skip to Main Content

دس سال بعد

اشتیاق احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔

ابا جان کے فوت ہونے پر ہم سب نے سکھ کا سانس لیا۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا تھا، وہ ہمارے سروں پر سوار ہی رہے تھے۔ انھوں نے ہماری زندگی اجیرن بنا دی تھی۔ ہمیں نہ دن کو چین ملتا، نہ رات کو آرام۔ سچ تو یہ ہے، کبھی کبھی ہم جھنجھلا کر کہہ اٹھتے تھے۔
”اللہ کرے! یہ مر جائیں۔“
یہ دعا کرنے کے بعد اگرچہ ہمیں فوراً غصہ بھی آتا تھا کہ آخر ایسا بھی کیا… ہیں تو ہمارے ابا جان ہی… ایسی دعا تو غیر کے لیے بھی نہیں کرنا چاہیے… ہم دل ہی دل میں خود کو برا کہتے اور طے کر لیتے کہ آئندہ ایسی دعا ہرگز نہیں مانگیں گے، لیکن پھر جھنجھلاہٹ کا کوئی ایسا موقع آجاتا کہ یہ دعا منہ سے نکل ہی جاتی…
اب پتا نہیں… یہ کیسے ہوا… اچانک انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ دوسری دنیا کو سدھار گئے… پہلے تو ہمیں یقین ہی نہ آیا، جب ڈاکٹر صاحب کے اطمینان دلانے پر یقین آیا کہ یہ واقعی فوت ہوچکے ہیں تو دلوںا ور دماغوں پر سے ایک بھاری بوجھ ہٹتا محسوس ہوا… بلکہ یوں لگا جیسے ہمارے سینوں پر ایک سل تھی جو ہٹ گئی ہے… ہم نے لمبے لمبے سانس لیے اور پھر ان کے کفن دفن کی تیاریوں میں لگ گئے…
اور تو اور ہم نے گو صاف طور پر محسوس کیا تھا کہ ہماری امی جان نے بھی ان کے مرنے کی خبر سن کر سکون کا سانس لیا تھا… وہ بھی ہماری ہی طرح ان سے بہت تنگ تھیں… وہ تو کہہ دیا کرتی تھیں…
”اللہ ایسا میاں کسی کو نہ دے… اور ایسا باپ بھی کسی کو نہ دے۔“
تین دن گو ہمارے گھر میں خوب رونا دھونا رہا… ہم سب خوب روئے… لیکن ہم جو بھی ہیں شروع کے چند آنسو ضرور دکھ کے آنسو تھے… اس کے بعد والے آنسو تو ہم نے زبردستی نکالے تھے… نکالنا پڑے… ورنہ لوگ کیا کہتے… یہ باپ کے مرنے پر روئے تک نہیں… کیسی اولاد ہے، اور امی جان کو تو آس پاس کی عورتوں سے خوب خوب طعنے ملتے… کیسی سخت دل بیوی ہے… میاں بے چارے اپنی جان سے گئے اور یہ ٹسوے بھی نہ بہا سکیں… لہٰذا اس قسم کے جملوں سے صاف بچ کر نکلنے کے لیے آنسو نکالنا ضروری تھا… سو نکالے اور خوب نکالے… بھئی آج کل مصنوعی آنسو نکالنا کیا مشکل ہے بھلا… پیاز کے پانی والے ہاتھوں سے آنکھیں ملنا شروع کر دو… آنکھیں بے چاری آنسو بہانے کو تیار ہوجاتی ہیں، ہمیں تو اس بارے میں ویسے بھی کئی اور طریقے آتے تھے… لہٰذا لوگوں نے خوب خوب تعریفیں کیں… واقعی… انہیں اپنے باپ سے بہت محبت تھی… ان کی والدہ کو اپنے خاوند سے کس قدر محبت تھی… تبھی تو رو رو کر آنکھیں سرخ کر لی ہیں…
پھر تین دن بعد سب بہکاوے ختم ہوگئے… ہم نے سوچا، ہم مدتوں بعد گھوڑے بیچ کر سوئیں گے… خوب جی بھر کے نیند کے مزے لوٹیں گے، صبح ہمیں کوئی نماز کے لیے نہیں اٹھائے گا… کوئی ٹی وی کے آگے بیٹھنے سے نہیں روکے گا، کوئی گانا سننے سے منع نہیں کرے گا… صبح سے ہماری عیش ہی عیش ہوگی…
اس سوچ کے ساتھ ہم لمبی تان کر سو گئے… صبح سویرے اٹھانے کی فکر جو نہیں تھی، لمبی نہ تانتے تو اور کیا کرتے…
دوسرے دن ہم آٹھ بجے تک سوتے رہے… مدتوں بعد آرام کا سونا ملا تھا، پھر تو یہ ہمارا معمول بن گیا، ہم نماز، روزے سے دور ہوتے چلے گئے… اور باقی سب چیزوں سے نزدیک ہوتے گئے… ہم اپنے آپ میں مگن ہوگئے… کبھی سوچا بھی نہ کہ اباجان کے ہوتے ہوئے ہمارے معمولات کیا تھے اور اب کیا ہوگئے…
ہم نے پورے دس سال اسی بے فکری کی حالت میں گزار دیے… دس سال بعد جا کر اچانک ہمیں معلوم ہوا… ابا جان کے ہوتے ہوئے گھر میں جو کچھ تھا… آہستہ آہستہ وہ سب ختم ہوگیا تھا…
اب ہمارے سامنے تنگ دستی کا ایک پہاڑ کھڑا تھا… اس پہاڑ سے ٹکرانے کی ہم میں بالکل ہمت نہیں تھی… ہم سب تو آرام طلبی کے انتہائی رسیا بن چکے تھے… اب ہماری دعا یہ تھی، خدا کرے کسی کی زندگی میں اس کے والدین فوت نہ ہوں… لیکن پانی تھا کہ سر سے گزر چکا تھا…

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top