skip to Main Content

درویش کی نصیحت

میرزا ادیب
۔۔۔۔۔

وہ ایک اجاڑ جگہ تھی جہاں وہ چلا جا رہا تھا اور عجیب بات یہ تھی کہ تھوڑی دیر چلنے کے بعد وہ ٹھہرجاتا اور حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگتا۔اصل معاملہ یہ تھا کہ وہ راستہ بھول کرنہ جانے کہاں پہنچ گیا تھا۔صبح سویرے وہ اپنے گاﺅں سے نکلا تھا کہ بہن کے گھر جائے اور اس کی بہن کا گھر دو گاﺅں چھوڑ کر تیسرے گاﺅں میں تھا۔وہ اس راستے سے خوب واقف تھا جو اس کی بہن کے گھر کی طرف جاتا تھا۔اس راستے سے وہ بارہا گزرا تھا اور منزل مقصود تک پہنچنے میں اسے کبھی کسی قسم کی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔مزے مزے سے چلا جاتا تھا اور جب سویرے اٹھ جاتا تو عام طور پر پیدل ہی جاتا تھا اور اس روز تو صبح بڑی ٹھنڈ تھی،سردہوا چل رہی تھی۔ایسے میں پیدل چلنا بڑا پر لطف ہوتا ہے اور وہ اسی خیال سے پیدل چل پڑا تھا کہ سفر بھی ہوجائے گا اور سیر بھی۔
وہ اپنی طرف سے ٹھیک راہ پر چلا جا رہا تھا کہ اچانک اسے محسوس ہوا کہ وہ تو ایک ویران مقام پر آگیا ہے جہاں دور دور تک آبادی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔اب دو ہی راستے تھے یا تو وہ پلٹ جائے اور واپس جا کر صحیح راستے پر قدم اٹھائے یا کچھ دور اور چلا جائے ممکن ہے اپنی بہن کے گاﺅں پہنچ جائے۔اس نے دوسرا طریقہ اختیار کیا۔کہیں رکا نہیں آگے ہی آگے چلتا گیا۔
شروع شروع میں اسے بڑی امید تھی کہ کسی آبادی میں پہنچ جائے گا، لیکن وہ جنگل تھا کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آتا تھا۔
”یا اللہ! میںکیا کروں۔کہاں تک چلتا جاﺅں؟“
ایک جگہ رک کر اس نے کہا اور اپنے سامنے دیکھا۔اوپر سورج چمک رہا تھا اور اس کی روشنی میں چھوٹے بڑے ٹیلوں کے سوااور کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔
”آگے جانا فضول ہے۔“اور وہ دائیں طرف مڑگیا اور حوصلے سے کام لے کر تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔
وہ صبح پانچ بجے گھر سے نکلا تھا اور چلتے چلتے گیارہ بج گئے تھے۔مصیبت یہ تھی کہ کہیں کوئی سایہ دار درخت بھی نہیں تھا جس کی چھاﺅں میں بیٹھ کر سستا لیتا۔ادھر ادھر ٹنڈ منڈ درخت کھڑے تھے اور اس کے پاﺅں کے نیچے گرم زمین تھی۔
واپس جانا مناسب نہیں تھا،کیوں کہ وہ کافی فاصلہ طے کر چکا تھا اور گھر سے بہت دور نکل آیا تھا۔
اوپر سورج پوری طرح چمک رہا ہو اور نیچے زمین گرم ہوتو انسان پیاس سے بے تاب ہو جاتا ہے اور یہی حالت اس کی بھی تھی۔وہ چاہتا تھا کہ جلد سے جلد کسی آبادی میں چلا جائے تاکہ پانی پی کر اپنی پیاس تو بجھا لے ورنہ پیاس بڑھتی جائے گی اور اس کے لیے چلنا دوبھر ہوجائے گا۔
اس نئے راستے پر چلتے ہوئے اسے کم از کم ایک گھنٹا ہوگیا تھا اور اب خدا خدا کرکے آبادی نظر آنے لگی تھی۔
اس نے ایک مکان کے دروازے پر دستک دی ۔ایک بار، دو بار، تین بار،دروازہ نہ کھلا۔اس وقت اس نے نیچے دیکھا،”اوہ! یہ تو بند ہے ۔“اور اس مکان کو چھوڑ کر وہ دوسرے مکان کے دروازے پر گیا۔وہاں بھی اس نے تالا ہی دیکھا۔تیسرے مکان کی بھی یہی صورت تھی۔
”یہ کیا ہورہا ہے میرے ساتھ۔“وہ سخت حیرانی کے عالم میں بول اٹھا،اتنا لمبا سفر کرکے یہاں آیا ہوں تو نہ جانے اس گاﺅں کے لوگ اپنے گھروں پر تالے لگا کر کہاں اور کیوں چلے گئے ہیں؟
ایک مکان کا دروزہ کھلا ہوا تھا۔دروازے کے پاس چارپائی کے اوپر ایک آدمی لیٹا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔
”بھائی صاحب! کیا میں اندر آسکتا ہوں؟“اس نے دروزے پررک کر پوچھا۔
”کون ہے؟“وہ آدمی بولا۔
مسافر نے کہا،”جناب! میں ایک مسافر ہوں۔“
اس آدمی نے اس کے لفظ نہیں سنے۔خاموش رہا۔مسافر اور آگے بڑھا،”السلام علیکم جناب!“
”وعلیکم السلام !“اس آدمی نے مسافر کے سلام کا جواب دیا،”کون ہو تم اور یہاں کیسے آگئے ہو؟“
مسافر نے اپنی روداد سنائی۔جب وہ آدمی سب کچھ سن چکا تو بولا:
”مجھے آپ سے بڑی ہمدردی ہے،مگر پانی تو میرے پاس بھی نہیں ہے۔میں بھی تمہاری طرح پیاسا ہوں۔“
مسافر نے پوچھا،”جناب!یہ معاملہ کیا ہے۔میںکئی مکانوں کے دروازوں کو دیکھ کر آیا ہوں۔ہر مکان کے دروازے پر تالا پڑا ہے۔لوگ کہاں چلے گئے ہیں؟“
مسافر کا سوال سن کر وہ آدمی چند لمحے خاموش رہا پھر بولا،”یہ گاﺅں ایک ایسی جگہ واقع ہے کہ جب بھی برسات میں ندی نالے چڑھ جاتے ہیں تو سیلاب ضرور ادھر آتا ہے۔اس مرتبہ بھی سیلاب کے آنے کا خدشہ تھا اس لیے گاﺅں والے قیمتی سامان لے کر اور گھروں کو تالے لگا کر محفوظ مقامات پر چلے گئے ہیں۔خدا کی قدرت اب کے پانی ادھر نہیں آیا، شاید لوگوں کو ابھی تک اس کا علم نہیں ہوایا ہو چکا ہے تووہ واپس آنے کی تیاریاں کر رہے ہوں گے۔“
وہ شخص فقرہ مکمل کرکے خاموش ہوا تو مسافر نے پوچھا،”بھائی صاحب! جب سارے گاﺅں والے چلے گئے تھے تو آپ کیوں یہاں رہے۔ سیلاب میں آپ اپنے گھر کی حفاظت کر سکتے تھے؟“
وہ بولا،”نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔میں بہت بیمار تھا۔دوقدم بھی نہیں چل سکتا تھا۔ہمسایوں نے کہا، ہم تمہیں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔میں نے کہا، نہیں، میں جانا نہیں چاہتا کیوں کہ میرا دل کہتا ہے اب کے سیلاب ادھر نہیں آئے گا۔انہوں نے میری بات کا مذاق اڑایا۔مجھے لے جانے کی بہت کوشش کی، لیکن میں جانے پر آمادہ نہ ہوا۔تو یہ ہے قصہ میرے یہاں پر رہنے کا۔“
دونوں خاموش تھے اور ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
پھر وہ بولا،”صبح صراحی کے اندر کچھ پانی تھا،مجھے پیاس لگی تو پی لیا۔اب اس میں ایک بوند بھی پانی کی نہیں ہوگی۔تمہیں بھی پیاس لگی ہے اور مجھے بھی۔“
”کہیں پانی نہیں ہوگا؟“مسافر نے پوچھا۔
”میںنے کہا نا گاﺅں کے سارے لوگ چلے گئے ہیں۔“
”تو اب کیا ہوگا؟“مسافر پریشان تھا، مگر وہ شخص پریشان نظر نہیں آتا تھا۔
”اللہ رازق ہے۔اسے معلوم ہے کہ اس جگہ اس کے دو بندے پیاسے بیٹھے ہیں۔“
”اور پیاسے ہی بیٹھے رہیں گے؟“
مسافرکے یہ لفظ سن کر وہ شخص بیٹھ گیا اور بولا،”یوں نہیں کہتے،ہمت کرنی چاہیے،برکت دینے والا وہ ہے۔اٹھو، سامنے بڑ کا درخت ہے۔ اس کے نیچے کھڑے ہوکر سامنے دیکھنے کی کوشش کرو۔وہاں ایک جھونپڑی نظر آئے گی۔وہاں چلے جاﺅ۔“
”وہ کیوں؟“ مسافر نے سوال کیا۔
”وہاں ایک درویش رہتا ہے۔جو کبھی اپنی جھونپڑی سے باہر نہیں نکلتا۔اس سے پانی مانگو۔خود پیو۔ مجھے بھی پلاﺅ۔“
مسافر بڑ کے درخت کے نیچے جا کھڑا ہوا۔واقعی کافی دور ایک جھونپڑی نظر آرہی تھی۔وہ ادھر کی طرف روانہ ہوا۔پیاس اور تھکاوٹ سے اس کا برا حال تھاتاہم وہ کہیں رکتا نہیں تھا۔تیزی سے چلا جا رہا تھا۔
جھونپڑی کے دروازے پر ایک بوڑھا آدمی بیٹھا تھا،”جناب! پانی چاہیے۔“مسافر نے بڑے ادب اور احترام سے کہا۔
”کہاں سے آئے ہو؟“ درویش نے پوچھا۔
مسافر نے اسے بتا دیا کہ وہ قریبی گاﺅں کے اس مکان سے آیا ہے جہاں ایک بیمار آدمی پیاسا ہے اور وہ خود بھی پیاسا ہے۔
”بہت اچھا۔“یہ کہہ کر درویش جھونپڑی کے اندر گیا اور پانی سے بھری ہوئی ایک صراحی لے کر آگیا۔
”جاﺅ، لے جاﺅ۔مانگو تو دینے والا دیتا ہے اور دینے والا وہ ہے جو رب العالمین ہے۔“
مسافر نے صراحی اٹھا لی اور چلنے لگا۔پیا س سے اس کے پاﺅں لڑ کھڑا رہے تھے اور اس کا دل چاہتا تھا کہ وہیں بیٹھ کر صراحی سے اپنا منھ لگا لے ، لیکن یہ خیال اس کے ذہن پر چھایا ہوا تھا کہ جس شخص نے درویش کاپتا دیا تھا اور جو بیمار پڑا ہے اس کا حق زیادہ ہے۔وہ پہلے پیئے گا بعد میں ، میںپیوں گا۔
وہ چلتا گیا، یہاں تک کہ مکان سامنے نظر آنے لگا۔وہ جلد سے جلد مکان کے اندر جانا چاہتاتھا۔جلدی چلنے کی کوشش کی تو اس بھاری پتھر کو نہ دیکھ سکا جو اس کے سامنے پڑا تھا۔اس پتھر سے ٹھوکر کھا کر گر پڑا اور صراحی ٹوٹ گئی۔سارا پانی بہہ گیا۔
مسافر کی یہ حالت تھی کہ اب اس سے اٹھا بھی نہیں جاتا تھا۔اس کی ہمت جواب دے گئی تھی۔آنکھوں تلے اندھیرا چھاگیا تھا۔
”اب میں کیا کروں؟اس شخص کے پاس کیسے جاﺅں جو بڑی بے تابی سے پانی کا انتظار کررہاہے۔“لیکن اس کے سواوہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔بڑی بری حالت میں وہ وہاں گیا اور چپ چاپ کھڑا ہوگیا۔
”کیوں۔کیا ہوا؟“اس نے پوچھا۔
مسافر نے جو کچھ واقعہ ہوا تھا بتادیا۔یہ سن کر بھی اس شخص کے چہرے پر ذرا سی گھبراہٹ بھی ظاہر نہ ہوئی۔بڑے اطمینان سے بولا،”فکر کی کوئی بات نہیں،رزق دینے والا جانتاہے کہ اس گھر میں دو پیاسے بیٹھے ہیں۔“
مسافر کو اس کا یہ رویہ پسند نہ آیا۔کیسا آدمی ہے،صراحی ٹوٹ گئی ہے۔پانی سارا بہہ گیا ہے اور اب پیاس بجھانے کی کوئی بھی صورت نہیں اور یہ کہہ رہا ہے کہ رزق دینے والا جانتا ہے کہ یہاں دوپیاسے بیٹھے ہیں۔آخر اب پانی کہاں سے آئے گا۔کون پانی لائے گا؟
مسافر کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ پیاسا ہی مر جائے گا۔اب اس میں چلنے کی ہمت بالکل نہیں تھی۔
وہ شخص بتانے لگا کہ پچھلے برس سیلاب آیا تھا تو کیا ہوا تھا۔پہلے پہل تو اس کی بات مسافر کی سمجھ میں آگئی،مگر پھر اس کا یہ حال ہوا کہ اسے صرف اس آدمی کے ہونٹ ہلتے ہوئے نظرآتے تھے۔الفاظ سمجھ میں نہیں آتے تھے۔پیاس سے اس کا بہت برا حال ہو گیا تھا۔
یکایک ایک بھاری آواز گونجی:
”کیا میں اندر آسکتا ہوں؟“
مسافر نے دروازے کے باہر دیکھا۔وہی درویش جس نے پانی سے بھری ہوئی صراحی مسافر کو دی تھی۔کندھے پر صراحی اٹھائے اور ہاتھ میں رومال کے اندر کوئی لپٹی ہوئی چیز لیے کھڑا تھا۔
”آجائیے حضور!“
وہ درویش اس آدمی کے یہ الفاظ سن کر اندر آگیا۔
”میں نے سوچا،آپ لوگوں کو بھوک بھی لگی ہوگی۔“یہ کہہ کر درویش نے صراحی کے ساتھ روٹیاں بھی چارپائی کے قریب تپائی کے اوپر رکھ دیں۔
مسافر نے اس شخص کی طرف دیکھا،وہ کہہ رہا تھا:
”بھائی صاحب!دیکھا آپ نے۔دینے والا کس طرح دیتا ہے۔وہ رازق ہے۔اپنے بھوکے پیاسے بندوں کو نہیں بھولتا،ہم نے صرف پانی مانگا تھا اس نے روٹی بھی دے دی۔دینے والا ضرور دیتا ہے۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top