skip to Main Content

جیمز اور دیوہیکل آڑو

ناول: James and the Giant Peach
مصنف: Roald Dahl
ترجمہ: جیمز اور دیوہیکل آڑو
مترجم: اکبرامین میمن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باب نمبر:1
چار سال کی عمر تک ”جیمز ہنری ٹروٹر“ کی زندگی بڑی خوش گوار گزری۔ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ سمندر کے قریب ایک خوب صورت اور پرسکون گھر میں رہتا تھا۔ یہاں اس کے ساتھ کھیلنے کے لیے بہت سے بچے بھی تھے اور ریت سے اٹا سمندر کا کنارا،جہاں وہ بھاگ سکتاتھا اورخودسمندر……جس میں وہ اٹکھیلیاں کر سکتا تھا۔ ایک چھوٹے لڑکے کے لئے توبس یہی مکمل زندگی تھی۔
پھرایک دن،جیمز کے والدین کچھ خریداری کی غرض سے لندن گئے اور وہیں ایک ہول ناک حادثہ پیش آگیا۔ وہ دونوں دن دیہاڑے، سورج کی روشنی میں،ایک مصروف سڑک پر،لندن کے چڑیا گھر سے بھاگے ہوئے ایک بڑے اوربپھرے ہوئے گینڈ ے کا شکار بن گئے۔
اب آپ تصور کرہی سکتے ہیں کہ، ان اچھے بھلے والدین کے لئے یہ ایک کتنابراحادثہ تھا مگرمستقبل میں جیمزکے لیے یہ ان سے بھی براثابت ہوا۔ ان کے لیے تو یہ کچھ ہی دیر کی مصیبت تھی کہ وہ صرف پینتیس سیکنڈ میں ہی چل بسے تھے۔ لیکن دوسری طرف بیچارہ جیمززندہ تھا،اپنے ہوش میں تھا اوران کی موت کے بعداتنی بڑی اور ظالم دنیا میں تنہا ہوگیا تھا جس کی وجہ سے سہما رہتا تھا۔ ساحل کے قریب اس شان دار گھر کو جلد ہی بیچنا پڑگیا، اور وہ ننھا جیمزصرف اپنے دوپاجاموں اور ٹوتھ برش کے ساتھ ا پنی دوخالاؤں کے پاس رہنے بھیج دیا گیا۔ ان کے نام”خالہ اسپونج“اور”خالہ اسپائکر“تھے اور وہ دونوں ہی خودپرست،سست اورظالم تو تھیں ہی ساتھ ہی بہت ڈراؤنی بھی تھیں۔ شروع سے ہی انہوں نے بے چارے جیمز پر بیجا ماردھاڑشروع کردی تھی۔ وہ اسے اس کے اصل نام سے کبھی نہیں پکارتی تھیں،بلکہ اسے ہمیشہ ”گندا شخص“ یا ”چھوٹا،بھیانک درندہ“ یا”کم بخت مخلوق“ پکارا جاتاتھا۔ وہ اسے کھیلنے کے لئے نہ توکھلونے دیتی تھیں اورنہ ہی اسے رنگارنگ تصویروں سے بھری کتابوں پرنظرڈالنے دیتی تھیں۔اس کا کمرہ بالکل ایک قیدخانے جیساتھا۔
خالہ اسپونج، خالہ اسپائکراورجیمز، جنوبی انگلستان کی ایک بلند پہاڑی پر واقع ایک ٹوٹے پھوٹے گھر میں رہتے تھے۔
پہاڑی اتنی بلند تھی کہ جیمز اس پر کھڑا ہوکر میلوں پر پھیلے نرالے جنگل اور کھیتوں کا نظارہ کر سکتاتھا۔ اورتواو ر ایک روشن دن میں، درست سمت کی طرف کھڑے ہوکراپنے اس گھر کو بھی دیکھ سکتاتھا جس میں وہ کسی زمانے میں اپنے والدین کے ساتھ رہتاتھااور وہاں سے وہ ایک سرمئی نکتے کی طرح نظر آتا تھا۔ اسی کے پیچھے وہ سمندر بھی دیکھ سکتا تھا جوکہ آسمان کے آخری کنارے کے ساتھ بالکل نیچے، لمبی نیلی اور سیاہ دھاری کی طرح تھا، بالکل ایسے جیسے روشنائی سے لکیر کھینچی گئی ہو۔
مگر جیمز کوکبھی بھی اس پہاڑی سے نیچے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ خالہ اسپونج اورخالہ اسپائکرنے خود سے تو کبھی اسے چہل قدمی یا پکنک پر لے جانے کی زحمت نہیں کی تھی،بلکہ بذات خود ابھی اسے کبھی کہیں جانے کی اجازت نہیں ملی۔
”یہ گندا، ننھا درندہ باغ میں جاکر صرف شرارتیں ہی کرے گا۔“خالہ اسپائکر نے کہا۔
انہوں نے نہ صرف یہ کہا بلکہ اسے سخت سے سخت سزا دینے کا ارادہ بھی کیا تھا،مثلاً چوہوں کے ساتھ ایک ہفتے کے لیے قیدخانے میں بندکردینا۔وہ بھی صرف اتنی سی بات پر کہ اگر اس نے چار دیواری سے ایک بھی قدم باہر نکالا تو۔
ایک بڑے اورویران باغ نے پوری پہاڑی کو اپنے گھیر ے میں لے رکھاتھا۔کچھ جھاڑیوں کے علاوہ اس باغ میں صرف ایک ہی درخت تھا۔ وہ بھی آڑو کاایک بوڑھا درخت، جس پر کبھی کوئی آڑو نہیں لگاکرتا تھا۔ وہاں نہ ہی کوئی جھولا تھا اور نہ ہی مٹی کا ڈھیر۔نہ تو وہاں کسی بچے کو اس کے ساتھ کھیلنے کے لئے آنے دیا جاتا تھا اور نہ ہی اس کے ا ٓس پاس کوئی کتایا بلی تھے جن کے ساتھ وہ وقت گزارسکتا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا رہا، وہ مزید تنہائی اوراداسی کا شکارہونے لگا۔ بس وہ روزانہ وقت گزاری کے لئے باغ کے داخلی راستے پرکھڑا ہوجاتا اور کتنی ہی دیرمسرت سے ان خوب صورت اور دل فریب جنگل اور کھیت کے مناظرکوتکتا رہتا جو اس کے لئے ممنوع قرار دے دیے گئے تھے اوروہ دل کش سمندرجوایک خطے پر طلسمی قالین کی طرح بچھا تھا۔

باب نمبر:2
جب جیمز ہنری ٹروٹرکو اپنی خالاؤں کے ساتھ رہتے ہوئے پورے تین برس گزرگئے تو ایک صبح ایسی بھی آئی جب اس کے ساتھ کچھ ایسا عجیب واقعہ ہوا جس نے کسی اور عجیب چیز کو جنم دیا۔پھراس دوسری چیزنے کسی تیسری حیرت انگیزچیزکوجنم دیا۔
یہ سب موسم گرماکے وسط میں،ایک جھلستے ہوئے دن میں اس وقت ہواجب خالہ اسپونج،خالہ اسپائکراورجیمزباہرباغ میں تھے۔ جیمزسے معمول کے مطابق کام کروایاجارہاتھا۔اس وقت وہ باورچی خانے کا چولہاجلانے کے لیے لکڑیاں کاٹ رہاتھا۔خالہ اسپونج اورخالہ اسپائکر تختے والی کرسیوں پرآرام سے براجمان تھیں۔وہ دونوں لیموں پانی کے گھونٹ لیتی ہوئی،اسکو دیکھ رہی تھیں کہ ایک لمحے کیلئے بھی کام نہ رکے۔
خالہ اسپونج موٹی اورچھوٹے قدکی تھیں۔ان کی چھوٹی اورذراموٹی آنکھیں،اندرکودھنسے ہونٹ اورایک ایساکمزورچہرہ تھاجیسے ابال دیاگیاہو۔وہ ایک بڑی سفید،کچھ زیادہ ابلی ہوئی بندگوبھی جیسی دکھتی تھیں۔دوسری طرفخالہ اسپائکرتھکی ہوئی، لمبی اورکمزورسی تھیں۔وہ اسٹیل کی کناری والی عینک لگاتی تھیں جوان کی ناک کے آخری سرے پرایک کلپ سے جمی ہوئی تھی۔ان کی آوازچنگھاڑنے جیسی تھی،لمبے اورپتلے ہونٹ تھے اورجب بھی وہ غصے یاجوش میں ہوتیں،تو بولتے ہوئے ان کے منہ سے تھوک اڑتاتھا۔
وہ دوبھیانک چڑیلیں بیٹھی،گھونٹ بھرتیں اورلمحہ بہ لمحہ جیمزپرجلدی کام کرنے کوچیختیں۔وہ دونوں ایک دوسرے سے اپنی ہی تعریف کررہی تھیں کہ میں کتنی خوبصورت ہوں۔
خالہ اسپونج کی گودمیں ایک لمبے دستے والاآئینہ رکھاتھا۔وہ بارباراسے اٹھاتیں اوراپنے بھیانک چہرے کوچند منٹ تک تکتی رہتیں۔
”میں بہت خوب صورت دکھتی ہوں اورمیرے اندرسے گلاب جیسی خوشبوآتی ہے۔“خالہ اسپونج نے کہا۔
”میرے چہرے پراپنی آنکھیں جمائے رکھواورمیری خوب صورت ناک کودیکھو……اورمیرے خوب صورت بالوں کامشاہدہ کرو! اور اگر میں اپنے دونوں موزے اتاروں توتم میرے حسین پیردیکھوگی……!“
”مگریہ مت بھولوکہ تمہاراپیٹ کتنانمایاں ہے!“خالہ اسپائکرچیخیں۔
یہ سن کرخالہ اسپونج کاچہرہ سرخ ہوگیا۔خالہ اسپائکرپھربولیں۔”میری پیاری بہن! تم نہیں جیت پاؤگی،میری حسین وجمیل شکل تودیکھو،میرے دانت اورد ل فریب مسکراہٹ!……آہا خوبصورتی میری!……کتناچاہوں میں خودکو؟……میری ادائیں!……ہاں!میری تھوڑی پرموجوددانوں کونظراندازکرنا……!“
”اومیری عزیزبوڑھی!تم توصرف ڈھانچہ اور کھال ہو!“خالہ اسپونج پھرچیخیں۔
”جیسی خوبصورتی میرے پاس ہے،یہ توصرف ہالی وڈمیں ہی چمک سکتی ہے……ارے نہیں نہیں یہ انصاف نہیں ہوگا……“خالہ اسپونج چیخیں۔”میں توسب ملکوں کے باشندوں کے دل ہی چرالوں گی!……اگریہ سب مجھے ہیروئن بننے کاموقع دیں گے!……توسب ستارے استعفیٰ دے دیں گے!“
”ارے!مجھے تولگتاہے تمہیں ایک پیارے سے بھوت کاکردار ملے گا!“آنٹی اسپائکربول اٹھیں۔
بے چارہ جیمز ابھی تک لکڑیاں کاٹ کرمحنت کررہاتھا۔ گرمی شدید تھی۔ وہ پسینے سے بھیگ چکا تھا۔ اس کا بازو درد کررہا تھا۔ کلہاڑی بڑی اورایک چھوٹے لڑکے کے لیے تو بے حد وزنی تھی۔
جیسے جیسے وہ کام کرتارہا،وہ سوچتا رہا کہ اس دنیا کے دوسرے بچے اس وقت کیا کررہے ہوں گے؟ کچھ باغوں میں سائیکل چلا رہے ہوں گے،کچھ ٹھنڈک بھرے جنگل میں سیرکررہے ہوں گے اورپھول جمع کررہے ہوں گے اور جو بھی بچے کبھی اس کے ساتھ کھیلا کرتے تھے وہ سمندر کنارے گیلی ریت سے کھیل رہے ہوں گے اور پانی اڑارہے ہوں گے۔
موٹے موٹے آنسواس کی آنکھوں میں تیرنے لگے،پھراس کی آنکھوں سے گرکر گالوں پر لڑھک گئے۔ اس نے تھوڑی دیر کے لیے کام سے ہاتھ روک لیا اور درخت کے ایک کٹے ہوئے تنے سے ٹیک لگالی ……اس کی اپنی ہی اداسی اس کے دل ودماغ پرچھاگئی۔
”تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟“خالہ اسپائکرچیخیں اور اپنے اسٹیل کے چشمے کے پیچھے سے اسے گھورا۔
جیمزرونے لگا۔
”چھوٹے گندے درندے!رونا بند کرواور کام پرلگ جاؤ!“خالہ اسپونج نے حکم صادر کیا۔
”ارے خالہ اسپونج!اورخالہ اسپائکر!کیا ہم کچھ دیر کے لئے اس پہاڑی سے نیچے،بس کے ذریعے ساحل پرنہیں جاسکتے؟ صرف ایک بار…… وہ اتنا دور نہیں ہے……مجھے یہاں بہت گرمی لگتی ہے۔ میں بہت اکیلا پن اور تنہائی محسوس کرتا ہوں ……“ جیمز کہہ اٹھا۔
”کیوں احسان فراموش احمق!“ خالہ اسپائکر گرجیں۔
”مارواسے……!“خالہ اسپائکر نے کہا۔ وہ جلدی سے اٹھیں اور جیمز کی آنکھوں میں دیکھا۔ جیمز نے بھی اپنی آنکھوں میں خوف لیے انہیں دیکھا۔
”میں تمہیں آج ہی کی تاریخ میں ماروں گی……مگراس وقت، جب مجھے گرمی نہیں لگے گی۔“ انہوں نے کہا۔ ”اوراب میری نظروں سے گم ہوجاؤچھوٹے،ناقابل برداشت کیڑے!مجھے تھورا سکون ہونے دو!“
جیمز مڑااوربھاگنے لگا۔وہ اتنی تیزاوراتنی دور بھاگاکہ تھوڑی دیر میں وہ باغ کے آخری سرے پر پہنچ گیا۔ اس نے خود کو انہی گندی، پرانی جھاڑیوں میں چھپالیاجو اس نے پہاڑی سے دیکھی تھیں۔ پھر اس نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں سے ڈھانپ لیااورزاروقطاررونے لگا۔

باب نمبر:3
اور یہ وہی موقع تھاجب اس کے ساتھ وہ کچھ عجیب پیش آیا،جس نے دو اور عجیب چیزوں کو جنم دیا۔ اچانک اسے اپنے پیچھے پتوں کی چرمراہٹ سنائی دی اور جیسے ہی وہ گھوما، اس نے اپنے قریب ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا جس نے گہرے سبز رنگ کاکوٹ پینٹ پہن رکھا تھا۔ایسا مضحکہ خیز رنگ کہ اس پر ہنسی آئے۔ وہ بوڑھاجھاڑیوں سے نکل آیا۔ اس کی کمرجھکی ہوئی تھی مگر اس کے بڑے سے سر پر ایک بھی بال نہیں تھااور چہرہ جو سیاہ خاردار داڑھی مونچھوں سے بھرا ہواتھا۔ وہ بوڑھا اس سے تین قدم پر رک کر لاٹھی کے سہارے کھڑا ہو گیا اور جیمز کو سختی سے گھورتا رہا۔
جب وہ بولا تو آواز بہت دھیمی تھی اور ایسی ہی تھی جیسی عموماًبوڑھوں کی ہواکرتی ہے۔
”میرے قریب آؤ،ننھے لڑکے۔“وہ بولا اور جیمز کو ایک ہاتھ سے اشارہ کیا۔ ”میرے بالکل قریب آؤاور میں تمہیں ایک حیران کردینے والی چیز دکھاؤں گا۔“
جیمز سہم گیا۔
وہ بوڑھا خود ہی دو قدم آگے آیااور جیب میں ہاتھ ڈال کرسفید کاغذسے بنی ہوئی پڑیا اس کے سامنے کی۔ ”کیا تم دیکھ رہے ہو؟“ اس نے سرگوشی کی اور جیمز کے چہرے کے سامنے اسے دائیں بائیں ہلاتا گیا۔
”میرے پیارے بچے، کیا تم جانتے ہو اس میں کیا ہے؟ معلوم ہے اس چھوٹی سی پڑیا میں کیا ہے؟“
پھروہ جیمز کے اور قریب آیااوراتنا قریب ہو گیاکہ جیمزکو اس کی سانس اپنے گالوں پرمحسوس ہوئی۔ اس کی سانس میں عجیب بو تھی …… بالکل جیسے کسی قدیم قید خانے میں ہوتی ہے۔
”اسے ایک نظر دیکھو عزیز دوست!“ اس نے کہا اورپڑیا کھول کراسے جیمز کودینے والے انداز میں ہاتھ پررکھا۔ جیمز اس کے اندرکی اشیاء کو دیکھ سکتاتھا۔ اس کے اند رکچھ ہری ہری سی چیزیں تھیں، جیسے چاول کے دانے جتنے ہرے کنکر یا موتی ہوں۔ وہ غیر معمولی خوبصورت تھے اور ان میں الگ ہی چمک دمک تھی……روشن کردینے والی حیران کن چمک۔
”ان کی بات سنو……“ بوڑھا آہستہ سے بولا۔”چلو ان کی بات سنو!“
جیمز نے پڑیا میں جھانکا۔ اس نے ایک عجیب، دھیمی آوازسنی اورپھراس نے دیکھا کہ وہ ہزار چھوٹی چھوٹی چیزیں آہستہ آہستہ ایک دوسرے پرگررہی تھیں، بالکل جیسے زندہ ہوں۔
”اگر تم پوری دنیا کو بھی ان کے مقابلے میں لاکھڑا کروتو بھی یہ زیادہ طاقتور نکلیں گے۔“ بوڑھے نے نرمی سے کہا۔
”مگر……مگر…… یہ ہیں کیا……؟“ جیمز بڑبڑایا۔ ”اوریہ کہاں سے آئے؟“
”آہ!تم یہ کبھی جان نہیں پاؤگے!“ بوڑھا کہتے کہتے اورقریب آنے لگا اور اتنا قریب کہ اس کی لمبی ناک جیمز کی پیشانی چھونے لگی۔ پھروہ پیچھے کو اچھلااوراپنی چھڑی ہوا میں دیوانوں کی طرح ہلانے لگا۔
”مگرمچھ کی زبان!“ وہ چیخا۔ ”ایک ہزارلمبی، نرم مگرمچھوں کی زبانیں جن کوایک مری ہوئی جادوگرنی کی کھوپڑی میں ابالاگیا اور وہ بھی بیس دنوں تک۔ بیس دن اور بیس راتوں تک انہیں چھپکلی کی آنکھوں کے ساتھ ابالاگیا!پھرایک ننھے بندرکی انگلیاں،ایک سو ر کے معدہ کا دوسرا خانہ، سبزطوطے کی چونچ،خارپشت کاشربت اور تین چمچ چینی ڈالی گئی۔ پھرایک ہفتہ تک ا سکو نرم آنچ پر پکایاگیااورباقی کام چاند نے خود ہی کردیا۔“
پھرایک دم اس نے وہ پڑیا جیمز کے ہاتھوں میں تھمادی اورکہا،”اب تم اسے لے جاؤ!اب یہ تمہارے ہیں۔“

باب نمبر:4
جیمزہنری ٹروٹرکتنی ہی دیر اس پڑیا کو پکڑے،بوڑھے کو تکتا رہا۔
”اوراب!جوتمہیں کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ایک بڑا پانی کاجگ لینا اوریہ ہری چیزیں اس میں انڈیل دینا۔ پھر بالکل آرام سے، آہستہ آہستہ، ایک ایک کرکے اپنے سرکے دس بال اس میں ڈال دینا۔ یہ عمل اس چکرکو جاری رکھے گا۔ دومنٹ میں پانی میں تیزی سے جھاگ بننا شروع ہوجائے گااورجیسے ہی یہ ہو……تم فوراً اس پانی کوپی لینا، پوراجگ ایک سانس میں پینا۔ پھر، پیارے بچے تم اس پانی کو اپنے معدے میں ابلتامحسوس کروگے اور تمہارے منہ سے بھانپ نکلناشروع ہوجائے گی۔
اس کے فوراً بعد،تمہارے ساتھ حیرت انگیز واقعات پیش آنا شروع ہوجائیں گے۔ مافوق الفطرت اور ناقابل یقین واقعات……! پھر تم اپنی زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہوگے……کیونکہ تم مایوس ہو…… کیا نہیں ہو؟ ……اورایک بات یاد رکھو، تمہیں مجھے کچھ بتانے کی ضرورت بھی نہیں پڑی اورمیں نے سب جان لیا۔ اب جلدی جاؤ اوربالکل ایسا کروجیسا میں کہہ رہا ہوں۔ اپنی دوبھیانک خالاؤں سے اس کا ذکر مت کرنا…… ایک لفظ بھی ان کے کانوں میں نہیں جانا چاہئے۔ ان ہری چیزوں کو بھی اپنے سے دور مت جانے دینا۔ کیونکہ اگریہ تمہارے ہاتھ سے گئے، تو ان کا طلسم کسی اور پر اثر کرنے لگے گامگر وہ تم نہیں ہوگے…… اور تم تو یہ بالکل بھی نہیں چاہوگے بچے! کیا ایسانہیں؟ ……چاہے وہ کوئی بھی ہو، کسی بھی کیڑے،کسی جانوریادرخت پر ان کا جادو کام کرے گا!سو پڑیا کو مضبوطی سے تھامے رکھنا، کاغذ کو پھٹنے مت دینا۔اب جاؤ جلدی کرو!انتظار مت کرو! ابھی وقت ہے! جلدی……!“اور یہ کہہ کر وہ بوڑھا آدمی پھر سے روپوش ہوگیا۔

باب نمبر:5
اگلے ہی لمحے، جیمز پوری رفتار سے گھر کی جانب بھاگا جا رہا تھا۔ اس نے سوچ رکھا تھاکہ وہ یہ سب باورچی خانے میں کرے گا۔ بس اگر خالہ اسپونج اور خالہ اسپائکر نے اسے نہ دیکھ لیا تو…… وہ پرجوش تھا۔ وہ لمبی گھاس اور بدبو دار بچھوؤں کو یہ پروا کیے بغیرروند کر بھاگتا چلا گیاکہ اس کے پیروں پر ڈنک لگیں گے یا ننگے گھٹنوں پر…… اوردور سے ہی اس نے خالہ اسپونج اور خالہ اسپائکر کو دیکھ لیا جو اس کی طرف پشت کیے بیٹھی تھیں۔ وہ آہستہ سے دوسری طرف بھاگا تاکہ گھر کی دوسری طرف سے ا ندر داخل ہوجائے مگراسی لمحے وہ اس بوڑھے آڑو کے درخت کے نیچے سے گزراجو باغ کے بیچوں بیچ تمکنت سے کھڑا تھا۔ اس کا پیرپھسلا اوروہ اوندھے منہ گھاس پر گرا۔ اس کی کاغذ کی بنی پڑیا پھٹ گئی اور وہ ننھی ننھی ہری چیزیں چاروں طرف بکھر گئیں ……
جیمز نے فوری طورپر خود کو گھٹنوں کے بل اٹھایااورآس پاس اپنے چھوٹے سے قیمتی خزانے کو تلاشنے لگا۔ مگر یہ کیا؟ وہ سب تو مٹی میں دھنس رہے تھے! وہ واقعی انہیں سخت زمین کے اندر دھنستے ہوئے دیکھ سکتا تھااور تب ہی اس نے اپنا ہاتھ ان تک پہنچانا چاہاکہ اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے…… مگر وہ اس کی انگلیوں میں ہوتے ہوئے بھی غائب ہوگئے۔ اس نے کچھ اور بچے کھچے اٹھانے چاہے مگر اس بار بھی وہی کچھ ہوا۔ وہ ادھر ادھر ہاتھ مارنے لگاتاکہ انہیں پکڑ سکے مگر ان کی رفتار اس سے کہیں زیادہ تھی۔ ہر دفعہ اس کی انگلی کے پور انہیں چھونے لگتے اور وہ زمین میں اڑن چھو ہوجاتے۔ بس کچھ ہی لمحات میں وہ سب غائب ہوگئے۔ جیمز رونے لگا۔ اب اسے وہ کبھی نہیں مل پائیں گے۔ وہ ہمیشہ کے لئے جا چکے تھے۔
مگر وہ گئے کہاں ہوں گے؟ کیا دھرتی ماں کو انھیں اندر کھینچنے کی اتنی بے چینی تھی؟ وہ کیوں اندرگئے؟ زمین کے نیچے توکچھ نہیں تھا۔ کچھ بھی نہیں سوائے اس بوڑھے سے آڑو کے درخت کی جڑوں کے۔زمین کے اندر تو بہت سے کیچوے، کنکھجورے اورمٹی میں رہنے والے کیڑے ہی ہوں گے۔
مگر اس بوڑھے نے کہاتھا؟ ”وہ بیج جس سے بھی پہلی دفعہ ملیں گے، چاہے کوئی کیڑاہو، جانورہویادرخت،جس سے بھی یہ ملے توان کا جادواسی پر چلے گا……“
”یاخدا!“ جیمز نے سوچا۔”کیا ہوگا ……اگر ان کا جادوکسی کیچوے پر چل گیاتو؟یاکسی کنکھجورے پر؟یا کسی مکڑی پر؟ اوران کا جادو پرانے آڑو کے درخت پر چلاتو؟“
”کھڑے ہوجاؤسست جانور!“ ایک آواز نے اس کے کانوں کو چھوا۔ جیمز نے دیکھا کہ خالہ اسپائکراس کے سر پرکھڑی تھیں، خشمگیں،قدآوراور ڈھانچے جیسی، اس کو گھورتی……اس گھورنے نے اسے ڈراسا دیا۔ ”ادھرسے چلواورلکڑی کی کٹائی کا کام پورا کرو۔“ انہوں نے حکم دیا۔
موٹی خالہ اسپونج، بالکل ایک سمندری جیلی فش کی طرح اپنی بہن کی طرف آئیں تاکہ دیکھ سکیں کہ معاملہ کیاہے۔
”کیوں نہ ہم اس لڑکے کو بالٹی میں بٹھا کر،ایک رات کے لئے کنویں میں پھینک دیں؟“ انہوں نے تجویز دی۔ ”اور یہی چیز اسے سکھائے گی کہ پورادن ایسی سستی کا مظاہرہ بالکل نہیں کرنا۔“
”یہ تو بہت اچھی بات ہے پیاری اسپونج۔ مگرپہلے اسے کٹائی کا کام کرنے دو…… چلو نکلو اب بدتمیز……اورتھوڑاکام کرو!“
بیچارہ جیمز اداسی کے ساتھ بوجھل قدم اٹھاتالکڑی کی گٹھڑ یوں کے پاس گیا۔ آہ!کاش وہ پھسلا ہی نہ ہوتااور اس کی قیمتی پڑیا گری ہی نہ ہوتی! زندگی کی ساری خوشی ڈوب گئی تھی۔
اب کل،اور آنے والے باقی دنوں میں اس کے لئے صرف تکلیف،سزا، اداسی اور مایوسی تھی۔ اس نے کلہاڑی اٹھائی اور پھر سے لکڑی کاٹنے لگامگرپھراس نے چیخیں سنیں، وہ رکااورپیچھے مڑا۔

باب نمبر:6
”اسپونج!اسپونج!اد اھرآؤاوریہ دیکھو!“
”کیا دیکھوں؟“
”یہ ایک آڑو ہے!“ آنٹی اسپونج چیخ رہی تھیں۔
”کیاکہا؟“
”ایک آڑو!دیکھو سب سے اونچی شاخ پر!کیا تم دیکھ نہیں سکتیں؟“
”پیاری اسپائکر!میرے خیال میں تم غلط ہوگی!اس بے کاردرخت نے تو کبھی آڑو نہیں دیے!“
”تم خود ہی دیکھو اسپونج!اب اس پر ایک ہے!“
”مجھے تنگ مت کر واسپائکر……تم میرے منہ میں پانی لارہی ہوجب کہ اس پر تو کچھ ہے ہی نہیں۔ اس درخت پر تو کبھی ایک پھول بھی نہیں نکلا، آڑو کی توبات ہی نہ کرو۔ سب سے اوپروالی شاخ پر، تم نے ابھی کہا ……مگر مجھے تو اس میں کچھ نظر ہی نہیں آرہا۔ بہت مضحکہ خیز ……ہاہا……خدا اپنی رحمت کرے! مگر……مگر……وہاں تو سچ میں کچھ ہے!کہیں میں پاگل ہی نہ ہوجاؤں!“
”……اوربہت بڑابھی!“ اسپائکر بولی۔
”ملکہ حسن ہے یہ تو!!“ اسپونج چیخی۔
اس وقت، جیمز نے آہستہ سے کلہاڑی رکھی، مڑااوران دو عورتوں کو دیکھاجو آڑو کے درخت کے نیچے کھڑی تھیں۔
”کچھ ہونے ولا ہے۔“ اس نے خود سے کہا۔ ”کچھ عجیب ہونے والا ہے اب تو……!“
اس کو کچھ بھی اندازہ نہیں تھاکہ کیا ہوگا مگر…… اسکواپنی ہڈیوں میں سرد لہردوڑتی ہوئی ضرورمحسوس ہوئی۔اس کی چھٹی حس کچھ عجیب ہونے کے اشارے دے رہی تھی۔ اس کو ہوا میں کچھ محسوس ہوا……اس ساکن باغ میں ……
جیمزدرخت کے تھوڑا قریب گیا۔خالائیں اب باتیں نہیں کررہی تھیں ……بلکہ وہ چپ چاپ کھڑی صرف آڑو کو تک رہی تھیں۔ کہیں کوئی آواز نہیں تھی……حتیٰ کہ ہوا کی بھی نہیں، اور سرپر سورج، گہرے نیلے آسمان سے نکل کر انہیں جھلسا رہاتھا۔
”مجھے تو لگتا ہے کہ یہ پک کر میرے پاس آئے گا!“ اسپائکرنے خاموشی کا شیشہ توڑا۔
”پھرکیوں نہ اسکو کھالیاجائے؟“خالہ اسپونج نے تجویز دی اور اپنے موٹے ہونٹوں پر زبان پھیری۔”کیاہم آدھا آدھا کھائیں؟…… جیمز!ادھر آؤ اوردرخت پر چڑھو……!“
جیمز بھاگتابھاگتا آیا۔
”میں چاہتی ہوں کہ تم مجھے سب سے اونچی شاخ سے آڑواتاردو……کیا تمہیں وہ دکھ رہا ہے؟“خالہ اسپونج کہتی گئیں۔
”ہاں خالہ اسپونج، میں دیکھ سکتا ہوں!“
”اورخود کھانے کی ہمت بھی مت کرنا۔خالہ اسپائکراور میں آدھاآدھا کریں گے……اب چڑھوفورا!“
جیمز نے تنے پر چڑھنا شروع کیا۔
”رکو!بالکل رک جاؤ!“ اسپائکرتیزی سے بولیں۔ وہ شاخ کو دیکھ رہی تھیں اور ان کا منہ کھل گیاتھااور آنکھیں نکل آئی تھیں، جیسے کوئی بھوت پریت دیکھ لیاہو۔
”کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ؟“ اسپونج نے ناگواری سے کہا۔
”یہ پک رہا ہے!یہ بڑا ہوتاجارہا ہے!“ خالہ اسپائکر چیخیں۔
”کیابڑاہورہاہے؟“
”آڑو!اورکیا؟“
”تم مذاق کررہی ہو!“
”پھرخوددیکھ لو!“
”مگرپیار ی اسپائکر،یہ توبالکل مضحکہ خیز ہے، یہ ناممکن ہے……یہ…یہ……یہ..رکو……نہیں ……نہیں ……یہ ناممکن ہے.. نہیں.. ہاں..واہ!..یہ چیز سچ میں بڑی ہورہی ہے!!“
”یہ اب پہلے سے بھی زیادہ بڑاہوگیا ہے!“خالہ اسپائکرچیخیں۔
”یہ سچ نہیں ہوسکتا!“
”یہ سچ ہے!“
”یہ کوئی معجزہ ہے!“
”دیکھواسے!دیکھو!“
”میں دیکھ رہی ہوں!“
”اے خداوند!میں اس چیزکو اپنی گنہگارآنکھوں سے بڑاہوتے اور پھولتاہوادیکھ سکتی ہوں!“ خالہ اسپائکرچلائیں۔

باب نمبر:7
وہ دونوں عورتیں اورچھوٹالڑکادرخت کے نیچے بالکل جامدسے کھڑے رہے اور اس غیرمعمولی پھل کو دیکھتے رہے۔ جیمز کا چھوٹا ساچہرہ جذبات کے مارے دمک رہاتھااوراس کی دونوں آنکھیں بڑے بڑے تارے لگنے لگی تھیں۔ وہ اس آڑوکو بالکل اسی طرح بڑاہوتے دیکھ رہاتھا، جیسے ایک غبارے میں ہوابھری جارہی ہو۔ آدھے منٹ میں وہ تربوز جتنا ہوگیااور دوسرے نصف منٹ میں، ا س سے بھی بڑا۔
”ا س کو بڑاہوتے دیکھو!“خالہ اسپائکر چہکیں۔
”کیا یہ کبھی رکے گا؟“خالہ اسپونج چلائیں، اور اپنے موٹے بازوجھلانے لگیں اوردائرے میں جھومنے لگیں۔
اب تو آڑو اتنا بڑا ہوگیا تھا کہ وہ درخت کے اوپر جھولتا ایک دیوہیکل کدولگ رہا تھا۔
”احمق لڑکے!تنے سے دورہٹو!“ اسپائکر چیخ وپکار کرنے لگیں۔ ”اگراس کو ذرا سا بھی جھٹکا لگا تو مجھے یقین ہے یہ گر پڑے گا!یہ کم ازکم بیس تیس پاؤنڈ کا تو ہوگا۔“
وہ شاخ جس پر آڑولگا ہوا تھا، آہستہ آہستہ جھکتی جارہی تھی اور وزن بڑھتا جارہا تھا۔
”پیچھے ہٹو!یہ نیچے آرہاہے!شاخ ٹوٹنے والی ہے!“خالہ اسپونج چیخیں۔
شاخ ٹوٹی نہیں تھی۔ بس وہ زیادہ جھکی جارہی تھی، وہ بھی اس لئے کہ آڑو کا وزن بڑھ رہا تھا…… و ہ اور بڑا ہوا……پھر وہ بڑا آڑو اگلے ہی لمحے خالہ اسپونج جتناگول مٹول اور موٹا ہوتا گیااور اتنا ہی وزنی ہوگیا تھا۔
”اب اس کو رک جانا چاہئے۔“خالہ اسپائکرنے کہا۔ ”یہ ہمیشہ کے لئے تونہیں بڑھ سکتا!“
مگر وہ نہیں رکا۔
مگر جلد ہی وہ ایک چھوٹی گاڑی جتنا ہوکرآدھازمین پر پہنچ چکا تھا۔
دونوں خالائیں درخت کے نیچے ایک پیر پر کودنے لگیں، تالیاں بجانے لگیں اور سارے عجیب وغریب نام پکارنے لگیں۔
”واہ!“ خالہ اسپائکرنے کہا۔ ”کیا آڑوہے!!واہ!!“
”حیرت ناک!شاندار!زبردست!کیا ذائقہ ہوگا!“خالہ اسپونج چلائیں!”یہ ابھی بھی بڑھ رہا ہے!“
”معلوم ہے!معلوم ہے!“
جیمز پر تو کوئی منتر چل گیا تھا، وہ صرف کھڑا رہ کراسے گھورتا رہااورپھرزیرلب بڑبڑایا، ”آہ کتنا خوبصورت ہے نا؟……یہ دنیا کی سب سے حسین چیز ہے!“
”چپ کرو!بیوقوف انسان!“ خالہ اسپائکرجلدی سے بولیں جیسے انہوں نے اس کی باتیں سن لی ہوں۔ ”یہ تمہارا کام نہیں ہے!“
”سوفیصد درست کہا!“ خالہ اسپونج نے ان کی بات میں اپنی بات ملائی۔ ”اس چیز کا تم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے!بہتر ہوگاکہ اس سے دور رہو!“
”دیکھو!یہ بڑھ رہا ہے!پہلے سے بھی تیزی سے!“
آڑوبڑے سے بڑا، اور بہت بڑا ہوتا گیا۔ اور آخر میں اتنا بڑا ہوگیاکہ پورے درخت جتنا ہوگیا، اتنا ہی لمبا، اتنا ہی چوڑا۔ درحقیقت، ایک چھوٹے گھرجتنا!اس کے نچلے حصے نے نرمی سے زمین کو چھوااور وہیں رک گیا۔
”اب یہ نہیں گرسکتا۔“ خالہ اسپونج چیخیں۔
”اب یہ اورنہیں بڑھ رہا!“ خالہ اسپائکرچلائیں۔
”یہ رک رہا ہے اسپائکر!یہ رک رہاہے!مگر یہ ابھی تک رکا نہیں ہے! دیکھونا……!“
پھرایک وقفہ آیا۔
”اب رک گیاہے!“
”مجھے لگ رہا ہے تم ٹھیک کہہ رہی ہو!“
”کیا ہم اسے ہاتھ لگاسکتے ہیں؟“
”میں نہیں جانتی!مگر ہمیں احتیاط برتنی ہوگی!“
خالہ اسپونج اورخالہ اسپائکراس گول آڑو کی طرف بڑھنے لگیں، اور اس کے ہرپہلو سے احتیاط برتنے لگیں۔ وہ بالکل ان شکاریوں کی طرح لگ رہی تھیں جو ایک ہاتھی کوگولی مارتے ہیں اورپھر دیکھتے ہیں کہ وہ ہاتھی مراہے یا نہیں۔ اس دیوہیکل پھل نے انہیں اس طرح اپنے سائے میں لے لیا کہ وہ دوسری دنیا سے آئے بونے لگنے لگیں۔
آڑو کی چھیل بہت خوبصورت تھی اور اس کا رنگ بالکل مکھن جیسا پیلا تھااور اس پر لال گلابی دھبے سے تھے۔خالہ اسپونج احتیاط سے قریب گئیں اور ایک انگلی کے پور سے اسے چھوا۔
”یہ پک چکا ہے!“ ان کی آواز گونجی۔ ”یہ بالکل مکمل ہے!اسپائکر!……اب ادھردیکھو۔ کیوں نہ ہم ایک بیلچہ لائیں اورمیرے اور تمہارے لیے بڑی بڑی قاشیں کاٹیں؟“
”نہیں، ابھی نہیں!“ خالہ اسپائکرنے کہا۔
”کیوں نہیں؟“
”کیونکہ یہ میرا حکم ہے۔“
”مگر میں اسے کھانے کے لیے انتظار نہیں کرسکتی!“ خالہ اسپونج چیخیں۔ ان کے منہ میں پانی آرہاتھااور ان کی تھوڑی سے تھوک ہونٹوں کے کناروں سے پھسل رہی تھی۔
”پیاری اسپونج، اس چیز سے پیسے کاڈھیر بنایاجاسکتا ہے، اگر ہم اسے سنبھال پائیں تو…… رکو اور دیکھتی جاؤ!“خالہ اسپائکرنے آہستہ سے اپنی بہن کو آنکھ ماری اورباریک سی مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی۔

باب نمبر:8
اوریہ خبرکہ کسی کے باغ میں ایک گھر جتنا آڑو اگ آیا ہے، مضافات میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔اگلے ہی دن لوگوں کے ایک جم غفیر نے وہ حیرت انگیز شے دیکھنے کیلئے پہاڑی پرچڑھائی شروع کردی۔
جلد ہی خالہ اسپونج اورخالہ اسپائکر نے بھیڑ کی نظروں سے آڑو کوبچانے کیلئے بہت سے بڑھئی بلوالئے تاکہ وہ آڑو کے آس پاس لکڑی کی چار دیواری بنادیں اور اسی وقت یہ چالاک عورتیں خود مرکزی دروازے پرکھڑی ہوگئیں اورٹکٹ گھر ساکھول لیا۔
انہوں نے ہاتھ میں ٹکٹوں کی گڈیاں پکڑرکھی تھیں اورلوگوں سے اندرجاکرآڑو کو دیکھنے کے پیسے لے رہی تھیں۔
”رکورکو……!“ خالہ اسپائکر چلائیں۔ ”صرف ایک شلنگ دیوہیکل آڑو دیکھنے کے لئے……!“
(شلنگ بارہpenniesکا سکہ ہوتا ہے۔)
”چھ ہفتوں سے چھوٹے بچوں کے لئے آدھی قیمت پر……!“خالہ اسپونج چیخیں۔ ”ایک ایک کر کے جائیے!دھکے مت دیجیے! دھکے مت دیجیے!آپ سب ہی اندرجائیں گے۔“
”تم!!ادھر آؤ!تم نے پیسے نہیں بھرے……“
اور دوپہرکے کھانے تک، وہ پوری جگہ مردوں، عورتوں اوربچوں کی بھیڑ سے بھر گئی تھی اوروہ سب ایک دوسرے کو دھکے دے دے کراس معجزاتی آڑوکو ایک نظر دیکھ رہے تھے۔ پوری پہاڑی پرہیلی کاپٹر بھیڑ کی طرح اتر رہے تھے اور ان کے اندر سے اخباروں کے نامہ نگار (نیوزرپورٹرز)، کیمرہ مین اور میڈیا کے لوگ بھڑوں کے جھنڈ کی طرح اتررہے تھے۔
”میں اندر کیمرہ لے جانے کے دوگنا زیادہ پیسے لوں گی!“خالہ اسپائکر چیخیں۔
”ٹھیک ہے!ہمیں پروا نہیں ہے!“ ان سب نے جواب دیا اور ان دولالچی عورتوں کی جیبوں میں پیسہ پانی کی طرح آگیا۔ جب باہر یہ جوش وخروش جاری تھا، بے چارہ جیمز اپنے کمرے میں بند کردیا گیا تھا، اور وہ بس کھڑکی کی سلاخوں سے بھیڑکو دیکھ رہا تھا۔
”اگر ہم نے اسے باہر گھومنے دیا تویہ گندا جانورسب کے راستے میں رکاوٹ بن جائے گا۔“ خالہ اسپائکرنے صبح سویرے کہا تھا۔
”خداوند کے واسطے!میں نے بہت سالوں سے بچے نہیں دیکھے اور بھیڑ میں بہت سارے بچے ہوں گے جن کے ساتھ میں کھیل پاؤں گا۔ اور شاید میں ٹکٹ دینے میں آپ کی مدد کرسکوں ……“ جیمزنے رحم کی بھیک مانگی تھی۔
”چپ کرو!“خالہ اسپونج جلدی سے بولیں۔”اسپائکر اور میں کروڑ پتی بننے والے ہیں۔ آخری کام جو ہم تم سے چاہیں گے وہ یہ ہوگا کہ جب لوگ چلے جائیں تو ان کا پھیلایا کچرا صاف کردینا۔“
بعد میں جب پہلے دن کی شام سر پر آئی تو سب لوگ چلے گئے۔ خالاؤں نے اس کا کمرہ کھولا اور اس پر حکم صادر کیا کہ لوگوں کے چھوڑے ہوئی کیلے کے چھلکے، کینوں کا کچرا اور کاغذ اٹھائے۔
”کیاپہلے میں کچھ کھا سکتا ہوں؟“ اس نے پوچھا۔”میں نے پورے دن میں کچھ نہیں کھایا۔“
”نہیں! ہم کھانا بنانے میں بہت مصروف ہیں!اور ہمیں آرام سے پیسے بھی گننے دو!“ انہوں نے یہ کہہ کر اسے دروازے سے باہر پھینک دیا۔
”مگر باہر اندھیرا ہے۔“ جیمز کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
”باہر نکلو……! تب تک اندر مت آنا جب تک اچھی طرح صفائی نہ کرلو۔“اور دروازہ اس کے منہ پر بند ہوگیا،ساتھ ہی چابی دروازے کے لاک میں گھمادی گئی۔

باب نمبر:9
بھوک کے مارے کانپتا ہوا جیمز کھلے آسمان کے نیچے سوچتا رہا کہ کیا کرے۔ رات اس کے سر پر تھی اور بالکل اوپر، ایک سفید چاند آسمان پر تیررہاتھا۔ نہ کوئی آوازتھی نہ کوئی چرمراہٹ!
عموماًبہت سے چھو ٹے بچے گھر سے باہرچاندنی میں کھڑے رہنے سے خوف کھاتے ہیں۔ ہر جگہ موت کا ساسناٹا ہوتا ہے اور سائے لمبے اور کالے ہوتے ہیں اور وہ عجیب وغریب شکل اختیار کرلیتے ہیں اورجب آپ انہیں دیکھتے ہیں تو ان کی ایک جھلک آپ کا دل دہلادیتی ہے۔
جیمز بھی اس وقت بالکل ایسا ہی محسوس کررہا تھا۔ وہ ڈر کے مارے سانس لینے سے بھی گھبرا رہا تھا اور آنکھوں میں خوف لیے آگے، بس آگے ہی دیکھے جا رہا تھا۔ زیادہ دور نہیں بس باغ کے بیچوں بیچ وہ آڑوتمکنت سے ہر چیز پر سایہ کیے ہوئے تھا۔ اوروہ کیا ہی شاندارمنظر تھا۔!چاندنی اس آڑو کی گولائی پراتر رہی تھی اوراسے بالکل شفاف اور چاندی کابنا ہوادکھارہی تھی۔
وہ ہو بہوایک زبردست چاندی کی گیند کی طرح لگ رہا تھا جو گھاس پر خاموش، پراسراراور زبردست طریقے سے پڑی ہو۔ اور پھر جیمز کی کمرکی جلد پرہلکے ہلکے جوش کی لہر دوڑ نے لگی۔
”کچھ اور……“اس نے خود سے کہا۔”کچھ اورعجیب ہو نے والا ہے!میرے ساتھ پھر سے کچھ عجیب ہونے کو ہے!“ اسے یقین تھا۔ وہ محسوس کرسکتا تھا۔
اس نے آس پاس دیکھا، ذہن میں ایک ہی سوچ گردش کررہی تھی کہ کیا ہونے والا ہے۔ باغ چاندنی میں چاندی کے ورق سا لگ رہاتھا۔ اس کے پیرکے نیچے گھاس پر لاکھوں شبنم کے قطرے ہیرے کی طرح چمک رہے تھے۔ اور پھراچانک، پوری جگہ،پوراباغ، ایسے لگنے لگاجیسے طلسم سے جھوم اٹھا ہو۔
اس کو نہیں پتا تھاوہ کیا کررہا ہے، ایک مقناطیسی قوت اسے آڑو کی جانب کھینچ رہی تھی۔ جیمز ہنری ٹروٹر آڑو کی طرف چل دیا۔ اس نے چاردیواری پار کی اور اس کے بالکل نیچے کھڑا ہوگیااور کتنی ہی دیر اس کی خوبصورت، گول شکل دیکھتا رہا۔
اس نے ایک انگلی کے پورسے اس کی نرم چھیل کوچھوا تو اس کو گرمائش اور نرمی سی محسوس ہوئی اور…… تھوڑے بال بھی جیسے چوہے کے بچے کو چھولیا ہو۔
وہ اس کے قریب گیا، ایک قدم قریب اور اپنے گال آڑوکی نرم جلد پررکھ دیئے۔ جب وہ یہ کررہا تھا، اس نے دیکھا کہ اس کے بالکل نیچے، زمین سے قریب آڑو کی ایک طرف سوراخ ساتھا۔

باب نمبر:10
وہ ایک بڑا سوراخ تھا، جیسے کسی لومڑی جتنے جانور نے بنا یا ہو۔ جیمز نے اس کے آگے گھٹنے ٹیکے اور اپنا سراور کندھے اندر ڈالنے لگا……اور پھر وہ اندر کی طرف رینگنے لگا۔ وہ رینگتا رہا۔
”یہ کوئی سوراخ نہیں تھا!“ اس نے جوش سے سوچا۔ ”یہ ایک سرنگ ہے!“
سرنگ گیلی اور اندھیری تھی۔ اس کے آس پاس تازہ آڑو کی کھٹی میٹھی خوشبو سی پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے گھٹنوں کے نیچے زمین گیلی، دیواریں نم اور چپ چپی سی تھیں اور چھت سے آڑو کا رس برس رہا تھا۔ جیمزنے اپنا منہ کھولا تو تھوڑا سارس زبان پہ گرا، وہ بے حد خوش ذائقہ تھا۔ وہ اب اوپر کی طرف رینگ رہاتھا جیسے وہ سرنگ اسے اس دیوہیکل کے بیچوں بیچ لے جارہی ہو۔ ہر لمحہ بعدوہ رکتااور دیوار سے آڑو کترتا۔ آڑوکا گودا میٹھا، رسیلااور زبردست تھا۔
وہ کچھ اور دیرگھٹنوں کے بل رینگتا گیا اورپھر اچانک اسکا سر کسی بہت سخت چیز پرلگاجو اس کی راہ میں رکاوٹ بنی۔ اس نے اوپر دیکھا۔ اس کے سامنے ایک ٹھوس دیوار تھی جیسے لکڑی سے بنی ہو۔ اس نے اسے چھوا۔ وہ بالکل لکڑی جیسی لگی مگروہ کچھ نوکیلا تھااور اس میں گہری نالیاں تھیں۔
”اے خداوند!“ اس نے کہا۔ ” میں جانتا ہوں یہ کیا ہے!میں آڑوکی گٹھلی کی طرف آگیا ہوں!“
پھر اس نے جانا کہ اس گٹھلی کے بیچ میں ایک دروازہ بھی بنا ہوا تھا۔ اس نے دروازے کو دھکا لگایا۔ وہ کھلتا گیا۔ وہ رینگتا گیااور اس سے پہلے کہ وہ جان پاتا کہ وہ کہاں ہے، اس نے ایک آواز سنی۔
”دیکھوکون آیا ہے؟“
پھر دوسری آواز نے کہا۔”ہم تمہارا ہی انتظار کررہے تھے۔“
جیمز رکا اور بولنے والوں کو دیکھا، اس کا چہرہ سفیدپڑتاگیا۔
اس نے اٹھنا چاہامگر اس کے گھٹنے کانپ رہے تھے، سو اسے پھر سے اسی زمین پربیٹھناپڑا۔ اس نے اپنے پیچھے دیکھا اورسوچا کہ ا س سرنگ سے اسی طرح واپس چلے جانا چاہیے،جیسے وہ آیا تھا مگر دروازہ غائب تھا۔ اس کے پیچھے صرف ایک،ٹھوس دیوارتھی۔

باب نمبر:11
جیمز کی خوف زدہ نظریں اس کمرے میں آہستہ سے گردش کرنے لگیں۔ان جانوروں میں سے کچھ کرسیوں پر بیٹھے تھے، کچھ صوفے پر نیم دراز حالت میں تھے اور اسے انہماک سے دیکھ رہے تھے۔
جانور؟…… یا وہ کیڑے تھے؟
ایک کیڑا تو بالکل چھوٹا ہوتاہے، جیسے ٹڈا……بے شک وہ ایک کیڑا ہے……مگرکیاآپ اس ٹڈے کوبھی کیڑا ہی کہیں گے جو آپ کوایک کتے جتنا نظر آئے؟ ایک کتے جتنا بڑا! ……شاید آپ اسے بمشکل ہی کیڑا کہہ پائیں۔
جیمز کی ناک کی سیدھ میں ایک بوڑھا، ہرا ٹڈا بیٹھا تھا اور اس بوڑھے، ہرے ٹڈے کے برابر میں ایک بڑی مکڑی بیٹھی تھی۔ اور مکڑی کے برابرمیں ایک دیوہیکل بیر بہوٹی(اڑنے والا ایک کیڑا جو پودوں اور کھیتوں میں پایا جاتا ہے،جس کے لال پروں پر سیاہ دھبے ہوتے ہیں۔اسے انگریزی میں ”لیڈی برڈ“ یا ”لیڈی بگ“ کہتے ہیں) بیٹھی تھی جس کے لال خول پر نو(۹) کالے دھبے تھے۔
وہ تینوں ایک شاندار کرسی پر براجمان تھے۔ قریب ہی صوفے پر ایک کنکھجورااورکیچوانیم دراز حالت میں بیٹھے تھے۔
فرش کے اس گول سرے پر ریشم کے کیڑے جیسی کوئی موٹی اور سفید چیز لیٹی تھی۔ اگرچہ وہ سوتے میں خراٹے لے رہی تھی مگر ا س پر کوئی دھیان نہیں دے رہا تھا۔ وہ سب”جانور“ جیمز جتنے ہی بڑے تھے اور اوپرسے ہری روشنی سی آرہی تھی، یعنی چھت سے کچھ چمک رہا تھا مگر کو دیکھنے سے سب ہی کترا رہے تھے۔
”میں بھوکی ہوں!“ مکڑی نے اچانک تند نظروں سے جیمزکو دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں انتہائی بھوکا ہوں!“ بوڑھے، ہرے ٹڈے نے کہا۔
”میں بھی!“ بیر بہوٹی چلائی۔
”ہم سب بھوکے ہیں، ہمیں کھانا چاہئے!“ کنکھجورے نے صوفے پرسیدھا ہوتے ہوئے کہا۔
چار آنکھوں کے جوڑے جیمزپر جمے تھے اوروہ آٹھوں آنکھیں گول، کالی اور کانچ سی تھیں۔ کنکھجوراصوفے پر کلبلایا جیسے صوفے پر سے اتررہا ہومگر وہ اترانہیں۔
پھر خاموشی کا ایک لمبا وقفہ آیا۔
مکڑی نے اپنا منہ کھولا اوراپنی لمبی، کالی زبان باہر نکالی۔
”کیا تم بھوکے نہیں ہو؟“ اس نے فوراً پوچھا، آگے کوہوئی اور جیمز کو بغور دیکھا۔
بیچارا جیمز پیچھے کو ہوااور کانپنے لگا…… خوف کی وجہ سے کوئی جواب نہ دے سکا۔
”تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟“ بوڑھے ہرے ٹڈے نے پوچھا۔”تم بیمارلگتے ہو۔“
”ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک لمحے میں بے ہوش ہونے ولاہے۔“ کنکھجورا بولا۔
”ار ے میرے خدا! بے چارا……مجھے تو لگتا ہے کہ ہمیں اسے کھاکر اپنی بھوک مٹانی چاہئے۔“ بیر بہوٹی چیخی اور ہرطرف سے ہنسی کی آوازیں سنائی دیں۔
”میری پیاری!!کتنی بری سوچ ہے!“ ان سب نے ایک ساتھ کہا۔
”ڈرو مت!ہم تمہیں تکلیف دینے کا تو سوچ بھی نہیں سکتے۔!تم اب ہم ہی میں سے ایک ہو، کیا تم نہیں جانتے تھے؟…… تم اب اسی عملے میں سے ایک ہو،اورہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں!“
”ہم پورا دن تمہارا انتظار کرتے رہے۔“ بوڑھے ہرے ٹڈے نے کہا۔ ”ہمیں تو لگاتھاتم نہیں آپاؤگے مگرتم آگئے، مجھے خوشی ہے!“
”مزے کرو،میرے بچے،مز ے کر و!“کنکھجورے نے کہا۔ ”اور اب تم ادھرآؤاورمیر ے جوتے اتارنے میں مدد کرو۔مجھے گھنٹے لگ جاتے ہیں انہیں اتارتے اتارتے۔“

باب نمبر:12
جیمز نے سوچاکہ یہ ”ناں“ کہنے کے لئے غلط وقت ہے، سو کمرے کے درمیان سے گزر کر و ہ اس طرف گیاجہاں کنکھجورابیٹھاتھا۔
”تمہارا شکریہ، تم بہت اچھے اوررحم دل ہو۔“ کنکھجورے نے کہا۔
”آپ کے توبہت سے جوتے ہیں۔“ وہ بڑبڑایا۔
”میری بہت سی ٹانگیں اورپاؤں ہیں …… تقریباً ایک سو۔“ کنکھجورے نے فخر سے کہا۔
”یہ پھر سے شروع ہوگیا!یہ اپنی ٹانگوں کے بار ے میں جھوٹ بولنے سے کبھی باز نہیں آئے گا۔ اس کے پاس کوئی ایک سو پیرنہیں ہیں!اس کے صرف بیالیس پیرہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ بہت سے لوگ اس کے پیرگننے کی زحمت نہیں کرتے۔ وہ بس اس کی بات مان لیتے ہیں اورویسے بھی، یہ کسی کنکھجورے کے بارے میں حیرت انگیزبات نہیں ہے کہ اس کے بہت سارے پیرہیں۔“ کیچوے نے اس دوران پہلی دفعہ چلاکر کہا۔
”بیچارہ کیچوا!“ کنکھجورے نے جل کر جیمز کے کانوں میں سرگوشی کی۔”یہ اندھا ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ میرے پیرکتنے دل کش ہیں۔“
”میری رائے میں ……“ کیچوے نے کہا،”اصل زبردست اور حیرت انگیزچیزتو یہ ہے کہ جب آپ کے پیربھی نہ ہوں اور آپ اسی طرح چل پائیں ……“
”تم اسے چلنا کہتے ہو!“ کنکھجوراچلایا۔”تم خودکو گھسیٹ گھسیٹ کرچلتے ہواور تم ایسے ہی ہو!“
”میں سست رفتاری سے چلتا ہوں۔“ کیچوے نے نفاست سے کہا۔
”تم ایک دلدلی حیوان ہو!“ کنکھجورے نے جواب دیا۔
”میں دلدلی حیوان نہیں ہوں!“ کیچوے نے”نہیں“ پر زوردے کرکہا۔”میں بہت کارآمد اورمحبت کئے جانے والا جانورہوں۔ کسی بھی مالی سے جاکرپوچھ لو۔ مگر تمہارے لئے تو……“
”میں ایک کیڑاہوں!“ کنکھجورے نے اس کی بات مکمل کرتے ہوئے اعلان کیا۔ اس کے چہرے پر ایک تلخ مسکراہٹ تھی اور اس نے اپنی اطراف میں دیکھا تاکہ اپنے مطلب کا بیان سن سکے۔
(کنکھجور ے کیڑوں کے زمرے سے ذراباہر ہوتے ہیں کہ ان کی ٹانگیں بہت ساری ہوتی ہیں اور یہ پودوں کے لئے نقصان دہ ہوتے ہیں۔)
”اس کو اس بات کا بہت غرور ہے۔“ بیر بہوٹی نے مسکراکر جیمز سے کہا۔”پوری زندگی گزر گئی مگر یہ بات سمجھ نہ آسکی۔“
”میں اس کمرے میں اکیلا کیڑا ہوں۔“ کنکھجورا مسکراتے ہوئے چلایا۔”بس تم لوگ اس بوڑھے ٹڈے کو مت گنو۔ یہ اب بوڑھا ہوگیاہے اور اب یہ ایک کیڑا نہیں رہا۔“
بوڑھے ٹڈے نے اپنی بڑی، کالی آنکھوں کا رخ کنکھجورے کی طرف کرلیااور اسے ایک دکھی نظر سے دیکھا۔ ”چھوٹے ساتھی۔“ اس نے گہری، دھیمی اوربوڑھی آواز میں کہنا شروع کیا۔ ”میں اپنی زندگی میں کبھی کیڑانہیں رہا، میں ہمیشہ ہی سے ایک موسیقار رہا ہوں۔“
”سنو، سنو!“ بیر بہوٹی بولی۔
”جیمز۔“کنکھجورے نے کہا۔”تمہارا نام جیمز ہے نا؟“
”ہاں!“
”اچھا……جیمز، کیا تم نے کبھی میرے جیسازبردست عظیم الجثہ کنکھجورا دیکھا ہے؟“
”شاید…… نہیں۔“ جیمز بولا۔”تم اتنے بڑے کیسے ہوئے؟“
”بہت عجیب!“کنکھجورے نے آنکھیں گھماگھما کر کہنا شروع کیا۔”بہت بہت عجیب۔ میں بتاتا ہوں کیا ہوا تھا۔ میں باغ کو خراب کررہا تھا، اس آڑوکے بوڑھے درخت کے نیچے اور اچانک کچھ عجیب ہوا۔ میری ناک کے قریب کوئی مضحکہ خیز، ہری چھوٹی چیز کلبلاتی ہوئی آئی۔ وہ سبزچمک دار تو تھی ہی…… ساتھ ہی غیرمعمولی خوبصورت…… وہ چیزکسی چھوٹے پتھریا موتی سی تھی……“
”اوہ!میں جانتا ہوں وہ کیا تھا!“ جیمز چلایا۔
”یہی میرے ساتھ بھی ہوا۔“ بیر بہوٹی بولی۔
”اور میرے ساتھ بھی!“ مکڑی محترمہ بولیں۔”اچانک ہرطرف چھوٹی ہری چیزیں بکھرگئیں۔ مٹی ان سے بھر گئی تھی!“
”میں نے ایک نگل لیا تھا!“ کیچوے نے فخرسے اقرار کیا۔
”میں نے بھی!“ بیر بہوٹی نے کہا۔
”میں نے تین نگلے تھے۔“ کنکھجورے نے کہا۔”کہانی کون سنا رہا تھا؟بیچ میں مت بولو!“
”کہانیاں سنانے کو بہت دیر ہوچکی ہے اب“ بوڑھے ٹڈے نے کہا۔”اب سونے کا وقت ہے!“
”میں تو جوتوں میں نہیں سوسکتا!“ کنکھجورا چلایا۔ ”اب اورکتنے اتارنے رہتے ہیں جیمز؟“
”مجھے لگتا ہے کہ میں نے بیس اتارلئے ہیں۔“ جیمز نے بتایا۔
”یعنی ابھی اسی(80)رہتے ہیں۔“ کنکھجورے نے کہا۔
”بائیس رہتے ہیں، اسی نہیں“ کیچوے نے جل کر کہا۔
”پھرجھوٹ!“کنکھجورا زور زورسے ہنسنے لگا۔
”کیچوے کی ٹانگ کھینچنا بندکرو!“ بیر بہوٹی بولی۔ یہ سن کر کنکھجوراقہقہے لگانے لگا۔
”اس کی ٹانگیں؟……ہاہاہاہا۔“ وہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتا کیچوے کی طرف اشارہ کرکے بولا۔ ”میں نے کون سی ٹانگ کھینچی؟تم ہی بتاؤ۔“
آکر کارجیمز نے فیصلہ کرلیاکہ اسے کنکھجوراہی پسند ہے۔ اس بات میں توکوئی شک ہی نہیں تھاکہ وہ ایک بدمعاش تھامگر جیمزنے اپنی زندگی میں کچھ بدلاؤدیکھا تھا، اس نے سالوں میں پہلی دفعہ کس کو اتنے کھلے دل سے ہنستے دیکھا تھا۔ اس نے خالہ اسپونج اورخالہ اسپائکرکواپنے سامنے کبھی مسکراتے تک نہیں دیکھا تھا۔
”اب ہمیں سوجانا چاہئے۔“ بوڑھے،ہرے ٹڈے نے کہا۔ ”کل اس سے بھی زیادہ مصروف دن ہوگا…… محترمہ مکڑی! کیا آپ ہمارے بستر لگانے کی زحمت کریں گی؟“

باب نمبر:13
کچھ ہی منٹوں میں، محترمہ مکڑی نے پہلا بستر لگایا……جودھاگوں سے بندھاچھت سے یوں لٹک رہا تھا کہ درمیان میں جگہ خالی تھی۔ سو وہ بستر سے زیادہ ایک جالی دارکپڑے کا پلنگ لگ رہا تھا۔ مگر جو بھی تھا، وہ اس پیلی روشنی میں چمکتی ریشم سے بنا منفرد پلنگ تھا۔
”امید ہے یہ آرام دہ لگے گا۔“ محترمہ مکڑی نے بوڑھے ٹڈے سے کہا۔ ”جہاں تک ممکن تھا، میں نے اسے بہت نرم بنایا ہے۔ میں نے اسے باریک جالوں سے بنا یا ہے، اس طرح یہ زیادہ اچھا بنتا ہے اور خوبصورت ہوتا ہے اور میرے جالوں سے بھی زیادہ اچھے معیار کا ہوتا ہے۔“
”تمہارا بہت بہت شکریہ ہماری محترمہ مکڑی۔“بوڑھے ٹڈے نے اس بستر میں چھلانگ لگاتے ہوئے کہا۔”آہ! یہ ویسا ہی ہے جیسا مجھے چاہئے تھا، شب بخیر!“
پھر مکڑی محترمہ نے دوسرا بستر بنایا اور بیر بہوٹی اس میں کود پڑی۔
اس کے بعد، اس نے ایک لمبا سا بسترکنکھجورے کے لئے بنایا اور کیچوے کے لئے اس سے بھی زیادہ لمبا۔
”تمہیں تمہارا پلنگ کیسا لگا؟“ جب جیمز کی باری آئی تو اس نے اس سے پوچھا۔ ”سخت یا نرم؟“
”نرم لگ رہا ہے۔ تمہارا شکریہ!“ جیمز نے جواب دیا۔
”خداوند کا واسطہ!کمرے کا جائزہ لینا بند کرو اور میرے جوتے اتارو!“ کنکھجورا بولا۔”تم اور میں یہاں ان کی طرح کبھی دیر تک نہیں رہ سکتے۔۔۔برائے مہربانی ان سب جوتوں کے جوڑے بناکر ایک قطار میں رکھو اور جو جوتے اتار رہے ہو ان کو بھی اسی طرح رکھنا…… ان کو اپنی پیٹھ کے پیچھے بے دلی سے مت پھینکو۔“
جیمز دیوانہ وار اس کنکھجورے کے جوتے اتار رہا تھا۔ ہر جوتے میں تسمے تھے جن کو کھول کر اتارنا تھا اور ان کو اتارنا ایک اور مصیبت یوں بھی تھی کہ ہر جوتے پر تسمے ایسے برے طریقے سے بندھے تھے کہ ان کو ناخنوں سے ادھیڑنا تھا۔ یہ بے حد برا کام تھا۔ اس کام نے دو گھنٹے لئے۔ اور جب تک جیمز نے وہ سب اتارے اور ان کی قطار بنالی، کنکھجورا سوچکا تھا۔ وہ کل اکیس(21) جوڑے تھے۔
”اٹھو، کنکھجورے۔“ جیمز نے سرگوشی کی اور اس کے پیٹ کو ذرا سا ہلایا۔”اپنے پلنگ پر جاؤ……!“
”شکریہ میرے بچے۔“ کنکھجورے نے کہا اور آنکھیں کھولیں۔ پھر وہ صوفے سے اٹھا، کمرہ پار کیا اور اپنے پلنگ پر جالیٹا۔ جیمز بھی لیٹ گیا۔ اس کا پلنگ بھی آرام دہ اور نرم تھا۔ خالہ اسپائکر اورخالہ اسپونج نے تو ہمیشہ سے ہی اسے سخت تختوں پر سلایا تھا۔
”بتی بجھاؤ!“ کنکھجورے نے تھکے ہارے لہجے میں کہامگر کچھ نہیں ہوا۔
”بتی بجھاؤ!“ اس نے آوازبلند کی۔
جیمز نے کمرے کو طائرانہ نظروں سے دیکھا اور سوچنے لگا کہ یہ کنکھجورا کس سے بات کررہا ہے جب کہ سب تو سو رہے ہیں۔ بوڑھا ہرا ٹڈا خراٹے لے رہا تھا۔بیر بہوٹی سوتے ہوئے سیٹی کی آواز نکال رہی تھی اور کیچوا بالکل اسپرنگ کی طرح گول ہوکر سورہا تھااور اس کے کھلے منہ سے سیٹی کی آواز نکل رہی تھی جوکہ گہری نیند کی علامت تھی۔ مکڑی محترمہ نے تو کمرے کے کونے میں اپنے لیے ایک دل کش جالا بن رکھا تھا۔ جیمز مکڑی محترمہ کو جالے کے وسط میں بے نیاز لیٹے اپنے خوابوں میں کھوئے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔
”میں نے کہا بتی بجھاؤ!“ کنکھجورا غصے سے چلایا۔
”کیا تم مجھ سے بات کررہے ہو؟“ جیمز نے پوچھا۔
”نہیں! تم سے نہیں احمق!…… یہ پاگل جگنو اپنی بتی بجھائے بغیر سوگئی۔“ کنکھجورے نے جواباً کہا۔ اور تب ہی اس نے ایک غیر معمولی منظر دیکھا۔ وہ کم از کم تین فٹ کی دیو ہیکل مکھی جیسی کوئی چیز تھی جس کے پر نہیں تھے اور وہ چھت پر الٹی بیٹھی تھی۔ اس کی چھ ٹانگیں چھت سے چپکی ہوئی تھیں اور دم ایسی لگ رہی تھی جیسے اس پر آگ لگی ہو۔ ایک دمکتی، ہری روشنی تھی جیسے کوئی بجلی سے جلنے والا بلب اس کی دم پر ہو اور جس نے سارے کمرے کو روشن کر رکھا ہو۔
”کیا یہ کوئی جگنو ہے؟“ جیمز اس روشنی کو دیکھتے ہوئے پوچھ بیٹھا۔ ”مجھے تو یہ کوئی کیڑا ہی نہیں لگتا۔“
”ہاں ظاہر ہے یہ جگنو ہے اور یہ اپنے آپ کو یہی کہلواتی ہے…… مگر تم درست ہو یہ کوئی کیڑا نہیں ہے۔ جگنو کبھی کیڑے نہیں ہوتے۔ یہ بس جگنوؤں کی مادہ ہے۔ اٹھو! حیوان……!“ کنکھجورے نے ”کہلواتی“ پر زور دے کر کہا جیسے بتا نا چاہتاہو کہ یہ مادہ ہے۔
”بس اس کے پر نہیں ہیں …… مادہ جگنو کے پر ہوتے بھی نہیں ہیں۔“ کنکھجورے نے مزید کہا۔
مگر وہ مادہ جگنو ہلی تک نہیں، سو کنکھجورا پلنگ سے اٹھا اور اپنا جوتا گیلے فرش سے اٹھا یا۔ ”اس بے کار بتی کو بند کرو۔“ وہ چیخا اور جوتا چھت پر دے مارا۔
مادہ جگنو نے آہستہ سے ایک آنکھ کھولی اور کنکھجورے کوگھورا۔”غیرمہذب ہونے کا وقت نہیں ہے۔ وہ بھی اتنے اچھے وقت میں۔“ اس نے سردمہری سے کہا۔
”چلو!چلو! بند کرو یہ ورنہ میں اسے تم سے جدا کردوں گا!“ کنکھجورا جواباً چلایا۔
”اوہ! ہیلو جیمز!“ مادہ جگنو نے جیمز کو ہاتھ ہلا کر کہا۔”میں نے تمہیں آتے نہیں دیکھا۔ خوش آمدید بچے، خوش آمدید……اور شب بخیر۔“
پھر ایک ”کلک“کی آواز سے وہ بتی بجھ گئی۔
جیمز ہنری ٹروٹر اندھیرے میں وہیں لیٹا رہا، اس کی آنکھیں پوری کھلی ہوئی تھیں اور وہ ان جانوروں کی خوابیدہ آوازسنتا رہا۔ ساتھ ساتھ وہ یہ بھی سوچ رہا تھاکہ صبح کیا ہونے والا ہے۔ ابھی سے وہ اپنے نئے دوستوں کو پسند کرنے لگا تھا۔ وہ اتنے بھیانک نہیں تھے جتنے لگتے تھے۔ بلکہ وہ تو ڈراؤنے تھے ہی نہیں۔ وہ سب تو بہت رحم دل اور مددگار تھے……ہاں! اگروہ ایک دوسرے پر چلائیں نہ تو ان کی اس صفت پر کوئی داغ نہ آئے۔
”شب بخیر، بوڑھے، ہرے ٹڈے۔“ اس نے سر گوشی کی۔ ”شب بخیر بیر بہوٹی……سب بخیر مکڑی محترمہ……“ مگر اس سے پہلے وہ سب کو شب بخیر کہتا، وہ نیند کے دریا میں ڈوب چکا تھا۔

باب نمبر:14
”ہم جا رہے ہیں!“ کسی کے چلانے کی آواز آئی۔”آخرکار ہم جا رہے ہیں!“
جیمز جھٹکے سے اٹھ بیٹھااور آس پاس دیکھنے لگا۔
سب جانور اپنے اپنے پلنگ سے اترے ہوئے تھے اور پرجوش انداز میں ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ اچانک فرش نے ایک جھٹکا لیا جیسے زلزلہ آگیا ہو۔
”ہم سب …… واپس جا رہے ہیں!“ بوڑھا، ہرا ٹڈا جوش وخروش سے اچھل رہا تھا۔”مضبوطی سے ہر چیز تھامے رکھو ہم اتر رہے ہیں!“
”کیا ہورہا ہے؟“ جیمز بستر سے اٹھ کر چلایا۔”کیا چل رہا ہے؟“
بیر بہوٹی،جو رحم دل اور نرم دل جانور تھی، قریب آئی اور اس کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔
”اگر تم نہیں جانتے تو…… ہم اس بھوتیا پہاڑی سے جارہے ہیں …… ہمیشہ ہمیشہ کے لئے…… جہاں ہم ہمیشہ سے رہے ہیں وہاں سے……! ہم اس جگہ سے پھسل کر، اس دیوہیکل، خوبصورت آڑو میں بیٹھ کر…… ہم…… ہم…… ہم…… جارہے ہیں۔“ بیر بہوٹی بولی۔
”مگر کہاں؟“ جیمز نے سوال کیا۔
”کہیں بھی ……کیونکہ جہاں بھی گئے، وہ خطہ اس ویران اور بھوتیاپہاڑی سے تو اچھا ہی ہوگا…… اور تمہاری دو بری خالاؤں سے بھی جان چھوٹے گی!“
”سنو! سنو!“ سب چلائے۔ ”سنو، سنو……!“
”تم لوگوں نے نہیں دیکھا ہوگا……“ بیر بہوٹی شروع ہوگئی۔”مگر پورے باغ میں، ہم سب سے بلندی پر ہیں۔ واحد چیز جوآڑو کے راستے میں رکاوٹ ہے، وہ ہے ٹہنی جس پر یہ آڑو لگا ہے۔ کوئی وہ ٹہنی توڑ ڈالو……“
”دیکھتی جاؤ!“ مکڑی محترمہ چیخیں اور کمرہ ایک بار پھر ہلا۔”ہم جانے لگے ہیں۔“
”چپ مت کرو! بولتی جاؤ!“ آواز آئی۔
”اس وقت، ہمارے کنکھجورے بھیا کے پاس تیز ترین جبڑے ہیں، وہ آڑو کے اوپری حصے سے ٹہنی کاٹ رہے ہیں۔ درحقیقت، ان کا کام بس مکمل ہونے ہی والا ہوگا۔ تم لوگ تو دیکھ ہی سکتے ہو ہم بار بار کسی ایک طرف کو جھک رہے ہیں۔ لڑکے، کیا تم چاہتے ہو میں تمہیں اپنے پر میں چھپا لوں تاکہ جب ہم گرنے لگیں تو تمہیں چوٹ نہ آئے……؟“ بیر بہوٹی کی تقریر ختم ہوئی۔
”تمہارا شکریہ مگر مجھے لگتا ہے میں محفوظ رہوں گا۔“ جیمز مسکرایا۔
بس پھر کیا تھا، کنکھجورے نے اپنا مسکراتا چہرہ چھت سے اندر کو کیا اور چلایا،”میں مکمل کرچکا ہوں …… ہم جارہے ہیں۔“
”ہم جارہے ہیں!!“ سب خوشی سے چلائے۔
”اور ہمارا سفر شروع ہوا!“ کنکھجورا بولا۔
”اور کون جانتا ہے کہ اس سفر کی منزل کیا ہو؟“ کیچوا بولا۔
”اگر تم کچھ کر سکتے ہو تو وہ کام بڑھانا اور مصیبت لانا ہے۔“
”بالکل!“ بیر بہوٹی بولی۔“اب ہم سب سے خوبصورت جگہ پر جارہے ہیں اور ہم بہترین چیزیں دیکھیں گے…… کیا ایسا نہیں ہے…… کنکھجورے؟“
”کوئی نہیں جانتا ہم کیا دیکھنے والے ہیں!“اس نے جواباً چلاکر کہا۔
”شاید ہم اننچاس (49) سروں والا جانوردیکھیں، جو برفیلے ویرانے میں رہتا ہو، اور جب اسے ایسی سخت سردی لگ جائے کہ وہ گھبراہٹ کا شکار ہو جائے تو اس کے پاس چھینکنے کو اننچاس (49) ناک ہوں۔“
”شاید ہم کوئی زہریلی، گلابی دھبوں والی بلی دیکھیں، جو انسان کو ایک نوالے میں کھا جائے، وہ پانچ آدمی دوپہر میں کھائے، اور اٹھا رہ رات میں۔“
”شاید ہم کوئی اڑنے والا اژدہا دیکھیں جسے کوئی نہ جانتا ہو…… یاوہاں ہم کوئی اڑنے والا گھوڑا دیکھیں …… یا کوئی بھیانک بلا دیکھیں جس کے پیرکے انگوٹھے ہوں …… جو اس کے گچھے گچھے ہوئے بالوں سے نکلیں۔“
”یا شاید ہم کوئی پیاری سی چھوٹی، چمکتی ہوئی مرغی دیکھیں، جو کھیلنے والی، رحم دل اور اعلیٰ نسل کی ہو، جس کے خوبصورت انڈے ہوں …… آپ انہیں ابالیں اور پھر وہ پھٹ جائیں اور آپ کا سر چکر ا جائے۔“
”ایک افریقی ہرن یا کوئی عجیب گینڈا، جس کا جسم بہت بڑا ہو اور دانت بھیانک ہوں، اگر وہ اپنے دانت آپ کے گھٹنے میں گاڑ دے تو وہ آپ کے سر سے نکلیں۔“
”شاید ہم کھوجائیں اور برف سے جم جائیں،
یا زلزلے میں لقمہ اجل بن جائیں،
یا کسی گندی جگہ گر جائیں،
اور مصیبت ہمارے آس پاس ہو۔“
”مگر پروا کسے ہے؟ ہمیں اس بھوتیا پہاڑی سے تو نکل جانے دو!ہمیں گرنے دو۔ لڑھکنے دویا غوطہ لگانے دو، ہم گول گھومتے رہیں، لڑھکتے رہیں، یا گرتے رہیں تب تک جب تک ہم بوڑھی اسپائکر اور اسپونج سے دور نہ چلے جائیں!“
ایک لمحے بعد……آہستہ سے، مکاری سے، نرمی سے، بڑا آڑو آگے کی طرف چلنے لگا۔ سارا کمرہ ہلنے لگا اور میز کرسی وغیرہ گر کر، سامنے والی دیوار پر جالگے۔ جیمز،بیر بہوٹی، بوڑھا ہرا ٹڈا، مکڑی محترمہ، کیچوا اور کنکھجورا(جواوپر سے نیچے گرا تھا) دیوار سے جاٹکرا ئے۔

باب نمبر:15
اسی وقت،باغ کے مرکزی دروازے پر،خالہ اسپونج اور خالہ اسپائکرنے، ٹکٹ ہاتھ میں تھام کر اپنی اپنی جگہ سنبھال لی تھی اور ناظرین کی پہلی لہر پہاڑی سے چڑھائی کرتی نظر آرہی تھی۔
”آج تو بہت کمانا ہے۔“ خالہ اسپائکر بولیں۔”لوگوں کو تو دیکھو ذرا……“
”میں تو سوچ رہی ہوں اس گندے لڑکے کا رات کیا بنا؟ وہ آیا ہی نہیں …… کیا آیا تھا؟“ خالہ اسپونج نے کہا۔
”شاید وہ اندھیرے میں گر گیا ہو اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہو۔“ خالہ اسپائکر نے کہا۔
”یا شاید اس کی گردن۔“ خالہ اسپونج نے پرامید لہجے میں کہا۔
”میرا یہاں انتظارکرومیں ذرا اس پر ہاتھ صاف کر آؤں۔“خالہ اسپائکر نے چھڑی گھما کر کہا۔”وہ آئندہ کبھی اتنی رات تک باہر رہنے کا اور رات گزارنے کا سوچے گا بھی نہیں …… یاخدا! یہ بری آواز کیسی ہے؟“
دونوں عورتیں مڑیں۔
ظاہر ہے وہ آواز اس دیوہیکل آڑو ہی کی تھی کہ اس نے وہ چار دیواری توڑ ڈالی تھی جو اس کا راستہ روک رہی تھی۔ لمحہ بہ لمحہ، شور بڑھتا گیا اور وہ آڑو اس جگہ کے قریب آتا گیا جہاں خالہ اسپونج اورخالہ اسپائکر کھڑی تھیں۔
پہلے توبھاگنے سے ان کے درمیان کچھ فاصلہ ہو گیا۔پھر وہ چلائیں اور مزیدبھاگنے لگیں۔پھر وہ قریب قریب ہوگئیں اور ان کی پریشانی بڑھ گئی تو اور تیز بھاگنے لگیں۔ بھاگتے ہوئے وہ دونوں ایک دوسرے کے راستے میں آنے لگیں۔اس وقت وہ ایک دوسرے کو دھکے دے کرصرف اپنی زندگی بچانے کا سوچ رہی تھیں۔موٹی سی خالہ اسپونج، اس ڈبے پر لڑکھڑائیں جو وہ اپنے ساتھ پیسے رکھنے کے لئے لائی تھیں، لڑھکتی، رینگتی، چیختی، ایک دوسرے کو مارتی وہ دونوں اٹھنا چاہ رہی تھیں مگر اس سے پہلے کہ وہ اٹھ پاتیں، آڑو ان پر آپہنچا۔ پھر ایک چرچراہٹ سی ہوئی۔
پھر خاموشی……
آڑو گزر گیا۔ مگر اس کے پیچھے، خالہ اسپونج اور خالہ اسپائکر، گھاس پر ایسے سیدھی اور پتلی ہوکر لیٹی تھیں جیسے دو بے جان کاغذ کی گڑیاں ہوں، جن کو کسی تصویری کتاب سے تراشا گیا ہو۔

باب نمبر:16
اور اب آڑو باغ سے نکل کر،اچھلتا گھومتا،خوف ناک رفتار کے ساتھ پہاڑی کے کنارے بالکل نوکیلی جگہ پرپہنچ چکا تھا۔ جتنی تیزی سے وہ گزرا …… پہاڑی پر چڑھنے میں مصروف لوگ رکے اور دیکھنے لگے کہ وہ دیو ہیکل آڑو انہی طرف آرہا ہے۔ وہ چیختے چلاتے دائیں بائیں بکھر گئے اور آڑو اور تیزی سے گزرگیا۔
پہاڑی سے اتر کر آڑو سڑک پر آگیا، اس نے ایک کھمبا گرادیا اور دو کھڑی گاڑیوں کوبھی استری کرکے سیدھا کردیا۔
پھر وہ آڑو پاگلوں کی طرح بیس کھیتوں سے گزر گیا اورگزرا بھی ایسے کہ راستے میں آنے والی ہر باڑ، ہر چار دیواری کو توڑ تا گیا۔ وہ گائے، بیلوں کے جھنڈ کے وسط میں پہنچا،پھر بھیڑوں کے درمیان سے گزرا، پھر ایک گھوڑوں سے بھرے اصطبل کا سفر طے کیااور جلد ہی وہ گاؤں ادھر ادھر بھاگتے جانوروں کا میدان حشر بن گیاتھا اور ہر طرف بھاگتے جانور ہی نظر آنے لگے۔
آڑو ابھی تک اتنی ہی تیزرفتارمیں دوڑ رہا تھااور اس کے رکنے کا کوئی اشارہ نہیں مل رہا تھا۔ لوگ اس کے آتے ہی ادھر ادھر، دائیں بائیں دوڑنے لگتے اور پھر یہ ہوا کہ……آڑو گلی کے آخر میں بنی ایک عمارت کے اندر سے گزر کر دوسری طرف سے نکل آیا اور اس عمارت کے درمیان، اورآگے پیچھے سے بڑا، گول شگاف پڑ گیا جیسے کوئی بڑی تباہی گزر گئی ہو۔
اور جانتے ہووہ عمارت کس چیز کی تھی؟ اس عمارت کے اندر ایک مشہور چاکلیٹ بنانے کا کارخانہ تھا اور بس پھر، ایک ہی بار میں اندر سے ایک بڑا سا دریا باہر نکل آیا۔ وہ دریااصل میں گرم، پگھلی ہوئی چاکلیٹ کا تھا۔ پھر ایک منٹ میں ہی وہ چپچپا، ناگوار اور گاڑھا پانی گاؤں کی ہر گلی سے گزرنے لگا،پھر وہ دروازوں کے نیچے سے، گھروں کے اندر، باغوں اور دکانو ں میں بھی پہنچ گیا۔ وہ چاکلیٹ بچوں کے گھٹنوں تک آرہی تھی اور کچھ تو اس میں تیر بھی رہے تھے، کچھ لوگ تو چاکلیٹ کو چاٹ کر اس صورتحا ل کے مزے لوٹ رہے تھے۔
جلد ہی آڑواس گاؤں سے نکل کر اپنے پیچھے تازہ تباہی کے آثار چھوڑے، بے نیاز چلتا گیا……اور چلتا رہا۔
باڑے،اصطبل، بنگلے، جو کچھ اس کے راستے میں آیا وہ سب کو کچلتا گیا۔ ایک عمر رسیدہ آدمی نہر کے کنارے مچھلی کا کانٹا لیے خاموشی سے بیٹھا تھا، جیسے ہی اس نے آڑو کو آتے دیکھا، وہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ایک عورت جس کا نام ”ڈیزی اینٹ وسل“ تھا، وہ بھی قریب ہی کھڑی تھی سو آڑو اسے بھی کچل گیا۔ اس کی لمبی ناک کی کھال ادھڑ گئی۔
کیا وہ کبھی رکے گا؟
مگر کیوں ……؟ ایک گول چیز توہمیشہ گھومتی ہی رہے گی جب تک وہ کسی پہاڑی سے گر کر، پھسل پھسل کر سمندر میں نہ گر جائے…… وہی سمندر جہاں جانے کی اجازت لینے کے لئے جیمز کو اپنی خالاؤں سے بھیک مانگنی پڑتی تھی۔
خیر، جیمزاسی سمندر میں جانے والا تھا۔کیونکہ آڑوسمندراور سمندر کے کنارے واقع سفید چٹانوں سے قریب ہوتا جارہا تھا۔
یہ چٹانیں پورے انگلستان میں بے حد مشہور تھیں۔ وہ کم از کم سو فٹ کی اونچائی پر ہوتی ہیں۔ ان کے نیچے سمندر ٹھنڈا یخ اورگہرا ہوتا ہے۔ وہ سمندر بھوکا بھی ہوتا ہے۔ بہت سے بحری جہاز اور ان میں سوار افراد کونگل جاتا ہے اور وہ ہمیشہ کے لئے کھوجاتے ہیں۔ آڑو کنارے پر موجود ایک سفید چٹان سے بس سو ہی قدم دور تھا…… پھر پچاس…… پھر بیس……پھر دس……پھر پانچ اور پھر وہ اس چٹان کے اختتام پرپہنچ گیا۔ اور پھر چٹان نے اسے ایسی منہ کی کھلائی کہ وہ آسمان کی طرف اڑا …… ادھر کچھ لمحے رہا اورپھر گھومتے گھومتے نیچے کو آنے لگا……
نیچے……
اور نیچے……
نیچے……
نیچے……
نیچے……
پھر ایک آواز نے جنم لیا جو پانی پر تھپڑ مارنے سے پیدا ہوتی ہے۔ آڑو نے خوب پانی اڑایا اور کنکر کی طرح ڈوبتا چلاگیا۔ مگر کچھ ہی لمحوں میں پھر اوپر آیا، مگر اس بار، اوپر ہی رہا، پانی کی سطح پر مزے سے تیرتا گیا۔

باب نمبر:17
اس وقت جب آڑو نے چار دیواری توڑی تو، آڑو کا اندر کا منظر کچھ اور ہی تھا۔ بے چینی ہی بے چینی! جیمز تو ایسے لگتا تھا اڑ کر زمین پر گرا ہو اور اس کے ساتھ ہی وہ گول گول کنکھجورا، کیچوا، مکڑی، بیر بہوٹی، مادہ جگنو اور بوڑھا ہرا ٹڈابھی تھے۔ تاریخ میں کبھی کسی سیاح نے ایسا ہول ناک سفر نہیں کیا ہوگا جتنا ان بدقسمت جانور وں اور ایک انسان نے کرلیا تھا۔ یہ سفر شروع توہنسی خوشی ہوا تھا مگر جیسے ہی کچھ لمحے گزرے، آڑو نے ان کی روح ہی قبض کرلی۔اگر وہ تھوڑا بہت ہل رہے ہوتے تو شاید گول گول گھومنا کسی کو اتنا برا نہ لگتا……مگر جب وہ اتنی تیزی سے نکلا اور پھر اس نے خالاؤں کوکچلا تو کنکھجورا چلایا تھا۔”یہ خالہ اسپونج تھی۔“ پھر ایک آواز آئی،وہ چلایا۔”یہ خالہ اسپائکر تھی۔“
اندر ہر طرف تالیاں گونج اٹھیں۔ مگر جیسے ہی آڑو باغ سے نکلا اور نوکیلی پہاڑی سے جھولتے ہوئے اترا، تو ساری چیزیں ہی یک دم ایک ڈراؤنا منظر بن گئیں۔ جیمز نے خود کو چھت پہلے سے ٹکرا کر نیچے گرتے، پھر دائیں بائیں دیواروں سے ٹکراتے، پھر دوبارہ چھت سے لگتے ہوئے دیکھا……پھر اور اوپر نیچے، دائیں بائیں، گول گول گھومتے محسوس کیا……اور اسی وقت سب جانور ہر سمت میں اڑ رہے تھے، کرسیاں، صوفے اورساتھ ہی کنکھجورے کے وہ بیالیس جوتے بھی۔ وہ سب اس دیوہیکل آڑو میں مٹر کے دانوں کی طرح اڑ رہے تھے اور آواز ایسی تھی جیسے کوئی پاگل جن شور مچا رہا ہو اور رکنے کا نام نہ لے رہا ہو۔ اوپر سے ایک اور برائی یہ آئی کہ مادہ جگنو کی بتی خراب ہوگئی اور کمرہ گہری تاریکی میں گھرگیا۔ ہر طرف چیخ و پکارتھی۔ کوئی لعن طعن کررہا تھا، کوئی رو رہا تھا۔ ہر چیز گولائی میں گھوم رہی تھی اور ایک بار تو جیمز نے دیوار سے نکلتی ہوئی کچھ موٹی سلاخوں کو پکڑ لیا جواصل میں کنکھجورے کی ٹانگیں تھیں۔”چھوڑو! احمق!“کنکھجورا چیخا اور جیمز کو زور دار لات رسید کی کہ وہ پورے کمرے کا چکر لگا کر، بوڑھے ٹڈے کی نوکیلی گود میں گر پڑا۔ دوبار تو وہ مکڑی محترمہ کی ٹانگوں میں الجھ گیا اور آخر میں، کیچوے کی گود میں گرا جو بیچارا پہلے ہی گر کر خود کو گھسیٹ رہا تھا مگر اس نے جیمز کے گردگولائی میں اپنا جسم لپیٹ لیا اور پھر وہ جیمز کو اس گول جلیبی سے نکال بھی نہیں پارہا تھا۔
اوہ! یہ ایک بدحواس کردینے والا ہول ناک سفر تھا! مگر اب یہ سب ختم ہوگیا تھا، وہ کمرہ اچانک بالکل ساکن اور خاموش ہوگیا۔ ہر کوئی آہستہ آہستہ خود کو ایک دوسرے سے الگ کرنے لگا۔
”تھوڑی روشنی تو دو!“ کنکھجورا چلایا۔
”ہاں! روشنی دو!“ سب چلائے۔
”میں کوشش کررہی ہوں ……اچھی طرح! صبرکا مظاہرہ کرو۔“ بے چاری مادہ جگنو بولی۔
اب سب نے خاموشی سے انتظار کرنے لگے۔
پھر ایک مرجھائی ہوئی، ہری روشنی کمرے کو منور کرنے لگی اور آہستہ آہستہ مادہ جگنو کی دم سے نکلتی ہوئی روشنی تیز ہوگئی۔
”ایک یادگار سفر!“ کنکھجورا کمرے میں جھومتا ہوا بولا۔
”میں کبھی پہلے جیسا نہیں ہو پاؤں گا۔“ کیچوا بڑبڑایا۔
”میں بھی نہیں۔“ بیر بہوٹی بولی۔”یہ چیز میری زندگی چھین لے گی مجھ سے۔“
”مگر پیارے دوستو! ہم یہاں سلامت ہیں!“ بوڑھے ٹڈے نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا، گویا انہیں خوش کرنا چاہتا ہو۔
”کہاں؟“ سب بولے۔ ”ہم کہاں ہیں؟“
’میں نہیں جانتا۔“ ٹڈا بولا۔”مگر ہم کسی اچھی جگہ پر ہیں۔“
”شاید ہم کوئلے کی کان سے نیچے ہیں۔“ کیچوا اداسی سے بولا۔
”ہم نیچے جارہے تھے اور اچانک، آخر لمحے میں ……مجھے اپنے پیٹ میں کچھ محسوس ہوا……اورابھی بھی ہورہا ہے۔“
”ہوسکتا ہے ہم موسیقی اور گیتوں سے بھرے کسی خوبصورت ملک کے بیچوں بیچ ہوں۔“ بوڑھے ٹڈے نے کہا۔
”یا سمندر کنارے۔“ جیمز بے چینی سے بولا۔”جہاں میرے ساتھ کھیلنے کو بہت سے بچے ہوں!“
”معاف کرنا۔“ بیر بہوٹی پیلے چہرے کے ساتھ بڑبڑائی۔ ”کیا میں غلط تو نہیں سوچ رہی کہ ہم لوگ اوپر نیچے ہورہے ہیں۔“
”اوپر نیچے!“ سب چلائے۔ ”کیا مطلب؟“
”تم ابھی تک چکرائی ہوئی ہو۔ تم ایک منٹ میں ٹھیک ہوجاؤ گی۔ کیا میرے ساتھ کوئی اوپر چل کر باہر دیکھنا چاہے گا؟“ ٹڈا بولا۔
”ہاں!ہاں! چلو!“ سب گنگنائے۔
”میں ننگے پاؤں باہر نہیں نکل سکتا۔ پہلے مجھے جوتے پہننے ہوں گے۔“ کنکھجورا بولا۔
”خدا کے لئے اب پھر سے بحث مت شروع کردینا۔“ کیچوا بولا۔
”چلو سب کنکھجورے کو ایک ایک کر کے جوتے پہنائیں۔“بیر بہوٹی بولی۔
پھر وہ سب کنکھجورے کی مدد میں لگ گئے سوائے مکڑی محترمہ کے کہ وہ دھاگے سے ایک سیڑھی بن رہی تھیں جو چھت تک جاسکے تاکہ سب باہر کا منظر دیکھ سکیں۔ بورھے ٹڈے نے صحیح کہا تھا کہ پہلے انہیں کونے والے سوراخ سے نہیں بلکہ اوپر والے سوراخ سے یہ دیکھنا چاہئے کہ ہم ہیں کہاں۔
پھر آدھے گھنٹے میں، سیڑھی بن اور لگ چکی تھی اور بیالیسواں جوتا بھی کنکھجورے کو پہنا دیا گیا تھا اور اب وہ لوگ باہر جانے کو تیار تھے۔ سب خوشی سے چلا رہے تھے کہ آخر کار انہیں جس کی توقع تھی وہی ہونے کوتھا۔ سب ہی باہر دیکھنے کوبے تاب تھے اور پھر وہ پوری آڑو کی قوم سیڑھی چڑھنے لگی اور آہستہ آہستہ سب اس دہانے میں غائب ہونے لگے جو چھت پر بنا تھا۔ وہ دہانہ بالکل سیدھا اور اوپر کی طرف تھا۔

باب نمبر:18
ایک منٹ میں، وہ سب آڑو کے اوپر ٹوٹی ٹہنی کے تھوڑے قریب تھے،وہ اپنی آنکھیں دھوپ میں جھپکاتے، ادھر ادھر دیکھنے لگے۔
”کیا ہوا؟“
”ہم کہاں ہیں؟“
”مگر یہ ممکن نہیں ہے۔“
”غیر یقینی!“
”ہول ناک!“
”میں نے تو کہا تھا نا کہ ہم اوپر نیچے ہورہے ہیں!“ بیر بہوٹیبولی۔
”ہم سمندر کے وسط میں ہیں!“ جیمز خوشی سے چلایا۔ اور ہاں، یقینا وہ وسط میں ہی تھے۔
تیز رفتار ہوائیں آڑو کو کنارے سے اتنی دور لے آئی تھیں کہ زمین کہیں نہیں دکھ رہی تھی۔ ان کے آس پاس صرف گہرا، سیاہ اور بھوکا سمندر تھا۔ چھوٹی چھوٹی لہریں اس آڑو سے ٹکراکر واپس چلی جاتیں۔
”مگر یہ ہوا کیسے؟“ سب چلائے۔ ”کھیت اور جنگل کہاں ہیں؟انگلستان کہاں ہے؟“
جیمز سمیت کوئی یہ سمجھ ہی نہیں پارہا تھاکہ یہ سب ہوا کیسے۔
”بہنو اور بھائیو!“ بوڑھے ٹڈے نے بہت ضبط سے کہنا شروع کیا تاکہ اپنی آواز سے خوف اور مایوسی دور رکھ سکے۔”مجھے لگتا ہے کہ ابھی ایسا دہلا دینے والابہت کچھ ہونے کو ہے۔“
”دہلانے والا؟“ کیچوا چلایا۔”میرے پیارے بوڑھے ٹڈے ہم ختم ہونے والے ہیں! ہم سب مرجائیں گے اب! میں بھلے ہی اندھا ہوں مگر کیا تم جانتے ہو؟ میں صحیح سے دیکھ سکتا ہوں!“
”میرے جوتے اتارو!میں جوتوں کے ساتھ نہیں تیر سکتا۔“ کنکھجورا بولا۔
”مجھے تو تیرنا ہی نہیں آتا!“بیر بہوٹی بولی۔
”مجھے بھی نہیں!“ مادہ جگنو چلائی۔
”مجھے بھی نہیں! ہم تینوں عورتیں تو بالکل ہی نہیں تیرسکتیں۔“ مکڑی محترمہ بولی۔
”مگر تمہیں تیرنا نہیں ہے۔“ جیمز نرمی سے بولا۔ ”ہم خوبصورتی سے تیر رہے ہیں۔ جلد یا بدیر کوئی بحری جہاز آئے گا اور ہمیں لے جائے گا۔“
ان سب نے اسے حیرانی سے دیکھا۔
”کیا تمہیں یقین ہے کہ ہم ڈوب نہیں رہے؟“ بیر بہوٹی پوچھ بیٹھی۔
”ہاں! مجھے یقین ہے!“ جیمز نے جواباًکہا۔”جاؤ اورخود دیکھو۔“
وہ سب آڑو کی دوسری طرف بھاگے اور پانی کوتکتے رہے۔
”یہ لڑکا ٹھیک کہتا ہے۔“ ٹڈا بولا۔”ہم آرام سے تیر رہے ہیں۔ اب ہم سب کو آرام سے بیٹھ جانا چاہئے۔ آخر میں ہر چیز ٹھیک ہوجائے گی۔“
”کیا بکواس ہے؟“ کیچوا چلایا۔”آخر میں کچھ ٹھیک نہیں ہوتا یہ تم جانتے ہو!“
”بیچارا کیچوا!“ بیر بہوٹی نے جیمز کے کان میں سرگوشی کی۔”اس کو ہر چیز کو آفت بنانے میں مزہ آتا ہے۔ اس کو خوش رہنے سے نفرت ہے۔ یہ صرف اس وقت خوش ہوتا ہے جب یہ مایوس ہوتا ہے۔ یہ عجیب نہیں؟ مگر پھر بھی، ایک جان دار کو مایوس کرنا کیچوے کا ہی کام ہے۔ تم نہیں سمجھتے؟“
”اگر یہ آڑوڈوب نہیں رہا اور اگر ہم بھی نہیں ڈوب رہے تو پھر ہم سب تو بھوکے مرجائیں گے۔ کیا تم لوگوں کو اندازہ ہے ہم نے کل صبح سے کچھ نہیں کھایا؟“ کیچوے نے کہا۔
”اے خداوند!یہ تو بالکل سچ کہتا ہے۔“ کنکھجورے نے ڈرامائی انداز میں کہا۔
”ظاہر ہے میں درست ہوں!“ کیچوا بولا۔ ”اور ہمیں یہاں سے تو کچھ کھانے کو بھی نہیں ملے گا۔ ہم کمزور اور پیاسے ہوتے جائیں گے اور آہستہ آہستہ ہمیں بھوک سے موت آجائے گی۔ آپس کی بات ہے، میں ڈوبنا پسند کروں گا۔“
”مگر تم ضرور اندھے ہو!“ جیمز چیخا۔
”تم اچھی طرح جانتے ہو میں اندھا ہوں۔“ کیچوا جلدی سے بولا۔ ”اب میرے زخم پر نمک نہ چھڑکو۔“
”میرا یہ، یہ مطلب نہیں تھا۔ معافی چاہتا ہوں مگرتم یہ دیکھ نہیں ……“ جیمز بولا۔
”دیکھوں؟ میں کیسے دیکھوں اگر میں اندھا ہوں تو؟“ بیچارہ کیچوا بولا۔
جیمز نے گہری سانس لی۔”کیا تمہیں احساس ہے کہ ہمارے پاس جو کھانے کی چیزہے وہ ہفتوں تک چلے گی؟“ جیمز نے تحمل سے کہا۔
”کہاں ہے؟ کہاں ہے؟“ سب بولے۔
”کیوں؟ ظاہر ہے آڑو ……! ہمارا پورا بحری جہاز کھایا بھی تو جاسکتا ہے نا۔“ جیمز چلایا۔
”ہمارے بادشاہ! ہمیں تو کبھی یہ خیال ہی نہیں آیا۔“ سب بولے۔
”میرے پیارے جیمز!“ بوڑھے، ہرے ٹڈے نے محبت سے جیمز کے کندھے پر ایک ٹانگ رکھی۔(اسکے ہاتھ وہی تھے۔)
”میں نہیں جانتا اگر تم نہیں ہوتے تو ہم کیا کرتے؟تم بہت چالاک ہو۔ بھائیو اور بہنو!ہم ایک بار پھر بچالیے گئے ہیں!“
”ہم نہیں بچے ہیں! پاگل ہوگئے ہو کیا؟ ہم وہی چیز کھائیں جو ہمارا بحری جہاز ہے؟“ کیچوا بولا۔
”ہم بھوک سے مرجائیں گے اگر ہم نے نہ کھایا تو!“ کنکھجورا بولا۔
”اگر کھالیا تو ڈوب جائیں گے!“ کیچوا بولا۔
”میرے پیارو!“ ٹڈا بولا۔”اب ہم پہلے سے زیادہ برے پھنسے ہیں۔“
”کیا ہم تھوڑا سا بھی نہیں کھاسکتے؟ میں بہت بھوکی ہوں۔“ مکڑی محترمہ بولیں۔
”تم جتنا چاہو اتنا کھاسکتی ہو۔“ جیمز نے جواب دیا۔”ہمیں اس دیوہیکل آڑو میں ایک سوراخ کرنے میں بھی مہینے لگ جائیں گے۔ یقینا تم یہ دیکھ سکتی ہو۔“
”خداوند!یہ لڑکا پھر سے ٹھیک کہتاہے۔“ ٹڈا تالیاں بجا کر بولا۔”مہینے لگیں گے۔ ظاہر ہے!مگر ہم فرش پر سے زیادہ نہیں کھائیں گے۔ ہم اس دہانے سے کھائیں گے جہاں سے ہم آئے تھے۔“
”زبردست!“ بیر بہوٹی بولی۔
”تم پریشان کیوں ہو؟…… کیچوے؟“ کنکھجورے نے مسئلہ پوچھا۔
”ایک مسئلہ ہے……“ کیچوا بولا۔”مسئلہ یہ ہے کہ……کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔“
ہر کوئی قہقہے لگانے لگا۔”مزے کرو، کیچوے!“ سب بولے۔
”آؤ اور کھاؤ!“ سب یہ کہہ کر اس دہانے کی طرف جاکر رسیلے، سنہرے آڑو کے گودے کے بڑے بڑے نوالے لینے لگے۔
”اوہ زبردست!“ کنکھجورا کھاتے ہوئے بولا۔
”خوش ش ش ذائقہ!“ ٹڈا خوش لمبا کرکے بولا۔
”ناقابل یقین!“ مادہ جگنو بولی۔
”کیا جنتی پھل ہے!“ بیر بہوٹی جیمز کو مسکراکر دیکھتے ہوئے نرم لہجے میں بولی اور بدلے میں جیمز بھی مسکرادیا۔
وہ ایک ساتھ فرش پر بیٹھ کر خوشی سے آڑو کے ٹکڑے چبانے لگے۔
”تم جانتے ہو جیمز، ابھی تک میں نے اپنی زندگی میں گلاب کی کلیوں پر بیٹھنے والی مکھیوں کے سوا کچھ نہیں کھایا تھا۔ ان کا رس مزے کا ہوتا ہے مگر یہ آڑو بہترین ہے۔“ بیر بہوٹیبولی۔
”کتنا اچھا ہے نا؟“ مکڑی محترمہ اس کے ساتھ شامل ہوتے ہوئے بولیں۔“ آپس کی بات ہے، مجھے لگتا تھا کہ ایک بڑی، رسیلی، نیلی مکھی ہی دنیا کا بہترین کھانا ہے مگر آج میں نے اسے کھالیا۔“ مکڑی نے آڑو کی طرف ٹانگ کی۔
”کیا رس ہے۔“ کنکھجورا بولا۔”اس جیسا کچھ ہے،نہ ہوگا……! مجھے اس لئے پتا ہے کہ میں نے دنیا کے تمام بہترین کھانے کھا رکھے ہیں۔“ کنکھجورا جس کا منہ آڑو سے بھرا تھا، رس اس کے منہ سے نکل کر تھوڑی پر بہہ رہا تھا، گانے لگا۔
”میں نے اپنی زندگی میں بہت عجیب وغریب چیزیں کھائی ہیں، جیسے جیلی فش، کان کھانے والا کیڑا، ایک چوہا اور اس کے ساتھ چاول، وہ بہت اچھے ہوتے ہیں،چوہا وہ بھی بھنا ہوا، جس پر کالی مرچ ہو……“ اور اسی طرح وہ کنکھجورا گانے میں اپنی زندگی کی غذائیں بیان کرتا رہا۔
اب ہر کوئی خوش تھا۔ دن بھی پر سکون تھا اور نیلے آسمان سے سورج جھانک رہا تھا۔ اور وہ دیوہیکل آڑو دھوپ میں ایسے چمک رہا تھا جیسے کوئی بڑی سنہری گیند چاندی کے پانی پر تیر رہی ہو۔

باب نمبر:19
”دیکھو!“ کنکھجورا چلایا۔ ان کی خوراک پوری ہورہی تھی۔ ”وہ دیکھو! وہ مضحکہ خیز، پتلی کالی چیزیں جو پانی میں چمک رہی ہیں۔“
وہ سب دیکھنے کو مڑے۔
”وہ توصرف دو ہیں!“ مکڑی محترمہ بولیں۔
”نہیں! بہت ساری ہیں!“ بیر بہوٹی بولی۔
”وہ کیا ہیں؟“ کیچوا پریشانی سے بولا۔
”یہ کوئی مچھلیاں ہوں گی۔“ بوڑھا، ہرا ٹڈا بولا۔ ”ہوسکتا ہے ہم سے ملنے آئی ہوں۔“
”وہ تو شارکیں ہیں۔ میں شرط لگا کر کہتا ہوں کہ یہ شارک جیسی دکھنے والی مخلوق ہمیں کھانے آئی ہے۔“ کیچوا چلایا۔
”کیا مصیبت ہے؟“ کنکھجورا بولا۔ وہ تھوڑا ڈر گیا تھا اوراس کی ہنسی غائب ہوگئی تھی۔
”مجھے یقین ہے وہ شارکیں ہیں۔“ کیچوا بولا۔
ہرکوئی جانتا تھاکہ وہ شارک ہے مگر کہنے سے ڈرتے تھے۔
پھر ایک خاموشی کا وقفہ آیا۔ ان سب نے پریشانی سے ان شارکوں کو دیکھا جو آڑو کے گرد طواف کر رہی تھیں۔
”ہاں! یہ شارکیں ہیں لیکن اگر ہم اوپر رہے تو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔“ کنکھجورا بولا۔
مگر جیسے ہی وہ بولے، ایک پتلی شارک نے اپنی سمت بدلی اور پانی سے گزرتی آڑو کے دائیں سے بائیں طرف آگئی۔ اب وہ رکی اور ان سب کوچھوٹی، شیطانی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔
”دور بھاگو!“ وہ سب چلائے۔ ”گندے جانور!جاؤ!“ شارک نے آہستہ سے سستی کے ساتھ اپنا منہ کھولا،جو اتنا بڑا تھا کہ وہ ایک سیاح کو تو کھاہی جاتی اور اس نے اپنے منہ سے آڑو کو ایک طرف سے کترا۔
وہ سب برہمی سے دیکھتے رہے۔
اور پھر، ساری شارکیں تیرتی ہوئی آڑو کی طرف آگئیں جیسے ان کی سردار نے انہیں بلایا ہو، اور آس پاس جھنڈ بناکر غصے سے آڑو پر حملہ کرنے لگیں۔ وہ بیس سے تیس تھیں اور اتنی زور سے آڑو اور پانی کو ہچکولے دے رہیں تھیں کہ ان کی دمیں پانی میں جھاگ کے ہزاروں بلبلے بنانے لگیں۔
آڑو کے اوپر توخوف وہراس پھیل گیا تھا۔
”آج تو ہم گئے!“ مکڑی محترمہ نے اپنے پیر سختی سے دبالیئے۔”پہلے یہ آڑو کھاکر ختم کردیں گی پھریہ ہمیں کھا جائیں گی!“
”یہ درست کہتی ہے!“ بیر بہوٹی چیخی۔”ہم ہمیشہ کے لئے کھوگئے ہیں!“
”آہ! میں کسی کا نوالہ نہیں بننا چاہتا!“ کیچوا مایوسی سے چلایا۔”مگر یہ سب پہلے مجھے ہی کھائیں گی کیوں کہ میں موٹا اور رسیلا ہوں۔ میرے اندر تو کوئی ہڈی تک نہیں!“
”کیا ہم کچھ نہیں کرسکتے؟“ بیر بہوٹی نے جیمز کے آگے التجاکی۔ ”یقیناتم کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لوگے۔“
اچانک سب جیمز کو دیکھنے لگے۔
”سوچو!“ مکڑی محترمہ نے التجا کی۔”سوچو جیمز سوچو!“
”جیمز سوچو!“ کنکھجورا بولا۔”کچھ تو ہوگا جو ہم کرسکتے ہوں گے۔“
ان سب کی آنکھیں اسی پر جمی تھیں۔ پریشان، بے قراراور بری طرح پر امید آنکھیں۔

باب نمبر:20
”ہاں! ایک راستہ ہم اختیار کرسکتے ہیں۔“ جیمز ہنری ٹروٹر آہستہ سے بولا۔”میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ کام نہیں کرے……“
”ہمیں بتاؤ! جلدی بتاؤ!“ کیچوے نے اس کی بات کاٹی۔
”تم جو کہوگے ہم کریں گے!“ کنکھجورا بولا۔”مگر جلدی بتاؤ!“
”چپ کرو! اور اس لڑکے کو بولنے تو دو!“ بیر بہوٹی بولی۔”بولو، جیمز۔“
وہ سب اس کے قریب آئے اور ایک وقفہ سا آیا۔
”بولو!“ وہ سب دیوانوں کی طرح چلائے۔
جس سارے وقت میں وہ بولتے رہے تھے نیچے شارکیں پانی اڑا تی رہی تھیں۔ یہ کسی کو ڈرانے کے لئے بہترین طریقہ تھا۔
”بولونا!“ بیر بہوٹی نے اس کو جھلایا۔
”مجھے……مجھے ڈر ہے یہ کامیاب نہیں ہوگا۔“ جیمز نفی میں سر ہلاتے ہوئے بڑبڑایا۔”میں معافی چاہوں گا۔ میں بھول گیا تھا۔ ہمارے پاس کوئی ڈور نہیں ہے۔ اس ترکیب کو کامیاب کرنے کے لئے ہمیں بہت زیادہ لمبے دھاگے چاہئے ہوں گے۔“
”کس طرح کا دھاگہ؟“ ٹڈا تیزی سے بولا۔
”کسی بھی طرح کا مگر بہت مضبوط اور لمبا۔“
”مگر میرے بچے! ہمارے پاس تو یہ چیز پہلے سے ہی موجود ہے۔“
”کیسے؟ کہاں؟“
”ریشم کا کیڑا!“ ٹڈا خوشی سے چلایا۔”کیا تم نے اس کو نہیں دیکھا؟ وہ نیچے ہے۔ وہ ہلتا تک نہیں ہے۔وہ سارا دن سوتا ہے مگر ہم اسے آسانی سے اٹھا کر دھاگہ بنانے کا کہہ سکتے ہیں!“
”مگر میراکیا؟“ مکڑی محترمہ نے پوچھا۔ ”میں بھی بالکل ریشم کے کیڑے کی طرح کام کرسکتی ہوں بلکہ کڑھائی بھی کرسکتی ہوں!“
”کیا تم اتنا لمبا بناسکو گی؟“ جیمز نے سوال کیا۔
”جتنا تم چاہو!……جلدی بنادوں گی؟ ……ہاں! ہاں!……مضبوط ہوگا؟……ہاں مضبوط ترین بناؤں گی، بالکل تمہاری انگلی جتنا چوڑا دھاگہ! مگر کیوں؟ تم کیا کرنے جارہے ہو؟“
”میں اس آڑو کو پانی سے نکالوں گا!“ جیمز چہکا۔
”تم پاگل ہو!“ کیچوا چیخا۔
”یہ ہمارے لئے آخری موقع ہے!“
”یہ لڑکا پاگل ہوگیا ہے۔“
”یہ مذاق کررہاہے۔“
”آگے بتاؤ جیمز!“ بیر بہوٹی نرمی سے بولی۔”تم یہ کیسے کروگے؟“
”کسی ہیلی کاپٹر سے۔ مجھے لگتاہے!“ کنکھجورے نے اندازہ لگایا۔
”سمندری بگلوں سے۔“ جیمز نے آرام سے جواب دیا۔”آسمان میں دیکھو……یہ جگہ ان سے بھری پڑی ہے۔“
ان سب نے اوپر دیکھاتو بہت سارے بگلے آسمان کے گرد چکر کاٹ رہے تھے۔
”میں ایک لمبا ریشمی دھاگہ لوں گا۔“ جیمزبتاتا گیا۔”اور اس کا ایک سرا بگلوں کے گلے میں باندھوں گااور دوسرا آڑو کی ٹوٹی ٹہنی سے۔“ اس نے ٹوٹی ٹہنی کی طرف اشارہ کیا جو جھنڈے کی طرح کھڑی تھی۔
”پھر میں سب بگلوں کے گلے میں ایک ایک کر کے یہ باندھوں گا۔“
”زبردست!“ سب چلائے۔
”مضحکہ خیز!“
”پاگل پن!“
”واہ!“
پھر ٹڈا بولا،”مگر یہ چند بگلے اس بھاری چیز کو آسمان کی طرف کیسے اٹھائیں گے؟ یہ کام سینکڑوں ……ہزاروں ……“
”بگلوں کی کوئی کمی نہیں ہے!“ جیمز نے جواباً کہا۔ ”خود ہی دیکھو، ہمیں زیادہ سے زیادہ چار سو، پانچ سو، چھ سو یا ہزار بگلے درکار ہوں گے۔ میں نہیں جانتا……میں بس ان کو باندھتا جاؤں گاتاکہ یہ ہمیں اٹھا سکیں۔ آخر میں انہیں مجبوراً اٹھاناہی پڑے گانا۔ یہ بالکل غباروں کی طرح ہوگا۔ تم کسی کو بہت سے غبارے ہاتھ میں دوگے اور وہ ہوا میں اڑنے لگے گا۔ بگلے میں تو غبارے سے زیادہ طاقت ہوگی نا۔ بس ہمارے پاس وقت ہونا چاہئے۔ بس ان شارکوں کی وجہ سے ڈوب نہ جائیں۔“
”تمہارا تو دماغ چل گیا ہے!“ کیچوا بولا۔
”تم ایک بگلے کے گلے میں ایک دھاگہ کیسے باندھوگے؟ مجھے تو لگتا ہے کہ پہلے تم اڑو گے پھرانہیں پکڑوگے!“
”یہ لڑکا سٹھیا گیا ہے۔“ کنکھجورا کہنے لگا۔
”اس کو بات تو پوری کرنے دو!“ بیر بہوٹی بولی۔”بتاؤ جیمزتم یہ کیسے کروگے؟“
”دانا ڈال کر!“
”کیسا دانا؟“
”ایک کیڑے سے…… بگلوں کو کیڑے بہت پسند ہیں۔ تم لوگ نہیں جانتے کیا؟ اور قسمت دیکھو، ہمارے پاس ایک بڑا، موٹا، رسیلا اور گلابی کیچوا موجود ہے!“
”ٹھہر جاؤ!“ کیچوا ناراضی سے بولا۔”بس بہت ہوگیا!“
”بولتے رہو!“ سب کی دلچسپی بڑھ گئی۔
”بگلوں نے پہلے ہی اسے دیکھ لیا ہے۔“ جیمز بولا۔ ”اسی لئے اتنے سارے یہاں موجود ہیں۔ مگر وہ نیچے نہیں آنے چاہئیں۔ ہم سب یہیں ہوں گے۔ تو یہ ہے کہ……“
”ٹھہرو ذرا!“ کیچوا چلایا۔”ٹھہرو! میں نہیں مانتا! میں نہیں ……“
”چپ رہواور اپنا کام کرو!“ کنکھجورے نے اسے خاموش کرایا۔
”مجھے پسند آیا!“
”میرے پیارے کیچوے، تم تو ویسے ہی کھالئے جاؤ گے۔کیا فرق پڑتا ہے شارکوں سے یا بگلوں سے!“
”میں یہ نہیں کروں گا۔“
”کیوں نہ ہم پہلے پوری ترکیب سن لیں؟“ بوڑھا ٹڈا بولا۔
”مجھے نہیں چاہئے یہ بے کار ترکیب!“ کیچوا چیخا۔ ”کم ازکم بگلے تو میری موت کا سبب نہیں ہوں گے!“
”تم ایک شہید ہوگے۔ میں اپنی ساری زندگی تمہاری عزت کروں گا۔“ کنکھجورے نے اسے تسلی دی۔
”میں بھی!“ مکڑی محترمہ بولیں۔”تمہارا نام اخبارات میں ہوگا، کیچوے نے دوستوں کو بچانے کے لئے اپنی جان……“
”مگر اس کو اپنی جان نہیں دینی۔“ جیمز نے انہیں بتایا۔”اب میری بات سنو!ہم یہ کریں گے کہ……“

باب نمبر:21
”واہ! یہ تو زبردست ترکیب ہے!“ جب جیمز نے ساری ترکیب سمجھادی توٹڈا اس کی تعریف میں تالیاں بجانے لگا۔
”یہ لڑکا تو بہت ذہین ہے۔ اب میں اپنے جوتے پہنے رکھ سکتا ہوں!“ کنکھجورے نے کہا۔
”ہاں! تم نہیں اتاروگے!“
”اور میں؟ میں تو مرجاؤں گا نا؟“ کیچوا بین کرنے لگا۔
”نہیں! تم نہیں مروگے۔“
”میں جانتا ہوں میں مرجاؤں گا۔ میں تو انہیں اپنی طرف آتا دیکھ بھی نہیں پاؤں گا کیونکہ میری تو آنکھیں ہیں نہیں ہیں!“
جیمز اس کے قریب گیا اور اپنا ایک بازو، کیچوے کے کندھے پر رکھا۔”میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا!بلکہ وہ تمہیں چھو بھی نہیں پائیں گے۔ یہ میرا وعدہ ہے، چلو اب جلدی کرو۔ نیچے دیکھو!“ جیمز نے وعدہ کیا۔
اب نیچے بہت ساری شارکیں تھیں۔ ان کے ساتھ والا پانی ابل رہا تھا۔ اب تووہ نوے یا سو ہوگئی تھیں۔ اوراندر بیٹھے جانوروں اور ایک انسان کو یوں لگ رہا تھا جیسے آڑو ڈوب رہا ہے۔
”اب جلدی کرو!“ جیمزچلایا۔”ہمیں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا۔“ اب جیمز ہی ان سب کا کپتان تھااور یہ بات سب بخوبی جانتے تھے۔ اب وہ جو بھی کہتا سب نے وہی کرنا۔
”اب سب آڑو کے فرش پر جاؤ سوائے کیچوے کے!“ اس نے حکم صادر کیا۔
”ہاں!“ سب نے جی حضوری کی اور دہانے کی طرف بھاگ گئے۔”جلدی کرو!“
”اور تم کنکھجورے!“ جیمز چلایا۔”نیچے جاؤ اور اس ریشم کے کیڑے کو کام پر لگاؤ! اس کو دھاگہ بنانے کا کہو! ہماری زندگیوں کاا سی پر انحصار ہے اور یہی بات تمہیں بھی کہوں گا مکڑی محترمہ! جاؤ اور کام شروع کرو!“

باب نمبر:22
کچھ ہی منٹوں میں ہر چیز تیار تھی۔
آڑو کے اوپر خاموشی تھی، وہاں کیچوے کے سوا کوئی نہیں تھا۔
کیچوے کا ایک حصہ تو بہت اچھا، موٹا، گلابی اور رسیلا تھا جو معصومیت سے سورج کے آگے بیٹھے بگلوں کا انتظار کررہا تھا۔مگر نچلا حصہ دہانے کی طرف لٹکا ہوا تھا۔
جیمز کیچوے کے نچلے حصے کے ساتھ دہانے میں بیٹھا پہلے بگلے کا انتظار کررہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ریشمی دھاگے گولے کی صورت میں تھے۔
بوڑھا،ہرا ٹڈا اور بیر بہوٹی دہانے کے اور نیچے، کیچوے کی دم پکڑے بیٹھے تھے تاکہ خطرے کی پہلی گھنٹی پر ہی اسے نیچے کھینچ لیں۔ جیسے جیمز نے کہا تھا۔
اور آڑو کے درمیان میں بڑی سی گٹھلی کے اندر مادہ جگنو روشنی کئے بیٹھی تھی تاکہ مکڑی محترمہ اور ریشم کا کیڑا اپنا دھاگہ دیکھ سکیں۔ کنکھجورا بھی ان کے ساتھ ہی تھا۔ لمحہ بہ لمحہ ان کے محنت کرنے پر بیان بھی دیتااور ہر لمحہ جیمز اس کی آواز سن سکتا تھا،”جلدی! ریشم کے کیڑے! اور تیز گھومو موٹے، سست جانور! اور تیز ورنہ ہم تمہیں ان شارکوں کا کھانا بنادیں گے۔!“
”پہلا بگلا آگیا!“ جیمز نے سرگوشی کی۔
”اب بالکل ساکت رہنا، کیچوے! دیکھو ہلنا مت! اور تم سب اسے کھینچنے کو تیار رہنا۔“ جیمز بولا۔
”مجھے ان کا نوالہ مت بننے دینا۔“ کیچوے نے التجا کی۔
”ہاں!میں انہیں تمھیں نہیں لے جانے دوں گا! شش!“
جیمز نے کنکھیو ں سے دیکھا کہ ایک بگلا کیچوے کے قریب آیاہے۔ پھر وہ اتنا قریب آگیا کہ جیمز اس کی چھوٹی، کالی آنکھیں اور چونچ دیکھ سکتا تھا۔ چونچ کھلی تھی تاکہ یہ اچھا کھانا اچک سکے۔
”کھینچو!“ جیمز چلایا۔
ٹڈے اور بیر بہوٹی نے کیچوے کو ایسے کھینچا کہ کیچوا تو دہانے میں گر کر غائب ہی ہوگیا۔ اسی وقت جیمز نے اپنا ہاتھ اوپر کر کے گولائی میں بنادھاگے کا پھندا بگلے کے سامنے کیا اور وہ سیدھا اس میں جاگرا…… وہ گول پھندا جس میں اس کی گردن پھنسی تھی چالاکی سے بنایا گیا تھا، اس کی گردن میں ڈھیلی سی گرہ لگادی گئی تھی اور بگلا ہاتھ آگیا تھا۔
”واہ!“ ٹڈا دہانے سے نکل کر خوشی سے چلایا۔”بہت اچھا!جیمز!“
بگلا بھی اوپر اڑتا گیا اور اسکے ساتھ ساتھ جیمز بھی۔ جیمز نے بس کچھ ہی فٹ کا فاصلہ دیا اور دھاگہ ٹہنی سے باند ھ دیا۔
”اگلا!“ وہ چلایا اور دہانے میں اترا۔”تم تو اٹھو کیچوے! کنکھجورے تھوڑا اور دھاگا لاؤ۔“
”اوہ! مجھے یہ بالکل پسند نہیں آرہا!“ کیچوا رودیا۔
”اس نے تو غلطی سے مجھے چھوڑدیا ورنہ مجھے تو موت کی بو آنے لگی تھی!“
”شش!” جیمز آہستہ سے بولا۔“ایسے ہی رہو، ہلنا مت!اگلا بگلاآرہا ہے!“
اور پھر ویسے ہی ہوا۔
بار بار لگاتار!
بگلے آتے گئے اور جیمز انہیں پکڑتا گیا، اورایک کے بعد ایک انہیں ٹہنی سے باندھتا گیا۔
”ایک سو بگلے!“ وہ چلایااور چہرے پر موجود پسینہ صاف کیا۔
”دو سو بگلے!“
”تین سو بگلے!“
”چار سو بگلے!“
شارکوں کو اپنا شکار کھونے کا اندازہ بخوبی ہورہا تھا۔ اسی لئے انہوں نے آڑو پر تابڑ توڑ حملہ شروع کردیا اور آڑو پانی میں نیچے ہونے لگا۔
”پانچ سو بگلے!“
”ریشم کے کیڑے کی ریشم ختم ہورہی ہے۔“ کنکھجورا نیچے سے چلایا۔”وہ کہہ رہا ہے کہ میں اور نہیں کرسکتا اور نہ مکڑی محترمہ!“
”کوئی انہیں بتاؤ کہ انہیں ہر حال میں کرنا ہے۔ ہم ابھی نہیں رک سکتے!“ جیمز نے جواباً کیا۔
”ہم اٹھ رہے ہیں!“ کسی نے چلا کر کہا۔
”نہیں ہم نہیں اٹھ رہے!“
”مجھے محسوس ہوا!“
”جلدی ایک اور بگلا باندھو!“
”سب چپ کرو! ایک اور آرہا ہے!“
اب پانچ سو ایک بگلے ہوگئے تھے۔ اب پورا دیوہیکل آڑو آہستہ آہستہ پانی سے ہوا میں اٹھ رہا تھا۔
”دیکھو! ہم جارہے ہیں!“
بھر وہ رک گیا۔ لٹک گیا۔ وہ اڑا مگر اور اوپر نہیں اڑا۔
اس کا نچلا حصہ اب بھی پانی کوچھو رہا تھا۔ وہ ایسا ترازو بن گیا تھا جسے ایک اور دھکا لگنے سے اٹھ جانا تھا۔
”ایک اور باندھو!“ ٹڈا دہانے سے چلایا۔”ہم اڑنے ہی والے ہیں بس!“
اب بڑا لمحہ آیا تھا…… جلد ہی، پانچ سو دو بگلے بندھ چکے تھے……
اور پھر اچانک……
مگر آہستہ سے……
خوبصورتی سے……
جیسے جادوئی سنہرا غبارہ ہو……
سب بگلے دھاگے کو کھینچتے ہوئے اڑنے لگے……
دیوہیکل آڑو پانی سے اٹھا اور آسمان کی طرف اڑ دیا۔

باب نمبر:23
پلک جھپکتے ہی ہر چیز آسمان پر تھی۔
”یہ کتنا عجیب ہے نا؟“ وہ چلائے۔
”کیا عجیب احساس ہے!“
”خدا حافظ شارکو!“
”آہ! لڑکے! یہی تو مزہ ہے گھومنے پھرنے کا۔!“
مکڑی اور کنکھجورا مل کر خوشی سے ناچنے لگے۔
کیچوا اپنی دم پر کھڑا ہوا اور مزے سے جھومنے لگا۔ ٹڈا ہوا میں اچھلتا رہا۔ بیر بہوٹی جیمز کو جھنجھوڑنے لگی اور مادہ جگنو، جو خوشیوں میں بھی شرمیلی اور خاموش رہتی تھی، دہانے کی طرف خوشی سے جگمگانے لگی۔ سفید اور پتلا نظر آنے والاریشم کا کیڑا بھی دہانے سے نکل کر اوپر آیا اور معجزاتی حالات کا جائزہ لینے لگا۔
دھیرے دھیرے وہ اوپر گئے……اور اب وہ اتنی اونچائی پرپہنچ گئے جتنی ایک چرچ کی ہوگی۔
”مجھے صرف آڑو کی پریشانی ہے۔“ جیمز بولا اور خوشیاں، ناچ اورچلانا دومنٹ کے لئے رک گیا۔ ”مجھے فکر ہے کہ شارکوں نے اس کے پیندے کا کتنا نقصان کیا ہوگا، اب اوپر سے پتا لگا نا تو ناممکن ہے نا۔“
”کیوں نہ میں کونے سے جاؤں اور تحقیق کر کے آؤں؟“ مکڑی محترمہ بولیں۔”کوئی مسئلہ نہیں ہوگا میں تمہیں زبان دیتی ہوں۔“ اور بغیر انتظار کے، وہ جلدی سے ایک لمبا دھاگہ بننے لگی اور اس کا ایک کونا ٹہنی سے باندھ دیا۔”میں ابھی آئی!“ یہ کہہ وہ سکون سے کنارے پر چل دی اور دھاگہ پکڑ کر اتری۔
باقی سب اوپر سے اسے دیکھنے لگے۔
”کتنا ہول ناک ہوگا نا اگر دھاگہ ٹوٹ گیا۔“ بیر بہوٹی بولی اور خاموشی چھا گئی۔
”مکڑی تم ٹھیک توہو؟“ ہرا ٹڈا پوچھ بیٹھا۔
”ہاں!شکریہ!“ انہوں نے نیچے سے جواباً کہا۔
”اب میں اوپر آتی ہوں!“ وہ اوپر آئی، اور ریشم کے دھاگے کو کودتی گئی اور اسی وقت دھاگہ پھر سے اپنے جسم میں چھپالیا۔
”کچھ برا تو نہیں نا……؟ سب ٹھیک ہے……؟ سوراخ تو نہیں ……؟ انہوں نے سب کھالیا……؟“ سب نے پوچھا۔
مکڑی محترمہ اچھل کر آڑو پر آئی اور عجیب چہرے سے انہیں دیکھا۔”تم لوگ یقین نہیں کروگے مگر نیچے تو کوئی نقصان ہی نہیں ہوا۔ آڑو ان چھواہے! بس بالکل تھوڑا سا کھایا گیا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوا ہے۔“
”تم سے یقینا کوئی غلطی ہوئی ہوگی۔“ جیمز بولا۔
”ظاہر ہے اس نے غلط دیکھا ہے۔“ کنکھجورے کی آواز آئی۔
”میں یقین دلاتی ہوں کہ مجھ سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔“ مکڑی محترمہ نے جواب دیا۔
”مگر ہمارے آس پاس سو سے زائد شارکیں تھیں!“
”وہ اتنے غصے میں تھیں کہ پانی میں بلبلے بن رہے تھے!“
”ہم نے ان کے منہ کھلتے اور بند ہوتے دیکھے تھے!“
”مجھے پروا نہیں کہ تم لوگوں نے کیا کیا دیکھا!“ مکڑی محترمہ غصے سے بولی۔”انہوں نے تو آڑو کو چند خراشوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا!“
”پھر ہم ڈوب کیوں رہے تھے؟“ کنکھجورے نے پوچھا۔
”شاید ہم ڈوب نہیں رہے تھے۔“ بوڑھے، ہرے ٹڈے نے کہا۔”شاید ہم اتنے ڈرے ہوئے تھے،اسی لئے ہمیں ایسا لگ رہا تھا۔“
یہ بات حقیقت سے بے حد قریب تھی اور وہ لوگ اس بات کو نہیں جانتے تھے۔ ایک شارک کی ناک لمبی اور اٹھی ہوئی ہوتی ہے اور منہ اس کے نیچے اور یہی اسے بے حد خطرناک بناتا ہے۔ یہی چیز تھی جس نے شارک کو آڑو کھانے سے روک رکھا تھا۔ اس کی ناک اس کے دانتوں کو آگے نہیں ا ٓنے دے رہی تھی۔ اگر شارک تھوڑا پیچھے جاکر بھی یہ کرتی تب بھی یہ نہ ہوپاتااور اس کی ناک آڑے آجاتی۔ اگرآپ نے کبھی کسی چھوٹے کتے کو اپنے دانت بڑی گیندمیں گاڑتے دیکھا ہے، تو یقینا آپ تصور کرسکتے ہوں گے شارک اور آڑو کے ساتھ بھی یہی چیز ہوئی تھی۔
”ضرور کوئی جادو ہوا ہوگا۔“ بیر بہوٹی بولی۔”وہ سوراخ خود بخود بھر گئے ہوں گے۔“
”اوہ دیکھو ہمارے نیچے ایک بحری جہاز بھی ہے!“ جیمز چلایا۔ وہ سب اپنا سر اٹھا کر دیکھنے لگے۔ ان میں سے کسی نے بھی اپنی زندگی میں بحری جہاز نہیں دیکھا تھا۔
”یہ تو بہت بڑا لگتا ہے!“
”اس کے تین روشن دان ہیں!“
”بحری جہاز کے عرشے پر کچھ لوگ بھی ہیں!“
”چلو ان کو ہاتھ ہلاتے ہیں! کیاتمہیں لگتا ہے وہ ہمیں دیکھ پائیں گے؟“
نہ جیمز کو پتا تھا نہ کسی اور کو کہ جو بحری جہاز ان کے نیچے سے گزر رہا تھا وہ دراصل ”ملکہ میری“ کا تھا جو انگلستان سے امریکہ جارہا تھا۔
ملکہ میر ی کے جہاز پر ان کے افسر پریشان حال کھڑے اس بڑی، دیوہیکل گیند کو دیکھ رہے تھے۔
”مجھے یہ بہتر نہیں لگ رہا۔“ کپتان بولا۔
”مجھے بھی نہیں!“ پہلا افسر بولا۔
”کیا تمہیں لگتا ہے کہ یہ ہمارا پیچھا کررہا ہے؟“ دوسرا افسر بولا۔
”میں بتارہا ہوں، یہ مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا!“ کپتان بڑبڑایا۔
”یہ خطرناک ہوسکتا ہے!“ پہلا افسر بولا۔
”ہاں! یہ کوئی چھپا ہتھیار ہوسکتا ہے۔ ملکہ کو جلدی سے پیغام بھیجو! ملکہ کو پتا ہونا چاہئے! مجھے دوربین دو!“ کپتان چلایا۔
پہلے افسر نے کپتان کو دوربین دی اور اس نے اسے آنکھوں سے لگایا۔
”ہر جگہ پرندے ہیں!“ وہ چیخا۔”سارا آسمان پرندوں سے بھرا ہے! یہ کیا کررہے ہیں؟ رکو! اس میں کچھ لوگ بھی ہیں! میں انہیں چلتا پھرتا دیکھ سکتا ہوں!“
”ارے! وہاں ……وہاں ……کوئی چھوٹا بچہ چھوٹے پاجامے میں ہے! او ر……اور……وہاں…تو……کوئی دیوہیکل لیڈی برڈ بھی ہے!“
”رکیے کپتان!“ پہلا افسر بولا۔
”قد آور بڑا ٹڈا!“
”کپتان! رک جائیے۔“ افسر نے تیزی سے کہا۔
”اور ایک بڑی مکڑی!“
”ارے دوست! لگتا ہے یہ نشے میں ہے!“ افسر دوسرے سے زور سے بولا۔
”جہاز کے ڈاکٹر کو بلاؤ!“
”بڑا کنکھجورا بھی!“ کپتان زور سے بولا۔
”جہاز کے ڈاکٹر کو بلاؤ!“ پہلا افسر بولا۔”ہمارا کپتان صحیح نہیں ہے!“
اور ایک لمحے میں وہ گول، بڑی گیند بادلوں میں کھوگئی اور جہاز کے لوگوں نے اسے پھر کبھی نہیں دیکھا۔

باب نمبر:24
مگر آڑو پر تو سب اب بھی خوش اورپر جوش تھے۔”مجھے تو لگتا ہے اس بار ہم گئے۔“ کیچوا پھر مایوسی سے بولا۔
”مگر کسے پروا ہے؟ بگلے جلد یا بدیر زمین پر ہی آجاتے ہیں۔“ سب بولے۔
وہ اوپر بادلوں پرجاتے رہے، آڑو نرمی کے ساتھ بادلوں سے ٹکراتا گیا۔
”یہ موسیقی سننے کا بہترین وقت ہے۔ کیوں ٹڈے؟“ بیر بہوٹی بولی۔
”بہت خوشی سے!“ ٹڈا چمکتے ہوئے بولا۔
”واہ! یہ ہمارے لئے گائے گا!“ سب خوشی سے چلائے اور ٹڈے کے آس پاس دائرہ بناکر بیٹھ گئے اور موسیقی کی تقریب شروع ہوئی۔
پہلے ہی سر سے حاضریں اور سامعین سروں میں کھوگئے۔ اور جیمز نے تو پہلے کبھی گھر یا باغ میں ایسی موسیقی سنی ہی نہیں تھی، اس نے بہت سے ٹڈوں کو شام میں چہکتے ہوئے دیکھا تھااور وہ آوازیں اسے بے حد پسند تھیں۔ مگر یہ آواز تھوڑی الگ تھی……
بہترین سر! اور کیا ہی مزیدار آلے پر وہ بجارہا تھا، جیسے کوئی سارنگی یاوائلن ہو جس پر وہ سر بجا رہا ہو۔حالاں کہ کوئی آلہ نہیں تھا۔
سارنگی کی طرح جو چیز سر بجارہی تھی وہ اس کی پچھلی ٹانگ تھی۔ سارنگی کی تاریں، جن پر سے آواز نکل رہی تھی، وہ اس کے پر تھے۔
وہ اپنی ٹانگ کا اوپر ی حصہ اپنے پر کے کنارے کے ساتھ خوبصورتی کے ساتھ ٹکرارہاتھا۔ کبھی مدھم، کبھی تیزی سے مگر ہمیشہ اس بہاؤ کے ساتھ۔ بالکل اس طرح جیسے کوئی موسیقا ر سارنگی استعمال کرے اور موسیقی کے خوبصورت سروں سے گہرا، نیلا آسمان بھردے۔
جیسے ہی پہلا جز پورا ہواہر کوئی پاگلوں کی طرح تالیاں بجانے لگا، تو مکڑی محترمہ اٹھیں اور تعریف وتحسین کے ساتھ مزید کی خواہش کی۔
”جیمز؟ تمہیں پسند آیا؟“ ٹڈے نے مسکراکر پوچھا۔
”بہت زیادہ! بہت خوبصورت! ایسے جیسے تمہارے ہاتھوں میں کوئی سارنگی ہو!“ اس نے جواباً کہا۔
”اصلی سارنگی؟ میرے بچے! میں اصلی سارنگی ہوں؟ سارنگی میرے جسم کا حصہ ہے!“ ٹڈا خوشی سے چلایا۔
”مگر کیا سب ٹڈے تمہاری طرح موسیقی بجاتے ہیں؟“ جیمز نے سوال کیا۔
”نہیں! سب نہیں!اگر تم جاننا چاہو تو میں ایک چھوٹے سینگوں والا ٹڈا ہوں۔ میرے سر سے دو سینگ نکلتے ہیں۔ کیا تم دیکھ سکتے ہو؟ یہ رہے۔ یہ چھوٹے ہیں۔ اسی لئے سب مجھے چھوٹے سینگ والا بلاتے ہیں۔ ہم چھوٹے سینگ والے ہی صرف سارنگی والی دھن بجا سکتے ہیں۔ میرے بڑے سینگ والے رشتے دار اپنے دو پر ملا کر رگڑتے ہیں تب دھن بنتی ہے۔ وہ سارنگی بجانے والے نہیں ہوتے، وہ پر رگڑنے والے ہوتے ہیں۔ آواز کچھ خاص نہیں ہوتی۔ عجیب ہوتی ہے۔“ ٹڈا بولا۔
”کیا مزیدار باتیں ہیں!“ جیمز بولا۔”میں نے تو کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک ٹڈا سر کیسے بجاتا ہے؟“
”میرے دوست!“ ٹڈا بولا۔ ”ہماری دنیا کی ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جن کے بارے میں ابھی تم نہیں جانتے۔ کیا تم جانتے ہو ہم اپنے کان کہاں رکھتے ہیں؟“
”تمہارے کان؟ ظاہر ہے اپنے سر میں!“ اس نے جواب دیا۔ سب قہقہے لگانے لگے۔
”کیا تم یہ بھی نہیں جانتے؟“ کنکھجورے نے پوچھا۔
”سوچو!“ ٹڈا بولا۔
”تم کہیں اور نہیں رکھ سکتے؟“
”کیوں نہیں؟“
”چلو! ہارمانی تم بتاؤ!“ جیمز بولا۔
”ادھر! اپنے پیٹ کے دائیں طرف۔“ٹڈا بولا۔
”یہ جھوٹ ہے۔“
”یہ سچ ہے۔“ ٹڈا بولا۔”اس میں عجیب کیا ہے؟“
”ابھی تو تم نے میرے رشتے داروں کو نہیں دیکھا کہ وہ اپنے کان کہاں رکھتے ہیں۔“
”کہاں؟“
”اپنی ٹانگوں میں، گھٹنے کے نیچے۔“
”تمہارامطلب یہ ہے کہ تمہیں یہ بھی نہیں معلوم تھا؟“ کنکھجورا مزے سے بولا۔
”مذاق مت کرو! یہ تو ناممکن ہے کوئی اپنی ٹانگ میں کان رکھے۔“ جیمز نے کہا۔
”کیوں نہیں؟“
”یہ مضحکہ خیزہے اس لئے۔“
”تم جانتے ہو مجھے کیا مضحکہ خیز لگتا ہے؟ برا مت ماننا مگر کتنا مضحکہ خیز ہے نا کہ کسی کے کان سر کے دونوں طرف ہوں۔“ کنکھجورا مسکراتے ہوئے بولا۔”کبھی آئینے میں دیکھنا!“
”کنکھجورے! تم ہمیشہ اتنے منہ پھٹ کیوں بنے رہتے ہو؟ تمہیں جیمز سے معافی مانگنی چاہیے!“

باب نمبر:25
جیمز کنکھجورے اور کیچوے کے درمیان بحث نہیں کروانا چاہتا تھا سواس نے موضوع تبدیل کر کے کیچوے سے پوچھا۔
”تم بتاؤ! موسیقی کرتے ہو؟“
”نہیں مگر میں کچھ اور کرتا ہوں جو بے حد غیر معمولی ہے۔“کیچوے نے جواباً کہہ دیا۔
”مثلاً؟“جیمز نے کہا۔
”جیسے……“ کیچوے نے شروع کیا۔”اگلی بار جب بھی تم کھیت یا باغ میں کھڑے ہو…… تو اپنے آس پاس دیکھنا، پھر یاد رکھنا کہ مٹی کا ذرہ ذرہ جو تم دیکھ رہے ہو وہ ایک کیچوے کی طرف سے ہوتا ہے…… جو وہ سالوں سے فراہم کررہا ہوتا ہے۔ زبردست ہے نا؟“
”یہ ممکن نہیں ہے!“ جیمز نے کہا۔
”یہ سچ ہے۔“
”مطلب کہ تم مٹی کھاتے ہو؟“
”پاگلوں کی طرح! ایک طرف سے کھایا دوسری طرف سے نکلا!“ کیچوا بولا۔
”مگر اس کا مقصدکیا ہے؟“
”تم یہ کیوں کرتے ہو؟“
”ہم یہ کسانوں کے لئے کرتے ہیں …… یہ عمل مٹی کو اچھا اور ہلکا کرتا ہے۔……پھر اس میں وہ تمام خوبیاں آجاتی ہیں جو زرخیز مٹی میں ہونی چاہئیں۔ اگر حقیقت پوچھو تو کسانوں کا ہمارے بنا گزارا نہیں …… ہم اہم ہیں …… ہم ضروری ہیں …… ایک کسان کے دل میں ہمارے لئے پیار ہوتا ہے…… وہ بیر بہوٹی سے زیادہ ہم سے پیار کرتے ہیں!“
”بیر بہوٹیسے……؟“ جیمز بولا اور بیر بہوٹی کی طرف مڑا۔”کیاوہ تم سے بھی پیار کرتے ہیں؟“
”مجھے بتایا تو یہی جاتا ہے کہ وہ کرتے ہیں۔“بیر بہوٹی نے شرمیلے انداز میں کہا۔”دراصل کچھ علاقوں میں تو ہم سے کسان اتنی محبت کرتے ہیں کہ وہ باہر جاکر بہت ساری بیر بہوٹی لے کر انہیں اپنے کھیت میں آزاد کردیتے ہیں۔ اس سے انہیں خوشی ملتی ہے۔“
”پر کیوں؟“ جیمز نے پوچھا۔
”کیونکہ ہم کھیت کھانے والے سارے کیڑوں کا صفایا کردیتے ہیں ……اور یہ کرنے کا ہم کوئی معاوضہ، کوئی پائی پیسہ نہیں مانگتے۔“ بیر بہوٹی بولی۔
”مجھے لگتا ہے تم بہت اچھی ہو۔“ جیمز نے کہا۔“تم سے ایک سوال پوچھوں؟“
”پوچھو۔“
”کیا یہ سچ ہے کہ بیر بہوٹی کے دھبے گن کر اس کی عمر بتا ئی جا سکتی ہے؟“
”ارے نہیں!یہ تو بس ایک بچوں کی کہانی ہے۔“ بیر بہوٹی بولی۔”ہم تو اپنے دھبے ساری زندگی اتنے ہی رکھتے ہیں۔ ہم سب کے دھبے ایک جتنے نہیں ہوتے۔ نہ ہی ہم انہیں بدل سکتے ہیں۔ ایک بیر بہوٹی کے دھبے بس یہ بتاتے ہیں کہ یہ کس خاندان کی ہے۔ جیسے میرے نو دھبے ہیں۔ میں خوش نصیب ہو۔ نو دھبے ہونا اچھے نصیب کی علامت سمجھی جاتی ہے۔“
”ہاں!“ جیمز نے اس کے خوبصورت، لال خول پر نو دھبے دیکھتے ہوئے کہا۔
”میرے کچھ رشتے داروں کے دو دھبوں سے زیادہ نہیں ہوتے۔ بیچارے……! ہم نصیب والے……! کیا تصور کرسکتے ہو……؟ وہ بہت بد تمیز اور عام ہوتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے مگر یہ سچ ہے۔ پانچ دھبوں والی بیر بہوٹی بھی ہوتی ہیں۔ وہ پھر بھی بہتر ہوتی ہیں۔“
”کیا ان سب سے محبت کی جاتی ہے؟“ جیمز نے پوچھا۔
”ہاں!“ بیر بہوٹی نے سکون سے جواب دیا۔
”لگتا ہے کہ میرے آس پاس کے سب ساتھیوں سے محبت کی جاتی ہے، کتنا اچھا ہے نا؟“ جیمز خوشی سے بولا۔
”مجھ سے نہیں!“ کنکھجورا خوشی سے چلایا۔”میں ایک کیڑا ہوں۔ بہت خطرناک کیڑا۔ مگر مجھے اس پر فخر ہے!“
”سنو سنو……“ کیچوا بولا۔
”تمہارا کیا، مکڑی محترمہ؟“ جیمز نے پوچھا۔”کیا تم سے پیار نہیں کیا جاتا؟“
”نہیں!“مکڑی نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا،”مجھ سے کوئی پیار نہیں کرتا۔ ویسے میں کچھ اچھا کام بھی تونہیں کرتی۔ پورا دن مکھی مچھر اپنے جالے میں پکڑتی ہوں اور خوش رہتی ہوں۔“
”میں جانتا ہوں۔“ جیمز نے کہا۔
”مگر یہ غلط ہے! ہم مکڑیوں سے ایسا سلوک کیوں؟“مکڑی محترمہ بولیں۔ ”پچھلے ہفتے تمہاری ڈراؤنی خالہ اسپونج نے میرے باپ کو ٹب میں ڈبودیا۔“
”بہت برا ہو!“ جیمز چلایا۔
”میں نے یہ سب چھت سے چھپ کر دیکھا۔“ مکڑی بڑبڑائی۔”ہم انہیں دوبارہ نہیں دیکھ پائے۔“ ایک موٹا آنسو مکڑی کی آنکھ سے زمین پر جاگرا۔
”مگر یہ بہت براعمل ہے کہ مکڑیوں کو یوں مار دیا جائے!“ کنکھجورا بولا۔”بہت برا……! دیکھو……! خالہ اسپونج کا کیا حشر ہوا۔ ان کے اوپر سے آڑو گزر گیا۔ یہ مکافات عمل تمہارے لئے تھا مکڑی محترمہ!“
”مجھے سکون ملا تھا۔ کیا تم اس بارے میں گانا گا سکتے ہو؟“ مکڑی بولی۔
تو کنکھجورا شروع ہوا۔
”خالہ اسپونج بے حد موٹی تھی،
ان کا جسم بھدا تھا،
ان کا پیٹ بڑا تھا،
جس چیز پر وہ بیٹھتیں وہ ٹوٹ جاتی،
تو انہوں نے سوچا:
”مجھے پتلا ہونا ہے،
مجھے بلی جیسا بنناہے،
میں کھا نا نہیں کھاؤں گی
تاکہ خود کو پتلا کروں۔“
مگر پھر آڑو آگیا،
کیا خوبصور ت آڑو!
اور ان کو ہمیشہ کے لئے پتلا کردیا گیا!“
”بہت اچھا! ایک خالہ اسپائکر کے لئے بھی گاؤ!“ مکڑی بولی۔
”ضرور!“ کنکھجورا مسکراتے ہوئے بولا۔
”خالہ اسپائکر تار کی طرح پتلی تھیں
ہڈی کی طرح سوکھی ہوئی،
وہ لمبی اور پتلی تھی،
اگر تم اسے آگ میں لے جاتے تو،
وہ لکڑی کی جگہ کام آجاتی۔
وہ کہتی تھی،”مجھے کچھ کرنا چاہیے۔
مجھے موٹاہونا ہے، وزن بڑھانا ہے،
مجھے بہت کچھ کھانا پڑے گا،
بہت سی مٹھائی اور کیک،
جب تک میں موٹاپے سے لڑکھڑا نہ جاؤں!
ارے ہاں! وہ چلائی،میں نے قسم کھائی ہے کہ طلوع آفتاب تک خود کو موٹا کروں گی۔“
مگر آڑو نے کچھ کہا!
”میں صبح تک تمہیں بدل دوں گا!
اوراس کے باغ میں اسے استری کردیا!“
ہر کوئی گانے کے اختتام پر تالیاں بجانے لگا اور دوسرے گانوں کی فرمائش کرنے لگا جس پر کنکھجورے نے اور بھی گانے گائے۔ وہ اس وقت تک گاتا رہا جب جیمز کی آواز آئی:
”پیچھے دیکھو!“

باب نمبر:26
کنکھجورا جس نے گانے کے ساتھ ساتھ جھومنا بھی شروع کردیا تھا …… وہ گاتے جھومتے آڑو کے کنارے پہنچ گیا …… اور وہ تین لمحے ہی کھڑا رہاہوگاکہ پھر ٹانگ ایسے گولائی میں گھمائی کہ وہ کوشش کے باوجود خود کو آڑوپر سے گرنے سے نہ بچا سکا……اور اس سے پہلے کہ کوئی اسے بچا پاتا، وہ گرچکا تھا۔ وہ خوف سے چلایا اور سب اسے دیکھنے کنارے پر گئے مگر اس کا جسم نیچے جاتا رہا اور چھوٹا ہوتا گیا ……یہاں تک کہ نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
”ریشم کے کیڑے! جلدی دھاگا بناؤ!“ جیمز چلایا۔
ریشم کے کیڑے نے ٹھنڈی آہ بھری، وہ پہلے ہی دھاگہ بنا بنا کر تھک چکا تھا مگر اس نے ویسا ہی کیا جیسا اسے کہا گیا۔
”میں اسے بچانے جارہا ہوں!“ جیمز چلایا اورریشم کے کیڑے سے نکلی اس رسی کو پکڑ کر اپنے پیٹ سے باندھ لیا۔
”تم سب ریشم کے کیڑے کو پکڑے رکھو تاکہ یہ میرے ساتھ نہ گرجائے اور پھر جب تم لوگوں کو لگے کہ دھاگے میں تین جھٹکے آچکے ہیں، تومجھے پھر سے اوپر کھینچنا۔“ جیمز بولا۔
اورجیمز کود گیا، وہ اڑتے اڑتے کنکھجورے کو ڈھونڈتا رہا،…… نیچے،…… نیچے،…… نیچے…… یہاں تک کہ سمندر نظر آنے لگا۔ اب آپ تصور کرہی سکتے ہوں گے کہ اس کام کے لئے ریشم کے کیڑے کو کتنی تیزی سے دھاگہ بنانا پڑا ہوگا تاکہ جیمز کی رفتار کو رسی کے ساتھ متوازن رکھ سکے۔
”ہم ان دونوں کو اب کبھی نہیں دیکھ پائیں گے! ابھی ہم کتنے خوش تھے نا؟“ بیر بہوٹی رونے لگی۔
مکڑی محترمہ اور مادہ جگنو بھی اس کے ساتھ رونے لگے۔ کیچوا بھی رونے لگا۔
”مجھے کنکھجورے کی پروا نہیں مگر مجھے اس لڑکے سے بہت پیار تھا!“ کیچوے نے ہچکی سی لی۔
بہت نرمی سے بوڑھا ٹڈا اداس موسیقی بجانے لگا اور کچھ ہی لمحات میں سب پر آنسوؤں کا سیلاب آگیا۔
اچانک رسی پر تین جھٹکے آئے۔”کھینچو!“ ٹڈا چلایا۔”سب پیچھے کھڑے ہوکر کھینچو!“
رسی ابھی بہت نیچے تھی اور اسے اوپر لانا تھا۔مگر انہوں نے پاگلوں کی طرح، خون پسینہ ایک کر کے کھینچا اور پھر آڑو کی ایک طرف سے پانی ٹپکاتا جیمز ابھرا اور اس کے ساتھ بیالیس ٹانگوں والا گیلا کنکھجورا بھی۔
”اس نے مجھے بچالیا……! یہ اٹلانٹک سمندر میں میرے لئے کودا اور اس کے وسط میں تیر کر مجھے بچایا۔“ کنکھجوراخوشی سے چلایا۔
”میرے بچے! مبارک ہو!“ ٹڈے نے جیمز کی کمر پر تھپکی دی۔
”میرے جوتے!“ کنکھجورا چلایا۔”میرے قیمتی جوتے پانی کی وجہ سے برباد ہوگئے!“
”چپ کرو! شکر کرو کہ تم زندہ ہو!“ کیچوا چڑ کر بولا۔
”ہاں ہم سب بچے ہوئے ہیں۔ چلو اب اندھیرا ہونے لگا ہے۔“ ٹڈا جواباً بولا۔
”ہاں! میں جانتا ہوں۔“
”کیوں نہ نیچے چل کر آرام کریں اور صبح اوپر آئیں؟“ مکڑی محترمہ نے تجویز دی۔
”نہیں! مجھے لگتا ہے کہ ہم سب کو ادھر اوپر ہی سونا چاہیے تاکہ ہم ہر خطرے سے آگاہ رہیں۔“ ٹڈا بولا۔”اور یہی عقل مندی کا فیصلہ ہوگا۔“

باب نمبر:27
جیمز ہنری ٹروٹراور اس کے ساتھی رات کے سائے میں اس آڑو کے اوپر سونے کے لئے لیٹے۔ ہر طرف سے ڈراؤنے، بے چین اور مہیب بادل پہاڑوں کی طرح ان کے سامنے تھے،۔ آہستہ آہستہ رات گہری ہوتی گئی اور خوبصورت چاند آسمان کا سفر کرنے لگااور ہر طرف چاندنی پھیلانے لگا۔ دیوہیکل آڑو خراماں خراماں اڑتا گیا اورپانچ سو سے زائد ریشمی دھاگے چاند کی روشنی میں مزید حسین لگنے لگے۔ ان کے اوپر بگلوں کا ایک جھنڈ تھا۔
وہاں کوئی آواز نہ تھی۔ آڑو پر سفر کرنا جہاز میں سفر کرنے جیسا نہیں تھا۔ جہاز تو آسمان میں دھاڑتے ہوئے آتا ہے اور بادلوں کو چیر کر گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے فضائی مسافروں کو کچھ خاص نظر نہیں آتا۔
مگر آڑو؟…… ہاں …… آڑو ایک نرم اور آرام دہ سواری ہے جو ہوا میں کوئی شور نہیں کرتی اور اڑتی جاتی ہے۔ اور کئی بار اس خاموشی کو پانی پر لگتی چاند کی روشنی اور پانی کی آوازچھناک سے توڑ دیتی۔ جیمز اور اس کے دوستوں نے وہ دیکھا جو آج سے پہلے کبھی کسی نے نہ دیکھا تھا۔ جیسے ہی وہ ایک بڑے، سفید بادل سے گزرے، انہوں نے دیکھا کچھ عجیب، لمبے، دھویں سے بنے جسم والے عجیب و غریب لوگوں کا گروہ وہاں موجودتھا۔ وہ لوگ عام انسان سے قد میں دوگنا زیادہ تھے۔ پہلے تو وہ اس لئے دیکھے نہیں جاسکتے تھے کہ ان کا رنگ بالکل بادل جیساتھا مگر جیسے ہی آڑو بادل کے قریب گیا تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں کچھ لوگ ہیں۔ جان دار…… لمبے…… دھواں سے …… عکس جیسے سفید لوگ جو ایسے لگتا تھا کہ روئی اور پتلے سفید بالوں کے بنے ہوں۔
”اوہ!“ بیر بہوٹی بولی۔”مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔“
”شش!“ جیمز نے انہیں چپ کرایا۔”اپنی آواز ان کو سننے مت دینا، یہ ضرور بادل کے لوگ ہیں۔“
”بادل کے لوگ؟“ وہ بڑبڑائے اور ایک دوسرے کے قریب ہوگئے۔
”شکر ہے میں تو اندھا ہوں، انہیں دیکھ ہی نہیں سکتا ورنہ میں تو چلاتا!“ کیچوے نے کہا۔
”دعا کرو، یہ مڑ کر ہمیں نہ دیکھیں۔“ مکڑی محترمہ نے دعا کی۔
”کیا تمہارا خیال ہے کہ یہ ہمیں کھا جائیں گے؟“ کیچوا پوچھ بیٹھا۔
”یہ تمہیں کھائیں گے …… پہلے کاٹیں گے، پھر سلاد کی طرح پتلے پتلے ٹکروں میں کھائیں گے!“ کنکھجورا مسکرا کر بولا۔
بیچارہ کیچوا خوف سے ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔
”مگر یہ کر کیا رہے ہیں؟“ ٹڈا بولا۔
”پتہ نہیں ……دیکھتے ہیں۔“ جیمز نے نرمی سے جواب دیا۔
بادل کے لوگ ایک گروہ کی صورت کھڑے تھے،اور ہاتھوں پر کچھ عجیب لپیٹے ہوئے تھے۔ پہلے وہ سب ایک ساتھ روئی جیسے بادل کو اٹھاتے اور تب تک گول گھماتے جب تک وہ بڑی، سنگ مرمرکی گیند سی نہ لگنے لگتے۔ پھر سنگ مرمرکی اس گیند کو ایک طرف کرتے اور دوسرے بادل اٹھاتے اور وہی کرتے۔
یہ سب خاموش اور حیرت انگیز تھا۔ ان کے پیچھے مرمریں چیزوں کا اتنا پہاڑ بن گیاتھا کہ ایک ٹرک پر ہی آسکا تھا۔
”یہ ضرور پاگل ہوں گے۔ اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے؟“ کنکھجورا بولا۔
”چپ کرو! یہ سب ہمیں کھاجائیں گے!“ کیچوا آہستہ سے بولا۔
مگر بادل کے لوگ اتنے مصروف تھے کہ انہوں نے اپنے پیچھے اتنے بڑے آڑو کی موجودگی کا احساس تک نہیں کیا۔ پھر آڑو کے سواروں میں سے کسی ایک نے دیکھا کہ …… بادل کے ایک آدمی نے اپنے لمبے دھویں جیسے بازو کو اپنے سر سے اوپر اٹھایا اور چیخا کہ، ”بس لوگو! بہت ہے! بیلچے اٹھا ؤ!“ اور بادل کے سب لوگ پہلے صحیح سے کھڑے ہوئے، پھر اچھلے اور مزے سے بازو ہوا میں ہلائے۔ پھر انہوں نے بڑے بڑے بیلچے اٹھائے، سنگ مر مر کے پہاڑ کی طرف گئے اور ان چھوٹی گیندوں کو اٹھا اٹھا کر تیزی سے بادل سے نیچے گرانے لگے۔ وہ سب نیچے گرتا گیا۔ ”یہ تو گئے نیچے……!“ وہ سب کام کرتے کرتے چہکے۔
”یہ تو گئے نیچے!
اب پڑے گی برف اور اولے!
سب جمیں گے اور ناک سے چھینکیں گے!“
”یہ اولے ہیں!“ جیمزجوش سے بولا۔”یہ اولے بنا رہے تھے اور اب برسارہے ہیں۔“
”اولے……؟ یہ تو عجیب ہے……! گرمی کا موسم ہے۔ گرمی میں کون سے اولے ہوتے ہیں؟“ کنکھجورا بولا۔
”یہ سردی کی مشق کررہے ہیں۔“ جیمز نے کہا۔
”مجھے یقین نہیں!“ کنکھجورا بولا۔
”شش! خداوند کے واسطے کنکھجورے اتنا شور مت کرو!“ سب نے سر گوشی کی۔
کنکھجورا قہقہے لگانے لگا۔ ”یہ پاگل لوگ کچھ سن نہیں سکتے! یہ بہرے ہیں! دیکھو!“ وہ بولا اور اس سے پہلے کہ کوئی اسے روک سکتا وہ بادل کے لوگوں پر شروع ہوگیا۔
”پاگل!“
”گدھے!“
”کیا کررہے ہو؟“
”آدھے دماغ کے لوگ!“ کنکھجورا زور زور سے ان پر چلایا۔
فوری اثر تو ہونا تھا…… بادل کے لوگ ایسے مڑے جیسے شہدکی مکھیوں نے کاٹ لیا ہو۔ اور جب انہوں نے سنہرے آڑو کو آسمان میں ا ڑتے دیکھا، وہ حیرت سے عجیب آواز نکالنے لگے اور بیلچے زمین پر پھینک دیے۔
اور وہ وہیں کھڑے تھے جہاں چاندنی پگھل کر ہر چیز کو روشن کررہی تھی۔ وہ بے حس و حرکت کھڑے تھے، جیسے لمبے، بالوں سے بھرے مجسموں کا گروہ ہوجو آڑو کو دیکھ رہا ہو۔
سوائے کنکھجورے کے،سہمے ہوئے آڑو کے مسافر بادلوں کی مخلوق کو تک رہے تھے اور آگے کیا ہوگا کی فکر پال بیٹھے تھے۔
”کھڑی کردی نا مصیبت!“ کیچوے نے کنکھجورے سے سرگوشی کی۔
”میں ان سے ڈرتا نہیں ہوں!“ کنکھجورا چلایا اور کھڑا ہوگیا اور ان بادل کے لوگوں کا مذاق اڑانے کے لئے ناچنے لگا اور وہ بھی بیالیس ٹانگوں سمیت۔
اس حرکت نے بادل کے لوگوں کو توقع سے زیادہ غصہ دلایا۔
وہ اچانک گھومے اوربھر بھر کے اولے بادل کے کنارے سے ان پر پھینکنے شروع کردیے۔ ان کے اس عمل سے غصہ چھلکتا تھا۔
”دیکھو! جلدی لیٹ جاؤ! سیدھے لیٹ جاؤ!“ جیمز چیخا۔
خوش قسمتی سے وہ لیٹ گئے۔ ایک بڑا اولہ آپ کو ایک پتھر جتنی چوٹ دے سکتا ہے۔بالکل جیسے کوئی پتھر تاک کے مارا گیاہو۔ اولے ہوا میں گولیوں کی طرح اڑتے ہوئے آڑو پر لگے۔ جیمز ان کی زوردار آواز سن سکتا تھا اور یہ بھی کہ اولے آڑو کے گودے میں پیوست ہورہے تھے۔ ”پلوپ! پلوپ! پلوپ!“کی آواز کے ساتھ وہ آڑو پر لگ رہے تھے۔ اور پھر ”پنگ! پنگ!“بیر بہوٹی کے خول پر بھی لگے کہ وہ ان سب کی طرح سیدھی نہیں لیٹ سکتی تھی۔ پھر کنکھجورے کی ناک اور کہیں اور لگے۔
”اوہ!رکو! رکو!“ وہ چلایا، مگر بادل کے لوگوں کا رکنے کا کوئی ادارہ نہیں تھا۔ جیمز انہیں بھوتوں کی طرح اولے اٹھاتے اور بادل کے کنارے سے پھینکتے دیکھ رہا تھا۔ان کے پھینکے گئے اولے سیدھے آڑو پر لگے …… پھر وہ مڑے تاکہ اور اولے لائیں مگر اولے ختم تھے، تو انہوں نے چھوٹی بدلیاں اٹھائیں اور بڑی بڑی گیندیں بناکر گولوں کی طرح آڑو پر دے ماریں۔
”جلدی! دہانے کے اندر چلو ورنہ آج توہم گئے!“ جیمز بولا۔
پھر دہانے میں بھیڑ ہو گئی اور ایک منٹ میں سب آڑو کی گٹھلی میں تھے۔وہ خوف سے کپکپاتے ہوئے اولوں کی آواز سنتے رہے ……جو ابھی بھی آڑو کو لگ رہے تھے۔
”میں بہت زیادہ زخمی ہوں!“ کنکھجورا کراہا۔
”اچھا ہوا!“کیچوا بولا۔
”کیا کوئی میرے خول کو دیکھنے کی زحمت کرے گا کہ یہ ٹوٹ تو نہیں گیا؟“ بیر بہوٹی بولی۔
”روشنی دو!“ بوڑھا، ہرا ٹڈا بولا۔
”میں نہیں دے سکتی!“ مادہ جگنو افسوس سے بولی۔ ”میری بتی ٹوٹ گئی ہے۔“
”تو نئی لگالو۔“ کنکھجورا بولا۔
”ایک لمحے کے لئے چپ کرو۔ سنو! مجھے یقین ہے کہ اب وہ ہمیں مارنا بند کرچکے ہیں!“ جیمز بولا۔
وہ سب خاموش ہوکر سننے لگے۔ کوئی آواز نہیں آئی۔
اولے اب آڑو پر نہیں لگ رہے تھے۔
”ہم انہیں پیچھے چھوڑ آئے ہیں!“
”بگلوں نے ہمیں مصیبت سے نکال دیا۔“ آواز آئی۔
”واہ! چلو اوپر چل کر دیکھتے ہیں۔“
پہلے جیمزاحتیاط سے گیا،پھر وہ سب دہانے کو پار کر کے آئے۔ جیمز نے سر باہر نکالا اور آس پاس دیکھا۔
”یہ صاف ہے! وہ کہیں نہیں ہیں!“

باب نمبر:28
ایک ایک کر کے، مسافر آڑو کی چھت پرآگئے اور اطراف کا جائزہ لینے لگے۔ چاند ابھی بھی چمک رہا تھا اور ہر طرف بڑے بادل دمک رہے تھے…… مaگر اب بادل کے لوگوں میں سے کوئی سامنے نہیں تھا۔
”آڑو کا رس جگہ جگہ سے نکل رہا ہے!“ ٹڈا آڑو کے اطراف میں دیکھنے لگا۔”بہت سے سوراخ ہوگئے ہیں اور رس ہر جگہ سے گر رہا ہے۔“
”یہی ہے نا……! اگر آڑو کا رس گررہا ہے تو ہم ڈوب جائیں گے!“ کیچوا بولا۔
”احمق ہم پانی میں نہیں ہیں!“ کنکھجورا بولا۔
”ارے دیکھو! دیکھو! وہاں!“ بیر بہوٹی چلائی۔
ہر کوئی دیکھنے کو گھوما۔
ان کے بالکل سامنے……تھوڑے ہی فاصلے پر، ایک غیر معمولی منظر تھا۔ وہ ایک دائرے کے محیط کا ایک حصہ تھا،(یعنی 180 ڈگری کے زاویے کی طرح جیسے ریاضی والی ڈی ہوتی ہے) بالکل ایک مڑی ہوئی شکل جو بہت بڑی اور بلند تھی۔ ا س کے ایک سرے کے ساتھ بادل ایسے جڑے ہوئے تھے جیسے کوئی ریگستان ہو۔ وہ انھی بادلوں پر کھڑا تھا۔
”اب یہ کیا ہے؟“ جیمز نے پوچھا۔
”یہ پل ہے!“
”یہ لکڑی کی آدھی مڑی ہوئی پٹی مڑی ہے!“
”یہ ایک دیوہیکل گھوڑے کا نعل ہے جو الٹا کھڑا ہے!“
”کیا مجھے غلط تو نظر نہیں آرہا کہ وہاں بادل کے لوگ چڑھے ہوئے ہیں؟“ کنکھجورابولا۔
پھر ایک مہیب سناٹا چھا گیا۔ آڑو آہستہ آہستہ اس کے قریب جارہا تھا۔
”وہ بادل کے لوگ ہیں!“
”وہ سو ہیں!“
”ہزاروں میں!“
”دس لاکھ سے زائد!“
”میں اس بارے میں نہیں سننا چاہتا!“ بیچارہ کیچوا چیخا۔”بھلے مجھے مچھلی کے کانٹے میں ڈال کر مچھلیاں پکڑ لو مگر میں ان بے کار لوگوں کی تحویل میں نہیں جانا چاہتا۔“
”مجھے بھلے ہی کوئی زندہ پکالے اور میکسیکو کے لوگوں کو کھلادے!“ بوڑھا ٹڈا رونے جیسی شکل بنا کر بولا۔
”چپ کرو! یہ ہماری آخری امید ہے!“ جیمز نے سرگوشی کی۔
وہ آڑو کے اوپر بیٹھ گئے اور بادل کے لوگوں کو گھورتے رہے۔ بادل ان کے قریب آرہے تھے اور وہ بھیانک پل اپنے اوپر چھوٹے چھوٹے بادلوں کا تاج سجائے تمکنت سے کھڑا تھا۔
”مگر یہ کیا ہے……؟ وہ کیا کررہے ہیں؟“ بیر بہوٹی نے پوچھا۔
”مجھے پروا نہیں!میں نیچے جارہا ہوں! الوداع!“ کنکھجورا سرنگ کے منہ پر پیر رکھ کر بولا۔
مگر وہ سب بے حد خوف زدہ تھے اور اس سارے منظر میں کھوگئے تھے۔
”کیا تم جانتے ہو؟“ جیمز نے کہا۔
”کیا؟“ سب بولے۔
”وہ جو بڑا پل لگ رہا ہے نا، یہ لوگ اس میں رنگ کررہے ہیں۔ دیکھو ان کے پاس رنگوں کے مٹکے اور بہت سارے بڑے برش ہیں!“
وہ درست تھا۔ مسافر اب اتنے قریب تھے کہ باآسانی دیکھ رہے تھے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں بڑے برش تھے اور وہ رنگوں کو اس پل پر اچھال رہے تھے اور وہ بھی کافی تیزرفتار سے،…… اور کچھ ہی منٹوں میں وہ پل رنگوں سے بھرا گیا۔ سرخ، نیلا، سبز، پیلا، اوربینگنی رنگ۔
”ارے وہ تو قوس قزح ہے!“ وہ سب ایک ساتھ بولے۔
”وہ قوس قزح بنارہے ہیں! دھنک کے سات رنگ!“
”حسین!“
”رنگ دیکھو بس!“
”کنکھجورے! جلدی اوپر آؤ!“ انہوں نے چلا کر کہا۔”تمہیں یہ ضرور دیکھنا چاہئے!“
وہ سب قوس قزح کی خوب صورتی اور رنگوں سے بے حد متاثر ہوئے ……اور وہ بھول گئے کہ انہیں اپنی آواز ہلکی رکھنی ہے۔ کنکھجورے نے سرنگ کے داخلی حصے سے سر نکالا اور کہا،”ہمیشہ سوچتا تھا کہ ایسی چیزیں بنتی کیسے ہیں …… مگر یہ لوگ رسیاں کیوں استعمال کررہے ہیں؟“
”ارے! یہ لوگ قوس قزح کو رسیاں ڈال کر بادل پر سے ہٹا رہے ہیں! دیکھو وہ قوس قزح کو زمین پر لارہے ہیں اور وہ بھی رسیوں کی مدد سے!“ جیمز چلایا۔
”میں تم لوگوں کو کچھ اور بتاتاہوں!“ کنکھجورا چبھتے ہوئے انداز میں بولا۔”ہم اس قوس قزح سے ٹکرانے والے ہیں!“
”یہ درست ہے!!“ بوڑھا ٹڈا چلایا۔
قوس قزح اب بادل کے نیچے لٹکا ہوا تھا۔ آڑو اور بادل میں کم ہی فاصلہ تھا اور وہ تیز ی سے اس کی طرف بڑھ رہے تھا۔
”ہم ہار گئے! آج تو ہماری شامت آگئی!“ مکڑی محترمہ روتے ہوئے بولی۔
”میں یہ نہیں دیکھ سکتا!“ کیچوا لمبی آہ بھر کر بولا۔
”مجھے بتاؤ کیا ہورہا ہے!“
”ہم نہیں ٹکرائیں گے!“ بیر بہوٹی بولی۔
”نہیں! تم غلط ہو!“
”ہاں! ہم بچ جائیں گے!“
”نہیں! نہیں! ہاں! نہیں!“
”سب رکو!“ جیمز بولا ……پھر اچانک ٹکرانے کی آواز آئی اور آڑو قوس قزح سے ٹکرا کر گزر گیا۔ پھر ایسی ٹوٹنے کی آوازآئی جیسے لکڑی ٹوٹنے کی آتی ہے اور قوس قزح بیچ میں سے ٹوٹ کر دوحصوں میں تقسیم ہوگئی۔
اگلی صورت حال جو درپیش آئی ……بڑی بدقسمتی والی تھی۔ بادل کے لوگ جو رسیاں قوس قزح کو نیچے لانے کے لئے استعمال کررہے تھے،وہ ریشمی دھاگوں میں الجھ گئیں …… وہی دھاگے جن کی مدد سے بگلے آڑو کو اڑاتے جارہے تھے۔ اب آڑو پھنس گیا تھا۔ مسافروں میں خوف پھیل گیا اور جیمز ہنری ٹروٹر نے جلدی سے دیکھا کہ بادل کے ایک ہزارلوگ، بادل کے کنارے کھڑے انہیں ہی دیکھ رہے تھے…… وہ بھی غصے سے۔ان کے چہروں کی کوئی خاص ہیئت نہیں تھی کیونکہ وہ لمبے، سفید بالوں میں چھپے ہوئے تھے۔ نہ کوئی ناک، نہ منہ، نہ کان، نہ تھوڑی……بس ہر چہرے پردو سیاہ آنکھیں چمک رہی تھیں جو ان کے بہت سارے بالوں سے جھانک رہی تھیں۔
پھر ایک بہت خوفناک چیز ہوئی۔ بادل کا بالوں سے بھراایک بڑا آدمی،جو یقینا چودہ فٹ کا تھا، کھڑا ہوااور اچانک بادل سے اچھل کر آڑو کا ایک دھاگہ پکڑنے کی کوشش کی۔ پھرجیمز اور اس کے دوستوں نے اسے دھاگوں کے ساتھ ہوا میں اٹھتے دیکھا، اس کے بازو پھیل گئے اور وہ اپنے سے قریب ترین دھاگہ پکڑنے لگا……پھر انہوں نے دیکھا کہ اس نے دھاگہ پکڑ لیااور اپنے ہاتھ پاؤں سمیت اس سے چپک گیا۔ پھر آہستہ آہستہ، اپنے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی کرکے انہیں نیچے لاتا گیا اور دھاگوں کے ساتھ ساتھ نیچے آنے لگا۔
”خداوند!ہمیں بچاؤ!!“ بیر بہوٹی چلائی۔
”یہ ہمیں کھانے آرہاہے!بھاگو!“ ٹڈا چیخا۔
”یہ پہلے کیچوے کو کھائے گا!“ کنکھجورا بولا۔ ”مجھے کھانا تمہیں مزیدار نہیں لگے گا کیوں کہ میں ہڈیوں سے بھرا ہوا ہوں!“
”کنکھجورے!“ جیمز چیخا۔”جلدی سے اس دھاگے کو کاٹ ڈالوجس سے وہ نیچے آرہا ہے!“
کنکھجورا آڑو کی ٹوٹی ہوئی ٹہنی تک بھاگا پھر ریشم کا دھاگا دانتوں میں لیا اور کاٹ ڈالا۔فوراً ہی ان کے اوپر ایک بگلا اپنے جھنڈ کو چھوڑ کر اڑگیا اور اس کے گلے میں دھاگہ بندھا رہا۔ بادل کاآدمی جو اسی دھاگے سے لٹکا ہو اتھا، چلانے لگا اور غصے سے بددعائیں دینے لگا۔ وہ اوپر چاند والے آسمان کی طرف اڑتا گیا۔
جیمز اسے دیکھتا رہا اور بولا، ”خداوند!……اس کا مطلب ہے کہ اس کا کوئی وزن نہیں ہے، ایک بگلے جتنا بھی نہیں ورنہ ایک بگلا اس کو اپنے ساتھ کیسے اڑا سکتا ہے۔یہ صرف بالوں اور ہوا کا بنا ہوگا!“
بادل کے باقی لوگ بوکھلا کر اسے جاتا دیکھ رہے تھے اوران پر ایسی گھبراہٹ طاری ہوئی کہ ان کے ہاتھوں سے رسی چھوٹ گئی اور قوس قزاح جو ٹوٹا ہواتھا، گر گیا اور زمیں کی طرف جانے لگا۔ اس چیز نے آڑو کو آزاد کردیا اور آڑو اس خوفناک بادل سے دور جانے لگا۔
مگر مسافروں کو اب بھی کچھ سمجھ نہ آیا۔ غصے سے بھرے بادل کے لوگ اچھلے اور بادل کے ساتھ ان کا پیچھا کرنے لگے اور بھاری اور سخت چیزیں آڑو کومارنے لگے جو آڑو کو لگتی رہیں۔ بادل کا ایک آدمی احتیاط سے کنارے پر آیا اور ایک جامنی رنگ کا مٹکا کنکھجورے پرپھینکا۔
”میری ٹانگیں!“ کنکھجورا بولا۔”میری ٹانگیں چپک رہی ہیں! میں چل نہیں پارہا! میری آنکھیں نہیں کھل رہیں! کچھ نظر نہیں آرہا! میرے جوتے! میرے جوتے برباد ہوگئے!“
مگر ہر کوئی اتنا مصروف تھا کہ کوئی ان چیزوں کو اور کنکھجورے کی چیخوں کو سن نہ پایا۔
”رنگ سوکھ رہا ہے! یہ سخت ہورہا ہے! میری ٹانگیں ہل نہیں رہیں! میں ہل نہیں پارہا!“ وہ مزید رویا۔
”تم ابھی بھی اپنا منہ چلاسکتے ہو اور یہی ان سے غلطی ہو گئی!“ کیچوا بولا۔
”جیمز!“ کنکھجورا بولا۔”میری مدد کرو! رنگ اتارو! رنگ دھوڈالو! کچھ کرو!“

باب نمبر:29
ان ہول ناک بادلوں سے آڑو کودور لے جانے میں بگلوں کوتھوڑا وقت لگا مگر بالآخر وہ لے گئے اور پھر ہر کوئی چپکے ہوئے کنکھجورے کی طرف بڑھا اور اس کے جسم سے رنگ ہٹانے کے لئے بحث کرنے لگا۔
وہ بینگنی رنگ کا ہوگیا تھا اور عجیب لگ رہا تھا۔ رنگ اب سوکھ رہا تھا اور سخت ہورہا تھا۔ وہ زبردستی سیدھا بیٹھا تھا،ایسے جیسے سیمنٹ سے بنا ہو۔ اس کی بیالیس ٹانگیں اکڑ کراس کے سامنے ایسی سیدھی تھیں جیسے سلاخیں ہوں۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اس کے ہونٹ ساتھ دینے سے قاصر تھے۔ وہ بس گلے سے عجیب و غریب آوازیں نکال رہا تھا۔
ٹڈا اس کے قریب گیا اور اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔”مگر یہ اتنی جلدی سوکھ کیسے گیا؟“ اس نے پوچھا۔
”یہ دھنک کے رنگوں میں سے ہے اور وہ جلدی سوکھ جاتے ہیں!“ جیمز نے جواب دیا۔
”مجھے رنگوں سے سخت نفرت ہے!“ مکڑی محترمہ نے اعلان کیا۔”یہ مجھے خوفزدہ کرتے ہیں ……یہ مجھے خالہ اسپائکر کی یاد دلاتے ہیں۔ مطلب مرحومہ خالہ اسپائکر…… آخری بار جب انہوں نے اپنے باورچی خانے کی چھت کو رنگا تھا تو میری پیاری دادی ماں اس میں آگئیں …… مگر غلطی سے۔ پھر وہ وہیں گیلی ہوکر جم گئیں۔ پوری رات ہمیں ان کی آوازیں آتی رہیں کہ، ”بچاؤ! بچاؤ!“ اور ان کی آوازوں نے ہمارا دل توڑ دیا تھا۔ مگر ہم کیا کرسکتے تھے؟ اگلی صبح جب رنگ سوکھ گیا تو ہم ان کے پاس گئے ان کو تسلی دی اور کھانا دیا۔ یقین مانو کہ وہ چھ ماہ اسی طرح چھت سے الٹی لٹکی رہیں۔ ان کی ٹانگیں رنگ سے چپک گئی تھیں۔ ہم انہیں روز کھانا کھلاتے تھے۔ ہم انہیں جالوں سے تازہ مکھیاں لاکر دیتے تھے۔ مگر چھبیس اپریل کو،خالہ اسپونج……مرحومہ خالہ اسپونج نے انہیں چھت پر دیکھا۔ ”مکڑی!“وہ چلائیں۔ ”وہ گندی مکڑی! جلدی! مجھے جھاڑو دو لمبے ہاتھ والا!“
اور پھر بہت برا ہوا جسے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی……“ مکڑی محترمہ نے ایک آنسو صاف کیااور کنکھجورے کو اداسی سے دیکھا۔ ”بے چارہ کنکھجورا!“ وہ بڑبڑائی، ”مجھے تم سے ہمدردی ہے۔“
”یہ کبھی نہیں اترے گا!“ کیچوے نے جل کر کہا۔”ہمارا کنکھجورا اب کبھی نہیں چلے گا۔ یہ ایک مجسمہ بن جائے گااور ہم اسے باغ میں رکھ کر اس کے سر پر پرندوں کا کھانا رکھ دیں گے۔“
”ہم اسے کیلے کی طرح چھیل سکتے ہیں۔“ ٹڈے نے تجویز دی۔
”یا ہم اسے ریگ مال سے رگڑلیں۔“ بیر بہوٹی بولی۔
”اگر اس نے زبان نکالی تو،“ کیچوا مسکرا کر بولا۔ شاید وہ اپنی زندگی میں پہلی بار مسکرایا تھا۔”اگر اس نے زبان نکالی تو ہم اسے پکڑکر کھینچیں گے۔ اور اگر ہم نے سختی سے کھینچا تو قوی امکان ہے کہ یہ بدل جائے گا اور اس کی نئی کھال آجائے گی!“
پھر ایک خاموشی کا وقفہ آیاجب تک سب اس دلچسپ مشورے پر سوچنے لگے۔
”میرا خیال ہے کہ……“ جیمز دھیمے لہجے میں کہہ رہا تھا، جب وہ رکا۔”یہ کیسی آوازتھی؟“ وہ جلدی سے بولا۔”میں نے کسی کو چلاتے ہوئے سنا!“

باب نمبر: 30
ان سب نے سننے کے لئے سر اٹھائے۔
”شش! آوازآرہی ہے!“
مگر آواز بہت دور سے آرہی تھی اس لیے واضح نہیں تھی۔
”یہ کسی بادل کے آدمی کی آوازہے!“ مکڑی محترمہ چیخیں۔ ”میں جانتی ہوں یہ اسی بادل کے آدمی کی آوازہے۔“
”پھر سے ہمارے پیچھے لگ گئے!“
”یہ اوپر سے آئی ہے!“ کیچوا بولا اور سب مقناطیسی انداز میں اوپر دیکھنے لگے…… سوائے کنکھجورے کے کہ وہ ہل نہیں سکتا تھا۔
”اؤچ……! کوئی بچاؤ……! اس بار تو گئے……!“ وہ سب چلائے۔ اب انہوں نے دیکھا کہ ایک سیاہ بادل گول گھوم کر ان کے سروں پر گرنے والا ہے۔ وہ کالا، ہولناک، خوفناک اور بجلی سے بھرابادل ……دھاڑ رہا تھااور وہ اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ دور سے آتی آوازبہت تیز اور صاف ہوتی گئی۔
”اپنے نل کھولو!
اپنے نل کھولو!
اپنے نل کھولو!“ آوازآرہی تھی۔
تین لمحے بعدانہوں ے دیکھا، بادل نیچے سے پھٹا اور بالکل کاغذ کی پوٹلی کی طرح پھٹا……اوراس کے اندر سے پانی نکل آیا۔ یہ جاننا آسان تھا کہ وہ بارش کے قطرے نہیں تھے، وہ بڑے بڑے پانی کے قطرے تھے جیسے آسمان سے پوری ندی یا سمندران پر برس رہا ہو…… اورپھر پانی نیچے آتا گیا۔ پہلے بگلوں پر اور پھر آڑو پر۔ بے چارے مسافر خوف سے کانپنے لگے…… اور آ س پاس دیکھنے لگے کہ کوئی چیز مل جائے جو سہارا دے…… آڑو کی ٹہنی……ریشمی دھاگے ……جو کچھ بھی ہو۔ ان پر تیزی سے پانی برستا رہا، تڑاتڑ،گر گر، ترتر،…… اور ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے انھیں دنیا کی سب سے بڑی آبشار کے نیچے کھڑا کردیاہو اور اس سے نکل نہ پارہے ہوں، نہ ہی بول پارہے ہوں، نہ دیکھ پارہے ہوں اور نہ سانس لے پارہے ہوں۔ جیمز ہنری ٹروٹر نے ریشمی دھاگے پکڑ لیے تھے اورذہن میں سوچ لیا تھا کہ یہی ان کا نجام ہے۔ مگر اچانک جیسے یہ سلسلہ شروع ہوا تھا، ویسے ہی رک گیاکیونکہ وہ اس سے نکل گئے تھے۔ حیرت انگیز طور پربگلے اڑتے اڑتے بادل کے اندر سے دوسری طرف نکل گئے تھے۔ ایک بار پھر دیوہیکل آڑو چاندی سے بھرے آسمان میں سکون سے اڑا رہا تھا۔
”میں ڈوب گیا ہوں!“ ٹڈا چلایا اور پانی تھوکنے لگا۔
”یہ میری جلد سے اندر داخل ہوگیا ہے!“ کیچوا رویا۔”میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ میری جلد پر پانی کام نہیں کرتا مگر اب میں بارش سے بھرا ہوں!“
”مجھے دیکھو! اس نے مجھے دھوڈالا۔ رنگ اتر گیا۔ میں چل سکتا ہوں!“ کنکھجورا جوش سے چلایا۔
”یہ بری خبر ہے!“ کیچوا بولا۔
کنکھجورا ناچنے لگا اور گانے لگا:
”شکریہ بارش اور طوفان……تمہارا!
میں چل سکتا ہوں کسی تکلیف کے بغیر!
میں اب ایک کیڑا ہوں!
سب سے بڑا اور اچھا،
میں ایک زبردست کیڑا ہوں پھر سے!“
”چپ کرو!“ ٹڈا بولا۔
”مجھے دیکھو!“ کنکھجورا بولا۔
”مجھے دیکھو میں ا ٓزاد ہوں!
کوئی خون اور خراش نہیں!“ وہ خوشی سے گاتا گیا۔

باب نمبر:31
”ہم کتنی تیزی سے اڑ رہے ہیں …… پتا نہیں کیوں؟“ بیر بہوٹی بولی۔
”میں نے ایسے بگلے کبھی نہیں دیکھے۔“ جیمز نے جواب دیا۔”شاید یہ اس طوفانی بارش سے خوفزدہ ہوگئے ہوں گے ……میں سوچتا ہوں ان کو بھی مصیبت سے نکلنے کی جلدی ہوگی۔“
بگلے آسمان کو چیرتے ہوئے تیزی سے اڑ رہے تھے،اور ان کے پیچھے اڑتا ہوا آڑو۔ ہر بادل خود ہی پیچھے ہٹتا گیا، وہ سب چاند کی روشنی میں سفید بھوت جیسے لگ رہے تھے۔ پھر انہوں نے کچھ بادل کے لوگ دیکھے جو آسمان پر گھوم کر نیچے دنیا پر جادو کررہے تھے۔ پہلے انہوں نے ایک برف سے بھری مشین چلائی جسے بادل کے لوگ پکڑ کر ادھر ادھر موڑ رہے تھے اور اس سے برف نکل رہی تھی۔ انہوں نے وہ بڑے بڑے ڈھول دیکھے جن سے بجلی کڑکنے کی آواز پیدا کی جاتی اور بادل کے لوگ بڑی بڑی ہتھوڑیوں سے اسے پیٹ رہے تھے۔ انہوں نے برف کا کارخانہ دیکھا، ہوا بنانے والے دیکھے، اور وہ جگہیں جہاں طوفان بناکر زمین پر بھیجے جاتے تھے اور پھر انہوں نے ایک بڑے بادل کی گہرائی میں دیکھا…… وہ یقینا بادل کے لوگوں کا شہر تھا۔ بادل میں ہر طرف غاریں تھیں اور غاروں کے دہانے پر بادل کے لوگوں کی بیویاں چھوٹے چولہوں کے ساتھ بیٹھی فرائی پین میں اپنے شوہروں کے رات کے کھانے کے لئے برف کی گولیاں تل رہی تھیں اور سینکڑوں بادل کے لوگوں کے بچے ہر طرف ہنستے ہوئے گھوم رہے تھے اور برف کی گاڑیوں میں ہر طرف موجوں کی طرح لہرارہے تھے۔ ایک گھنٹے بعد، طلوع آفتاب سے پہلے، مسافروں کو ایک نرم سی آواز آئی جیسے ہوا میں اڑنے کی ہوتی ہے، انہوں نے اوپر دیکھا توایک بڑے، سرمئی، چمگادڑ سے جانور کو اڑکر اپنی طرف آتے دیکھا،جو اندھیرے کو چیرتے ہوئے اڑ رہا تھا۔ وہ آڑو کے اوپر گول گھومتا رہا، اپنے بڑے بڑے پر جھلاتا رہا اور مسافروں کو دیکھتارہا۔ پھر اس نے بہت سی گہری، مایوسی والی چیخیں ماریں اور پھر سے کہیں اڑگیا۔
”بس جلدی سے صبح ہوجائے!“ مکڑی محترمہ کانپتے ہوئے بولیں۔
”اب رات لمبی نہیں ہوگی۔“ جیمز بولا۔”وہ دیکھو، اس طرف پہلے سے روشنی پھوٹ رہی ہے۔“
وہ سب خاموشی سے افق کنارے سے نئے دن کے سورج کو آہستہ آہستہ ابھرتے دیکھنے لگے۔

باب نمبر:32
اور پھر جب دن کی پوری روشنی ہوگئی، وہ سب اٹھے اورانگڑایاں لینے لگے۔انہوں نے کنکھجورے کو دیکھاجو آس پاس دیکھ کر چیخ رہا تھا۔”وہ دیکھو!نیچے زمین ہے!“
”یہ ٹھیک کہہ رہا ہے!“ وہ سب خوشی سے آڑو کے کنارے گئے اور نیچے دیکھنے لگے،”ہورے! واہ!“
”نیچے سڑکیں اور گھر ہیں!“
”بہت بڑا شہر ہے!“
ایک بڑا شہر، دن کی روشنی میں چمک رہا تھا اور ان سے تین ہزار فٹ نیچے تھا۔ اتنی بلندی سے گاڑیاں ایسے لگ رہی تھیں جیسے چھوٹے چھوٹے بچھو سڑک پر رینگ رہے ہوں اورچلتے ہوئے لوگ ایسے لگ رہے تھے جیسے بھٹی پر جم جانے والے ذرے چل رہے ہوں۔
”کتنی لمبی عمارتیں ہیں!“ بیر بہوٹی چیخی۔”میں نے ایسی عمارات انگلستان میں کبھی نہیں دیکھیں۔ یہ کون سا شہر ہوگا؟“
”ضرور ہم کسی اور جگہ ہیں! یہ انگلستان نہیں ہے!“ ٹڈا بولا۔
”پھر کہاں ہیں ہم؟“ مکڑی محترمہ بولیں۔
”تم جانتے ہو یہ کون سی عمارات ہیں؟“ جیمز جوش سے چیخا اور خوشی سے اچھلنے لگا۔ ”یہ اونچی عمارات ہیں! یہ ضرور امریکہ ہے۔ اورمیرے دوستو! اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اٹلانٹک سمندر (بحراوقیانوس) ایک رات میں پار کرلیا ہے!“
”نہیں یہ نہیں ہوسکتا ہے!“ وہ چلائے۔
”یہ ناممکن ہے!“
”ناقابل یقین!“
”غیر یقینی!“
”اوہ! میں نے ہمیشہ امریکہ جانے کی خواہش کی ہے!“ کنکھجورا چلایا۔”میرا ایک دوست تھا جو……“
”چپ کرو!“ کیچوا بولا۔”تمہارے دوست کی کسے پروا ہے؟ ابھی یہ سوچنا ہے کہ ہم زمین پر کیسے اتریں گے؟“
”جیمز سے پوچھو!“ بیر بہوٹی نے کہا۔
”مجھے نہیں لگتا یہ مشکل ہوگا۔“ جیمز نے کہا۔”ہمیں صرف تھوڑے بگلے اڑانے ہوں گے۔ زیادہ نہیں، بس اتنے جتنے ہمیں آرام سے زمین پر لاسکیں۔ پھر ہم آہستہ آہستہ نیچے اتریں گے۔کنکھجورا ہمارے لئے دھاگے کاٹے گا۔“

باب نمبر:33
ان کے نیچے، نیویارک شہر میں شور وغل سا پھیل گیا تھا۔ ایک گھر جتنی گیند ہوا میں، Manhattan (یہ نیویارک کا زیادہ آبادی والا علاقہ ہے) کے وسط میں پائی گئی تھی اور شور یہ مچا تھا کہ ایک بڑا بم دوسرے ملک سے سارے شہر کو اڑانے آیاہے۔ اچانک ہر طرف سائرن بجنے لگے۔ ریڈیو اور ٹی وی کے سارے پروگرام ہٹا کر لوگوں کے لیے تہہ خانوں میں چھپنے کا اعلان کردیا گیا۔ دس لاکھ لوگ جو اپنے کام پر نکلے تھے،اپنے اوپر اڑتی عجیب و غریب چیز کو دیکھنے کے لیے آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔ اور قریبی زیر زمین فٹ پاتھ (یعنی سڑک کے نیچے گزرنے والا پیدل چلنے کا راستہ) کا داخلی راستہ ڈھونڈنے لگے تاکہ چھپ سکیں۔ جرنلوں نے ٹیلی فون پر ہر کسی کو مطلع کیا۔ نیویارک کے میئر نے امریکہ کے صدر کو واشنگٹن بلایا تاکہ اس سے مدد لے سکیں اور صدرجوکہ اس وقت شب خوابی کے لباس میں ناشتہ کررہا تھا،سب کچھ چھوڑ چھاڑ، اپنی پلیٹ ہٹا، کچھ بٹن دبا کر اپنے کمانڈروں اور جنرلوں کو بلانے لگا۔ امریکہ کی ہر جگہ، پچاس صوبوں میں، الاسکا میں، فلوریڈا میں، پینی سلوانیا سے لے کر ہوائی تک لوگوں کو خطرے سے مطلع کردیا گیا تھا اور ہر جگہ خبر پھیلائی جاچکی تھی کہ نیویارک کے آسمان میں، تاریخ کا سب سے بڑا بم اڑ رہا ہے اور کسی بھی وقت وہ پھٹ سکتا ہے۔

باب نمبر:34
”آؤ کنکھجورے! پہلا دھاگہ کاٹو!“ جیمز نے حکم دیا۔
کنکھجورے نے ایک ریشم کی تار اپنے دانتوں کے درمیان لی اور کاٹ ڈالی۔ ایک بار پھر ایک بگلہ اپنے جھنڈ سے الگ ہو کر اڑ گیا۔ (مگر اس بار وہ اس بادل کے آدمی پر غصہ نہیں تھا جو کبھی اس کے دھاگے کے کونے پر لڑھک رہا تھا)
”ایک اور!“ جیمز نے حکم صادر گیا۔ کنکھجورے نے ایک اور دھاگہ کاٹ دیا۔
”ہم ڈوب رہے ہیں!“
”ہاں!“
”نہیں! ہم ڈوب نہیں رہے!“
”مت بھولو اس بار آڑو وزن میں ہلکا ہوتا جارہا ہے اور نیچے جارہا ہے۔“ جیمز نے کہا۔”مگر یہ ہلکا ہوگیا ہے کیوں کہ کل رات اولوں نے اس کا رس نکال دیا ہے۔ دواور بگلے اڑاؤ کنکھجورے!“
”ٹھیک ہے!“
”ہوگیا!“
”اب ہم سچ میں ڈوب رہے ہیں!“
”ہاں اب ٹھیک ہے، اور مت کاٹو کنکھجورے!ورنہ ہم گر جائیں گے۔ اس کو آہستگی سے اترنے دو۔“
آہستہ آہستہ دیوہیکل آڑو بلندی سے اترتا گیا اور سڑکیں اور عمارتیں قریب آتی گئیں۔
”کیا تمہیں لگتا ہے جب ہم اتریں گے تو ہماری تصاویر اخبارات میں آئیں گی؟“ بیر بہوٹی نے پوچھا۔
”ارے!میں تو جوتے پالش کرنا بھول ہی گیا۔“ کنکھجورا بولا۔ ”پہنچنے سے پہلے میرے جوتے پالش کرنے میں کسی کومیری مدد کرنی ہوگی!“
”خداوندکے لئے!“ کیچوا بولا۔”کیا تم یہ سوچنا چھوڑ نہیں ……“
مگر اس کا جملہ ادھورا رہ گیا۔ اچانک ایسی آواز آئی جیسی جہازکے اڑنے کی ہوتی ہے……وووووووو!!!……
اور انہوں نے اوپر دیکھا تو ایک بڑا،چار انجن والا ہوائی جہاز نظر آیا جو تیزی سے بادلوں سے گز رکر جارہا تھا اور ان کے سر سے بیس فٹ اوپر تھا۔ یہ اصل میں ایک مسافروں سے بھرا جہاز تھا جو شکاگو سے نیویارک آرہا تھا اور جیسے وہ گیا، اس نے ساری ریشمی ڈوریں کاٹ ڈالیں اور اچانک سب بگلے اڑگئے اور دیوہیکل آڑو جس کے پاس اب کوئی سہارا نہیں تھا، وہ کسی گوشت کے ٹکرے کی طرح زمین کی طرف گرنے لگا۔
”بچاؤ!“ کنکھجورا چیخا۔
”کوئی مدد کرو!“ مکڑی محترمہ چیخیں۔
”ہم تو گئے!“ بیر بہوٹی چلائی۔
”یہ ہمارا خاتمہ ہے!“ بوڑھا، ہرا ٹڈا چیخا۔
”جیمز!“ کیچوا رویا۔”کچھ کرو جیمز! جلدی! کچھ تو کرو!“
”میں نہیں کرسکتا!“ جیمز چلایا۔ ”مجھے معاف کردینا!……الوداع! اپنی آنکھیں بند کرلو! اب ہم گرنے والے ہیں بس!“

باب نمبر:35
گول گھومتے ہوئے،آڑو زمین کی طرف الٹا ہو کر جانے لگا اور وہ سب خود کو بچانے کے لئے ٹوٹی ٹہنی سے چپک گئے۔
جتنی تیزی سے وہ نیچے گرتا گیا، ان گھروں اور سڑکوں سے قریب ہوتا گیا جن سے وہ ٹکرا کر دس لاکھ ٹکروں میں تقسیم ہونے والاتھا۔ جو لوگ ففتھ ایونیو اور ایم ایونیو سے بھاگ کرزیر زمین گزر گاہوں میں نہیں چھپے تھے، وہ کھڑے آڑو کو دیکھ رہے تھے، اور بھی کئی سڑکیں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔ وہ بھاگنا چھوڑ کر اس بڑے بم کو دیکھ رہے تھے جس کا ذکر پہلے تاریخ میں کہیں نہیں ملتا تھا اوراب ان پر پھٹنے والاتھا۔ کچھ عورتیں چلا رہی تھیں۔ کچھ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر دعائیں مانگنے لگیں۔ کچھ مضبوط لوگ ایک دوسرے کو کہنے لگے:
”مجھے لگتا ہے یہ کچھ اور ہے!“
”الوداع! سب کو میری طرف سے الوداع!“
اور اگلے تیس لمحات، سارا شہر سانس روک کر اس کا انجام دیکھنے کا منتظر تھا۔

باب نمبر:36
”الوداع، بیر بہوٹی!“ جیمز نے گہری سانس لے کر کہااور اپنے ہاتھ ٹہنی پر مضبوط کردیئے۔”الوداع کنکھجورے! الوداع دوستو!“ اب بس کچھ لمحات رہتے ہیں اور یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ لوگ سب سے اونچی عمارت پر گرنے والے ہیں۔ جیمز ان بلند و بالا عمارات کو خود سے قریب ہوتا دیکھ سکتا تھا اور ان میں سے بہت سی بلندعمارات کی سطح اوپر سے ہموار تھی مگر کچھ کی اوپر سے بڑی سی چاندی کی سوئی کی طرح نوک سی نکلی ہوئی تھی۔
اور ہاں، آڑو ان میں سے کسی ایک کی اوپری سوئی پر گراتھا۔
پھر ایسی آواز آئی جیسے دلدل میں یا کیچڑ میں گرنے کی ہوتی ہے۔ سوئی اندر پیوست ہو گئی تھی۔ اچانک وہ دیوہیکل آڑو امریکہ کی مشہور ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی کچھ انچ بلند سوئی پر سیدھا کھڑا ہوگیا اور سوئی اندر دھنس گئی۔

باب نمبر:37
یہ ایک حسین منظر تھا۔ دو یا تین منٹ میں جب لوگوں کو احساس ہوا کہ وہ کوئی بم دھماکہ نہیں تھا تووہ زمین کے اوپر اورزیر زمین پناہ گاہوں سے نکل آئے اور اس حسین چیز کو دیکھنے لگے۔ سڑک آدھے میل تک لوگوں سے بھر چکی تھی اور جب یہ خبر پھیلی کہ اس گول گیند پر کچھ جاندار بھی ہیں تو ہر کوئی جوش سے اچھلا۔
”یہ کوئی اڑن طشتری ہے!“ لوگ چلائے۔
”یہ لوگ خلا سے آئے ہیں!“
”یہ لوگ مریخ سے آئے ہیں!“
”شاید یہ چاند سے آئے ہیں!“
ایک آدمی نے دوربین آنکھوں سے لگائی اور بولا،”یہ لوگ بے حدعجیب ہیں۔ میں بتاتا ہوں کیوں!“
ہر شہر سے پولیس کی گاڑیا ں اور آگ بجھانے والی گاڑیاں آپہنچیں اور ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کے گرد جمع ہوگئیں۔ آگ بجھانے والے دوسو افرادلفٹ سے اوپر گئے۔ پھر انہوں نے اس جگہ کھڑے ہوکر جہاں سیاح کھڑے ہوتے ہیں،اس آڑو کو دیکھااور یہ جگہ نوک سے بالکل نیچے ہوتی ہے۔ سارے سپاہی اپنی بندوقیں تیار کر کے کھڑے تھے اور گھوڑوں پر انگلیاں رکھے ہوئے تھے۔ مگر جہاں وہ کھڑے تھے، وہ جگہ آڑو کے بالکل نیچے، اور وہاں سے وہ ان آڑو کے مسافروں کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔
”باہر نکلو!“ پولیس کے چیف نے اعلان کیا۔”باہر نکلواور خود کو ظاہر کرو!“
اچانک، کنکھجورے کا بڑا، ناگوار سا سر آڑو کے کونے سے نکلا۔ اس کی بڑی آنکھیں بالکل کنچوں سی لگ رہی تھیں، اس نے اپنی آنکھوں سے پولیس اور آگ بجھانے والوں کو دیکھا۔ پھر اسکا بڑا، بدصورت چہرہ مسکراہٹ میں ڈھل گیا۔
پولیس والے اور آگ بجھانے والے چیخنے لگے، ”دیکھو! یہ ایک اڑنے والا اژدہا ہے!“
”نہیں یہ اژدہا نہیں، بڑی بلی ہے!“
”یہ سانپ سے بالوں والا جانور ہے!“
”یہ سمندری سانپ ہے!“
”یہ اڑنے والا شیر ہے!“
تین آگ بجھانے والے افراداور پانچ پولیس والے بے ہوش ہوگئے اور انہیں دو رلے جانا پڑا۔
”یہ تین پیر والا جانور ہے!“ پولیس کا چیف چیخا۔
”یہ ایک گدھے جیساکچھ ہے!“آگ بجھانے والے محکمے کا سربراہ چیخا۔
”ادھر دیکھو! بتاؤ کہاں سے آئے ہو؟“ چیف منہ پر ہاتھوں کا پیالہ بنا کر بولا۔
”ہم ایک ہزار میل دور سے آئے ہیں!“ کنکھجورا بولا اور مسکرایا کہ اس کے ناگوار دانت نظر آنے لگے۔شاید اسے خوف و ہراس پھیلا کر مزہ آرہا تھا۔
”میں نے کہا تھا نا یہ مریخ سے آئے ہیں!“ چیف بولا۔
ؔؔ ”ہاں تم درست ہو!“آگ بجھانے والوں کے سربراہ نے جواب دیا۔
پھر ٹڈے نے آڑو کے کنارے سے اپنا سر نکالا اور کنکھجورے کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ چھ اور آدمی یہ دیکھ کر بے ہوش ہوگئے۔
پولیس کا چیف اور سربراہ محکمہ ئ انسداد آگ عجیب و غریب جانوروں کے نام لینے لگے کہ یہ یہ ہے، یہ یہ ہے۔
”لوگو! پیچھے ہٹو! یہ کسی بھی وقت ہم پر کود سکتے ہیں!“ چیف چلایا۔
”یہ کیا باتیں کر رہے ہیں؟“ ٹڈا بولا۔
”میرے بارے میں معلومات حاصل کر رہے ہیں۔ یا شاید کسی اور وجہ سے پریشان ہیں۔“ کنکھجورا بولا۔
پھر مکڑی محترمہ کا بڑا، کالا سر جو سب سے زیادہ خوفناک تھا،ان دو جانوروں کے ساتھ آکھڑا ہوا۔
”یہ سانپ سیڑھی ہے!“ سربراہ محکمہ ء آگ چیخا۔ پھر سے وہ دونوں عجیب جانوروں کے نام لینے لگے۔
”یہ وہ جانور لگتا ہے جو ایک آدمی کو کھا کر ناشتہ کرتا ہے۔“ سربراہ محکمہ ء آگ کا تو رنگ اڑ گیا۔
”ہاں!“ چیف نے کہا۔
”ہمیں کوئی یہاں سے اتارو!“ مکڑی چلائی۔ ”مجھے یہاں چکر آرہے ہیں۔“
”تمہاری کوئی چال کامیاب نہیں ہو سکتی۔کوئی ہلنا مت جب تک میں نہ کہوں!“ سربراہ محکمہ ء آگ بولے۔
”ان کے پاس خلائی بندوقیں ہیں!“ چیف بڑبڑایا۔
”مگر ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ تقریباً پچاس لاکھ لوگ نیچے کھڑے ہمیں دیکھ رہے ہیں۔“ سربراہ محکمہ ء آگ نے غصے سے کہا۔
”پھر ہم سیڑھی کیوں نہیں لگاتے؟ میں نیچے کھڑا رہ کر اسے پکڑوں گا اور تم اوپر جا کر دیکھنا کیا ہورہا ہے۔“ چیف بولا۔
جلد ہی آڑو پر سات خوبصورت چہرے تھے جو آڑو کے کنارے سی نیچے جھانک رہے تھے۔ کنکھجورا، ٹڈا، مکڑی محترمہ، ریشم کا کیڑا، کیچوا، بیر بہوٹی اور مادہ جگنو کا۔اوپر موجود پولیس اہلکاروں اور آگ بجھانے والے محکمے کے کارکنان پر گویا ایک قسم کا خوف تھا جو ٹوٹ پڑا۔
پھر اچانک سب کا خوف تودور ہوگیا مگر شدید حیرت کا شکار ہو گئے۔ کیونکہ اب ایک چھوٹا لڑکا ان جانوروں کے پیچھے نظر آیا۔ اس کے بال ہوا سے پیچھے کواڑ رہے تھے اور وہ سب کو ہنس کرہاتھ ہلا رہا تھا اور کہہ رہا تھا،”سب کو سلام!!“
کچھ لمحوں تک سب لوگ اسے تکتے رہے اور اپنی آنکھوں کو بے یقینی سے ملتے رہے۔
”خداوند!“ سربراہ محکمہ ء آگ چیخا اور اس کا منہ لال ہوگیا۔”یہ سچ مچ کا لڑکا ہے!“
”ہم سے ڈرو مت! ہمیں یہاں آنے کی خوشی ہے۔“ جیمز زور سے بولا۔
”ان سب کا کیا جو تمہارے ساتھ ہیں؟ یہ خطرناک ہیں؟“ چیف چیخا۔
”نہیں بالکل نہیں! یہ تو دنیا کے بہترین جانور ہیں! مجھے اجازت دیں کہ میں ان کا تعارف کرواؤں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ یقین ضرور کریں گے۔“ جیمز بولا۔
”میرے دوستو! یہ کنکھجوراہے،
یہ میٹھا اور نرم دل ہے بس تھوڑا بڑا ہے،
اسپین کی ملکہ اکثر اسے فون کر کے بلاتی ہیں،
کہ یہ بچے سنبھالے اور گانے گائے اور سلائی کرے اور گورنر بنے،
جب نرس چھٹی پر ہو اور شاہی بچے اکیلے ہوں!“
”ایک بات ہے کہ اب وہ ملکہ تخت پر نہیں ہے۔“ ایک آگ بجھانے والا بولا۔
”دوسری طرف یہ کیچوا!“
جیمز نے کہنا شروع کیا،
”یہ زمین کھودنے لے لئے بہترین ہے۔
یہ پرانی مٹی کو نیا کردیتا ہے۔
آپ کو سمجھنا چاہیے کہ
یہ بے حد اچھا ہوگا
کہ آپکو زیر زمین چلنے کی جگہ بناکردے
اور آپکو ایک نالی بنادے۔“
کیچوا فخر سے مسکرایا اور مکڑی محترمہ تالیاں بجانے لگیں اور چلائیں، ”کیا اس سے زیادہ کوئی، سچی بات ہوگی؟“
”اور یہ ٹڈا، بھائیو اور بہنو ایک نفع ہے
کروڑوں طریقوں سے۔
آپ اس سے صرف ایک سر گانے کو کہیں
اور یہ موسیقی بجاتا رہے گا۔
آپ کے بچے کے لئے یہ ایک بہترین کھلونا ہوگا۔
اس جیسا کوئی کھلونا آپ کو دکانوں پر نہیں ملے گا۔
بس آپ اس کے پیروں پر گدگدی کیجئے۔
اور یہ اچھلتا رہے گا!“
”یہ برا نہیں ہوسکتا!“ سربراہ محکمہ ء آگ چلایا۔
”اب بنا کسی بہانے کے
میں تعارف کرواؤں گا
اس پیاری مادہ جگنو کا
جو سادگی کی عاشق ہے
اس کو آپ آسانی سے لگا سکتے ہیں
دیوار یا چھت پر،
اور یہ تھوڑی نرالی چیت لگاتے ہے،
مگر بے حد چالا ک ہے
کیونکہ اس کے بعد آپکو کبھی
کبھی کبھی کبھی کبھی بھی
بجلی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔“
”اگر یہ سچ ہے تو ا س جانور کو بہت شہرت ملے گی!“ پولیس والا بولا۔
”اور یہ مکڑی محترمہ ہیں
ان کے پاس میلوں کے فاصلے کا دھاگہ ہے
جنہوں نے مجھے خاص طور پر کہا ہے کہ
وہ کبھی محترمہ مفٹ سے نہیں ملیں (مس مفٹ ایک بچوں کا گانا ہے جس میں ننھی مس مفٹ ایک مکڑی سے ملتی ہے اور مفٹ اس سے ڈر جاتی ہے۔)
اس کے چھوٹے اسٹول پر
اگر یہ ملتی تو اسے بالکل نہ ڈراتی۔
کبھی کبھی یہ آپ کو ڈرا سکتی ہے
مگر یہ نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
میں یہ سو دفعہ کہنے کو تیار ہوں کہ یہ نقصان نہیں دیتی اور یہ بھی کہ:
میں کبھی کسی مکڑی کو نہیں ماروں گا
میں اس کی مدد اور رہنمائی کروں گا
اور اسے بچوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دیتا رہوں گا۔“
سب پولیس والوں نے اثبات میں سر ہلائے، آگ بجھانے والے مسکرادئیے اور درجنوں لوگ خوشی سے چلائے۔
”اور یہاں مجھے اپنی پیاری اور رحم دل بیر بہوٹی سے ملوانا ہے،
میری دوست جب سے ہمارا سفر شروع ہوا۔
اس کے چار بچے ہیں جنہیں یہ چھوڑ آئی ہے۔
مگر وہ کبھی تو آئیں گے۔“
”یہ آپے سے باہر ہے!“ پولیس چلائی،
سب آگ بجھانے والے ناچنے لگے،
مجمع تالیاں بجانے لگا!
”اور اب یہ ریشم کا کیڑا۔“جیمز بولتا رہا،
”کون اس کی ریشم سے مقابلہ کرے گا؟
سب آجاؤ ادھر
بھلے روم کے ہو یا کہیں اور کے۔
پوری دنیا چھان مارو،
تمہیں ایک ذرہ بھی نہیں ملے گا
جو اس سے مقابلہ کر پائے
سنگا پور کی دکانیں بھی
اس جیساسامان نہیں رکھتیں۔
اور جاننا چاہوگے؟
جانتے رہو کہ ریشم کے کیڑے کو،
بہت سالوں سے عزت دار ہے،
اور ایک بار تو اس نے،
ملکہ انگلستان کا شادی کا جوڑا،
بنایا، بنا، سیا بھی اور استری بھی کیا۔
اور یہ پہلے ہی صدر صاحب کے لئے،
ایک واسکٹ بنا اور بھیج چکی ہے۔“
”اچھی بات ہے۔“ پولیس بولی۔
اچانک کچھ چیخیں بلند ہوئیں
ایمپائر اسٹیٹ کے آس پاس،
”ان کو نیچے لاؤ انتظار کیوں کررہے ہو؟“

باب نمبر:38
پانچ منٹ میں وہ سب صحیح سلامت نیچے تھے اور جیمز ان سربراہوں کو کہانی بتانے کے لئے بے تاب تھا۔
اور اچانک، جو بھی اس آڑو پر آیا تھا ہیرو بن چکا تھا۔ ان سب کو شہر کے ہال تک حفاظت اورپناہ میں لے جایا گیا جہاں نیویارک کے میئر نے تقریر استقبالیہ کی۔ اور جب وہ یہ کررہے تھے، صفائی کرنے والے ایک سو افراد بلوائے گئے جو رسیوں، سیڑھیوں اور مشینوں کے ساتھ آئے تھے اور ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ پر چڑھ گئے اور دیوہیکل آڑو کو اٹھایا کر زمین پر لے آئے۔
پھر میئر چیخے،”ہمارے ان زبردست مہمانوں کے لیے اب ایک استقبالیہ سلامی ہونی چاہئے۔“
پھر ایک جھنڈ سا بنا اور سب سے آگے والی گاڑی میں (جو ایک بڑی، کھلی چھت والی لیموزین تھی) جیمز اور اس کے دوست بیٹھے تھے۔
ان کے پیچھے دیوہیکل آڑو آرہا تھا۔ کرین چلانے والوں نے اسے ایک بڑے ٹرک میں ڈال دیا تھا اور وہاں وہ ہمیشہ کی طرح بڑا، بہادر اور خوبصورت لگ رہا تھا۔ اس میں ایک بڑا سوراخ بھی تھا جہاں سے ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی نوک گئی تھی مگراب نہ توکسی کو اس سوراخ کی پروا تھی اور نہ سڑک پر اس کے گرنے والے رس کی۔
آڑو کے پیچھے، ہر جگہ، ہر سڑک رس سے بھرتی جارہی تھی۔ اسی رس پر میئر کی لیموزین بھی چل رہی تھی اور اس کے پیچھے بیس اور لیموزینز تھیں جن میں شہر کے اہم ترین لوگ بیٹھے تھے۔
ساری بھیڑ میں جوش وخروش پھیل گیا۔ وہ سڑک پر قطار میں جمع ہوگئے اور لوگ بلند و بالا عمارت کی کھڑکیوں سے جھانکنے لگے، ہنستے، چیختے، تالیاں بجاتے، سفید اور رنگ برنگے کاغذ جیمز اور اس کے دوستوں کی گاڑی پر اڑانے لگے، جیمز اور اسکے دوست گاڑی کی کھڑکی سے جھانکے اور اور سب کو ہاتھ ہلانے لگے۔ پھر ایک حیرت انگیز چیز ہوئی۔ یہ سب کچھ ہو رہا تھا اور گاڑیاں ففتھ ایونیو کی طرف بڑھ رہی تھیں کہ اچانک ایک ننھی لڑکی سرخ کپڑوں میں بھاگتے ہوئے آئی اور اور چیخی،
”جیمز! جیمز!کیا میں اس زبردست آڑو کو تھوڑا سا چکھ سکتی ہوں؟“
”ہاں ضرور!“ جیمز جواباً چلایا۔”جتنا چاہے کھالو اسے میں ہمیشہ نہیں رکھوں گا!“
جیسے ہی اس نے یہ کہا،پچاس اور بچے رش سے نکلے اور سڑک پردوڑنے لگے۔
”کیا ہم بھی کھا سکتے ہیں؟“ وہ چلائے۔
”ضرور سب کھاسکتے ہو!“ جیمز نے جواب دیا۔
سب بچے پہلے ٹرک پر چڑھے اور پھرچیونٹیوں کی طرح دیوہیکل آڑو پر چڑھ گئے اور تب تک کھاتے رہے جب تک ان کا دل نہیں بھر گیا۔ اور جب یہ خبر ہر جگہ پھیلی، لڑکے لڑکیاں ہر طرف سے بھاگتے ہوئے آئے اور دعوت اڑانے لگے۔ جلد ہی بچوں کا جھنڈ ایک میل تک پہنچ گیا اور بچے اس ٹرک کے پیچھے بھاگتے رہے جو ففتھ ایونیو کی طرف جارہا تھا، وہ ایک بے حد حسین منظر تھا۔ کچھ لوگوں کو ایسے لگا جیسے باجا بجا کربچوں کو اپنے پیچھے بھٹکا لے جانے والا کردار نیو یارک میں آگیا ہو۔ جیمز کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا کہ دنیا میں اتنے بچے ہوں گے، یہ سب سے اچھی چیز ثابت ہوئی۔
جب جلوس ختم ہوا اور دیوہیکل پھل کھالیا گیا تو، بس ایک بڑی ناگوار سی گٹھلی بچ کرٹرک پرکھڑی رہ گئی تھی جسے دس ہزار بے تاب زبانوں نے چاٹ کر چمکا دیا تھا۔

باب نمبر:39
اور بلا ٓخر سفر تمام ہوا مگر مسافر ابھی تک باقی تھے۔ ہر کوئی اس نئے ملک میں کامیاب اور امیر بن گیا تھا۔ کنکھجورا ایک بڑی جوتوں کی کمپنی کی خرید و فروخت کا نگران بن گیا تھا۔
کیچوا، اپنی خوبصورت گلابی جلد کے ساتھ، عورتوں کے چہرے کی کریم کے ٹی وی اشتہار بنانے والی ایک بڑی کمپنی میں رکھ لیاگیا تھا۔
ریشم کا کیڑا اور مکڑی محترمہ پلاسٹک کا دھاگہ بناناسیکھ چکے تھے۔ انہوں نے ریشم بنانا چھوڑ دی تھی اور مل کر کارخانہ کھولا جس میں وہ کرتب دکھانے والوں کے لئے رسیاں تیارکرنے لگے۔
مادہ جگنو کو نیویارک کے مجسمہ آزادی(Statue of Liberty) کا قمقمہ بنادیا گیا اور ایک ایسے شہر کو ہر سال بجلی کے اتنے زیادہ بل سے بچالیاجو ہمیشہ سے ان کا شکر گزار ہے۔
بوڑھا، ہرا ٹڈا نیویارک کی انجمن موسیقی کا کا رکن بن گیا جہاں اس کی موسیقی کے بہت سے پرستار اسے ہمیشہ سنتے اور سراہتے تھے۔
بیر بہوٹی، جس کو ہمیشہ خوف رہتا تھا کہ اس کے گھر میں آگ لگ جائے گی اور اس کے بچے مر جائیں گے،سو اس نے محکمہ آگ کے سربراہ سے شادی کرلی اوروہ دونوں خوش باش زندگی گزارنے لگے۔
آڑو کی گٹھلی کو ہمیشہ کے لئے نیویارک کے سینٹرل پارک جیسی باعزت جگہ پررکھ دیا گیا اوروہ ایک یادگاراور مشہور مجسمہ بن گئی۔ مگر یہ محض کوئی یادگار مجسمہ نہیں تھی، ا سکے اندر ایک مشہور گھر بھی تھا۔ جس میں ایک مشہور شخص بھی رہتا تھا:
جیمز ہنری ٹروٹر
خود۔
اور اگر آپ کو وہاں جانا ہوتو ہفتے کے کسی بھی دن جاکر دروازہ بجائیں۔ دروازہ ہمیشہ آپ کے لئے کھولا جائے گا اور آپ کو اندر بلا کر وہ کمرہ دکھایا جائے گا جہاں جیمز پہلی دفعہ اپنے دوستوں سے ملا تھا۔ کبھی کبھار ……اگر آپ خوش قسمت ہوئے تو…… آپ کو بوڑھا، ہراٹڈاآگ کے آگے سکون سے بیٹھا ملے گا یا شاید بیر بہوٹی جو گفتگو اور چائے پینے کے لئے آئی ہوئی ہو۔ یا کنکھجورااپنے نئے خوبصورت جوتے دکھانے لایا ہوجو اس نے حال ہی میں حاصل کیے ہوں۔
ہفتے کے ہر دن سینکڑوں بچے دور دور سے آتے اور شہر کے بیچوں بیچ اس باغ میں لگی آڑو کی گٹھلی دیکھتے اور جیمز ہنری ٹروٹر جو کبھی آپ کو یاد ہو دنیا کا سب سے اکیلا اور اداس ترین بچہ تھا، اس کے پاس اب دنیا کے بہت سے دوست اور کھیلنے والے موجود تھے۔ اور کیونکہ بہت سے بچے ہمیشہ اس سے فرمائش کرتے کہ وہ بار بار آڑو کے سفر کی روداد سنائے تو اس نے سوچا کہ یہ اچھا ہوگا کہ وہ ایک دن بیٹھ کر اس کہانی کو کتاب کی شکل میں لکھ لے۔
تو اس نے لکھ لی۔ اور یہ وہی کتاب تھی جو آپ نے ابھی پوری پڑھ لی ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top