skip to Main Content

محنت کا پھل

میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔

ترکستان کے ایک شہر کا نام ہے ،فاراب۔ بہت مدت گزری،اس شہر کے ایک محلے میں ایک بڑا غریب لڑکا رہتا تھا،جسے علم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا۔ دن کو وہ اپنے استاد کے ہاں جا کر سبق پڑھتا اور جب رات آتی تو وہ دن کا پڑھا ہوا سبق یاد کرتا اور اس وقت تک نہیں سوتا تھا جب تک یہ سبق پوری طرح یاد نہیں ہوجاتا۔
اس کی چارپائی کے سرہانے مٹی کا ایک دیا جلتا رہتا تھا۔اسی دیے کی روشنی میں وہ رات کے دو دو بجے تک پوری پوری کتاب پڑھ لیتا اور بعض اوقات ساری رات ہی پڑھنے میں گزر جاتی۔
ایک رات کا ذکر ہے، وہ اپنی چارپائی پر بیٹھا پوری توجہ اور انہماک سے کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا کہ دیے کی روشنی مدہم ہونے لگی۔اس نے بتی کو اونچا کیا۔روشنی ہوئی تو ضرور،مگر بہت جلد ختم ہو گئی۔ اب جو اس نے دیے پر نظر ڈالی تو دیکھ کر اسے بڑا افسوس ہوا کہ تیل تو دیے میں ہے ہی نہیں،روشنی اگر ہو تو کیوں کر؟
”اب کیا کروں؟“اس نے اپنے دل میں سوچا۔ رات آدھی کے قریب گزر چکی تھی۔ شہر کی دکانیں بند ہو چکی تھیں اور اگر وہ کھلی بھی ہوتیں تو لڑکے کو کچھ فائدہ نہ ہوتا کیوں کہ اس کے پاس تیل خریدنے کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ پیسوں کے بغیر کون دکان دار تیل دے سکتا تھا؟
اس حالت میں بہتر یہی تھا کہ وہ کتاب ایک طرف رکھ کر سو جائے،مگر ابھی تو اسے پورے دو گھنٹے اور پڑھنا تھا۔ وہ یہ دو گھنٹے کس طرح ضائع کرسکتا تھااور پھر دوسرے دن بھی اس کے پاس کہاں سے پیسے آ سکتے تھے؟روٹی تو وہ ایک مسجد میں جا کر کھا لیتا اور محلے کے ایک بچے کو پڑھا کر جو رقم ملتی تھی، اس سے وہ اپنے لیے معمولی کپڑے اور تیل خرید لیتا تھا۔لیکن اسے حال ہی میں جتنے پیسے ملے تھے، وہ خرچ کر چکا تھا۔ دیے کے اس طرح بجھ جانے سے اسے بڑا افسوس ہوا۔ وہ اپنی کوٹھڑی سے نکل کردروازے پر آبیٹھا۔ رات کا اندھیرا ہر جگہ چھایا ہوا تھا۔ کہیں کوئی چراغ جلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا تھا، سب لوگ آرام کررہے تھے۔
اتنے میں اس کی نظر روشنی کی ایک ننھی سی لکیر پر پڑی جو شاید دور کسی دیوار پر دکھائی دے رہی تھی۔اسے دیکھتے ہی اس کے دل میں خواہش ہوئی کہ کاش یہ روشنی اس کے گھر میں ہوتی۔
روشنی دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا اور یہ معلوم کرنے کے لئے کہ یہ کہاں سے آ رہی ہے،ادھر قدم اٹھانے لگا جدھر سے روشنی آ رہی تھی۔اپنی کتاب وہ ساتھ ہی لے آیا تھا تاکہ موقع ملے تو اسی روشنی میں کتاب کا باقی حصہ پڑھ ڈالے اور پھر واپس آجائے۔
کچھ دور جا کر اس نے دیکھا کہ وہ روشنی ایک قندیل میں سے نکل رہی ہے جو محلے کے چوکیدار کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے چوکیدار سے بڑے ادب کے ساتھ کہا:
”جناب! اگر آپ اجازت دیں تو میں قندیل کی روشنی میں کتاب پڑھ لوں؟“
چوکیدار ایک نیک آدمی تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ غریب طالب علم ہے جس کے پاس تیل خریدنے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ وہ بولا:
”ہاں بیٹا پڑھ لے۔ میں تھوڑی دیر یہاں بیٹھوں گا،یہاں بیٹھ جا!“
لڑکا کتاب پڑھنے لگا۔اب مشکل یہ تھی کہ چوکیدار ایک ہی جگہ زیادہ دیر تک بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ اس لئے کہنے لگا:
”بیٹا! اب تم گھر جاؤ اور سو جاؤ۔مجھے آگے جانا ہے۔“
لڑکا بولا:” آپ ضرور آگے جائیے۔ جہاں جی چاہے، میں آپ کے پیچھے پیچھے چلوں گا۔“
چوکیدار قندیل اٹھا کر آگے آگے چلنے لگا اور لڑکا پیچھے پیچھے۔ اس طرح مطالعہ کرنے میں اسے بڑی دقت پیش آرہی تھی لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ وہ چار بجے تک پڑھتا رہا اور پھر چوکیدار کا شکریہ ادا کرکے گھر چلا گیا۔دوسری رات بھی یہی واقعہ ہوا۔ تیسری رات لڑکا آیا تو چوکیدار کہنے لگا:
”بیٹا! لو یہ قندیل اپنے گھر لے جاؤ میں نئی قندیل لے آیا ہوں۔“
لڑکے نے یہ الفاظ سنے تو اسے اتنی خوشی ہوئی جیسے بہت بڑا خزانہ مل گیا ہو۔“
وہ قندیل اپنی کوٹھڑی میں لے آیا اور اطمینان کے ساتھ اپنا کام کرنے لگا۔چند روز کے بعد اسے پیسے ملے تو وہ بازار سے تیل خرید لایا اور اسے دیے میں ڈال دیا۔
کئی دن گزر گئے۔اور پھر کئی سال….لڑکا جوان ہوگیا۔جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی چلی جاتی تھی،اس کا علم بھی بڑھتا جاتا اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ وہ اپنے وقت کا سب سے بڑا استاد بن گیا۔بڑے بڑے عالم فاضل لوگ دور دور سے اس کے پاس آتے اور اس سے علم حاصل کرتے تھے۔وہ علم کا ایک ایسا دریا بن گیا جس سے علم کے پیاسے اپنی پیاس بجھاتے رہتے تھے ۔جانتے ہو بچو! یہ کون تھا؟
یہ تھا ابو نصر فارابی۔
فارس (ایران)کے اس عظیم مسلمان فلسفی اور سائنسدان کی وفات کو کئی برس گزر چکے ہیں،مگر اس کی عزت و عظمت میں کوئی فرق نہیں آیا، اس کا نام سب بڑے احترام سے لیتے ہیں اور لیتے رہیں گے جس کے اپنے دیے کی روشنی ختم ہوگئی لیکن علم کا جو دیا اس نے جلایا،اس کی روشنی کبھی ختم نہیں ہو گی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top