موت کا شکنجہ
ترجمہ: شہباز شاہین
……..
جیسے جیسے میں خط کی عبارت پڑھتا گیا، میری اندرونی کیفیت بدل گئی، میرے سامنے بیٹھے ایلمنڈ کا چہرہ یوں زرد تھا جیسے اس کا سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو۔خط کا مضمون کچھ یوں تھا:
”پیارے ایلمنڈ!
مجھے یقین ہے تم خیریت سے ہوگے۔ تم نے اس سال بھی پہلے کی مانند مرغابیوں کے شکار کا منصوبہ بنا رکھا ہوگا۔ اس مرتبہ بھی تم مجھے اپنا شریک پاؤگے۔ اس سال مرغابیوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت کر کے جھیل آسٹن آئی ہے اور ہاں جیکب کو اپنے ہمراہ لانا مت بھولنا، میں تم دونوں کا انتظار کروں گا۔“
خط کے نیچے لکھا ہوا نام پڑھ کر میں انگشت بدنداں ایلمنڈ کی طرف تکنے لگا۔
آپ یقیناحیران ہو رہے ہوں گے کہ ایک دوست کی طرف سے شکار کی دعوت ملنے پر آخر ہمیں اس قدر خوفزدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ میں اور ایلمنڈ بچپن کے دوست ہیں اور ہم نے ایسے کئی پُر خطر معرکے سر کیے تھے کہ محض ان کا تذکرہ سن کر عام آدمی کو پسینہ آجائے مگر وہ خط پڑھ کر دہشت کے مارے برا حال تھا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ خط ہمارے گہرے دوست ملر نے لکھا تھا جسے ٹھیک ایک سال قبل ہم اپنے ہاتھوں سے دفن کر چکے تھے۔
ملر کی موت ایک حادثہ تھی جسے چھپانے کے لیے ہم نے اسے جھیل آسٹن کے نیم دلدلی جنگل ہی میں دفن کر دیا۔ ہر سال مرغابیوں کے شکار پر جھیل آسٹن جانا ہم تینوں کا معمول تھا۔ ملر میامی کے ایک نجی ادارے میں بطور اکاؤنٹینٹ کام کرتاتھا۔ ایلمنڈ ایک اشتہاری کمپنی کا مالک جب کہ میں انجینئر تھا۔ ہم تینوں کے شعبے اگر چہ مختلف تھے مگر شکار اورمہم جوئی کے شوق نے ہمیں اکٹھا کر دیا۔
”یہ طرز تحریرملر ہی کا ہے۔“ میں نے خط میز پر رکھتے ہوئے کہا:”لیکن یہ کیسے ہوسکتاہے؟“ ایلمنڈ سرسراتی ہوئی آواز میں گویا ہوا،”مجھے تو کوئی چکر معلوم ہوتاہے۔“
”ہمیں اس قدر خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔“ میں نے خط پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینکتے ہوئے کہا: ”یوں بھی ہم تین دن بعد جھیل آسٹن جارہے ہیں۔ اگر کوئی شک ہے تو ملر کی قبر کھود کر رفع کرلیں گے۔“
”تم نے سامان کا انتظام تو کر لیاہے نا؟“ ایلمنڈ نے چند ثانیے سوچنے کے بعد پوچھا۔
”سارا انتظام مکمل ہے۔“ میں نے جواب دیا۔ ”اخبارات بھی اس واردات کو بھول چکے ہیں۔ مجھے یقین ہے پولیس بھی ہر طرف سر کھپانے کے بعد اپنی ہار تسلیم کر چکی ہوگی۔ ایک سال کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا۔
میری گفتگو سن کر ایلمنڈ کاحوصلہ کسی قدر بحال ہوا تو میں اپنے دفتر واپس چلاآیا۔گو میں نے ایلمنڈ کے شبہات دور کرنے کی پوری کوشش کی تھی مگر میرا ذہن ابھی تک ملر اور اس کے پراسرار خط میں الجھا ہوا تھا۔ ایک سال قبل ہم تینوں حسب معمول جھیل آسٹن کے اس جھونپڑے میں جمع تھے جسے ایلمنڈنے خصوصی طور پر شکار کا شوق پورا کرنے کی خاطر خریدا تھا۔ ایک برس قبل رونما ہونے والے دو واقعات آج بھی میرے ذہن میں اس طرح تازہ تھے جیسے کل پیش آئے ہوں۔
اس روز علی الصباح ہم نے میامی سے رخت سفر باندھا۔ حال ہی میں ہونے والی بارشوں کے باعث بارہ میل لمبا راستہ بے حد خراب تھا۔ وہ نہ صرف کیچڑ زدہ اور پھسلواں تھا بلکہ بعض مقامات پر تنگ بھی تھا۔ ذرا سی بے پروائی ہماری جیپ کو کسی گہرے کھڈے میں پہنچاسکتی تھی۔ راستے کے اختتام پر ایور گلیڈز کے دلدلی جنگلوں کاآغاز ہو جاتا تھا۔ کسی زمانے میں جھیل آسٹن باقاعدہ تفریحی مقام تھی مگر دلدلی خطے کی حبس زدہ فضا، خطر ناک کیڑے مکوڑوں اورمچھروں کی بھر مار نے اسے آہستہ آہستہ ویران کرڈالا۔ گزشتہ چند برس سے اکا دُکا شکاری جماعتیں بھی وہاں جانے سے کترانے لگی تھیں لیکن ہمارے حق میں یہ بات مفید ثابت ہوئی۔ ہم تو اس مقام کا رخ ہی اس لیے کرتے تھے کہ شہر کی ہنگامہ خیز زندگی سے چند دن کے لیے نجات مل سکے۔ انسانوں کی آمد و رفت کم پڑتے ہی انواع واقسام کے چرند پرند نے وہاں ڈیرے ڈال دیے۔ یوں ہمارے شکار کے جذبے کی تسکین کاسامان بھی ہوگیا۔
ایلمنڈ نے جھیل کے کنارے ایک متروک جھونپڑا (کاٹیج) خرید کر اسے قابل استعمال بناڈالا۔ اس طرح قیام کا مسئلہ بھی نہ رہا۔ جھونپڑے میں مرغابیوں جیسے بے ضرر پرندوں کاشکار کرنے کے لیے ہلکے ہتھیار موجود تھے۔ جنگل کی سمت سے آ نکلنے والے خطر ناک درندوں کااستقبال ہم ۲۱۲ بور کی اسپرنگ فیلڈر رائفلوں سے کرتے تھے۔
تین گھنٹے کے تھکا دینے والے سفر کے بعد ہم لکڑیوں سے بنے جھونپڑے تک پہنچ گئے۔ اس میں دو کمرے تھے۔ ایک کو ہم شب بسری اوردوسرے کو بطور گودام استعمال کرتے۔ یہاں پہنچتے ہی ہم مختلف کام اپنے ذمے لے لیتے۔ ایلمنڈ صفائی کا فریضہ کسی سگھڑ عورت کی طرح سر انجام دیتا تھا۔ ملر کے ذمے گاڑی کی دیکھ بھال اورسامان کی ترتیب کا کام جب کہ کھانا پکانا اورباورچی کے دوسرے امور میرے ذمے تھے۔ پہلے روز ہمیں ڈبہ بند خوراک کھانی تھی۔ جتنی دیر میں ہم اپنے اپنے کام سے فارغ ہوئے، سورج غروب ہوگیا۔ کھانے سے فارغ ہو کر ہم باتیں کرنے کے بعد سونے کی تیاری کرنے لگے۔ ہمارے پاس زپ سے بند ہونے والے مخصوص بستر تھے، جن کے باعث ہم مچھر وں اور کیڑے مکوڑوں سے قطعاً خوفزدہ نہیں ہوئے۔
حد درجہ تھکن کے باعث اگلی صبح کسی کی آنکھ نہ کھل سکی۔ دس بجے کے قریب سب سے پہلے میں بیدار ہوا۔ ان دونوں کو جگانے کے بعد میں نے تولیہ اورٹوٹھ برش لیا اور جھیل کی طرف چل پڑا۔ باہر ہلکی ہلکی کہر چھائی ہوئی تھی۔ ہوامیں خنکی بھی موجو د تھی مگر بھلی محسو س ہوئی۔ جھیل کا پانی بے حد سرد تھا۔ میں نے خود پر جبر کرتے ہوئے ٹھنڈے پانی سے ہاتھ منہ دھویا، دانت صاف کیے اورواپس آ کر چولہے پر چائے کا پانی چڑھادیا۔
وہ دونوں جاگ توگئے مگر تاحال بوجہ تھکاوٹ لیٹے ہوئے تھے۔ ”بھئی اٹھ کر تیار ہوجاؤ۔“ میں نے باری باری دونوں کو ہلاکر کہا: ”اس طرح توشکار نہیں ہوگا۔“
”رات میں نے بہت ڈراؤنا خواب دیکھا۔“ ایلمنڈ نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔
”تم نے ضرور خواب میں اپنی بیوی کو دیکھا ہوگا“۔ ملر نے فقرہ چست کیا۔
”جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔“ ایلمنڈ نے ناگواری سے کہا: ”تمہاری اسی لیے ابھی تک شادی نہیں ہو سکی کہ تم بیو ی کو کوئی ڈراؤنی مخلوق سمجھتے ہو۔“
کنوارا تو میں بھی تھا مگر اس موضوع پر انہی دونوں کے درمیان نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔ باتوں باتوں میں وہ دونوں تیار ہوگئے اور میرے ساتھ بیٹھ کر چاے سے لطف اندوز ہونے لگے۔ قریب ہی اسٹول پر ملر کا چھوٹا سا ریڈیو رکھا تھا۔ اس وقت کوئی پروگرام نشر ہورہاتھا۔ دفعتہ صدا کار کی قدرے گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی:
”آج صبح چند نامعلوم افراد نے فلوریڈا بینک کی بکتر بند گاڑی پر حملہ کرکے اس کے ڈرائیور اورمحافظوں کو قتل کر دیا اورگاڑی چھین کر لے گئے۔ گاڑی کی تجوری میں بیس لاکھ ڈالر کا سونا محفوظ تھا جسے بینک سے وزارت خزانہ کے مرکزی دفتر بھیجا جارہا تھا۔ بکتر بند گاڑی یا مجرموں کاتاحال کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ عوام سے اپیل ہے کہ اگروہ ڈاکوؤں یا بکتر بند گاڑی کا کوئی سراغ پائیں توفوراً مقامی پولیس اسٹیشن اطلاع کریں۔ اطلاع دینے والے کو معقول انعام دیا جائے گا۔“
یہ خصوصی اعلان ختم ہوا تو کچھ دیر کے لیے ماحول میں خاموشی چھاگئی۔ اسے ایلمنڈ کی آواز نے توڑا؛”کاش یہ سونا مل جائے تو میرے تمام ادھورے خواب پورے ہوسکتے ہیں۔“ اس نے ہونٹ سکیڑ کر سیٹی کی آواز نکالتے ہوئے کہا۔
”بھئی مجھے تو اتنی بڑی دولت کا ایک حصہ بھی مل جائے تو میرے دن بدل سکتے ہیں۔“ میرے لبوں سے بھی بے اختیار نکلا۔
”پہلی بات تو یہ کہ جن لوگوں نے یہ واردات کی ہے وہ سوناکبھی تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔“ ملر ہمارے خوابوں کے محل کو چکنا چور کرتے ہوئے بولا:”بالفرض خزانہ تمہارے ہاتھ لگ بھی جائے تو تم اسے فروخت نہیں کرسکو گے کیونکہ سو نا یقینا اینٹوں کی شکل میں ہوگا جن پر سرکاری نشان ثبت ہوتا ہے۔“
”چھوڑو یار۔“ میں نے چاے کی پیالی ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔”جو شے ہمارے نصیب ہی میں نہیں اس پر سر کھپانے کا کیا فائدہ؟“ دونوں نے ہم آہنگ قہقہہ بلند کیا اور ہم اپنے ہتھیار سنبھال کر جھیل کی طرف چل پڑے۔ اب ہوا پہلے سے زیادہ خنک تھی۔ جھیل کی سطح سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھ کر چاروں طرف پھیل رہاتھا۔ یہ فضا شکار کے لیے سخت ناسازگار تھی کیونکہ دھندکے باعث انسانی نظر چند فٹ سے آگے کام نہیں کرتی تھی جب کہ جانور نگاہ کے بجائے سونگھنے اورسننے کی حس سے زیادہ کام لیتے ہیں۔ اب ہمیں اس وقت تک انتظار کرنا تھا، جب سورج کے بلند ہوتے ہی دھند چھٹ جائے۔ ہم جھیل کے کنارے ایک اونچی جگہ پر بیٹھ گئے، دفعتہ کہیں قریب سے ایسی آواز سنائی دی جیسے کسی وزنی جاندار کے پیروں تلے خشک جھاڑیاں ٹوٹ رہی ہوں۔ میں نے بجلی کی تیزی سے اپنی ایکسپریس اٹھالی۔ یہ طاقت ور رائفل شیر جیسے درندے کو بھی ایک ہی گولی میں راہ عدم کا مسافر بنا سکتی تھی۔ ایلمنڈ اور ملر کے پاس چھرے والی عام شکاری رائفلیں تھیں۔ قریب سے استعمال کرنے پر وہ بھی مہلک ہتھیار ثابت ہوتیں۔
”احتیاط سے۔“ میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دھند کے پار دیکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا، ”کہیں کوئی انسان نہ ہو۔“
”ہمارے علاوہ کسی انسان کا یہاں کیاکام؟“ ایلمنڈ بڑبڑایا۔
”مجھے توکوئی جانور معلوم ہوتاہے۔“ ہم نے چند قدم بڑھائے ہی تھے کہ ہماری ساعت سے تیز تیز سانسوں کی آواز ٹکرائی۔ ایسالگا جیسے کوئی طاقتور درندہ ہوا سونگھ کر کسی فیصلے پر پہنچنے کی کوشش کر رہاہو۔ ابھی میراذہن اسی الجھن کاشکار تھا کہ اچانک ہوا کے دوش پر ایک قہقہہ میری سماعت کو مرتعش کرگیا۔ ”تم نے کچھ سنا؟“ میں نے سراسرتی ہوئی آواز میں ان دونوں کو مخاطب کیا۔
”کسی مرد کی آواز تھی۔“ ملر نے میر ی تائید کی۔
”کوئی گولی نہ چلائے شاید ہمارے علاوہ یہاں کوئی انسان ہے۔“
”اگر یہ بات ہے تو اس انسان کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔“ ایلمنڈ کی وحشت زدہ آواز ابھری۔ میں نے ابھی کسی درندے کی غراہٹیں بھی سنی تھیں۔ اس سے قبل کہ ہم میں سے کوئی کچھ کہتا ایسی آواز آئی جیسے کوئی جانور جھیل سے پانی پی رہاہو۔ چندثانیے بعد یوں لگاجیسے کئی درندے جھیل سے پانی پی رہے ہو۔
”مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔“ ایلمنڈ کی خوف میں ڈوبی ہوئی آواز ابھری۔”چلو یہاں سے……“
ابھی اس کا جملہ مکمل بھی نہ ہواتھا کہ درندوں کی دبی دبی غراہٹوں کے درمیان وہی قہقہہ ابھرا۔ طمانیت سے بھر پور اس قہقہے میں خوف کا شائبہ تک نہ تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ اس عجیب و غریب صورت حال کو کیانام دوں۔ اتنا عرصہ بیت جانے کے باوجود آج بھی وہ لمحات یاد آئیں تو میر ا بدن پسینے میں نہا جاتا ہے۔ ہم تینوں دم سادھے کھڑے رہے۔
اگر معاملہ صرف درندوں کاہوتا تو ہم یہ سوچ کر مطمئن ہوجاتے کہ شاید جنگل سے جانور پانی پینے جھیل پرآئے ہوں۔ مگر ایک آدمی کی موجودگی معاملے کو بڑا پراسرار بنارہی تھی۔ پھر اتنا عرصہ جنگلوں بیابانوں کی خاک چھاننے کے بعد ہم مختلف قسم کے جنگلی جانوروں کی آوازیں اچھی طرح پہچانتے تھے۔ وہ آوازیں جنگلی ریچھ وغیرہ کی ہر گزنہیں تھیں۔ ان کے علاوہ ایور گلیڈز کے جنگلوں میں اور کوئی بڑا درندہ نہیں پایا جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ غراہٹیں معدوم ہوگئیں جس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ چلے گئے ہیں۔
ملر نے گہری سانس خارج کرتے ہوئے کہا: ”اُف میرے خدا! مجھے تو یہ کوئی ڈراؤنا خواب لگ رہا ہے۔
”خداجانے یہ کیا چکر تھا۔“ میں نے کہا،”آؤ واپس چلیں مبادا وہ دوبارہ اس طرف آ نکلیں۔“ دونوں نے میری تائید کی اور ہم واپس جھونپڑے کی جانب روانہ ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں سورج کی تمازت نے دھند ختم کردی۔ ہم نے دیکھا کہ آس پاس دلدلی میدان اورسبزے نے گھیراڈال رکھاہے۔ دور دور تک کسی ذی روح کا نام و نشان نہ تھا۔
”تم لوگ یہیں رکو۔“میں نے ان دونوں سے کہا۔ ”میں ذرا جھیل کا چکر لگا کر آؤں۔“
”لیکن تم وہاں جا کر کیا کروگے؟“ ملر نے چونک کر کہا۔
”ابھی آ کر بتاتاہوں۔“یہ کہہ کر میں تیز تیز قدم اٹھاتا ا س مقام پر پہنچ گیا جہاں ہم کچھ دیر قبل کھڑے تھے۔ بیس پچیس گز دور گیلی زمین پر پنجوں کے نشانا ت واضح تھے۔ انہیں دیکھ کر میرے دل نے پل بھر کے لیے دھڑکنا چھوڑ دیا، وہ نشانات چیتوں کے پنجوں کے تھے۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ کہ ان کے درمیان انسانی پاؤں کے نشان بھی موجود تھے۔ ایو ر گلیڈز کے جنگلوں میں چیتوں کے نشان بھی موجود تھے۔ ایوگلیڈز کے جنگلوں میں چیتوں کاکیا کام، پھر ان کے درمیان کسی آدمی کی موجودگی…… میں چکرا گیا۔ نشانات جھیل کے کنارے اور جنگل کے درمیان پھیلے ہوئے تھے۔ میں دوڑ کر دوستوں کے پاس پہنچا۔ پھولی ہوئی سانسوں کے باوجود انہیں سب کچھ بتادیا۔ہم ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچے تھے کہ اچانک ایلمنڈ چند قدم بڑ ھ کر بغور کچھ سننے کی کوشش کرنے لگا۔ ”یہ آواز کیسی ہے؟“ اس نے اپنی نگاہیں جھیل تک آنے والی کیچڑ زدہ سڑک پر مرتکز کرتے ہوئے کہا۔ اگر چہ مجھے اور ملر کو کچھ سنائی نہ دیا مگر جانتے تھے کہ ہم میں ایلمنڈ کی سماعت سب سے اچھی ہے۔وہ اب چاروں طرف گھوم رہاتھا۔ بلا آخر اس نے مشرق کارخ کرتے ہوئے کہا: ”کوئی گاڑی اس طرف سے آرہی ہے۔“ سماعت کو بغور مرکوز کرنے پر ہمیں بھی کسی گاڑی کے انجن کی خفیف سے گھر ر گھرر سنائی دینے لگی۔
ملر نے پوچھا: ”یہ کون ہوسکتاہے؟“
”شاید کوئی دوسراشکاری گروہ ہو۔“ میں نے راے دی۔ ہم دوڑ کر اپنے جھونپڑے میں پہنچ گئے۔ ایلمنڈ اندر سے دور بین اٹھالایا۔ اس نے چھت پر چڑ ھ کر دور بین اپنی آنکھوں سے لگالی۔
”اف میرے خدایا۔“ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا: ”یہ تو مرکزی بینک کی بکتر بند گاڑی ہے، اس پر بینک کا نشان صاف نظرآرہا ہے۔“ یہ سن کر پل بھر کے لیے ہمیں سانپ سونگھ گیا۔ ہم حیرت زدہ انداز میں ایک دوسرے کامنہ تکنے لگے۔
”تمہارا مطلب ہے یہ وہی گاڑی ہے جسے ڈاکو اغوا کر کے لے گئے تھے؟“ ملر نے کہا۔ ایلمنڈ نے دور بین آنکھوں سے ہٹا کر کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا: ”شاید وہی ہے اور اس کا رخ ہمارے جھونپڑے ہی کی طرف ہے۔“
”اس کا مطلب ہے وہ لوگ قانون کی نظروں سے چھپنے ادھر آرہے ہیں۔“ ملر بڑبڑایا۔
”تم کیسے کہہ سکتے ہو؟“ ایلمنڈ نے دوربین آنکھوں سے لگا کر پوچھا: ”بھئی واضح سی بات ہے۔“ملر نے جواب دیا۔”ہمارا جھونپڑا سارا سال خالی رہتاہے اسی لیے مجرموں نے اسے اپنا ٹھکانہ بنانے کافیصلہ کیا ہوگا۔“
”پھر توہماری جانوں کو شدیدخطرہ ہے۔“ ایلمنڈ یہ کہہ کر چھت سے اتر آیا۔
”ہمیں جلد خود کو گاڑی سمیت چھپا لیناچاہیے، وہ اپنا راز فاش ہونے کے ڈر سے ہمیں موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں۔“ ملر کی بات یہ سن کر میں پریشان ہوگیا۔ صورت حال اچانک خطرناک رخ اختیار کر گئی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے ہی ہمیں ریڈیو پر ڈاکے کی خبر سنائی دی تھی۔ ہم میں سے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اتنی جلد اس خونی ڈرامے میں ملوث ہو جائیں گے۔
”لیکن فوراً ہم کہاں چھپیں؟“ ملر کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
”یہ سوچنے کا وقت نہیں۔“ ایلمنڈ یہ کہہ کر تیزی سے جیپ میں سوار ہوا اوراسے جھونپڑے کے عقب میں اُگی جھاڑیوں کے پیچھے ایسے زاویے پر کھڑا کر دیا کہ سامنے سے نظر نہ آئے۔ ”اب ہم کہاں جائیں گے؟“ میں نے اس سے پوچھا۔
”ہم اپنے ہتھیار سنبھال کر سامنے والی جھاڑیوں میں چھپ جاتے ہیں۔“ ایلمنڈ نے کار توسوں کی پیٹی کمر سے باندھتے ہوئے کہا، اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ ہم جھاڑیوں میں چھپے ہی تھے کہ تھوڑی دیر بعد بکتر بند گاڑی جھونپڑے کے دروازے پر آکر رک گئی۔ تین افراد اچھل کر باہر آئے۔ وہ خود کار رائفلوں سے مسلح اورشکل ہی سے سفاک مجرم نظر آتے تھے۔ ہم سے ان کا فاصلہ بمشکل پندرہ بیس گز تھا۔
”تو یہ ہے وہ جگہ!“ ایک نے جھونپڑے پر ناقدانہ نظریں ڈالتے ہوئے پوچھا: ”کیسی ہے؟“ دوسرے نے فخریہ لہجے میں کہا۔ شاید اسی نے ہماری اس نجی تفریح گاہ کا کھوج لگایا تھا۔”اس کے مالک سارا سال غائب رہتے ہیں۔“
”لیکن اگرہماری موجودگی میں وہ اچانک اس طرف آ نکلے تو؟“ پہلے والے نے دانت پیس کر کہا۔
”تو کیا ہوا پیارے۔“ دوسراشیطانی انداز میں ہنستے ہوئے بولا:”ہم ان کا بھی قصہ پاک کر دیں گے۔“ یہ سن کر ہمارے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔ ایلمنڈ کو شاید ڈاکو کی یہ بات بہت ناگوار گزری اس لیے اس نے رائفل سے اس کا نشانہ لے لیا مگر میں نے اس کی رائفل جھکا دی۔
”احمق مت بنو۔“ میں نے سر گوشی کی۔”ان تینوں کے پاس خود کار ہتھیار ہیں جتنی دیر میں ہم اپنی رائفلیں تیار کریں گے وہ ایک ہی بوچھا ڑ مار کر ہمارا صفایا کرڈالیں گے۔“ یہ سن کر ایلمنڈ نے لبلبی سے انگلی ہٹا لی مگر اس کی آنکھیں بد ستور شعلے اُگلے رہی تھیں۔ ”اُن کی اور ہماری تعداد برابر ہے۔“ ایلمنڈ دانت پیستے ہوئے بولا۔ ”اگر ہم بیک وقت اپنے ہتھیار استعمال کر یں تو ان کے چیتھڑے اڑاسکتے ہیں۔“
ملر میر ی تائید کرتے ہوئے بولا: ”ہم نے یہ ہتھیار براے شکار خریدے ہیں۔ انسانوں کے چیتھڑے اڑانے کے لیے نہیں۔“
”تم دونوں شاید بھو ل رہے ہو کہ وہ عادی مجرم اور قاتل ہیں۔“ ایلمنڈ نے فرط جوش سے کانپ کر کہا۔ اس سے قبل کہ ہم اسے روک پاتے اس کی اسپرنگ فلیڈ کے دھماکے سے فضا مرتعش ہوگئی۔ ساتھ ہی سب سے آگے کھڑے ڈاکو کی چھاتی سے خون کا فوارا اُبل پڑا اور اسے دوسرا سانس لینے کا موقع ہی نہ ملا۔ اس کے بعد صرف ایک پل فضا میں سکوت رہا اگلے ہی لمحے دونوں ڈاکوؤں نے جھاڑیوں کی سمت گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔
”یہاں سے نکلو۔“ ملر زمین کے ساتھ چپک کر پیچھے کھسکتے ہوئے بولا۔ گولیاں جھاڑیاں چھیدتی ہمارے اوپر سے گزر رہی تھیں۔ اس دوران ایلمنڈ نے ڈاکوؤں کی سمت دوسرافائر داغا۔ ڈاکوؤں کو کوئی نقصان نہ پہنچا البتہ یہ فائدہ ضرور ہوا کہ چندساعت کے لیے ان کی ہتھیار خاموش ہو گئے، ہمارے لیے اتنی ہی مہلت کافی تھی۔ ہم ایک پل ضائع کیے بغیر جھاڑیوں سے نکل کر چند گز دور واقع قد آدم گھاس کے میدان کی جانب دوڑ پڑے۔ اس دوران غالباً ڈاکوؤں کی ہم پر نظر پڑ گئی کیونکہ میں نے ان میں سے ایک کو چیختے سنا، اس کے ساتھ ہی فضا تابڑ توڑ دھماکو ں سے لرز اٹھی۔ اگر ہم سرعت کے ساتھ زمین پر نہ لیٹ جاتے تو ہمارے سروں پر سے گزرنے والی گولیاں یقینا ہمارے بدن چھیدڈالتیں۔ اچانک فائرنگ تھم گئی۔ ہم سانس روکے وہیں پڑے رہے۔ وہ میدان کا نشیبی حصہ تھا اسی وجہ سے شاید ہم گولیوں کی بوچھاڑ سے محفوظ رہ گئے، لیکن اب ہمیں ڈاکو نظرنہیں آرہے تھے، انہیں دیکھنے کے لیے گھاس میں سے سر اٹھا کر دیکھناپڑتا جو ہمارے حق میں خطر ناک ثابت ہوسکتا تھا۔
”یہاں سے نکلو۔“ میں نے خوفزدہ خرگوش کی مانندآس پاس نظریں دوڑاتے ہوئے کہا۔ ”کہیں ایسا نہ ہو وہ ہمیں ڈھونڈ کر یہیں ختم کر ڈالیں۔“
”مگر جائیں کہاں؟“ ملر کی آواز ابھری۔”سر اٹھاتے ہی ان کی گولیاں ہماراخاتمہ کردیں گی۔“ وہ کچھ غلط بھی نہیں کہہ رہا تھا۔ جنوب کی سمت درختوں کاجھنڈ ہے۔“ میں نے جواب دیا۔ ”اگرہم کھسکتے ہوئے وہاں پہنچ جائیں تو جنگل میں روپوش ہوسکتے ہیں۔“
”میں جنگل میں ہرگز نہیں جاؤں گا۔“ ایلمنڈ نے گھبرا کر کہا۔ ”کیا تم لوگ جھیل پر آنے والی بلاؤں کو بھول گئے؟“ ڈاکوؤں کی یلغار کے باعث میں جھیل والے پراسرار معاملے کو فراموش کر بیٹھا تھا۔ اب ایلمنڈ کے یاد دلانے پر میرادل یکبارگی کانپ اٹھا۔ میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ شکار کی ہماری چھوٹی سی مہم اس قدر خطر ناک رخ اختیار کر جائے گی۔ میرا ذہن انہی سوچوں میں گم تھا کہ دفعتہ عقب میں کھڑکھڑاہٹ سن کر میں بے اختیار رائفل سمیت اس جانب پلٹ گیا۔ ایک کرخت صورت ڈاکو رائفل تانے میری طرف دیکھتے ہوئے سفاکانہ انداز میں مسکرا رہاتھا۔ میں سن ہو کر رہ گیا۔
اس کی انگلی کی محض ایک جنبش، ہم تینوں کا صفایا کرسکتی تھی۔ ایک پل بھی نہیں گزرا کہ پرسکوت فضا دھماکے سے گونج اٹھی۔ ڈاکو حیر ت سے اپنے سینے میں بننے والا سوراخ دیکھنے لگا جس سے خون ابل رہاتھا۔ اس کے ہاتھ سے رائفل چھوٹ گئی اور وہ منہ کھولے ایک طویل کراہ کے ساتھ پیچھے ہٹ گیا۔ یہ کارنامہ ملر کی ایکسپریس نے سر انجام دیاتھا۔
جب ہم تینوں مردہ ڈاکو کی لاش کی طرف متوجہ ہوئے۔ عقب سے تیسر ا بدبخت ڈاکو بے آواز انداز میں چلتے ہوئے ہمارے سروں پرپہنچ گیا۔ پہلادھماکا گونجتے ہی میں تیزی سے زمین پر جاگرا۔ ایلمنڈ نے میری تقلید کی مگر افسوس ملر کو مہلت نہ ملی یوں بھی وہ ہم دونوں کے عقب میں ڈھال بنا کھڑا تھا۔ اسی لیے تینوں گولیاں اس کے وجود میں پیوست ہوگئیں۔ ڈاکو یہی سمجھا کہ اس کی چلائی ہوئی گولیوں نے ہم تینوں کا خاتمہ کرڈالا ہے۔ اسی لیے وہ اپنی جھونک میں چند قدم آگے بڑھا تو ہمارا نشانہ بن گیا۔ ہماری رائفلوں سے نکلنے والے چھروں نے محاورۃً نہیں بلکہ حقیقتاً اس کا سینہ چھلنی کردیا۔
ڈاکوؤں کی موت کا یقین کر لینے کے بعد ہم تیزی سے ملر کی جانب بڑھے۔ اس کی حالت بڑی خراب تھی۔ پشت خون سے سرخ ہو چکی تھی۔ اس کا وجود اگر چہ ساکت تھا مگر حیر ت انگیز طور پر نبض چل رہی تھی۔ ”یہ ابھی زندہ ہے۔“ میں نے ایلمنڈ کو بتایا۔
”مگر اس کا بچنا مشکل ہے۔“ اس نے میرے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
”کوشش کر لینے میں کیا حرج ہے۔“ میں نے قدرے تیز لہجے میں جواب دیا۔”اگر ہم اسے ہسپتال لے جانے میں کامیاب ہوگئے تو شاید اس کی جان بچ جائے۔“
”لیکن اس طرح ہم بیس لاکھ ڈالر کے سونے سے بھی تومحروم ہوجائیں گے۔“ اس نے دھیرے سے کہا۔
”تمہار ا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا۔“ میں نے اس کا کندھا پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ ”ہمارے دوست کی جان خطرے میں ہے اور تمہارے سر پر لالچ کا بھو ت سوار ہے۔“
”میرا دماغ بالکل ٹھیک ہے۔“ وہ سنگدلی کے ساتھ میرا ہاتھ جھٹک کر بولا۔ ”یہ سوناہماری تقدیر بدل سکتا ہے۔ اگر ہم ملر کو ہسپتال لے کر گئے تو ہمیں ساراواقعہ سنانا پڑے گا۔ اس طرح سونا ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اس ویرانے میں پیش ہونے والے خونی واقعات کے گواہ صرف ہم ہی ہیں۔ پھر ہسپتال لے جانے کے باوجود ملرکی جان بچنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ڈاکوؤں سے مقابلہ کر کے ہم نے اپنی جانیں خطرے میں ڈالی ہیں اگر ہم نے سونا حکومت کو واپس کردیا تو کاغذی انعامات کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔“ ایلمنڈ کی باتیں سن کر میں نے جان کنی کے عالم میں مبتلا ملر کے وجود پر نظر ڈالی اور اپنے سر کو دھیرے سے اثبات میں جنبش دے کر رہ گیا۔ اس کے دلائل اتنے کمزور بھی نہیں تھے۔
”مگر اب ہم کیاکریں؟“ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”ہم ملر کی لاش یہیں دفن کر دیتے ہیں۔“اس نے مجھے قائل ہوتادیکھ کر پرجوش لہجے میں جواب دیا۔ ڈاکوؤں کی لاشیں ان کے اسلحہ سمیت بکتر بند گاڑی کے اگلے حصے میں مقفل کرکے جھیل میں غرق کردیتے ہیں پھرٹھیک ایک سال بعد جھیل سے سونا نکال لیں گے۔ اس وقت تک یہ معاملہ ٹھنڈا پڑچکا ہوگا۔“
”لیکن اگر ملر کے بارے میں ہم سے پوچھ گچھ کی گئی تو کیا وضاحت پیش کریں گے؟“ میں نے منصوبے کی جزئیات پر غور کرتے ہوئے کہا۔ ”ہمیں کوئی وضاحت پیش کرنے کی ضرورت نہیں دوست۔“ وہ پہلی بار مسکرا کر گویا ہوا۔
”ملر کنوارہ تھا اور ہم جانتے ہیں کہ ہمارے علاوہ اس کا شہر میں کوئی دوست وغیرہ بھی نہیں رہا۔ رہا اس کا ادارہ…… تو اسے ہم یہ جواب دیں گے کہ ملر شہر کے ہنگاموں سے تنگ آ کر ٹیکساس میں اپنے آبائی قصبے چلا گیا ہے۔ چونکہ وہ کوئی مالی غبن وغیر ہ کرکے تو گیانہیں، اس لیے کچھ عرصہ سر کھپانے کے بعد ادارہ بھی اسے فراموش کر دے گا۔
”آؤ ذرا دیکھیں تو گاڑی میں سونا کہاں رکھا ہے۔“ مجھے سوچتا دیکھ کر ایلمنڈ نے کہا اور اپنے دیرینہ دوست کو خون میں لت پت چھوڑ کر اٹھ گئے۔ بکتر بند گاڑی کے پچھلے حصے میں ایک آہنی صندوق نصب تھا۔ یہ مخصوص نمبروں سے کھلنے والی تجوری تھی لیکن ڈاکو اسے کھولنے کا انتظام کر کے آئے تھے، پچھلے حصے میں گیس ویلڈنگ کا سلنڈر اور ٹارچ رکھی تھی۔ میرے روکنے کے باوجود ایلمنڈنے وہاں رکھاہوا مخصوص ہیلمٹ پہن کر ویلڈنگ ٹارچ روشن کی اور اس کا شعلہ صندوق کے قفل پر مرتکز کرتے ہوئے دائرے میں گھمانے لگا۔ کئی سو ڈگری درجہ حرارت رکھنے والے شعلے نے چند لمحوں میں صندوق کی چادر کاٹ ڈالی۔ قفل ٹوٹتے ہی ہم نے مل کر صندوق کا ڈھکن اٹھایا تو سونے کی خیرہ کن چمک نے ہمارا استقبال کیا۔ سونا ایک کلو گرام کی اینٹوں کی شکل میں رکھا گیا تھا۔
”او ہ میرے خدایا!“ہم دونو ں کے لبوں سے بیک وقت نکلا۔ میں چند لمحے قبل قریب المرگ ملر کے لیے پریشان تھا۔ اب میرے ذہن سے اس کا خیال محو ہو گیا۔ مجھے فقط وہ چمکیلی دھات یاد رہ گئی جسے دیکھتے ہوئے ہر کوئی مسحور ہوجاتاہے۔“
”یہ دولت اب ہماری ہے۔“ ایلمنڈ نے سحر زدہ عالم میں اینٹوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ”میں نے قفل اس لیے کاٹا تاکہ بعد میں ہم غوطہ خوری کا سامان لا کر جھیل سے با آسانی سونا باہر نکال سکیں۔ آؤ اب ملر کا بھی انتظام کردیں۔“ ہم نے صندوق کا ڈھکن دوبارہ اپنی جگہ جمایا اور ملر کے پاس پہنچ گئے۔ اس بے چارے کی حالت کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ نبض بدستور چل رہی تھی۔ دائیں ہاتھ کا انگوٹھا کبھی کبھی جنبش کرتا نظر آجاتا۔
”اس خراب حالت میں اسے دفن کرنا ظلم ہوگا؟“ میں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ”لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں پیارے!“ میرادوست بے نیازی سے بولا اورجھونپڑے سے پھاؤڑا اٹھا لایا۔
”تم ذرا جھاڑیوں کے قریب قبر کھودو میں ڈاکوؤں کا انتظام کردوں۔“ میں نے جھاڑیوں کے پاس گڑھا کھود ڈالا۔ اس دوران ایلمنڈ نے ڈاکوؤں کو ان کے اسلحے سمیت بکتر بند گاڑی کے اگلے حصے میں مقفل کردیا۔ اب میں گاڑی جھیل میں غرق کرنے لگا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے گاڑی چلائی اور جھیل کی سمت روانہ ہوگیا۔ جھیل سے چند گز کے فاصلے پر اس نے گاڑی ایک ڈھلوان جگہ کھڑی کر دی اور انجن چلتا چھوڑ کر نیچے اتر آیا۔ ایک ہی دھکے میں گاڑی دوڑتی ہوئی جھیل میں جا گری۔ تھوڑی دیر سطح آب پر کھلونے کے مانند ڈولنے کے بعد وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
”مجھ سے ایک زندہ انسان دفن نہیں ہوگا۔“ ایلمنڈ کے واپس آتے ہی میں نے ناراضی سے کہا۔ ”بہتر ہے یہ کام بھی تم ہی سر انجام دو۔“
”اس میں پریشان ہونے والی کون سی بات ہے۔“ اس نے اپنی رائفل سنبھالتے ہوئے کہا۔ ”اگر تمہیں اتنا ہی ڈر لگ رہا ہے تو جھونپڑے میں چلے جاؤ۔“ میں بوجھل قدموں کے ساتھ وہاں سے روانہ ہوگیا، آدھ گھنٹے بعد ایلمنڈ کیچڑ میں لتھڑا ہوا اندر داخل ہوا اورکرسی پر ڈھیر ہو گیا۔
”اگر پولیس بکتر بند گاڑی کے تعاقب میں یہاں تک پہنچ گئی تو پھر؟“چند ثانیے بعد میں نے اس سے پوچھا۔ یہ خیال کچھ ہی دیر قبل میرے دماغ میں آیا تھا۔
”قدرت نے ہمارے راستے کی ہردیوار گرانے کا انتظام خود بخود کر دیا ہے۔“ وہ طمانیت سے بھر پورلیکن مکروہ انداز میں گویا ہوا۔ ”شاید تم نے محکمہ موسمیات کی رپورٹ نہیں سنی۔ اس کے مطابق آج رات فلوریڈا کے اس حصے میں طوفان بادو باراں آنے کا قوی امکان ہے۔“ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ اس رات ہماری روانگی کے دو گھنٹے بعد طوفانی بار ش کاآغاز ہوگیا۔ اس تند و تیز بارش نے جھیل آسٹن کے کنارے ہونے والی ہماری ہر کارروائی کا نام و نشان مٹا ڈالا۔
٭……٭
اب ایک سال بعد ہم سونا نکالنے کے سلسلے میں ہرممکن تیار ی کرچکے تھے۔ ہمیں اپنے مرحوم دوست کی طرف سے وہ عجیب و غریب خط موصول ہوا، جس میں ہمیں گزشتہ برسوں کی طرح شکار کھیلنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اگر چہ میں نے ایلمنڈ کو ہر لحاظ سے یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ ملر مر چکاہے اور یہ خط اس کی طرف سے ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے باوجود میرا اپنا ذہن طرح طرح کے شکوک و شبہات کی آماجگاہ بناہواتھا۔ دفتر واپسی تک میں اسی بات پر غور کر تارہا کہ اگروہ خط ملر نے نہیں لکھا تو اس کی طرز تحریر کی اتنی کامیاب نقل کرنے والا کون ہے۔
دوسری طرف گزشتہ واقعات ذہن میں تازہ ہوتے ہی مجھے جھیل پر پیش آنے والا پراسرار واقعہ بھی یاد آگیا جس کے ساتھ ہی میرے وجود میں پھریریاں سے دوڑ گئیں۔ چیتوں کی غراہٹوں کے درمیا ن وقفوں وقفوں سے گونجنے والی ہنسی کی وہ آواز ایک سال گزرنے کے باوجود میری یادوں میں یوں تازہ تھی، جیسے کل کی بات ہے۔ ان باتوں کے باوجود سونے کاحصول میرے لیے زیادہ اہم تھا۔ میں نے ایلمنڈ کے ساتھ مل کر میامی کے ساحل پر غوطہ خوری کی ہلکی پھلکی تربیت بھی حاصل کرلی تھی۔
مقررہ روز ہم غوطہ خوری کاسامان جیپ میں لاد کر علی الصباح جھیل کی سمت روانہ ہوگئے۔ اگر چہ ہمارا مقصد شکار کھیلنا نہیں تھامگر ہم نے احتیاطاً اسلحہ بھی رکھ لیا۔ دوران سفر سونا ہی موضوع گفتگو بنارہا۔
”سرکاری نشان رکھنے والی سونے کی اینٹیں فروخت کرنا ایک مسئلہ ہوگا۔“ میں نے ا یلمنڈ سے کہا جو بڑے انہماک سے اونچے نیچے راستوں پر جیپ دوڑا رہاتھا۔
”میں نے اس کاانتظام بھی کر لیا ہے۔“ وہ کچھ توقف کے بعد بولا۔ میں نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھا تو وہ بولا: ”تم نے لٹل ماسٹر جان کا نا م سنا ہوگا؟“
”وہ جو شکاگو کا بدنام غنڈہ اور اسمگلر ہے۔“ میں نے نشست سے اچھل کر کہا۔
”گھبرانے کی ضرورت نہیں دوست!“ وہ میری حالت سے قدرے محظوظ ہوتے ہوئے بولا۔ ”میر ی اس کے ساتھ شناسائی اس زمانے سے ہے جب وہ اتنا نامی گرامی غنڈہ نہیں بنا تھا بلکہ جرائم پیشہ افرا د کے لیے رقمیں وصول کرنے کا کام کیا کرتا تھا۔“
”توکیا تم اتنا بڑا سودا ایک مجرم کے ساتھ کروگے؟“ میں نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا۔ ”تمہیں مجھ سے مشورہ کیے بغیر اس سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔“
”ارے تم تو ناراض ہوگئے دوست!“ وہ میرے لہجے میں چھپی سرزنش محسوس کرتے ہوئے بولا۔ ”میں نے اسے حقیقت نہیں بتائی صرف غیر قانونی طور پرحاصل کیے گئے سونے کی فروخت سے متعلق با ت چیت کی ہے۔ دراصل میں نہیں چاہتا کہ ہم اس سونے کو زیادہ دیر اپنی تحویل میں رکھیں۔“ میرا ذہن جو پہلے ہی خط والے پر اسرار واقعے میں الجھا ہوا تھا، اس کی احمقانہ تجاویز سن کر مزید الجھ گیا۔
جھیل تک پہنچ کر ہم اس وقت گاڑی سے اترے جب ہمیں یقین ہو گیا کہ وہاں ہمارے علاوہ کوئی تیسرا ذی روح موجود نہیں۔ ماحول کو اسی پراسرار دھند نے اپنی لپیٹ میں لے رکھاتھا جو اب جھیل ہی کا ایک حصہ معلوم ہوتی تھی۔ ایلمنڈ نے گاڑی کے پچھلے حصے سے آکسیجن سلنڈر اور ماسک وغیرہ نکال کر مجھے پکڑا دیئے۔ ”میرے خیال میں ہم پہلے اس جگہ کا معائنہ کر لیں جہاں ہم نے ملر کو دفن کیا تھا۔“ میں نے سرگوشی سے ذرا بلند آواز میں کہا۔ ”اس طرح بعد میں اطمینان سے اپنا کام سر انجام دے سکیں گے۔“
”آخر تم اس قدر وہمی کب سے ہوگئے؟“ ایلمنڈ نیم غصیلے لہجے میں بولا۔”بہر حال تم اپنا یہ شوق بھی پورا کر لو۔ میں یہیں گاڑی کے پاس تمہارا انتظار کرتاہوں۔“ ملر کی قبر پر تنہا جانے کا تصور ہی خاصا لرزہ خیز تھا مگر اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر میں نے ایلمنڈ کو ساتھ چلنے پر مجبور کیا تو وہ مجھے روک لے گا۔ ناچار میں نے بیلچہ تھاما اور چل پڑا۔ وہ مقام جھیل سے پچاس ساٹھ گز کے فاصلے پر تھا۔ وہاں پہنچتے پہنچتے میرے قدم من من بھر کے ہوگئے۔ مٹی ہٹانے سے پہلے میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ایلمنڈ گاڑی کے مڈگارڈ پر پاؤں رکھے جھیل کی طرف متوجہ تھا۔
میں بیلچے سے آہستہ آہستہ مٹی ہٹانے لگا۔ خلاف توقع زمین خاصی نرم تھی، اچانک بیلچہ کسی نرم شے سے جا ٹکرایا۔لاش۔ لاش اپنی جگہ موجود ہے۔ میں نے ایک طویل سانس خارج کرتے ہوئے سوچا اور جلدی جلدی مٹی ہٹانے لگا۔ میں نے ایلمنڈ کو اس لیے نہیں بلایا کہ مبادا وہ میرا مذاق اڑانا شروع کردے۔ جیسے جیسے لاش پر سے مٹی ہٹی، میری حالت متغیر ہوتی چلی گئی۔ میں چیخنا چاہتاتھا مگر آواز میرے حلق میں پھنس کر رہ گئی۔میرے سامنے قبر میں کسی انسان کی نہیں بلکہ ایک چیتے کی گلی سڑی لاش پڑی تھی۔ لاش سے اٹھنے والا تعفن اس قدر تھا کہ بدبو سے میرا دماغ پھٹنے لگا۔ میں بیلچہ وہیں پھینک کر الٹے قدموں بھاگ کھڑا ہوا، بلاشبہ وہ میری زندگی کا ایک ناقابل یقین منظر تھا۔
”ایلمنڈ…… ایلمنڈ…… وہاں سے لاش…… چیتا…… چیتا…… میں نے پھولی ہوئی سانسوں کے باوجود بے ربط انداز میں جملے کہے اور گاڑی کاسہارا لے کر ہانپنے لگا۔ جب میری سماعت سے ایلمنڈ کی آواز نہیں ٹکرائی تو میں نے سر اٹھا کر دیکھا اور میر ی رہی سہی ہمت بھی جاتی رہی…… دوردو رتک میرے علاوہ کسی ذی روح کانام و نشان تک نہ تھا۔ میرے دل کی دھڑکنیں اس قدر تیز ہوگئیں کہ ان کی دھک دھک مجھے اپنے کانوں میں صاف سنائی دینے لگی۔ میں نے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر وہ نہ صرف مقفل تھا بلکہ چابیاں بھی غائب تھیں۔ میں اس منحوس جگہ بری طرح پھنس چکا تھا۔ جانے کیوں مجھے یقین ہونے لگاتھا کہ ملر زندہ ہے اور ہم دونوں سے بدترین انتقام لے رہاہے۔ خداجانے ایلمنڈ کے ساتھ اس نے کیا سلوک کیا تھا۔ دفعتہ میرے عقب میں قدموں کی آہٹ گونجی۔ میں نے تڑپ کراس جانب رخ بدلا تو ایلمنڈ کو اس حال میں جھونپڑے کے پیچھے سے برآمد ہوتے دیکھا کہ چار افراد نے اسے اپنے اسلحے کی زد میں لے رکھا تھا۔ وہ چاروں شکل ہی سے جرائم پیشہ نظرآتے تھے۔ ایلمنڈ کو زندہ دیکھ کر میری جان میں جان آئی مگر ان چاروں میں سے ایک شخص کی شکل پر غور کرتے ہی میرادل پھر دھک دھک کرنے لگا۔ چند ہفتے قبل مقامی اخبار میں قتل کی ایک واردات کے سلسلے میں اس کی دھندلی سی تصویر چھپی تھی۔ وہ لٹل ماسٹر جان تھا۔ شکاگو کی زیر زمین دنیا کا بے تاج بادشاہ…… آن واحد میں اس کے گرگوں نے مجھے بھی اپنے اسلحے کے زور پر لے لیا۔
”تو یہ ہے تمہار ا دوست۔“ لٹل ماسٹر میرا جائزہ لیتے ہوئے کرخت لہجے میں ایلمنڈ سے مخاطب ہوا۔ ”اس سے کہو کہ غوطہ خوری کا لباس پہن کر جھیل میں اتر جائے ورنہ ہم تمہاری کھوپڑی میں سوراخ کردیں گے۔“ میں نے ایلمنڈ کو ملامت بھری نظروں سے گھورا۔ یہ سب اس کی حماقت کانتیجہ تھا۔ ایلمنڈ کے منہ سے بھاری مقدار میں سونے کا ذکر سن کر ماسٹر یقینا چوکنا ہوگیا ہوگا۔ وہ اس میدان کاپرانا کھلاڑی تھا۔ بینک ڈکیتی کی واردات اور پھر بکتر گاڑی کی پراسرار گمشدگی پہلے ہی اس کے علم میں ہوگی۔لٹل ماسٹر کا تعلق جس دنیا سے تھا وہاں ایسی خبریں قانون تک پہنچنے سے پہلے ہی پہنچ جایا کرتی ہیں۔ اس واقعے کے ساتھ ایلمنڈکا تعلق جوڑنے کے بعد اس نے یقینا ہماری خفیہ نگرانی کرائی ہوگی۔ اب غوطہ خوری کا ساما ن دیکھ کر اسے صورت حال سمجھنے میں ذرا بھر دیر نہیں لگی تھی۔
”تم اپنے آدمیوں سے یہ کام کیوں نہیں کرواتے۔“ میں نے ہمت مجتمع کر تے ہوئے اس سے کہا۔
”میرے آدمی غوطہ خور نہیں ہیں۔“ وہ غرا کر بولا۔ ”جب کہ تم اس سلسلے میں باقاعد ہ تربیت لے چکے ہو۔ پھر تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ گاڑی کہاں ڈوبی تھی اور ہاں مجھے دھوکا دینے کا خیال بھی دل میں مت لانا۔ مجھے سونے کی اینٹوں کی اصل تعداد معلوم ہے۔ اگر کوئی چالاکی دکھانے کی کوشش کی تو ایسی اذیت دوں گا کہ موت تمہیں غنیمت معلوم ہونے لگے گی۔“
”جیسا تم کہوگے میں ویسا ہی کروں گا۔“ میں نے فیصلہ کن لہجے میں جواب دیا لیکن جھیل کی تہ میں جانے سے قبل میں تمہیں ایک راز سے آگاہ کرنا ضرور ی سمجھتاہوں۔“ چند لمحے گہری نظروں سے میرامشاہدہ کرنے کے بعد اس نے سر کی خفیف سی جنبش سے مجھے با ت جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔
میں نے مختصراً اسے بتایا کہ ہم نے اپنی زخمی ساتھی ملر کو زندہ دفن کر دیا تھا اور اب وہ کسی طرح بچ کر ہم سے بھیانک انتقام لے رہا ہے۔ میں نے اس خط کا بھی ذکر کیا جو چند روز قبل ہمیں ملا تھا۔
”یہ ڈراماکررہا ہے۔“ ماسٹر لٹل جان کا ایک گرگا میر ی روداد سن کر بھونکا۔
”اسے جلدی سے جھیل کی تہ میں بھیجو، میں سونا دیکھنے کے لیے بے چین ہوں۔“ لٹل جان نے آگے بڑھ کر مجھے گریبان سے پکڑا اور رائفل کی نال میرے منہ میں ٹھونستے ہوئے سانپ کی پھنکار سے مشابہ آواز میں بولا۔”میں یہاں تمہاری بکواس سننے نہیں آیا۔“ یہ کہہ کر غوطہ خوری کا سامان میرے قدموں میں پھینک دیا۔
مرتا کیا نہ کرتا میں نے غوطہ خوری کا لباس پہنا اور آکسیجن سلنڈر کمر پر لاد کر جھیل کی طرف بڑھ گیا۔ جھیل میں اترنے سے پہلے ان کم بختوں نے میری کمر کے گرد مضبوط رسی باندھی اورچمڑے کا خاصا بڑا تھیلا دیا۔
”نیچے پہنچتے ہی سونا اسی تھیلے میں بھر کر رسی سے باندھ دینا۔“ لٹل جان نے کہا۔”اگر تم نے فرار ہونے کی کوشش کی تو یاد رکھنا اس جھیل کا چپہ چپہ ہماری دورمار رائفلوں کے نشانے پر ہے۔“ میں آہستگی سے جھیل کے یخ بستہ پانی میں اترگیا۔ مجھے یقین تھا کہ سونا نکلوا کر وہ ہمیں موت کے گھاٹ اتار دیں گے۔ بھلااتنے بڑ ے خزانے کے گواہوں کو وہ کیسے زندہ چھوڑے دیتے؟ لیکن میں ان کی بات ماننے پر مجبور تھا۔ فی الوقت مجھے بچاؤ کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔
زیر آب اترنے کے بعد مجھے جھیل کے شفاف پانی کی تہ میں پڑی بکتر بند گاڑی کا ہیولہ نظر آنے لگا۔ میں اس کے کھلے دروازے سے اندر داخل ہوگیا۔ سونے والا بکس ایک طرف پڑا تھا، لیکن اس کا بالائی حصہ الگ تھا۔ میں رک گیا، اس کا مطلب تھا کہ مجھ سے پہلے کوئی سونا لے جا چکا تھا۔ میں تیزی سے آگے بڑھا، بکس میں کیچڑ اور کائی کے سوا کچھ نہ تھا۔ یعنی سونا خاصا عرصہ پہلے نکالا جا چکا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اب کیا کروں۔ میں نے جلدی سے خود کو رسی کی قید سے آزاد کردیا۔ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر میں نے اوپر جا کر لٹل جان کو خالی بکس کے بارے میں بتایا تو وہ اسے میری چال ہی سمجھے گا۔ یوں میرے حصے میں صرف سیسے کی ایک گولی آئے گی۔ یہ خیال ذہن میں آتے ہی میں تیزی سے ہاتھ پیر چلا تا جھیل کے پرلے کنارے کی طرف تیرنے لگا۔ فرار کی آخری کوشش کر لینے میں حرج ہی کیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد جھیل کے دوسرے کنارے پر پہنچ کر میں آس پاس نظریں دوڑاتا پانی سے نکل آیا۔ خوش قسمتی سے اس جگہ گھاس اور جھاڑیوں کے جھنڈ کافی تعداد میں تھے، ان میں خود کو چھپا کر میں باآسانی فرار ہوسکتا تھا۔ میں نے ایسا ہی کیا مگر جیسے ہی جھاڑیوں سے نکل کر ٹھوس زمین پر قدم جمائے۔ میرے اعصاب پل بھر کے لیے مفلوج ہوگئے۔ لٹل جان اور اس کے گرگوں نے ہر طرف سے مجھے اپنی رائفلوں کی زد پر لے رکھا تھا۔ ”میں جانتا تھا کہ تم ضرور کمینگی دکھاؤگے۔“ لٹل جان دانت پیستے ہوئے بولا۔ ”اس لیے میں تمہاری موت بن کر پہلے سے یہاں آموجود ہوا۔“یہ کہہ کر اس نے اپنی رائفل کا رخ تھر تھر کانپتے ہوئے ایلمنڈ کی طرف کردیا۔ یکے بعد دیگرے بعد دو دھماکے گونجے اور ایلمنڈ کی کھوپڑی کے پرخچے اڑ گئے۔
”اپنے ہتھیار پھینک دو۔“ اچانک چاروں طرف سے لاؤڈ اسپیکروں کی گونج ابھری۔ تم سب چاروں طرف سے ہمارے گھیرے میں ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایف بی آئی اور میامی پولیس کی سائرن بجاتی گاڑیوں نے ہمیں گھیرے میں لے لیا۔ لٹل جان اور اس کے کارندوں کے چہروں کا رنگ یو ں فق ہوا جیسے ان کا سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو۔ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ بدمعاش اتنی آسانی سے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ وہ ایسی صورت میں بطور آخری حربہ مجھے یرغمال بنا کر یہاں سے نکلنا چاہیں گے، اس سے قبل کہ وہ کوئی برا قدم اٹھاتے۔ میں نے اپنے بدن کی تمام تر قوت ٹانگوں میں منتقل کرتے ہوئے جھیل میں چھلانگ لگادی۔ عین اسی لمحے لٹل جان کی رائفل سے ایک شعلہ نکل کر میرے جانب لپکا۔ پل بھر کے لیے مجھے یوں لگا جیسے میرے داہنے کندھے میں انگارے بھر گئے ہوں، پھر اگلے ہی لمحے یخ بستہ پانی نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا اس کے بعد کیا ہوا؟ مجھے کچھ یاد نہیں۔ فقط یہ احساس باقی رہا کہ میرا وجود کسی بے جان شے کے مانند یخ بستہ تاریکیوں میں اترتا چلا جارہا ہے۔
٭……٭
ہوش و حواس کی دنیا میں دوبارہ لوٹتے ہی میں نے خود کو بدلے ہوئے ماحول میں پایا۔ وہ ایک صاف ستھرا کمراتھا۔ جس کے اکلوتے آرام دہ بستر پر میں دراز تھا۔ میرا داہنا کندھا پٹیوں سے لپٹا ہوا تھا۔ وقتاً فوقتاً کندھے سے اٹھنے والی درد کی ٹیسیں سارے جسم میں پھیلتی محسوس ہورہی تھیں۔ آہستہ آہستہ ذہنی حالت معمول پرآتے ہی مجھے گزشتہ واقعات یاد آنے لگے۔
میراذہن بھول بھلیوں میں الجھ رہا تھا کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک نرس ہاتھ میں ٹرے تھامے داخل ہوئی۔ پیچھے پیچھے ایک چھوٹے قد کا نوجوان بھی اندر داخل ہوا، اس کے بال گھنگریالے اور آنکھیں بڑی بڑی تھیں۔ مجھے ہوش میں آتے دیکھ کر نرس نے میری نبض دیکھی اور ایک ٹیکا میرے بازو میں لگا دیا۔ کچھ ہی دیر بعد درد کی ٹیسیں ختم ہوگئیں۔
”میں کہاں ہوں؟“ میرے لبوں سے بمشکل نکلا۔
”بے فکر رہو دوست! خطرے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔“ ایک شناسا مردانہ آواز میری سماعت کو مرتعش کر گئی۔”اب تم محفوظ ہو۔“ وہ الفاظ اگر چہ ہمدردانہ لہجے میں ادا کیے گئے تھے مگر میرے لیے بم کے دھماکے سے کم نہ تھے۔ وہ آواز ملر کی تھی جسے ایک سال قبل ہم نے سونے کے لالچ میں زندہ درگور کر ڈالا تھا۔ میں یہ جاننے کے لیے بے تاب ہوا تھا کہ آخر وہ جان کنی کے عالم سے زندہ سلامت کیسے نکل آیا۔ ”مگر تم تو……“ میں نے اسے اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر بے اختیار اٹھنے کی کوشش کی۔
”تمہارے زخم ابھی تازہ ہیں۔“ اس نے آگے بڑھ کر مجھے دوبار ہ لٹا دیا۔”مجھے ایلمنڈ کی موت کا افسوس ہے مگر وہ اپنی حماقتوں اور اندھے لالچ کی وجہ سے موت کے منہ میں جا پہنچا۔“ایلمنڈ کی درد ناک موت یاد آتے ہی میرے دل میں ہوک سی اٹھی……
آہ! لالچ نے بل آخر اس کی جان لے لی تھی۔ میں نے ایک بار پھر ملر پر نظر ڈالی وہ بلاشبہ پہلے کی نسبت خاصا کمزور ہو گیا تھا مگر پھر بھی اس حالت سے ہزار درجے بہتر تھا جس میں ہم نے اسے بے یارو مددگار چھوڑا تھا…… ”مگر یہ معجزہ ہوا کیسے؟“
تم شاید یہی سوچ رہے ہو کہ شدید زخمی ہونے کے باوجود میں تمہارے سامنے زندہ سلامت کیونکر کھڑا ہوں۔“ وہ گویا میرے خیالات پڑھتے ہوئے بولا۔”دراصل یہ سب اس فرشتے کی وجہ سے ممکن ہوا اور یہی تمہیں مجھ پر بیتنے والے واقعات کے بارے میں بتائے گا۔“ یہ کہہ کر ملر نے اس نوجوان کوآگے آنے کا اشارہ کیا جو نرس کے پیچھے پیچھے کمرے میں داخل ہوا تھا۔ ”آپ تو مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔“ اس نے دلفریب انداز میں مسکراتے ہوئے ملر سے کہا۔ ”خدا کو آپ کی جان بچانا مقصود تھی سو بچالی۔“
”مگر تم وہاں نہ ہوتے تو شاید آج میں بھی یہاں نہ ہوتا۔“ملر نے احسان مندی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ ان دونوں کی زبانی مجھے جو واقعات معلوم ہوئے وہ حیران کن تھے۔ اس نوجوان کا نام ”ایڈم“ تھا۔ و ہ فلوریڈا کے محکمہ تحفظ جنگلی حیات میں ملازم تھا۔ یہ محکمہ ایسے جانوروں پر تحقیق کرتاہے جن کی نسل انسان کی غفلت یا تغیر زمانہ کے باعث ناپیدہونے کا خدشہ ہو۔ ایک سال قبل جب ہم تینوں جھیل کنارے پیش آنے والے خونی ڈرامے کا حصہ بنے تو ایڈم اپنے ادارے کی جانب سے چیتوں پر تحقیق کر رہا تھا۔ اس منصوبے کے لیے ایورگلیڈز کے دلدلی جنگلات کا انتخاب کیا گیا تھا۔
تحقیق کا مقصد یہ معلوم کرناتھا کہ آیا چیتے جیسے درندے ایورگلیڈ کے دلدلی ماحول میں زندگی گزار سکتے ہیں یانہیں۔چونکہ چیتے بچپن سے ایڈم کے ساتھ تھے اس لیے وہ حدد رجہ مانوس ہوگئے۔ تحقیق کے دوران وہ باقاعدگی سے جھیل آسٹن چہل قدمی کرنے جایا کرتے۔ا س د ن بھی وہ چیتوں کے ہمراہ جھیل کی طرف آیا تھا لیکن جنگل کے گھنے حصے میں واقع اپنے تحقیقاتی مرکز تک پہنچنے سے قبل ہی اس نے ہمارے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اس نے نہ صرف ہمیں جھیل میں بکتر بند گاڑی غرق کرتے دیکھا بلکہ جھاڑیوں میں چھپ کر ہماری باتیں سن لیں۔
جب ہم نے ملر کو بے رحمی سے زندہ دفن کر دیا، وہ اپنے ساتھیوں کو بلا لایا اور ان کی مدد سے اسے تحقیقی مرکز لے گیا۔ گھنے جنگل کے درمیان واقع اس مرکز میں ہنگامی طبی امداد کا شعبہ بھی قائم تھا۔ بروقت طبی امداد ملنے کی وجہ سے ملر کی جان تو بچ گئی مگر اسے طویل عرصے تک صاحب فراش رہنا پڑا۔ اسی اثنامیں اس نے پولیس کو واقعے کے بارے میں بھی بتادیا۔جھیل سے سونا بازیاب کرنے کے بعد پولیس نے ملر کوانعام دیناچاہا لیکن اس نے لینے سے انکار کردیا۔بس ملر نے ان سے یہ درخواست کی کہ اپنی مکمل صحت یابی تک وہ اس معاملے کو صیغہ راز میں رکھنا چاہتاہے۔دراصل وہ ہمیں ہمارے لالچ کی سزا اپنے طریقے سے دینا چاہتا تھا۔چونکہ اس نے قانون کی مددکی تھی اس لیے ملر کی بات مان لی گئی۔ ملر کی مکمل صحت یابی میں دس گیارہ ماہ لگ گئے جس کے بعد اس نے وہ خط لکھ ہمیں دہشت زدہ کر ڈالا لیکن وہ بھی نہیں جانتاتھاکہ اس ڈرامے کا انجام اس قدر الم ناک ثابت ہوگا۔ بہر حال ایلمنڈ کو اپنے کیے کی سزا مل گئی اور لٹل جان بھی بالآخر قانون کے شکنجے میں پھنس گیا۔
”مگر وہ مردہ چیتا؟“ میں نے قبر میں چیتے کی موجودگی یاد آتے ہی پوچھا۔
”وہ ایڈم کا خیا ل تھا۔“ ملر ہنستے ہوئے بولا۔ ”کچھ عرصہ قبل تحقیقی مرکز میں ایک چیتا پراسرار بیماری کا شکار ہو کر مرگیا۔ ایڈم کو یقین تھا کہ تم میری قبر ضرور کھودو گے لہٰذا ڈرامے کو مزید پر اسرا ر بنانے کے لیے اس نے چیتے کی لاش وہاں دفن کروا دی۔ یوں ایک ایک کر کے تمام پراسرار واقعات پر سے پردہ اٹھ گیا۔ مجھے صحت یاب ہونے میں تین ماہ لگ گئے۔ ضروری قانونی کارروائی کے بعد پولیس نے مجھے فارغ کردیا۔ ملر نے مجھے معاف کردیا بلکہ ہر طرح سے میرا خیال بھی رکھا۔ آج میں خوشحال زندگی گزار رہا ہوں مگر ماضی کی تلح یادیں مجھے کبھی کبھی بے چین ضرور کر دیتی ہیں۔
٭……٭