لومڑی کے بچے
مصنف: او،پیروفسکایا
مترجم: قرة العین حیدر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ٹھہرو۔۔۔“ سونیا نے لومڑی کے بچے کی اداس غصیلی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔”اپنی ٹر ٹر سے پریشان کرنے کے بجائے اسے کھانا کیوں نہیں کھلاتیں؟“
لومڑی کا بچہ پلنگ کے پیچھے ایک کونے میں ہماری طرف سے پشت کیے بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھیں اس طرح جھلملا رہی تھیں جیسے روتا ہو۔ وہ بہت منا سا تھا۔ ایک بھر بھری سی دم اور دو نکیلے ننھے منّے کانوں کا مجموعہ معلوم ہوتا تھا۔
جنگل کے رکھوالوں میں سے ایک آدمی جس کا نام Fedotفیدو ایوانووچ تھا، اپنے گھوڑے پر سوار چند گھنٹے قبل ہمارے گھر پہنچا تھا۔ اس نے جوں ہی ہمیں آواز دی ہم بھاگتے ہوئے اس کے پاس موجود! اس نے ایک تھیلے کی رسّی کھولی اور سمورکا ایک کانپتا ہوا پلندا برآمد کیا۔ پہلے ہم اسے بلی کا بھورا بچہ سمجھے۔
”لو بی بی سونیا۔۔۔“ ایوانووچ نے کہا۔۔۔”گھر کے اندر لے جاﺅ مگر دیکھنا کہ کوئی اسے ڈرائے نہیں۔پہلے ہی کافی سہما ہوا ہے۔ “
سونیا لومڑی کا بچہ اندر لائی۔ جوں ہی اس نے اسے زمین پر دھرا وہ لڑھکتاپڑھکتا جا کر ایک کونے میں دبک رہا اور کمرے کی طرف سے پیٹھ کر لی۔ اس کا خوف دیکھ کر ہم اس کے پاس بیٹھ گئے اور چپکے چپکے باتیں کرنے لگے۔
”کتنا پیارا سا ہے۔“ نٹاشا پلنگ کے پیچھے جھانک کر بولی۔
پچکارنے کے لئے جیسے نٹاشا نے ہاتھ بڑھایا، بچے نے غصے سے کوہان نکالی۔ اپنے منّے منّے پنجے سمیٹے اور عجیب ، تھر تھرائی سی آواز میں بھونکا۔۔۔ کخ کخ کخ۔۔۔ ایسا لگتا تھا جیسے کھانس رہا ہو۔ اس کے حلق میں خر خراہٹ سی ہو رہی تھی۔
”لومڑیاں کھاتی کیا ہیں؟“ نٹاشا نے اپنا ہاتھ کھینچتے ہوئے پوچھا۔ ”مرغیاں نا؟“
”شاید۔۔۔“ سونیا نے سنجیدگی سے جواب دیا۔”لیکن ہم تو اسے اپنے چوزے نہیں کھلا سکتے۔اگر ہم نے اسے اپنا کلکی یا چکی کھلا دیا تو سب سے پہلے تم ہی چلاﺅ گی۔ ابھی تو یہ اتنا چھوٹا ہے کہ اسے صرف دودھ پلانا چاہیے۔ جاﺅ تشتری بھر دودھ لے کر آﺅ بھاگ کے۔“
نٹاشا ایک ٹانگ پر کودتی ہوئی بھاگی۔سونیا نے بچہ گود میں اٹھا لیا اور پھر فرش پر بیٹھ گئی۔
”ننھا منا۔۔۔ پیارا پیارا بچہ۔۔۔“اس نے پچکارا۔ لیکن بچے نے اپنے بال کھڑے کر، اسے اپنے چاروں پنچوں سے پرے دھکیل دیا۔
سونیا نے گود میں دبوچ کر اس کے کان سہلائے۔ بچے نے ذرا خوش ہو کر غرّانا بند کر دیا اور سونیا کو گھورنے لگا۔ پھر اس پر بھروسا کر کے اپنا سر اس کے سینے سے ٹکا دیا۔ جب نٹاشا واپس آئی اس وقت تک بچہ اپنے کونے میں واپس بھاگنے کا ارادہ ترک کر چکا تھا۔
نٹاشا نے دودھ کی بھری تشتری فرش پر رکھ دی۔سونیا نے بچے کی ناک دودھ کی طرف کی۔ اس نے دودھ زور سے سونگھا اور گود سے نکل کر تشتری کے چاروں طرف کودنے پھاندنے اور مسخرے پن کی ”کخ کخ کخ“ میں مصروف ہوگیا۔
”چلو یہاں سے چلیں۔بچارا پریشان ہے۔ دودھ نہیں پی رہا۔“میں نے کہا۔
ہم سب چھپ گئے۔صرف سونیا اس کے پاس موجود رہی۔
بچے نے اسے ذرا شک و شبہے کی نظر وں سے دیکھا اور اس کے بعد لَپ لَپ دودھ پینے لگا۔ اس کی زبان لانبی اور تیزسی تھی اور اس کی نوک پر ایک ہک سا بنا ہوا تھا۔ وہ بلی کی سی صفائی سے اور پِلے کی سی تیزی کے ساتھ دودھ پی رہا تھا۔ بچارا بہت بھوکا تھا۔ اب اس کے چہرے پر خوشی کے آثار نمودار ہوئے اور گُل مچھوں کے پیچھے مسکراہٹ۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور اس کے سیاہ پنجے ندیدے پن کے مارے کانپنے لگے۔
لومڑی کا بچہ بلوٹے جتنا بڑا تھا۔ ٹانگیں کافی مضبوط لیکن جسم مختصر، سخت اور ہلکا پھلکا، گردن بے حد پتلی۔ لیکن بالوں کی وجہ سے گول مٹول اور مضبوط معلوم ہوتی تھی۔اس کا سر بہت بڑا تھا۔لرزتی سی سیاہ نوکیلی ناک، نوکیلے کان اور بٹن جیسی آنکھیں۔ اس کے زرد بالوں میں بھورا پن نمایاں تھا۔ ٹانگیں کالی، کان کی نوک کالی اور جبڑا گردن اور پیٹ سفید۔
دودھ پینے کے بعد اس نے تشتری میں ڈبل روٹی کا ٹکڑا کھینچ نکالا۔ چاٹ چاٹ کر خشک کیا اور اسے دانتوں میں دبا کر چولھے کی سمت بھاگا۔ وہاں اسے فرش پر رکھ کر وہ ریت کے ڈھیر کو سونگھنے لگا جو ہم چُھریاں صاف کرنے کے لئے وہاں رکھتے تھے۔
ریت کی بُو اسے شاید پسند نہیں آئی کیوں کہ ڈبل روٹی کا ٹکڑا اٹھا کر وہ کمرے کا چکر کاٹنے میں مصروف ہوگیا۔
”کیا ڈھونڈ رہا ہے؟“جہاں جہاں چھپے بیٹھے تھے وہیں سے گردنیں بڑھابڑھا کر ہم نے معلوم کرنا چاہا۔ ہر کونے کھدرے کا معائنہ کرنے کے بعد بچہ پھر چولہے کے پاس لوٹ آیا اور روٹی منہ میں دبوچے دبوچے ریت کے ڈھیر میں ایک بِل کھودنے لگا۔ ٹکڑا اس نے بِل میں رکھ دیا۔ اپنی ناک کے ذریعے اسے اندر دبایا اور اس پر احتیاط سے ریت بکھیری۔ اس کے بعد اس نے پلٹ کر عین اس جگہ جہاں روٹی چھپائی تھی اپنا فرض انجام دیا۔
”ارے۔۔۔ارے۔ یہ کیا حرکت ہے۔ بد تمیز۔“ سونیا چلائی۔ وہ سونیا کی طرف مڑ کر دم ہلانے لگا۔ شاید وہ ہمیں سمجھانا چاہتا تھاکہ لومڑیوں کا یہی دستور ہے۔
اتنے میں اماں کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ہم نے جلدی سے اس جگہ کو صاف کر دیا۔ دوپہر کے کھانے کے وقت لومڑی کا بچہ کمرے کی ہر چیز کا معائنہ کرنے کے بعد ایک کونے میں کمبل پر لیٹ کر سنّا بھی چکا تھا۔ جتنی دیر وہ سوتا رہا نٹاشا ایک لکڑی سنبھالے صندوق پر بیٹھی اس کی چوکیداری کیا کی اور کھانے کے وقت گود میں بٹھا کر اپنے شوربے کی پلیٹ میں سے گوشت کی بوٹیاں نکال نکال کر اسے کھلاتی رہی۔
”یہ کیا ہو رہا ہے۔ نیچے اتارو اسے۔“ ابا نے ڈانٹا۔
چائے کے وقت اماں نے مصری کی ڈلی کھلائی۔ وہ نے حد خوش ہوا۔ خوب چبا کر مصری کے کئی ٹکڑے کیے اور ہر ٹکڑے کو باری باری فرش سے اٹھا کر بڑے مزے سے آہستہ آہستہ نوش کرتا رہا۔
”چچا فیدو۔۔۔ہم اس کا نام کیا رکھیں۔۔؟“ ہم نے جنگل کے افسر سے پوچھا۔ (وہ ہمارے بہت من بھاتے دوست تھے)۔”یہ آپ کا تحفہ ہے۔آپ ہی نام تجویز کیجیے۔“
”بھئی یہ تو بڑا غور طلب مسئلہ ہے۔“
فیدو ایوانووچ نے جواب دیا۔”اس کا نام بہت عمدہ ہونا چاہیے۔ میرے ایک دوست کا کتا تھا اس کا چہرہ بے حد نوک دار تھا۔ اس کا نام جِپ رکھا گیا۔ چلو ہم اپنے اس بانکے کا نام بھی جِپ رکھ دیں۔ کیا خیال ہے؟“
”نہیں جِپ بے تکا نام ہے۔“ نٹاشا نے کہا۔”اس کا نام فرانٹ رکھیں گے ہم۔“(فرانٹ روسی زبان میں بانکے چھبیلے کو کہتے ہیں۔)
”فرانٹ ، فرانٹک۔ ٹھیک ہے۔“ ہم لوگوں نے مان لیا۔
اس دوران میں فرانٹک کمرے کی جانچ پڑتال میں مشغول تھا۔چولہے کے نزدیک ایک بنچ پر اسے انڈوں کی ٹوکری نظر آئی۔ اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر ٹوکری کے اندر جھانکا۔
افوہ!۔۔۔کتنے بہت سارے انڈے۔۔۔ وہ بہت متعجب نظر آیا۔ میں اتنا ذرا سا لومڑی کا بچہ۔ اتنے سارے انڈوں کا کیا کروں گا؟ بہر حال کوشش تو کر ہی لینی چاہیے۔
ایک لمحہ ضائع کیے بغیراس نے ٹوکری میں سے ایک انڈا نکالااور اسے اپنے منہ میں دبوچ کر دوسرے کمرے میں لے گیا۔ ہمارے ایک پلنگ پر چڑھ کر کمبل گھسیٹا اور انڈا ایک تکیے کے نیچے چھپا دیااور دوسرا انڈا لانے کے لئے روانہ ہوا۔
اس مرتبہ ذرا مشکل پیش آئی۔ چاروں طرف چکر لگاتے لگاتے نمدے کے سلیپر پر اس کی نظر پڑی۔ اسے سونگھ کر انڈا سلیپر کے اندر سرکا دیا۔ پھر تیسرے انڈے کی فکر میں چلا۔
جب فیدو ایوانووچ نے یہ سارا تماشا دیکھا تو بولے۔”بھائی فرانٹک۔ تم بہت تیز ہو۔ مانتا ہوں۔“ اور ٹوکری اٹھا کر بنچ پر رکھ دی۔
فرانٹک عین موقع واردات پر پکڑا گیا تھا۔ اس نے صندوق کے پیچھے چھپنا چاہا۔ لیکن جب سونیا نے اوپر سے جھانکا تو اسے خیال آیا کہ وہاں انڈا چھپانا ممکن نہیں۔ چنانچہ اس نے انڈے کے چھلکے میں دانت سے سوراخ کیا زردی سفیدی چوس کر اطمینان سے اپنی پسلیاں چاٹنے لگا۔
یہ صحیح ہے کہ میرا پیٹ بھرا ہوا ہے مگر انڈا کیوں ضائع کیا جائے بے کار میں؟
فرانٹک اب شرماتا نہیں تھا۔ اس کے چہرے پر بشاشت تھی اور وہ کافی مسخرہ لگتا تھا۔ آنکھیں چمکتی تھیں اور کھانا کھانے کے بعد اس کا پیٹ ربر کی گیند کی طرح گول مٹول ہو جاتا۔
سونیا کی گود میں گڑی مڑی ہونے کے بعد وہ لیمپ کے گرد چکر کاٹنے والے پروانوں کو ملا حظہ کرتا رہا۔
رات کو اماں نے اسے ایک خالی الماری میں سلا دیا۔
نٹاشا کا بستر بچھاتے وقت اماں کو تکیے کے نیچے چھپا انڈا ملا۔ ابانے اپنے سلیپر میں پانو ڈالا تو ایک انڈے نے ان کے مانو تربتر کر دیے۔ابا بہت جھلائے۔
شروع شروع میں فرانٹک ہمارے ساتھ گھر کے اندر رہتا تھا لیکن ہم لوگ زیادہ وقت صحن یا باغ میں گزارتے تھے۔ اس نے بھی سہمتے سہمتے برآمدے میں نکلنا شروع کر دیا۔
اب وہ انسانوں سے مانوس ہوگیا تھا لیکن کتوں اور بکری کے بچوں سے ڈرتا تھا۔
ایک روز برساتی میں آکر فرانٹک دھوپ کھانے لگا۔اتنے میں ہمارا لاڈلا بکری کا بچہ اسٹیپنStepan وہاں آن پہنچا۔ فرانٹک خوف زدہ ہو کر دروازے کی طرف لپکا۔لیکن اسٹیپن راستہ روکے کھڑا تھا۔فرانٹک فرش پر لیٹ کر دشمن کو گھورنے لگا۔ اسٹیپن نے بھی جواباً اسے گھورنا شروع کر دیا اور پھر غرا کر سر جھکائے جھکائے اس کی طرف لپکا۔
چھے ہفتے کا بکری کا بچہ قطعی خطرناک نہیں ہوتا مگر بھائی فرانٹک کی جان نکل گئی۔ڈر کے مارے وہ موقع پاتے ہی چوہے کی طرح سرپٹ بھاگا اور کمرے میں پلنگ کے نیچے پہنچ کر ہی دم لیا۔
اسٹیپن پیچھے پیچھے اندر آئے اور پلنگ کے نیچے جھانکنے لگے۔
پلنگ کے نیچے اندھیرے میں فرانٹک کو اپنے جنگلی بھٹ یا کھوہ کا مزہ آتا تھا۔ وہاں خود کو محفوظ محسوس کر کے اس نے پلنگ پوش کے نیچے سے سر نکالا اور زور سے دہاڑے۔۔۔۔”کخ کخ کخ۔۔ غرر“
اسٹیپن گھبرا کے پیچھے ہٹا۔فرانٹک نے اب ہمت کر کے آگے قدم بڑھایا اور خوب بھونکا۔ سر اٹھا کر کان پیچھے سمیٹے۔ اب اسٹیپن صاحب سہمے۔
ہم لوگ دوڑے دوڑے مدد کے لئے آئے۔ اسٹیپن کود کر کھڑکی پر چڑھا۔سونیا کی طرف شرارت سے سر ہلایا اور باہر کود گیا۔
فرانٹک خوشی سے دم ہلاتے ہماری طرف آئے۔”ہائے بے چارا کتنا سہم گیا ہے۔“ ہم لوگ پچکارنے لگے اور مصری کا ٹکڑا خدمت میں پیش کیا۔
اس کے بعد وہ ڈر کے مارے کمرے سے باہر نہیں نکلا۔
جب ہم گیند کھیلنا شروع کرتے فرانٹک کھڑکی میں آکر غور سے تماشا دیکھتا۔ اس وقت وہ بالکل بلی معلوم ہوتا۔ اب وہ کافی ہل گیا تھا۔ جو دیں کھا لیتا تھا۔۔۔۔ دودھ ،روٹی، انڈے،شکر،سبزی،ترکاری کا سالن، پھل،مربے ،گھاس۔
وہ ایک وقت میں کم کھاتا تھا مگر کئی بار کھاتا اور بچا کھچا کھانا ادھر ادھر دفن کر دیتا۔ ہم اس کی اس عادت سے بہت ناخوش تھے کیوں کہ بے حد غیر متوقع جگہوں پر ہمیں گوشت ،ہڈی بوٹی اور مصری کے ٹکڑے چھپے ہوئے ملتے۔دریچے رات دن کھلے رہتے مگر فرانٹک والے کمرے میں لومڑی کی مہک بسی رہتی۔ کتے اندر آکر ذرا شبہے کے ساتھ ہوا کو سونگھتے۔ ان کو دیکھتے ہی فرانٹک چلانا شروع کر دیتا اور کسی اونچی جگہ پر جا دبکتا۔آخر کتوں نے اسے تنگ کرنا چھوڑ دیا مگر دوستی کبھی نہ کی۔
فرانٹک نے بھی کتوں اور بلیوں سے دوستی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بس اب وہ سب ایک دوسرے کو نظر انداز کرتے رہتے تھے۔ کبھی مقابلہ ہو جاتا تو ہارنا ہمیشہ بچارے فرانٹک ہی کو پڑتا۔ شکاری کتوں کی سمجھ میں یہ نہ آتا کہ ان کا ” شکار“ ان کو دیکھتے ہی غائب کیوں نہیں ہو جاتا اور الٹا ان کی ٹانگوں میں کیوں آالجھتا ہے؟
” حد ہو گئی۔“ اماں نے میری ٹوپی میں سے سڑا بسا پنیر نکالتے ہوئے کہا۔” یہ لومڑی کا بچہ ہمارے گھر میں چوہوں کی فوج بلانے والا ہے۔“
” اماں وہ خود چوہے پکڑتا ہے۔“
یہ واقعہ تھا کہ فرانٹک چوہوں کے ماہر شکاری تھے۔ کمروں میں گھنٹوں چکر لگا کر کونا کھدرا سونگھ سونگھ کر بڑی سنجیدگی سے اور دبے پانو چلتے ہوئے اچانک کان کھڑے کر کے فرش پر ایک سمت گھورنے کے بعد کسی ایک جگہ پر حملہ کرتے۔ جس کامطلب تھا کہ کوئی چوہا اسی وقت فرش کے تختوں کے نیچے جا چھپا ہے۔
ایک مرتبہ فرانٹک نے چوہا پکڑ ہی لیا۔ اس دن وہ کسی قدر نازاں اور مسرور تھا! دیر تک بلی کی طرح اس سے کھیلا کیا۔ لیکن کھیلتے کھیلتے ادھ مرے چوہے کو فرش پر ڈال کر کچھ دور چلا گیا اور وہاں سے اسے گھورنے لگا۔۔۔ عین اس وقت ہماری بلی صاحبہ الماری کے اوپر سے کودیں اور منہ میں بھر یہ جا وہ جا۔
فرانٹک بچارا کمرے میں گھوما گھوما پھرا لیکن بے سود۔
” دیکھا فرانٹک کے بچے۔“ نٹاشا نے پیار سے کہا۔” تم نے اسے ایک دم کیوں نہ کھالیا؟ مگر پہلے تم اسے تکلیف پہنچانا چاہتے تھے۔ اب بھگتو تمہاری یہ سزا ہے۔“
ایک مہینا گزر گیا۔حالانکہ فرانٹک سارے چوہے پکڑ رہا تھا اور بہت خوش اخلاق بچہ تھا مگر اس کی ہمارے گھر کے اندر رہایش بہت پریشان کن تھی۔آخر ہم نے طے کیا کہ اسے صحن میں منتقل کر دیں۔ ایک روز صبح اماں نے اسے باہر بلا کر پیچھے سے دروازہ بند کر دیا۔ وہ برساتی تک گیا لیکن سیڑھیاں اترنے کے بجائے متوقع نظروں سے بند دروازے کو دیکھنے لگا۔
سونیا نے اٹھا کر اسے باہر زمین پر رکھ دیا۔ وہ ڈر کر برساتی کے نیچے جا چھپا۔
بد قسمتی سے اسی وقت ہمارے مرغے نے برساتی کے نزدیک تھوڑا سا اناج بکھرا دیکھ لیا۔ اس نے جوش و خروش سے زمین کھرچی اور اپنی مرغیوں کو آواز دی۔ فرانٹک اپنا خوف بھول کر مرغ پر چھپٹااور گردن مڑوڑ کر اس کا کام تمام کر دیا۔ اس کے بعد مرحوم مرغ کو گھسیٹتا ہوا صحن کے ایک گوشے میں لے گیا۔ چاروں طرف دیکھ کر ایک گڑھا کھودا اور اپنا شکار اس میں دفن کر کے گڑھے کو گوبر سے ذرا سا پاٹ دیا۔
فرانٹک کا خیال تھا کہ اس نے اپنا شکار اچھی طرح پوشیدہ کر دیا ہے مگر مرغے کی ٹانگیں مٹی سے باہر نکلی ہوئی تھیں۔
آنگن میں جھاڑو دیتے دیتے نٹاشا مرغے کی قبر کے پاس آئی اور بچارے مرنے والے کو گور سے نکالا۔مرحوم اس کا چہیتا کلکی تھا۔
” مجھے نفرت ہے تم سے۔“ نٹاشا نے مرغا فرانٹک کے قدموں میں ڈال کر غصے سے کہا۔” تم بھوکے بھی نہیں تھے۔ تم نے کلکی کو خوامخواہ مار ڈالا۔“
”ایسا لگتا ہے کہ اس بدمعاش کو باندھ کر رکھنا ہوگا۔“ ابا نے بعد میں کہا۔
ہم لوگ ہمیشہ فرانٹک کی طرف داری کرتے تھے مگر اس وقت چپ رہے۔
اسی روز فرانٹک کو زنجیر سے باندھ دیا گیا۔ابا نے اصطبل کی چھت کے ایک کونے سے لے کر برساتی کے ایک ستون تک بھاری تار باندھ دیا۔ تار پر ایک چرخی لگائی گئی اور ایک لمبی پتلی زنجیر ایک کانٹے کے ذریعے اس سے لگا دی گئی۔چرخی تار پر دوڑتی رہتی اور اس تار سے بندھے فرانٹک کو صحن میں ادھرسے ادھر تک دوڑنے کی آزادی تھی۔شروع میں چند روز تک وہ کتوں سے ڈرتا رہا۔پھر اس نے اصطبل کے نزدیک لکڑیوں کے ڈھیر میں اپنا بھٹ بنا لیا۔یہاں وہ سوتا، اپنے ناشتے کے باقی ماندہ ٹکڑے لکڑی کے لٹھوں کے نیچے چھپاتا، ٹال کے اوپر جا کر لیٹ رہتا اور وہیں سے صحن کا منظر ملاحظہ کیا کرتا۔
فرانٹک کو اونچائی پر جانے کا بہت شوق تھا۔ برساتی میں چائے پیتے یا ناشتا کرتے ہوئے ہم لوگ اکثر اسے آواز دیتے۔ وہ فوراً حاضر ہو کر ماہر بازی گر کی طرح برساتی کے اوپر چڑھ جاتا اور اپنی اسی محنت کے صلے میں حلوا مانڈا اڑاتا۔
ایک روز نٹاشا اس کے لئے مٹھائی لے کر صحن میں گئی مگر فرانٹک ندارد، زنجیر اور چرخی بھی غائب۔
”فرانٹک بھاگ گیا۔“نٹاشا چلائی۔
ہم لوگ باہر آئے۔ بڑی عجیب بات تھی۔ تار ثابت موجود تھا مگر زنجیر مع چرخی غائب۔ ابا نے سارا تار دیکھا بھالا۔ اصطبل کی چھت کے ایک کونے میں کیا دیکھتے ہیں کہ زنجیر اور چرخی دونوں موجود!
” مل گیا۔۔۔“ ابا وہیں سے پکارے۔
زنجیر پرچھتی کی طرف چلی گئی تھی۔ سیڑھی چڑھ کر ابا وہاں پہنچے اور اندر جھانکا۔
فرانٹک صاحب بڑی شان سے بھوسے کے ڈھیر پر براجمان ، دروازے میں سے دنیا کا نظارہ فرما رہے تھے۔
” خواتین! مناظر فطرت کا ایک شیدائی آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔“ ابا نے کہا۔فرانٹک صاحب فوراً شرما گئے اور بھاگے واپس اپنی جائے قیام کی سمت۔ بھوسے کی پر چھتی میں لکڑی کے پانچ عدد بکس رکھے تھے۔ گرمیوں کے زمانے میں ہماری مرغیاں ان بکسوں میں انڈے دیتی تھیں۔ روزانہ دوپہر کو میں اور نٹاشا اوپر جا کر انڈے چن لاتے۔ ہر بکس میں تین یا چار انڈے پڑے ملتے تھے۔ اماں نے کہا تھا کہ جب ہم دو سو انڈے جمع کر لیں وہ مجھے ایک کتاب اور نٹاشا کو ایک عدد گڑیا انعام میں دیں گی۔
ہم ابھی سو انڈے ہی جمع کر پائے تھے کہ ہم کو ایسا محسوس ہوا کہ ہماری مرغیاں انڈے کم دے رہی ہیں۔ کبھی دو ،کبھی تین اور کبھی ایک ہی انڈا بکس میں ملتا اور کبھی ایک بھی نہیں۔
مرغیوں کو ہو کیا گیا تھا؟ ہم نے ان کی غذا کی مقدار بڑھا دی۔ مگر بے فائدہ۔ شاید مرغیاں بہت موٹی ہو گئی تھیں۔ اگر مرغیاں موٹی ہو جائیں تو انڈے دینے بند کر دیتی ہیں۔ لہٰذا ان کی غذا کم کر دی گئی وہ بھی بے کار۔
نٹاشا اور میں اب ہر وقت مر غیوں کی فکر میں رہتے مگر دو سو انڈوں کی تعداد پوری ہونے میں ابھی مدت باقی تھی۔
ایک روز صبح سویرے کھلیان میں سے ایک مرغی کی کُٹ کُٹ کی زور دار آواز بلند ہوئی۔
” میری چتکبری نے انڈا دیا ہے۔“ نٹاشا بولی۔
” ہر گز نہیں۔یہ لال مرغی ہے۔“ میں نے کہا۔
” اُو ہُوں۔ میں چتکبری کی آواز پہچانتی ہوں۔“ نٹاشا نے کہا۔
ہم لوگ پرچھتی پر جا کر دبے پاﺅں اندر گئے۔
”لال والی ہے؟“ میں نے چپکے سے پوچھا۔
” نظر نہیں آرہا۔اندھیرا بہت ہے۔“ نٹاشا نے جواب دیا اور پیٹ کے بل آگے سرکی۔
اچانک وہ اچھل کر کھڑی ہو گئی اور چلائی۔” چور۔۔۔ ڈاکو۔۔۔۔ بدمعاش۔۔۔“
زنجیر کھڑ کھڑائی۔ فرانٹک ایک بکس میں سے نکل کر کھڑا ہو گیا۔
فرانٹک کیا سارے انڈے ہڑپ کر گیا؟ ہم نے تلاش شروع کی اور ایک انبار سے ٹھوکر لگی۔ بھوسے کے ایک ڈھیر کے نیچے تیرہ انڈے چھپے رکھے تھے۔ بہت جلد بیس عدد انڈوں کے ذخیرے اور ملے۔
اسی شام فرانٹک کی زنجیر کاٹ کر چھوٹی کر دی گئی مگر اس نے اب ہماری مرغیوں پر آفت توڑی۔ فرانٹک لومڑی کا ایک بے حد چالاک بچہ تھا۔
جب ہم اسے دلیا اگر دیتے وہ اسے زمین پر پھینک دیتا اور ذرا دور جا کر لیٹ جاتا اور آنکھیں موند کر یہ ظاہر کرتا جیسے مر گیا ہو۔
مرغے دلیا بکھرا دیکھ کر دوڑے آتے اور حیرت سے ککڑوں کوں کرنے لگتے۔
فرانٹک یہی ظاہر کرتا گویا گہری نیند سو رہا ہے۔ بعض مرتبہ وہ خراٹے تک لینے لگتا۔مرغا اطمینان سے اپنی بیگمات کو پکارتا۔ جیسے ہی مرغیاں دلیا نوش کرنے کے لئے جمع ہوتیں یہ بدمعاش فرانٹک ایک آنکھ کھولتا اور دھڑام سے دوسرے لمحے ایک مرغی اس کے منہ میں ہوتی اور باقی بچاریاں دہشت زدہ ہو کر تتر بتر ہو جاتیں۔
فرانٹک کو معلوم تھا کہ مرغی کو جلد از جلد چھپانا بے حد ضروری ہے۔ دفن کرنے میں دیر لگتی تھی اور کتے بھی یقینااس کا پیچھا کرتے۔ چنانچہ وہ مرحومہ مرغی کو کھینچ کر لکڑیوں کی ٹال کے اوپر لے جاتا اور اوپر سے اپنے” بھٹ“ میں گرا دیتا۔
مرغی کو اس سوراخ میں گرانا آسان تھااور یہ سرخ ڈاکو مرغیاں کھانے کے لئے نہیں بلکہ محض برائے تفریح پکڑتا تھا۔
گرمیاں پڑ رہی تھیں۔ بہت جلد فرانٹک کے ” دفینوں“ نے سڑ کر ہوا میں بساند پھیلا دی۔
”یہ بو کیسی ہے؟“ ابا نے ایک روز ناک پر رومال رکھتے ہوئے کہا۔” دم گھٹا جا رہا ہے۔“ دوسرے روز سونیا کو لکڑی کے ڈھیر کے پیچھے مردہ مرغیوں کا ڈھیر پڑا ملا۔
مرغیاں فرانٹک کے سامنے ڈال کر ہم نے اسے بید سے پیٹا۔ وہ برا مان کر اپنے لکڑیوں کے ڈھیر پر واپس چڑھ گیا اور پلٹ کر غصے سے غرایا۔” کخ کخ کخ۔۔۔ غررر۔“
فرانٹک جیسا تیز فہم اور چالاک پالتو جانور ہم نے آج تک نہ دیکھا تھا۔وہ ایک منٹ کو نچلانہ بیٹھتا۔ اگر سوتا یا کسی شرارت میں مصروف نہ ہوتا تو برساتی سے کھلیان ، کھلیان سے اینٹوں کے ڈھیر کے چکر لگاتا رہتا۔
اپنے ” دفینوں“کی وجہ سے فرانٹک ہمیشہ مصیبت میں پھنستا۔ کتے اس کی ذخیرہ اندوزی کی عادت سے واقف تھے اور جس عیاری سے وہ نئی نئی جگہوں میں اپنا گنجینہ چھپاتا، کتے اس کے بھی چچا تھے وہ اسی ہوشیاری سے اس کا مال متاع ڈھونڈ نکالتے۔
کچھ عرصے میں فرانٹک نے ٹال کے نیچے اور گوبر کے ڈھیر میں اصطبل کے پیچھے اپنا خزانہ دفن کرنا شروع کیا تھا۔ کتوں کو دور رکھنے کے لئے وہ اپنے مال خزانے میں اپنی بو بسا دیتا۔ لیکن اسی وجہ سے کتے فوراً وہاں جا پہنچتے۔
فرانٹک من موجی سیلانی لومڑا کا تھا۔ پیٹ بھر جانے کے بعد وہ باقی چیزیں دفن کرتے ہی بھول جاتا۔ لیکن بعض مخصوص جگہیں اسے یاد رہتیں اور ہمیں یہ دیکھ کر بے حد رنج ہوتا کہ سخت محنت کے ساتھ ناک کے ذریعے لکڑی کا گٹھادھکیلنے کے بعد اسے معلوم ہوتا کہ اس کا چھپا ہوا کباب غائب ہوچکا ہے۔
دم ٹانگوں میں دبائے،اداس اور خفا وہ برساتی کے جنگلے پر چڑھ کر غراتا۔گویا کہتا ہو،”یہ چوٹّے مجھ بے چارے کے ساتھ ہمیشہ یہی حرکت کرتے ہیں۔“
فرانٹک کافی گندا تھا، مٹی میں لوٹ لگاتا اور کوڑا کرکٹ اس کے بالوں میں اٹک جایا کرتا۔ سونیا اس کے بالوں میں کنگھی کرتی مگر بہت جلد وہ پھر اپنی وہی گت بنا لیتا۔
فرانٹک یا اکیلا کھیلتا تھا یا نٹاشا کے ساتھ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کا تعاقب کرتے، کودتے پھاندتے اور آنکھ مچولی کھیلتے۔ فرانٹک لکڑی کے ڈھیر کے پیچھے سے جھانکتا۔ اس کا خیال تھا کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا، حالانکہ وہ صاف نظر آجاتا تھا۔
فرانٹک کو مٹھائیاں بے حد پسند تھیں۔ اما ں کی ڈانٹ کے باوجود ہم اس کے لئے برابر شکر چراتے رہتے۔ اسے سکھایا کے دو ٹانگوں پر کھڑے ہو کرہماری جیبوں میں ناک ڈالے اور خود مصری کی ڈلی نکالے۔ اس طرح اماں پر ہم اپنی معصومیت ثابت کر سکتے تھے۔
شکر جیب میں ڈال کر ہم صحن میں سے آہستہ آہستہ گزرتے، وہ فوراً بھاگا بھاگا آتا اور شکر جیب سے نکال کر اڑنچھو ہو جاتا۔
فرانٹک کو ہر ایک کی جیبیں ٹٹولنے کی عادت پڑ گئی۔ایک دن دو نو واردر آنگن میں داخل ہوئے۔ عورت نے ہلکا پھلکا گرمیوں کا فراک پہن رکھا تھا۔ مرد نے بڑی بڑی جیبوں والی برساتی اوڑھی ہوئی تھی۔
فرانٹک جو اب تک لکڑیوں کی ٹال پر بیٹھا اکتاہٹ سے جمائیاں لے رہا تھا فوراً نیچے اترااور زنجیر چھنکاتا مہمانوں کی طرف لپکا۔ آنکھیں مرد کی جیبوں پر جمی تھیں۔
”ارے۔۔۔ارے۔۔۔“ عورت نے گھبرا کر کہا۔
”ارے۔۔!۔۔ میاں شیر خان۔۔۔اوہو۔۔! بھئی ہمیں کاٹو گے تو نہیں۔۔“ مرد بڑی بہادری سے ہکلایا۔
لیکن شیر خان تو محض جیب کا معائنہ کرنا چاہتے تھے۔
”ارے یہ تمہیں اس طرح کیوں دیکھ رہا ہے۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ کتا ہی نہیں ہے کوئی اور شے ہے۔“ عورت نے کہا۔
گرمیوں میں فرانٹک کے بال جھڑ جاتے تھے۔ دم پتلی ہو جاتی تھی۔ عجب مرگلا اور بدحال بد قطع معلوم ہوتا تھا بچارا۔ اس حالت میں اس بے ڈول جانور کو دیکھ کر کوئی یہ طے نہ کر سکتا تھا کہ یہ جانور خطرناک ہے یا بے ضرر۔
فرانٹک نے اس سوال کا جواب خود ہی دے دیا۔ جوں ہی مرد اپنی ساتھی سے بات کرنے کے لیے مڑا فرانٹک کا منا سا سر برساتی کی جیب میں اور جیب میں مٹھائی بھی موجود تھی! اسے منہ میں بھر کر فرانٹک سرپٹ بھاگا اور برآمدے کی سیڑھیوں میں بیٹھ کر ” کخ کخ کخ۔ غرررر“ کرتے ہوئے اسے چبانے میں مصروف ہوگیا۔
نووارد قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔
ابا باہر آئے۔ انہوں نے مہمانوں کو بتایا کہ ہم بچوں نے اسے ڈاکہ ڈالنے کی ٹریننگ دی ہے۔ مہمان بے حد محظوظ ہوئے اور ابا نے انہیں فرانٹک کے کئی قصے سنائے۔
یہ دونوں قریب ہی ایک بورڈنگ اسکول میں پڑھاتے تھے، چائے پیتے ہوئے انہوں نے فرانٹک کی تعریفیں جاری رکھیں۔ پھر انہوں نے کہا” اگر فرانٹک آپ لوگوں کو بہت پریشان کرتا ہو تو اسے اسکول کو دے ڈالیے۔ اس کے بدلے ہم آپ کو ایک خالص اصلی نسل شکاری کتے کا پلا دے دیں گے۔“
ابا ذرا ڈھلمل یقین ہوئے مگر انہوں نے نٹاشا کا خیال نہیں کیا تھا جو سیڑھیوں پر بیٹھی سارا مکالمہ سن رہی تھی۔
”پہلی بات تو یہ۔۔۔۔“ اس نے کہا۔۔۔”کہ فرانٹک میرا ہے ،جب میں گر پڑی تھی اور میری ناک میں سے خون بہنے لگا تو اماں نے کہا تھا کہ وہ فرانٹک کو مجھے دے دیں گی اور میں اسے کسی سڑیل بڈھے کتے سے ہر گز نہیں بدلوں گی۔“
استاد، نٹاشا کے رنجیدہ اور مجروح لہجے پر مسکرائے۔
”جایئے مبارک ہو آپ کو اپنا بوڑھا کتا۔ بڑے آئے وہاں سے میرا فرانٹک چھیننے والے۔“
” نٹاشا۔۔۔ فوراً اٹھو یہاں سے۔ واقعی یہ لڑکی تو بالکل جنگلی ہوتی جا رہی ہے۔“ اماں نے غصے سے ڈانٹا۔
نٹاشا نے فخر کے ساتھ فرانٹک کو گود میں اٹھایا اور اصطبل کی پر چھتی پر چلی گئی۔ وہاں اپنے ضدی آنسو پونچھ کر اس نے فرانٹک کو بتایا کہ اسکول میں اس کے ساتھ کتنا برا برتاﺅ کیا جاتا ہے۔ فرانٹک صبر سے سنتا رہا مگر ذرا متاثر نہ ہوا۔
ادھر برساتی میں ان دونوںکی قسمت کا فیصلہ کیا جارہا تھا۔ دونوں استاد اور استانی اپنے بورڈنگ اسکول کا حال بتا رہے تھے۔ جو پہاڑ پر صنوبر کے درختوں کے ایک کنج میں کمزور بچوں کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ اسکول ہمارے گھر سے زیادہ دور نہ تھا۔
”یہ بچے جو شروع شروع میں ہمارے ہاں آئے تو بالکل دھان پان تھے۔اب ان کی تندرستی دیکھیے۔ خوب کھاتے ہیں۔ پہاڑیوں پر چڑھتے ہیں۔ دریا میں پیرتے ہیں اور سرخ و سفید ہو گئے ہیں۔“ استاد نے کہا۔
ابا نے اسکول کا پتا دریافت کیا۔ ابا اور اماںدونوں شاید ایک ہی بات سوچ رہے تھے۔
”اگر۔۔۔“ ابا نے کہنا شروع کیا۔
”ہم آپ کی بچیوں کو داخل کر سکتے ہیں۔“ استاد نے بات کاٹی۔
” ہماری بڑی لڑکیاں دونوں شہر کے اسکول جاتی ہیں۔ لیکن چھوٹی دونوں اگر گھر کے قریب ہی کسی اسکول میں داخل ہو جائیں تو بہت اچھا ہو۔“
” ہمارا اسکول آپ کو یقینابہت پسند آئے گا۔ وہاں بچوں کو کافی آزادی حاصل ہے۔ ہمارے ہاں پھلوں کا باغ ہے۔ سبزیوں کا بھی اور بہت سے پالتو جانور۔ ہمارے ایک طالب علم بچے نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی پالتو لومڑی ساتھ لے آئے گا۔ آپ کی بچیاں فرانٹک کو لا سکتی ہیں۔“
”مجھے لگتا ہے میری بچیاں آپ کے ہاں بہت خوش رہیں گی۔“ اماں نے کہا۔
”نٹاشا اور میں جانوروں کی دیکھ بھال اچھی طرح کر سکتے ہیں۔“ یولیا نے اماں کے کندھے کے پیچھے سے جھانک کر ذرا ڈرتے ڈرتے کہا۔ وہ دونوں اسکول جانے کے خواب دیکھ رہی تھیں۔
”نٹاشاان دونوں میں سے کون سی ہے؟“ استاد نے دریافت کیا۔۔۔” وہی والی نا جس نے ابھی مجھے ڈانٹ دیا تھا؟“
”بے وقوف لڑکی ہے۔۔۔“ یولیا نے ذرا گھبرا کر جواب دیا۔” وہ دراصل پوری بات سمجھی نہیں تھی۔“
یولیا دبے پانو سیڑھیاں اتر کر صحن میں گئی اور آہستہ سے پکارا۔” نٹاشا۔۔۔“
”کیا ہے۔۔۔؟“ پر چھتی پر سے ایک بھرائی ہوئی آواز آئی۔
یولیا نے اوپر جا کر ساراقصہ سنایا۔ آدھ گھنٹے بعد دونوں لڑکیاں فرانٹک سمیت برساتی میں واپس پہنچیں۔
ابا اماں سنجیدگی سے باتوں میں مصروف تھے۔
” استاد اور استانی جی کہاں گئے؟“
”واپس اپنے اسکول۔۔۔۔۔نٹاشا تم نے آج بدتمیزی کی حد کردی۔ ہم لوگ شرم سے پانی پانی ہوگئے۔“
دوسرے روز ہی ابا نے گاڑی میں گھوڑا جوتا۔ یولیا اور نٹاشا نے اپنی سفید ٹوپیاں اوڑھیں اور اماں سمیت سب روانہ ہوگئے۔ راستے بھر نٹاشا بہت پریشان اور خاموش رہی۔ اسے ڈر تھا کہ اس روز کی بد تمیزی کی وجہ سے استاد اور استانی اس سے خفا ہوں گے۔ اگر انہوں نے صرف یولیا کو داخل کیا تو کیا ہوگا؟ سب بچے اسکول میں مزے کریں گے اور وہ۔۔۔؟ رنج اور فکر نے نٹاشا کو بے حال کر دیا۔
پہاڑی راستوں سے گزرتی ہماری گاڑی اسکول پہنچ گئی۔
”کتنی خوبصورت جگہ ہے۔؟“ اماں نے کہا۔
” اماں۔۔۔ مجھے بے حد افسوس ہے کہ میں نے۔۔ میں نے۔۔۔ پرسوں اتنی۔۔۔ اتنی بد تمیزی سے بات کی۔ میرا مطلب تھا۔۔۔ میرا مطلب تھا۔۔۔“
سب ہنس پڑے۔
” استاد نے تم جیسی بے وقوف بچی کی بات کا برا نہیں مانا۔ لیکن آیندہ احتیاط رکھنا۔۔۔ تمہاری زبان بہت چلتی ہے۔۔“ اماں نے جواب دیا۔
پھاٹک پر اسکول کا نام لکھا تھا۔ اماں اور ابا عمارت کے اندر چلے گئے۔ لڑکیاں گاڑی میں بیٹھی رہیں۔ چند منٹ بعد ابا اور استاد باہر آئے۔ نٹاشا جھینپ اور شرم سے لال بھبو کاہو گئی۔
”ہلو۔۔بچیو۔۔۔“ استاد نے پھاٹک کھول کر نرمی سے کہا۔۔” آجاﺅ۔ بچے تمہیں سارے اسکول کی سیر کرا دیں گے۔ کو لیا!۔۔۔ نٹاشا!۔۔۔ ان دونوں کو لے جا کر اپنے پالتو جانور دکھلاﺅ۔۔۔“ انہوں نے آواز دی اور ابا کے ساتھ دوبارہ عمارت کے اندر چلے گئے۔
کولیا نے جو یولیا سے ذرا ہی بڑا تھا، پوچھا۔” پہلے کیا دیکھو گی۔؟ باغ۔۔۔ کلاس روم یا جانور۔۔؟“
”پہلے کلاس روم۔۔“ لڑکیوں نے جوش سے کہا۔”چلو۔۔“
کیا عمدہ کلاس روم تھے! دو روشن ہوا دار کمرے، دیواروں پر تصویریں ، نقشے چارٹ، پھر باورچی خانہ دکھایا گیا، جہاں چند بچے اپنی اپنی ڈیوٹی پر مستعد تھے۔ کچھ بچے گانے میں مشغول تھے۔
باغ اور اصطبل کی سیر کی گئی۔ گائیں ، مرغیاں، ٹرکی چوزے، باغ میں ایک بڑی سی جالی کے اندر چڑیاں گا رہی تھیں، ایک پنجرے میں خرگوش کا خوش و خرم خاندان آباد تھا۔
” تم کو پتا ہے یہ پنجرا کس لیے ہے؟“ ایک بچے نے کہا۔۔۔” ہمارے ہاں ایک ایک لومڑی کا بچہ آنے والا ہے۔“
یہ بے حد پر فضا جگہ تھی۔ اس کے چاروں طرف کھنچا ہوا تار کا جنگلا درختوں اور جھاڑیوں میں چھپا ہوا نظر بھی نہ آتا تھا۔
”اگر فرانٹک بھی یہاں رہے تو؟ بہت خوش رہے گا۔۔۔“ یولیا نے سوچا۔نٹاشا بھی یہی سوچ رہی تھی۔ کیونکہ اس نے فوراً کہا۔ ”میرے پاس بھی ایک عدد لومڑی کا بچہ ہے۔“
”واقعی۔۔۔؟ پالتو ہے؟“
”بالکل کسی روز آکر اس سے ملاقات کرو۔ بے حد خوش اخلاق لومڑی ہے۔“
اب دونوں لڑکیاں ذرا خود اعتمادی سے بات کر رہی تھیں۔ کیونکہ گو اس جگہ کے بچوں کے پاس عمدہ اسکول اور باغ تھا لیکن فرانٹک جیسی کوئی شے ان کے ہاں موجود نہ تھی۔“
”ہمارے پاس ایک ہرن بھی ہے۔ مشکا۔ مگر وہ بے حد اڑیل اور بد تمیز ہے۔“ یولیا نے کہا۔”کسی روز آکر ہمارے پالتوجانور دیکھو۔“
” تم ہمارے اسکول میں داخل ہو رہی ہو؟“
”ابھی معلوم نہیں۔“
لڑکیاں بے حد خو ش خوش گھر واپس آئیں کیوں کہ استاد نے کہا تھا کہ وہ گرمیوں میں گھر پر رہ کر ہی روزانہ اسکول آسکتی ہیں لیکن جاڑے شروع ہوتے ہی ان کو بورڈنگ میں داخل کر لیا جائے گا۔
چنانچہ دونوں نے اسکول جانا شروع کر دیا۔ اسکول کے بچے ہمارے گھر آنے لگے۔ سب نے فرانٹک کو بہت سراہا۔ جی بھر کے اس سے لاڈ کیے۔ اس لاڈ پیار نے اسے اور زیادہ بگاڑا اور وہ اپنے آپ کو بے حد اہم سمجھنے لگا۔
ستمبر میں میں اور سوینا شہر کے بورڈنگ اسکول چلے گئے اور یولیا اور نٹاشا بہت خوش خوش اپنے نئے ساتھیوں کے ہمراہ ایک قومی ترانہ گاتی اپنے بورڈنگ اسکول روانہ ہوئیں۔ فرانٹک اپنی زنجیر جھنجھناتا ان کے ساتھ چلنے لگا۔
برآمدے میں کھڑی اماں نے اداسی سے مسکرا کر کہا۔”دیکھو۔۔۔ فرانٹک تک نے جاتے وقت ایک بار پلٹ کر اپنے پرانے گھر پر نظر ڈالی۔ مگر یہ نٹاشا کی بچی ابھی سے ہمیں بھول گئی! چلتے وقت مجھ سے رخصت بھی نہیں ہوئی۔“
لیکن اماں غلطی پر تھیں۔سڑک کے موڑ پر پہنچنے سے قبل سارے بچے ٹھٹھک گئے۔ فرانٹک کو ہوا میں اچھالا۔ ٹوپیاں اچھالیں اور” الوداع“ کہا۔۔۔۔
”الوداع۔۔۔ بچو۔۔۔ الوداع۔۔۔“ اماں نے گڑبڑا کر جواب دیا۔
اب مکان خالی ہوگیا۔
کھانے کے بعد فرانٹک ایک خالی پیپے پر لیٹ کر خراٹے لیتا۔ پیپے کا نہ تَلا تھا نہ ڈھکنا۔ لیکن دونوں سروں پر لکڑی کی دو سرنگیں سی بنا دی گئی تھیں۔ کیونکہ سرنگ جیسے راستے لومڑی کے بھٹ میں ہوتے ہیں۔
بارش کے زمانے میں فرانٹک اپنے ” مکان“ کے اندر ہی رہتا۔ آج دھوپ نکل آئی تھی اور وہ پیپے کے اوپر سو رہا تھا۔ آج ہی صبح اس کی ملاقات لِزا لومڑی سے ہوئی تھی جسے اسی کے ” علاقے“ میں لا کر رکھا گیا تھا۔ لزا بہت اچھے مزاج کی لومڑی تھی۔ مگر فرانٹک نے اس سے خاصی سردمہری کا برتاﺅ کیا۔ پہلے تو دوڑ کر اس کے پاس گیا۔ اسے سونگھا اور فوراً ہی اسے فراموش کر کے بچوں کی جیبیں ٹٹولنی شروع کر دیں۔ پہلے پہلے لزا نے بھی اسے ناپسند کیا مگر بعد میں سایے کی طرح اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔
اس وقت تک فرانٹک صاحب پیپے کے اوپر آرام فرما رہے تھے اور لزا پیپے سے پیٹھ لگائے نیچے بیٹھی تھی۔سوچ میں ڈوبی ہوئی وہ اپنا کان کھجا کھجا کر اوپر دیکھتی اور پچھلی ٹانگوں پر کھڑی ہو کر فرانٹک کو سونگھ لیتی۔
بچوں کو بڑی مایوسی ہوئی۔ ان کا خیال تھا کہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہی خوشی کے مارے اچھل پڑیں گے۔
”فکر مت کرو۔۔۔“ استاد نے کہا۔” دونوں ایک دوسرے پر رعب ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔“
چار دن بعد فرانٹک اور لزا ایک دوسرے کے ساتھ کھیلنے کودنے میں اس طرح مصروف تھے گویا بہت پرانے دوست ہوں۔
جاڑوں میں دونوں کے گھنے بال نکل آئے۔ دونوں بہت تندرست اور چونچال تھے۔ نومبر میں برف پڑی۔ آتش دان روشن ہوئے اور برف پوش درختوں کے اوپر مکانوں سے نکلتا ہوا دھواں منڈلایا۔
سال نو کے بعد استاد نے کہا۔۔۔” چلو باغ میں لکڑی کا جنگلا تیار کر دیں کیونکہ درختوں کے پتے جھڑ چکے ہیں اور فرانٹک اور لزا ہوا اور طوفان سے اور ہم سے اپنا بچاﺅ نہیں کر سکتے۔“
”ہم سے اپنا بچاﺅ؟“
” ہاں۔۔ اگر ہم فرانٹک اور لزا کو اکیلا چھوڑ دیں تو موسم بہار میں ان کے ہاں ننھے منے بچے پیدا ہو جائیں گے۔“
چنانچہ ہم لوگوں نے تین طرف لکڑی کا جنگلا کھڑا کر دیا اور بچوں کا انتظار کرنے لگے۔
اکثر رات کو فرانٹک کی” کخ کخ کخ۔۔۔ غررر“ کی آواز آتی۔ کچھ عرصے بعد اس نے لزا کی طرف توجہ دینی چھوڑ دی۔ پھر ہم کیا دیکھتے ہیں کہ لزا موٹی ہو رہی ہے۔
شام کو استانیاں ہمیں بتاتیں کہ” بچہ دینے سے پہلے لومڑیاں بہت بے چین رہتی ہیں اور شروع کے چند روز ان کے بچوں کو چھونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ لومڑی بے حد گھبرا جاتی ہے اور بچوں کو چھپاتی پھرتی ہے۔ اکثر ان کو فن تک کر دیتی ہے اور انہیں بے انتہا پریشان کرتی ہے۔اس لیے تم لوگ ہر گز ان کی طرف مت جانا۔ تین ہفتے تک لومڑی کے بچوں کی آنکھیں بند رہتی ہیں۔ جب وہ ایک مہینے کے ہو جاتے ہیں اس کے بعد خود ہی آکر دھوپ میں کھیلنے لگتے ہیں۔ ان کے نزدیک جا کر انہیں ڈرانا مت۔“
لیکن ایک روز ایک چھوٹی سی بچی نے پیپے کا دروازہ کھول کر اندر جھانک لیا۔ بس آفت آگئی۔ رات بھر لزا بچوں کو منہ میں دبوچے ادھر ادھر دوڑتی رہی۔ ان کو درختوں کی جڑوں میں چھپایا اور ٹھنڈی بھیگی ہوئی مٹی میں دفن کر دیا۔
صبح کو یولیا نے دیکھا کہ اس نے ایک بچے کو مٹی سے نکال کر ایک اور جگہ پر دفن کر دیا۔ یولیا فوراً استاد کے پاس گئی۔” جلدی کیجیے ۔۔ لزا اپنے بچے دفن کیے دے رہی ہے۔“
استاد نے ادھ موئے بچے کو زمین سے نکال کر اس کی حد سے زیادہ پریشان ماں کے سپرد کیا۔ باقی تین بچے مر چکے تھے۔ ہم لوگوں نے لزا کو ڈانٹنا شروع کیا۔ استاد نے کہا۔” لزا کاقصور نہیں ہے۔ تم لوگوں میں سے کسی نے ایک بچے کو چھوا ہے یا اسے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ ورنہ لزا انھیں چھپانے کی فکر نہ کرتی۔“
لرزتے کانپتے اندھے بچے کو روئی میں لپیٹا گیا۔
” اگر اسے لزا کو واپس دیا گیا وہ اسے دوبارہ چھپانے کی کوشش کرے گی۔“استاد نے کہا۔۔۔” میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ بلیاں لومڑی کے بچے کو پال لیتی ہیں۔ مگر اب بلی کہاں سے آئے؟“
یولیا اور نٹاشا کوٹ پہن کر فوراً پڑوس کے ایک گھر کی طرف بھاگیں۔ وہاں ایک بڑے میاں نے بلی پال رکھی تھی جس کے تین عدد بچے بھی تھے۔ لڑکیوں نے بڑے میاں کی خوشامد کی۔۔” ورنہ لومڑی کا بچہ مر جائے گا۔“ انہوں نے فریاداً کہا۔
” ٹھیک ہے۔۔ مگر میری بلی بوڑھی ہو چکی ہے اور اپنے گھر سے بہت مانوس ہے اور وہ کسی نئی جگہ نہیں جائے گی اگر گئی تو بہرحال وہ یہاں لوٹ آئے گی۔ اپنے بچے بھی واپس لے آئے گی اور وہ راستے میں سردی سے ٹھٹھر کر مر جائیں گے۔ تم ایسا کرو کہ لومڑی کا بچہ یہاں لے آﺅ۔ جب تک وہ ذرا بڑا ہو میری بلی اسے دودھ پلا دیا کرے گی۔“
لہٰذا لومڑی کا بچہ وہاں پہنچا دیا گیا اور بلی نے اسے اس سکون کے ساتھ قبول کر لیا گویا وہ اسی کا بچہ تھا۔
جب لزا کو معلوم ہوا کہ اس کے سارے بچے غائب ہو چکے ہیں، اس نے اپنے احاطے کے چکر کاٹنے شروع کیے، کھانا پینا چھوڑ دیا اور بے حد غمگین ہو گئی۔ یہ دیکھ کر سب نے اس کی خوب خوب دل جوئی کی۔ جانور بھی کتنے خوش باش ہو تے ہیں۔ چار پانچ روز بعد ہی لزا پھر اپنے کھیل کود میں مشغول ہوگئی۔ ادھر اس کا بچہ اپنی بلی اماں کے ہاں خوب موٹا تازہ ہوتا جا رہا تھا۔
استادوں اور استانیوں نے قصور وار بچے کا پتا چلانے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے ساری مصیبت آئی تھی۔ لیکن ان کو معلوم تھا کہ اس کو اچھی طرح سبق مل گیا اور آیندہ کبھی ایسی شرارت نہ کرے گا۔
ایک روز بچے یہ طے کر رہے تھے کہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے؟
” میں بڑی ہو کر جانوروں کی ڈاکٹر بنوں گی۔“ ایک ننھی بچی نے کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔” اگر میں جانوروں کی ڈاکٹر ہوتی تو سردی سے ٹھٹھری ہوئی لومڑیوں کی جانیں بچا لیتی۔ میں نے ہی جا کر اندر جھانکا تھا۔“
استادوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
”اچھا ماینا۔۔۔۔ تمہیں معلوم نہ تھا کہ تمہاری اس شرارت کا نجام اتناالمناک ہوگا۔ لیکن رنج نہ کرو۔ جانوروں کی ڈاکٹر بن کر تم بہت سے بے زبان حیوانوں کی جانیں بچانا۔“
انہوں نے اس کی دل جوئی کی۔ موضوع تبدیل کرنے کے لئے انہوں نے یولیا اور نٹاشا سے دریافت کیا۔
” اور تم کیا بننا چاہتی ہو؟“
” ہم جنگلوں کی رکھوالی کرنا چاہتے ہیں۔ جب تک ہمارے جنگل ہرے رہیں گے ان میں جانور آباد رہیں گے۔ جنگل انسان کا بہترین دوست ہے اور جانوروں کا بھی۔ ابا یہی کہتے ہیں۔“
” بہت ٹھیک! تم بڑی ہو کر ابا کی ان کے کام میں مدد کرنا۔ مگر یہ کبھی نہ بھولنا کہ موسم بہار میں ہر جانور کے ہاں بے بس بے زباں بچے موجود ہوتے ہیں۔“
” نہیں ہم ہر گز نہیں بھولیں گے۔“ ہم نے جواب دیا۔