skip to Main Content

لاپروا کینگرو

کہانی: The Careless Kangaroo
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔

پرانے زمانے کی بات ہے ’جھٹ پٹ ‘نامی ایک بونی ہوا کرتی تھی جو انتہائی پھوہڑ اور لاپروا تھی۔ ہمیشہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا تھا کہ اس کی جرابیں سیڑھیوں پر پڑی ہوں گی، کوٹ کے بٹن جرابوں میں ہوں گے اور ساری جیبوں میں سوراخ ہوں گے۔یہی وجہ تھی کہ وہ آئے دن رومال، پیسے اور دیگر چیزیں گم کر بیٹھتی تھی۔
یہ چھوٹی بونی دراصل ایک آیا تھی۔وہ’ دراز پنکھ‘ نامی پری کے بچوں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی۔ اس کا رویہ بچوں کے ساتھ بہت اچھا تھا اور وہ دل سے ان کے ساتھ محبت کرتی تھی۔دراز پنکھ کی خواہش تھی کہ کاش وہ کپڑے دھونے اورسینے میں بھی اتنی ہی اچھی ہو تی جتنی کہ کھیلنے میں ہے۔
دراز پنکھ نے سوچا ۔’’اگر وہ اپنے کپڑوں میں صحیح سے پیوند تک نہ لگا سکے اور نہ ہی بچوں کے لباس کا خیال رکھ سکے…تومیں افسوس کے ساتھ یہ کہوں گی کہ میں اسے مزید نہیں رکھ سکوں گی…مگر وہ بچوں سے اتنا پیار کرتی ہے کہ اسے ایک لمحے کے لیے دور بھی تونہیں کیا جا سکتا۔‘‘
دراز پنکھ اپنی آیا کے بارے میں مہربان چڑیل ’جانتی ‘ سے بات کرنے گئی۔’جانتی‘چڑیل ہنس کر بولی۔’’ اسے مجھ پر چھوڑ دو۔ میں اسے صرف ایک دن کے لیے کینگرو آیا میں تبدیل کر وں گی اور وہ اپنی لاپروائی والی عادت ہمیشہ کے لیے چھوڑ دے گی۔‘‘
اگلی چیزجو بونی کو پیش آئی کہ وہ یہ تھی کہ وہ کینگرو بن چکی تھی۔یہ اس کے لیے واقعی ایک حیرت انگیز انکشاف تھا۔ وہ اپنی پچھلی مضبوط ٹانگوں پر اچھل پڑی اور سوچنے لگی کہ یہ ہوا کیا ہے؟لیکن جلد ہی اسے یہ بات سمجھ آئی کہ وہ کینگروئوں کے ایک چھوٹے سے کنبے کی کینگرو آیا ہے۔ایک چھوٹا سا کینگرو لڑکا اور لڑکی اس کے گرد گھوم رہے تھے۔اور ایک ننھی سی خوب صورت بچی اپنی کینگرو ماں کی بانہوں میں تھی۔ کینگرو ماں نے جھٹ پٹ کو بلایا اور بچی اسے دیتے ہوئے کہا۔’’بچی کو پکڑو! اور اسے حفاظت کے ساتھ اپنی جیب میں رکھ لو!‘‘
جھٹ پٹ نے دیکھا کہ دوسری کینگرو مائوں کی طرح اس کے جسم پر بھی کھال کی ایک جیب تھی۔اس نے سوچا کہ یہ ایک اچھی چیز ہے جس میں وہ بچی کو بحفاظت رکھ سکتی ہے۔اور ساتھ ساتھ دھلائی اور استری جیسے کام بھی کر سکتی ہے۔چنانچہ جھٹ پٹ نے بچی کو اپنی کھال والی جیب میں ڈالا اور لوری گنگناتے ہوئے کپڑے دھونے لگی۔پھر دھلے ہوئے کپڑے بہت سلیقے سے رسی پر لٹکائے اور اندر چلی گئی۔
’’ایک منٹ کے لیے بچی مجھے دے دو۔‘‘ ماں بولی۔’’ میں اسے گلے میں پہننے والا رومال پہناکر دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘جھٹ پٹ نے بچی کو نکالنے کے لیے اپنے پنجے جیب میں ڈالے تو برف کی طرح سفید ہو گئی۔ بچی وہاں موجود نہیں تھی۔
’’ہائے! بچی کھو گئی ہے!‘‘ وہ بولی۔’’ ارے، پیاری سی ننھی بچی کھو گئی ہے۔‘‘
’’ مگر کھو کیسے سکتی ہے؟‘‘ کینگرو ماں بولی۔
’’ارے، بیگم صاحبہ مجھے لگتا ہے میری جیب میں سوراخ ہو گیا …اور بچی گر گئی …‘‘بے چاری جھٹ پٹ رونے لگی۔
ماں کینگرو نے ایک زوردار چیخ ماری ، پھر وہ بھاگتی ہوئی جھٹ پٹ کے پاس آئی اور اسے زور کی لات ماری۔ وہ اڑتی ہوئی دور تک گئی اور پھر کسی چیز سے ٹکرا کر زمین پر آگری۔ایک جھٹکے سے اس کی آنکھ کھل گئی اور وہ ادھر ادھر گھورنے لگی۔
وہ اپنی آرام گاہ میں تھی اور اپنے بستر سے گر گئی تھی۔یہ کوئی خواب تھا کہ جادو…!یہ خیال ہی کتنا بھیانک تھا کہ اس نے جیب کا سوراخ نہ سینے کی وجہ سے بچی کھودی تھا۔
اور کیا آپ جانتے ہیں کہ جھٹ پٹ بونی نے اپنی جیبوں کے سینے اور بٹن ٹانکنے میں کس قدر دھاگا خرچ کیا۔تب سے اب تک بچوں کو ڈوری میں پرو کر کھیلنے کے لیے دھاگے کی پچاس خالی نلکیاں مل چکی ہیں۔ گویا اس نے سبق سیکھ لیا ۔ ہے کہ نہیں؟

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top