skip to Main Content
چیمپین

چیمپین

مبشر علی زیدی

۔۔۔۔۔۔۔

اس دن مجھ پر انکشاف ہواکہ ڈوڈو نے اتنے بہت سے لوگوں کو دوست کیسے بنایا؟

کہانی کو ۱۰۰ لفظوں میں قید کرنے والے مبشر علی زیدی کی آزاد کہانی

۔۔۔۔۔۔۔

ڈوڈو کے بے شمار دوست تھے۔ میرا صرف ایک دوست تھا۔ وہ میرے اسکول میں پڑھتا تھا۔ اس کا نام ڈوڈو تھا۔

پہلے ہم خانیوال میں رہتے تھے۔ میں گورنمنٹ ہائی اسکول کا طالب علم تھا۔ وہاں میرے کئی دوست تھے۔ لیکن بابا کا دوسرے شہر تبادلہ ہوگیا۔ مجھے نئے اسکول میں داخلہ لینا پڑا۔ آٹھویں کا نتیجہ اچھا آیا تھا اس لیے مجھے داخلے کا امتحان نہیں دینا پڑا۔ میرا نام نویں جماعت کے رجسٹر میں لکھ لیا گیا۔

میں نئے اسکول میں کسی کو نہیں جانتا تھا۔ اساتذہ میرے لیے اجنبی تھے۔ میری جماعت میں پچیس بچے تھے۔ میں روزانہ کسی ایک کا نام یاد کرتا تھا۔ وہ ایک بڑا اسکول تھا جس میں کرکٹ، ہاکی اور فٹبال کے میدانوں کے علاوہ انڈور گیمز کا ایک جِم بھی تھا۔ بریک ٹائم اور فری پیریڈ میں بچے وہاں کیرم، ڈرافٹ، بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس کھیلتے تھے۔

ایک دن میں وہاں گیا تو ایک لڑکا ٹیبل ٹینس کی میز سے ٹیک لگائے ریکٹ سے گیند اُچھال رہا تھا۔ مجھے ٹیبل ٹینس کھیلنے کا شوق تھا۔ میں نے اسے چیلنج کیا۔ وہ لڑکا مسکراتے ہوئے کھیلنے کو تیار ہوگیا۔ میں شروع میں محتاط رہا لیکن اسے اناڑی دیکھ کر جارحانہ انداز اختیار کیا۔ میں نے آدھے گھنٹے میں اسے چار گیم ہرادیے۔ وہ ہارتا رہا اور اپنے اناڑی پن پر ہنستا رہا۔ گھنٹا بجا تو ہم ہاتھ ملا کر اپنی اپنی کلاس میں چلے گئے۔ اس دن میں اس کا نام پوچھنا بھول گیا۔

اگلے دن وہ پھر جِم میں موجود تھا۔ معلوم ہوا کہ اس کا نام ڈوڈو ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ نویں جماعت کے آرٹس سیکشن کا طالب علم ہے۔ میں نویں جماعت کے سائنس سیکشن میں پڑھتا تھا۔ خیر اس سے کیا فرق پڑتا۔ ہم نے بریک ٹائم میں تین گیم کھیلے اور میں نے ایک بار پھر اسے باآسانی شکست دی۔ اس نے مجھے چیمپئن کا خطاب دے ڈالا۔

ہم دوست بن گئے۔ ہم ہفتے میں ایک دو دن ٹیبل ٹینس ضرور کھیلتے۔ کبھی میں جم جاتا تو اسے منصور کے ساتھ کھیلتا دیکھتا۔ کبھی اس کا شباہت کے ساتھ مقابلہ ہوتا۔ کبھی واحد کے ساتھ بازی جمتی۔ کبھی کاشف کے ساتھ آزمائش ہوتی۔ ڈوڈو کو کھیلنے کا شوق تو تھا لیکن وہ کبھی کسی سے جیت نہیں پاتا تھا۔

میں نے ایک دن کہا کہ کھلاڑیوں کے بجاے اناڑیوں کے اولمپک گیمز ہوں تو سب سے زیادہ گولڈ میڈلز تمھیں ملیں۔ اس بات پر سب بچے خوب ہنسے۔ ڈوڈو بھی ہنسا۔ میں نے اسے کبھی غصہ کرتے نہیں دیکھا۔ ٹیبل ٹینس کھیلتے ہوئے جب میں پوائنٹ مس کرتا تو جھنجھلا جاتا۔ وہ پوائنٹ مس کرتا تو قہقہہ لگاتا۔ میں سوچتا تھا کہ یہ شخص اناڑی ہونے پر کتنا خوش ہے۔

ڈوڈو سے دوستی ہوئی تو پتا چلا کہ پورا اسکول اور پورا محلہ اس کا دوست ہے۔ وہ اسکول میں داخل ہوتا تو ہر لڑکے سے ہاتھ ملاتا ہوا کلاس تک آتا۔ بریک ٹائم میں دوستوں کی قطار لگ جاتی۔ کبھی اسکول کے باہر اس سے ملاقات ہوتی تو ہر ہم عمر اس کا واقف نظر آتا۔ کبھی کبھی میں سوچتا کہ میرے لیے دوست بنانا کتنا مشکل کام ہے۔ ڈوڈو نے اتنے لوگوں کو کیسے دوست بنالیا؟

ہمارے شہر میں ایک کلب تھا جس میں مختلف کھیلوں کے مقابلے ہوتے رہتے تھے۔ ایک دن اعلان ہوا کہ آئندہ اتوار کو وہاں ٹیبل ٹینس چیمپین شپ ہوگی۔ میں نے اپنے والد کی اجازت سے انٹری فیس دے کر وہاں اپنا نام لکھوادیا۔ بڑوں کے لیے الگ ایونٹ ہونا تھا۔ اسکول کے طالب علموں کے لیے جونئیر چیمپین شپ کا اہتمام کیا گیا تھا۔

اتوار آنے میں کئی دن تھے۔ میں نے سوچا کہ ڈوڈو کو اس بارے میں بتاؤں لیکن پھر یہ سوچ کر چپ رہا کہ اسے کون سا کھیلنا آتا ہے۔ خواہ مخواہ اس کے پیسے ضائع ہوں گے۔ چیمپین شپ میں شرکت کی انٹری فیس پانچ سو روپے تھی۔ جیتنے والے کو دس ہزار روپے کا انعام ملنا تھا۔ میں کئی دن تک خواب میں خود کو چیمپین بنتے دیکھتا رہا۔

اتوار کی سہہ پہر میں کلب پہنچا تو دروازے پر منصور نظر آیا۔

’’تم یہاں کیسے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’میں چیمپین شپ میں حصہ لے رہا ہوں۔‘‘ اس نے سینہ پھلا کر کہا۔

’’اچھا بھئی، دیکھ لیں گے۔‘‘ میں نے منھ چڑایا۔

ہم کلب میں گھسے تو شباہت دکھائی دیا، واحد بھی اور کاشف بھی۔ ہم نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا اور ٹیبل ٹینس کورٹ کا جائزہ لیا۔ کچھ دیر میں کافی کھلاڑی آگئے اور چیمپین شپ شروع ہوگئی۔ دو ٹیبلز پر بڑوں کے مقابلے ہورہے تھے اور ایک ٹیبل پر لڑکوں کے۔ اس دوران مختلف اسکولوں کے بہت سے بچے بھی مقابلے دیکھنے آگئے۔

میرا میچ ابتدا ہی میں تھا۔ کھیل شروع ہوا تو دوستوں نے میرے حق میں نعرے لگانا شروع کردیے۔ میں پوائنٹ اسکور کرتا تو سب شور مچاتے۔ ایک بار میں نے سر اٹھا کے دیکھا تو تماشائیوں میں ڈوڈو بھی بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے انجانی سی خوشی ہوئی کہ ایک دوست صرف مجھے کھیلتا دیکھنے کے لیے کلب آیا ہے۔

میں اچھا کھیلا لیکن میرا حریف کھلاڑی زیادہ اچھا تھا۔ اس نے بیسٹ آف فائیو مقابلہ مجھے تین دو کے فرق سے ہرادیا۔ میں منھ لٹکا کے ڈوڈو کے پاس جابیٹھا۔ ’’کوئی بات نہیں۔ تم نے اچھا مقابلہ کیا۔ کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔‘‘ ڈوڈو نے مجھے دلاسا دیا۔ وہ میرا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے مینگو جوس لے آیا۔

اگلا میچ منصور کا تھا۔ ہم سب دوستوں نے اس کے نام کے نعرے بلند کیے لیکن وہ بھی میری طرح اپنا میچ ہار گیا۔ نعرے کام نہیں آئے، شور مچانے کا فائدہ نہیں ہوا۔ اس کے بعد شباہت کو بھی شکست ہوگئی۔ واحد بھی کامیاب نہ ہوسکا۔ کاشف کو بھی ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا۔

دو چار مقابلوں کے بعد اعلان ہوا کہ اگلا میچ ڈوڈو کا ہے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی کہ اس اناڑی کو چیمپین شپ میں حصہ لینے کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن اس نے ہمارے لیے نعرے لگائے تھے۔ اب ہمارا فرض تھا کہ وہ جیسا بھی کھیلتا، اس کا حوصلہ بڑھاتے۔

ڈوڈو نے کسی ماہر کی طرح ٹیبل ٹینس ریکٹ پکڑا اور سروس کرائی۔ یہ ہمارا والا ڈوڈو نہیں تھا۔ یہ کوئی اور ڈوڈو لگ رہا تھا۔ اس نے پہلا پوائنٹ اسکور کیا، پھر دوسرا پوائنٹ، پھر تیسرا پوائنٹ۔ ہم شور مچانا بھول گئے۔ اس کا حریف جھنجھلاتا رہا، سر جھٹکتا رہا، پیر پٹختا رہا۔ ڈوڈو نے اسے بہت آسانی سے ہرادیا۔

دوسرا میچ وہ ایک گیم ڈراپ کرکے جیتا۔ تیسرے میں ناقابل شکست رہا۔ سیمی فائنل میں بھی اسٹریٹ گیمز سے جیت گیا۔ فائنل میں پہلا گیم ہارا لیکن پھر مسلسل تین گیمز جیت کر ٹرافی کا حق دار ہوگیا۔

ہر طرف غل مچ گیا۔ بہت سے بچے کورٹ میں گھس گئے اور ڈوڈو کو کندھوں پر اُٹھالیا۔ مائیک پر بار بار ڈوڈو کا نام لے کر کامیابی کا اعلان کیا جانے لگا۔

میں ہکابکا اپنی نشست پر بیٹھا رہا۔ میری سمجھ میں نہ آیا کہ اناڑی ڈوڈو چیمپین شپ کیسے جیت گیا۔ مجھے ہوش آیا تو دیکھا کہ میرے ساتھ بیٹھا لڑکا زور زور سے تالیاں بجارہا ہے۔ اس نے ذرا دَم لیا تو میری طرف جھک کر بولا: ’’پتا ہے، ڈوڈو میرا دوست ہے۔ میں نے اسے کئی بار گیم ہرایا ہے۔ آج وہ جیتا ہے تو مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں جیت گیا۔‘‘

میرے منھ سے نکلا: ’’ہاں، وہ میرا بھی دوست ہے۔ میں نے بھی اسے کئی بار گیم ہرایا ہے۔ آج وہ جیتا ہے تو مجھے بھی ایسا لگ رہا ہے جیسے میں جیت گیا۔‘‘

اس دن مجھ پر دو باتوں کا انکشاف ہوا۔ ایک یہ کہ ڈوڈو اناڑی نہیں، ماہر کھلاڑی تھا۔ دوسری یہ کہ ڈوڈو نے اتنے بہت سے لوگوں کو دوست کیسے بنایا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top