skip to Main Content
ایک حیرتناک سرزمین کی سیر

ایک حیرتناک سرزمین کی سیر

مہہ جبین ریحان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برسوں پرانی بات ہے جب اللہ کے پیغمبر اپنے ماننے والوں کے ہمراہ وقت کے بادشاہ کے مظالم سے تنگ آکر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہجرت کر رہے تھے۔ ابھی وہ راستے میں ہی تھے کہ سامنے ایک عظیم الشان دریا آگیا۔ پھر کیا تھا سامنے دریا تھا پیچھے ظالم بادشاہ اپنی فوج کے ساتھ۔۔۔ مگر یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے ماننے والوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیتا اللہ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ اپنا عصا دریا میں ڈالیں سوا نہوں نے ایسا ہی کیا پھر کیا تھا دریا کے درمیان میں ایک رستہ نمودار ہوگیا۔ پھر اللہ پر ایمان لانے والے تمام لوگ اس راستے پر چلتے ہوئے دریا پار کرگئے۔ ادھر بادشاہ نے جب یہ منظر دیکھا تو اپنی فوج کے ہمراہ اسی راستے پر ان کے پیچھے چل پڑا مگر یہ کیا۔۔۔ جیسے ہی اللہ کے پیغمبر نے اپنا عصا اٹھایا دریا کے درمیان نمودار ہونے والا راستہ غائب ہوگیا اور وہ ظالم بادشاہ اپنی فوجوں سمیت دریا میں غرق ہوگیا۔
آپ لوگ سمجھ ہی چکے ہونگے کہ اللہ کے وہ پیغمبر حضرت موسی ؑ تھے اور وہ ظالم بادشاہ فرعون۔۔۔ جس کے بارے میں اللہ کا فیصلہ تھا کہ قیامت تک وہ دنیا کے لئے عبرت کا نشان بنا رہیگا اور ہوا بھی یونہی آج بھی اس کی لاش مصر کے ایک میوزیم میں لوگوں کے سامنے تماشا بنی ہوئی ہے۔
حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون کی سر زمین کو دیکھنے کا اشتیاق تو جانے کب سے تھا۔ پھر آخر کار اللہ نے ہمارے اشتیاق کو ممکن کردکھایا راستہ ایسا رکھا، کہ پہلے اللہ کے گھر پر حاضری دی پھر مصر اور پھر بھائی کے گھر دبئی پھر وہاں سے پاکستان۔
۱۸ دسمبر کو روانگی ہوئی اور کراچی سے دبئی جہاز رکا پھر سیدھا مصر کے درالحکومت قاہرہ پہنچا۔ قاہرہ مصر کا ہی نہیں بلکہ افریقہ کا بھی سب سے بڑا شہر ہے۔پورے سفر میں تقریباً چھ گھنٹے صرف ہوئے۔ جب ہم مصر میں اترے تو کراچی اورمصر میں تین گھنٹے کافرق تھا۔ کیونکہ مصر سے ہم نے خیریت کا فون کیا تھا تو چھ بج رہے تھے جبکہ کراچی میں رات کے نو بج رہے تھے۔
ائیرپورٹ سے ہی ECOHٹریول والوں نے ہمارا چھ روز کا پیکج بنایا۔ جس کے مطابق پہلی رات ہم نے لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو دیکھا۔ شدید سردی میں کمبلوں میں دبک کر مصر کی قدیم تاریخ کو نئی جدت کے ساتھ دیکھا اور سنا۔ یہ مظاہرہ بھی اپنی نوعیت کے لحاظ سے اہمیت کا حامل تھا۔
ہم جس ہوٹل میں ٹھہرے اس کا نام بھیPharaosتھا۔ مصر کے چپے چپے پر ہم لوگوں نے نوٹ کیا کہ فرعونوں کے مجسمے اور فرعونوں کے نام کے ہوٹل اور ریلوے اسٹیشن بہت موجود تھے۔ یوں فرعون کی نشانیاں چپہ چپہ پر ہیں۔ صبح ہوٹل سے ناشتہ کر کے فارغ ہوئے تو گاڑی تیار کھڑی تھی اس میں بیٹھ کر سقارا اور میمفس گئے۔ جہاں Step pyramidدیکھا۔ پھر دوپہر کا کھانا کھا کر Ghizaمیں ابوالہول pyramid دیکھے جو کہ مصر کا نشان ہے۔
تینوں pyramidsاتنے فاصلے پر ہیں کہ اونٹ پر بیٹھ کر تمام اہرام کا نظارہ کیا اور جو گائیڈ ہمیں دیا گیا تھا اس سے تصویریں بھی اتروائیں۔ تقریباً ایک گھنٹہ اونٹ پر بیٹھ کر ہماری تو ٹانگیں ہی اکڑ گئیں۔
ارے ہم تو بھول ہی گئے کہ آپ کو یہ تو بتادیں کہ اہرام یا pyramidہیں کیا۔ تو جناب یہ بڑی بڑی تکونی عمارتیں اصل میں وہاں کے بادشاہوں یعنی فرعونوں کے مقبرے ہیں۔ یہ مقبرے بھی اپنی جگہ تاریخ کا عجوبہ ہیں۔
شام کو ہوٹل میں جاکر ہم نے تھکن اتاری کیونکہ اگلے دن صبح عجائب گھر کی سیر کو جانا تھا۔
اگلے دن ناشتہ سے پہلے ہی گاڑی تیار کھڑی تھی۔ جلدی جلدی ناشتہ کر کے گاڑی پر سوار ہوئے اور قاہرہ کے قومی عجائب گھر میں آگئے۔
واقعی عجائب گھر تھا۔ خاص طور پر طوطخ آمُن کے مقبرے سے تو تقریباً تمام چیزیں برآمد ہوئی ہیں۔ ان میں سونے کی بگھی، سونے کا تخت، سونے کے زیوارت عطریات، پیاز وغیرہ، وہاں کیمرہ لیجانا منع تھا۔ کچھ تصاویر چوری چھپے اتاری تھیں۔ کچھ آگئیں کچھ نہیں آئیں۔
فرعون چہارم جس کا تعلق حضرت موسیٰ سے تھا اور جو غرق ہوگیا تھا اس کی ممی مرمت کی غرض سے انگلینڈ گئی ہوئی تھی۔ سوا اس کو دیکھنے سے محروم رہے۔ جبکہ طوطخ آمُن کی ممی موجود تھی جس کا قد مشکل سے چار فٹ ہوگا۔
جس سے پتہ لگا کہ حضرت موسیٰ کی قوم تو طویل القامت تھی مگر ان کے حکمران کو تاہ قد تھے۔
اگلے دن رات آٹھ بجے مصر کے وقت کے مطابق ریل گاڑی میں روانگی تھی العقصر(Luxur)کے لیے صبح آٹھ بجے وہاں پہنچے ایک گائیڈ محمد کے نام کا تھا وہ ہمیں پہلے ہوٹل لے گیا اور پھرLuxur templesکیلئے بڑی بوٹ کا انتظام تھا جس میں تقریبا ڈھائی سو آدمی موجود تھے۔ پندرہ بیس منٹ میں دریائے نیل کے اگلے کنارے پہنچ کر بس میں بیٹھے اور پھر karnak ٹیمپلQueen’s kings valleyسب جگہیں دیکھیں یہاں تو اتنے بڑے بڑے مجسمے تھے کہ جن کے پیروں کے برابر ہمارا قد تھا۔ ملکہ اور بادشاہ کے مجسمے کے پیروں کے نیچے تو غلام بنے ہوئے تھے جبکہ ان کی اولادیں ان کے برابر میں بنی ہوئی تھیںKings valleyمیں فرعون چہارم کا مقبرہ زلزلے کی وجہ سے 
بند کیا ہوا تھا۔ جبکہ دوسرے مقبرے ہم نے دیکھے تو جس بادشاہ کا دور بڑا ہوتا تھا اس کا مقبرہ اتنا ہی اندر ہی اندر طویل ہوتا تھا۔ اور اندر اتنی گرمی تھی کہ دسمبر کی یخ بستہ تاریخوں میں پسینے پسینے ہوگئے تھے۔ پہاڑوں کے اندر جانے کیلئے کوئی سیڑھی نہیں تھی بلکہ لکڑی کے تختوں میں پتلی پتلی سپورٹ دے کر اس میں پیر لگا کر چڑھنا اور اترنا پڑا۔ مقبرے سے باہر آکر جان میں جان آئی۔
Queen’s valleyمیں نیفری تی تی کا مقبرہ دیکھا۔ بہت ہی پرفضا مقام پر بنا ہوا تھا ہوا دار روشن اور بلندی پر کھلی جگہ۔
اگلے دن ہماری واپسی دوبارہ قاہرہ ہوئی اور اب ہمارا سفر نہر سوئیز دیکھنے کا تھا۔ جو کہ وقت مقررہ پر شروع ہوا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں بحر احمر اور بحر روم مل رہے ہیں۔ یہ تاریخی نہر سوئیز جس کی وجہ سے یورپ سے ایشیاء تک کا تجارتی راستہ آسان ہوگیا ہے۔ واقعی یہ نہر بھی اپنی جگہ جدید انجینئرنگ کا شاہکار تھی۔
نہر سوئیز سے واپسی پر مصر سے کچھ خریداری کی اگلے دن ہماری روانگی تھی۔ یوں ہوٹل میں مصر میں اپنے قیام کی آخری رات بسر کی اور صبح قاہرہ سے دبئی کی طرف عازم سفر ہوئے۔
کہنے کو تو اب ہم مصر سے جارہے تھے لیکن بہت سے مناظر اور ناقابل فراموش یادیں ہمراہ لیے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top