کعبہ کی تعمیر کے وقت حجر اسود رکھنے کا واقعہ
خواجہ عابد نظامی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
| یہ بعثت سے پہلے کا ہے واقعہ |
| کتابوں میں ہم نے ہے جس کو پڑھا |
| ہوا منہدم کعبہ سیلاب سے |
| تو رہنے لگے لوگ بے تاب سے |
| ہوا مشورہ کوئی تدبیر ہو |
| خدا کا یہ گھر پھر سے تعمیر ہو |
| جوانان مکہ نے باندھی کمر |
| تو پھر بن گئے اس کے دیوار ودر |
| مگر کعبۃ اللہ دوبارہ بنا |
| تو اک مسئلہ خاص پیدا ہوا |
| وہ جنت کا پتھر کہ اسود ہے نام |
| دلوں میں بہت جس کا ہے احترام |
| جگہ اس کی اس کو لگائے گا کون! |
| یہ عزت، یہ اعزاز پائے گا کون! |
| یہ خواہش ہر اہل قبیلہ کی تھی |
| ملے دوسروں پر اسے برتری |
| بلند اس کا رتبہ ہر اک سے رہے |
| وہی کعبے میں سنگ اسود رکھے |
| بدلنے لگا ان کی محفل کا رنگ |
| لگا یوں کہ چھڑ جائے گی ان میں جنگ |
| یہ دیکھا تو اک شخص گویا ہوا |
| بھلا ہاتھا پائی میں رکھا ہے کیا؟ |
| رکو جنگ سے اور سنو میری بات |
| کہ جھگڑے کی ہر بات ہے واہیات |
| علی الصبح جو شخص کعبہ میں آئے |
| وہ حق ہجر اسود لگانے کا پائے |
| خدا کی یہ قدرت کہ وقت سحر |
| ہوئے داخلِ کعبہ خیرالبشر |
| انہیں دیکھ کر ہربشر خوش ہوا |
| خزانہ ہو جیسے کوئی مل گیا |
| کہا سب نے صادق،امین آگئے |
| کوئی جن کا ثانی نہیں ،آگئے |
| ہمیں فیصلہ ان کا منظور ہے |
| کہ امن و امان ان کا دستور ہے |
| یہی امن کی راہ دکھلائیں گے |
| جو جھگڑا ہمارا ہے نمٹائیں گے |
| کیا آپ نے اس کا وہ فیصلہ |
| جو ہے آج بھی ہے حصہ تاریخ کا |
| بڑھے آگے اور ہجر اسود لیا |
| اسے اپنی چادر پہ پھر رکھ دیا |
| یہ فرمایا ہر ایک سردار سے |
| کہ چادر کا اک کونہ وہ تھام لے |
| یہ اک ایسی دانائی کی بات تھی |
| کہ خوش ہوکے کل قوم نے مان لی |
| کہا مل کے اب سب یہ چادر اٹھائیں |
| جہاں یہ لگے گا وہاں لے کے جائیں |
| پھر اس کو اٹھا کر بصد احترام |
| لگایا وہاں،جو تھا اس کا مقام |
| یہ تدبیر اک ایسی تدبیر تھی |
| بنی قوم کے واسطے روشنی |
| مٹے جنگ ہونے کے امکاں تمام |
| محمدؐ پہ لاکھوں درودوسلام |
Facebook Comments

