skip to Main Content

 آخری امید

اشتیاق احمد
۔۔۔۔۔
ـ ـ ـ’’ابا جان !گاڑی روکیے ذرا…‘‘  فرزانہ کی آواز گاڑی میں گونج گئی۔ 
انسپکٹر جمشید نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا:’’ نہیں فرزانہ! گاڑی نہیں رک سکتی۔‘‘
ــ’’ تمھیں معلوم ہے، آئی جی صاحب نے فوراً دار الحکومت پہنچنے کا حکم دیا ہے۔ ‘‘
’’لیکن ابا جان! اس وقت ہم جس جگہ سے گزر رہے ہیں، اس جگہ ضرور کوئی بات ہے۔ میرے کان مجھے خبر دار کر رہے ہیں اور آپ جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے مجھے کیسے کان عطا فرمائے ہیں۔ آپ بس ایک آدھ منٹ کے لیے گاڑی روک دیں۔ میں ذرا کان لگا کر غور کر لوں ۔ اگر یہ میرا وہم ہوا تو ہم فوراً آگے روانہ ہو جائیں گے۔‘‘
’’اور اگر یہ تمھارا وہم نہ ہوا تو تب بھی ہم نہیں رک سکیں گے فرزانہ اس لیے کہ…‘‘
’’جی ہاں! میں جانتی ہوں، اس صورت میں بھی آپ نہیں رکیں گے۔ آئی جی صاحب کو شہر میں آپ کی اچانک ضرورت پیش آگئی ہے لیکن میں اپنے کان کا کیا کروں؟‘‘
’’ان میں انگلیاں دے لو۔ــ‘‘ــ فاروق نے مشورہ دیا۔
  ’’تم چپ رہو، ورنہ میں اپنی انگلیاں تمھارے کانوں میں دے دوں گی۔ ‘‘  فرزانہ کی آواز میں جھنجلا ہٹ تھی۔
’’لیکن اس سے کیا ہوگا؟‘‘ محمود نے حیران ہو کر کہا۔ 
’’اچھا بابا! میں گاڑی روک رہا ہوں، لیکن صرف تیس سیکنڈ کے لیے۔ ‘‘انسپکٹر جمشیدنے جھلا کر کہا۔
’’بہت بہت شکریہ ابا جان! ابا جان ہوں تو آپ جیسے۔‘‘
’’ حد ہوگئی… یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘ انھوں نے منہ بنایا۔
گاڑی کے رکتے ہی فرزانہ نے کان لگا دیے، پھر بُری طرح اُچھلی۔ 
’’میرے کانوں کو وہم نہیں ہوا تھا۔‘‘ 
’’دھت تیرے کی… ‘‘  محمود نے جھلا کر اپنی ران پر ہاتھ مارا۔
’’ کیا ہے فرزانہ! جلدی بتاؤ …تیس سکینڈ کے بجائے ایک منٹ ہو چلا ہے۔‘‘
’’یہاں… ابا جان! یہاں کوئی عورت بہت درد بھرے انداز میں رو رہی ہے۔‘‘
’’اوہ؟ ‘‘ان سب کے منھ سے ایک ساتھ نکلا۔
  ’’اور تم اب اس عورت سے ملے بغیر نہیں رہ سکتیں…تب پھر تم اُتر جاؤ۔‘‘
ــ’’دار الحکومت یہاں سے صرف ڈیڑھ گھنٹے کے راستے پر ہے۔ فارغ ہوتے ہی مجھے فون کر دینا، اکرام کے کسی ماتحت کو بھیج دوں گا۔‘‘ 
’’ جی بہت بہت شکریہ! فرزانہ نے خوش ہو کر کہا اور گاڑی کا دروازہ کھولتے ہی اُتر گئی۔
’’آؤ… کیا تم نہیں اُتر و گے؟‘‘ فرزانہ جھلا اٹھی، کیوں کہ محمود اور فاروق ٹس سے مس نہیں ہوئے تھے۔
ـ ـ’’رونے کی آواز تمھارے کانوں نے سنی ہے، ہمارے کانوں نے نہیں…ہم کیو ںاتریں…!‘‘
’’کوئی پروانہیں…تم نہیں اُترنا چاہتے، نہ اترو!‘‘
’’بُری بات ہے محمود ! فا روق! اب یہ بے چاری اکیلی یہاں ٹھیرے گی!‘‘
ــ’’تو اسے چاہیے نا ابا جان! اپنے کانوں سے اتنا کام نہ لیا کرے۔ نہ راستہ دیکھتی ہے، نہ محل۔‘‘
’’لیجیے محاورے کی بھی ٹانگ تو ڑ دی…نہ موقع دیکھتی ہے، نہ محل۔‘‘ فاروق ہنسا۔
’’وہ تم جو دیکھ لیتے ہو۔‘‘ فرزانہ بھی ہنسی۔
’’اچھا بابا!‘‘ محمود نے جل کر کہا اور دوسری طرف کا دروازہ کھول کر کا ر سے اُتر گیا۔ساتھ ہی فاروق بھی اُترا۔
’’اچھا بھئی، اللہ حافظ۔ موبائل آن رکھنا۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے کہا اور کار آگے بڑھا دی۔
’’ضرور! ان شاء اللہ ابا جان!‘‘
وہ کار کو نظروں سے اوجھل ہوتے دیکھتے رہے۔ تین دن پہلے ایک پر فضا مقام کی سیر کے لیے گھر سے نکلے تھے۔ ابھی ایک دن ہی ہوا تھا کہ آئی جی صاحب کی طرف سے طلبی ہوگئی اور راستے میں فرزانہ کے کانوں نے پروگرام ہی بدل کر رکھ دیا۔
’’آواز اس طرف سے آرہی ہے۔‘‘ فرزانہ نے اشارہ کیا۔ اس طرف کچے پکے بہت سے گھر نظر آرہے تھے۔
 ــ ’’اس طرف سے آرہی ہے تو اسی طرف جائیں گے۔‘‘ فاروق نے کندھے اچکا ئے۔
اب تینوں اس سمت میں چلے۔ گویا یہ آبادی سڑک کے کنارے ہی واقع تھی۔ آگے بڑھنے پر انھوں نے محسوس کیا، وہ کوئی صاف ستھرا اور ماڈرن سا قصبہ تھا، کیوں کہ زیادہ تر گھر اچھے اور خوب صورت تھے۔ کچے گھر بہت کم تھے۔
  وہ صبح سویرے کا وقت تھا۔ ابھی تو وہ ناشتا بھی نہیں کر سکے تھے۔ سورج بھی لمحہ لمحہ او پر ہورہا تھا۔ موسم حد درجے خوش گوار تھا، نہ گرمی تھی نہ سردی۔ اکتوبر کا موسم ایسا ہی ہوتا ہے۔
’’تت…تو کیا تمھیں اب بھی آواز آرہی ہے فرزانہ؟‘‘ محمود نے پوچھا۔
’’بالکل آ رہی ہے۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ نے تمھیں حیرت انگیز کان دیے ہیں۔‘‘
ـ’’شکر ہے اس کا۔‘‘ فرزانہ بھر پور انداز میں مسکرائی، پھر اس نے چونک کر کہا:’’ آواز نزدیک آتی گئی۔ گویا ہم اس خاتون تک پہنچنے ہی والے ہیں لیکن حیرت ہے۔‘‘
’’ حیرت کس بات پر؟‘‘ فاروق نے اس کی طرف دیکھا۔
’’اس پر کہ قصبے کے لوگ، آس پاس کے لوگ اس کے دکھ کا علاج کیوں نہیں کر رہے۔اس کی مدد کیوں نہیں کر رہے۔ ہم نے تو سنا ہے، قصبوں اور دیہاتوں کے لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں خوب شریک ہوتے ہیں۔‘‘ 
’’ہاں! یہ بات تو حیرت انگیز ہے۔ خیر معلوم ہو جاتا ہے۔‘‘
  جلد ہی انھوں نے جان لیا، آواز کس گھر سے آرہی تھی۔ وہ ایک چھوٹا کچا گھر تھا، شاید ایک کمرے کا۔ کھلے دروازے سے صحن صاف نظر آرہا تھا اور اس صحن میں ایک چھوٹی سی چارپائی پر لیٹی ایک بوڑھی عورت رور ہی تھی۔ تینوں دروازے کے باہر رک گئے۔ 
’’السلام علیکم اماں!‘ ‘فاروق نے نرم اور محبت بھری آواز میں کہا۔
اچانک وہ چپ ہوگئی۔ وہ ایک جھٹکے سے اُٹھ بیٹھی اور پھر اس نے چلانے کے انداز میں کہا: ’’میرا بیٹا آ گیا… میرا بیٹا آگیا۔‘‘
دوسرے ہی لمحے وہ چار پائی سے اُٹھی اور ننگے پیروں دروازے کی طرف بڑھی، پھر اس نے فاروق کو بازوؤں سے پکڑ کر جھنجوڑ ڈالا :’’ میرا بیٹا…میرا بیٹا! تو کہاں چلا گیا تھا؟ دیکھ میں رورو کر پاگل ہوگئی ہوں۔‘‘
  پھر اس کی نظر فاروق کے چہرے پر پڑی۔ اس نے اپنے آنسو پونچھ کر فاروق کو دیکھا اور مایوسی سے بولی:’’ نن… نہیں… تم میرے بیٹے نہیں ہو، لیکن آواز تو بالکل وہی تھی ۔لل… لیکن تم ہو کون؟‘‘
’’اماں! ہم ادھر سے گزر رہے تھے، آپ کے رونے کی آواز سنی تو ادھر آگئے۔ ہم معافی چاہتے ہیں۔ ‘‘ محمود نے پُر سکون آواز منہ سے نکالی۔
’’معافی! معافی کیسی بیٹے! ارے ہاں۔ تم بھی تو میرے حماد نہیں ہو اور اور نہ تم۔‘‘یہ کہتے ہی وہ واپس مڑی اور چار پائی پر بے دم سی ہو کر گر پڑی۔
ـوہ چند لمحے تک باہر ہی دروازے پر کھڑے ہو کر اسے دیکھتے رہے۔ آس پاس کوئی آتا جا تا نظر نہیں آرہا تھا۔ شاید سب لوگ اپنے کھیتوں کا یا کام کاج کا رخ کر چکے تھے۔ قصبوں اور دیہاتوں کی عورتیں بھی کھیتوں میں کام کرتی ہیں، اسی لیے آس پاس سناٹا تھا۔ 
’’کیا ہم اندر آ سکتے ہیں ماں جی! ‘‘
’’ماں جی… یہ ماں جی تو تم نے بالکل میرے حماد کی طرح کہا ہے۔ تم لوگ کون ہو؟ خیر، پہلے اندر آ جاؤ۔‘‘
وہ اندر چلے آئے اور پھر اس کی چار پائی کی پٹی پر بیٹھ گئے، کیوں کہ وہاں بیٹھنے کی اور کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی۔ سامنے ایک کمرا تھا اور بائیں طرف اینٹوں کا بنا ہوا چولھا، اس میں تو اب راکھ بھی نہیں تھی، نہ جانے کب سے اس میں آگ نہیں جلائی گئی تھی۔ 
’’ آپ کے بیٹے حماد کو کیا ہوا ماں جی! وہ کہاں چلے گئے؟ اپنی ماں کو چھوڑ کر بھی بھلا کوئی جاتا ہے۔‘‘ فرزانہ نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
ـ’’وہ کہیں نہیں گیا۔ وہ مجھے چھوڑ کر جاہی نہیں سکتا۔ وہ مجھ سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ میرے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتا، پھر بھلا وہ مجھے چھوڑ کر کیوں جاتا۔ اسے تو کسی نے اغوا کیا ہے۔ سارے قصبے والے یہی بات کہتے ہیں۔‘‘
’’کیا کہتے ہیں؟‘‘
ـْْْْْ ’’یہی کہ حماد اس طرح کہیں نہیں جا سکتا۔ وہ تو ان سب کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ انتہائی محنتی تھا، بلکہ دوسروں کے حصے کا کام بھی کر دیتا تھا۔ اگر کسی کا کام ختم نہ ہوا ہوتا اور وہ اپنے کام سے فارغ ہو چکا ہوتا تھا تو اس کا کام ختم کرنے میں فوراً مدد دیتا تھا۔ بہت ہنس مکھ، خوش رہنے والا، دوسرں کے ساتھ خوب گھل مل کر رہنے والا تھا۔ تم چاہو تو آس پاس کے لوگوں سے پوچھ لو۔ سب یہی بتا ئیں گے۔‘‘
’’تو آپ کا خیال ہے، اسے کسی نے اغوا کیا ہے؟‘‘
  ’’یہ میرا خیال نہیں، یقین ہے۔‘‘
’’اور اس بات کو کتنے دن ہو گئے؟‘‘
’’کیا کہا، کتنے دن؟ دن نہیں، مہینے نہیں…تین سال… تین سال دو مہینے اور گیارہ دن ہو گئے ہیں۔‘‘
’’تین سال دو مہینے اور گیارہ دن؟‘‘ فرزانہ نے مارے حیرت کے کہا۔ اس کی آواز میں اب گہرا دکھ بھی شامل ہو گیا تھا۔
’’ہاں…‘‘  اس نے کہا اور خلا میں تکنے لگی۔
’’ یہاں تھانہ یا پولیس چوکی ہے؟ آپ نے اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی؟‘‘  فرزانہ نے پوچھا۔
’’ہاں! کیوں نہیں۔ رپورٹ درج کرانے کے بعد میں روز تھانے کے چکر لگاتی رہی۔ تھانے دار بس تسلیاں دیتا رہا، کیا اس نے کچھ بھی نہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ مائی بگّو، وہ کوئی بچہ نہیں تھا کہ کوئی اسے اُٹھائے لے جاتا۔ تیرا حماد تو بہت کڑیل نوجوان تھا، طاقتور، قد آور۔ اسے کون اغوا کر سکتا تھا۔ وہ تو اپنی مرضی سے تجھے چھوڑ کر کہیں چلا گیا۔ آ جائے گا کسی دن تھک ہار کر۔ تو فکر نہ کر۔ اب تم لوگ بتاؤ، ماں کو کیسے چین آسکتا ہے؟ جب میں چکر لگا کر تھک گئی تو جانا چھوڑ دیا۔ اب جب بھی حماد کا خیال آتا ہے، رونے بیٹھ جاتی ہوں۔ روتے روتے تھک جاتی ہوں تو سو جاتی ہوں۔ پڑوسی دودھ دہی، روٹی اور سالن روز انہ دے دیتے ہیں۔ خاص طور پر فیروز کے گھر والے میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ کھانے پینے کی اور دوسری ضروریات کی کوئی تنگی نہیں ہونے دیتے، لیکن میں کیا کروں…!حماد کے بغیر کیسے زندگی گزاروں۔ اب تو روتے روتے میری آنکھیں کم زور ہو گئی ہیں، لگتا ہے، حماد نہیں آئے گا۔‘‘
ـ’’نا اُمید نہ ہوں ماں جی! اللہ تعالیٰ کو آپ پر رحم آگیا، اس نے آپ کی مدد کے لیے ہمیں بھیج دیا ہے۔ اب ہم آپ کے بیٹے کو تلاش کر کے رہیں گے۔‘‘
’’تت… تم تلاش کرو گے؟ یہ… یہ کیسے ممکن ہے بھلا؟ تم تو خود کم عمر ہو۔ــ‘‘ 
ــ’’ہاں ماں جی! ہم کم عمر ضرور ہیں، لیکن بالکل بچے نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہم اللہ کی مہربانی سے عام بچے بھی نہیں ہیں۔‘‘
’’پھر تم کیسے بچے ہو؟ ‘‘اس نے قدرے حیران ہو کر کہا۔
ــ ’’یہ ہم پھر بتا ئیں گے، پہلے تو ہم ذرا تھانے ہو آئیں۔ آپ کے پاس اس کی کوئی تصویر ہے تو دے دیں۔‘‘
اس نے اندر رکھا ٹرنک کھولا اور تصویر نکال کر ان کی طرف بڑھا دی۔ انھوں نے دیکھا، وہ کڑیل جوان تھا۔ ایک انگلی میں انگوٹھی بھی تھی، بہت خوب صورت انگوٹھی۔ 
ــ’’لیکن تھانے دار تو تم سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرے گا۔‘‘ 
  ’’ہمیں امید ہے، ایسا نہیں ہوگا۔ آپ ہمارے لیے دعا کریں۔‘‘
’’میری دعاؤں میں اثر ہوتا تو میرا بیٹا نہ مل جاتا…!‘‘
’’یہ تو خیر آپ کو نہیں کہنا چاہیے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے، کب دعا قبول کرتا ہے۔ اب یہ جو ہم یہاں تک آگئے ہیں، یہ آپ کی دعائیں ہی تو ہمیں لائی ہیں۔ لہٰذا آپ بس دعا کریں۔‘‘ 
’’اچھا بچو! ‘‘اس نے کہا اور دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دیے۔ 
وہ گھر سے نکل آئے۔ اب ا کادکا لوگ نظر آنے لگے تھے۔ انھوں نے ایک سے پوچھا:
’’بھائی صاحب! تھانہ کس طرف ہے؟‘‘
  ’’تھا نہ؟‘‘ اس نے چونک کر کہا۔
  ’’جی تھانہ۔‘‘ محمود مسکرایا۔
اس نے ایک نظر عجیب سی ان پر ڈالی، جیسے کہہ رہا ہو، یہاں تو آج تک کسی کو تھانے کا راستہ پوچھنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ تم کیا کرو گے، تھانے کا راستہ پوچھ کر، پھر اس نے کہا: ’’بائیں طرف سیدھا راستہ تھانے کو جاتا ہے۔‘‘
ٍٍ ’’شکریہ! آپ مائی بگو کو جانتے ہیں؟‘‘ 
’’حماد کی ماں کو؟‘‘ اس نے پوچھا۔ 
’’ہاں! ‘‘محمود نے سر ہلایا۔
’’ہاں، جانتا ہوں…کیوں؟‘‘
’’حماد کے بارے میں لوگوں کا کیا خیال ہے؟‘‘
’’وہ اپنی ماں کو چھوڑ کر خود سے جانے والا تو تھا نہیں۔ وہ تو ماں پر جان دیتا تھا۔ اس لیے سب کا خیال یہی ہے کہ اسے کسی نے غائب کر دیا ہے یا جان سے مار کر کہیں دفن کر دیا ہے۔ قصبوں اور دیہاتوں میں ایسی وارداتیں ہو جاتی ہیں۔ یہاں کب پولیس چھان بین کرتی ہے۔‘‘
’’ہوں! آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ اچھا شکریہ۔‘‘ 
  ’’لیکن آپ حماد کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں، کیا اس کا کوئی سراغ ملا ہے آپ کو؟‘‘
’’ملا نہیں، ہم اس کی تلاش میں جا رہے ہیں۔‘‘
  ’’بہت مشکل ہے، تین سال ہو گئے ہیں۔ اب تو اس کی ہڈیاں بھی گل سڑ گئی ہوں گی۔ زیادہ تر خیال یہی ہے کہ حماد اب زندہ نہیں لیکن یہ بات کہنے کی کوئی بھی جرات نہیں کرتا۔ حماد کی ماں ایسا کہنے والے کی جان کو آجاتی ہے۔‘‘
’’ہاں !ماں جو ہوئی۔‘‘
یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئے۔ راستے میں ملنے والے لوگ انھیں حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگتے۔ وہ اپنا راستہ طے کرتے رہے، آخر تھا نہ نظر آ گیا۔ تھانے کی عمارت پختہ اور سرخ اینٹوں کی بنی ہوئی تھی۔ دروازے پر ایک کا نسٹیبل بھی نظر آیا، لیکن وہ بہت ڈھیلے ڈھالے انداز میں کھڑا تھا۔ وہ نزدیک پہنچے تو وہ انھیں گھورنے لگا۔ وہ اور آگے بڑھے، اس کے قریب پہنچے تو کانسٹیبل کے نتھنے پھو لنے پچکنے لگے ، بڑی بڑی اور خوف ناک مونچھیں بھی ساتھ میں حرکت کرتی نظر آئیں۔ آخر اس نے پھنکار کر کہا: ’’کہاں چلے آ رہے ہو؟ نظر نہیں آتا، یہ تھا نہ ہے۔‘‘
ـــــ’’تب تو ہم بالکل درست جگہ آئے ہیں۔ ‘‘محمود مسکرایا۔
’’اوہ ہو، اچھا… کیا کام ہے ؟‘‘
ــ’’تھانے دار صاحب کے بتانے کے لائق ہے۔‘‘
’’جائو،جائو… اندر جا کر بتائو، لیکن میرا حصہ پہلے…!‘‘
’’کیا مطلب ؟‘‘
’’ارے بھئی، تم اسے داخلہ فیس کہہ لو۔‘‘
’’اوہ! اچھا…تھانہ میں داخلہ فیس کتنی ہے ؟‘‘
’’بس پانچ سو روپے دے دو۔‘‘
  ’’چوں کہ یہ ہم واپس لے لیں گیں ، اس لیے دے دیتے ہیں ۔‘‘یہ کہہ کر محمود نے پانچ سو روپے کا نوٹ جیب سے نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔ایسے میں کانسٹیبل یہ دیکھ چکا تھاکہ اس کی جیب میں اور بھی ہزار اور پانچ سو روپے کے بہت سے نوٹ ہیں ۔ اسکی آنکھوں میں چمک لہرائی، بول اٹھا:’’ اتنے نوٹ… کہیں ڈاکہ ڈالا ہے کیا؟ـ‘‘
’’ارے نہیں ، یہ خالص میرے اپنے ہیں ۔ خالص میرے اپنے کہنے کا مطلب یہ ہے کی ان دونوں کے پاس اپنے اپنے ہیں ۔‘‘
’’کیا! اس کا مطلب ہے ، کوئی لمبا ہاتھ مارا ہے تم تینوں نے ؟‘‘
’’بتایا نا، یہ ہمارے اپنے ہیں ۔‘‘
’’اندر جائو ، پتا چل جائے گا۔ ‘‘
’’کیا پتا چل جائے گا؟‘‘
’’ یہی کہ یہ نوٹ تمھارے ہیں یا کہیں واردات کر کے حاصل کیے گئے ہیں۔‘‘
’’اچھی بات ہے، جب پتا چل جائے تو ہمیں بھی بتا دیجیے گا۔‘‘ 
  ’’تمھیں تو ایسا بتا ئیں گے کہ زندگی بھر یا درکھو گے۔‘‘
’’اــچھی بات ہے، دیکھا جائے گا۔ آؤ بھئی۔‘‘
اور پھر وہ اندر کی طرف چل پڑے۔ پہلے ایک بہت کھلا صحن آیا۔ صحن کے سامنے تین کمرے تھے۔ تینوں پر چق ڈالی گئی تھی۔ ایک دروازے پر لکھا تھا: ’’سب انسپکٹر عامی خان۔‘‘
ــوہ چق اُٹھا کر اندر داخل ہو گئے۔ تھانے دار صاحب کرسی کی پشت پر سر رکھے گہری نیند کے مزے لے رہا تھا۔
انھوں نے کھنکار کر اسے جگانا چاہا، لیکن ان کی کھنکاروں سے جاگنے والا وہ کہاں تھا۔
’’اے جناب!‘‘ محمود نے ہانک لگائی۔ وہ اب بھی ٹس سے مس نہ ہوا۔
  ’’سنیے انسپکٹر صاحب!‘‘ فاروق بولا:’’ بلکہ اُٹھیے، جاگ جائیے۔ آپ کا سونے کا وقت پورا ہو چکا۔ اب آپ کے جاگنے کے دن آگئے۔ اب آپ ایسے جاگیں گے کہ نیند آپ سے کوسوں دور بھاگ جائے گی۔‘‘
کانسٹیبل ان کے عقب میں نمودار ہوا: ’’ اے بد تمیز و! یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ انسپکٹر صاحب کی شان میں گستاخی پر گستاخی …!‘‘ ایسے میں سب انسپکٹر عامی خان کا جسم ایک جھٹکے سے ہلا، پھر اس نے آنکھیں کھول دیں، چلا کر بولا:’’ یہ شور کیسا ہے؟‘‘
’’سر !شوریہ لوگ کر رہے ہیں۔ میں انھیں سمجھا رہا تھا، لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔‘‘
’’تو اب سمجھ جائیں گے۔‘‘
’’اور سر! ان کے پاس بڑے کرنسی نوٹ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ لگتا ہے، کہیں لمبا ہاتھ مار کر آئے ہیں۔‘‘
’’کیا!!!ارے تو ان کے ہاتھوں میں اب تک ہتھکڑیاں کیوں نہیں لگائی گئیں۔ ‘‘
’’آپ کی طرح یہ دوسروں کے بھی آرام کا وقت ہے نا سر!‘‘ اس نے فوراً کہا۔
’’اوہ…جاؤ، جگاؤ انہیں ۔‘‘ 
وہ فوراً مڑااور کمرے سے نکل گیا۔ اب انسپکٹر عامی خان ان کا جائزہ لینے لگا۔ کافی دیر تک گھورتے رہنے کے بعد بھی اس نے کچھ نہ کہا، بس گھورتا ہی رہا، یہاں تک کہ عملے کے تین آدمی اور اندر آ گئے۔ اب انھوں نے بھی ان تینوں کو گھورنا شروع کیا۔ 
’’ آخر گھورنے کا سلسلہ کب ختم ہوگا! ‘‘
’’ہتھکڑیاں لگا دو انھیں۔‘‘
’’کس جرم میں؟‘‘ محمود نے حیران ہو کر کہا۔ 
’’تم لمبی چوڑی واردات کر کے آرہے ہو۔ غلام خان کی بات نہیں سنی تم نے…یہ کہ تم لمبا چوڑا ہا تھ مار کر آرہے ہو اور تمھارے پاس لوٹی ہوئی بڑی رقم بھی موجود ہے۔‘‘ 
’’اوہ اچھا یہ بات ہے، تو پھر پہلے تفصیل سن لو، بعد میں ہمیں گرفتار کر لینا۔ ہم بھاگے نہیں جا رہے۔ ہم سے بات چیت کرنے میں آپ کا ہی فائدہ ہے۔‘‘
’’اچھا کہو، کیا بات ہے؟‘‘
’’دو تین سال پہلے حماد نامی ایک نوجوان قصبے سے غائب ہو گیا تھا۔ اس کا آج تک کوئی پتا نہیں چلا۔ اس کی ماں رو رو کر پاگل ہو گئی ہے۔ اس کی تلاش کے سلسلے میں تم لوگوں نے اب تک کیا کیا؟ اس کی فائل نکال کر لے آؤ اور تفصیل بھی سناؤ۔‘‘
’’ہائیں، ہائیں… تم لوگوں نے سنا، یہ لڑکا کس طرح باتیں کر رہا ہے، جیسے یہ ہم پرافسر لگا ہوا ہے؟‘‘
’’ہاں سر! یہ تو بالکل ایسے انداز میں باتیں کر رہا ہے۔‘‘ ایک نے کہا۔
’’تو کوئی بات نہیں، اس کو ابھی ہوش میں لے آتے ہیں۔‘‘
’’میں نے کہا ہے، حماد کی فائل نکلواؤ۔ اس وقت تم لوگوں کے سامنے دارالحکومت سے آئے محکمہ سراغ رسانی کے لوگ بیٹھے ہیں۔ زیادہ آئیں بائیں شائیں کی تو انجام اوربھیا نک ہوگا۔‘‘
ــ’’کیا کہا…! محکمہ سراغ رسانی کے لوگ…‘‘عامی خان نے کہا اور قہقہے لگانے لگا۔اس کے ساتھی بھی قہقہے لگانے لگے۔
وہ سب بُرے برے منھ بنانے لگے۔ محمود نے کہا:’’ اچھی بات ہے۔ خوب قہقہے لگا لو، جب تھک جاؤ تو بتا دینا۔‘‘
ان کے قہقہے ایک دم رک گئے، پھر عامی خان نے کہا: ’’تو تم محکمہ سراغ رسانی کے افراد ہو؟‘‘
’’تم نہیں! آپ … تمیز سے بات کرو۔‘‘ محمود نے منھ بنایا۔
’’اپنے کاغذات دکھاؤ۔‘‘ عامی خان نے جھلا کر کہا۔
’’ہاں، اب بات کی ہے قاعدے کی۔‘‘ محمود نے کہا اور اپنے خصوصی کا غذات نکال کر سامنے رکھ دیے۔
اب تو ان کے ہاتھوں کے تو تے اُڑ گئے۔ بدن تھر تھر کانپنے لگے، آنکھوں میں خوف سما گیا۔ آخر عامی خان نے کہا:’’ آپ… آپ… انسپکٹر جمشید کے بچے ہیں؟ ‘‘
’’جی جناب!‘‘
’’مم…معافی…معافی چاہتے ہیں۔ آپ کو آتے ہی یہ کاغذات دکھا دینے چاہییں تھے۔‘‘
’’آپ نے یہ موقع دیا ہی کب…آپ کو تو قہقہے لگانے سے فرصت نہیں تھی۔ ‘‘
’’ ہم…ہم سب معافی چاہتے ہیں۔ آپ ہمارے مہمان ہیں۔ میں ابھی حماد کی فائل نکال کر لاتا ہوں۔ غلام خان! تم باہر ٹھیرو گیٹ پر… عاقل میاں! آپ میرے ساتھ آئیں۔ بہادر علی! ان معزز مہمانوں کے پاس ٹھیرو۔‘‘ اس نے ایک ہی سانس میں سب کو ہدایات دے ڈالیں اور پھر وہ عاقل خان کو ساتھ لے کر تیزی سے باہر نکل گیا۔
انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
ـ ’’کیا خیال ہے؟‘‘ محمود نے سرسری انداز میں کہا، کیوں کہ ایک کانسٹیبل بہادر علی وہیں موجود تھا۔
’’تیل دیکھتے ہیں، تیل کی دھار دیکھتے ہیں…پھر جیسے کو تیسا۔‘‘
’’بالکل ٹھیک۔‘‘
اچانک ایک سخت آواز گونجی:’’ خبر دار…!  ہاتھ اوپر اٹھا دو۔‘‘
 …٭…٭…
انھوں نے دیکھا، سب انسپکٹر عامی خان ان پر پستول تانے کھڑا تھا، جب کہ عاقل خان کے ہاتھ میں بندوق تھی اور اس کا رُخ بھی ان کی طرف تھا۔
’’تم تینوں نے ہاتھ نہیں اُٹھایا۔ ہم فائر کریں گے، پھر نہ کہنا۔‘‘
’’اس کی کیا ضرورت ہے…پہلے تو اس بات کی وضاحت کر دیں؟‘‘
’’ہاتھ آئے شکار کو کیوں جانے دیں ! تم تینوں  کے پاس کافی نقدی ہے۔ ‘‘
’’بس! تم صرف اس نقدی کی وجہ سے ہمیں جان سے مارو گے ،قتل کے مجرم بنو گے؟ کیا یہ بے وقوفی نہیں؟ آخر ہمارے والد صاحب یہاں پہنچ جائیں گے اور تم لوگ قانون کے شکنجے میں آ جاؤ گے۔ پھر کیا فائدہ ہوگا اس بات کا۔ نقدی ہم تم لوگوں کو ویسے ہی دے دیتے ہیں۔ بس تم فائل نکال لاؤ۔‘‘
’’کیا مطلب؟ یعنی ہم نے اس وقت جو کچھ کیا؟ آپ لوگ اسے بھول جائیں گے؟‘‘ عامی خان نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’ہاں، تا کہ آپ لوگ جرائم سے تو بہ کر لیں۔ ساری عمر کے لیے جیل نہ جائیں۔ ایسا ہم انسانیت کے ناطے کریں گے، کیوں کہ ابھی تک آپ نے سنگین جرم نہیں کیا، اگر چہ ارادہ کر چکے تھے، قتل کا ارادہ۔ یہ بھی کچھ کم خوف ناک نہیں۔ ہم آپ کے لیے کہہ رہے ہیں۔ آپ بہت برے پھنس جائیں گے۔ اب بھی وقت ہے، یہ پستول اور رائفل گرادیں۔ حماد کی فائل نکال کر لے آئیں۔ اگر آپ نے ایسا کر لیا اور سچے دل سے تو بہ کر لی تو ہم اس بات کو نظر انداز کر دیں گے، ورنہ جیل تو آپ کے لیے تیار ہے ہی۔‘‘
’’ لیکن آپ تین بچے ہی تو ہیں! ہمارے مقابلے میں آپ کر کیا لیں گے! ہم یہ سنہری موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ ہم یہ داؤ ضرور کھیلیں گے، آریا پار۔‘‘ 
’’آپ کی مرضی! اب تمام ترذمہ داری آپ کے سر ہوگی۔ اب جو کرناہے، کرلو۔خود کو بچا سکتے ہیں تو بچالیں۔‘‘
’’عاقل خان! نشانہ لے لو اور تینوں پر ایک ہی وقت گولی چلا دو، میں بھی تمھارے ساتھ ہی فائر کروں گا۔‘‘
’’او کے سر۔‘‘ عاقل خان نے کہا اور ان کا نشانہ لے لیا، اس کی انگلی ٹریگر پر جم گئی۔
عامی خان بھی اسی پوزیشن میں آچکا تھا۔ عین اس وقت دو فائر ہوئے۔ عامی خان کے ہاتھ سے پستول اور عاقل خان کے ہاتھوں سے رائفل نکل گئی۔ محمود اور فاروق کے ہاتھوں میں پستول تھے…انھوں نے بجلی کی تیزی سے پستول نکال کر فائر کیے تھے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ محمود اور فاروق اس طرح حرکت میں آئیں گے۔ ایسے میں انھوں نے فرزانہ کی چہکتی آواز سنی: ’’اور ابھی تو میرے ہاتھ میں بھی پستول تھا، لیکن میں نے فائر نہیں کیا۔ میں موقعے اور محل کی منتظر تھی۔‘‘
’’اب تم ہاتھ اوپر اُٹھا دو…فرزانہ! ان کا پستول اور رائفل اٹھا لو، باقی دونوں بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور غلام خان! تم بھی …‘‘یہ کہتے ہوئے انھوں نے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا۔ وہاں اندر کا منظر دیکھ کر غلام خان تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں اگر چہ رائفل تھی لیکن رائفل چلانے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔
جلد ہی انھوں نے سب کو رسیوں سے جکڑ دیا، پھر کچھ خیال آنے پر عاقل خان کے ہاتھ پیر کھول دیے۔
’’تم حماد کی فائل نکال کر لے آؤ۔ فاروق !تم اس کے ساتھ جاؤ۔ اسے پوری طرح زد میں رکھنا۔‘‘
’’فکر نہ کرو۔‘‘ فاروق مسکرایا۔
پستول کی زد پر رکھتے ہوئے فاروق اسے رکارڈ روم میں لے گیا۔ جلد ہی وہ فائل سمیت واپس لوٹے۔ فائل آتے ہی محمود نے سب انسپکٹر ا کرام کا نمبر ڈائل کیا۔
’’ہاں محمود! کیا حال ہے! سنا ہے، تفریحی دورے سے واپسی ہے آج۔‘‘
’’ واپسی میں ذرا بھنگ پڑ گئیـ۔‘‘ محمود ہنسا۔
’’ارے نہیں بھئی، وہ رنگ میں بھنگ ہوتی ہے۔ ‘‘اکرام ہنسا۔
  ’’چلیے! پھر یونہی سہی انکل! پہلے حالات سن لیں۔ اس کے بعد حرکت میں آجائیں۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔ تم کہتے ہو تو کر لیتا ہوں ایسا، ورنہ میں پہلے حرکت میں آنا پسند کرتا ہوں۔‘‘ سب انسپکٹرا کرام مسکرایا۔ 
محمود نے تمام حالات سنا دیے۔ اس کے خاموش ہونے پر اکرام نے کہا:’’ اس کا مطلب ہے، اس تھانے کا سارا عملہ ہی غلط کام کر رہا تھا۔ اچھا ہوا تم لوگ اس طرف آگئے، ور نہ یہ لوگ بے چارے قصبے کے لوگوں کے ساتھ تو نہ جانے کیا کیا نا جائز کام کرتے ہوں گے، انھیں کس کس طرح لوٹتے ہوں گے۔ خیر، ہم ان سب سے اُگلوالیں گے اور انھیں قرار واقعی سزا دلوائیں گے۔ جو انھوں نے کیا، اب ویسا ہی بھریں گے اور اب اس سلسلے میں فوری طور پر دار الحکومت سے نیا عملہ بھی لانا ہوگا۔ آخر کو یہ تھا نہ ہے، خالی تو نہیں چھوڑا جا سکتا۔ میں سر جمشید سے بات کرتا ہوں۔ وہ آئی جی صاحب سے بات کریں گے اور ان شاء اللہ آج ہی یہاں نیا عملہ آجائے گا اور اُمید ہے عوام سکھ کا سانس لیں گے۔ انھیں انصاف ملے گا، ظلم و ستم کا بازار بند ہو گا۔‘‘
ــ’’واقعی انکل! اس لحاظ سے تو ہمارا یہاں آنا بہت بہتر رہا، لیکن ابھی ہمارا اصل کام باقی ہے اور وہ ہے حماد کا سراغ لگانا۔ آخر وہ کہاں ہے، زندہ ہے، یا کسی نے اسے مار دیا ہے۔ بہر حال جو بھی ہے، ہمیں اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا ہو گا۔ ابھی سب انسپکٹر عامی خان اور اس کے ماتحتوں کو فی الحال یہیں، یعنی انھی کے تھانے میں بند رکھا جائے گا، کیوں کہ حماد کے سلسلے میں کسی وقت بھی ان سے سوالات پوچھنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ فی الحال یہ لوگ یہیں رہیں گے۔ نیا عملہ آنے تک یہ یہاں ٹھیریں گے لیکن تم لوگوں کا اب کیا پروگرام ہے؟‘‘
’’فی الحال تو ہم کسی ہوٹل میں کمرا کرایے پر لے رہے ہیں۔ اب یہاں ٹھیر نا جو پڑ گیا ہے۔‘‘ 
’’اس کی ضرورت نہیں۔ ‘‘اکرام مسکرایا۔
  ’’جی، کیا کہا! کس کی ضرورت نہیں؟‘‘ محمود نے حیران ہو کر پوچھا۔
  ’’اس لیے کہ اس قصبے میں ایک سرکاری ریسٹ ہاؤس ہے۔ تم لوگ وہاں ٹھیرو۔وہاں ملازم بھی ہے اور میرے ایک دو ماتحت بھی وہاں تم لوگوں کے ساتھ رہیں گے۔ اس طرح تم آرام سے حماد والے معاملے کو دیکھ سکو گے۔ ویسے میرا خیال ہے، حماد کا سراغ انھی دنوں زیادہ آسانی سے لگ سکتا تھا، لیکن ان دنوں تو پولیس نے شاید کچھ بھی کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔‘‘
’’ایسا ہی لگتا ہے، اس لیے بے چارے کا کچھ پتا نہیں لگا۔ یہ بھی ان کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ہوا ہے۔‘‘
’’خیر کوئی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اِدھر بھیج دیا ہے۔ اب ہم ان شاء اللہ حماد کا سراغ لگا لیں گے۔‘‘
’’ان شاء اللہ!‘‘
اکرام اپنے انتظامات میں مصروف ہو گیا۔ یہ لوگ حماد کی فائل کھول کر اس کا مطالعہ کرنے لگے۔ فائل کے مطالعے سے جو باتیں ان کے سامنے آئیں، وہ یہ تھیں: 
حماد تین سال پہلے 9 ۔اپریل کو صبح سویرے کھیتوں میں کام کرنے گیا۔ ان دنوں وہ زمیندار احمد نواز خان کے کھیتوں میں کام کر رہا تھا۔ قصبے کے زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش یہی تھا کہ سارا سال مختلف لوگوں کے کھیتوں میں کام کرتے رہتے تھے۔ اس طرح انھیں سارا سال ہی کام ملتا رہتا تھا۔ یہ سارا قصبہ ہی زرعی تھا۔ قصبے کے لوگ کبھی کسی زمیندار کے کھیتوں میں کام کرتے تو کبھی کسی کی زمینوں پر۔ حماد صبح کھیتوں پر گیا، شام کو معمول کے مطابق واپس آیا اور روز مرہ کے کام کاج اور کھانے وغیرہ کے بعد سو گیا۔ دوسری صبح وہ گھر میں نہیں تھا۔ اس کا بستر خالی پڑا تھا۔ ماں نے اسے آواز یں دیں لیکن اس کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے گھر سے باہر نکل کر آس پاس کے پڑوسیوں سے پوچھا۔
حماد کی ماں اس لیے پوچھ رہی تھی کہ اس کا ایک معمول تھا۔ وہ صبح سوکر اُٹھتا تو گھرکے کام کاج میں لگ جاتا۔ اپنی والدہ کو کم سے کم کام کرنے دیتا تھا۔ جو کام بھی وہ ماں کی مدد کے طور پر کر سکتا تھا، کرنے لگ جاتا تھا۔ تمام کاموں سے فارغ ہو کر وہ کھیتوں پر کام کرنے چلا جاتا۔ بس یہ تھا اس کا معمول۔ بہر حال اس روز صبح سے شام ہو گئی لیکن حماد کے بارے میں کچھ پتا نہ چلا۔ حماد کی والدہ تو صبح سے ہی بے چین تھی، لیکن شام ہوتے ہوتے تو آس پاس کے لوگ بھی گھبرا گئے اور حماد کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ قصبے اور دیہات کے لوگ ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتے ہیں، دکھ درد میں اور خوشی میں برابر شریک رہتے ہیں، اس لیے سب لوگ حماد کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ انھوں نے کھیت چھان مارے۔ گاؤں سے باہر بھی کافی دور تک دیکھ آئے لیکن حماد تو اس طرح غائب تھا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ دوسرے دن تلاش کا دائرہ اور بڑا کر دیا گیا۔ لوگ موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں پر تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، لیکن ان کی ہر کوشش ہی بے کا رگئی۔ اس طرح تلاش جاری رہی۔ لوگ تھانے بھی جاتے رہے، لیکن تھانے دار عامی خان بھی کوئی کام نہ دکھا سکا۔ اس طرح آہستہ آہستہ معاملہ پرانا ہوتا گیا۔ مایوسی کے با دل گہرے ہوتے چلے گئے۔ لوگ یہ خیال کرنے لگے کہ کسی نے اسے قتل کر دیا اور کہیں دفن کر دیا۔ ایک بس مائی بگّو تھی، جو یہ بات ماننے پر کسی صورت تیار نہیں تھی۔ اس کا بس ایک ہی جملہ تھا:
ــ’’میرا بیٹا زندہ ہے۔ وہ ایک دن ضرور لوٹ کر آئے گا۔‘‘
  تین سال ضرور گزر گئے لیکن مائی بگّو کے آنسو ختم نہ ہو سکے۔ وہ بلا ناغہ دن میں اور رات میں کئی بار روتی، آس پاس کے لوگ اس کے رونے کی آواز سنتے۔ ان کی بھی آنکھوں میں آنسو آ جاتے لیکن وہ اس کے لیے کر کچھ نہیں سکتے تھے، وہ بالکل بے بس تھے۔ 
وہ فائل پڑھ کر فارغ ہوئے تو ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آ چکے تھے اور وہ بری طرح بے چین ہو رہے تھے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا۔ جیسے مائی بگّو کی ساری بے چینی ان میں منتقل ہو گئی ہو۔ ان حالات میں محمود نے سب انسپکٹر ا کرام کو فون کیا۔ 
ــ’’انکل! حسب عادت ہم ابھی اور اسی وقت اس کیس پر کام شروع کر رہے ہیں۔ اب ہم آرام نہیں کر سکتے۔‘‘ 
اکرام نے کہا:’’ اچھی بات ہے۔‘‘
’’بلکہ اس سے بھی پہلے انکل! ہم مائی بگّو سے بات کریں گے، اس روز جب حماد کام سے واپس آیا تھا، اس کا مزاج کیسا تھا، وہ کسی سے لڑ بھڑ کر تو نہیں آیا تھا۔‘‘ 
’’ایسی کوئی بات ہوتی تو قصبے میں یہ بات اس کے غائب ہوتے ہی سامنے آجاتی۔‘‘اکرام نے کہا ۔
  محمود نے کہا:’’ پھر بھی انکل! بعض باتیں سامنے نہیں آپاتیں، لیکن اندر کے لوگوں کو معلوم ہوتی ہیں۔‘‘
اکرام نے کہا:’’ خیر، ٹھیک ہے۔ تم آغا ز کرو۔ میں ادھر کے کام مکمل کرتا ہوں۔‘‘
’’نیا عملہ آنے پر میں تو واپس چلا جاؤں گا اور تم رات کو کہاں ٹھیرو گے؟‘‘ 
محمود نے کہا:’’ وہیں ریسٹ ہاؤس میں۔‘‘ 
’’احتیاط کی ضرورت ہے۔ اگر یہ قتل کا کیس ہے تو قاتل کے کان کھڑے ہو چکے ہیں کہ تین سال بعد کچھ لوگ گڑے مردے اُکھاڑنے کے لیے آچکے ہیں۔ یا اغوا کا کیس ہے، تب بھی اغوا کرنے والا خبر دار ہو چکا ہوگا ،نہیں ہوا تو ہو جائے گا۔‘‘
’’ہوں… اللہ مالک ہے۔ ہم احتیاط کریں گے۔ اب ہم چلتے ہیں۔‘‘
  وہ وہاں سے سید ھے مائی بگّو کے گھر آئے۔
’’ کچھ ہوا، میرے بچو!‘‘
’’ماں جی! ہم نے کام شروع کر دیا ہے اور کام کی ابتدا آپ سے ہو رہی ہے۔‘‘ 
’’مجھ سے! کیا مطلب؟‘‘
’’جس رات حماد غائب ہوا، اس روز اس نے کھیتوں میں اپنا کام کیا تھا۔ پھر گھر آیا تھا اور اپنے سارے کام معمول کے مطابق کیے تھے۔ پھر سو گیا تھا اور دوسری صبح بستر پر نہیں ملا تھا۔ آپ یہ بتائیں، اس روز جب وہ کام سے واپس آیا تھا تو اس کا مزاج کیسا تھا، غصے میں تو نہیں لگتا تھا؟‘‘
’’مزاج…غصے میں…؟‘‘ مارے حیرت کے مائی بگّو بول اُٹھی۔
’’ہاں! سوچ کر بتائیں؟‘‘
’’بات دراصل یہ ہے بچو! وہ بہت خوش مزاج ہے۔ ہر وقت چہکتا مسکراتا اور دوسروں سے ہنس ہنس کر باتیں کرنا اس کی عادت ہے لیکن اس روز واقعی اب تم نے پوچھا ہے تو یاد آیا، وہ چپ چپ تھا، لیکن سچ تو یہی ہے کہ اس بات کا خیال تمھارے پوچھنے پر آیا ہے، ورنہ میں خود سے اس روز یہ بات محسوس نہیں کر سکی تھی۔‘‘
’’جب آپ نے محسوس ہی نہیں کیا تو یہ پوچھنے کا سوال ہی کب پیدا ہوا تھا کہ بیٹے! تم چپ چپ کیوں ہو۔‘‘
’’ہاں بالکل، جب میں نے محسوس ہی نہیں کیا تو پو چھ کیسے سکتی تھی۔‘‘
  ’’آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ اب آپ بتا ئیں ! یہ زمیندار نواز احمد خان کیسا آدمی ہے؟‘‘
’’اچھا آدمی ہے۔ اس کے خلاف کبھی کوئی بات سننے میں نہیں آئی۔ کام کے پورے پیسے شام ہوتے ہی دے دیتا ہے۔‘‘
’’ہوں! حماد نے کبھی کوئی شکایت تو نہیں کی۔‘‘
  ’’نہیں! ‘‘اس نے انکار میں سر ہلایا۔
’’اچھی بات ہے ماں جی! ‘‘محمود نے کہا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔
  ’’اب کہاں چلے، ابھی تو آئے ہو؟‘‘ 
’’اب ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، جب تک کہ آپ کے بیٹے کا سراغ نہیں لگا لیتے۔ اس وقت تو ہم احمد نواز خان سے ملنے جارہے ہیں۔‘‘
’’اوہ! تو کیا تم یہ خیال کر رہے ہو کہ حماد کی گمشدگی کا تعلق اس سے ہے۔‘‘
’’ماں جی! ابھی ہم کچھ بھی خیال نہیں کر رہے، بس آپ ہمارے لیے دعا کریں۔‘‘ 
’’میں تمھارے لیے دعا نہیں کروں گی تو کس کے لیے کروں گی۔ تم تو میری آخری اُمید ہو۔‘‘
’’کک…کیا کہا آپ نے؟‘‘ فاروق چونکا۔
’’میں نے کہا ہے …تم تو میری آخری اُمید ہو۔‘‘
محمود نے جلدی سے فاروق کو گھورا، کہ کہیں وہ یہ نہ کہہ دے، کہ آخری اُمید تو کسی ناول کا نام ہو سکتا ہے۔ اب اس بے چاری کی سمجھ میں یہ بات کیا خاک آتی۔ فاروق نے بھی فوراً یہ بات بھانپ لی اور یہ جملہ نہ کہا۔
’’اچھا ماں جی! ہم چلے۔‘‘
’’ اللہ کام یاب کرے۔‘‘ اس نے فوراً کہا۔ 
’’آمین۔‘‘ ان کے منھ سے ایک ساتھ نکلا۔
  اب وہ باہر کی طرف چلے۔ ایک گزرتے ہوئے شخص سے نواز احمد خان کے گھر کا راستہ پوچھا۔ اس نے فوراً راستہ بتا دیا۔ تینوں تیز تیز قدم اُٹھانے لگے۔ یہاں تک کہ صرف دس منٹ بعد وہ ایک بڑے مکان کے سامنے کھڑے تھے۔ انھوں نے دیکھا، وہ کوٹھی نما مکان تھا اور بہت لمبا چوڑا بھی تھا۔ اس کا دروازہ بھی بہت بڑا اور پرانی سیاہ لکڑی کا تھا۔ باہر کوئی چوکیدار وغیرہ نہیں تھا۔ محمود نے آگے بڑھ کر دروازے کی گھنٹی بجادی۔ ایک بار نہیں، وقفے سے تین بار بجادی۔ فوراً ہی دروازہ کھلا اور سخت لہجے میں کہاگیا: ’’ تین بار گھنٹی کیوں بجائی؟ کیا آپ کے خیال میں اندر سب بہرے بستے ہیں۔‘‘
انھوں نے دیکھا، وہ بڑی بڑی خوف ناک مونچھوں والا شخص تھا اور دیہاتی لباس میں تھا۔ 
’’اوہ معاف کیجیے گا، ہم ذرا غلط سمجھ گئے تھے۔ ہمیں محترم احمد نواز خان صاحب سے ملناہے؟‘‘ 
’’کیوں ملنا ہے؟‘‘ اس کے لہجے میں اکھڑ پن تھا۔
’’ان سے ضروری کام ہے۔‘‘
’’تم اس قصبے کے تو نہیں لگتے؟ ‘‘اس نے انھیں غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں! ہیں بھی نہیں۔‘‘
’’میں بتا دیتا ہوں۔ اب معلوم نہیں، وہ ملنا پسند کرتے ہیں یا نہیں۔‘‘  
’’اگر وہ ملنا پسند نہیں کریں گے تو پھر یہاں پولیس آئے گی اور وہ ہماری ان سے ملاقات کا بندو بست کرے گی۔‘‘
’’کیا کہا…یہ کیا بات ہوئی؟‘‘
’’جو کہا ہے، وہی بات ہوئی۔ اندر جا کر بتادیں۔ دارالحکومت سے تفتیشی ٹیم آئی ہے۔‘‘ 
’’تفتیشی ٹیم… ‘‘اس نے انھیں تیز نظروں سے گھورا، پھر بولا:’’ تم پاگل لگتے ہو۔ تم تو بچے ہو تمھارا کسی محکمے سے کیا تعلق؟‘‘
’’تعلق ہے، تمھیں اس سے کیا مطلب؟ اگر تم نے اور دیر لگائی تو ہوسکتا ہے، خان صاحب تم پر بگڑیں۔‘‘
’’جا رہا ہوں، وہ مجھ پر نہیں تم پر بگڑیں گے۔‘‘ 
  ’’کوئی پروا نہیں، ہمیں اپنا کام کرنا ہے۔ کوئی بگڑے یا سنورے۔‘‘ 
اس نے انھیں تیز نظروں سے گھورا، پھر ایڑیوں پر گھوم گیا۔ وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا چلا جا رہا تھا۔ تین منٹ بعد اس کی واپسی ہوئی۔ ’’چلو، خان صاحب بلا رہے ہیں۔‘‘ اس نے کا فی نفرت کے انداز میں کہا۔
وہ مسکرا کر رہ گئے۔ ایسی باتوں پر وہ کبھی غصے میں نہیں آتے تھے، دماغ ہمیشہ ٹھنڈا رکھتے تھے۔ ملازم انھیں ساتھ لے کر چلا۔ پہلے ایک بہت بڑا صحن عبور کرنا پڑا، پھر کہیںجا کر کمرے نظر آئے۔ ڈرائنگ روم میں انھیں بٹھا کر ملازم چلا گیا۔ جلد ہی وہ پھر اندر آیا۔اس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی۔ اس میں لسی کا جگ اور تین گلاس تھے۔ 
’’یہ آپ کیا کرنے لگے؟ آپ خان صاحب کو بھیجیں، ہم یہاں کچھ کھانے پینے نہیں آئے۔‘‘
’’ لیکن بچو! یہ ہمارے ہاں کی روایت ہے۔ گھر آنے والوں کولسی پانی کے بغیر نہیں جانے دیتے۔‘‘
یہ بھاری بھر کم آواز سن کر وہ چونک گئے۔ اندر داخل ہونے والا شخص بہت لمبا چوڑا تھا۔ اس کی سرخ سرخ آنکھیں باہر کو اُبلی ہوئی تھیں اور ان کی وجہ سے اس کا چہرہ خوف ناک لگتا تھا۔
’’السلام علیکم! آپ ہیں احمد نواز خان؟‘‘
’’ہاں !لیکن یہ لسی تو آپ کو پینی پڑے گی۔‘‘
’’پہلے سن لیں، ہم دار الحکومت سے آئے ہیں۔ ہمارا تعلق پولیس سے ہے اور ہم حماد کے سلسلے میں آئے ہیں۔‘‘
’’حماد…کون حماد۔‘‘ اس نے حیران ہو کر کہا۔ 
وہ اس وقت اس کی طرف غور سے دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے صاف محسوس کر لیا کہ وہ حماد کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے، پھر بھی انجان بن رہا ہے۔
’’مائی بگّو کا بیٹا، جو تین سال پہلے آپ کے کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ ایک روز وہ اپنے گھر سے غائب ہو گیا۔‘‘
’’اچھا وہ…ہاں، میں اس کے بارے میں جانتا ہوں، لیکن آپ اس کے سلسلے میں میرے پاس کیوں آئے ہیں؟‘‘ 
’’جس سے اس کا تعلق رہا ہے، اس سے تو ہمیں ملنا ہی ہوتا ہے۔ وہ آپ کے کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ اس روز اس نے تمام دن کام کیا۔ شام کو گھر واپس آیا تھا۔ گھر میں اس نے اپنے سب کام معمول کے مطابق کیے، البتہ اس روز وہ قدرے چپ چپ تھا۔ اس کا مطلب ہے، دن میں کوئی بات ہوئی تھی۔ وہ کیا بات تھی، ہمیں پتا لگا نا ہوگا اور یہ ہمیں آپ ہی بتا سکتے ہیں کہ اس روز کیا نا خوش گوار واقعہ پیش آیا تھا؟‘‘
’’تم لوگوں کا دماغ درست نہیں۔ میں کھیتوں میں ان کام کرنے والوں کے ساتھ نہیں ہوتا۔ ہاں کبھی کبھار چکر لگانے کے لیے چلا بھی جاتا ہوں۔ اس روز حماد کے ساتھ کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ آیا ہوگا تو میرے کھیتوں سے باہر۔ ہو سکتا ہے، اس کا کسی سے جھگڑا ہوا ہو ۔‘‘
’’مطلب یہ کہ آپ کی اس سے کوئی ان بن نہیں ہوئی، کوئی ناراضی والی بات نہیں ہوئی؟‘‘ 
’’بالکل نہیں۔‘‘
’’اچھا چودھری صاحب! ہم چلتے ہیں۔‘‘
  ’’تم لوگوں نے لسی نہیں پی؟‘‘ اس نے انھیں گھورا۔
  ’’بات یہ ہے چودھری صاحب! ہم لسی پیتے ہی نہیں، چائے پیتے ہیں، وہ بھی اپنے وقت پر۔ ہمارے چائے کے اوقات مقرر ہیں ۔ ان اوقات کے بغیر ہم چائے بھی نہیں پیتے لہٰذا اللہ حافظ۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اسی وقت غلام شاہ اندر داخل ہوا۔
’’ میر املازم تمھارے ساتھ جائے گا۔‘‘ احمد نواز خان کا لہجہ نا خوش گوار تھا۔
ایسے میں فرزانہ کے جسم کو ایک جھٹکا لگا۔ اس کے چہرے پر خوف دوڑ گیا۔
…٭…٭…
محمود اور فاروق نے یہ بات فوراً محسوس کر لی۔ انھوں نے اس کی طرف دیکھا اور پریشان ہو گئے، کیوں کہ اس کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا تو دوسرا جا رہا تھا۔
’’خیر تو ہے فرزانہ!‘‘
وہ چونک اٹھی، جیسے اسے آس پاس کا ہوش ہی نہیں رہا تھا۔ محمود کے پکارنے پر ہوش میں آگئی۔
’’میں… الحمد للہ !ٹھیک ہوں۔‘‘
’’ان لوگوں کو دروازے تک چھوڑ آؤ۔ چوکس رہنا، یہ کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرنے پائیں۔‘‘
’’ایسی ویسی حرکت سے کیا مراد چودھری صاحب!‘‘
’’پہلی بات یہ کہ میں چودھری نہیں کہلاتا، خان صاحب کہلاتا ہوں۔ دوسری بات تم لوگ کوئی نہ کوئی ایسی ویسی حرکت کر سکتے ہو، اس لیے میں نے یہ بات احتیاطاً کہی ہے۔‘‘اس نے جلدی جلدی کہا۔
’’اچھا کیا، کوئی پروا نہیں، ویسے آپ کے ملازم کا کیا نام ہے؟‘‘
’’غلام شاہ …یہی نام ہے نا تمھارا غلام شاہ!‘‘ احمد نواز خان یہ کہتے ہوئے ہنسا۔
’’جی ہاں سر!‘ ‘اس نے دانت نکال دیے، پھر ان کی طرف مڑا: ’’آئیے چلیں۔‘‘  
وہ اس کے ساتھ باہر نکل آئے ا ور صحن عبور کرنے لگے۔ محمود اور فاروق اس وقت شدید بے چین تھے۔ وہ جلد از جلد جان لینا چاہتے تھے کہ فرزانہ کو کس بات پر جھٹکا لگا تھا۔ وہ اچانک خوف زدہ کیوں ہو گئی تھی۔ آخر دروازے پر پہنچ کر غلام شاہ نے کہا: ’’اچھا جی…‘‘
’’شکریہ جناب!‘‘ محمود نے کہا اور غلام شاہ نے دروازہ بند کر دیا۔
’’آؤ جلدی…میں خوف محسوس کر رہی ہوں۔‘‘
’’اللہ اپنا رحم فرمائے۔ ہوا کیا ہے؟‘‘
’’ تم آؤ تو۔‘‘
اس نے کہا اور تیز چلتے ہوئے ان سے آگے نکل گئی۔ انھیں بھی رفتار بڑھانی پڑی۔
’’ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘‘
’’پہلے ہمیں مائی بگّو کے گھر جانا ہے۔ پھر انھیں ساتھ لے کر تھانے جائیں گے۔ میں خوف محسوس کر رہی ہوں۔ شاید خطرات ہماری طرف منھ کھولے بڑھ رہے ہیں اور ہم ان کی لپیٹ میں آسکتے ہیں، لیکن اس سے پہلے کہ ہم خطرات کی لپیٹ میں آئیں، ہمیں مائی بگّوسے ملاقات کرنی ہے اور انھیں تھانے لے جانا ہے، تاکہ ان کی حفاظت کاانتظام کر سکیں۔‘‘
’’اچھی بات ہے، رفتار تیز کر دو، لیکن یہ تو بتا دو تم چونکی کیوں تھیں؟‘‘
’’ غلام شاہ جب ہمیں باہر ملا تھا، یعنی جب ہم نے گھنٹی بجائی تھی اور اس نے دروازہ کھولا تھا، اس وقت…‘‘ فرزانہ کہتے کہتے رک گئی۔ اس نے خوف زدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھا، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ 
’’آس پاس کوئی نہیں ہے جو تمھاری باتیں سن لے گا۔ کہہ ڈالو۔ کیا کہنا چاہتی ہو۔‘‘محمود جل گیا۔
’’غلام شاہ جب پہلی بار ہمیں نظر آیا، اس کی بائیں ہاتھ کی انگلی میں ایک انگوٹھی تھی لیکن بعد میں جب وہ کچھ دیر پہلے ڈرائنگ روم میں نظر آیا، وہ انگوٹھی اس کی انگلی میں نہیں تھی۔‘‘ 
’’لیکن اس میں عجیب بات کیا ہو گئی! بھئی، نکال دی ہوگی اس نے۔‘‘ فاروق نے بر اسا منھ بنایا۔
’’لیکن کیوں نکال دی ہو گی؟‘‘
’’بس ہم وہ وجہ جاننا چاہتے ہیں، کیوں کہ ویسی ہی انگوٹھی حماد نے بھی پہن رکھی ہے۔‘‘  فرزانہ مسکرائی۔
’’اوہ…اوہ…‘‘ ان دونوں کے منھ سے نکلا۔ 
آخر وہ مائی بگّو کے گھر پہنچ گئے۔ وہ اندر موجود تھی۔ اسے دیکھ کر انھوں نے اطمینان کا سانس لیا۔
’’ماں جی! آپ کو ابھی اور اسی وقت ہمارے ساتھ چلنا ہے۔ آپ بس کھڑی ہو جائیں۔ ہم خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔‘‘
’’خطرہ!‘‘ مارے گھبراہٹ کے اس نے کہا۔ 
’’جی ہاں! خطرہ…آئیے، چلیں۔‘‘
’’چلو بیٹا!‘‘
وہ اسے ساتھ لے کر تھانے کی طرف روانہ ہوئے۔ نہ جانے کیوں ان کے دل زور زور سے دھڑک رہے تھے۔ اصل میں یہاں اُن کے پاس کوئی گاڑی نہیں تھی اور غلطی ان سے یہ ہوئی تھی کہ سب انسپکٹر اکرام کو فون کر کے گاڑی کے لیے نہیں کہا تھا۔
تیز تیز چلتے وہ خیریت سے تھانے پہنچ گئے۔ یہ دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی کہ تھانے میں بھی ہر طرح خیریت تھی۔ اکرام اور اس کے ماتحت وہاں موجود تھے۔ اب سب ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔
’’کیا رہا بھئی۔ـ‘‘  اکرام نے بے تابی کے عالم میں کہا۔
ـ’’انکل ! لگتا ہے، ہم درست سمت میں جارہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی ہم خطرہ بھی محسوس کر رہے ہیں!‘‘
’’کیا یہاں پہنچ کر بھی خطرہ بدستور محسوس کر رہے ہو؟ ‘‘  اکرام نے پوچھا۔
’’ ہاں انکل! یہاں پہنچ کر بھی…اور ہم پہلی فرصت میں ماں جی سے ایک ضروری بات پوچھ لینا چاہتے ہیں۔‘‘
’’تو پوچھ لو، انتظار کس بات کا ہے؟‘‘
’’ماں جی! کیا آپ کے بیٹے حماد…‘‘
عین اس لمحے ایک زور دار دھما کا ہوا۔ یوں لگا جیسے بم پھٹا ہو اور پھر ان سب کے ذہن تاریکی میں ڈوب گئے۔
…٭…٭…
انھیں ہوش آیا تو اکرام اور ان کے ماتحتوں سمیت وہ سب رسیوں سے بندھے ہوئے تھے اور کسی تہہ خانے میں تھے۔ ان کے سروں پر رائفلیں لیے عامی خان، غلام خان اور عاقل خان کھڑے تھے۔ ان کے چہروں پر شیطانی مسکراہٹیں تھیں۔
’ ’تو ہوش آ گیا تمھیں۔‘‘
’’ہاں! اللہ کی مہربانی سے لیکن یہ سب چکر کیا ہے؟‘‘
ـ’’چکر…ہاں، چکر کی وضاحت تو خیر ہم کریں گے۔ تمھیں موت کے گھاٹ اُتارنے سے پہلے تمھیں حماد کی کہانی سنائیں گے۔ اسی کی تلاش میں نکلے تھے نا تم لوگ! اور خود بھی پھنس گئے۔‘‘
ـ’’حماد کہاں ہے حماد؟‘‘ مائی بگّو چلائی۔
’’ فکر نہ کر و تمھیں اس کے ساتھ ہی آخرت کے سفر پر بھیج رہے ہیں۔‘‘
’’تت…تو میرا حماد زندہ ہے…آپ نے سنا، میرا حماد زندہ ہے…میں نے کہا تھا نا، میرا دل کہتا ہے، حماد زندہ ہے۔‘‘ مائی بگّو بے تابانہ انداز میں کہتی چلی گئی۔
’’لیکن اب کیا فائدہ…اب تو تمھیں خود بھی اس کے ساتھ مرنا پڑے گا۔‘‘
’’ ان لوگوں کی دخل اندازی کی وجہ سے تمھیں یہ دن دیکھنا پڑا…ورنہ تم رو دھو لیتی تھیں، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
’’ کہاں ہے میرا حماد؟‘‘
ـ ’’گھبراؤ نہیں، آجا تا ہے ابھی مل لینا اس سے۔ پہلے باس کو آ لینے دو۔‘‘ 
’’ باس…کیا مطلب؟‘‘ وہ سب چونکے۔
اس لمحے بھاری قدموں کی آواز سنائی دی۔ انھوں نے دیکھا، احمد نواز چلا آ رہا تھا۔اس کے چہرے پر غرور ہی غرور تھا۔ 
’’ یہ لوگ حماد کو تلاش کرنے نکلے تھے۔ اب خود بھی پھنس گئے ہیں۔ بڑے بنے پھرتے ہیں جاسوس۔ چلے آئے دارالحکومت سے۔ ہے کوئی تک! اپنا اپنا کام کرو، خوش رہو، دوسروں کے کام میں کیوں ٹانگ اڑاتے ہو۔ جس طرح حماد پھنس گیا، اسی طرح یہ بھی پھنس گئے۔ــ‘‘ احمد نواز خان فخر اور غرور کے عالم میں کہتا چلا گیا۔ 
’’وہ کیسے پھنس گیا؟‘‘ محمود نے جلدی سے کہا، کیوں کہ یہ بات جاننے کے لیے وہ بہت بے چین تھے۔
’’اس کی قسمت خراب تھی۔ ہم سے کچھ کہنے کے لیے کھیتوں سے میرے گھر چلا آیا۔ میرا بڑا بیٹا کہیں دروازہ اندر سے بند کرنا بھول گیا تھا۔ اس نے پوچھا نہیں نہ دستک دی، بس اجڈوں کی طرح اندر چلا آیا۔ ادھر میں عامی خان سے لوٹ مار کی وارداتوں کا حساب کتاب کر رہا تھا۔ ہمیں اس کے اندر تک آجانے کا پتا ہی نہ چلا۔ ہم اس وقت برآمدے میں بیٹھے تھے، لیکن ہمارے منھ دروازے کی طرف نہیں تھے۔ وہ نزدیک آ گیا اور ہماری بہت سی باتیں اس نے سن لیں۔ اس نے جان لیا کہ ہم لوگ لوٹ مار کا کام کرتے ہیں، یعنی پورا تھا نہ میرے ساتھ ملا ہوا ہے۔ یہ خاموشی سے واپس لوٹ گیا لیکن باہر جاتے وقت اسے عامی خان نے دیکھ لیا۔ وہ فوراً سمجھ گیا کہ حماد نے ہماری باتیں سن لی ہیں۔ باتیں نہ سنی ہوتیں تو وہ اپنی بات کرتا، لیکن اس کے خاموشی سے لوٹ جانے کا مطلب یہی تھا کہ اس نے باتیں سن لی ہیں ۔ اب ہم پریشان ہو گئے، کیوں کہ حماد کے ذریعے یہ باتیں سارے قصبے میں پھیل سکتی تھیں۔ اسی وقت ہم نے اسے اٹھانے کا پروگرام بنا لیا اور رات کے وقت اسے اُٹھا لائے۔ میں تو اسے قتل کرنا چاہتا تھا، لیکن یہ ہے ناعا می…یہ قتل کے حق میں نہیں تھا، اس لیے اسے مکان کے تہ خانے میں قید کر دیا۔ بس دو وقت روٹی دے دیتے تھے…اور پانی۔‘‘ 
ـ’’ وہ ہے کہاں؟‘‘
’’ابھی ملوا دیتے ہیں۔‘‘ احمد نواز خان ہنسا، پھر اپنے ساتھیوں سے بولا:’’ جاؤ، اس گنوار کو لے آؤ۔ کم بخت تین سالوں میں ذرا بھی نہیں بدلا۔ اسی طرح ہے، جیسا پہلے تھا۔‘‘
’’مم…میر ا فرماں بردار بیٹا جو ہوا۔‘‘ مائی بگّو کے منھ سے نکل گیا۔
ان میں سے دو تہ خانے کے ایک تاریک گوشے میں چلے گئے۔ جلد ہی وہ حماد کو دونوں طرف بازوؤں سے پکڑ کر لاتے نظر آئے۔ اس وقت انھوں نے حماد کو دیکھا۔ وہ بہت لمبا چوڑا اور خوب صورت جوان تھا۔ پھر جونہی اس کی نظر اپنی ماں پر پڑی، وہ پوری قوت سے چلا اٹھا: ’’ماں!‘‘
ساتھ ہی اس نے ان دونوں کو زور دار جھٹکا دیا۔ اس طرح اس کے ہاتھ چھوٹ گئے اور وہ اپنی ماں کی طرف دوڑ پڑا۔ وہ جو اسے پکڑ کر لا رہے تھے، اس کی طرف دوڑے، لیکن نواز خان نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں روک لیا۔
’’مل لینے دو بھئی، اسے اپنی ماں سے، ہمارا کیا جاتا ہے۔‘‘
حماد اپنی ماں سے لپٹ گیا۔ دونوں رونے لگے۔ ان کے رونے کی آوازوں سے تہ خانہ گونجنے لگا۔
’’ میرا بیٹا…میرا بچہ…!‘‘
’’میری ماں …ماں…!‘‘ 
’’اب بس کرو، بہت مل لیے۔ ہمیں اپنا کام بھی کرنا ہے۔ عامی خان! اب تو انھیں ٹھکانے لگانا ہوگا۔ ایک گہرے گڑھے میں ان سب کو دبانا ہوگا، کیوں کہ یہ لوگ آخر دار الحکومت کے ہیں۔ ان کی تلاش میں ان کے بڑے تو آئیں گے۔ سنا ہے، ان کے بڑے کا نام انسپکٹر جمشید ہے۔ بہت نامی گرامی آدمی ہے۔ وہ یہاں آکر بہت ہل چل مچائے گا۔ لہٰذا ہمیں ان کے دبانے کا کوئی سراغ نہیں چھوڑنا چاہیے ورنہ ہم سب بھی مارے جائیں گے۔ غلام شاہ جیسی کوئی غلطی اگر ہم نے کی تو پھر ہم گئے کام سے۔‘‘
اس کے ایک ساتھی نے پوچھا: ’’کیا مطلب باس! آپ کے غلام شاہ سے کیا غلطی ہوئی؟‘‘
ــــ’’اس کم بخت کو میں نے پہلے دن ہی منع کیا تھا کہ حماد کی کوئی چیز استعمال نہ کروکوئی پہچان نہ لے، پھر بھی اس نے اس کی انگوٹھی اُتار کر خود پہن لی۔ اب جب یہ لوگ مجھ سے ملنے آئے تو وہ انگوٹھی اس کے ہاتھ میں تھی۔ میں نے جو اس کے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا تو یہ گھبرا کر کمرے سے باہر گیا اور انگوٹھی اُنگلی سے نکال دی۔ اب جب یہ واپس کمرے میں آیا تو یہ لوگ اس کی انگلی میں انگوٹھی نہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔خاص طور پر یہ چالاک لڑکی تو چونک اٹھی۔ میں نے اسے چونکتے دیکھ لیا اور اسی وقت میں نے سمجھ لیا کہ کام خراب ہو گیا۔ اب یہ لوگ پولیس کی بھاری نفری لے کر آئیں گے اور میرا گھر چھان ماریں گے۔ تہ خانہ تلاش کر لینا بھی ان کے لیے مشکل نہیں ہو گا۔ بس اسی وقت آناً فاناً مجھے ان پر وار کرنے کا پروگرام بنانا پڑا اور شکر ہے، یہ ابھی سنبھل نہیں پائے تھے کہ ہم نے انھیں جالیا۔ اب اگر فکرہے تو اس بات کی کہ ان کے بڑے آئیںگے، ان سے کیسے نبٹا جائے۔‘‘
’’اس کی ترکیب میں بتا دیتا ہوں۔‘‘
محمود کی آواز تہ خانے میں گونج اُٹھی۔ وہ چونک کر اس کی طرف مڑے۔ نواز خان نے ہنس کر کہا: ’’ لو! اپنے بڑوں سے نبٹنے کی ترکیب بھی خود ہی بتا رہا ہے۔ اس سے بڑا بے وقوف کون ہوگا۔‘‘
’’تم!‘‘ فاروق مسکرایا۔
’’کیا!!!‘‘ وہ چیخا۔
ــ ’’ہاں تم سے بڑا بے وقوف کون ہوگا، جو اتنا بھی نہیں جانتا، جرم چھپا نہیں رہتا۔ کبھی نہ کبھی ظاہر ہو کر رہتا ہے اور ایک نہ ایک دن انسان جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے، جیسا کہ تم ہو گے۔ اب ترکیب سنو تم خود کو قانون کے حوالے کر دو، ہمیں کھول دو۔ اسی میں تمھاری بھلائی ہے۔‘‘
’’ سنا تم نے…یہ لوگ نہ جانے خود کو سمجھتے کیا ہیں۔ حال آنکہ ہم نے ان پر نہایت آسانی سے قابو پا لیا ہے۔‘‘
ـ’’اس کی وجہ ہے۔ ہم تم لوگوں کو سیدھے سادے بے وقوف قسم کے مجرم خیال کر بیٹھے تھے۔ اس بات کا تو ہمیں گمان بھی نہیں تھا کہ تم بھی تجربے کا رمجرم ہو سکتے ہو اور تمھارے پاس بھی دھماکا خیز مواد ہو سکتا ہے۔ بہر حال یہ ہماری بے وقوفی تھی، دشمن کیسا ہی ہو، اسے کم زور اور بے وقوف نہیں خیال کرنا چاہیے۔اب تو ہو گئی غلطی۔‘‘
’’عامی خان! کیا خیال ہے؟ اب ہمیں ان لوگوں سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کر لینا چاہیے۔‘‘
’’ میں ایک بار پھر کہتا ہوں باس! ہمیں قتل جیسے بھیا نک جرم سے بچنا چاہیے، ورنہ ہم ان لوگوں کے بڑوں سے بچ نہیں سکیں گے، لہٰذا انھیں بندھا چھوڑ کر یہاں سے بھاگ نکلتے ہیں۔ ابھی ہمارے پاس بھاگنے کے لیے بہت وقت ہے۔ ہم یہاں سے دور بہت دور پہنچ جائیں گے۔‘‘
’’ با س! انسپکٹر صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ قتل زیادہ خوف ناک جرم ہے۔ اگر پکڑے گئے تو سزا ہو جائے گی۔ اس جرم میں تو عام طور پر پھانسی یا عمر قید ہوتی ہے۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔ یہ تو پہلے ہی بندھے ہوئے ہیں۔ بس حماد کو باندھ دیتے ہیں۔‘‘
’’ ٹھیک ہے۔‘‘
ـ ’’تب پھر غلام شاہ! جلدی کرو۔‘‘
  انھوں نے حماد کو جکڑ دیا۔
’’آؤ چلیں، اب ان کی قسمت کیسے یہاں سے نکل پاتے ہیں، یا یہیں مر کھپ جاتے ہیں۔ ‘‘عامی خان نے کہا۔
’’ہمارا مقصد تو دولت سے ہے باس! وہ ہم سمیٹ لے جا رہے ہیں! صبح کا سورج نکلنے سے پہلے ہم نہ جانے کہاں کے کہاں پہنچ چکے ہوں۔‘‘ وہ منھ سے کچھ نہ بولے۔ انھیں جاتا دیکھتے رہے۔
’’ اب ہماری باری ہے‘‘۔ محمود کی آواز سنائی دی۔
ان سب نے چونک کر محمود کی طرف دیکھا۔
  حماد کی ماں نے کہا:’’ کیا مطلب بیٹے! تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘
’’ ہم ابھی ان رسیوں سے آزاد ہو جاتے ہیں، آپ فکر نہ کریں۔ یہ ہمارا روز کا کام ہے۔ چلو فا روق! میری کلائی پر بندھی رسی پر اپنے تیز دانت آزماؤ۔ـــ‘‘
فاروق نے اپنا کام شروع کر دیا۔ جلد ہی محمود کے ہاتھ کھل گئے۔ اب اس نے اپنے جوتے کی ایڑی سرکائی اور اس میں سے ننھا سا چاقو نکالا۔
’’ ارے اتنا ننھا سا چاقو، وہ بھی جوتے کی ایڑی میں!‘‘ مارے حیرت کے حماد کے منھ سے نکلا۔
ـ ’’جی ہاں! ایسے حالات میں یہ ہمارا بہترین ہتھیار ہے۔‘‘ محمود نے کہا اور چاقو سے ان سب کی رسیاں کاٹ دیں۔ 
’’انکل! آپ حماد اور ان کی والدہ کو محفوظ مقام پر پہنچا دیں۔ دارالحکومت سے فوراً فورس منگوا لیں، تا کہ ہم بغیر کسی خون خرابے کے ان سب کو گرفتار کر سکیں، ورنہ یہ لوگ گرفتاری سے بچنے کے لیے ہاتھ پاؤں بہت ماریں گے، ہر ممکن حد تک جان لڑا ئیں گے۔ـ‘‘
ـ’’ٹھیک ہے محمود میاں!‘‘
سب انسپکٹر ا کرام، انسپکٹر جمشید کو فون پر حالات بتانے لگا۔ باقی سب وہاں سے چھپتے چھپاتے نکلنے لگے ۔محمود، فاروق اور فرزانہ آگے تھے، باقی لوگ پیچھے۔ اب ظاہر ہے، یہ تہ خانہ نواز خان کے گھر کا تہ خانہ تھا، جب وہ اس سے نکل کر او پر آتے تو گھر میں ہی آتے اور وہاں نواز خان اور عامی خان سے ملاقات ہو سکتی تھی، لیکن ملاقات سے پہلے وہ حماد اور اس کی والدہ کو محفوظ مقام پر پہنچا دینا چاہتے تھے اور انھوں نے یہی کیا۔ اوپر آکر اکرام نے اپنے چار ماتحتوں کو اشارہ کیا۔ وہ ان دونوں کو لے کر نکل گئے۔ اب انھوں نے گھر سے باہر نکل کر چاروں طرف پوزیشن لے لی۔ گھر میں روشنی تھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ لوگ ابھی اندر ہی ہیں۔ فرار ہونے میں کچھ تو وقت لگنا ہی تھا۔
پھر تھوڑی دیر بعد وہ گھر کے دروازے سے باہر نکلے۔ ان میں ہر کسی کے ہاتھ میں پستول یا رائفل نہیں تھی۔ انھوں نے بھاری بھر کم بیگ ہاتھوں میں اُٹھا رکھے تھے۔ گویا وہ ان کی طرف سے بالکل بے فکر تھے اور اس خیال میں تھے کہ وہ اس قدر جلد تہ خانے سے باہر آہی نہیں سکتے۔ جب وہ سب ان کی زد پر آگئے تو محمود نے بلند آواز میں کہا:’’ خبر دار! تم لوگ اس وقت پوری طرح ہماری زد میں ہو۔ سامان نیچے گرا دو اور ہاتھ اوپر اُٹھا دو۔‘‘
وہ بُری طرح اچھلے، ان کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا۔ چہروں پر بے تحاشا دہشت دیکھنے میں آئی۔ ان سب کے ہاتھوں سے سامان چھوٹ کر گر گیا اور ان کے ہاتھ اوپر اُٹھ گئے۔
’’اب اس سامان سے دس قدم پیچھے ہٹ جاؤ۔‘‘ اکرام بولا۔
  انھوں نے اس پر بھی عمل کیا۔
ـ ’’ کیوں نواز خان اور انسپکٹر عامی خان! کیسی رہی؟‘‘
انسپکٹر عامی نے کہا:’’ تم حیرت انگیر لوگ ہو۔ کیوں نہ ہم اندر بیٹھ کر بات کر لیں۔ تم لوگ ضرور کچھ سوال کرو گے، تو ہم جواب دیں گے۔ ہم کچھ اور بھی کام کی باتیں بتائیںگے، اگر تم لوگ سننا پسند کرو!‘‘
’’ہم سن لیں گے لیکن ایک خیال رہے!‘‘ محمود نے منھ بنایا۔
’’وہ کیا؟‘‘
’’ ہم سے کوئی چالا کی کرنے کی کوشش نہ کرنا۔‘‘ فاروق مسکرایا۔
’’ ٹھیک ہے، اس کا خیال رکھیں گے۔ـ‘‘
اب وہ سب اندر آگئے۔ نواز خان انھیں اس کمرے میں لے آیا، جس میں پہلے بھی وہ اس سے ملاقات کر چکے تھے۔ جب سب اطمینان سے بیٹھ گئے، تب نواز خان نے کہا: ’’ ایک تجویز ہے، اس میں آپ کا بھی فائدہ ہے اور ہمارا بھی!‘‘
’’ کیا مطلب؟‘ ‘تینوں نے چونک کر ایک ساتھ کہا۔  
’’ان بیگوں میں بے شمار دولت ہے۔ ہم لوگ نہ جانے کب سے یہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ یہ ساری دولت خاموشی سے تم لوگ لے لو۔ بس ہمیں جیل نہ بھیجو، معاملہ یہیں ختم کر دو۔ معاملہ عدالت میں گیا تو یہ دولت تو پھر سرکاری خزانے میں جمع ہو گی۔ نہ تمھارے ہاتھ کچھ آئے گا، نہ ہمارے، لیکن ہماری تجویز کے مطابق آپ لوگ اس ساری دولت کے مالک بن جائیں گے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی۔‘‘
’’یعنی تم رشوت میں یہ ساری دولت ہمیں دینا چاہتے ہو؟ ‘‘
’’ہاں بالکل۔‘‘
’’اس میں ایک مشکل ہے یہ کہ ہم نے یہ کام زندگی میں کبھی کیا ہی نہیں۔‘‘
ـــ ’’تو اب کر لیں!‘‘
’’یہ کام ہمیں کسی نے سکھایا ہی نہیں، نہ ہم نے خود سیکھنے کی کوشش کی ہے، اس لیے کیسے کرلیں؟‘‘
ــ ۔’’یہ بہت آسان کام ہے، بہت آسان ہے۔‘‘
’’ یہ آسان ترین کام بھی ہمارے لیے مشکل ترین ہے، بلکہ ناممکن ہے۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، حلال روزی ہی کمائی ہے۔ حرام روزی کے تو نزدیک بھی نہیں گئے۔ لہٰذا تمھاری پیش کش کو ہم تمھارے منھ پر مارتے ہیں اور تم پر سکون انداز میں جیل جاؤ۔ جیل تو اب تمھیں جانا ہوگا، لیکن یہ تو بتاؤ تمھارا گٹھ جوڑ کیسے ہوا؟‘‘
’’عامی خان اور اس کے ماتحت یہاں نئے نئے لگے تھے۔ انہی دنوں میں نے ایک واردات کی تو جناب، جن کے ہاں واردات کی تھی، انھوں نے مجھ پر شک ظاہر کر دیا۔ عامی خان پوچھ گچھ کے لیے میرے پاس آیا۔ میں نے پہلی نظر میں ہی پہچان لیا کہ رشوت کھانے والا ہے، لہٰذا اسے بڑی رقم کی پیش کش کر دی۔ اس نے خوشی سے رقم قبول کر لی۔ اس کے بعد ہم دوست بن گئے اور مل جل کر یہ کام کرنے لگے۔ اب جب پولیس ہی وارداتیں کرنے والوں کی ساتھی بن جائے تو پھر ڈر کیا…! بس حماد تو بلا وجہ ہمارے درمیان میں آ گیا، ورنہ یہاں تو کسی کو کانوں کان پتا نہیں تھا کہ ہم یہ کام کرتے ہیں۔‘‘  
’’ہوں… تو تم ہمیں بھی عامی خان سمجھ رہے ہو؟‘‘
’’نہیں، تم لوگوں کے چہروں سے صاف ظاہر ہے کہ تم نے زندگی میں کبھی رشوت نہیں لی، نہ لوٹ مار کی ہے۔‘‘ اس نے کھلے دل سے اعتراف کیا۔
’’ بس تو پھر ہم یہ کام کریں گے بھی نہیں تم جتنا جی چاہے زور لگا لو، لہٰذا جیل تو تمھیں جانا ہوگا۔‘‘
اکرام کے ماتحت انھیں لے جانے کے لیے پہلے ہی تیار کھڑے تھے۔ ان کے اشارے پر حرکت میں آگئے۔
’’اب…اب ہمیں کیا کرنا ہے؟‘‘ محمود نے ان سے کہا۔
’’اب ہمیں کیا کرنا ہے! بس دار الحکومت چلتے ہیں۔ امی جان ہمارے انتظار میں بیٹھی ہوں گی۔ ان کی بھی دو چار سننی پڑیں گی لیکن اس سے پہلے ہم مائی بگّو سے ملاقات کریں گے۔‘‘
’’اوہ ہاں، یہ بہت ضروری ہے، ورنہ انھیں شکایت ہوگی، ہم ملے بغیر ہی چلے گئے۔‘‘
’’بس تو پھر چلتے ہیں۔‘‘
جلد ہی وہ مائی بگّوکے دروازے پر دستک دے رہے تھے، پھر جو نہی دروازہ کھلا مائی بگّو مارے خوشی کے چلائی: ’’ آگئے، فرشتے آگئے۔ آجائیں،اندر آجائیں۔ میں تم لوگوں ہی کا انتظار کر رہی تھی۔ میں نے تمھارے لیے کھانے کی طرح طرح کی چیزیں تیار کی ہیں۔ میں کہتی تھی، تم جانے سے پہلے مجھ سے اور حماد سے ملنے ضرور آؤ گے۔ کیوں حماد!ـ‘‘
’’ہاں ماں جی۔‘‘
’’آپ نے کیا کہا ،ماں جی !فرشتے …لیکن ہم تو انسان ہیں۔‘‘
’’میرے اور حماد کے لیے تو فرشتے ہی ثابت ہوئے ہو۔ تم جو بھی ہو، بہت عظیم ہو۔ دوسروں کے لیے اپنی جانوں کی بازی لگا دینے والے، اپنا وقت اور اپنی ہر چیز قربان کر دینے والے، اپنے آپ کو خطرات میں ڈال دینے والے … ‘‘
’’ بس ماں جی! بس ، ورنہ ہم مارے گھبراہٹ کے یہاں سے دوڑ لگا جائیں گے۔‘‘محمود نے واقعی گھبرا کر کہا۔
ـ’’ارے نہیں، یہ کھانے کون کھائے گا۔ میں نے ساگ پکایا ہے، قیمہ کریلے اور مونگ کی دال تیار کی ہے، اندر آجاؤ۔‘‘
وہ دونوں انھیں کھینچ کر اندر لے آئے۔ اندر واقعی کھانا تیار تھا۔ اب جو انھوں نے وہ کھانے کھائے تو انھیں مزہ ہی آ گیا۔ ان میں اس قدر مرچیں تھیں کہ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
’’یہ ،یہ کیا…!تم تو رونے لگے، میرے بچے؟‘‘
’’یہ…یہ تو خوشی کے آنسو ہیں ماں جی!‘‘ فاروق نے بہت مشکل سے کہا۔ 
’’ویسے ماں جی! کھانا ہے واقعی بہت مزے کا۔‘‘
’’سچ۔‘‘ اس نے خوش ہو کر کہا۔
’’ہاں، بالکل سچ۔ اصل مزے تو ان ہی کھانوں میں ہوتے ہیں، جو خلوص سے تیار کیے جائیں۔‘‘
’’جیتے رہو میرے بچو! ہم اپنی زندگی کے آخری سانس تک تمھیں بھلا نہیں پائیں گے۔‘‘
پھر وہ اُٹھ کھڑے ہوئے، حماد، محمود اور فاروق سے گرم جوشی سے ملا اور فرزانہ کو مائی بگّو نے سینے سے لگا کر رخصت کیا۔ وہ دروازے پر کھڑے ہو کر الوداعی انداز میں ہاتھ ہلاتے رہے، یہاں تک کہ وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
جو نہی انھوں نے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی، ان کی والدہ کی چہکتی آواز نے ان کا استقبال کیا:’’ لیجیے، آگئے میرے سپوت! انھیں تو ہر قدم پر کیس مل جاتے ہیں اور گھر میں کھانے ٹھنڈے ہوتے رہتے ہیں۔ کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘
ــ’’وہی جو آپ کا خیال ہے۔ ‘‘انسپکٹر جمشید نے ہنس کر کہا۔
درو ازہ کھلنے پر وہ اندر داخل ہوئے تو گھر کا صحن مزے مزے کے کھانوں کی خوش بو سے مہک رہا تھا اور بیگم جمشید انھیں دیکھ دیکھ کر بُرے برے منھ بنا رہی تھیں۔ اب یہ اور بات ہے کہ ان کے اس انداز سے بھی محبت ہی محبت ٹپک رہی تھی۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top