گوریلا فائٹرز۔۲
شان مسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وطن سے محبت کرنے والے جانبازوں کی داستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فولادی جوتوں کی دس بارہ لاتوں نے دروازہ توڑ کر ایک طرف ڈال دیا تھا اور اب وہ دھاڑتے اور للکارتے ہوئے گھر کے اندر گھس آئے تھے۔
ثاقب اخبار کے مطالعے کے ساتھ ساتھ کھانا بھی کھا رہا تھا۔ اس اچانک حملے سے وہ فوری طور پر بوکھلا گیا اور اپنے کمرے کی طرف دوڑا ۔ اس کے ذہن نے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں آنے والے خطرے کو بھانپتے ہوئے اسے حفاظتی حکمت عملی کی راہ سجھائی تھی۔
جدید اسلحے سے لیس سیاہ وردی میں ملبوس چار آدمی پوزیشن سنبھالتے ہوئے باری باری تمام کمروں کی تلاشی لے رہے تھے اور بڑی بے دردی سے گھر کا سامان برباد کررہے تھے۔ ثاقب نے اپنے کمرے کے دروازے کے ’’سوراخ‘‘ (Key whole)سے دیکھا کہ ان میں سے ایک محتاط انداز میں اس کے کمرے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کی وردی پر \”XE\”کے الفاظ واضح تھے۔
ثاقب فوراً دروازے کے ساتھ رکھی الماری کے اوپر خاموشی سے چڑھ گیا اور دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔
دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور عقبی دیوار کے ساتھ جا ٹکرایا اور اس کے تھوڑی دیر بعد جدید ہتھیار KM-700ریپیٹر اٹھائے ایک حملہ آور اندر گھس آیا۔ ثاقب کو اسی لمحے کا انتظار تھا اس نے اس کے سر کے اوپر چھلانگ لگا دی۔ حملہ آور کے سر پر ثاقب نے الماری کے اوپر رکھی ہوئی خراب استری کی اگلی نوک ماردی تھی۔ جس کے بعد وہ چاروں شانے چت ہو چکا تھا اور اب ریپیٹر KM-700ثاقب کے ہاتھ میں آچکی تھی۔
دوسری طرف حملے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آواز سن کر بقیہ تینوں حملہ آور ثاقب کے کمرے کی طرف دوڑے لیکن اگلے ہی لمحے ثاقب فائر کھول چکا تھا۔ ایک سیکنڈ میں لاتعداد گولیاں آنے والے تینوں حملہ آور کی طرف لپکیں۔۔۔
لیکن اسی دوران ثاقب کا موبائل فون بج اٹھا۔
*۔۔۔*
’’سوہنی دھرتی اﷲ رکھے قدم قدم آباد تجھے، قدم قدم آباد تجھے ۔۔۔‘‘ثاقب کے موبائل پر اس کے پسندیدہ ملی نغمے کی ٹون مسلسل بج رہی تھی اور وہ گہری نیند میں خواب خرگوش کے مزے لیتے ہوئے بھی دشمن کی ٹھکائی لگا رہا تھا۔ بالآخر جب تیسری دفعہ موبائل چیخا تو اس نے ہڑبڑا کر فون اٹھا لیا۔ کوئی انجانا نمبر جگمگا رہا تھا۔ دشمن کو انجام سے دوچار کرنے سے پہلے خواب کا ٹوٹ جانا شاید اسے پسند نہیں آیا تھا۔
’’السلام علیکم۔۔۔ کون؟‘‘ ثاقب کی آواز میں نیند کا خمار غالب تھا۔
’’ہماری نیندیں حرام کرکے تم بھی سکون سے نہیں سو سکو گے، مسٹر ثاقب۔ ہم تمہارے قریب پہنچ چکے ہیں۔‘‘ دوسری طرف سے آنے والی بھاری سی آواز بھی نمبر کی طرح انجانی تھی۔
ابھی دو دن پہلے ہی ثاقب، شعیب، عمران، زبیر اور وقاص لبنان کے دارلحکومت بیروت سے کراچی پہنچے تھے۔ اسرائیل میں اتنے بڑے مشن سے کامیاب واپسی کی نہ تو تھکن پوری طرح اتری تھی اور نہ صحیح سے زخم مندمل ہوئے تھے اور اب اس عجیب و غریب انجانی فون کال نے ثاقب کی خمار بھری ادھ کھلی آنکھوں کو پوری طرح کھلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ دھمکی آمیز جملوں کو سنتے ہی ثاقب ایک لمحے کے لیے تو چونکا، لیکن اگلے ہی لمحے۔۔۔ وہ پوری طرح سنبھل چکا تھا۔
’’اے مسٹر گمنام! تم جو کوئی بھی ہو یاد رکھو ابھی تک ہم نے صرف تمہاری نیندیں حرام کی ہیں۔ جینا حرام نہیں کیا۔ ہمارے سامنے آئے تو وہ حرام کر دیں گے۔ کون ہو تم؟ ‘‘
’’بہت جلد تم ہمیں بھی جان لو گے۔ گڈ بائے مسٹر ثاقب ‘‘یہ کہہ کر دوسری طرف سے فون کاٹ دیا گیا۔
کیا بکواس ہے؟‘‘ ثاقب غصے میں ہڑبڑایا اس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو وہاں دن کے گیارہ بج رہے تھے یعنی وہ فجر کی نماز اور تلاوت قرآن کے بعد بھی چار گھنٹے کی اضافی نیند لے چکا تھا۔
’’ثاقب بیٹا ہاتھ منہ دھو لو میں ناشتہ لگا رہی ہوں۔‘‘ کچن سے ثاقب کی امی کی آواز آئی۔
’’جی اچھا امی جان۔‘‘ ثاقب بستر سے نیچے اتر آیا۔ ہاتھ منہ دھونے کے بعد ناشتہ کرتے ہوئے وہ آج کے خواب اور اس فون میں حیرت انگیز مماثلت محسوس کر رہا تھا۔
’’کیا ہوا بیٹا خیریت تو ہے کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ ثاقب کی امی اس کی پریشانی بھانپ گئی تھیں۔
’’نہیں کچھ خاص نہیں۔۔۔ ویسے آپ خالہ ثمینہ کے پاس حیدر آباد کتنے عرصے سے نہیں گئیں؟‘‘ ثاقب نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
’’ہائیں! یہ اچانک تمہیں خالہ ثمینہ کہاں سے یاد آ گئیں۔ وہ تو بے چاری تمہیں پوچھ پوچھ کر تھک گئیں۔ برسوں سے نہیں گئے ان کے پاس۔ اب کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘ امی حیرانی سے بولیں۔
’’ارے امی! میں نے تھوڑا ہی جانا ہے ۔ میں تو چاہتا ہوں کہ آپ کچھ دن ان کے پاس ہوآئیں۔ کیونکہ آج سے میری مصروفیات بھی شروع ہوجائیں گی اور آپ گھر میں اکیلی ہوں گی، ویسے ابو جان کب چھٹیوں پر گھر آرہے ہیں؟‘‘ ثاقب نے اصل بات چھپاتے ہوئے امی کو دوسری طرف گھما دیا تھا۔
’’ہاں بیٹا میں بھی سوچ رہی تھی کہ کچھ دن اس کے پاس ہوآؤں وہ بھی بلا بلا کر تھک گئی ہے اور تمہارے ابو بھی اس مہینے کے آخر میں ہی آئیں گے۔‘‘ امی جان کچھ سوچتی ہوئی بولیں۔
’’تو پھر ٹھیک ہے آپ تیاری کریں سلمان اور اسماء کو بھی تیار کریں میں آج ماسٹر خان کے پاس جاتے ہوئے آپ لوگوں کو بس اڈے تک چھوڑ دوں گا۔‘‘
ثاقب کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ ابھی کے ابھی امی اور بہن بھائی کو حیدر آباد چھوڑ آتا۔ دراصل وہ کسی بھی قسم کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ کیونکہ اس کی چھٹی حس نے اس خواب کے ذریعے اسے خبردار کر دیا تھا۔
ثاقب اپنی امی کو اسی حیرانی اور پریشانی میں چھوڑ کر فون کی طرف لپکا۔اب وہ ماسٹر خان کا نمبر ڈائل کر رہا تھا۔
*۔۔۔*
’’ہیلو ۔۔۔ السلام علیکم۔۔۔ خان اسپیکنگ۔۔۔ ‘‘ماسٹر خان فون اٹھاتے ہی گویا ہوئے۔
’’وعلیکم السلام ماسٹر خان۔۔۔ آئی ایم ثاقب اسپیکنگ۔۔۔‘‘ ثاقب ماسٹر خان کی آواز سنتے ہی بے تابی سے بولا۔
’’جی ثاقب بیٹا خیریت تو ہے؟ کچھ تھکن وغیرہ اتری تمہاری۔ ماسٹر خان ثاقب کے لہجے سے اندازہ لگا رہے تھے کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔’’جی انکل بالکل خیریت ہے میں آپ کے پاس آنا چاہ رہا تھا۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے آجاؤ ۔ میں تمہارا منتظر رہوں گا۔‘‘ ماسٹر خان نے بغیر کسی تردد کے جواب دیا۔
امی، سلمان اور اسماء کو بس اسٹینڈ پر گاڑی میں سوار کرانے کے بعد، وہ ٹھیک تین بجے ماسٹر خان کے ڈرائنگ روم میں صوفے سے پشت ٹکائے ٹھنڈی سانسیں لے رہا تھا۔
’’ہاں ثاقب بیٹا اب بولو کیا بات ہے تم مجھے کچھ گھبرائے گھبرائے سے لگ رہے ہو۔‘‘ ماسٹر خان ثاقب کی پریشانی بھانپتے ہوئے بولے۔
اور پھر ثاقب نے خواب سے لے کر فون تک کی ساری داستان ان کے گوش گزار کر دی۔
’’اوہ! تو یہ بات ہے!‘‘ ماسٹرخان ایک لمبی سانس لیتے ہوئے بولے۔’’ یعنی تم سمجھتے ہو کہ اب ہم سب کے گھر بھی خطرے میں ہیں۔‘‘
’’بالکل ! ہمیں محتاط رہنا ہوگا۔ ہمارا دشمن اتنی آسانی سے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑے گا اور نہ ہم۔‘‘ ماسٹر خان گوریلا فائٹرز کے باقی چار ممبران کو فون پر ہدایات دینے لگے۔’’ہاں بھئی ایک گھنٹے کے اندر اپنے اپنے گھر خالی کر دو اور مرکز پر پہنچو آج شام پانچ بجے میٹنگ وہیں پر ہوگی۔‘‘
*۔۔۔*
کلفٹن میں واقع ۴۰۰ گز کا بنگلہ ان کا ہیڈ کوارٹر تھا جہاں پہلے بھی ان کے اجلاس ہو چکے تھے۔ پانچ بجنے میں ابھی پندرہ منٹ باقی تھے جبکہ زبیر کے علاوہ باقی تمام ساتھی پہنچ چکے تھے۔
’’یار ثاقب یہ تو زبردست ایڈونچر ہو گیا یعنی اگر تمہارا موبائل تھوڑ ی دیر بعد بجتا تو ان تینوں بے چاروں کی بھی چھٹی ہوجانی تھی جو مرنے سے بچ گئے تھے۔‘‘ ثاقب کا خواب سننے کے بعد عمران نے ہنستے ہوئے تبصرہ کیا تو سارے ساتھی مسکرانے لگے اور ثاقب مصنوعی غصے سے عمران کو گھورنے لگا۔
’’اور اگر موبائل تھوڑی دیر پہلے بج اٹھتا تو وہ بھی بچ جاتا جو سب سے بڑا بے چارہ تھا میرا مطلب ہے جو استری کے نیچے آکر مر گیا۔‘‘وقاص نے بھی شوشہ چھوڑا اور ثاقب کے علاوہ سب ہنس پڑے۔
’’ویسے ثاقب یہاںآنے سے پہلے الماری کے اوپر استری تو چیک کرکے آئے ہو نا کہیں ایسا نہ ہو کر وہ آجائیں اور تم استری ڈھونڈتے پھرو۔‘‘ شعیب نے جملہ کسا تو سب کے قہقہے ابل پڑے اور اب کی مرتبہ سب سے اونچا قہقہہ ثاقب نے لگایا تھا۔
’’بہت خوب بھئی بہت خوب‘‘ ماسٹر خان بھی شعیب کے جملے پر اسے داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔
’’ویسے ایک بات اور بھی ہے پہلے ۔۔۔ ثاقب کی چھٹی حس ہمیں چھٹی کا دودھ یاد دلا دیتی تھی اب چھٹی حس کے ساتھ ساتھ چھٹی کے خواب بھی آنے لگے ہیں خدا خیر کرے۔‘‘
ماسٹر خان بھی آخر موقع کا فائدہ اٹھائے بغیر نہ رہ سکے لیکن یہ جملہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے ہاتھ بڑھا کر اپنائیت کے ساتھ ثاقب کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا کہ کہیں وہ محسوس نہ کرے۔
اور ٹھیک پانچ بجے جب وہ میٹنگ کا آغاز کررہے تھے اسی اثناء میں زبیر بھی پہنچ چکا تھا اور مختصر سی آگاہی بھی حاصل کر چکا تھا۔
’’سب سے پہلے تو میں اپنے پیارے شاہینوں کو دشمن کی سرزمین سے کامیاب کاروائی کے بعد وطن واپسی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘‘
ماسٹر خان نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے مبارکباد دی تو پانچوں کے مسکراتے ہوئے چہرے یک لخت سنجیدہ ہو گئے اور شعیب بولا۔’’سر یہ تو سب اﷲ کی تائید و نصرت اور آپ کی محنت اور اخلاص کی بدولت ممکن ہوا ورنہ ہم تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اتنی بڑی اسلام دشمن طاقت کے چھکے چھڑا دیں گے۔‘‘
’’میں کیا میری بساط کیا۔ میں تو تم لوگوں کو جمع کرنے کا سبب بن گیا اور خوشی کی بات یہ ہے کہ تم لوگوں نے توقعات سے بڑھ کر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔‘‘ ماسٹر خان نے عجز و انکساری کے ساتھ ساتھ ایک مرتبہ پانچوں ممبران کو امید سے بڑھ کر کامیابیوں کے حصول پر خراج تحسین پیش کیا۔
’’سر ہم ایک مقصد کے تحت پاکستان واپس آئے ہیں ورنہ شاید ابھی تک دشمن کے دانت کھٹے کررہے ہوتے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دشمن ہمارے پیچھے ہمارے ملک میں داخل ہو چکا ہے۔‘‘ ثاقب جو میٹنگ کی کاروائی نوٹ کررہا تھا اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے بولا ۔’’ نہ صرف ہمارے ملک میں داخل ہو چکا بلکہ دھمکی آمیز فون کرکے ہمیں خوفزدہ کرنا چاہتا ہے۔‘‘ شعیب کا اشارہ اس گمنام فون کی طرف تھا جو ثاقب کو موصول ہو چکا تھا۔
’’سر جب ہم دشمن کو اس کے ملک میں نقصان پہنچا سکتے ہیں تو اپنے ملک میں یہ کام اور آسان ہوگا۔ ‘‘ وقاص جذباتی انداز میں بولا۔
’’نہیں میرے خیال میں تم غلطی کررہے ہو۔ دشمن ملک میں ہم کھل کر کاروائی کرسکتے ہیں اور ہم نے کیں لیکن اپنے ملک میں ہمیں بہت محتاط طریقے سے کام کرنا پڑے گا اور دشمن کسی بھی نقصان کی پروا کیے بغیر کھل کر کاروائی کرے گا۔ تم لوگ میری بات سمجھ رہے ہو ناں۔‘‘ماسٹر خان وقاص کی بات کا جواب دیتے ہوئے بولے۔
’’سر اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ملک کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے دشمن کے خلاف فوری حکمت عملی تیار کرنی چاہیے کیونکہ دشمن ہمیں ٹریس کرچکا ہے اور ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔‘‘ زبیر نے کچھ سوچتے ہوئے اپنی رائے پیش کی۔
’’بالکل! میں اسی طرف آرہا تھا اور آج کا ہنگامی اجلاس بلانے کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ماسٹر خان نے وہ سرخ فائل کھولی جو وہ اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔ یہ وہی خفیہ فائل تھی جو گوریلا فائٹر ز کے ممبران نے اسرائیل میں رہتے ہوئے خفیہ ذرائع سے حاصل کرکے ماسٹر خان کو بھجوائی تھی جس میں تیس سال قبل کی گئی وہ منصوبہ بندی درج تھی جس میں نہ صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کو یہودیت کے لیے مستقبل بنا کر ٹکڑے ٹکڑے کرنا تھا۔ جس میں درج تھا کہ پاکستان میں موجود نمایاں مذہبی فرقوں کو شیعہ اور سنی کے نام سے لڑا کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ سنیوں کے مختلف مسلکوں مثلاً دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث کے چھوٹے چھوٹے اختلافی مسائل کو سازش کے ذریعہ بھڑکا کر تمام مسلمانوں کو آپس میں دست و گریباں کر دیا جائے گا جس سے ملک کا اکثریتی اسلام پسند طبقہ مختلف ٹکڑوں میں بٹ جائے گا بالکل اسی طرح مختلف زبان بولنے والے مسلمانوں کو سندھی، پنجابی، بلوچی ، پشتو اور مہاجر کے نام پر ملکی وحدت ، اخوت و محبت اور بھائی چارہ کو پارہ پارہ کر دیا جائے گا۔
اس کے بعد اپنی مرضی کے نام نہاد مسلمان لیڈروں کو خرید کر انہیں اقتدار بخشا جائے گا اور پھر اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرکے پاکستانی عوام کو ایک مرتبہ پھر غلام بنا لیا جائے گا۔
’’سر شاید یہ وہی فائل ہے جو ۔۔۔‘‘ شعیب نے سرخ فائل پہچانتے ہوئے کچھ کہنا چاہا تو ماسٹر خان بات کاٹتے ہوئے بولے۔
’’ جی ہاں! آپ سب نے صحیح پہچانا۔ یہ وہی سرخ فائل ہے جس میں نام نہاد ناپاک ریاست اسرائیل کا وہ ناپاک منصوبہ درج ہے جس میں ایک پاک وطن اور پاک قوم پاکستان کی آزادی اور سا لمیت کو نقصان پہنچانا ہے لیکن یاد رہے کہ یہ تیس سال پہلے کی سازش ہے جسے امریکی تھنک ٹینک نے تیار کرکے اسرائیل کے حوالے کیا تھا لیکن ہر پانچ سے دس سال کے دوران وہ اس میں ضرورت کے مطابق جائزہ اور تبدیلی عمل میں لاتے رہتے ہیں۔‘‘
’’ سر یہ امریکی تھنک ٹینک تو مکمل اسرائیل کے مفاد کے لیے کام کرتا ہے پھر اس کا نام اسرائیلی تھنک ٹینک کیوں نہیں رکھ لیا جاتا۔ وقاص غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے بولا۔
’’یہودی بڑا عیار اور مکار سازشی دشمن ہے۔وہ ہمیشہ دوسروں کے کندھوں پر رکھ کر بندوق چلاتا ہے تاکہ خود کو محفوظ رکھ سکے۔ اس کی پالیسی ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ دنیا یہ سمجھے کہ دنیا میں جوکچھ فساد ہو رہا ہے وہ امریکہ کررہا ہے اور اسرائیل اس کا لاڈلا بچہ اور اس کے ماتحت ہے حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ امریکہ کا صرف صدر عیسائی ہوتا ہے۔ وہ بھی صرف نام کا باقی تمام اہم ذمہ داریوں پر یہودیوں کا قبضہ ہے امریکہ کا نائب صدر یہودی، امریکیی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا سربراہ یہودی ، ورلڈ بینک کا صدر یہودی اوراس طرح کے سینکڑوں عہدے یہودیوں کے پاس ہیں۔‘‘
گوریلا فائٹرز کے پانچوں ممبران بڑے انہماک سے ماسٹر خان کی بات سن رہے تھے۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولے۔’’بہرحال ہماری ٹیم کے ذہین اور ہونہار عمران جن کے بارے میں آپ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ کمپیوٹر کے حوالے سے خصوصی صلاحیت کے حامل ہیں کل شام اسرائیل کے ڈیٹا بیس کا خفیہ کوڈ توڑ کر بہت سی چیزیں چرا لائے ہیں اور ہمارے پاس موجود معلومات کو اپ ڈیٹ کرچکے ہیں لیکن ان معلومات کو سننے اور دیکھنے کے لیے ایک پاکستانی کے لیے بڑا دل گردہ اور حوصلہ درکار ہے جو یقیناًآپ سب کے پاس بھی موجود ہے۔‘‘جیسے جیسے ماسٹر خان کی بات آگے بڑھ رہی تھی ۔ ثاقب، شعیب، زبیر اور وقاص کی دل کی دھڑکیں بے ترتیب ہو رہیں تھیں چاروں نے ایک لمحے کے لیے عمران کی طرف دیکھا جو سراٹھائے سنجیدہ بیٹھا تھا اور پھر ماسٹر خان کی طرف بے تابی سے متوجہ ہو گئے۔اسی دوران ماسٹر خان نے میز پر رکھا ہوا ملٹی میڈیا آن کر دیا اور ماسٹر خان کے عقب میں لگی اسکرین پر دنیا کا نقشہ روشن ہو گیا جس میں مختلف ممالک مختلف رنگوں سے واضح تھے۔
’’سر یہ تو عام سا دنیا کا نقشہ ہے اس میں خاص بات کیا ہے؟‘‘ زبیر نے سرسری طور پر دیکھتے ہوئے ماسٹر خان سے استفہامیہ انداز میں پوچھا تو ماسٹر خان بولے۔
’’ یہ امریکی تھنک ٹینک کے تھیورٹیکل ڈپارٹمنٹ کا تیارہ کردہ ۲۰۲۵ء کا نقشہ ہے۔‘‘ ماسٹر خان نے بریفننگ اسٹک سے ان جلی حروف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں واضح طور پر World Map 2025 US Theoritical Departmentلکھا ہوا تھا۔
’’ذرا اس نقشہ میں پاکستان کو دیکھیں۔‘‘ پانچوں کی نظریں پاکستان کی طرف گئیں اور ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
*۔۔۔*
دنیا کے نقشے میں پاکستان کو بہت چھوٹی سی ریاست کے طور پر دکھایا گیا تھا۔
’’اوہ! پاکستان کے خلاف اتنی بڑی سازش؟‘‘ وقاص کے منہ سے گھٹی گھٹی سی آواز نکلی۔
’’ناقابل یقین!‘‘ زبیر سر پکڑتے ہوئے بولا۔
’’ جی ہاں! سازش تو اس سے بھی بڑی ہے یعنی صرف پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ عالم اسلام کے خلاف اور یہ سازشیں آج سے نہیں ہو رہیں بلکہ جب سے ہمارے پیارے آقا نبی مہربان محمد مصطفی ﷺ نے اس دنیا میں اسلام کا پرچم لہرایا ہے اس وقت سے ۔ یہودی اور عیسائی اسلام کے خلاف سرگرم ہیں لیکن نبی اکرمؐ نے ان کی ہر سازش کا نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ ان کو ان کی بستیوں سے بھی نکال باہر کیا اور وہ اپنی کسی سازش میں بھی کامیاب نہ ہو سکے۔
یہ جملے ادا کرتے وقت ماسٹر خان کے چہرے پر موجود بے پناہ اعتماد پانچوں لڑکوں کے لیے کافی تقویت کا باعث تھا۔
’’واقعی سر! ہمارے پاس حق کی طاقت ہے اور ان کے ساتھ باطل قوتیں ہیں اور قرآن میں صاف صاف فرما دیا گیا ہے ۔ جاء الحق و زھق الباطل ، ان الباطل کان زھوقا۔ یعنی ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو ہے ہی مٹنے کے لیے۔‘‘
ثاقب پُرعزم لہجے میں بولا تو سب کی زبانوں پر ان شاء اﷲ کے الفاظ جاری ہو گئے۔
’’ہاں تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ امریکی تھنک ٹینک مختلف ادوار میں دنیا کے نقشے پر تبدیل کرتی رہی ہے اور پھر حالات کے مطابق ان میں رد و بدل کرتی رہتی ہے۔ اس بات کا اندازہ آپ اس طرح لگائیے کہ امریکی تھنک ٹینک نے سب سے پہلے ۱۹۴۱ء میں ۲۰۲۵ء کا نقشہ پیش کیا تھا۔ ‘‘ ماسٹر خان گفتگو کے دوران سانس لینے کو رکے تو زبیر نے سوال پوچھتے ہوئے کہا۔
’’لیکن سر اس وقت تو پاکستان بھی وجود میں نہیں آیا تھا؟‘‘
’’بالکل آپ نے بالکل درست کہا ، پاکستان اس کے بعد ہی وجود میں آیا تھا لیکن جیسا کہ میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں دشمن کا مقصد صرف پاکستان کو کمزور کرنا نہیں بلکہ وہ اسلام کو نیچا دکھانا چاہتا ہے۔ ۱۹۴۱ء کے تیار کردہ نقشے میں اس نے دوسرے اسلامی ممالک کو نشانہ بنا کر ٹکڑے ٹکڑے کیا تھا لیکن جب ۱۹۴۷ء میں پاکستان وجود میں آیا تو ان کو اپنی سازش ناکام ہوتی محسوس ہوئی کیونکہ خالص اسلام کے نام پر کسی ملک کا قیام یہود و نصاریٰ کے لیے انتہائی خطرے کا پیغام تھا۔
لہٰذا ۱۹۵۰ء میں انہوں نے دوبارہ نئے سرے سے نقشے کو ترتیب دیا اور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے مقدس اور محترم شہر مدینہ منورہ کو جہاں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ؐ کا روضہ مبارک بھی ہے، کو سعودیہ عرب سے الگ کرکے نام نہاد ناپاک اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
ماسٹر خان روضہ پاکؐ کا ذکر کرتے ہوئے کافی جذباتی ہوگئے تھے اور ان کا انداز نبی کریمؐ سے والہانہ عشق کا بھرپور اظہار کررہا تھا۔
ماسٹر: یہودیوں کی یہ جرات کہ وہ ہمارے مقدس شہر مدینہ منورہ کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھیں۔ خدا کی قسم! میں ان کی آنکھیں نکال کر باہر پھینک دوں گا۔
شعیب کی آنکھوں میں نمی صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔ وہ غصہ میں دانت پیستے ہوئے بولا۔
’’ میرے بچو! یہودیوں کے ناپاک منصوبہ کا پول کھل جانے کے بعد مستقبل کی یہودی سلطنت (اسرائیل) کا نقشہ وہ ایک مدت سے کھلم کھلا اور ڈھٹائی کے ساتھ شائع کررہے ہیں جس میں فلسطین کے علاوہ پورا شام ، پورا لبنان ، پورا اردن ، تقریباً سارا عراق اور ترکی اور مصر کے کچھ علاقے شامل ہیں۔
ماسٹر خان معلومات کے نئے نئے دروازے کھول کر نہ صرف ان سب کی حیرت میں اضافہ کررہے تھے بلکہ یہودیوں کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کرتے جا رہے تھے۔
’’سر یہ ان کی خام خیالی ہے شاید یہودی یہ نہیں جانتے کہ اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے۔ ان شاء اﷲ ہم یہودیوں کے ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملا دیں گے۔‘‘
عمران کافی دیر بعد غصے سے پھٹ پڑا۔
’’عمران بیٹا! تم بالکل صحیح کہہ رہے ہو۔ کیونکہ نبی کریمؐ آج سے چودہ سو سال پہلے اس بات کا اعلان کرچکے ہیں کہ مسلمانوں کے ہاتھوں یہودیوں کی شکست ہوگی اور پوری دنیا میں اسلام کا پرچم لہرائے گا۔‘‘
’’ان شاء اﷲ، ان شاء اﷲ ، ان شاء اﷲ ۔۔۔‘‘ سب باری باری بول اٹھے اور سب کے جذبے ایک مرتبہ پھر جوان ہو گئے۔
بہرحال اس کے بعد یہودیوں کو ایک اور زبردست جھٹکا اس وقت لگا جب ۲۸ مئی ۱۹۹۸ء کو سخت عوامی دباؤ کے نتیجے میں حکومت پاکستان نے کامیاب ایٹمی تجربات کرکے عالم کفر کی سازشوں کو ناکام بنا کر انہیں ہلا کر رکھ دیا اور دنیائے اسلام کی پہلی اور پوری دنیا میں ساتویں ایٹمی قوت بن کر عالم اسلام کا سر فخر سے بلند کر دیا۔
اس طرح جب اسرائیل اور امریکہ کو اپنی سا لمیت مزید خطرے میں نظر آئی تو اس اسلامی ایٹم بم کے توڑ کے لیے ۲۵ جولائی ۱۹۹۹ء کو امریکی تھنک ٹینک ۴ اگست ۱۹۹۹ء تک مسلسل جاری رہا اور اس میں یہ طے کیا گیا کہ دہشت گردی کی آڑ میں پاکستان میں فوجی مداخلت کی جائے گی اور دوسری طرف ۲۰۱۰ء تک بھارت کے ہاتھوں پاکستان کو شدید نقصان سے دوچار کیا جائے گا تاکہ پاکستان کا مرکز انتہائی کمزور ہوجائے اور پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنا کر اسے ختم کر دیا جائے گا اور ۲۰۲۵ء تک پاکستان صرف برائے نام رہ جائے گا جو امریکہ کا غلام ہوگا۔‘‘
ماسٹر خان کی جمع کردہ معلومات اور عمران کے تلاش کردہ اعداد و شمار تمام ممبران کو ورطہ حیرت میں ڈال کر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہے تھے۔
’’سر ہم محمد ﷺ کے غلام ہیں، امریکہ اور اسرائیل ہمیں کبھی بھی غلام نہیں بنا سکیں گے اور اﷲ نے چاہا تو ان کے خواب بہت جلد چکنا چور ہوجائیں گے ۔ ہم نئے مشن کے لیے بالکل تیار ہیں۔ ‘‘ وقاص ایک نئے عزم کے ساتھ مکا ہوا میں لہراتے ہوئے بولا۔
ماسٹر خان کو پانچوں کے پاکیزہ چہروں پر موجود روشن آنکھوں میں ایک لمحے کے لیے بجلی کی کوند جیسی چمک نظر آئی جو شہر کی آنکھوں میں اس وقت اترتی ہے جب وہ اپنے دشمن پر حملے کے لیے بالکل تیار ہوتا ہے۔
’’اے اﷲ میرے ان شاہینوں کی حفاظت کرنا اور ان کو اپنے نیک مقصد میں کامیابی عطا فرمانا۔ ماسٹر خان کے دل نے بے اختیار دعا مانگی،
سر آپ نے ابھی بتایا کہ امریکہ دہشت گردی کی آڑ میں پاکستان میں فوجی مداخلت کرے گا ۔ کیا ایسا کرنا اس کے لیے ممکن ہوگا جبکہ وہ عراق اور افغانستان میں بری طرح سے پٹ چکا ہے۔ ‘‘ زبیر کا سوال کافی معقول تھا۔
’’ جی ہاں! بالکل کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ فوجی وردی کے بجائے سادہ وردی میں بھیس بدل کر کاروائی کرے اور جہاں تک عراق اور افغانستان میں پٹنے کی بات تو میں پھر سے اپنی بات دھرا دوں کہ اسرائیل نے امریکہ کو کھلا کھلا کر سانڈ صرف اسی دن کے لیے بنایا تھا کہ وہ اس کی جنگ لڑے کیونکہ اگر امریکہ ایک آزاد ملک ہوتا تو اتنی بڑی شکست اور رسوائی کے بعد کبھی پاکستان اور ایران کو حملے کی دھمکی بھی نہ دیتا بلکہ اپنے ملک کو بچانے کی کوشش کرتا جو عنقریب ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔‘‘ماسٹر خان کے آخری جملے پر پانچوں کے منہ سے بے اختیار نکلا۔’’امریکہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا!‘‘
’’ان شاء اﷲ!! کیونکہ میں نے بھی دشمن کے جواب میں مستقبل کا نقشہ بنایا ہے لیکن اس کے لیے ہمیں ۲۰۲۵ء کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا بلکہ میرے ورلڈ میپ کے مطابق ۲۰۱۵ء تک امریکہ بکھر جائے گا، جس طرح برطانیہ اور سوویت یونین آج بکھر چکے ہیں۔‘‘
ماسٹر خان کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا۔
’’سرے میرے ذہن میں بار بار انگریزی کے دو حروف آتے ہیں اور پھر فوراً غائب ہوجاتے ہیں ۔ سر میری سمجھ میں نہیں آرہا۔‘‘ ثاقب نے تیسری مرتبہ اپنا سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
’’ کون سے دو حروف؟ میں تمہاری بات نہیں سمجھا۔‘‘ ماسٹر خان نے چونکتے ہوئے ثاقب کی طرف دیکھا۔
’’Xاور E ‘‘ ثاقب نے دو حروف دہرائے۔
’’Xاور E بھلا اس کے کیا معنی ہو ئے؟‘‘ ماسٹر خان کچھ سوچتے ہوئے بولے۔
جیسے ان دو حروف سے کوئی معنی اخذ کرنے کی کوشش کررہے ہوں۔
’’سر! مجھے یاد آرہا ہے کہ یہی دو حروف ’’XE‘‘ میں نے خواب میں چاروں حملہ آوروں کی وردی پر بھی لکھا دیکھا تھا۔‘‘
ثاقب نے ذہن پر زور ڈالتے ہوئے کہا تو ماسٹر خان اپنی کرسی سے اچھل پڑے۔
یعنی ’’XE World Wide‘‘ (زی ورلڈ وائڈ)‘‘ اس مرتبہ حیرت کا جھٹکا ماسٹر خان کو لگا تھا اور ان کی پیشانی پر فکر مندی کے آثار نظر آنے لگے۔
’’سر خیریت تو ہے، آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں۔‘‘
شعیب ماسٹر خان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بول ہی رہا تھا کہ اسی دوران ثاقب کا موبائل فون بج اٹھا۔
’’السلام علیکم!‘‘ ثاقب نے کال ریسیو کرتے ہی کہا اور موبائل کا اسپیکر آن کر دیا تاکہ سب گفتگو سن سکیں۔
’’وعلیکم السلام ! ثاقب بھائی میں آپ کے سامنے والے گھر سے امتیاز راہی بات کررہا ہوں۔‘‘ امتیاز بھائی کی آہستگی سے گھبرائی ہوئی آواز آئی تھی۔
’’ ہاں ہاں ۔۔۔ امتیاز بھائی خیریت تو ہے نا۔‘‘ ثاقب، امتیاز بھائی کے انداز پر چونکتے ہوئے بولا۔
’’ثاقب بھائی سیاہ وردی میں چار مشکوک افراد آپ کے گھر کے دروازے کو کھولنے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘ پڑوسی امتیاز راہی کی آواز سنائی دی تو سب چونک اٹھے۔
’’امتیاز بھائی ! آپ کہاں ہیں؟ کیا چار افراد کے علاوہ اور بھی کوئی آپ کو نظر آرہا ہے؟‘‘
شعیب ، ثاقب کے ہاتھ سے موبائل لے کر مزید ضروری معلومات لینے کے دوران ہاتھ کے اشارے سے چاروں کو ضروری معلومات لینے کے دوران ہاتھ کے اشارے سے چاروں کو ضروری اسلحہ اور سامان لینے کی ہدایات دیتے ہوئے بولا۔
’’ثاقب بھائی میں گھر کی کھڑکی سے ان سب کو دیکھ رہا ہوں۔ان کے ساتھ ایک بلیک ڈبل کیبن گاڑی بھی ہے جن میں لازماً ایک دو افراد ہوں گے۔ امتیاز راہی نے شعیب کو بھی ثاقب سمجھتے ہوئے جلدی جلدی معلومات فراہم کیں اور پھر شعیب جلدی سے موبائل بند کرتے ہوئے ماسٹر خان کی طرف مڑا اور بولا۔
’’سر! ثاقب کے خواب میں تو کسی وجہ سے تین بچ گئے تھے ان شاء اﷲ ۔۔۔ سب ایک ساتھ جائیں گے کیونکہ چوہے خود چوہے دان میں چل کر آئے ہیں۔‘‘
یہ کہتے ہی شعیب کے اشارے پر پانچوں ضروری اسلحہ، موٹر سائیکل کی چابیان اور ہیلمٹ اٹھاتے ہوئے دروازے کی طرف لپکے۔
’’شعیب محتاط رہنا یہ بڑے خطرناک لوگ ہیں۔ ہوشیاری سے دفاعی مقابلہ کرنا یہ عام لوگ نہیں ہیں۔‘‘
ماسٹر خان کی ہنگامی ہدایات ان کی فکرمندی کو عیاں کررہی تھیں۔ وہ پانچوں کے باہر نکلتے ہی دوڑتے ہوئی دروازے تک آئے لیکن اتنی دیر میں پانچوں ہوا کے گھوڑے پر سوار آندھی کی طرح ثاقب کے گھر کی طرف نکل گئے۔
*۔۔۔*
کلفٹن سے بہادر آباد تک کا سفر انہوں نے بمشکل دس منٹ میں طے کر ڈالا اور اب ثاقب کے گھر سے پچاس قدم کے فاصلے پر شعیب چاروں کو ان کی پوزیشن سمجھا رہا تھا۔ جبکہ چاروں حملہ آور دروازہ توڑ کر گھر میں گھس چکے تھے۔
’’عمران تم گاڑی کے اندر موجود افراد کو کنٹرول کرو گے، ثاقب تم گھر کے عقبی حصے سے داخل ہو کر پوزیشن لو گے تاکہ اگر وہ واپس اندر بھاگے تو تم انہیں زیر کرو گے۔ وقاص تم شمال کی جانب اور زبیر تم جنوبی سمت میں پوزیشن لوگے اور ہاں شکار صرف سروں کا کھیلنا ہے کیونکہ باقی جسم یقیناًبلٹ پروف ہوگا اور باقی تم لوگ خود سمجھ دار ہو۔‘‘
شعیب کی مختصر سی بریفنگ کے فوراً بعد سب اپنی اپنی پوزیشن سنبھالنے لگے۔ عمران قریب کی گلی میں موٹر سائیکل کھڑی کرکے ٹہلتا ہوا بلیک ڈبل کیبن گاڑی کی طرف آیا اور معصوم سی شکل بنا کر ڈرائیونگ سیٹ پر موجود شخص سے پتہ پوچھنے لگا۔
’’سر گلی نمبر ۸ میں میرا دوست رہتا ہے کیا آپ۔۔۔‘‘
’’ارے او فنٹر! دماغ خراب نہ کرو۔ ہمیں کچھ نہیں پتہ پڑتا۔ اپنا راستہ ناپو ورنہ لگائے گا الٹا ہاتھ۔‘‘ ڈرائیور لہجے سے کوئی مکرانی معلوم ہوتا ہے اسی لیے عمران نے ہلکا ہاتھ رکھتے ہوئے پھرتی سے پسٹل کا پچھلا حصہ اس کے سر پر مار کر بے ہوش کر دیا ورنہ پہلے اس کا ارادہ کام پورا کرنے کا تھا۔ڈرائیور سیٹ سنبھال لی اور گاڑی کے شیشے اوپر چڑھا لیے۔
*۔۔۔*
دوسری طرف شعیب کی مدد سے ثاقب گھر کے عقبی حصے سے باآسانی گھر کی چھت پر پہنچ چکا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے شعیب بھی اس کو کور دینے کے لیے گھر کے اندر کود گیا۔
اب ثاقب سیڑھیوں کے ذریعے آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگا، جبکہ شعیب نے چھت سے وقاص اور زبیر کو الرٹ رہنے کا اشارہ کر دیا تھا۔
’’ہاں عمران! کیا رپورٹ ہے؟‘‘ شعیب نے خفیہ مائیکرو فون پر عمران سے رابطہ ہوتے ہی پوچھا۔
’’شعیب بھائی! ڈرائیور بے ہوش اور ڈرائیونگ سیٹ میرے نیچے ہے۔ عمران نے مختصراً رپورٹ دی۔
’’ویل ڈن۔۔۔ گاڑی اسٹارٹ رکھنا وہ جیسے ہی گاڑی کی طرف آئے گی گاڑی بھگا لینا ان انٹرنیشنل ڈاکوؤں کو بھگا بھگا کر ماریں گے۔‘‘
اس کے بعد شعیب، ثاقب سے رابطہ قائم کرنے لگا۔
’’ثاقب۔۔۔ نیچے کی کیا صورتحال ہے؟‘‘ شعیب تیزی سے بولا۔
’’یہ چاروں غیر ملکی ہیں جو توڑ پھوڑ اور تلاشی لینے کے بعد واپس باہر کی طرف جا رہے ہیں اور اس وقت میرے نشانے پر ہیں۔ میرے لیے کیا حکم ہے؟‘‘ ثاقب دروازے کے ’’کی ہول‘‘ سے انہیں انگریزی میں مغلظات بکتے ہوئے واپس جاتا دیکھ رہا تھا جن کی پشت پر بھی ’’XE‘‘ کے حروف واضح تھے ۔ ثاقب کو اپنا خواب یاد آگیا تھا۔
’’نہ نہ نہ! ابھی ان کو باہر نکلنے دو باہر ان کا استقبال ہوگا۔ جو بچ جائیں تو تم دو دو ہاتھ کر لینا۔‘‘
ابھی شعیب کی گفتگو جاری تھی کہ ایک حملہ آور دروازے سے باہر نکلا جسے دیکھتے ہی زبیر کی پسٹل سے ایک شعلہ کوندا اور گولی حملہ آور کے سر سے آرپار ہو گئی۔ اور وہ وہیں دیوار سے لپٹتا ہوا سڑک پر ڈھے گیا۔
دھماکے کی آواز سنتے ہی دوسرا شخص جو دروازے تک پہنچ چکا تھا اور ابھی صورتحال کو سمجھتے ہوئے پوزیشن لینے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ شمالی جانب تاک میں بیٹھا وقاص فائر کھول چکا تھا۔ اب کی مرتبہ گولی حملہ آور کی ناک کو پھاڑتے ہوئے باہر نکلی تھی۔ نشانہ ایسا زبردست تھا کہ وہ دوسری ہچکی بھی نہ لے سکا اور وہیں گر پڑا۔
اس اچانک اور غیر متوقع حملے نے پیچھے آنے والے دونوں حملہ آوروں کو بدحواس کر دیا تھا اسی بدحواسی میں ایک تو واپس اندر کی طرف بھاگا جسے ثاقب نے آڑے ہاتھوں لیا جس کا چھوٹا سا آٹو میٹک ریوالور حملہ آور کے ناپاک خون سے اپنی پرانی پیاس بجھا کر اب نالی سے دھواں چھوڑ رہا تھا۔
جبکہ چوتھا حملہ آور بدحواسی میں اندھا دھند فائرنگ کرتا ہوا باہر گاڑی کی طرف بھاگا جہاں عمران گاری اسٹارٹ کیے موجود تھا جیسے ہی اس نے گاڑی پر چڑھنے کی کوشش کی۔ عمران نے گاڑی ایک جھٹکے سے آگے بڑھا دی جس کے نتیجہ میں وہ منہ کے بل سڑک پر جا گرا اور ابھی وہ اس افراتفری میں خون آلود چہرے کے ساتھ اٹھنے کی کوشش کرہی رہا تھا کہ چھت پر پوزیشن سنبھالے شعیب نے آخری وار کرتے ہوئے اس کی کھوپڑی اڑا دی جس سے صاف ستھری سڑک پر اب بدنمائی کے کئی داغ بکھر گئے تھے۔
چاروں حملہ آوروں کو فارغ کرنے میں انہیں کل پندرہ منٹ لگے تھے اور اگلے پندرہ منٹ کے اندر وہ چاروں سر اڑی لاشوں کو گھسیٹ کر دوبارہ گاڑی میں ڈال کر اب وہ ڈرائیور کو ہوش میں لا رہے تھے۔
ڈرائیور کے ہوش میں آتے ہی شعیب بولا۔ ’’ اے مسٹر! تم جو کوئی بھی ہو صرف پاکستانی ہونے کی وجہ سے تمہیں چھوڑا جا رہا ہے ۔ پیچھے چار لاشیں پڑی ہیں انہیں اپنے باس کے پاس لے جاؤ اور اسے پیغام دے دینا کہ ہمارا ملک چھوڑ کر نکل جاؤ ورنہ یاد رکھنا ہم صرف سروں کا شکار کھیلتے ہیں۔‘‘
شعیب کا مختصر سا پیغام سنتے ہی وہ بے یقینی کی حالت میں سر ہلاتا ہوا گاری بھگاتا ہوا لے گیا جبکہ محلے والے گولیوں کی آواز سے خوفزدہ ہو کر گھروں میں دبکے بیٹھے تھے اور اب خاموشی ہونے کے بعد لوگ کھڑکیوں سے جھانک کر صورتحال کا جائزہ لے رہے تھے۔
’’یار حیرت ہے ہماری پولیس ابھی تک نہیں پہنچی۔‘‘ زبیر ہاتھ جھاڑتا ہوا بولا۔
’’ہماری جو ہے۔‘‘ وقاص نے بے محل شوشہ چھوڑا۔ تو شعیب نے اس کو آنکھ دکھائی۔
’’خیر! چلو اچھا ہے پولیس ابھی تک نہیں آئی۔ ہمارا یہاں ٹھہرنا زیادہ مناسب نہیں ورنہ تفتیش میں شامل ہونا پڑے گا لہٰذا ثاقب تم ایسا کرو کہ امتیاز راہی صاحب کو سمجھا دو کہ پولیس آئے تو کہہ دیجئے گا کہ دو نامعلوم گروہ آپس میں فائرنگ کررہے تھے اور اپنے ساتھ اپنے زخمی بھی اٹھا کر لے گئے ۔ پولیس حلیہ پوچھے تو حملہ آوروں کا حلیہ بتا دیجئے گا۔ ‘‘
امتیاز راہی صاحب کو سمجھانے کے بعد ثاقب نے جلدی سے اپنا کچھ ضروری سامان لے کر گھر کے دروازے کو تالا لگایا اور اب وہ پانچوں اپنی اپنی بائیک پر واپس ماسٹر خان کی طرف لوٹ رہے تھے۔
پانچوں کو صحیح سلامت دیکھتے ہی ماسٹر خان نے انہیں والہانہ انداز میں خوش آمدید کہا اور ان کی روداد سن کر وہ انہیں داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔
بہت خوب بھئی۔۔۔ بہت خوب!! بڑا زبردست مزا چکھا دیا تم لوگوں نے لیکن اب مزید محتاط رہ کر کاروائی کرنے کی ضرورت ہے۔
بالکل کیونکہ یہ عام لوگ نہیں بلکہ انتہائی خطرناک خفیہ ایجنسی کے لوگ ہیں جو پوری دنیا میں اپنے مقاصد کے لیے خطرناک حد تک کام کرتے ہیں۔۔۔
ماسٹر خان جوں جوں تفصیلات بتاتے جارہے تھے پانچوں کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی جا رہی تھیں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
یہ اسرائیل کی ایک خفیہ ایجنسی ہے جس کا صدر دفتر امریکہ میں ہے اور یہ بھاری رقم لے کر ہر قسم کے جائز ناجائز کام کر ڈالتی ہے البتہ اس دفعہ یہ تمام کام چھوڑ کر اسرائیل کے عظیم تر مفاد کے لیے کام کررہی ہے اور مختلف ممالک بالخصوص پاکستان میں اپنا جال پھیلا رہی ہے۔ان کے پاس بھاری اسلحے کے ساتھ ساتھ اپنے جہازاور ہیلی کاپٹرز بھی ہیں جن کو آزادانہ استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
’’ماسٹر ! یقین نہیں آرہا۔ یعنی ابھی ایک گھنٹہ قبل جن غیر ملکی چوہوں کو ہم نے مارا ہے وہ اتنی بڑی عالمی خفیہ ایجنسی کے لوگ تھے وہ تو بالکل ہی ناکارہ ثابت ہوئے۔‘‘
وقاص ابھی تک حیرانی کے گرداب سے باہر نہیں نکل سکا تھا۔
’’ بالکل یہ وہی لوگ تھے مگر مادّی طاقت اوراسلحے پر بھروسہ کرنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے جبکہ ہمارے ساتھ اﷲ کی طاقت اور ہیبت ہے۔‘‘
ماسٹر خان وقاص کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بولے۔ ’’سر! ان چاروں لاشوں کی تلاشی کے دوران کچھ کاغذات، نقشے، نقدی اور موبائل ہمارے ہاتھ لگتے تھے، نقدی اور موبائل تو ہم نے واپس رکھ دیئے البتہ کچھ کاغذات اور نقشے ہم ساتھ لے آئے ہیں۔‘‘
یہ کہتے ہوئے شعیب نے چند کاغذات اور نقشے جیب سے نکال کر میز پر رکھ دیئے
’’اوہ! ویری گڈ۔۔۔ یہ تو کمال ہو گیا بھئی۔ ذرا دیکھو تو ان کاغذات میں کیا درج ہے۔ میرے خیال میں ہمیں ان سے کافی معلومات مل سکتی ہیں۔‘‘ماسٹر خان خوش ہوتے ہوئے بولے۔
’’سر یہ نقشے تو عام سے معلوم ہوتے ہیں جن سے راستوں کا پتہ چلتا ہے اور کسی بھی غیر ملکی کے لیے یہ نقشے ضروری ہوتے ہیں البتہ ان کاغذات میں صرف آڑی ترچھی لکیریں اور کچھ دائرے بنے ہوئے ہیں، لکھا کچھ نہیں ہے یہ کچھ عجیب ہیں۔ ذرا دیکھیں تو۔۔۔‘‘
شعیب نے چند کاغذات ماسٹر خان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ہوں! تو یہ بات ہے اس کا بھی حل ہے میرے پاس۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ماسٹر خان اپنی کرسی سے اٹھے اور باہر نکل گئے اور تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی مشین تھی، اب وہ اس مشین کے نیچے سے آہستہ آہستہ کاغذ کو گزار کر کچھ پڑھنے کی کوشش کررہے تھے اور پانچوں لڑکے ان کے ماتھے پر ابھرنے والی پریشان کن شکنوں کو پڑھنے کی کوشش کررہے تھے جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ ضرور کوئی اہم بات درپیش ہے۔
’’سر آپ کے پاس تو بڑی زبردست ٹیکنالوجی ہے۔‘‘ زبیرآہستگی سے بولا تو ماسٹر خان بھی مسکرااٹھے۔
’’نہیں بھئی یہ کوئی خاص مشین نہیں بلکہ اب تو بہت عام ہے اور جعلی نوٹوں کو شناخت کرنے کے لیے بینک اور دیگر ادارے بھی اسے استعمال کرتے ہیں البتہ اہم بات یہ ہے کہ ان کاغذات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کے ہمارے شہر میں دو اور پورے ملک میں تقریباً سات دفاتر یا مراکز کھل چکے ہیں جہاں بھرتیاں بھی ہو رہی ہیں اور ان دفاتر کے پتے بھی ان دائروں میں تحریر ہیں۔‘‘
اس کے بعد باقی تمام ممبران سر جوڑ کر آئندہ کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔
*۔۔۔*
’’ کیا کہہ رہے ہو تم رابرٹ۔‘‘ خفیہ ایجنسی زی (XE)کا کمانڈر انچیف ڈیوڈ شیراک غصے سے دھاڑتے ہوئے بولا۔
’’یس سر! ہمارے چار بہترین کمانڈوز کو ایک آپریشن کے دوران بڑی بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے۔ ‘‘ڈیوڈ کے اسسٹنٹ رابرٹ نے ایک مرتبہ پھر اپنے جملے کو دہراتے ہوئے کہا۔
’’ لیکن وہ تو بلٹ پروف جیکٹس میں ہوں گے پھر ایسا کیونکر ہوا؟‘‘ کمانڈر انچیف ڈیوڈ شیراک بے یقینی کی کیفیت میں دوبارہ گرجا۔
’’سر آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر صرف سروں کا نشانہ لیا گیا ہے اور باقی جسم بالکل محفوظ رہے ہیں۔‘‘ رابرٹ کے جواب پر کمانڈر انچیف سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
’’اس کا مطلب ہے وہ کوئی عام لوگ نہیں بلکہ انتہائی تربیت یافتہ افراد ہیں اور ہمیں اس دفعہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوگا۔‘‘
’’ یس سر! واقعی وہ خطرناک لوگ ہیں کیونکہ صرف ہمارا ڈرائیور زندہ واپس آیا ہے اور اس کے بیان کے مطابق وہ چار پانچ کم عمر لڑکے تھے جنہوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ اپنے باس سے کہہ دینا کہ ہمارا ملک چھوڑ کر نکل جاؤ ورنہ یاد رکھنا ہم صرف سروں کا شکار کھیلتے ہیں۔‘‘
یہ الفاظ ادا کرتے وقت رابرٹ کے الفاظ بھی خوف سے لڑکھڑا رہے تھے۔
’’ شٹ اپ! فوراً میٹنگ بلاؤ اور ان لڑکوں کا کوئی حل تلاش کرو ورنہ یہ لڑکے ہمارا کام خراب کر ڈالیں گے۔‘‘ کمانڈر انچیف ڈیوڈ شیراک ، رابرٹ کو ہدایت دیتے ہوئے غصے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
*۔۔۔*
’’ سر مجھے ثاقب بھائی کی بات سے بالکل اتفاق ہے کہ اس سے پہلے کہ دشمن زخمی شیر کی طرح ہم پر حملہ کرے ہم ان کی کمر توڑ ڈالیں۔‘‘
عمران ثاقب کی بات کی تائید کرتے ہوئے گویا ہوا۔
’’ میں بھی ان دونوں کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں لیکن میرے خیال میں ہمیں ادھر ادھر اپنی قوت صرف کرنے کے بجائے دارالحکومت میں قائم ان کے مرکزی ہیڈ کوارٹر پر کارروائی ڈالنی چاہیے۔ اس طرح ہم کم وقت میں نہ صرف زیادہ فوائد سمیٹ سکیں گے بلکہ ان کے نیٹ ورک کو بھی توڑ سکیں گے۔‘‘
وقاص نے کافی معقول تجویز رکھی تھی۔
’’بہت خوب وقاص میاں! کافی دیر بعد تم نے کوئی کام کی بات کی ہے۔‘‘ ماسٹر خان مسکراتے ہوئے بولے۔ ان کو وقاص کی رائے کافی پسند آئی تھی۔
’’سر میں ہمیشہ کام کی بات کرتا ہوں مگر کوئی میری سنتا ہی نہیں سب سے چھوٹا جو ہوں۔‘‘ وقاص نے مصنوعی انداز میں منہ بناتے ہوئے کہا تو ماسٹر خان اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔
’’بیٹا! یاد رکھنا تاریخ میں اکثر چھوٹوں نے ہی بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں۔ محمد بن قاسمؒ نے سترہ سال کی عمر میں باب الاسلام سندھ کو فتح کرکے برصغیر میں اسلام کا دروازہ کھولا تھا اور سترہ سے بیس سال کی عمر کے دوران مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ جیسی عظیم معرکۃ الآراء کتاب لکھ کر یورپ والوں کے اعتراضات کا منہ توڑ جواب دیا تھا اور اِ ن شاء اﷲ اب تم لوگ بھی سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں ایک نئی تاریخ رقم کرکے دشمن کو یہ بتاؤ گے کہ ابھی مسلمان قوم کے بچے جاگ رہے ہیں جو اسلام کے پرچم کو کبھی سرنِگوں نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
’’اِن شاء اﷲ! سر ویسے آپ کی باتیں ہمارے لیے شربت فولاد کا کام کرتی ہیں ۔ آپ کی بات سن کر ہمارے جسموں میں آئرن ہی آئرن دوڑنے لگتا ہے۔‘‘ زبیر کے اس جملے سے محفل ایک مرتبہ پھر زعفران زار بن گئی اور سب مسکرانے لگے۔
*۔۔۔*
’’ مسٹر ایرک رولڈ! یہ تم نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے یعنی ہمارے بہترین کمانڈوز مروا ڈالے۔‘‘ خفیہ ایجنسی کا کمانڈر انچیف ڈیوڈ شیراک دارالحکومت میں ہونے والی ہنگامی میٹنگ شروع ہوتے ہی ایرک رولڈ پر برس پڑا جو ایجنسی کا مرکزی آپریشنل کمانڈر تھا۔
’’سر ہمیں اس ردّعمل کا قطعی اندازہ نہیں تھا۔ مجھے ابھی تک خود بھی یقین نہیں آرہا کہ ہمارے چار سپر کمانڈوز مارے گئے ہیں اور وہ بھی چند لڑکوں کے ہاتھوں۔‘‘ ایرک رولڈ کے جملے بدحواسی میں ادا ہو رہے تھے۔
’’وہاٹ! ایڈیٹ۔۔۔ احمق تم نے اپنے سپر کمانڈوز بغیر کسی منصوبہ بندی کے قتل کروا دیئے جانتے ہو یہ تنظیم کا کتنا بڑا نقصان ہے؟ ‘‘ سپر کمانڈوز کا سنتے ہی اب وہ باقاعدہ غصے میں دھاڑ رہا تھا۔
’’سر ہمیں یہ اسائنمنٹ اسرائیلی وزیر خارجہ کی طرف سے ملا تھا اور انہوں نے ان لڑکوں کو ختم کرنے کے پانچ لاکھ ڈالرز ادا کیے ہیں جبکہ ان کی ہدایات تھیں کہ لڑکے یہودیت کے لیے انتہائی خطرناک اور جارحانہ عزائم رکھتے ہیں لہٰذا ہم نے احتیاطاً اپنے سب سے بہترین افراد کا انتخاب کیا مگر اتفاق ہے کہ وہ سب ان کا نشانہ بن گئے۔‘‘
ایرک رولڈ اب کافی محتاط گفتگو کررہا تھا۔
’’سر ہمیں فوراً یہ اسائنمنٹ کینسل کر دینا چاہیے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ساتھ ڈبل گیم ہو رہا ہے اور مجھے۔۔۔‘‘
چٹاخ کی آواز آئی اور مشورہ دینے والا اپنا گال سہلانے لگا۔
’’بے وقوف! جانتے ہو ہماری تنظیم کی کیا حیثیت ہے۔ اسائنمنٹ واپس کرنے کا مقصد صرف ہماری ناکامی نہیں بلکہ ہماری موت ہے۔ اس طرح تو ہم اپنی ساکھ کھو بیٹھیں گے اور ہمارے سارے اسائنمنٹ کینسل ہوجائیں گے۔‘‘ڈیوڈ شیراک غصے میں پھنکارتے ہوئے بولا تو سب کا خون خشک ہو گیا۔ وہ مزید گرجتے ہوئے بولا۔
’’بہرحال کسی بھی طرح پانچوں کا سراغ لگا کر زندہ یا مردہ میرے پاس لے کر آؤ اور ہاں ن کی اس کارروائی کا فوری جواب دینا بھی ضروری ہے لہٰذا فوری طور پر کسی بھی بڑے شہر میں ایک بم دھماکہ کر دو دشمن عقلمند ہے ہمارا پیغام سمجھ لے گا۔
*۔۔۔*
’’ ٹھیک ہے سر۔۔۔ پھر یہ طے پایا کہ ہماری اگلی منزل دارالحکومت ہے، بقیہ پلاننگ ہم وہیں جا کر حالات کے مطابق طے کریں گے۔‘‘
شعیب نے گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا تو سب تائیدی انداز میں سر ہلاتے ہوئے اٹھنے لگے۔ اسی دوران ماسٹر خان کا موبائل بج اٹھا۔
’’ہیلو خان اسپیکنگ ! کیا ہوا شہریار خیریت تو ہے ناں۔‘‘
ماسٹر خان اپنے مخصوص بارعب انداز میں بولے اور موبائل کا اسپیکر آن کر دیا۔
’’نہیں سر ۔۔۔ خیریت بالکل نہیں ہے ۔ یہاں شہر کے بازار میں بم دھماکہ ہوا ہے اور سینکڑوں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ میرا بھائی بھی شہید ہو چکا ہے۔ سر کچھ کریں یہ یہودی ہمارے ملک کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں۔ سر آپ کی گوریلا فائٹرز کب حرکت میں آئے گی۔ سر خدا کے واسطے کچھ کیجئے۔‘‘بولنے والے کی آواز اب ہچکیوں میں بدل گئی تھی۔ لوگوں کی چیخ و پکار کی آوازوں سے لگ رہا تھا کہ وہ کسی ہسپتال سے بات کررہا ہے جہاں اور بھی کئی لاشیں موجود ہیں۔ماسٹر خان اور تمام ممبران کی آنکھوں میں آنسوؤں کے قطرے جھلملانے لگے۔
’’ شہریار حوصلہ رکھو! ہم بہت جلد کارروائی کرنے والے ہیں اور یاد رکھو گوریلا فائٹرز جاگ رہے ہیں۔ ہم یہاں ان کے چار ایجنٹ جہنم رسید کر چکے ہیں۔ شاید دشمن نے معصوم شہریوں پر اپنا غصہ اتارنے کی کوشش کی ہے جس کا مزہ ہم کچھ عرصے میں انہیں سکھا دیں گے۔۔۔ ان شاء اﷲ!!‘‘ ماسٹر خان کی آواز کا زیرو بم ان کے جذبات کی ترجمانی کر رہا تھا۔
’’سر کہاں ہوا ہے دھماکہ؟‘‘ شعیب نے ماسٹر خان کی گفتگو ختم ہوتے ہی سوال پوچھ ڈالا۔
’’شمال سرحدی صوبے کے ایک شہر رحمن آباد میں دھماکہ کیا گیا ہے۔ یہ دشمن تخریب کاری میں بہت تیز ہے۔ لگتا ہے ہماری آج کی کارروائی کا بدلہ لیا گیا ہے اور ہمیں چیلنج کیا گیا ہے۔ ہمیں کل صبح کی فلائٹ سے نکلنا ہو گا۔ تم لوگ فوراً جانے کی تیاری کرو۔ اس مہم میں میں بھی تمہارے ساتھ رہوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر ماسٹر خان فون پر کسی کو فلائٹ ریزرویشن کی ہدایات دینے لگے۔
*۔۔۔*
اگلے دن کی چمکیلی صبح کا سورج طلوع ہوا تو وہ دارالحکومت پہنچ چکے تھے۔ ماسٹر خان کے دو دوست ایئرپورٹ پر ان کے منتظر تھے اور اب وہ ماسٹر خان کے قریبی ساتھی خالد بلگرامی کے گھر پرتکلف ناشتہ کررہے تھے۔
ناشتے سے فارغ ہوتے ہی پانچوں نے ضروری ساز و سامان ساتھ لیا اور باہر نکل آئے۔ سب سے پہلے انہوں نے ایک کار کرائے پر حاصل کی اور ایک درمیانی درجے کے ہوٹل میں ایک کمرہ حاصل کرکے آئندہ کی پلاننگ کرنے لگے۔
وقاص اور ثاقب تم دونوں اپنی شکل اور بھیس بدل کر سیکٹر Zمیں واقع ان کے ہیڈ کوارٹر کی تفصیلی معلومات جمع کرکے آج شام تک رپورٹ کرو گے۔ جبکہ عمران اور زبیر تم دونوں کو ایک کرائے کا مکان حاصل کرنا ہے جو ان کے ہیڈ کوارٹر سے اتنا قریب ہو کہ ہم باآسانی ان کی نگرانی کرسکیں اور میں وقاص اور ثاقب کو کور دوں گا اور سارے عمل کی نگرانی کروں گا اور کوئی بات؟۔۔۔
شعیب نے پلاننگ سمجھانے کے بعد استفہامیہ انداز میں چاروں کی طرف دیکھا اور کوئی سوال نہ پا کر وہ پانچوں اٹھ کھڑے ہوئے۔
*۔۔۔*
شام ڈھلتے ہی وہ پانچوں ایک مرتبہ پھر زیب ہوٹل کے کمرہ نمبر ۱۸ میں بیٹھے دن بھر کی روداد سنا رہے تھے۔
’’ ہاں بھئی عمران پہلے تم بتاؤ کہ کیا پروگریس رہی؟‘‘ شعیب نے بے تابی سے پوچھا۔
’’ شعیب بھائی زیادہ قریب تو کوئی بھی مکان نہیں مل سکا کیونکہ ان کا ہیڈ کوارٹر جس جگہ واقع ہے وہ تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں کہ وہاں بہت کم مکانات ہیں البتہ کچھ فاصلے پر ایک مکان دیکھا ہے کل آپ چل کر دیکھ لیں اور مناسب سمجھیں تو فائنل کر دیں۔‘‘ عمران نے مختصراً رپورٹ پیش کی۔
’’اوکے ۔۔۔ اور ثاقب اور وقاص کی کیا رپورٹیں ہیں؟‘‘ شعیب نے دونوں کی طرف رخ کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ شعیب بھائی ! وہاں آبادی انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے ہمیں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور اہم بات یہ ہے کہ تین ہزار گز پر مشتمل ہیڈ کوارٹر کے اردگرد پھیلے ہوئے سیکیورٹی کے افراد زیادہ تر مقامی تھے۔‘‘ ثاقب کی گفتگو جاری تھی کہ شعیب نے بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔
’’ یہ بتاؤ کہ اندر کیسے پہنچا جا سکتا ہے۔‘‘
’’ شعیب بھائی بظاہر تو خون خرابے کے بغیر اندر پہنچا مشکل لگتا ہے لیکن ایک راستہ ممکن نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ دوپہر چار بجے ہیڈ کوارٹر کی عمارت سے غالباً صفائی کرنے والے تین لڑکے باہر نکلے تھے جن کا پیچھا کرکے ان کی رہائش گاہ معلوم ہو چکی ہے۔‘‘ وقاص اس مرتبہ بھی کافی اچھا آئیڈیا لایا تھا۔
’’ ہوں! تمہارا مطلب ہے کہ ہم ان تینوں یا ان میں سے ایک کو اغوا کرکے اس کے میک اپ میں اندر داخل ہو سکتے ہیں؟‘‘ شعیب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تو ثاقب بولا۔
’’ شعیب بھائی یہ بھی ممکن ہے کہ ہم ان تینوں کے ساتھ سودے بازی کرکے ان تینوں سے اپنا کام نکال لیں اس طرح ہم آسانی سے اپنا ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘
’’ یہ بھی ممکن ہے لیکن پھر بھی ان کے ساتھ ہم میں سے کسی کا اندر پہنچنا ضروری ہے تاکہ حالات کا جائزہ لے کر حکمت عملی تیار کی جا سکے ورنہ ہم اندھیرے میں ہی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے اور دشمن ہمارا مذاق بنا دے گا۔‘‘
شعیب نے دو رائے کے درمیان سے تیسری امکانی رائے پیش کرتے ہوئے کہا تو زبیر نے کہا۔
’’ شعیب بھائی پھر ہمیں دیر بالکل نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ہمارے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔‘‘
’’ تو پھر ٹھیک ہے۔ ہم آج ہی سے آپریشن کا آغاز کرتے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہی شعیب نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا اور سب باری باری اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے چلے گئے اس کے بعد پانچوں نے اﷲ سے مدد کی دعا مانگی اور آپریشن کی تیاریاں کرنے لگے۔
رات ہوتے ہی وقاص کی رہنمائی میں وہ سب مطلوبہ گھر کے باہر پہنچ چکے تھے ۔ پلاننگ کے مطابق وقاص اور عمران کو باہر نگرانی کرنی تھی جبکہ باقی تینوں کو اندر کے معاملات سنبھالنے تھے۔
دیوار پھلانگنے کے بجائے شعیب نے دروازے کے راستے داخل ہونا بہتر سمجھا اور دروازہ کھٹکھٹادیا۔ دروازہ کھلتے ہی وہ دھکا دیتے ہوئے آناً فاناً اندر داخل ہو گیا اور اس کے پیچھے پیچھے ثاقب اور زبیر نے بھی اندر داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا۔
’’ کک کک کون ہو تم اور کیا چاہتے ہو؟‘‘ دروازہ کھولنے والا لڑکا اس اچانک آفت پر بوکھلاہٹ میں بولا ۔ وہ شعیب کے ہاتھ میں ننھا سا ریوالور دیکھ چکا تھا۔
’’ ہم سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم کوئی چور ڈاکو نہیں بلکہ پُر امن لوگ ہیں اور آپ لوگوں سے تعاون چاہتے ہیں۔‘‘
ثاقب نے مزید دولڑکوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو تینوں کو ایک ساتھ مخاطب کرتے ہوئے کہا تو ان میں سے ایک جذباتی انداز میں بولا۔
’’ کس قسم کا تعاون چاہتے ہو تم لوگ اور یہ تعاون لینے کا کون سا طریقہ ہے؟‘‘
’’ خبردار! زیادہ اونچی آواز میں بات کرنے کی کوشش کی تو یاد رکھو ہمارے ہتھیار بالکل بے آواز ہیں اسی لیے زیادہ آواز پسند نہیں کرتے۔‘‘
زبیر نے غصے میں آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا تو وہ یکدم سہم کر پیچھے ہٹ گیا۔
ٹی وی لاؤنج میں پہنچتے ہی ثاقب ٹی وی بند کرنے کے لیے لپکا تو شعیب نے اسے روک دیا۔
’’چلنے دو اسے، ہم اس کے چلتے میں ہی آسانی سے اپنی گفتگو کرسکتے ہیں۔‘‘ ثاقب، شعیب کا اشارہ سمجھ کر واپس پلٹ گیا۔
’’ہاں تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ تینوں ہمارے بھائی ہیں اور دوسری بات یہ کہ نہ ہمیں آپ کی جان لینی ہے اور نہ مال، صرف چھوٹا سا تعاون درکار ہے۔‘‘ شعیب نے مختصراً اپنا مدعا پیش کیا۔
’’ کیسا تعاون؟‘‘ ان میں سے ایک نے اطمینان سے پوچھا جو پہلے کافی جذباتی ہو رہا تھا۔
’’تم تینوں کا کیا نام ہے اور تم تینوں کیا کام کرتے ہو؟‘‘ شعیب نے سوال پوچھنا شروع کر دیئے۔
ہم تینوں بھائی ہیں اور پنجاب کے رہنے والے ہیں۔ میرا نام جمال، یہ کلیم اور وہ سلیم ہے اور ہم ایک آفس میں صفائی کا کام کرتے ہیں۔‘‘ سب سے بڑے بھائی جمال نے جواب دیا۔
’’ جانتے بھی ہو کہ وہ آفس کس کا ہے اور کون لوگ اسے چلا رہے ہیں؟ ‘‘ شعیب نے دوسرا سوال پوچھا۔
’’ کیوں نہیں، وہ ایک سیکیورٹی کمپنی کا آفس ہے۔‘‘ کافی سادگی سے جواب دیا گیا تھا۔
’’ نہیں میرے بھائی نہیں، وہ کسی سیکورٹی کمپنی کا آفس نہیں بلکہ ہمارے ملک میں بدامنی پھیلانے والی اسرائیلی خفیہ ایجنسی زی کا ہیڈ کوارٹر ہے جس کا تم لوگوں کو علم ہی نہیں ہے۔‘‘ شعیب کے جملے ان تینوں کو چونکا دینے کے لیے کافی تھے۔
’’اوہ! مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ ہم یقین نہیں کر سکتے۔ آپ کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے؟‘‘ جمال حیرانی و پریشانی کی ملی جلی کیفیت میں بولا تو جواب میں شعیب نے کچھ ایسے ثبوت اور نشانات انہیں دکھائے جسے دیکھ کر وہ ششدر رہ گئے۔
’’ لیکن ہمیں یہ سب باتیں معلوم نہیں تھیں اور ہم لوگ ناواقفیت کی بنا پر نوکری کرتے رہے ہیں۔ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔‘‘ ان کا سب سے چھوٹا بھائی سلیم ثبوت دیکھ کر دہشت زدہ انداز میں روتے ہوئے بولا۔
’’مگر ہم نے کب کہا ہے کہ تم لوگ قصوروار ہو ہم تو تم لوگوں سے مدد مانگنے آئے ہیں اگر تم لوگ قصوروار ہوتے تو شاید اب تک ہم تمہیں موت کی نیند سلا چکے ہوتے۔‘‘
شعیب نے تینوں کو اطمینان دلاتے ہوئے کہا اور پھر بولا
’’ ہمیں ا ندر داخل ہونے کے لیے تم لوگوں کی مدد کی ضرورت ہے تاکہ ہم ان کو ان کے کیے کا مزہ چکھا سکیں۔ بولو کیا خیال ہے؟‘‘
ہم آپ لوگوں کے جذبات کی قدر کرتے ہیں اور آپ لوگوں کی شکل دیکھ کر ہی سمجھ گئے تھے کہ آپ لوگ چور ڈاکو ہر گز نہیں ہو سکتے اورمسئلہ کچھ اور ہی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ آپ لوگوں کا اندر داخل ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ ان کی سیکیورٹی انتہائی حساس ہے۔‘‘ جمال کے لہجے کی سچائی اس کی بات کی تصدیق کررہی تھی لیکن شعیب بھی ہار ماننے والا نہیں تھا وہ بولا۔
’’وجہ پوچھ سکتا ہوں؟‘‘
’’ اندر داخل ہوتے وقت نہ صرف ہمارا کارڈ چیک کیا جاتا ہے بلکہ دوسرے دروازے پر موجود اسکیننگ مشین پر ہمارے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے فنگر پرنٹ چیک کیے جاتے ہیں تب کہیں جا کر ہمیں داخلے کی اجازت ملتی ہے۔‘‘
جمال نے ساری حقیقت گوش گزار کرتے ہوئے کہا۔
’’ اوہ، تو یہ بات ہے۔ ٹھیک ہے ہم اس کا بھی توڑ کرنا جانتے ہیں اور ہمارا اندر داخل ہونا پھر بھی ناممکن نہیں البتہ ہم یہ ضرور چاہیں گے کہ تم لوگ فی الحال ہمارا ایک کام کر دو باقی معاملات ہم خود سنبھال لیں گے۔ میں تم کو ایک چھوٹی سی ’’مائیکروچپ‘‘ دوں گا۔ تم لوگوں کو کرنا یہ ہے کہ ان کے کانفرنس ہال کی ٹیبل کے نیچے اس کو چپکا دینا ہے اور بس۔۔۔بولو کیا کہتے ہو؟‘‘ شعیب نے استفہامیہ نظروں سے تینوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ ٹھیک ہے ہم یہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں مگر آپ لوگوں کے ڈر سے نہیں بلکہ اپنے ملک و ملت کی خاطر ہم یہ کام کریں گے اور ضرورت پڑی تو اور بھی بہت کچھ کر دکھائیں گے۔‘‘
جمال نے جذباتی انداز میں حامی بھرتے ہوئے کہا تو شعیب آگے بڑھ کر اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے بولا۔
’’ ہم تمہارے جذبات کی قدر کرتے ہیں جمال بھائی اور ہمیں امید ہے کہ تم یہ کام کر دکھاؤ گے اور اس ’’مائیکرو چپ‘‘ کو لگانے کے بعد تم لوگ بھی ہمارے ساتھ ان کی وہ تمام سازشی گفتگو سن سکو گے جو وہ ہمارے ملک کے خلاف کررہے ہیں اس طرح ہم ان کی سازشوں کا توڑ کرکے ان کا نیٹ ورک بھی تباہ کر سکیں گے۔‘‘
’’ ان شاء اﷲ! ‘‘ اس دفعہ ثاقب اور زبیر کی آواز کے ساتھ تینوں بھائیوں کی آواز بھی شامل تھی۔
*۔۔۔*
دوسرے دن انہوں نے جلدی جلدی کرائے کا مکان حاصل کرکے اپنا مختصر سا سامان وہاں منتقل کیا اور مائیکرو فون سیٹ کرنے لگے ۔ تھوڑی دیر بعد ہی لائن کلیئر ہو چکی تھی۔
’’چلو بھئی جلدی صفائی کرو کمانڈر انچیف آنے والے ہیں۔ آج بہت اہم میٹنگ بھی ہے۔‘‘
یہ پہلی آواز تھی جو مائیکرو فون سے برآمد ہوئی تھی اور جسے سن کر پانچوں کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑنے لگی اور واقعی تھوڑی دیر بعد ہی میٹنگ شروع ہو گئی جس کا مطلب تھا کہ جمال بھائی اپنا کام مکمل کر چکے ہیں۔
ویلڈن مسٹر ایرک رولڈ، ویلڈن ۔۔۔ شارٹ نوٹس پر تم نے رحمن آباد میں واقعی بڑا کامیاب دھماکہ کروایا ہے ویسے اسی، نوے افراد تو ضرور مارے گئے ہوں گے۔‘‘ کمانڈر انچیف ڈیوڈ شیراک کی مکروہ آواز سنائی دی۔
’’اسی نوے نہیں سر ،کل ایک سو آٹھ افراد مارے گئے ہیں اور اب ہم آپ کی اگلی ہدایات کے منتظر ہیں۔ آپریشنل کمانڈر ایرک رولڈ کی آواز آئی۔
اس کے بعد کمانڈر انچیف ڈیوڈشیراک کا مکروہ قہقہہ سنائی دیا اور اس کی اگلی ہدایات سنتے ہی پانچوں کو ایسا محسوس ہوا جیسے ان کے جسموں میں کسی نے ہزار والٹ کا کرنٹ چھوڑ دیا ہو۔ ان کے جسموں میں یکدم سنسنی سی دوڑ گئی اور پانچوں ہکا بکا ایک دوسرے کی شکل تکنے لگے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’ہوں،ں،ں،ں۔۔۔ بہت خوب! اس کا مطلب ہے ان پانچ چھوکروں تک ہمارا پیغام پہنچ چکا اور تم لوگوں کے پاس صرف تین دن ہیں ان تین دنوں میں تمہیں سب سے پہلے ان پانچوں کے گھروں کو ڈائنامائیٹ سے اڑانا ہے اور اس کے بعد اگلا مہینہ شروع ہوتے ہی روزانہ کسی ایک شہر میں پبلک مقام پر بم دھماکا کرکے اس ملک کے امن و امان کو بالکل تباہ کرکے رکھ دیناہے‘‘۔
ڈیوڈ شیرات کا سفاکانہ لہجہ اس کی اسلام دشمنی کی عکاسی کرتا تھا جسے سن کر پانچوں ہکا بکا ایک دوسرے کی شکلیں تکنے لگے۔
’’اوہ میرے خدا! مارے گئے یعنی ہمارے گھر بھی غیر محفوظ ہیں ہمیں فوراً ہی کچھ کرنا ہوگا۔ وقاص شیراک کی ہدایت سنتے ہی بوکھلاہٹ میں بولا۔
’’وقاص تمہارا دماغ درست ہے یہاں پر پورے ملک اور قوم کی سلامتی کا مسئلہ ہے اور تمہیں اپنے گھر۔۔۔‘‘ شعیب بولتے بولتے رک گیا کیوں کہ ڈیوڈ شیراک کی گفتگو دوبارہ شروع ہوچکی تھی اور اب موضوع بحث گوریلا فائٹرز کے ممبر تھے۔
’’ان پانچوں کی کیا رپورٹ ہے؟ کوئی گڈ نیوز؟‘‘
’’نہیں سر، وہ پانچوں اپنے اپنے گھروں پر تالا لگا کر کہیں روپوش ہوچکے ہیں لیکن آپ بالکل بے فکر رہیں، شہر کے ائیرپورٹ، ریلوے اسٹیشنز او ربس اسٹینڈ پر ہمارے ایجنٹ ان کی بو سونگھتے پھر رہے ہیں اور جیسے ہی وہ کراچی سے باہر نکلنے کی کوشش کریں گے اڑا دئیے جائیں گے‘‘۔
ایرک رولڈ کی گفتگو کے دوران اب پانچوں کے چہروں پر فاتحانہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
’’شاباش! یعنی ’’بچے بغل میں اور ڈھنڈورا کراچی شہر میں۔ واہ بھئی بہت خوب۔‘‘ زبیر نے برجستہ جملہ کستے ہوئے کہا تو سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔
ڈیوڈ شیراک میٹنگ ختم کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
’’اوکے! مسٹر رولڈ تم تلاش جاری رکھو۔ کل ہم اسی جگہ دوبارہ جمع ہوں گے اور تم آئندہ کا مکمل پروگرام اور تفصیلی پلاننگ پیش کرو گے۔‘‘
اس کے بعد کرسیاں گھومنے کی ہلکی سی آواز آئی اور میٹنگ ختم ہوتے ہی شعیب نے فوراً موبائل اٹھایا اور اب وہ ماسٹر خان کا نمبر ملا رہا تھا۔
*۔۔۔*
’’جی شعیب بیٹا! کیسے ہو تم لوگ اور کیا خبریں ہیں؟‘‘
ماسٹر خان شعیب کی آواز سنتے ہی زور سے بولے ۔ وہ اب تک خالد بلگرمی کے گھر پر ہی ٹھہرے ہوئے تھے۔
’’سر اطلاعات کچھ اچھی نہیں ہیں۔‘‘ اور پھر وہ مختصراً خفیہ الفاظ میں تفصیلات بتانے کے بعد بولا۔
’’سر ہم جو کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس کے لیے ہمیں آپ کو اجازت اور مدد درکار ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے! لیکن اس بات کا خیال رہے ہم دارلحکومت میں ہیں لہٰذا نقصان صرف دشمن کا ہو نہ کہ پاکستان کا، اور جہاں تک تعاون کا سوال ہے وہ اس کی نوعیت پر منحصر ہے۔ البتہ یہاں پر بھی ہمارے ساتھی ہر شعبہ میں موجود ہیں۔‘‘ ماسٹر خان اشارتاً سمجھاتے ہوئے بولے تو شعیب بولا۔
’’ شکریہ سر! ہم آپ کی بات سمجھ چکے ہیں۔ اب ہم بہت جلد دوبارہ آپ سے رابطہ کریں گے۔‘‘ شعیب نے خدا حافظ کہتے ہوئے بات ختم کی اور ثاقب، زبیر، عمران اور وقاص سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا جو نہایت انہماک سے اب تک کی گفتگو سن رہے تھے۔
’’ساتھیو! ہمارے پاس وقت بہت کم ہے یعنی صرف دو دن کیونکہ تیسرے دن وہ اپنے آپریشن کو حتمی شکل دیں گے جس کے نتیجے میں سب سے پہلے ہمارے گھر اڑیں گے اور پھر ہمارے ملک پاک کے شہر اور عوام لہٰذا ہمیں فوراً ہی حکمت عملی طے کرکے جوابی کاروائی کرنی ہوگی۔ بولو کیا کہتے ہو؟‘‘
اتنے پریشان کن حالات میں بھی شعیب کی گفتگو کا انداز اور ٹھہراؤ اس کے فہم و فراست کی دلیل تھی۔
’’ شعیب بھائی آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں لیکن میرے خیال میں ہمیں اپنی میٹنگ میں جمال، کلیم اور سلیم بھائی کو بھی شامل کرنا ہوگا تب ہی ہم بہتر حکمت عملی ترتیب دے سکیں گے۔‘‘
عمران نے شعیب کی تائید کے ساتھ اپنی رائے بھی پیش کرتے ہوئے کہا۔
’’عمران کی بات درست ہے لیکن اس کے لیے ہمیں کم از کم چاہے پانچ گھنٹے مزید انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ تینوں بھائی اس وقت ڈیوٹی پر ہیں لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ ان کے آنے سے پہلے ہم اپنی ابتدائی نشست کر لیں کہ ہمیں کرنا کیا ہے بعد میں تفصیلی حکمت عملی میں انہیں بھی شامل کر لیں گے۔‘‘
زبیر کی رائے کافی معقول تھی جسے سب نے قبول کیا اور آدھے گھنٹے بعد وہ پانچوں سر جوڑے ایک حساس حکمت عملی ترتیب دے رہے تھے جس میں کامیابی کی صورت میں وہ دشمن کی ساری منصوبہ بندی ناکام بنا کر انہیں بہت بڑا نقصان پہنچا سکتے تھے جب کہ ناکامی کی صورت میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو سکتے تھے۔ تین گھنٹے کی طویل نشست کے بعد وہ پانچوں اپنی خطرناک حکمت عملی تیار کرچکے تھے اور دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اب وہ ان تینوں بھائیوں کی آمد کا انتظار کررہے تھے۔
*۔۔۔*
’’سوہنی دھرتی اﷲ رکھے قدم قدم آباد، قدم قدم آباد تجھے۔‘‘
جیسے ہی موبائل سے ملی نغمے کی آواز گونجی ثاقب نے لپک کر اسے اٹھا لیا۔ دوسری طرف سے جمال بھائی کی آواز سنائی دی۔
’’السلام علیکم ! ثاقب بھائی میں جمال بات کررہا ہوں آج کی کیا صورتحال رہی ۔ کیا آپ لوگوں کا کام ہو گیا۔‘‘
’’وعلیکم السلام ! جمال بھائی آپ لوگوں نے تو واقعی بڑا زبردست کام کیا ہے ، اب ہم آپ لوگوں کا ہی انتظار کررہے ہیں آپ تینوں فوراً آجائیں کیونکہ آئندہ کا سارا پروگرام بھی آپ لوگوں کے مشورے سے ہوگا۔‘‘
ثاقب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تو جمال بھائی نے بھی جلد آنے کا کہہ کر سلسلہ منقطع کر دیا۔
پھر جیسے ہی وہ تینوں پہنچے سب سے پہلے انہیں دشمن کی میٹنگ میں ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ سنائی گئی جسے سن کر ان تینوں کے چہروں پر حیرت اور غصے کے ملے جلے جذبات واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے تھے۔ بالآخر ان کا چھوٹا بھائی سلیم چیخ اٹھا۔
’’ نہیں شعیب بھائی میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دوں گا میں بم باندھ کر ان کا پورا ہیڈ کوارٹر اڑا دوں گا میری جان پاکستان کے لیے حاضر ہے۔ ہم اپنی اسلامی ریاست کی خاطر سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
سلیم کے الفاظ اس کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کررہے تھے جسے سن کر شعیب ، سلیم کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
’’سلیم بھائی آپ کے جذبات ہر مسلمان اور محبت وطن پاکستانی کے جذبات ہیں لیکن جذبات کے ساتھ عقل کا استعمال بھی ضروری ہے ورنہ ہمارا دشمن ہمیں ہمارے جذبات کے ساتھ دفن کر ڈالے گا اور ہم اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے کیونکہ ہمارا دشمن کوئی عام دشمن نہیں بلکہ دنیا کی خطرناک خفیہ ایجنسیوں میں اس کا شمار ہوتا ہے اور ان کے پاس جو ٹیکنالوجی ہے وہ ہمارے پاس نہیں البتہ ہمارے پاس جو ہمارے رب کی نصرت ہے وہ ان کے پاس نہیں۔‘‘
’’اور اسی لیے ہم نے آپ لوگوں کو یہاں بلایا ہے تاکہ آئندہ کا پروگرام طے کرکے دشمن کے منصوبے کو خاک میں ملا سکیں۔‘‘
وقاص نے بھی سلیم کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو کلیم بولا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے آپ پروگرام طے کریں ہم آپ کی مدد کے لیے حاضر ہیں۔‘‘
کلیم کی بات مکمل ہوتے ہی شعیب نے مختصراً طے شدہ پلان پیش کرتے ہوئے کہا
’’تو پھر سنو! ہمارا آپریشن صرف دو دن کا ہو گا جس میں سب سے پہلے ہم آٹھ افراد دو حصوں میں بٹ جائیں گے یعنی دو افراد فوراً کراچی روانہ ہوں گے اور وہاں ان کے ناپاک منصوبے کو ناکام بنائیں گے جو ان شاء اﷲ زیادہ مشکل ثابت نہ ہوگا کیونکہ ان کے ٹائم بم اور ڈائنا میٹ وغیرہ کا توڑ کرنے کے لیے ہمارے پاس جیمرز موجود ہیں جو باآسانی بم وغیرہ کو ناکام کردیں گے جبکہ چھ افراد یہاں ہیڈ کوارٹر پر کاروائی ڈالیں گے۔‘‘
’’افراد کے نام بھی سامنے آجائیں تو صورتحال کافی واضح ہو جائے گی۔‘‘ جمال بھائی نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا تو زبیر بولا۔
’’ جمال بھائی دراصل بات یہ ہے کہ ہم پانچوں میں سے کوئی دو افراد آپ کے کسی ایک فرد کی رہنمائی میں اندر پہنچنے کی کوشش کریں گے تاکہ اندر کی صورتحال کا جائزہ لے کر اپنے مشن کو حتمی صورت دے سکیں۔‘‘
’’ لیکن آپ لوگ یہ بات بھول رہے ہیں کہ آپ لوگوں کا اندر پہنچنا ناممکن ہے کیونکہ ہیڈ کوارٹر کے اندر داخل ہونے سے پہلے۔۔۔‘‘
جمال بھائی کی بات ابھی جاری تھی کہ ثاقب بولا۔
’’ جی ہاں جمال بھائی ہمیں معلوم ہے کہ وہاں نہ صرف ڈیوٹی کارڈ چیک ہوں گے بلکہ بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے فنگ پرنٹ بھی اسکیننگ مشین پر چیک ہوں گے اور ا س کا توڑ بھی ہم جانتے ہیں۔‘‘
’’ کیا مطلب! آپ لوگ پھر بھی دروازے سے گزر کر اندر داخل ہو سکتے ہیں۔‘‘ اس مرتبہ سلیم حیرت سے بولا۔
’’ بالکل، ہم اس کی بھی منصوبہ بندی کرچکے ہیں جس کے مطابق شعیب اور ثاقب بھائی کی جسامت چونکہ کلیم اور سلیم بھائی کی طرح ہے لہٰذا یہ دو افراد کلیم اور سلیم بھائی کے میک اپ میں جمال بھائی کے ساتھ ہیڈ کوارٹر کے اندر داخل ہوں گے اور جہاں تک انگوٹھے کے پرنٹ کا معاملہ ہے اس کے لیے کلیم اور سلیم بھائی کے فنگر پرنٹ کی نقل ربر کی باریک جھلی یا شفاف کاغذ پر لے کر متبادل افراد کے انگوٹھوں پر چسپاں کردیں گے اس طرح اسکیننگ مشین کو دھوکا دینا کچھ مشکل نہ ہوگا۔‘‘
کمپیوٹر کا ماہر عمران جیسے جیسے تفصیل بتاتا جا رہا تھا تینوں بھائیوں کے چہرے مارے حیرت کے پھیلتے جا رہے تھے کیونکہ جس آسانی سے انہوں نے دشمن کا سیکیورٹی سسٹم توڑنے کا منصوبہ پیش کیا تھا انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے سامنے انسان نہیں کوئی ماورائی مخلوق بیٹھی ہو جس کے لیے یہ سب کچھ بائیں ہاتھ کا کھیل ہو۔
’’ آپ لوگ تو واقعی بڑے خطرناک ہیں اور جب تک آپ جیسے مسلمان بھائی اس دنیا میں موجود ہیں ان شاء اﷲ اسلام اور پاکستان کو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔‘‘
جمال بھائی کی آواز بات کرتے کرتے رندھ گئی تھی اور ان کی آنکھوں کی نمی صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
’’یقیناً! ہمیں بھی آپ جیسے بھائیوں کا ساتھ حاصل رہا تو اﷲ کی نصرت سے دشمنوں کے دانت کھٹے کرتے رہیں گے۔‘‘ وقاص بھی دائیں بائیں بیٹھے کلیم اور سلیم بھائی کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا تو سب ہی باآواز بلند ان شاء اﷲ کہہ اٹھے۔
’’ہاں تو پھر یہ طے پایا کہ وقاص اور زبیر آج رات ہی نئے نام اور شکل کے ساتھ کراچی پہنچیں گے اور کل سے کاروائی کا آغاز کریں گے اور یہاں پر جمال بھائی کے ساتھ میں اور ثاقب کل ہیڈ کوارٹر کے اندر گھس کر جائزہ لیں گے جس کے بعد دوسرے دن ہم ممکنہ کاروائی کرتے ہوئے اگلے دن ہیڈ کوارٹر اڑا دیں گے جبکہ آپریشن کے دوران کلیم، سلیم اور عمران ہیڈ کوارٹر کے آس پاس رہتے ہوئے ہمیں کور دیں گے تاکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں امداد حاصل کی جا سکے۔ اوکے۔‘‘
شعیب نے گفتگو سمیٹتے ہوئے بات ختم کی اور کوئی سوال نہ پا کر بولا۔
’’ اب ہم سب سے پہلے ماسٹر خان کے اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے ذریعے حساس اداروں کا ممکنہ تعاون حاصل کریں گے یعنی فنگر پرنٹس کے لیے ہائی اسکیننگ مشین تاکہ صحیح فنگر پرنٹس حاصل ہو ں اور اس کی بہترین ڈمی تیار ہو سکے ۔ دوسرا ہمیں اعلیٰ معیار کا میک اپ کا سامان کچھ اضافی اسلحہ، آج کی فلائٹ سے کراچی کی دو سیٹیں اور کراچی میں پانچ جیمرز درکار ہوں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے شعیب نے فوراً ماسٹر خان سے رابطہ قائم کرتے ہوئے مطلوبہ سامان اور ماہرین کا تقاضہ کیا جس کے لیے ماسٹر خان نے ایک گھنٹے کا وقت مانگا اور رات دس بجے تک انہیں تقریباً تمام ہی اشیاء مل چکی تھیں۔
وقاص اور زبیر کا حلیہ تبدیل کرکے انہیں کراچی روانہ کرنے کے بعد رات دو بجے تک وہ سلیم اور سلیم کے انگوٹھوں کے فنگر پرنٹس کی کاپی تیار کرتے رہے اور کامیابی حاصل ہوتے ہی سونے کے لیے چلے گئے۔ صبح فجر کی نماز کے بعد عمران نے کلیم اور سلیم کو سامنے بٹھا کر شعیب اور ثاقب کا ایسا میک اپ کیا کہ تین گھنٹے بعد گھر میں دو کلیم اور دو سلیم گھوم رہے تھے۔ اس کے بعد شعیب نے کلیم کے اور ثاقب نے سلیم کے انگوٹھوں کے فنگر پرنٹس اپنے بائیں انگوٹھے پر چسپاں کیے اور صبح ٹھیک ساڑھے نو بجے وہ ڈیوٹی پر جانے کے لیے تیار تھے۔ دوسری طرف عمران، کلیم اور سلیم بھی اپنے چہرے اور حلیے تبدیل کرکے تیار ہو چکے تھے۔
*۔۔۔*
’’اوئے آج تو تم تینوں بڑے چمک رہے ہو کون سے صابن سے منہ دھویا ہے بھئی۔‘‘ یہ پہلا جملہ تھا جو گیٹ پر بیٹھے ہوئے سیکیورٹی گارڈ نے ڈیوٹی کارڈ چیک کرتے ہوئے کہا تو شعیب ایک لمحے کے لیے گڑبڑا گیا لیکن ثاقب پرسکون تھا۔
’’ صابن تو وہی پرانا والا ہے البتہ لگتا ہے تم نے اپنے چشمے کو کئی دن بعد صاف کیا ہے اسی لیے ہر چیز صاف اور اجلی نظر آرہی ہے۔‘‘
جمال بھائی نے گارڈ کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا اور تینوں ہنستے ہوئے اندر داخل ہوگئے۔
اگلا مرحلہ بہت حساس تھا۔ جمال بھائی نے اسکنیر پر بائیں ہاتھ کا انگوٹھا رکھا اور سبز رنگ کی بتی جلنے پر اندر داخل ہو گئے اس کے بعد شعیب نے اپنے بائیں ہاتھ کا انگوٹھا اسکیننگ مشین پر رکھا مگر کوئی جواب نہیں آیا تو شعیب نے گھبرا کر انگوٹھے کا دباؤ بڑھا دیا مگر جب اس مرتبہ بھی اسکینر کی سبز بتی نے جلنے سے انکار کیا تو شعیب اپنا دایاں ہاتھ لباس کے خفیہ حصے میں چھپے ننے سے ریوالور کی طرف بڑھانے لگا کیونکہ اسے اپنی پلاننگ فیل ہوتی دکھائی دے رہی تھی اور بتی کے نہ جلنے پر سیکیورٹی گارڈ اب تیزی سے ان کی طرف آرہا تھا۔ جس کا مطلب صرف موت تھا۔
لیکن اسی لمحے شعیب کے پیچھے کھڑے ثاقب نے شعیب کا اسلحے کی طرف بڑھتا ہوا ہاتھ پکڑ لیا اور آہستگی سے بولا ’’ میری چھٹی حس کہتی ہے کچھ نہیں ہوگا ، اطمینان رکھو مسئلہ کچھ اور ہے۔‘‘
ثاقب کی بات سنتے ہی شعیب کسی حد تک پرسکون ہو گیا اسی دوران گارڈ ان کے قریب آیا اور بولا۔
’’ صبر کرو لائٹ چلی گئی ہے ابھی جنریٹر چلے گا تو مشین کام شروع کرے گی۔‘‘
گارڈ کی بات سنتے ہی شعیب کی گھبراہٹ کم ہو گئی اور پھر جیسے ہی جنریٹر نے کام شروع کیا اسکینر پر سبز رنگ کی بتی نمایاں ہو گئی اور وہ دونوں بھی باری باری اندر ہو گئے۔
*۔۔۔*
اندر پہنچ کر انہیں اندازہ ہوا کہ باہر کے مقابلے میں وہاں کوئی خاص سیکیورٹی کااہتمام نہیں ہے اور صفائی کرنے کی وجہ سے انہیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت تھی۔ وہ جہاں سے بھی جھاڑو کپڑا لے کر گزرتے گارڈز فوراً دروازہ کھول دیتے اس طرح انہوں نے جمال بھائی کی رہنمائی میں نہ صرف ساری جگہیں اچھی طرح دیکھیں بلکہ مختلف حساس مقامات کی خفیہ کیمرے کی مدد سے تصاویر بھی اتار لیں۔
سب سے آخر میں وہ تہہ خانے میں واقع اسلحے کے گودام میں صفائی کرنے گئے تو انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا کیونکہ وہاں پر جدید ریوالور ، کلاشنکوف جیسے دوسرے ہتھیاروں کے علاوہ گولا بارود کا بھی کافی ذخیرہ موجود تھا جس کا مطلب تھا کہ مستقبل میں وہ اس سے بھی بڑے پیمانے پر تباہی مچانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ وہاں پر کچھ مخصوص مقامات کو ذہن میں بٹھانے کے بعد وہ سب شام کو واپس گھر پہنچ چکے تھے۔ سارا کام بخیر و خوبی ہو چکا تھا اور اب صرف اگلے دن کا انتظار تھا۔
اسی اثناء میں زبیر کا فون آگیا ۔ اس نے بتایا کہ ہم نہ صرف خیریت سے پہنچ گئے ہیں بلکہ مطلوبہ تعداد میں جیمرز بھی ہم تک پہنچ چکے ہیں اور ان شاء اﷲ آج ہی راتوں رات ہم پانچوں گھروں میں جیمرز نصب کردیں گے ۔ پھر شعیب نے بھی مختصراً رپورٹ پیش کرتے ہوئے اپنی جزوی کامیابی کے بارے میں بتایا تو زبیر بھی ان کو مبارکباد دینے لگا۔
*۔۔۔*
’’ سر اگلے مہینے کی پہلی تاریخ سے دھماکوں کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا جس کی تفصیل و ترتیب کچھ اس طرح ہے کہ ان دھماکوں کا آغاز شمال سرحدی صوبے کے شہر جکھرنڈ سے کیا جائے گا وہاں تین من وزنی بارودی مواد کار کے ذریعے گھنٹہ گھر چوک کے مصروف بازار میں رکھا جائے گا اور عین رش کے موقع پر ٹھیک تین بجے پورا بازار آگ اور خون سے نہلا دیا جائے گا۔
اس کے بعد دوسرا دھماکہ اگلے دن سلطان گڑھ میں، تیسرا دھماکہ ساہیکال میں، چوتھا دھماکہ دارالحکومت میں اور پانچواں دھماکہ جھنڈوکوٹ کے مینابازار میں کیا جائے اس طرح دھماکوں کا ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کے ذریعے ہم ملک کی معاشی، سیاسی حالات خراب کرکے اپنے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔‘‘
شعیب ، ثاقب، عمران اور تینوں بھائی دن میں ہونے والی میٹنگ کی ریکارڈنگ سن رہے تھے جو ان کی غیر موجودگی میں خودکار طریقے سے ریکارڈ ہوچکی تھی۔ جس میں ایرک رولڈ، ڈیوڈ شیراک کو اپنی تیار کی گئی منصوبہ بندی کی رپورٹ پیش کرکے داد و تحسین حاصل کر رہا تھا۔
’’اور ان پانچ چھوکروں کے گھروں کو اڑانے کا سلسلہ کہاں تک پہنچا۔‘‘ ڈیوڈ شیراک ان پانچوں سے ابھی تک سخت بھنایا ہوا تھا۔
’’سر ان پانچوں کے رہائشی مکانات کی معلومات ایجنٹس کو فراہم کر دی گئی ہیں اور پرسوں تک ان تمام گھروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔‘‘ ایرک، رولڈ نے نہایت ادب سے جواب دیتے ہوئے کہا اور اس کے بعد میٹنگ برخواست ہو گئی۔
*۔۔۔*
اگلی صبح شعیب اور ثاقب نے اپنی مخصوص جوتوں کے تلے میں چھوٹا ٹائم بم انتہائی مہارت سے چھپایا اور لباس کے خفیہ گوشوں میں احتیاطاً ہلکے پھلکے ہتھیار رکھے اور اب وہ ایک مرتبہ پھر ہیڈ کوارٹر کے اندر موجود تھے۔
ہیڈ کوارٹر کے اندر صفائی کرتے ہوئے انہوں نے دو ٹائم بم اسلحے کے گودام میں کمال ہوشیاری سے چھپا دیئے جبکہ ایک ریکارڈ شدہ پیغام ان کے دفتر میں چھوڑ کر شام تک باہر نکل آئے۔
شام چھ بجے گھر پہنچتے ہی انہوں نے جلدی جلدی اپنا مختصر سامان باندھا اور ٹیکسی پکڑ کر ماسٹر خان سے ملنے خالد بلگرامی کے گھر کی طرف چل دیئے ۔ ابھی وہ راستے ہی میں تھے کہ انہوں نے ایک زوردار دھماکے کی آواز سنی اور اس کے بعد آگ کا ایک گولہ آسمان کی طرف اٹھتا دیکھا اور پھر مسلسل دھماکے ہوتے چلے گئے۔ دارالحکومت کا سیکٹر Zدھماکوں سے گونج رہا تھا۔ گوریلا فائٹرز کے جانبازوں نے ارض پاک کے دشمنوں کو ایک مرتبہ پھر نیچا دکھا دیا تھا اور چھوٹے سے ٹائم بم نے اسلحہ بارود سے بھرے گودام کو تباہ کرکے دشمن کے غرور کو خاک میں ملاتے ہوئے ننھے مجاہدوں کے حوصلوں کو بلند کر دیا تھا۔ دھماکے کی آواز سنتے ہی شعیب نے زور سے الحمد اﷲ کہا اور اپنا سر پیچھے کی طرف ٹیکسی کی سیٹ سے ٹکا دیا۔
*۔۔۔*
’’مسٹر رابرٹ تم ابھی تک گئے نہیں، خیریت تو ہے۔‘‘
کمانڈر انچیف ڈیوڈ شیراک اپنا بریف کیس اٹھا کر آفس سے باہر نکلنے لگا تو مسٹر رابرٹ کو مخاطب کرتے ہوئے بولا جو ابھی تک کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔
’’یس باس! وہ دراصل آپریشنل کمانڈر سر ایرک رولڈ بھی ابھی تک آپ کے دیے ہوئے اسائنمنٹ پر مصروف ہیں وہ جیسے ہی فارغ ہوں گے میں بھی چھٹی کروں گا‘‘۔
’’اوکے مسٹر رابرٹ سی یو ٹو مارو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ڈیوڈ شیراک باہر نکل گیا لیکن اس کے الفاظ ’’ٹومارو‘‘ نے واقعی ان دونوں کو مار ڈالا کیوں کہ جیسے ہی ڈیوڈ شیراک اپنی گاڑی میں بیٹھ کر مرکزی دروازے تک پہنچا اچانک اس کے پیچھے زور دار دھماکے کی آواز آئی جس سے اس کی کار کے پیچھے شیشے ٹوٹ کر سیٹ پر بکھر گئے۔
’’اوہ مائی گاڈ!‘‘ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا وہ ابھی نقصان کا اندازہ کرنے کے لیے گاڑی واپس موڑ نے کا سوچ ہی رہا تھا کہ مزید دھماکے شروع ہوگئے اس مرتبہ لوہے کا ایک ٹکڑا کار کی چھت پھاڑتے ہوئے اس کے کندھے سے ٹکرا کر اس کو زخمی کرگیا تھا، تکلیف کی شدت سے ایک سسکی اس کے منہ سے نکلی اور وہ دھماکوں کے شور میں گاڑی کے ایکسیلیٹر پر دباؤ بڑھاتے ہوئے بھاگ نکلا۔
’’دارالحکومت دھماکوں سے لرز اٹھا۔ اب سے کوئی آدھا گھنٹہ قبل چھ بج کر بیس منٹ پر دارالحکومت کے سیکٹر Z میں اس وقت افراتفری مچ گئی جب ایک عمارت اچانک دھماکے سے لرز اٹھی اور پے در پے دھماکے شروع ہوگئے جن کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ تفصیلات جاننے کے لیے ہم اپنے نمائندے حسن سلیم سے بات کریں گے‘‘۔
’’جی حسن! اس وقت دھماکوں کی کیا صورتحال ہے؟‘‘
’’کامران بھائی میں اس وقت اس عمارت کے قریب موجود ہوں آدھے گھنٹے سے جاری دھماکوں میں کافی کمی آچکی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس عمارت کے اندر کوئی غیر قانونی اسلحہ فیکٹر ی آتش بازی کا سامان بنانے کا کارخانہ تھا جو کسی غفلت کی بناء پر تباہ ہوگیا ہے اور پولیس کی بھاری نفری اس علاقے کو گھیر چکی ہے اور چند گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں جبکہ ہلاکتوں کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ لوگوں کے رہائشی مکانات چوں کہ کافی فاصلے پر ہیں لہٰذا علاقے کے مکین محفوظ ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ مرکز میں اس قسم کے غیر قانونی کام کے پیچھے کن لوگوں کا ہاتھ ہے‘‘۔
’’ٹرن ن ن ن ن ۔۔۔‘‘ دروازے کی اطلاعی گھنٹی پر خالد بلگرامی اور مسٹر خان اچانک چونک اٹھے جو ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی خصوصی بلیٹن سن رہے تھے۔
’’سر آپ کے طالبعلم آگئے ہیں‘‘۔ خالد بلگرامی کے ملازم نے آکر ماسٹر خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جو اب تک یہی سمجھ رہا تھا کہ ماسٹر خان اپنے طلباء کے ساتھ اسلام آباد کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔
’’ہاں انہیں یہیں لے آؤ‘‘۔ ماسٹر خان کی بے چینی ان کے لہجے سے عیاں تھی اور پھر جیسے ہی شعیب، ثاقب اور عمران تینوں بھائیوں کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوئے تو ماسٹر خان اور بلگرامی ان کے استقبال کے لیے آگے بڑھے لیکن ان کی شکلیں دیکھ کر ٹھٹک گئے کیوں کہ دروازے پر عمران اور جمال کے ساتھ چار ہم شکل افراد بھی تھے۔
’’جناب ہمارے ساتھ ہمارے تین دوست سلیم، کلیم اور جمال بھائی بھی ہیں اور شعیب اور ثاقب اس وقت میک اپ میں ہیں‘‘۔ عمران نے فوراً ہی معمہ حل کردیا۔
سلام دعا کے بعد ماسٹر خان اپنے شاہین بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے۔ ’’لگتا ہے یہ تم ہی لوگوں کا کارنامہ ہے‘‘۔
’’جی سر! کام تو ان کا ہم تمام کرکے آئے ہیں لیکن کیا اتنی جلدی ٹی وی پر تفصیلات بھی آچکی ہیں‘‘۔ شعیب ٹی وی ریموٹ کو ہاتھ میں لے کر چینل تبدیل کرتے ہوئے بولا وہ تفصیلات جاننے کے لیے بے چین تھا اور اب کوئی دوسرے نیوز چینل کا نمائندہ تفصیلات بتارہا تھا۔
’’فائر بریگیڈ کا عملہ آگ پر قابو پاچکا ہے اور عمارت کے اندر سے ہلاک ہونے والوں کی آٹھ لاشیں نکالی جاچکی ہیں جن میں سے تین غیر ملکی افراد بھی بتائے جارہے ہیں‘‘۔
’’اوہ زبردست! یہ تو ایرک رولڈ اور مسٹر رابرٹ ہیں‘‘۔
ٹی وی پر ہلاک شدگان کی ویڈیو دیکھتے ہی جمال بھائی چیخ اٹھے، وہ مسخ شدہ لاشوں میں بھی دشمن کو پہچان گئے تھے۔
’’یعنی اس کا مطلب ہے کہ ان کا کمانڈر انچیف ڈیوڈ شیراک جان بچا کر بھاگ نکلا ہے‘‘۔ شعیب نے افسوس کے ساتھ ہاتھ ملتے ہوئے کہا تو عمران بولا۔ ’’شعیب بھائی اس میں افسوس کی بات نہیں۔ ڈیوڈ شیراک آخر بھاگ کر کہاں جائے گا اور ویسے بھی ایرک رولڈ اور رابرٹ کو اڑا کر ہم مسٹر شیراک کے دونوں بازو کاٹ چکے ہیں‘‘۔
خبریں مسلسل جاری تھیں اور اب دیگر، نقصانات کی تفصیلات آرہی تھیں۔
’’یقیناًیہ کوئی چھوٹا موٹا نقصان نہیں ہے لیکن ایک بات یاد رہے کہ زخمی شیر زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے‘‘۔
ثاقب کا اشارہ آئندہ آنے والے خطرات کی طرف تھا جس کی ابھی تک کوئی واضح پلاننگ طے نہیں تھی اسی دوران عمران بولا۔
’’زخمی شیر نہیں زخمی گیڈر کہنا زیادہ مناسب ہے اور میرے خیال میں وہ ابھی کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
’’تم لوگ آپس میں ہی باتیں کرتے رہو گے یا کہ تفصیلات بھی بتاؤ گے اور یہ وقاص اور زبیر کہاں ہیں؟‘‘
بات کرتے کرتے ماسٹر خان کو اچانک وقاص اور زبیر کا خیال آگیا۔
سر آپ بھول رہے ہیں کہ ہم نے آپ سے کراچی کی دوٹکٹیں بھی وصول کی تھیں جن پر وہ دونوں کراچی پہنچ چکے ہیں اور یقیناًاب تک پانچوں جیمرز نصب کرکے دشمن کے بموں کو ناکارہ کرچکے ہوں گے اور ہماری کامیابی کی رپورٹ تو آپ میڈیا کے ذریعے جان ہی چکے ہیں البتہ اہم بات یہ ہے کہ ان تینوں بھائیوں کے تعاون کے ذریعے ہی یہ کارروائی ممکن ہوئی ہے کیوں کہ یہ تینوں بھائی اسی اسلام دشمن خفیہ ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر میں ملازم تھے اور اب ان شاء اللہ ہم مل کر ان کے اگلے پروگرام کو ناکام بنائیں گے، اور پھر شعیب ان کو عنقریب پانچ مختلف شہروں میں ہونے والے دھماکوں کی تفصیلات بتانے لگا۔
’’کیا میں آپ کی گفتگو میں شامل ہوسکتا ہوں‘‘۔
خالد بلگرامی جو کافی دیر سے تمام باتیں سن رہے تھے پہلی مرتبہ گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بولے۔
’’جناب آپ تو ہمارے بزرگ اور میزبان ہیں، بھلا آپ کو اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے‘‘۔
ثاقب نے مسکراتے ہوئے کہا تو خالد بلگرامی کہنے لگے۔
’’میرے بچو!‘‘ آپ نے جو کام کیا ہے یقیناًوہ آپ سب کی اسلام پسندی اور وطن دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن آپ لوگ کب تک ان کی کارروائیوں کا توڑ کرتے رہو گے بالآخر تھک جاؤ گے میرے خیال میں یہ اس کا مکمل حل نہیں ہے‘‘۔
تمام افراد نہایت انہماک سے خالد بلگرامی کی گفتگو سن رہے تھے اور انہیں یوں دیکھ رہے تھے جیسے پوچھ رہے ہوں کہ مکمل حل کیا ہے؟
خالد بلگرامی ذرا توقف کے بعد بولے۔
’’میرے خیال میں ہمیں اس کا اصل سرا تلاش کرنا چاہیے یعنی ماسٹر پلان‘‘۔
’’ان کا مطلب ہے کہ ہمیں دیر پا حل کے لیے پورا منصوبہ اور اس کی جزئیات تلاش کرکے پھر کارروائی کرنی چاہیے تاکہ مسئلہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے‘‘۔
ماسٹر خان، خالد صاحب کی بات کی وضاحت کرتے ہوئے بولے۔
’’لیکن سوال یہ ہے کہ ماسٹر پلان تک کیسے پہنچا جائے یقیناًوہ یہاں نہیں ہوگا بلکہ امریکا یا اسرائیل کے کسی سازشی ادارے کی عمارت کے کسی گوشے میں انتہائی محفوظ ہاتھوں میں ہوگا‘‘
عمران کا سوال حقیقت پر مبنی تھا۔
’’مشکل سہی مگر اس کا حل یہی ہے ہمیں آغاز تو کرنا ہوگا‘‘ خالد بلگرامی کی بات کافی معقول تھی۔
’’لیکن آغاز کہاں سے کیا جائے؟‘‘ شعیب کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
’’ڈیوڈ شیراک سے‘‘۔ کلیم بے ساختہ بولا تو سارے لوگ اس کی طرف یوں متوجہ ہوئے جیسے اس نے پہلی مرتبہ عقلمندی کی بات کی ہے۔
’’کیا مطلب؟‘‘ ماسٹر خان کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولے تو جمال بھائی بولے۔
’’کلیم کا مطلب ہے کہ ڈیوڈ شیراک یقیناًخفیہ ایجنسی کا خاص بندہ ہے تب ہی تو اسے دو ماہ قبل امریکا سے پاکستان منتقل کیا گیا ہے اور وہ لازماً اس منصوبے کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوگا کہ ماسٹر پلان کیا ہے اور اس کی تفصیلات کہاں سے مل سکتی ہیں‘‘۔
’’اوہ! بہت خوب کلیم بھائی۔ آپ نے تو واقعی ہمیں پہلا سرا پکڑا دیا اور اب ان شاء اللہ ہم آخری سرے تک بھی پہنچ ہی جائیں گے‘‘۔
عمران کا عزم اور خوشی قابل دید تھی۔
’’ویسے آپ کے خیال میں ڈیوڈ شیراک کہاں بھاگا ہوگا؟‘‘ ثاقب نے جمال بھائی کی طرف رخ کرتے ہوئے پوچھا۔
’’مجھے یقین ہے کہ وہ سفارتی کالونی میں واقع اپنے گھر کی طرف ہی بھاگا ہوگا اس کے علاوہ وہ کہیں نہیں جاسکتا اور میرے خیال میں اس وقت وہاں پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں کیوں کہ آپ دونوں تو پہلے ہی میک اپ میں ہیں۔ ڈیوٹی کارڈ دکھا کر نہ صرف کالونی میں گھس سکتے ہیں بلکہ گھر میں بھی داخل ہوسکتے ہیں‘‘۔
جمال بھائی ایک لمحہ بھی ضائع کرنا نہیں چاہ رہے تھے۔
’’لو بھئی پھر تو سارا مسئلہ ہی آسان ہوگیا اس سے پہلے کہ ڈیوڈ شیراک کہیں اور فرار ہو ہمیں فوراً اسے گھیر لینا چاہیے‘‘۔
شعیب کو فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگی اور شعیب کے کھڑے ہوتے ہی ثاقب، عمران اور تینوں بھائی بھی کھڑے ہوگئے۔
’’آپ کی رہنمائی کا بہت بہت شکریہ خالد صاحب‘‘۔
شعیب نے خالد صاحب کا گرمجوشی سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تو جواب میں خالد بلگرامی اور ماسٹر خان مسکرا اٹھے اور دعائیں دیتے ہوئے بولے۔
’’اللہ تمہیں کامیابی سے ہمکنار کرے‘‘ اور سب زور سے آمین کہہ اٹھے۔
’’ماسٹر! ابھی تو ہم الگ الگ گاڑیوں میں یہاں تک پہنچیں ہیں لیکن اب ہمارا ہم شکل گھومنا ہمیں مصیبت میں گرفتار کرسکتا ہے لہٰذا کلیم اور سلیم آپ کے پاس رہیں گے جبکہ ہم تینوں جمال بھائی کی رہنمائی میں ڈیوڈ شیراک کو قابو کرکے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے‘‘۔
یہ کہتے ہوئے شعیب نے ساتھیوں کو کچھ ضروری چیزیں ساتھ رکھنے کی ہدایات دیں اور باہر نکل آئے اب ان کی گاڑی کا رخ سفارتی کالونی کی طرف تھا۔
*۔۔۔۔۔۔*
راستے میں جگہ جگہ ناکے لگے ہوئے تھے اور سخت چیکنگ کا سامنا تھا لیکن ہر جگہ انہوں نے صرف اپنا پاکستانی خفیہ ایجنسی کا سرکاری کارڈ پیش کیا جو ماسٹر خان نے خصوصی طور پر گوریلا فائٹرز کے ممبران کے لیے تیار کروائے تھے جس کے جواب میں پولیس اور رینجرز کے جوان انہیں سلیوٹ مار کر راستہ کھول دیتے اور یوں وہ بہت جلد سفارتی کالونی کے مرکزی دروازے تک پہنچ گئے۔
سفارتی کالونی میں زیادہ تر دنیا کے مختلف ممالک کے سفیروں اور اہم حکومتی وزراء کے رہائشی مکانات تھے جس کی وجہ سے یہ کافی حساس علاقہ تھا اسی لیے حفاظتی انتظامات بھی بہت سخت تھے لیکن اس مرتبہ بھی ایجنسی سرکاری کارڈ ان کے کام آیا اور ان کو آسانی سے راستہ مل گیا۔
ڈیوڈ شیراک کے بنگلے کے باہر سیاہ کپڑوں میں ملبوس دو غیر ملکی گارڈز موجود تھے جن کے گنجے سروں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے ہر گھنٹے بعد وہ اپنی ٹنڈ صاف کرواتے ہیں۔
’’جی جناب! آپ کو کس سے ملنا ہے‘‘۔ ایک گارڈ نے آگے بڑھ کر تینوں کا راستہ روکتے ہوئے کہا جبکہ عمران ڈرائیور کی حیثیت سے کار میں ہی موجود تھا۔
’’ہم اپنے باس مسٹر ڈیوڈ شیراک سے ملنا چاہتے ہیں‘‘۔
جمال بھائی نے اپنا سیکورٹی کمپنی کا ڈیوٹی کارڈ آگے بڑھاتے ہوئے کہا تو اس نے کارڈ پر ایک نظر ڈال کر واپس کردیا اور سخت لہجے میں بولا۔
’’ڈیوڈ شیراک کسی سے بھی ملنے کی پوزیشن میں نہیں، ان کی صحت کافی خراب ہے‘‘۔
’’ہمارے پاس دھماکے سے متعلق خصوصی معلومات ہیں اگر آپ نے ہمیں ان سے ملنے نہ دیا تو اس سے بھی بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ آپ صرف مسٹر شیراک کو ہمارا کارڈ اور پیغام پہنچادیں وہ اجازت نہ دیں تو ہم واپس چلے جائیں گے‘‘۔
ثاقب نے ماحول کو سنسنی خیز بنا کر گارڈ کو سوچنے پر مجبور کردیا اس نے ایک لمحے کے لیے تینوں پر نظر ڈالی اور دروازہ کھول کر اندر چلاگیا تھوڑی دیر بعد وہ اشارے سے انہیں اندر بلارہا تھا۔ اندر پہنچنے پر انہیں ایک خادم نے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور انتظار کا کہہ کر واپس چلاگیا۔
تھوڑی دیر بعد ڈیوڈ شیراک بنیان پہنے کمرے میں داخل ہوا اس کے بائیں کندھے پر زخم آیا تھا جس پر اس نے عارضی طو رپر پٹی باندھی ہوئی تھی اس کے چہرے پر کرب کے آثار تھے۔
یہ حالت دیکھ کر ایک لمحے کے لیے ثاقب کو ہنسی آئی لیکن اس نے فوراً ہی منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے زبردستی روک لیا ورنہ معاملہ خراب ہوسکتا تھا۔
’’جی مسٹر جمال اینڈ برادرز آپ لوگ دھماکے کے وقت کہاں تھے اور آپ کے پاس کون سی اہم معلومات ہیں‘‘۔ مسٹر شیراک صوفے پر براجمان ہوتے ہوئے بولا اس نے رسمی کلمات کا تکلف بھی گوارا نہیں کیا تھا۔
’’سر ہم چھٹی کے بعد جیسے ہی کچھ دور گئے اچانک پیچھے سے دھماکوں کی آواز سنائی دی ہم واپس مڑے تو دو مشکوک افراد بھاگتے ہوئے ہم سے ٹکراگئے ان میں سے ایک شخص کا کارڈ گرا جس سے پتا چلتا ہے کہ دھماکے میں پاکستان کی ایک خفیہ ایجنسی ملوث ہے‘‘۔ شعیب نے جیب سے ایک کارڈ نکالا اور کارڈ دینے کے بہانے ڈیوڈ شیراک کے قریب آیا اور اگلے ہی لمحے ایک ننھا سا ریوالور اس کی کنپٹی پر رکھ دیا۔ تلاشی کے دوران ڈیٹیکٹر سے بچانے کے لیے ننھے ریوالور کو کاربن پیپر میں چھپا کر جیکٹ کے خفیہ گوشے میں رکھنے سے وہ اسے بنگلے کے اندر لانے میں کامیاب ہوچکے تھے اور اب ڈیوڈ شیراک ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت میں گرفتار ہوچکا تھا، اسی دوران ثاقب اور جمال نے بھی اپنا ریوالور نکال لیا اور اب وہ کمرے کے دروازے پر پوزیشن لیے کھڑے تھے۔
’’تم لوگ کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟ صاف صاف بات کرو اور یاد رکھو اگر مجھے کچھ ہوا تو تم میں سے ایک بھی زندہ باہر نہ جاسکے گا۔‘‘
ڈیوڈ شیراک نے بے بسی کے عالم میں غراتے ہوئے کہا تو شعیب مسکرا اٹھا اور بولا۔
’’مسٹر شیراک تمہیں مارنے کے بعد تو شاید ہم باہر نکل بھی جائیں مگر زندہ چھوڑنے کے بعد تو ہمارا نکلنا بہت مشکل ہوگا لہٰذا خیریت چاہتے ہو تو ہمارے سوالات کا درست جواب دیتے رہو جیسے ہی غلط بات یا غلط حرکت کی تو یاد رکھنا ہمارے بے آواز ریوالور صرف اشارے پر چلتے ہیں ان پر زیادہ زور نہیں لگانا پڑتا‘‘۔
’’تمہارا تعلق خفیہ ایجنسی زی سے ہے؟‘‘۔ شعیب نے دو ٹوک انداز میں پوچھا۔ مسٹر شیراک ایک لمحے کے لیے ٹھٹکا پھر بولا۔
’’ہاں مگر یاد رہے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی اور خطرناک ایجنسی ہے اور تم لوگ ابھی۔۔۔‘‘
شعیب کا جوڈو کراٹے کا ایک وار شیراک کے ماتھے پر پڑا اور اس کا سر صوفے کی پشت سے ٹکرایا اور اس کی گردن ٹیڑھی ہوگئی۔
’’جتنا سوال پوچھا جائے صرف اتنا جواب دو۔ ابھی صرف گردن ٹیڑھی ہوئی ہے بھاری ہاتھ مارتا تو ٹوٹ بھی سکتی تھی۔
ہم نے تمہاری ایجنسی کو ناکوں چنے چبوادئیے، تمہارے بہترین سپر کمانڈوز اڑادیے، تمہارا ہیڈ کوارٹر اڑادیا اور تم اب بھی ہمیں اس سے ڈرانے کی کوشش کررہے ہو‘‘۔
شعیب غراتے ہوئے بولا تو ڈیوڈ شیراک کی آنکھیں خوف اور حیرت سے پھیلتی چلی گئیں۔ وہ منمنایا۔
’’اوہ مائی گاڈ! اس کا مطلب ہے تم گوریلا فائٹرز۔۔۔‘‘
’’بالکل صحیح سمجھے تم‘‘۔ اب یہ بتاؤ کہ ہمارے ملک کے پیچھے کیوں پڑے ہو اور اس ملک سے کیسے نکلنا پسند کروگے‘‘۔
شعیب کا انداز کافی جارحانہ تھا۔
’’اگر تم گوریلا فائٹرز ہو تو جان لو کہ تمہارے گھر آج رات ڈائنامائیٹ سے اڑادئیے جائیں گے، سودے بازی کرنا چاہو تو معاملہ ہوسکتا ہے‘‘۔
ڈیوڈ شیراک نے آخری کمزور سی چال چلنے کی کوشش کی۔
’’بے فکر رہو! اس کا بندوبست بھی ہوچکا ہے ہمارے ساتھیوں نے جیمرز لگا کر تمام بموں کو ناکارہ بنادیا ہے اور اب ہم زیادہ بات نہیں کریں گے سیدھے طریقے سے اصل ماسٹر پلان کی فائل ہمارے حوالے کردو ورنہ تیار ہوجاؤ‘‘۔
شعیب نے ریوالور کا دباؤ کنپٹی پر بڑھایا تو وہ مزید خوفزدہ ہوگیا اور بولا۔
’’ٹھہرو، میں تمہیں اصل حقیقت بتاتا ہوں ہمیں صرف کام بتایا جاتا ہے اصل پلاننگ اور ماسٹر فائل امریکا کی ریاست شمالی کیرولینا میں واقع ہمارے صدر دفتر میں ہے اور وہاں تک پہنچنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے‘‘۔
’’ناممکن اور مشکل کو چھوڑو اور ہمیں صرف فائل کا نام بتاؤ مسٹر شیراک‘‘۔ شعیب غصے سے دھاڑا۔
’’فائل کا نام PK-ATOMIC-15 ہے‘‘۔ ڈیوڈ شیراک اب فرفر بول رہا تھا اتنی بے بسی کا شکار وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔
اس دوران بنگلے کا خادم اندر آیا تو ثاقب نے اسے باندھ کر باتھ روم میں بند کردیا اس کے بعد ثاقب اور جمال نے ڈیوڈ شیراک کے کمرے کی تلاشی شروع کردی، ضروری کاغذات، اہم فائلیں اور مختلف ریکارڈ اپنے قبضے میں لینے کے بعد اب وہ مشورہ کررہے تھے کہ ڈیوڈ شیراک کا کیا کیا جائے۔
اسی دوران شعیب کا موبائل فون بج اٹھا، رات کے دس بج چکے تھے، اسکرین پر زبیر کا نمبر جگمگارہا تھا، شعیب نے اپنا موبائل ثاقب کے حوالے کیا اور بات کرنے کا اشارہ کیا۔
’’السلام و علیکم زبیر کہو کیا حال ہے ہم اس وقت بہت مصروف ہیں مختصر بات کرو‘‘۔ ثاقب نے آہستگی سے بولا۔
’’ثاقب بھائی ایک بری خبر ہے‘‘۔ زبیر کی آواز رندھی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔
’’ہاں ہاں بولو زبیر خیریت تو ہے وقاص تو ٹھیک ہے نا؟‘‘
ثاقب نے زبیر کی آواز کو پہلی بار لرزتے ہوئے سنا تھا تب ہی اچانک وہ گڑ بڑا گیا۔
’’ثاقب بھائی چاروں گھروں میں کامیابی سے جیمرز لگا کر بموں کو ناکارہ بنانے کے بعد آخر میں ہم وقاص کے گھر گئے وقاص اپنے گھر کے عقب سے دیوار کود کر اندر داخل ہوا تھا اور میں اسے کور دے رہا تھا کہ اچانک وقاص کا گھر دھماکے سے اڑگیا، اس وقت مکان سے شعلے بلند ہورہے ہیں اور وقاص کا کچھ پتا نہیں ہے‘‘ زبیر اب باقاعدہ رو رہا تھا۔
ثاقب کی آنکھ سے آنسو کے دو قطرے ٹپکے اور اس کی جیکٹ کے کالر میں جذب ہوگئے ثاقب کو روتا دیکھ کر شعیب بھی پریشان ہوگیا اور جمال بھائی بھی ثاقب کے قریب آگئے۔
’’کیا ہوا۔ ثاقب کیا ہوا کچھ تو بتاؤ؟‘‘ شعیب کو ڈیوڈ شیراک اور ثاقب دونوں کو دیکھنا پڑرہا تھا۔
’’شعیب بھائی، وقاص جیمر نصب کرنے کے دوران شہید ہوگیا‘‘۔ ثاقب گلو گیر آواز میں بولا۔
’’کیا کہہ رہے ہو تم؟‘‘ شعیب ایک لمحے کے لیے ڈگمگاگیا اور اسی لمحے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈیوڈ شیراک نے اچانک شعیب پر حملہ کردیا۔
*۔۔۔*
حملہ اتنا زور دار تھا کہ شعیب کا فولادی ہاتھ ایک لمحے کے لیے بہک گیا لیکن اگلے ہی لمحے شعیب کا ننھا سا آٹومیٹک ریوالور انگلی کا دباؤ برداشت نہ کرسکا اور اس سے نکلنے والی بارودی گولی نے ڈیوڈ شیراک کی کنپٹی پر چھوٹا سا سوراخ بنایا اور تھوڑی دیر بعد خفیہ ایجنسی کا کمانڈر انچیف ڈیوڈ شیراک کا بھاری وجود بے جان لاشہ بن چکا تھا۔
موقع سے فائدہ اٹھا کر جان بچانے کی کوشش کے سبب وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔
’’اوہ یہ تو واقعی ختم ہوگیا!‘‘ جمال بھائی ڈیوڈ شیراک کی نبض ٹٹولتے ہوئے بولے۔
’’ہاں اگر یہ حملہ نہ کرتا تب بھی اسے ختم ہی ہونا تھا۔ وقاص کی شہادت پر یہ ہمارا پہلا جوابی حملہ ہے۔
یہ کہتے ہوئے ثاقب نے جیب سے قلم نکالا اور ڈیوڈ شیراک کے ہاتھ پر لکھا۔ ’’وقاص کے نام۔۔۔۔۔۔ از طرف: گوریلا فائٹرز‘‘۔
یہ جملہ لکھتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے کیوں کہ اس کے ہاتھ لکھ رہے تھے لیکن اس کا دل وقاص کی شہادت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھا اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اپنے یاروں کی جدائی ایک خواب سی لگتی ہے، وہ سوچنے لگا کہ معصوم وقاص جو ان کی ٹیم میں سب سے کم عمر لیکن غیر معمولی ذہانت اور یادداشت کا حامل فائٹر تھا، کیا واقعی اپنے رب کے حضور پہنچ چکا ہے۔
’’ثاقب جلدی کرو، ہمیں جلد از جلد یہاں سے نکل جانا چاہیے، ہمارا یہاں زیادہ ٹھہرنا مناسب نہیں، ضروری سامان اٹھاؤ اور فوری نکلو‘‘۔
شعیب اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بولا جو کافی دیر سے ضبط کرنے کے باوجود بہہ پڑے تھے اور شعیب انہیں ثاقب اور جمال بھائی سے چھپانا چاہتا تھا ورنہ حوصلہ دینے والا کوئی نہ بچتا۔
تینوں نے جلدی جلدی ضروری کاغذات اور فائلیں سمیٹیں اور ڈرائنگ روم کا دروازہ بند کرکے باہر کی طرف چل پڑے۔ ’’گھر پہنچنے سے پہلے عمران سے وقاص کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنی اوکے‘‘۔ شعیب نے حکمت کے پیش نظر دونوں کو مختصر ہدایت دی اور دروازے پر موجود گارڈ کو ہاتھ ہلا کر تینوں گاڑی میں آبیٹھے۔
’’عمران فوراً گاڑی بھگالو ہم ڈیوڈ شیراک کا کام تمام کرچکے ہیں‘‘۔
شعیب نے گاڑی میں بیٹھتے ہی عمران کے کاندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا اور عمران نے اللہ اکبر کے نعرہ لگاتے ہوئے ایکسلیٹر پر پاؤں رکھ دیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
ٹری ٹری ی ی ٹ، ٹری ٹری ی ی ٹ۔
’’ہیلو، پرنس ایریل اسپیکنگ‘‘۔ یہودی پرائیویٹ ایجنسی زی کا مرکزی سربراہ پرنس ایریل،شمالی کیرولینا میں واقع اپنے دفتر میں مسلسل کام کے بعد اونگھ رہا تھا کہ اچانک فون جاگ اٹھا اور دوسری گھنٹی پر فون اٹھایا جاچکا تھا۔
’’سر! آپریٹر اسپیکنگ۔ ایشیاون، زون تھری کے بلاک PK-7 سے مسٹر گرین شیروف لائن پر ہیں‘‘۔ آپریٹر نے تیزی سے کوڈ ورڈز میں اطلاع دی۔
’’فوراً بات کروائیے‘‘۔ پرنس ایریل خطرہ کی بو محسوس کرچکا تھا کیوں کہ بلاک PK-7 (یعنی کراچی) کا زون تھری (یعنی پاکستانی ہیڈ کوارٹر) کو فون کرنے کے بجائے مرکزی ہیڈ کوارٹر سے رابطہ کرنے کا مطلب ایمرجنسی ہی ہوسکتی تھی۔
’’سر گرین شیروف اسپیکنگ۔‘‘ زون تھری کا ہیڈ کوارٹر ابھی دس منٹ پہلے اڑا دیا گیا ہے اور آپریشنل کمانڈر ایرک رولڈ سمیت ہمارے تقریباً آٹھ ساتھی مارے جاچکے ہیں‘‘۔ کمانڈر گرین شیروف جو بلاک PK-7 کا انچارج تھا بغیر کسی تمہید کے بولا۔
’’کیا! بکو مت، ایسا کیسے ممکن ہے، ہماری تیرہ سالہ تاریخ میں آج تک ہمارا کوئی زون تباہ نہیں ہوا دوبارہ معلومات کرو اور مجھے آگاہ کرو۔
پرنس ایریل کی نیند یک دم رفو چکر ہوگئی اور وہ غصے سے پھنکارتے ہوئے بولا۔
’’باس! اطلاع نہ صرف سو فیصد درست ہے بلکہ اب تو میڈیا بھی تفصیلات بتارہا ہے۔‘‘ گرین شیروف نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تو پرنس ایریل نے ’’اوہ شٹ‘‘ کہتے ہوئے فون پٹخ دیا اور دوسرے فون پر تمام کور کمانڈرز کو فوری طلب کرنے کا حکم دینے لگا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
ہاں بھئی شعیب آپریشن کیسا رہا؟ شعیب اور اس کی ٹیم کو واپس آتا دیکھ کر ماسٹر خان تجسس میں پوچھے بغیر نہ رہ سکے کیوں کہ شعیب اور ثاقب کے چہرے پر سنجیدگی اور عمران کے چہرے پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔
’’سر ایک اچھی خبر اور ایک بری خبر ہے آپ پہلے کون سی خبر سننا پسند کریں گے‘‘۔ شعیب سنجیدگی سے بولا تو عمران بھی چونک کر شعیب کو دیکھنے لگا کیوں کہ بری خبر سے تو وہ بھی لاعلم تھا۔
’’پہلے اچھی خبر سنادو پھر بری بھی سن لیں گے، اللہ خیر کرے گا۔‘‘ ماسٹر خان فکر مندی سے بولے۔
’’اچھی خبر تو یہ ہے کہ نہ صرف آپریشن کامیاب رہا بلکہ ان کا کمانڈر انچیف ڈیوڈ شیراک بھی ٹھکانے لگ چکا ہے‘‘۔ شعیب کی سنجیدگی برقرار تھی۔
’’بہت خوب ہمیں بھی تم سے یہی امید تھی اور بری خبر کیا ہے؟‘‘ ماسٹر خان کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔
’’اور بری خبر یہ ہے کہ زبیر کی اطلاع کے مطابق چار گھروں میں کامیابی کے ساتھ جیمرز نصب کرنے کے بعد جب وقاص اپنے گھر میں کارروائی کرنے پہنچا تو کچھ ہی دیر بعد اس کا گھر دھماکے سے اڑ گیا۔‘‘
شعیب نے آخر الفاظ مشکل سے ادا کرتے ہوئے کہا۔
’’اور وقاص کی کیا اطلاع ہے‘‘ ماسٹر خان نے بے تابی سے پوچھا۔
’’اس کی کوئی خبر نہیں ہے، زبیر پریشان تھا اور کہہ رہا تھا کہ وقاص کا کوئی نشان نہیں مل رہا۔‘‘ ثاقب ایک مرتبہ پھر روہانسا ہوگیا۔
’’ثاقب کو آبدیدہ دیکھ کر عمران بھی ماسٹر خان سے روتے ہوئے لپٹ گیا اور ماسٹر خان جو خود بھی کافی پریشان لگ رہے تھے عمران کو تسلی دینے لگے۔
’’دیکھو بھئی! جب تک کوئی نشان یا ایسی علامت نہیں مل جاتی جس سے پتا چلے کہ وقاص دھماکے کے وقت گھر میں تھا یا نہیں تھا، میں تو کم از کم مایوسی کی بات نہیں کروں گا ہمیں فوراً زبیر سے رابطہ کرنا چاہیے تاکہ تازہ صورتحال بھی پتا چلے اور زبیر کو حوصلہ بھی ملے، ہمیں اس طرح ہمت نہیں ہارنی چاہیے، ذرا سوچو ہم سب تو یہاں ہیں اور زبیر وہاں اکیلا ہے، ہم اس طرح کی باتیں کریں گے تو اس بے چارے کا وہاں کیا حال ہورہا ہوگا‘‘۔
ماسٹر خان دل ہی دل میں دعا کرتے ہوئے نہ صرف سب کا حوصلہ بڑھاتے رہے بلکہ زبیر کی ہمت بندھانے کے لیے اس سے رابطہ قائم کرہی رہے تھے کہ ان کا موبائل فون بج اٹھا، دوسری طرف زبیر ہی تھا۔
’’السلام و علیکم ماسٹر خان میں زبیر بول رہا ہوں!
*۔۔۔*۔۔۔*
خفیہ ایجنسی زی ورلڈ وائڈ کے کور کمانڈر (CORE COMMANDERS) کا اعلیٰ سطحی اجلاس کافی دیر سے جاری تھا اور عملہ کو ’’ نوڈسٹرب‘‘ (NO DISTRUB) کے احکامات تھے لیکن ایک مرتبہ پھر آپریٹر نے اطلاع دی کہ ’’زون تھری کا بلاک PK-7 آن لائن ہے اور بہت اہم اطلاعات ہیں۔
’’ہیلو آئی ایم پرنس ایریل اسپیکنگ۔ کیا خبر ہے؟‘‘ لہجے میں کرختگی تھی۔
’’باس دو اہم اطلاعات ہیں، بلاک PK-7میں ہمارے ایجنٹ گوریلا فائٹرز کے ممبران کے چار گھروں میں بم نصب کرچکے تھے مگر انہوں نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے جیمرز نصب کرکے انہیں ناکارہ بنادیا۔۔۔ گرین شیروف کی بات جاری تھی کہ پرنس ایریل اس پر برس پڑا اور مغلظات بکنی شروع کردیں۔
’’بے وقوف کے بچوں! تم لوگوں کو ایجنسی چھوڑ کر ویٹرز بن جانا چاہیے ، تم لوگ حرام خور ہوچکے ہو میں تم سب کی ایسی کی تیسی کردوں گا پانچ بچے کیا ہوگئے پوری زی ورلڈ وائڈ کی مٹی پلید ہو کر رہ گئی ہے آخر تم لوگ کر کیا رہے ہو، تمہارے ہاتھ کیوں نہیں آتے وہ لونڈے؟‘‘
’’باس آپ میری بات تو سنیے میں آپ کو یہی بتارہا ہوں کہ جب ہم پانچویں گھر میں بم نصب کرچکے تو ان کا ایک بندہ اسی دوران گھر میں داخل ہوا جسے فوراً ہم نے گرفتار کرکے بے ہوشی کی حالت میں بلاک PK-7 کے مرکز میں منتقل کردیا ہے اور اب پوچھ گچھ کا عمل جاری ہے مگر وہ کسی قیمت پر بھی زبان کھولنے کے لیے تیار نہیں ہے‘‘۔ گرین شیروف نے کامیابی کی خبر سنائی تو پرنس ایریل خوشی سے بولا۔
اوہ۔ آئی سی! یعنی پانچوں میں سے ایک ہمارے ہاتھ لگ چکا ہے اس کا مطلب ہے کہ اب ہم ان چاروں تک اور پھر ان کے سرپرستوں تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے میں ایک خصوصی دستہ آج ہی زون تھری بلاک PK-7 کے لیے بھیج رہا ہوں اب ہم انہیں مزہ چکھائیں گے۔‘‘
زی کے سربراہ پرنس ایریل کے چہرے پر مکروہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
’’باس یہ لڑکے کوئی معمولی فائٹرز نہیں ہیں، لگتا ہے ان کے پیچھے کچھ خفیہ ایجنسیاں اور کچھ بڑے لوگوں کا ہاتھ بھی ہے، ان کا بندہ جس کا نام اب تک کی اطلاعات کے مطابق وقاص ہے، ہم نے گرفتار کیا اور اگلے ہی لمحے ہم نے اس کا گھر بم سے اڑادیا۔ وقاص کے ساتھی یہ سمجھے کہ ان کا ساتھی بھی دھماکے کی نذر ہوگیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے دھماکے کے ٹھیک پندرہ منٹ بعد ہی ہمارے زون تھری (پاکستان) کے کمانڈر انچیف ڈیوڈ شیراک کو موت کے گھاٹ اتاردیا‘‘۔
گرین شیروف نے ڈرتے ڈرتے ڈیوڈ شیراک کی موت کی اطلاع دی تو پرنس ایریل یکدم بھنا اٹھا اور ایک مرتبہ پھر مغلظات کا طوفان اٹھادیا۔
’’یہ لونڈے اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں میں ان کی اینٹ سے اینٹ بجادوں گا اور اب میں خود خصوصی دستے کی قیادت کروں گا اور یاد رکھو اگر میرے آنے سے پہلے یہ لڑکا وقاص ادھر ادھر ہوا تو تمہاری بوٹیاں بنوا کر کتوں کے آگے ڈال دوں گا‘‘۔
یہ کہتے ہوئے اس نے فون پٹخ دیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’یو آر انڈر اریسٹ‘‘۔ یہ پہلا جملہ تھا جو وقاص نے اپنے گھر کے پچھواڑے سے داخل ہوتے ہی کرخت آواز میں سنا، وہ کل تین افراد تھے جن میں سے مقامی اور ایک غیر ملکی تھا، ان کے ہاتھوں میں امریکی ساختہ جدید اسٹین گنیں تھیں اور وقاص کے ہاتھ میں آخری جیمر تھا جسے نصب کرکے اسے دس منٹ میں یہ جگہ چھوڑدینی تھی لیکن شاید شک کی بنا پر دشمن پہلے سے گھات لگائے بیٹھا تھا اور اب وقاص کے لیے بھاگنے کا کوئی موقع نہ تھا۔
’’ہینڈز اپ مسٹر فائٹر، کوئی ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو یاد رکھنا ہمیں تم سے بہت سے پرانے حساب چکانے ہیں اور وہ ہم ابھی ہاتھ کے ہاتھ چکانے میں دیر نہیں کریں گے‘‘۔
آسان اور رواں انگریزی کے چند جملوں میں نہایت دو ٹوک انداز میں دھمکی دی گئی تھی جس میں انتہائی سفاکیت جھلک رہی تھی اور اگلے ہی لمحے وقاص نے جیمر زمین پر رکھ کر ہاتھ اوپر کرلیے، اسے اندازہ تھا کہ دشمن اسے مارنے میں قطعی دیر نہیں کرے گا، کیوں کہ اب تک وہ اسے بے انتہا نقصان پہنچاچکے تھے، اتنی دیر میں ان کا ایک ایجنٹ آگے بڑھا اور کلوروفارم میں بھیگا ہوا رومال اسے کے منہ پر رکھ دیا، وقاص کے بے ہوش ہوتے ہی انہوں نے اسے کاندھے پر ڈالا اور فوراً باہر کی طرف دوڑ لگادی۔
گاڑی میں بیٹھ کر ابھی وہ بیس میٹر دور ہی گئے تھے کہ وقاص کا گھر ایک دھماکے سے گونج اٹھا، لیکن وقاص کو گھر کی تباہی کا کوئی افسوس نہ تھا اور افسوس ہوتا بھی کیسے، وہ تو غنودگی کے عالم میں فرشتوں کے ساتھ آسمان کی سیر پر نکلا ہوا تھا، بے ہوشی کی کیفیت میں بھی اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی جو دشمن کو مزید سیخ پا کررہی تھی۔
گلشن کالونی میں واقع اپنے خفیہ مرکزی دفتر میں پہنچتے ہی انہوں نے وقاص کو ایک لاک اپ میں بند کیا اور اپنے انچارج کمانڈر گرین شیروف کو کامیاب کارروائی کی اطلاع دی۔
دو گھنٹے بعد جیسے ہی وقاص کو ہوش آیا سارا واقعہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھرگیا اسے اپنے گھر سے زیادہ زبیر کی فکر تھی جو نہ صرف پریشان ہوگا بلکہ وہ اسے بھی حادثے کی نذر سمجھ کر شہید قرار دے چکا ہوگا اور اگلے ہی لمحے اس نے اپنی قمیض کے بٹن سے منسلک مائیکرو فون چپ کو آن کردیا اور تھوڑی ہی دیر بعد اس کا رابطہ زبیر سے ہوچکا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’وعلیکم السلام! زبیر بیٹا کیسے ہو تم؟ وقاص کی کوئی خیر خبر ملی۔‘‘ زبیر کی آواز سنتے ہی ماسٹر خان نے بے تابی سے خیریت معلوم کرنا چاہی۔
’’یس سر! ابھی چند لمحوں پہلے میرا وقاص سے رابطہ ہوا تھا وہ بالکل خیریت سے ہے لیکن اسے بھی یہ نہیں معلوم ہے کہ اس وقت وہ کون سی جگہ قید ہے، اس نے مختصراً مجھے بتایا کہ اسے وہاں سے بے ہوش کرکے نامعلوم جگہ منتقل کیا گیا ہے البتہ میرا خیال ہے کہ وہ زیادہ ور نہیں ہے کیوں کہ مائیکرو فون پر اس کی آواز واضح سنائی دے رہی ہے جبکہ دس کلو میٹر کے فاصلے کے بعد آواز میں خرابی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے‘‘۔
زبیر کی آواز سے خوشی جھلک رہی تھی کہ ’’یار زندہ صحبت باقی‘‘ کے مصداق اسے خوشی اس بات کی تھی کہ وقاص قید میں ہے لیکن اس کی زندگی اس سے ایک مرتبہ پھر ملنے کی امید دلارہی تھی۔
جیسے ہی زبیر نے وقاص کی خیریت کی اطلاع دی، دوسری طرف ماسٹر خان، گوریلا فائٹرز کے ممبران اور دیگر افراد نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرنے لگے اور شعیب کو ایسا لگا جیسے کسی نے اس کے سر سے منوں وزنی بوجھ اتار پھینکا ہو وہ خوشی سے سجدہ شکر بجا لایا۔
’’وقاص پرتشدد وغیرہ تو نہیں کیا گیا، پوچھ گچھ کی کیا صورتحال ہے۔
ماسٹر خان کو معلوم تھا کہ زبان کھلوانے کے لیے اس طرح کی ایجنسیاں کیا کیا حربے استعمال کرتی ہیں، اب وہ نئی فکر سے دوچار تھے۔
’’سر وقاص سے تو میری بہت کم بات ہوئی ہے البتہ وقاص اور ایجنسی کے ایجنٹوں کے درمیان ہونے والی گفتگوکے مطابق وہ بار بار یہ سوالات دھراتے ہیں کہ تمہارے بقیہ ساتھی کہاں ہیں؟ تم لوگوں کے پیچھے کون کون سی قوتیں کام کررہی ہیں اور دارالحکومت میں ہونے والے دھماکے میں کون لوگ ملوث ہیں؟ جس کے جواب میں وہ لاعلمی کا اظہار کرتا ہے اور پھر دو تین افراد مل کر اس کو زدو کوب کرتے ہیں‘‘۔
زبیر کی گفتگو کمرے میں موجود تمام افراد ہی سن رہے تھے۔
’’ٹھیک ہے ہم بہت جلد کراچی پہنچنے کی کوشش کریں گے اور بقیہ پلاننگ وہیں طے کریں گے اپنا خیال رکھنا خدا حافظ۔‘‘ ماسٹر خان نے جیسے ہی گفتگو ختم کی شعیب بولا۔
’’ماسٹر! وقاص کی زندگی کو سخت خطرہ لاحق ہے کیوں کہ ہم ایک غلطی بھی کرچکے ہیں اور وہ یہ کہ ڈیوڈ شیراک کے ہاتھ پر ثاقب کی تحریر موجود ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ وقاص کی شہادت کا بدلہ ڈیوڈ شیراک سے لیا گیا ہے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ وہ کوئی معمولی آدمی نہیں تھا بلکہ زی ورلڈ وائڈ کے تحت پاکستان میں ہونے والے مشن کا کنٹرولر اور کمانڈر انچیف تھا لہٰذا ہمیں آج رات یا کل صبح ہی کراچی پہنچنا ہوگا اور فوراً ہی کچھ کرنا ہوگا بصورت دیگر وہ ڈیوڈ شیراک کا بدلہ اتارنے کی کوشش کریں گے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’کہاں رکھا ہوا ہے اس لونڈے کو؟ ذرا میں بھی دیکھوں کہ آخر وہ چیز کیا ہے جس نے ہمارے ناک میں دم کیا ہو ہے‘‘۔
زی ورلڈ وائڈ کا سربراہ پرنس ایریل اپنی اسپیشل ٹیم کے ساتھ اپنے خصوصی طیارے پر پاکستان پہنچ چکا تھا اور آتے کے ساتھ ہی اس کا پہلا سوال وقاص کے بارے میں تھا۔
’’باس ہم وہیں جارہے ہیں‘‘۔ بلاک PK-7 کا انچارج کمانڈر گرین شیروف اور اس کے ساتھی پرنس ایریل کے استقبال کو پہنچے ہوئے تھے اور اب وہ گلشن کالونی میں واقع اپنے مرکز کی طرف جارہے تھے۔
’’اوہ مائی گاڈ! یہ ہے وہ لڑکا جس کی وجہ سے ہمیں یہاں آنا پڑا ہے بلکہ لڑکا بولنے کے بجائے بچہ بولا جائے تو بھی غلط نہ ہوگا‘‘۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی پرنس ایریل کی نظر جیسے ہی وقاص پر پڑی وہ اس کی عمر اور جسامت دیکھ کر حیران و پریشان رہ گیا۔
’’میں تو سمجھ رہا تھا کہ تم نے کوئی شیر یا ہاتھی پکڑ رکھا ہے یہ تو تم نے معصوم ساخرگوش اغوا کیا ہوا ہے، اسے میرے پاس لاؤ‘‘۔
پرنس ایریل ہدایت دیتے ہوئے آفس کی طرف بڑھ گیا۔
’’ہاں بیٹا! یہاں بیٹھو اور یہ بتاؤ کہ تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
پرنسل ایریل نے انتہائی نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھا۔
’’پوچھنے والا بھی اتنا ہی جانتا ہے جتنا کہ میں‘‘۔ وقاص نے منطقی جواب دیا۔
’’ہوں! اس کا مطلب ہے تمہارا نام وقاص ہی ہے‘‘۔ میں نے کہا ناں کہ جو چیز معلوم ہے اسے دوبارہ پوچھ کر وقت ضائع نہ کیا جائے کیوں ہم دونوں کا وقت بہت قیمتی ہے‘‘۔
پرنس ایریل، وقاص کے جارحانہ جوابات سے ایک دم زچ ہو کر رہ گیا تھا اسے وقاص سے اتنے سخت ردعمل کی قطعاً امید نہ تھی۔
’’کہاں رہتے ہو؟‘‘ پرنس ایریل نے پوچھا۔
’’یہ پوچھیے کہ کہاں رہتا تھا کیوں کہ آپ کے بندوں نے کل رات میرا گھر بم سے اڑادیا ہے‘‘۔ وقاص نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
’’اچھا چلو یہ بتادو کہ کہاں رہے تھے، بس!‘‘ پرنس ایریل بھی ہار ماننے والا نہ تھا۔
’’بہت خوب! بھاری بھاری تنخواہیں اپنے ان مسٹنڈوں کو دیتے ہو جو کسی کام کے نہیں ہیں اور پوچھ آپ مجھ سے رہے ہیں، ان سے کیوں نہیں پوچھتے جنہوں نے بم بلاسٹ کیا تھا؟‘‘
وقاص اب پرنس ایریل سے تفریح لینے لگا تھا اور پرنس ایریل سوچ رہا تھا کہ دشمن کے نرغے میں بھی اس بچے کا حوصلہ اور ذہانت خوب ہے اب اسے اندازہ ہوچلا تھا کہ اس کے سامنے کوئی عام بچہ نہیں بلکہ واقعی کوئی چیز بیٹھی ہے۔
’’اوکے! کم ٹو دی ٹاپک۔ ہم اپنے اصل مقصد کی طرف آتے ہیں۔
مجھے معلوم ہے کہ تم گوریلا فائٹرز کے رکن ہو اور کافی عرصے سے تم لوگوں نے ہمارے اور ہمارے کلائنٹس کے ناک میں نہ صرف دم کیا ہوا ہے بلکہ بہت بڑے نقصان سے دوچار کرچکے ہو، میرا سوال یہ ہے کہ تمہارے اس گروپ کے مقاصد کیا ہیں؟‘‘
پرنس ایریل واقعی مقصدیت پر آچکا تھا اور اس کے لہجے کی نرمی اب کرختگی میں تبدیل ہوچکی تھی مگر وقاص بھی ایک نمبر کا چکنا گھڑا تھا۔
’’مجھے معلوم ہے تم اور تمہارے یہ سارے زرخرید غلام بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی زی ورلڈ وائڈ کے ملازم ہیں اور یقیناًتمہاری تنظیم کے بھی کچھ نہ کچھ مقاصد ہوں گے، ان مقاصد کو الٹ دو تو ہمارے مقاصد بن جائیں گے‘‘۔ وقاص کا جواب سن کر پرنس ایریل کا پارہ ایک دم اوپر چڑھ گیا۔ مگر ایک مرتبہ پھر وہ برداشت کرگیا اور بولا۔
’’میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا، وضاحت کرو‘‘۔
’’بات بالکل سیدھی ہے تم آگ ہو اور ہم پانی مطلب یہ ہے کہ تمہارا مقصد دنیا میں آگ لگانا اور ہمارا کام آگ بجھانا ہے۔
تم عیسائیت اور یہودیت کو دنیا پر مسلط کرنا چاہتے ہو اور ہم اسلام کے غلبہ کے لیے کام کرتے ہیں، تم دنیا کو ظلم سے بھرنا چاہتے ہو ہم امن کے راہی ہیں۔ تم لڑانا جانتے ہو اور ہم ملانا جانتے ہیں، تم پاکستان توڑنا چاہتے ہو اور ہم اسے دوبارہ جوڑنا چاہتے ہیں، تم کرائے کے قاتل ہو اور ہم اللہ کی رضا کے لیے بغیر معاوضے کے جدوجہد کرتے ہیں، ہم اللہ سے ڈرتے ہیں اور تم بندوں سے ڈرتے ہو۔‘‘
بس یہی وجہ ہے کہ تم موت سے ڈرتے ہو اور موت ہم سے ڈرتی ہے‘‘۔
وقاص کی جذباتی گفتگو کے دوران زی کا سپریم کمانڈر ایک لمحے کے لیے مبہوت ہو کر رہ گیا، اسے وقاص سے اس قسم کی قطعی کوئی امید نہ تھی۔
’’تو پھر ٹھیک ہے تم اپنا کام کرو ہم اپنا کام کریں گے اور ہاں ایک بات یاد رکھنا کہ تمہارے ساتھی تمہیں مردہ سمجھ کر اب انتقامی کارروائی پر اتر آئے ہیں اور انہوں نے ہمارے ایک اہم فرد ڈیوڈ شیراک کو قتل کردیا ہے۔۔۔‘‘
پرنس ایریل کی تحکمانہ گفتگو جاری تھی کہ وقاص نے ڈیوڈ شیراک کی موت کا سنتے ہی زور سے الحمدللہ کہا اور پرنس ایریل دانت پیستا رہ گیا، اس کے ذہن میں ایک خطرناک پلاننگ گھوم رہی تھی اور وہ اس وقت کسی جذباتیت کا مظاہرہ کرکے اپنا غصہ اتارنا نہیں چاہ رہا تھا وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔
’’غور سے سنو! میرا نام پرنس ایریل ہے میں زی ورلڈ وائڈ کا سربراہ ہوں، ایشیاء میں ہمارے کل نو زونز کام کررہے ہیں اور ہر زون کے پیچھے تقریباً چار سے تیرہ بلاک کام کرتے ہیں پاکستان ہماری زون تھری ہے تم لوگوں نے نہ صرف ہمارے زونل ہیڈ کوارٹر کو اڑادیا ہے بلکہ ہمارے زونل انچارج کمانڈر انچیف ڈیوڈ شیراک اور زونل آپریشنل کمانڈر ایرک رولڈ کو بھی قتل کردیا ہے جو ہمارا بہت بڑا نقصان ہے جس کی بھیانک سزا نہ صرف ہم تمہیں دیں گے بلکہ تمہاری پوری ٹیم کے ساتھ ساتھ تمہارے سارے ہمدرد بھی اس سزا کو بھگتیں گے اور ہمارے قانون میں اس کی سزا صرف موت ہے‘‘۔
*۔۔۔*۔۔۔*
ماسٹر خان، گوریلا فائٹرز کے ممبران کے ساتھ صبح تڑکے کراچی پہنچ چکے تھے جبکہ جمال اینڈ برادرز فی الحال خالد بلگرامی کے پاس ہی ٹہرے ہوئے تھے، ائیرپورٹ پر زبیر بھیس بدل کر ان کے استقبال کے لیے موجود تھا۔
فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی وہ فوراً اپنے ہیڈ کوارٹر پہنچے اور فوراً میٹنگ کرنے لگے۔
’’ہاں، زبیر۔ وقاص کے بارے میں کوئی نئی اطلاع ہے آپ کے پاس؟‘‘ ماسٹر خان نے زبیر سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔
’’جی سر! نئی اطلاع یہ ہے کہ زی ورلڈ وائڈ کا سربراہ پرنس ایریل اب سے کوئی پانچ گھنٹے قبل کراچی پہنچ چکا ہے‘‘۔ اس کے بعد زبیر نے پرنس ایریل اور وقاص کے درمیان ہونے والی ساری گفتگو ٹیم کے سامنے گوش گزار کردی جو وہ رات کو مائیکرو فون چپ کے ذریعے ریکارڈ کرچکا تھا۔
’’ہوں! اس کا مطلب ہے کہ ہمیں جلد از جلد وقاص کو چھڑانا ہوگا میرا اندازہ بالکل درست تھا‘‘۔ شعیب کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
’’بالکل! اس کے لیے سب سے پہلے کراچی میں واقع ان کے دو مراکز پر فوراً چھاپہ مار کارروائی کرنی ہوگی کیوں کہ ہمارے پاس موجود نقشوں میں ان کے یہاں صرف دو مراکز ہیں‘‘۔
عمران نے پرانے نقشوں کو سامنے پھیلاتے ہوئے کہا اور پھر وہ سب آئندہ حملوں کی پلاننگ طے کرہی رہے تھے کہ مائیکرو فون چپ میں ایک مرتبہ پھر آواز پیدا ہونے لگی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’دھڑام!‘‘ کی آواز کے ساتھ وقاص کے لاک اپ کا دروازہ کھلا اور فوجی بوٹوں کی دھمک کے ساتھ سات آٹھ ایجنٹ کمرے میں گھس آئے، جنہوں نے آتے ہی وقاص کو دبوچا اور اس کے بازو میں پہلے سے تیار کی گئی سرنج اتاردی اور چند سیکنڈوں میں وقاص بے ہوش ہو کر ان کے بازوؤں میں جھول کر رہ گیا، اس کے بعد وہ اسے کاندھے پر ڈال کر پرنس ایریل کے پاس لے گئے۔
’’ہوں! تو لے آئے اسے، اب اسے یہاں میز پر لٹادو‘‘
پرنس ایریل کی آواز آئی جسے گوریلا فائٹرز اور ماسٹر خان اپنے ہیڈ آفس میں بیٹھے سن رہے تھے۔
’’ہم تھوڑی سی پلاننگ تبدیل کریں گے یعنی کل اسی شہر کے مصروف مرکزی چوک پر وقاص کو استعمال کرتے ہوئے دھماکا کروائیں گے اور ہر لحاظ سے یہ دھماکا خودکش حملہ ہوگا اور اس کا سارا الزام گوریلا فائٹرز پر آئے گا اس سے ہمیں دو فائدے ہوں گے پہلا گوریلا فائٹرز کا نقصان اور دوسرا گوریلا فائٹرز پر الزام‘‘
باس پروگرام تو بہت خوب ہے مگر مزید وضاحت ہوجائے کہ وقاص کو آپ کس طرح خودکش حملے میں استعمال کرنا چاہ رہے ہیں تو ہمیں سمجھنے میں آسانی ہوگی‘‘۔
کمانڈر گرین شیروف نے وضاحت چاہی۔
’’بالکل! کیوں نہیں۔ اسی لیے تو میں نے مسٹر وقاص کو یہاں بلایا ہے اسے کل ہم خودکش بمباری جیکٹ پہنا کر غنودگی کا یہی انجکشن لگائیں گے اور پھر وقاص صاحب وہی کریں گے جو ہم کہیں گے، یہ دیکھیے‘‘۔
یہ کہتے ہوئے پرنس ایریل وقاص کے پاس آیا اور گلاس سے پانی لے کر وقاص کے منہ پر چند چھینٹے مارے تو وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا انجکشن کے اثرات اس پر باقی تھی، پھر وقاص سے بولا۔
’’وقاص میز سے نیچے اتر آؤ۔ وقاص فوراً اتر گیا۔
’’یہ گلاس اٹھاؤ اور زمین پر پٹخ دو۔‘‘ وقاص نے ایسا ہی کیا سب حیرانی سے وقاص کو دیکھ رہے تھے۔
’’آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ جیتا جاگتا انسان ہے مگر صرف وہی کچھ کرے گا جو آپ اس سے آرڈر کریں گے یہ ایک جدید دریافت ہے جس کا پہلا حقیقی تجربہ ہم مسٹر وقاص پر کریں گے‘‘۔
اس کے بعد مسٹر پرنس ایریل کے مکروہ قہقہے کانفرنس ہال میں سفاکی کے ساتھ گونجنے لگے اور وقاص بے بسی کی تصویر بنا کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
چھن۔۔۔ن۔۔۔ ن۔۔۔ گلاس ٹوٹنے کی ایک چھناکے دار آواز اور اس کے بعد پرنس ایریل کے مکروہ قہقہے سنتے ہی سارے ایک دم اچھل پڑے کیونکہ مائیکرو فون نے بھی اپنا کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور آواز آنی بند ہو گئی تھی۔
’’ اوہ یہ تو بہت برا ہونے جا رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس خبیث پرنس ایریل نے وقاص کا اعصابی نظام مفلوج کر دیا ہے اور اب وہ اس کو اپنی مرضی کے مطابق خودکش دھماکے میں استعمال کرکے دوہرا فائدہ حاصل کرنے کی گھٹیا کوشش کرے گا۔‘‘ ماسٹر خان دونوں ہاتھوں کو آپس میں رگڑتے ہوئے تلملا اٹھے۔
’’ اور اب تو ہمارا رابطہ بھی منقطع ہو چکا ہے۔ بے چارے وقاص پر کیا گزررہی ہوگی۔‘‘ زبیر پھر روہانسا ہو گیا۔
’’ یعنی ہمارے پاس کل چوبیس گھنٹے ہیں اور ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے اسی دوران کرنا ہے لہٰذا میرے خیال میں اب مزید وقت ضائع کیے بغیر ہمیں سب سے پہلے ان ٹھکانوں کو گھیر لینا چاہیے یقیناًوقاص ان دونوں مراکز میں سے کسی ایک میں ہی ہوگا۔‘‘ عمران باتوں میں وقت ضائع کیے بغیر فوری عمل کا قائل تھا وہ یہ جملہ کہتے ہوئے اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ تمہاری بات بالکل درست ہے ہمیں فوری کارروائی کرنی ہوگی مگر اس طرح نہیں جیسے تم کرنے جا رہے ہو ۔ اچھا یہ بتاؤ کہ پہلے کون سے مرکز پر حملہ کرو گے؟‘‘
شعیب نے عمران کو سمجھاتے ہوئے اچانک سوال پوچھ ڈالا۔
’’ بھلا یہ کیا بات ہوئی دونوں مراکز PK-7اور PK-8میں سے کسی بھی ایک کا انتخاب کر لیجئے اور کام کا آغاز کیجئے۔‘‘ عمران جواب دیتے دیتے گڑبڑانے لگا کیونکہ اسے احساس ہو رہا تھا کہ سوال جتنا آسان ہے جواب اتنا ہی مشکل ہے۔
’’ میرے بھائی اگر بالفرض تم نے PK-7پر حملہ کیا اور وہاں وقاص نہ ہوا بلکہ دوسرے مرکز پر ہوا تو کیا PK-8والے اسے فوراً دوسری جگہ منتقل نہیں کردیں گے؟‘‘
شعیب کی دور اندیشی عمران کی سمجھ میں آچکی تھی اور وہ دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ عمران کو بیٹھتا دیکھ کر ماسٹر خان بھی مسکرا اٹھے وہ شعیب کی ذہانت کے معترف تھے۔
’’ ہمیں ایک مرتبہ پھر سوچ سمجھ کر قدم آگے بڑھانا ہو گا ذرا سی غلطی ہمیں بڑے نقصان سے دوچار کر سکتی ہے کیونکہ اس وقت ہم ایک خطرناک موڑ پر ہیں لہٰذا میرا خیال ہے کہ ہمیں دو دو افراد کے گروپ میں تقسیم ہو کر بیک وقت دونوں مراکز پر حملہ کرنا چاہیے اس طرح ہم کامیابی سے زیادہ قریب ہوں گے۔‘‘
شعیب نے اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہا تو ثاقب بولا
’’ میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ دشمن ہمارے مقابلے میں کامیابی سے زیادہ قریب ہے کیونکہ مجھے نہ صرف یہ جگہ خطرے میں گھری ہوئی محسوس ہو رہی ہے بلکہ یوں لگ رہا ہے جیسے دشمن ہمارے بہت نزدیک آچکا ہے۔ ہمیں فوراً ہی یہ جگہ چھوڑ دینی چاہیے۔‘‘
آخری الفاظ کہتے کہتے ثاقب اچانک کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ ہی سارے افراد بھی ہڑ بڑا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
*۔۔۔*
’’ سر کیا ہم اسی غنودگی کے عالم میں وقاص سے ان کے راز نہیں اگلوا سکتے؟‘‘ وقاص کی طرف سے احکامات کی فوری تعمیل دیکھتے ہوئے کمانڈر گرین شیروف کے ذہن میں نیا آئیڈیا آیا تھا۔
’’ نہیں اب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا کیونکہ اعصابی نظام متاثر ہونے سے دماغ پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں لہٰذا ہم اس طرح کے انسان سے جسمانی کام تو لے سکتے ہیں مگر دماغی کام لینا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘‘پرنس ایریل نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تو گرین شیروف بولا۔
’’سر کوشش کرکے دیکھنے میں کیا حرج ہے ہو سکتا ہے کوئی اہم خبر معلوم ہوجائے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے گرین شیروف نے وقاص سے پوچھا۔
وقاص تمہارے ساتھیوں کی تعداد کتنی ہے؟
’’ چار ‘‘ وقاص کا دماغ چلنا شروع ہو چکا تھا مگر جواب تھوڑے توقف کے بعد آیا تھا۔ گرین شیرف اور پرنس ایریل مثبت جواب آنے پر ایک دم مسکرا اٹھے۔
’’ ان کے نام کیا ہیں؟‘‘ گرین شیروف کو کچھ امید ہو چلی تھی۔
’’ شعیب، ثاقب، عمران اور زبیر۔‘‘ وقاص کی غیر معمولی یادداشت اب خودان ہی کے خلاف استعمال ہو رہی تھی۔
’’ ویلڈن مائی بوائے! اچھا تمہارا سربراہ کون ہے؟‘‘ تیسرا سوال پوچھا گیا لیکن یہ سوال پرنس ایریل نے کیا تھا۔
’’ماسٹر خان۔‘‘ وقاص بت بنا کھڑا بے بسی کے عالم میں دشمن کے سوالات کے جوابات دیتا جا رہا تھا۔
’’تمہارا ہیڈ کوارٹر کہاں ہے؟‘‘ پرنس ایریل نے جلدی سے پوچھا۔
’’ T/672اسٹریٹ نمبر ایٹ کلفٹن۔‘‘ اتنے ہائی پاور انجکشن کے باوجود وقاص کا حافظہ اپنی صلاحیت کا لوہا منوا رہا تھا لیکن یہ ساری گفتگو گوریلا فائٹرز کے ممبران کی پہنچ سے دور تھی کیونکہ ان کا خفیہ مائیکرو فون سسٹم خراب ہو چکا تھا۔
’’سر پرائز ! یہ تو کمال ہی ہو گیا۔ مسٹر گرین تم فوراً ایک خصوصی دستہ تیار کرو اور آدھے گھنٹے کے اندر اندر ان کا ہیڈ کوارٹر اڑا دو۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس وقت وہیں ہوں گے اور یاد رہے کہ ان میں سے کوئی بچ کر نہ جانے پائے۔‘‘
کمانڈر گرین شیروف ’’یس سر‘‘ کہتا ہوا دوڑ پڑا۔ وہ خود بھی گوریلا فائٹرز سے عاجز آچکا تھا اور ہر قیمت پر حساب بے باق کرنا چاہتا تھا۔
*۔۔۔*
’’ثاقب میاں۔۔۔ باہر تو بالکل امن ہے اور بظاہر تو ایسی کوئی گڑ بڑ نظر نہیں آرہی لہٰذا میرا خیال ہے کہ ہم اپنی میٹنگ مکمل کر لیتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس وقت بھی بہت کم ہے البتہ حفاظت کے پیش نظر چوکیدار کو الرٹ کر دیتے ہیں۔
دس پندرہ منٹ باہر کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد جیسے ہی انہوں نے دوبارہ میٹنگ کا آغاز کیا زبیر بولا
’’سر پیٹرول کی بو محسوس ہو رہی ہے لگتا ہے باہر کچھ مسئلہ ہے۔‘‘ یہ کہتے ہی شعیب بجلی کی تیزی سے اٹھا اور باہر جھانک کر دیکھا تو چوکیدار غائب تھا اور سیاہ کپڑوں میں ملبوس آٹھ دس افراد حرکت کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔
’’ جلدی کرو ہم اس وقت دشمن کے نرغے میں ہیں۔ وہ لوگ چند منٹوں میں اس بنگلے کو آگ لگا دیں گے ہمیں فوراً باہر نکلنا ہوگا۔ شعیب جلدی سے سب کو اٹھاتے ہوئے بولا تو سارے ایسے اچھل پڑے جیسے ان کے نیچے اسپرنگ لگ گئے ہوں۔
’’تم لوگ جلدی سے میرے ساتھ آؤ۔ پیچھے پتلی گلی سے ایک خفیہ راستہ ہے شاید ہم وہاں سے باہر نکل سکیں۔‘‘
ماسٹر خان کو حالات کی نزاکت کا صحیح اندازہ نہیں تھاکیونکہ دشمن چاروں طرف سے گھیرا ڈال چکا تھا ایسے میں عمران بولا۔
’’سر بنگلے کی چھت پر سے دوسرے مکان میں داخل ہونا زیادہ مشکل نہیں میرے خیال میں یہ محفوظ راستہ ہوگا اور دشمن ہمیں دیکھ بھی نہ سکے گا۔‘‘
’’ماسٹر! میرے خیال میں عمران کی رائے بہتر ہے اور اب زیادہ تاخیر مناسب نہیں ۔‘‘
شعیب یہ کہتے ہوئے چھت کی طرف دوڑ پڑا اور چند لمحوں بعد سب چھت سے چھت پر منتقل ہوتے ہوئے دور آگئے اور اسی دوران دشمن ان کے ہیڈ کوارٹر کو آگ لگا کر فرار ہو چکا تھا ۔ دشمن کا ڈالا ہوا محلول اور کیمیکل اتنا خطرناک تھا کہ کچھ ہی دیر میں پورا مکان آگ کے شعلوں میں گھر چکا تھا اور پڑوس کے مکین بھی اپنے مکانات چھوڑ کر باہر نکل آئے تھے۔
*۔۔۔*
’’گزشتہ روز دارالحکومت میں ہونے والے بم دھماکے کی تحقیقات کے دوران ایک ریکارڈ شدہ پیغام حکام کو ملا ہے جس میں حملہ آوروں نے دھمکی دی ہے کہ اگر ملک بھر میں ہونے والے بم دھماکوں کا سلسلہ نہ رکا تو ہم مذکورہ سیکورٹی ایجنسی کے ملک بھر میں قائم دفاتر کو اڑا دیں گے۔‘‘
ٹیلی ویژن پر خبریں نشر ہو رہی تھی اور پرنس ایریل کے کان کھڑے ہو چکے تھے کیونکہ گوریلا فائٹرز کا ریکارڈ شدہ پیغام حکام کے ہاتھ لگ چکا تھا اور اب پوری دنیا میں نشر ہو چکا تھا جس میں واضح اور دو ٹوک انداز میں زی ورلڈ وائڈ کو دھمکی دی گئی تھی۔ پرنس ایریل نے اسی وقت بلاک PK-7سے وقاص کی منتقلی کا فیصلہ کیا اور امریکی سفیر کی خدمات حاصل کرتے ہوئے وقاص کو فوراً وہاں سے منتقل کرنے لگے۔
اسی دوران کمانڈر گرین شیروف اپنی خصوصی ٹیم کے ہمراہ واپس اپنے مرکز بلاک PK-7پہنچ چکا تھا وہ اب پرنس ایریل کو پوری کارگزاری سنا رہا تھا۔
’’ سر جب ہم وہاں پہنچے تو چاروں ماسٹر خان کے ساتھ گھر کے اندر داخل ہو رہے تھے لہٰذا ہم نے چند منٹوں میں کارروائی مکمل کی اور سیکنڈوں میں پورے گھر کو چاروں طرف سے آگ لگا دی اور ہمارے ایجنٹ کی اطلاع کے مطابق اب تک کوئی بھی گھر سے باہر نہیں نکل سکا۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ اب وقاص کو کہیں اور منتقل کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’ پھر بھی احتیاط لازمی ہے کیونکہ دشمن کو کبھی بھی کمزور نہیں سمجھنا چاہیے۔تب ہی تم کامیاب ہو سکتے ہو۔‘‘
پرنس ایریل نے یہ کہتے ہوئے کمانڈر گرین شیرف کے کاندھے تھپتھپائے اور وقاص کو لے کر باہر نکل گیا۔
*۔۔۔*
ماسٹر خان اور گوریلا فائٹرز کے ممبران اپنے ساز و سامان کے ساتھ ایک مرتبہ پھر اپنے ایک ہمدرد شہباز علی کے گھر دوپہر کے کھانے کے بعد آئندہ کی حکمت عملی طے کررہے تھے۔
’’ہم ٹھیک تین بجے اپنے آپریشن کا آغاز کر یں گے میرے ساتھ عمران ہوگا اور ہمارا ہدف ان کا مرکز PK-7ہوگا جبکہ ثاقب اور زبیر مل کر ان کے دوسرے مرکز PK-8کو نشانہ بنائیں گے ۔ یاد رہے فی الحال ہمارا ٹارگٹ وقاص کی بازیابی ہے لہٰذا اگر وقاص ہمیں مل جاتا ہے تو ہم فوراً نہ صرف ایک دوسرے کو مطلع کریں گے بلکہ واپس اپنے اسی ٹھکانے پر پہنچنے کی کوشش کریں گے کیونکہ ہماری افرادی قوت بہت کم ہے اور وہ بھی دو حصوں میں تقسیم ہے لہٰذا کوشش کی جائے کہ دشمن سے مڈبھیڑ کم سے کم ہو۔‘‘
شعیب نے ایک ایسی پلاننگ ترتیب دی تھی جس میں ان چاروں کی جانوں کو انتہائی خطرات لاحق تھے کیونکہ صرف دو افراد کا بین الاقوامی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی کے بلاک پر حملہ کرنا یقیناًجان بوجھ کر اپنے آپ کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف تھا۔ شعیب کی بات ختم ہوتے ہی ماسٹر خان گویا ہوئے۔
’’ میرے پاس اس سے بہتر تجویز ہے جس سے امید ہے کہ سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے گی۔
’’وہ کیا تجویز ہے ماسٹر ؟‘‘ زبیر بولا۔
’’ میرے خیال میں ہمیں سب سے پہلے پولیس اسٹیشن پر وقاص کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کروانی چاہیے اور پھر پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری کے ساتھ ان کے دونوں مراکز پر چھاپہ مارنا چاہیے اس طرح ہم بھی دوہرا فائدہ حاصل کرسکیں گے یعنی وقاص کی بازیابی اور دشمن کے مراکز سے پولیس اور رینجرز کی آگاہی۔‘‘
ماسٹر خان کی رائے واقعی بہت جاندار تھی اسی لیے سب سے پہلے شعیب نے اس کی تائید کی اور پھر سب متفق ہو گئے۔
ماسٹر خان ایف آئی آر درج کروانے سے لے کر چھاپہ مار کارروائی تک ساتھ ساتھ رہے لیکن دونوں مقامات سے نہ وقاص بازیاب ہو سکا اور نہ ہی کوئی خاص اسلحہ وغیرہ دریافت ہو سکا ۔ جس سے انہیں معلوم ہوا کہ دشمن نے پہلے سے یہ حکمت عملی طے کر رکھی ہے کہ اپنے آپ انتہائی حد تک خفیہ رکھا جائے تاکہ پاکستانی قوم ان پر چڑھائی نہ کر دے۔
یوں ایک مرتبہ پھر وہ ماسٹر خان کے دوست شہباز علی کے گھر رات کے کھانے پر موجود تھے۔
’’ اب ہمارے پاس صرف کل کا دن ہے جو انتہائی حساس مگر انتہائی اہم دن ہے جس میں ہمیں نہ صرف وقاص کی جان بچانی ہے بلکہ پاکستانی عوام کی جانوں اور ملکی سلامتی کا تحفظ بھی درپیش ہے لہٰذا ہمیں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔‘‘
ماسٹر خان کے چہرے پر وہی اطمینان موجود تھا جو ہمیشہ ان کے چہرے کی زینت بنا رہتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا اپنے رب پر یقین بہت پختہ تھا۔
رات کے کھانے کے بعد اب وہ شہر کے مرکزی بازار کا نقشہ پھیلا کر باقاعدہ منصوبہ بندی کررہے تھے۔
’’دشمن کے پلان کے مطابق شہر کا مرکزی بازار ان کا ہدف ہے جس میں مرکزی چوک پر سب سے زیادہ عوام کا ہجوم ہوتا ہے اور دوسرے نمبر پر بازار کا مرکزی دروازہ بھی مصروف ترین جگہ ہے۔ لہٰذا ذمہ داریوں کی ترتیب کے مطابق کل صبح دس بجے سب اپنی اپنی پوزیشن کچھ اس طرح سنبھالیں گے کہ بازار کی طرف آنے والی سڑک پر ثاقب اور باہر جانے والی سڑک پر میں نگرانی کروں گا اسی طرح شہر کے مرکزی چوک پر عمران اور بازار کے مرکزی دروازے پر زبیر کنٹرول سنبھالیں گے جبکہ ماسٹر خان ہم چاروں پر نہ صرف نظر رکھیں گے بلکہ کوئی اہم اطلاع ملتے ہی ہمیں آگاہ کریں گے۔جبکہبازار سے باہر جانے والے راستے پر گاڑی تیار رکھنا میری ذمہ داری ہوگی۔‘‘
شعیب نے نقشے کی مدد سے ساتھیوں کو تفصیلی پلاننگ سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’ شعیب بھائی اس پلاننگ میں دھماکے کا وقت واضح نہیں ہے۔‘‘ زبیر نے توجہ دلائی۔
’’ بالکل دھماکے کا حتمی وقت ہمیں معلوم نہیں ہے لیکن دشمن کی پچھلی پلاننگ اگر آپ کو یاد ہو تو اس میں دوپہر دو بجے کا وقت طے کیا گیا تھا اور عموماً اس وقت رش بہت زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم صبح دس بجے سے ڈیوٹی سنبھالیں گے اور جب تک مطلوبہ ہدف حاصل نہیں ہوتا ہم کسی صورت جگہ نہیں چھوڑیں گے البتہ ایک بجے سے تین بجے کے دوران انتہائی محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہوگی۔‘‘
*۔۔۔*
’’دیکھو تم لوگ میرے ساتھ جو کچھ کررہے ہو وہ نامناسب ہے ۔ دشمنی کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ عالمی سیکورٹی ایجنسی ہوتے ہوئے تم لوگوں کو یہ حرکتیں زیب نہیں دیتیں۔‘‘
صبح گیارہ بجے جب دو ایجنٹ اس کے کمرے میں اسے انجکشن لگانے آئے تو وہ ان پر غصے میں برس پڑا وہ انجکشن لگوانے پر قطعی تیار نہیں تھا۔
ایک بندھا ہوا انسان کتنی جدوجہد کرتا بالآخر وہ ان کی گرفت میں آگیا۔
’’میں مجاہد ہوں ہاں میں مجاہد ہوں۔۔۔ میں سینے پر گولی کھا کر شہید ہونا چاہتا ہوں۔ مجھے انجکشن لگا کر بے بسی کی موت مت مارو۔‘‘
وقاص کی بے بسی کے عالم میں سسکیاں نکل گئیں وہ صبح فجر سے اپنے رب کو یاد کررہا تھا۔ دعائیں مانگ رہا تھا اور پھر جیسے ہی سرنج اس کے بازو میں اتری یکدم اس پر غنودگی کے آثار نمایاں ہونے شروع ہو گئے اس عالم میں بھی وہ اپنے رب کو یاد کررہا تھا ۔ وقاص پر پے در پے آزمائشیں آرہی تھیں مگر اس کی زبان پر مسلسل اپنے رب کی حمد و ثنا جاری تھی۔
*۔۔۔*
’’ شعیب بھائی!میں اور عمران اپنی اپنی پوزیشن پر پہنچ چکے ہیں۔‘‘
بازار کے مرکزی دروازے پر پوزیشن سنبھالتے ہوئے زبیر نے اپنی اور عمران کی اطلاع شعیب کو دیتے ہوئے کہا۔
’’اوکے! ثاقب اور میں بھی اپنی اپنی پوزیشن پر موجود ہیں اور تم دونوں ہمیں بالکل واضح نظر آرہے ہو ۔ رابطے میں رہنا اوور۔۔۔‘‘
شعیب نے بھی مائیکرو فون پر زبیر اور عمران کو اپنی موجودگی کی اطلاع فراہم کی۔
دس بجے سے کھڑے کھڑے اب دوپہر کے سوا ایک بج چکے تھے اور اب تک کوئی ٹھوس خبر نہیں مل سکی تھی بالآخر ایک بج کر بیس منٹ پر ثاقب نے اطلاع دی کہ سیاہ شیشوں والی ایک ڈبل کیبن گاڑی قریب آکر کھڑی ہو چکی ہے جس کے پچھلے حصے میں تین افراد کالے چشمے لگائے بیٹھے ہیں اور تینوں مقامی افراد لگتے ہیں البتہ گاڑی کے اندر موجود افراد نظر نہیں آرہے اور غالب گمان یہی ہے کہ اسی گاڑی میں وقاص بھی موجود ہے۔‘‘
ثاقب کے پیغام کو بیک وقت سارے ممبران اور ماسٹر خان بھی سن رہے تھے اور اب سب کی نظریں ثاقب کی طرف تھیں جہاں سیاہ کلر کی ڈبل کیبن گاڑی بھی واضح نظر آرہی تھی اور ثاقب انجان بنا کسی ٹھیلے والے سے جوتا خریدنے کے لیے بھاؤ تاؤ کر رہا تھا۔
اسی دوران اچانک پچھلا دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک آدمی نیچے اتر آیا لیکن اسی لمحے ثاقب کی نظر وقاص پر پڑ چکی تھی جو پچھلی سیٹ پر خاموشی سے بیٹھا ہوا تھا۔
’’ثاقب اسپیکنگ ! گاڑی کی پچھلی سیٹ پر وقاص کو دیکھا جا چکا ہے ۔ ہائی الرٹ ۔۔۔اوکے۔‘‘ ثاقب کی آواز جیسے ہی سب کے کانوں تک پہنچی سب ہی یک دم چوکنے ہو گئے کیونکہ اب کسی غلطی کی کوئی گنجائش نہ تھی، زندگی اور موت کا کھیل شروع ہو چکا تھا جبکہ گوریلا فائٹرز پر زندگی میں اتنا کڑا وقت اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔
دروازہ ایک مرتبہ پھر کھلا اور اس مرتبہ گاڑی سے وقاص برآمد ہوا تھا اس نے نیلے رنگ کی ڈھیلی ڈھالی جیکٹ پہن رکھی تھی اور اب وہ گاڑی سے اتر کر مرکزی چوک کی طرف جا رہا تھا وہ بالکل اکیلا تھا اور بغیر کسی سہارے کے چل رہا تھا یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی ان دیکھی قوت اسے اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔
ثاقب نے ٹھیلا چھوڑا اور اب وہ بھی وقاص کے آگے پیچھے چلنے والے ہجوم میں شامل ہو کر وقاص کے قریب آتا جا رہا تھا۔
وقاص کو رکنے اور چلنے کی ساری ہدایات گاڑی میں بیٹھے افراد کی طرف سے مائیکرو فون پر مل رہیں تھیں اور وہ خراماں خراماں مرکزی چوک کی جانب بڑھ رہا تھا۔
ایک بج کے چالیس منٹ ہو چکے تھے ۔ ثاقب غیر محسوس انداز میں وقاص کے بالکل قریب آچکا تھا جبکہ عمران اور زبیر بھی وقاص کے بہت نزدیک آچکے تھے۔ ثاقب کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ موت کے پہلو میں چل رہا ہوکیونکہ کسی وقت بھی دھماکہ ہو سکتا تھا اور اس کے بعد۔۔۔ اچانک اسے شعیب کا پیغام موصول ہوا۔
’’ثاقب! تم اور زبیر دونوں وقاص سے ٹکرا کر اسے نیچے گراؤ گے اور فوری طور پر بم کو اندر پہنی ہوئی چھوٹی جیکٹ سے علیحدہ کرکے اپنے عقب میں موجود عمران کے حوالے کرو گے جسے وہ ناکارہ بنائے گا اور اسی دوران تم دونوں وقاص کو اٹھا کر گاڑی تک لاؤ گے ۔ وہ بے انتہا مزاحمت کرے گا مگر اسے کسی صورت بھی نہیں چھوڑنا ورنہ کام بگڑ جائے گا۔
ہمارے پاس اب کل بارہ منٹ ہیں وقت کا خیال رکھنا ٹھیک دو بجے بم بلاسٹ ہو سکتا ہے۔
ون ٹو تھری ریڈی۔۔۔‘‘
شعیب کے ریڈی کہتے ہی سامنے سے آتا ہوازبیر ، وقاص سے ٹکرا گیا اور بقیہ گرنے کی کسر ثاقب نے نیچے سے ٹانگ مار کر پوری کر دی۔ وقاص زمین پر گر چکا تھا اور اب راہ چلتے لوگ وقاص کے اردگرد جمع ہونے شروع ہو چکے تھے۔ ثاقب نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیسے ہی وقاص کی لمبی نیلی جیکٹ کی زپ کھولی اندر گرین کلر کی چھوٹی سی جیکٹ کے ساتھ منسلک ٹائم بم جھانک رہا تھا۔ وقاص کی مزاحمت جاری تھی جس کے جواب میں زبیر وقاص کے ہاتھ پاؤں پکڑ کر اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ اسی اثنا میں ثاقب نے بم کھینچ کر جیکٹ سے علیحدہ کر دیا اور اپنے پیچھے موجود عمران کی طرف بڑھا دیا۔ اور وقاص کو اٹھا کر دونوں گاڑی کی طرف دوڑ پڑے۔
عمران نے بم کو ہاتھ میں لیتے ہی سب سے پہلے وقت دیکھا تو وہاں ۵۳:۱ کے ہندسے جگمگا رہے تھے یعنی بم بلاسٹ ہونے میں صرف سات منٹ باقی تھے اس نے ایک نظر بم کو دیکھا وہ کوئی معمولی بم نہ تھا بلکہ ہر طرف سے مضبوط جکڑا ہوا بم تھا جسے چھوٹے موٹے اوزار یا ہاتھ سے ناکارہ بنانا بالکل ناممکن تھا۔ عمران کو پچھلے سال فلسطین کے علاقے بن گورین میں ٹائم بم والا واقعہ یاد آگیا جسے ناکارہ بنانے میں ناکامی پر اس نے اسے اسرائیلی فوجیوں کی طرف رومال کی مدد سے پھینکا تھا۔ اسی دوران اس نے فوراً ایک فیصلہ کیا اور دشمن کی سیاہ کلر کی ڈبل کیبن گاڑی کی طرف نظریں گاڑ دیں جو وقاص کی طرف متوجہ تھے اور یہ گمان کررہے تھے کہ بم وقاص سے منسلک ہے اور اب تباہی پھیلنے کو ہے۔ وہ عمران کی طرف سے بے پرواہ تھے اسی لمحے کا فائدہ عمران نے اٹھایا اور تیزی سے دشمن کی گاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔ ابھی وہ چالیس قدم کے فاصلے پر ہی تھا کہ دشمن کے سارے ایجنٹ جلدی جلدی گاڑی میں بیٹھنے لگے۔ وہ دھماکے سے پہلے فرار ہونا چاہتے تھے۔ عمران تیزی سے قریب آیا تو گاڑی اسٹارٹ ہو کر چل پڑی تھی۔ عمران نے ٹائمر میں لگا وقت دیکھا تو وہاں چند سیکنڈ باقی تھے اور گاڑی آہستہ آہستہ رفتار پکڑ رہی تھی۔
شعیب، زبیر ، ثاقب اور ماسٹر خان وقاص کو گاڑی میں لٹا کر اب عمران کی طرف دیکھ رہے تھے جو دشمن کی گاڑی کی طرف بڑھتا چلا جا رہا تھا۔
’’عمران بم پھینک دو وقت ختم ہو چکا ہے۔‘‘ شعیب کی آواز آئی۔
عمران نے ایک مرتبہ پھر ٹائمر کی طرف دیکھا تو وہاں چھ سیکنڈ باقی تھے اس نے دو سیکنڈ اور انتظار کیا اور پھر بم گاری کے پچھلے حصے کی طرف اچھال دیا۔
گاڑی کے پچھلے حصے میں موجود افراد اس اچانک آفت سے بوکھلا اٹھے مگر اگلے ہی لمحے ایک زبردست دھماکہ ہوا اور گاڑی ڈرائیور کے کنٹرول سے باہر ہوتے ہوئے فٹ پاتھ سے رگڑتی چلی گئی۔۔۔
*۔۔۔*
کان پھاڑ دینے والے دھماکے کے ساتھ ہی عمران کو اپنے چہرے پر جھلسادینے والی تپش محسوس ہوئی اور یکایک بھگدڑ مچ گئی۔ بم پھینکنے سے پہلے وہ کلمہ پڑھ چکا تھا کیوں کہ اسے اپنے بچنے کی کوئی خاص امید نہ تھی لیکن حیرت انگیز طور پر نہ صرف وہ محفوظ رہا تھا بلکہ اب عوامی افراتفری کا فائدہ اٹھا کر وہ بازار سے باہر جانے والی سڑک کی طرف دوڑ رہا تھا جہاں شعیب نے گاڑی تیار رکھی ہوئی تھی اور پھر جیسے ہی اس نے اچھل کر گاڑی کے پائیدان پر قدم رکھا شعیب نے ایک جھٹکے سے گاڑی آگے بڑھادی اور ایکسیلیٹر پر دباؤ بڑھاتے ہی گاڑی ہوا سے باتیں کرنے لگی۔
’’عمران تم ٹھیک تو ہو نا؟‘‘ عمران کو نڈھال ہو کر سیٹ کی پشت سے ٹیک لگاتے دیکھ کر زبیر نے فوراً اس کا ہاتھ تھام کر سہلاتے ہوئے کہا۔
’’اوہ میرے خدا! اس کے کندھے پر تو کافی بڑا زخم ہے‘‘۔ عمران کے سامنے کی طرف بیٹھے ثاقب کی نظر جیسے ہی اس کے کندھے کی طرف گئی وہاں سے بہتا ہوا خون اس کی قمیض کو تیزی سے رنگین کررہا تھا، وہ اچانک چیخ پڑا۔
اور عمران اپنے زخم سے قطعی بے پرواہ آنکھیں موندے پڑا تھا کیوں کہ معجزاتی طور پر جان بچ جانے کے بعد اب بڑے سے بڑے زخم کی بھی کیا حیثیت تھی اور ویسے بھی وہ کامیاب لوٹا تھا اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد تکلیف کا احساس ختم ہوجاتا ہے جبکہ ناکامی کے بعد چھوٹا سا زخم بھی بڑی تکلیف دیتاہے اور کچھ ہی دیر بعد وہ کامیابی سے سرشار شہباز انکل کے گھر پہنچ چکے تھے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
دھماکے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور ایمبولینسز کے علاوہ شہر بھر کا میڈیا اور ٹی وی چینلز کے نمائندے اپنی ٹیم کے ہمراہ جائے حادثہ پر پہنچ چکے تھے، مختلف ایجنسیاں اور تحقیقاتی ادارے بھی پہنچنا شروع ہوگئے اور بم دھماکے سے ہونے والے نقصان کا اندازہ اور تحقیقاتی اطلاعات آگے پہنچا رہے تھے۔
ایک چینل کا نمائندہ براہ راست رپورٹنگ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
’’اب سے کچھ دیر قبل ہونے والے بم دھماکے میں چار افراد ہلاک اور بارہ زخمی ہوئے ہیں، لیکن حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ دھماکا کرنے والے کون لوگ تھے جبکہ متاثرہ گاڑی سے بھی کچھ اسلحہ اور حساس آلات برآمد ہوئے ہیں جو ہلاک شدگان کو بھی مشکوک بناتے ہیں۔ یاد رہے کہ متاثرہ گاڑی میں کل سات افراد سوار تھے جن میں سے چار ہلاک، دو زخمی اور ایک لاپتا ہے، زخمی ہونے والے دو افراد میں سے ایک غیر ملکی اور دوسرا مقامی ہے، تمام زخمیوں کو پولیس کی حفاظت میں قریبی ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے جبکہ صحیح صورتحال جاننے کے لیے ہمیں خود کار کیمرے یعنی CCTV فوٹیجز کا انتظار ہے جو عنقریب منظر عام پر آجائیں گی۔‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*
’’کیا کہہ رہے ہو تم مسٹر گرین شیروف؟ تمہارا دماغ تو درست ہے؟‘‘
آپریشن کی ناکامی کی خبر سنتے ہی ایجنسی کے سربراہ پرنس ایریل کا پارہ اچانک ہائی ہوگیا اور وہ زخموں سے چور گرین شیروف پر برس پڑا۔
’’یس سر! وہ لوگ انسان نہیں بلکہ کوئی دوسری مخلوق ہیں شاید ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے میں نے خود بڑی مشکل سے بھاگ کر اپنی جان بچائی ہے۔
’’کیا بکواس کررہے ہو تم؟ پرنس ایریل غصے سے مسٹر گرین کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔
’’سر آپ میری بات کا یقین کریں میں نے خود ان سب کو ان کے ہیڈ آفس سمیت آگ لگا کر ختم کیا تھا لیکن وہ لوگ نہ صرف زندہ ہیں بلکہ انہوں نے نہایت کامیابی سے ہمارے سارے پلان کو ناکام بنادیا ہے اور سب سیکنڈوں میں ہوا ہے سر سیکنڈوں میں‘‘۔
گرین شیروف کے چہرے پر ابھی تک ہوائیاں اڑ رہی تھیں وہ خود بھی کافی زخمی تھا۔
’’کیا ہورہا ہے یہ سب، مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا۔ میری۔۔۔ یعنی زی ورلڈ وائڈ کے سربراہ کی پلاننگ فیل ہوگئی، اوہ شٹ،
میں تم سب کی ایسی کی تیسی کردوں گا اور یہ بتاؤ کہ تمہارے باقی ساتھی کہاں ہیں؟‘‘
پرنس ایریل غصے سے تلملاتے ہوئے کمرے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چکر کاٹنے کے دوران دھاڑ رہا تھا۔
’’سر انہوں نے حیرت انگیز طور پر بم کو جیکٹ سے علیحدہ کرکے واپس ہماری گاڑی کی طرف پھینک دیا تھا میں اگلی سیٹ پر بیٹھا تھا لہٰذا فوراً نکل بھاگا مجھے نہیں لگتا کہ ڈرائیور کے علاوہ بھی کوئی زندہ بچا ہوگا‘‘۔
مسٹر گرین بے بسی کی تصویر بنا کھڑا جواب دے رہا تھا اور پرنس ایریل کو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے کسی نے اس کے جسم کا سارا خون نچوڑ لیا ہو۔
*۔۔۔*
’’ملک کی مختلف مصروف شاہراہوں اور عوامی مقامات پر لگائے گئے خود کار کیمروں یعنی سی سی ٹی وی کی مدد سے حاصل ہونے والے فوٹیجز اور ویڈیو کلپس آپ اپنے ٹیلی ویژن اسکرین پر ملاحظہ کررہے ہوں گے جس میں ایک نو عمر لڑکے نے جس کی تصویر زیادہ واضح نہیں ہے، ایک سیاہ ڈبل کیبن گاڑی کی طرف کوئی چیز پھینکی ہے جو یقیناًبم ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں جس کے بعد گاڑی کے پچھلے حصہ کی طرف بیٹھے ہوئے افراد نہ صرف دھماکے سے اڑگئے ہیں بلکہ گاڑی بھی بے قابو ہو کر فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے راہ گیر حضرات پر چڑھ دوڑی ہے جس سے کئی افراد بھی زخمی ہوئے ہیں‘‘۔
گوریلا فائٹر کے ممبران ماسٹر خان اور شہباز انکل سب ٹی وی پر نشر ہونے والی خبریں اور ویڈیو کلپس دیکھ رہے تھے اور عمران کی حیرت انگیز گوریلا کارروائی کو بہت قریب سے دیکھتے ہوئے سراہ رہے تھے۔
’’یہ ایک دوسری فوٹیج ہے جو دھماکے سے تقریباً بیس منٹ پہلے کی ہے یہ فوٹیج گاڑی اور اس میں سوار افراد کو مشکوک ٹھہراتی ہے، یہ دیکھیے اسی ڈبل کیبن گاڑی سے ایک لڑکا نمودار ہوا ہے آپ غور کیجئے کہ اس لڑکے نے موسم کے اعتبار سے ہلکا لباس پہننے کے بجائے نیلے رنگ کی لمبی جیکٹ پہنی ہوئی ہے اور یوں محسوس ہورہا ہے جیسے وہ خو نہیں چل رہا بلکہ زبردستی چلایا جارہا ہے اور عام طور پر خودکش بمبار اس طرح کے لباس کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ لڑکا بازار کے مصروف ترین مقام مرکزی چوک کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ دیکھیے سامنے کی جانب سے آتے ہوئے ایک دوسرا لڑکا اس سے آٹکرایا اور اسے لے کر نیچے گرا ہوا ہے کافی سارے لوگ اب جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں اور یہ دیکھیے کوئی چیز پیچھے کھڑے لڑکے ہاتھ میں تھمائی گئی ہے اور وہ لڑکا اسے لے کر ہٹ گیا ہے۔ اندازہ یہ ہوتا ہے کہ خودکش بمبار کی جیکٹ سے بم علیحدہ کرکے نہ صرف نکال لیا گیا ہے بلکہ اسی بم کے ذریعے ڈبل کیبن گاڑی کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اس کے بعد دو تین لڑکے اسی نیلی جیکٹ والے لڑکے کو لے کر ایک دوسری گاڑی کی طرف بھاگ رہے ہیں جو بازار سے باہر جانے والے راستے کی طرف کھڑی ہے۔ صورتحال کافی حد تک واضح ہے لیکن سوالات پھر بھی اپنی جگہ موجود ہیں کہ حملہ آور لوگ کون تھے؟ خودکش حملہ آور کو کہاں لے جایا گیا ہے؟ اور فوٹیجز میں نظر آنے والے لڑکے جنہوں نے بظاہر خودکش حملے کو ناکام بنایا ہے کون تھے اور کہاں روپوش ہوگئے ہیں؟مزید تفصیلات جاننے کے لیے ہمارے ساتھ رہیے گا‘ اللہ نگہبان‘‘۔
تمام افراد جو پلک چھپکائے بغیر ساری رپورٹ دیکھ رہے تھے اچانک وقاص کی طرف متوجہ ہوگئے جو ہوش میں آنے کے بعد شاید پوری رپورٹ بھی ان کے ساتھ سن اور دیکھ چکا تھا اور اب اس کی سسکیوں کی آواز گونج رہی تھی۔
’’کیا ہوا وقاص۔۔۔ طبیعت کیسی ہی تمہاری؟‘‘
شعیب نے جلدی سے آگے بڑھ کر وقاص کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’شعیب بھائی یہ میں کیا کرنے جارہا تھا؟ آخر مجھے کیا ہوگیا تھا؟ میری کچھ سمجھ نہیں آرہا شعیب بھائی۔۔۔!
وقاص آنسو اور سسکیوں کے ساتھ روتے ہوئے بولا اور شعیب نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا اور تسلی دینے لگا اور باقی ساتھی بھی قریب آگئے۔
’’وقاص! میرے بھائی! بھلا تمہارا اس میں کیا قصور ہے تم تو خود مصیبت میں گرفتار تھے جو کچھ بھی ہوا بہت اچھا ہوا اسی میں اللہ کی مصلحت تھی۔
’’ہاں اور کیا؟ تم نے دیکھا نہیں کہ دشمن کا کتنا بھیانک انجام ہوا ہے اور انشاء اللہ وہ اب اتنی آسانی سے دوبارہ سر نہیں اٹھاسکیں گے۔‘‘
ماسٹر خان بھی وقاص کی پیٹھ پر تھپکی دیتے ہوئے بولے۔
’’میں نہیں بھول سکتا جس طرح انہوں نے انجکشن کے ذریعے میرے اعصاب کو مفلوج کرکے مجھے بالکل بے بس کردیا تھا میں مجبور تھا انتہائی مجبور‘‘۔
وقاص بے بسی کے لمحے یاد کرکے پھر روہانسا ہوگیا۔
’’اوکے یار! اب پرانی باتیں یاد کرکے دل خراب نہ کرو بلکہ ہمیں کامیابی کو یاد کرکے انجوائے کرنا چاہیے اور اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہونا چاہیے جس نے ہمیں ایک مرتبہ پھر سرخرو کرکے دشمن کو دوبارہ نامراد بنادیا ہے‘‘۔
زبیر نے وقاص کے گال تھپتھپاتے ہوئے کہا تو وقاص کے چہرے پرمسکراہٹ کھیلنے لگی جسے دیکھ کر سب خوش ہوگئے۔
’’یہ کس کا گھر ہے اور یہ انکل کون ہیں اور ہم اپنے ہیڈ کوارٹر میں کیوں نہیں گئے؟۔ وقاص نے کافی دیر بعد گھر کا جائزہ لیتے ہوئے شہباز انکل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور سلام کے لیے ہاتھ آگے بڑھادیا۔
’’وقاص بیٹا! یہ میرے دوست شہباز علی ہیں اور یہ ان ہی کا گھر ہے اور یہ آپ سب کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ اس وقت سے جانتے ہیں جب آپ لوگ ملک سے باہر کارروائیوں میں مصروف تھے اور یہاں بیٹھے آپ کے لیے دعا اور دوا دونوں کررہے تھے اور اب جبکہ دشمن نے ہمارا ہیڈ کوارٹر جلا ڈالا ہے تو ہمیں انہوں نے پناہ دی ہوئی ہے‘‘۔
ماسٹر خان نے وقاص کے تینوں سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا تو وقاص ایک مرتبہ پھر دونوں ہاتھوں سے منہ ڈھانپ کر رونے لگا۔
’’ارے ارے بھیا! کیا ہوگیا اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ اللہ کے راستے میں شہادت مل جائے تب بھی ہم کو خوش ہونا چاہیے اور یہ تو ایک مکان تھا اس پر بھلا کیا افسوس کرنا اور ویسے بھی ہم دوسرے ہیڈ کوارٹر کا بندوبست کرچکے ہیں‘‘۔
عمران زخمی ہونے کے باوجود وقاص کو روتا دیکھ کر اٹھ بیٹھا اور اسے سمجھاتے ہوئے بولا تو وقاص کہنے لگا۔
’’عمران بھائی! مجھے مکان کے جلنے کا افسوس نہیں اگر رونا ہوتا تو اپنے گھر کے تباہ ہونے پر روتا مگر خدا کی قسم میں نے اپنے گھر کے جلنے پر ایک آنسو بھی نہیں بہایا بلکہ یہ تومیرے لیے سعادت کا باعث ہے کہ اللہ کے راستے میں میرا گھر کام آگیا‘‘۔
’’ پھر بھلا کیوں روئے تم؟‘‘ عمران نے بے ساختگی سے پوچھا۔
’’مجھے گرفتار کرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھ گچھ کی بہت سختی کی مگر میں نے انہیں کچھ نہ بتایا پھر ان کا سربراہ امریکا سے آیا پرنس ایریل اس نے مجھ سے راز اگلوانے کی کوشش کی جس کے جواب میں میں نے اسے خوب کھری کھری سنائی اور وہ تلملا کر رہ گیا جس کا بدلہ اس نے مجھ سے اس طرح لیا کہ انجکشن لگا کر میرے اعصاب کو ناکارہ کردیا‘‘۔
وقاص کی گفتگو جاری تھی کہ ثاقب بولا۔
’’ہاں ہم نے تمہاری گفتگو مائیکرو فون چپ کے ذریعے سنی تھی تم نے پرنس ایریل کے بھی خوب دانت کھٹے کیے تھے‘‘۔
’’لیکن اس کا بدلہ اس نے مجھ سے اس طرح لیا کہ انجکشن لگا کر میرے اعصاب کو ناکارہ کردیا اور مجھے کچھ یاد پڑتا ہے انہوں نے سوالات پوچھے تھے جس کے میں نے جوابات بھی دیے تھے اور شاید ا پنے ہیڈ کوارٹر کا پتا بھی بتادیا تھا جس کے سبب انہوں نے اسے جلاڈالا اور اب میں آپ کا مجرم ہوں اور اپنے آپ کو آپ کی عدالت میں پیش کرتا ہوں آپ لوگ مجھے جو بھی سزا دیں گے مجھے قبول ہوگی‘‘۔
اور پھر تیسری مرتبہ وقاص رودیا جسے دیکھ کر زبیر یکدم کھڑا ہوگیا اور وقاص کو گریبان سے پکڑ کر کھڑا کردیا اور غصے سے چلانے لگا اور سب لوگ حیرت سے ہکا بکا رہ گئے۔
’’اچھا تو وہ تم تھے جس نے ہم سب کی جانوں کو خطرے میں ڈالا تھا جانتے ہو جس وقت وہ ہیڈ کوارٹر کو آگ لگارہے تھے ہم سب اندر موجود تھے اور ہم نے چھتوں کو پھلانگ کر اپنی جان بچائی تھی۔ ہم تمہاری جان بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے اور تم نے ہماری جانوں کا سودا کر ڈالا، بس بہت ہوچکا، دیکھ لی تمہاری دوستی اور دیکھ لی تمہاری وفاداری‘‘۔
وقاص رونا دھونا بھول کر زبیر کے سخت جملے سن رہا تھا اور سارے لوگ حیرانی و پریشانی سے زبیر کے ہاتھ سے وقاص کا گریبان چھڑانے کی کوشش کرنے لگے اور ثاقب نے زبیر کا دوسرا ہاتھ پکڑ رکھا تھا کہ کہیں غصے میں وقاص پر ہاتھ نہ چھوڑ دے پھر یکایک زبیر کے منہ سے ہنسی کا فوارہ پھوٹ پڑا کیوں کہ وہ اس سے زیادہ سنجیدہ اداکاری کا مظاہرہ نہیں کرسکتا تھا اور پھر وقاص کا گریبان چھوڑ کر اسے گلے لگاتے ہوئے بولا۔
’’یار تو بار بار اپنے آپ کو مجرم ٹھہرا کر خود بھی روتا ہے اور ہمیں بھی رلاتا ہے تو کیا سمجھتا ہے ہمیں کچھ نہیں پتا؟ کیا ہم کچھ نہیں جانتے؟ کیا ہم تجھے کبھی سزا دے سکتے ہیں؟ سزا تو دور کی بات تیرا گریبان کیا پکڑلیا تو بھی اپنا رونا دھونا بھول گیا اور سارے لوگ مجھے غصے سے گھورنے لگے، یار! تجھے کوئی ہاتھ لگا کر تو دیکھے، اس کے ہاتھ نہ توڑ دیے تو میرانام بھی زبیر نہیں‘‘۔
یہ کہہ کر زبیر آنسوؤں سے رونے لگا اور اس مرتبہ وقاص نے آگے بڑھ کر زبیر کو گلے لگالیا اور کچھ ہی دیر میں محفل زعفران زار بن گئی۔
*۔۔۔*
امریکی ریاست شمالی کیرولینا کے مضافات میں چھ ہزار ایکڑ پر پھیلا ہوا زی ورلڈ وائڈ کا ہیڈ کوارٹر اور ٹریننگ کیمپ واقع ہے جہاں پچھلے تین گھنٹوں سے خفیہ ایجنسی کے کور کمانڈرز کا اعلیٰ سطحی اجلاس جاری تھا اور ایجنسی کا سربراہ پرنس ایریل کی گفتگو جاری تھی اور وہ اس بات پر بضد تھا کہ زون تھری (پاکستان) میں ہمیں وقتی طور پر اپنی تمام کارروائیں بند کردینی چاہیں۔
’’ناقابل یقین! ان کی کارروائیاں حیرت انگیز ہیں بلکہ ہیبت ناک کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا‘‘۔
’’وہ کیسے سر‘‘۔ ایک کمانڈر نے سوال پوچھا۔
’’وہ اس طرح کہ میں نے ان کی کارروائیوں کے جواب میں اپنے ایجنٹس کے چہروں پر ہیبت کے آثار اور خوف کے سائے دیکھے ہیں لہٰذا گوریلا فائٹرز اور ان کے مہربانوں کو ختم کیے بغیر وہاں کام کرنا اپنی پوزیشن کو مزید خراب کرنے کے مترادف ہوگا‘‘۔ پرنس ایریل مسلسل اپنی بات پر مصر تھا۔
’’سر ہمارے ایجنٹس دنیا بھر میں اپنی پیشہ وارانہ اور ذہانت کا لوہا منواچکے ہیں پھر یہ ہیبت اور خوف کیسا ہے؟ اور دوسری بات یہ کہ اس طرح اچانک پورے زون تھری میں کام روک دینے کا کیا جواز ہم اسرائیل کے سامنے پیش کریں گے؟‘‘ ایک اور اعلیٰ افسر نے پرنس ایریل کو سمجھاتے ہوئے کہا کیوں کہ ان میں سے کوئی زون تھری کا کام مکمل بند کرنے پر تیار نہیں تھا۔
’’تم لوگ حالات کی نزاکت کا اندازہ کرو میں خود وہاں سے ہو کر آیا ہوں وہاں میری پلاننگ تک فیل ہوچکی ہے، ہمارے فوجی نفسیاتی مریض بنتے جارہے ہیں۔
سب سے پہلے ہمارے بہترین سپر کمانڈر کے سروں کا انتہائی مہارت سے شکار کھیلا گیا۔ اس کے چند دنوں بعد دارالحکومت میں واقع ہمارا زونل ہیڈ کوارٹر تباہ کردیا گیا، اسی دوران ہم نے کراچی سے ان کا ایک ننھا منا کارکن اغوا کیا جس کا پندرہ منٹ بعد ہی انہوں نے انتقال لیتے ہوئے ہمارا زونل کمانڈر انچیف ڈیوڈ شیراک موت کے گھاٹ اتاردیا اور ہمارے ایجنٹس کی موجودگی میں خاموشی سے فرار ہوگئے۔
ہم نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ان سب کو ان کے ہیڈ کوارٹر سمیت آگ لگا کر جلاڈالا لیکن شاید زمین میں سرنگ تھی یا آسمان میں سیڑھی بہرحال وہ ہمارے پہرے کے باوجود حیرت انگیز طور پر نہ صرف فرار ہوگئے بلکہ ہمارے اگلے خودکش حملے کے پلان کو ناکام بناتے ہوئے اپنے ساتھی کو بھی بحفاظت نکال لے گئے اور ہمارا بم ہمارے ہی سروں پر مار گئے اور پوری دنیا میں ہمارا تماشا بن گیا جس کی رپورٹ آپ سب دیکھ چکے ہیں‘‘۔
پرنس ایریل نے جذباتی انداز میں پوری تقریر کرڈالی جسے سن کر سارے کور کمانڈر ششدر رہ گئے کیوں کہ جس ہیبت اور خوف کا ذکر پرنس ایریل اب سے کچھ دیر پہلے کررہا تھا وہ خود اس کے چہرے پر نمایاں نظر آرہا تھا اور پھر تین ماہ کے لیے زون تھری کا مکمل آپریشن منجمد کردیا گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اگلے دن دوپہر کے کھانے کے بعد سارے خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ اچانک ماسٹر خان کا موبائل فون بج اٹھا۔
’’ہیلو کرنل امتیاز کیسے ہو۔ سناؤ کیسے یاد کیا؟‘‘ ماسٹر خان موبائل کی اسکرین پر پاکستانی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کرنل امتیاز کا نام دیکھتے ہی خوشی سے بولے۔
’’خان میری بات غور سے سنو ہماری ہمدردیاں اب بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہیں لیکن اوپر سے زبردست احکامات ہماری ایجنسی کو ملے ہیں جن میں آپ اور آپ کی ٹیم کی کارروائیوں کو روکنا، آپ لوگوں پر نظر رکھنا اور مزید کسی بھی خون خرابے اور ٹکراؤ کو روکنا شامل ہے کیوں کہ حکومت پر عالمی طاقتوں کا زبردست دباؤ ہے اور وہ اب کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں اسی لیے میری آپ سے گزارش ہے فی الحال ہر قسم کی کارروائی اور نقل و حرکت ختم کردو اور وقت کا انتظار کرو اور ہوسکے تو وقتی طور پر یہ ملک چھوڑ دو کیوں کہ دوسری پرائیویٹ ایجنسیاں بھی تم لوگوں کی تلاش میں ہیں۔ اوکے۔ پھر ملاقات ہوگی۔ خدا حافظ‘‘۔
ماسٹر خان، کرنل امتیاز کی گفتگو کے دوران صرف ہاں، ہوں کرتے رہے اور دوسری طرف سے فون رکھ دیا گیا۔ ماسٹر خان کے چہرے پر فکر کے سائے لہرانے لگے اور ماتھے پر معمول کے برخلاف بل پڑ گئے تھے۔
’’ کیا ہوا ماسٹر خان آپ کچھ فکر مند سے نظر آرہے ہیں۔ کیا کہہ رہے تھے کرنل امتیاز؟‘‘ شعیب ماسٹر خان کی کیفیت بھانپتے ہوئے بولا۔
’’فی الحال ہمارے لیے اس ملک میں رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے کیوں کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی نے ہمارے سر سے ہاتھ اٹھالیا ہے، کرنل امتیاز کا کہنا ہے کہ اب اپنی حفاظت خود کیجئے جبکہ حکومت کی طرف آپ لوگوں کے لیے انتہائی سخت احکامات دیے گئے ہیں‘‘۔
ماسٹر خان نے مختصراً ساری گفتگو پیش کرتے ہوئے کہا تو سارے ممبران سوچ میں پڑ گئے کیوں کہ پاکستان میں سب سے زیادہ یہی ایجنسی ان کے ساتھ تعاون کرتی تھی جس کی وجہ سے بڑے سے بڑا کام بھی منٹوں میں حل ہوجاتا تھا۔
اسی دوران ثاقب بولا۔
’’میرے خیال میں ہم بلاوجہ پریشان ہورہے ہیں کیوں کہ ویسے بھی اب ہمیں زیادہ عرصہ یہاں نہیں رہنا اور ماسٹر پلان کی تلاش میں آگے سفر کرنا ہے جس کی معلومات ہم ڈیوڈ شیراک سے لے چکے ہیں‘‘۔
’’لیکن فوری طور پر تو ہم سب لوگ خطرے میں ہیں اور ہماری نگرانی شروع ہوچکی ہوگی‘‘۔ عمران فکر مندی کے ساتھ اپنے ہونٹ چباتے ہوئے بولا۔
’’نہیں! میرے خیال میں فی الحال ایسا کچھ نہیں ہوگا اور ثاقب کی بات بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے، بس ہمیں راتوں رات یہاں سے نئے ہیڈ کوارٹر منتقل ہو کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا اور پاک سرزمین کو خیر باد کہنا ہوگا اور انشاء اللہ ہم بہت جلد واپس پاکستان لوٹیں گے، سلامتی کے پروانے لے کر، بس اب جلدی سے تیاریاں مکمل کرو اتنی دیر میں میں نئے ہیڈ کوارٹر کے انتظامات مکمل کرلوں گا‘‘۔
ماسٹرخان نے دو ٹوک فیصلہ کرتے ہوئے کہا اور سب اپنی اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
رات کا اندھیرا چھاتے ہی ماسٹر خان کی رہنمائی میں گوریلا فائٹرز کے ممبران شہباز انکل کو الوداع کرکے جیسے ہی باہر نکلے خفیہ ایجنسی کے اہلکار مکان کو گھیرے میں لے چکے تھے ہوٹر لگی کئی گاڑیاں جمع ہونا شروع ہوگئی تھیں، خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کی اسٹین گنیں گوریلا فائٹرز کے سینوں کی طرف اٹھی ہوئی تھیں۔ ایک گاڑی سے اعلان ہورہا تھا۔
’’خبردار کوئی بھاگنے کی کوشش نہ کرے کسی بھی حرکت کے جواب میں گن کا منہ کھول دیا جائے گا‘‘۔
اور پھر بے بسی کی حالت میں ماسٹر خان اور گوریلا فائٹرز نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھادیے، انہیں یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اپنوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے پر زی ورلڈ وائڈ کا سربراہ پرنس ایریل ان کی بے بسی پر قہقہے لگارہا ہو۔۔۔
*۔۔۔*
’’اوہ! مارے گئے بھیا۔ یہ تو پاکستانی ایجنسی کے اہلکار ہیں‘‘۔ہینڈز اپ کی آواز سنتے ہی عمران نے ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے زبیر کے کان میں سرگوشی کی۔
’’واقعی تم صحیح کہہ رہے ہو یہ تو ہمارے ہی پاکستانی بھائی ہیں۔ کیا اب ہمیں اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں مروایا جائے گا۔‘‘ زبیر نے مسلح اہلکاروں کے چہروں کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔یکایک ان سب کی نظریں کرنل امتیاز پر پڑیں جو اپنی گاڑی سے اتر رہے تھے، جنہوں نے اب تک ان سب کا بھرپور ساتھ دیا تھا اور اب گرفتار کروانے میں بھی ان کا ہی ہاتھ آرہا تھا کیوں کہ اس وقت وہ آپریشن کی قیادت کررہے تھے۔
’’ماسٹر خان، وہ دیکھیے امتیاز انکل۔ یقیناًاس آپریشن کی قیادت وہی کررہے ہیں‘‘۔ وقاص قدرے بلند آواز سے بولا۔
’’اوہ میرے خدا! یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں یہ تو واقعی کرنل امتیاز ہے جس نے آج ہی مجھے فون کرکے ہوشیار رہنے کا مشورہ دیا تھا اور اب۔۔۔ مجھے یقین نہیں آرہا، کرنل امتیاز ایسا نہیں کرسکتا۔ وہ ہم سے غداری نہیں کرسکتا میں اس سے بات کروں گا‘‘۔
ماسٹر خان نے حیرانی و پریشانی کے عالم میں کرنل امتیاز کی طرف دیکھا اور بات کرنے کے لیے آگے بڑھ ہی رہے تھے کرنل امتیاز کو اپنی طرف آتا دیکھ کر رک گئے۔
’’کرنل یہ تم نے ہمارے ساتھ کیا کیا؟‘‘ کرنل امتیاز کے قریب آتے ہی ماسٹر خان نے کرنل امتیاز کا سلام کے لیے بڑھتا ہوا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
’’خان! یہ وقت باتوں کا نہیں، باتیں کسی اور دن کریں گے، میری بات غور سے سنو، تم لوگوں کی مخبری اسی گھر سے ہوئی ہے اور اس آپریشن کی کمانڈ جان بوجھ کر میں نے لی ہے تاکہ تم لوگوں کو بحفاظت فرار کا راستہ دے سکوں ورنہ دوسری صورت میں تم لوگوں کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے احکامات دیے جاچکے ہیں کیوں کہ زی ورلڈ وائڈ نے حکومت کے چند بااثر لوگوں کے ساتھ مل کر تمہاری گرفتاری کا منصوبہ بنایا ہوا ہے اور ان شاء اللہ میرے ہوتے ہوئے ان کا یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے گا، لہٰذا تم لوگ فوراً یہ علاقہ چھوڑ دو ہم تھوڑی بہت تلاشی لینے کے بعد اس مکان کو کلیئر کردیں گے اور اعلیٰ حکام کو یہ تاثر دیں گے کہ اطلاع درست نہیں تھی یا پھر وہ ہمارے آنے سے پہلے ہی فرار ہوچکے تھے‘‘۔
کرنل امتیاز کی گفتگو جاری تھی اور ماسٹر خان کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو جھلملا رہے تھے وہ بولے۔
’’کرنل! مجھے خوشی ہے کہ تم نے اس کڑے وقت میں بھی ہمارا ساتھ دیا اور مجھے یقین تھا کہ تم حق کا ساتھ دو گے‘‘۔
دوسری طرف کرنل امتیاز ماسٹر خان کی باتوں سے بے نیاز جلدی جلدی اپنے سپاہیوں کو مکان میں داخل ہونے اور پوزیشنیں لینے کی ہدایات دینے لگا شاید ماسٹر خان کی طرف سے تعریفی کلمات اور شکریہ کے اظہار کے ذریعے وہ اپنے اجر کو ضائع کرنا نہیں چاہ رہا تھا۔
گوریلا فائٹرز کے پانچوں ممبران حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیات میں کرنل اور ماسٹر کی باتیں سن رہے تھے اور وقاص تو اتنا مدہوش تھا کہ ابھی تک ہینڈز اپ کی پوزیشن میں کھڑا تھا۔
’’ارے ہاتھ تو نیچے کرلو اب مرواؤ گے کیا؟ کیا اسکول میں ہاتھ اوپر کرنے کی مشق کچھ زیادہ ہی کرلی تھی۔‘‘
ثاقب نے وقاص کا ہاتھ پکڑ کر نیچے کرتے ہوئے کہا تو وقاص نے جھینپتے ہوئے ہاتھ نیچے کرلیے، اب وہ کرنل امتیاز کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے باہر کی طرف جارہے تھے اور خفیہ ایجنسی کے اہلکار پوزیشنیں سنبھالتے ہوئے مکان کے اطراف اور چھت پر پوزیشن لے رہے تھے جن کے ساتھ ویڈیو کیمرہ لیے ایک شخص ایک ایک جگہ کی ویڈیو بناتا جارہا تھا شاید یہ ویڈیو اعلیٰ حکام کو پیش کرنی تھی۔
سڑک پر آتے ہی کرنل امتیاز نے ان سب کو رخصت کیا اور واپس شہباز علی کے مکان کی طرف بڑھ گئے تاکہ مخبری کرنے والے فرد کی خبر لے سکیں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’واہ بھئی! یہ تو بڑی زبردست جگہ ہے‘‘۔
سوسائٹی میں واقع ایک عالی شان بنگلے میں پہنچتے ہی زبیر نے خوشی سے نعرہ لگایا۔
’’زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں! ہم یہاں پکنک منانے نہیں بلکہ سر چھپانے آئے ہیں‘‘۔ عمران نے زبیر کی پیٹھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
’’سر نہیں بلکہ منہ چھپانے کے لیے کہو تو بہتر ہوگا‘‘۔
ثاقب نے مسکراہٹ کے ساتھ اپنا بیگ ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔
’’ثاقب بھائی آپ ایسے کام کرتے ہی کیوں ہیں جس کے بعد منہ چھپانا پڑے‘‘۔
وقاص نے ثاقب پر جملہ کسا تو جواب میں ثاقب اپنا اتارا ہوا جوتا لے کر وقاص کے پیچھے دوڑنے لگا اور ماسٹر خان جو کسی گہری سوچ میں گم تھے یکایک ہنس پڑے۔
’’ماسٹر خان! خیریت تو ہے آپ ابھی تک پریشان ہیں؟‘‘
شعیب نے ماسٹر خان کے چہرے پر فکر مندی کے آثار دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں وہ مجھے شہباز علی کی فکر کھائے جارہی ہے ایک تو اس نے ہمیں ٹھکانہ دیا اور ہم اسے تنہا چھوڑ کر نکل آئے معلوم نہیں کرنل امتیاز نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا‘‘۔
ماسٹر خان صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولے۔
’’میری خود سمجھ میں نہیں آرہا کہ انکل شہباز کے گھر سے کس نے ہماری مخبری کی ہے؟‘‘۔ شعیب نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
اسی دوران ماسٹر خان کا موبائل فون بج اٹھا، دوسری طرف شہبا زعلی بات کررہے تھے۔
’’ہیلو خان! کیسے ہو۔ خیریت تو ہے نا؟‘‘
’’ہاں بھئی الحمد للہ! تم سناؤ کیا حال ہیں؟‘‘ ماسٹر خان نے اشارتاً آپریشن کی تفصیلات جاننا چاہیں۔
’’سب خیریت ہے، مہمان جاچکے ہیں اور جاتے جاتے اپنے ساتھ ہمارے باورچی کو بھی لے گئے ہیں کہہ رہے تھے کہ یہ خبریں بہت اچھی سناتا ہے اسی لیے ہم اسے بھی ساتھ لے جارہے ہیں‘‘۔
شہباز علی نے بھی احتیاطاً خفیہ الفاظ میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا جس کے جواب میں ماسٹر خان نے ان کے تعاون کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لائن منقطع کردی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’سر اطلاع غلط تھی وہاں تو کوئی بھی دہشت گرد نہیں پایا گیا‘‘۔کرنل امتیاز نے حکومت کے اعلیٰ عہدیدار کو رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا جو پاکستان کے بجائے اسرائیلی مفاد کے لیے کام کرتا تھا۔
’’لیکن میں نے تم سے کہا تھا کہ مجھے زندہ یا مردہ کسی بھی حالت میں وہ پانچوں بچے درکار ہیں جنہوں نے ہمارے غیر ملکی مہمانوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے ، کچھ کرو کرنل، کچھ بھی کرو اپنی انٹیلی جنس کو دوڑاؤ ان کی چھٹیاں ختم کردو مگر مجھے وہ چھوکرے لا کر دو ہم کسی بھی صورت اپنے مہمانوں کو ناراض نہیں کرسکتے‘‘۔
حکومتی وزیر کا اشارہ مسٹر گرین شیروف کی طرف تھا جو زی ورلڈ وائڈ کے بلاک PK-7 کا انچارج تھا اور اس وقت اس کے پاس غصے میں بپھرا بیٹھا تھا اور کرنل امتیاز‘ وزیر صاحب کی منافقت پر پیچ و تاب کھا رہا تھا۔
’’منسٹر صاحب! اگر ان دہشت گردوں کو آپ لوگوں نے لگام نہ دی تو ہم آپ کی حکومت سے تمام معاہدے ختم کردیں گے اور امریکا اور اسرائیل سے دشمنی لینے کا مطلب آپ بہت اچھی طرح جانتے ہیں‘‘۔
گرین شیروف نے دو ٹوک الفاظ میں دھمکی دیتے ہوئے کہا تو کرنل امتیاز غصے سے کھولنے لگا ۔اگر اس کا بس چلتا تو ابھی اس کا کام تمام کردیتا مگر وہ مصلحتاً خاموش رہا اور واپس لوٹ گیا ۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’کیا بات ہے بھئی ثاقب نظر نہیں آرہا خیریت تو ہے؟‘‘
ناشتے کے دوران ثاقب کی عدم موجودگی پر ماسٹر خان ایک لمحے کے لیے چونکتے ہوئے بولے۔
وہ دراصل صبح فجر کی نماز کے بعد سے ہی ان کی چھٹی حس انہیں بے چین کررہی تھی جس کو سکون و چین پہنچانے کے لیے وہ اخبار خریدنے اسٹاپ تک گئے ہیں دیکھتے ہیں کیا خبر لے کر آتے ہیں‘‘۔ وقاص نے دلچسپ انداز میں لہک لہک کر اطلاع دی تو ماسٹر خان بولے۔
’’یہ تو اچھی بات نہیں ہے‘‘۔
’’کیا مطلب! اخبار خریدنے جانا؟‘‘ وقاص نے مسکراتے ہوئے بے ساختہ پوچھا تو شعیب نے اس کو غصے سے آنکھیں دکھائیں جیسے زیادہ بولنے سے منع کررہا ہو۔
’’نہیں بھئی! میرا مطلب ہے کہ ان حالات میں اس طرح باہر نکلنا مناسب نہیں ہے ہمیں چہرہ اور حلیہ تبدیل کرکے نکلنا ہوگا اور وہ بھی انتہائی ضرورت کے تحت کیوں کہ فی الحال ہم کسی بھی ٹکراؤ کی پوزیشن میں نہیں ہیں‘‘۔ماسٹر خان وقاص کی بات کا برا مانے بغیر سمجھاتے ہوئے بولے۔
’’ہوں! بالکل ٹھیک‘‘۔ عمران نے ناشتہ کرتے کرتے ماسٹر خان کی بات پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے کہا اور اسی دوران دروازے پر اطلاعی گھنٹی بج اٹھی، زبیر نے دروازہ کھولا تو ثاقب ’’وہ مارا‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے بھاگتا ہوا اندر آیا اور بولا۔’’مبارک ہو بھائیوں مبارک ہو، زی ورلڈ وائڈ نے پاکستان میں اپنا نیٹ ورک بند کردیا ہے‘‘۔
’’زبردست۔ یہ ہوئی نا بات! اس کا مطلب ہے ہم ان کو خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں‘‘۔ عمران خوشی سے اچھلتا ہوا بولا۔
’’ارے ارے مسٹر زیادہ اچھلنے کی ضرورت نہیں ہے، زمین میں گڑھا پڑ گیا تو نقصان کون بھرے گا، پہلے خبر کی تفصیلات تو سن لو پھر سارا اچھلنا بھول جاؤ گے‘‘۔
ثاقب نے عمران کے صحت مند جسم پر جملہ کستے ہوئے خبر کو اور بھی سنسنی خیز بنادیا تھا۔
’’خیریت تو ہے تفصیلات میں ایسا کیا لکھا ہے؟ لاؤ پہلے مجھے اخبار دو میں پڑھ کر سناتا ہوں‘‘۔ شعیب نے سنجیدگی برقرار رکھتے ہوئے ثاقب کے ہاتھ سے اخبار لے لیا اور پڑھنے لگا۔
’’بدنام زمانہ امریکی سیکورٹی کمپنی بلیک واٹر کی پاکستان سے واپسی‘‘۔
’’تفصیلات کے مطابق امریکی سیکورٹی کمپنی بلیک واٹر جو پاکستان میں زی ورلڈ وائڈ کے نام سے کام کررہی تھی عوامی دباؤ اور حکومت کی کوششوں سے پاکستان سے اپنی سرگرمیاں ختم کرچکی ہے، ہمارے ترجمان کے مطابق پچھلے دنوں ہونے والے دھماکوں اور پے در پے ناکامیوں اور رسوائی کے بعد شاید امریکی کمپنی نے یہ فیصلہ کیا ہے جبکہ حکومت اس کو اپنا کارنامہ قرار دے رہی ہے‘‘۔
’’سر بھلا یہ کیا بات ہوئی یہ لوگ خود دعوت دے دے کر ان دہشت گرد کمپنیوں کو بلاتے ہیں اور رخصت ہونے پر بھی اس کو اپنا کارنامہ قرار دیتے ہیں‘‘۔
زبیر نے ماسٹر خان سے سوال پوچھتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا دراصل ہمارے چند نام نہاد بے دین سیاستدانوں نے دنیا کی لالچ میں اس ملک کو گندی سیاست کی طرف دھکیل دیا ہے ورنہ سیاست خود کوئی بری چیز نہیں ہے، ہمارے پیارے نبیﷺ نے بھی ایک آئیڈیل سیاسی زندگی گزاری ہے جس میں انہوں نے جنگیں بھی لڑی ہیں اور صلح بھی کی ہے، عدل و انصاف کے اصول بھی متعین کیے ہیں اور حکومت بھی کرکے دکھائی ہے اور آپ سب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ سب سے پہلی اسلامی ریاست مدینہ منور انہوں نے ہی قائم کی تھی اور پھر اسلامی فتوحات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے نتیجے میں حضرت عمر فاروقؓ کے دور حکومت تک مسلمان تقریباً آدھی دنیا فتح کرچکے تھے اور یاد رکھو اچھے لوگ اب بھی موجود ہیں اور قیادت تک رہیں گے اور شیطان کا ٹولہ بھی قیامت تک اللہ کے شیروں سے ٹکراتا رہے گا اور شکست کھاتا رہے گا بس کامیاب صرف وہ ہوگا جو میدان میں ڈٹا رہے گا اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہے گا‘‘۔
’’سر اللہ کی رسی سے کیا مراد ہے؟‘‘ وقاص نے جو بہت انہماک سے ماسٹر خان کی گفتگو سن رہا تھا سوال پوچھا۔
’’وقاص بیٹا اللہ کی رسی دراصل اللہ کا قرآن ہے جس میں مکمل نظام حیات اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا نسخہ موجود ہے جو لوگ اس اتحاد و اتفاق کی رسی کو چھوڑ کر فرقوں میں بٹ جاتے ہیں اور رنگ و نسل میں تقسیم ہوجاتے ہیں وہ بالآخر کمزور ہو کر تباہ ہوجاتے ہیں‘‘۔ماسٹر خان نے بہت خوبصورت اندازمیں سمجھاتے ہوئے کہا اور بولے۔
’’بہرحال زی ورلڈ وائڈ پاکستان چھوڑ کر جاچکی ہے یہ ہمارے لیے ایک اچھی خبر ہے کیوں کہ ہم دنیا کو دکھانے کے لیے یا کسی سے شاباشی یا تعریف وصول کرنے کے لیے یہ کام نہیں کررہے بلکہ ہم جس کے لیے کام کررہے ہیں وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ کارنامہ کس کا ہے‘‘۔
’’سر اس کا مطلب ہے کہ اب ہمیں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ ہمارا دشمن میدان چھوڑ چکا ہے‘‘۔عمران نے قدرے اطمینان کے ساتھ پوچھا۔
’’عمران یاد رکھو دشمن جب زخمی ہو تو زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے یقیناًوہ اپنا تمام کام سمیٹ چکے ہیں لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ کچھ عرصے کے لیے اور اس دوران وہ صرف ہمارا پیچھا کریں گے اور جب تک ہمیں زیر نہیں کرلیتے وہ دوبارہ کام شروع کرنے کی ہمت نہیں کرسکیں گے‘‘شعیب نے حقیقت پسندانہ تبصرہ کرتے ہوئے کہاتو ثاقب بولا۔
’’ویسے مزا تو اب آئے گا جب وہ ہمیں پاکستان میں تلاش کررہے ہوں گے اور ہم ان کے ہیڈ کوارٹر پر شب خون ماررہے ہوں گے‘‘۔ثاقب نے اتنے مزے سے جملہ ادا کیا جیسے وہ دشمن سے ٹکرانے نہیں بلکہ کلفٹن کے ساحل پر پکنک منانے جارہے ہوں۔
’’او بھائی! ذرا احتیاط سے زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہم وہاں کوئی خون خرابہ کرنے نہیں جارہے بلکہ صرف اس ماسٹر پلان کو تلاش کرنے جارہے ہیں جس میں صرف منصوبہ نہیں بلکہ اس کی وہ جزئیات اور تفصیلات بھی موجود ہیں جس سے ہم ابھی تک لاعلم ہیں‘‘۔
شعیب نے ثاقب کے انداز اور معنی خیز جملے پر گرفت کی۔
’’ہاں بھئی! شعیب بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے کیوں کہ شمالی کیرولینا امریکا کی ایک پُر امن ریاست ہے یہ الگ بات ہے کہ وہاں زی ورلڈ وائڈ کا صدر دفتر بھی ہے، وہاں پر ذرا سی غلطی ہمیں انجام تک پہنچاسکتی ہے لہٰذا ہمیں صرف اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے اپنے مشن کی تکمیل پر توجہ دینی ہوگی۔
اس سلسلے میں میں نے اپنے ایک پرانے ساتھی سعید مدنی کو یہاں بلایا ہے ان شاء اللہ وہ ہمیں نہ صرف مکمل معلومات فراہم کریں گے بلکہ پورا پروگرام بھی سیٹ کرکے دیں گے‘‘۔
*۔۔۔*۔۔۔*
شمالی کیرولینا کے مضافات میں زی ورلڈ وائڈ کی عالیشان عمارت میں اس وقت دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہے لیکن ٹیلی فون کی گھنٹی مسلسل بجی جارہی ہے آخر کار فون اٹھالیا گیا۔
’’ہیلو! سائمنڈ اسپیکنگ فرام تل ابیب، اسرائیلی وزیر خارجہ مسٹر ایڈ منڈبورک ‘پرنس ایریل سے بات کرنے کی خواہش رکھتے ہیں‘‘۔
فون کرنے والے نے نہایت شائستگی کے ساتھ جملے ادا کرتے ہوئے کہا۔
’’میں معافی چاہتا ہوں مسٹر پرنس ایریل اس وقت لنچ بریک پر ہیں آپ کو کچھ دیر بعد دوبارہ زحمت کرنی ہوگی البتہ میں آپ کا پیغام پہنچا دوں گا‘‘۔
دوسری طرف سے جیسے ہی معذرت خواہانہ جواب دیا گیا ریسیور اسرائیلی وزیر خارجہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور غصے سے چیخا۔
’’لنچ کو گولی مارو اور پرنس ایریل سے کہو کہ ایڈمنڈبورک تم سے فوراً بات کرنا چاہتا ہے وہ تمہاری طرح فارغ نہیں ہے‘‘۔
ایڈمنڈبورک کا لہجہ اتنا خوفناک تھا کہ آپریٹر فوراً پرنس ایریل کو پیغام دینے دوڑ پڑا اور چند لمحوں بعد پرنس ایریل فون پر موجود تھا۔
’’یس سر! کیسے ہیں آپ؟‘‘ پرنس ایریل نے خوشگوار انداز میں پوچھا۔
’’مسٹر ایریل لگتا ہے تم لوگوں کے پاس ڈالر کچھ زیادہ آگیا ہے یا پھر تمہارا اس کام سے دل بھر گیا ہے‘‘۔ مسٹر بورک نے درشت لہجے میں طنز کرتے ہوئے کہا۔
’’اوہ مسٹر ایڈمنڈبورک لگتا ہے آپ کا اشارہ پاکستان والے واقعے کی طرف ہے آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ وہ اسائنمنٹ ہمیں کافی مہنگا پڑا ہے ہمیں درست اور مکمل معلومات فراہم نہیں کی گئیں تھیں جس کی وجہ سے ہمارے بہترین کمانڈوز کے ساتھ ساتھ ہمارا زونل ہیڈ کوارٹر بھی اڑادیا گیا ہے کیا آپ ہمارے نقصان کا اندازہ کرسکتے ہیں؟‘‘۔
پرنس ایریل نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا۔
’’مسٹر ایریل! ہمیں صرف کام چاہیے جس کا ہم تمہیں معاوضہ دیتے ہیں بہانے بنانے سے کام نہیں چل سکتا دعوے تو تمہاری ایجنسی بڑے بڑے کرتی ہے کہ بڑے سے بڑے مجرم کو زمین کے اندر اور سمندر کی تہہ سے پکڑ کر لاسکتے ہیں اور چند لڑکوں کو پکڑنے میں تمہاری تنظیم ہی فیل ہوگئی اوہ شٹ!‘‘
اسرائیلی وزیر خارجہ نے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے کھری کھری سنادی۔
’’مسٹر بورک آپ زیادتی کررہے ہیں آپ ہمارے کلائنٹ ہیں ہم آپ کا احترام کرتے ہیں آپ ہمارے کام کو اور پچھلے کارناموں کو اچھی طرح جانتے ہیں بقول آپ کے یہ لڑکے اسرائیل میں گھس کر پورا تل ابیب تباہ کرکے چلے گئے اور آپ کی فوج اور انٹیلی جنس ان کا بال بیکا نہیں کرسکی اور آپ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ ہماری تنظیم فیل ہوگئی‘‘۔
پرنس ایریل اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولا۔
’’لیکن ہم اس طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے تو نہیں بیٹھ سکتے مسٹر ایریل‘‘۔
پرنس ایریل کی سخت گفتگو نے وزیر خارجہ کا دماغ کافی حد تک درست کردیا تھا اسی لیے اس مرتبہ وہ نرمی سے بولا تھا۔
’’ہم بالکل ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے، ہم نے صرف تین ماہ کے لیے اپنا کام بند کیا ہے، نیٹ ورک نہیں۔ ہمارے ایجنٹس سارے کام چھوڑ کر صرف گوریلا فائٹرز کی بو سونگھتے پھر رہے ہیں اور بہت جلد ہم انہیں ٹھکانے لگاسکیں گے اس سلسلے میں ہم نے پاکستانی ایجنسیوں کی خدمات بھی حاصل کی ہیں ہم بہت جلد آپ کو خوش خبری سنائیں گے‘‘۔
پرنس ایریل کے تسلی بھرے جملوں کے جواب میں ایڈمنڈبورک نے ’’اوکے۔ وش یو گڈ لک‘‘ کہا اور فون بند کردیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’سعید مدنی، ان سے ملو یہ ہیں ہماری ٹیم گوریلا فائٹرز کے بہادر نوجوان جن کی تفصیلات میں تم کو پہلے بتاچکا ہوں‘‘۔
ماسٹر خان نے اپنے دوست سعید مدنی سے گوریلا فائٹرز کا تعارف کراتے ہوئے کہا جو ماسٹر خان کی دعوت پر ان کے گھر رہنمائی دینے آئے تھے۔
’’اوہ، ویری ینگ بوائز۔ یہ تو بہت چھوٹے ساتھی ہیں میں تو لمبے تڑنگے اور مضبوط جسم کے نوجوانوں کا تصور کرکے بیٹھا تھا۔
’’اچھا بھئی میرا نام سعید مدنی ہے اور ماسٹر خان سے میرا تعلق بہت پرانا ہے یہ جب پاکستان کی خفیہ ایجنسی میں خدمات انجام دے رہے تھے ان دنوں میں امریکا میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے کام کررہا تھا اور تقریباً پوری دنیا کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے اور آج کل اپنا چھوٹا موٹا بزنس چلا رہا ہوں۔
کل ماسٹر خان نے فون کرکے میری خدمات حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی اور آپ لوگوں کا تفصیلی تعارف اور کارنامے ابھی کچھ دیر پہلے میرے گوش گزار کرچکے ہیں اور اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں بھی دین کی کوئی خدمت کرسکوں تو یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہوگی‘‘۔
سعید مدنی نے اپنا مختصر تعارف کروایا جس کے جواب میں ماسٹر خان نے بلاتاخیر گوریلا فائٹرز کی حالیہ کارروائی اور مستقبل کے ارادوں کا ذکر کر ڈالا۔
’’ہوں! گویا آپ لوگ بِھڑوں کے چھتے میں ہاتھ مارنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟‘‘
سعید مدنی، زی ورلڈ وائڈ کے ہیڈ کوارٹر کا سنتے ہی بے ساختہ بول اٹھے۔
’’بِھڑوں نہیں بھیڑیوں کے ریوڑ بولیں تو میرے خیال میں زیادہ بہتر ہوگا‘‘۔
وقاص کا چلبلا دماغ الفاظ پکڑنے میں ماہر تھا لہٰذا چپ نہ رہ سکا اور سعید مدنی وقاص کو دیکھ کر مسکرا اٹھے جیسے حاضر دماغی کی داد دے رہے ہوں۔
’’میرا مطلب یہ تھا کہ یہ ایک بہت خطرناک مہم ہوگی کیوں کہ شمالی کیرولینا کے لیے پاکستان سے کوئی فلائٹ نہیں جاتی اس کے لیے آپ کو دو تین مقامات پر رکنا پڑے گا۔
یعنی پہلے آپ کو نیویارک یا واشنگٹن پہنچنا ہوگا وہاں سے آپ آگے جاسکتے ہیں‘‘۔
’’اگر ہم امریکا کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کریں یا ہوائی جہاز کے بجائے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنا چاہیں تو‘‘؟
شعیب نے احتیاطی تدابیر پیش نظر رکھتے ہوئے سوال پوچھا کیوں کہ پورے امریکا میں تو ان کے خلاف سخت سیکورٹی کا جال بچھایا جاچکا تھا۔
’’ہاں یورپ کے راستے ممکن ہے اس کے لیے پہلے آپ کو آئر لینڈ ، اسپین یا برطانیہ کا سفر کرنا ہوگا وہاں سے آپ کو براہ راست شمالی کیرولینا کی فلائٹ مل سکتی ہے، آئر لینڈ سے شمالی کیرولینا کا فاصلہ صرف چھ گھنٹے کا ہے اور اس کا ٹکٹ تقریباً ایک لاکھ دس ہزار روپے تک ہے۔
وہاں سے آپ بحری جہاز سے بھی سفر کرسکتے ہیں لیکن یاد رہے کہ بحری جہاز کے ذریعے آپ کو تقریباً دو ہفتے سمندر میں سفر کرنا ہوگا لیکن ہوائی جہاز کے مقابلے میں یہ محفوظ اور سستا راستہ ہے۔‘‘
سعید مدنی کے پاس واقعی معلومات کا خزانہ تھا جسے سارے ممبران بہت غور سے سن رہے تھے۔
’’سعید بھائی کیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم بلا روک ٹوک آزادانہ سفر کرسکیں میرا مطلب ہے کہ ہمیں مشن کے دوران یورپی ممالک یا امریکا کی ریاستوں میں سفر کرنا پڑے گا‘‘۔
ماسٹر خان ویزا پالیسی جاننا چاہ رہے تھے۔
’’بالکل ایسا ممکن ہے لیکن ہر ایک کے لیے نہیں بلکہ خاص لوگوں کے لیے یعنی دوسرے ممالک کے وزیر اور سفیر یا پھر خصوصی درخواست پرمختلف تجارتی اور سماجی ادارے(NGOs) اور کبھی کبھار غیر ملکی طلباء کو بھی یہ رعایت مل جاتی ہے اس کے لیے پورے یورپ میں آزادانہ سفر کرنے کے لیے آپ کو شینگنگ ویزا (Sthanging Visa) لینا پڑے گا جبکہ امریکا کی ریاستوں میں آزادانہ گھومنے کے لیے آپ کو باآسانی ملٹی پل انٹری ویزا مل سکتا ہے‘‘۔
سعید مدنی نے ان کی مشکل واقعی آسان کردی تھی۔
’’آپ اس سلسلے میں کہاں تک ہم سے تعاون کرسکتے ہیں‘‘؟ شعیب نے پوچھا۔
’’سابق سفیر ہونے کے ناطے میرے امریکن اور یورپین سفارت خانوں سے بڑے اچھے تعلقات ہیں لیکن سب سے پہلے آپ کوکسی سماجی تنظیم (NGO) کی رکنیت حاصل کرنا ہوگی اس کے بعد میرا کام آسان ہوجائے گا اور اگر آپ لوگ میرا مشورہ مانیں تو براہ کرم ایک ساتھ سفر نہ کریں بلکہ تین تین کے گروپ میں سفر کریں اس طرح آپ بہت زیادہ نظروں میں آنے سے بچ جائیں گے اور ایک دوسرے کو کور (Cover) بھی دے سکیں گے‘‘۔
سعید مدنی واقعی بہت تجربہ کار انسان تھے ان کے مشورے پر سارے ممبران اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اگلے دن سب نے اپنے حلیے اور چہرے تبدیل کیے اور نئے ناموں اور چہروں کے ساتھ نئے کاغذات تیار کروانے کا کام شروع کردیا اور ماسٹر خان نے ایک بڑی NGO کے لیے مفت کام کرنے کی ذمہ داری لیتے ہوئے سارے ممبران کی ممبر شپ حاصل کرلی اور اگلے ہفتے سعید مدنی سب کے ویزے تیار کرواچکے تھے۔
اب پاکستان سے روانگی کا مرحلہ درپیش تھا ماسٹر خان، گوریلا فائٹرز کے ممبران اور سعید مدنی کے ساتھ مل کر آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دے رہے تھے۔
بالآخر طے یہ پایا کہ پہلے مرحلے میں شعیب، ثاقب اور عمران یورپ کے راستے شمالی کیرولینا روانہ ہوں گے اور ان کے پہنچنے کے بعد ضرورت پڑنے پر دوسرا گروپ روانہ کیا جائے گا۔
ابھی ان کی یہ گفتگو جاتی تھی کہ اچانک دروازے کی اطلاعی گھنٹی زور دار طر یقے سے بج اٹھی جیسے کوئی بہت جلدی میں بے دردی کے ساتھ گھنٹی بجارہا ہو۔
سارے ہی افراد اچانک گھبرا اٹھے اور وقاص جلدی سے دروازے کی طرف دوڑا اور دروازے پر لگی جادوئی آنکھ (Door Eye) کی مدد سے باہر دیکھا تو اس کی گھبراہٹ دو چند ہوگئی۔ اس نے واپس آکر سب کو بتایا کہ سیاہ وردی میں ملبوس دو مسلح افراد دروازے پر موجود ہیں، یہ جملہ سنتے ہی سب کے منہ سے بے اختیار ’’اوہ میرے خدا‘‘ کی آواز نکلی اور سب یکدم اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
*۔۔۔۔۔۔*
’’کیا کہہ رہے ہو وقاص تم؟‘‘ زبیر کے حلق سے گھٹی گھٹی سی آواز نکلی۔
’’بالکل صحیح کہہ رہا ہوں یقین نہ آئے تو خود جا کر دیکھ لو، ان کے کاندھوں پر اسلحہ میں نے خود دیکھا ہے۔‘‘ وقاص نے یقین دلاتے ہوئے کہا تو شعیب بولا۔
’’اس کا مطلب ہے ہماری دوبارہ مخبری ہوئی ہے اور یہ تو بعد میں پتا چلے گا کہ مخبری کس نے، کیوں اور کیسے کی البتہ ابھی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس دفاعی سامان کی کمی ہے لہٰذا ہمیں فوراً یہاں سے فرار ہونے کی کوئی ترکیب سوچنی ہوگی‘‘۔
’’لیکن میرے خیال میں یہاں سے فرار ہونے کا کوئی راستہ نہیں ہے سوائے مرکزی دروازے کے کیوں کہ یہ گھر میرے دوست موسیٰ کاظمی کا ہے جو اس وقت امریکا میں مقیم ہے اور میں اس گھر میں پہلے بھی کافی عرصہ رہ چکا ہوں‘‘۔
ماسٹر خان نے شعیب کی تجویز کو رد کرتے ہوئے کہا تو ثاقب بولا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے ہمیں آنے والے مہمانوں سے دو دو ہاتھ کرلینے چاہیں ہم نے بھی آخر کوئی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں‘‘۔
’’میرے خیال میں ثاقب بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے ہم میں سے جس جس کے پاس جو جو دفاعی سامان ہے وہ نکال لے، ہمیں دفاعی حکمت عملی کے ساتھ فائٹ کرنی ہوگی‘‘ اور یہ کہتے ہوئے شعیب نے اپنا چھوٹا سا ریوالور نکال لیا اور شعیب کا دیکھا دیکھی سب نے ممکنہ ہتھیار اپنے اپنے ہاتھوں میں لے لیے جبکہ سعید مدنی اس دوران ہکا بکا ساری صورتحال کا مشاہدہ کررہے تھے اور ان کے پھڑکتے ہونٹوں کو دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے ’’آل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو‘‘ کا ورد کررہے ہوں، کیوں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی اس قسم کی مار دھاڑ والی صورتحال کا سامنا نہیں کیا تھا۔
ابھی یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ دوبارہ دروازہ کے اطلاعی گھنٹی چیخ اٹھی اور اس مرتبہ گھنٹی کے ساتھ، زور زور سے دروازہ بھی بجایا گیا تھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ دروازہ نہ کھولا گیا تو ہم دروازہ توڑ بھی سکتے ہیں او رپھر سارے افراد جلدی جلدی پوزیشن سنبھالنے لگے۔
عمران تم صوفے کے پیچھے اور وقاص تم ڈائننگ ٹیبل کے نیچے پوزیشن سنبھالو گے جبکہ زبیر دروازے کی آڑ میں کھڑا ہوگا اور ثاقب کچن میں پوزیشن سنبھالے گا، میں دروازے کے قریب پردے کے پیچھے الرٹ رہوں گا اور ماسٹر خان دوسرے کمرے میں ہمیں کور دیں گے جبکہ سعید مدنی صاحب دروازہ کھولیں گے‘‘۔
شعیب نے چند لمحوں میں فیصلہ کرتے ہوئے فوراً سب کی پوزیشنیں طے کردیں وہ واقعی گوریلا جنگ کا ماہر تھا کیوں کہ گوریلا جنگ میں سب سے اہم چیز بروقت اور صحیح فیصلہ ہوتا ہے۔
’’کک۔۔۔ کک۔۔۔ کیا دروازہ مجھے کھولنا ہوگا؟‘‘ سعید مدنی نے گھبراہٹ میں تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
’’سعید بھائی آپ بالکل مت گھبرائیے آپ کو صرف دروازہ کھول کر یہ پوچھنا ہے کہ آپ لوگ یہاں کیوں آئے ہیں اگر وہ تلاشی لینے کا کہیں تو آپ انہیں اندر آنے دیں باقی کام ہم سنبھال لیں گے، بس ایک کام ضرور کیجئے گا اگر فائرنگ شروع ہوجائے تو فوراً زمین پر لیٹ جائیے گا۔‘‘
ماسٹر خان نے سعید مدنی کی ہمت بندھاتے ہوئے کہا تو سعید مدنی ڈرتے ڈرتے آگے بڑھے اور ہمت مجتمع کرتے ہوئے انہوں نے ایک دم دروازہ کھول دیا اور باہر کھڑے سرخ سرخ آنکھوں والے انسانوں اور ان کی بندوق دیکھتے ہی وہ فائرنگ سے پہلے ہی زمین پر لیٹ گئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’یس! مسٹر گرین شیروف اب تک کی کیا رپورٹس ہیں کوئی کامیابی حاصل ہوئی؟
زی ورلڈ وائڈ کے سربراہ پرنس ایریل نے میٹنگ کے دوران گرین شیروف سے رپورٹ لیتے ہوئے کہا جو کل ہی پاکستان سے امریکا پہنچا تھا۔
’’یس سر ہمیں کچھ جزوی کامیابیاں ملی ہیں اور مقامی ائیرپورٹ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر بھی ہم نے کئی چھاپے مارے ہیں جس کی تفصیلی رپورٹ اس فائل میں موجود ہے‘‘۔
گرین شیروف نے ایک خوب صورت سی فائل آگے بڑھاتے ہوئے کہا تو پرنس ایریل غصے سے بھنا اٹھا اور بے دردی سے فائل ہاتھ میں لے کر فوراً ہی میز پر پٹختے ہوئے بولا۔
’’ان خوب صورت خوب صورت فائلوں کا مطلب ہوتا ہے کہ کوئی کام بھی نہیں ہوا۔ کام کرنے والے فائیلیں نہیں بلکہ کارکردگی پیش کرتے ہیں کیا سمجھے آپ مسٹر گرین شیروف؟‘‘
’’سر آپ اچھی طرح جانتے ہیں وہ چھلاوے نما انسان ہیں اور ان کا اطلاعاتی نظام اتنا مضبوط ہے کہ وہ کارروائی پڑنے سے پہلے ہی جگہ چھوڑ دیتے ہیں لیکن آپ دیکھیے گا اس مرتبہ وہ بچ کر نہیں جاسکیں گے‘‘۔
گرین شیروف نے امید دلاتے ہوئے کہا تو پرنس ایریل بولا۔
’’آپ دو ہفتوں کے دوران کوئی کام نہیں کرسکے اب آپ مزید کتنے دن چاہتے ہیں مسٹر شیروف؟‘‘
’’ون ویک مور سر‘‘ اس ہفتے ہم آپ کو گڈ نیوز دیں گے‘‘۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’او بائی جان! تینوں کی ہوگیا؟ لگتا ہے شاید طبیعت خراب ہوگئی ہے دروازہ کھولتے ہی گرگیا ہے، اوئےً سنبھال اوئے صاب کو۔ میں اکیلے کیسے اٹھاؤں گا۔ تو تو بس میری شکل ہی دیکھا جا۔ نالائق‘‘۔
سعید مدنی کے گرتے ہی آنے والے دونوں افراد گھبراگئے اور ایک نے جو غالباً گلی کا چوکیدار تھا دوسرے کو کہنی مارتے ہوئے بولا جو کندھے پر صفائی والا وائپر لٹکائے ہکا بکا کھڑا تھا۔
شعیب جو پردے کے پیچھے کھڑا ساری گفتگو سن رہا تھا ہنستے ہوئے پردے سے باہر نکل آیا اور ان دونوں کے ساتھ مل کر سعید مدنی کو اٹھا کر صوفے پر لٹادیا اور مسکراتے ہوئے بولا۔
’’جی فرمائیے! آپ کو کس سے ملنا ہے؟‘‘
’’او جی! میں اللہ وسایا چوکیدار ہوں اور یہ جان اسلم گلی کا سوئیپر ہے اور آج کھانا کھلانے کی باری آپ کے گھر کی ہے ہم تو صرف کھانا لینے آئے تھے یہ بڑے صاب کو پتا نہیں کی ہوگیا‘‘۔
چوکیدار نے چہروں کو دیکھتے ہوئے پہلے تعارف اور بعد میں مدعا بیان کیا تو باقی لوگ بھی اپنی اپنی پوزیشن چھوڑ کر ہنستے ہوئے دروازے پر آگئے جبکہ ماسٹر خان سعید مدنی کو ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگے۔
’’مسٹر چوکیدار پہلی تو یہ کہ ہم لوگ نئے کرایہ دار ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک کھانا نہیں پکایا۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ دروازہ بجانے کا یہ کون سا طریقہ ہے؟‘‘
زبیر نے آتے کے ساتھ ہی چوکیدار اور سوئیپر پر چڑھائی کرتے ہوئے کہا تو ثاقب نے اسے روکتے ہوئے جیب سے سو روپے نکالے اور چوکیدار کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’بھائی آج تو تم ہوٹل سے کھانا کھالو آئندہ باری میں ہم ضرور تمہارے لیے مزیدار سی ڈش تیار کرکے رکھیں گے‘‘۔
اور یہ کہنے کے ساتھ ہی ثاقب، وقاص کو گدی سے پکڑ کر سوئیپر کے کاندھے پر لٹکے ہوئے وائپر کے قریب لے گیا اور بولا۔
’’اچھا تو یہ تھی وہ بندوق جس سے تم نے ہم سب کو ڈرایا تھا یعنی دماغ جتنا تیز ہے بینائی اتنی ہی کمزور ہے جناب کی‘‘۔
چوکیدار اور سوئیپر تو کچھ نہ سمجھتے ہوئے واپس مڑ گئے البتہ دروازہ بند کرکے چاروں نے وقاص کی خوب درگت بنائی اور وقاص ’’غلطی ہوگئی، غلطی ہوگئی‘‘۔ کی رٹ لگاتے ہوئے پناہ کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑنے لگا اور سب کا ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا۔
تھوڑی دیر بعد سعید مدنی بھی ہوش میں آچکے تھے اور جب ساری صورتحال ان کے گوش گزار کی تو وہ شرمندگی کے ساتھ بغلیں جھانکنے لگے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’لیڈیز اینڈ جینٹل مین، اٹینشن پلیز۔ امریکن ائیر لائن Us-999 کے ذریعے آئر لینڈ جانے والے مسافروں سے گزارش ہے کہ گیٹ نمبر 5 کے ذریعے اپنی سیٹوں پر تشریف لے جائیں جہاز ٹیک آف کے لئے تیار ہے‘‘۔
کراچی انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے ویٹنگ روم میں لگے خوب صورت اسپیکرز سے ایک نسوانی آواز مسافروں کو رہنمائی دے رہی تھی۔
’’چلو بھئی بہت باتیں ہوگئیں اب وقت بالکل ختم ہوچکا ہے اور ہاں میں اہم اور آخری ہدایات ایک مرتبہ پھر دُہرا دیتا ہوں کیوں کہ اس کے بعد ہم ایسی کوئی بات نہیں کرسکیں گے، ماسٹر خان آخری ہدایات دیتے ہوئے بولے۔
’’سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ تینوں انٹرنیشنل رفاہی تنظیم (Peace For Nation) PFN کے نہ صرف ممبر ہیں جسے اقوام متحدہ کی سرپرستی بھی حاصل ہے بلکہ صحافی بھی ہیں لہٰذا موقع محل کے لحاظ سے آپ دونوں کارڈز استعمال کرسکتے ہیں۔دوسری بات یہ کہ آپ کو حتی الامکان لڑائی بھڑائی سے دور رہنا ہے اور شک یا گرفتاری کی صورت میں بھی اپنے ان ہی دو کارڈز کے ذریعے اپنا دفاع کرنا ہے۔تیسری بات یہ ے کہ جس مشن پر آپ تینوں جارہے ہیں اس کے لیے ضروری تھا کہ آپ کو مسلمان ظاہر نہ کیا جائے لہٰذا اپنے اور اپنے ساتھیوں کے ناموں کو اچھی طرح دہرالیجئے اور پرانے ناموں کو بالکل بھول جائیے اور آخری بات یہ ہے مسٹر رابرٹ، تھامس اور ایلیک کہ اب آپ ظاہری طور پر چوں کہ مسلمان نہیں ہیں لہٰذا اپنے قول و فعل سے بھی اس اس کا اظہار نہ کریں بلکہ نمازیں اور دیگر عبادات بھی چھپ کر ادا کریں‘‘۔
ماسٹر خان نے شعیب، ثاقب اور عمران کو بالترتیب رابرٹ، تھامس اور ایلیک پکارتے ہوئے آخری جملے ادا کیے اور اس کے بعد سب ایک دوسرے سے الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے الگ ہوگئے۔
اور ٹھیک دس منٹ بعد امریکن طیارہ US-999اپنی مصیبت اور بربادی کا سامان اٹھائے ٹیک آف کرچکا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’اوہ! واٹ آ بیوٹی فل سٹی!‘‘ جہاز جیسے ہی آئر لینڈ کے دارالحکومت ڈبلن (DUBLIN) کے ائیرپورٹ پر لینڈ کرنے کے لیے زمین سے قریب ہوا۔ عمران شہر کی خوب صورتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے ساختہ بول اٹھا۔
ابھی وہ ہنستے مسکراتے ائیر پورٹ سے باہر نکل ہی رہے تھے کہ شعیب چلتے چلتے ایک دم ٹھٹھک گیا اور باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عمران اور ثاقب کو کچھ دکھانے لگا۔
’’وہ دیکھو باہر کوئی ہم تینوں کے ناموں کی تختی لیے ہمارا منتظر ہے‘‘۔
’’اوہ! یونیفارم سے تو وہ سیکورٹی کا بندہ معلوم ہوتا ہے اور اس نے پولیس کیپ بھی لگایا ہوا ہے۔‘‘ عمران نے تختی اٹھائے شخص کا بغور مشاہدہ کرتے ہوئے کہا تو ثاقب بولا۔
’’او بھائی میرے یہ تم عمران سے ایک دم وقاص کیوں بن گئے؟ وہ سیکورٹی بندہ نہیں بلکہ یونیفارم میں ٹیکسیی ڈرائیو ہے۔ شاید کسی نے ہمارے آنے کی اطلاع کردی ہوگی اور یہ ہمیں لینے آگیا‘‘۔
’’اونہہ۔۔۔ کتنی دفعہ سمجھایا گیا ہے کہ ایک دوسرے کا صحیح نام لو وہ عمران نہیں ایلیک ہے ایلیک‘‘۔ شعیب ثاقب کو غصے سے گھورتا ہوا بولا۔
’’ویسے ہمارے آنے کی اطلاع کس نے کی ہوگی؟ ماسٹر خان نے یا ہماری NGO نے یا پھر یہ کوئی چال ہے؟
شعیب ائیر پورٹ سے باہر نکلتے نکلتے اچانک قریبی کرسیوں پر بیٹھ گیا اور اس کے ساتھ عمران اور ثاقب بھی بیٹھ گئے۔
’’مسٹر رابرٹ اگر یہ کوئی چال ہوتی تو اتنے بھونڈے طریقے سے نہ ہوتی بلکہ جہاز سے اترتے ہی ہم سب کو گرفتار کرلیا جاتا اور ویسے مجھے تو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہورہا آپ بلاوجہ ڈر رہے ہیں‘‘۔ ثاقب نے شعیب کو مخاطب کرتے ہوئے مطمئن کرنے کی کوشش کی تو جواب میں شعیب فیصلہ کن انداز میں اٹھ کھڑا ہوا اور اعتماد کے ساتھ باہر کی طرف چل پڑا اور عمران اور ثاقب کے ساتھ ٹیکسیی ڈرائیور کی تختی کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا۔
’’ویلکم ویلکم عزیز مہمانوں، میں آپ کو آئرش گورنمنٹ اور عوام کی جانب سے خوش آمدید کہتا ہوں کیا آپ کا نام رابرٹ، تھامس اور ایلیک ہی ہے‘‘۔ ٹیکسیی ڈرائیور نے پرتپاک انداز میں ان تینوں کا استقبال کیا جیسے کوئی بچھڑا ہوا دوست مل جائے۔
’’یس۔ آف کورس، جی ہاں بالکل ہم ہی وہ افراد ہیں جن کے ناموں کی تختی آپ اٹھائے کھڑے ہیں۔ لیکن پہلے آپ یہ بتائیے کہ آپ کس کی طرف سے آئے ہیں؟‘‘
شعیب نے ٹیکسیی ڈرائیور سے سوال پوچھتے ہوئے کہا۔
’’میں آئرش گورنمنٹ کی طرف سے آیا ہوں اور آپ جتنے دن آئر لینڈ میں قیام کریں گے ہمارے مہمان ہوں گے‘‘۔
ڈرائیور نے تختی نیچے کرکے اب ٹیکسیی کی طرف چلنا شروع کردیا تھا اور اس کے ساتھ وہ تینوں بھی آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔
’’چور کی داڑھی میں تنکا کے مصداق شعیب کو اب بھی تسلی نہیں ہوئی وہ بولا۔
’’میرا مطلب ہے کہ آئرش گورنمنٹ سارے مسافروں کو چھوڑ کر ہمارے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں کررہی ہے یعنی سب کچھ فری؟‘‘
’’وہ اس لیے کہ غالباً آپ لوگ صحافی ہیں یا کسی خاص ادارے سے تعلق رکھتے ہیں باقی آپ لوگ خود سمجھدار ہیں‘‘۔
ٹیکسیی ڈرائیور نے اشارتاً انہیں سمجھانا چاہا۔
’’او آئی سی‘‘ اب میں سمجھا یہ صحافیوں کی خدمت ہے تاکہ آئر لینڈ کا نام اچھے لفظوں سے یاد کیا جائے۔‘‘ شعیب مسکراتے ہوئے بولا۔
’’بالکل آپ ٹھیک سمجھے یہ صحافی ہی تو ہوتے ہیں جو کسی کو بھی کیا سے کیا کردیں، آئرش گورنمنٹ اس معاملے میں بہت ہوشیار ہے‘‘۔
ٹیکسیی ڈرائیور نے مسکراہٹ کا جواب اپنی پیشہ وارانہ مسکراہٹ کے ساتھ دیتے ہوئے کہا۔
’’نہیں بھئی ہوشیار نہیں۔ مہمان نواز کہو کیوں کہ ہمیں تو بڑی خوشی ملی ہے آپ کی سرزمین پر قدم رکھ کر‘‘۔
ثاقب نے خوش ہوتے ہوئے ان کی مہمان نوازی کی تعریف کی۔ ٹیکسی نے اب آہستہ آہستہ آئر لینڈ کی سڑک پر چلنا شروع کردیا تھا۔
’’تھینک یو تھینک یو‘‘ ٹیکسی ڈرائیور بہت خوش اخلاق معلوم ہوتا تھا۔
’’ہمیں آئرلینڈ کے متعلق کچھ بتاؤ بھئی۔ عمران نے دلچسپی سے پوچھا۔
ہمارے ملک کو 1921ء میں برطانیہ سے آزادی ملی تھی اور خدا کے فضل سے اب ہم ترقی کے راستے پر ہیں اس کے علاوہ ہمارے چھ علاقے اب بھی برطانیہ کے قبضے میں ہیں جنہیں شمالی آئرلینڈ کہا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ 1948ء میں ہم برطانیہ کے حق میں ان علاقوں سے دستبردار ہوگئے تھے لیکن میرے خیال میں یہ کچھ اچھا نہیں ہوا تھا‘‘۔
ڈرائیور نے مختصراً آئرلینڈ کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا۔
’’اس کا مطلب ہے برطانیہ نے ماضی میں خوب عالمی غنڈہ گردی مچائے رکھی تھی جس سے بھی پوچھو وہ یہی کہتا ہے کہ ہم برطانیہ کے غلام رہے ہیں‘‘۔
ثاقب نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
’’آپ لوگ بھی تو برطانیہ کے زیر تسلط رہے ہیں نا؟‘‘ ٹیکسیی ڈرائیور نے پوچھا۔
’’ہاں برطانیہ نے سو سال تک ہم پر حکومت کی پھر ہمیں کافی جدوجہد کے بعد 1947ء میں آزادی مل گئی تھی۔ شعیب نے مختصراً جواب دے کر گفتگو ختم کردی اسے ڈر تھا کہ اگر گفتگو طویل ہوگئی تو باتوں ہی باتوں میں مسلمان ہونے کا راز فاش ہوسکتا ہے۔
’’لیجئے آپ کی قیام گاہ ’’مڈ سٹی ہوٹل‘‘ آگیا ہے‘‘۔
یہ کہتے ہوئے اس نے گاڑی پارک کی اور سامان ان کے کمرے تک پہنچادیا انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اس وقت سرکاری مہمان ہیں۔
میں اسی ہوٹل میں ہوں آپ کو جب ضرورت ہو انٹرکام کے ذریعے مجھے طلب کرسکتے ہیں ویسے ابھی آپ آرام کیجئے صبح ناشتہ کے بعد میں آپ کو آئرلینڈ کی سیر کراؤں گا۔‘‘
اور وہ گڈ ایوننگ کہتا ہوا رخصت ہوگیا۔
رات بھر بڑے مزے کی نیند آئی صبح وہ ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ خصوصی پروٹوکول پر پورے آئر لینڈ کا تفریحی دورہ کرتے رہے اور خوبصورت مقامات کی فوٹو گرافی اور تاریخی حوالے مرتب کرتے رہے البتہ اس دوران وہ ماسٹر خان کو اپنی خیریت کی اطلاع دینا نہیں بھولے تھے‘ دو دن بعد وہ ایک مرتبہ پھر ڈبلن انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر شمالی کیرولینا جانے کے لیے تیار کھڑے تھے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’مسٹر گرین شیروف آپ نے ایک ہفتے کی مہلت طلب کی تھی کہ آپ بتائیں گے کہ اس دوران آپ نے کیا کامیابی حاصل کی ہے؟ پرنس ایریل ایک مرتبہ پھر زی ورلڈ وائڈ کے دفتر میں مسٹر گرین شیروف سے رپورٹ لے رہا تھا۔
’’سر سچی بات یہ ہے کہ ان کے مقابلے میں ہم فیل ہوگئے ہیں میں اپنے عہدے سے مستعفی ہورہا ہوں۔ برائے مہربانی میرا استعفیٰ قبول کرلیجئے‘‘۔
مسٹر گرین شیروف شرمندگی کے ساتھ اپنا استعفیٰ پرنس ایریل کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا جس کے جواب میں پرنس ایریل صرف اسے گھورتا ہی رہا وہ بھی سخت دباؤ کا شکار نظر آرہا تھا اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ان خطرناک لڑکوں تک کس طرح رسائی حاصل کرے۔ پھر وہ سارے کور کمانڈرز سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا۔
’’اس طرح استعفیٰ دینے سے کام نہیں چلے گا ہمیں بہرحال انہیں پکڑنا ہوگا انہیں ختم کیے بغیر ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے کیوں کہ مجھے ان کے ایک چھوٹے سے ممبر جس کا نام غالباً وقاص تھا کے الفاظ یاد ہیں۔ اس نے کہا تھا۔‘‘
’’مسٹر ایریل بات بالکل سیدھی ہے تم آگ ہو اور ہم پانی مطلب یہ ہے کہ تمہارا مقصد دنیا میں آگ لگانا ہے اور ہمارا کام آگ بجھانا ہے، تم عیسائیت اور یہودیت کو دنیا پر مسلط کرنا چاہتے ہو اور ہم اسلام کے غلبے کے لیے کام کرتے ہیں۔ تم دنیا کو ظلم سے بھرنا چاہتے ہو اور ہم امن کے راہی ہیں۔ تم لڑانا جانتے ہو اور ہم ملانا جانتے ہیں۔ تم پاکستان کو توڑنا چاہتے ہو اور ہم اسے دوبارہ جوڑنا چاہتے ہیں۔ تم کرائے کے قاتل ہو اور ہم اپنے اللہ کی رضا کے لیے بغیر معاوضے کے جدوجہد کرتے ہیں۔ ہم اللہ سے ڈرتے ہیں اور تم بندوق سے ڈرتے ہو، بس یہی وجہ ہے کہ تم موت سے ڈرتے ہو اور موت ہم سے ڈرتی ہے‘‘۔
اور وہ لڑکا بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا اس نے جو کہا وہ کرکے دکھایا اس نے نہ صرف ہماری لگائی ہوئی آگ کو بجھا کر دکھایا بلکہ موت کو شکست دے کر بھاگ نکلا یا شاید موت اس سے ڈر کر بھاگ گئی، آخر ہمارے پاس ایسے ایجنٹ کیوں نہیں ہیں ہماری ٹریننگ میں ایسی کون سی کمی رہ گئی ہے آخر تم سب کو کیا ہوگیا ہے‘‘۔
پرنس ایریل اب ہذیانی انداز میں چیخنے لگا تھا وہ پاگلوں کی طرح ہاتھوں کو میز پر مار رہا تھا اور خود ہی اپنے ہاتھوں کو زخمی کررہا تھا سارے کمانڈر سہم گئے ایک نے آگے بڑھ کر پانی کا گلاس پرنس ایریل کی طرف بڑھایا تو وہ بھی ایک جھٹکے سے دور جاگرا اور کرچی کرچی ہوگیا۔
’’لیڈیز اینڈ جینٹل مین گڈ آفٹر نون۔‘‘
اب سے کچھ ہی دیر بعد ہم امریکا کی خوب صورت ریاست شمالی کیرولینا میں لینڈ کرنے والے ہیں آپ تمام معزز مسافروں سے درخواست کی جاتی ہے کہ براہ کرم اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لیں۔
جہاز میں لگے اسپیکروں سے کسی ہوائی میزبان کی ہدایات گونجنے لگی اور شعیب نے جلدی جلدی عمران اور ثاقب کو اٹھانا شروع کردیا جو چھ گھنٹے کی فلائٹ کے دوران خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔
’’تھامس، ایلیک اٹھو بھئی ہم شمالی کیرولینا پہنچ چکے ہیں‘‘۔ شعیب کی آواز سنتے ہی دائیں بائیں بیٹھے عمران اور ثاقب ایک دم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور پھر سب اپنی اپنی سیٹ بیلٹ باندھنے لگے۔
’’انٹرنیشنل ریجنل ائیرپورٹ نارتھ کیرولینا پہنچے پر ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں‘‘۔ ائیرپورٹ پر سامان کی تلاشی کے دوران ائیرپورٹ کا عملہ مسافروں کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔
شعیب، ثاقب اور عمران بھی اپنے سامان کے ساتھ لائن میں کھڑے تھے کہ دو پولیس افسران جن کی پینٹ کے ساتھ ریوالور لٹکتا صاف نظرآرہا تھا تیزی سے ان تینوں کے قریب آئے اور بولے۔
کیا آپ ہی مسٹر رابرٹ، تھامس اور ایلیک ہیں؟‘‘
شعیب خطرے کو بھانپ گیا تھا لیکن اسے ماسٹر خان کا جملہ اچھی طرح یاد تھا کہ کوشش کرنا کہ لڑائی بھڑائی سے دور رہو اور اپنے کارڈز استعمال کرو۔ وہ بولا۔
’’یس۔۔۔ پولیس مین۔ ہم ہی رابرٹ، تھامس اور ایلیک ہیں‘‘ تو پھر آپ تینوں ہمارے ساتھ سیکورٹی روم چلیے‘‘۔
یہ کہتے ہوئے ان میں سے ایک آگے اور ایک ان تینوں کے پیچھے پیچھے چلنے لگا سارے مسافر ان تینوں کو گھور گھور کر حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
آپ تینوں ان نشستوں پر تشریف رکھیے اور ہمارے سوالوں کے صحیح صحیح جواب دیجیے یاد رکھیے آپ کا تعاون ہمارے اور آپ کے لیے بہتر ہوگا۔
’’دیکھیے ہم لوگ صحافی ہیں اور انٹرنیشنل NGO (PFN) کے نمائندے ہیں آپ ہم سے آخر اور کیا پوچھنا چاہتے ہیں‘‘۔
شعیب نے مصنوعی غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تو پولیس افسر نے دو ٹوک لہجے میں پوچھا۔
’’کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جنہوں نے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں تباہی مچائی تھی‘‘۔
’’جی! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
عمران کا دل اچانک اچھل کر حلق میں آگیا۔ مگر اس نے حیرت بھرے لہجے میں اظہار کرتے ہوئے کہا تو پولیس افسر نے دوسرا حملہ کیا۔
’’کیا تم وہی نہیں جنہوں نے پاکستان میں بلیک واٹر کو ناکوں چنے چبوادیے اور ان کا ہیڈ کوارٹر اڑادیا‘‘۔
اب کی مرتبہ ثاقب بھی مچل اٹھا اور کسی بھی قسم کی کارروائی سے پہلے اس نے شعیب کی طرف دیکھا لیکن وہاں بھی عجیب و غریب کیفیت کا سامنا تھا۔
’’اور کیا تمہارا تعلق گوریلا فائٹرز سے نہیں ہے؟‘‘
اس آخری سوال نے تو گویا اِن کے جسم سے خون نچوڑ لیا، ان تینوں کو یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے ان تینوں کو چوہے دان میں بند کرکے حملہ کردیا ہو۔
*۔۔۔۔۔۔*
ان تینوں کو یہ احساس ہوچکا تھا کہ وہ واقعی بری طرح پھنس چکے ہیں اور اب بھاگنے کا بھی کوئی راستہ نہیں ہے اور نہ ہی اپنا دفاع کرنے کے لیے ہتھیار دستیاب ہیں، یعنی صرف ہاتھ پاؤں کا استعمال ہی ممکن ہے لیکن مد مقابل جدید اسلحے سے لیس تھے جس کا مقابلہ کرنا آسان نہیں تھا۔
’’دیکھیں آپ ہم پر اس طرح بے بنیاد الزامات لگا کر ہمیں خوفزدہ کرنے کی کوشش نہ کریں ہم وہ نہیں ہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں اور یاد رکھیے ہماری تنظیم انٹرنیشنل رفاہی ادارہ ہے جسے اقوام متحدہ کی نمائندہ تنظیم ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے، اگر آپ لوگوں نے ہمیں مزید پریشان کرنے کی کوشش کی تو ہم آگے تک بھی جاسکتے ہیں۔‘‘
عمران نے دونوں پولیس اہلکاروں کو اپنی کمزور دلیلوں کے سہارے باتوں میں لگانے کی کوشش کرتے ہوئے خفیہ انداز میں شعیب کو اشارہ دیا کہ تم کارروائی کرسکتے ہو۔
اور پھر جیسے ہی شعیب نے ان پر حملہ کرنے کیلئے پر تولے ایک پولیس مین نے جلدی سے اپنا ریوالور نکال کر شعیب کے ہاتھ میں دے دیا اور شعیب سمیت تینوں ہکا بکا ان اہلکاروں کی شکلیں تکنے لگے جو اچانک اپنے جارحانہ انداز تبدیل کرکے اب ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔
’’آپ تینوں ہمیں معاف کیجئے، ہمارا مقصد ہر گز آپ کو خوفزدہ کرنا نہیں تھا بلکہ صرف اس بات کی تصدیق کرنا تھا کہ آپ تینوں وہی ہیں جن سے ملنا ہمارے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں‘‘۔
ان دونوں میں سے ایک پولیس مین جس نے ریوالور پیش کیا تھا معذرت خواہانہ انداز میں بولا۔
’’دیکھیں جناب پہلے آپ نے ہمیں صرف پریشان کیا تھا مگر اب آپ نے ہمیں حیران و پریشان کردیا ہے، براہ کرم آپ لوگ کھل کر وضاحت کریں کہ آپ لوگ کون ہیں اور ہم سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘
ثاقب نے دو ٹوک انداز میں ایسے سوال پوچھا جیسے وہ اب تک پوچھے گئے سوالات سے لاعلم ہوں۔
کیوں کہ اکثر و بیشتر اس طرح کے نفسیاتی حربے استعمال کرکے ایجنسیاں اپنے دشمن سے بہت کچھ اگلوالیتی ہیں۔
ثاقب کا جملہ مکمل ہوتے ہی دوسرا پولیس مین بولا۔
’’میرا نام آدم اور اس کا نام یوسف ہے اور ہمارا تعلق تحریک آزادی فلسطین سے ہے اور ہمیں آپ کے یہاں پہنچنے کی اطلاع ہماری تنظیم القارعہ کے سربراہ حسن ترمذی نے دی تھی اور ہمیں یہ ہدایات دی گئیں کہ آنے والے مہمانوں سے ہر ممکن تعاون کیا جائے‘‘۔
پولیس مین، جیسے جیسے تفصیلات بتاتا جارہا تھا تینوں کے چہروں پر مسکراہٹ پھیلتی جارہی تھی۔
’’اوہ! یہ تو زبردست ایڈونچر ہوگیا یعنی آپ دونوں نے تو ہمارا خون ہی خشک کردیا تھا‘‘۔ عمران مسکراتے ہوئے بے ساختہ اٹھ کھڑا ہوا اور گلے ملتے ہوئے بولا تو ثاقب کے منہ سے بھی بے اختیار ’’شکر الحمد اللہ‘‘ کے الفاظ جاری ہوگئے اور پھر سب باہم گلے ملنے لگے۔
’’لیکن آپ لوگ یہاں امریکین پولیس میں کیسے؟‘‘
شعیب کے ذہن میں بہت سارے سوالات کھلبلارہے تھے وہ ریوالور واپس کرتے ہوئے بولا۔
’’یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہمارے ہزاروں ایجنٹ اور کارکن مختلف ناموں سے پوری دنیا میں کام کررہے ہیں اسی لیے ہمارا اطلاعاتی نیٹ ورک بہت وسیع اور منظم ہے‘‘۔
’’اوہ۔ آئی سی!‘‘ شعیب نے حیرت سے ہونٹ سکیڑتے ہوئے کہا تو دوسرا پولیس مین بولا۔
’’ہم اس وقت مسلمان بن کر نہیں بلکہ ایڈم اور جوزف کے نام سے امریکا کے شہری ہیں اور گزشتہ پانچ سال سے ائیرپورٹ پولیس مین کی حیثیت سے کام کررہے ہیں، ہمارے علاوہ یہاں اور بھی کئی لوگ ہیں جو تحریک آزادی فلسطین کے لیے کام کررہے ہیں‘‘۔
’’بہت خوب! یعنی آدم سے ایڈم اور یوسف سے جوزف۔ کمال کردیا آپ لوگوں نے بھئی ونڈر فل‘‘۔ ثاقب نے کھل کر داد دیتے ہوئے کہا تو ایڈم بولا۔
’’اب آپ لوگوں کا یہاں زیادہ دیر رکنا مناسب نہیں، آپ لوگ فوراً یہاں سے روانہ ہوجائیں باقی باتیں ہم ڈیوٹی سے فارغ ہونے کے بعد ہوٹل میں کریں گے۔۔۔اور ہاں ہوٹل سے یاد آیا ہم نے آپ لوگوں کے آنے سے پہلے ہی آپ کے کمرے کوئین ہوٹل میں بک کروادیے ہیں بقیہ تفصیلات آپ کو ہوٹل پہنچ کر مل جائیں گی‘‘۔
اور آدھے گھنٹے بعد وہ تینوں اپنا سامان اٹھائے کوئین ہوٹل کی عظیم الشان عمارت میں داخل ہورہے تھے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’خدا کی پناہ! ان ایڈم اور جوزف نے تو ہمارا خون ہی خشک کردیا تھا اگر وہ دونوں حقیقتاً حکومت کے بندے ہوتے تو مارے گئے تھے یار!‘‘
عمران نے ہوٹل کے کمرے میں پہنچتے ہی سامان بستر پر ڈالتے ہوئے کہا تو شعیب بولا۔
’’ہاں واقعی وہ دونوں مارے گئے تھے۔‘‘
’’کیا مطلب ہے آپ کا؟ میں ان کی نہیں اپنی بات کررہا ہوں‘‘۔
عمران نے حیرانی سے شعیب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو بڑے اطمینان سے جوتے اتار رہا تھا۔
’’ہاں بھئی سچ کہہ رہا ہوں ہم تو شاید بعد میں مارے جاتے لیکن پہلے وہ دونوں مارے گئے تھے اگر وہ ایڈم صاحب بروقت سچ نہ اگلتے کیوں کہ میں ان دونوں کو نشانے پر لے چکا تھا۔‘‘ شعیب نے مسکراتے ہوئے کہا تو ثاقب بولا۔
’’ویسے ایڈم نے بڑی عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریوالور تمہارے ہاتھ میں دے دیا اگر وہ مزید دیر کرتا تو ان کے ساتھ ساتھ ہمارا بھی کام خراب ہوجاتا‘‘۔
’’بھئی تم دونوں کو آخر کیا ہوگیا ہے جب سے ہوٹل آئے ہو بالکل غلط تبصرے کررہے ہو، ایڈم کی نادانی کو بھی عقلمندی کا نام دے رہے ہو۔‘‘
’’ارے میرے بھیا ایسے موقع پر جبکہ مدمقابل غلط فہمی کا شکار ہو اور آپ کو دشمن سمجھ کر حملہ کرنا چاہ رہا ہو، آپ اپنے ہتھیار کی طرف ہاتھ بڑھائیں گے تو دوسرا کیا سمجھے گا؟ یہی ناں کہ وہ مارنا چاہ رہا ہے۔میں تو پہلے یہی سمجھا تھا کہ اس نے میرے ارادے کو بھانپ لیا ہے اور اپنا ریوالور نکال کر مجھ پر حملہ کرنے والا ہے۔بس یوں سمجھ لو کہ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں مجھے اپنا پروگرام تبدیل کرنا پڑا ورنہ ایک لمحہ بھی تاخیر ہوتی تو میں نے حملہ کردینا تھا اور پھر واقعی سب کا کام خراب ہوجاتا اور ماسٹر خان الگ ناراض ہوتے‘‘۔
شعیب نے ایڈم کی طرف سے ہونے والی غلطی کی وضاحت کی تو ثاقب ایسے اثبات میں سر ہلانے لگا جیسے اس نے پہلے اس پہلو پر غور نہ کیا ہو۔
’’ہم ہوتے تو ماسٹر خان ناراض ہوتے ناں! یہ تو وہی بات ہوگئی کہ ماں بچے سے بولی کہ بیٹا چھت سے نیچے اتر آ، اگر گر گیا تو گھر میں گھسنے نہیں دوں گی۔‘‘
عمران نے شعیب کے جملے پر جملہ کسا تو ثاقب اور شعیب بھی ہنس پڑے۔
’’ویسے ایک بات ضرور ہے ایڈم نے غلطی کی ہو یا نہ کی ہو مگر اس وقت ہم ایک بڑی غلطی کررہے ہیں‘‘۔
عمران کے جملے سے ثاقب اور شعیب کی ہنسی کو بریک لگ گئے۔
’’وہ کیا مسٹر ایلیک؟‘‘ شعیب نے فوراً عمران کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’میرا مطلب ہے کہ ہم نے ابھی تک ماسٹر خان سے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ حسن ترمذی اور پھر حسن ترمذی سے ایڈم اور جوزف تک اطلاع کیوں کر ممکن ہوئی، ہوسکتا ہے کہ یہ بھی ایک چال ہو اور ہمیں پھنسایا جارہا ہو، آپ کا کیا خیال ہے مسٹر رابرٹ؟‘‘ عمران نے کہا تو شعیب بولا۔
’’ہوں ں ں۔۔۔! کہتے تو تم بھی درست ہو لیکن اگر بالفرض ہمیں پھنسایا جارہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم پھنس چکے ہیں کیوں کہ ہم ان ہی کے بک کیے ہوئے ہوٹل کے کمرے میں موجود ہیں جہاں یقیناًہماری آوازیں بھی ریکارڈ ہورہی ہوں گی جو ثبوت کے لیے کافی ہوں گی اور بھاگنے کے راستے بھی مسدود ہوچکے ہوں گے‘‘۔
اس دوران شعیب نے آگے بڑھ کر کمرے کی کھڑکی کا پردہ ہٹاتے ہوئے باہر جھانکا تو ٹھٹک کر رہ گیا کیوں کہ نیچے پولیس کی چھ سات کاریں جن کے اوپر نیلے اور سرخ رنگ کی بتیاں تیزی سے جل بجھ رہی تھیں، ہوٹل کے دروازے پر پہنچ چکی تھیں اور پولیس اہلکار اپنا اسلحہ اٹھائے پوزیشن سنبھالتے ہوئے ہوٹل کی طرف بڑھ رہے تھے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’ماسٹر آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ زبیر نے ماسٹر خان کو صبح صبح پریشانی کی حالت میں ادھر ادھر ٹہلتے دیکھا تو پوچھا۔
’’ہاں بھئی! طبیعت تو ٹھیک ہے البتہ تشویش یہ ہے کہ ان تینوں کی ابھی تک کوئی اطلاع نہیں آئی؟۔ معلوم نہیں اس وقت کہاں ہوں گے؟‘‘
ماسٹر خان تشویش بھرے لہجے میں بولے تو وقاص ان کی آواز سن کر دوسرے کمرے سے نکل آیا اور بولا۔
’’ماسٹر، کل رات ہی تو ان سے بات ہوئی تھی ابھی خیر سے شمالی کیرولینا پہنچے ہوں گے کہیں ٹھکانہ پکڑیں گے تو فون بھی کریں گے ویسے بھی ابھی وقت ہی کیا ہوا ہے‘‘۔
وقاص نے ماسٹر خان کی توجہ گھڑی کی جانب مبذول کرواتے ہوئے کہا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن اطلاع دینے میں کون سے ہاتھی گھوڑے لگتے ہیں، کم از کم انسان پریشانی سے تو بچ جاتا ہے‘‘۔
ماسٹر خان کی تشویش بالکل بجا تھی جسے دیکھتے ہوئے زبیر نے جلدی سے موبائل اٹھایا اور شعیب کا فون ملانے لگا۔ فون کی بیل مسلسل بج رہی تھی لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آرہا تھا اور پھر بالآخر شعیب کی آواز سنائی دی جو انتہائی شور کی وجہ سے بہت دھیمی تھی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’اوہ مائی گاڈ! لگتا ہے ہم واقعی غلطی کرچکے ہیں یہاں تو بے شمار پولیس آئی ہوئی ہے۔‘‘ شعیب کھڑکی کا پردہ چھوڑ کر پیچھے ہٹتے ہوئے بولا تو عمران اور ثاقب جلدی سے کھڑکی کی طرف لپکے اور پھر صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے شعیب کی طرف دیکھنے لگے۔
’’ہم اس وقت دسویں منزل پر ہیں، پولیس کو اوپر پہنچنے میں دو سے تین منٹ ضرور لگیں گے میرے خیال میں کمرے میں رہنے کے بجائے ہمیں چھت کی طرف جانا چاہیے شاید کوئی خفیہ راستہ یا لفٹ مل جائے‘‘۔
یہ کہتے ہوئے تینوں نے جلدی سے اپنے جوتے اٹھائے اور دروازکھول کر چھت کی طرف بھاگے اور پانچ منزلیں چڑھنے کے بعد اب وہ چھت پر پہنچ چکے تھے جہاں انتہائی تیز ہوا انہیں اڑائے دے رہی تھی اور کیفیت یہ تھی سانس تیزی سے پھول رہی تھی اور پسینے جاری تھے۔
’’مسٹر رابرٹ! شاید تمہارا موبائل بج رہا ہے‘‘۔
ثاقب نے شعیب کی توجہ اس کے موبائل کی طرف دلائی جو کافی سے چیخ رہا تھا۔
’’ہاں ایک منٹ دیکھتا ہوں، ایلیک تم سیڑھیوں کی طرف نظر رکھو اور تھامس تم یہاں سے فرار کا کوئی دوسرا راستہ تلاش کرو جب تک میں فون اٹینڈ کرلوں ہوسکتا ہے ماسٹر کا ہو‘‘۔
یہ کہتے ہوئے شعیب نے جیب سے موبائل نکالا تو وہاں ماسٹر خان کا نمبر جگمگارہا تھا، موبائل کی روشنی نے رات کے اندھیرے میں یکدم اجالا سا کردیا تھا۔
’’ہیلو رابرٹ اسپیکنگ‘‘۔ شعیب نے ہانپتے ہوئے کہا تو دوسری طرف سے زبیر بولا۔
’’ہاں رابرٹ! یہ لو ماسٹر سے بات کرو‘‘۔
’’بیٹا تم لوگ کیسے ہو۔ خیریت سے پہنچ گئے کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا اور یہ اتنا شور کیوں ہورہا ہے؟‘‘
ماسٹر خان نے ایک ہی سانس میں تین چار سوالات پوچھ ڈالے۔
’’یس سر! ہم پہنچ تو گئے ہیں لیکن شاید ہماری مخبری ہوگئی ہے ہم س وقت کوئین ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں جسے پولیس نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے ہم اس وقت پناہ کی تلاش میں ہوٹل کی چھت پر ہیں‘‘۔
شعیب نے مختصراً ساری صورتحال بیان کی جس کے جواب میں ماسٹر خان کی تشویش بھری آواز ابھری۔
’’اوہ۔ نو! یہ تو بڑی بری خبر ہے لیکن پہلے یہ بتاؤ کہ حسن ترمذی کے بندوں سے تمہاری ملاقات ہوئی یا نہیں؟‘‘
’’ماسٹر آپ اتنی بڑی اور اہم اطلاع ہمیں اب دے رہے ہیں۔ کاش آپ یہ اطلاع ہمیں پہلے دے دیتے تو شاید ہم اتنی بڑی پریشانی کا شکار بھی نہ ہوتے‘‘۔
شعیب بات کرتے کرتے تقریباً روہانسا ہوگیا یہ الگ بات ہے کہ ماسٹر خان کے جملے سے اسے ایک خوشی کا احساس بھی ہوا لیکن اس کے ساتھ ساتھ دیر سے اطلاع ملنے پر غصہ اور جھنجھلاہٹ بھی اس کے لہجے سے عیاں تھی اور پھر وہ اسی دوران ثاقب اور عمران کو بھی آوازیں دینے لگا۔
’’تھامس،ایلیک، ادھر آجاؤ ماسٹر خان کا فون ہے ایڈم اور جوزف کی تصدیق بھی ہوگئی ہے‘‘۔
ثاقب اور عمران بھی تقریبا بھاگتے ہوئے شعیب کے پاس پہنچ گئے اور خوشی سے آپس میں تالیاں مارنے لگے۔
’’بیٹا دراصل میری کل رات ہی حسن ترمذی سے بات ہوئی تھی انہوں نے کہا تھا کہ آپ بے فکر رہیں ہمارے بندے نہ صرف ان کو ریسیو کرلیں گے بلکہ رہائش و دیگر انتظامات کا بندوبست بھی ہوجائے گا اور میں مطمئن ہوگیا اور اطلاع کیسے دیتا کہ تم لوگ تو سفر میں تھے‘‘۔
ماسٹر خان نے بھی مختصراً تاخیر سے اطلاع کا جواب پیش کیا توشعیب کی جھنجھلاہٹ بھی کافی کم ہوچکی تھی وہ بولا۔
’’سر ہم ان کے دونوں بندوں سے مل چکے ہیں اور ان ہی کے فراہم کردہ ہوٹل میں مقیم ہیں پولیس کی گاڑیاں دیکھتے ہی ہمارا شک یقین میں بدل گیا تھا کہ ہمارے ساتھ دھوکا ہوا ہے لیکن اب لگتا ہے کہ معاملہ شاید کچھ اور ہے صورتحال کنٹرول میں آتے ہی ہم دوبارہ رابطہ کریں گے۔ اوکے‘‘ اور پھر انہوں نے چھت سے ایک مرتبہ پھر نیچے جھانکا تو وہاں چند پولیس والے دو آدمیوں کو گرفتار کرکے گاڑی میں بٹھا رہے تھے اور واپسی کی تیاری ہورہی تھی۔
’’دھت تیرے کی۔ اسے کہتے ہیں۔’بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘ یعنی کہ مفت میں اتنے خوار ہوگئے۔‘‘
عمران نے پولیس کو جاتا دیکھ کر ثاقب کی پیٹھ پر ایک ’دھپ‘ جماتے ہوئے کہا تو ثاقب بولا۔
’’اچھا تو تم خوار ہونے کے بھی پیسے لیتے ہو کیا‘‘۔
’’ارے بھئی یہ کیا بیگانہ، دیوانہ اور خوار کیا رٹ لگا رکھی ہے، دو لفظ شکر پڑھو اور نیچے چلو ورنہ کوئی نئی کہانی کھڑی ہوجائے گی۔‘‘
شعیب نے دونوں کو نیچے کا راستہ دکھاتے ہوئے کہا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا اور کچھ ہی دیر بعد وہ ماسٹر خان کو خیریت کی اطلاع دے رہا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔۔۔۔ کمرے کا دروازہ مسلسل تیسری دفعہ کھٹکھٹایا گیا تھا۔ عمران اور ثاقب نہا دھو کر بستر پر لیٹے ہی تھے کہ اونگھ لگ گئی جبکہ شعیب ابھی تک باتھ روم میں گھسا ہوا تھا۔
تیسری دفعہ دروازہ بجنے پر عمران اٹھ گیا، دروازہ کھولا تو سامنے ایڈم اور جوزف سادہ لباس میں موجود تھے جبکہ ان کے ہاتھوں میں کھانے پینے کی مختلف چیزیں بھی نظر آرہی تھیں۔
’’ہائے فرینڈز کیسے ہیں آپ لوگ کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟‘‘
ایڈم نے آتے ہی زور دار آواز میں ہائے کہا تو ثاقب بھی اٹھ کر بیٹھ گیا اور شعیب بھی جلدی سے باہر آگیا اور سب ایک دوسرے سے مصافحہ کرنے لگے۔
’’خیریت کہاں برادر! ہم جیسے ہی یہاں پہنچے پولیس نے ہوٹل کو گھیر لیا اور ہم اوپر چھت پر بھاگ گئے‘‘۔
عمران نے مختصراً کار گزاری بتائی تو جوزف بولا۔
’’ہمیں پتا چلا ہے کہ ایک گھنٹہ پہلے یہاں پولیس آئی تھی لیکن وہ تو ہوٹل میں ہونے والے ایک جھگڑے کی اطلاع پر آئی تھی آپ لوگ کیوں ڈر گئے‘‘؟
’’برادر جوزف ہم بھی انسان کے بچے ہیں، لہٰذا ڈر بھی سکتے ہیں‘‘۔
ثاقب نے جوزف کے عجیب و غریب سوال کا دو بدو جواب دیتے ہوئے کہا تو ایڈم ہنستے ہوئے بولا۔
’’ہمارا مطلب ہے کہ آپ لوگوں سے تو بلیک واٹر جیسی ایجنسیاں بھی خوف کھاتی ہیں اور آپ پولیس کی چھ سات گاڑیوں سے خوفزدہ ہوگئے۔ آپ لوگوں کے لیے تو الگ فورس بنانی پڑے گی اور وہ بھی ناکام ہوجائے گی‘‘۔
’’نہیں بھئی! ایسی کوئی بات نہیں ہے بس ہم احتیاطاً ادھر ادھر ہوگئے تھے ایسے موقعوں پر احتیاط ضروری ہوتی ہے‘‘۔
شعیب نے جلدی سے بات سمیٹتے ہوئے کہا تو ایڈم اور جوزف بھی بالکل بالکل کہتے ہوئے میز پر کھانے پینے کی اشیاء نکالنے لگے، رات کافی ہوچکی تھی جبکہ عمران اور ثاقب کا تو ویسے بھی بھوک سے برا حال تھا لہٰذا سب نے مل کر پوری میز صاف کر ڈالی اور اب سوفٹ ڈرنک سے دل بہلا رہے تھے۔
’’ویسے کل آپ لوگوں کا کیا پروگرام ہے؟‘‘
کھانے کے بعد ایڈم نے سوال پوچھا۔
’’کل ہمارا پروگرام صرف گھومنے پھرنے کا ہے اور بس، لیکن آپ لوگوں کی تو کل بھی ڈیوٹی ہوگی ناں؟‘‘ عمران نے پوچھا تو وہ دونوں بولے۔
’’کل ڈیوٹی ضرور ہے مگر آج کل نائٹ شفٹ چل رہی ہے فرسٹ ٹائم میں ہم آپ لوگوں کے ساتھ ہوں گے۔ اوکے۔‘‘
اور پھر وہ سب کل صبح دس بجے کا وقت طے کرکے رخصت ہوگئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’جیسا کہ آپ حضرات کو بتاچکا ہوں کہ آج ہم سب یہاں اس اہم اجلاس میں اس لیے شریک ہیں تاکہ ہم باہمی مشورے سے ایسی ٹھوس حکمت عملی طے کریں جس سے وہ پانچوں لڑکے ہمارے ہاتھ آجائیں کیوں کہ یہ بات تو طے ہے کہ جب تک وہ پانچوں موجود ہیں ہمارا نیٹ ورک مضبوط نہیں ہوسکتا اور نہ برقرار رہ سکتا ہے۔‘‘
زی ورلڈ وائڈ کے سربراہ پرنس ایریل نے ہائی کمان کے اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تو ایک کمانڈر بولا۔
’’سر، سب سے پہلے ان پانچوں کی نشاندہی ضروری ہے تب ہی معاملہ آگے بڑھ سکتا ہے اور اس کے لیے ہمیں کارندے جاسوس اہلکار اور مخبروں کے علاوہ پرائیویٹ و سرکاری ایجنسیوں اور اداروں کو دو اور دو چار کی طرح ٹھیک کرنا ہوگا میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب ان کی نااہلی کی وجہ سے ہے‘‘۔
اس کے بعد مسٹر گرین شیروف گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بولے۔
’’سر مجھے لگتا ہے کہ ہمارے کچھ بندے ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور ہمیں ڈبل کراس کررہے ہیں ورنہ وہ کسی طرح بچ کر بھاگ سکتے ہیں میرے خیال میں ہمیں ان کالی بھیڑوں کو نکال باہر کرنا ہوگا ورنہ ہم اسی طرح وقت ضائع کرتے رہیں گے اور وہ ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ہمارے دوسرے زونز پر بھی اثر انداز ہوجائیں‘‘۔
تجاویز اور مشورے مسلسل جاری تھے میٹنگ کے اختتام پر ایک دوسرا سینئر کمانڈرونٹوف جو کافی گہری سوچ میں بیٹھا تھا اپنی خاموشی توڑتے ہوئے بولا۔
’’مسٹر ایریل! میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب باتیں فضول ہیں ہم نے اس سے پہلے بھی مختلف میٹنگز کے اندر اس قسم کی باتیں کرکے صرف وقت ضائع کیا، پوری کی پوری ٹیم کی صفائی بھی ہم کرچکے ہیں اب اصل مسئلہ وہی ہے جس کی طرف سب سے پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے یعنی ان پانچوں کو ٹریس کرنا۔ اس سلسلے میں اگر ہم غور کریں تو ہمیں ایک ہی راستہ نظر آتا ہے اور وہ ہے انٹرنیٹ، یقیناًوہ سب بھی اسی ذریعے کو استعمال کرتے ہوئے اپنی پلاننگ اور اطلاعات کو ترتیب دیتے ہیں کیوں کہ یہی سب سے محفوظ اور آسان ذریعہ ہے۔گو کہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ماہر نہیں لیکن پھر بھی وثوق سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم اس سلسلے میں ماہرین کے مشورے سے کچھ کوشش کریں تو ہم نہ صرف ان کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال سکتے ہیں بلکہ ان کی سرپرستی کرنے والے افراد بھی کھوج سکتے ہیں۔دوسری صورت میں ہم یہ بتانے سے بھی قاصر رہیں گے کہ وہ اس وقت کہاں ہیں ہوسکتا ہے کہ وہ پاکستان میں ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس وقت شمالی کیرولینا میں گھوم رہے ہوں، اور ہوسکتا ہے کل وہ ہمارے اسی ہیڈ کوارٹر کی جڑیں ہلا رہے ہوں‘‘
کمانڈر ونٹوف کا آخر جملہ اتنا کڑوا تھا کہ پرنس ایریل سمیت سارے کمانڈر تھوک نگلتے ہوئے سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔
’’تو پھر ٹھیک ہے ہم یہ ذمہ داری کمانڈر ونٹوف ہی کے سپرد کرتے ہیں وہ اس سلسلے میں تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ماہرین کی ٹیم سے مشورہ کریں گے اور دو ہفتے کے اندر اندر مکمل رپورٹ پیش کریں‘‘۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’مسٹر ایڈم یہ کون سی جگہ ہے، یہاں پر تو بڑی قدیم عمارتیں اور سرکاری دفاتر نظر آرہے ہیں؟‘‘
ثاقب نے پرانی پرانی عمارتوں پر نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ یہاں کی مشہور اسٹریٹ ہے اور یہاں سب پرانی عمارتیں ہیں۔لیکن اس سے بھی دلچسپ یہاں کا علاقہ ڈراہم سٹی ہے جہاں تقریباً تین سو سال قبل یعنی سترہویں صدی کے گھر بنے ہوئے جو واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔شمالی کیرولینا کا دارالحکومت ریلیگ ہے جہاں اس وقت ہم موجود ہیں اس کی قریبی ریاستوں میں کولمبس ورجینا اور جارجیا وغیرہ شامل ہیں‘‘۔
مسٹر ایڈم نے ثاقب کو تفصیلی معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا، مختلف مقامات کی سیر کرتے کرتے اب بھوک ستانے لگی تھی مسٹر جوزف نے بتایا کہ ہم دوپہر کا کھانا لائٹ ہاؤس پر کھائیں گے۔
’’زی کا ہیڈ کوارٹر یہاں سے کتنی دور ہے مسٹر جوزف؟‘‘
شعیب کو سب سے زیادہ دلچسپی ہیڈ کوارٹر دیکھنے کی تھی اسی لیے فوراً سوال پوچھ لیا۔
’’وہ شہر سے کچھ فاصلے پر ہے ہم کھانے کے بعد آدھے گھنٹے میں وہاں پہنچ جائیں گے۔‘‘
دوپہر کے کھانے کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر شمالی کیرولینا کی سڑکوں پر گھوم رہے تھے اور اب ان کا رخ زی کے ہیڈ کوارٹر کی طرف تھا۔
راستے میں ایک سڑک سے گزرتے ہوئے ایڈم نے بتایا
’’ اس اسٹریٹ کا نام رائٹ برادرز اسٹریٹ ہے یہ ان دو بھائیوں کے نام سے موسوم ہے جنہوں نے ہوائی جہاز ایجاد کیا تھا اور اسی سڑک کے قریب ہی ان دونوں بھائیوں کی رہائش بھی تھی۔‘‘
وہ ٹھیک آدھے گھنٹے بعد اپنے مطلوبہ ہدف تک پہنچ چکے تھے، یہاں ٹریفک بہت کم تھا لیکن پھر بھی کافی دیر تک وہ دور ہی دور سے ان کے ہیڈ کوارٹر کا جائزہ لیتے رہے جسے بڑے خوب صورت انداز میں کیموفلاج کرکے چھپایا گیا تھا لیکن گوریلا فائٹرز کی عقابی نظروں نے تمام جگہوں کو اپنے ذہن میں بٹھالیا تھا۔
’’وہ لوہے کی باڑ آپ لوگ دیکھ رہے ہیں وہاں سے زی ورلڈ وائڈ کا ٹریننگ ایریا شروع ہوجاتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ وہ باڑ ان کا بارڈر ہے اس کے قریب چڑیا بھی پر نہیں مارسکتی بہت سخت حفاظتی حصار ان کی طرف سے قائم کیا گیا ہے۔‘‘
مسٹر جوزف لوہے کی باڑ کے بارے میں تفصیلات بتار رہے تھے کہ شعیب نے بے خیالی میں ایک پتھر اٹھا کر باڑ کی طرف اچھال دیا جو سیدھا جا کر باڑ سے ٹکراگیا۔
پتھر کے ٹکراتے ہی باڑ سے ایک زور دار آواز برآمد ہوئی اور چنگاریاں اڑنے لگیں اورپھر چاروں طرف زور زور سے سائرن بجنے لگے جسے سنتے ہی چاروں طرف سے سیاہ وردی میں ملبوس سیکورٹی اہلکار دوڑتے ہوئے آتے دکھائی دئیے، مسٹر جوزف نے گھبرا کر شعیب کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ تم نے یہ کیا کردیا اور شعیب اپنی چھوٹی سی غلطی پر ہاتھ ملتا رہ گیا۔
*۔۔۔*
’’ہینڈز اپ۔ یو آر انڈر اریسٹ‘‘۔ آٹھ دس سیکورٹی اہلکاروں نے پانچوں کو گھیرے میں لیتے ہوئے ہاتھ اوپر اٹھانے کا حکم دیا تو سب نے جلدی سے دونوں ہاتھ اوپر اٹھالیے کہ کہیں ظالم کے بچے فائر نہ کھول دیں۔
’’سر معاف کیجئے گا! ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا جو کچھ ہوا وہ بے خیالی میں ہوا ہے۔‘‘ جوزف نے آنے والے اہلکاروں سے مختصر الطاظ میں معذرت چاہی تو ایک کرختگی سے بولا۔
’’جو بات بھی کرنی ہے آفیسر کے سامنے کرو یہاں چیخ کر ہمارا دماغ اور اپنا گلا خراب نہ کرو‘‘۔ اور جوزف نے OK کہتے ہوئے سیکورٹی آفس کے دفتر کی جانب قدم بڑھادیے اور باقی تمام ساتھی بھی اس کے پیچھے چل دیے۔
’’آپ لوگوں کو معلوم ہے آپ نے کتنی بھیانک غلطی کی ہے اور کہاں کی ہے؟‘‘ سیکورٹی آفیسر نے پانچوں کو دیکھتے ہی غصے میں دھاڑ لگائی۔
’’سر بالکل! مجھے اندازہ ہے کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی سیکورٹی ایجنسی کی حدود کے باہر کھڑے تھے لیکن میرے معزز مہمانوں کو اس جگہ کی سنگینی کا قطعی احساس نہیں تھا اسی لیے بے دھیانی میں انہوں نے ایک چھوٹا پتھر کھینچ مارا جو غلطی سے حفاظتی جنگلہ سے ٹکراگیا‘‘۔ ایڈم نے آفیسر کی دھاڑ کا نہایت اطمینان سے جواب دیا۔
’’آپ کیا کام کرتے ہیں اور آپ کے مہمانوں کا تعلق کہاں سے ہے؟‘‘ سیکورٹی آفیسرنے قدرے نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھا تو ایڈم بولا۔
عام طور سے ایسے مواقع پر میں اپنا تعارف نہیں کراتا لیکن آپ نے خود پوچھ لیا ہے تو بتادیتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے ایڈم نے اپنا پولیس کارڈ اس سیکورٹی آفیسر کے سامنے کردیا جسے دیکھتے ہی اس کی سکڑی ہوئی پیشانی یکدم سپاٹ ہوگئی اور وہ مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائے ہوئے بولا۔
’’اگر یہ تعارف آپ اس سے پہلے کروادیتے تو شاید آپ کو اتنی زحمت نہ اٹھانی پڑتی‘‘۔
’’میں نے کہا ناں میں اپنے ذاتی معاملات میں پولیس کارڈ استعمال نہیں کرتا۔ یہ دیکھیے ٹریفک چالان جو کل ہی تیز رفتاری پر کاٹا گیا ہے۔ کیا پولیس والوں کا یہ چالان کٹ سکتا ہے؟‘‘
مسٹر ایڈم نے جیب سے ایک پرچہ نکال کر سیکورٹی آفیسر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تو وہ حیرت سے بولا۔’’لیکن مسٹر ایڈم پولیس کو تو تیز رفتاری کی خصوصی اجازت حاصل ہے پھر یہ چالان کیسا؟‘‘
’’جی ہاں! لیکن اس وقت میں اپنے ذاتی کام سے جارہاتھا نہ کہ سرکاری کام سے‘‘۔
مسٹر ایڈم نے اپنی پرتحیر گفتگو سے سیکورٹی آفیسر کو گھما کر رکھ دیا تھا۔ وہ معذرت کرتا ہوا نہ صرف انہیں باہر تک چھوڑنے آیا بلکہ ان کی گاڑی روانہ ہونے تک وہ وہیں کھڑا رہا۔
*۔۔۔*
’’مسٹر ایڈم آپ نے تو کمال کردیا۔ سیکورٹی آفیسر واقعی پریشان ہوگیا تھا‘‘۔
کار میں بیٹھتے ہی عمران نے مسٹر ایڈم کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو ایڈم بولا۔
’’میں واقعی اپنا کارڈ اور چالان پیپر پیش کرتا لیکن مجھے خدشہ تھا کہ اگر میں انہیں متاثر کرکے باتوں میں نہ الجھا سکا تو یہ مزید تفتیش کرنے ہمیں ہیڈ کوارٹر کے اندر لے جائیں گے اور پھر آپ لوگ بھی تفتیش کی زد میں آجاتے اور یوں بات خراب ہوجاتی‘‘۔
’’ویسے مسٹر رابرٹ آپ کو کیا ہوگیا تھا۔ آپ نیند میں تھے یا آپ نے بے خیالی میں پتھر مارا تھا؟‘‘
مسٹر جوزف نے شعیب کو ابھی تک سنجیدہ دیکھتے ہوئے چھیڑا۔ میرے خیال میں مسٹر رابرٹ ایک پتھر سے پورا ہیڈ کوارٹر اڑانا چاہ رہے ہوں گے یا پھر ہوسکتا ہے اس پتھر پر انہوں نے کچھ پڑھ کر پھونکا ہو لیکن۔۔۔‘‘۔
ثاقب نے بھی شعیب کا موڈ درست کرنے کے لیے ازراہ مذاق کچھ کہنا چاہا لیکن درمیان میں ہی شعیب نے ثاقب کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’یہ تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے، کیسی بات کرنے لگے ہو اگر میں نے وہ پتھر ہیڈ کوارٹر تباہ کرنے کے لیے پھینکا تھا تو اس میں حیرت اور مضحکہ اڑانے والی کون سی بات ہے اور اگر کچھ پڑھ کر پھونک کر پھینکا تھا تب تو بالکل بھی ہنسنے والی بات نہیں۔ ہمارے نزدیک یہ مشکل ہے لیکن اللہ کے نزدیک یہ کوئی مشکل کام نہیں۔
کیا آپ لوگ یہ بات بھول چکے ہیں کہ غزوہ بدر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے لشکر کی طرف مٹھی بھر کر ریت پھینکی تو وہ ان کی آنکھوں میں جا پڑی اور وہ ہزار کا لشکر صرف تین سو تیرہ مجاہدین سے شکست کھکاگیا اور اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ اور وہ (ریت) تم نے نہیں پھینکی بلکہ حقیقتاً ہم نے پھینکی۔
اور وہ ابرہہ کا ہاتھیوں والا لشکر جب خانہ کعبہ کو ڈھانے آیا تو کس طرح مارا گیا؟ ہم اور لوگوں سے؟ نہیں بلکہ کمزور اور حقیر سی ابابیلوں کی چھوٹی چھوٹی کنکریوں سے جو میرے پھینکے گئے پتھر سے یقیناًبہت چھوٹی ہوں گی اور دور کیوں جائیں افغانستان، کشمیر اور فلسطین میں چھوٹے چھوٹے بچے اپنے پتھروں سے دشمن کا کس طرح بھرتہ نکالتے ہیں وہ سب کیا ہے اور کس کے بھروسے پر ہے؟ افسوس یہ ہے کہ ہمارا اللہ پر ایمان کمزور ہوگیا ہے یا شاید ہم خود کمزور ہوگئے ہیں‘‘۔
شعیب شدت جذبات میں کہے جارہا تھا اور سب ہکا بکا اس کی شکل تک رہے تھے پھر اچانک شعیب بولا۔
’’ہاں میں نے وہ پتھر جان بوجھ کر پھینکا تھا‘‘۔
سب نے ایک مرتبہ پھر پلٹ کر شعیب کی طرف دیکھا جہاں ڈھیروں اطمینان اس کے چہرے سے جھلک رہا تھا۔
دوپہر کے چار بجے وہ کوئین ہوٹل کے گیٹ تک پہنچ چکے تھے، کار سے اترنے کے بعد وہ تینوں ایڈم اور جوزف کو خدا حافظ کہہ کر ہوٹل کی طرف بڑھ گئے، شعیب نے جاتے جاتے پلٹ کر کار کی طرف دیکھا تو وہ دونوں ابھی تک ان کی طرف مسکرا کر دیکھ رہے تھے انہیں مسکراتا دیکھ کر شعیب واپس پلٹ آیا اور ایڈم اور جوزف سے بولا۔ ’’ہم گوریلا فائٹرز نے ہمیشہ پانچ کے گروپ میں رہ کر کام کیا ہے۔ اس وقت ہم تین ہیں اگر آپ دونوں ہمارے ساتھ کام کرنا چاہیں تو آج رات بارہ بجے اپنی ڈیوٹی پوری کرنے کے بعد آپ ہماری میٹنگ کو جوائن کرسکتے ہیں ہمیں خوشی ہوگی‘‘۔
شعیب کی آفر سنتے ہی دونوں کی آنکھوں میں نمی اتر آئی، جیسے انہیں کوئی بہت بڑی سعاد ت مل گئی ہو اور پھر جیسے ہی شعیب واپس جانے کے لیے پلٹا تو جوزف بولا۔
’’میرے جملے سے آپ کو یقیناً تکلیف پہنچی ہوگی جس کے لیے میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں لیکن ایک سوال کا جواب اگر آپ دے دیں تو میری ڈیوٹی خیریت سے گزر جائے گی ورنہ میں پریشان ہی رہوں گا‘‘۔
’’وہ کیا؟‘‘ شعیب نے حیرت سے پوچھا۔
’’میرا مطلب ہے، کیا وہ پتھر آپ نے واقعی ہیڈ کوارٹر تباہ کرنے کے لیے پھینکا تھا؟‘‘
مسٹر جوزف کا سوال سن کر شعیب کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ بولا۔
’’اس کا جواب آپ کو آج رات بارہ بجے ملے گا‘‘۔ اور یہ کہتے ہوئے وہ خراماں خراماں ہوٹل کی عمارت میں داخل ہوگیا۔
*۔۔۔*
رات کا کھانا کھانے کے بعد وہ تینوں ایک مرتبہ پھر سر جوڑے بیٹھے ایڈم اور جوزف کا انتظار کررہے تھے۔
’’یار بارہ بجنے والے ہیں اور ابھی تک ایڈم اور جوزف کا کوئی پتا نہیں ہے، ایلیک ذرا تم فون کرکے تو پوچھو‘‘۔
شعیب نے عمران کو مخاطب کرتے ہوئے فون کرنے کے لیے کہا تو ثاقب بول اٹھا۔
’’بھئی تھوڑا انتظار کرلو وہ آرہے ہوں گے ایسی بھی کیا جلدی ہے‘‘۔ اور پھر جیسے ہی بارہ بجے شعیب نے ایک مرتبہ پھر عمران کو فون کرنے کا اشارہ کیا لیکن اس مرتبہ بھی ثاقب بول اٹھا۔‘‘ اے بھیا وہ بارہ بجے ڈیوٹی سے فارغ ہوئے ہوں گے اب یہاں پہنچنے میں انہیں کچھ تو وقت لگے گا ناں‘‘ اور جب سوا بارہ بجے شعیب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا اور وہ موبائل اٹھا کر خود ہی ایڈم کا نمبر ملانے لگا تو ثاقب ہنسنے لگا۔
’’مسٹر تھامس، یہ ہنسنے کا کون سا موقع ہے‘‘۔ شعیب نے ثاقب کو ہنستے دیکھا تو آنکھیں دکھاتے ہوئے غصے سے بولا۔
’’معافی چاہتا ہوں! وہ دراصل ہنسی اس لیے آئی کہ تیسری دفعہ آپ کو فون سے منع کرنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی اور مجھے محسوس ہوچکا تھا کہ وہ دونوں ہوٹل میں آچکے ہیں اور جتنی دیر میں عمران دروازہ کھولے گا وہ پہنچ چکے ہوں گے‘‘۔
ثاقب نے شعیب کی طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے بات مکمل تو تو شعیب خود ہی غصے میں اٹھ کر دروازے تک گیا اور جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ایڈم اور جوزف کھڑے مسکرا رہے تھے۔
’’مسٹر رابرٹ ہم تاخیر پر معذرت چاہتے ہیں کیوں کہ ہمارا ڈیوٹی ٹائم ہی بارہ بجے تک تھا لیکن آپ یہ بتائیے کہ آپ کو ہماری آمد کی اطلاع کس طرح ملی یعنی دروازہ کھٹکھٹانے سے پہلے ہی آپ نے دروازہ کھول دیا یا پھر آپ غصے میں دروازے پر ہی ہمارے انتظار میں کھڑے تھے‘‘۔ مسٹر جوزف نے مسکراتے ہوئے حیرت سے کہا اور جواب میں شعیب مسکراتے ہوئے انہیں اندر لے آیا اور ثاقب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
’’یہ سب کارستانی مسٹر تھامس کی ہے جو ہمیں اس طرح کی خفیہ اطلاع قبل از وقت دے دیتے ہیں، اس کی چھٹی حس واقعی کمال کی ہے مگر کام کبھی کبھی کرتی ہے‘‘۔
’’اوہ۔ ونڈر فل! ہمیں پتا چلا تھا کہ آپ میں سے کوئی ایک ہے جو قبل از وقت اطلاع دے کر حیران کردیتا ہے۔ آج عملی تجربہ بھی ہوگیا یعنی آپ کو پتا چل گیا کہ ہم دروازے پر پہنچ چکے ہیں۔‘‘
مسٹر ایڈم نے قہقہ لگاتے ہوئے ثاقب سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا تو ثاقب بولا۔
’’یہ سب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے مجھے نہیں معلوم کیسے میرے ذہن میں کوئی بات آجاتی ہے اور واقعی وہ درست نکل آتی ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ میں آپ کو بتاسکوں کہ اب آئندہ کیا ہوگا‘‘۔
ایڈم اور جوزف اس واقعہ کو کافی انجوائے کررہے تھے جبکہ شعیب اور عمران کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی لہٰذا شعیب بولا۔
’’اچھا دوستو! ہم اپنی میٹنگ کا باقاعدہ آغاز کرتے ہیں سب سے پہلی بات یہ کہ ہمارا آج کا دورہ جس کا مقصد زی ورلڈ وائڈ کے ہیڈ کوارٹر کا مکمل جائزہ لے کر یہ طے کرنا تھا کہ ہم وہاں کس طرح داخل ہوسکتے ہیں، مکمل ہوچکا ہے اب ہمیں اس مکمل صورتحال کو دیکھ کر آئندہ کی حکمت عملی طے کرنی ہوگی‘‘۔
’’آج کے دورے میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ ان کا ہیڈ کوارٹر جس زبردست طریقے سے کیموفلاج کیا گیا تھا وہ حیران کن تھا جس کی وجہ سے ہم ان کے ہیڈ کوارٹر کا صحیح طور پر جائزہ بھی نیہں لے سکے‘‘۔
عمران نے بلیک واٹرز کی صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تو ایڈم بولا، مسٹر ایلیک آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں کیوں کہ ہم نے جو کچھ دیکھا ہے وہ ان کے ہیڈ کواٹر کا دسواں حصہ بھی نہیں تھا اب ایک بہت بڑا حصہ ہماری نظروں سے اوجھل ہے جو ان کی پیشہ وارانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ لوگ اس طرح اندازہ کریں کہ ان کے ہیڈ کوارٹر کا رقبہ ہزاروں ایکڑ پر محیط ہے اور اسی میں ان کا ٹریننگ ایریا بھی ہے۔
ایڈم کی بات ختم ہوتے ہی شعیب بولا۔
’’میرے خیال میں بات صرف رقبے اور کیموفلاج کی نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ان کا دفاعی اور سیکورٹی نظام حیرت انگیز ہے جس کی ایک جھلک آپ اور میں دیکھ چکے ہیں اور الحمد اللہ ہم محفوظ رہے ہیں لیکن میرے تجزیے کے مطابق ان کے دفاعی حصار کو توڑنا تو بہت مشکل کام ہے‘‘۔
’’مسٹر رابرٹ آپ نے کہا تھا کہ آپ بارہ بجے والی میٹنگ میں ہمیں بتائیں گے کہ آپ نے حفاظتی باڑ کی طرف جان بوجھ کر پتھر کیوں اچھالا تھا کیا واقعی آپ اسے تباہ کرناچاہ رہے تھے؟‘‘
پتھر کے معاملے میں شعیب کی روحانی تقریر کے اثرات اب تک ساتھیوں پر قائم تھے، سوال سن کر شعیب نے مسکرا کر چاروں کو دیکھا اور بولا۔
’’بھائیوں ہم اسے تباہ کرنے نہیں بلکہ کوئی راز چرانے آئے ہیں پھر بھلا میں کیوں اسے تباہ کرنے کے لیے پتھر یا بم پھینکوں گا وہ تو آپ مسئلہ کو سمجھے بغیر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہے تھے اس لیے اپنا اور آپ کا ایمان تازہ کرنے کے لیے ایک بات کی تھی کہ اللہ کے لیے یہ کام کوئی مشکل نہیں البتہ پتھر میں نے ارادتاً اس لیے پھینکا تھا تاکہ میں یہ اندازہ کرسکوں کہ کیا ہم اس باڑ کو کسی طرح عبور کرسکتے ہیں یا نہیں اور پتھر پھینکے سے اندازہ ہوا کہ اسے کاٹنا یا پھلانگنا آسان نہیں اگر میں ایسا نہ کرتا تو آئندہ کارروائی میں اس پتھر کی جگہ ہم باڑ سے چپکے ہوتے‘‘۔
شعیب کی بات سن کر کوئی سر کھجانے لگا اور کوئی ایک دوسرے کی بغلیں جھانکنے لگا۔
’’مسٹر رابرٹ آپ نے بالکل درست اقدام کیا، واقعی باڑ کی اس حد درجہ سنگینی کا تو مجھے بھی اندازہ نہیں تھا‘‘۔
مسٹر ایڈم نے شعیب کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا تو شعیب بولا۔
’’پھر یہ بات تو فی الحال ناممکن ہے کہ ہم ہیڈ کوارٹر میں داخل ہوسکیں لہٰذا کل ہمیں دوبارہ کچھ سوچ بچار کے بعد کوئی دوسری راہ نکالنے کی تدبیر کرنی ہوگی آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟‘‘
تمام افراد شعیب کی تائید کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلانے لگے لیکن ثاقب مسلسل میز پر رکھے ہوئے اخبار کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا اور یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ کسی اور خیال میں گم ہو۔
’’مسٹر تھامس! خیریت تو ہے تم ہماری بات سن رہے ہو ناں‘‘ شعیب نے ثاقب کا شانہ ہلاتے ہوئے کہا اسے اندازہ ہورہا تھا کہ ثاقب نے پوری میٹنگ میں کوئی گفتگو نہیں کی۔
’’ہاں بالکل خیریت ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ہمیں کل تک میٹنگ موخر کرنے کی ضرورت نہیں ہم باآسانی ہیڈ کوارٹر میں داخل ہوسکتے ہیں۔‘‘ وہ اب بھی اخبار کی طرف دیکھ کر بات کررہا تھا جسے دیکھ کر شعیب اور عمران کا بھی ماتھا ٹھنکا۔
’’مگر وہ کیسے؟‘‘ سب نے ایک ساتھ پوچھا۔
’’اس اخبار کے ذریعے‘‘۔ ثاقب نے سامنے رکھے انگریزی اخبار ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو شعیب بولا۔
’’مسٹر تھامس یار کبھی سنجیدہ بھی ہوجایا کرو بھلا اخبار کے ذریعے ہم اندر کیسے جائیں گے؟‘‘
’’میری چھٹی حس نے پوری میٹنگ کے دوران چھ مرتبہ مجھے اخبار کا اشارہ دیا ہے، مجھے لگتا ہے اسی اخبار سے کوئی راستہ نکلے گا‘‘۔ ثاقب نے اخبار کا اصرار جاری رکھا تو شعیب نے لپک کر اخبار اٹھالیا اور جلدی جلدی ایک ایک صفحہ تمام لوگوں میں تقسیم کردیا اور بولا۔
’’اگر اس کی چھٹی حس نے کچھ اشارہ دیا ہے تو یقیناً اخبار کی دال میں کچھ کالا ضرور ہوگا‘‘۔
اور ثاقب سمیت سب مل کر تیزی سے اخبار کا جائزہ لینے لگے اور آدھے گھنٹے کی محنت کے بعد شعیب کی نظر ایک اشتہار پر پڑی جو زی ورلڈ وائڈ کی طرف دے دیا گیا تھا جس میں کمپیوٹر پروگرامنگ کے ماہرین کو انٹرویو کے لیے طلب کیا گیا تھا، پرکشش تنخواہ اور مراعات کا بھی ذیل میں تذکرہ تھا۔
’’اوہ زبردست مل گیا، راستہ مل گیا یہ دیکھو زی ورلڈ وائڈ کی طرف سے اشتہار آیا جس میں آئی ٹی ماہرین کو طلب کیا گیا ہے اور میرے خیال میں ہم عمران کواس انٹرویو کے لیے بھیج سکتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ یہ ان سب کو حیران کردے گا اور اس طرح ہم ان کے کمپیوٹر زون تک بھی بآسانی پہنچ جائیں گے‘‘۔
شعیب کا جملہ ختم ہوتے ہی سب نے مل کر ثاقب کو کرسی سمیت اٹھالیا اور اسے کامیابی پر مبارکباد دینے لگے۔
’’نیچے رکھ دو گرجاؤں گا۔ گرجاؤں گا۔ کی رٹ لگاتے ہوئے نیچے کی طرف زور لگانے لگا۔ کرسی نیچے رکھتے ہی عمران ثاقب کو گدی سے پکڑتے ہوئے بولا۔ا
’’واہ بہت خوب یعنی تم اپنی چھٹی حس سے مجھے قربانی کا بکرا بنارہے ہو۔ دو پہلے ہی پاکستان میں بیٹھے ہیں اب تم دونوں بھی یہاں رک جاؤ گے اور مجھے اکیلے اندر بھیج کر باہر مزے کرو گے نہیں بھئی یہ میرے خلاف سازش ہورہی ہے‘‘۔ اور سب ہنستے ہوئے عمران کے شکنجے سے ثاقب کو چھڑانے لگے جو اپنی گردن عمران موٹے کے ہاتھ سے چھڑانے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔
*۔۔۔*
’’آپ اپنا تعارف کروائے اور اپنی تعلیمی دستاویزات ہمارے حوالے کیجئے۔ زی ورلڈ وائڈ کی طرف سے فائیو اسٹار میں ہونے والے انٹرویو سیشن میں عمران بھی پہنچا ہوا تھا، چھٹے نمبر پر عمران کو بلایا گیا اور عمران نے اپنی مختصر سی دستاویزات پیش کیں اور اپنا مختصر تعارف کراتے ہوئے بولا۔
’’میرا نام ایلیک ہے۔ جان ایلیک اور میں انٹرنیشنل این جی او کے لیے کام کرتا ہوں جس کا نام PFN ہے اور آپ جانتے ہیں کہ PFN اقوام متحدہ کی سرپرستی میں کام کرتی ہے، ویسے میری پیدائش پاکستان کی ہے‘‘۔ عمران نے پاکستان کا نام آخر میں لیتے ہوئے کہا تو انٹرویو پینل پر موجد تمام افراد جس میں بلیک واٹر کا کمانڈو و نٹوف بھی شامل تھا ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگے۔
’’آپ کی دستاویزات بہت معمولی قسم کی ہیں اور آپ کی عمر بھی بہت کم ہے ہم آپ کو غیر موزوں سمجھتے ہیں‘‘۔
ونٹوف نے دستاویزات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا جہاں کوئی بڑی ڈگری یا سرٹیکفیٹ نمایاں نہیں تھا اور ویسے بھی پاکستان کا نام سنتے ہی وہ مزید بات نہیں کرنا چاہ رہا تھا اس کا ارادہ متزلزل دیکھتے ہی عمران نے اسے پھانسنے کی کوشش کی اور بولا۔
’’سر میں نے بڑی مشکل سے پاکستان سے جان چھڑائی ہے اور اب میں دوبارہ وہاں نہیں جانا چاہتا، مذہبی عصبیت، لسانیت اور لڑائی جھگڑا وہاں کا معمول ہے مسلمان مسلمان سے لڑرہا ہے اب میں مستقل امریکا میں رہنا چاہتا ہوں اور ویسے بھی میرے خیال میں آپ کو کام چاہیے نہ کہ دستاویزات مجھے یقین ہے کہ میں آپ کی امیدوں پر پورا اتروں گا میں وہ کچھ کرسکتا ہوں جو شاید پی ایچ ڈی والے بھی نہ کرسکیں۔‘‘ عمران نے آخری تیر بڑا زبردست پھینکا تھا اور سیدھا نشانے پر لگا اور ونٹوف بولا۔
’’ٹھیک ہے مسٹر ایلیک پھر آپ کو ابھی عملی طور پر ثابت کرکے دکھانا ہوگا کہ آپ کسی پی ایچ ڈی ہولڈر سے بھی زیادہ ماہر ہیں چلو شروع ہوجاؤ۔‘‘
عمران نے پندرہ منٹ کی مہلت طلب کرتے ہوئے ایک قریبی کمپیوٹر کی طرف اشارہ کیا جو اسے فوراً فراہم کردیا گیا اور کچھ ہی لمحوں بعد اس کی انگلیاں تیزی سے کمپیوٹر کے کی بورڈ پر حرکت کررہی تھیں اور تمام افراد حیرت سے اس کی جادوئی انگلیوں کو دیکھ رہے تھے جو مکھی کے پر سے تیز متحرک تھیں اور آنکھیں اسکرین پر گڑی ہوئی تھیں۔
دس منٹ بعد اس نے اسکرین سے نظر اٹھائی اور بولا۔
’’سر آپ تمام حضرات کے سامنے کمپیوٹرز موجود ہیں جس کی اسکرین کو میں نہیں دیکھ سکتا یقیناًاس پر کچھ سوالات روشن ہیں جو آپ ہر امیدوار سے پوچھ رہے ہیں لیکن آپ نے مجھ سے نہیں پوچھے کیوں کہ آپ کے خیال میں میں ان سوالات کے جواب نہیں دے سکتا لیکن ایسا نہیں ہے کیوں کہ نہ صرف میں سوالات کے جوابات دے سکتا ہوں بلکہ وہ سوالات بھی آپ کو بتاسکتا ہوں جو آپ مجھ سے پوچھنے جارہے ہیں کیوں کہ میں آپ کے نیٹ ورک میں گھس چکا ہوں اور آپ کی اسکرین پر موجود سوالات میری اسکرین پر ظاہر ہوچکے ہیں‘‘۔
عمران کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی ونٹوف سمیت پانچوں افراد اپنی سیٹوں سے اچھل پڑے اور غیر یقینی انداز میں حیرت سے عمران کا چہرہ تکنے لگے۔
*۔۔۔*
’’لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ نوجوان تم بہت بڑی بات کہہ رہے ہو ایسا ہونا ناممکن ہے‘‘۔ ونٹوف نے حیرت بھرے لہجے میں کہا تو عمران بولا۔
’’ٹھیک ہے تو پھر آپ خود ہی دیکھ لیجیے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے عمران نے اپنے کمپیوٹر کی اسکرین کا رخ انٹرویو لینے والے افراد کی طرف پھیردیا جسے دیکھتے ہی سب کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے اب وہ کبھی اسکرین پر موجود سوالات کو اور کبھی عمران کے چہرے کو تکتے جارہے تھے اور عمران اپنے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سجائے اطمینان سے بیٹھا ان کی چہرے کی بدلتی رنگتوں کو دیکھ کر محظوظ ہورہا تھا۔
’’اوہ نو! اس نے تو واقعی کردکھایا۔ وہاٹ آ سرپرائز‘‘۔ ونٹو ف کے برابر میں بیٹھا ایک افسر حیرت سے چیختے ہوئے بولا۔
’’لیکن یہ تم نے کیا کیسے، مسٹر ایلیک؟‘‘ ونٹوف نے حیرت سے پوچھا۔
’’سر یہ میری برسوں کی محنت ہے اور میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ ڈگریوں سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ مطلوبہ ٹارگٹ حاصل کرنا اصل کمال ہے اور مجھے یقین ہے کہ میں آپ کے اعتماد پر پورا اتروں گا‘‘۔ عمران نے اطمینان سے جواب دیا تو ونٹوف دیگر آفیسرز سے سرگوشی کرنے لگا جیسے حتمی فیصلے تک پہنچنے کی کوشش کررہا ہو۔ پھر اچانک عمران کی طرف متوجہ ہوا اور بولا۔
’’تم نے واقعی ہمیں حیران کردیا ہے اور ہم سب کی رائے تمہارے بارے میں بہت اچھی ہے مگر ہم حتمی اعلان تمام انٹرویوز کے بعد ہی کرسکیں گے اب آپ جاسکتے ہیں، وش یو گڈ لک‘‘۔ یہ کہتے ہوئے ونٹوف بے اختیار عمران سے ہاتھ ملانے کے لیے کھڑا ہوگیا، انٹرویو پینل پرموجود دیگر چار افسران بھی تعجب اور حیرت کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ ونٹوف کو دیکھنے لگے جو نہ صرف ایک نوکری کے امیدوار بلکہ ایک پاکستانی نوجوان کو الوداع کرنے کے لیے اپنی سیٹ سے اٹھ گیا تھا۔
و ہ ونٹوف کا دیکھا دیکھی خود بھی کھڑے ہونے لگے اور دوسری طرف ونٹوف کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا لہٰذا وہ فوراً بیٹھنے لگا اس عجیب و غریب اٹھک بیٹھک کو دیکھ کر جس میں اب چاروں افسران کھڑے اور ونٹوف بیٹھ چکا تھا عمران بڑی مشکل سے اپنی ہنسی دبا رہا تھا اسے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ بڑی خطرناک حد تک ان پر اثر انداز ہوچکا ہے جس کی وجہ سے پورا انٹرویو پینل اب اپنی جھینپ مٹانے کے لیے کھسیانی سی ہنسی ہنس رہا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’کیسا رہا انٹرویو؟‘‘ جیسے ہی عمران کمرے میں داخل ہوا ثاقب نے جھٹ سوال پوچھ ڈالا۔
’’ہاں بس ٹھیک ہی رہا‘‘۔ عمران نے منہ لٹکاتے ہوئے جواب دیا اور جھک کر اپنے جوتے اتارنے لگا۔
’’ایلیک صحیح سے بتاؤ انٹرویو کیسا رہا کوئی بات بنی؟‘‘ عمران کا لٹکا ہوا منہ اور مردہ سا جواب سن کر شعیب جلدی سے عمران کی قریب رکھی کرسی گھیسٹ کر بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’انہیں ڈگریاں چاہیں تھیں جو میرے پاس نہیں تھیں اور جب میں نے انہیں بتایا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے تو انہوں نے مجھ سے پورا انٹرویو بھی نہیں لیا اور معذرت کرلی‘‘۔ عمران نے مصنوعی افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تو۔۔۔ شعیب کے چہرے پر بھی یک لخت مایوسی چھاگئی لیکن ثاقب کسی طور بھی عمران کی بات تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نظر نہیں آرہا تھا کیوں کہ اس کی چھٹی حس نے جس چیز کی طرف اشارہ کیا تھا اس کا غلط ہونا مشکل تھا وہ عمران کو گدی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے بولا۔
’’دیکھو ایلیک! تم ہم سے مذاق کرسکتے ہو لیکن ہمارا رب ہم سے بالکل مذاق نہیں کرسکتا کیوں کہ ہم یہاں مذاق مستی کرنے نہیں بلکہ اس کے دین کے غلبے کی جدوجہد کرنے کے لیے اپنے گھروں کو دور چھوڑ آئے ہیں، اس اخبار کی طرف رہنمائی یقیناًہمارے رب کی طرف سے تھی اور وہ غلط نہیں ہوسکتی اب جلدی سے بتاؤ کہ سچ کیا ہے؟‘‘
’’یار میری پوری بات تو سن لو میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں دراصل پہلے انہوں نے واقعی مجھ سے معذرت کرلی تھی لیکن میں نے انہیں چیلنج کیا کہ میں وہ کام کرسکتا ہوں جو شاید دوسرے نہ کرسکیں پھر انہوں نے میرا امتحان لیا اور میں نے انہیں گھما کر رکھ دیا‘‘۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا تو دونوں اس کو بستر پر گراتے ہوئے اس پر پل پڑے، اسی دوران ایڈم اور جوزف بھی آگئے اور اس طرح عمران کی جان بچ گئی۔
’’ارے بھئی یہ ہمارے آنے سے پہلے کس قسم کی دھینگا مشتی ہورہی تھی، خیریت تو ہے لگتا ہے مسٹر ایلیک کامیاب لوٹے ہیں‘‘۔ ایڈم نے یقیناًشور شرابے کی آواز سن لی تھی اسی لیے آتے ہی پوچھ بیٹھے۔
’’جی ہاں آپ بالکل صحیح سمجھے لیکن یہ آتے ہی ہمیں الو بنا رہا تھا اسی لیے ہم اسے مار مار کر دنبہ بنارہے ہیں‘‘۔
ثاقب نے ایڈم کو جواب دیتے ہوئے ایک اور دھول عمران کی پیٹھ پر رسید کی تو شعیب بولا۔
’’ارے اسے ہم کیا دنبہ بنائیں کہ یہ بے چارہ تو پہلے سے پلا پلا یا موٹا تازہ دنبہ ہے ذرا دیکھو تو اس کے بازوؤں کو‘‘۔
یہ کہتے ہوئے شعیب نے عمران کے صحت مند بازو کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑتے ہوئے کہا تو چاروں قہقہے لگا کر ہنسنے لگے۔
’’ارے میرے بازو موٹے ہیں تو کیا ہوا ویسے بھی حدیث میں ہے کہ ’’قوی مومن، ضعیف مومن سے بہترہوتا ہے‘‘۔ کیا سمجھے سوکھے کانگڑی۔‘‘
عمران بھی ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھا جبکہ ایڈم اور جوزف ان کی نوک جھونک سے محظوظ ہورہے تھے۔
’’حدیث میں قوی مومن کو بہتر کہا ہے، موٹے کو نہیں، سمجھے آئی موٹے پھسپھسے‘‘۔ شعیب کی طرف سے ثاقب نے عمران کو دوبدو جواب دیتے ہوئے کہا تو شعیب بولا۔
’’چلو بھئی بہت مذاق ہوگیا اب یہ بتاؤ کہ تم نے ایسا کیا کام کرکے دکھایا جس سے وہ حیران رہ گئے؟‘‘
’’ارے بھئی حیران نہیں بلکہ ’’حریان‘‘ و پریشان کہو تو بہتر ہے‘‘۔ عمران نے لفظ حیران کو بگاڑ کر اور زیادہ حیران کن بناتے ہوئے اردو ہی میں جواب دیا تو ثاقب نے فوراً ٹوکا اور بولا۔
’’میرے خیال میں آپ دونوں حضرات ان دونوں حضرات کا بھی خیال کریں اور اردو بولنے سے گریز کریں ورنہ یہ ہماری صرف شکلیں ہی تکتے رہیں گے۔‘‘ ثاقب نے ایڈم اور جوزف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’بالکل بالکل‘‘ اور یہ کہتے ہوئے عمران نے انٹرویو کے دوران ہونے والی ساری کار گزاری بڑے مزے لے لے کر سنائی اور جب آخر میں اس نے بتایا کہ کس طرح وہ اٹھک بیٹھک کررہے تھے تو سب ہنسی سے دوہرے ہوگئے۔
’’بہت خوف، بھئی بہت خوب! تم نے تو واقعی کمال کردیا لیکن میرے خیال میں اب بہت محتاط رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اب تمہاری چھان بین بھی ہوگی بلکہ ہوچکی ہوگی‘‘۔
جوزف نے عمران کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے خدشات کا بھی اظہار کیا تو سب تائیدی انداز میں گردن ہلانے لگے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
ٹرن ن ن ن۔۔۔ ٹرن ن ن۔۔۔ ٹرن۔۔۔ موبائل کی گھنٹی نے جیسے ہی تیسری دفعہ بجنے کے لیے آواز نکالی عمران نے سبز بٹن دبا کر کال وصول کرلی۔
’’ہیلو۔۔۔ ہیلو‘‘۔
’’ہیلو آئی ایم ونٹوف اسپیکنگ۔ کیا مسٹر ایلیک سے بات ہوسکتی ہے۔‘‘ زی ورلڈ وائڈ کے کمانڈر ونٹوف نے بات کرتے ہوئے کہا۔
’’یس سر! آئی ایم ایلیک۔ جان ایلیک، میں دو دن سے آپ ہی کی کال کا منتظر تھا۔ عمران نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تو ونٹوف بولا۔
’’تو پھر تمہارے لیے خوشی کی خبر یہ ہے کہ ہم نے تمہارا انتخاب کرلیا ہے اور کل سے تمہاری ڈیوٹی شروع ہوجائے گی۔ میں کل صبح دس بجے تم سے اپنے آفس میں ملوں گا۔ وش یو گڈ لک۔ اوکے، بائے‘‘۔
ونٹوف کی کال ختم ہوتے ہی عمران نے ’’ہرے‘‘ کانعرہ لگایا تو ثاقب اور شعیب بھی سمجھ گئے کہ کام بن گیا ہے۔
’’ونٹوف کا فون تھا کل صبح دس بجے بلایا ہے‘‘۔ عمران نے دونوں کو خوشخبری سناتے ہوئے کہا اور فوراً کمپیوٹر کی طرف دوڑ لگادی اور نیٹ کے ذریعے ماسٹر خان زبیر اور وقاص سے رابطہ قائم کرنے کی کوششیں کرنے لگا تاکہ ان کو بھی خوشی کی خبر سناسکے اور پھر تھوڑی سی جدوجہد کے بعد ماسٹر خان لائن پر موجود تھے اور عمران کہہ رہا تھا۔
’’ماسٹر مجھے زی ورلڈ وائڈ میں جاب مل گئی ہے‘‘۔
’’ایلیک بیٹا، خوب محنت اور ایمانداری سے کام کرنا کیوں کہ ایسے موقع بار بار نہیں آتے۔ تم نے یہ خبر سنا کر تو دل خوش کردیا‘‘۔
ماسٹر خان نے خفیہ الفاظ میں مبارکباد کے ساتھ مختصر ہدایات بھی دیں اور بولے ’’تمہارے دونوں بھائی بھی تمہیں مبارکباد دے رہے ہیں اور تمہارے جانے کے بعد تمہاری کمی شدت سے محسوس کررہے ہیں۔‘‘
’’سر! ابھی ان کی ضرورت نہیں ہم جیسے ہی مکمل طور پرسیٹ ہوجائیں گے ان دونوں کو بھی بلالیں گے‘‘۔ شعیب نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وقاص اور زبیر کا پاکستان میں بالکل دل نہیں لگ رہا ہے اور وہ بھی یہاں آنے کے لیے بے چین ہیں، اور پھر کچھ رسمی گفتگو کے بعد لائن منقطع ہوگئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’آؤ، آؤ ایلیک بیٹھو، تمہیں ڈیوٹی کا پہلا دن مبارک ہو‘‘۔
دوسرے دن عمران جیسے ہی ونٹوف کے کمرے میں داخل ہوا۔ کمانڈر ونٹوف نے پرجوش انداز میں خوش آمدید کہا۔
’’تھینک یو سر! ویسے یہ میرے لیے خود بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اتنے بڑے ادارے میں نہایت تجربہ کار افراد کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل رہا ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ لوگ میری شفقت کے ساتھ رہنمائی بھی کرتے رہیں گے‘‘۔
عمران نے ونٹوف کو مکھن پالش لگاتے ہوئے کہا تو جواب میں ونٹوف نے مسکراتے ہوئے کہا۔
کیوں نہیں، کیوں نہیں ہم تمہارے ساتھ بالکل تعاون کریں گے لیکن اس کے لیے تمہیں بھی ہم سے تعاون کرنا ہوگا کیوں کہ تم نے جس ادارے کا انتخاب کیا ہے وہاں بے وفائی اور غداری تو دور کی بات سستی اور غفلت کی سزا بھی موت ہے‘‘۔
’’جج، جج، جی سر کیا فرمایا آپ نے؟‘‘ عمران نے معصوم سی شکل بنا کر تھوک نگلتے ہوئے ڈرنے کی اداکاری کی۔
’’نہیں نہیں میرے دوست! میرا مقصد تمہیں ڈرانا نہیں بلکہ صرف احساس دلانا تھا کہ زی ورلڈ وائڈ دنیا کا سب سے بڑا سیکورٹی سسٹم کا ادارہ ہے یہاں غفلت کا مطلب سب کی جان کو خطرے میں ڈالنا ہے لہٰذا تمہیں محتاط رہنا ہوگا اور بہتر ہوگا کہ اپنے کام سے کام رکھا جائے‘‘۔
ونٹوف نے عمران کے خوفزدہ چہرے کو دیکھتے ہوئے قدرے نرم گفتگو اور لہجہ اختیار کیا تو عمران بھی اثبات میں سر ہلانے لگا۔
’’دیکھو ایلیک! تم یقیناًسوچ رہے ہوگے کہ یہاں تو پہلے سے سینکڑوں لوگ کمپیوٹر کے شعبے میں کام کررہے ہیں پھر ہم نے تمہیں کیوں رکھا ہے اور تمہارا کام کیا ہوگا؟‘‘
’’یس سر، میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہوگا؟‘‘ عمران نے ہمہ تن گوش ہوتے ہوئے استفسار کیا۔
’’کام کی تفصیل بتانے سے پہلے میں چاہوں گا کہ تم مجھے چند سوالوں کے جوابات دو تاکہ مجھے یہ جاننے میں آسانی ہو کہ تم کون سا کام صحیح طور پر کرسکو گے۔
اس وقت دنیا میں جو تین سرفہرست مذاہب کے لوگ کام کررہے ہیں ان میں یہودی،عیسائی اور مسلمان شامل ہیں تم ان تینوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو‘‘۔ ونٹوف نے عمران کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بڑا مشکل سوال پوچھ ڈالا تھا اور ایک لمحے کے لیے عمران گڑ بڑا سا گیا تھا لیکن اگلے ہی لمحے وہ بڑے اعتماد سے کہہ رہا تھا۔
’’سر یہودی دنیا کی سب سے چالاک قوم ہے لیکن یہ بات ماننی ہوگی کہ وہ اپنے مذہب کے ساتھ بڑے مخلص ہیں اسی لیے اس کو غالب کرنے کے لئے سب کچھ لٹارہے ہیں اور تعداد میں کم ہونے کے باوجود پوری دنیا میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اپنے نظام کو پھیلا رہے ہیں جبکہ عیسائیوں کو ہم رفاہی کہ سکتے ہیں وہ بظاہر امدادی کاموں میں بہت تیز ہیں لیکن اپنی غلط پالیسیوں یا جارحانہ طرز عمل کے باعث عیسائیت بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی ہے لہٰذا ہمیں اس بارے میں دوبارہ سے سوچ و بچا رکرنا ہوگا‘‘۔ عمران نے یوں ظاہر کیا جیسے وہ عیسائیت کے حوالے سے تشویش کا شکار ہو۔
اور جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے تو ہمیں ماننا ہوگا کہ وہ ایک تیزی سے پھیلتا ہوا متوازن مذہب ہے مگر یہ مسلمان آپس میں لڑتے بہت ہیں، کبھی شیعہ سنی تو کبھی مہاجر پٹھان تو کبھی قبیلے، خاندان، یہ ایک بات پر تو کبھی متفق ہوتے ہی نہیں۔ یقین مانیے اگر یہ لوگ لڑنا چھوڑ دیں تو پوری دنیا پر غالب آسکتے ہیں‘‘۔
عمران نے گفتگو کے دوران کافی پھونک پھونک کر قدم رکھا تھا اور بظاہر کسی مذہب کی حمایت کیے بغیر بالکل صحیح تجزیہ کیا تھا لیکن عمران کی گفتگو ختم ہوتے ہی ونٹوف نے ایک زبردست قہقہہ لگایااور بولا۔
’’مسٹر ایلیک‘ تم تو واقعی بہت خوب بولتے ہواور بڑی گہری نظر ہے تمہاری مذہب پر، بالکل صحیح کہتے ہو تم کہ اگر مسلمان لڑنا چھوڑ دیں تو پوری دنیا پر غالب آسکتے ہیں لیکن یاد رکھو، نہ تو وہ آپس میں لڑنا چھوڑیں گے اور نہ غالب آسکیں گے کیوں کہ لڑوانے والے تو ہم خود ہیں ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا۔‘‘ یہ کہتے ہی اس نے ایک مرتبہ پھر مکروہ قہقہہ لگایا اور عمران سے تالی مارنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھادیا، عمران کا دل چاہا کہ وہ یہ ہاتھ اس کے ہاتھ پر مارنے کے بجائے اس کے سرخ و سفید ٹماٹر جیسے گال پر مار کر اپنے جوش غضب کو ٹھنڈاکرلے لیکن پھر حکمت کے تحت اس نے بادل نخواستہ ہاتھ بڑھا کر ونٹوف کے ہاتھ پر تالی ماری اور تعجب سے پوچھا۔
’’سر میں سمجھا نہیں‘‘۔
’’دیکھو ایلیک! یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ زی ورلڈ وائڈ ایک کمرشل ادارہ ہے ہم معاوضہ لے کر نہ صرف سیکورٹی فراہم کرتے ہیں بلکہ اپنے کلائنٹ (گاہک) کے دشمنوں کو ٹھکانے لگانے کا بھی بندوبست کرتے ہیں اور اس وقت ہمارا سب سے بڑا کلائنٹ اسسرائیل یعنی یہودی ہیں ہم انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں اور ان کے ان دشمنوں کو ٹھکانے لگاتے ہیں جو ان کے لیے خطرہ ہیں، اسی طرح کا ایک خطرہ پاکستان بھی ہے جس سے اسرائیل انتہائی خوفزدہ ہے اور ہمارا کام یہ ہے کہ پاکستان میں لڑائی جھگڑے، بم دھماکے اور فسادات کی آگ بھڑکاتے رہیں اور یہ کام ہم گزشتہ کئی سالوں سے کررہے تھے اور اسرائیل سے رقم بٹور رہے تھے لیکن اچانک ایک ایسا دشمن سامنے آیا جس نے ہم سب کو چکرادیا‘‘۔
’’اوہ آئی سی۔ یقیناًوہ کوئی بڑا ملک ہوگا مثلاً چین یا ایران وغیرہ‘‘۔ عمران نے جان بوجھ کر غلط اندازہ لگایا تاکہ ونٹوف کو مزید ذلت اور شکست کا احساس دلاسکے۔
’’نہیں بھئی وہ کوئی ملک نہیں بلکہ تمہارے اپنے ملک پاکستان کے پانچ کم عمر لڑکے ہیں جنہوں نے ہمارے ناک میں دم کرکے رکھا ہوا ہے ہمارا نیٹ ورک تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور چھلاوے اتنے ہیں کہ ہاتھ میں آکر بھی نکل جاتے ہیں‘‘۔
ونٹوف کی بے بسی اور شکست خوردہ لہجے کو دیکھ کر عمران کا خوشی کے مارے ڈھیروں خون بڑھ گیا لیکن اس نے غصے بھرے لہجے میں کہا۔
’’سر پلیز، آپ آئندہ پاکستان کو میرا ملک نہیں کہیے گا، اس ملک نے مجھے دیا ہی کیا ہے اگر کچھ دیا ہوتا تو میں آج یوں دربدر کی ٹھوکریں کھا کر یہاں نوکری نہ کررہا ہوتا، بس آپ مجھے یہ بتائیں کہ میں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں‘‘۔ عمران نے پرجوش لہجے میں کہا۔
’’اوکے، اوکے، مسٹر ایلیک! مجھے احساس ہے کہ آپ کو میرے جملے سے تکلیف پہنچی، میں معذرت خواہ ہوں۔
دراصل ہم چاہتے ہیں کہ سب سے پہلے یہ معلوم کریں کہ ان کا ٹھکانہ کہاں ہے؟ لیکن کافی کوشش اور جدوجہد کے باوجود ہم یہ معلوم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ تم ہمیں بتاسکتے ہو کہ وہ اس وقت کہاں ہیں‘‘۔
کمانڈر ونٹوف نے مقصد پر آتے ہی جیسے ہی اپنا مدعا بیان کیا تو عمران نے حیرت اور بے یقینی والے انداز سے پوچھا۔
’’مگر وہ کیسے سر؟ میں تو ان کے نام اور شکلیں تک نہیں جانتا ٹھکانہ کیسے بتاؤں گا؟‘‘
’’ان کے نام، تصویریں اور بہت سی معلومات ہم تمہیں فراہم کردیں گے اور میں چاہوں گا کہ جس طرح تم نے ہمیں عملی تجربہ کرکے دکھایا تھا بالکل اسی طرح کوشش کرکے ان کے نیٹ ورک کا پتا چلاؤ۔ یقیناًوہ انٹرنیٹ کے ذریعے آپس میں پلاننگ اور تبادلہ خیال بھی کرتے ہوں گے کسی طرح اس کو تلاش کرلیا جائے تو ان کے ٹھکانے کا بھی خود بخود پتا چل سکتا ہے‘‘۔
کمانڈر ونٹوف نے عمران کی ہمت بندھاتے ہوئے کہا کیوں کہ اس کو بھی بخوبی اندازہ تھا کہ یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔
’’سر جو عملی مظاہرہ میں نے آپ کو کرکے دکھایا تھا، اس میں اور اس کام میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن جب آپ نے مجھے اتنی عزت دی ہے اور مجھ پر اعتماد کیا ہے تو میں پھر بھی آپ کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاؤں گا، آپ مجھے کچھ دن کی مہلت دیجیے میں کچھ نہ کچھ کر ڈالوں گا‘‘۔
عمران نے ونٹوف کو یقین دلاتے ہوئے کہا تو ونٹوف اپنی کرسی سے اٹھ کر عمران کے قریب آیا اور عمران کے کاندھے کو تھپتھپاتے ہوئے شاباشی دی اور بولا۔
’’مسٹر ایلیک! مجھے یقین ہے کہ تم یہ کام کرلوگے‘‘۔
اور یہ کہتے ہوئے ونٹوف، عمران کو اس کے کمرے میں لے گیا، جہاں قیمتی ساز و سامان، جدید آلات اور سپر کمپیوٹرز پر مشتمل لیب میں صرف عمران کی کمی تھی۔
عمران نے جاتے ہی فوراً اپنی سیٹ سنبھالی اور کام شروع کردیا۔ وہ دل ہی دل میں بلیک واٹر پر ہنس رہا تھا جس نے اپنے ہی دشمن کو بربادی کا سامان مہیا کرکے اپنے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی تھی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’یہ ہماری تصویریں تمہیں کہاں سے ملیں؟‘‘ کمرے میں داخل ہوتے ہی عمران نے جیسے ہی پانچ تصویریں میز پر رکھیں شعیب نے لپک کر جلدی سے اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’آج ہی مابدولت کو اسائمنٹ دیا گیا ہے کہ ان پانچ نامی گرامی دہشت گردوں کو گرفتار کرکے زندہ یا مردہ حالت میں پیش کرو اور منہ مانگا انعام حاصل کرو‘‘۔
عمران نے شاہانہ انداز میں آواز کو بھاری بناتے ہوئے کہا تو ثاقب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ہوں ں ں۔۔۔ دیکھنے میں تو بیچارے شریف سے لڑکے لگتے ہیں اور ویسے بھی تم انہیں گرفتار نہیں کرسکو گے‘‘۔
’’کیوں نہیں کرسکتا؟ دو تو پہلے ہی میری گرفت میں ہیں اور دو کو بلوانا پڑے گا جبکہ پانچواں وعدہ معاف گواہ بن جائے گا۔‘‘
عمران نے آنکھ مار کر ہنستے ہوئے کہا تو شعیب سخت لہجے میں بولا۔
’’برائے مہربانی سنجیدہ ہوجاؤ اور کام کی بات کرو، کیوں کہ دیواروں کے بھی کام ہوتے ہیں اس طرح کا مذاق ہمارے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے، اب یہ بتاؤ کہ تمہیں کام کیا دیا گیا ہے؟‘‘
’’اوکے، اوکے، معافی دیجیے، دراصل وہ لوگ گوریلا فائٹرز پر ہاتھ ڈالنے میں ناکام ہونے کے بعد اب چاہتے ہیں کہ میں انٹرنیٹ کے ذریعے انہیں تلاش کروں اور پھر ان کی نشاندہی ہوتے ہی انہیں گرفتار کرلیا جائے‘‘۔
عمران نے مختصراً ونٹوف کا مطالبہ سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
’’اوہ مائی گاڈ! یعنی ہمیں اب انٹرنیٹ کے ذریعے رابطہ کرنے اور نیٹ کے ذریعے ویڈیو کانفرنس کرنے میں بھی محتاط رہنا ہوگا‘‘۔ شعیب نے اپنا سر پکڑتے ہوئے بولا۔
’’خیر یہ کوئی اتنا آسان کام نہیں ہے لیکن میں نے بظاہر ایک چیلنج سمجھ کر اسے قبول کرلیا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ونٹوف اور دیگر ذمہ داران کو اعتماد میں لینے اور اپنی کرسی کو مضبوط رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ میں اس سلسلے میں کچھ پیش رفت دکھاؤں جس کے لیے۔۔۔‘‘
’’کیا کیا؟ کیا مطلب تم ہم میں سے کسی کی نشاندہی کرکے اپنی پیش رفت دکھانا چاہتے ہو ہمیں تم نے بے وقوف سمجھ رکھا ہے‘‘۔
ثاقب نے عمران کی باٹ کاٹتے ہوئے فوراً جوابی حملہ کر ڈالا تو شعیب نے ثاقب کو ڈانٹا اور بولا۔
’’ذرا صبر سے ایلیک کی بات سن لو پھر تبصرے بھی کرتے رہنا یہ بات کاٹ کر بولنا مناسب نہیں ہے، ہاں ایلیک تو وہ پیش رفت کیا ہوسکتی ہے؟‘‘
’’میرا خیال ہے میں وقاص کا پرانا والا آئی ڈی ڈھوونڈ نکالنے کا ڈرامہ کروں گا اور وقاص کو کسی نیٹ کیفے میں بٹھا کر ترتیب سمجھا دوں گا۔ میری اطلاع پر بلیک واٹر وہاں چھاپہ مارے گی جبکہ وقاص وہاں سے فرار ہوچکا ہوگا اس طرح میری نام نہاد کارکردگی سے وہ مجھ پر بھروسہ کریں گے پھر مجھے ماسٹر پلان والی فائل تلاش کرنے میں آسانی ہوجائے گی‘‘۔
عمران بڑی دور کی کوڑی لایا تھا۔
’’ہوں۔۔۔ں۔۔۔ں‘‘ لیکن اس میں دو خطرات بھی ہیں پہلا یہ کہ ٹائمنگ آؤٹ ہوئی تو وقاص کی جان خطرے میں پڑسکتی ہے، دوسرا یہ کہ وہ تم پر بھی شک کرسکتے ہیں کہ کہیں تم گوریلا فائٹرز کے ساتھ تو نہیں ملے ہوئے ہو کیوں کہ اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے وقاص کو ٹریس کرنا تمہیں مشکوک بناسکتا ہے‘‘۔
شعیب نے کچھ سوچتے ہوئے اپنے خدشات ظاہر کیے تو عمران بولا۔
’’آپ کی بات بالکل بجا ہے لیکن اگر ہم بہترین ٹائمنگ کے ساتھ پلاننگ کرلیں تو کم از کم آدھا گھنٹہ قبل ہم وقاص کو وہاں سے ہٹاسکتے ہیں اور جہاں تک دوسرے خطرے کا معاملہ ہے وہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں میں ان بے وقوف کے بچوں کو اس طرح گھماؤں گا کہ ان کو اپنی نانی یاد آجائے گی، عمران نے غصے میں دانت پیستے ہوئے کہا تو ثاقب بولا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے ہم احتیاطاً اگلے ہفتے کی پلاننگ کرلیتے ہیں تاکہ ایلیک ایک ہفتے تک یہ ظاہر کرتا رہے کہ وہ بہت سر توڑ کوشش کررہا ہے اور پھر ہم یہ کارروائی کر ڈالیں گے اور انہیں شک بھی نہیں ہوگا‘‘۔
’’اوکے تو پھر اگلا ہفتہ طے ہے‘‘۔ شعیب نے پروگرام فائنل کردیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’سر ایک خوشخبری ہے آپ کے لیے‘‘۔ ایک ہفتے مسلسل کوشش کرنے کے بعد ایک دن دوپہر کے کھانے کے بعد عمران نے کمانڈر ونٹوف کو فون کرکے سرپرائز دیا تو وہ چہک اٹھا اور بولا۔
’’ہاں بولو مسٹر ایلیک! کیا کوئی سراغ مل گیا؟‘‘
’’یس سسر بس ایسے ہی سمجھ لیں کیوں کہ میں ان کے ایک وقاص نامی ممبر کو ٹریس کرنے کی کوشش کررہا تھا اور جہاں تک میرا خیال ہے میں نے صحیح نشانہ لگایا ہے اس کا آئی ڈی ہے وقاص جی ایف فائیو (www.waqasgf5) اور وہ اب سے کوئی دو گھنٹے بعد دوبارہ مجھ سے رابطہ کرے گا آپ کو کرنا یہ ہے کہ نیو یارک میں واقع ڈیٹا بیس مینجمنٹ سسٹم کے ذریعے صرف اس فرد کی صحیح سمت معلوم کریں اس طرح ہم اس کو پکڑنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں‘‘۔
عمران نے جلدی جلدی ساری طے شدہ پلاننگ کے مطابق کمانڈر ونٹوف کو ساری صورتحال اور طریقہ کار سمجھاتے ہوئے کہا تو ونٹوف بولا۔
’’ویل ڈن، مسٹر ایلیک میں بس ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں پہنچ جاؤں گا اور جیسے ہی تمہارا اس وقاص نامی لڑکے سے رابطہ بحال ہو تو اس کو مصروف رکھنے کی کوشش کرنا تاکہ ہمارے بندے اس کو گرفتار کرسکیں میں ابھی پاکستان میں فون کرکے سب کو الرٹ کرتا ہوں اوکے، وش یو گڈ لک‘‘۔
ونٹوف ایک انتہائی اہم اجلاس میں شرکت کے لیے ورجینا آیا ہوا تھا، عمران کا فون آتے ہی اس نے فوراً تیاری پکڑی اور کوئی ایک گھنٹے کے اندر اندر وہ زی ورلڈ وائڈ کے ہیڈ کوارٹر پہنچ چکا تھا اور عمران کے ساتھ مل کر پلاننگ ترتیب دے رہا تھا اور تھوڑی دیر بعد وقاص عمران سے آن لائن رابطہ قائم کرچکا تھا اور بلیک واٹر کے سارے افسران کی موجودگی میں عمران بظاہر وقاص کو باتوں میں لگانے کی کوشش میں مصروف تھا۔
تھوڑی ہی دیر بعد ایک شخص نے آکر اطلاع دی کہ جو شخص مسٹر ایلیک سے آن لائن ہے وہ اس وقت کراچی کے علاقے بھینس کالونی میں واقع ایک دکان جس کا نمبر B-19ہے، موجود ہے، اطلاع ملتے ہی کمانڈر ونٹوف حرکت میں آگیا اور چھاپے کی تیاریاں ہونے لگیں، اتنی دیرمیں عمران وہ مخصوص طے شدہ خفیہ الفاظ دہرائے جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ جگہ فوراً چھوڑ دو۔
عمران نے وقاص سے جیسے ہی کہا ’’میں تم سے ملنا چاہتا ہوں‘‘۔ وقاص نے فوراً لائن منقطع کرکے باہر دوڑ لگادی۔ باہر زبیر گاڑی میں تیار بیٹھا تھا وقاص کے آتے ہی وہ دونوں پانچ منٹ کے اندر اندر اپنے ہیڈ کوارٹر پہنچ چکے تھے۔
بلیک واٹرز کے چھاپہ ماروں نے پندرہ منٹ کے اندر اندر پورے علاقے کو گھیر لیا اور وہ جیسے ہی مطلوبہ دکان پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ وقاص نامی لڑکا اب سے کوئی دس پندرہ منٹ قبل جاچکا ہے۔
’’اوہ شٹ! یہ لائن کیوں منقطع ہوگئی‘‘۔ وقاص نے جیسے ہی لائن کاٹی ونٹوف ایک دم چیخ اٹھا۔
’’سر پاکستان میں بجلی بہت جاتی ہے میرے خیال میں بجلی کے جانے کی وجہ سے لائن کٹ گئی ہے‘‘۔ عمران نے بہانہ بنایا وہ یہی ظاہر کررہا تھا جیسے وہ دوبارہ رابطہ جوڑنے کی کوشش کررہا ہے۔
اور پھر دس منٹ بعد پاکستان سے کمانڈر گرین شیرف کا فون آگیا۔
’’سر وہ لڑکا اب سے کچھ دیر پہلے یہاں سے جاچکا ہے ہم نے ناکہ لگایا ہوا ہے لیکن وہ اس پورے علاقے میں کہیں نہیں ہے‘‘۔
اور پھر کمانڈر ونٹوف فون بند کرکے اول فول گالیاں بکنے لگا لیکن پھر اسے احساس ہوا کہ مسٹر ایلیک کی حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے، وہ عمران کی طرف مڑا اور بولا۔
’’مسٹر ایلیک! آپ کوشش جاری رکھیے اگر آپ اسی طرح محنت کرتے رہے تو ہم جلد ہی انہیں پکڑنے میں کامیاب ہوجائیں گے، ویل ڈن، ویل ڈن، ڈونٹ وری اینڈ گوئنگ آن۔۔۔‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*
اگلے دن عمران مسلسل کھوج میں لگا ہوا تھا کہ کسی طرح بلیک واٹر کے پاس موجود وہ ماسٹر پلان والی فائل کا پتا لگ جائے جس کے حصول کے لیے شمالی کیرولینا آئے تھے اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر یہ سارے کھیل کررہے تھے، بڑی کوششوں کے بعد دوپہر دو بجے وہ بلیک واٹر کے مرکزی نیٹ ورک سسٹم کے پاس ورڈ کو توڑ کر سسٹم میں موجود فائلز تک پہنچ چکا تھا لیکن مطلوبہ فائل PK-ATOMIC-15 ابھی تک نہیں مل سکی تھی، اسے محسوس ہورہا تھا جیسے اس فائل کو خفیہ رکھنے کے لیے کوئی اور پاس ورڈ دیا گیا ہے یا پھر اس فائل کا نام تبدیل کردیا گیا ہے۔
تلاش کرتے کرتے اسے شام کے چھ بج گئے اور پھر بالآخر اس نے وہ فائل دریافت کرلی، کمپیوٹر کی اسکرین پر نمایاں طور پر PK-ATOMIC-15 لکھا ہوا تھا اور پھر کچھ تفصیلات اور نقشے دیے گئے تھے ایک بہت بڑی فائل تھی جسے پڑھنے کا نہیں بلکہ کاپی کرکے لے جانا تھا، اس نے جلدی سے اپنی USB نکالی اور اس میں ڈیٹا منتقل کرنے کے لیے وہ جیسے ہی اپنی کرسی سے اٹھا اسے احساس ہوا کہ اس کی کرسی کے پیچھے کوئی شخص موجود ہے اس نے گھبرا کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کا رنگ فق ہو کر رہ گیا وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا کیوں کہ پیچھے کمانڈر ونٹوف کھڑا خاموشی سے کمپیوٹر کی اسکرین کو گھور رہا تھا۔
*۔۔۔۔۔۔*
’’س۔۔۔ س۔۔۔ سر آپ؟ سر آپ کب آئے؟‘‘
عمران نے گھبرا کر پیچھے دیکھا اور کمانڈر ونٹوف کو دیکھ کر کھڑا ہوگیا یہ جملے ادا کرتے ہوئے اس کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا، کیوں کہ وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔
’’بس، چھٹی کرکے گھر جارہا تھا،تمہیں ابھی تک بیٹھا دیکھا تو ادھر چلا آیا۔ کیا بات ہے کافی دیر تک کام ہورہا ہے، ویسے کام کیا کررہے ہو؟‘‘ کمانڈر ونٹوف نے عمران کو معنی خیز اندازمیں دیکھتے ہوئے کہا۔
یس سر، یس سر! وہ دراصل کام کے دوران وقت کا اندازہ نہیں ہوا۔ سر آپ کھڑے کیوں ہیں، بیٹھیں ناں‘‘۔
عمران نے نا چاہتے ہوئے بھی تھوک نگلتے ہوئے ونٹوف کو بیٹھنے کی آفر کی تو ونٹوف بولا۔
’’نہیں بھئی! میرے پاس وقت بالکل نہیں ہے اور ویسے بھی تمہارا کام دیکھنے کے لیے دوبارہ بیگ سے چشمہ نکالنا پڑے گا کیوں کہ میری قریب کی نظر کمزور ہے، اوکے، تم اپنا کام مکمل کرو اب کل ملاقات ہوگی‘‘۔
یہ کہتے ہوئے ونٹوف ہاتھ ملاتے ہوئے باہر نکل گیا اور عمران کی جان میں جان آئی کیوں کہ اس کی آدھی جان تو پہلے ہی نکل چکی تھی وہ سوچنے لگا کہ ونٹوف سے پہلی ملاقات جب انٹرویو دیتے وقت ہوئی تھی اس وقت بھی ونٹوف نے چشمہ لگایا ہوا تھا، اس کا مطلب ہے وہ کچھ نہیں دیکھ سکا اور اگر خدانخواستہ اس نے چشمہ لگایا ہوا ہوتا تو۔۔۔ یہ سوچتے ہی اس نے ایک جھرجھری لی اور لمبی سی سانس لیتے ہوئے کرسی کی پشت سے سر ٹکادیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’وہ مارا‘‘۔ عمران نے گھر میں داخل ہوتے ہی نعرہ مارا تو ثاقب اور شعیب بھی ہڑبڑا کر کھڑے ہوگئے کچھ دنوں پہلے ہی وہ ہوٹل سے گھر منتقل ہوئے تھے۔
’’ارے میاں خیریت تو ہے یہ آج گھر آتے ہی ہمارا سکون کیوں برباد کررہے ہو‘‘۔ ثاقب نے عمران کو اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا تو عمران بولا۔
’’اچھا۔۔۔ یعنی میں اکیلا صبح سے شام تک نوکری کروں اور تم لوگ گھر میں بیٹھے روٹیاں توڑو اور میری خدمت اور ہمدردی کرنے کے بجائے الٹا کہتے ہو کہ میں نے تمہارا سکون بربادکردیا۔بہت خوب بھئی بہت خوب‘‘۔
’’اچھا اچھا زیادہ باتیں نہ بناؤ ابھی تک پہلی تنخواہ تو ملی نہیں ہے اور پہلے سے طعنے دینے شروع کردیے اور یہ بتاؤ کہ اتنا اچھل کیوں رہے ہو؟‘‘شعیب نے عمران کو جھاڑتے ہوئے کہا۔
’’خوشی کی بات ہے تب ہی تو اچھل رہا ہوں ورنہ تھکا ہارا بندہ تو ہل جل بھی نہیں سکتا اور خبر یہ ہے کہ ہم جس کام کے سلسلے میں یہاں آئے تھے وہ پورا ہوچکا ہے‘‘۔عمران نے خبر کومزید سنسنی خیز بناتے ہوئے کہا اور مزے سے صوفے پر بیٹھتے ہوئے شاہانہ انداز میں پاؤں میز پر رکھ دیے۔
’’کیا؟ تمہارا مطلب ہے فائل مل گئی یعنی ماسٹر پلان والی فائل، اب شعیب اور ثاقب کے اچھلنے کی باری تھی وہ دونوں ایک ساتھ بول اٹھے۔
’’دیکھا اچھل پڑے ناں تم دونوں‘‘۔ عمران نے ہنستے ہوئے کہا تو ثاقب جلدی سے عمران کا بیگ اٹھا کر ٹٹولتے ہوئے بولا۔
’’کہاں ہے وہ فائل جلدی بتاؤ یار‘‘۔
’’وہ فائل بیگ میں نہیں میرے دماغ میں ہے پہلے اسے فریش ہونے دو پھر سب بتادوں گا‘‘۔
عمران نے انگلی سے اپنے سر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے تو ابھی ہم دونوں مل کر تمہارا دماغ فریش کردیتے ہیں۔ چلو ثاقب اٹھو‘‘۔
یہ کہتے ہوئے شعیب اپنی آستینیں اوپر چڑھانے لگا تو عمران نے گھبرا کر جلدی سے اپنی یو ایس بیUSB نکالی اور شعیب کی طرف اچھالتے ہوئے کہا۔
’’رحم عالی جاہ، رحم! بندہ اپنے قصور کی معافی چاہتا ہے اور فائل آپ کے حوالے کرتا ہے‘‘۔
شعیب نے جلدی سے کمپیوٹر کھولا اور فوراً مطلوبہ فائل تک جا پہنچا جہاں واضح الفاظ میں PK-ATOMIC-15 لکھا ہوا تھا۔
’’ارے ہاں ایک دلچسپ بات بتانا تو بھول ہی گیا۔ میں نے جیسے ہی یہ فائل کھولی اور پھر محفوظ کرنا چاہی کمانڈر ونٹوف میری کرسی کے پیچھے پہلے سے موجود تھا‘‘۔ عمران نے آج کا دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے کہا۔
’’کک کیا مطلب؟ یعنی ونٹوف نے یہ فائل دیکھ لی اور تم صحیح سلامت بچ نکلے۔۔۔ میں یقین نہیں کرسکتا‘‘
ثاقب نے حیرت سے عمران کو دیکھتے ہوئے کہا تو شعیب بولا۔
’’تو پھر اس نے کیا کہا بلکہ کیا کیا؟ کیوں کہ فائل دیکھنے کے بعد کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی بلکہ کچھ کر ڈالنا تھا کہیں الٹا تم نے تو اسے ٹھکانے نہیں لگادیا‘‘۔
’’نہیں بھئی! اس نے مجھے کچھ نہیں کہا بلکہ شاباشی دی اور دیر تک کام کرنے کو سراہا کیوں کہ چشمہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کمپیوٹر اسکرین کو صرف دیکھ سکتا تھا پڑھ نہیں سکتا تھا۔ ہا ہا ہا۔‘‘
عمران کے بات مکمل کرنے کے بعد ثاقب اور شعیب کے ساتھ خود بھی ہنسنا شروع کردیا اور سب ایک دوسرے کو تالیاں مارنے لگے۔
’’ارے واہ! یہ تو زبردست ایڈونچر ہوگیا یعنی پھر تو ہاتھی نکل گیا اور دم پھنس گئی والی بات ہوجاتی‘‘۔
ثاقب نے شرارتاً آنکھ مارتے ہوئے کہا تو عمران غصے میں بولا۔
’’اچھا تو میں تمہیں ہاتھی نظر آرہا ہوں‘‘۔
’’نہیں بھئی! یہ تمہیں نہیں بلکہ فائل کو ہاتھی کہہ رہا ہے۔ اردو میں کیا تم ہمیشہ فیل ہوتے رہے ہو‘‘۔
شعیب نے فائل کھولتے ہوئے عمران کو تسلی دی تو عمران بولا۔
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ لیکن یہ ہاتھی والی مثال دینی ضروری ہے کیا؟ یہ کوئی اور بھی نام لے سکتا ہے مثلاً شیر نکل گیا اور دم رہ گئی وغیرہ وغیرہ۔‘‘
عمران نے اپنا پیٹ زبردستی تھوڑا سا اور اندر کرتے ہوئے احتجاج کیا تو شعیب اور ثاقب کی ایک مرتبہ پھر ہنسی چھوٹ گئی۔
فائل کافی بڑی تھی اسی لیے فائل کھلنے اور محفوظ ہونے میں کافی وقت لگ رہا تھا اور تھوڑی دیر بعد ہی سب کچھ سامنے آچکا تھا اور شعیب پڑھ رہا تھا۔
’’اوہ میرے خدا! یہ نقشہ تو ہمارے ایٹمی پلانٹ کا ہے اور نیچے کچھ اہداف اور ہدایات بھی ہیں کہ کس طرح پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نہ صرف ختم کرنا ہے بلکہ اس کے ماہرین کو انجام تک پہنچانا ہے تاکہ آئندہ کوئی اسے دوبارہ شروع کرنے کا تصور بھی نہ کرسکے‘‘۔
’’ارے واہ! یہ تصویر تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ہے جو ایٹمی پروگرام کے چیف ہیں‘‘۔ عمران نے دوسرے صفحے کے اوپر تصویر دیکھتے ہی اپنے ہیرو کو پہچان لیا تھا۔
’’ہاں! لیکن نیچے لکھا ہے کہ یہ شخص ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اسے لازماً راستے سے ہٹانا ہوگا یا خطرناک الزامات لگا کر اس کی شخصیت کو مسخ کرکے اور اسے بین الاقوامی مجرم قرار دے کر امریکا کے حوالے کرنا ہوگا اور بقیہ تمام سائنسدانوں کو منہ مانگی قیمت دے کر خریدنے کی کوشش کی جائے جو نہ مانے اسے غائب کروادیا جائے وغیرہ وغیرہ‘‘۔
شعیب جیسے جیسے تفصیلات پڑھتا جارہا تھا تینوں کا خون کھولتا جارہا تھا اور جذبات اس طرح بھڑک رہے تھے کہ اگر دشمن نظر آجاتا تو اس کا منہ نوچ ڈالتے۔
’’یہ تیسرے صفحے پر کیا ہے ذرا پڑھنا تو‘‘۔ ثاقب نے شعیب کو ٹھوکا دیتے ہوئے کہا۔
’’اگلے صفحے پر کچھ مزید اہداف دیے گئے ہیں جن میں کام کرنے کا طریقہ کار بیان کیا گیا ہے اور کچھ معاون کام بھی بتائے گئے ہیں جن پر عمل کرکے جلد منزل پر پہنچا جاسکے گا۔مثلاً اس میں لکھا ہے کہ عوام کی نظروں میں فوج کا مورال ڈاؤن کرنا ہوگا، عوام اور فوج کو آپس میں لڑانا تاکہ ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہو۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں دہشت گردی، قتل و غارت گری اور خوف و ہراس پھیلا کر عوام کو نفسیاتی مریض بنانا ہے۔اس کے بعد کچھ کاموں کی منصوبہ بندی اور اس کے نتائج درج ہیں کچھ نقشے اور کچھ تبصرے بھی لکھے ہوئے ہیں اور آخر میں ہمارا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جس میں ہمیں سب سے بڑی رکاوٹ قراردیتے ہوئے لکھا ہے کہ۔
بلیک واٹر کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ گوریلا فائٹرز ہیں لہٰذا جب تک گوریلا فائٹرز کو ختم نہیں کردیا جاتا بلیک واٹر کا کام بند رہے گا اور یہ مدت زیادہ سے زیادہ تین ماہ ہے۔ تین ماہ گزرنے کے بعد بھی کامیابی حاصل نہ ہوئی تو پاکستان میں کام کرنے والی پوری ٹیم کو بلیک واٹر سے باہر کردیا جائے گا لہٰذا تین ماہ کو ڈیڈ لائن تصور کیا جائے‘‘۔
شعیب پڑھتے پڑھتے سانس لینے کو رکا تو عمران بولا۔
’’ہوں ں ں۔۔۔‘‘ ڈیڑھ ماہ گزر چکا ہے اس کا مطلب ہے کہ ڈیڑھ ماہ مزید گزرنے کے بعد بلیک واٹرز کے تمام ایجنٹس اپنی اپنی نوکریوں سے فارغ ہوجائیں گے۔ زبردست!‘‘
’’اور تم بھی نوکری سے فارغ کردیے جاؤ گے مسٹر ایلیک کیوں کہ تم ان کے مقاصد کو پورا نہیں کرسکو گے۔ کیا سمجھے؟‘‘ثاقب نے عمران کو ڈراتے ہوئے کہا تو عمران بولا۔
’’میں ویسے بھی یہ نوکری چھوڑ چکا ہوں کیوں کہ مجھے جس مقصد کے لیے وہاں بھیجاگیا تھا وہ تو میں نے پورا کردیا اب میں مزید وہاں ڈیوٹی نہیں دوں گا یعنی ماسٹر پلان والی فائل اب ہمیں مل چکی ہے۔ کیا سمجھے مسٹر تھامس؟‘‘
’’مسٹر ایلیک تم کو ابھی کچھ عرصہ اور نوکری پر جانا ہوگا کیوں کہ یہ فائل ’’ماسٹر پلان‘‘ نہیں بلکہ بلیک واٹرز کو دیاگیا صرف ایک اسائنمنٹ ہے ہمیں اصل ماسٹر پلان کے حصول تک جدوجہد جاری رکھنی ہوگی‘‘۔
شعیب نے دو ٹوک انداز میں فیصلہ سنایا تو عمران چیخ پڑا۔
’’کک۔۔۔ کیا؟ یہ ماسٹر پلان والی فائل نہیں تو کیا ہم ویسے ہی اب تک اپنا وقت ضائع کررہے تھے‘‘۔
’’ اس کا مطلب ہے کہ ہم کامیاب ہوکر بھی ناکام رہے‘‘۔
ثاقب نے بھی مختصر سا مایوسیت بھرا تبصرہ کیا تو شعیب بولا۔
’’نہیں بھئی! یہ میں نے کب کہا ہے کہ ہم نے اپنا وقت ضائع کیا ہے اور ہم ناکام ہوگئے ہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم اپنی منزل کے بہت قریب آگئے ہیں اور دشمن کی جڑوں تک پہنچ چکے ہیں اور اب راستہ بنانا پہلے کی نسبت بہت آسان ہوگیا ہے اور جب ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں تو آگے کیوں نہیں جاسکتے؟یاد رکھو! منزل کے قریب پہنچ کر حوصلہ ہارنے والے جیت کر بھی ہار جاتے ہیں جبکہ منزل سے دور ہو کر بھی حوصلہ رکھنے والے اکثر جیت جاتے ہیں اور یقین رکھو جیت ہمیشہ حق کی ہوتی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ہم حق پر ہیں‘‘۔
’’سوری، مسٹر رابرٹ! میں کل ضرور جاؤں گا لیکن اب مجھے کیا کرنا ہوگا‘‘۔عمران نے شعیب سے معذرت کرتے ہوئے اگلا کام پوچھا، اسے اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا۔
’’ہوں ں ں۔۔۔ تو اب تمہیں یہ معلوم کرنا ہے کہ بلیک واٹرز کو یہ اسائنمنٹ کس ادارے یا فرد نے دیا ہے۔۔۔ بس یوں سمجھ لو کہ پھر ہمارا کام آسان ہوجائے گا اور تمہیں کم از کم ایک مہینے کی تنخواہ بھی مل جائے گی۔‘‘
شعیب نے مسکرا کر عمران کا کندھا تھپتھپاتے اور اس کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا تو جواب میں عمران نے بھی مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا گویا اس نے چیلنج قبول کرلیا ہو۔
*۔۔۔*
’’جی مسٹر ونٹوف! آپ کا کام کہاں تک پہنچا اور اب تک کیا کامیابی حاصل ہوئی؟‘‘
زی ورلڈ وائڈ کے سربراہ پرنس ایریل نے کمانڈر ونٹوف سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے پوچھا۔
’’سر آئی ٹی ماہرین کی طرف سے گرین سگنل ملتے ہی ہم نے کمپیوٹر پروگرامنگ کے ماہرین کو انٹرویوز کے لیے طلب کیا اور ہمیں ایک بہت زبردست نوجوان ایلیک مل گیا جس نے آتے ہی انتہائی تیزی سے کام شروع کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم جلد آپ کو مکمل کامیابی کی خبر پیش کریں گے‘‘۔
کمانڈر ونٹوف نے مختصراً رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا تو پرنس ایریل بولا۔
’’لیکن یہ میرے سوال کا آدھا جواب ہے پورا جواب دیجیے کہ اب تک کیا کامیابی حاصل ہوئی؟‘‘
’’سر ایک کامیابی ہمیں اس وقت ملی تھی جب مسٹر ایلیک نے ان کے ایک ممبر وقاص کو نہ صرف ٹریس کرلیا تھا بلکہ ہم نے نیویارک میں واقع ڈیٹا بیس مینجمنٹ سسٹم کے ذریعے اس کا مقام بھی معلوم کرلیا تھا مگر اتفاق سے جب ہماری ٹیم نے وہاں چھاپہ مارا تو وہ کچھ ہی دیر پہلے وہاں سے نکل چکا تھا اس طرح ہم اسے نہ پکڑ سکتے لیکن اس کے باوجود ہم بہت پرامید ہیں‘‘۔
کمانڈر ونٹوف نے جیسے ہی وقاص کا تذکرہ کیا پرنس ایریل یکدم چونک اٹھا، اسے یاد آیا کہ یہ یہی وقاص ہے جس نے اسے ناکوں چنے چبوادیے تھے اور وہ اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے تھے اس کا بے خوف لہجہ اور بے باک گفتگو آج بھی اس کے دماغ میں گونج رہی تھی کہ ’’تم کرائے کے قاتل ہو اور ہم اپنے اللہ کی رضا کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ ہم اللہ سے ڈرتے ہیں اور تم بندوں سے ڈرتے ہو۔ بس، یہی وجہ ہے کہ تم موت سے ڈرتے ہو اور موت ہم سے ڈرتی ہے۔۔۔ موت ہم سے ڈرتی ہے۔۔۔ موت ہم سے ڈرتی ہے۔۔۔‘‘
’’اوکے۔۔۔ اوکے۔ اب تم جاسکتے ہو، لیکن یاد رکھنا موت بھی ان سے ڈرتی ہے۔ ہاں میں بالکل صحیح کہہ رہا ہوں موت واقعی ان سے ڈرتی ہے‘‘۔
پرنس ایریل ہذیانی انداز میں چیخ رہا تھا۔ حق کے دبدبے نے باطل کا دماغ خراب کردیا تھا وہ بالکل نفسیاتی مریضوں کی طرح آنکھیں چڑھا کر بول رہا تھا اور کمانڈر ونٹوف کچھ نہ سمجھتے ہوئے پرنس ایریل کو سنبھالنے کی ناکام کوششیں کررہاتھا۔
*۔۔۔*
’’تھامس ذرا دیکھنا تو دروازے پر کون ہے۔مجھے لگتا ہے ایڈم اور جوزف آئے ہوں گے کیوں کہ ایلیک تو آج کل بہت دیر سے آرہا ہے۔‘‘
دروازے کی گھنٹی مخصوص انداز میں تین دفعہ بجی تو شعیب کو اندازہ ہوچکا تھا کہ اپنے ساتھیوں میں سے کوئی آیا ہے کیوں کہ رات آٹھ بجے انہوں نے میٹنگ طے کی ہوئی تھی۔‘‘
’’آہ ہا! ارے واہ بھئی اب تو مسٹر رابرٹ کی بھی چھٹی حس تیز ہوگئی ہے جو گھنٹی بجتے ہی پہچان گئے کہ ایڈم اور جوزف آئے ہیں‘‘۔ثاقب کی دروازہ کھولتے ہی ایڈم اور جوزف پر نظر پڑی تو وہ خوشی سے چہک اٹھا۔
ابھی یہ گفتگو جاری ہی تھی کہ پیچھے سے عمران بھی آگیا اور اب تمام ممبران پورے ہوچکے تھے۔
اور پھر ٹھیک پندرہ منٹ بعد عمران کے فریش ہوتے ہی وہ اپنی میٹنگ کا آغاز کرچکے تھے اور اب تک کی ساری رپورٹ اور عمران کی تلاش کردہ فائل کی تفصیلات بھی سامنے آچکی تھیں، اس دوران ایڈم اور جوزف کافی انہماک سے گفتگو سن رہے تھے۔
’’بہت خوب! ایلیک نے واقعی بڑی زبردست کامیابی حاصل کی ہے اور ماسٹر پلان تک پہنچنے پر وہ واقعی مبارکباد کا مستحق ہے۔‘‘
ایڈم نے عمران کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا تو شعیب بولا۔
’’واقعی اس میں کوئی شک نہیں کہ ایلیک نے بڑی محنت کی ہے اور وہ قابل مبارکباد ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ فائل ماسٹر پلان نہیں ہے اور ماسٹر پلان ان کے پاس ہو بھی نہیں سکتا کیوں کہ بلیک واٹر یا زی ورلڈ وائڈ صرف ایک سیکورٹی ایجنسی ہے ہم دوسرے لفظوں میں انہیں کرائے کے قاتل یا کرائے کے ٹٹو بھی کہہ سکتے ہیں‘‘۔ جن کو ان کی منہ مانگی قیمت دے کر آپ اور میں کوئی بھی کام لے سکتے ہیں اور شمالی کیرولینا آنے سے پہلے بھی مجھے اس بات کا علم تھا اسی لیے مجھے کسی بھی قسم کی حیرت کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ہمیں ناکامی ہوئی ہے۔ یقیناًہم اپنی کامیابی سے مزید قریب ہوچکے ہیں جس کا آپ خود اعتراف کریں گے‘‘۔
’’بالکل، بالکل مجھے آپ کی بات سے 100 فیصد اتفاق ہے‘‘۔
جوزف نے شعیب کی بات کی تائید کی تو سب اس کا ساتھ دیتے ہوئے اثبات میں گردن ہلانے لگے۔
’’لیکن اب بھی سوال وہی ہے کہ ماسٹر پلان تک کیسے پہنچا جائے اور ماسٹر پلان تک پہنچنے سے پہلے یہ معلوم کرنا بے حد ضروری ہے کہ بلیک واٹرز کو PK-ATOMIC-15 والا کام کس ادارے یا فرد نے دیا ہے؟‘‘شعیب نے کافی پیچیدہ سوال اٹھاتے ہوئے کہا تو ثاقب بولا۔
’’میرے خیال میں ہمیں کمانڈر ونٹوف پر ہاتھ ڈالنا ہوگا۔ اسے یرغمال بنا کر ہم بہت سے راز اگلواسکتے ہیں‘‘۔
’’نہیں نہیں، میرے خیال میں اس کی ضرورت نہیں پڑے گی کیوں کہ آج جو معلومات میں نے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بلیک واٹرز کو اسائنمنٹ دینے والے ادارے کا نام NSA ہے یعنی نیشنل سیکورٹی ایجنسی‘‘۔
عمران نے کافی اہم معلومات فراہم کرکے سب کو چونکا دیا تھا۔
’’کیا کہا۔۔۔ این ایس اے (NSA) ؟‘‘
ایڈم اور جوزف نے ایک ساتھ حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں بالکل! اس ادارے کا نام NSA ہی تھا۔ کیا آپ لوگوں کو اس کے بارے میں کچھ علم ہے‘‘۔
عمران نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا۔
’’کیوں نہیں! یہ امریکا کا سب سے بڑا خفیہ ادارہ ہے جو جنوبی کیرولینا کے بارڈر کے قریب شمالی جارجیا میں واقع ہے اور یہ ادارہ اس حد تک خفیہ ہے کہ خود امریکی بھی اس ادارے سے ناواقف ہیں اور اس ادارے کی حرکتیں اتنی خطرناک اور خوفناک ہیں کہ چند امریکیوں نے اس ادارے کے خلاف عدالت میں کیس کردیا تھا مگر عدالت نے یہ کہہ کر کیس خارج کردیا کہ اس قسم کے ادارے کا امریکا میں کوئی وجود ہی نہیں ہے‘‘۔
ایڈم نے حیرت انگیز معلومات پیش کیں تو ثاقب نے برجستہ پوچھا۔
’’پھر آپ کو اس ادارے کے بارے میں معلومات کہاں سے ملیں؟‘‘
’’ہم نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ ہم اور ہمارے جیسے کئی لوگ امریکا بلکہ پوری دنیا میں تحریک آزادی فلسطین کے لیے کام کرتے ہیں بالکل اسی طرح امریکا کے اس خفیہ ادارے میں بھی ہمارے دو بندے موجود ہیں گو کہ وہ مکمل ہمارے ساتھی نہیں ہیں لیکن پھر بھی ہمیں اہم معلومات قبل از وقت فراہم کردیتے ہیں جس میں سے ایک کو تو ہم معاوضہ بھی ادا کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً خوش کرتے رہتے ہیں جبکہ دوسرا فرد ہمارے لیے بلامعاوضہ کام کرتا ہے‘‘۔
جیسے جیسے ایڈم تفصیلات بتاتا جارہا تھا شعیب عمران اور ثاقب کے چہرے پر خوشی کے رنگ چڑھتے جارہے تھے جیسے ان کا لاکھوں کا انعام نکل آیا ہو۔
’’زبردست، ویلڈن! یہ ہوئی نا بات۔ دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ ہمم منزل کے مزید قریب ہوئے ہیں اور اگر ہم اس فائل کو تلاش نہ کرتے تو اس ادارے تک بھی نہ پہنچ سکتے تھے‘‘۔
شعیب کے چہرے سے خوشی پھوٹ رہی تھی جسے دیکھ کر عمران اور ثاقب کی خوشی بھی اور بڑھ گئی تھی کیوں کہ شعیب انتہائی خوشی کا اظہار بہت کم ہی کرتا تھا۔
’’تو پھر آپ ان دونوں میں سے کسی ایک سے ہماری ملاقات کروادیجیے پھر ان کی رہنمائی میں آگے کی پلاننگ طے کریں گے‘‘۔
شعیب نے ایڈم اور جوزف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تو ان دونوں نے یہ ذمہ داری اٹھانے کا وعدہ کرتے ہوئے فون پر کسی سے رابطہ قائم کرنے لگے اور تھوڑی دیر بعد وہ کسی سے ملاقات کا وقت طے کررہے تھے۔
*۔۔۔*
’’مجھے ریاض علوی کہتے ہیں اور آپ لوگوں سے مل کر مجھے بڑی خوشی ہوئی اور یہ جان کر کہ آپ لوگ ماضی میں اسرائیل کو ایک بڑی تباہی سے بھی دوچار کرچکے ہیں اور اب فلسطین کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بچانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔‘‘
نووارد شخص نے تعارف کے بعد خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تو اخلاقاً شعیب نے بھی اس کا شکریہ ادا کیا تو ریاض علوی بولے۔
’’میں آپ کو بتادوں کہ مجھے میرے باس حسن ترمذی نے یہ حکم دیا ہے کہ میں آپ کو نہ صرف ہر قسم کی معلومات فراہم کروں بلکہ جتنی ممکن ہوسکے مدد بھی فراہم کروں تو آپ جان لیں کہ جو میرے بس میں ہوگا میں اس میں کس قسم کی کوتاہی نہیں کروں گا اب آپ مجھے سے جو پوچھنا چاہیں میں حاضر ہوں‘‘۔ ریاض علوی کافی فصیح عربی میں گفتگو کررہے تھے۔
’’ہم سب سے پہلے امریکا کی اس خفیہ ایجنسی کے بارے میں جاننا چاہیں گے کہ کیا ہے اور کیا کام کررہی ہے؟‘‘
شعیب نے دو ٹوک انداز میں اپنا سوال پیش کرتے ہوئے کہا تو ریاض علوی گویا ہوئے۔
آپ نے سوال تو کافی چھوٹا پوچھا ہے لیکن اس کا جواب بہت لمبا ہوجائے گا شاید ساری رات گزر جائے لیکن میں آپ کو مختصراً بتاؤں کہ این ایس اے NSA امریکا کا انتہائی خفیہ اور حساس ادارہ ہے اور بہت سے حکومتی ادارے بھی اس سے ناواقف ہیں کیوں کہ اس کا کام پوری دنیا کے حالات پر نہ صرف نظر رکھنا بلکہ امریکا اور اسرائیل کیخلاف ہونے والی سازش یا حملوں کا بھی بروقت تدارک کرنا ہے گوکہ ایک امریکی ادارہ ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صرف اور صرف اسرائیل کے مفاد کے لیے کام کرتی ہے اور باقی سب کو دھوکا دیتی ہے حتی کہ امریکا کو بھی۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے سے قبل امریکی خفیہ ایجنسیوں کا بجٹ 24.7 بلین ڈالر تھا جو اب دگنا ہوچکا ہے اور جس میں سے ایک تہائی حصہ صرف NSA استعمال کرتی ہے۔NSA کے ملازمین میں سویلین اور ملٹری دونوں قسم کے لوگ ہیں جو کم و بیش چار ہزار ہیں، یہاں پر دنیا بھر کی تمام اہم زبانوں کے لوگ ملازم ہیں جو دنیا بھر کی فون کالز، ای میلز اور دیگر پیغامات کو ریکارڈ کرکے ان کو چھانٹتی کرتے ہیں اور سازشوں سے آگاہی حاصل کرتی ہے۔‘‘ ریاض علوی جیسے جیسے نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے بارے میں بتاتے جارہے تھے تمام ممبران حیرت میں ڈوبتے جارہے تھے۔
*۔۔۔*
’’اوہ مائی گاڈ! آپ جو کچھ بتا رہے ہیں وہ نہ صرف حیرت ناک بلکہ انتہائی خوفناک ہے۔‘‘ ثاقب نے حیرت سے سر پکڑتے ہوئے کہا۔
’’ لیکن وہ لوگ یہ سب کام میرا مطلب ہے فون کالز ، ویڈیو کانفرنسز اور ای میلز (emails) وغیرہ کس طرح پکڑ لیتے ہیں؟ ‘‘ شعیب نے استفسار کیا تو ریاض علوی اپنا گلا کنکھارتے ہوئے بولا۔
’’یاد رہے کہ دنیا میں کیبلز (Cables)کا جال بچھا ہوا ہے جو زمین کے نیچے سے اور سمندر کی تہہ سے گزرتے ہوئے دنیا کے تمام ممالک کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ کبھی کبھار ان کیبلز میں خرابی آجاتی ہے جیسا کہ پچھلے دنوں عرب ممالک کا رابطہ دنیا بھر سے ایک ہفتے تک منقطع رہا۔ جس کی وجہ سمندر کی تہہ سے گزرنے والے کیبلز کی خرابی تھی اور یہ بھی یاد رہے کہ دنیا میں کیبلز کا جال بچھانے والی سب سے بڑی فائبر آپٹیکل کیبل کمپنی ’’ATNT‘‘ ہے اور دنیا بھر میں کیبل کا 80%فیصد کام اسی کمپنی کا ہے لہٰذا ہمارا اور آپ کا ہر پیغام ان ہی کے کیبلز سے سفر کرتا ہوا منزل تک پہنچتا ہے۔لہٰذانیشنل سیکوریٹی ایجنسی (NSA)نے اس کیبل کمپنی سے خفیہ معاہدہ کرتے ہوئے اپنی خاص ڈیوائس (Device)ان کے سسٹم سے منسلک کر دی ہیں ۔ اب دنیا کے تمام پیغامات منزل پر پہنچنے سے پہلے اس ڈیوائس سے ہو کر گزرتے ہیں اور مشکوک اور خطرناک پیغامات ریکارڈ کر لیے جاتے ہیں۔‘‘
ریاض علوی نے تفصیلی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا تو فوراً ہی عمران بولا ۔
’’ اور ان لاکھوں کروڑوں پیغامات میں سے مطلوبہ پیغامات کی چھانٹی کس طرح ہوتی ہے؟‘‘
’’ہوں۔۔۔ ں ں آپ نے بہت اچھا سوال پوچھا ہے۔ دراصل انہوں نے ہر زبان سے کم و بیش دو ہزار ایسے الفاظ منتخب کیے ہیں جو ان کے نزدیک کسی بھی پیغام کو مشکوک بنا سکتے ہیں مثلاً اﷲ ، محمدؐ، قرآن، جہاد، جنگ، حملہ، اسلحہ، بم، کاروائی، دھماکہ وغیرہ وغیرہ اب ان میں سے کوئی بھی لفظ اگر کسی پیغام میں پایا گیا تو وہ مشکوک قرار پائے گا اور ان دو ہزار الفاظ میں سے جتنے زیادہ الفاظ اس پیغام میں موجود ہوں گے وہ اتنا ہی زیادہ خطرناک پیغام قرار پائے گا اور پھر تحقیقاتی مرحلے سے گزرے گا اگر اس میں واقعی کوئی گڑ بڑ ہوئی تو فوراً کاروائی شروع کر دی جاتی ہے بصورت دیگر ریکارڈنگ ضائع کر دی جاتی ہے۔‘‘
ریاض علوی بہت کھل کر گفتگو کررہے تھے اور نہایت بے خوفی کے ساتھ دشمن کی ساری پول پٹی کھول رہے تھے حالانکہ وہ خود وہاں پر ملازم تھے جبکہ ایڈم اور جوزف ان کے ساتھ ہی دائیں بائیں بیٹھے تھے۔
’’ اس کا مطلب ہے کہ نہ صرف ’’NSA‘‘ کی عمارت اور اس میں داخلے کے حوالے سے رہنمائی فراہم کریں کیونکہ ہمارا مقصد اسلام اور خصوصاً پاکستان کے خلاف تیار کیا جانے والا ماسٹر پلان حاصل کرنا ہے اور ہماری معلومات کے مطابق وہ ماسٹر پلان ’’NSA‘‘ کے پاس ہے۔‘‘
شعیب نے چائے کا بھاپ اُگلتا مگ ریاض علوی کی طرف بڑھاتے ہوئے مزید معلومات چاہیں۔
’’جہاں تک نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی عمارت کے بارے میں معلومات کا سوال ہے وہ تو میں بالکل آپ کو بتاؤں گا لیکن یہ بات یا درکھیے کہ اس عمارت میں داخلہ ایک خام خیالی تو ہو سکتی ہے، مگر حقیقتاً کسی غیر متعلقہ شخص کا وہاں داخل ہونا ناممکن ہے۔‘‘
ریاض علوی کا دو ٹوک انداز اس بات کا اشارہ دے رہا تھا کہ ’’NSA‘‘ کا سیکورٹی سسٹم توڑ کر اندر داخل ہونا دراصل ناکوں چنے چبانے کے مترادف ہے۔
’’ آپ کے خیال میں یہ خام خیالی ہو سکتی ہے مگر ہماری لغت میں کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے ہاں البتہ مشکل ضرور ہو سکتی ہے اور ان شاء اﷲ ہم ہر مشکل کا توڑ کر لیں گے آپ بس ہماری رہنمائی کرتے رہیے اور ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ اس تمام کاروائی میں آپ کا نام راز رہے گا کیونکہ ہمیں اندازہ ہے کہ آپ لوگ خود ایک مشن پر کام کررہے ہیں اور ہم بالکل نہیں چاہیں گے کہ ہماری وجہ سے آپ کے کام میں کوئی خرابی پیدا ہو۔‘‘
شعیب نے پراعتماد لہجہ اختیار کیا اور ساتھ ہی ریاض علوی کے متوقع خدشات اور تحفظات دور کرتے ہوئے کہا تو ریاض علوی بولے۔
’’ میرے خیال میں آپ کو اپنے جملے کی تصیح کرنی چاہیے کیونکہ آپ کا اور ہمارا مشن دراصل ایک ہی مشن ہے یعنی اسلام کی سربلندی ورنہ آپ لوگ کبھی فلسطین اکر جدوجہد نہ کرتے اور نہ میں اس وقت آپ کے پاس بیٹھ کر اپنا وقت ضائع کرتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی کامیابی ہماری کامیابی اور ہماری کامیابی آپ کی کامیابی ہے اور یاد رکھیے نہ صرف ہمیں بلکہ پوری امت مسلمہ کو آپ سے اور پاکستان سے بڑی توقعات وابستہ ہیں جس کا اندازہ شاید آپ لوگ کبھی نہ کرسکیں۔‘‘
ریاض علوی بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے تھے وہ واقعی ایک مخلص کارکن تھے۔ ان کی گفتگو کے جواب میں شعیب عمران اور ثاقب تائیدی انداز میں سر ہلا رہے تھے گویا ریاض علوی کے جذبات ان کے جذبات کے عکاس ہوں۔
’’سر آپ ہمیں ’’NSA‘‘ کی عمارت کے بارے میں کچھ بتا رہے تھے؟‘‘
ثاقب نے ریاض علوی کو یاد دلاتے ہوئے کہا تو انہوں نے اپنی جیب سے ایک تصویر نکالی اور ان تینوں کے سامنے رکھ دی۔
’’اچھا تو یہ ہے ’’NSA‘‘ کی بلڈنگ! کوئی خاص نہیں لگتی یعنی صرف ایک منزلہ عمارت ہے۔‘‘
عمران نے تصویر کا بغور مشاہدہ کرتے ہوئے کہا تو ریاض علوی بولے۔
’’ یہ ایک منزلہ عمارت نہیں بلکہ سات منزلہ ہے۔‘‘
’’ جی ی ی ی۔۔۔؟ مگر یہ تو صرف ایک منزل ہے! سات منزلہ کہاں سے ہے؟‘‘ سب کے منہ سے حیرت و استعجاب میں ’’جی‘‘ کی آواز نکلی اور ثاقب نے جلدی سے تصویر ہاتھ میں لے کر الٹ پلٹ کر کے دیکھا کہ شاید تصویر غلط زاویے سے دیکھی ہو مگر وہ واقعی ایک فلور تھا۔
’’ جی ہاں! آپ لوگ جس منزل کو دیکھ رہے ہیں وہ پہلی نہیں بلکہ ساتویں منزل ہے اور چھ منزلیں زیر زمین ہیں اور ہر فلور صرف ایک براعظم کو نہ صرف کنٹرول کرتا ہے بلکہ معلومات کی روشنی میں پلاننگ طے کرتا ہے اور پالیسیاں بناتا ہے جبکہ تصویر میں نظر آنے والا فلور ان سب کا کنٹرولر اور مرکزی ہیڈ کوارٹر ہے۔‘‘
اس مرتبہ تینوں کو پھر سے شدید حیرت کا جھٹکا لگا تھا اور عمران اور ثاقب تو بے یقینی کے انداز میں کبھی ریاض علوی کو اور کبھی ہاتھ میں پکڑی تصویر کو دیکھ رہے تھے۔ اتنے میں شعیب کی آواز ابھری۔ جس میں دشمن کے لیے زہر بھری مسکراہٹ بھی ہمراہ تھی۔
’’چلو یہ بھی خوب رہا کہ دشمن نے اپنی قبر خود ہی کھود لی ورنہ ہم اتنی بڑی قبر کیسے کھودتے بلکہ کھود کر ختم ہوجاتے۔‘‘
شعیب کے بے ساختہ جملے پر ریاض علوی سمیت تمام ہی افراد چونک اٹھے اور شعیب کے چہرے کی طرف دیکھنے لگے جیسے اس نے کوئی انہونی بات ازراہ مذاق کہہ دی ہو مگر ریاض علوی، ایڈم اور جوزف سب نے دیکھا کہ وہاں بلا کا اعتماد جھلک رہا تھا۔
’’بہرحال ہمیں سب سے پہلے ماسٹر پلان حاصل کرنا ہے اس کے بعد دوسرے کام ہوں گے لہٰذا آپ ہمیں یہ بتائیں کہ ہمارے لیے کیا مناسب رہے گا۔ اندر پہنچنے کی کوشش کریں؟ ان کے نیٹ ورک کو توڑ کر معلومات حاصل کریں یا پھر کوئی اور راستہ بھی ممکن ہے؟‘‘
عمران نے ریاض علوی سے ان کی رائے جاننا چاہی تو وہ بولے۔
’’ جیسا میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ آپ لوگوں میں سے کسی کا اندر پہنچنا تو ناممکن ۔۔۔ ‘‘
وہ تو ناممکن بولتے بولتے رک گئے اور شعیب کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور گفتگو جاری رکھتے ہوئے بولے۔
’’ میرا مطلب ہے خاصا مشکل ہو گا کیونکہ عمارت میں داخلے سے پہلے جسم کے مختلف حصوں کی اسکیننگ ہوتی ہے جس سے بچ نکلنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گزرنا۔‘‘
’’اوکے۔۔۔ اوکے! اگر ہم اسکیننگ کا توڑ کر لیں اور مسٹر ایلیک (عمران) کو آپ کے میک اپ میں کسی طرح اندر گھسا دیں تو کیا مسٹر ایلیک اندر کے حالات سنبھال سکے گا کیونکہ ہم اس سے پہلے فنگر پرنٹس اسکیننگ کا توڑ کر چکے ہیں۔‘‘ شعیب نے ریاض علوی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا گویا وہ ہر قسم کا چیلنج قبول کرنے کے لیے تیار ہو۔
’’ اندر کے حالات سنبھالنے کا معاملہ تو بہت بعد کا ہے۔ اصل مسئلہ تو اندر داخل ہونے کا ہے اور معاملہ فنگرپرنٹس سے بہت آگے نکل چکا ہے اب صرف ایک ہی صورت میں مسٹر ایلیک اندر داخل ہو سکتے ہیں۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ سب کے منہ سے اچانک جملہ نکلا۔
’’وہ یہ کہ میک اپ کے ساتھ ساتھ میری آنکھیں مسٹر ایلیک کواور ان کی آنکھیں مجھے لگا دی جائیں کیونکہ جسم کی اسکیننگ میں سب سے مشکل مرحلہ آنکھوں کی اسکیننگ ہے جس کا کوئی توڑ نہیں ہے لہٰذا اس کام کے لیے میں اپنی آنکھوں کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
ریاض علوی نے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ جملہ ادا کیا اور اپنا چشمہ اتار کر آنکھوں کو آہستگی سے سہلانے لگے گویا دوبارہ سہلانے کا موقع نہ ملے۔
آنکھوں کی اسکیننگ کا سن کر سب ہکا بکا رہ گئے کیونکہ اس کا توڑ کرنا واقعی مشکل کام تھا۔ خصوصاً عمران کہ جس کی آنکھوں کی قربانی دینے کی باتیں ہو رہی تھیں، حیران و پریشان بیٹھا کبھی ریاض علوی اور کبھی شعیب کی شکلیں تک رہا تھا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے ہمارا بندہ تیار ہے آپ اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کریں کہ آنکھوں کی اس سرجری میں کل کتنا خرچہ آئے گا اور کم سے کم کتنے عرصے میں آنکھیں صحیح طور پر کام کر سکیں گی کیونکہ سنا ہے کہ اس طرح کی خطرناک سرجری میں آنکھیں کئی دن تک کام کرنے کے قابل نہیں رہتیں۔ ‘‘ شعیب نے عمران کے کاندھے پر تھپکی دیتے ہوئے سنجیدگی سے کہا تو عمران کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے وہ گھبراہٹ میں تھوک نگلتے ہوئے بولا۔
’’ مم۔۔۔ مم۔۔۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اتنی جلدی فیصلہ کرنے کے بجائے دوسرے آپشنز پر بھی غور کر لینا چاہیے ۔ ہو سکتا ہے کوئی اور راستہ نکل آئے اور ان آنکھوں والے چکر سے بچ جائیں۔‘‘ اور پھر سرگوشی کرتے ہوئے شعیب کے کان میں بولا۔
’’ شعیب بھائی کیوں مروا رہے ہو۔ کیا تمہیں صرف میں ہی قربانی کا بکرا نظر آرہا ہوں؟خدا کے واسطے کچھ رحم کرو یار۔‘‘
اور پھر شعیب سمیت سارے افراد کھلکھلا کر ہنس پڑے کیونکہ شعیب کی ڈرامائی آمادگی اور عمران کی بوکھلاہٹ نے ماحول کو کافی دلچسپ بنا دیا تھا۔ سب کو ہنستا دیکھ کر عمران بھی کھسیانی ہنسی ہنسنے لگا کیونکہ اس کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اسے بڑی کامیابی سے بے وقوف بنایا گیا ہے۔
’’ویسے ریاض صاحب آپ کی ڈیوٹی کس فلور پر ہے؟‘‘ ثاقب نے پوچھا۔
’’ایشیا زون کے لیے تھرڈ فلور ہے اور میں وہیں ہوتا ہوں۔‘‘ ریاض علوی نے بتایا تو ثاقب بولا۔
’’تو کیا یہ ممکن نہیں کہ کسی طرح آپ خود کوشش کرکے ماسٹر پلان حاصل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ پاکستا ن کے حوالے سے بھی ساری پلاننگ آپ ہی کے فلور یعنی ایشیا زون میں ہوتی ہوں گی اور آپ بھی وہیں ملازم ہیں۔‘‘
’’ وہاں ہم سب کا کام بٹا ہوا ہے اور ہمیں ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت کی بالکل اجازت نہیں ہے لیکن اگر مجھے کچھ گائیڈ لائن مل جائے تو کوشش کرکے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
ریاض علوی نے کچھ سوچتے ہوئے جزوی آمادگی کا اظہار کیا تو شعیب جھٹ سے بولا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے مسٹر ایلیک اگر اپنی آنکھیں بچانا چاہتے ہیں تو ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فائل تلاش کرنے کا مکمل طریقہ کار اور ’’ڈی کوڈ‘‘ کرنے کی ساری ٹیکنیک آپ کے اندر منتقل کریں گے۔ کیا خیال ہے مسٹر ایلیک؟
’’ٹھیک ہے! میں اس کام کے لیے تیار ہوں۔‘‘ عمران نے پرجوش لہجے میں کہا کیونکہ آنکھوں کے مقابلے میں یہ ایک سستا سودا تھا۔
’’تو پھر طے ہوا کہ کل سے مسٹر ایلیک۔ ریاض علوی کو گائیڈ کریں گے اور ایک ہفتے کے بعد رپورٹ پیش کریں گے بصورتِ دیگر ہم دوسرا راستہ اختیارکریں گے۔‘‘
شعیب نے بات کو سمیٹتے ہوئے میٹنگ برخواست کر دی۔
*۔۔۔*
ہیلو! خان اسپیکنگ! کون بول رہا ہے بھئی؟‘‘ ماسٹر خان نے انجانے نمبر سے آنے والی کال کو بالآخر اٹھا ہی لیا۔
’’سر میں ’’رابرٹ بات کررہا ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟‘‘
دوسری طرف شعیب تھا جو کسی پبلک فون بوتھ سے ماسٹر خان کو فون کررہا تھا۔
’’ارے بیٹا کیسے ہو تم لوگ اور تمہارے دونوں ساتھیوں کا کیا حال ہے؟ اور یہ انجانے نمبر سے کال کیوں کررہے ہو؟‘‘ ماسٹر خان نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا۔
’’سر ہم سب لوگ خیریت سے ہیں اور آج کل خوب پرہیز کررہے ہیں۔‘‘ شعیب نے اشارتاً بات کرتے ہوئے کہا تو ماسٹر خان بولے۔
’’ ٹھیک ہے ٹھیک ہے! اور یہ بتاؤ کہ تم لوگوں کا کام کیسا چل رہا ہے؟‘‘
’’ سر ایک دم فرسٹ کلاس بلکہ اتنا اچھا چل رہا ہے کہ دو بندوں کی مزید ضرورت پڑ گئی ہے ، اگر آپ فوری طور پر کوئی بندوبست کریں تو ہمارا کام بہت آسان ہو سکتا ہے۔‘‘ شعیب نے حوصلہ افزا رپورٹ پیش کرتے ہوئے وقاص اور زبیر کو بھجوانے کا اشارہ کیا تو ماسٹر خان بولے۔
’’ کیوں نہیں ! وکی اور زین تو پہلے سے ہی تیار بیٹھے ہیں اور میرا بھی کچھ ایسا ہی ارادہ بن رہا تھا ۔ تم کہو تو ان دونوں کو ساتھ لے کر آجاؤں؟‘‘
ماسٹر خان نے دونوں کے نئے نام بھی خود ہی تجویز کر دیئے تھے۔
’’زبردست! یہ تو بہت اچھا ہوگا آپ ایک ہفتے تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ ہم منتظر رہیں گے اور ہاں وکی اور زین کو ہماری طرف سے پوچھ لیجئے گا ۔ اوکے۔ گڈ بائے۔‘‘ اور یہ کہتے ہوئے شعیب نے فون رکھ دیا۔
*۔۔۔*
’’ میرے لیے کیا حکم ہے باس! ڈیوٹی پر جاتا رہوں یا۔۔۔؟‘‘
رات کے کھانے کے دوران عمران نے شعیب کو فارغ دیکھا تو بلیک واٹر کی ملازمت کا ذکر چھیڑ دیا کیونکہ دو دن سے مسلسل شعیب کسی خاص پروجیکٹ پر مصروف تھا جس کے بارے میں عمران اور ثاقب بھی لاعلم تھے۔
’’ ہوں۔۔۔ ہاں بھئی تمہیں دو چار دن مزید وہاں جانا ہوگا اس کے بعد ان شاء اﷲ وہ خود اس کام سے توبہ کر لیں گے۔‘‘ شعیب نے چاول کی ڈش اپنے قریب کرتے ہوئے معنی خیز جواب دیا تو ثاقب بولا۔
’’مسٹر رابرٹ ! خیریت تو ہے؟ آپ کہیں بلیک واٹر کے ہیڈ کوارٹر کو ٹھکانے لگانے کا پروگرام تو نہیں بنا رہے اور ویسے بھی ہمیں اندازہ ہے کہ آج کل آپ کسی خاص پروجیکٹ پر مصروف ہیں اور آپ کو ہماری ضرورت بھی نہیں رہی۔‘‘
ثاقب کا انداز کچھ شکایتی سا تھا جسے شعیب نے محسوس کر لیا تھا۔ لیکن شعیب سے پہلے عمران بولا۔
’’اگر ایسا کوئی پروگرام بن رہا ہے تو میں بھی آج کل اسی قسم کی معلومات جمع کررہا ہوں کیونکہ فائل کے حوالے سے تو اب وہاں کوئی خاص کام نہیں رہا۔ لہٰذا بلیک واٹر کے سارے ملازمین، ان کے اوقات کار اور ذمہ داریوں کے علاوہ اس کی عمارت کے نقشے، خفیہ مقامات اور ان کی کمزوریوں کا کافی وسیع ذخیرہ میرے پاس بھی موجود ہے۔‘‘
عمران نے اپنی گزشتہ دنوں کی کارکردگی کا اظہار کیا تو شعیب بولا۔
’’ واہ بھئی ۔۔۔ زبردست یہ تو بڑا اچھا ہوا کہ تم نے ان کی کمزوریوں کو معلوم کر لیا۔ انہیں محفوظ رکھنا بعد میں ہمارے کام آئیں گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح عمران نے کچھ معلومات اپنے طور پر جمع کی ہیں اور ہمیں اب پتا چل رہا ہے اسی طرح میں نے بھی آپ کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ نیشنل سیکورٹی ایجنسی (NSA)کے حوالے سے کچھ مزید معلومات اکٹھا کی ہیں اور اب میں سمجھتا ہوں کہ بلیک واٹر جیسی تنظیم جو صرف کرائے کے قاتل ہیں ان پر وقت صرف کرنے کے بجائے ہم ’’NSA‘‘ کو نشانہ بنائیں جس نے پوری دنیا کو دہشت گردی کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس طرح بلیک واٹر جیسے سینکڑوں دہشت گرد ادارے خود بخود بند ہوجائیں گے۔ تیسری بات یہ کہ دو دن پہلے میں نے ایک بات کہی تھی جسے شاید دوسروں نے مذاق سمجھا تھا لیکن میں اب اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دنیا کی سب سے بڑی اور گہری قبر ان شاء اﷲ گوریلا فائٹرز کے ذریعے ہی وجود میں آئے گی، بس پہلے کسی طرح ماسٹر پلان ہمارے ہاتھ لگ جائے۔ اس سلسلے میں میں کافی پلاننگ اور ڈیٹا جمع کر چکا ہوں اور جبکہ خوشی کی بات یہ ہے کہ اگلے ہفتے ماسٹر خان ان دونوں کو لے کر یہاں پہنچ رہے ہیں اور بقیہ تفصیلات ہم ماسٹر خان کے آنے کے بعد طے کریں گے۔‘‘
شعیب کی گفتگو کے دوران عمران اور ثاقب کا انہماک اتنا زیادہ تھا کہ پلیٹوں میں نکلا ہوا کھانا بھی ٹھنڈا ہو چکا تھا۔
*۔۔۔*
’’ مبارک ہو دوستو! ہم کامیاب لوٹے ہیں۔‘‘
عمران نے گھر میں داخل ہوتے ہی ایک زبردست نعرہ لگایا جسے سنتے ہی شعیب اور ثاقب تیزی سے کمرے سے باہر نکل آئے۔
’’ کیا ہوا ایلیک کچھ ملا کیا؟ اوہو۔۔۔ ریاض علوی بھی آئے ہیں! آئیے آئیے۔‘‘
شعیب نے عمران کے ساتھ ریاض علوی صاحب کو دیکھا تو اپنی بات ادھوری چھوڑ کر ان کا استقبال کرنے لگا۔
’’ ہاں بھئی مسٹر ایلیک بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں اﷲ کے فضل سے ہمیں توقع سے بڑھ کر کامیابی ملی ہے اور اس میں اصل کارنامہ مسٹر ایلیک کا ہی ہے کیونکہ میں نے اپنی زندگی میں ان سے بڑا کمپیوٹر کا ماہر نہیں دیکھا اور واقعی اس بہانے مجھے اتنا کچھ سیکھنے کو ملا ہے جس کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا اور یہ رہا آپ کا مطلوبہ ماسٹر پلان۔‘‘
ریاض علوی نے ریکارڈ شدہ ڈیٹا شعیب کے حوالے کرتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی ساتھ وہ عمران کا شکریہ بھی ادا کررہے تھے اور اس کامیابی کو عمران کے نام کررہے تھے۔ جبکہ عمران ’’ نہیں سر، نہیں سر۔‘‘ کی گردان دہرا رہا تھا۔
’’ زبردست آپ دونوں نے تو کمال کر دیا یعنی صرف چھ دنوں میں اتنا بڑا کام ۔ یقین نہیں آرہا۔‘‘
شعیب نے ریکارڈ شدہ ڈیٹا اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے خوشی سے کہا اور آگے بڑھ کر ریاض علوی اور عمران کے گلے لگ گیا۔
’’ یہ ویسے ہی کامیابی کو میرے نام کررہے ہیں اصل کام تو مسٹر ریاض علوی کا ہے جنہوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اتنا بڑا کام سرانجام دیا۔‘‘
عمران نے ریاض علوی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو ثاقب بولا۔
’’ بھئی لڑائی لڑائی معاف کرو اور اپنے خدا کو یاد کرو کیونکہ مغرب کا وقت نکلا جا رہا ہے‘‘
’’تو پھر ٹھیک ہے مغرب کی نماز کے بعد ہم اس ماسٹر پلان کا تفصیل سے جائزہ لیں گے۔‘‘
شعیب نے جیسے ہی بات مکمل کی تو عمران نے شعیب کو کچھ یاد دلاتے ہوئے کہا۔
’’ارے واہ! مغرب کے بعد کیسے؟ آج صبح تو آپ کہہ رہے تھے کہ رات دس بجے تک ماسٹر خان ، وقاص اور زبیر شمالی کیرولینا پہنچ رہے ہیں۔‘‘
’’اوہ میرے خدا! میری تو لگتا ہے مت ماری گئی ہے یعنی ماسٹر پلان کی خوشی میں ماسٹر خان کو بھول گیا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے محسن کو بھول جائیں ۔ آج تو واقعی ایئرپورٹ جانا ہے۔‘‘ شعیب اپنا ماتھا پیٹتے ہوئے بولا تو ثاقب نے کہا۔
’’ یہ تو بہت ہی اچھا ہوگا کہ ماسٹر خان کی موجودگی میں آج ماسٹر پلان کا جائزہ بھی لیں گے اور آئندہ کا پلان بھی طے کریں گے۔‘‘ اور پھر سب اٹھ کھڑے ہوئے اور ڈرائنگ روم میں نماز ادا کرنے لگے۔
*۔۔۔*
’’ آہا۔۔۔ میرے شیروں!‘‘
ماسٹر خان نے ایئرپورٹ سے باہر آتے ہی شعیب عمران اور ثاقب کو خوشی سے گلے لگاتے ہوئے کہا جبکہ زبیر اور وقاص بھی بھاگتے ہوئے باہر آئے اور جذباتی انداز میں باری باری تینوں سے بغل گیر ہو گئے، ہمیشہ ساتھ رہنے والے شیروں پر جدائی کے دو مہینے بڑے بھاری پڑے تھے۔
’’سر آپ کے آنے کی خوشی میں ہم نے آپ کے لیے ایک سر پرائز تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘ گاڑی میں بیٹھتے ہی ثاقب نے خوشی سے اٹھلاتے ہوئے کہا۔
’’ بہت خوب! چلو ابھی پہنچ کر دیکھ لیتے ہیں۔‘‘ ماسٹر خان مسکراتے ہوئے بولے۔
’’اور سر وہ سرپرائز ایسا ہے جسے ہم نے بھی ابھی تک نہیں دیکھا۔‘‘ شعیب نے سرپرائز کو سنسنی خیز بناتے ہوئے کہا تو وقاص بولا۔
’’تو بھئی! یہ تو ایک اور سرپرائز ہو گیا۔‘‘
اور سب لوگ وقاص کی برجستگی پر ہنس پڑے پھر تھوڑی دیر بعد گھر پہنچتے ہی سب لوگ گھنٹہ بھر میں نہا دھو کر تازہ دم ہو چکے تھے اور ماسٹر خان، شعیب سے کہہ رہے تھے۔
’’ نہیں بھئی کھانا وغیرہ تو ہم جہاز ہی میں کھاچکے ہیں اور نیند بھی دل بھر کر کی ہے اب تو بس تم لوگوں کی طرف سے ملنے والے سرپرائز کا انتظار ہے۔‘‘
اور کچھ ہی دیر بعد ماسٹر خان، ریاض علوی ، ایڈم، جوزف اور سارے گوریلا فائٹرز بڑے انہماک سے کمپیوٹر کی اسکرین کو دیکھ رہے تھے۔ جہاں عمران کچھ دکھانے کی کوشش کررہا تھا۔
’’اوہ! کمال ہو گیا بھئی ۔ یہ تو بڑی خطرناک چیز ہے۔‘‘
ماسٹر خان فائل کھلتے ہی چونک اٹھے کیونکہ اسکرین پر نظر آنے والا مواد انتہائی نفرت انگیز تھا۔
’’ جی سر! یہی وہ ماسٹر پلان ہے جسے آج ہی نیشنل سیکوریٹی ایجنسی سے چرایا گیا ہے اور یہی وہ ماسٹر پلان ہے جسے آپ کے لیے سرپرائز کے طور پر رکھا گیا تھا۔
اور پھر جیسے جیسے عمران اسلام اور پاکستان کے خلاف تیار کیے گئے ماسٹر پلان کو پڑھتا جارہا تھا سب کے چہرے جذبات سے سرخ اور دل دشمن کے خلاف نفرت انگیز خیالات سے بھرتا جا رہا تھا۔
*۔۔۔*
ماسٹر پلان واقعی دشمن کی دشمنی اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت تھا جس میں پانچ اہم اہداف کو ترتیب وار لکھا گیا تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کی اسلامی شناخت کو ختم کرکے اسے نہ صرف لامذہبیت (سیکولرازم) کے گڑھے میں دھکیلنا تھا بلکہ ترقی کے عمل کو روک کر ایک پسماندہ اور بھکاری ملک بنانا تھا۔عمران پڑھتا جا رہا تھا اور سب دم سادھے ہمہ تن گوش تھے۔
’’ پہلا کام: پاکستانیوں کو قرآن اور قرآنی تعلیمات سے دور کرنا۔‘‘
وضاحت :قرآن مسلمانوں کی بنیاد ہے اگر ہم بنیاد پر صحیح ضرب لگانے میں کامیاب ہوگئے تو باقی سارے اہداف بھی خود بخود حاصل ہوجائیں گے۔
طریقہ کار: ایسے علماء اور اسکالرز کی تیاری جو اسلام کے لبادے میں مسلمانوں کا رخ قرآن سے پھیر سکیں اور قرآن کا ترجمہ پڑھنے اور سمجھنے سے روک کر دوسرے بے مقصد اور بے ضرر کاموں میں لگا دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کی غلط تشریح کرکے مسلمانوں کو گمراہ کرسکیں۔
’’ دوسرا کام: پاکستان کا تعلیمی نظام تباہ کرنا۔‘‘
وضاحت: پاکستان کی آبادی کا تقریباً 60%حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جو نہ صرف حیرت انگیز ریکارڈ ہے بلکہ ہمارے لیے خطرے کا باعث ہے۔
طریقہ کار: پاکستان کے نظام تعلیم کو مزید تباہ کرنا اور غیر اسلامی نصاب تیار کرکے اسکولز میں رائج کرنا ہوگا تاکہ آئندہ کوئی اسلامی سائنسدان، اسلامی ڈاکٹر، اسلامی سیاستدان اور نیک قیادت پیدا نہ ہوسکے۔
تیسرا کام: پاکستان کے عدالتی نظام سے انصاف کا خاتمہ
وضاحت: ملک میں لوٹ کھسوٹ ، کرپشن، مہنگائی، قتل و غارت گری کو عام کرنے کے لیے عدالتی نظام کو کمزورکرنا ضروری ہے۔
طریقہ کار: ہر سطح کی عدالت میں کرپٹ اور رشوت خور مجسٹریٹ کا تقرر کروانا۔غیر اسلامی قوانین کا نفاذ اور اسلامی خواتین کی حوصلہ شکنی کرنا۔
چوتھا اہم کام: رنگ و نسل ، زبان اور مسلک کی بنیاد پر مسلمانوں کو لڑانا اور ٹکڑے کرنا۔
وضاحت: مسلمانوں کو ٹکڑوں میں بانٹ کر کمزور کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ یعنی لسانیت اور مذہبی تعصب لہٰذا ہم یہی جال استعمال کریں گے۔
طریقہ کار: منہ مانگی رقم دے کر مسلمانوں کو خریدنا اور زبان اور مسلک کے نام پر ان کی پارٹیاں بنانا اور ان سب کو آپس میں لڑا کر خون خرابہ کرنا تاکہ ملک میں خانہ جنگی پھیلے جس کا لازمی نتیجہ ملک کے ٹکڑے ہونا ہے۔
پانچواں اور آخری اہم کام: پاکستان کو سودی قرضوں میں جکڑے رکھنا۔
وضاحت: کسی بھی ملک اور قوم کو بھکاری بنا کر آپ ان سے تمام فوائد سمیٹ سکتے ہیں اور قرضوں تلے دبا کر اپنا آرڈر چلا سکتے ہیں۔
طریقہ کار:پاکستان کو آسان شرائط پر بھاری سودی قرضے دینا اور جلدی واپسی کا تقاضہ نہ کرنا تاکہ سود بڑھتا رہے اور پاکستان پر غلامی کا طوق روز بروز بھاری ہوتا رہے۔ اس کے بعد ہر ہدف کے ساتھ تفصیلات تھیں جن میں اب تک کے کام کا جائزہ بھی شامل تھا۔ اور پھر جیسے ہی عمران سانس لینے کو رکا اس نے دیکھا کہ ماسٹر خان سمیت سارے ہی لوگ اپنا سر پکڑے بیٹھے ہیں جیسے سوچ رہے ہوں کہ اب اپنا کام کہاں سے شروع کریں۔
’’واقعی اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں بالکل من و عن ایسی سفاک پلاننگ پر عمل ہو رہا ہے اور آج ہمارا ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔‘‘ ماسٹر خان کی گفتگو میں پریشانی عیاں تھی۔
’’ اگر اس ماسٹر پلان پر عمل ہوتا رہا تو کل بلوچستان، پختونستان، سرائیکستان اور جناح پور کے نام پر ہمارے ملک کے خدانخواستہ ٹکڑے بھی ہوسکتے ہیں۔‘‘زبیر نے غصے میں دانت پیستے ہوئے کہا تو وقاص بولا۔
’’ماسٹر پلان کا حصول واقعی آپ لوگوں کا ایک کارنامہ ہے لیکن اگلا سوال پھر وہی ہے کہ ان کے مشن کو ناکام کس طرح بنایا جائے؟‘‘
’’ ہوں۔۔۔ ں۔۔۔ ں ۔۔۔ وقاص کی بات سو فیصد درست ہے ہمیں اب مزید جلنے کڑھنے اور پریشان کن تبصروں کے بجائے کوئی عملی تدبیر کرنی ہوگی ورنہ دشمن تو تیزی سے کامیابی کی طرف بڑھ رہا ہے اور ہماری حکومت اور عوام غفلت کی نیند سو رہی ہے۔‘‘ثاقب نے وقاص کی تائید کرتے ہوئے کہا تو شعیب بولا۔
’’ میں اس مسئلے پر کافی غور و خوض کر چکا ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سب سے پہلے ہمیں اس فتنہ انگیز ایجنسی کا قصہ تمام کرنا ہوگا کیونکہ پوری دنیا اور بالخصوص پاکستان میں دہشت گردی اور تباہی کی ذمہ دار یہی تنظیم ہے جسے اسرائیل اور امریکہ کی آشیر باد حاصل ہے لہٰذا میں اپنے محسنوں اور ماسٹر خان سے درخواست کروں گا کہ وہ مجھے دنیا کی سب سے بڑی قبر تیار کرنے کی اجازت دیں کیونکہ قبر پہلے سے چھ منزلہ گہری کھدی ہوئی ہے اور چار ہزار افراد اسی قبر میں بیٹھے ہیں جنہیں قبر میں اتارنے کی تکلیف بھی نہیں کرنی پڑے گی صرف ایک زوردار جھٹکا دینا ہوگا اور مزے کی بات یہ ہے کہ دفنانے کے بعد اوپر سے مٹی ڈالنے کا کام بھی ہمیں نہیں کرنا وہ یہاں کی حکومت خود کرے گی۔‘‘ شعیب کی آنکھوں میں دشمن کے لیے نتہائی بے رحمی اور لہجے میں اتنی سفاکیت تھی کہ ریاض علوی کے ساتھ ساتھ ایڈم اور جوزف کوبھی خوف سے جھرجھری آگئی۔کیونکہ شعیب نے جتنی آسانی سے اتنی بڑی بات کی تھی وہ ناکوں چنے چبانے سے کسی صورت کم نہ تھی۔
’’مسٹر رابرٹ ! جانتے بھی ہو تم کتنی بڑی بات کہہ رہے ہو؟‘‘ریاض علوی نے شعیب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے سوال پوچھا۔ وہ اب تک اس بات کو مذاق یا جذباتی گفتگو سمجھ رہے تھے جس کا اظہار شعیب نے اشارتاً پہلے بھی کیا تھا۔
’’ بالکل ! بہت اچھی طرح جانتا ہوں اسی لیے سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں اور آپ کو یہ بات بتا تا چلوں کہ اس سلسلے میں کافی پلاننگ اور ڈیٹا بھی تیار ہے بس کچھ ضروری پلاننگ اور حتمی فیصلے کی ضرورت ہے۔‘‘
شعیب نے مسکراتے ہوئے ریاض علوی کو مطمئن کرنے کی کوشش کی لیکن ریاض علوی اب بھی بے یقینی کی کیفیت میں کبھی شعیب اور کبھی دوسرے افراد کی شکلیں تک رہے تھے۔ وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ گوریلا فائٹرز اتنا بڑا قدم اٹھا سکتی ہے یعنی ’’چہ پدی اور چہ پدی کا شوربہ۔‘‘
ویسے آپ بے فکر رہیے ہم آپ کو اور آپ کے ساتھی کو جو وہاں ملازم ہیں ، پہلے ہی باہر کر لیں گے لہٰذا اطمینان رکھیے آپ بالکل محفوظ رہیں گے ہاں البتہ آپ کی ملازمت ختم ہوجائے گی۔‘‘
شعیب نے ریاض علوی کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے انہیں چھیڑا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑے اور بولے ’’ نہیں بھئی مجھے اپنی جان اور ملازمت کی قطعی کوئی پروا نہیں بلکہ اﷲ کے راستے میں جان اور ملازمت چلی جائے تو اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے ہاں البتہ دوسرا ساتھی جس کا نام علی جاہ ہے وہ اتنا قابل اعتماد نہیں کہ اسے پلاننگ کے بارے میں آگاہی دی جائے۔‘‘
ریاض علوی نے فوراً ہی وضاحت پیش کی تو عمران بھی شعیب کو مخاطب کرتے ہوئے بولا۔
’’ لیکن اس سے ہمیں کیا فائدہ ہو گا۔ وہ اس ایجنسی کی جگہ دوسری ایجنسی کھڑی کر دیں گے کیونکہ دشمن کے پاس سرمائے کی کمی ہے اور نہ ٹیکنالوجی کی اور ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ دوسری ایجنسی اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوگی کیونکہ اگلی مرتبہ دشمن اور زیادہ محتاط اور چوکنا ہوگا لہٰذا میری دانست میں یہ عارضی حل ہے جبکہ ہمیں مستقل حل سوچنا ہوگا۔‘‘
عمران نے کافی گہرا سوال اٹھایا تھا لیکن دوسری طرف بھی شعیب تھا جو کسی صورت میں ہار ماننے کو تیار نہ تھا وہ بولا۔’’تمہارا سوال بہت اچھا ہے اور میں نے بھی اس بارے میں بہت سوچ بچار کی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ نیشنل سیکورٹی ایجنسی اصل فساد کی جڑ ہے اور فساد کی جڑ کا انجام دیکھ کر بہت سی چھوٹی چھوٹی ایجنسیاں اور بلیک واٹر جیسے دہشت گرد ادارے بند ہو جائیں گے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ نیشنل سیکورٹی ایجنسی جیسے کسی دوسرے ادارے کو نئے سرے سے کھڑا کرنے میں دشمن کو کم و بیش پانچ سال لگ سکتے ہیں اور یہ پانچ سال ہمارے بھی تیاری کے سال ہوں گے اس عرصے میں ہم ٹھوس اقدامات اور بھرپور پلاننگ کے ساتھ ایک مرتبہ پھر کھڑے ہوسکتے ہیں اور دشمن کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔اور آخری بات یہ ہے کہ گوریلا فائٹرزجب کسی دشمن سے ٹکراتی ہے تو اپنا کام پورا کرکے نکلتی ہے اور ان شاء اﷲ ہم اس ایجنسی کا بھی کام تمام کرکے ہی یہاں سے روانہ ہوں گے۔ بولیں کیا کہتے ہیں آپ لوگ؟ دشمن کو اپنا کام کرنے دیں یا دشمن کا کام تمام کر دیں؟ اب آپ لوگ جو بھی فیصلہ کریں گے مجھے منظور ہوگا۔‘‘
شعیب کے آخری جادوئی الفاظ انتہائی جاندار تھے جن سے اس کے جذبات کی بھی ترجمانی ہورہی تھی لیکن اگلے ہی لمحے ماسٹر خان کی آواز گونجی جو گوریلا فائٹرز کے معاملات میں بہت کم بولتے تھے کیونکہ انہیں پانچوں کی مہارت اور پلاننگ پر پورا بھروسہ تھا مگر جیسے ہی انہیں اندازہ ہوا کہ بات عقل سے نکل کر جذباتیت کی طرف بڑھ رہی ہے تووہ چپ نہ رہ سکے اور بولے۔
’’ شاید تم لوگ یہ بات بھول رہے ہو کہ ہم یہاں صرف ماسٹر پلان کی تلاش میں آئے ہیں کسی قسم کی تباہی یا خون خرابہ ہمارا ہر گز مقصد نہیں ہے یاد ہے جب شمالی کیرولینا آنے سے قبل ثاقب نے کہا تھا کہ بڑا مزا آئے گا جب وہ ہمیں پاکستان میں تلاش کررہے ہوں گے تو ہم ان کے ہیڈ کوارٹر پر شب خون ماررہے ہوں گے تو تم نے شعیب کو فوراً ٹوکتے ہوئے کہا تھا ’’ او بھائی! ذرا احتیاط سے زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہم وہاں کوئی خون خرابہ کرنے نہیں بلکہ صرف ماسٹر پلان کی تلاش میں جارہے ہیں۔‘‘ اور پھر میں نے کہا تھا کہ
ہاں بھئی شعیب بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے کیوں کہ شمالی کیرولینا امریکہ کی ایک پرامن ریاست ہے یہ الگ بات ہے کہ وہاں زی ورلڈ وائڈ کا صدر دفتر بھی ہے۔ وہاں پر ذرا سی غلطی ہمیں انجام تک پہنچا سکتی ہے لہٰذا ہمیں صرف اپنے مشن پر توجہ دینی ہوگی۔‘‘ ماسٹر خان بولتے بولتے ایک لمحے کے لیے سانس لینے کو رکے اور بولے’’ جانتے ہو میں نے اس دن تمہیں کس انجام سے ڈرایا تھا۔ آج میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔ اس کے بعد وہی کچھ ہوگا جو نائن الیون کے بعد ہوا۔ امریکہ بدمست ہاتھی کی طرح افغانستان پر چڑھ دوڑا اور نئی نئی وجود میں آنے والی اسلامی حکومت کو تہہ و بالا کر دیا ۔ لاکھوں مسلمانوں کو موت کی بھینٹ چڑھا دیا پھر کچھ عرصہ بعد عراق پر حملہ آور ہوا اور وہاں پر آج تک قابض ہے۔‘‘
’’ لیکن سر اس کے بعد امریکہ کا حل بھی تو کچھ اچھا نہیں ہوا آج وہ معاشی تباہی کا شکار دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے اور افغانستان میں روزانہ بیسیوں فوجیوں کی لاشیں اٹھا رہا ہے اور ویسے بھی ہم امریکہ یا کسی امریکی ادارے کو نہیں بلکہ اسرائیل کی سرپرستی میں چلنے والے دہشت گرد ادارے کو نشانہ بنا رہے ہیں جس سے امریکہ خود تنگ ہے۔‘‘ شعیب نے کمزور دلائل سے اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی تو ماسٹر خان بولے۔
’’ ٹھیک ہے امریکہ کا حال بھی برا ہے لیکن کیا امریکہ پیچھے ہٹ گیا۔ نہیں؟بالکل نہیں ہٹ سکتا کیونکہ اسرائیل تو چاہتا ہی یہ ہے کہ امریکہ بھی ڈوبے اور مسلمان بھی کیونکہ اس کے لیے تو دونوں دشمن ہیں ۔ عیسائی بھی اور مسلمان بھی۔ اسی لیے جب کبھی امریکہ پیچھے ہٹنے کی بات کرتا ہے اسرائیلی یہودی اس کو مزید اربوں ڈالر قرض اور امداد فراہم کردیتے ہیں۔لہٰذا میرے بچوں ! ہمیں مستقبل کے حوالے سے ٹھو س منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور اگر ہم نے جذباتی فیصلہ کرتے ہوئے کوئی گڑبڑ کی تو یاد رکھو ہم تو شاید یہاں سے نکل جائیں لیکن امتِ مسلمہ بالخصوص پاکستان شدید خطرات میں گھرسکتا ہے اور ہماری کارروائی کا خمیازہ پوری امت کو بھگتنا پڑے گا۔
کیا تمہیں معلوم ہے کہ افغانستان پر حملے سے قبل پشاور میں پشتو اور افغانی زبانوں میں سیکولر نصاب پر مبنی درسی کتب چھپنا شروع ہو گئی تھیں۔ لوگ حیران تھے کہ یہ کتابیں امریکہ کیا کرے گا آج پتہ چلا کہ وہ کتابیں افغانستان کے اسکولوں میں پڑھانے کے لیے جنگ سے قبل ہی چھپوا لی گئی تھیں۔ اسی طرح عراق پر حملے سے قبل سارا سیکولر درسی نصاب تیار تھا اور آج امریکہ کے زیر اثر وہ تمام کتابیں عراق کے اسکولوں میں بچے پڑھنے پر مجبور ہیں۔کیا ہم اپنی صلاحیتوں کو اسلامی نصاب تعلیم اور قوم کی تربیت پر نہیں صرف کرسکتے ؟ مستقبل یقیناًہمارا ہے لیکن افسوس مستقبل کے حوالے سے ہماری کوئی تیاری نہیں ہے۔‘‘
’’ سر میں آپ کی بات بہت اچھی طرح سمجھ چکا ہوں لہٰذا اب ہم اپنی پلاننگ میں تھوڑی سی تبدیلی کریں گے اور ان کا تخریب کاری کا سارا نظام خراب کردیں گے۔ ان کے تمام سسٹم کو ناکارہ بنا کر اور کمپیوٹرز کو ہیک کرکے ہم انہیں یہ پیغام ضرور دیں گے کہ تم ہماری دسترس میں ہو اور اس کام کی ذمہ داری عمران کی ہوگی۔‘‘ شعیب نے ماسٹر خان کی بات تو مان لی لیکن وہ پھر بھی سرنڈر کرنے والا نہیں تھا۔
*۔۔۔*
میری اب تک کی معلومات کے مطابق روزانہ صبح آٹھ بجے سے دس بجے تک وائٹ اسٹار کمپنی کے آٹھ ملازمین اس ایجنسی میں صفائی اور ردّی اشیاء اٹھانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ کمپنی جنوبی کیرولینا کی سب سے بڑی کمپنی ہے جس کے پاس دو ہزار سے زائد ملازمین ہیں اور دلچسپ اور فائدہ مند بات یہ ہے کہ سیکورٹی کے پیش نظر صرف یہی آٹھ ملازمین گونگے اور بہرے رکھے گئے ہیں۔‘‘
اگلے دن میٹنگ کا آغاز ہوتے ہی سب سے پہلے شعیب نے اپنی تیار کردہ پلاننگ اور معلومات سب کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا تو ریاض علوی بولے
’’ یہ معلومات تو میرے پاس بھی نہیں ہیں کیا یہ حتمی معلومات ہیں؟‘‘
’’ جی ہاں نہ صرف حتمی ہیں بلکہ بحیثیت کلائنٹ، وائٹ اسٹار کمپنی سے بھی میری ملاقات ہوچکی ہے اور غیر محسوس انداز میں کمپنی اورا س کی سرگرمیوں کی کافی معلومات بھی میں جمع کر چکا ہوں۔‘‘شعیب نے اعتماد کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’ اوہ! یہ تو واقعی عجیب و غریب معلومات ہیں۔‘‘ ریاض علوی منہ ہی منہ میں بولے تو شعیب نے کہا۔
’’عجیب و غریب معلومات تو اب میں آپ کو دوں گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے شعیب نے اپنے بیگ سے دو نقشے نکالے جس میں سے ایک بلڈنگ کا نقشہ اور دوسرا اسی بلڈنگ کے پورے اسٹرکچر کی معلومات پر مبنی ایک لے آؤٹ تھا جو کسی انجینئر کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
’’ یہ نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی عمارت کا نقشہ ہے جس میں تمام داخلی و خارجی دروازے، لفٹس ، خفیہ کمرے اور ہنگامی حالت میں نکلنے کے راستے بھی واضح ہیں۔‘‘
شعیب نقشے کو میز پر بچھا کر پینسل کی نوک سے مطلوبہ مقامات کی نشاندہی کرتا جا رہا تھا اور سارے افراد حیرت کی تصویر بنے ہمہ تن گوش تھے ۔ شعیب کہہ رہا تھا۔
’’ اس عمارت میں کل نو سو پلرز ہیں لیکن بارہ مرکزی پلرز ایسے ہیں جن پوری عمارت کھڑی ہے۔‘‘شعیب نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔
’’اوہ۔۔۔ آئی سی! مان گئے بھئی مان گئے۔ تم نے تو واقعی کمال کر دیا ، مگر برخوردار! یہ نقشہ تمہیں ملا کہاں سے؟‘‘
ماسٹر خان شعیب کے کاندھے کو تھپکتے ہوئے بولے۔
’’ اس کام میں ایڈم اور جوزف نے میری بڑی معاونت کی ہے ہم نے چند بڑی بڑی تعمیراتی کمپنیوں سے رابطہ کیا اور کلائنٹ کی حیثیت سے ان کے بنائے ہوئے چند پروجیکٹس اور ان کے نقشے مانگے کیونکہ ہم نے کمپنیوں کو بتایا تھا کہ ہم بیس منزلہ عمارت بنوانا چاہتے ہیں جس کی دس منزلیں زیر زمین ہوں گی۔ جواب میں ہمیں درجنوں ایسے پروجیکٹ کے نقشے ارسال کیے گئے جس میں زیر زمین تعمیرات کی گئی تھی اور اسی میں یہ نقشہ بھی موجود تھا تب ہمیں معلوم ہوا کہ یہ عمارت مشہور زمانہ تعمیراتی کمپنی ’’ٹاپ اسٹار‘‘ نے بنائی ہے اس کے بعد ہم اس کمپنی کے انجینئرز سے بھی ملے اور باتوں باتوں میں کئی کام کی باتیں معلوم ہو گئیں۔‘‘
شعیب نے ایڈم اور جوزف کاشکریہ ادا کرتے ہوئے ساری تفصیلات بتائیں تو عمران اور ثاقب کو بھی سمجھ آیا کہ شعیب چند دن قبل کون سی معلومات جمع کررہا تھا۔
’’ بہت خوب بھئی خوب! تمہاری پلاننگ کا واقعی جواب نہیں مگر سوال یہ ہے کہ اندر کس طرح پہنچا جائے؟‘‘
ریاض علوی نے شعیب سے مزید معلومات کریدتے ہوئے پوچھا۔ وہ شعیب سے کافی متاثر ہو چکے تھے۔
’’ ہم وائٹ اسٹار کمپنی کے گونگے اور بہرے ملازمین کے روپ میں عمارت کے اندر داخل ہوں گے اور وہ اس طرح کہ کمپنی کے کئی ملازمین کو کمپنی کی طرف سے کوارٹرزدیئے گئے ہیں جہاں کوئی خاص سیکورٹی نہیں ہے ہمیں ان کے کوارٹرز تک پہنچنا ہوگا اور صبح جب کمپنی کا ٹرک آئے گا تو ہم ان کی جگہ ڈیوٹی دیں گے وہ اپنے اپنے بستروں کے نیچے بندھے پڑے ہوں گے اور ہم عمارت کے اندر۔ ‘‘ شعیب نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔’’ لیکن وہ آئی اسکیننگ (Eye Scaning)کا مرحلہ؟‘‘ ثاقب نے سوال اٹھایا۔
’’ آنکھوں کی اسکیننگ ان لوگوں کے لیے لازمی ہے جو عمارت کے اندر کام کرتے ہیں اور ان کے باقاعدہ ملازم ہیں ۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیں کسی بھی طور پر ان کی عمارت میں داخل نہیں ہونا بلکہ ہمارا ٹرک عمارت سے دور ایک زیر زمین راستے سے ہمیں عمارت کے بیسمنٹ یعنی گراؤنڈ فلور تک لے جائے گا جہاں پوری عمارت کا کچرا اور ردّی کاغذ وغیرہ ایک زبردست سسٹم کے تحت ان بڑے بڑے بارہ پلرز کے ساتھ جمع ہوتا رہتا ہے اور ہمارا کام صرف اس کچرے کو اٹھانا اور صفائی کرنا ہے نہ کہ عمارت کے تمام فلورز کی صفائی ۔ یہ دیکھئے۔۔۔‘‘
یہ کہتے ہوئے شعیب نے پینسل کی نوک سے عمارت کے نقشے میں ان بارہ پلرز کے ساتھ بنے ہوئے تنگ راستوں کی نشاندہی کی جہاں سے کچرا نیچے پہنچنے کا انتظام تھا۔’’ یہ ان پلرز کے ساتھ ایک راستہ سا بنا ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی منزل سے ساتویں منزل تک جس کو بھی کچرا یا ردّی کا غذ پھینکنا ہو وہ اس راستے سے پھینک دے ۔ اس طرح سارا کوڑا کرکٹ ان پلرز کے ساتھ بنے ڈبوں میں جمع ہوجاتا ہے۔ ہم ان ڈبوں کو ٹرک میں خالی کریں گے اور سیکورٹی عملہ پر قابو پا کر عمران کی مدد سے ان کے مین سرور اور الیکٹریکل روم میں جو کہ عمارت کے بیسمنٹ میں واقع ہے اپنی کاروائی مکمل کریں گے اور چھ گھنٹے جب ان کا سسٹم ناکارہ ہوگا تو ہم شمالی کیرولینا سے فلائی کرچکے ہوں گے۔
اور پھر جیسے ہی شعیب نے اپنی بات مکمل کی ،ماسٹر خان نے اپنی نشست سے اٹھ کر شعیب کو گلے لگا لیا۔ اتنی شاندار منصوبہ بندی کا خالق واقعی اس قابل تھا کہ اسے سراہا جائے دوسری طرف عمران اور ثاقب کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے شاید اپنے دوست کی فراست اور دانائی پر نذرانہ عقیدت وہ اسی طرح دے سکتے تھے۔
*۔۔۔*
چار فروری کو رات دو بجے وہ تمام ضروری سامان سے لیس وائٹ اسٹار کمپنی کے کوارٹرز میں خاموشی سے اپنی کاروائی کا آغاز کر چکے تھے۔ انہوں نے مطلوبہ کوارٹرز کے تالے انتہائی مہارت سے کھولتے ہوئے آٹھوں ملازمین کو بے ہوش کیا اور ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اب وہ ایک دوسرے کے چہروں پر میک اپ کررہے تھے۔اس تمام کاروائی میں صبح کے چھ بج چکے تھے۔ شعیب ، ثاقب، عمران، زبیر، وقاص، ایڈم اور جوزف کل سات افراد تھے۔جبکہ آٹھواں بندہ جوزف کا ساتھی تھا جو تحریک آزادی فلسطین کا خفیہ کارکن بھی تھا۔
صبح سات بجے کمپنی کا ٹرک ان کو لینے پہنچ چکا تھا۔ شعیب نے اپنے کوارٹر کی کھڑکی سے ٹرک ڈرائیور کو اندر بلا لیا ۔ ٹرک ڈرائیور جیسے ہی اندر آیا ۔ ایک زوردار ضرب اس کے سر کے پچھلے حصے پر پڑی اور اب وہ شعیب کے ہاتھوں میں جھول رہا تھا۔
اگلے ہی لمحے ڈرائیور کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اس کی شکل کا میک اپ ریاض علوی کے چہرے پر شروع ہو چکا تھا جنہیں پروگرام کے مطابق ڈرائیور کا کردار ادا کرنا تھا۔ اس کام میں ان کے بیس منٹ ضائع ہو چکے تھے۔
اب کام دکھانے کی باری ریاض علوی کی تھی جنہیں بہت تیز ڈرائیونگ کے ساتھ ٹھیک آٹھ بجے نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر تک پہنچنا تھا۔
ٹھیک آٹھ بجے وہ زیر زمین خفیہ راستے سے اندر داخل ہو چکے تھے۔ معمول کی چیکنگ اور تلاش کے بعد اب وہ نہایت اطمینان سے نقشے کے مطابق کچرے کے سارے ڈرم اٹھا اٹھا کر ٹرک تک لا رہے تھے جہاں زبیر اور وقاص انہیں خالی کرتے جا رہے تھے۔
اسی دوران شعیب نے ساتھیوں کو کاروائی کا سگنل دیا اور اپنے قریب موجود سیکورٹی اہلکار کو نہایت خوبصورتی سے قابو کر لیا اور اب اس کا اسلحہ شعیب کے ہاتھ میں تھا ۔ شعیب کی دیکھا دیکھی دوسرے ساتھیوں نے بھی دیگر چار سیکورٹی اہلکاروں پر اچانک حملہ کر دیا اور بغیر کسی نقصان کے چاروں کو ایک کونے میں لے جا کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ دوسری طرف عمران نے ان کے مین سرور میں گھس کر اسے ہیک کرنے کی کوشش کی لیکن وہ انتہائی پیچیدہ نظام کو سمجھنے میں مشکل کا شکار تھا۔ دوسری طرف وقت بھی نکلا جا رہا تھا بالآخر عمران نے آخری فیصلہ کرتے ہوئے چھوٹا سا ٹائم بم ان کے سسٹم کے ساتھ منسلک کر دیا جس میں اس نے تین بجے کا ٹائم سیٹ کر دیا جس سے دشمن کا پورا سسٹم ناکارہ ہوجانا تھا۔ اس تمام کروائی سے فارغ ہو کر وہ پانچوں گیارہ بجے اپنے مرکز پہنچ چکے تھے۔
جلدی جلدی ہاتھ منہ دھو کر اپنا تیار شدہ سوٹ کیس ہاتھ میں لیا اور ماسٹر خان کے ساتھ ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہو گئے جہاں سے ٹھیک دو بجے فلائٹ کو شام کے دارالحکومت دمشق کے لیے روانہ ہونا تھا ۔ وہاں پر ماسٹر خان کے دوست حسن ترمذی ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔
ٹھیک ایک بجے وہ سب ریاض علوی ، ایڈم اور جوزف سے الوداعی ملاقات کررہے تھے اور ایک گھنٹے کے بعد وہ جہاز میں اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔سوا دو بج چکے تھے لیکن جہاز اڑنے کا نام نہیں لے رہا تھا کہ اچانک ایئر ہوسٹس کی آواز گونجی۔ ’’لیڈیز اینڈ جینٹل مین! چند تکنیکی خرابی کے باعث یہ فلائٹ ایک گھنٹہ مزید لیٹ ہے آپ اپنی نشستوں پر آرام سے تشریف رکھیں ریفریشمنٹ سے لطف اندوز ہوں ہم بہت جلد اپنے سفر پر روانہ ہوں گے، انتظار کی تکلیف اٹھانے پر ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں، شکریہ۔‘‘ایئر ہوسٹس کی سریلی آواز شاید دوسروں کے لیے اتنی سخت نہ ہو جتنی گوریلا فائٹرز اور ماسٹر خان کے لیے کرخت تھی کیونکہ ٹھیک پینتالیس منٹ بعد ایک چھوٹا سا دھماکہ ہونا تھا اور اس کے بعد سارے ایئرپورٹس ہائی الرٹ کے ساتھ ہنگامی طور پر سیل (Seal) ہوجانے تھے اور بنا بنایا کام خراب ہونے والا تھا۔
’’ارے مارے گئے بھیا!‘‘ یہ پہلی تشویش ناک آواز وقاص کی تھی جو بے اختیار نکلی تھی جبکہ ماسٹر خان کے لبوں پر آیت الکرسی اور چہرے پر بلا کا اطمینان تھا جیسے ان پر ایئر ہوسٹس کے جملے کا کوئی اثر نہ ہوا ہو۔
وقت جیسے جیسے گزرتا جا رہا تھا شعیب کے چہرے پر فکر کی سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے اتنے میں ثاقب کی آواز آئی وہ کہہ رہا تھا۔’’ بے فکر ہو ان شاء اﷲ خدا خیر کرے گا۔‘‘
تین بجنے میں صرف پانچ منٹ باقی تھے عمران نے اپنی آنکھیں سختی سے میچ لیں تھیں اور زبیر کے ہونٹ بے اختیار بھینچ گئے تھے ۔ ایک ایک سیکنڈ ہتھوڑا بن کر برس رہا تھا کہ اچانک ایئر ہوسٹس کی آواز ایک مرتبہ پھر گونجی۔
’’لیڈیز اینڈ جینٹل مین! جہاز کو کلیئرنس مل چکی ہے اب سے کچھ ہی لمحوں بعد ہم دمشق کے لیے روانہ ہوں گے آپ سے ایک مرتبہ پھر گزارش ہے کہ اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لیں۔‘‘
یہ معلوم نہیں خدا کی کیسی آزمائش تھی کہ جیسے ہی گھڑی میں تین بجے جہاز نے رن وے پر دوڑنا شروع کر دیا اور تھوڑی دیر بعد جہاز فضا کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔جبکہ گوریلا فائٹرز اور ماسٹر خان اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے خیالوں میں نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے پورے سسٹم کو اڑتا ہوا دیکھ رہے تھے جسے درست کرنا ان کے دانتوں کے نیچے پسینہ آنے کے مترادف تھا اور پھر سب کے منہ سے بے اختیار الحمد ﷲ کے الفاظ جاری ہو گئے۔
دس گھنٹے کی مسلسل پرواز کے بعد وہ دمشق کے ایئرپورٹ پر لینڈ کر چکے تھے جہاں حسن ترمذی ان کے انتظار میں کئی گھنٹوں سے کھڑے تھے ۔اب سب آپس میں بغلگیر ہورہے تھے ۔
ایئرپورٹ پر سخت قسم کی افراتفری کا عالم تھا اور بڑے بڑے جہازی سائز کے ٹیلی ویژن سیٹ پر مختلف چینلز کے نمائندے بریکننگ نیوز میں امریکہ کے شہر جنوبی کیرولینا میں ہونے والے دھماکے کی تفصیلات بتا رہے تھے ۔ ایک ٹی وی چینل کا نمائندہ چیختے ہوئے کہہ رہا تھا۔
’’ آج سہ پہر تین بجے امریکہ کی ایک ریاست جنوبی کیرولینا میں واقع انتہائی حساس ادارے کے سارے نیٹ ورک سسٹم کو بم دھماکے سے اڑا دیا گیا گو کہ اس دھماکے سے کسی قسم کے جانی نقصان کی اطلاع تو نہیں ملی لیکن پورا نیٹ ورک ، تمام کمپیوٹرز اور سارا ڈیٹا تباہ ہو چکا ہے۔ البتہ حملہ آوروں نے بیسمنٹ میں موجود پانچ سیکورٹی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا ۔ ‘‘
ایک دن دمشق میں گزارنے کے بعد اگلے دن وہ سب کراچی کے ایئرپورٹ پر جہاز کی سیڑھیوں سے اتر رہے تھے تو شہر بم دھماکوں سے گونج رہا تھا۔ ایئرپورٹ سے باہر آئے تو شہر بھر میں بسنت کے نام پر جشن بہاراں منایا جا رہا تھا اور جگہ جگہ لڑکے لڑکیوں کا ہجوم بے ہنگم طریقے سے انڈین نغموں کی دھن پر رقص کرتا ہوا پتنگ بازی کا مقابلہ کررہا تھا۔قوم کی یہ حالت دیکھ کر قوم کے ہیروز کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔ شعیب انتہائی سخت جان اور مضبوط اعصاب کا مالک ہونے کے باوجود آنسو ضبط نہ کرسکا اور بے اختیار ہچکیوں کے ساتھ رو پڑا۔
*۔۔۔*
دو دن بعد پانچوں گوریلا فائٹرز ماسٹر خان کی رہائش گاہ پر جمع تھے۔ اتنے میں ماسٹر خان ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے ۔ ان کے ہاتھ میں ایک اخبار تھا انہوں نے مسکراتے ہوئے وہ اخبار پانچوں کے سامنے رکھ دیا جس پر جلی حروف میں ایک خبر نمایاں تھی۔’’بلیک واٹر نے اپنے آپ کو فروخت کے لیے پیش کر دیا۔‘‘
خبر کے ساتھ ہی پرنس ایریل کی تصویر تھی جس میں وہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلیک واٹر فروخت کرنے کی وجوہات بتا رہا تھا۔
یہ خبر پڑھتے ہی پانچوں نے اﷲ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر اچھلنے لگے۔ شعیب کی بات بالکل صحیح ثابت ہوئی تھی۔جب سب دوبارہ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تو شعیب نے ماسٹر خان سے اجازت لیتے ہوئے کہنا شروع کیا۔
’’ دوستو! کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہم نے چار فروری کو کاروائی کیوں شروع کی تھی۔ صرف اس لیے نا کہ اگلے دن پانچ فروری ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ کے موقع پر اپنے کشمیری بھائیوں کو بھی ایک تحفہ نذر کر سکیں لیکن پاکستان پہنچنے پر پاکستانی قوم کی حالت دیکھ کر ہمارے سر شرم سے جھک گئے۔ شاید ہمیں اس لیے شدت سے احساس ہوا کیونکہ ہم دشمن کے خلاف ایک کامیاب کاروائی کرنے کے بعد وطن واپس لوٹے تھے۔
لیکن میری ایک بات یاد رکھنا۔ دشمن آج نہیں تو کل ایک مرتبہ پھر نئے عزم اور بدمعاشی کے ساتھ کھڑا ہوگا لہٰذا ہمیں اس عرصے میں کچھ کر گزرنا ہوگا اس طرح کی مار دھاڑ زیادہ عرصے نہیں چل سکتی ۔ ہمیں قوم کو بیدار کرنا ہوگا۔‘‘
’’ لیکن شعیب بھائی یہ قوم سدھرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔‘‘ عمران نے مکا بنا کر صوفے کے ہتھے پر مارتے ہوئے کہا تو شعیب بولا۔
’’ٹھیک ہے! میں مانتا ہوں کہ اس قوم کے بڑے سدھرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں ہم اس قوم کے بچوں کو تو تیار کرسکتے ہیں جنہیں مستقبل میں اس قوم کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ انہیں تو قرآن کی روشنی ، تعلیم و تربیت، سائنس و ٹیکنالوجی کی مہارت اور قائدانہ صلاحیتوں سے لیس کرسکتے ہیں۔ بولو کرسکتے ہیں ناں؟‘‘
شعیب کے سوال کے جواب میں سب کے چہرے امید کی شمع کے ساتھ اثبات میں ہلنے لگے تو شعیب بولا۔
’’ تو پھر آج میں تم سب کو ایک ایک ٹاسک دے رہا ہوں ۔ اس قوم کو بدلنے کا ٹاسک۔ اس ٹاسک کو لینے کے بعد ہم سب ایک دوسرے سے پانچ سال کے لیے جدا ہو جائیں گے اور ٹھیک پانچ سال بعد اسی جگہ پر اپنی کارگزاری کے ساتھ جمع ہوں گے۔ بولو کیا کہتے ہو؟‘‘
’’ ٹھیک ہے! ہمیں آپ کا دیا ہوا ہر ٹاسک قبول ہوگا۔‘‘ سب نے بیک آواز میں حامی بھرتے ہوئے کہا تو شعیب بولا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے ! زبیر کا ٹاسک یہ ہے کہ پورے پاکستان میں قرآن کی تعلیمات کا ایسا جال بچھائے گا کہ ہر گھر، گلی اور محلہ قرآن کے نور سے مہکے یعنی تربیت بذریعہ قرآن۔
وقاص کا ہدف ملک کے نظام تعلیم کو بدلنا ہوگا یعنی ایسا نظام جس میں بامقصد تعلیم ہو نہ کہ دولت کا حصول۔ جبکہ عمران کو اپنی حیرت انگیز آئی ٹی مہارت کے ذریعے ان پانچ سالوں میں سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایسا نظام وضع کرنا ہوگا جس کے ذریعے ملک کا بچہ بچہ دشمن کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کے ساتھ میدان عمل میں اتر آئے۔اور ثاقب کے لیے اطلاعاتی ٹیکنالوجی اور صحافت کا میدان چیلنج ہوگا اور ہر بچے کو ابھی سے اس کے مقصد زندگی سے روشناس کرانا ثاقب کی ذمہ داری ہوگی۔اور میں نے اپنے لیے ’’لیڈر شپ اسکلز‘‘کے میدان کا انتخاب کیا ہے۔ میں اگلے مہینے سے ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھ رہا ہوں جس کا کام اسلام اور پاکستان کے لیے مستقبل کے اسلامی ہیروز تیار کرنا ہوگا۔بولو ۔۔۔ کیا آپ سب کو اپنے اپنے اہداف قبول ہیں؟ اگر ہاں تو میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر عہد کرو کہ ان مقاصد کے حصول میں اپنا تن من دھن سب لگا دو گے۔‘‘
آخری الفاظ ادا کرتے ہوئے شعیب ایک مرتبہ پھر ہچکیوں کے ساتھ رو پڑا اور پانچوں جانباز ہاتھوں میں ہاتھ دیئے ایک نیا عہد کررہے تھے جب کہ ماسٹر خان خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ آسمان کی طرف رخ کرکے مسکرا رہے تھے ۔ گویا اپنے رب سے ان بچوں کی کامیابی کی دعا مانگ رہے ہوں۔
’’خدایا! ان شاہین بچوں کی حفاظت کرنا۔‘‘
(ختم شد)