زمانے کی گردش
طالب ہاشمی
۔۔۔۔
بیسواں عباسی خلیفہ راضی باللہ جس نے 322 ہجری (934عیسوی) سے 329ہجری (940عیسوی) تک حکومت کی، اس کے زمانے کا ذکر ہے کہ ایک جمعہ کے دن بغداد کی جامع مسجد المنصور جمعہ کی نماز کے لیے آنے والے نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ نماز کے بعد امام صاحب نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ مسجد کی سب سے پہلی صف سے دردناک آواز آئی۔
”لوگو! میری طرف دیکھو، میں اندھا اور محتاج ہوں، زمانے کی گردش اور اپنے عملوں کی سزا کی جیتی جاگتی تصویر ہوں۔ میرے حال پر رحم کرو اور میں نے اپنے زمانے میں جوظلم کیے، ان کو معاف کر دو۔ تم مجھے خوب جانتے ہو میں کبھی تمہارا خلیفہ تھا جسے قدرت کے انتقام اور زمانے کے چکر نے بھیک مانگنے پرمجبور کر دیا ہے۔“
نمازیوں نے پلٹ کر اس اندھے بھکاری کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ کے خوف اور حیرت سے ان کی چیخیں نکل گئیں۔ چند سال پہلے یہ ان کا خلیفہ تھا۔ وہ سولہویں عباسی خلیفہ معتضد باللہ کا بیٹا محمد تھا جس نے قاہر باللہ کے لقب سے شہرت پائی اور 320ہجری (932 عیسوی) میں اپنے بھائی مقتدر باللہ (اٹھارہو یں عباسی خلیفہ) کوقتل کر کے خود انیسواں عباسی خلیفہ بن بیٹھا تھا۔ وہ بڑا بد فطرت،لالچی اور ظالم شخص تھا۔ خلیفہ بن کر اس نے لوگوں پر جوسختیاں کیں اور ظلم ڈھائے۔ ان میں سے کچھ یہ تھے۔
۱۔رعایا پر طرح طرح کے ناجائزٹیکس (محصول) لگادیے۔
۲۔ جولوگ کسی وجہ سے ٹیکس نہیں دے سکتے تھے ان کو سخت اذ یتوں کا نشانہ بنایا۔
۳۔ اپنے جس بھائی (مقتدر باللہ) کوقتل کیا تھا، وہ دوسری ماں سے تھا۔ قاہر باللہ نے اس کی ماں کو بھی مار مار کر ہلاک کر ڈالا۔ اسی طرح اس نے مقتدر کی بیوہ کو بھی مرواڈالا۔
۴۔ 322 ہجری (934 عیسوی) میں فوج کے چند افسروں نے اس کے مظالم سے تنگ آ کر بغاوت کر دی۔ اس نے اپنے خوشامدی حامیوں کی مدد سے سب کو گرفتار کر کے سخت اذیتیں دیں اور پھر سب کوقتل کر ڈالا۔
۵۔ اس نے اپنے کئی مخالفوں کو یا تو دیواروں میں زندہ چنواد یا ان کو کنوؤں میں پھینک کر انہیں بند کر دیا۔ قاہر باللہ کے ایک وزیر علی نے ایک دفعہ اس کو لوگوں پر ظلم ڈھانے سے منع کیا تو اس نے علی کو بھی گرفتار کر کے سزا دینے کا ارادہ کیا۔ علی کو اس کے ارادے کا علم ہوا تو وہ کہیں چھپ گیا۔ قاہر نے اس کی غیر حاضری میں اس کے گھر کو آگ لگوادی۔ اس میں علی کے گھر والے جل کر بھسم ہو گئے۔
ادھر علی نے اندرہی اندرفوج میں قاہر باللہ کے خلاف اتنی نفرت پیدا کر دی کہ و ہ قوم کو اس ظالم سے نجات دلانے کے لیے تیار ہوگئی چنانچہ اس نے 2 جمادی الاخریٰ 322 ہجری (24 مئی 934عیسوی) کو بغداد پر حملہ کر دیا۔ قاہر باللہ اور اس کے ساتھیوں نے کچھ دیر مقابلہ کیا لیکن جلد ہی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔ فوج نے قاہر باللہ اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا۔ پھر انھوں نے قتل ہونے والے خلیفہ مقتدر کے بیٹے راضی باللہ کو خلیفہ بنا دیا۔ راضی باللہ نے پہلے تو قاہر باللہ سے وہ ساری دولت واپس لی جو اس نے لوگوں پر نا جائز ٹیکس لگا کر جمع کی تھی، پھر اس نے قاہر باللہ کواس کے مظالم کی سزا دینے کا ارادہ کیا۔ بہت سے لوگوں نے رائے دی کہ اسے پھانسی پر لٹکایا جائے لیکن راضی باللہ کے خیال میں مناسب سزا یہ تھی کہ اس کو اندھا کر کے در بدر کی ٹھوکر یں کھانے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ اس طرح وہ باقی ساری عمر عذاب میں مبتلا رہے گا۔ چنانچہ اس نے اس کی آنکھوں میں لوہے کی گرم سلاخیں پھر واد یں جس سے اس کی آنکھوں کے ڈھیلے لٹک کر رخساروں پر آ گئے جنہیں اس نے خود ہی کھینچ کر پھینک دیا۔ اس کے بعد وہ گلیوں اور بازاروں میں گھوم پھر کر بھیک مانگتا رہتا۔ آخری عمر میں وہ جامع المنصور کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر بھیک مانگا کرتا تھا۔ لوگ اسے دیکھتے تھے اور عبرت حاصل کرتے تھے۔