skip to Main Content

۱۰ ۔ رسول اللہ ﷺکی شان

نظر زیدی

۔۔۔۔۔

اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید میں ایسی بہت سی آیتیں ہیں جن سے رسول ﷺکی شان ظاہر ہوتی ہے ۔ان مقدس آیتوں اور حضور ﷺ کی مبارک زندگی کے واقعا ت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس دنیا اور اس دنیا کے علاوہ اگر اور دنیائیں بھی ہیں تو ان سب میں بسنے والی مخلوق میں اللہ کے بعد ہمارے حضور ﷺ کا رتبہ سب سے زیادہ ہے ۔
عام انسانوں کے علاوہ آپ ﷺ تمام نبیوں کے سردار ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی ساری مخلوق میں انسانوں کو سب کا سردا ربنایا ہے ۔اور انسانوں میں سب کے سردار اور سب کے رہنما آپ ﷺ ہیں ۔آپ ﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ۔اب قیامت تک وہ تمام انسان آپ ﷺ ہی کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلیں گے جو نیکی اور شرافت کے ساتھ زندگی گزارنے کی تمنا کرتے ہوں گے ۔
انسانی زندگی میں کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جس میں ہمارے حضور ﷺ ہی سب سے زیادہ اچھے اورسب سے زیادہ بڑے نہ ہوں ۔آپ ﷺ سب سے زیادہ عبادت کرنے والے تھے ۔ سب سے زیادہ شریف اور نیک تھے ۔سب سے زیادہ سخی ‘سب سے زیادہ بہادر ‘سب سے زیادہ طاقتور ‘سب سے زیادہ دوسروں کا بھلا چاہنے والے ‘سب سے زیادہ رحم دل اور سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔سب اچھائیاں اور سب بزرگیاں آپ ﷺ پر ختم تھیں ۔
حضور پر نور ﷺ کی مبارک زندگی کے چند واقعات یہاں درج کئے جاتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کی عبادت
حضرت مغیرہ بن شعبہؓ بیان کرتے ہیں ۔رسول ﷺ اتنی لمبی نفلیں پڑھتے تھے کہ آپ کے پیروں پر ورم آگیا تھا ۔صحابہؓ نے عرض کیا :یا رسو ل ﷺ ‘آپ ﷺ اس قدر تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں ؟اللہ تعالیٰ نے تو آپ ﷺ کے اگلے اور پچھلے سب گناہ بخش دےئے ہیں ۔حضور ﷺ نے فرمایا :’’کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ۔‘‘
؂ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتیں ہیں جب نماز کا وقت آتا تو آپ ﷺ کا یہ حال ہو جاتا کہ جیسے کسی کو جانتے ہی نہیں ۔آپ ﷺ اسی وقت اللہ تعالیٰ کے سوا سب کو بھول جاتے تھے ۔
روزہ بھی فرض عبادت ہے ۔رمضان کے روزے سبھی مسلمان رکھتے ہیں ‘لیکن ہمارے حضور ﷺ ایک مہینے کے ان روزوں کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی روزے رکھتے تھے ۔
حضر ت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتیں ہیں ۔حضور ﷺ کبھی کبھی اس طرح متواتر وناغہ کئے بغیر ‘روزے رکھتے تھے کہ ہمارا خیال ہوتا اس ماہ افطار ہی نہ فرمائیں گے ۔اور کبھی مسلسل افطار فرماتے کہ ہمارا خیال ہوتا اس ماہ روزہ رکھیں گے ہی نہیں ۔حضر ت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے علاوہ کئی اور صحابیوں نے یہ روایت بھی بیان کی ہے کہ آپ ﷺ ہر مہینے تین روزے ضرور رکھتے تھے ۔
نماز اور روزے کی طرح جہاد ‘یعنی کافروں سے جنگ کرنا بھی فرض عبادت ہے۔ہمارے حضور ﷺ نے ایک روایت کے مطابق ۲۵اور دوسری روایت کے مطابق ۲۷ جنگوں میں حصہ لیا ۔آپ ﷺ نے جن لڑائیوں میں خود حصہ لیا انہیں غزوات کہتے ہیں ۔
بہادری
ہمارے حضور ﷺ کی زندگی کے بہت سے واقعات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ بہت بہادر اور شجاع تھے ۔۳ ہجری کا واقعہ ہے حضور ﷺ کو معلوم ہوا کہ ایک قبیلے کا سردا ر وعشور بن الحارث محاربی مدینہ پر حملہ کرناچاہتا ہے اور اس کے ساتھ ساڑھے چار سو آدمی ہیں ۔یہ خبر سن کر حضور ﷺ مجاہدوں کا لشکر لے کر اس کا حملہ روکنے کے لئے روانہ ہوئے ‘لیکن لڑائی کی نوبت نہ آئی ۔وعشور نے آپ ﷺ کے آنے کی خبر سنی تو بھاگ گیا ۔
واپسی کے وقت حضور ﷺ کچھ دیر آرام کرنے کے لیے ایک درخت کے سائے میں لیٹ گئے اور اپنی تلوار درخت کی شاخ سے لٹکا د ی۔وعشور قریب ہی چھپا ہوا تھا ۔اس نے جو آپ ﷺ کو درخت کے سائے میں تنہا لیٹے ہوئے دیکھا تو چپکے چپکے آکر آپ ﷺ کی تلوار اتار لی اور کہنے لگا ’’اے محمدﷺ‘بتاؤ اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے ؟‘‘
یہ بڑا نازک وقت تھا کہ دشمن ننگی تلوار ہاتھ میں لیے سرپر کھڑا تھا ‘لیکن آپ ﷺذرا نہ گھبرائے ‘آسمان کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے اطمینان بھری آواز میں فرمایا۔’’میرا اللہ مجھے بچائے گا۔‘‘
بیان کیا جاتا ہے کہ یہ جواب سن کر وعشور ایساگھبرایا کہ اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی ۔آپ ﷺ نے تلوار اٹھالی اورفرمایا :’’اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا ؟‘‘
دعشور کیا جواب دیتا ‘کہنے لگا :’’مجھے تو آپ ہی بچاسکتے ہیں ۔‘‘حضور ﷺ کو اس کی بے بسی پر رحم آگیا ۔فرمایا:’’جاؤ تم آزاد ہو ۔‘‘اور آپ ﷺ کی اس رحم دلی کا وعشور پر ایسا اثر ہواکہ وہ اسی وقت مسلمان ہو گیا ۔
غصے پر قابوپانا
حضور ﷺ کے ایک صحابی حضرت زید بن سعنہؓ بیان کرتے ہیں ۔میں مدینہ کے ان یہودیوں میں سے تھا جو حضور ﷺ کی اچھی باتیں سن کر یہ خیال کرنے لگے تھے کہ آپ ﷺ واقعی اللہ کے رسول ہیں ‘لیکن مسلمان ہونے سے پہلے پوری طرح اطمینان کرنا چاہتا تھاکہ میرا اندازہ ٹھیک بھی ہے یا نہیں ۔
ایک بار ایسا ہوا کہ مسلمان ہو جانے والے ایک غریب بدو کی مدد کرنے کے لیے حضور ﷺ نے مجھ سے قرض لیا اور فرمایا ۔فلاں وقت کھجوروں کی شکل میں یہ رقم لوٹا دی جائے گی ۔جو وقت آپ ﷺ نے مقرر کیا تھا ‘میں اس سے کچھ پہلے ہی آپ ﷺ کے پاس گیا اور قرض ادا کرنے کا تقاضا کیا ۔آپ ﷺ کی چادر کاکونہ پکڑ کر زور سے گھسیٹا اور کہا ’’تم میر اقرض کیوں ادا نہیں کرتےَ ؟خدا گواہ ہے عبدالمطلب کی اولاد بڑی ہی نادہند ہے ۔‘‘
اسی وقت حضرت عمرؓ اور دوسرے صحابی آپ ﷺ کے پا س بیٹھے تھے ۔میری یہ بات سنی تو حضرت عمرؓ غصے سے بے قابو ہوکر میری طرف بڑھے ‘لیکن حضور ﷺ نے انہیں روک دیا اور مسکراتے ہوئے فرمایا :’’عمرؓ تمہیں چاہیے تھا کہ مجھے قرض ادا کرنے کے لیے کہتے اور زید کو نرمی سے تقاضا کرنے کی تاکید کرتے ۔خیر اب جاؤ ان کا قرض ادا کرو اور انہیں بیس صاع کھجوریں زیادہ دینا۔‘‘ حضرت عمرؓ نے ایسا ہی کیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ آپ ﷺ واقعی اللہ کے رسول ہیں ۔
بچوں سے پیار
حضور ﷺ کو بچوں کے ساتھ بہت ہی پیار تھا ۔حدیثوں کی مشہور کتاب ’’شمائل ترمذی ‘‘میں لکھا ہے :
رسول ﷺ بچوں پر بہت ہی مہربانی فرماتے تھے ‘ان سے محبت کرتے تھے ‘پیار سے ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے تھے اور ان کے لیے بھلائی کی دعا فرماتے تھے ۔
بچے آپ ﷺ کے قریب آتے تو آپ ﷺ انہیں گود میں اٹھا لیتے، لیٹے ہوتے تو بچے کو اپنے پیروں پر بٹھا لیتے ‘کبھی چھاتی پر لٹا لیتے ۔
اپنے نواسوں ‘یعنی حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے بچوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ سے آپ ﷺ کو بہت ہی محبت تھی ۔بیان کیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ ایک دن نماز پڑھ رہے تھے کہ حضرت حسینؓ بچوں کی عادت کے مطابق آپﷺ کی کمر پر بیٹھ گئے اور ان کے گر جانے کے خیال سے آپ ﷺ نے سجدہ لمبا کر دیا ۔
دوسرے بچوں کے ساتھ بھی آپ کو ﷺ کو اتنی ہی محبت تھی ۔حضرت انس بن مالکؓ حضور ﷺ کے خاص خادم تھے ۔جنگ تبوک کے موقع پر جب جنگ کے لیے چندہ اکٹھا کیا جارہا تھا۔ان کی والدہ صاحبہ نے یہ کہہ کر انہیں حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا تھا کہ :’’اے اللہ کے رسول ﷺ میرے پاس کوئی چیز نہیں جو چندے میں دے سکوں ۔میں اپنا یہ بیٹا آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کرتی ہوں ‘اس وقت سے حضرت انسؓ حضور ﷺ کی خدمت میں تھے ۔ان کا بیان ہے کہ میں دس برس حضور ﷺ کی خدمت میں رہا اور اس عرصے میں آپ ﷺ نے مجھے اُف بھی نہ کہا ۔کبھی ایسا ہوتا کہ حضور ﷺ کسی کام کے لیے کہتے اور میں کھیل میں لگا رہتا یا بھول جاتا ‘تو آپ ﷺ کچھ دیر بعد مسکرا کر فرماتے ۔اب تو یہ کام کر دو ۔
بچے بھی آپ ﷺ سے بہت محبت کرتے تھے ‘آپ ﷺ کو دیکھتے توہنستے مسکراتے آپ ﷺ کے پاس آجاتے اور آپ ﷺ سب کو پیار کرتے ۔آپ ﷺ کی عادت تھی کہ کسی بچے کو دیکھتے تو اس کے سلام کرنے سے پہلے خود سلام کرتے ۔
حضور ﷺ کی یہ محبت صرف مسلمان بچوں ہی کے لیے نہ تھی ‘بلکہ آپ ﷺ ان بچوں سے بھی محبت فرماتے تھے جو مسلمان نہ تھے ۔شمائل تر مذی میں بیان کیا گیا ہے ۔ایک یہودی کا بیٹاحضور ﷺ کے پا س ا کثر آیاکرتاتھا اور کبھی کبھی کوئی کام بھی کر دیا کرتا تھا ۔
اتفاق ایسا ہوا کہ یہ یہودی لڑکا بیمار ہو گیا ۔آ پﷺ کو اس کی بیماری کا حال معلوم ہوا ‘تو اس کے گھر تشریف لے گئے ۔اس وقت بچے کی حالت بہت خرا ب تھی ۔اندازہ ہوتا تھا وہ زندہ نہ بچے گا ۔اس کی بھلائی کے خیا ل سے آپ ﷺ نے اسے مسلمان ہوجانے کے لیے کہا ۔بچے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اس نے اجازت دے دی ‘تو وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا ۔آپ ﷺ بہت خوش ہوئے اور فرمایا :سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے میری وجہ سے اسے دوزخ کے عذاب سے بچا لیا ۔
سب سے پیار
حضور ﷺ کی مبارک زندگی ایسی پاکیزہ تھی کہ ایک ایک گھڑی اور ایک ایک پل نیکی اور بھلائی کے کاموں میں گزرا ‘جیسا کہ پیارے بچوں کو اندازہ ہوا ہوگا ۔آپ ﷺ کے دنیا سے تشریف لانے سے پہلے ہر طرف برائیاں پھیلے ہوئی تھیں ۔ہر چیز کو پیدا کرنے والے اللہ تعالی کو بھول کر کوئی بتوں کا پجاری بن گیا تھا ‘کوئی آگ ‘دریاؤں ‘درختوں ‘جانوروں اور چاند ستاروں کو پوجنے لگا تھا ۔
کمزوروں اور غریبوں کی مدد کرنے کے بجائے انہیں ستایا اور لوٹا جاتاتھا ‘جھوٹ ‘فریب ‘چوری چکاری اور بے گناہوں کو قتل کر دینا جیسے کوئی بری بات نہ تھی ‘گناہوں پر شرمندہ ہونے کے بجائے برے کاموں کو بڑا ہونے کی نشانی بتایا جاتاتھا ۔اور ان سب باتوں کا یہ نتیجہ تھا کہ پوری دنیا دوزخ کا نمونہ بن گئی تھی ۔ہر طرف فساد پھیلا ہوا تھا ۔
حضور ﷺ نے ان سب برائیوں کا خاتمہ کر کے امن اور انصاف کی حکومت قائم کی اور اچھائی کودل سے اپنانے والوں کی ایک ایسی جماعت پیدا کر دی جس نے ملک عرب کے باہر دوسرے ملکوں میں بھی ہر قسم کے گناہوں ‘بے انصافیوں اور ظلم کا خاتمہ کر دیا ۔
حضور ﷺ کی ایک خاص بڑائی اور بزرگی یہ ہے کہ آپ ﷺ نے صرف اپنے خاندان یا صرف اپنے ہم وطن عربوں کا ہی بھلا نہیں چاہا ‘بلکہ آپ ﷺ کا یہ پیار دنیا کے سب انسانوں کے لیے تھا ‘آپ ﷺ نے عرب اور غیر عرب اور کالے اور گورے کا فرق مٹاکر شریف اور بہادرلوگوں کی ایک ایسی برادری بنادی جس کاکام ہر قسم کی برائی کو مٹانا اور ہر قسم کی بھلائی کو ترقی دینا تھا ‘اس برادری میں حبش کے رہنے والے بلالؓ ۔روم کے رہنے والے صہیبؓ ‘ایران کے رہنے والے سلمانؓ ‘اور عرب کے رہنے والے ابوبکرؓ سبھی شامل تھے اور ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھتے تھے ۔
حضور ﷺ ہر آدمی سے خوش ہو کر ملتے تھے ‘آپ ﷺ بہت بہادر ‘سخی اور دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے والے تھے ۔آپ ﷺ کی دوستی اللہ کے لیے تھی اور دشمنی بھی اللہ کے لیے ۔
ہمیشہ سچ بولتے تھے ۔وعدہ پورا کرتے تھے ۔کسی سے بات کرتے تو نیکی کے راستے پر چلنے کی نصیحت کرتے ۔آپ ﷺ کے دل میں اپنوں اور پرایوں ‘سب کے لیے خیر خواہی تھی ۔آپ ﷺ اپنے دشمنوں کا بھی بھلا چاہتے تھے ۔
آپ ﷺ کبھی یہ کوشش نہ کرتے تھے کہ آپ ﷺ کو سب سے بڑا سمجھا جائے ۔مجلس میں سب کے ساتھ بیٹھتے اور راستہ چلتے ہوئے سب کو اپنے ساتھ رکھتے ۔
آپ ﷺ بہت سادگی پسندتھے ‘معمولی کپڑے کا لباس پہنتے معمولی کھانا کھاتے اور معمولی سے مکان میں رہتے تھے ۔
کسی کو اداس دیکھتے تو اس کا حال احوال پوچھتے اور جہاں تک ہو سکتا اس کی پریشانی دور کرنے کی کوشش فر ماتے ۔آپ ﷺ قرض لے کر بھی ضرورت مندوں کی مدد کر دیا کرتے تھے ۔
آپ ﷺ کسی کام کو کم درجے کا نہ سمجھتے تھے ‘اپنے کپڑوں میں خود پیوند لگا لیتے تھے اور اپنے جوتوں کی مرمت تک خود کر لیتے تھے ۔
آپ ﷺ میلا کچیلا رہنے کو بہت نا پسند کرتے تھے ‘اگر کسی کو ایسا دیکھتے ‘تو کپڑے دھونے اور حجامت بنوانے کی تاکید فرماتے ‘اگر کسی سے کوئے غلطی ہو جاتی اور وہ اپنی غلطی مان لیتا ‘تو اسے کچھ نہ کہتے ‘فوراًمعاف فرما دیتے تھے ۔
آپ ﷺ اپنے دوستوں اور پاس پڑوس میں رہنے والوں کا بہت خیال رکھتے تھے ‘ان کا حال پوچھتے رہتے تھے اور ان کی مدد فرماتے تھے ۔
حضور ﷺ کی مبارک زندگی کی یہ ساری باتیں پڑھ کر آپ کو جس بات پر سب سے زیادہ غو ر کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ برائی کے راستے پر چلنے والے کتنے بھی طاقتور کیوں نہ ہوں اور بھلائی کی زندگی گزارنے والے کیسے بھی کمزور کیوں نہ ہوں ‘سچی کامیابی ‘نیکی اور بھلائی کو اپنانے والوں کو ہی حاصل ہوتی ہے ۔جیسے حضور ﷺ کو مکہ کے کافروں اور مدینہ کے یہودیوں اور عیسائیوں کے مقابلے میں شاندار کامیابی حاصل ہوئی ۔
اس کے علاوہ دوسری خاص بات یہ ہے کہ ہمارے حضور ﷺنے اپنی امت کے لوگوں کو جن باتوں کی تعلیم دی ‘ان پر خود بھی عمل کیا ‘بلکہ آپ ﷺ نے تو ان باتوں پر اس طرح عمل فرمایا کہ سب سے بہترین نمونہ پیش فرما دیا ۔اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ اچھی باتیں صرف کہنے اور سننے کے لئے ہی نہیں ہو تیں ‘بلکہ عمل کرنے کے لیے ہوتی ہیں ۔
عرب کے غریب اور بے سہارا مسلمانوں نے اسلام کی اچھی باتوں پر عمل کیا تو گنتی کے چند برسوں میں اس وقت کی سب سے بڑی سلطنت کے مالک بن گئے ۔جس نے بھی ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی اسے ذلت اٹھانی پڑی ۔
سب کے آقا
ہماری آج کی دنیا میں بھی جتنی بھلائی اور برکت نظر آتی ہے وہ ہمارے حضور ﷺ کاہی کا صدقہ ہے ۔حضور ﷺ تکلیفیں اٹھا کرکافروں اور مشرکوں کا زور نہ توڑتے ‘تو ساری دنیا پر برائی ہی کا راج ہوتا ۔دکھ سہہ کر اورتکلیفیں اٹھا کر آپ ﷺنے اس دنیا کو ایسا اچھا بنا دیا کہ جن لوگوں کو جانوروں سے بھی کم درجے کا سمجھا جاتا تھا وہ خاندانی بادشاہوں سے بھی زیادہ معزز بن گئے اور برائیوں سے اس طرح ڈرنے لگے جیسے آگ سے ڈرتے ہیں ۔کمزوروں اور غریبوں کو آپ ﷺ کی تعلیم سے کیسی عزت ملی اور دنیا برائیو ں سے کیسی پاک ہو گئی ‘اس کا اندازہ حضرت اسامہ بن زیدؓ کے واقعے سے ہو سکتا ہے ۔
آپ کو یاد ہو گا آپ ﷺ نے اپنی بیماری کے دنوں میں حضرت اسامہ بن زیدؓ کی سرداری میں ملک شام کی طرف ایک لشکرروانہ کیا تھا‘لیکن حضور ﷺ کی بیماری بڑ ھ جانے کی وجہ سے یہ لشکر مدینہ سے کچھ فاصلے پر رک گیا تھا۔
حضور ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ اسلامی سلطنت کے سب سے بڑے حاکم اور حضور ﷺ کے خلیفہ ‘یعنی جانشین بنے تو آپ ﷺنے حکم دیا‘جیش اسامہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جائے ۔
اس مو قع پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو مشورہ دیا گیا کہ کم عمر اسامہؓ کی جگہ کسی بڑی عمر کے اور جنگ کے ماہر بزرگ کو لشکر کا سالار بنایا جائے ‘لیکن حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے یہ بات نہ مانی ۔فرمایا :اسامہؓ کو حضرت رسول ﷺ نے لشکر کا سالار بنایا تھا، وہی اس لشکر کے سالار رہیں گے ۔اس وقت حضرت اسامہؓ کی عمر صرف سترہ برس تھی ۔
یہ فیصلہ کرنے کے بعد حضرت اسامہؓ کے لشکر کو رخصت کرنے کے لیے حضرت ابو بکر صدیق ؓ خود تشریف لے گئے اور انہیں اس طرح رخصت کیا کہ حضرت اسامہؓ گھوڑے پرسوار تھے اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ پیدل ان کے ساتھ چل رہے تھے اور نصیحت فرما رہے تھے ۔
’’(اے اسامہؓ )کسی معاملے میں بھی ایمانداری کو نہ چھوڑنا ‘جھوٹ نہ بولنا ‘وعدہ پورا کرنا ‘دشمن سے لڑائی ہو تو بچوں ‘عورتوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا اور نہ دوسرے مذہب والوں کے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ برا سلوک کرنا‘خاص ضرورت کے بغیر جانور ذبح نہ کرنا ‘درخت نہ کا ٹنا اور فصلوں کو نقصان نہ پہنچانا ‘جنگ شروع کرنے سے پہلے نرمی کے ساتھ اسلام کا پیغام پہنچانا اور اگر لڑائی کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہے ‘تو کسی کے فائدے کے لیے نہیں ‘بلکہ صرف اللہ ہی کے لیے لڑنا۔‘‘
آپ نے اس کتاب کے شروع میں ایک ایسے بچے کا حا ل پڑ ھا تھا جسے ڈاکو اٹھا کر لے گئے تھے اور بازار میں فروخت کر دیا تھا ۔یہ بچہ ایک عزت والے خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور ڈاکوؤں نے اسے غلام بنا کر عکاظ کے بازار میں فروخت کر دیا تھا ۔
اور یہ کتاب ہم اس بات پر ختم کر رہے ہیں کہ اسی غلام یعنی زید بن حارثہؓ کا بیٹا اسامہ بن زید ؓ لشکر کے سالار کی حیثیت سے گھوڑے پر سوار ہے اور اسلامی سلطنت کا سب سے بڑا حاکم اس کے ساتھ پیدل چل رہا ہے ۔
نہ صرف ملک عرب ‘بلکہ پوری دنیا میں اتنی بڑی تبدیلی حضور ﷺ کے صدقے ہی آئی ۔یقینایہ آپ ﷺ کی کوشش سے ہی ہواکہ کل جو غلام تھے سردار بن گئے اور برائیو ں کا اس طرح خاتمہ ہوگیا کہ کوئی طاقتور کسی کمزور کو ستانے کا خیال بھی دل میں نہ لا سکتا تھا۔حضور ﷺ کی یہ بات پوری ہوگئی تھی کہ ایک کمزور عورت سونا اچھالتی ہوئی اکیلی سفر کرتی تھی اور اسے ڈاکوؤں کا خوف نہ ہو تاتھا ۔
آئیے سچے دل سے دعا مانگیں ‘اے اللہ !اپنے محبوب اور ہمارے آقا حضرت مصطفیﷺ ‘آپ ﷺ کی آل اولاد اور آپ ﷺ کے صحابہ پر اپنی رحمتیں نازل فرما اور ہمیں ان کی سچی پیروی نصیب فرما۔آمین ثم آمین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top