۹ ۔ اسلام کی برکتیں
نظرزیدی
۔۔۔۔۔۔
آپ نے اس کتاب کے شروع میں یہ بات پڑھی تھی کی ڈاکوؤں نے حضرت زید بن حارثہؓ کو غلام بناکر عکاظ کے بازار میں فروخت کر دیا تھا ۔اس زمانے میں ایسے واقعات عام طور پر ہوا کرتے تھے ۔کسی غریب اور کسی کمزور آدمی کی نہ جان محفوظ تھی نہ عزت ۔
جب ظالموں کا ظلم حد سے بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ کو نبی بنا کر دنیامیں بھیجا اور آپ ﷺ کو حکم دیا کہ کفر اور شرک کا خاتمہ کرنے کے علاوہ اللہ کے بندوں کو ظالموں کے ظلم سے بچائیں ۔اللہ کا انکار کرنے کو کفر اور کسی کو اللہ جیسا سمجھنے کو شرک کہتے ہیں ۔
ہمارے حضور ﷺﷺ نے کفر کے خاتمے اور ظلم کے خاتمے کی کوششوں میں جو تکلیفیں اٹھائیں ان کا حال بچے پڑھ چکے ہیں ۔یہ ساری تکلیفیں آپ ﷺ نے یقینااسی لیے اٹھائی تھیں کہ یہ دنیا کفر اور ظلم سے پاک ہو جائے اور سب انسان سکھ چین کی زندگی گزارنے لگیں ۔
حضور ﷺ کے ایک صحابی حضرت خبابؓ بیان کرتے ہیں ۔’’ایک دن حضور ﷺ کعبہ شریف کی دیوار کے سائے میں بیٹھے تھے ۔میں نے کافروں کے ظلم کا حال بیان کیا ‘توآپ ﷺ نے فرمایا:’’(اے خباب ) اللہ تعالیٰ ضرور اس کام کو پورا کر ے گا ‘یہاں تک کہ ایک اکیلی عورت سونا اچھالتی ہوئی صنعا سے حضر موت تک سفر کرے گی اور اسے ڈاکوؤ ں کا خوف نہ ہو گا ۔‘‘
یہ حدیث ‘حدیثوں کی مشہور کتاب بخاری شریف میں درج ہے اور اسے سب صحیح مانتے ہیں ۔
مکہ فتح ہونے کے بعد حضور ﷺ کے فرمانے کے مطابق امن اور انصاف کا وہی زمانہ آگیا ۔جو ظالم کمزوروں کو ستاتے تھے اور اللہ کا انکار کرتے تھے ‘ان میں سے بہت سے مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے ۔بہت سو ں نے مسلمان ہو کر نیکی کو اپنا لیا اور باقی بے حوصلہ ہو کر چھپ گئے ۔
رسول ﷺ نے صرف دس برس میں دس لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی ایک ایسی مضبوط سلطنت قائم کر دی جس کی حدوں کے اندر بسنے والے مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کے ساتھ انصاف ہو تاتھا اور کفر کے زمانے کی ساری برائیاں مٹ گئی تھیں ۔
اس اسلامی حکومت میں جوا کھیلنے اور نشے کی چیزیں بنانے اور استعمال کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی ۔سود کا خاتمہ کر دیا گیا تھا ۔کسی کی مجال نہ تھی کہ کسی کمزور یا کسی غریب کو ستا سکے ۔ان لونڈیوں اور غلاموں کو جنہیں بھیڑ بکریوں کی طرح سمجھا جاتا تھا ‘سب کے برابر بنا دیا گیا تھا ۔حکم تھا گھر والے جو خود کھائیں وہی اپنے غاموں اور لونڈیوں کو کھلائیں اور جوخود پہنیں وہی انہیں پہنائیں اور انہیں غلام کہہ کر نہ پکاریں ‘بلکہ اپنا بھائی سمجھیں ۔
لوگوں کو حکم دیاگیا تھا کہ عورتوں کے ساتھ مروت اور انصاف کابرتاؤکریں ۔اپنے ماں باپ کا ادب کریں ۔علم حاصل کرناعورتوں اور مردوں سب کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔اپنا بدن اور کپڑے پاک رکھنے کی تاکید کی گئی ۔رات دن میں پانچ وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے ‘یعنی نماز پڑھنے کا حکم ہوا ۔غریبوں کی مدد اور بھلائی کے کاموں کے لیے اپنے مال میں سے زکوٰۃ نکالنے کو ضروری بنا دیا گیا ۔بے انصافی اور ظلم کا خاتمہ کرنے کے لیے جہاد فرض ہوا‘ غرض برائی کی ہر نشانی کو مٹا دیا گیا اور نیکی اور پاکیزگی کی زندگی گزارنے کو آسان بنا دیا گیا ۔
جنگ تبوک
یہ اتنی بڑی کامیابی تھی کہ ہمارے حضور ﷺ سے پہلے کسی نے حاصل نہ کی تھی اور نہ آپ ﷺ کے بعد کوئی حاصل کر سکے گا ۔اسلام کی اس کامیابی اور برکتوں سے وہ لوگ تو بہت خوش تھے جو نیکی اور پاکیزگی سے پیار کرتے تھے ‘لیکن برائی کے راستے پر چلنے والے اور بھی ناراض ہو گئے تھے ۔وہ ا س کوشش میں لگ گئے تھے کہ مسلمانوں کی ترقی رک جائے ۔اسلام اور مسلمانوں کے ان دشمنوں میں روم کا شہنشاہ ہرقل بھی تھا ۔اس نے یہ ارادہ کیا کہ مدینہ پر حملہ کر کے اسلامی سلطنت کا خاتمہ کر دے اور لڑائی کی تیاریاں کرنے لگا ۔
رسول ﷺ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے مشورہ کیااور سب باتوں پر اچھی طرح غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ قیصر کو مدینہ پر حملہ نہ کرنے دیا جائے ‘بلکہ آگے بڑھ کر اس کے علاقے ہی میں اسے روکا جائے ۔
اس فیصلے کے مطابق رسول ﷺ نے جہاد کا اعلان فرمادیا ۔ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا کہ جنگ کا سامان خریدنے کے لیے سب مسلمان چندہ دیں ‘چنانچہ سب مسلمانوں نے اپنی اپنی ہمت کے مطابق چندہ دیا اور جب جنگ کا سارا انتظام ہو گیا‘تو رسول ﷺ تیس ہزار مجاہدوں کالشکر ساتھ لے کر رجب ۹ ہجری میں مدینہ سے روانہ ہوئے اور سفر کرتے ہوئے تبوک جا پہنچے ۔یہ مقام شام کے شہر دمشق اور مدینہ منورہ کے درمیان مدینہ سے سات سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور اب یہاں سعودی عرب کی فوجی چھاؤنی ہے۔
مسلمانوں نے یہ لمبا سفر سخت گر می کے زمانے میں طے کیا ‘لیکن جب تبوک پہنچے ‘تو معلوم ہوا کہ قیصر نے اپنی فوجوں کو پیچھے ہٹا لیا ہے ۔حضورﷺوہا ں کچھ دن ٹھہرے اور پھر مدینہ تشریف لے آئے ۔
قیصر کے اس طرح پیچھے ہٹ جانے سے یہ معلوم ہو گیا کہ اپنی طاقت پر غرور کرنے والے قیصر کے دل میں مسلمانوں کا ڈر بیٹھ گیا ۔عربوں کو یہ عزت اسلام کی وجہ سے ملی تھی کہ قیصر جیسا شہنشاہ ان کا مقابلہ کرنے سے ڈر گیا تھا ‘ورنہ پہلے تو یہ حالت تھی کہ قیصر اور اس کے سردار عربوں کو اپنے غلامو ں جیسا سمجھتے تھے ۔
حجتہ الوداع
تبوک واپس آکر رسولﷺ نے حج کرنے کا ارادہ فرمایا۔صحابہؓ کو معلوم ہوا تو سب نے آپ ﷺ کے ساتھ جانے کی تیاری شروع کر دی ۔ذیقعدہ ۱۰ ہجری کی ۲۵ تاریخ کو حضور ﷺ حج کے لیے روانہ ہو ئے ۔راستے میں بھی لوگ آپ ﷺ کے ساتھ شامل ہوتے گئے اور اس طرح مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد آپ ﷺ کے ساتھ مکہ پہنچی ۔
اس حج کو حجتہ الوداع اس لیے کہتے ہیں کہ یہ ہمارے حضور ﷺ کی زندگی کا آخری حج ہے اور اس کے کچھ دن بعد آپ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے ۔حج کے دنوں ہی میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی تھی :
’’آج میں نے تمہارے لیے دین کومکمل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور اسلام کو تمہارے لیے پسند کر لیا ۔‘‘(سورہ المائدہ ‘آیت ۔۳ )
قرآن پاک کی اس آیت سے بھی اندازہ ہوا کہ رسول ﷺ جس کا م کے لیے دنیا میں تشریف لائے تھے وہ پورا ہو گیا ۔
حج میں کعبہ شریف کا طواف کرنے ‘شیطانوں کو کنکریاں مارے اور صفا اور مروہ نامی دو پہاڑیوں کے درمیان سعی کر نے ‘یعنی کندھے ہلاتے ہوئے کسی قدر تیز چلنے کے علاوہ خاص خاص مقامات پر نماز پڑھی جاتی ہے اور قربانی کی جاتی ہے ۔ان سب کاموں کو حج کے مناسک کہتے ہیں ۔رسول ﷺ نے حج کے مناسک ادا فرمائے اور ۹ ذی الحجہ ۱۰ ہجری کوآپ ﷺ نے ظہر کی نماز سے پہلے عرفات کے میدان میں وہ مشہور خطبہ دیا جسے قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے آزادی اور امن و انصاف کا عہد نامہ کہا جائے گا ۔عربی زبان میں تقریر کو خطبہ کہتے ہیں ۔یہ تقریر آپﷺ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر کی ۔اس کی خاص باتیںیہ ہیں :
حضور ﷺ نے فرمایا :’’اے لوگو !تمہارا رب بھی ایک ہے اور باپ بھی ایک ہے ۔تم سب آدم ؑ کی اولاد ہو اور آدم ؑ مٹی سے بنے تھے ۔تم میں سے اللہ کے نزدیک اس کی عزت زیادہ ہے جو نیک ہے ۔کسی عربی کو کسی عجمی (کسی اور ملک کے کے رہنے والے )پر کسی قسم کی بڑائی حاصل نہیں سوائے نیکی کے ۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:’’تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں ۔کسی کے لیے جائز نہیں کہ حق کے بغیر اپنے بھائی کا مال کھائے‘ہاں اس کی رضامندی سے جائز ہے ۔‘‘
اس تقریر میں آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں کہ اس جگہ تم سے دوبارہ مل سکوں گا ۔آخر میں سوال کیا :’’کیا میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ؟‘‘سب نے اقرار کیا ۔آپ ﷺ نے پھر یہ حکم دیا کہ جس نے اللہ کا پیغام سن لیا ہے وہ دوسروں تک پہنچا دے ۔‘‘
خطبہ ختم کرنے کے بعدآپ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو اذان دینے کا حکم دیااور ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی ادا کی ۔نماز ادا کرنے کے بعد پھر اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے ۔اس وقت بھی حضرت اسامہ بن زیدؓ کو اپنے ساتھ اونٹنی پر سوار کیا۔
آخری سفر
حج کرنے کے بعد آپ ﷺ ۲۴ذی الحجہ ۱۰ ہجری ‘ہفتے کے دن مدینہ منورہ پہنچے ۔اس سفر سے لوٹنے کے بعد آپ ﷺ اپنا زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارنے لگے ۔کئی کئی دن مسجد میں ہی رہتے بس خاص ضرورتوں کے لیے باہر جاتے ۔اس طرح مسجد میں رہنے کو اعتکاف میں بیٹھنا کہتے ہیں ۔
رسول ﷺ کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ آپ ﷺ قبرستان تشریف لے جاتے اور فاتحہ پڑھتے ۔مدینہ میں مسلمانوں کا جو قبرستان تھا ‘اسے جنت البقیع کہتے تھے ۔
صفر ۱۱ہجری کی ۲۸تاریخ کو رات کے وقت آپ ﷺ جنت البقیع تشریف لے گئے ۔صحابہؓ کی قبروں پر فاتحہ پڑھی اور دعائیں کرتے رہے ۔قبرستان سے لوٹے تو بخار ہو گیا اور یہی بخار آپ ﷺ کے دنیا سے رخصت ہونے کا سبب بن گیا ۔
جیش اسامہ ؓ
اس بیماری کے دوران ہی میں آپ ﷺ نے تاکید فرمائی کہ ایک لشکر تیار کیا جائے ۔یہ حکم آپ ﷺ نے ا س لیے دیا کہ ملک شام کی طرف رہنے والے عیسائی مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے ۔ان عیسائیوں کو روم کے شہنشاہ کی حمایت حاصل تھی اور دراصل اسی وجہ سے وہ ایسی حرکتیں کر تے رہتے تھے ۔
لشکر تیار ہو گیا تو آپ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کے بیٹے حضرت اسامہ کواس کا سالار بنایا۔ اس لشکر میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت عباسؓ کے علاوہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ ‘حضرت عمرؓ ‘حضرت عثمانؓ ‘اور حضرت خالد بن ولیدؓ وغیرہ سبھی صحابی شامل تھے ۔
عام سوچ کے مطابق ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بڑی عمر اور بڑے درجے کے صحابہؓ میں سے کسی کو سالار بنایا جاتا‘لیکن آپ ﷺ نے نوجوان اسامہؓ کو اس لیے لشکر کاسالاربنایا کہ اسلام کی سلطنت قائم ہونے سے پہلے غلاموں سے جو نفرت کی جاتی تھی وہ ختم ہو جائے اور سب جان لیں کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں ۔حضرت علی ؑ اور حضرت عباس کو آپ ﷺ نے اپنی دیکھ بھا ل لے لیے روک لیا ۔
یہ لشکر ابھی مدینہ سے تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ آپ ﷺ کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی اور یہ خبر سن کر حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ وغیرہ بڑے صحابہ مدینہ لوٹ آئے ۔
ہم یہ بات لکھ چکے ہیں کہ رسول ﷺ ماہ صفر کے آخری دنوں میں بیمار ہوئے تھے ۔اس بیماری کے دوران میں بھی آپ ﷺ اپنے کام اسی طرح کرتے رہتے ۔باقاعدہ مسجد میں جا کر نماز ادا کرتے تھے اور قاعدے کے مطابق سب بیویوں کے گھر جاتے تھے ‘لیکن ربیع الاول کی پانچ تاریخ کو آپ ﷺ کی طبیعت بہت ہی خراب ہو گئی اور سب کے مشورے سے آپ ﷺ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرے میں پہنچا دیا گیا ۔آپ ﷺ کی یہ بیوی حضرت ابو بکر صدیق کی بیٹی تھیں اور آپ ﷺ ان کو بہت چاہتے تھے ۔
بخار اور سر درد کی وجہ سے کمزوری اتنی بڑھ گئی تھی کہ اب مسجد میں آکر نما زادا کرنے میں بہت تکلیف ہوتی تھی ۔۸ربیع الاو ل کو آپ ﷺ نے مغرب نے کی نماز پڑھائی اور یہ آخری نماز تھی جس کی آپ ﷺ نے امامت فرمائی ۔اس کے بعد حکم دیا کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نماز پڑھایا کریں ۔۹ ربیع الاول ۱۱ہجری کو آپ ﷺ ایک بار اور مسجد میں تشریف لائے اور یہ نماز آپ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے برابر بیٹھ کر ادا کی ۔حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اپنی جگہ چھوڑ کر عام مسلمانوں کی صف میں جانا چاہا ‘لیکن آپ ﷺ نے روک دیا ۔
نماز کے بعد اسی جگہ بیٹھے بیٹھے آپ ﷺ نے مختصر خطبہ دیا جس میں نصیحت کی بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا کہ اگر کسی کا کوئی حق میرے ذمے ہو تو وہ لے لے ۔
۱۲ربیع الاول ۱۱ہجری پیر کے دن آپ ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے جسے گناہوں اور خرابیوں سے پاک کرنے کے لیے سخت تکلیفیں اٹھائی تھیں ۔
سخت تکلیف کی حالت میں بھی آپ ﷺ نے اپنی امت کے لوگوں کو دین کی اچھی باتوں پر عمل کرنے کی تاکید کی۔ان باتوں میں یہ بات خاص طور پر فرمائی کہ :
’’میرے بعد قبر کو سجدہ گاہ نہ بنا لینا ۔یہودیوں پر اللہ کی لعنت ہو ‘وہ اسی لیے تباہ ہوئے کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا ۔‘‘
اس وصیت میں آپ ﷺ نے یہ تاکید بھی فرمائی کہ زکوٰۃ کے مال میں سے کچھ سونا رکھا ہے وہ مستحق لوگوں کو دے دیا جائے ۔آپ ﷺ نے عورتوں اور غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تاکید بھی فرمائی ۔وفات کے وقت آپ ﷺ کی عمر ۶۳ برس تھی۔
بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اختیار دیا تھا کہ اگر اس دنیا میں رہنا چاہیں تو رہیں ‘لیکن آپ ﷺ نے اپنے رب کے دربار میں جانے کو پسند فرمایا ۔آپﷺ کی خواہش کے مطابق آپ ﷺ کو اسی حجرے میں دفن کیا گیا جس میں وفات پائی تھی ۔یہی وہ حجرہ ہے جو اب گنبد خضریٰ کہلاتا ہے ۔
جو مسلمان حج کر نے کے لیے مکہ معظمہ جاتے ہیں ۔وہ آپ ﷺ کے روضے کی زیارت کے لیے مدینہ بھی ضرور جاتے ہیں ۔