیچ ایک کافی لمبا چوڑا بل کھاتا ہوا دریا تھا جو خُشک ہو چکا تھا۔
’’کسی زمانے میں یہ اِس شہر کا سب سے بڑا دریا تھا۔ مگر اب اِس کا پانی غائب ہو چکا ہے۔‘‘ ملکہ نے بتایا۔’’اِس جگہ کو اچھّی طرح دیکھ لو، کیوں کہ پھر کبھی کوئی انسانی آنکھ اُسے نہیں دیکھ سکے گی۔ یہ عمّون کی سلطنت ہے۔ بڑے بڑے بادشاہ بھی عمّون کے نام سے لرزتے تھے۔ یہ ساری دُنیاؤں میں سب سے شان دار اور عظیم دُنیا تھی۔ لڑکے! مُجھے بتاؤ کہ تمہارے ماموں دانیال جنہوں نے تُم کو یہاں بھیجا ہے کِس سلطنت کے بادشاہ ہیں۔ کیا اُن کی دُنیا عمّون سے زیادہ عظیم ہے؟‘‘
پھر ملکہ نے اشعر کے جواب کا انتظار کیے بغیر کہا:
’’یہاں اِس وقت کتنی خاموشی ہے! مگر میں اُس وقت بھی یہیں کھڑی تھی جب سلطنت عمّون میں ہر طرف چیخ پُکار مچی ہوئی تھی۔ لوگوں کے بھاگنے کی آوازیں، سپاہیوں کی تلواروں کی آوازیں، بھاگتی ہوئی گھوڑا گاڑیوں اور رَتھوں کی آوازیں، غلاموں پر کوڑے پڑنے کی آوازیں، فتح کے نشے میں مست لوگوں کے ڈھول پیٹنے کی آوازیں۔ یہ آوازیں آج بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ میں اُس وقت بھی یہیں کھڑی ہوئی تھی جب سلطنتِ عمّون کے گلی کوچوں میں لڑائی ہو رہی تھی۔ شہر کا یہ دریا جو اُس وقت تُم کو خُشک نظر آ رہا ہے انسانی خُون سے بھر گیا تھا۔ جانتے ہو یہ سب لڑائی کیوں ہوئی تھی؟ صرف ایک عورت کی وجہ سے۔‘‘
’’عورت؟ کون تھی وہ؟‘‘ اشعر نے پوچھا۔
’’وہ عورت میں تھی۔ میں، سلطنت عمّون کی آخری ملکہ ہوں۔ اِس پوری دُنیا کی ملکہ، ملکہ زوناش۔‘‘
دونوں لڑکے کُچھ خوف اور کُچھ سردی کی وجہ سے کپکپانے لگے تھے۔ سارا قصور میری بہن کا تھا۔ اُس نے مُجھے اِس انتقام پر مجبور کر دیا تھا۔ میں تو ہر صورت میں یہاں امن قائم کرنا چاہتی تھی۔ میں اُس کی جاں بخشی بھی کر دیتی مگر اِس شرط پر کہ وہ مُجھے سلطنت عمّون کا تخت سونپ دیتی جو اُس نے نہیں کیا۔ اُس کے گھمنڈ نے ساری دُنیا کو تباہ کر دیا۔ جنگ شروع ہونے کے بعد ہم دونوں نے یہ معاہدہ کیا تھا کہ جادُو کوئی استعمال نہیں کرے گا۔ مگر جب اُس نے وعدے کے خلاف کیا تو میں کیا کرتی؟ اُس بے وقوف کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ میں اُس سے زیادہ جادُو جانتی ہوں۔ اُسے یہ بات ضرور معلوم تھی کہ میں اِس دُنیا کا کوئی اہم راز جانتی ہوں۔ وہ مُجھ سے ہر بار یہی کہتی رہی کہ کوئی جادُو استعمال نہ کرنا۔ مگر جب اُس نے مُجھے مجبور کر دیا تو میں نے اُس سے ایسا انتقام لیا کہ انسانی خُون پانی کی طرح سلطنت عمّون کی سڑکوں پر بہا۔ جنگ پورے تین دِن اور تین رات جاری رہی۔ تین دِن تک میں اُسی جگہ کھڑی سب کُچھ دیکھتی رہی۔ میں نے اُس وقت تک اپنی وہ خفیہ طاقت استعمال نہیں کی جب تک میرا آخری وفادار سپاہی بھی نہ گِر گیا۔ میری لالچی بہن اپنے جرنیلوں کے ساتھ محل کی سیڑھیوں تک آ پہنچی تھی۔ میں اُس کے قریب آنے کا انتظار کرتی رہی۔ جب وہ میرے بالکل سامنے آ گئی تو اُس نے بڑے گھُمنڈ کے ساتھ مُسکراتے ہوئے کہا۔
’’فیصلہ ہو گیا۔‘‘ میں نے جواب میں کہا۔’’ہاں، فیصلہ ہو گیا، مگر تمہارے حق میں نہیں۔ میرے حق میں۔ اور پھر میں نے اپنا آخری اور سب سے خطرناک وار کیا۔ میرے جادُو کا کوئی توڑ نہ تھا۔ لمحے بھر بعد عمّون میں میں بالکل اکیلی تھی۔ کسی انسان کا پتا نہ تھا۔ صرف یہ سُورج چمک رہا تھا۔ میں اِس دُنیا کی اکیلی مالک تھی۔ اب میرے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ میں نے عمّون کے ایک ایک آدمی، ہر جوان، بُوڑھے، بچّے، عورت اور مرد کو موت کی نیند سُلا دیا۔ نہ صرف سُلا دیا بلکہ اُن کی لاشیں بھی گُم کر دیں۔‘‘
’’اِس کے بعد تُم نے کیا کِیا؟‘‘ اشعر نے ملکہ سے پوچھا۔ اُسے یہ عورت اب بڑی بھیانک لگنے لگی تھی۔ملکہ نے جواب دیا:
’’میں نے پہلے ہی اِس ہال میں زبردست قسم کے منتر پھُونک رکھے تھے۔ اِس کے علاوہ اور بھی کئی جادُوئی عمل کیے تھے اُسی جگہ جہاں تُم نے میرے آباؤ اجداد کو بیٹھے دیکھا ہو گا۔ اِن منتروں اور عملوں کی طاقت یہ تھی کہ میں بھی اُن مجسّموں کے درمیان بیٹھ کر سو سکتی تھی۔ نہ مُجھے کھانے کی ضرورت تھی، نہ پینے کی۔ مُجھے ایک ہزار سال تک وہاں سونا تھا۔ اس کے بعد اگر کوئی وہاں آ کر گھنٹی بجا دیتا تو میں جاگ جاتی۔ اور اِس طرح تُم نے مُجھے جگا دیا۔‘‘
’’کہیں یہ تمہارے جادُوئی منتروں کا اثر تو نہیں جو سُورج ایسا ہو گیا۔ اتنا بڑا، سُرخ اور ہلکی ہلکی روشنی والا۔‘‘ اشعر نے پوچھا۔
’’نہیں، سُورج تو ہمیشہ سے ایسا ہی ہے۔ کیا تمہاری دُنیا کا سورج کسی اور طرح کا ہے؟‘‘
’’ہاں، وہ چھوٹا بھی ہے اور بہت چمک دار سنہری ہے۔ اس کے علاوہ وہ کافی حرارت دیتا ہے۔‘‘
’’اوہ! اِس کا مطلب یہ ہوا کہ تمہاری دُنیا بالکل نئی اور اِس دُنیا سے عُمر میں بہت چھوٹی ہے۔‘‘
اس کے بعد ملکہ زوناش نے عمّون کی سرزمین پر ایک نظر ڈالی۔ شاید اُسے اپنی حرکت پر افسوس تھا۔ مگر اُس کے چہرے سے کُچھ پتا نہ چل سکا۔ پھر اُس نے کہنا شروع کیا:
’’اب ہمیں چلنا چاہیے۔ یہاں بہت سردی ہو گئی ہے۔ ہر دور اور ہر زمانے، ہر دُنیا کے خاتمے پر اِسی طرح کی سردی ہو جاتی ہے۔ اب میں تمہاری دُنیا میں چلوں گی۔‘‘
اس کی بات سُن کر اشعر اور عُرفی حیران رہ گئے۔ عُرفی کو تو ملکہ زوناش شروع سے ہی ناپسند تھی۔ اُس کی کہانی سُننے کے بعد اشعر کو بھی اُس سے نفرت ہو گئی تھی۔ اِس قسم کی عورت کو اُن کی دُنیا میں ہرگز نہیں جانا چاہیے۔ پھر اگر وہ اُس کو لے جانا بھی چاہتے تو کِس طرح؟ وہ اِس کا طریقہ نہیں جانتے تھے۔ اب تو وہ کسی طرح ملکہ زوناش سے اپنی جان چھُڑانے کے چکر میں ہری انگوٹھی تک اپنا ہاتھ نہیں لے سکتا تھا اور اشعر اُس کو کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔ اشعر نے کہا:’’مگر آپ ہماری دُنیا تک جائیں گی کیسے؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ ملکہ زوناش نے تیوریاں چڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’اگر تُم اِس دُنیا میں مُجھے لینے نہیں آئے تو کِس لیے آئے تھے؟‘‘
اشعر نے جلدی سے کہا:
’’بات یہ ہے کہ آپ کو ہماری دُنیا بالکل پسند نہیں آئے گی۔ وہ آپ کے مطلب کی جگہ نہیں ہے۔ وہ تو بالکل معمولی، بے رنگ اور بے کار سی دُنیا ہے۔‘‘
’’وہ بہت اچھّی، خُوب صُورت اور رنگا رنگ ہو جائے گی، جب میں اُس پر حکومت کروں گی۔‘‘ ملکہ زوناش نے بڑے گھُمنڈ سے کہا۔
اشعر گھبرا کر بولا:
’’دیکھیے،آپ وہاں نہیں جا سکتیں۔ یہ اِتنا آسان نہیں ہے۔ آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہماری دُنیا کے لوگ آپ کو وہاں حکومت کرنے نہیں دیں گے۔‘‘
ملکہ زوناش کے چہرے پر ایک عجیب سی مُسکراہٹ آ گئی۔ وہ بولی:
’’بڑے بڑے عظیم اور بہادُر بادشاہ سلطنت عمّون کے مخالف ہوئے، مگر میں نے اُنہیں آسانی سے ختم کر دیا۔ اِس طرح کہ لوگ اُن کے نام تک بھُول گئے۔ بے وقوف لڑکے! تُو نہیں جانتا کہ میں اپنے حُسن اور اپنے غیر معمولی جادُو کی وجہ سے ساری دُنیا کو اپنے قدموں پر جھُکنے پر مجبور کر دوں گی۔ فوراً مُجھے یہاں سے لے جانے کی تیّاری کر، ورنہ…‘‘
اشعر نے عُرفی سے کہا۔ ’’اب کیا کریں؟ یہ تو بڑا مسئلہ ہو گیا۔‘‘
ملکہ زوناش نے کہا۔ ’’تم شاید اپنے جادُوگر ماموں کی وجہ سے پریشان ہو۔ اگر اُس نے میری عزّت کی اور میری خدمت کی تو اُس کی زندگی بھی اور اُس کا تخت بھی برقرار رہے گا۔ میں اس سے لڑنے کے لیے نہیں جا رہی ہوں۔ ظاہر ہے وہ کوئی بہت عظیم جادُوگر ہے۔ جبھی تو اُس نے تُم لوگوں کو عمّون تک پہنچا دیا ہے۔ کیا وہ پوری دُنیا کا بادشاہ ہے یا اُس کی حکومت دُنیا کے کسی ایک حصّے پر ہے؟‘‘
اشعر نے کہا۔’’وہ کہیں کے بھی بادشاہ نہیں ہیں۔‘‘
’’تُم جھُوٹ بولتے ہو۔‘‘ ملکہ نے غصّے سے کہا۔ ’’جب تک کِسی انسان کے جسم میں شاہی خون نہ ہو، وہ جادُو سیکھ ہی نہیں سکتا۔ کبھی کوئی عام آدمی بھی جادُوگر ہوا ہے؟ میں سچ اور جھوٹ میں تمیز کر سکتی ہوں۔ تمہارے ماموں یقینا تمہاری دُنیا کے بڑے شہنشاہ اور ایک عظیم جادُوگر ہیں۔ اپنے اِس فن کے ذریعہ سے وہ کسی جادُوئی پیالے یا جادُوئی حوض میں میرے خوب صورت چہرے کی جھلک دیکھ چکے ہیں۔ وہ میری طاقت سے واقف ہیں۔ اِس لیے اُنہوں نے ایک جادُوئی عمل کیا اور تمہیں مُجھے تلاش کر کے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے بھیجا ہے ۔ جواب دو، کیا میں جھُوٹ بول رہی ہوں؟‘‘
’’نہیں، یہ سب سچ نہیں ہے۔‘‘ اشعر نے جواب دیا۔
’’سب کا کیا مطلب! یہ کہانی شروع سے آخر تک بالکل جھوٹ اور بکواس ہے۔‘‘ عُرفی چلّایا۔
ملکہ زوناش نے غصّے میں عُرفی کے بال پکڑ لیے۔ اُس نے دونوں کے ہاتھ چھوڑ دیے تھے۔
اشعر زور سے چیخا۔’’عُرفی! جلدی کرو۔‘‘
اِس کے ساتھ ہی اُن دونوں نے اپنے ہاتھ اپنی بائیں جیبوں میں ڈالے۔ جیسے ہی انگوٹھیاں اُن کی اُنگلیوں سے ٹکرائیں وہ پُر اسرار اور خطرناک جگہ اُن کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
دانیال ماموں کی شامت
’’مُجھے چھوڑ دو۔ مُجھے چھوڑ دو۔‘‘ عُرفی زور زور سے چیخ رہا تھا۔
’’میں تو تمہیں نہیں پکڑے ہوئے ہوں۔‘‘ اشعر نے حیران ہو کر کہا۔ اور اُسی وقت اُن کے سر تالاب سے باہر نکل آئے۔ ایک بار پھر وہ دُنیاؤں کی گُزرگاہ، خاموش جنگل میں تھے۔ اِس وقت یہ جنگل اُنہیں پہلے سے بھی زیادہ اچھّا لگا۔ ایک ویران دُنیا کے کھنڈروں اور گِرتے ہوئے محلوں سے یہ پُر سکون جگہ یقینا بہتر تھی۔
وہ دونوں جیسے ہی تالاب سے نکل کر گھاس پر آئے تو اُنہوں نے محسوس کیا کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ ملکہ زوناش یا ظالم جادُوگرنی، جو کُچھ بھی وہ تھی، اُن کے ساتھ ہے۔ دراصل جب ملکہ زوناش نے عُرفی کے بال پکڑے اُسی وقت عُرفی نے پیلی انگوٹھی کو چھُوا۔ اِس طرح وہ بھی عُرفی کے ساتھ ساتھ یہاں آ گئی۔
اب انہیں ایک بات اور معلوم ہوئی جو ماموں دانیال کو معلوم نہیں تھی۔ وہ یہ کہ ایک دُنیا سے دوسری دُنیا، دوسری دُنیا سے تیسری دُنیا اِسی طرح مختلف دُنیاؤں کا سفر کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں تھا کہ جو شخص سفر کر رہا ہو وہ انگوٹھی کو خود پہنے۔ اگر کِسی ایسے شخص کو چھُو لیا جائے جس نے وہ انگوٹھی پہن رکھّی ہو تب بھی سفر کرنا ممکن تھا۔ گویا یہ انگوٹھیاں مقناطیس کی طرح کام کرتی تھیں۔
خاموش جنگل میں آ کر ملکہ زوناش کُچھ بدلی بدلی سی لگ رہی تھی۔ اُس کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا اور اُس کی ساری خُوب صُورتی ختم ہو گئی تھی۔ اُس کے علاوہ اُسے شاید سانس لینے میں بھی دُشواری ہو رہی تھی، کیوں کہ وہ بار بار مُنہ کھول کر لمبے لمبے سانس لے رہی تھی۔ اشعر اور عُرفی کو اِس وقت ملکہ زوناش سے کوئی ڈر محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ مگر ملکہ نے عُرفی کے لمبے لمبے بال ابھی تک پکڑ رکھے تھے۔
عُرفی نے اُس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا:
’’اب تو میرے بال چھوڑ دو۔ عمّون کی ملکہ! یہاں تمہاری حکومت نہیں ہے۔‘‘
اشعر نے بھی سختی سے کہا:
’’بس بہت ہو چکا۔ اب اِس کے بال فوراً چھوڑ دو۔‘‘
وہ دونوں ملکہ زوناش سے لپٹ گئے۔ حال آں کہ وہ بڑی لمبی تڑنگی اور مضبوط جسم کی عورت تھی، مگر اِس وقت شاید اُس کی طاقت کم ہو گئی تھی۔ زوناش نے عُرفی کے بال چھوڑ دیے۔ مگر وہ اُس کو گھُورے جا رہی تھی۔ عُرفی نے ملکہ کی گرفت سے نکلتے ہی اشعر سے کہا:
’’اشعر! جلدی کرو۔ انگوٹھیاں بدلو اور فوراً گھر جانے والے تالاب میں کود جاؤ۔‘‘
ملکہ زوناش یہ سُن کر بڑے زور زور سے چیخنے لگی:
’’مُجھے اپنے ساتھ لے چلو۔ میں اِس بھیانک جگہ میں مر جاؤں گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اُن دونوں کے پیچھے دوڑی۔ عُرفی نے کہا:
’’جیسا تُم نے دوسروں کے ساتھ کیا ،ویسا ہی اب تمہارے ساتھ ہو گا۔ تُم نے اپنی دُنیا میں ہزاروں بے گناہ لوگوں کا خون بہایا ہے ، اب اپنی موت سے ڈرتی ہو۔ اشعر! جلدی کرو۔‘‘
اُنہوں نے اپنی سبز انگوٹھیاں رکھ لی تھیں۔
’’ہاں، عُرفی آؤ۔‘‘
اشعر اور عُرفی دونوں تالاب کی طرف لپکے اور اُس میں کُود گئے۔ عُرفی یہ سوچ کر بڑا خوش ہو رہا تھا کہ اچھّا کیا جو ہم نے اپنے تالاب پر نشان بنا دیا تھا، ورنہ اِس وقت بڑی پریشانی ہو جاتی۔ دونوں چھلانگ لگا چُکے تھے مگر اشعر کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کسی لمبی سی ٹھنڈی اُنگلی اور انگوٹھے نے اُس کا کان پکڑ رکھا۔ جیسے جیسے وہ نیچے ڈوبتے چلے گئے اور اُن کی اپنی دُنیا کی شکل و صورت واضح ہوتی چلی گئی ویسے ویسے اُس انگلی کی پکڑ اشعر کے کان پر مضبوط ہوتی چلی گئی۔ آہستہ آہستہ ملکہ زوناش کی کھوئی ہوئی طاقت بحال ہوتی جا رہی تھی۔ اشعر نے بڑے ہاتھ پیر مارے کہ کِسی طرح اپنا کان زوناش کے ہاتھ سے چھُڑا لے مگر اُسے کام یابی نہیں ہوئی۔ ایک لمحے کے بعد ہی وہ ماموں دانیال کے اُسی پُر اسرار چھوٹے سے کمرے میں موجود تھے اور ماموں دانیال حیرت سے مُنہ کھولے اِس حیرت انگیز مخلوق کو دیکھ رہے تھے جسے اشعر اور عُرفی دوسری دُنیا سے اپنے ساتھ لائے تھے۔
ماموں دانیال کے ساتھ ساتھ اشعر اور عُرفی بھی کُچھ کم حیران نہیں تھے۔ عمّون کی ملکہ اپنی سلطنت میں جتنی خطرناک نظر آ رہی تھی، یہاں اُس دُنیا میں اس سے کُچھ زیادہ ہی نظر آنے لگی تھی۔ وہ اپنے قد، جسم اور طاقت کے اعتبار سے ایک جِن معلوم ہو رہی تھی۔ ممکن ہے عمّون جنوں کی ہی سلطنت ہو اور زوناش جنوں کی ملکہ ہو۔ ماموں دانیال اُس کو دیکھ کر بار بار احترام سے جھُک رہے تھے، کبھی اپنے ہاتھ ملتے اور کبھی اُس کو دیکھتے۔ وہ واقعی اُس کو دیکھ کر بد حواس ہو گئے تھے۔ حال آں کہ وہ خود ایک جادُوگر تھے۔ مگر اِس وقت ملکہ کے آگے اُن کی سِٹّی گُم تھی۔ ماموں دانیال کو سہما ہوا دیکھ کر اشعر اور عُرفی کو بڑی خوشی ہوئی۔ دونوں سوچ رہے تھے کہ ماموں دانیال نے اُن کے ساتھ جس طرح دھوکا کیا تھا ،اچھّا ہے اُس کی سزا بھُگتیں۔ یہ سارا چکّر اُن کا ہی تو چلایا ہوا تھا۔ نہ وہ انہیں دھوکے سے اِس اجنبی دُنیا میں بھیجتے، نہ یہ بلا اُن کے پیچھے لگتی۔ ملکہ زوناش کی موجودگی میں اُنہیں ماموں دانیال سے کوئی ڈر نہ تھا۔ سیر کو سوا سیر مل گیا تھا۔ عُرفی دِل ہی دِل میں کہہ رہا تھا:
’’بڑے جادُوگر بنتے تھے! قوم کے لیڈر! لوگ اُن کے کارنامے سُنہری حروف سے لکھیں گے۔ اب مزا آئے گا اُن کو۔‘‘
ماموں دانیال بڑی عاجزی سے ہاتھ مل رہے تھے۔ وہ کُچھ کہنا چاہتے تھے مگر آواز نہیں نکل رہی تھی۔ اُن کا گلا خُشک ہو گیا تھا۔ اُن کا تجربہ کُچھ زیادہ ہی کام یاب ہو گیا تھا۔ برسوں سے وہ جادُو کے تجربوں میں لگے ہوئے تھے اور اُن کے لیے دوسروں کی جانوں تک سے کھیلنے کو تیّار تھے۔ لیکن اُنہوں نے خواب میں بھی یہ نہیں سوچا ہو گا کہ جو بیج وہ بو رہے ہیں وہ ایسا خوف ناک پھل دے گا۔
ملکہ زوناش نے چاروں طرف دیکھا اور پھر بولی:
’’وہ جادُوگر کہاں ہے جِس نے مُجھے اِس دُنیا میں بُلایا ہے؟‘‘ اُس کی آواز ہلکی تھی پھر بھی پورا کمرا لرز اُٹھا۔
ماموں دانیال جلدی سے بولے:
’’جی۔۔۔۔ محترمہ! میں۔۔۔ دراصل آپ کی تشریف آوری پر بے حد خوش ہوں اور۔۔۔ آپ۔۔۔ آپ۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔ آپ کو۔۔۔ خ۔۔۔ خُوش آمدید کہتا ہوں۔ آ۔۔۔ آپ اچانک۔۔۔ بغیر کسی اِطلاع کے۔۔۔ اگر مُجھے معلوم ہو جاتا تو آپ کے شایانِ شان آپ کا اِستقبال کرتا۔ میں۔۔ میں۔۔۔‘‘
’’بے وقوف! کیا بک رہے ہو؟ میں پُوچھ رہی ہوں وہ جادُوگر کہاں ہے؟‘‘ زوناش زور سے چیخی۔
اُس کی آواز سے الماری میں رکھی ہوئی کتابیں نیچے گِر پڑیں۔ ماموں دانیال لرزتے ہوئے بولے:
’’مم۔۔۔ میں ہی۔۔۔ تو ہوں محترمہ! مُجھے اُمّید ہے۔۔۔ آپ گُستاخی کو معاف کر دیں گی۔ میرا مطلب ہے، اِن بچّوں نے میری غیر موجودگی میں شرارت میں وہ انگوٹھیاں پہن لیں اور آپ کو تکلیف دی۔ اِس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔‘‘
’’تُم جادُوگر ہو؟‘‘ ملکہ زوناش پھر چیخی اور پھر اُس سے پہلے کہ ماموں دانیال کُچھ سمجھتے، اُس نے آگے بڑھ کر اُن کے لمبے بال اپنی مُٹھّی میں پکڑ لیے اور اُن کا چہرہ اوپر کر کے غور سے دیکھنے لگی۔ ماموں دانیال آنکھیں جھپکا جھپکا کر اُسے دیکھتے رہے۔ آخر کار ملکہ نے اُنہیں ایک جھٹکے سے چھوڑ دیا۔ جھٹکا اِتنا زور دار تھا کہ ماموں دانیال پوری طاقت سے دیوار سے ٹکرائے اور زمین پر ڈھیر ہو گئے۔ وہ ویسے ہی دُبلے پتلے آدمی تھے، ملکہ زوناش کے ایک ہی ہاتھ نے اُن کے سارے کَس بَل نکال دیے۔ ملکہ غصّے سے بولی:
’’مکّار انسان! تُو جادُوگر ہی ہے مگر گھٹیا قسم کا۔ مُجھ سے اِس طرح بات نہ کر جس طرح اپنے برابر والوں سے کرتے ہیں۔ تُو نے جادُو کِس سے سیکھا؟ میں شرط لگاتی ہوں تیری رگوں میں شاہی خون نہیں ہے۔‘‘
’’جی۔۔۔ جی۔۔۔ مم میں۔۔۔ میں۔۔۔‘‘ ماموں دانیال کی آواز ہی نہیں نِکل رہی تھی۔
زوناش نے کہا۔’’میں سمجھ گئی تُو اس طرح کا جادُوگر ہے جیسے کتابیں پڑھ کر لوگ بن جاتے ہیں۔ تیرے پاس اصلی جادُو نہیں ہے۔ میری دُنیا کے خاتمے پر ایک ہزار سال پہلے جادُو کی یہ قسم بنائی گئی تھی۔ مگر اب میں تُجھے اجازت دیتی ہوں، تُو میرا ملازم بن کر رہ سکتا ہے۔‘‘
’’یہ مم۔۔۔ میرے لیے۔۔۔ بڑی۔ خ۔۔۔ خُوشی۔۔۔ کی بات ہو گی۔‘‘ ماموں دانیال ہکلا کر بولے۔
’’اچھّا اب خاموش ہو کر میری بات غور سے سُن! پہلا کام تُجھے کیا کرنا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہ شہر کافی بڑا ہے۔ میرے لیے فوراً کسی گھوڑا گاڑی کا یا اُڑنے والے قالین کا یا تربیت یافتہ اژدہے کا یا جو کُچھ بھی یہاں بادشاہوں کی سواری کے لیے استعمال ہوتا ہے، اُس کا انتظام کر۔ پھر مُجھے اُن جگہوں تک لے کر چل جہاں سے میں اپنے لیے بہترین شاہی لباس، جواہرات، سپاہی اور غُلام حاصل کر سکوں۔ کل سے میں اِس دُنیا کو فتح کرنے کی مُہم شروع کروں گی۔‘‘
ماموں دانیال جلدی سے بولے۔ ’’ٹھیک ہے ملکہ عالیہ! میں ابھی جا کر آپ کے لیے بگھّی کا انتظام کرتا ہوں۔ لیکن ابھی وہ اُٹھ کر صرف دروازے تک پہنچے تھے کہ زوناش کی آواز گونجی:
’’خبردار! غدّاری کا خیال تک دِل میں نہ آئے۔ میری آنکھیں دیواروں کے پار بھی دیکھ سکتی ہیں اور میں انسان کے ذہن میں آنے والے خیالات پڑھ سکتی ہوں۔ تو جہاں جائے گا مُجھے معلوم ہو جائے گا اور اگر نافرمانی کا شُبہ بھی ہوا، میں تیرا حشر خراب کر دوں گی۔ تُو جہاں بھی بیٹھے گا وہ جگہ آگ کی طرح تپ جائے گی۔ رات میں بستر پر بھی تُجھے چین نصیب نہیں ہو گا۔ تیرا بستر برف کی سِلوں میں بدل جائے گا۔ اب جا اور جو میں نے کہا ہے کر۔‘‘
ماموں کی ساری جادُوگری ہوا ہو چکی تھی۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے باہر چلے گئے۔
اشعر اور عُرفی بھی کُچھ سہم گئے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ زوناش اُن سے ضرور باز پُرس کرے گی اور اُن سے خاموش جنگل والے سلوک کا بدلا لے گی، مگر اُس نے اُن سے کُچھ نہیں کہا۔ ویسے بھی خاموش جنگل کی باتیں آسانی سے یاد نہیں رہتی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کمرے میں بچّوں کی موجودگی سے بے خبر ہے۔ اِس وقت اُس کا پورا دھیان ماموں دانیال کی طرف تھا۔ جادُوگروں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی خاص چیز کی طرف متوجّہ ہوتے ہیں تو آس پاس سے غافل ہو جاتے ہیں۔ ملکہ زوناش بے قراری سے اِدھر اُدھر گھوم رہی تھی۔ پھر اُس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا:
’’پتا نہیں بُوڑھا احمق کیا کر رہا ہے؟ مُجھے اپنے ساتھ ایک کوڑا بھی لانا چاہیے تھا۔‘‘ وہ یہ کہہ کر لڑکوں کی طرف دیکھے بغیر ماموں دانیال کی تلاش میں باہر نِکل گئی۔
عُرفی نے سکون کا سانس لیا اور بولا۔’’اب میں گھر جاؤں گا۔ پہلے ہی بہت دیر ہو چُکی ہے۔‘‘
اشعر نے کہا۔ ’’مگر جتنی جلدی واپس آ سکو آ جانا۔ ہمارے ہاں اس ظالم جادُوگرنی کی موجودگی کُچھ اچھّی بات نہیں ہے۔ تُم آ جاؤ تو پھِر کوئی ترکیب سوچیں گے۔‘‘
’’اب تو اس سارے قصّے سے تمہارے جادُوگر ماموں خود ہی نمٹیں گے۔ اُن ہی کا تو یہ سب چکّر چلایا ہوا ہے۔‘‘
’’اُن کو چھوڑو، تُم بس آ جانا۔ اِس مصیبت کی گھڑی میں مُجھ کو اکیلا نہ چھوڑو۔‘‘
’’اس مُصیبت کی گھڑی کے ذمّے دار تُم خود بھی ہو۔ میں منع کر رہا تھا کہ گھنٹی نہ بجاؤ۔ مگر تُم نہ مانے اور اِس خوف ناک ملکہ کو جگا کر اپنے ساتھ لگا لائے۔ خاموش جنگل میں مَیں تُم سے بھاگنے کے لیے کہہ رہا تھا تو اُس وقت بھی تُم کو اِس پر رحم آ رہا تھا۔ یہ ساری مُصیبت در حقیقت تُم نے خود پیدا کی ہے، اب کہتے ہو کہ مُجھے اکیلا نہ چھوڑو۔‘‘ عُرفی نے جھلّا کر کہا۔
اشعر نے شرمندگی سے گردن جھُکا لی۔
’’مُجھے معاف کر دو عُرفی۔ واقعی میں نے غَلَطی کی۔ بہرحال واپس ضرور آنا۔ اِس وقت مُجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔‘‘
’’تم خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہو۔ ملکہ زوناش اب ماموں دانیال ہی سے کام لے گی۔ اُن کا بستر برف کی سِلوں کا بنے گا۔ تُم سے اُسے کوئی واسطہ نہیں ہو گا۔‘‘
’’یہ بات نہیں ہے۔‘‘ اشعر نے کہا۔’’مُجھے دراصل امّی کی فکر ہے۔ اگر وہ ظالم جادُوگرنی اُن کے کمرے میں گھُس گئی تو وہ خوف سے مر جائیں گی۔‘‘
’’اوہ! اب سمجھا۔‘‘ عُرفی کا رویّہ ایک دم بدل گیا۔ ’’میں ضرور آؤں گا۔‘‘ کہہ کر وہ دروازے سے نِکل گیا۔
ماموں دانیال پریشانی کے عالم میں سیڑھیوں کے پاس اِس طرح بیٹھے ہوئے تھے کہ اُن کا سر گھٹنوں میں تھا۔ پھر وہ ہمّت کر کے اٹھے، رومال سے چہرہ صاف کیا اور اپنے کمرے میں پہنچ گئے۔ اندر جا کر اُنہوں نے دروازہ بند کر لیا اور بستر پر ڈھیر ہو گئے۔ وہ شاید اپنی پوری زندگی میں کبھی اتنے خوف زدہ نہیں ہوئے تھے۔ یہ اُن لیے ایک نیا تجربہ تھا مگر بڑا سخت۔ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد وہ اُٹھے۔ اُنہوں نے کپڑے بدلے۔ پھر اُنہوں نے اپنا سنگھار شروع کر دیا۔ وہ آج اپنے آپ کو بالکل دولھا بنانے پر تُل گئے تھے۔ سفید کوٹ جس میں سنہری بٹن لگے ہوئے تھے۔ کوٹ کے کالر میں سُرخ گُلاب کا ایک پھُول بھی لگایا تھا۔ آنکھوں میں سُرمہ لگا کر سارے کپڑوں پر عِطر چھِڑکا ۔ پھر اُنہوں نے اپنی جیبی گھڑی کوٹ کی جیب میں رکھی۔ اُس کی سنہری زنجیر کوٹ کے بٹن میں لگائی۔ سر پر لمبا سا ہیٹ رکھا، ہاتھ میں چھڑی اُٹھائی اور کھڑے ہو کر آئینے میں اپنا جائزہ لیا۔ پھر اُنہوں نے مطمئن انداز میں سر ہلا دیا۔
بوڑھے لوگ جب بے وقوفی کی حرکتوں پر اُتر آتے ہیں تو بچّوں کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ اِس وقت ماموں دانیال بھی اِس خبط میں مُبتلا ہو گئے تھے کہ ملکہ زوناش انہیں پسند کرنے لگی ہے۔ تھوڑی دیر پہلے اُس جادُوگرنی کے ہاتھوں اُن کی جو دُرگت بنی تھی اُسے وہ بالکل بھول گئے تھے۔ اِس وقت وہ اپنے آپ کو عظیم جادُوگر سمجھ رہے تھے جِس نے اپنے جادُو کے زور سے ایک انجان دُنیا کی حسین ملکہ کو اپنی دُنیا میں آنے پر مجبور کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتے ہوئے کہا:
’’دانیال، میرے دوست! تُم آج تک اکیلے رہے ہو، مگر اب تمہارے لیے ایک اچھّے ساتھی کا انتظام ہو گیا ہے۔ مبارک ہو۔‘‘ پھر اُنہوں نے دروازہ کھولا اور سیڑھیاں اُتر کر نیچے پہنچ گئے۔ اُنہوں نے اپنی ملازمہ کو آواز دے کر کہا:
’’شاہد سے کہو کہ میرے لیے ایک بگھّی لے آئے۔‘‘
اِس کے بعد اُنہوں نے مہمان خانے کا جائزہ لینا شروع کیا۔ اُنہیں اپنی بہن ثریّا نظر آئیں جو ایک طرف بیٹھی ہوئی کُچھ سِی رہی تھیں۔ اُن کے آگے کپڑوں کا ایک ڈھیر پڑا ہوا تھا۔ ماموں دانیال نے اُن سے کہا:
’’میری پیاری بہن! مُجھے دراصل باہر جانا ہے۔ مُجھے کُچھ روپے اُدھار دے دو۔ بڑی سخت ضرورت ہے۔‘‘
ثریّا بیگم نے سختی سے کہا:’’نہیں دانیال! میں تُم سے پہلے بھی کہہ چُکی ہوں، میں تمہیں کُچھ نہیں دوں گی۔‘‘
’’بھئی ضرورت ہی کُچھ ایسی آن پڑی ہے۔ اگر تُم نے مُجھے روپے نہ دیے تو میں بڑی مُشکل میں پڑ جاؤں گا۔‘‘
’’دانیال! شرم نہیں آتی تمہیں اپنی بہن سے پیسے مانگتے ہوئے؟‘‘ خالہ ثریّا ماموں دانیال سے بہت پریشان ہو چکی تھیں۔ وہ کوئی کام نہیں کرتے تھے، بس ہر وقت پیسے مانگتے رہتے تھے۔ اُن کی ضرورتیں پوری ہوتی ہی نہیں تھیں۔ جب اُن کو اُدھار نہیں ملتے تو وہ لوگوں سے اُدھار سامان لے لیا کرتے تھے اور اُن کا اُدھار خالہ ثریّا کو چُکانا پڑتا تھا۔ اب تو لوگ بھی ماموں دانیال کو اچھّی طرح جان گئے تھے۔ اُنہوں نے بھی اُن کو اُدھار دینا بالکل بند کر دیا تھا۔ اِس لیے ماموں دانیال ہر وقت خالہ ثریّا کے پیچھے لگے رہتے تھے۔ کبھی اُن کے آگے روتے، کبھی خوشامد کرتے اور کبھی دھمکیاں دیتے۔ مگر خالہ ثریّا خاصی تنگ آ چُکی تھیں۔ اُنہوں نے ماموں دانیال پر ترس کھانا چھوڑ دیا تھا۔ ماموں دانیال نے ایک بار پھر کوشش کی:
’’تُم میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ آج میں واقعی بڑی مُشکل میں ہوں۔ ایک خاص مہمان کی خاطر تواضع کرنی ہے۔‘‘
خالہ ثریّا نے پوچھا۔’’کون ہے وہ خاص مہمان جس کی تمہیں خاطر تواضع کرنی ہے؟‘‘
آفت کی پرکالہ
مہمان خانے کا دروازہ دھڑ سے کھُلا۔ خالہ ثریّا نے پلٹ کر دیکھا اور پھر دروازے میں ایک بہت ہی عجیب و غریب عورت کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئیں۔ اُس نے بہت خوبصورت لباس پہن رکھا تھا۔ اُس کی آنکھیں شُعلے برسا رہی تھیں۔ یہ ملکہ زوناش تھی، عمّون کی جادُوگرنی۔
زوناش نے بڑی رُعب دار آواز میں کہا:
’’میرے غُلام! مُجھے اور کتنی دیر بگھّی کا اِنتظار کرنا ہو گا؟‘‘
زوناش کو سامنے دیکھ کر ماموں دانیال کے اوسان خطا ہو گئے۔ اُنہوں نے زوناش کو دیکھ کر خالہ ثریّا کے پیچھے چھُپنے کی کوشش کی۔ خالہ ثریّا گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اُٹھیں اور اُس کے سامنے آ کر بولیں:
’’دانیال! یہ عورت کون ہے اور یہاں کیسے آئی؟‘‘
ماموں دانیال ہکلا کر بولے: ’’یہ۔۔۔ یہ ایک۔۔۔غ۔۔۔ غیر مُلکی مہمان ہے، بہت خاص مہمان۔‘‘
خالہ ثریّا جھِڑک کر بولیں۔ ’’کیا بکواس کر رہے ہو، کیسی خاص مہمان؟‘‘ پھر اُنہوں نے زوناش سے کہا۔ ’’فوراً میرے گھر سے باہر نِکل جاؤ، ورنہ تمہاری خیر نہیں۔‘‘
خالہ ثریّا سمجھ رہی تھیں کہ شہر میں آج کل جو سرکس آیا ہوا ہے، شاید یہ وہاں کام کرنے والی کوئی عورت ہے۔ جبھی اِتنی لمبی ہے اور اِس نے لباس بھی بڑا بھڑکیلا پہن رکھا ہے۔
زوناش نے غرّاتے ہوئے ماموں دانیال سے پوچھا۔’’کون ہے یہ عورت؟ اِس سے کہو کہ میرے سامنے فوراً جھُک کر تعظیم دے۔ ورنہ میں اِس کو جلا کر راکھ کر دوں گی۔‘‘
خالہ ثریّا نے آگے بڑھ کر کہا۔’’سُنو خاتون! میرے گھر میں ہلکی آواز سے بات کرو۔‘‘
پھر مامول دانیال کو ایسا لگا جیسے ملکہ زوناش کا قد اور لمبا ہو گیا ہو۔ وہ تن کر کھڑی ہو گئی تھی۔ اُس کی آنکھیں سُرخ ہو گئی تھیں۔ اُس نے اپنا ہاتھ اُوپر اٹھایا، مُنہ ہی مُنہ میں وہی الفاظ بڑبڑانے لگی جنہوں نے اُس کے محل کو مٹّی میں تبدیل کر دیا تھا۔ پھر اُس نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ نیچے کر لیا، مگر یہ کیا؟ کُچھ بھی نہیں ہوا۔ اپنے جادُوئی عمل کی ناکامی سے اُسے غصّہ آ گیا۔
خالہ ثریّا نے جب دیکھا کہ یہ عورت نہ جانے کیا اوٹ پٹانگ بک رہی ہے تو اُنہیں یقین ہو گیا کہ ضرور یہ پاگل خانے سے بھاگی ہے۔ ملکہ زوناش کے لیے یہ بڑا مُشکل مرحلہ تھا۔ اُس کا وہ منتر جو ہر چیز کو پلک جھپکتے میں راکھ کر دیتا تھا، اِس دُنیا میں بے کار ہو گیا تھا۔ مگر اُس نے ہمّت نہ ہاری۔ اپنی ناکامی پر غور کرنے کے بجائے اُس نے آگے بڑھ کر خالہ ثریّا کو گردن سے پکڑ کر ایک ہاتھ سے اُٹھا لیا۔ خالہ ثریّا اُس کے مضبوط پنجے میں لٹکی ہوئی ہاتھ پیر چلا رہی تھیں۔ ویسے بھی وہ بُوڑھی اور کم زور عورت تھیں۔ پھر ملکہ زوناش نے اُن کو اپنے سے بھی اُونچا اُٹھا لیا اور نیچے پٹخ دیا۔ وہ تو خیر ہوئی کہ وہ روئی کے موٹے گدّے پر گِریں جِس میں وہ ڈورے ڈال رہی تھیں ورنہ اُن کی تو ہڈّی پسلی ٹوٹ جاتی۔
اسی وقت اُن کی ملازمہ نے کمرے میں جھانک کر کہا:
’’جناب! بگھّی آ گئی ہے۔‘‘
اُس کی بات زوناش نے بھی سُن لی تھی۔ اُس نے فوراً ماموں دانیال کی طرف مُنہ کر کے کہا:
’’چل میرے غلام!‘‘
ماموں دانیال نے زوناش کی اِس حرکت پر مُنہ ہی مُنہ میں بڑبڑاتے ہوئے کُچھ احتجاج کرنے کی کوشش کی، مگر زوناش کی ایک نظر نے اُن کو خاموش کر دیا۔ اس نے اُنہیں کمرے سے باہر دھکّا دیا، پھر خود بھی باہر نکل گئی۔ اُسی وقت اشعر سیڑھیوں پر سے بھاگتا ہوا نیچے آیا۔ اُس نے ملازمہ سے پوچھا:
’’بُوا! کیا بات ہے؟ یہ شور کیسا تھا؟‘‘
بُوا نے جواب دیا۔’’پتا نہیں میاں! میرا خیال ہے بیگم صاحبہ گِر پڑی ہیں۔‘‘
اور پھر وہ دونوں بھاگتے ہوئے مہمان خانے میں گھُس گئے۔ خالہ ثریّا گدّے پر گِری تھیں، پھر بھی اُن کی ہڈّیاں دُکھ گئیں اور وہ کُچھ دیر وہیں پڑی رہیں۔ خالہ ثریّا نے اشعر کو اور اپنی ملازمہ کو بتایا کہ اُنہیں چکّر آ گیا تھا۔ اصل بات وہ گول کر گئیں۔ مگر اُن دونوں کے جانے کے بعد وہ سارے واقعے پر اچھّی طرح غور کرنے لگیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ایک نوجوان عورت نے دِن دیہاڑے اُن کے گھر میں اُن کو مارا تھا اور اُن کے بھائی دانیال کو بڑے رُعب کے ساتھ اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ پھر اُنہوں نے اپنی ملازمہ کو آواز دی:
’’بُوا! تُم ذرا تھانے جا کر آغا صاحب کو بُلا لاؤ۔ میں اُن کو بتاؤں گی کہ ایک پاگل عورت شہر میں آ گئی ہے جو پتا نہیں کہاں کہاں تباہی مچائے گی۔ میں اشعر کی امّی کو کھانا خود دے آؤں گی اور اُن کی دوا بھی دے دوں گی۔ تُم جلدی سے جاؤ۔‘‘ آغا صاحب خالہ ثریّا کے رشتے کے بھائی تھے اور اِس علاقے کے تھانے کے اِنچارج تھے۔
جب اشعر کی امّی کھانا کھا کر سو گئیں تو اشعر آہستہ سے اُن کے کمرے سے باہر نکل آیا۔ اُس نے ساری صورتِ حال پر غور کرنا شروع کر دیا۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اِس جادُوگرنی کو اِس دُنیا سے کِس طرح نِکالا جائے۔ اُسے ہر قیمت پر یہاں سے بھگانا تھا۔ اُس کو تباہی پھیلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی تھی۔ اشعر یہ بھی چاہتا تھا کہ اُس کی امّی اُس کو نہ دیکھ پائیں۔ اِس لیے وہ اپنی امّی کے کمرے کی سختی سے نِگرانی کر رہا تھا۔ اشعر ملکہ زوناش کی خُفیہ قوّتیں اچھی طرح دیکھ چُکا تھا۔ اُسے معلوم نہیں تھا کہ اِس دُنیا میں آنے کے بعد زوناش کی جادُوئی قوّتیں ختم ہو چُکی ہیں۔ وہ تو یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ جادُوگرنی جِس کسی پر بھی منتر پڑھ کر پھُونک دے گی وہ جل کر راکھ ہو جائے گا۔ اُس کو اُس کا اِرادہ بھی معلوم تھا کہ وہ اِس دُنیا پر حکومت کرنے آئی تھی۔ اُس نے تصوّر میں بادشاہ کے محل کو کھنڈر ہوتے دیکھا۔ اُس کی نظروں کے سامنے مُردہ سپاہیوں کے جلے ہوئے جِسموں کے ڈھیر تھے۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اِس خوف ناک عورت سے کِس طرح چھُٹکارا پایا جائے۔ اشعر نے سوچا کہ اگر کِسی بہانے سے میں اِس کو ہاتھ لگا کر اپنی پیلی انگوٹھی کو چھُو لوں تو اِس بلا کو خاموش جنگل لے جا سکتا ہوں۔ وہاں یہ بالکل بے بس ہو جائے گی۔ اِس کے حواس ختم ہو جائیں گے۔ مُجھے یہ خطرہ مول لینا ہی ہو گا۔ مگر اب اُس کو کہاں تلاش کروں؟ خالہ ثریّا سے کہہ کر باہر جاؤں گا تو وہ جانے نہیں دیں گی۔ پھِر اُنہیں کیا بتاؤں گا کہ کہاں جا رہا ہوں؟
اُس نے جھنجھلا کر سوچا کہ میں خواہ مخواہ پریشان ہو رہا ہوں۔ مُجھے اب ملکہ زوناش اور ماموں دانیال کی واپسی کا انتظار کرنا چاہیے۔ پھر جیسے ہی وہ اندر آئے گی میں اُس کو ایک ہاتھ سے پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے پیلی انگوٹھی کو چھُو لوں گا۔ یہ سوچ کر وہ مطمئن ہو گیا۔ پھر وہ کھانے والے کمرے میں گیا اور کھڑکی کے شیشے کے پاس بیٹھ کر دروازے کی نگرانی کرنے لگا جہاں سے اُس کو اندر آنا تھا۔ اِس جگہ سے دروازے کے علاوہ گلی بھی صاف نظر آتی تھی۔ اُس کی نظروں میں آئے بغیر کوئی بھی وہاں نہیں آ سکتا تھا۔ پھر اشعر کو عُرفی کا خیال آیا۔ پتا نہیں وہ کہاں ہے اور اب تک کیوں نہیں آیا؟
اِدھر عُرفی کی امّی نے جب اُس سے پوچھا کہ تُم کہاں گئے تھے تو اُس نے جواب دیا:
’’میں اشعر کے ساتھ کھیل رہا تھا۔‘‘
’’کھیل میں تمہیں کھانے کا بھی ہوش نہ رہا۔ جاؤ اب کھانا کھا لو اور آرام کرو۔‘‘
عُرفی۔’’بہت اچھّا امّی۔‘‘ کہہ کر کھانے کے کمرے میں چلا گیا۔ جس وقت اشعر کمرے کی کھڑکی سے لگا بیٹھا دروازے کی نگرانی کر رہا تھا، عُرفی اپنے کمرے میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ نہ جانے زوناش نے ماموں دانیال کا کیا حشر کیا ہو گا۔
اشعر ملکہ زوناش کا انتظار کر رہا تھا کہ خالہ ثریّا کی کسی عورت سے باتیں کرنے کی آواز آئی۔ وہ اُس کی امّی کا حال اپنی سہیلی کو بتا رہی تھیں۔ اشعر پریشان ہو گیا۔ اُس کی امّی واقعی بہت بیمار تھیں۔ اُن کی کم زوری روز بہ روز بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ دِل ہی دِل میں دُعا مانگنے لگا۔ ’’میرے اچھّے اللہ! میری امّی کو اچھّا کر دے۔‘‘
وہ اپنی ماں کے لیے اِسی طرح چُپکے چُپکے دُعائیں مانگ رہا تھا کہ اُسے گھوڑے کے دوڑنے کی تیز آواز سُنائی دی۔ وہ باہر نِکل کر سڑک کی طرف دیکھنے لگا۔ سڑک پر اُس نے جو کُچھ دیکھا، اُس سے اُس کا مُنہ کھُلا کا کھُلا رہ گیا۔ وہ ملکہ زوناش تھی جو ایک بگھّی پر سوار تھی۔ کوچوان کا پتا نہ تھا اور زوناش بگھّی کی چھت پر کھڑی ہوئی تھی۔ بگھّی پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی۔ گھوڑے کی لگام ملکہ کے ہاتھ میں تھی اور وہ وحشیانہ انداز میں اُس پر چابک برسا رہی تھی۔ بگھّی بڑی تیزی سے دوڑ رہی تھی مگر ملکہ نے اپنا توازن قائم کر رکھا تھا۔ اُس کے لمبے لمبے بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔ وہ گھوڑے کو بہت بے دردی سے دوڑا رہی تھی۔ غریب جانور کے جسم پر پسینا بہہ رہا تھا اور وہ دیوانہ وار بھاگ رہا تھا۔ وہ ایک مکان کی دیوار سے ٹکراتے ٹکراتے بچا اور فوراً اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا۔ بگھّی پوری قوّت سے ایک مکان سے ٹکرائی۔ مکان کی دیوار گِر گئی اور بگھّی کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ زوناش نے چھلانگ لگائی اور گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو گئی۔ پھر اُس نے جھُک کر گھوڑے کے کان میں کُچھ کہا۔ پتا نہیں کیا منتر پھُونکا اُس نے کہ گھوڑا پھر اپنی پچھلی ٹانگوں پر الف ہو گیا۔ اُس کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا اور وہ بُری طرح اُچھل کُود رہا تھا۔ شاید کوئی عام سوار اُس کی پیٹھ پر بیٹھنے کی ہمّت بھی نہ کرتا مگر ملکہ زوناش کوئی عام سوار نہ تھی۔
اُسی وقت اُس بگھّی کے پیچھے ایک اور گھوڑا گاڑی نمودار ہوئی۔ اُس میں سے ایک موٹا سا آدمی اور ایک سپاہی کود کر باہر آئے۔ اُس کے پیچھے ایک اور گھوڑا گاڑی تھی۔ اُس میں بھی کئی سپاہی تھے۔ اُن کے پیچھے بھاگتے ہوئے لوگوں کی ایک بھیڑ تھی جو شور مچاتی اِسی طرف چلی آ رہی تھی۔
سڑک کے دونوں طرف ہر مکان کا دروازہ اور کھڑکیاں کھُل چُکی تھیں۔ سب لوگ اِس شور کی وجہ جاننا چاہتے تھے۔
اِتنے میں ایک بُوڑھا آدمی آگے بڑھا اور اُس نے ملکہ زوناش کے گھوڑے کی لگامیں پکڑ کر اُسے قابو میں کرنے کی کوشش کی۔ کئی نوجوان اُس کی مدد کو لپکے۔ اشعر کی طرف بُوڑھے کی پیٹھ تھی، اِس لیے وہ اُس کا چہرہ نہ دیکھ سکا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ شاید وہ ماموں دانیال ہیں ۔ پھر اشعر بھی بھاگ کر لوگوں کی بھیڑ میں شامل ہو گیا۔
موٹا آدمی چیخ چیخ کر زوناش کی طرف اِشارہ کر کے کہہ رہا تھا:
’’یہی وہ عورت ہے، یہی وہ عورت ہے۔ سپاہیو! اِسے گرفتار کر لو۔ اِس نے میری دُکان سے ہزاروں روپے کا سامان زبردستی لے لیا ہے۔ اِس کے گلے میں جو سچّے موتیوں کا ہار ہے وہ بھی اُس نے میری دُکان سے لیا ہے۔ اِس نے میرے تمام ملازموں کو مارا پیٹا بھی ہے۔‘‘
پولیس کا ایک سپاہی بولا۔ ’’آپ شکایتیں بعد میں کریں پہلے اِس گھوڑے کو پکڑیں۔‘‘
’’یہ سب چکّر ہے کیا؟ مُجھے کوئی شروع سے بتائے۔‘‘ پولیس انسپکٹر نے کہا۔
’’میں بتاتا ہوں۔ یہ عورت۔۔۔‘‘ موٹے آدمی نے کہنا ہی شروع کیا تھا کہ ایک اور آواز آئی:
’’پہلے اِس بُوڑھے آدمی کو تو سنبھالو۔ اِس عورت نے اُس کو بھی مارا ہے۔‘‘ وہ بُوڑھا آدمی ماموں دانیال تھے۔ ملکہ زوناش کا ایک چابُک اُن کے بھی لگا تھا۔ وہ اب اپنی پیٹھ سہلا رہے تھے۔
’’کیا ہوا؟ یہ سب کیا قصّہ ہے؟‘‘ انسپکٹر نے اُن سے پوچھا۔
’’ہمف۔۔۔ ہم۔۔۔ شوں۔۔۔ ہوں۔۔۔ ہوں۔۔۔‘‘
ماموں دانیال کی بُری حالت تھی۔ اُن کی تو آواز بھی ٹھیک طرح نہیں نکل رہی تھی۔ پولیس کے دو سپاہیوں نے آگے بڑھ کر اُن کو سہارا دیا۔ وہ بُری طرح ہانپ رہے تھے۔ انسپکٹر نے کاغذ اور قلم نکال کر ہاتھ میں پکڑا اور ماموں دانیال سے بولا:
’’اپنا بیان لکھوائیے۔ یہ عورت کون ہے؟ اِس کا آپ سے کیا تعلّق ہے؟‘‘
ابھی اُس کی بات ختم ہوئی ہی تھی کہ لوگ زور سے چیخے۔ انسپکٹر اُچھل کر ایک طرف ہو گیا، ورنہ وہ گھوڑے کی دولتّی کی زد میں آ جاتا ۔ اُس کے بعد زوناش نے گھوڑے کا کان پکڑ کر مجمع کی طرف اِس طرح کر دیا جیسے وہ کاغذ کا گھوڑا ہو۔ زوناش کے ہاتھ میں ایک تیز چمک دار خنجر تھا اور وہ اُس سے چمڑے کے وہ موٹے تسمے کاٹ رہی تھی جِن سے گھوڑا ابھی تک ٹوٹی ہوئی بگھّی سے جُتا ہوا تھا۔
اِس دوران اشعر برابر یہ کوشش کرتا رہا کہ کِسی طرح اُس کو ملکہ زوناش کے قریب جا کر اُسے چھُونے کا موقع مل جائے۔ مگر یہ اِتنا آسان نہ تھا۔ اُس کے چاروں طرف بے شمار لوگ تھے۔ دوسری طرف جانے کے لیے اُسے گھوڑے کی ٹانگوں کے نیچے سے گُزرنا پڑتا جس میں اُس کی جان کو خطرہ تھا۔ پھر بھی اُس نے ہمّت نہ ہاری۔ کوشش کرتا رہا اور موقع کی تاک میں لگا رہا۔ اور پھر اُسے موقع مِل ہی گیا۔
لوگوں کا شور و غُل بہت بڑھ گیا تھا۔ ہر شخص اپنی اپنی ہانک رہا تھا۔ پولیس انسپکٹر نے تنگ آ کر کہا:
’’ایک ایک کر کے بولیے۔ میری کُچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ دراصل معاملہ یہ تھا کہ ملکہ زوناش نے آج شہر میں خوب لُوٹ مچائی تھی۔ اُس نے ایک جوہری کی دُکان سے قیمتی زیورات اُٹھائے تھے، سِلے سِلائے کپڑوں کی ایک دُکان سے اپنی پسند کے ڈھیروں قیمتی کپڑے اُٹھا لائی تھی۔ اِسی طرح ایک دُکان سے جہاں پر عورتوں کے سِنگھار کا سامان ملتا تھا، سِنگھار کا سامان لے آئی تھی۔ اُس نے کسی چیز کی بھی قیمت ادا نہیں کی تھی۔ اب یہ سارے دُکان دار اُس کے پیچھے پیچھے چلے آئے تھے۔ بگھّی والا خود پریشان تھا۔ زوناش نے اُس کے کوچوان کو باہر پھینک دیا تھا اور خود بگھّی لے کر چل دی تھی۔ راستے میں پولیس کے سپاہیوں نے اُس کو سڑکوں پر اندھا دھند بگھّی دوڑاتے دیکھا تو اُسے رُکنے کا اِشارہ کیا مگر وہ نہیں رُکی۔ اس لیے وہ بھی اُس کے پیچھے تھے۔ اُن سب کے علاوہ وہ لوگ جنہوں نے یہ سارا ہنگامہ خود دیکھا تھا اِس کا انجام دیکھنے کے لیے بھاگے چلے آ رہے تھے۔ ذرا سی دیر میں ملکہ زوناش کی شہرت سارے شہر میں پھیل گئی۔ جو بھی اُس کے بارے میں سُنتا دوڑا چلا آتا۔ کُچھ لوگ اُسے بڑی بہادُر عورت کہہ رہے تھے۔ کُچھ کا خیال تھا کہ پڑوسی ملک نے اُس کو اِس مُلک میں اِنتشار پھیلانے بھیجا ہے۔ کسی نے کہا کہ یہ کوئی بلا ہے۔ غرض جتنے مُنہ اُتنی باتیں۔
کافی دیر شور مچتا رہا۔ پھر بگھّی کے مالک نے آگے بڑھ کر زوناش سے بڑے ادب سے کہا:
’’محترمہ! اب آپ مہربانی کر کے اِس گھوڑے کو میرے حوالے کر دیجیے۔ آپ ایک عورت ہیں اور اِس قسم کی گھٹیا حرکتیں آپ کو زیب نہیں دیتیں۔ آپ تھک گئی ہیں۔ گھر جا کر آرام کیجیے۔‘‘
یہ کہہ کر بگھّی کے مالک نے گھوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا تا کہ اُس کی لگام پکڑ سکے کہ زوناش نے ڈانٹ کر کہا:
’’بے وقوف انسان! ہماری شاہی سواری سے اپنا ہاتھ دور رکھ۔ تو جانتا نہیں ہے کہ ہم ملکہ زوناش ہیں، ساری دُنیا کی ملکہ۔‘‘
بھاگ چلو
’’کہاں کی ملکہ ہیں آپ؟‘‘ ایک آواز آئی۔
’’بھئی! آپ لوگوں نے اپنی ملکہ کے اِستقبال کے لیے تالیاں بھی نہیں بجائیں۔‘‘ ایک اور آواز آئی۔ اِس کے ساتھ ہی بہت سے لوگوں نے تالیاں بجانی شروع کر دیں۔ خوب اُدھم بازی ہوئی۔
ملکہ زوناش نے لوگوں کے تالیاں بجانے پر خوشی کا اظہار کیا۔ اُس نے بڑی اکڑ کے ساتھ گردن ہلا کر اُن کے نعروں کا جواب دیا۔ مگر جلد ہی اُن کے قہقہوں کی آوازیں سُن کر وہ سمجھ گئی کہ وہ سب اُس کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ غصّے سے اُس کا چہرہ سُرخ ہو گیا۔ اُس نے اپنا ہاتھ گھُمایا اور ایک مضبُوط درخت کو زمین سے اِس طرح اُکھاڑ لیا جیسے وہ ایک کم زور پودا ہو۔ اگر اِس دُنیا میں اُس کا جادُو بے کار ہو گیا تھا تو کیا ہوا۔ اُس کی جسمانی طاقت تو برقرار تھی۔ اُس کے ہاتھ میں جڑ سے اُکھڑا ہوا درخت ایک معمولی لاٹھی معلوم ہو رہا تھا۔ پھر اُس نے اپنے اِس ہتھیار کو گھُمایا اور گھوڑے کو آگے بڑھنے کا اشارہ دیا۔
’’اب موقع ہے۔‘‘ اشعر نے کہا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر گھوڑا چند لمحے اور اپنی جگہ کھڑا رہے تو میں زوناش کی ٹانگ پکڑ سکتا ہوں۔ وہ جیسے ہی اُس طرف لپکا اُس نے ایک چیخ سُنی۔ زوناش نے درخت کو لوگوں کی طرف اُچھال دیا تھا۔ کئی آدمی زمین پر زخمی ہو کر گِر پڑے۔ پولیس انسپکٹر بھی اُس کی زد میں آ گیا۔ وہ بھی درخت کے نیچے دبا ہوا چیخ رہا تھا۔
’’جلدی کرو اشعر! اب یہ کھیل ختم ہو جانا چاہیے۔‘‘یہ آواز سُن کر اشعر گھوما۔ اُس کے پیچھے عُرفی کھڑا تھا۔ وہ شور و غُل سُن کر چُپکے سے مکان سے نِکل آیا تھا۔
’’عُرفی، اچھّا ہوا تُم آ گئے۔ بس تُم میرے قریب رہو۔ جیسے ہی میں آواز دوں تُم جلدی سے پیلی انگوٹھی کو چھُو لینا۔ یاد رکھنا، پیلی انگوٹھی کو چھُونا ہے اور اِس سے پہلے مُجھے پکڑنا نہ بھُولنا۔ میں زوناش کی ٹانگ پکڑتے ہی آواز دوں گا۔‘‘
زوناش نے درخت اُٹھا کر پھِر لوگوں پر حملہ کیا اور ایک چیخ پُکار مچ گئی۔ لوگ اب اُس سے دور ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ بس ایک بگھّی والا ہی تھا جو اِس حالت میں بھی زوناش کے قریب تھا۔ وہ اِدھر اُدھر کُود کر ملکہ زوناش کے حملے سے اپنے آپ کو بچا رہا تھا۔ اُس کی کوشش تھی کہ کِسی طرح گھوڑے کا کان یا لگام اُس کے ہاتھ میں آ جائے۔ لوگوں کو اب غصّہ آ گیا تھا۔ اُنہوں نے پتھّر اُٹھا لیے تھے اور زوناش کی طرف پھینک رہے تھے۔ ایک پتھّر اُس کے بالکل قریب آ کر گِرا، لیکن عمّون کی ملکہ بالکل خوف زدہ نہیں تھی۔
’’بُزدِلو! میں تُم سے اچھّی طرح نمٹ لوں گی۔ میں جب اِس دُنیا کو فتح کر لوں گی تو اِس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گی۔ میں اِس کو سلطنت عمّون کی طرح تباہ کر دوں گی۔‘‘
آخر کار اشعر نے اُس کی ٹانگ پکڑ ہی لی۔ زوناش نے لات چلائی جو اشعر کے مُنہ پر لگی۔ اُس کے ہونٹ پھٹ گئے تھے اور مُنہ میں خُون بھر گیا تھا۔ اُس نے جلدی سے ٹانگ چھوڑ دی۔ اُسی وقت کہیں قریب سے ماموں دانیال کی لرزتی ہوئی آواز سُنائی دی:
’’ملکہ عالیہ! اللہ کے واسطے، ہم پر رحم کیجئے۔‘‘
اشعر نے دوبارہ اُس کی ٹانگ پکڑنے کی کوشش کی۔ اِس بار بھی اُس کے مُنہ پر لات پڑی۔ اب تک بے شمار لوگ درخت کی زد میں آ کر گِر چُکے تھے۔ اشعر نے ایک بار پھر ہمّت کر کے اُس کی ٹانگ پکڑ لی اور چیخ کر بولا۔’’عُرفی ہوشیار۔‘‘
اور اِسی لمحے وہ غصّے سے بھری ہوئی ملکہ، لوگوں کے خوف زدہ چہرے، شور و غُل سب کُچھ غائب ہو گیا۔ اشعر کو ملکہ زوناش کے علاوہ عُرفی اور ماموں دانیال بھی اپنے قریب محسوس ہوئے۔ پھر اُن کی آواز آئی:
’’اوہ! یہ کیسا اندھیرا ہے، مُجھے کیا ہو گیا ہے؟ یہ کیسا مذاق ہے! عُرفی! کیا تُم میرے قریب ہو؟‘‘
’’ہاں، میں آپ کے پاس ہوں۔ آپ ہلیے نہیں اور مُجھے اِسی طرح پکڑے رہیے۔‘‘
نئی دُنیا
اُن کے سر تالاب سے باہر نِکل آئے۔ وہ ایک بار پھر خاموش جنگل میں تھے۔ اُس کی توانائی بخش روشنی اُن کو بڑی اچھّی معلوم ہو رہی تھی۔ جیسے ہی وہ تالاب سے باہر نکل کر آگے بڑھے، عُرفی حیرت سے چیخا:
’’ارے، یہ کیا؟ یہ گھوڑا بھی ہمارے ساتھ آ گیا۔ لو، ماموں دانیال اور بگھّی کا مالک بھی یہاں ہیں۔‘‘ جب ملکہ زوناش نے دیکھا کہ وہ دوبارہ خاموش جنگل میں آ گئی ہے تو اُس کا چہرہ خوف سے پیلا پڑ گیا۔ ماموں دانیال خوف سے لرز رہے تھے۔ گھوڑے نے اپنے کان کھڑے کیے، سر کو ہلایا، خوشی سے ہنہنایا اور مطمئن ہو کر گھاس چرنے لگا۔ بگھّی کا مالک گھوڑے کی حالت دیکھ کر خوش ہو گیا۔ اُس نے پیار سے اُس پر ہاتھ پھیرا۔ پھر گھوڑا اطمینان سے چلتا ہوا ایک تالاب میں گیا اور پانی پینے لگا۔
دراصل ہوا یہ کہ اشعر نے زوناش کی ٹانگ پکڑتے ہی عُرفی کو آواز دی۔ عُرفی نے اُسی لمحے اشعر کا ہاتھ پکڑ کر پیلی انگوٹھی چھُوئی۔ زوناش گھوڑے کو پکڑے ہوئے تھی، گھوڑے کو دوسری طرف سے اُس کے مالک نے پکڑ رکھا تھا اور ماموں دانیاں کا ہاتھ گھوڑے کے مالک کے کندھے پر تھا۔ اِس طرح سب خاموش جنگل میں آ گئے تھے۔
اشعر اور عُرفی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کُچھ اشارے کیے اور پھر ہری انگوٹھیوں کو چھُو لیا۔ پیاسا گھوڑا اپنی پیاس نہ بُجھا سکا۔ یہ سب لوگ ایک بار پھر اندھیروں میں اُتر رہے تھے۔ تھوڑی دیر سب خاموش رہے۔ پھر عُرفی کی آواز آئی:
’’میرے نیچے ٹھوس زمین ہے۔‘‘
اشعر نے کہا۔’’میں بھی کسی ہموار جگہ پر ہوں۔‘‘
’’ہم کہیں آ گئے ہیں، مگر یہاں اتنا اندھیرا کیوں ہے؟‘‘ عُرفی کی اندھیرے میں آواز سُنائی دی۔
’’ہم کِسی غَلَط تالاب میں تو نہیں کود گئے ہیں؟‘‘ اشعر نے پوچھا۔
پھر عُرفی نے کہا۔’’ہم شاید عمّون میں ہیں۔ آدھی رات کا وقت ہے، اِسی لیے اندھیرا ہے۔‘‘
پہلی بار زوناش بولی:
’’یہ عمّون نہیں ہے۔ یہ ایک خالی اور بے آباد دُنیا ہے۔ یہاں کُچھ نہیں ہے۔‘‘
واقعی یہ جگہ بالکل خالی خالی محسوس ہو رہی تھی۔ آسمان میں ستارے تک نہیں تھے۔ بالکل گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔ ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہ دیتا تھا۔ ان کے پیروں کے نیچے ٹھوس، ٹھنڈی اور ہموار زمین تھی۔ یہ جگہ جنگل بھی نہیں تھی، کیوں کہ یہاں گھاس محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ ہوا بالکل خُشک اور ٹھنڈی تھی۔ ماموں دانیال بہت خوف زدہ تھے۔ وہ بار بار کراہ رہے تھے اور طرح طرح کی آوازیں نکال رہے تھے۔ گھوڑے کے مالک نے اُن سے کہا:
’’شُکر کیجئے دانیال صاحب کہ اتنی اونچائی سے گِرنے کے باوجود کوئی چوٹ نہیں آئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کہاں ہیں۔ ہم شاید کسی گہرے اور اندھیرے کنویں میں گِر گئے ہیں۔ زمین کے اندر واقع کوئی سرنگ ہے۔ پتا نہیں ہم مر تو نہیں گئے ہیں؟ خیر، جو کُچھ بھی ہے ڈرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔‘‘
اشعر نے محسوس کیا کہ ماموں دانیال اُس کو پکڑ کر ایک طرف کھینچ رہے ہیں۔ وہ اُسے سب لوگوں سے دور لے گئے اور اُس کے کان میں بولے:
’’جلدی کرو۔ اپنی انگوٹھی نکالو۔ یہاں سے فوراً بھاگو۔‘‘
مگر زوناش کے کان بڑے لمبے تھے۔ اُس نے اُن کی یہ بات سُن لی تھی۔ وہ چیخ کر بولی:
’’بے وقوف کیا تُو بھُول گیا ہے کہ میں لوگوں کے خیالات تک پڑھ لیتی ہوں۔ اگر تو نے اب لڑکے کو بہکانے کی کوشش کی تو میں تیرا حشر خراب کر دوں گی۔‘‘
’’اور اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں عُرفی، گھوڑے کے مالک کو اور گھوڑے کو یہاں چھوڑ جاؤں گا تو آپ غَلَطی پر ہیں۔‘‘ اشعر نے اپنے ماموں سے کہا۔
دانیال کا مُنہ لٹک گیا۔ اچانک اُنہیں ایسا محسوس ہوا جیسے اندھیرا چھٹ رہا ہے ،ہلکی ہلکی روشنی اُبھر رہی تھی۔ ایک نور کا سا سماں تھا۔ پھر اُنہیں اپنے پیروں کے نیچے زمین چٹختی محسوس ہوئی۔ غور کرنے پر اُنہوں نے دیکھا کہ زمین میں سے پودے آہستہ آہستہ سر اُٹھا رہے ہیں۔ گھوڑا بھی اِن تمام باتوں کو محسوس کر رہا تھا۔ وہ بڑا خوش نظر آ رہا تھا۔ پھر اُنہیں آسمان میں ستارے چمکتے نظر آئے، بالکل نئے ستارے۔ مشرقی اُفق پر آسمان کی رنگت بدل رہی تھی۔ وہ سنہرا ہوتا جا رہا تھا۔ ہلکی ہلکی خوش گوار ہوا چلنے لگی تھی۔ روشنی پھیلی تو آس پاس کا منظر نمایاں ہونے لگا۔ تھوڑی دیر میں اُفق سے ایک سنہرا، روشن اور چمک دار سورج اُبھرا اور دِن نِکل آیا۔ گھوڑے کا مالک، گھوڑا، اشعر اور عُرفی حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ ماموں دانیال بھی سخت حیران تھے۔ ملکہ زوناش بھی منظر میں گُم تھی۔ وہ اپنی بد مزاجی بھُول گئی تھی۔
یہ بڑی خوب صورت جگہ تھی۔ سر سبز پہاڑیاں، گنگناتے چشمے، بل کھاتی ندیاں، ہرے بھرے درخت۔ ہر طرف پھول ہی پھول کھِل رہے تھے، ہر رنگ اور ہر قسم کے پھول۔ چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ ہوا چلتی تو یوں لگتا جیسے درخت گا رہے ہوں۔ درختوں کے درمیان ہرن کلیلیں کر رہے تھے اور مور ناچ رہے تھے۔
ملکہ زوناش پھلوں سے لدے درختوں کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ پھر وہ چونکی۔ شاید اُس نے کوئی حیرت انگیز چیز دیکھ لی تھی۔ وہ آگے بڑھی اور اس پیڑ کو غور سے دیکھنے لگی جس میں سیب لگے ہوئے تھے۔ اُس نے ایک سیب توڑا اور کھانے لگی۔ جیسے سیب کھاتی گئی اُس کے چہرے کا رنگ بدلتا گیا۔ ایک عجیب سی تبدیلی اُس میں آتی جا رہی تھی۔ سب لوگوں نے واضح طور پر محسوس کیا تھا کہ زوناش پہلے سے زیادہ جوان، صحت مند اور خوب صورت معلوم ہو رہی ہے۔ ماموں دانیال، گھوڑے کا مالک، اشعر اور عُرفی حیران تھے۔
ملکہ زوناش نے اُن کی طرف دیکھا اور کہنے لگی:
’’میری دُنیا عمّون کا وقت ختم ہو گیا تھا۔ تمہاری دُنیا میری دُنیا سے عُمر میں چھوٹی ہے۔ لیکن یہ دُنیا ابھی نئی ہے۔ یہ پاک صاف ہے۔ یہاں امن ہے، سلامتی ہے۔ انسان ابھی یہاں نہیں آیا ہے۔ جب تک وہ نہیں آئے گا یہ دُنیا اِسی طرح خُوب صُورت تر و تازہ رہے گی۔ یہاں کے پانی میں زندگی ہے، پھلوں میں رس ہے۔ میں اب یہیں رہوں گی۔ تُم لوگ اگر اپنی دُنیا میں واپس جانا چاہو تو جاؤ۔ اب میری دُنیا یہی ہے۔
پھر وہ اشعر کی طرف مُڑی اور کہنے لگی:
’’تُم ایک اچھّے لڑکے ہو۔ تمہارے دِل میں ہمدردی کا جذبہ ہے۔ جاؤ اپنی دُنیا کے لوگوں کو محبّت اور ہمدردی کا پیغام دو۔ میں اب وہ نہیں جو عمّون میں تھی۔ میں نے ظُلم اور تشدّد کا انجام دیکھ لیا ہے۔ اب میں یہاں ایک نئی زندگی شروع کروں گی۔‘‘ پھر اُس نے درخت سے ایک سُرخ سیب توڑا اور اشعر کو دیتے ہوئے بولی:
’’لو اشعر، یہ میری طرف سے ایک تُحفہ ہے۔ تمہاری ماں بیمار ہیں اور تُم ہر وقت اُن کے لیے پریشان رہتے ہو۔ یہ سیب اُن کو کھِلا دینا۔ وہ بالکل تن درست ہو جائیں گی۔‘‘
اشعر نے ملکہ زوناش کے ہاتھ سے سیب لے لیا۔ وہ اُس کی باتوں پر حیران ہو رہا تھا اور خوش بھی تھا کہ زوناش بدل گئی ہے۔ پھر زوناش نے آگے بڑھ کر ماموں دانیال کا ہاتھ پکڑا۔ وہ خوف سے کانپ رہے تھے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔
’’دانیال!‘‘ ملکہ زوناش نے اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔’’جادُو ایک بے کار چیز ہے۔ یہ دھوکا ہے۔ اِس سے نقصان کے سوا کُچھ نہیں ہوتا۔ بھُول جاؤ جو کُچھ تُم نے سیکھا ہے۔ مُجھ سے سبق حاصل کرو۔ میں نے سب کُچھ گنوا دیا۔ تمہاری دُنیا کو اچھے عمل کرنے والوں کی ضرورت ہے، جادُوگروں کی نہیں۔‘‘
ماموں دانیال نے سر جھُکا دیا۔ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر بولے:
’’میں بھی یہیں رہوں گا۔ اپنی دُنیا میں واپس نہیں جاؤں گا۔‘‘
’’نہیں، یہ جگہ تمہارے لیے نہیں ہے۔ تمہیں اپنی دُنیا میں ہی واپس جانا ہے۔ تمہاری بہن کو تمہاری ضرورت ہے۔ جاؤ، اُن کے آرام کا خیال رکھو۔‘‘ ملکہ زوناش نے کہا۔
پھر وہ گھوڑے کے مالک سے بولی۔’’مُجھے معاف کر دینا، میں نے تمہارا بڑا نقصان کیا ہے۔ لیکن لو یہ ہیرا تمہاری ساری ضرورتیں پوری کر دے گا۔ ہاں یہ گھوڑا تمہارے ساتھ نہیں جائے گا۔ یہ یہیں میرے پاس رہے گا۔ اور عُرفی، تُم ایک اچھّے دوست ہو۔ تُم نے کسی حالت میں بھی اشعر کا ساتھ نہیں چھوڑا ہے۔ دوستی اسی کا نام ہے۔‘‘
زوناش یہ کہہ کر گھوڑے کی طرف بڑھی۔ گھوڑا اُسے دیکھ کر خوشی سے پاؤں زمین پر مارنے لگا۔ وہ اُچھل کر گھوڑے پر سوار ہوئی اور اِس سے پہلے کہ گھوڑے کا مالک کُچھ کہتا، اُس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور لمحے بھر میں ملکہ زوناش اور اُس کا گھوڑا درختوں کے جھُنڈ میں غائب ہو گئے۔
ملکہ زوناش کے نظروں سے اُوجھل ہوتے ہی اشعر نے عُرفی کو اشارہ کیا۔ اشعر نے ماموں دانیال کا ہاتھ پکڑ لیا اور عُرفی نے گھوڑے کے مالک کا۔ اِس کے ساتھ ہی دونوں نے جادُوئی انگوٹھیوں کو چھُو لیا۔ پلک جھپکتے میں وہ چاروں خاموش جنگل میں تھے۔
اب واپسی کا سفر شروع ہوا۔ جب وہ لوگ واپس اپنی دُنیا میں پہنچے تُو اُن کے گھر کے آگے سڑک پر لوگوں کا ہجوم اب بھی موجود تھا۔ وہ زوناش ، گھوڑے کے مالک، گھوڑے اور دانیال کے اچانک غائب ہونے پر سخت پریشان تھے۔ جیسے ہی یہ لوگ واپس پہنچے، لوگ حیران ہو گئے۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کبھی اُنہیں، کبھی ملکہ زوناش اور اُس کے گھوڑے کو تلاش کرتے، مگر کون بتاتا کہ اصل بات کیا ہے۔ بہر حال ملکہ زوناش کے غائب ہو جانے سے لوگوں کو اطمینان ہوا اور وہ مختلف باتیں کرتے ہوئے واپس ہو گئے۔
اشعر دوڑتا ہوا اپنی امّی کے کمرے میں پہنچا۔ وہ بہت کم زور معلوم ہو رہی تھیں۔ اُن کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔ اُنہوں نے اشعر کو دیکھا اور اشارے سے اپنے پاس بُلایا۔ اشعر لپک کر اُن کے پاس پہنچا اور زوناش کا دیا ہوا سیب اپنی امّی کو دے کر کہنے لگا:
’’امّی، آپ جلدی سے یہ سیب کھا لیجیے۔ آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں گی۔‘‘
اشعر نے چھُری لا کر خُود قاش کاٹی اور بڑے اصرار سے ماں کو کھِلائی۔ اُنہیں سیب اچھّا لگا۔ ایسا میٹھا اور خوش بُو دار سیب انہوں نے کبھی نہ کھایا تھا۔ سیب کھاتے ہی اُن کے چہرے پر تازگی آ گئی اور اُنہیں یوں محسوس ہوا جیسے وہ کبھی بیمار ہی نہ تھیں۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گئیں۔ اُسی وقت ماموں دانیال کمرے میں داخل ہوئے۔ وہ کُچھ شرمسار سے تھے۔ اُنہوں نے جب اپنی بیمار بہن کو بیٹھے دیکھا تو حیران ہوئے اور خوش بھی۔ کُچھ دیر وہ اُن سے باتیں کرتے رہے۔ پھر اشعر سے بولے:
’’ذرا باہر آؤ۔ مُجھے تُم سے کُچھ بات کرنی ہے۔‘‘
باہر آ کر اُنہوں نے اشعر سے کہا:
’’ملکہ زوناش ٹھیک کہتی تھی۔ اِن جادُو ٹُونوں میں کُچھ نہیں رکھا۔ اصل زندگی تو انسان کی محنت ہے۔ اِس میں مزا ہے، لُطف ہے۔ میں نے جینے کا راز پا لیا ہے۔ میں نے وہ سب کتابیں اور انگوٹھیاں جلا دی ہیں۔‘‘