skip to Main Content

چاچا صدر دین

میرزا ادیب
۔۔۔۔

ہماری زندگی میں بعض ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں جنہیں ہم بھلانا بھی چاہیں تو نہیں بھلا سکتے اور کبھی نہ کبھی ایسے شخص سے بھی ہماری ملاقات ہو جاتی ہے جو ہمارے دلوں میں اس طرح بس جاتا ہے کہ پھر نکلتا ہی نہیں۔آج میں ایک ایسے ہی شخص کی کہانی سناتا ہوں۔
صدر دین کومیں نے پہلی بار اس وقت دیکھا تھا جب وہ اپنے کاروبار میں خاصا کام یاب تھا۔وہ پیشے کے لحاظ سے ایک موچی تھا۔جوتیاں تیار کرتا تھا اور کسی بڑے دکان دار کے ہاں جاکر بیچ آتا تھا۔اس کی دکان میں ایک تو اس کا سگا بھائی کام کرتا تھا اور ایک شاگرد۔
جوتوں کی کمائی سے صدر دین نے اپنے لیے ایک دو منزلہ مکان بھی خرید لیا تھا اور اس کی دکان اس مکان کے نیچے تھی۔
انسان کے حالات ایک جیسے نہیں رہتے۔جیسا کہ کہا گیا ہے کہ ہر کمال کو زوال ہوتا ہے۔صدر دین کا کاروبار گھٹنے لگا،کیوں کہ بازار میں ہر جگہ بڑی بڑی فرموں کے بنائے ہوئے جوتے بکنے لگے تھے اور لوگ دیسی جوتوں کو چھوڑ کر ان نئے فیشنوں کے جوتے خریدنے لگے۔
صدر دین کا گزارا کسی نہ کسی طرح ہو جاتا تھا۔روکھی سوکھی کھاکر دکان پر بیٹھا رہتا تھا۔ایک مصیبت یہ آئی کہ وہ بیمار ہوگیا۔گھر میں جو کچھ تھا وہ اس کی بیماری پر خرچ ہورہا تھا اور اس کی بیماری تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔
وہ بڑا ہنس مکھ اور ہمدرد قسم کا انسان تھا۔محلے کے ہر شخص کی عزت کرتا تھا اور بچوں سے تو اسے بڑا ہی پیار تھا۔کوئی بچہ اس سے اپنا جوتا بنواتا تھا تو قیمت میں خاص رعایت کرتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ بچے ہر روز اس کا حال پوچھنے کے لیے آجاتے تھے اور دیر تک اس کے پاس بیٹھے رہتے تھے۔
صدر دین کی بیماری آہستہ آہستہ دور ہو گئی۔وہ پوری طرح صحت مند نہ ہو سکا تاہم اب اٹھنے بیٹھنے میں اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی تھی۔
گھر میں کچھ رقم باقی تھی۔وہ اس سے گھر کا خرچ چلانے لگا۔دکان پر بیٹھ کر اس سے دوتین گھنٹوں سے زیادہ کام نہیں ہوپاتا تھا۔
جمعرات اور جمعہ کو وہ دکان پر نہیں بیٹھتا تھا۔کرتا یہ تھا کہ ڈھیر سارے کالے اور میٹھے چنے بازار سے خرید لاتا تھا۔ان کو ایک تھیلے میں ڈال کر اپنی دکان کے سامنے صبح ہی صبح بیٹھ جاتا تھا۔بچے اسے دیکھتے تھے تو”چاچا،چاچا“ کہہ کر بھاگ کر اس کی طرف آجاتے تھے۔وہ مٹھی بھر چنے ہر بچے کی جھولی میں ڈال دیتا تھا۔یوں سارے کے سارے چنے بچوں میں تقسیم ہو جاتے تھے۔
بچے اس سے بہت خوش تھے اور کیوں خوش نہ ہوتے،وہ انہیں ہفتے میں دو دن چنے جو دیتا تھا،مگر بچوں کی خوشی برقرار نہ رہ سکی،کیوں کہ انہوں نے سنا کہ چاچا کے رشتے دار اس کوشش میں ہیں کہ اس کا مکان بیچ دیں اور اسے اوراس کی بیوی کو اپنے گاﺅں لے جائیں۔
چاچا کو اپنے رشتے داروں کی یہ تجویز پسند نہیں تھی، مگر انہوں نے سمجھایا کہ تم بیمار رہتے ہو،کاروبار ختم ہو گیا ہے،کیا کرو گے شہر میں رہ کر۔ مکان بیچ دو۔اچھی رقم مل جائے گی۔اس رقم سے گاﺅں میں زمین خرید لینا اور ٹھیکے پر دے دینا۔چاچا مان گیا۔
بچوں کو بڑی مایوسی ہوئی۔ان کو امید تھی کہ چاچا آخردم تک شہر چھوڑنے کی تجویز نہیں مانے گا،لیکن اب تو وہ مان گیا تھا۔اب کیا ہو سکتا تھا!
بچے ابھی تک پوری طرح مایوس نہیں ہوئے تھے،کیوں کہ چاچا کا مکان بکا نہیں تھا۔وہ جتنی قیمت مانگتا تھا وہ اسے مل نہیں رہی تھی اگرچہ اس کے رشتے دار مکان کو جلد سے جلد بیچنے پر زور دے رہے تھے۔
ایک دن بچوں نے سنا کہ چاچا ایک آدمی کے ہاتھوں مکان فروخت کرنے پر رضامند ہوگیاہے۔گویا سارا معاملہ ختم ہوگیا تھا۔
”اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟“ایک لڑکے نے جس کا نام اکبر تھا،محلے کے لڑکوں کو جمع کرکے پوچھا۔
”اب کیاہوسکتا ہے۔چاچا چلا جائے گا۔“دوسرے لڑکے نے جواب دیا۔
پہلا لڑکا بولا،”یہ تو ٹھیک ہے کہ چاچا چلا جائے گا،پر ہمیں چاہیے کہ اسے اپنی طرف سے کوئی تحفہ دے کر رخصت کریں۔“
”کیا تحفہ دیں؟“ایک لڑکے نے سوال کیا۔
”میں سوچوں گا اور صبح بتاﺅں گا۔“اکبر بولا۔
دوسرے دن صبح کے وقت صدردین ناشتہ کر رہا تھا کہ اکبر نے صدر دین کے دروازے پر دستک دی۔صدردین نے کھڑکی کھول کر نیچے دیکھا۔ اکبر کے ساتھ بہت سارے بچے نظر آرہے تھے۔بچوں کو اپنے گھر کے آگے دیکھ کر صدر دین فوراً نیچے آگیا۔اکبر آگے بڑھا اور اس نے ایک بڑا سا تھیلا اس کے قدموں پر رکھ دیا۔
”یہ کیا ہے؟“صدر دین نے پوچھا۔
”چاچا! یہ کالے اور میٹھے چنے ہیں۔پتا نہیں آپ کا سفر کتنا لمبا ہے۔کھاتے ہوئے جائیے گا۔چاچا!ہم آپ کی کوئی خدمتنہیں کرسکتے۔“
اکبر جب یہ الفاظ کہہ رہا تھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو نکل کر اس کے گالوں پر بہنے لگے تھے ۔باقی بچے بھی بڑے اداس اور چپ چپ کھڑے تھے۔
صدر دین دو تین لمحے خاموش کھڑا رہا۔پھر اس کا ہاتھ آگے بڑھا اور اب یہ ہاتھ اکبر کے سر پر تھا۔چاچا کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے تھے، مگر اس نے آنکھیں بند کرکے آنسوﺅں کو روک لیا تھا۔
لوگ جو ادھر سے گزر رہے تھے وہ بھی یہ منظر دیکھنے لگے۔صدر دین نے زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکالا۔تھیلا اٹھایا اور سیڑھیا ںچڑھنے لگا۔ لڑکے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔شام ہوگئی۔پھر رات کا اندھیرا چھاگیا۔
صبح کے وقت بچے ناشتہ وغیرہ خریدنے کے لیے گھروں سے نکلے تو انہوں نے بڑی حیرت اور خوشی سے دیکھاکہ چاچا ایک کی جگہ دو تھیلے پاس رکھے اپنی دکان کے سامنے بیٹھا ہے اور مسکرا رہا ہے۔
”چاچا! آپ گئے نہیں؟“
”نہیں بیٹا!میں نہیں گیا اور میں کبھی نہیں جاﺅں گا۔“
اور جب یہ لفظ کہہ رہا تھا تو اس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top