احمق اور ٹھگ
کہانی: Sally Simple and Mister Cheatle
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔
ایک دن مسٹر ٹھگ، مسٹر احمق کی دکان پرگیا اور چاروں طرف نظریں دوڑا کر بولا۔’’صبح بخیر…!احمق بھائی! میری بیوی کی سال گرہ ہے۔ میں اس کے لیے کوئی بہت عمدہ چیز خریدنا چاہتا ہوں۔ تمہاراکیاخیال ہے ، اسے کیا چیز پسند آئے گی؟‘‘
’’اچھا! زیادہ تر خواتین ایک اچھا آئینہ پسند کرتی ہیں۔‘‘ مسٹر احمق نے مسٹر ٹھگ کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا۔’’یہ ایک خوب صورت آئینہ ہے اور اس کے کنارے پر چاروں طرف گلاب کے پھول لگے ہوئے ہیں۔‘‘
’’ہاں، میں یہی لے لیتا ہوں!‘‘ مسٹر ٹھگ نے کہا۔’’اگر میری بیوی کو یہ پسند آگیا تو میںتمہیں قیمت دے جائوں گا۔‘‘یوں مسٹرٹھگ آئینہ لے کر چلا گیا۔
لیکن ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ وہ احتیاط سے آئینہ اٹھائے واپس آیا اور بولا۔’’احمق بھائی! معاف کرنا۔ میری بیوی کا کہنا ہے کہ اسے آئینہ نہیں چاہیے،اس لیے میں یہ واپس لے آیا ہوں۔تمہارے خیال میں خواتین اور کیا چیز پسند کرتی ہیں؟‘‘
’’جھولا کرسی کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘ مسٹر احمق نے کہا۔’’دیکھئے یہ کتنی آرام دہ ہے، اور رات کو تھکے ہارے فرد کے لیے تو یہ بہترین چیز ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘مسٹرٹھگ نے کہا۔’’ میں اسے گھر لے جاتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ میری بیوی کو یہ پسند آتی ہے کہ نہیں۔‘‘ چنانچہ اس نے جھولا کرسی کندھے پر رکھی اور چلا گیا۔زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ وہ کرسی اٹھائے واپس آیا اور بولا:
’’معذرت خواہ ہوں احمق بھائی…!مگر میری بیوی کا کہنا ہے کہ وہ جھولا کرسی پر بیٹھتی ہے تو اسے چکر آتے ہیں۔ مجھے کسی اور چیز کا انتخاب کرنا پڑے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے! تو پھر مجھے یقین ہے کہ بیگم ٹھگ کو ایک اچھا ہار ضرور پسند آئے گا۔‘‘مسٹراحمق نے کہا۔’’میرے پاس چند ایک بہت اچھے ہار موجود ہیں۔موتیوں والے اس ہار کو دیکھئے جس میں یاقوت جڑا ہوا ہے۔‘‘
’’ ہاں یہی لے جاتا ہوں۔‘‘ مسٹر ٹھگ بولا۔’’ مجھے بھی یقین ہے کہ میری بیوی کو یہ ضرور پسند آئے گا۔‘‘ چنانچہ وہ موتیوں والا ہار لے کر چلا گیا اور اب کی بار واپس نہ آیا۔ اگلی صبح مسٹر احمق نے بیگم ٹھگ کو ہار پہنے دیکھا تو سمجھ گیا کہ ہار پسند آگیا ہے۔مگر مسٹر ٹھگ ہار کی قیمت ادا کرنے نہیں آیا۔ کافی دنوں کے بعد جب وہ دو پیسوں کی لچک دار ڈوری لینے مسٹر احمق کی دکان پر آیا تو احمق نے ہار کا ذکر کیا۔ اس نے کہا:
’’آپ نے ابھی تک مجھے ہار کی قیمت ادا نہیں کی!‘‘
مسٹر ٹھگ نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔’’ ہار کی قیمت ادا نہیں کی! کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیا میں نے ہار کے بدلے تمہیں جھولاکرسی نہیں دی تھی؟‘‘
’’جی ہاں، بالکل دی تھی!‘‘ مسٹر احمق نے کہا۔’’مگر مسٹر ٹھگ، آپ نے جھولا کرسی کی مجھے کون سی قیمت ادا کی تھی؟‘‘
’’اچھا تو میرے عزیز…!‘‘ مسٹر ٹھگ نے سخت ناراض ہوتے ہوئے کہا۔’’تمہارے کہنے کا مطلب کیا ہے کہ میںنے تمہیں کرسی کی قیمت ادا نہیں کی؟…ارے بھئی اس کے بدلے میں نے تمہیں آئینہ نہیں دیا تھا؟‘‘
’’ہاں دیا تھا!‘‘ مسٹر احمق بولا۔’’ مگر آپ نے آئینے کی بھی قیمت ادا نہیں کی تھی مسٹر ٹھگ!‘‘
’’ ہاں، ٹھیک کہا مسٹر احمق! مگر یہ تو بتائو کہ کیا آئینہ میرے پاس ہے؟‘‘ مسٹر ٹھگ نے غصے بھرے لہجے میں کہا۔’’یہ بات ٹھیک ہے کہ میں نے قیمت ادا نہیں کی مگر اس لیے ادا نہیں کی کیونکہ وہ سامنے دیوار پرٹنگا ہوا ہے۔ سمجھ آئی؟ جب آئینہ میرے پاس ہے ہی نہیں تو میں اس کی قیمت کیوں ادا کروں؟…اوہو! نہیں نہیں مسٹر احمق نہیں! تم مجھے دھوکا نہیں دے سکتے!‘‘
اور اس کے ساتھ ہی مسٹر ٹھگ تیزی سے دکان سے نکل گیا۔ وہ شدید غصے میں نظر آرہا تھا۔بے چارہ احمق یہی سوچتا رہ گیا کہ آیا اس کے ساتھ دھوکا ہوا بھی ہے کہ نہیں۔ یہ سچ تھا کہ مسٹر ٹھگ نے اسے ہار کے بدلے جھولا کرسی دی تھی اور اس نے کرسی کے بدلے آئینہ بھی دیا تھا…اور چونکہ آئینہ اس کے پاس تھانہیں تو وہ کیوں اس کی قیمت ادا کرنے پر راضی ہوتا؟
پیارے بچو! گڑ بڑ کہاں ہوئی!کون بتا سکتا ہے کہ دونوں میں سے کون اور کیسے غلط تھا ؟یہ آپ کے لیے ایک پہیلی ہے!

